جماعت احمدیہ جرمنی کے جلسہ سالانہ کا آغاز۔ جلسہ کے مقاصد کا ذکر
خطبہ جمعہ 14؍ اگست 2009ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
الحمد للہ آج جماعت احمدیہ جرمنی کا جلسہ سالانہ میرے اس خطبہ کے ساتھ شروع ہورہا ہے۔ یہ جلسے بھی ایک خاص مقصد لئے ہوئے ہوتے ہیں جس کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی تحریرات اور اشتہارات میں ذکر فرمایا ہے اور وہ باتیں یا مقاصد جن کے لئے آپؑ نے جلسے کا اہتمام فرمایا ان میں سے ایک تو یہ ہے کہ دینی فائدہ اٹھانے کا موقع ملے۔ خداتعالیٰ کی معرفت محض اس کے فضل سے بڑھے اور بڑھانے کی توفیق ملے۔ تیسرے یہ کہ آپس میں محبت، پیار، اخوت اور بھائی چارہ بڑھے اور چوتھے یہ کہ تبلیغی سرگرمیوں کی طرف توجہ پیدا ہو۔
پس آپ میں سے ہر ایک ان مقاصد کو سامنے رکھے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دعاؤں کے طفیل جو روحانی ماحول میسر آیا ہے اور اس ماحول کو پیداکرنے کی کوشش بھی کی جاتی ہے۔ یہاں کے پروگرام ایسے بنائے جاتے ہیں کہ ماحول پیدا ہو۔ پروگراموں میں عبادات کی طرف بھی توجہ دلائی جاتی ہے۔ فرض نمازوں کے ساتھ تہجد کا بھی انتظام ہے تاکہ وہ جن کے لئے انفرادی طور پر تہجد پڑھنا مشکل ہے، اٹھنا مشکل ہے، اجتماعی تہجد سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان تین دنوں میں اس میں شامل ہوں۔ اور اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحمت سے عین ممکن ہے کہ وہ ان دنوں میں سنجیدگی سے دعائیں کریں تو بہت سوں کو پھر تہجد مستقل پڑھنے کی عادت بھی پڑ جائے۔ نوافل کی طرف توجہ پیدا ہو۔ ذکر الٰہی کی طرف توجہ پیدا ہو۔ کیونکہ ایک احمدی سے اس ماحول میں جو جلسے کا ماحول ہے یہ توقع کی جاتی ہے کہ ان دنوں میں جہاں وہ دینی باتیں سن کر دینی علم بہتر کرنے کی کوشش کرے، اپنی دینی اور روحانی حالت کو سنوارتے ہوئے خداتعالیٰ کی معرفت میں بڑھنے کی کوشش کرے۔ اور خداتعالیٰ کی معرفت میں بڑھنے کے لئے عبادات اور ذکر الٰہی بہت اہم ہیں۔ جب یہ ایک کوشش سے کی جائے تو خداتعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرتے ہوئے معرفت الٰہی میں ترقی کا باعث ہوتی ہے۔ پس یہ معرفت الٰہی ہے جو اللہ تعالیٰ کے بندوں کے حقوق کی ادائیگی کی طرف بھی توجہ دلاتی ہے آپس میں محبت و پیار کی فضا بھی پیدا کرتی ہے۔ اس طرف توجہ دلاتی ہے اور ایک تڑپ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے پیغام کو پہنچانے کی طرف بھی توجہ دلاتی ہے اور انسانیت کو اس سے فیضیاب کرنے کے لئے دعاؤں کی طرف بھی مائل کرتی ہے۔ یہ سب کچھ بیشک خداتعالیٰ کے فضل سے ملتا ہے لیکن اس کے حصول کے لئے خداتعالیٰ نے ہمیں کوشش کرنے کی طرف توجہ دلائی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ میں پہل کرتے ہوئے تمہاری حالتوں کو سنواروں گا بلکہ آنحضرتﷺ کے ذریعہ ہمیں خدا تعالیٰ کا یہی پیغام ملا ہے اور قرآن کریم میں بھی کہ تم ایک قدم آؤ میں دو قدم بڑھوں گا۔ تم چل کر آؤ میں دوڑ کر آؤں گا۔ (صحیح مسلم کتاب الذکر و الدعاء و التوبۃ باب فضل الذکر والدعاء والتقریب الی اللہ حدیث 6725)
پس یہ قدم بڑھانے اور چل کر خداتعالیٰ کی طرف جانے کے عمل ہمیں پہلے کرنے ہوں گے۔ پھر اللہ تعالیٰ اپنی وسیع تر رحمت کی وجہ سے ہمارے اٹھنے والے قدموں کی گنتی کو کئی گنا بڑھا دے گا اور ہمارے چلنے کے فاصلوں کو جو اللہ تعالیٰ کے فضل کو حاصل کرنے اور اس کا فضل چاہنے کے لئے طے کئے جارہے ہیں اس طرح کم کردے گا کہ اس دُوری اور بُعد کا احساس ہی ختم ہو جائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے یہی بات آپ کوقرآن کریم میں بھی فرمائی ہے جیسا کہ فرماتا ہے وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا(العنکبوت: 70) یعنی وہ لوگ جو ہم سے ملنے کی کوشش کرتے ہیں ہم ان کی اپنے راستوں کی طرف راہنمائی کریں گے۔ پس یہ ہے خداتعالیٰ کا اپنے بندوں کے لئے پیارا انداز۔ ایک تو اس کے اپنے بندوں پر عمومی انعامات اور احسانات ہیں ربّ ہونے کے ناطے اور رحمن ہونے کے ناطے۔ اور ایک وہ سلوک ہے جو خاص بندوں سے خداتعالیٰ فرماتا ہے اور جب اس سلوک سے حصہ پانے والے اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے والے بن جاتے ہیں تو وہ انہیں اپنے فضلوں سے نوازتا چلا جاتا ہے اور اپنے انعامات کی بارش ان پر برساتا چلا جاتا ہے۔
پس ہم میں سے ہر ایک کو یہ کوشش کرنی چاہئے کہ جب ہم یہاں اپنے دنیاوی دھندے چھوڑ کر جمع ہوتے ہیں، کاروباروں کو چھوڑ کر جمع ہوتے ہیں، ملازمتوں سے رخصتیں لے کر جمع ہوتے ہیں تو پھر خالص ہو کر اس مقصد کے حصول کے لئے کوشش کرنے والے بن جائیں ورنہ ہمارا اس جلسے میں آنا محض دنیاوی اغراض کے لئے ہوگا اور اس بات سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے سخت کراہت فرمائی ہے اور ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا ہے اور جیسا کہ مَیں نے بتایا آپ کا مقصد تو ہمیں معرفت الٰہی میں ترقی دلوانا تھا۔ اپنی جماعت کے افراد کو ان معیاروں کی طرف راہنمائی کرنا اور لے جانا تھا جن کے نمونے آنحضرتﷺ کے صحابہؓ نے ہمارے سامنے قائم فرمائے۔
آپؑ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ: ’’بموجب تعلیم قرآن شریف ہمیں یہ امر یوں معلوم ہوتا ہے کہ ایک طرف تو اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں اپنے کرم، رحم، لطف اور مہربانیوں کے صفات بیان کرتا ہے اور رحمن ہونا ظاہر کرتاہے اور دوسری طرف فرماتا ہے کہ اَنْ لَیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰی(النجم: 40) اور وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا (العنکبوت: 70) فرما کر اپنے فیض کو سعی اور مجاہدے پر منحصر فرماتا ہے۔ نیز اس میں صحابہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ (المائدہ: 120) کا طرز عمل ہمارے واسطے ایک اسوہ حسنہ اور عمدہ نمونہ ہے‘‘۔ (ملفوظات جلدپنجم صفحہ507 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)
پھر آپؑ فرماتے ہیں ’’اپنے نفس کی تبدیلی کے واسطے سعی کرو۔ نماز میں دعائیں مانگو۔ صدقات خیرات سے اور دوسرے ہر طرح کے حیلہ سے وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا میں شامل ہو جاؤ۔ جس طرح بیمار طبیب کے پاس جاتا، دوائی کھاتا، مسہل لیتا، خون نکلواتا، ٹکور کرواتا اور شفا حاصل کرنے کے واسطے ہر طرح کی تدبیر کرتا ہے اسی طرح اپنی روحانی بیماریوں کو دور کرنے کے واسطے ہر طرح کوشش کرو۔ صرف زبان سے نہیں بلکہ مجاہدے کے جس قدر طریق خداتعالیٰ نے فرمائے ہیں وہ سب بجالاؤ۔‘‘ (ملفوظات جلدچہارم صفحہ: 506-507 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)
آپؑ فرماتے ہیں: ’’توبہ استغفار، وصول الی اللہ کا ذریعہ ہے۔ …… پوری کوشش سے اس کی راہ میں لگے رہو منزل مقصود تک پہنچ جاؤ گے‘‘۔
پس ہر احمدی کویاد رکھنا چاہئے کہ منزل مقصود تک پہنچنا ہی ہمارا مطمح نظر ہونا چاہئے اور ایک مومن کی منزل مقصود دنیاوی بڑا ئی اور مقام حاصل کرنا نہیں ہے بلکہ خداتعالیٰ کی معرفت حاصل کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے حقوق بھی ادا کرنا ہے اور اس کے بندوں کے حقوق ادا کرنے کی طرف توجہ کرنا ہے اور انہیں ادابھی کرنا ہے۔ ہمیں اللہ تعالیٰ کابے انتہا شکر ادا کرنا چاہئے کہ اس نے ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰہ والسلام کو ماننے کی توفیق دے کر معرفت الٰہی حاصل کرنے کے لئے صراط مستقیم کی طرف راہنمائی فرمائی۔ ان راستوں کی طرف راہنمائی فرمائی جن پر چل کر آنحضرتﷺ کے صحابہؓ نے خداتعالیٰ کا قرب پایا اور اللہ تعالیٰ کی رضا کو اپنا مقصود بنایا۔ اب یہ ہمارا کام ہے کہ جس کوشش کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنا فضل فرماتے ہوئے ہمیں یا ہمارے باپ دادا کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ماننے کی توفیق عطا فرمائی آگے بڑھ کر ان راستوں پر چلنے کی بھی کوشش کریں اور یہی حقیقی شکرگزاری ہے جو ہمیں اللہ تعالیٰ کے انعامات کا مزید وارث بناتی چلی جائے گی۔
وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا (العنکبوت: 70) میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں سے اپنی محبت کا ایک عجیب اظہار فرمایا ہے اور آنحضرتﷺ کی حدیث بھی اسی کی وضاحت کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو اپنی طرف چل کر آنے پر دوڑ کر اس کی طرف آتا ہے۔ لیکن ہمیشہ یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ لفظ استعمال فرمایا ہے کہ جَاھَدُوْا فِیْنَا۔ یہ الفاظ جو ہیں اس سے صاف ظاہر ہے کہ پہلی کوشش بہرحال بندے نے کرنی ہے اور معمولی کوشش نہیں بلکہ بھرپور کوشش۔ لفظ جَہَدَ کا مطلب ہے کہ نیکی کے حصول کے لئے اپنی تمام تر صلاحیتوں اور استعدادوں کے ساتھ مستقل مزاجی سے اپنے آپ کو مشقت میں ڈال کر کوشش کرتے چلے جانا ہے۔ مقصد کو حاصل کرنے کے لئے استقلال دکھانا اور برائی کے خلاف اپنے اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کرتے ہوئے بیزاری کا اظہار کرنا اور عملی قدم اٹھانا۔ اب یہ باتیں کوئی معمولی باتیں نہیں ہیں۔ انسان کہے کہ مَیں نے صحیح راستے پر چلنے کی کوشش کی تھی لیکن مجھے تو اللہ تعالیٰ نے ہدایت کا کوئی راستہ نہیں دکھایا۔ ہدایت کے راستے کے لئے برائیوں سے بیزاری شرط ہے۔ ہر طرح کی کوشش شرط ہے اور مستقل مزاجی شرط ہے۔ جب یہ شرطیں پوری ہوں گی تو خداتعالیٰ جس نے انسان کو برے اور بھلے کی تمیز بھی عطا فرمائی ہے۔ اس کی آزادی بھی دی ہے اور شیطان کو بھی انسان کو ورغلانے کے لئے آزاد چھوڑ دیا۔ فرماتا ہے کہ برائی اور دنیاداری میں بظاہر زیادہ آسائش اور چمک دمک نظر آنے اور شیطان کے اس کو خوبصورت کرکے دکھانے کے باوجود جب میرا بندہ میری طرف آنے کی بھرپور کوشش کرتا ہے اور کرے گا تو یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ مَیں اس کو پھر آگ کے کنویں میں گرنے دوں۔ یقینا پھر میں اس کو آگ کے کنویں میں گرنے سے بچاؤں گا اور جب انسان یہ کوشش کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ پھر ایک پیار کرنے والی ماں کی طرح دوڑتا ہوا آتا ہے اور اپنے بندے کو ایک بچے کی طرح اپنے سینے سے لگا لیتا ہے۔ پس اگر کبھی اس تعلق میں کمی آتی ہے جو خدا اور بندے کا ہے تو بندے کی کوتاہی کی وجہ سے کمی آتی ہے۔ اس ناخلف بچے کی وجہ سے آتی ہے جو اپنے ماں باپ کو ان کا مقام نہیں دیتا۔ ورنہ ماں تو اپنے بچے کی ہر پکار پر بے چین ہو کر اس کی طرف دوڑتی ہے۔ پس یہ انسان کا کام ہے کہ ناخلف بچے کی طرح نہ بنے۔ اپنے آپ کو ہمیشہ کمزور اور ناتواں سمجھے اور کبھی اپنے آپ کو خداتعالیٰ کی مدد سے مستغنی نہ سمجھے۔ اصل غنی تو خداتعالیٰ ہے جو زمین و آسمان کا مالک ہے۔ تمام جہانوں کا رب ہے لیکن اس کے باوجود بندے کی پکار کی انتظار میں رہتا ہے کہ کب میرا بندہ مجھے پکارے تومَیں اس کی طرف دوڑ کر جاؤں۔ پس یہ ماحول جو ہمیں ملا ہے جس میں ہم آئندہ انشاء اللہ تعالیٰ آئندہ تین دن گزاریں گے اس میں ہر مرد، عورت، جوان اور بوڑھا اپنے جائزے لیتے ہوئے خداتعالیٰ سے یہ دعا مانگے اور کوشش کرے کہ خداتعالیٰ مجھے ہمیشہ ایک کوشش کے ساتھ اپنے راستوں پر چلتے رہنے کی توفیق دیتا چلا جائے۔ جب تمام دعائیں ایک مقصد کے لئے یکجا ہو کر آسمان کو پہنچتی ہیں اور مقصد بھی وہ جس کے حصول کے لئے خود خداتعالیٰ نے اپنے بندوں کو توجہ دلائی ہے تو پھر یقینا یہ دعائیں اور کوششیں بارگاہ الٰہی میں قبولیت کا درجہ پاتی ہیں۔ پس جیسا کہجَہَدَ کے معنی میں مَیں نے بتایا تھا کہ تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ نیکیوں کو اختیار کرتے ہوئے اپنی کمزوریوں پر نظر رکھتے ہوئے انتہائی کوشش کے ساتھ ان برائیوں کو ترک کرتے ہوئے جب ہم دعا کریں گے تو انشاء اللہ تعالیٰ، اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے نظارے بھی ہم دیکھیں گے۔
پس ہم میں سے ہر ایک کی یہ کوشش ہونی چاہئے کہ صرف احمدیت قبول کرلینا ہی ہمارے لئے کافی نہیں بلکہ قرب الٰہی کے راستوں کی تلاش بھی ہم ہمیشہ جاری رکھیں اور ہمارے پیش نظر ہو۔ اللہ تعالیٰ کی سچی محبت اور تڑپ ہمارے عملوں سے نظر آتی ہو۔ ہمیشہ ہم اپنے ایمانوں کی حفاظت کرنے والے ہوں۔ ہمارا ہر نیک عمل دوسرے نیک عمل کی طرف لے جانے والا ہو۔ اگر ہم نیک نیتی سے صدقہ دینے والے ہوں گے تو یقینا اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے اپنی نمازوں کی طرف بھی توجہ دینے والے ہوں گے۔ روزے کا حق ادا کرنے والے بھی ہوں گے لوگوں سے ہمدردی کرنے والے بھی ہوں گے۔ لوگوں کے حقوق کی ادائیگی کرنے والے بھی ہوں گے۔ اپنے رشتوں کے حق ادا کرنے والے بھی ہوں گے۔ بیوی خاوند کے اور خاوند بیوی کے جذبات کا احترام کرنے والا بھی ہوگا۔ امانتوں کے حق ادا کرنے والے بھی ہوں گے۔ نہ کہ دھوکے سے ایک دوسرے کا مال کھانے والے۔
پس ایک نیکی کی کوشش جب ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہ نیکی پھر آگے بچے دیتی چلی جاتی ہے، جو خداتعالیٰ کی خاطر روزے میں بھوکا رہتا ہے تاکہ اس کی رضا حاصل کرے۔ اس سے کس طرح توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی فرض عبادات اور نمازیں وغیرہ جو ہیں ان کو ادا نہیں کرے گا؟ اور اس کی تمام شرائط کے ساتھ نمازوں کو ادا کرنے کی طرف اس کی توجہ نہیں ہوگی۔ جو اپنا مال خداتعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے قربان کرتا ہے۔ یہ کبھی ہو نہیں سکتا کہ وہ دھوکے سے دوسروں کا مال کھائے۔ اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے جاری کردہ نظام وصیت میں کوئی شامل ہے اور خداتعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے شامل ہے تو ایسا شخص پھر مسلسل اس کوشش میں رہے گا اور رہنا چاہئے کہ وہ تقویٰ پر چلتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے تمام حق جو ہیں وہ فرائض اور نوافل کی صورت میں ادا کرے اور بندوں کے تمام حقوق بھی فرائض اور نوافل کی صورت میں ادا کرے۔
پس یہ وہ اصل جہاد ہے جو جب مستقل مزاجی سے کیا جائے، اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے کے لئے کیا جائے تو ایک کے بعد دوسری نیکی کی طرف متوجہ کرتا چلا جاتا ہے یا دوسرے لفظوں میں خداتعالیٰ پھر خود اپنی طرف آنے کے لئے راستے اسے دکھاتا چلا جاتا ہے اور ایک منزل کے بعد دوسری منزل کی طرف جانے کی طرف اللہ تعالیٰ پھر راہنمائی فرماتا رہتا ہے۔ لیکن اس کے لئے عبادات بھی ضروری ہیں، استغفار بھی ضروری ہے، ذکر الٰہی بھی ضروری ہے۔ کمزوریوں کو ڈھانپے جانے کے لئے مستقل دعاؤں کی ضرورت ہے۔ مستقل اللہ تعالیٰ کی مدد کی ضرورت ہے اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ توبہ، استغفاروصول الی اللہ کا ذریعہ ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کو پانے کا ذریعہ ہے۔ ان دنوں میں اس طرف بھی خاص توجہ دیں۔ استغفار کی حقیقت اور اہمیت بیان فرماتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ ’’استغفار کے حقیقی اور اصلی معنی یہ ہیں کہ خدا سے درخواست کرنا کہ بشریت کی کوئی کمزوری ظاہر نہ ہو اور خدا فطرت کو اپنی طاقت کا سہارا دے اور اپنی حمایت اور نصرت کے حلقے کے اندر لے لے۔ یہ لفظ غَفَرَ سے لیا گیا ہے جو ڈھانکنے کو کہتے ہیں۔ سو اس کے یہ معنی ہیں کہ خدا اپنی قوت کے ساتھ شخص مُسْتَغْفِر کی فطرتی کمزوری کو ڈھانک لے۔ لیکن بعد اس کے عام لوگوں کے لئے اس لفظ کے معنی اَور بھی وسیع کئے گئے ہیں۔ اور یہ بھی مراد کہ خدا گناہ کو جو صادر ہوچکا ہو ڈھانک لے۔ لیکن اصل اور حقیقی معنی یہی ہیں کہ خدا اپنی خدائی کی طاقت کے ساتھ مُسْتَغْفِر کو جو استغفارکرتا ہے فطرتی کمزوری سے بچاوے اور اپنی طاقت سے طاقت بخشے اور اپنے علم سے علم عطا کرے اور اپنی روشنی سے روشنی دے۔ کیونکہ خدا انسان کو پیدا کرکے اس سے الگ نہیں ہوا بلکہ وہ جیسا کہ انسان کا خالق ہے اور اس کے تمام قویٰ اندرونی اور بیرونی کا پیدا کرنے والا ہے ویسا ہی وہ انسان کا قیوم بھی ہے۔ یعنی جو کچھ بنایا ہے اس کو خاص اپنے سہارے سے محفوظ رکھنے والا ہے۔ پس جبکہ خدا کا نام قیوم بھی ہے یعنی اپنے سہارے سے مخلوق کو قائم رکھنے والا۔ اس لئے انسان کے لئے لازم ہے کہ جیسا کہ وہ خدا کی خالقیت سے پیدا ہوا ہے ایسا ہی وہ اپنی پیدائش کے نقش کو خدا کی قبولیت کے ذریعے بگڑنے سے بچاوے۔ …پس انسان کے لئے یہ ایک طبعی ضرورت تھی جس کے لئے استغفار کی ہدایت ہے‘‘۔
فرمایا’’جب انسان پیدا ہوگیا تو خالقیت کا کام تو پورا ہوگیا مگر قیومیت کا کام ہمیشہ کے لئے ہے۔ اس لئے دائمی استغفار کی ضرورت پیش آئی‘‘۔ (ریویو آف ریلیجنز اردو، شمارہ نمبر 1جلد 5، مئی 1902 صفحہ 187-188)
پس یہ ہے استغفار کی وہ گہری حکمت جس کو پیش نظر رکھ کر ہمیں استغفار کرنی چاہئے۔ انسان کمزور ہے اپنی طاقت سے برائیوں سے بچ نہیں سکتا اور نفس امارہ بعض دفعہ انسان پر غالب آجاتا ہے۔ امارہ کہتے ہیں جو بدی کی طرف رغبت دلانے والا ہو۔ سرکشی اور بغاوت پر آمادہ کرنے والا ہو۔ انسان کے نفس کے اندر یہ شیطان اٹھتا رہتا ہے۔ پس اس سرکشی سے اس بغاوت اور برائی سے تبھی بچا جاسکتا ہے جب بار بار خداتعالیٰ کو انسان پکارے۔ شیطان نے خداتعالیٰ کو کہا تھا کہ میں ہر راستے سے تیرے بندوں کو ورغلانے اور انہیں برائیوں کی طرف مائل کرنے کے لئے آؤں گا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے جواب میں فرمایا تھا کہ جو میرے خالص بندے ہیں وہ کبھی بھی تیرے بہکاوے میں نہیں آئیں گے۔ پس شیطان کے حملوں سے بچنے کے لئے انسان کو بڑی کوشش کرنی چاہئے۔ شیطان نے انسان کو بڑی بڑی امیدیں دلا کر ورغلانے کی کوششیں کی ہیں اور کرتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے استغفار کا ذریعہ ہمارے سامنے رکھا ہے اور یہ وعدہ فرمایا ہے کہ جو کوشش کریں گے ان کو مَیں ہدایت کے راستے دکھاؤں گا اور جیسا کہ مَیں پہلے بھی ذکر کر آیا ہوں یہ مستقل مزاجی سے کوشش ہے۔ اگر شیطان ہر راستے پر ورغلانے کے لئے بیٹھا ہے تو خداتعالیٰ کا بھی وعدہ ہے کہ جو ایک کوشش سے میری طرف آئیں گے۔ لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا ہم انہیں اپنے راستے کی طرف ہدایت دیں گے۔ پس استغفار بھی جو خالص ہو کر مستقل مزاجی سے کی جائے اللہ تعالیٰ سے برائیوں کے خلاف طاقت حاصل کرنے کا ذریعہ بنتی ہے۔ خوش قسمت ہیں وہ جو اس اصل کو سمجھیں اور اس روحانی ماحول میں فائدہ اٹھاتے ہوئے اس روحانی ماحول سے اپنے نفسوں کے جائزے لیتے ہوئے اپنی تمام روحانی اور اخلاقی برائیوں کو دور کرنے کی کوشش کریں اور ان کے دل میں ایک درد ہو، ایک تڑپ ہو اور کوشش کے ساتھ خداتعالیٰ سے اس کی طاقت چاہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے کلام کی یہ بھی خوبصورتی ہے کہ ہرہر لفظ اپنے اندر حکمت لئے ہوئے ہوتا ہے۔ مثلاً فرمایا کہ خداتعالیٰ سے درخواست کرنا کہ بشریت کی کوئی کمزوری ظاہر نہ ہو۔ اب انسان تو کمزور ہے۔ یہ تو ہو نہیں سکتا کہ اس میں بشری کمزوری نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ نے اگر کوئی انسان کامل پیدا کیا ہے تو ایک ہی انسان کامل تھا جو ہمارے آقا و مولیٰ حضرت رسول اللہﷺ تھے۔ بشری کمزوریاں بیشک انسان میں رہتی ہیں لیکن استغفار کا فائدہ یہ ہے کہ وہ ظاہر نہ ہوں۔ کبھی ایسی حالت نہ آئے جو ان کو ظاہر کرنے والی ہو۔ اگر کبھی ایسی حالت آتی ہے تو فوراً استغفار کی وجہ سے خداتعالیٰ وہ طاقت عطا فرمائے کہ اس کا اظہار نہ ہوسکے۔ مثلاً غصہ ہے جب بہت سارے لوگ اکٹھے ہوتے ہیں بعض واقعات ایسے ہو جاتے ہیں۔ انسان کے اندر اس کا مادہ بھی ہے اور جب کوئی ایسی حالت جو کسی شخص کے لئے ناپسندیدہ ہو تو غصہ کی صورت میں اس کا اظہار ہوتا ہے لیکن جب استغفار کی ڈھال کے اندر ایک انسان رہ رہا ہو تو بے محل غصہ کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اگر انسان کو جائز غصہ آئے گا بھی تو وہ مغلوب الغضب ہو کر نہیں آئے گابلکہ اصلاح کے لئے آئے گا۔ پھر اور بھی بہت سی بشری کمزوریاں ہیں جو ہر ایک کی طبیعت کے لحاظ سے کسی میں کم اور کسی میں زیادہ ہیں۔ لیکن اگر اپنے اندر پاک تبدیلی پیدا کرنے کی خواہش ہوگی اور اس کے لئے کوشش ہوگی تو اللہ تعالیٰ برائیوں کو دور کرنے اور ان کے بدنتائج سے پھرانسان کو محفوظ رکھتا ہے۔ جو اصل انسانی فطرت ہے وہ نیکی کی طرف لے جانے والی ہے۔ نیک فطرت ہے اور یہ فطرت وہ ہے جس کے بارے میں حدیث میں آتا ہے، آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ ہر بچہ نیک فطرت پیدا ہوتا ہے اور بڑے ہونے تک وہ جس ماحول میں رہ رہا ہوتا ہے اس کا ماحول اسے وہ بناتا ہے جو نظر آرہا ہوتا ہے۔ پس استغفار اس نیک فطرت کو بھی ابھارتی ہے اور بدی کو اس طرح دبا دیتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق اور طاقت سے اس کا اظہار نہیں ہوتا اور پھر اس کویعنی نیکیوں کو مستقلاً اپنی زندگی کا حصہ بنانے کے لئے بھی استغفار کی ضرورت ہے۔
پس ان دنوں میں جیسا کہ مَیں نے کہا اپنے جائزے لیں اور بہت دعائیں کریں اور اللہ تعالیٰ سے مدد مانگیں کہ جب اس نے ہمیں زمانے کے امام کو ماننے کی توفیق عطا فرمائی ہے تو ان معیاروں کے حصول کی بھی توفیق عطا فرمائے جو آپ اپنی جماعت سے چاہتے ہیں۔ صرف دنیاداری اور دنیاوی چیزوں میں آگے بڑھنا ہمارا مقصودنہ ہو بلکہ خداتعالیٰ کی رضا اور نیکیوں میں سبقت لے جانا ہمارا مقصود ہو۔ کسی کی دولت دیکھ کر زیادہ سے زیادہ دولت کمانے کی خواہش نہ ہو۔ اگر دولت کمانے کی خواہش ہو تو وہ بھی اس لئے کہ دین کی خاطر اسے خرچ کروں اور کسی کو اگر کوئی خواہش ہو دلی درد کے ساتھ تو کسی کو نیکیوں میں آگے بڑھتا ہوا دیکھ کر نیکیوں میں آگے بڑھنے کی خواہش ہو اور تڑپ ہو اور اس کے لئے خداتعالیٰ سے مدد اور طاقت مانگنے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ ان دنوں کے نیک اثرات ہر ایک میں پیدا فرمائے۔
کارکنان ہیں تو وہ بھی چلتے پھرتے، کام کرتے، ذکر الٰہی اور استغفار کرتے رہیں اور اس بات پر خوش ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مہمانوں کی خدمت کی توفیق عطا فرمائی ہے جن سے حسن سلوک اور حسن خُلق سے پیش آنا ان کا فرض ہے۔ اور یہ اس لئے بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہی اپنے مسیح و مہدی کو فرمایا تھا اور آج یہ ہماری ذمہ داری بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو جب فرمایا تھا کہ یَا تُوْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ۔ (تذکرہ صفحہ 39۔ ایڈیشن چہارم 2004ء مطبوعہ ربوہ)
کہ کثرت سے لوگ آئیں گے اور ایسے راستوں سے آئیں گے جو اُن کے چلنے سے گہرے ہو جائیں گے۔ تو آپ نے ایک جگہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ بھی فرمایا ہے کہ لوگوں کی کثرت دیکھ کر پریشان نہ ہو جانا اور اللہ تعالیٰ نے آپ کوخوش خلقی کی تلقین فرمائی۔ پس جو کارکنان ہیں، ہمارے میں سے کام کرنے والے ہیں، ہمارا بھی یہ کام ہے کہ ان دور دراز سے آنے والے مہمانوں کی انتہائی خوش خُلقی کے ساتھ خدمت کریں۔ اور پھر کارکنوں کے لئے دوسری خوشی کی بات یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مہمانوں کی خدمت کے ساتھ ساتھ وہ روحانی ماحول بھی انہیں میسر ہے جو اپنے نفسوں کو پاک کرنے کا ذریعہ بنتا ہے۔
اورجو آنے والے مہمان ہیں وہ اگر سوچیں تو ان کے لئے بھی دوہری خوشی ہے۔ اس کے لئے پھر انہیں خداتعالیٰ کے آگے شکر کے جذبات سے سرجھکانے والا بننا چاہئے۔ ایک خوشی تو یہ ہے کہ ہم ان لوگوں میں شامل ہوئے جو اس الہام کو پورا کرنے والے بنے کہ یَا تِیْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ اور دوسرے دور دراز کے سفر کرکے آنے کی وجہ سے اور اس جلسے میں شامل ہونے کی وجہ سے ان دعاؤں سے فیض پانے والے بھی بنے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے شاملین جلسہ کے لئے کی ہیں۔ پس جن لوگوں کے آنے کا الہام میں ذکر ہے یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنے کے لئے آپ کے پاس آتے تھے یا آئے تھے۔ اگر یہ بات ہر ایک اپنے ذہن میں رکھے تو ہر احمدی دوسرے کے لئے محبت اور مودّت کا اظہار کرنے والا بن جائے اور عبادت گزار بننے کی کوشش کرنے والا بن جائے۔ عبادتوں کی طرف رغبت پید اہو۔ عبادتوں کے معیار بلند کرنے کی طرف توجہ پیدا ہو۔ اور پھر جب استغفار کے ساتھ، دعاؤں کے ساتھ اس کو قائم رکھنے کے لئے مستقل کوشش ہورہی ہوگی تو اللہ تعالیٰ ان کمزوریوں کو بھی دور کرنے کی توفیق عطا فرمائے گا۔ جس کی وجہ سے آپس کے تعلقات متاثر ہورہے ہیں، عہدیداروں کو افراد جماعت سے اور افراد جماعت کو عہدیداروں سے شکایات پیدا ہورہی ہیں یا ہوتی رہتی ہیں۔ پس اگر خالصتاً اللہ تعالیٰ کی رضا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دعاؤں کے حصول کے لئے اس جلسہ میں شامل ہوتے ہیں تو ان توقعات پر پورا اترنے کی ہم میں سے ہر ایک کو کوشش کرنی چاہئے جن کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہم سے توقع فرمائی ہے۔
آپؑ فرماتے ہیں کہ: ’’بیعت کی حقیقت سے پوری واقفیت حاصل کرنی چاہئے اور اس پر کاربند ہونا چاہئے اور بیعت کی حقیقت یہی ہے کہ بیعت کنندہ اپنے اندر سچی تبدیلی اور خوف خدا اپنے دل میں پیدا کرے اور اصل مقصود کو پہچان کر اپنی زندگی سے ایک پاک نمونہ پیدا کرکے دکھاوے۔ اگر یہ نہیں تو پھر بیعت سے کچھ فائدہ نہیں‘‘۔ (ملفوظات جلدپنجم صفحہ: 604-605 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)
فرمایا: ’’معاہدہ کرکے جان بوجھ کر اور سوچ سمجھ کر نافرمانی کرنا سخت خطرناک ہے‘‘۔
پھر فرماتے ہیں ’’جماعت کے افراد کی کمزوری یا برے نمونے کا اثر ہم پر پڑتا ہے اور لوگوں کو خواہ مخواہ اعتراض کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔ پس اس واسطے ہماری طرف سے تو یہی نصیحت ہے کہ اپنے آپ کو عمدہ اور نیک نمونہ بنانے کی کوشش میں لگے رہو۔‘‘ (ملفوظات جلد پنجم صفحہ456 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)
فرمایا’’اللہ تعالیٰ اس بندے سے محبت کرتا ہے جو بہت توبہ کرتا ہے، توبہ نہ کرنے والا گناہ کی طرف جھکتا ہے اور گناہ آہستہ آہستہ کفر تک پہنچا دیتا ہے۔ تمہارا کام یہ ہے کہ کوئی مابہ الامتیاز بھی تو پیدا کرو۔ تم میں اور تمہارے غیروں میں اگر کوئی فرق پایا جاوے گا تو جب ہی خدا بھی نصرت کرے گا‘‘۔ (ملفوظات جلدپنجم صفحہ606 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)
فرماتے ہیں ’’تمہاری بیعت کا اقرار اگر زبان تک محدود رہا تو یہ بیعت کچھ فائدہ نہ پہنچائے گی۔ چاہئے کہ تمہارے اعمال تمہارے احمدی ہونے پر گواہی دیں‘‘۔ (ملفوظات جلدپنجم صفحہ272 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)
پھر فرمایا ’’پس ضروری ہے کہ جو اقرار کیا جاتا ہے کہ میں دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا اس اقرار کا ہر وقت مطالعہ کرتے رہو۔ (ذہنوں میں سوچتے رہو) اور اس کے مطابق اپنی عملی زندگی کا عمدہ نمونہ پیش کرو‘‘۔ (ملفوظات جلدپنجم صفحہ605 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)
پھر فرماتے ہیں ’’ایک طرف وعظ و نصیحت سنی جاتی ہے اور دل میں تقویٰ حاصل کرنے کے لئے جوش پیدا ہوتا ہے‘‘۔ جتنی دیر جلسہ میں رہتے ہیں بعض لوگوں کو بڑا جوش پیدا ہو جاتا ہے۔ فرماتے ہیں ’’اور دل میں تقویٰ حاصل کرنے کے لئے بڑا جوش پیدا ہوتا ہے۔ مگر پھر غفلت ہو جاتی ہے۔ اس لئے ہماری جماعت کو یہ بات بہت یاد رکھنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کو کسی حالت میں نہ بھلایا جاوے ہر وقت اسی سے مدد مانگتے رہنا چاہئے‘‘۔ (ملفوظات جلدپنجم صفحہ279 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)
کسی احمدی کی برائیوں کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے سامنے کسی نے پوچھا کہ کیا اسے احمدی کہنا چاہئے یا کافر کہنا چاہئے۔ اس پر آپ نے فرمایا: ’’تم اپنے آپ کو سنبھالو اور اپنی حالت کو درست کرو۔ ہر ایک کامعاملہ خدا کے ساتھ الگ ہے۔ تم کو کس نے داروغہ بنایا ہے جو تم لوگوں کے اعمال کی پڑتال کرتے پھرو اور ان پر کفر یا ایمان کا فتویٰ لگاتے پھرو۔ مومن کا کام نہیں کہ بے فائدہ لوگوں کے پیچھے پڑتا رہے۔‘‘ (ملفوظات جلدپنجم صفحہ: 531-532جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)
پس نیکیوں کو پھیلانے کی یہی اصل ہے کہ ہر ایک اپنے جائزے لے کر نیکیوں میں بڑھنے کی کوشش کرے اور یہی چیز ہے جو جماعت کے تقویٰ کے معیار کو بڑھائے گی۔ پھر آپ فرماتے ہیں کہ’’جب تمہارے بھائیوں میں سے کوئی کمزور ہو تو اس کے حق میں برا بولنے میں جلد بازی نہ کرو‘‘۔ (ملفوظات جلدپنجم صفحہ 20 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)
اس بارہ میں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ آپؑ نے ایک دفعہ فرمایا کہ پہلے چالیس دن دعا کرو۔ پھر اصلاح کی غرض سے اس کے سامنے اس کا ذکر کرو اور لوگوں میں پھیلانے کی بجائے وہاں بات پہنچاؤ جہاں اس کی اصلاح ہوسکے۔
’’پھر آپ ایک جگہ فرماتے ہیں: ’’ہماری جماعت کو تو ایسا نمونہ دکھانا چاہئے کہ دشمن پکار اٹھیں کہ گو یہ ہمارے مخالف ہیں مگر ہیں ہم سے اچھے۔ اپنی عملی حالت کو ایسا درست رکھو کہ دشمن بھی تمہاری نیکی، خدا ترسی، اتقاء کے قائل ہو جائیں‘‘۔ (ملفوظات جلدپنجم صفحہ271 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)
فرمایا’’یہ بھی یاد رکھو کہ خدا تعالیٰ کی نظرجذرِ قلب تک پہنچتی ہے‘‘۔ اصلی حالت جو دل کی ہے اس کو اللہ تعالیٰ جانتا ہے۔ ’’پس وہ زبانی باتوں سے خوش نہیں ہوتا۔ زبان سے کلمہ پڑھنا یا استغفار کرنا انسان کو کیا فائدہ پہنچا سکتا ہے جب وہ دل و جان سے کلمہ یا استغفار نہ پڑھے۔ بعض لوگ زبان سے استغفراللہ کرتے جاتے ہیں۔ مگر نہیں سمجھتے کہ اس سے کیا مراد ہے۔ مطلب تو یہ ہے کہ پچھلے گناہوں کی معافی خلوص دل سے چاہی جائے اور آئندہ کے لئے گناہوں سے باز رہنے کا عہد باندھا جائے اور ساتھ ہی اس کے فضل اور امداد کی درخواست کی جائے‘‘۔ (ملفوظات جلدپنجم صفحہ271 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی یہ نصائح جو آپؑ نے جماعت کو کیں جن میں سے کچھ مَیں نے آپ کے سامنے پیش کی ہیں ان کو سامنے رکھتے ہوئے ہر احمدی اگر اپنے جائزے لے کہ میں کس حد تک ان پر پورا اترتا ہوں تو یقینا یہ اصلاح نفس کا باعث بنے گا۔ ہمیں ان برکات سے فیضیاب کرنے والا بنائے گا جن کے حصول کی خواہش کے لئے ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت میں شامل ہوئے ہیں اور اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے گا کہ ہم پھر اس کے فضلوں کو جذب کرتے چلے جائیں گے۔ اللہ کرے کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے کئے گئے عہد بیعت کو ہمیشہ نبھانے والے بنیں اور اس کے نتیجہ میں آپ علیہ السلام کی دعاؤں کے وارث بنتے رہیں۔ خداتعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹنے والے بنیں۔ دنیا کی چمک دمک اور ہماری نفسانی اغراض کبھی ہمیں ان برکات سے محروم نہ کریں اور نہ کرنے والی بنیں جو خداتعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت سے حقیقی رنگ میں وابستہ رہنے والوں کے لئے مقدر فرمائی ہیں۔ جلسہ کے ان دنوں میں جہاں اپنے لئے دعا کریں وہاں اپنے ان بھائیوں کے لئے بھی دعا کریں، ان کو بھی دعاؤں میں یاد رکھیں جو پاکستان یا دنیاکے کسی بھی ملک میں احمدیت کی وجہ سے مخالفین کی سختیوں اور دشمنیوں کا سامنا کررہے ہیں۔ آجکل ان میں پاکستان میں تو جو شدت ہے وہ ہے۔ اس کے علاوہ ملائیشیا میں بھی احمدیوں کے خلاف کافی محاذ ہے۔ حکومت کافی سرگرم ہے۔ اور آج ملائیشیا کا جلسہ سالانہ بھی ہورہا ہے۔ باوجود ساری پابندیوں کے بڑے مشکل حالات میں اپنا جلسہ بھی منعقد کررہے ہیں۔ ان لوگوں کو بھی اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں۔ اللہ تعالیٰ ان کا بھی جلسہ ہر لحاظ سے بابرکت فرمائے اور کسی بھی قسم کی مشکل ان کو درپیش نہ ہو اور دشمن کے ہر حیلے اور حملے سے وہ محفوظ رہیں۔ آپ میں سے ہر ایک ہمیشہ یاد رکھے کہ آپ پر اللہ تعالیٰ کے فضل جو مالی کشائش اور ذہنی سکون کی صورت میں ہیں یا آپ کسی بھی طرح اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹنے والے ہیں یہ سب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت میں شامل ہونے کی برکت کی وجہ سے ہے۔ اس لئے ہمیشہ اپنے عہد بیعت کو وفا اور اخلاص سے نبھاتے چلے جائیں اور اپنی نسلوں کے ذہنوں میں بھی یہ بات راسخ کردیں کہ آج تم جو کچھ بھی ہو جماعت کی وجہ سے ہو اس لئے جماعت اور خلافت سے کبھی اپنے تعلق کو کمزور نہ کرنا۔ اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔
بعض ایک دو انتظامی باتیں بھی مَیں کہہ دیتا ہوں۔ آج کل جو دنیا کے حالات ہیں وہ ہر جگہ ہیں۔ گو سیکیورٹی کا انتظام یہاں اس طرح تو نہیں کیا گیا جس طرح یو۔ کے کے جلسہ سالانہ پر کیا گیا تھا۔ لیکن ہر احمدی جو ہے وہ محتاط ہو۔ ایک دوسرے کو اپنے ساتھ بیٹھے ہوئے کو چیک کرے۔ اسی طرح یہاں جو گیٹ پر سیکورٹی ہے ان کو بھی چیک کرنا چاہئے۔ نظر رکھنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ جلسہ سالانہ ہر لحاظ سے بابرکت فرمائے اور ہر ایک کو ہر قسم کی تکلیف اور پریشانی سے محفوظ رکھے۔
اسی طرح سوائن فلو آج کل یورپ میں بھی پھیلا ہوا ہے۔ امیر صاحب نے کہا ہے یہاں قانون کی وجہ سے اس طرح دوائی نہیں دی جاسکتی جس طرح انگلستان کے جلسے میں، برطانیہ کے جلسے میں ہر ایک کو ہم نے دی تھی لیکن کسی کو اگر شک ہو تو ہومیوپیتھ یہاں آئے ہیں ان سے بھی دوائی لے سکتے ہیں اور ان کوفوری طور پر ہسپتال سے بھی رجوع کرنا چاہئے۔
اور اس وقت ایک افسوسناک خبر بھی ہے۔ ہمارے بہت پیارے مخلص اور وفاشعار دوست مکرم طٰہٰ قزق صاحب جو اُردن سے تعلق رکھتے تھے۔ دو دن پہلے ان کی وفات ہو گئی ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ طٰہٰ قزق صاحب حیفا کی معروف قزق فیملی سے تعلق رکھنے والے تھے۔ ان کے والد حیفا میں دوسرے احمدی تھے جبکہ ان سے قبل رُشدی بُسطی صاحب احمدی ہوچکے تھے۔ یہیں سے پھر احمدیت قریب کی بستی کبابیر میں پھیلی اور 1928ء میں حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس وہاں پہلے مبلغ تھے۔
طٰہٰ قزق صاحب بیان کرتے ہیں کہ جب میرے والد احمدی ہوئے تو مَیں ابھی چھوٹا ہی تھا۔ والد صاحب کی بہت مخالفت ہوئی تھی اور مولویوں کے کہنے پر بچے ان کو ٹماٹر اور گندے مالٹے مارا کرتے تھے۔ کہتے ہیں ایک بار مخالفین نے والد صاحب کو اتنا مارا کہ وہ بیہوش ہوگئے۔ مولوی لوگ کہا کرتے تھے کہ یہ لوگ کافر ہیں۔ کیونکہ انہوں نے قرآن بدل دیا ہے۔ قبلہ بدل دیا ہے۔ تو یہ کہتے ہیں میں چھپ کر والد صاحب کو دیکھا کرتا تھا کہ کیا واقعی انہوں نے قرآن اور قبلہ بدل دیا ہے؟ مگرمَیں دیکھتا تھا کہ والد صاحب اسی طرح قرآن کی تلاوت کرتے ہیں جیسی پہلے کیا کرتے تھے اور اسی قرآن کی تلاوت کرتے تھے جس قرآن کی پہلے کیا کرتے تھے۔ اسی طرح خانہ کعبہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھتے ہیں جس طرح پہلے پڑھا کرتے تھے۔ تو مَیں اس بات پر بچپن میں مولویوں کے جھوٹ پر حیران ہوا کرتا تھا کہ یہ کیا کہہ رہے ہیں اور اس بات پر میرا حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان مضبوط ہوتا چلا گیا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے مخالفت بھی بچوں کے ایمان مضبوط کرتی رہی اور آج بھی کررہی ہے۔
طٰہٰ قزق صاحب کے جووالد تھے انہوں نے ایک خواب کی بنا پر بیعت کی تھی۔ انہوں نے خواب میں دیکھا کہ ان کا ایک فوت شدہ رشتہ دار انہیں خواب میں کہتا ہے کہ اے حاجی محمد جلدی کرو احمدیوں نے مدینہ منورہ کو فتح کرلیا ہے۔ چنانچہ اگلے روز انہوں نے حضرت شمس صاحب کے ہاتھ پر بیعت کرلی اور طٰہٰ قزق صاحب خود بھی اخلاص میں بہت بڑھتے چلے گئے اور 70ء کی دہائی میں انہوں نے جلسہ پر ربوہ آنا شروع کیا اور باقاعدگی سے جب تک ربوہ کے جلسے ہوتے رہے وہاں آتے رہے۔ اس کے بعد یہاں کے جلسوں پر آتے رہے بلکہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ جب ہجرت کرکے لندن آئے ہیں تو اگلے روز ہی وہ پہنچ گئے تھے۔ خلافت سے بڑا وفا کا تعلق تھا۔ ان کے ہر عمل سے اس کا اظہار ہوتاتھا۔ جب بھی وہ ملتے تھے تو ان سے ایک فدائیت ٹپک رہی ہوتی تھی۔ دو سال تک آتے رہے ہیں۔ اللہ کے فضل سے 1/8 حصے کے موصی تھے اور وہاں جماعت کے حالات کیونکہ ایسے ہیں تو ان کو ڈرتھاکہ وصیت کی ادائیگی میں مشکلات آسکتی ہیں اس لئے بڑی فراخ دلی سے جماعت کی مالی امداد اور ذرائع سے کرتے رہتے تھے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے جب تفسیر کبیر کے عربی ترجمہ کا منصوبہ شروع کیا ان کی زندگی میں دو جلدیں چھپی تھیں۔ اب گزشتہ چھ سال میں آٹھ چھپ گئی ہیں اور نویں بھی تیار ہورہی ہے تو انہوں نے یہ وعدہ کیا تھا کہ میں اس ترجمہ کا سارا خرچ دوں گا اور اب تک ان کے خرچ سے یہ شائع ہورہی ہے۔ ان کا گھر جو تھا وہ جماعت کا بڑا مرکز تھا۔ مرکزی نمائندگان اور مبلغین کی بڑی عزت اور احترام کیا کرتے تھے۔
گزشتہ چند ماہ سے زیادہ بیماری آگئی تھی، بیہوشی کی حالت بھی رہی ہے۔ بہرحال 12؍اگست کو اللہ تعالیٰ کو پیارے ہوئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ ان کے پسماندگان میں 3 بیٹے، بیٹیاں اور 20 کے قریب پوتے پوتیاں ہیں۔ ایک پوتے حسام قزق صاحب جو ہیں وہ جماعت کے ساتھ بہت زیادہ اخلاص کا تعلق رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس تعلق کو مزید بڑھاتا چلا جائے۔ اور ان کی باقی نسل کو بھی، اولاد کو بھی جماعت سے اخلاص و وفا میں بڑھاتا رہے اور ان پر اپنی مغفرت کی چادر ڈالے اور رحم کا سلوک فرمائے ان کے درجات بلند فرمائے، اپنے پیاروں میں جگہ عطا فرمائے۔ ابھی نماز جمعہ اور عصر جمع ہوں گی۔ اس کے بعدمَیں انشاء اللہ ان کی نماز جنازہ غائب بھی ادا کروں گا۔
(الفضل انٹرنیشنل جلد 16شمارہ 36 مورخہ 4 ستمبر تا 10 ستمبر 2009ء صفحہ 5 تا صفحہ 8)
حضرت مسیح موعودؑ کے بیان فرمودہ جلسہ کے مقاصد کا ذکر۔ ان ایام میں عبادات کی طرف توجہ کی توقع۔ خدا کی معرفت میں بڑھنے کے لئے عبادات اور ذکر الٰہی بہت اہم ہے۔ معرفت الٰہی بندوں کے حقوق، آپس میں پیار اور ایک تڑپ کے ساتھ خدا کے پیغام کو پہنچانے کی طرف توجہ دلاتی ہے۔ کارکنان کو خدمت اور مہمانوں کو شکر کی نصیحت۔ ہر احمدی دوسرے کے لئے محبت مودت کا اظہار کرنے والا بن جائے۔ بیعت کی حقیقت کا ذکر۔ نیکیوں کو پھیلانے اور جماعت کے تقویٰ کو بڑھانے والی چیز اپنا جائزہ ہے۔ شاملین جلسہ کوجس جگہ بھی احمدیوں پر ظلم ہو رہا ہے ان کے حوالے سے دعا کی نصیحت۔
فرمودہ مورخہ 14؍اگست 2009ء بمطابق14؍ظہور 1388 ہجری شمسی بمقام مئی ما رکیٹ۔ منہائیم (جرمنی)
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔