مشکلات میں صبر اور صلوٰۃ
خطبہ جمعہ 2؍ اکتوبر 2009ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد ان آیات کی تلاوت فرمائی:
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اسۡتَعِیۡنُوۡا بِالصَّبۡرِ وَ الصَّلٰوۃِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصّٰبِرِیۡنَوَ لَا تَقُوۡلُوۡا لِمَنۡ یُّقۡتَلُ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ اَمۡوَاتٌ ؕ بَلۡ اَحۡیَآءٌ وَّ لٰکِنۡ لَّا تَشۡعُرُوۡنَ۔وَ لَنَبۡلُوَنَّکُمۡ بِشَیۡءٍ مِّنَ الۡخَوۡفِ وَ الۡجُوۡعِ وَ نَقۡصٍ مِّنَ الۡاَمۡوَالِ وَ الۡاَنۡفُسِ وَ الثَّمَرٰتِ ؕ وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِیۡنَ۔ الَّذِیۡنَ اِذَاۤ اَصَابَتۡہُمۡ مُّصِیۡبَۃٌ ۙ قَالُوۡۤا اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ۔ اُولٰٓئِکَ عَلَیۡہِمۡ صَلَوٰتٌ مِّنۡ رَّبِّہِمۡ وَ رَحۡمَۃٌ ۟ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُہۡتَدُوۡنَ (البقرۃ: 154-158)
یہ آیات جو مَیں نے تلاوت کی ہیں ان میں اللہ تعالیٰ نے اُن مومنوں کا نقشہ کھینچا ہے جو جب کسی ابتلا یا امتحان میں پڑتے ہیں تو ان کا ایمان کبھی ڈانوا ڈول نہیں ہوتا۔ بلکہ ابتلاؤں کے ساتھ ان کے ایمانوں میں مضبوطی پیدا ہوتی ہے اور پہلے سے زیادہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف جھکتے ہیں۔ ان آیات کا مَیں ترجمہ پڑھ دیتا ہوں۔ فرمایا کہ: اے وہ لوگو! جو ایمان لائے ہو اللہ سے صبر اور صلوٰۃکے ساتھ مددمانگو۔ یقینا اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ اور جو اللہ کی راہ میں قتل کئے جائیں ان کو مُردے نہ کہو بلکہ وہ تو زندہ ہیں لیکن تم شعور نہیں رکھتے اور ہم ضرور تمہیں کچھ خوف اور کچھ بھوک اور کچھ اموال اور جانوں اور پھلوں کے نقصان کے ذریعہ آزمائیں گے اور صبر کرنے والوں کو خوشخبری دیدے۔ ان لوگوں کو جن پر جب کوئی مصیبت آتی ہے تو وہ کہتے ہیں ہم یقینا اللہ ہی کے ہیں اور ہم یقینا اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جن پر ان کے ربّ کی طرف سے برکتیں ہیں اور رحمت ہے اور یہی وہ لوگ ہیں جو ہدایت پانے والے ہیں۔ جیسا کہ پہلی آیت سے ظاہرہے، اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو صبر اور صلوٰۃ کی تلقین فرمائی ہے۔ گویا یہ دو خصوصیات ایسی ہیں جو ایک مومن میں ہونی چاہئیں اور خاص طور پر ان کا اظہار مشکلات کے وقت یا ابتلا کے وقت ہونا چاہئے یہ بظاہر مختصر الفاظ ہیں لیکن اس کے وسیع معانی ہیں۔ صبر کے ایک معنے تو یہ ہیں کہ انسان تکلیف پہنچنے پر شکووں اور رونے دھونے سے بچے اور ابتلا کو اگر وہ خداتعالیٰ کی طرف سے ہے توبغیر کسی شکوے اور شکایت کے برداشت کرے۔ کیونکہ یہ شکوے اور کسی نقصان پر رونا جذباتی حالت میں بعض دفعہ ایسے فقرات منہ سے نکلوا دیتا ہے جو خداتعالیٰ سے شکوہ اور کفر بن جاتے ہیں۔ دوسرے معنے اس کے یہ ہیں کہ ثبات قدم دکھاؤ، ثابت قدمی دکھاؤ۔ تیسرے معنے یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے احکامات پر مضبوطی سے قائم رہتے ہوئے ان پر عمل کرو۔ اور پھر اس کے ایک معنے یہ ہیں کہ اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی نواہی سے بچاؤ۔ جن چیزوں سے اللہ تعالیٰ نے روکا ہے ان سے بچاؤ۔ پس صبر میں دو ذرائع استعمال کئے گئے ہیں، ایک یہ کہ برداشت، ہمت اور حوصلہ رکھتے ہوئے ہر تکلیف اور مشکل اور امتحان پر ثابت قدم رہو۔ تمہارے قدموں میں کبھی کوئی لغزش نہ آئے۔ تمہارے ایمان میں لغزش نہ آئے۔ اور دوسرے یہ کہ جو اللہ تعالیٰ کے اوامر اور نواہی ہیں ان پر نظر رکھتے ہوئے اپنی زندگیاں گزارو اور خداتعالیٰ کے آگے جھکے رہو۔ اور پھر صبر کے ساتھ ہی صلوٰۃ کا لفظ استعمال کرکے دعاؤں کی طرف توجہ کرنے کی مزید تلقین فرمائی۔
مختلف لغات میں صلوٰۃ کے جو معنے لئے گئے ہیں ان کا خلاصہ اس طرح بیان کیا جا سکتا ہے کہ نماز کی طرف توجہ کرو، نماز کے علاوہ بھی دعاؤں پر زور دو۔ دین پر مضبوطی سے قائم رہو۔ استغفار کی طرف توجہ کرو۔ ذکر الٰہی اور اللہ تعالیٰ کی حمد کی طرف توجہ کرو۔ آنحضرتﷺ پر درود بھیجو۔
پس اس آیت میں ایک حقیقی مسلمان کی یہ خوبی بیان فرما دی کہ ہمیشہ ابتلا اور مشکلات میں کامل صبر اور حوصلے سے تکالیف کے دَور کو برداشت کرو۔ کسی حالت میں بھی تمہارے نیک اعمال بجا لانے اور اعلیٰ خلق کے اظہار میں کمی نہ آئے۔ اور نمازوں اور دعاؤں او ر ذکر الٰہی اور درُود شریف پڑھنے کی طرف اس تکلیف کے دور میں، ابتلاء کے دور میں زیادہ توجہ دو اور اس سوچ اور عمل کے ساتھ جب تم خداتعالیٰ کی مدد مانگو گے اور اس پر استقلال سے قائم رہو گے، مستقل مزاجی دکھاؤ گے تو پھر ہمیشہ یاد رکھو کہ یہ ابتلاؤں کا دَور جو عارضی ہے تمہیں کامیابیوں اور فتوحات سے ہمکنار کرے گا۔ ایک مومن کا آخری سہارا تو خداتعالیٰ کی ذات ہے۔ یا تو کوئی احمدی، نعوذ باللہ، یہ کہے کہ مَیں خدا کو نہیں مانتا اور یہ ہو نہیں سکتا۔ کیونکہ جہاں خداتعالیٰ پر ایمان کمزور ہوا وہاں وہ احمدی، احمدی ہی نہیں رہتا۔ خود احمدیت ختم ہو جاتی ہے، اسلام اس کے دل سے نکل جاتا ہے۔ پس جب ایک احمدی مسلمان کا خداتعالیٰ پر ایمان بالغیب ہے تو اس بات پر بھی کامل یقین ہونا چاہئے کہ میرا ہر حال میں سہارا خداتعالیٰ کی ذات ہی ہے۔ پس ابتلاؤں اور امتحانوں میں جو دشمن کی طرف سے مختلف طریقوں سے ہم پر آتے ہیں، عقلمندی کا تقاضا بھی ہے اور ایمان کا بھی یہی تقاضا ہے کہ پھر اس ہستی سے تعلق میں پہلے سے زیادہ بڑھیں جو جائے پناہ بھی ہے اور ان ابتلاؤں اور امتحانوں سے نجات دلانے والی بھی ہے۔ اور جب ابتلاؤں میں صبر اور دعاؤں میں ایک خاص رنگ رکھ کر ہم خداتعالیٰ کے آگے جھکیں گے تو وہ جو سب پیار کرنے والوں سے زیادہ پیار کرنے والا ہے، جو اس ماں سے بھی زیادہ اپنے بندے سے پیار کرتا ہے جو اپنے بچے کی ہر تکلیف کو اس کی محبت سے مغلوب ہو کر دور کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت کے آخر میں یہ کہہ کرکہ اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ اس طرف توجہ دلائی ہے کہ میں تو یقینا تمہاری مدد کروں گا جو صبر کرنے والے ہوں گے۔ ان لوگوں کی مدد کروں گا جو صبر کرنے والے اور دعا مانگنے والے ہیں۔ لیکن اگر تم میری مدد چاہتے ہوتو تمہیں بھی استقلال کے ساتھ میری بندگی کا حق ادا کرنا ہو گا اور بندگی کا حق اسی طرح اداہو گا جس طرح کہ مَیں پہلے بیان کر چکا ہوں کہ ابتلاؤں میں اپنے پائے ثبات میں کبھی لغزش نہ آنے دو اور خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کے حضور جھک جاؤ۔ یہ آج ہراحمدی کی ذمہ داری ہے۔
جیسا کہ مَیں گزشتہ خطبات میں بھی کئی دفعہ بیان کر چکا ہوں کہ پاکستان میں بھی اور بعض عرب ممالک میں بھی اور ہندوستان کے بعض علاقوں میں بھی احمدیوں پر بعض سخت حالات آئے ہوئے ہیں یا ان کے لئے ایسے حالات پیدا کئے جا رہے ہیں۔ پاکستان جیسے حالات تو کہیں بھی نہیں وہاں تو بہت زیادہ حالات بگڑ رہے ہیں۔ پاکستان میں بعض جگہ ظلموں کی انتہا ہوئی ہوئی ہے۔ آئے دن مولوی کوئی نہ کوئی شوشہ چھوڑتے رہتے ہیں اور حکومت بھی ان کا ساتھ دے رہی ہے۔ یا بعض جگہوں پر حکومت کے کارندے یا افسران جو ہیں افراد جماعت پر سختیاں کرنے میں کوئی دقیقہ نہیں چھوڑتے۔ دوسرے ملکوں میں بھی احمدیوں پر بعض جگہوں میں جمعہ اور نمازیں پڑھنے پر پابندی ہے۔ حکومتی ایجنسیوں کی طرف سے بلا کے کہا جاتا ہے کہ تم نے نمازیں نہیں پڑھنی اور جمعہ نہیں پڑھنا، جمع نہیں ہونا۔ لیکن بہرحال جیسا کہ مَیں نے کہا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایسے حالات میں پہلے سے بڑھ کر ایمان میں مضبوطی پیدا کر و اور یہ مضبوطی پیدا کرتے ہوئے ظاہری اعمال کو بھی بہتر کرو اور عبادتوں کے معیار بھی بہتر کرو اور پھر دیکھو کہ کس طرح خداتعالیٰ تمہاری مدد کے لئے آتا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس بارہ میں فرماتے ہیں کہ:
’’کوشش کرو کہ پاک ہو جاؤ کہ انسان پاک کو تب پاتا ہے کہ خود پاک ہو جاوے‘‘۔ (یعنی اللہ تعالیٰ کی ذات پاک ہے اور اللہ تعالیٰ کو پانے کے لئے خود پاک ہونا بھی ضروری ہے)۔ فرمایا کہ’’مگر تم اس نعمت کو کیونکر پا سکو۔ اس کا جواب خود خدا نے دیا ہے جہاں قرآن میں فرماتا ہے وَاسْتَعِیْنُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ یعنی نماز اور صبر کے ساتھ خدا سے مدد چاہو‘‘۔
’’نماز کیا چیز ہے؟ وہ دعا ہے جو تسبیح، تحمید، تقدیس اور استغفار اور درُود کے ساتھ تضرع سے مانگی جاتی ہے۔ سو جب تم نماز پڑھو تو بے خبر لوگوں کی طرح اپنی دعاؤں میں صرف عربی الفاظ سے پابندنہ رہو‘‘ وہ لوگ جو عربی نہیں جانتے ان کو فرمایا کہ اپنی زبان میں بھی دعائیں کرنی چاہئیں۔ کیوں؟ فرماتے ہیں کہ ’’جب تم نماز پڑھو تو بجز قرآن کے جو خدا کا کلام ہے اور بجز بعض ادعیہ ماثورہ کے کہ وہ رسولؐ کا کلام ہے۔ باقی اپنی تمام عام د عاؤں میں اپنی زبان میں ہی الفاظ متضرعانہ ادا کرلیا کرو تاکہ تمہارے دلوں پر اس عجز و نیاز کا کچھ اثر ہو‘‘۔ (کشتی ٔ نوح۔ روحانی خزائن جلد 19صفحہ69-68)
اپنی زبان میں دعا کرو گے تو دل سے جو الفاظ نکل رہے ہوں گے اس میں اسی سے تضرع پیدا ہو گا اور وہ دل سے نکلے ہوئے الفاظ ہوں گے۔
پس دعاؤں میں ایک خاص اضطراب پیدا کرنے کی ضرورت ہے اور جب یہ اضطراب پیدا ہو جائے تو پھر خداتعالیٰ اپنے بندے کے حق میں بہتررنگ میں دعا قبول فرماتا ہے۔ جیسا کہ وہ فرماتا ہے کہ اَمَّنْ یُّجِیْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَاہُ وَیَکْشِفُ السُّوْٓءَ وَیَجْعَلُکُمْ خُلَفَآءَ الْاَرْضِ(النمل: 63) کون کسی بے کس کی دعا سنتا ہے، جب وہ اس سے یعنی خدا سے دعا کرتا ہے اور اس کی تکلیف کو دور کر دیتا ہے اور وہ تم اور تمام دعا کرنے والے لوگوں کو ایک دن زمین کا وارث بنا دے گا۔
پس جو دعائیں ایک خاص حالت میں اور اضطراب سے کی جائیں وہ ایک ایسا رنگ لانے والی دعائیں ہوتی ہیں جو دنیا میں انقلاب برپا کر دیا کرتی ہیں اور جن کو خداتعالیٰ کے راستہ میں امتحانوں اور ابتلاؤں سے گزرنا پڑ رہا ہو ان سے زیادہ خداتعالیٰ کو کون پیارا ہو سکتا ہے کہ وہ اس کے لئے ساری تکلیفیں برداشت کر رہے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ نے یہ خوشخبری دی ہے کہ تم صبر اور دعا سے ان ابتلاؤں کو برداشت کرتے چلے جاؤ۔ ایک دن تم ہی زمین کے وارث کئے جانے والے ہو۔ پس آجکل کے یہ امتحان جن سے احمدی گزر رہے ہیں، جیسا کہ مَیں نے بتایاپاکستان میں خاص طور پر، یہ قربانیاں جو کر رہے ہیں یہ ضائع جانے والی نہیں ہیں۔ یہ قربانیاں جو احمدی کر رہے ہیں یہ آج نہیں تو کل انشاء اللہ ایک رنگ لانے والی ہیں۔ ہمارا کام یہ ہے کہ بغیر کسی شکوہ کے اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے ہوئے ان امتحانوں سے گزرتے چلے جائیں۔ پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی خاطر ابتلا اور امتحانوں میں سے گزرنے والے کی انتہا یہ ہے کہ جان تک کی قربانی بھی کی جا سکتی ہے۔ لیکن یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ کی خاطر جو لوگ اپنی جانیں قربان کرتے ہیں ان کا جانیں قربان کرنا ایک عام آدمی کے قتل ہونے کی طرح قتل نہیں ہے۔ اسلام کے ابتدائی دَور میں تو جب جنگیں نہیں ہو رہی تھیں اس وقت بھی قربانیوں کی بے انتہاء مثالیں نظر آتی ہیں اور پھر جب دوسرا دور آیا، جب مسلمانوں پر جنگیں ٹھونسی گئیں، اس وقت بھی مومنوں کی ایسی بے شمار مثالیں ہیں جن میں جانوں کے نذرانے پیش کئے گئے اور ہر دو طرح سے جو قتل ہوئے، مسلمانوں کے یہ قتل ہونے والے لوگ جو تھے انہوں نے خداتعالیٰ کے دین کی بقاکے لئے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کئے۔ توحید کے قیام کے لئے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کئے۔ اور خداتعالیٰ نے پھر ان کی قربانیوں کو قبول فرماتے ہوئے فرمایا کہ ایسے لوگوں کو جو اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر رہے ہیں مردہ نہ کہو وہ تو زندہ ہیں۔ کیونکہ انہوں نے ایک بہت بڑے مقصد کی خاطر قربانی دی ہے۔ خداتعالیٰ کے ہاں جہاں ان جانیں قربان کرنے والوں کے اجر ہر آن بڑھتے چلے جاتے ہیں وہاں مومنین کی جماعت ان کی قربانیوں کو یاد کرکے ان کے ناموں کو زندہ رکھنا چاہئے کیونکہ ان شہداء کے ناموں کو زندہ رکھنا جماعت مومنین کی زندگی کی بھی ضمانت بن جاتا ہے۔ ان مثالوں کو سامنے رکھ کر پھر دوسرے مومن جو ہیں وہ بھی دین کی خاطر ہر قربانی کے لئے تیار رہتے ہیں کہ کس طرح قربانیاں کرنے والوں نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کئے اور جس قوم میں قوم کی خاطر جان دینے والے موجود ہوں وہ قومیں پھر مرا نہیں کرتیں اور پھر جو خداتعالیٰ کے دین کی خاطر جانیں قربان کرنے والے ہوں ان کے ساتھ تو خداتعالیٰ کی خاص تائیدات ہوتی ہیں۔ آج مسیح موعودؑ کے زمانہ میں مذہبی جنگوں کا تو خاتمہ ہے تو کیا خداتعالیٰ کی راہ میں اب کوئی قتل نہیں ہوتا جو مرنے کے بعد خود بھی ہمیشہ کی زندگی پائے اور مومنین کی زندگی کے بھی سامان کرے۔ جب آخرین نے اوّلین سے ملنے کے معیار قائم کرنے تھے۔ تو یقینا خداتعالیٰ کی راہ میں جانوں کے نذرانے بھی پیش کرنے تھے۔ پس اِن آخرین نے جنہوں نے مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زندگی میں بھی جانیں قربان کرنے کے نمونے دکھائے سرزمین کابل میں اپنی جانوں کے نذرانے پیش کئے اور جانوں کے نذرانے پیش کرکے دائمی زندگی کے راستے ہمیں دکھائے اور اس کے بعد آج تک افراد جماعت خداتعالیٰ کی خاطر جانوں کے نذرانے پیش کرنے کے نمونے قائم کرتے چلے جا رہے ہیں اور ہرشہید احمدی کے خون کا ہر قطرہ جہاں ان کی اُخروی زندگی میں ان کے درجات کو بلند کرتا چلا جا رہا ہے وہاں جماعتی زندگی کے بھی سامان پیدا کرتا چلا جا رہا ہے۔
پس اگر دشمن یہ سمجھتا ہے کہ اس سے جماعتی زندگی کو متاثرکر رہے ہیں، یا ایمانوں کو کمزور کر رہے ہیں تو یہ دشمن کی بھول ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم شعور نہیں رکھتے۔ جو سطحی نظر سے دیکھنے والے ہیں ان کو اس بات کا فہم ہی نہیں ہے کہ جو انقلاب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی جماعت میں پیدا کیا ہے وہ مالی اور جانی نقصان سے رکنے والا نہیں۔ اب اللہ تعالیٰ کی تقدیر نے یہی فیصلہ کیا ہے کہ آخر کاراسی جماعت نے اللہ تعالیٰ کے دین کو دنیا میں قائم کرناہے۔
پس آج بھی جماعت کی خاطر دی جانے والی ہر شہادت جماعت کے ہر فرد، مرد، عورت، بچے، بوڑھے میں ایک نئی روح پھونکتی ہے۔ ہر شہادت کے بعد افراد جماعت کی طرف سے جو مَیں خط وصول کرتا ہوں ان میں اخلاص و وفا اور قربانیوں کو پیش کرنے کے لئے نئے انداز پیش کئے جاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے بارہ میں ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ ان کے اخلاص و وفا کودیکھ کر ہمیں حیرت ہوتی ہے۔ پس مخالفین کا یہ خام خیال ہے کہ ان کے احمدیوں کے جان و مال کو نقصان پہنچانے سے احمدی اپنے ایمان سے پھر جائیں گے۔ نہیں، بلکہ جیسا کہ مَیں نے بتایا ہر امتحان ایمانوں میں مضبوطی پیدا کرتا ہے۔ اگر ان مخالفین کے خیال میں وہ اس مخالفت کی وجہ سے احمدیت کو ختم کر دیں گے تو یہ بھی ان کی خام خیالی ہے۔ جماعت کو تو بعض قوانین کی وجہ سے پاکستان میں یا بعض ملکوں میں تبلیغ کی پابند ی ہے لیکن جماعت کی مخالفت میں رونما ہونے والے واقعات ہماری تبلیغ کے راستے خود بخود کھول دیتے ہیں اور کئی لوگ پاکستان سے بھی، دوسرے عرب ممالک سے بھی براہ راست یہاں خط لکھ کر بیعت کی خواہش کا اظہار کرتے ہیں۔ پس یہ مخالفتیں بھی ہمیں ترقیات کی طرف لے جانے والی ہیں۔ یہ مخالفین چند جانوں کو تو ختم کر سکتے ہیں، مالوں کو تو لوٹ سکتے ہیں، ہماری عمارتوں کو تو نقصان پہنچا سکتے ہیں، ہماری مسجدوں کی تعمیر تو رکوا سکتے ہیں لیکن ہمارے ایمانوں کو کبھی کمزور نہیں کر سکتے۔ کیونکہ یہ امتحان اور ابتلا اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ خدا ہمارے ساتھ ہے۔ جیسا کہ خداتعالیٰ نے اگلی آیت میں تمام قسم کے نقصانوں کا تفصیل سے ذکر کرکے صبر کرنے والوں کو خوشخبری دی ہے۔ فرمایا تمہیں خوف سے بھی آزمائیں گے۔ اگر تم صبر اور دعا سے اس خوف کی آزمائش سے گزر گئے تو تمہیں خوشخبری ہو کہ تم انعامات کے وارث بننے والے ہو اور خوف کس قسم کے ہیں؟ ہر وقت دشمن کے حملوں کا بھی خوف ہے۔ مولویوں کی شرارتوں کا بھی خوف ہے۔ ذرا سی بات پہ مقدمات ہونے کا بھی خوف ہے۔ حکومتوں کے قوانین کا خوف ہے۔ حکومتی افسران کی دھمکیوں کا خوف ہے۔ لیکن مومن کسی قسم کے جتھوں، پارلیمنٹوں کے فیصلوں سے ڈر کر یا جو خوف مَیں نے بتائے ہیں ان سے کسی قسم کاخوف کھا کر اپنے ایمان کو نہ ضائع کرتے ہیں نہ ان میں کمزوری پیدا کرتے ہیں۔ پھر بھوک کے ذریعہ سے آزمانا ہے، جیسا کہ وسیع پیمانے پر اس کی مثالیں بھی ہمارے سامنے ہیں، اب بھی اِکّا دُکّا واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ لیکن 1974ء میں جماعت کے خلاف جو حالات پیدا کئے گئے تھے اور اس میں احمدیوں پر سختیاں کی گئی تھیں کہ نہ کسی کو یہ اجازت تھی کہ احمدی گھروں تک کھانے پینے کا سامان پہنچا سکے اور نہ احمدیوں کو گھروں سے باہر نکلنے کی اجازت تھی کہ بازار سے جا کر کھانے پینے کا سامان لے لیں اور اگر نکل ہی جائیں تو پھر دکانداروں پر پابندی تھی کہ ان کو کسی قسم کی کھانے پینے کی چیز نہیں دینی۔
پھر مالوں کا لوٹنا ہے، آجکل بھی احمدیوں کے مالوں پر قبضہ کرنے اور ان کو ہڑپ کرنے کی جو بھی کوششیں ہو سکتی ہیں کی جاتی ہیں۔ اور اگر کوئی احمدی اپنے مال کو حاصل کرنے کے لئے قانونی طورپر کوشش کرے تو بعض دفعہ ایسے حالات پیدا کئے جاتے ہیں، کہہ دیتے ہیں کہ قادیانی ہے اور اس نام سے ہی کہ یہ قادیانی ہے یا احمدی، بعض انصاف کی کرسی پر بیٹھنے والے لوگ جو ہیں یا انتظامی افسران بھی جو ہیں وہ احمدیوں کی داد رسی نہیں کرتے۔ جماعتی طور پر بھی 1974ء میں ربوہ کی زمین کا ایک حصہ حکومت نے مولویوں کے سپرد کر دیا، قبضہ دلوا دیا جہاں آجکل مسلم کالونی آباد ہے اور کچھ عرصہ پہلے جماعت کی زرعی زمین جو ٹی آئی کالج کے نئے کیمپس کے ساتھ تھی، اور ربوہ کی ایک اوپن سپیس (Open space) جو دارالنصر میں ہے اس پر بھی حکومت نے یہ فیصلہ کرکے کہ یہ ہماری جگہ ہے ناجائز قبضہ کر لیا۔
پھر اولادوں اور جانوں کے ذریعہ آزمایا جاتا ہے۔ بچوں کے تعلیمی کیریئر جو ہیں وہ برباد کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ سکولوں میں بچوں کو اس طرح تضحیک کا نشانہ بنایا جاتا ہے کہ بچہ بے دل ہو کر سکول ہی نہ جائے۔ کچھ عرصہ پہلے فیصل آباد میں میڈیکل کالج میں یہی ہوا تھا کہ طلباء کو پڑھائی سے روکا گیا۔ لیّہ میں جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ چار بچوں پر ظلم کرتے ہوئے انہیں جیل میں ڈالا گیا۔ اگر ان کے والدین بچوں کے احمدیت سے توبہ کا اعلان کر دیتے تو وہی مقدمہ جو مولویوں نے ہتک رسول کا ان بچوں کے خلاف بنوایا تھا فوری طور پر بدل جاتا۔ کیونکہ وہ یہی چاہتے تھے کہ احمدی کسی طرح خوف سے اپنے ایمان سے پھر جائیں۔ تو یہ ان لوگوں کی چالیں ہیں کہ احمدیوں کو ہر قسم کے ابتلاؤں سے گزار کر احمدیت سے ہٹایا جائے۔ لیکن نہیں جانتے کہ احمدی تو حقیقی مسلمان ہیں اور قرآن کریم میں لکھے ہوئے ہر ہر حرف پر یقین رکھتے ہیں۔ انہیں تو پہلے ہی خداتعالیٰ نے فرما دیا تھا کہ ان ذرائع سے آزمایا جائے گا۔ پس ثابت قدم رہنا اور انجام کا انتظار کرنا اور ہر مصیبت پر اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ کہنا یعنی ہم یقینا اللہ ہی کے ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں، یہی احمدی کا وطیرہ ہے۔ یہ جو دکھ دئیے جاتے ہیں یا دیئے جائیں گے ان پر صبر ہی ہے جو احمدی نے ہر وقت دکھانا ہے۔ اور صبر یہی ہے کہ دکھ محسوس تو بے شک کرو لیکن اس دُکھ کی وجہ سے اپنے ہوش و حواس کبھی نہ کھونا۔ شکوے شکایتیں کبھی نہ کرنا۔ بلکہ ہر نقصان پر ہر ابتلا پر خداتعالیٰ کی طرف نظر رکھنی ہے۔ اس یقین پر قائم ہونا ہے کہ بے شک یہ ابتلا یا امتحان ہے لیکن عارضی ہے اور اللہ تعالیٰ اس کے نتیجہ میں میرے حق میں انشاء اللہ تعالیٰ بہتر ہی کرے گا۔ ہر قسم کے نقصان پر یہ سوچ رکھنی ہے کہ میری جان بھی، میری اولاد بھی، میرا مال بھی اور میری جائیداد بھی اس دنیا کی عارضی چیزیں ہیں اور اگر یہ خداتعالیٰ کی خاطر قربان کی جا رہی ہیں تومَیں اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور رحمتوں کا پہلے سے بڑھ کر وارث بننے والا ہوں۔ جب انسان اِنَّا لِلّٰہِ کہتا ہے تو اس یقین پر کامل طورپر قائم ہونا چاہئے کہ ہم بھی اللہ تعالیٰ کے ہیں اور جو ہمارے مال، اولاد ہیں وہ بھی خداتعالیٰ کے ہیں۔ پس اگر وہ چاہتاہے کہ یہ نعمتیں جو اس نے یعنی اللہ تعالیٰ نے ہمیں دی ہیں وہ واپس لے لے تو اس پر ہمیں کسی قسم کا جزع فزع کرنے اور رونے دھونے کی ضرورت نہیں ہے۔ کیونکہ وہ یہ کہتے ہیں وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ یعنی ہم بھی اسی کی طرف جانے والے ہیں۔ اور جب ہم اسی کی طرف جانے والے ہیں تو اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے کہ اخروی زندگی میں اس دنیا سے بہتر سامان ملنے والے ہیں۔ پس جب ایک مومن کی یہ سوچ ہوتی ہے تو دنیاوی نقصانات جو اُسے کسی وجہ سے پہنچ رہے ہوں اس کے لئے عارضی افسوس کا باعث تو بن سکتے ہیں لیکن زندگی کا روگ نہیں بن جایا کرتے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ’’تم مومن ہونے کی حالت میں ابتلا کو بُرا نہ جانو اور بُرا وہی جانے گا جو مومن کامل نہیں ہے۔ قرآن شریف فرماتا ہے وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْْئٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْا َمْوَالِ وَالْا َ نْفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَ۔ الَّذِیْنَ اِذَا ٓ اَصَابَتْہُمْ مُّصِیْبَۃٌ قَالُوْٓا اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّـا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم کبھی تم کو مال سے یا جان سے یا اولاد یا کھیتوں وغیرہ کے نقصان سے آزمایا کریں گے۔ مگر جو ایسے وقتوں میں صبر کرتے اور شاکر رہتے ہیں تو ان لوگوں کو بشارت دو کہ ان کے واسطے اللہ تعالیٰ کی رحمت کے دروازے کشادہ اور ان پر خدا کی برکتیں ہوں گی جو ایسے وقتوں میں کہتے ہیں اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ یعنی ہم اور ہماے متعلق کل اشیاء یہ سب خدا ہی کی طرف سے ہیں اور پھر آخر کار ان کا لوٹنا خدا ہی کی طرف ہے۔ کسی قسم کے نقصان کا غم ان کے دل کو نہیں کھاتااور وہ لوگ مقام رضا میں بودوباش رکھتے ہیں‘‘۔ (اللہ تعالیٰ کی رضا میں خوش رہتے ہیں اور اسی میں رہنا پسند کرتے ہیں اور رہتے ہیں۔ )’’ایسے لوگ صابر ہوتے ہیں اور صابروں کے واسطے خدا نے بے حساب اجر رکھے ہوئے ہیں‘‘۔ (ملفوظات جلد سوم صفحہ 150 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)
پس یہ ردّ عمل ہے جو ہر احمدی کا ہونا چاہئے اور جس کا اللہ تعالیٰ کے فضل سے آج تک افراد جماعت نے اظہار کیا ہے اور یہی ردّ عمل ہماری ترقی کی علامت ہے۔ اس لئے ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے رہنا چاہئے۔ بیشک یہ ہمارا فرض ہے کہ امتحانوں اور ابتلاؤں سے بچنے کی دعائیں کریں۔ اللہ تعالیٰ نے یہ کہا ہوا ہے۔ لیکن اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی مصیبت او ر امتحان آ جائے تو پھر ثبات قدم بڑی اہم شرط ہے اور یہی چیز اللہ تعالیٰ کی طرف سے بے انتہا اجر حاصل کرنے والا بنائے گی۔ یہ بیان کرنے کے بعدکہ اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں شہادت کا رتبہ پانے والے ہمیشہ کی زندگی پاتے ہیں۔ صبر کرنے والوں کے لئے خوشخبریاں ہیں اور بہت خوشخبریاں ہیں کیونکہ انہوں نے اپنی خوشیوں کو اللہ تعالیٰ کی رضاکے تابع کر دیا ہے۔
مامورین کو اور ان کی جماعتوں کو جومشکلات آتی ہیں اس بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا: ’’کوئی مامور نہیں آتا جس پر ابتلا نہ آئے ہوں۔ مسیح علیہ الصلوۃ والسلام کو قید کیا گیا اور کیا کیااذیت دی گئی۔ موسیٰ ؑ کے ساتھ کیا سلوک ہوا؟ آنحضرتﷺ کا محاصرہ کیا گیا۔ مگر بات یہ ہے کہ عاقبت بخیر ہوتی ہے۔ (یعنی ساری تکلیفوں کا جو انجام ہے وہ بہتر ہوتاہے)۔ اگر خدا کی سنت یہ ہوتی کہ مامورین کی زندگی ایک تنعم اور آرام کی ہو اور اس کی جماعت پلاؤ زردے وغیرہ کھاتی رہے تو پھر اَور دنیاداروں میں اور ان میں کیا فرق ہوتا‘‘۔ (اگر آرام اور صرف نعمتوں والی آسائش والی زندگی ہوتی اور کوئی تکلیفیں نہ برداشت کرنی ہوتیں تو فرمایا کہ پھر دنیا دار میں اور الٰہی جماعت میں فرق کیا رہ گیا)۔
فرماتے ہیں: ’’پلاؤ زردے کھا کر حمداًللہ و شکرا ًللہ کہنا آسان ہے‘‘۔ اگر آسانیاں ہی آسانیاں ہوں۔ کھانے پینے کو ملتا جائے تو اللہ تعالیٰ کا شکرکرنا بڑا آسان ہے’’اور ہر ایک بے تکلف کہہ سکتاہے لیکن بات یہ ہے جب مصیبت میں بھی و ہ اسی دل سے کہے‘‘۔ (اصل بات یہ ہے کہ جب مشکلات آتی ہیں تب بھی اللہ تعالیٰ کی حمد اور شکر جو ہے وہ اسی دل اور شوق اور جذبے سے ہونا چاہئے جیسا اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے ملنے پر ہوتاہے۔) فرمایا ’’مامورین اور ان کی جماعت کو زلزلے آتے ہیں۔ ہلاکت کا خوف ہوتاہے۔ طرح طرح کے خطرات پیش آتے ہیں کَذَّبُوْا کے یہی معنے ہیں۔ دوسرے ان واقعات سے یہ فائدہ ہے کہ کچوں اور پکوں کا امتحان ہو جاتاہے۔ کیونکہ جو کچے ہوتے ہیں ان کا قدم صرف آسودگی تک ہی ہوتاہے۔ جب مصائب آئیں تو وہ الگ ہو جا تے ہیں‘‘۔ (یہ کمزور ایمان والے میں اور پکے میں امتحان ہے۔ جب مشکلیں آتی ہیں تو پھر ان کے قدم رک جاتے ہیں۔ لیکن جو مضبوط ایمان والے ہوتے ہیں وہ مشکلوں میں بھی آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں۔) فرمایاکہ ’’میرے ساتھ یہی سنت اللہ ہے کہ جب تک ابتلا نہ ہو تو کوئی نشان ظاہر نہیں ہوتا۔ خدا کا اپنے بندوں سے بڑا پیار یہی ہے کہ ان کو ابتلا میں ڈالے۔ جیسے کہ وہ فرماتاہے وَبَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَ الَّذِیْنَ اِذَا ٓ اَصَابَتْہُمْ مُّصِیْبَۃٌ قَالُوْٓا اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّـا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ یعنی ہرایک قسم کی مصیبت اور دکھ میں ان کا رجوع خداتعالیٰ ہی کی طرف ہوتاہے۔ خداتعالیٰ کے انعامات انہی کو ملتے ہیں جو استقامت اختیار کرتے ہیں۔ خوشی کے ایام اگرچہ دیکھنے کو لذیذ ہوتے ہیں مگر انجام کچھ نہیں ہوتا۔ رنگ رلیوں میں رہنے سے آخر خدا کا رشتہ ٹوٹ جاتاہے‘‘۔ (زیادہ آسائشوں میں اور رنگ رلیوں میں رہو تو اللہ تعالیٰ سے رشتہ ختم ہوجاتاہے)۔ ’’خدا کی محبت یہی ہے کہ ابتلا میں ڈالتاہے اور اس سے اپنے بندے کی عظمت کو ظاہر کرتاہے‘‘۔ (ا س ابتلا سے بندے کی جو عظمت ہے، بڑائی ہے، اس کے ایمان کی مضبوطی ہے وہ ظاہر ہوتی ہے)۔ ’’مثلاً کسریٰ اگر آنحضرتﷺ کی گرفتاری کا حکم نہ دیتا تو یہ معجزہ کہ وہ اسی رات مارا گیا کیسے ظاہر ہوتا اور اگر مکّہ والے لوگ آپ کو نہ نکالتے تو فَتَحْنَالَکَ فَتْحًا مُّبِیْنًا(الفتح: 02) کی آواز کیسے سنائی دیتی۔ ہر ایک معجزہ ابتلاء سے وابستہ ہے۔ غفلت اور عیاشی کی زندگی کو خدا سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ کامیابی پر کامیابی ہو تو تضرّع اور ابتہال کا رشتہ تو بالکل رہتا ہی نہیں ہے حالانکہ خداتعالیٰ اسی کو پسند کرتا ہے۔ اس لئے ضرور ہے کہ دردناک حالتیں پیدا ہوں‘‘۔ (ملفوظات جلد سوم صفحہ 586-587 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)
پس اللہ تعالیٰ نے جب یہ فرمایا کہ وہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے اور جو اللہ تعالیٰ کی خاطر اپنی جانیں دیتے ہیں ہمیشہ کی زندگی پاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کو خوشخبریاں دیتا ہے۔
جوآیتیں مَیں نے تلاوت کی ہیں ان میں سے آخری آیت میں اللہ تعالیٰ نے اس بات کا پھر اعادہ فرمایا۔ پھر اسی بات کو دوہرایا ہے کہ یہی لوگ ہیں جن پر اللہ تعالیٰ کی برکتیں اور رحمتیں ہیں اور جو لوگ اللہ تعالیٰ کی برکتوں اور رحمتوں کے وارث بن جائیں وہی لوگ حقیقی ہدایت یافتہ ہیں۔ کیونکہ صَلَوٰتٌ مِّنْ رَّبِّہِمْ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ اس لئے برکتیں اور مغفرت ترجمہ ہو گا۔ یعنی صبر اور دعا کا مظاہرہ کرنے والے اللہ تعالیٰ کی برکتوں اور مغفرتوں کے ایسے نظارے دیکھیں گے جو اُن کے روحانی مدارج بلند کرنے والے ہوں گے۔ صَلَوٰتٌ مِّنْ رَّبِّہِمْ کہ اللہ تعالیٰ کوئی دعائیں نہیں دے رہا۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مومنوں کو مغفرت اور رحمتیں پہنچ رہی ہیں۔ اور جب رحمتیں اور برکتیں پہنچ رہی ہوں تو ایسے لوگوں کے روحانی مدارج جو ہیں بلند ہوتے چلے جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی رحمت بھی ان کے شامل حال رہے گی۔ ایسے لوگوں کے دنیاوی نقصانات بھی خداتعالیٰ پورے فرما دیتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی خاطرہر قربانی کے لئے تیار ہوتے ہیں۔ جائزہ لے کر دیکھ لیں کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں کسی بھی قسم کی قربانی پیش کرنے والے کسی احمدی کے ہاتھ میں مخالفین نے اپنی خواہش کے مطابق کبھی کشکول نہیں پکڑایا نہ پکڑا سکے۔ بلکہ کشکول انہی کے ہاتھ میں ہے جنہوں نے احمدیوں کو تکلیفیں پہنچائی ہیں اور آئین اور قانون کی اغراض کی خاطر احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا ہے۔ پس اگر اللہ تعالیٰ کی اس واضح تائید کے بعد بھی ان لوگوں کو سمجھ نہیں آتی اور یا سمجھنا نہیں چاہتے تو پھر کوئی کچھ نہیں کر سکتا۔ ہم تو دعا کر سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو عقل او ر سمجھ عطافرمائے۔
پھر اسی آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اُوْلٰٓـئِکَ ہُمُ الْمُہْتَدُوْنَ کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی رحمت، مغفرت اور برکت کو حاصل کرنے والا ہو، وہی حقیقی ہدایت یافتہ ہے اور اس وجہ سے، ہدایت پانے کی وجہ سے پھر ہدایت میں ترقی کرتے چلے جانے والا ہے اور ایسے لوگ کیونکہ مشکلات اور مصائب میں صبر اور دعا سے کام بھی لے رہے ہوتے ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ ان کی ہدایت بھی فرماتا چلا جاتا ہے۔ جیسا کہ مَیں نے کہا اس میں ترقی کرتے چلے جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی لقاء کے نئے راستے انہیں دکھائے جاتے ہیں اور وہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کا قرب پانے والے ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے ہمیشہ دعا کرنی چاہئے کہ خداتعالیٰ محض اور محض اپنے فضل سے ہر احمدی کو مشکلات سے بچائے۔ لیکن اگر الٰہی تقدیر کے مطابق کسی کو امتحان میں سے گزرنا ہی پڑ جائے تو اللہ تعالیٰ صبر اور دعا کے ساتھ اس سے گزرنے کی توفیق بھی عطا فرمائے اور ہمیشہ ہماری راہنمائی بھی فرماتا رہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ’’جب مَیں آپ کی ان تکلیفوں کو دیکھتا ہوں اور دوسری طرف اللہ تعالیٰ کی ان کریمانہ قدرتوں کو جن کو مَیں نے بذات خود آزمایا ہے اور جو میرے پر وارد ہو چکی ہیں تو مجھے بالکل اضطراب نہیں ہوتا۔ کیونکہ مَیں جانتا ہوں کہ خداوند کریم قادر مطلق ہے اور بڑے بڑے مصائب شدائد سے مخلصی بخشتا ہے۔ اور جس کی معرفت زیادہ کرنا چاہتا ہے ضرور اس پر مصائب نازل کرتا ہے تا اسے معلوم ہو جاوے کہ کیونکر وہ نومیدی سے امید پیدا کر سکتا ہے۔ غرض فی الحقیقت وہ نہایت ہی قادر و کریم ورحیم ہے‘‘۔ (مکتوبات جلددوم صفحہ 27 مکتوب نمبر 15 بنام حضرت خلیفہ اوّلؓ مطبوعہ نظارت اشاعت ربوہ) (ان ابتلاؤں سے یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے فضل سے دُورہو گئے۔ اس ابتلاء میں بھی وہ کریم اور رحیم ہے)۔
پھر آپؑ فرماتے ہیں ’’گو کیسے عوارض شدیدہ ہوں۔ خداتعالیٰ کے فضل کی راہیں ہمیشہ کھلی ہیں۔ اس کی رحمت کا امیدوار رہنا چاہئے۔ ہاں اس وقتِ اضطراب میں توبہ و استغفار کی بہت ضرورت ہے۔ یہ ایک نکتہ یاد رکھنے کے لائق ہے کہ جو شخص کسی بلا کے نزول کے وقت میں کسی ایسے عیب اور گناہ کو توبہ نصوح کے طورپر ترک کر دیتا ہے جس کا ایسی جلدی سے ترک کرنا ہرگز اس کے ارادہ میں نہ تھا۔ تو یہ عمل اس کے لئے کفارہ عظیم ہو جاتا ہے‘‘۔ (اگر کوئی بلاآئے کوئی مصیبتیں آئیں، کوئی امتحان آئیں تو اس وجہ سے اگر کوئی اپنی کسی برائی کو چھوڑتا ہے، کسی گناہ کو ترک کرتا ہے اور اس سے سبق حاصل کرتا ہے تو فرمایا کہ پھر اس کے لئے یہ ایک کفارہ عظیم بن جاتا ہے) ’’اور اس کے سینہ کے کھلنے کے ساتھ ہی اس بلا کی تاریکی کھل جاتی ہے اور روشنی امید کی پیدا ہو جاتی ہے‘‘۔ (مکتوبات جلددوم صفحہ 98 مکتوب نمبر 63 بنام حضرت خلیفہ اوّلؓ۔ مطبوعہ نظارت اشاعت ربوہ)
اور جب ایسا ہوتا ہے تو جہاں انسان کا سینہ کھلتا ہے ان بلاؤں کی وجہ سے جو اندھیرا پھیلا ہوا ہے وہ بھی روشنی میں بدل جاتا ہے اور روشنی کی امید پیدا ہو جاتی ہے۔
پس جیسا کہ مَیں نے بتایا آجکل بھی جو حالات ہیں ان میں افراد جماعت کو دنیا میں ہر جگہ دعاؤں کی طرف توجہ دینے کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ اپنی غلطیوں پر نظر رکھنے کی بہت زیادہ ضرورت ہے اور اللہ تعالیٰ کا وصال حاصل کرنے کی کوشش کی ضرورت ہے۔ انفرادی کوششیں ہی ہیں جو جب ہر فرد جماعت کرتا ہے تو وہ جماعتی دھارے کی شکل اختیار کر لیتی ہیں اور یہ اکٹھی ہو کر، جمع ہو کر جب آسمان کی طرف جاتی ہیں تو اللہ تعالیٰ کی برکتوں اور رحمتوں کو کھینچ کر لاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہر فرد جماعت کو اس روح کے ساتھ خاص دعاؤں کی توفیق عطا فرمائے کیونکہ جس طرف حالات جا رہے ہیں لگتا ہے کہ احمدیوں کو پاکستان میں خاص طور پر ابھی مزید امتحانوں میں سے گزرنا پڑے گا۔ یہ سمجھتے ہیں کہ احمدی آسان ٹارگٹ ہیں اس لئے اس ذریعہ سے ہم جو ملک میں دوسری افراتفری ہے ختم کرکے توجہ صرف احمدیوں کی طرف پھیر دیں تو مسائل حل ہو جائیں گے۔ لیکن جیسا کہ مَیں نے کہا ان بیوقوفوں کو نہیں پتہ کہ وہ احمدیوں کو نقصان نہیں پہنچا رہے بلکہ لاشعوری طورپران لوگوں کے ہاتھ میں کھلونا بن کر جو ملک کو توڑنا چاہتے ہیں ملک کو نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پس پاکستان کے لئے بھی بہت زیادہ دعا کی ضرورت ہے اللہ تعالیٰ رحم فرمائے۔
آج مَیں پھر ایک شہید کا جنازہ پڑھاؤں گاجنہیں گزشتہ دنوں شہید کیا گیا۔ ان کا نام محمد اعظم طاہر صاحب ہے۔ اوچ شریف کے رہنے والے ہیں، ان کے والدکا نام حکیم محمد افضل صاحب ہے۔ 26 ستمبر کو ان کو شہید کیا گیا اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ یہ اپنے بھائی کے گھر سے، ان کے کسی بچے کی شادی میں شامل ہو کر ساڑھے آٹھ بجے کے وقت اپنی بیٹی اور بچوں کے ہمراہ آ رہے تھے تو راستے میں ایک جگہ پر جہاں آبادی کم تھی دو افرادنے انہیں پستول دکھا کر روکا۔ بیٹی اور بچے زمین پر گر گئے اور موٹر سائیکل کا بیلنس نہیں رہا۔ یہ بچوں کو اٹھانے کے لئے جب آگے بڑھے ہیں تو پھر حملہ آوران کے بہت زیادہ قریب آ گئے اور پستول ان کی کنپٹی پر رکھ دیا۔ انہوں نے کہا جو تم نے لینا ہے وہ لے لو اور جان چھوڑو۔ لیکن انہوں نے وہیں ان کی کنپٹی پر پستول رکھ کر فائر کیا اور وہ شہید ہو گئے۔ یہ طبّ کے پیشہ سے تعلق رکھتے تھے انہوں نے حکمت پڑھی تھی اور اپنی آبادی میں جہاں یہ پریکٹس کرتے تھے کافی ہر دلعزیز تھے۔ موصی بھی تھے۔ 51سال ان کی عمر تھی، بڑے خوش اخلاق ملنسار جماعت کے مخلص کارکن، اطاعت کرنے والے، مہمان نوازی کرنے والے، دعاؤں اور نمازوں کی بڑی پابندی کرنے والے۔ آجکل بطور سیکرٹری مال خدمت کی توفیق پا رہے تھے۔ ان کے دو بیٹے اور ایک بیٹی ہے جو یادگار ہیں۔ اسی طرح ان کے پانچ بھائی اور بہنیں ہیں اور ان کے ایک بھائی مربی سلسلہ بھی ہیں۔ والد بھی ان کے حیات ہیں۔ اللہ تعالیٰ شہید کے بیوی بچوں اور والدین کو صبر اور دعا کے ساتھ یہ صدمہ برداشت کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان کے پیارے اور ہمارے پیارے جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں شہید ہو رہے ہیں ان کی وجہ سے ہم میں سے ہر ایک کے ایمانوں میں مضبوطی پیدا ہوتی رہے اور اللہ تعالیٰ سے تعلق بڑھے۔
دو اور شہید بھی ہیں جو جماعتی وجہ سے تو نہیں لیکن دہشت گردی جو آج کل ملک میں عام ہے اور جیسا کہ مَیں نے کہا بڑی تیزی سے پھیل رہی ہے اور ملک کو دولخت کرنے کی طرف یہ لوگ جا رہے ہیں، پھاڑنے کی طرف یہ لوگ جا رہے ہیں۔ اس دہشت گردی کا شکار ہوئے ہیں۔ یہ دو شہید۔ ایک ریاض احمد صاحب اور امتیاز احمد صاحب۔ دونوں بھائی تھے، پشاور میں پچھلے دنوں میں بنک کے قریب بم دھماکہ ہوا ہے یہ لوگ سڑک سے گزر رہے تھے تو اس کی زد میں آ گئے اور وہیں ان کی موقع پر ہی وفات ہو گئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ ایک کی عمر 40سال تھی، ان کی شادی ہوئی ہے اور ان کے دو بچے ہیں اور جو دوسرا بھائی تھا ابھی 20سال کا تھا۔ ان کا بھی شہید کے جنازے کے ساتھ ابھی جمعہ کے بعد جنازہ پڑھاؤں گا۔
اسی طرح ایک جنازہ اور ہے جو یہاں یو کے، کے سابق نیشنل صدر اور امیر جماعت چوہدری انور کاہلوں صاحب کا ہے جن کی 27؍ستمبر کو وفات ہوئی ہے۔ آپ لمبا عرصہ یہاں یو کے میں رہے ہیں۔ جیسا کہ مَیں نے کہا نیشنل پریذیڈنٹ بھی رہے اور جماعت کے امیر بھی رہے۔ صدر قضاء بورڈ (یو کے) بھی رہے۔ پہلے یہ ڈھاکہ میں تھے لیکن اس سے پہلے کلکتہ میں تھے وہاں بھی امیر رہے ہیں۔ پھر ڈھاکہ میں امیر رہے ہیں۔ فضل عمر فاؤنڈیشن کے ممبر بھی تھے۔ چوہدری ظفراللہ خاں صاحب کے ساتھ ان کا خاص تعلق تھا۔ یہ ان کے سیکرٹری کے طور پر مختلف سفروں میں ان کے ساتھ جاتے رہے اور حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ جب 1984 ء میں یہاں آئے ہیں تو اس وقت قرآن کریم کے انگریزی ترجمہ پہ نظرثانی کے لئے آپ نے جو ٹیم بنائی تھی اس میں ان کو بھی شامل کیا تھا۔ خلافت سے ان کا وفا کا تعلق تھااور واقفین زندگی اور مبلغین کی بہت عزت و احترام کیا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ ان سے بھی مغفرت کا سلوک فرمائے۔ رحمت کا سلوک فرمائے۔
ایک جنازہ اور ہے جو ہماری ایک عزیزہ ہیں منصورہ وہاب صاحبہ کا ہے۔ یہ مولوی عبدالوہاب آدم صاحب جو گھانین ہیں اور جامعہ احمدیہ ربوہ سے پڑھے ہوئے ہیں جو شروع کا Batch تھا۔ ابتدائی مبلغین میں سے ہیں جو افریقہ سے وہاں پڑھنے گئے تھے۔ ان کی بیٹی ہیں۔ عبدالوہاب صاحب آجکل گھانا کے امیر اور مشنری انچارج ہیں۔ یہ محمدبیدوصاحب کی اہلیہ تھیں۔ ان کو گردے کی تکلیف ہوئی۔ جس کی وجہ سے بیمار چلی آ رہی تھیں۔ چند دن پہلے ان کے گرد ے کا ٹرانسپلانٹ کا انتظام بھی ہو گیا تھا۔ لیکن بہرحال اللہ تعالیٰ کی تقدیریہی تھی۔ 28سال کی عمر میں ان کی وفات ہوئی ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ ان کا جنازہ بھی ساتھ ہی ہو گا۔ اللہ تعالیٰ ان سے بھی مغفرت اور رحمت کا سلوک فرمائے اور ان کے والدین کو صبر کی توفیق عطا فرمائے۔
(الفضل انٹرنیشنل جلد 16 شمارہ 43 مورخہ 23 تا 29 اکتوبر 2009ء صفحہ 5 تا صفحہ 8)
مشکلات کے وقت ان دو خصوصیات (صبر اور صلوٰۃ) کا اظہار ہونا چاہیئے۔ صبر اور صلوٰۃ کے مختلف معانی کا تذکرہ۔ ابتلاؤں کے دور میں نماز، دعا، ذکر او لٰہی اور درود کی طرف زیادہ توجہ دیں۔ احمدی مسلمان کا یقین کامل ہو کہ خدا ہی اس کا سہارا ہے، پاکستان، عرب ممالک اور ہندوستان میں احمدیوں پر سخت حالات پیدا کیے جا رہے ہیں۔ آج پاکستانی احمدیوں کی قربانی ضائع ہونے والی نہیں، یہ رنگ لانے والی ہیں۔ ہمارا کام یہ ہے کہ ہم بغیر شکوہ کے امتحانوں سے گزرنے کے لئے اللہ سے دعائیں مانگتے چلے جائیں۔ اسلام کے آغاز میں صحابہ کا اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرنا۔ شہداء کے ناموں کو زندہ رکھنا جماعت مومنین کی زندگی کی علامت بن جاتی ہے۔ جس قوم میں قوم کی خاطر مرنے والے ہوں وہ قومیں مرا نہیں کرتیں۔
فرمودہ مورخہ02؍اکتوبر 2009ء بمطابق02؍اخاء 1388 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن (برطانیہ)
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔