جلسہ سالانہ کے کامیاب انعقاد پر اظہار تشکر

خطبہ جمعہ 31؍ جولائی 2009ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:

گزشتہ اتوار کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے جلسہ سالانہ یو کے اپنی تمام تر برکتوں سے نہ صرف یہاں شامل ہونے والوں بلکہ دنیا میں ہر جگہ جہاں بھی احمدیوں نے ایم ٹی اے کے ذریعہ سے اس میں شمولیت کی ان کو سیراب کرتے ہوئے اپنے اختتام کو پہنچا تھا۔ اس بات پر ہم اللہ تعالیٰ کا جتنا بھی شکر ادا کریں کم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام دنیا میں پھیلی ہوئی جماعت ہائے احمدیہ کو ایک امت واحدہ بنایا ہوا ہے اور یہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کا مقصد اور ایک اہم کام تھا۔ اگر آج اس نکتے کو مسلمان سمجھ لیں اور جماعت احمدیہ پر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو دیکھتے ہوئے مسیح محمدی کی بیعت میں آ جائیں تو حضرت محمد رسول اللہﷺ کے حقیقی غلام بن جائیں گے اور مسلمانوں کی طرف اٹھنے والی ہر دشمن آنکھ اور بد اراد ے سے بڑھنے والا ہاتھ اس عافیت کے حصار سے ٹکرا کر نہ صرف بے ضرر ہوجائے گا بلکہ خداتعالیٰ کی پکڑ کے نیچے آ جائے گا۔ ہم تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے 120سال سے بلکہ اس سے بھی زائد عرصہ سے یہ نظارے دیکھ رہے ہیں۔ اگر یہ انسانی سلسلہ ہوتا تو ان دشمنوں اور مخالفین جو تمام تر ظاہری طاقتیں بھی رکھتے ہیں ان کے حملوں سے کب کاختم ہو جاتا۔

ہرسال مَیں جلسہ پر ان فضلوں کا ذکرکرتاہوں جو اللہ تعالیٰ نے دوران سال جماعت پر کئے ہوتے ہیں۔ ان واقعات میں سے جو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے ہوئے ہوتے ہیں چند ایک لیتاہوں او روقت کی کمی کی وجہ سے ان میں سے دس فیصد بھی بیان نہیں کر سکتا۔ بہرحال یہ تو مختلف موقعوں پر یا تحریر میں جماعت کے سامنے وقتاً فوقتاً آتے رہیں گے۔ اس وقت مَیں حسب روایت جلسہ کے حوالہ سے شکر کا ذکر کروں گا۔ جیسا کہ مَیں نے کہا ہم اللہ تعالیٰ کا جتنا بھی شکر ادا کریں کم ہے لیکن یہ شکر تو ہم ان باتوں کا کر سکتے ہیں جو ظاہری ہیں اور جن کا ہمیں پتہ چل جاتا ہے۔ اکثریت کو ان کا احساس ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے بے شمار فضل جلسے کے دنوں میں ایسے ہوتے ہیں جن کا ہمیں پتہ ہی نہیں چل رہاہوتا۔ یا اکثریت کو پتہ نہیں چل رہا ہوتا۔

اللہ تعالیٰ سورۃ النحل کی ایک آیت میں فرماتاہے وَاِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ لَا تُحْصُوْھَا۔ اِنَّ اللّٰہَ لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(النحل: 19) اور اگر تم اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہو تو اسے احاطے میں نہ لا سکو گے۔ یقینا اللہ تعالیٰ بہت بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے۔ پس یہ بات ہمیں اس طرف توجہ دلانے والی ہونی چاہئے کہ ہماری زبانیں اللہ تعالیٰ کے شکر کا اظہار ہمیشہ کرتی چلی جائیں۔ اُن باتوں پر بھی شکر گزاری جو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو ہم نے دیکھا اور اُن باتوں پر بھی شکر گزاری جن کا ہمیں علم نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جلسے کے دنوں میں پہلے دن بارش برسائی تویہ بھی ہمارے فائدے کے لئے تھی، بارش روکی تو وہ بھی ہم پر فضل فرماتے ہوئے۔ ہر قسم کے شر سے ہمیں محفوظ رکھا جن کا ہمیں علم بھی نہیں تھا۔ پھر آج کل اِن ملکوں میں بلکہ پوری دنیا میں جو سوائن فلو (Swine Flu) پھیلا ہوا ہے، انفلوائنزا ہے، بڑی فکر تھی اور خیال تھا کہ جلسے کی وجہ سے جب مختلف جگہوں سے لوگ جمع ہوں گے تو یہ بھی علم نہیں کہ کس کس نے کس کس قسم کے جراثیم اٹھائے ہوئے ہیں اور عام حالات میں بھی جبکہ و بائی یا خطرناک بیماریاں نہ بھی پھیلی ہوں تب بھی ایک دوسرے سے بیماریاں لگ جاتی ہیں۔ بہرحال یہ خیال تھا کہ کیونکہ اس طرح فلو پھیلا ہو اہے توجلسے کے دنوں میں چند فیصد لوگوں کو یہ ضرور متاثر کرے گا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا اور سوائے چند ایک کیسز کے یعنی تین چار جو میرے علم میں آئے ہیں یہ بیماری کسی کو نہیں لگی۔ اور یہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضلوں میں سے ایک بہت بڑا فضل ہے۔ پس سب سے پہلے تو ہم اللہ تعالیٰ کے شکر گزار ہیں اور پہلے سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے ہوئے اس کے فضل کو مانگتے ہیں تاکہ اس کے فضل ہم پر بڑھتے رہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَاِنَّ اللّٰہَ شَاکِرٌ عَلِیْمٌ (البقرۃ: 159) پس یقینا اللہ تعالیٰ بہت قدر دان اور جاننے والا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ کے لئے لفظ شَاکِراستعمال ہوتا ہے تو اس کا مطلب ہے اللہ تعالیٰ قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ اگر ہمارے شکر ہمارے دل کی گہرائیوں سے ادا ہو رہے ہوں گے تو اللہ تعالیٰ پھر ان کی بڑی قدر کرتا ہے اور فرماتا ہے لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّکُمْ (ابراہیم: 8) اگر تم شکر ادا کرو گے تو مَیں تمہیں اور بھی زیادہ دوں گا۔ پس یہ حقیقی شکر گزار ی تب ہو گی جب مستقل مزاجی سے ہم خداتعالیٰ کے شکر گزار بندے بنے رہیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ وہ شَاکِرٌ عَلِیْمٌ ہے۔ وہ قدر دان ہے اور علم بھی رکھتا ہے۔ اُسے علم ہے کہ کون حقیقی شکر ادا کر رہا ہے۔ اسے دھوکہ نہیں دیا جا سکتا۔ پس ہم میں سے ہر ایک کو حقیقی شکر گزار بننا چاہئے اور بننے کی کوشش کرنی چاہئے۔

اب اس مختصر ذکر کے بعد مَیں کارکنان اور کارکنات کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں اور تمام شامل ہونے والوں کو بلکہ دنیا میں کسی جگہ بھی بیٹھ کر جلسہ کی کارروائی سننے والوں کو جو یہاں شامل ہوئے ہیں ان کو بھی اور جو دنیا میں سُن رہے تھے ان کو بھی ان کارکنان اور کارکنات کا شکرگزار ہوناچاہئے۔ کیونکہ والنٹیئرز کا ایک حصہ ایسا ہے جو دنیا میں جلسہ کے تمام پروگرام دکھانے میں ایک اہم کردار ادا کر رہا ہے اور انسانوں کی شکر گزاری کا ہمیں حکم بھی ہے۔ کیونکہ یہ شکر گزاری پھر خداتعالیٰ کی حقیقی شکر گزاری کی طرف لے جاتی ہے۔ ایک حدیث میں آتا ہے، آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ وَمَنْ لَّمْ یَشْکُرِالنَّاسَ لَمْ یَشْکُرِاللّٰہَ کہ جو لوگوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ اللہ تعالیٰ کا بھی شکر گزار نہیں ہوتا۔ یا شکر ادا نہیں کر سکتا۔ (مسند احمد بن حنبل جلد 6بقیۃ حدیث النعمان بن بشیر حدیث نمبر 19565عالم الکتب بیروت 1998ء)

اس دفعہ مجھے اکثر ملنے والوں نے یہی کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے انتظامات گزشتہ سالوں کی نسبت بہت اچھے تھے۔ تمام کارکنان اور کارکنات پہلے سالوں کی نسبت زیادہ مستعداور اچھے اخلاق سے پیش آنے والے تھے۔ ہر شعبے نے اپنے فرائض کو اپنی اپنی استعدادوں کے مطابق احسن رنگ میں ادا کرنے اور مہمانوں کی مہمان نوازی کے لئے اپنی تمام تر طاقتیں صرف کرنے کی کوشش کی۔ اس پر مہمانوں کو بھی بہت زیادہ شکر گزار ہونا چاہئے۔ میں جلسہ گا ہ میں آتے جاتے بعض نوجوانوں اور لڑکوں کے چہرے دیکھاکرتا تھاتو صاف ظاہر ہو رہا ہوتا تھا کہ نیند کی کمی ہے اور تھکاوٹ کی شدت ہے۔ لیکن پھر بھی بڑی مستعدی سے اپنے کام پر کھڑے تھے۔ بلکہ میرے علم میں آیا کہ جلسے کے دنوں میں ایک شعبے کے ناظم اور ناظمہ جو بہن بھائی تھے، وہ بے آرامی کی وجہ سے، مستقل ڈیوٹی کی وجہ سے اور پھر انہوں نے صبح ناشتہ بھی نہیں کیا، کھانا نہیں کھایا یا رات کو کم کھانا کھایا تھا، بہرحال اس کی وجہ سے بیہوش ہو گئے۔ لگتا ہے یہ بہن بھائی ارادہ کر کے آئے تھے کہ کس حد تک ہم اپنے آپ کو مشقت میں ڈال سکتے ہیں تاکہ ایک لمحہ بھی خدمت کا ضائع نہ ہو۔ لیکن یہ غلط چیز ہے۔ اس مشقت کی وجہ سے بیہوش ہوئے اور ڈاکٹری حکم کے مطابق ان کو پھر اس خدمت سے محروم ہونا پڑا اور آخری دن وہ ڈیوٹی نہیں دے سکے۔ تو اس لحاظ سے بھی اپنا خیال رکھنا چاہئے اور انتظامیہ کو بھی جو ان کے ناظمین یا افسران ہوتے ہیں خیال رکھنا چاہئے کہ کچھ نہ کچھ آرام کا وقت بھی دیا کریں اور ان کے کھانے پینے کا بھی خیال رکھا کریں۔ یہ بے لوث خدمت کے جذبوں کی بہت سی مثالیں ہیں جو ہمیں ڈیوٹی کے حوالے سے جلسہ کے دنوں میں نظر آتی ہیں۔ عجیب عجیب روحیں ہیں جو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو عطا فرمائی ہیں۔ ان ڈیوٹی دینے والوں میں ایشین بھی تھے، یہاں کے مقامی انگریز لوگ بھی تھے، یہاں بسنے والے افریقن ممالک سے آئے ہوئے لوگ بھی تھے۔ گویا جس طرح جلسہ سننے والے ملٹی نیشنل تھے، ڈیوٹیاں دینے والے بھی مختلف قومیتوں کے تھے۔ پس یہ ہیں اللہ تعالیٰ کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت پر فضل۔ بچے ہیں تو انہوں نے اپنی ذمہ داری کو جو اُن کے سپرد کی گئی تھی، پانی پلانے کی یا کھانا کھلانے کی یا کسی بھی کام کرنے کی، بڑے احسن رنگ میں ادا کیا۔ بڑے ہیں تو انہوں نے احسن رنگ میں ادا کیا۔ نوجوان ہیں، لڑکیاں ہیں عورتیں ہیں سب نے اپنے اپنے فرائض کو بڑی خوبی سے ادا کیا۔

اس سال حکومتی ادارے کی طرف سے ہیلتھ اینڈ سیفٹی (Health & safety) کی طرف خاص توجہ دینے کے لئے کہا گیا تھا۔ اس کے لئے بھی ایک نیا شعبہ قائم کیا گیا اور مختلف مواقع پر اس شعبے کو اس سے متعلقہ حکومتی نمائندے چیک بھی کرتے رہے۔ انسپیکشن (Inspection) کے لئے آتے رہے۔ کیونکہ ہیلتھ اینڈ سیفٹی جلسہ سالانہ کے ہر شعبہ سے بھی تعلق رکھتی ہے اور جلسہ گاہ سے بھی تعلق رکھتی ہے۔ مہمانوں سے متعلق معاملات بھی ہیں اور کارکنوں سے متعلق بھی۔ اس لئے فکر تھی کہ کہیں کوئی کمی نظر آئی تو ان کو بہانہ مل جائے گا۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر جگہ کے انتظامات ان کے معیار کے مطابق تھے۔

پھر پہلے دن خطبہ میں مَیں نے صفائی کی طرف توجہ دلائی تھی تو مجھے مہمانوں میں سے بعض کے خط آئے کہ آپ نے خطبے میں دروازوں پر پائیدان یا ٹاٹ رکھنے کی طرف توجہ دلائی تھی تاکہ بارش کی وجہ سے جو گند اور کیچڑ وغیرہ ہے اندر نہ جائے۔ جمعہ کے بعد جب مَیں غسل خانے میں گیا ہوں تو وہ بچھے ہوئے تھے اور پھر جہاں کارکنوں نے غسلخانوں میں صفائی کا خیال رکھا ہے مہمانوں نے بھی میرے کہنے کے مطابق اس پر عمل کیا اور غسلخانوں کو استعمال کرنے کے بعد اکثر نے صاف کرنے کی کوشش کی۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو جزا دے۔

یہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضلوں میں سے ایک فضل ہے کہ خلیفہ وقت کی آواز پراحمدیوں کو اطاعت کرنے کی توفیق ملتی ہے اور فوری طور پر عمل کرنے کی طرف توجہ پیدا ہوتی ہے۔

پھر جیسا کہ مَیں نے ذکر کیا سوائن فلو کی وبا پھیلی ہوئی ہے۔ اس کے بچاؤ کے لئے مَیں نے ہو میوپیتھی دوائی استعمال کرنے کا کہا تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس پر پوری طرح عمل ہوا۔ کارکنان نے جو ہومیو پیتھی کے شعبہ کے متعلقہ کارکنان تھے، انہوں نے اسے مہیا کرنے کی پوری کوشش کی اور روزانہ 20-15 کلو دوائی استعمال ہوتی تھی۔ اتنی زیادہ مقدار میں دوائی کو مِکس (Mix) کرنا بھی بہت مشکل کام ہے۔ مجھے یہ تو نہیں پتہ کہ وہ صحیح طرح مِکس (Mix) کرتے رہے اور پھر دیتے رہے کیونکہ لیکوئڈ (Liquid)گولیوں پہ ڈال کے پھر دوائی بنائی جاتی ہے یا صرف میٹھی گولیاں ہی کھلاتے رہے۔ لیکن بہرحال یہ اللہ تعالیٰ نے فضل کیاکہ ان میٹھی گولیوں میں بھی اللہ تعالیٰ نے شفا رکھ دی۔ تو یہ بھی اللہ تعالیٰ کا فضل ہے۔ لجنہ کی طرف سے ایک دفعہ رپورٹ ملی کہ ایک خاتون نے دوائی کھانے سے انکار کیا، شاید اس لئے انکار کیا ہو کہ اس نے میرا خطبہ نہیں سنا تھا یا ہدایات نہیں سنی تھیں۔ تو ڈیوٹی پر مقرر کارکنہ جو تھی اس نے کہا ٹھیک ہے اگر تم خلیفہ وقت کی بات نہیں مانتی تو تمہاری اپنی ذمہ داری ہے۔ اس پر فوراً اس نے ہاتھ بڑھا دیا کہ مجھے دوائی دے دو۔ تو یہ نظارے ہیں اطاعت کے جو احمدیوں میں نظر آتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے یہ بھی چھوٹے چھوٹے انعامات ہیں جو بظاہر چھوٹے لگتے ہیں لیکن بے انتہا انعامات ہیں جن کو ہم گن نہیں سکتے۔

اس سال عورتوں کی مارکی میں بھی عمومی رپورٹ یہی ہے کہ عورتوں نے جلسے کی کارروائی بڑی اچھی طرح سنی۔ کارکنات کو بہت کم خاموش کروانے کے لئے لکھے ہوئے بورڈ سامنے رکھنے پڑے۔ لیکن بہرحال ایک امریکہ سے آئی ہوئی خاتون نے مجھے کہا کہ عورتیں خاموش نہیں تھیں اور جلسہ پوری طرح سنا نہیں گیا۔ شاید کہیں ایک آدھ جگہ تھوڑے وقت کے لئے یہ صورت پیدا ہوئی ہو تو ہوئی ہو۔ لیکن عمومی طور پر یہی رپورٹ ہے کہ بڑی خاموشی سے سنا گیا اور بعض لوگوں کومَیں نے دیکھا ہے کہ ان میں اچھائیاں تلاش کرنے کی بجائے کچھ برائیاں تلاش کرنے کی بھی عادت ہوتی ہے۔ تو یہ خاتون بھی شاید انہی میں سے تھیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے چونکہ میری تسلی کروانی تھی اتفاق سے فوراً ہی امریکہ کی ایک بچی، کالج کی سٹوڈنٹ، جو پہلی دفعہ جلسہ میں شامل ہوئی ہے وہ ملنے کے لئے آ گئی۔ اس سے میں نے پوچھا کہ پہلی دفعہ آئی ہو کیسا لگا جلسہ؟ سنا ہے لجنہ کی مارکی میں شور تھا۔ تو اس نے فوراً کہا بالکل نہیں مَیں مختلف جگہوں پہ جا کے بیٹھتی رہی ہوں اور بڑی توجہ سے تمام عورتوں نے، بچیوں نے جلسہ سنا ہے اور خاص طور پر میری تقاریر کے دوران بڑی خاموشی رہی ہے۔ شور کا توسوال ہی نہیں بلکہ مَیں تو اتنی متاثر ہوئی ہوں کہ بیان نہیں کر سکتی۔ تو جوا عتراض امریکہ سے آیا تھا اس کا توڑ بھی امریکہ سے آ گیا۔ بہرحال عورتیں بھی او رمرد بھی ہمیشہ یاد رکھیں کہ جلسہ کی اصل برکات جلسے کی کارروائی سننے میں ہی ہیں۔ جلسہ کے انتظامات میں جو کمزوری رہی، یہ نہیں مَیں کہتا کہ ان کا ذکر نہیں کرنا چاہئے ان کا ذکر کرنا بھی ضروری ہوتاہے اور کرنا چاہئے تاکہ آئندہ خیال رہے۔ لیکن جو کمزوریاں رہتی ہیں اس میں بھی بعض جگہ میں نے دیکھا ہے مہمانوں کا زیادہ قصور ہوتا ہے۔ جرمنی کا جلسہ بھی آ رہا ہے جس میں کسی حد تکUK کے جلسے کا رنگ ہوتا ہے پھر دنیا میں باقی جگہ بھی جلسے منعقد ہوتے ہیں تو جب مَیں ہدایات دیتا ہوں تو باقی دنیا کو بھی اس کے مطابق عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔

مجھے اس دوران ایک رپورٹ ملی کہ اسلام آباد میں بعض رہائشی خیموں میں جب لوگ جلسے کے لئے گئے ہوئے تھے تو کچھ چوریاں ہوئی ہیں۔ خیموں میں رہنے والے مہمانوں کو خود یہ خیال رکھنا چاہئے تھا کہ قیمتی چیزیں چھوڑ کر نہ جائیں اور اس طرح نہ ہی انتظامیہ کو ابتلاء میں ڈالیں اور نہ اپنے آپ کو۔ یہ ان مہمانوں کا قصور ہے جو باوجود بار بار کے اعلان کے کہ قیمتی چیزوں کو امانات کے دفتر میں رکھوائیں۔ پھر بھی اپنے خیموں میں چھوڑ کے گئے۔ کھلی جگہ چھوڑ کر جانا ویسے ہی لاپرواہی ہے۔ بے شک اگر ہر جگہ اچھا ماحول بھی ہو غلط قسم کے لوگ بھی آ جاتے ہیں اور آتے ہیں۔ اور جبکہ خیمے بھی کھلی جگہ پر ہوں اور ان کے اندر جانا بھی آسان ہو تو سامنے چیزیں پڑی ہوں تو دعوت دینے والی بات ہے۔ اور مَیں سمجھتا ہوں کہ یہ نہ صرف ان کی لاپرواہی ہے بلکہ بے وقوفی ہے جو بے احتیاطی کرکے اپنی قیمتی چیزیں چھوڑ کر چلے گئے۔ یا تو ساتھ لے کر جانی چاہئے تھیں یا جیسا کہ مَیں نے کہا دفتر میں متعلقہ کارکنان کے سپر د کرکے جانی چاہئے تھیں۔ لیکن انتظامیہ کو بھی اپنے انتظام بہتر کرنے چاہئیں۔ یہ افسر جلسہ سالانہ کا کام ہے کہ متعلقہ شعبہ کی طرف سے خیموں میں بھی بار بار اعلان ہو اور دوسرے یہ کہ آپ جہاں بھی خیمہ بستیاں بناتے ہیں، آبادی کرتے ہیں، جہاں ٹینٹ لگاتے ہیں وہاں اس جگہ کو مکمل طورپر فینس (Fence) کرنا چاہئے اور صرف ایک یا دو گیٹس (Gates) ہوں اور وہاں پر بھی ڈیوٹی پر کارکنان موجود ہوں۔ جرمنی میں بھی اس طرح خیمے لگتے ہیں ان کو بھی خیال رکھنا چاہئے۔ ان کا جلسہ بھی قریب آ رہا ہے کیونکہ ایک دوسرے سے جیسا کہ مَیں نے کہا سبق بھی لینا چاہئے اور گیٹوں پہ علاوہ راؤنڈکے سیکیورٹی کا انتظام بھی ہو۔ تو بہرحال یہ ایک زیادہ شکایت تھی جس کا ذکرکرنا ضروری ہے کیونکہ باقی جگہوں پہ بھی ہو سکتی ہے۔

عمومی سیکیورٹی اور ٹریفک وغیرہ کے انتظامات اللہ کے فضل سے بہت اچھے تھے اور آج کل جو دنیا کے حالات ہیں، ہر ملک میں اس بات کا خیال رکھنا چاہئے۔ گزشتہ سال سے پولیس کو بلکہ دو سال پہلے جو شکایات اٹھی تھیں وہ گزشتہ سال سے دورہونی شروع ہو گئی تھیں۔ لیکن اس سال تو پولیس انسپکٹر نے لکھ کر دے دیا ہے اور کہا ہے کہ چاہے آپ اخبارات میں شائع کروا دیں کہ ٹریفک کی بہترین پابندی کی گئی اور بہترین ڈسپلن کا مظاہرہ کیاگیا جو ہمیں کہیں اور دیکھنے میں نظر نہیں آتا۔

ایک غیر از جماعت مہمان نے یہ اظہار کیا کہ گو یہاں مین روڈ پر پولیس والے کھڑے تھے لیکن وہ بھی ٹریفک کنٹرول کرنے کے لئے باہرہی کھڑے تھے جلسہ کے اندر یعنی حدیقۃ المہدی کے اندر نہیں آئے۔ گو اس کی بھی ضرورت نہیں تھی۔ انہوں نے کہاکہ ایسے مجمع میں توبے انتہا پولیس کی ضرورت پڑتی ہے اور پھر بھی کنٹرول نہیں ہوتا۔

آلٹن کے میئر نے بھی یہی کہا ہے کہ جو میرے تحفظات تھے کہ شایددوسری اسلامی تنظیموں کی طرح نہ ہوں سب دُور ہو گئے ہیں اور اب مَیں کھل کر یہ کہتا ہوں کہ آپ سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ بہرحال اللہ تعالیٰ کے فضل سے جو انتظامات کئے گئے ان میں جہاں کارکنوں نے بھرپور جذبے سے کام کیا وہاں مہمانوں نے بھی تعاون کیا۔ خاص طور پر ٹرانسپورٹ کے سلسلے میں، اس سال ٹرین کا بھرپور استعمال ہوا اور یہ پسند بھی کیا گیا اور تقریباً سب نے اس بات کابرملا اظہار کیا کہ ہمیں جلسہ گاہ پہنچنے میں بڑی سہولت رہی اور اپنی کارمیں آنے سے جو ذہنی تناؤ اور کوفت ہوتی ہے اس سے بھی ہم بچے رہے اور ٹریفک جام وغیرہ سے بھی جان چھوٹ گئی۔

ایک بات جس کا اس مرتبہ مہمانوں نے میرے پاس اظہار کیا اور یہ بڑی اچھی بات ہے کہ امیر صاحب اور جلسے کی انتظامیہ کا شکر یہ ادا کرنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ رہائش گاہوں پر بار بار آ کر ہماری ضرورتوں کے بارے میں امیرصاحب بھی پوچھتے رہے اور انتظامیہ بھی پوچھتی رہی اور یہی نمونہ ہے جو ہمیشہ قائم بھی رہنا چاہئے اور دنیا کے باقی ممالک میں بھی انتظامیہ کو دکھانا چاہئے۔

باہر کی دنیا میں بسنے والے احمدی یا بیمار اور مجبور احمدی جو جلسہ میں شامل نہیں ہوسکے ان کے بھی شکریہ کے بے شمار خطوط اور فیکسز آ رہی ہیں کہ ایم ٹی اے کا شکریہ ادا کردیں جنہوں نے ہمارے لئے یہ تمام پروگرام اور عالمی بیعت دیکھنے اور سننے اور شامل ہونے ممکن بنائے۔ عربوں کی طرف سے بھی بے شمار پیغامات آئے ہیں کہ 24گھنٹے جلسے کی کارروائی رہی اور ہمارے ایمانوں میں ایک عجیب روحانی تازگی پیدا ہوتی رہی۔ تمام دنیا ایم ٹی اے کے تمام کارکنان اور کارکنات کا شکریہ ادا کر رہی ہے۔ بہرحال میں اپنی طرف سے بھی تمام کارکنان کام کرنے والے اور کام کرنے والیاں جو ہیں ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے کسی بھی رنگ میں جلسے کے مہمانوں کی خدمت کی اور جلسے کے مہمانوں کا بھی شکریہ کہ انہوں نے بعض کمیوں اور کمزوریوں کو دیکھتے ہوئے بھی صَرفِ نظر کیا۔

ایک حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ مجھے جبرئیل نے بتایا کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے روز مخلوقات کو اٹھائے گا تو اپنے ایک بندے سے پوچھے گا کہ میرے ایک بندے نے تجھ پر احسان کیا۔ کیا تُو نے اس کا شکریہ ادا کیا؟ تو وہ جواباً کہے گا کہ اے میرے ربّ مجھے معلوم تھا کہ یہ تیری طرف سے احسان ہے اس لئے مَیں نے تیرا شکر ادا کیا۔ اس پر اللہ کہے گا کہ تُو نے میرا شکریہ ادا نہیں کیا کیونکہ تُونے اس کا شکریہ ادا نہیں کیا جس کے ہاتھ سے مَیں نے تجھ پر احسان کیا۔ (کنز العمال جلد 3 صفحہ 297 کتاب الاخلاق حدیث نمبر 8621، دار الکتب العلمیۃ بیروت طبع دوم 2004ء)

تو یہ ہے رویّہ جو مومنوں کا ایک دوسرے کے لئے ہونا چاہئے اور یہی رویے ہیں جو ایک لڑی میں پروئے جانے کے نظارے پیش کرتے ہیں۔ اب مَیں بعض مہمانوں کے تاثرات پیش کرنا چاہتا ہوں جو جماعت میں شامل نہیں لیکن جلسے میں شامل ہوئے ہمارے تعلقات کی وجہ سے ان کو موقع ملا۔ اور انتظامات سے بھی بے حد متاثر ہوئے اور جلسے کے ماحول نے بھی ان پر ایک روحانی اثر ڈالا۔ اسی طرح بعض احمدی جو پہلی دفعہ آئے اور جلسے نے ان کی زندگیوں میں انقلاب پیدا کیا ان کے بھی کچھ تأثرات ہیں۔ پہلے تو سویڈن کی کال مارک کاؤنٹی کے صدر ہیں یورپی یونین سے نمائندگی کر رہے ہیں، راجر کیلف۔ انہوں نے وہاں جلسے پہ کچھ بیان بھی کیا تھا، لکھ کر بھی دیا کہ مَیں نے اپنے ملک میں اپنی پارٹی کے لئے دنیا کے بہت سے ملکوں میں کانفرنسوں میں شرکت کی ہے اور آرگنائز بھی کی ہیں اور جلسے بھی اٹینڈ (Attend) کئے ہیں مگر جو پیار اور محبت کی فضا ہر رنگ، نسل اور ملک اور مختلف لباس پہنے ہوئے احباب کے درمیان دیکھی ہے، مجھے اس کی مثال کہیں نظر نہیں آئی۔ اور خاص طور پر لمبے لمبے اجلاس اٹینڈ کرنے کے بعد پنڈال سے باہر آ کر تھکاوٹ کا بالکل احساس نہیں ہوا کیونکہ ہر طرف سے احباب اتنے پیار اور محبت سے ملتے تھے کہ تھکاوٹ کا پتہ ہی نہیں چلتا تھا۔ افریقہ سے آئے ہوئے بادشاہ اور یورپ سے آئے ہوئے پارلیمنٹ کے ممبران اور دوسرے سیاسی لیڈران کو بھی ملنے کا جماعت احمدیہ نے پلیٹ فارم مہیا کیا ہے۔ جو اپنی مثال آپ ہے۔

پھر سویڈن کے ہی ایک بڑے بوڑھے سیاستدان ہیں 75-74 سال ان کی عمر ہے، کہتے ہیں کہ پیار محبت اور ڈسپلن کا جومظاہرہ مَیں نے ان تین دنوں میں اس جلسہ گاہ میں دیکھا ہے وہ بے مثال تھا، ایک ہی آواز پر سب کھڑے ہو جاتے تھے اور ایک ہی آواز پر سب بیٹھ جاتے تھے اور یہ سب صرف ایک شخص کی محبت کی وجہ سے تھا۔ یہ میری زندگی کا پہلا اور واحد اور عجیب تجربہ تھا جس کو مَیں الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا۔ مَیں نے اپنی 74 سالہ زندگی میں جس مسرت اور لذت کا تجربہ یہاں کیا وہ منفرد ہے جو میرے لئے بیان کرنا ممکن نہیں۔ پھر قازقستان کے ایک پروفیسرگنگس کَزَاکْمِتُولِی صاحب ہیں ورلڈ ہسٹری کے پروفیسر ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ جلسہ سالانہ کا یہ اجتماع جماعت احمدیہ کی تعلیمات کی خوبصورتی اور اس کے حسین نظریات کی کامیابی کی گواہی ہے۔ پھر کہتے ہیں کہ جماعت کے نظریات دوسرے مذاہب کا احترام سکھاتے ہیں۔ نیز ایک پُر امن خوشیوں بھری زندگی کی طرف دعوت دیتے ہیں۔ انجا م کار یہ نظریات ہی کامیاب ہوں گے۔ انشاء اللہ۔ اللہ تعالیٰ مسلم جماعت احمدیہ کو تمام نیک مقاصد میں کامیاب کرے۔ ہم پہلی دفعہ یہاں آئے ہیں۔ ہم نے سوچا بھی نہ تھا کہ اس طرح عزت اور احترام کے ساتھ ہمارا استقبال ہو گا۔ جو ہم نے یہاں ان دنوں میں دیکھا ہے اس کی ہم کو توقع نہیں تھی۔

پھر قازقستان کے ہی ایک پروفیسرسرگئی مانا کوف صاحب ہیں وہ لکھتے ہیں کہ جماعت احمدیہ کی تعلیمات سے متعارف ہونے کی طرف پہلا قدم ہے لیکن یہ معلوم ہو چکا ہے کہ جماعت احمدیہ کی تعلیمات انسانی ہمدردی، امن، آشتی اور تمام انبیاء اور مذاہب کے احترام پر مبنی ہیں۔ ایسے لوگوں کے درمیان ہونا ایک اعزاز کی بات ہے کہ جنہوں نے حق کو تلاش کر لیا ہے اور اب ساری دنیا تک پہنچانے کے لئے اس حق کو اپنے ساتھ لئے پھرتے ہیں۔ جلسہ سالانہ میں شمولیت سے یہ بات ظاہر ہوئی ہے کہ جماعت احمدیہ کے لئے سب سے قیمتی اور قابل قدر چیز اللہ کی مخلوق اور اس کی بھلائی ہے۔ یہ بات یہاں آنے والے مختلف ممالک کے نمائندگان سے بات چیت کرنے سے معلوم ہوئی ہے۔ جماعت احمدیہ دنیا بھر میں ضرورتمندوں اور محتاجوں کی خدمت کے لئے سکولز، ہسپتال، لائبریریاں تعمیر کرتی ہے اور یہ بڑی ضروری چیز ہے۔ مَیں نے دیکھا ہے کہ حسن خلق میں جماعت احمدیہ کا ایک امتیازی نشان ہے، جلسہ سالانہ میں مختلف ممالک سے شامل ہونے والے مذہبی و غیر مذہبی لوگ عام ٹورسٹس نہیں ہیں۔ بلکہ حضرت مرزا غلام احمدعلیہ السلام کی تعلیمات کی حقیقت سمجھنے والے اور ان پر عمل کرنے والے ہیں۔ ہمیں اس بات کا اچھی طرح اندازہ ہے کہ جلسے میں شامل ہونے والے ہزاروں مہمانوں کی مہمان نوازی اور ان کی دیکھ بھال ایک بہت مشکل کام ہے۔ ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ بدلے کے طور پر آپ سب اور آپ کے اہل و عیال صرف اور صرف خدا کی رضا اور اس کے فضل کے امیدوا ر ہیں۔ پس یہی ہے جو ہمار ے کارکنان کا طرہ امتیاز ہے اور اس کوہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ ہم مہمان نوازی اس لئے کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کی جائے۔

پھر قازقستان ہی کی ایک عورت نے اپنے جذبات کا اس طرح اظہار کیا کہ: ’’اپنے ساتھ سب کے حسن سلوک کو ہم نے ایسے محسوس کیا کہ جیسے ہم وہ مہمان ہوں جن کا دیر سے انتظار تھااور ہمارے سب کاموں کا بہت خیال رکھاگیا۔ ہم دل کی گہرائیوں سے عالمگیر جماعت احمدیہ کے حق میں اس امر کے لئے دعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ جماعت کو ترقی پر ترقی دیتا چلا جائے اور جماعت کی سچی تعلیمات کا نور دنیا کے ہر ملک، شہر اور انسانی روح کو منور کر دے۔‘‘

پھر جوبینن سے آئے ہوئے تھے ڈاکٹر جان الیگزانڈروزیر مملکت برائے سیاسی امور اور مشیر خاص صدر مملکت کے۔ یہ جب مَیں دورے پہ گیا ہوں تو مجھے وہاں بارڈر پر ریسیو (Recieve)کرنے آئے تھے اس وقت سے ان کی دوستی کا ہاتھ بڑھاہوا ہے اور بڑے وفا سے نبھا رہے ہیں حالانکہ عیسائی ہیں۔ یہ لکھتے ہیں کہ احمدیت ہی حقیقی اسلام ہے اور دنیا میں اسلام کا مستقبل صرف احمدیت ہی ہو سکتی ہے اور احمدیت نے ہمیں اسلام کا ایک نیا چہرہ دکھایا ہے جو اس سے قبل ہم نے کسی مسلمان میں نہیں دیکھا اور یہ دراصل محبت، بھائی چارے، خلوص اور انسانیت کی خدمت کا چہرہ ہے۔ روحانیت کی اعلیٰ اقدار کا حامل چہرہ ہے۔ علم اور روحانیت کا زبردست امتزاج ہے۔ محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں کا ماٹو ہی ہے جس کی عملی تصویر جماعت احمدیہ ہے جو ایک الٰہی مذہب کا مقصد ہوتا ہے اور اسی سے آج ساری دنیا کو سبق حاصل کرنا چاہئے۔ کہتے ہیں کہ جلسہ سالانہ کے بارے میں بتایا گیا تھاکہ 30ہزار لوگ شامل ہوتے ہیں لیکن ہمارے لئے یہ بات ماننے والی نہیں تھی۔ یہاں آ کر اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ سارے انتظامات پُر امن اور پُر سکون ماحول، محبت و خلوص اور ایک دوسرے کے احترام سے پُرہے۔ کہتے ہیں یوں لگتا ہے کہ یہ کوئی اور ہی مخلوق ہو جس کو دنیا کی خود غرضی اور مسائل سے کوئی تعلق نہ ہو۔ یہ تولوگ نہیں فرشتے ہیں جنہوں نے آسمان سے زمین پر آ کے رہنا شروع کر دیا ہے۔ انتظامات میں چھوٹے چھوٹے بچوں کی اس طرح تربیت ہوئی ہے گویا ماؤں کے رحموں سے تربیت پا کرآئے ہیں۔ کاش ہمارے ملک بینن میں بھی ہم ایسے ہو جائیں۔ ہر ایک نے بڑی عزت اور محبت سے ہمارا خیال رکھا ہے۔ ہماری زندگی میں اس کی یادہمیشہ رہے گی۔

تو یہ تربیت ہے جو یقینا احمدی بچوں کی مائیں کرتی ہیں اور اس کو جاری بھی رکھنا چاہئے۔ یہی چیز ہے جو احمدیت کا طرہ امتیاز ہے۔

پھر کہتے ہیں: ایسا بھائی چارے کا ماحول ملا ہے جو بینن میں کبھی نہیں ملا۔ آج بھی دنیا میں ایسے لوگ موجود ہیں جو امن بھائی چارہ چاہتے ہیں کاش دوسرے سب مسلمان احمدیت کو سمجھ لیں۔ پھر کہتے ہیں کہ عالمی بیعت اور آخری روز کا جو میرا خطاب تھا اس نے تو ہماری دنیا بدل دی۔ (حالانکہ ابھی عیسائی ہیں)۔ اللہ کرے کہ یہ اسلام ہم سب کا مقدر بن جائے اور ہماری ہدایت کا موجب بن جائے۔ عالمی بیعت اور بعد ازاں زار و قطار آنسوؤں سے اپنے دلوں کو صاف کرتے اور دھوتے ہوئے لوگوں کو پایا۔ ہمیں یوں لگ رہا تھا کہ اس وقت کوئی خاص آسمانی نزول ہو رہا تھا جس میں ہم لوگ بھی شامل تھے۔

پھر کہتے ہیں کہ ہمیں اس بات کا ہی انتظارہے کہ ہم اپنے ملک جائیں اور لوگوں کو بتا سکیں کہ احمدیت ہی ہے جس کے سائے تلے ہم زندگی گزار سکتے ہیں۔ ایسی زندگی کہ بلاخوف ہو اور دوسری طرف خد اسے ملانے والی ہو۔ پھر کہتے ہیں کہ جب اللہ کے بندے کسی بھی سچائی کو لے کرچلتے ہیں تو مخالفین اس کی راہ میں روک پیدا کرتے ہیں لیکن مَیں اپنے ملک میں جہاں تک ہو سکا کوشش کروں گا کہ جماعت کو کبھی کوئی مسئلہ پیدا نہ ہو۔ پھر بہت ساری باتیں میرے سے کرتے رہے آخر پر مجھے کہنے لگے کہ آپ سمجھیں کہ بینن میں آپ کا ایک بچہ موجود ہے۔

پھرسیرالیون کے ایک جسٹس Abdulai Sheikh Fofanah ہیں انہوں نے لکھا کہ جلسہ بہت شاندار تھااور میرے لئے ہمیشہ ایک مقدس یادگار کے طور پر رہے گا۔ دنیا کے مختلف ممالک سے آئے ہوئے لوگ بھائیوں کی طرح پیار سے رہتے ہیں اکٹھے نمازیں پڑھتے ہیں اور اسلام کی ترقی کے لئے دعا ئیں کرتے ہیں۔ پھر برکینا فاسو کے گورنر تھے بَامْبَارَا اَیْلوَا۔ انہوں نے لکھا کہ خاکسار برکینا فاسو کی نمائندگی میں یہاں آیا ہے اور دلی جذبات جماعت احمدیہ کے سربراہ کی خدمت میں پیش کرتا ہے۔ اس جلسے میں مَیں نے دیکھا کہ بلاشبہ دنیا کی ہر قوم اور ہر نسل موجود ہے لیکن یک رنگ اور سب ہی انسانیت کے علمبردار نظر آتے ہیں۔ آج کا جلسہ کسی بھی قسم کے رنگ و نسل کے فرق سے بالا تر ہو کر ہو رہا ہے۔ یہ جماعت احمدیہ کے ماٹو’’محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں‘‘ کی واضح عکاسی کرتا ہے اور اسی ماٹو سے ساری دنیا کو سبق حاصل کرنا چاہئے۔ جماعت احمدیہ میرے ملک میں تمام تر عزت وو قار کی نظر سے دیکھی جاتی ہے۔ جماعت احمدیہ نے صرف 20سال میں ہی برکینا فاسو کے دور دراز کے علاقوں کے دل جیت لئے ہیں۔ ہم اس بات کو بہت جلد پہچان گئے ہیں کہ یہ جماعت ہی ہے جس میں انسانیت کی خدمت بلا تمیز رنگ و نسل، مذہب ملّت ہے اور صرف روحانی مائدہ ہی نہیں بلکہ جسمانی خدمات بھی پہنچانے میں آپ صف اوّل میں ہیں۔ کہتے ہیں کہ جماعت ہمارے ملک میں تعلیم، پانی، بجلی کی فراہمی کا کام سرانجام دے رہی ہے۔ صدر مملکت نے فیصلہ کیا کہ جماعت کو اس کی خدمات کے اعتراف کے طور پر ملک کا اہم اعزاز ’تمغہ امتیاز‘دیا جائے جو گزشتہ ستمبر جشن آزادی کی تقریب میں جماعت احمدیہ کو دیا گیا تھا۔

پس ہم تو ان سے کسی قسم کا انعام نہیں چاہتے۔ خدمت کرتے ہیں تو خالصتاً اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے اور یہی جذبہ ہے جو ہر کارکن کا ہے اور ہر احمدی کا ہے۔

پھراِبْرَاہِیْم جِیَامَا گرْبَا صاحبہ، خاتون ہیں۔ یہ نیامی کی میئرہیں۔ یہ کہتی ہیں کہ آپ کے ماٹو ’’محبت سب سے نفرت کسی سے نہیں‘‘ نے مجھے بہت متاثر کیا ہے اور میں نے یہاں اس کا عملی نظارہ دیکھا ہے۔ ساری دنیا سے مختلف مذاہب اور رنگ و نسل کے لوگ آئے ہوئے تھے۔ آپ میں سے ہر چھوٹے بڑے مرد عورت نے ہمیں محبت ہی دی ہے اور جس طرح ہمارا خیال رکھا گیا ہے یہ دن ہم ہرگز نہیں بھول سکتے۔

پھر امریکہ کے ایک احمدی ہیں احمدنورالدین صاحب۔ کہتے ہیں کہ پہلی دفعہ یہاں آ کر جو کچھ مَیں نے دیکھا میرے آنسو بہنے لگے اور میں خداتعالیٰ کے احسانوں کو یاد کرکے رونے لگا۔ یقینا وہ وقت قریب ہے میں محسوس کرتا ہوں کہ میں اپنے اس خوشگوار تجربے پر ایک کتاب لکھ سکتا ہوں۔ میرے جذبات ہیں ان کو بیان کرنے کی طاقت نہیں ہے کیونکہ خداتعالیٰ کی رحمتوں اور مہربانیوں کو گننا ایک مشکل امر ہے۔ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ میں روحانی طور پر سیراب ہو کر گھر فلاڈیلفیا امریکہ لوٹ رہا ہوں۔ مَیں اپنے گناہوں سے توبہ کرتا ہوں اور ان کو چھوڑتا ہوں اور نبی کریمﷺ اور آپ کے عظیم خادم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پیغام کو تمام ان لوگوں کو جن تک میں پہنچ سکوں گا پہنچاؤں گا۔

محترمہ صَؤَاد رَزُوْق صاحبہ، بیلجیئم کی مسلمان ممبر پارلیمنٹ ہیں۔ بنیادی طو ر پر یہ مراکو سے تعلق رکھتی ہیں۔ لیکن عرصے سے یہاں آباد ہیں، ممبر پارلیمنٹ بھی ہیں۔ انہوں نے وہاں تقریر بھی کی تھی جلسے پہ پیغام دیا تھا۔ انہوں نے لکھا کہ جلسے میں شامل ہونامیرے لئے یہ پہلا عظیم تجربہ تھا جو مَیں پہلے سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔ پھر جب دعوت تھی اس میں گئی ہیں تو وہاں میری اہلیہ کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھیں تو انہوں نے ان کو تبلیغ کی۔ تبلیغ اس طرح کی کہ آنحضرتﷺ کا مقام حضرت عیسیٰؑ کا مقام اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی آمد، بعثت، احمدی کیا سمجھتے ہیں، ان باتوں پہ آدھا گھنٹہ ان سے گفتگو ہوتی رہی۔ اس کے بعد انہوں نے ہمارے جو مشنری ہیں ان کو ان کا حوالہ دے کر کہا کہ مَیں اُن کے پاس بیٹھی ہوئی تھی اور انہوں نے مجھے اس طرح سمجھایا ہے کہ میرا ذہن اب بالکل تبدیل ہو چکا ہے اور وہاں اس کے بعد کہتی ہیں کہ مَیں مزید جو معلومات ہیں امام مہدی کے بارے میں وہ حاصل کرنا چاہتی ہوں اور رات ڈھائی بجے تک وہ بیٹھی معلومات لیتی رہی ہیں۔ اور انہوں نے میری اہلیہ کا حوالہ دے کر کہاکہ انہوں نے مجھے کچھ ایسا سمجھا دیا کہ اب چین نہیں آ سکتا جب تک مَیں پوری معلومات نہ لے لوں۔ اور پھر کہتی ہیں کہ جماعت احمدیہ کے عقائد و نظریات سے مجھے دوبارہ روحانی زندگی عطا ہوئی ہے اور اب امام مہدی کی آمد کے بعد جماعت احمدیہ کے ذریعہ سے مسلمانوں کا مستقبل روشن نظر آ رہا ہے۔ میں جماعت احمدیہ کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتی ہوں اور اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ مَیں احمدیت قبول کروں تو صرف مَیں اکیلی احمدیت قبول نہیں کروں گی بلکہ میرے ساتھ میرے عزیز و اقارب اور دوست اور کئی تعلق رکھنے والے لوگ بھی شامل ہوں گے۔

اور میرے آخری خطاب کا ذکر کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ آخری حصے میں عرب سے تعلق رکھنے والے احمدیوں سے خطاب کرتے ہوئے جو آپ نے کہا کہ لوگ جاگیں، یہ آپ لوگوں کا فرض ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا پیغام لوگوں تک پہنچائیں اور مکّہ میں جاکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور ان کی جماعت کے لئے بھی دعائیں کریں۔ اس دوران کہتی ہیں مَیں بہت روئی اور میری آنکھوں سے آنسو اُمڈ آئے کیونکہ مَیں عرب قوم سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون ہوں اور ایک دن قبل ہی بیگم صاحبہ نے مجھے ضرورت امام مہدیؑ اور صداقت مسیح موعودؑ کے بارہ میں بتایا۔ مجھے اس لمحے محسوس ہوا (پھر میرا حوالہ دیا) کہ جیسے وہ مجھے خود مخاطب ہیں۔ تو کہتی ہیں کہ میرے دل میں اس وقت یہ احساس بھی پیدا ہوا کہ آپ لوگوں پر دنیا کے کئی ممالک میں بے حد ظلم جاری ہے جو سراسر نا انصافی ہے۔ کہتی ہیں کہ مَیں نے فیصلہ کیا ہے کہ آئندہ سال میں انشاء اللہ جلسہ سالانہ UK میں اکیلی نہیں ہوں گی بلکہ میرے ساتھ پارلیمنٹ کے مزیدممبر بھی شامل ہوں گے۔

تویہ سب اللہ تعالیٰ کے فضل ہیں۔ جلسہ کے موقع پر ایک خاموش تبلیغ ہو رہی ہوتی ہے۔ لوگ خود بھی ماحول سے اثر لے رہے ہوتے ہیں۔ ایک دوسرے سے مل کر بھی اثر لے رہے ہوتے ہیں اور انفرادی طورپر بھی تبلیغ ہو رہی ہوتی ہے۔ ہمارے ڈیوٹی والے خدام بھی ان مواقع سے بھرپورفائدہ اٹھاتے ہیں۔ مجھے پتہ لگا کہ ایک بس کا ڈرائیور ایرانی تھا۔ اس کو ایک خادم نے وفات عیسیٰ اور حضرت مسیح موعودؑ کی آمد کے بارہ میں بتایا۔ تو جلسہ کے موقع پر یہ موقعے بھی ساتھ ساتھ مل رہے ہوتے ہیں اور یہ بھی ایسے اللہ کے فضل ہیں جن کے بعد میں بہترین نتیجے نکلتے ہیں۔ پھر ایک احمدی خاتون ہیں مکرمہ رِیْم شَرِیْقِی اَخْلَفْ صاحبہ، یہ کہتی ہیں پہلی دفعہ مَیں نے شرکت کی اور جو جذبات تھے انہیں دنیا کی کوئی زبان بیان نہیں کر سکتی۔ اس جلسے کی عظمت اور حسن اور تنظیم اور رضاکارانہ ڈیوٹی دینے والوں کا جذبہ دیکھ کر فوراً یہ سوال دل میں اٹھتا تھا کہ دنیا میں کون اتنی منظم شکل میں یہ کام کر سکتا ہے۔ اتنی بڑی تعداد کی ضیافت کون کر سکتا ہے۔ ایک دل پر اتنے ہزاروں ہزار لوگوں کو کون جمع کر سکتا ہے۔ تو اس کا ایک ہی جواب ملتا کہ خدا کا ہاتھ آپ کے اوپر ہے اور وہی دلوں میں محبت اور الفت پیدا کرتا ہے اور وہی کام آسان کرتا ہے۔ کہتی ہیں پہلے مَیں عالمی بیعت ٹی وی پر دیکھتی تھی۔ خود حاضر ہو کر بیعت کرنا تو ایک خواب تھا جو امسال خداتعالیٰ نے پورا کیا۔ (انہوں نے بھی کچھ عرصہ پہلے ہی بیعت کی ہے) جلسہ گاہ میں بیٹھ کر بیعت کرتے وقت لگا کہ گویا میں ایک نئی دنیا میں ہوں۔ شدت جذبات سے دل کی اور ہی حالت ہو رہی تھی۔ بدن پر لرزہ طاری تھا۔ آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ خدا کی رحمت و عفو پر نظر تھی اور د ل میں خوشی کی لہر۔ سجدہ شکر میں تو گویا میں نے خداتعالیٰ کو اپنے سے چند قدم کے فاصلے پر محسوس کیا۔ خداتعالیٰ سے اپنے گناہوں اور تقصیروں کی معافی مانگی۔ ایسے لگا کہ یوم قیامت ہے اور دنیا بہت چھوٹی ہو گئی ہے۔

پھر ایک اور خاتون ہیں مکرمہ عَبِیْر رَضَا حِلْمِی صاحبہ، کہتی ہیں کہ جلسہ کے آخری لمحات میں شدید جذبات غالب رہے اور مَیں کہہ رہی تھی کہ جب مَیں واپس مصر پہنچوں گی تو اہل وطن کو چیخ چیخ کر کہوں گی کہ اے رسول اللہﷺ کی اُمّت! اپنی نیند سے اٹھو۔ تمہارا مہدی آ گیا ہے اور نشان ظاہر ہو گیا ہے۔ پس اس کی تصدیق کے لئے دل سے کوشش کرو۔

پھر ایک خاتون ہیں عزیز اَمَانی عودہ صاحبہ۔ کہتی ہیں کہ مَیں اس دفعہ پہلی دفعہ جلسہ میں شامل ہوئی ہوں۔ یہ دیکھ کرکہ اتنے زیادہ لوگوں کی مہمان نوازی ایک ہی وقت میں اتنے اچھے انتظام کے ساتھ ہو رہی ہے بڑی حیرت ہوتی ہے۔

ربیع مفلح عودہ کہتے ہیں جلسے کی کوریج کے لحاظ سے بہت بہتری تھی۔ میں مہمان نوازی اور حسن سلوک سے بہت متأثر ہوں۔ اور پورے سال اور جلسے کے دوران دل میں اٹھنے والے سوالات کا کافی و شافی جواب جلسے میں مجھے مل گیا۔ یعنی کارروائیوں پروگراموں میں۔ مکرم عبدالرؤوف ابراہیم قزق صاحب کہتے ہیں کہ مَیں نے یہ محسوس کیا کہ یہ جلسہ عربوں کے لئے مخصوص تھا۔ انشاء اللہ دشمنوں کی ڈالی ہوئی تمام روکیں زائل ہو جائیں گی۔ اور انشاء اللہ عرب فوج در فوج جماعت میں داخل ہوں گے۔ گویا کہ ایک بند ٹوٹ گیا ہے۔ مخالفین کا تکبر ٹوٹ جائے گا اور عنقریب حضرت امام مہدی علیہ السلام کا جھنڈا پورے بلاد عربیہ پر لہرانے لگے گا اور عنقریب یُصَلُّوْنَ عَلَیْکَ صُلَحَآءُ الْعَرَبِ وَاَبْدَالُ الشَّامِ (تذکرہ صفحہ 129 ایڈیشن چہارم 2004 مطبوعہ ربوہ) کا الہام بڑی شان سے پورا ہو گا۔

دنیا کے بہت سے ممالک اور خاص طور پر عرب ممالک سے ایسے پیغامات جلسہ کے بعد ملے جن سے لگتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص فضلوں کی بارش برسائی ہے۔ جہاں دنیا ہوا و ہوس میں مبتلا ہے مسیح محمدی کے غلام اپنی روحانیت میں ترقی کے لئے کوشش میں مصروف ہیں اور ایک نئے جذبے سے آگے بڑھتے چلے جا رہے ہیں اور بڑھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ دنیا کے ہر ملک سے یہ پیغامات آ رہے ہیں اور کثرت سے آ رہے ہیں اور جذبات کا اظہار اس شدت سے ہے کہ جسے بیان کرنا ممکن نہیں کم از کم مشکل ضرور ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدے کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ایسی محبت دلوں میں ڈالی ہے جس کی مثال آج دنیا میں کہیں نہیں ملتی اور آپ کے ناطے پھر یہ خلافت سے محبت ہے۔ اللہ تعالیٰ اخلاص اور وفا اور محبت میں ہر احمدی کو بڑھاتا چلا جائے اور اللہ تعالیٰ کے انعامات پرہمارے جذبات تشکر پہلے سے بڑھ کر ظاہر ہوں اور ہماری تمام محبتوں کا مرکز خداتعالیٰ کی ذات بن جائے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔

(الفضل انٹرنیشنل جلد 16 شمارہ نمبر 34 مورخہ 21 اگست تا 27 اگست 2009ء صفحہ 5 تا صفحہ 8)


  • خطبہ کا مکمل متن
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 31؍ جولائی 2009ء شہ سرخیاں

    جلسہ کے دوران اللہ کے فضلوں کے واقعات میں سے چند ایک بیان کیے جاتے ہیں۔ اللہ کے فضلوں کا ذکر اور شکر۔ نیند کی کمی کے باوجودنوجوانوں کا مستعدی سے ڈیوٹی دینا۔ یہ خدا کا خاص فضل کہ احمدی خلیفہ وقت کی اطاعت کرتے ہوئے فوری طور پر عمل کی کوشش کرتے ہیں۔ اس سال عورتوں کی مارکی کی عمومی رپورٹ یہ ہے کہ عورتوں نے بڑے اچھے طریقے سے جلسہ کی کارروائی سنی۔ جلسہ کی اصل برکت جلسہ کی کارروائی سننے میں ہے۔ جلسہ سالانہ کے حوالے سے بعض غیر از جماعت مہمانوں اور احمدیوں کے تبصرے۔

    فرمودہ مورخہ 31؍جولائی 2009ء بمطابق31؍ وفا 1388 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن (برطانیہ)

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور