صفت الواسع۔ حضرت مسیح موعودؑ کے ذریعہ اسلام کی شان کا دوبارہ ظہور

خطبہ جمعہ 12؍ جون 2009ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:

اللہ تعالیٰ کا اپنے برگزیدوں اور انبیاء سے عجیب سلوک ہوتا ہے۔ وہ چھُپتے ہیں اور خدا کی عبادت میں اپنے آپ کو مصروف رکھنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن خداتعالیٰ انہیں حکم دے کر باہر نکالتا ہے اور اس کا کامل اور اعلیٰ ترین نمونہ آنحضرتﷺ کی ذات تھی۔ آپؐ گوشۂ خلوت میں کئی کئی دن غار حرا میں اپنے مولا کی یاد میں محو رہتے تھے۔ دنیاوی معاملات سے کوئی رغبت نہیں تھی۔ گو کہ دنیاوی اور گھریلو ذمہ داریاں نبھانے میں بھی آپؐ کے برابر کوئی نہیں تھا اور نہ کوئی ہو سکتا ہے۔ لیکن آپؐ کا اوڑھنا بچھونا، کھانا پینا، اللہ تعالیٰ کی محبت میں سرشار رہنا اور عبادت میں مصروف رہنا تھا اور جب اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ غار سے باہر نکلو اور دنیا کو خدائے واحد و یگانہ کی طرف بلاؤ تو آپؐ نے داعی اِلی اللہ ہونے کا بھی ایسا نمونہ قائم فرمایا جس کی کوئی مثال نہیں مل سکتی۔ اور اللہ تعالیٰ کا یہ پیارا جو دعوت الی اللہ کی وجہ سے معتوبِ قوم بھی ٹھہرا اور جس کو بے انتہا ظلموں کا نشانہ بنایا گیا۔ اللہ تعالیٰ کی محبت میں سرشار اور مخلوق خدا کی ہمدردی سے بھرا ہوا کسی بھی مخالفت کی پرواہ نہ کرتے ہوئے ہر لمحہ ایک نئی شان سے اپنے کام میں مگن نظر آرہا تھا اور ایک ایک دو دو کرکے ہر روز آپﷺ کی دعوت کے ذریعہ سے آپؐ کی جماعت میں وسعت پیدا ہو رہی تھی اور آپ کی زندگی میں ہی اسلام کا پیغام عرب سے باہر بھی پھیل گیا۔ اور پھر دنیا نے دیکھا کہ ایشیا، افریقہ اور یورپ تک مسلمان حکومتیں قائم ہو گئیں۔ پھر آنحضرتﷺ کی پیشگوئی کے مطابق ہی اور اللہ تعالیٰ کی تقدیر کے مطابق مسلمانوں کی روحانی حالت میں بے انتہا زوال آیا اور اس روحانی زوال سے بعض جگہ مسلمانوں کی دنیاوی حکومتیں بھی متاثر ہوئیں اور ہاتھ سے جاتی رہیں۔ لیکن جیسا کہ خداتعالیٰ کا وعدہ ہے، اسلام ہی وہ دین ہے جو کامل ہے اور تمام انسانیت کے لئے ہے۔ اس لئے اس حالت نے جو اس وقت تھی پھر سنبھالا لینا تھا اور یہ سنبھالا آنحضرتﷺ کے غلام صادق اور مسیح و مہدی کے ذریعہ سے ہونا تھا تاکہ اسلام ایک نئی شان سے تمام دنیا کے ادیان پر غالب آئے اور دنیا کے وہ کنارے جہاں اسلام کا پیغام نہیں پہنچا تھا وہاں بھی حقیقی اسلام کا پیغام پہنچے۔

اللہ تعالیٰ نے آنحضرتﷺ کے اس مشن کو پورا کرنے کے لئے اور اپنے آخری دین کی تکمیل اشاعت کے لئے حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کو مسیح و مہدی اور آنحضرتﷺ کی کامل پیروی اور اتباع میں غیر شرعی نبی کا اعزاز دے کر دنیا میں بھیجا۔ آپؑ کی ابتدائی زندگی کا ہم جائزہ لیں تو ہمیں آپؑ کی زندگی میں بھی اپنے آقا و مطاع کی زندگی کے ابتدائی دور کی جھلکیاں نظر آتی ہیں اور اس کے بعد بھی ہر لمحہ یہی جھلکیاں نظر آتی ہیں۔ دنیا سے آپؑ کو کوئی سرور کار نہیں تھا۔ اگر کوئی خواہش اور آرزو اور عمل تھا تو یہ کہ خدائے واحد کی عبادت میں مشغول رہوں۔ اپنے آقا و مطاع حضرت محمد مصطفیﷺ کے عشق و محبت میں مخمور رہتے ہوئے آپ پر درود وسلام بھیجتا رہوں اور اس عبادت اور آنحضرتﷺ سے عشق کا نتیجہ تھا کہ آپ کو مسلمانوں کی دینی اور دنیاوی حالت زار بے چین کر دیتی تھی جس کے لئے آپؑ اللہ تعالیٰ کے حضور گڑ گڑاتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کو دنیا میں قائم کرنے کا جوش اور آنحضرتﷺ کے ساتھ یہ عشق و محبت ہی تھا جس کی وجہ سے آپ اسلام کے دفاع کے لئے جہاں قرآن کریم کا گہر امطالعہ فرماتے تھے وہاں دوسرے مذاہب کی کتب کا بھی مطالعہ کرکے قرآن کریم کی برتری ثابت کرنے کی کوشش میں لگے رہتے تھے اور جہاں بھی آپؑ کو موقع ملتا تھا اسلام کی برتری ثابت کرنے کی کوشش میں لگے رہتے تھے۔ اور کوئی نام و نمود اور دنیا دکھاوا آپؑ کی جوانی کے دور میں بھی ہمیں نظر نہیں آتا۔ اس کے غیر بھی گواہ ہیں اور اپنے بھی گواہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ جو عالم الغیب والشہادۃ ہے اس کو تو آپؑ کے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولؐ کے ساتھ عشق و وفا اور دین اسلام کے لئے دِلی دَرد کی کیفیت کا بخوبی علم تھا۔ اس نے آپؑ کو کہا کہ گوشہ تنہائی سے باہر نکلو اور صرف اِکّا دُکّا لوگوں سے اسلام کی برتری کی باتیں نہ کرو۔ صرف اپنے حلقے میں مسلمانوں کی حالت زار بدلنے کی کوشش نہ کرو۔ صرف تحریر سے ہی یہ مسئلہ حل نہیں ہو گا۔ بلکہ دنیا میں یہ اعلان کر دو کہ آنے والا مسیح و مہدی آ چکا اور اللہ تعالیٰ سے اطلاع پا کر مَیں تمہیں بتاتا ہوں کہ وہ مسیح و مہدی مَیں ہوں۔ آپؑ کا یہ اعلان کرنا تھا کہ آپؑ کی مخالفت کا وہ طوفان برپا ہوا جس نے ایک و قت میں قادیان میں آپؑ کے لئے ایسے حالات پیدا کردئیے کہ آپؑ قادیان سے ہجرت کا سوچنے لگے۔ آپؑ کے مریدوں میں سے بعض مخلصین نے اپنے اپنے علاقوں میں آپؑ کو رہنے کی دعوت دی اور آپ کی حفاظت کی ذمّہ داری بھی قبول کی۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ نوبت نہیں آئی۔ کیونکہ خداتعالیٰ نے 1882ء میں جب آپؑ اسلام کے دفاع کے لئے براہین احمدیہ لکھ رہے تھے تویہ تسلّی دلا دی تھی کہ حالات جو ہیں وہ آپؑ کے حق میں ہوں گے۔ عربی الہام کی ایک لمبی عبارت ہے اس کو آپؑ نے براہین احمدیہ میں درج بھی فرمایا ہے۔ اس کا کچھ حصہ جو آپؑ نے اپنی کتاب سراج منیر میں درج فرمایا ہے وہ مَیں پیش کرتا ہوں۔ آپؑ فرماتے ہیں: ’’یہ پیشگوئی براہین کے صفحہ 242میں مرقوم ہے’’اِنِّی رَافِعُکَ اِلَیَّ وَاَلْقَیْتُ عَلَیْکَ مَحَبَّۃً مِّنِّی وََبَشِّرِالَّذِیْنَ اٰ مَنُوْا اَنَّ لَھُمْ قَدَمَ صِدْقٍ عِنْدَ رَبِّھِمْ۔ وَاتْلُ عَلَیْھِمْ مَّا اُوْحِیَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ وَلَا تُصَعِّرلِخَلْقِ اللّٰہِ وَلَا تَسْئَمْ مِّنَ النَّاس۔ (سراج منیر روحانی خزائن جلد 12 صفحہ 73)

ترجمہ: ’’مَیں تجھے اپنی طرف اٹھاؤں گا اور مَیں اپنی طرف سے محبت تیرے پر ڈالوں گا‘‘۔ (یہ ترجمہ حضرت مسیح موعودؑ نے خود فرمایا ہے) ’’یعنی بعد اس کے کہ لوگ دشمنی اور بغض کریں گے یک دفعہ محبت کی طرف لوٹائے جائیں گے جیسا کہ یہ مہدی موعود کے نشانوں میں سے ہے‘‘ اور پھر فرمایا کہ’’جو لوگ تیرے پر ایمان لائیں گے ان کو خوشخبری دے کہ وہ اپنے ربّ کے نزدیک قدم صدق رکھتے ہیں اور جو مَیں تیرے پر وحی نازل کرتا ہوں تو اُن کو سنا۔ خلق اللہ سے منہ مت پھیر اور ان کی ملاقات سے مت تھک۔

اور اس کے بعد الہام ہوا۔ وَ وَسِّعْ مَکَانَکَ یعنی اپنے مکان کو وسیع کر لے۔ اس پیشگوئی میں صاف فرما دیا کہ وہ دن آتا ہے کہ ملاقات کرنے والوں کا بہت ہجوم ہو جائے گا۔ یہاں تک کہ ہر ایک کا تجھ سے ملنا مشکل ہو جائے گا۔ پس تُو اُس وقت ملال ظاہر نہ کرنا اور لوگوں کی ملاقات سے تھک نہ جانا۔ سبحان اللہ یہ کس شان کی پیشگوئی ہے اور … اُس وقت بتلائی گئی ہے کہ جب میری مجلس میں شاید دو تین آدمی آتے ہوں گے اور وہ بھی کبھی کبھی‘‘۔ (سراج منیر روحانی خزائن جلد 12 صفحہ 73)

یہ وَسِّعْ مَکَانَکَ کا الہام اور لوگوں کے آنے کی خوشخبری آپؑ کو اس وقت دی جا رہی ہے جیسا کہ آپؑ نے فرمایا کہ کبھی کبھار دو تین آدمی میری مجلس میں آیا کرتے تھے۔ لیکن آپؑ کی زندگی پر اس سے چند سال پہلے، چار پانچ سال پہلے ہم نظر دوڑا کر دیکھیں تو دنیاوی لحاظ سے آپؑ کی زندگی میں کچھ بھی نہ تھا۔ یہاں تک کہ گزارہ بھی والد صاحب کے ذمہ تھا اور آپؑ کے والد صاحب کہا کرتے تھے کہ کچھ کام کیا کرو۔ کام نہیں کرو گے تو کھاؤ گے کہاں سے۔ شادی ہو گئی تو بیوی بچوں کو کہاں سے کھلاؤ گے۔ لیکن آپؑ نہایت ادب سے والد صاحب کو یہی جواب دیا کرتے تھے کہ جو آپ کہتے ہیں مَیں کر لیتا ہوں لیکن مَیں تو احکم الحاکمین کا نوکر ہو چکا ہوں۔ دنیا داری میں تو میرا دل نہیں لگتا۔ والد صاحب آپؑ کی بات سن کر خاموش ہو جایا کرتے تھے۔ لیکن آپؑ کے لئے ہر وقت فکر مند رہتے تھے۔ انہیں کیا معلوم تھا کہ اس بیٹے کی تمام تر ذمہ داری اللہ اور اس کے رسول سے عشق و محبت کی وجہ سے خداتعالیٰ نے اپنے سپرد کر لی ہوئی ہے۔ یہاں اپنے کھانے یا اپنے بیوی بچوں کے کھلانے کا سوال نہیں ہے۔ وقت آنے پر دنیا وہ نظارہ دیکھے گی کہ جب آپ کے دستر خوان سے ہزاروں لوگ کھانا کھا رہے ہوں گے۔ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے والد کی وفات ہوئی ہے تو وفات ہونے سے پہلے اللہ تعالیٰ نے وفات کی اطلاع آپؑ کو دی۔ تو بشری تقاضے کے تحت آپؑ کو بھی اپنے معاش کی فکر ہوئی جو آپ کے والد صاحب سے وابستہ تھا۔ لیکن جونہی یہ خیال آیا اللہ تعالیٰ نے فوراً الہام کیا کہ اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ یعنی کیا خدا پنے بندے کے لئے کافی نہیں ہے؟حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ یہ الہام ہوتے ہی ’’وہ خیال یوں اُڑ گیا جیسا کہ روشنی کے نکلنے سے تاریکی اڑ جاتی ہے‘‘۔ جیسے روشنی آنے سے اندھیر اغائب ہو جاتا ہے۔ اور آپؑ نے پھر اس الہام کی انگوٹھی بھی تیار کر والی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ’’خدا نے ان کی وفات کے بعد(یعنی والد صاحب کی وفات کے بعد) لاکھوں انسانوں میں مجھے عزت کے ساتھ شہرت دی اور مَیں والد صاحب کے زمانے میں اپنے اقتدار اور اختیار سے کوئی مالی قدرت نہیں رکھتا تھا اور خداتعالیٰ نے ان کے انتقال کے بعد اس سلسلہ کی تائید کے لئے اس قدر میری مدد کی اور کر رہا ہے کہ جماعت کے درویشوں اور غریبوں اور مہمانوں اور حق کے طالبوں کی خوراک کے لئے جو ہر ایک طرف سے صد ہابندگان خدا آ رہے ہیں اور نیز تالیف کے کام کے لئے ہزار ہا روپیہ بہم پہنچایا اور ہمیشہ پہنچاتا ہے‘‘۔ (تریاق القلوب روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 199-198)

پس اللہ تعالیٰ نے نہ صرف اپنے اس الہام کے تحت کہ اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ اپنے کافی ہونے کا ثبوت دیا، اس وعدے کو پورا فرمایا بلکہ وَسِّعْ مَکَانَکَ کا حکم فرما کر خود ہی ہر لحاظ سے اس کی وسعت کے تمام لوازمات اور انتظامات بھی پورے فرمائے اور اس الہام کو آج بھی ہم ایک نئی شان سے پورا ہوتا دیکھ رہے ہیں۔ اور یہ الہام آپ کو صرف ایک مرتبہ نہیں ہوا بلکہ کئی مرتبہ ہوا اور ہر مرتبہ جب آپؑ کویہ الہام ہوا تو اس کی وسعتوں کی شان بھی بڑھتی چلی گئی اور یہی آپؑ نے فرمایا ہے کہ متعدد مرتبہ ہونے کا مطلب ہی یہ تھا کہ وسعتوں کی شان بڑھتی چلی جائے گی۔ اس لئے آپ بھی ہر لحاظ سے اس وسعت کے لئے ظاہری طور پر کوشش کرتے چلے جائیں اور پھر معاملہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑیں اور آپؑ یہی کرتے تھے۔ یہ سچے وعدوں والا خدا ہے۔ اپنے وعدے پورے کرے گا۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو جب یہ الہام ہوا تو یہ دعویٰ مسیحیت سے پہلے کا واقعہ ہے، آپ کے پاس بظاہر دنیاوی لحاظ سے کچھ بھی نہیں تھا۔ لیکن خدائی حکم تھا اس لئے پورا کرنا بھی آپ نے ضروری سمجھا اور آپؑ نے اُسے کس طرح پورافرمایا؟ اس بارہ میں حضرت صاحبزاد ہ مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت میاں عبداللہ سنوری صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایک روایت درج فرمائی ہے۔ پیش کرتا ہوں۔ کہتے ہیں کہ: ’’میاں عبداللہ سنوری صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضورؑ کوجب وَسِّعْ مَکَانَکَ (یعنی اپنے مکان وسیع کر) کا الہام ہوا تو حضورؑ نے مجھ سے فرمایا کہ مکانات بنوانے کے لئے تو ہمارے پاس روپیہ ہے نہیں۔ اس حکم الٰہی کی اس طرح تعمیل کر دیتے ہیں کہ دو تین چھپر(گھاس پھوس کے) بنوا لیتے ہیں۔ چنانچہ حضورؑ نے مجھے اس کام کے واسطے امرتسر، حکیم محمد شریف صاحب کے پاس بھیجا جو حضورؑ کے پرانے دوست تھے اور جن کے پاس حضورؑ اکثر امرتسر میں ٹھہرا کرتے تھے تاکہ مَیں ان کی معرفت چھپر باندھنے والے اور چھپر کا سامان لے آؤں‘‘۔ (چھپر باندھنے کے لئے کوئی خاص آدمی ہوتے تھے) ’’چنانچہ میں جا کر حکیم صاحب کی معرفت امرتسر سے آدمی اور چھپر کا سامان لے آیا اور حضرت صاحب نے اپنے مکان میں تین چھپر تیار کروائے۔ یہ چھپر کئی سال تک رہے پھر ٹوٹ پھوٹ گئے‘‘۔

حضرت میاں بشیر احمد صاحب اس کے آگے لکھتے ہیں کہ’’خاکسار عرض کرتا ہے کہ توسیع مکان سے مراد کثرت مہمانان اور ترقی قادیان بھی ہے‘‘ اور یہ سچ ہے۔ (سیرت المہدی جلد اول حصہ اول صفحہ 131 روایت نمبر 141 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)

تو یہ حالات تھے کہ مکانوں کی وسعت کے لئے رقم نہیں تھی۔ صرف طاقت تھی، توفیق تھی تو چھپر ڈالنے تک کی۔ یہ تو آپؑ کو یقین تھا کہ خداتعالیٰ نے جب الہام کیا ہے تو سامان بھی پیدا فرمائے گا۔ لیکن اپنی طاقت کے مطابق اس الہام کے بعد فوری عمل بھی ضروری تھا۔ اس لئے جو موجود تھا اس سے ظاہری سامان آپؑ نے فوراً کر دیا۔ لیکن یہ الہام کیونکہ آپؑ کو بار بار اور مختلف جگہ پر ہوا ہے اور مختلف مواقع پر ہوا ہے اس لئے ہر مرتبہ یہ الہام ہونے پر آپؑ اس یقین سے بھر جاتے تھے کہ اب ایک نئی شان سے اس الہام کے پورا ہونے کے سامان ہوں گے اور اس کا اظہار آپ نے اپنے ایک اشتہار میں یوں فرمایاہے۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ:

’’ایک عرصہ ہوا مجھے الہام ہوا تھا کہ وَسِّعْ مَکَانَکَ یَاْتُوْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍِّ عَمِیْقٍ یعنی اپنے مکان کو وسیع کر کہ لوگ دُور دُور کی زمین سے تیرے پاس آئیں گے۔ سو پشاور سے مدراس تک تو مَیں نے اس پیشگوئی کو پورا ہوتے دیکھ لیا مگر اس کے بعد دوبارہ پھر یہی الہام ہوا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اب وہ پیشگوئی پھرزیادہ قوت اور کثرت کے ساتھ پوری ہو گی۔ وَاللّٰہُ یَفْعَلُ مَا یَشَآء۔ لَا مَانِعَ لِمَا اَرَادَ۔‘‘ (تذکرہ صفحہ 246۔ ایڈیشن چہارم 2004مطبوعہ ربوہ)

اور پھر 1907ء میں ایک جگہ الہامات کا ذکر فرماتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں، 1907ء کی بات ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرکے فرمایا: ’’لَکُمُ الْبُشْرٰی فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا۔ خیر و نصرت و فتح انشاء اللہ تعالیٰ۔ وَضَعْنَا عَنْکَ وِزْرَکَ الَّذِیْ اَنْقَضَ ظَہْرَکَ وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَک۔ اِنِّیْ مَعَکَ ذَکَرْتُکَ فَاذْکُرْنِیْ۔ وَسِّعْ مَکَانَکَ۔ حَانَ اَنْ تُعَانَ وَتُرْفَعَ بَیْنَ النَّاسِ۔ اِنِّیْ مَعَکَ یَااِبْرَاھِیْمُ۔ اِنِّیْ مَعَکَ وَمَعَ اَھْلِکَ۔ اِنَّکَ مَعِیْ وَاَھْلُکَ۔ اِنِّیْ اَنَا الرَّحْمٰنُ فَانْتَظِرْ۔ قُلْ یأْخُذُکَ اللّٰہ۔ … یعنی تمہارے لئے دنیا اور آخرت میں بشارت ہے۔ تیرا انجام نیک ہے۔ خیر ہے اور نصرت اور فتح انشاء اللہ تعالیٰ۔ ہم تیرا بوجھ اتار دیں گے جس نے تیری کمر توڑ دی اور تیرے ذکر کو اونچا کر دیں گے۔ مَیں تیرے ساتھ ہوں۔ مَیں نے تجھے یاد کیا ہے۔ سو تو مجھے بھی یاد کر اور اپنے مکان کو وسیع کر دے۔ وہ وقت آتا ہے کہ تو مدد دیا جاوے گا اور لوگوں میں تیرا نام عزت اور بلندی سے لیا جائے گا۔ مَیں تیرے ساتھ ہوں اے ابراہیم!۔ مَیں تیرے ساتھ ہوں اور ایسا ہی تیرے اہل کے ساتھ۔ اور تُو میرے ساتھ ہے اور ایسا ہی تیرے اہل۔ مَیں رحمن ہوں میری مدد کا منتظر رہ۔ اور اپنے دشمن کو کہہ دے کہ خدا تجھ سے مواخذہ لے گا۔ (تذکرہ صفحہ 624 ایڈیشن چہارم2004 مطبوعہ ربوہ)

یعنی وفات سے کچھ عرصہ پہلے بھی آپ کو آپ کی کامیابی اور جماعت کی ترقی کی خبر دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے وَسِّعْ مَکَانَکَ کا حکم فرمایا اور جیسا کہ مَیں نے کہا جب اللہ تعالیٰ اپنے پیاروں کو خوشخبری دیتا ہے اور حکم دیتا ہے تو اس کو پورا کرنے کے سامان بھی مہیا فرماتا ہے۔ اور آپ کے الہامات کی صداقت اور اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کے نظارے ہم آج تک دیکھ رہے ہیں۔ کہاں تو آپؑ صرف چھپروں کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ کی بات کو ظاہری رنگ میں پورا فرما رہے ہیں اور پھر وہ وقت بھی آیا جب آپؑ نے اپنی زندگی میں ہی دارالمسیح میں بھی اور قادیان میں بھی مکانیت میں وسعت پیدا کی۔ قادیان میں آنے والے مہمانوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا او ر ان کی رہائش اور کھانے پینے کے انتظامات بھی آپؑ فرماتے رہے۔ اس میں وسعت پیدا ہوتی چلی گئی۔

پھر خلافت اولیٰ اور ثانیہ میں مکانیت میں بھی اور مساجد میں بھی وسعت ہوئی۔ پھر پارٹیشن کے بعد قادیان میں احمدیوں کے لئے حالات کچھ تھوڑے سے خراب ہوئے لیکن دارالمسیح اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وقت کی جو پرانی جگہیں تھیں وہ بہرحال جماعت کے پاس ہی رہیں۔ اور 1991ء میں جب حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے دورہ کیا تو اس دورہ کے بعد وَسِّعْ مَکَانَکَ کا پھر ایک نیا دور شروع ہوا۔ جہاں احمدیوں کے مکانوں میں بھی اور جماعتی عمارات میں بھی خوب اضافہ ہوتا چلا گیا۔

پھر 2005ء میں میرے دورے کے بعد اللہ تعالیٰ نے مزید توفیق عطا فرمائی کہ قادیان میں جماعتی عمارات میں وسعت پیدا ہوئی اور جماعتی مرکزی عمارات کے علاوہ آسٹریلیا، امریکہ، انڈونیشیا، ماریشس وغیرہ نے وہاں اپنے بڑے وسیع گیسٹ ہاؤسز بنائے۔ جماعتی طور پر ایم ٹی اے کی خوبصورت بلڈنگ اور دفتر نشرواشاعت بن گیا۔ کتب کے سٹور بھی اس میں مہیا کئے گئے ہیں۔ بڑے بڑے ہال بنائے گئے ہیں۔ دو منزلہ نمائش ہال بنایا گیا۔ ایک بڑی وسیع تین منزلہ لائبریری بنائی گئی ہے۔ فضل عمر پریس کی تعمیر ہوئی۔ لجنہ ہال بنا۔ ایک تین منزلہ گیسٹ ہاؤس مرکزی طور پر بنایاگیا۔ لنگر خانہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مزید توسیع ہوئی اور نئے بلاک بنے اور اس طرح بے شمار نئی تعمیر اور توسیع ہوئی ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ مسجد اقصیٰ میں توسیع کی گئی ہے۔ جس میں صحن سے پیچھے ہٹ کے تقریباً تین منزلہ جگہ مہیا کی گئی ہے اور اس میں جو نئی جگہ بنی ہے اس میں تقریباً پانچ ہزار نمازی نماز پڑھ سکتے ہیں۔ اس طرح قادیان میں کئی دوسری مساجد کی تعمیر ہوئی اور سب کی تفصیل کا تو بیان نہیں ہو سکتا اور نہ بغیر دیکھے اس وسعت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے جو ان نئی تعمیرات کی وجہ سے وہاں قادیان میں ہو رہی ہے۔ یہ چند تعمیرات جن کا مَیں نے ذکر کیا ہے یہ گزشتہ تین چار سال کے عرصہ میں ہوئی ہیں تو یہ ہے اللہ تعالیٰ کا وعدہ پورا کرنا کہ ہر روز ہم اس الہام کی شان دیکھ رہے ہیں اور نہ صرف قادیان میں بلکہ دنیا میں ہر جگہ حتی کہ پاکستان میں بھی نامساعد حالات کے باوجود اللہ تعالیٰ توفیق دے رہا ہے۔ ہمارے مخالفین سے کس طرح اللہ تعالیٰ نے مواخذہ کرنا ہے یہ تو اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔ لیکن جہاں تک اس کے وَسِّعْ مَکَانَکَ کا سوال ہے اللہ تعالیٰ ہر روز ہمیں ایک شان سے اسے پورا ہوتا دکھا رہا ہے۔

اور پھر پاکستان اور ہندوستان کی بات نہیں ہے۔ قادیان سے اٹھنے والی وہ آواز جس کو اپنے وسائل سے چند کوس تک چند میل تک پہنچنا مشکل نظر آ رہا تھا اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت اور وعدوں کے مطابق تمام دنیا میں پھیل گئی ہے اور نہ صرف آواز پھیل گئی بلکہ دنیا میں وَسِّعْ مَکَانَکَ کے نظارے بھی ہم ہر روز دیکھتے ہیں۔ ہمیں ہر جگہ نظر آ رہے ہیں۔ یہ مسجد جو بیت الفتوح ہے۔ یہ بھی اسی کی ایک کڑی ہے۔ کہاں چھوٹی سی مسجد فضل تھی جس میں زیادہ نمازی جمع ہو جاتے تھے تو مارکی لگانی پڑتی تھی اور اب یہاں سب کھپت ہو جاتی ہے، سارے اسی میں سموئے جاتے ہیں۔ اسی طرح UK میں اور مساجد بن رہی ہیں۔ تو یہ سب وَسِّعْ مَکَانَکَ کے نظارے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اس وقت آنحضرتﷺ کے غلام صادق کو نوازتے ہوئے وَسِّعْ مَکَانَکَ کی پیشگوئی کو ہر جگہ ہمیں پورا ہوتے دکھا رہا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الفاظ یہ ہیں کہ زیادہ قوت اور کثرت کے ساتھ پوری فرما رہا ہے۔ یہی الفاظ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمائے تھے کہ جوں جوں نیا الہام ہوتا ہے یا دوبارہ اللہ تعالیٰ یہ الہام کرتا ہے تو وہ زیادہ قوت اور کثرت کے ساتھ اس کو پورا بھی فرماتا ہے۔

اس وقت اللہ تعالیٰ کے فضل سے دُنیا میں جماعت احمدیہ کی مساجد اور مراکز کی تعداد 14 ہزار 715ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان میں اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے۔ جب ہم اپنی کوشش دیکھتے ہیں تو یہ اضافہ ناممکن نظر آتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے کیونکہ وَسِّعْ مَکَانَکَ کا حکم دیا تو خود ہی اس کے سامان بھی پیدا فرماتا چلا جا رہا ہے۔ کن حالات میں بعض جگہ مساجد اور دوسری تعمیرات ہوئیں۔ اس کے چند واقعات میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔ ہندوستان کا ہی پہلے ذکر کروں گا۔ وہاں کَجھَّن ضلع کانگڑہ میں ایک جگہ ہے۔ جب یہ رپورٹ آئی ہے اس سے تھوڑا عرصہ پہلے وہاں جماعت قائم ہوئی ہے۔ مسلمانوں کی طرف سے مسجد کی تعمیر کی بہت مخالفت ہوئی کہ جماعت یہاں تعمیر نہیں کرے گی۔ بعد میں ہندو بھی ان کے ساتھ مل گئے اور جماعت کے مخالف ہو گئے۔ اس علاقے کا پولیس افسر، ایس ڈی ایم کہتے ہیں وہ ہندو تھا لیکن شریف النفس تھا۔ اس نے احمدیوں کو کہا کہ دن کو کام نہ کریں۔ رات کو کام کریں اور مَیں اپنے آدمی بھجواؤں گا۔ آپ اپنے آدمی ساتھ لگائیں اور مسجد بنا لیں۔ چنانچہ اس طرح راتوں کو کام کرکے مسجد تعمیر ہوئی اور ایک ہال نما کمرہ بنا لیا گیا۔ بعد میں ایک رات میں مسجد کے مینار بھی بنا لئے گئے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ایک غیر مسلم کی مدد سے مسجد کی تعمیر کا کام مکمل کروایا اور مسلمانوں کی اس تعمیر میں روک ڈالنے کی کوئی حیثیت نہیں رہی۔ سو اس طرح بھی خداتعالیٰ اپنی تائید دکھاتا رہا ہے۔

پھر ضلع فتح آباد صوبہ ہریانہ میں مسجد تعمیر ہوئی۔ یہاں بھی نئی جماعت قائم ہوئی ہے۔ جب مقامی جماعت نے مسجد کی تعمیر کی کوشش کی تو یہ لکھتے ہیں کہ مسلمانوں نے مسجد کی تعمیر کی سخت مخالفت کی اور ہندوؤں نے بھی ساتھ دیا۔ اس علاقہ میں خدام نے جلسہ کیا۔ بلڈ ڈونیشن (Blood Donation) کیمپ لگایا۔ ہندوؤں پر اس کا بہت اثر ہوا اور انہوں نے مخالفت چھوڑ دی اور جماعت کے حق میں کھڑے ہو گئے۔ لیکن مسلمانوں نے مخالفت نہیں چھوڑی اور عام مسلمانوں کے خلاف پھر ہندوؤں نے جماعت کی مدد کی اور مسجد تعمیر کی اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہاں مسجد بھی بن گئی اور مشن ہاؤس بھی بن گیا۔

پھر چنائی میں اس سال مسجد ہادی کی تعمیر ہوئی۔ یہاں بھی دو منزلہ مسجد ہے اور ساتھ اس کے رہائشی حصہ بھی ہے اور اس مسجد کی تعمیر پہ تقریباً پچاس لاکھ روپے خرچ ہوئے۔ اور اب جب مَیں انڈیا کے دورہ پر گیا ہوں تو چنائی بھی گیا تھا۔ یہاں اس مسجد کا افتتاح کیا اور اس وجہ سے وہاں ملاّں بہت زیادہ بوکھلائے ہوئے ہیں۔ میرے دورہ کے بعد سے مخالفت بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔ پیچھے ایک خاتون کی قبر کشائی کاجو واقعہ ہوا ہے، مَیں نے پچھلے جمعہ جنازہ پڑھایا تھا، وہ بھی اسی وجہ سے ہوا ہے کہ مولوی سمجھ رہے ہیں کہ یہ تو اب ہر جگہ قبضہ کر لیں گے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اس ذریعہ سے تبلیغ کے راستے بھی کھول دئیے ہیں۔ یہ جو قبر سے لاش باہر نکالنے کا واقعہ ہوا ہے اس کی وجہ سے مسلمانوں میں سے بھی شرفاء کی ایک بڑی تعداد جماعت کا ساتھ دے رہی ہے۔ اسی طرح ایک لوکل ٹی وی چینل نے، غیر احمدی مولویوں کو بلایا اور ہمارے لوگوں کو بھی بلایا اور تقریباً ایک ڈیڑھ گھنٹے کا ایک پروگرام ریکارڈ کیا گیا اور مناظرے کی طرح کی صورت پیدا ہوئی۔ تو یہ پروگرام بھی ابھی انہوں نے ریکارڈ کیا ہے۔ کہتے ہیں ہم ٹی وی پہ دکھائیں گے۔ اس سے بھی انشاء اللہ تعالیٰ اور وسیع راستے کھلیں گے۔ تو اللہ تعالیٰ مخالفت میں بھی رستے کھول رہا ہے۔

پھر بینن کا ایک واقعہ بتا دیتا ہوں۔ مَیں نے پیچھے وہاں دورہ کیا تھا۔ امیر صاحب بینن کہتے ہیں کہ ایک علاقہ میں مسجد بنانی شروع کی تو اس کے بعداس علاقے کے مُلّاں مخالفت میں خوب سر گرم ہو گئے تھے، اکٹھے ہو کر اس گاؤں میں آ نے لگے۔ افریقن ملکوں میں یا ہندوستان وغیرہ میں جہاں جہاں بھی مَیں نے دورے کئے ہیں اس کی وجہ سے اس سال مخالفت بہت بڑھی ہے اور اس کی وجہ سے تبلیغ کے رستے بھی مزید کھلے ہیں۔ تو کہتے ہیں مخالفت میں خوب سرگرم ہو گئے اور اکٹھے ہو کر اس گاؤں میں آنے لگے۔ نومبائعین کو ڈرانے اور دھمکانے لگے اور احمدیت چھوڑنے کو کہا۔ کئی مرتبہ صدر صاحب جماعت سے کہا کہ تم احمدیت سے انکار کر دو اور مسجدنہ بننے دو۔ ہم سے جتنے بھی پیسے لینے ہیں لے لو اور ہم تمہیں مسجد بنا دیتے ہیں۔ مگر ہر مرتبہ اس مخلص احمدی نومبائع نے ان مخالفین کو جواب دے دیا کہ جو کرنا ہے کرو۔ ہم تو مسجد بنائیں گے اور یہ جواب دیتے رہے کہ یہاں جماعت ہی کی مسجد بنے گی اور یہاں اگر کوئی دین پھیلے گا، اگر اسلام کی تبلیغ ہو گی تو جماعت احمدیہ کی طرف سے ہو گی۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا اور تمام مخالفتوں کے باوجودیہ مسجد بن گئی۔

پھر اللہ تعالیٰ غیروں کو احمدیت کی طرف وَسِّعْ مَکَانَکَ کے ذریعہ سے کس طرح مائل کرتا ہے۔ نائیجیریا کے مبلغ انچارج لکھتے ہیں کہ ایگو آئیوو یونیورسٹی کے ایک لیکچرر نے ایم ٹی اے کے ذریعہ مسجد مبارک فرانس کے اختتامی پروگرام کو دیکھا اور ہمارے بکسٹال کے وزٹ کے دوران تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر سرزمین انگلستان اور فرانس میں اس طرح اللہ تعالیٰ کا نام بلند ہو رہا ہے تو یہ بعیدنہیں کہ جماعت احمدیہ کے ذریعہ ایک دن یروشلم اور امریکہ سے ہزاروں دفعہ اللہ کا نام بلند ہوا کرے گا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ جماعت احمدیہ کے ساتھ ہے۔

پھر آئیوری کوسٹ سے ایک واقعہ یہ لکھتے ہیں۔ آبنگرو شہر میں مسجد کی تعمیر کے بعد لوگوں کی احمدیت کی طرف خاص توجہ ہوئی ہے۔ ایک ہفتہ قبل کالج کے پروفیسروِتْرَاابوبکرمشن ہاؤس آئے اور کچھ لٹریچر خرید کر لے گئے۔ مطالعہ کے بعد آئے کہ لٹریچر کے مطالعہ سے پہلے میں نے مسلسل استخارہ کیا کہ اسلام میں بہت سارے فرقے ہیں۔ خدا سے سیدھی راہ کی راہنمائی کے لئے دعا کی تو مجھے خواب میں جماعت احمدیہ کے بارے میں بتایا گیا کہ اس جماعت کو دیکھو۔ مَیں نے آپ لوگوں کے کام کا جائزہ لیاہے۔ مطالعہ کیا ہے۔ للہ تعالیٰ نے میری راہنمائی فرمائی ہے اور پھر انہوں نے احمدیت قبول کر لی۔

تو جیسا کہ مَیں نے کہا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا الہام وَسِّعْ مَکَانَکَ جماعت کے پھیلنے کے ساتھ ساتھ قادیان کی حدود سے نکل کر دنیا میں بھی اپنی صداقت کا نشان دکھا رہا ہے اور جوں جوں اللہ تعالیٰ تبلیغ میں وسعت پیدا کر رہا ہے، تو ں توں مکانیت میں بھی ہر جگہ وسعت پیدا ہوتی چلی جا رہی ہے۔ مکانیت بھی وسعت پذیر ہے۔ بے شمار ایسی مثالیں ہیں، یہ چند مثالیں مَیں نے دی ہیں۔ تبلیغ کے لحاظ سے ایم ٹی اے نے وسعت کے نئے دروازے کھولے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ہی جیسا کہ مَیں نے پہلے بتایا مخالفت بھی بڑھ رہی ہے۔ لیکن یہ بھی اللہ تعالیٰ کے وعدوں کو پورے کرنے کا ایک انداز ہے کہ جہاں افراد جماعت کو انفرادی طور پر یا جماعت کو مالی یا دنیاوی طور پر نقصان پہنچایا گیا یا پہنچائے جانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ وہاں خداتعالیٰ افراد جماعت کو بھی پہلے سے بڑھ کر عطا فرماتا ہے اور جماعت کی ترقی کی بھی نئی سے نئی راہیں کھلتی چلی جاتی ہیں۔ کسی کے مکان کو جلایا گیا تو اللہ تعالیٰ نے اس سے بڑا اور بہتر مکان دے دیا۔ کسی کی دکان کو جلایا گیا تو ایک کی جگہ دودو دکانیں اللہ تعالیٰ نے عطا فرما دیں۔ کاروبار کو تباہ کرنے کی کوشش کی گئی تو اللہ تعالیٰ نے احمدیوں کے لئے، جنہوں نے صبر اور حوصلے سے کام لیا پہلے سے بڑھ کر کاروبار مہیا کر دئیے۔ اگر پاکستان میں ایک مسجد سیل (Seal) کی گئی تو اللہ تعالیٰ نے اس کی جگہ دس بیس مسجدیں عطا فرما دیں۔ پس یہ اللہ تعالیٰ کا سلوک ہے جو ہر جگہ ہمیں نظر آرہا ہے۔ لیکن ساتھ ہی ہماری یہ ذمہ داری بھی ہے کہ اس خدا کے آگے جھکنے والے ہوں اور اس کے حقیقی بندے بنیں جو اپنی نعمتوں سے ہمیں نواز رہا ہے اور ہر دم نوازتا چلا جا رہا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اِنَّکَ مَعِی وَاَھْلُکَ یعنی اور تو میرے ساتھ ہے اور ایسا ہی تیرے اہل بھی۔ (تذکرہ صفحہ 624 ایڈیشن چہارم مطبوعہ ربوہ) تو ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا اہل بننے کے لئے اپنے اعمال کو ان نمونوں پر قائم کرنے کی کوشش کرنی ہو گی جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمارے سامنے قائم فرمائے۔ ورنہ تو اللہ تعالیٰ نے خون کا رشتہ ہونے کے باوجود بھی حضرت نوحؑ کے بیٹے کو ان کے اہل سے نکال دیا تھا۔

اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہمیں اپنے آگے جھکا رہنے والا بنائے رکھے۔

آج کبابیر کی جماعت کا جلسہ سالانہ بھی ہو رہا ہے اور فلسطین اور دوسرے ممالک کے احباب بھی اس میں شامل ہو رہے ہیں۔ کبابیر کے امیر صاحب کی خواہش تھی کہ اس جلسہ کی مناسبت سے ان کا بھی خطبہ میں ذکر کروں یا کچھ مختصرپیغام دوں۔ تو بہرحال مختصر ذکر کروں گا اور ان کے لئے پیغام دوں گا۔ وَسِّعْ مَکَانَکَ کا ذکر چل رہاہے تو کبابیر کی جماعت کا بھی اس ضمن میں ذکر کر دوں کہ یہاں ابتداء میں ہی اللہ تعالیٰ نے ان کو بہت خوبصورت مسجد بنانے کی توفیق عطا فرمائی تھی اور یہ بہت پرانی مسجد ہے اور بہت خوبصورت جگہ پر واقع ہے اور ہر سیاح کو، آنے والے کو یہ اپنی طرف کھینچتی ہے۔ اس کی تصویر یں جو مَیں نے دیکھی ہیں بڑی خوبصورت مسجدنظر آتی ہے اور یہی دیکھنے والے لوگ بتاتے بھی ہیں اور اس ذریعہ سے تبلیغ کے راستے بھی کھل رہے ہیں۔ خلافت جوبلی کے سال میں وہاں کی جماعت نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ اس مسجد کی جو جگہ خالی ہے اس میں ایک وسیع ہال اور دوسری تعمیرات کی جائیں جن کی ضرورت ہے۔ مَیں نے ان کواس کی اجازت تو دے دی تھی لیکن جو منصوبہ انہوں نے بنایا وہ بہت بڑا بنا لیا۔ جو بظاہر لگتا تھا کہ ان کے وسائل سے بہت زیادہ ہے۔ لیکن یہاں پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدے کو پورا فرمایا اور امیر صاحب نے مجھے بتایا کہ معجزانہ طور پر منصوبہ اپنی تکمیل کے مراحل پہ پہنچ رہا ہے۔

پس ہمیشہ یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فضل ہر احمدی کو اللہ تعالیٰ کے آگے مزید شکر گزاری کے جذبات سے بھرتے ہوئے جھکنے والا بنانے والا ہو۔ اللہ تعالیٰ نے ایم ٹی اے العَرَبِیّہ کے ذریعہ دنیائے عرب میں تبلیغ کو بھی بہت زیادہ وسعت دی ہے اور اس میں بھی کبابیر کی جماعت کے افراد کا بہت ہاتھ ہے۔ مختلف طریقوں سے ان کے نوجوان مدد کرتے رہتے ہیں۔ اسی طرح بعض دوسرے عرب ممالک کے احمدی بھی اس میں بڑا اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو جزا دے۔ لیکن ہمیشہ ہر احمدی کو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ آپ کی یہ کوشش اور کامیابیاں آپ کی کسی ذاتی صلاحیت کا نتیجہ نہیں ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی وجہ سے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے وعدوں کی وجہ سے اور آنحضرتﷺ کی آخری زمانے کے امام کے حق میں دعاؤں اور پیشگوئیوں کے پورے ہونے کی وجہ سے ہیں۔ اس لئے تمام وہ احمدی جن کو اللہ تعالیٰ نے اس زمانے کے امام کو ماننے کی توفیق عطا فرمائی ہے، تمام وہ عرب احمدی جنہوں نے اپنے عرب ہونے کو بڑائی کا ذریعہ نہیں بنایا بلکہ امام الزمان کی آواز کو سن کر سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَا کا نمونہ دکھایا ہے یا درکھیں کہ ایک احمدی اور حقیقی مسلمان کا ہر نیا دن اس کے ایمان اور تقویٰ میں ترقی کا دن ہونا چاہئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ ہر دن اگر تمہارے اندر ترقی نہیں ہو رہی تو توجہ کرو اور غور کرو اور جائزے لو اور اس ترقی کے حصول کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ان الفاظ کو ہمیشہ یاد رکھیں کہ ہم نے ڈرتے ڈرتے دن بسر کیا اور تقویٰ سے رات بسر کی۔ اور یہ تقویٰ میں ترقی ہی ہے جو ان جلسوں کا مقصد ہے۔ پس اس عہدکے ساتھ یہاں سے واپس جائیں کہ ہم نے پاک تبدیلیاں اپنے اندر پیدا کرنی ہیں ان کو زندگیوں کا حصہ بنانا ہے اور تقویٰ میں ترقی کرنی ہے۔ اور اس کے حصول کے لئے جلسے کے یہ جو دن ہیں یہاں گزاریں۔ ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ ہماری ترقی تبلیغ کے ساتھ دعاؤں سے اور اللہ تعالیٰ کی مدد سے ہی وابستہ ہے۔ پس دعاؤں کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنا لیں۔ دعاؤں پر زور دیں اور خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کے آگے جھکیں۔ تو آپ کی دعائیں آسمانوں میں ارتعاش پیدا کرکے وہ انقلاب لائیں گی جو اسلام اور مسلمانوں کے ہر مخالف کو حضرت محمد رسول اللہﷺ کے قدموں میں لا ڈالے گی۔

ہمیشہ یاد رکھیں کہ مسیح و مہدی کا زمانہ تیر و تفنگ کا زمانہ نہیں ہے۔ بلکہ دعاؤں سے انقلاب لانے کا زمانہ ہے اور یہی آنحضرتﷺ کے الفاظ یَضَعُ الْحَرْبَ (صحیح بخاری جلد اول صفحہ 490 کتاب احادیث الانبیاء باب نزول عیسی بن مریم۔ مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی) سے ہم پر ثابت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے عربوں کو تبلیغ اور تقریر کا خاص ملکہ عطا فرمایا ہوا ہے اگر اپنے پاک نمونوں اور دعاؤں سے اسے سجاتے ہوئے استعمال میں لائیں گے تو اللہ تعالیٰ کے وسیع تر فضلوں کی بارش اپنے پر برستی دیکھیں گے اور احمدیت یعنی حقیقی اسلام کو عرب دنیا میں پھلتا پھولتا دیکھیں گے۔ پس آج یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم عیسائیوں کی بھی حقیقی نجات کا باعث بنیں اور یہودیوں کو بھی ان کی تاریخ اور تعلیم کے حوالے سے صحیح راستے دکھانے کی کوشش کریں۔ ان کو آنحضرتﷺ کے قدموں میں لانے کی کوشش کرتے ہوئے ان کی بھلائی کے سامان کریں اور دوسرے مذاہب والوں کو اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے راستے دکھائیں اور خداتعالیٰ کو نہ ماننے والوں کو بھی اللہ تعالیٰ کی پکڑ سے بچانے کی کوشش کریں۔ یہ بہت بڑا کام ہے جو دنیا کی اصلاح کے لئے مسیح محمدی کے ماننے والوں کے سپرد کیا گیا ہے۔

پس اے کبابیر! اور فلسطین کے رہنے والے احمدیو! اس وقت عرب دنیا میں تم سب سے منظم جماعت ہو۔ اٹھو اور اس زمانے کے امام کے مدد گار بنتے ہوئے نَحْنُ اَنْصَارُاللّٰہِ کا نعرہ لگاتے ہوئے اس کے پیغام کو ہر طبقہ تک پہنچانے کے لئے کمر بستہ ہو جاؤ۔ آج مسلمانوں کی بھی نجات اسی میں ہے کہ امام الزمان کو مان لیں۔ اگر آج عرب دنیا کے احمدیوں نے اپنی ذمہ داری کو سمجھ لیا تو سمجھ لو کہ جس طرح قرون اولیٰ کے عربوں نے اسلام کے پیغام کو پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا تھا اس زمانہ میں آنحضرتﷺ کے عاشق صادق اور غلام صادق کا پیغام پہنچانے میں اپنا کردار ادا کرکے تم بھی اُن آخرین میں شامل ہو جاؤ گے جو اوّلین سے ملائے گئے۔

اللہ تعالیٰ آپ کو بھی اور مجھے بھی اس ذمہ داری کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اللہ تعالیٰ سب شاملین جلسہ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تمام دعاؤں کا وارث بنائے اور یہ جلسہ بے انتہا برکات سمیٹنے والا ثابت ہو اور ہم جلد تمام دنیا پر حضرت محمد رسول اللہﷺ کے جھنڈے کو لہراتا ہوا دیکھیں۔ آمین

نماز جمعہ کے بعدمَیں بعض جنازے بھی پڑھاؤں گا۔

حضو انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ ثانیہ کے دوران فرمایا۔

جن جنازوں کا مَیں نے ذکر کیا ہے، ایک تو ہے مکرم چوہدری فضل احمد صاحب کا جو صدر انجمن احمدیہ ربوہ پاکستان کے افسر خزانہ تھے۔ 7؍جون کو دل کی تکلیف سے طاہر ہارٹ انسٹیٹیوٹ میں 65 سال کی عمر میں بقضائے الٰہی وفات پا گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ ان کودل کی پرانی تکلیف تھی۔ لیکن اس کے باوجود بڑی مستعدی سے اور بشاشت سے ہمیشہ اپنے کام میں مصروف رہتے تھے۔ وقت پہ دفتر آنا اور پورا وقت گزارنا۔ وفات سے ایک دن پہلے بھی اپنے دفتر میں بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ کو دل کی تکلیف ہوئی اور وہاں سے جب ہسپتال گئے تو ٹیسٹوں کے بعد ڈاکٹر نے وہیں روک لیا اور وہیں اللہ تعالیٰ کی تقدیر غالب آئی اور اپنے مولیٰ کے حضور حاضر ہو گئے۔ یہ 25 سال سے افسر خزانہ تھے۔ اس سے پہلے جب انہوں نے زندگی وقف کی تودفتر پرائیویٹ سیکرٹری ربوہ میں کام کیا۔ مجلس کارپرداز میں بھی کام کیا۔ نائب ناظر بیت المال خرچ بھی رہے۔ بڑی خوش مزاج، مرنجاں مرنج طبیعت کے مالک تھے، کسی کو نہ دکھ دینا۔ کسی کو تکلیف نہیں دینی اور مخلص اور فدائی تھے۔ خلافت سے بڑا تعلق تھا۔ پچھلے سال یہاں جلسے پر بھی آئے تھے۔ بار بار جذباتی ہو جایا کرتے تھے بلکہ ان کی طبیعت کے لحاظ سے ان کا جذباتی ہونا مجھے عجیب لگتا تھا۔ شاید پتہ ہو کہ آئندہ ملاقات نہیں ہو گی۔ بہرحال اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔ ان کی ایک بیٹی ہیں طاہرہ مریم صاحبہ جو جرمنی میں رہتی ہیں سلیم اللہ صاحب کی اہلیہ ہیں۔ دوسرا جنازہ ڈاکٹر عطاء الرحمن صاحب ساہیوال کاہے۔ ان کی وفات 5 جون کو 95 سال کی عمر میں ہوئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ مختلف جگہوں پہ جماعتی خدمات ادا کرتے رہے۔ ساہیوال شہر کے بڑے لمبا عرصہ امیر شہر بھی رہے اور ضلع بھی اور بحیثیت ڈاکٹر بھی بڑے نافع الناس وجود تھے۔ اپنے گاؤں میں ایک فلاحی ہسپتال بھی قائم کیا ہوا تھا۔ اور 2003ء میں اسی وجہ سے ایمنسٹی انٹرنیشنل نے آپ کو Man of the Year کا ایوارڈ بھی دیا تھا۔ تبلیغ کا بھی شوق تھا۔ حکمت سے اپنا یہ فریضہ بھی انجام دیتے تھے۔ ساہیوال کے جو کیس تھے جن میں ہمارے چار احباب کو سزائے موت سنائی گئی یا عمر قید سنائی گئی ان میں بھی یہ بڑی حکمت سے اپنا کردار ادا کرتے رہے۔ نہایت معاملہ فہم اور زیرک تھے۔ علاقہ میں اچھا اثر و رسوخ بھی تھا۔ مخلص تھے۔ دعا گو تھے۔ خلافت کے ساتھ گہرا تعلق تھا۔ ان کے پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ چھ بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں۔ ان کے ایک بیٹے وہاں ہیں باقی تو باہر کینیڈا وغیرہ میں ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے اور ان کے بچوں کو بھی ان کی نیکیوں کو قائم رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔

(الفضل انٹرنیشنل جلد 16 شمارہ 27 مورخہ 3 جولائی تا 9 جولائی 2009ء صفحہ 5 تا صفحہ 9)


  • خطبہ کا مکمل متن
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 12؍ جون 2009ء شہ سرخیاں

    آپؑ کی ابتدائی زندگی میں اپنے آقا و مطاع کی زندگی کی جھلک نظر آتی ہے۔ آپؑ کا عبادت اور نبی کریمؐ پر درود کے باعث لوگوں کی حالت پر رونا۔ قرآن و اسلام کی برتری کی کوششوں میں لگے رہنا۔ الہام وَسِّعْ مَکَانَکَ کا متعدد بار ہونااور اس میں حکمت۔ قادیان میں اس الہام کے مختلف طرح سے پورا ہونے کا ذکر۔ اس الہام کی روشنی میں ساری دنیا میں مساجد کی تعمیر کے حوالہ سے مختلف واقعات کا بیان۔

    فرمودہ مورخہ 12؍جون 2009ء بمطابق12؍احسان 1388 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن (برطانیہ)

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور