اللہ تعالیٰ کی صفت القوی
خطبہ جمعہ 9؍ اکتوبر 2009ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
اللہ تعالیٰ کے قوی ہونے کا قرآن کریم میں کئی جگہ ذکر آتا ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی یہ صفت ہے کہ وہ قوی ہے۔ انسانوں کے لئے تو قوی کے عام معنی یہ لئے جاتے ہیں کہ جسمانی اور عقلی طور پر طاقت رکھنا۔ کسی کام کو کرنے کی طاقت رکھنا، علمی طور پر مضبوط دلیل رکھنے والالیکن خداتعالیٰ کے بارے میں جب ہم قوی کہتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ تمام طرح کی طاقت رکھنے والا، ہر قسم کی طاقت رکھنے والا جس کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا۔ وہ سب طاقتوروں سے زیادہ طاقتور ہے اور طاقتوں کا مالک ہے۔ اپنی مخلوق کو بھی بعض قسم کی طاقتیں دے کر ان حدود کے اندر قوی بنا دیتا ہے۔ قرآن کریم میں جیسا کہ میں نے کہا خداتعالیٰ نے اپنی صفت کا مختلف حوالوں سے ذکر فرمایا ہے اور جہاں بھی ذکر فرمایا ہے یا تو تنبیہ کرتے ہوئے یا بدانجام سے ڈراتے ہوئے یا بد انجام کے بارہ میں بتاتے ہوئے۔ یا ان لوگوں کے انجام کا ذکر ہے جو خداتعالیٰ کی باتوں پر کان نہیں دھرتے اور ان پر اللہ تعالیٰ کے عذاب نازل ہوئے۔ لیکن ساتھ ہی یہ بھی ذکر فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو تمام طاقتوں والا اور قوی سمجھنے والے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بنتے ہیں۔ سب سے پہلے تو اللہ تعالیٰ نے سورۃبقرہ میں اللہ تعالیٰ کے غیر اور مشرکین یا بتوں کی عبادت کرنے والے جو ہیں ان کو تنبیہ کی ہے کہ یہ شرک عذاب کا مورد بنائے گا۔ لیکن اس میں ساتھ ہی یہ بھی بتایا کہ مومن کی یہ نشانی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی محبت کو ہر چیز پر حاوی کر لیتے ہیں۔ سورۃ بقرہ کی 166ویں آیت ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ وَمِنَ النَّاسِ مَن یَتَّخِذُ مِن دُوْنِ اللّٰہِ اَنْدَادًا یُّحِبُّوْنَہُمْ کَحُبِّ اللّٰہِ۔ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوٓا اَشَدُّ حُبًّا لِلّٰہِ۔ وَلَوْ یَرَی الَّذِیْنَ ظَلَمُوٓا اِذْ یَرَوْنَ الْعَذَابَ اَنَّ الْقُوَّۃَ لِلّٰہِ جَمِیْعاً۔ وَّاَنَّ اللّٰہَ شَدِیْدُ الْعَذَابِ(البقرۃ: 166) اور لوگوں میں سے ایسے بھی ہیں جو اللہ کے مقابل پر شریک بنا لیتے ہیں۔ وہ ان سے اللہ سے محبت کرنے کی طرح محبت کرتے ہیں۔ جبکہ وہ لوگ جو ایمان لائے اللہ کی محبت میں (ہر محبت سے) زیادہ شدید ہیں۔ اور کاش !وہ(لوگ) جنہوں نے ظلم کیا سمجھ سکیں جب وہ عذاب دیکھیں گے کہ تمام تر قوت (ہمیشہ سے) اللہ ہی کی ہے اور یہ کہ اللہ عذاب میں بہت سخت ہے۔
اس میں پہلی بات تو یہ بتائی کہ انسان کا جو مقصد پیدائش ہے وہ تو اللہ تعالیٰ سے محبت اور اس کو یاد رکھنا ہے۔ لیکن بعض لوگ اس مقصد کو بھول جاتے ہیں بلکہ اس طرف توجہ نہیں دیتے۔ بلکہ دنیا کی اکثریت محبت الٰہی کو نہ جانتی ہے، نہ سمجھنے کی کوشش کرتی ہے۔ بلکہ اس کے مقابل پر یا تو ظاہری بتوں کی پوجا کی جاتی ہے یا بعض قسم کے بت دلوں میں گڑے ہوئے ہیں اور ان کی محبت ایسے لوگوں کے دلوں میں اتنی زیادہ گڑ جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی محبت کا تصور ہی نہیں رہتا۔ لیکن اس کے مقابلے پر حقیقی مومن اپنے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت سب محبتوں سے زیادہ شدید رکھتے ہیں۔ پس اس آیت میں جہاں خداتعالیٰ سے دور ہٹے ہوؤں کو یہ وارننگ ہے کہ تم سمجھتے ہو کہ غیراللہ سے محبت تمہیں کچھ فائدہ پہنچا سکتی ہے تو یاد رکھو کہ وہ سب بے طاقت چیزیں ہیں۔ ان میں کوئی طاقت نہیں۔ اصلی طاقت اور قوت تو خداتعالیٰ کو حاصل ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے دوسری جگہ فرمایا ہے کہ مَیں شرک کرنے والے کو کبھی معاف نہیں کروں گا۔ پس اس دنیا کی عارضی متاع تمہیں خداتعالیٰ سے د ور لے جا کر تمہیں تمہارے بدانجام کی طرف دھکیل رہی ہے لیکن مومنوں کو بتایا کہ اگر مومن ہونے کا دعویٰ ہے تو حقیقی مومن کی یہ تعریف ہے کہ اس کو خداتعالیٰ سے محبت سب محبتوں سے زیادہ ہوتی ہے۔ اس کی محبت ہر قسم کی محبت پر حاوی ہوتی ہے اور جو کچھ اسے دنیاوی اور اخروی انعامات ملنے ہیں وہ خداتعالیٰ کی محبت کی وجہ سے ہی ملنے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے محبت، پھر اللہ تعالیٰ کے پیاروں سے محبت کی طرف بھی راہنمائی کرتی ہے۔
پس ہمیشہ ایک مومن کو یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی محبت تب کامل ہو گی جب اس کے رسولﷺ سے بھی بے غرض محبت ہو۔ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ(آل عمران: 32) کے مضمون کو سمجھنا ہو گا۔ درود و صلوٰۃ سے اپنی محبت کا اظہار کرنا ہو گا۔ دنیا کی کوئی محبت ان دونوں محبتوں پر حاوی نہیں ہونی چاہئے۔ پھر یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق سے محبت کا بھی کہا ہے۔ تو دوسرے انسانوں سے محبت بھی خداتعالیٰ کی محبت کے حصول کے لئے ضروری ہے۔ پھر فرمایا کہ مشرک تو شرک کرکے جو عذاب اپنے پرسہیڑ رہے ہیں وہ تو ہے ہی۔ لیکن مومن ہونے کا دعویٰ کرنے والے بھی اگر ان محبتوں کا خیال نہیں رکھیں گے جو خداتعالیٰ سے محبت کے نتیجہ میں پیدا ہونی چاہئے تو اپنی جان پر ظلم کرنے والے ہوں گے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی صفت قوی کو اہمیت نہیں دے رہے ہوں گے۔ اُس کو اُس کا مقام نہیں دے رہے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ کی جو پکڑ ہے اس پر ایسے لوگوں کی نظر نہیں ہوتی۔ پس ایک مومن کو اپنی زندگی میں اپنا ہر قدم اپنے سب طاقتوں والے خدا کا ادراک رکھتے ہوئے اور اس کو سب طاقتوں کا مالک سمجھتے ہوئے اٹھانا چاہئے۔ پس اللہ تعالیٰ نے مشرکین اور غیراللہ کو خداتعالیٰ کے مقابلے پر زیادہ اہمیت دینے والوں کو جہاں ان کے بدانجام اور عذاب سے آگاہ کیا ہے اور ڈرایا ہے اور ان کے واقعات بیان کئے ہیں وہاں مومنوں کو اللہ تعالیٰ سے محبت کی گہرائی تلاش کرنے کی طرف بھی توجہ دلائی ہے۔
اس محبت کے بارہ میں کہ یہ کیسی محبت ہونی چاہئے اور اس کی اصل گہرائی کیا ہے اور اس کاکیا مطلب ہے؟ اس بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ’’جاننا چاہئے کہ محبت کوئی تصنع اور تکلف کا کام نہیں۔ بلکہ انسانی قویٰ میں سے یہ بھی ایک قوت ہے اور اس کی حقیقت یہ ہے کہ دل کا ایک چیز کو پسند کرکے اس کی طرف کھینچے جانا اور جیسا کہ ہریک چیز کے اصل خواص اس کے کمال کے وقت بدیہی طور پر محسوس ہوتے ہیں (اچھی طرح محسوس کئے جاتے ہیں ) یہی محبت کا حال ہے کہ اس کے جو ہر بھی اس وقت کھلے کھلے ظاہر ہوتے ہیں کہ جب اتم اور اکمل درجہ پر پہنچ جائے۔ (جب اپنی محبت جو ہے انتہا کو پہنچ جائے، کامل ہوجائے تو پھر اس محبت کے جو جوہر ہیں، اس کے جو نتائج ہیں، اس کی جو خوبیاں ہیں وہی پھر ظاہر ہوتی ہیں۔)
فرمایا: ’’اُشْرِبُوْا فِیْ قُلُوْبِھِمُ الْعِجْلَ (البقرۃ: 94) یعنی انہوں نے گوسالہ سے ایسی محبت کی تو گویا ان کو گوسالہ شربت کی طرح پلا دیا گیا۔ درحقیقت جو شخص کسی سے کامل محبت کرتا ہے تو گویا اسے پی لیتا ہے۔ یا کھا لیتا ہے اور اس کے اخلاق اور اس کے چال چلن کے ساتھ رنگین ہو جاتا ہے اور جس قدر زیادہ محبت ہوتی ہے اسی قدر انسان بالطبع اپنے محبوب کی صفات کی طرف کھینچاجاتا ہے۔ یہاں تک کہ اسی کا روپ ہو جاتا ہے جس سے وہ محبت کرتا ہے۔ یہی بھید ہے کہ جو شخص خدا سے محبت کرتا ہے وہ ظلّی طور پر بقدر اپنی استعداد کے اس نور کو حاصل کر لیتا ہے جو خدا تعالیٰ کی ذات میں ہے اور شیطان سے محبت کرنے والے وہ تاریکی حاصل کر لیتے ہیں جو شیطان میں ہے‘‘……۔
فرمایا ’’محبت کی حقیقت بالالتزام اس بات کو چاہتی ہے کہ انسان سچے دل سے اپنے محبوب کے تمام شمائل اور اخلاق اور عبادات پسند کرے اور ان میں فنا ہونے کے لئے بدل و جان ساعی ہو (کوشش کرے) تا اپنے محبوب میں ہو کر وہ زندگی پاوے جو محبوب کو حاصل ہے۔ سچی محبت کرنے والا اپنے محبوب میں فنا ہو جاتا ہے۔ اپنے محبوب کے گریبان سے ظاہر ہوتا ہے(یعنی ہر وقت محبوب کے گریبان میں، اس کے دل میں اس کی تصویر رہتی ہے) ’’اور ایسی تصویر اس کی اپنے اندر کھینچتا ہے کہ گویا اسے پی جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ وہ اس میں ہو کر اور اس کے رنگ میں رنگین ہو کر اور اس کے ساتھ ہو کر لوگوں پر ظاہر کر دیتا ہے کہ وہ درحقیقت اس کی محبت میں کھویا گیا ہے۔ محبت ایک عربی لفظ ہے اور اصل معنی اس کے پُر ہو جانا ہیں۔ چنانچہ عرب میں یہ مثل مشہور ہے کہ تَحَبَّبَ الْحِمَارُ یعنی جب عربوں کو یہ کہنا منظور ہو جاتا ہے کہ گدھے کا پیٹ پانی سے بھر گیا تو کہتے ہیں کہ تَحَبَّبَ الْحِمَارُ (یعنی اس کا پیٹ پانی سے بھر گیا) اور جب یہ کہنا منظور ہوتا ہے کہ اونٹ نے اتنا پانی پیا کہ وہ پانی سے پُر ہو گیا۔ تو کہتے ہیں شَرِبَتِ الْاِبِلُ حَتّٰی تَحَبَّبَتْ۔ اور حَبّ جو دانہ کو کہتے ہیں (کسی بھی قسم کے دانہ کو حبّ کہتے ہیں ) وہ بھی اسی سے نکلا ہے جس سے یہ مطلب ہے کہ وہ پہلے دانہ کی تمام کیفیت سے بھر گیا (اور جو پہلا دانہ تھا اس کی تمام کیفیت اس دانہ میں پیدا ہو گئی) اور اسی بنا پر اِحْبَاب سونے کو بھی کہتے ہیں۔ کیونکہ جو دوسرے سے بھر جائے گا وہ اپنے وجود کو کھو دے گا۔ گویا سو جائے گا اور اپنے وجود کی کچھ حس اس کو باقی نہیں رہے گی‘‘۔ (نورالقرآ ن حصّہ دوم۔ روحانی خزائن جلد 9صفحہ 430-431)
پس اللہ تعالیٰ کی حقیقی محبت ایک مومن کے لئے یہ ہے کہ اس کی رضا کے لئے اپنا سب کچھ قربان کرنے کی کوشش کرے اور پھر دیکھے کہ وہ طاقتور خدا جو ہے، سب طاقتوں کا مالک خدا جو ہے، قوی خدا جو ہے اس کے لئے کیا کچھ کرتا ہے۔
پھر اللہ تعالیٰ نے سورۃ حج میں 41ویں آیت میں طاقتور کافروں کے مقابلہ پر اپنے قوی ہونے کا ذکر کرتے ہوئے مومنوں کو تسلی دی ہے کہ اب کیونکہ ظلم کی انتہا ہو رہی ہے اس لئے باوجود کمزور ہونے کے، باوجود تعداد میں تھوڑے ہونے کے، باوجودبے سرو سامان ہونے کے تم ان کافروں سے جنگ کرو جو نہ صرف شرک میں انتہا کئے بیٹھے ہیں بلکہ ظلم کی بھی انتہا کر رہے ہیں۔ اب مذہب کی بقا کا سوال ہے ورنہ ظلم جو ہیں بڑھتے چلے جائیں گے اور اللہ کے شریک ٹھہرانے والے کسی مذہب کو بھی برداشت نہ کرتے ہوئے ظلم کا نشانہ بناتے چلے جائیں گے۔ جیسا کہ وہ فرماتا ہے اَلَّذِیْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِھِمْ بِغَیْرِ حَقٍّ اِلَّا اَنْ یَّقُوْلُوْا رَبُّنَااللّٰہُ۔ وَلَوْ لَادَفْعُ اللّٰہِ النَّاسَ بَعْضَھُمْ بِبَعْضٍ لَّھُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِیَعٌ وَّصَلَوٰتٌ وَّمَسٰجِدُ یُذْکَرُ فِیْھَا اسْمُ اللّٰہِ کَثِیْرًا۔ وَلَیَنْصُرَنَّ اللّٰہُ مَنْ یَّنْصُرُہٗ۔ اِنَّ اللّٰہَ لَقَوِیٌّ عَزِیْزٌ (الحج: 41) یعنی وہ لوگ جنہیں ان کے گھروں سے ناحق نکالا گیا، محض اس بنا پر کہ وہ کہتے تھے کہ اللہ ہمار ارب ہے اور اگر اللہ کی طرف سے لوگوں کا دفاع ان میں سے بعض کو بعض دوسروں سے بھڑا کر (لڑا کر) نہ کیا جاتا تو راہب خانے منہدم کر دئیے جاتے اور گرجے بھی اور یہود کے معابد بھی اور مساجد بھی جن میں بکثرت اللہ کا نام لیا جاتا ہے اور یقینا اللہ ضرور اس کی مدد کرے گا جو اس کی مدد کرتا ہے یقینا اللہ بہت طاقتور اور کامل غلبہ والا ہے۔
پس امن قائم رکھنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے ظلم کا جواب سختی سے دینے کی اجازت دی۔ یہ کرو تو اللہ تعالیٰ کی مدد تمہارے شامل حال رہے گی۔ پس یہاں اصولی بات بتا دی کہ مذہب کی جو جنگیں ہیں یاجو جنگ ہے وہ تمہارے پر ٹھونسی جائے تو دفاع کرنا ہے۔ نہ صرف اپنے مذہب کا دفاع کرنا ہے بلکہ غیر مذاہب کا بھی دفاع کرنا ہے کیونکہ مسلمان کا دعویٰ ہے کہ ہم نے کسی مذہب کے پیرو سے بھی بزورِ بازو مذہب تبدیل نہیں کرانا۔ کیونکہ یہ اسلامی تعلیم کے خلاف ہے اور دنیا کا امن برباد کرنے والی بات ہے۔ ہدایت دینا یا نہ دینا خداتعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں رکھا ہوا ہے۔ ہاں پیار سے، طریقے سے، حکمت سے، تبلیغ کا فریضہ ایک مسلمان کو ادا کرنا چاہئے اور یہ اس کے لئے ضروری ہے۔
پھر تیسری بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ مذہبی جنگ میں مظلوم اور حق پر رہنے والے کی ضرور مدد کرتا ہے اور اس زمانہ میں آنحضرتﷺ کی زندگی میں اس وقت جو ظلم ہو رہے تھے وہ مظلومیت کی انتہا تھی۔ مسلمانوں کی مکّہ میں جوحالت زار تھی وہ اس سے ہر وقت ظاہر ہو رہی تھی۔ مذہبی جنگیں ہجرت کے بعد اگر کسی سے کی جارہی تھیں تو وہ مسلمانوں سے کی جا رہی تھیں۔ پس اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدہ کے مطابق اپنے قوی اور طاقتور ہونے کا ثبوت دیا اور بے سروسامان، تھوڑے اور ناتجربہ کار ہونے کے باوجود مسلمانوں کو یہ حکم دیا کہ اب جنگ کرو تو ان کی مدد بھی فرمائی اور فرشتوں کو مسلمانوں کی مدد کے لئے بھیجا۔ پس اس سے یہ بات بھی ظاہر ہو گئی کہ اللہ تعالیٰ نے جنگ کی اجازت دفاع کے طور پر دی تھی۔ امن قائم کرنے کے لئے دی تھی۔ جہاد صرف وہ ہے جو مذہب پر حملہ کرنے والوں کے خلاف کیا جائے۔ باقی جو جنگیں ہوتی ہیں، چاہے وہ مسلمان مسلمان ملکوں کی ہوں یا مسلمانوں کی غیر مسلموں کے ساتھ ہوں وہ سیاسی اور قومی جنگیں کہلاتی ہیں اور آجکل جو جنگیں ہو رہی ہیں وہ سیاسی اور قومی جنگیں ہیں یہ جہادنہیں ہے۔
پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے قوی ہونے کا اعلان کرکے یہ فرمایا کہ مذہب پر حملہ کرنے والوں کے خلاف میں مذہب کے ماننے والوں کی مدد کروں گا اور کیونکہ اب آخری اور مکمل مذہب اللہ تعالیٰ کے اعلان کے مطابق اسلام ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی مدد کا وعدہ فرمایا اور اِنَّ اللّٰہَ لَقَوِیٌّ عَزِیْزٌ کہہ کر یعنی اللہ تعالیٰ بہت طاقتور اور کامل غلبہ والا ہے اس بات کا اعلان کر دیا کہ مسلمانوں کے خلاف اگر مذہبی جنگ ہو گی تو میں مدد کروں گا۔ پس آجکل کے جو حملے، فساد یا جنگیں ہو رہی ہیں جس میں مسلمان بجائے فتوحات کے رسوائی کا سامنا کر رہے ہیں یہ اس بات کا ثبوت ہے اور یہ دلیل ہے کہ یہ نہ جہاد ہے اور نہ اللہ تعالیٰ کی نظر میں مذہبی جنگ ہے اور اسی وجہ سے اسے اللہ تعالیٰ کی تائید بھی حاصل نہیں ہے۔
پس مسلمانوں کو مذہب کے لئے تلوار اور توپ پکڑنے کی بجائے اپنے ایمان اور اعمال کی اصلاح کی کوشش کرنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی اصلاح کے لئے رونا چلاّنا چاہئے۔ پھر بغیر توپ اور بندوق کے دنیا کو اپنی طرف مائل کرنے والے بن سکیں گے۔ دوسرے اس میں مسلمانوں کو یہ بھی حکم ہے کہ تمہیں قطعاً اجازت نہیں کہ کسی مذہب پر حملہ کرو یا طاقت استعمال کرو۔ پس آج اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تعلیم ہی قرآن کریم کی صحیح تعلیم ہے اور اسی طرف راہنمائی کرتی ہے۔ اس پر عمل کریں اور پھر دیکھیں کہ قوی خدا کس طرح اپنی قدرت کا ہاتھ ظاہر فرماتا ہے اور کیا کیا نظارے دکھاتا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اسلام کے ابتدائی ایام اور مسلمانوں پر ظلم اور جہاد کی اجازت اور اللہ تعالیٰ کی مدد کا جو نقشہ ایک جگہ کھینچا ہے مَیں وہ بیان کرتا ہوں۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ: ’’چونکہ مسلمان اسلام کے ابتدائی زمانہ میں تھوڑے تھے اس لئے ان کے مخالفوں نے بباعث اس تکبر کے جو فطرتاً ایسے فرقوں کے دل اور دماغ میں جاگزیں ہوتا ہے، جو اپنے تئیں دولت میں، مال میں، کثرت جماعت میں، عزت میں، مرتبت میں، دوسرے فرقہ سے برتر خیال کرتے ہیں اس وقت کے مسلمانوں یعنی صحابہ سے سخت دشمنی کا برتاؤ کیا اور وہ نہیں چاہتے تھے کہ یہ آسمانی پودا زمین پر قائم ہو۔ بلکہ وہ ان راستبازوں کے ہلاک کرنے کے لئے اپنے ناخنوں تک زور لگا رہے تھے اور کوئی دقیقہ آزار رسانی کا اٹھا نہیں رکھا تھا اور ان کو خوف یہ تھا کہ ایسا نہ ہو کہ اس مذہب کے پیر جم جائیں اور پھر اس کی ترقی ہمارے مذہب اور قوم کی بربادی کا موجب ہو جائے۔ سو اسی خوف سے جو ان کے دلوں میں ایک رعب ناک صورت میں بیٹھ گیا تھا نہایت جابرانہ اور ظالمانہ کارروائیاں ان سے ظہور میں آئیں اور انہوں نے دردناک طریقوں سے اکثر مسلمانوں کو ہلاک کیا اور ایک زمانہ دراز تک جو تیرہ برس کی مدت تھی ان کی طرف سے یہی کارروائی رہی اور نہایت بے رحمی کی طرز سے خدا کے وفادار بندے اور نوع انسان کے فخر ان شریر درندوں کی تلواروں سے ٹکڑے ٹکڑے کئے گئے اور یتیم بچے اور عاجزاور مسکین عورتیں کوچوں اور گلیوں میں ذبح کئے گئے۔ اس پر بھی خداتعالیٰ کی طرف سے قطعی طور پر یہ تاکید تھی کہ شَرکا ہرگز مقابلہ نہ کرو۔ چنانچہ ان برگزیدہ راستبازوں نے ایسا ہی کیا۔ ان کے خونوں سے کوچے سرخ ہو گئے پر انہوں نے دم نہ مارا۔ وہ قربانیوں کی طرح ذبح کئے گئے پر انہوں نے آہ نہ کی۔ خدا کے پاک اور مقدس رسول کو جس پر زمین اور آسمان سے بے شمار سلام ہیں، بار ہا پتھر مار مار کر خون سے آلودہ کیا گیا۔ مگر اس صدق اور استقامت کے پہاڑ نے ان تمام آزاروں کی دلی انشراح اور محبت سے برداشت کی اور ان صابرانہ اور عاجزانہ روشوں سے مخالفوں کی شوخی دن بدن بڑھتی گئی اور انہوں نے اس مقدس جماعت کو اپنا ایک شکار سمجھ لیا۔ تب اس خدا نے جو نہیں چاہتا کہ زمین پر ظلم اور بے رحمی حد سے گزر جائے اپنے مظلوم بندوں کو یاد کیا اور اس کا غضب شریروں پر بھڑکا اور اس نے اپنی پاک کلام قرآن شریف کے ذریعہ سے اپنے مظلوم بندوں کو اطلاع دی کہ جو کچھ تمہارے ساتھ ہو رہا ہے مَیں سب کچھ دیکھ رہا ہوں۔ مَیں تمہیں آج سے مقابلہ کی اجازت دیتا ہوں اور مَیں خدائے قادر ہوں، ظالموں کو بے سزا نہیں چھوڑوں گا۔ یہ حکم تھا جس کا دوسرے لفظوں میں جہادنام رکھا گیا اور اس حکم کی اصل عبارت جو قرآن کریم میں اب تک موجود ہے یہ ہے اُذِنَ لِلَّذِیۡنَ یُقٰتَلُوۡنَ بِاَنَّہُمۡ ظُلِمُوۡا ؕ وَ اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی نَصۡرِہِمۡ لَقَدِیۡرُ ۣ۔الَّذِیۡنَ اُخۡرِجُوۡا مِنۡ دِیَارِہِمۡ بِغَیۡرِ حَقٍّ(الحج: 41-40) یعنی خدا نے ان مظلوم لوگوں کی جو قتل کئے جاتے ہیں اور ناحق اپنے وطن سے نکالے گئے فریاد سن لی اور ان کو مقابلہ کی اجازت دی گئی اور خدا قادر ہے جو مظلوم کی مدد کرے۔ (الجزو 17سورۃ الحج) مگر یہ حکم مختص الزمان و الوقت تھا ہمیشہ کے لئے نہیں تھا (اس زمانے کے لئے اور اس وقت کے لئے مختص تھا، خاص تھا) بلکہ اس زمانے کے متعلق تھا جبکہ اسلام میں داخل ہونے والے بکریوں اور بھیڑوں کی طرح ذبح کئے جاتے تھے‘‘۔ (گورنمنٹ انگریزی اور جہاد۔ روحانی خزائن جلد 17صفحہ 6-5)
پس اللہ تعالیٰ جو سب طاقت والوں سے زیادہ طاقتور اور قوی ہے اس کا غضب مظلوم کے لئے بھڑکا اور جیسا کہ دنیا جانتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان مظلوموں کو جو مکّہ میں آگ پر لٹائے جاتے تھے، جن کی ننگی پیٹھوں پر کوڑے مارے جاتے تھے، جن کے جسموں کو چیرا جاتا تھا اسی قوی خدا کی مدد اور نصرت سے نہ صرف ظلم سے بچایا بلکہ قیصر و کسریٰ کی حکومت کے والی بنا دئیے گئے۔ پس یہ ہے قوی خدا کی شان۔ جیسا کہ مَیں نے کہا کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے اپنے قوی ہونے کا ذکر کئی آیات میں کیا ہے اور تقریباً ہر جگہ اللہ تعالیٰ اور انبیاء کے دشمنوں کے بدانجام کا ذکر فرمایا ہے یا بعض نصیحتیں فرمائی ہیں۔ دو مختلف آیتیں مَیں نے پڑھی ہیں۔ لیکن آئندہ کے لئے بھی اس میں خوشخبری دی ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ آئندہ بھی غالب آئیں گے۔ جیسا کہ سورۃ مجادلہ میں خداتعالیٰ فرماتا ہے کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْ۔ اِنَّ اللّٰہَ قَوِیٌّ عَزِیْزٌ (المجادلہ: 22) کہ اللہ نے لکھ رکھا ہے کہ ضرور مَیں اور میرے رسول غالب آئیں گے۔ یقینا اللہ بہت طاقتور اور کامل غلبہ والا ہے۔
یہ تاریخی حقیقت ہے کہ حق ہمیشہ کامیاب ہوتا ہے۔ ہمیشہ تمام انبیاء کے مخالفین اپنے بدانجام کو پہنچے ہیں۔ جب تک مسلمان اسلام کی حقیقی تعلیم کے علمبردار رہے اور اس پر عمل کرنے والے بنے رہے کامیابیاں ان کے قدم چومتی رہیں۔ جب نہ دین باقی رہا نہ اسلام باقی رہا تواپنی اپنی حکومتیں بچانے کی فکر میں سارے لگ گئے کہ کم از کم جو چھوٹی چھوٹی حکومتیں ہیں وہی بچ جائیں۔ آجکل مسلمانوں کی جو حالت ہے وہ ایسی تو نہیں جس کے متعلق کہا جا سکے کہ مسلمانوں کی بڑی شان و شوکت ہے۔ دوسرے لوگ ان کی اس شان کو دیکھ کر ان کی طرف رشک سے دیکھنے والے ہیں۔ یا اس شان و شوکت کی وجہ سے بعض ملک ان کی طرف حسد سے دیکھنے والے ہیں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ بعض ملکوں کی جو تیل کی دولت ہے اس پر غیروں کی نظر ہے اور وہ اس دولت کی طرف دیکھنے والے ہیں۔ بلکہ مسلمان جو ہیں دولتمند ترین ملک بھی اپنی بقا کے لئے غیر مسلموں کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ پس اس وقت بظاہر مسلمانوں کی نہ شان و شوکت ہے، نہ ہی ترقی کے آثار نظر آ رہے ہیں۔ ہاں گراوٹ اور ذلت جو ہے وہ ہر اس شخص کو نظر آتی ہے جو اسلام کا درد رکھنے والا ہے تو کیا اللہ تعالیٰ کا غلبہ کا جویہ وعدہ ہے یہ نعوذ باللہ غلط ہو رہا ہے یا اس غلبہ کے وعدے کی مدت گزر چکی ہے اور یہ ایک وقت تک کے لئے تھا۔ یا اللہ تعالیٰ کے قوی ہونے کی صفت میں کوئی کمی آ گئی ہے۔ یہ ساری باتیں غلط ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا وعدہ بھی سچا ہے اور اسلام جوتا قیامت رہنے اور ترقی کرنے والا مذہب ہے اس کے بارہ میں جو پیشگوئی ہے وہ بھی سچی ہے اور اللہ تعالیٰ کی تمام صفات کی طرح قوی ہونے کی صفت بھی ہمیشہ قائم رہنے والی ہے اور قائم رہے گی اور اسی غلبہ اور قوی ہونے کی صفت ثابت کرنے کے لئے اس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اس زمانے کا امام بنا کر بھیجا ہے۔ جنہیں خود بھی انہی الفاظ میں اللہ تعالیٰ نے الہاماً فرمایا تھا کہ کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْ۔ پس دین اسلام کی روشنی نے دوبارہ دنیا میں پھیلنا ہے اور یہ دین مضبوطی کے ساتھ دنیا میں قائم ہونا ہے۔ اپنے قوی ہونے کے بارے میں بھی اور اس حوالے سے کہ آپ کی تائید اور نصرت بھی اللہ تعالیٰ فرمائے گا اس بارے میں بھی اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو کئی مرتبہ الہام کے ذریعہ سے اطلا ع دی۔ ایک جگہ حضرت مسیح موعودؑ کو مخاطب کرکے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ قُوَّۃُ الرَّحْمٰنِ لِعُبَیْدِ اللّٰہِ الصَّمَدِ۔ (تذکرہ۔ صفحہ 82۔ ایڈیشن چہارم 2004ء مطبوعہ ربوہ) کہ یہ خدا کی قوت ہے کہ جو اپنے بندے کے لئے وہ غنی مطلق ظاہر کرے گا۔ پھر فرمایا: ’’اِنَّہٗ قَوِیٌّ عَزِیْزٌ‘‘۔ وہ قوی اور غالب ہے۔ (تذکرۃالشہادتین۔ روحانی خزائن جلد 20صفحہ 6-5)
پھر ایک جگہ فرماتا ہے اِنَّ رَبِّیْ قَوِیٌّ قَدِیْرٌ اِنَّہٗ قَوِیٌّ عَزِیْزٌ۔ میرا رب زبردست قدرت والا ہے۔ اور وہ قوی اور غالب ہے۔ (حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن جلد 22صفحہ107)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا الہام ہے کہ ’’مَیں اپنی چمکار دکھلاؤں گا۔ اپنی قدرت نمائی سے تجھ کو اٹھاؤں گا۔ دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اُسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کردے گا۔ اَلْفِتْنَۃُ ھٰھُنَا فَاصْبِرْ کَمَا صَبَرَ اُوْلُوا الْعَزْمِ۔ اس جگہ ایک فتنہ ہے سو اولواالعزم نبیوں کی طرح صبر کر۔ فَلَمَّا تَجَلّٰی رَبُّہُ لِلْجَبَلِ جَعَلَہُ دَکًّا۔ جب خدا مشکلات کے پہاڑ پر تجلی کرے گا تو انہیں پاش پاش کر دے گا۔ قُوَّۃُ الرَّحْمٰنِ لِعُبَیْدِ اللّٰہِ الصَّمَدِ۔ یہ خدا کی قوت ہے کہ جو اپنے بندے کے لئے وہ غنی مطلق ظاہر کرے گا۔ مَقَامٌ لَا تَتَرَقَّی الْعَبْدُ فِیْہِ بِسَعْیِ الْاَعْمَالِ۔ یعنی عَبْدُاللّٰہِ الصَّمَد ہونا ایک مقام ہے کہ جو بطریق موہبت خاص عطا ہوتاہے۔ کوششوں سے حاصل نہیں ہو سکتا‘‘۔ (براہین احمدیہ۔ روحانی خزائن جلد اول صفحہ 665۔ حاشیہ در حاشیہ نمبر 4)
اللہ تعالیٰ کا بندہ بننا یا بے نیاز ہونا یہ ایک ایسا مقام ہے جو اللہ تعالیٰ کی ایک خاص عطا ہے اور خاص عطا اسی وقت ہوتی ہے جب بندہ اللہ تعالیٰ کی طرف بڑھتا ہے لیکن پھر بھی عطا اللہ تعالیٰ کی عطا ہی ہے۔ انعام جو ہے اللہ تعالیٰ کا انعام ہی ہے۔ کسی کوشش سے عطا نہیں ہوتالیکن بہرحال اس سے اللہ تعالیٰ سے بندے کا ایک تعلق ظاہر ہوتا ہے جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اپنی طرف سے عطا فرماتا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں: ’’مجھے اللہ جلّشانہ نے یہ خوشخبری بھی دی ہے کہ وہ بعض امراء اور ملوک کو بھی ہمارے گروہ میں داخل کرے گا اور مجھے اس نے فرمایا کہ مَیں تجھے برکت پر برکت دوں گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے‘‘۔ (برکات الدعا۔ روحانی خزائن جلد 6صفحہ 35)
فرمایا کہ: ’’یہ برکت ڈھونڈنے والے بیعت میں داخل ہوں گے اور ان کے بیعت میں داخل ہونے سے گویا سلطنت بھی اس قوم کی ہو گی۔ (یعنی جب بادشاہ داخل ہوں گے تو قومیں بھی داخل ہوں گی) پھر مجھے کشفی رنگ میں وہ بادشاہ دکھائے بھی گئے۔ وہ گھوڑوں پر سوار تھے اور چھ سات سے کم نہ تھے۔ (تذکرہ صفحہ 8۔ ایڈیشن چہارم2004ء۔ مطبوعہ ربوہ)
پس یہ کوئی خوش فہمیاں نہیں ہیں۔ بلکہ یہ اس خدا کا وعدہ ہے جو قوی ہے۔ جو سب طاقتوں والا ہے اور ہمیشہ اپنے انبیاء سے کئے گئے وعدے پورے کرتا آیا ہے اور آج تک بے انتہا وعدے ہم پورے ہوتے دیکھ بھی رہے ہیں۔ دیکھ چکے ہیں۔ ہماری مظلومیت کی حالت کو دیکھ کر جو بعض ملکوں اور خاص طور پر اسلامی ملکوں میں ہے یا ہمارے اپنے ملک پاکستان میں بھی ہے، دنیا یہ سمجھے گی کہ یہ کسی دیوانے کی بڑ ہے یہ لوگ باتیں کرتے ہیں۔ لیکن ہمیشہ دنیا نے یہی سمجھا ہے اور خداتعالیٰ کی تقدیر ہمیشہ ہی غالب آئی ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:
’’یہ خداتعالیٰ کی سنت ہے اور جب سے کہ اس نے انسان کو زمین میں پیدا کیا ہمیشہ اس سنت کو وہ ظاہر کرتا رہا ہے کہ وہ اپنے نبیوں اور رسولوں کی مدد کرتا ہے اور ان کو غلبہ دیتا ہے۔ جیسا کہ وہ فرماتا ہے کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْ (المجادلہ: 22) اور غلبہ سے مراد یہ ہے کہ جیسا کہ رسولوں اور نبیوں کا یہ منشاء ہوتا ہے کہ خدا کی حجّت زمین پر پوری ہو جائے اور اس کا مقابلہ کوئی نہ کرسکے اسی طرح خداتعالیٰ قوی نشانوں کے ساتھ ان کی سچائی ظاہر کر دیتا ہے‘‘۔ (غلبہ کا مطلب یہ ہے کہ حجت زمین پر پوری ہو جائے کہ کوئی آگے دلیل نہ قائم کر سکے اور پیغام پہنچ جائے)۔ ’’اور جس راستبازی کو وہ دنیا میں پھیلانا چاہتے ہیں اس کی تخمریزی انہی کے ہاتھ سے کر دیتا ہے‘‘۔ (یعنی جو سچائی انبیاء لے کر آتے ہیں ان کا جوبیج ہے وہ انبیاء کے ذریعہ سے پھیلا دیتا ہے۔) ’’لیکن اس کی پوری تکمیل ان کے ہاتھ سے نہیں کرتا بلکہ ایسے وقت میں ان کو وفات دے کر جو بظاہر ایک ناکامی کا خوف اپنے ساتھ رکھتاہے مخالفوں کو ہنسی اور ٹھٹھے اور طعن اور تشنیع کا موقعہ دے دیتا ہے اور جب وہ ہنسی ٹھٹھا کر چکتے ہیں تو پھر ایک دوسرا ہاتھ اپنی قدرت کا دکھاتا ہے اور ایسے اسباب پیدا کر دیتا ہے جن کے ذریعہ سے وہ مقاصد جو کسی قدر ناتمام رہ گئے تھے اپنے کمال کو پہنچتے ہیں‘‘۔ (الوصیت۔ روحانی خزائن جلد 20صفحہ 304)
یہ الوصیت میں حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا ہے۔ پس اس دوسری قدرت میں کتنی جلدی ہم نے اس غلبہ کا مشاہدہ کرنا ہے اس کا انحصار ہمارے اللہ تعالیٰ سے تعلق اس سے محبت اس کے رسولﷺ سے محبت اور اس کی مخلوق کے حقوق کی ادائیگی سے ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک اور جگہ فرماتے ہیں کہ:
’’مَنْ کَانَ لِلّٰہِ کَانَ اللّٰہُ لَہٗ خداتعالیٰ کبھی کسی صادق سے بے وفائی نہیں کرتا۔ ساری دنیا بھی اگر اس کی دشمن ہو اور اس سے عداوت کرے تو اس کو کوئی گزندنہیں پہنچا سکتی‘‘ (اس کی دشمن ہو اور اس سے عداوت کرے تو اس کوکوئی گزندنہیں پہنچا سکتی۔) ’’خدا بڑی طاقت اور قدرت والا ہے اور انسان ایمان کی قوت کے ساتھ اس کی حفاظت کے نیچے آتا ہے اور اس کی قدرتوں اور طاقتوں کے عجائبات دیکھتا ہے پھر اس پر کوئی ذلت نہ آوے گی۔ یاد رکھو خداتعالیٰ زبردست پر بھی زبردست ہے بلکہ اپنے امر پر بھی غالب ہے۔ سچے دل سے نمازیں پڑھو اور دعاؤں میں لگے رہو اور اپنے سب رشتہ داروں اور عزیزوں کو یہی تعلیم دو۔ پورے طور پر خدا کی طرف ہو کر کوئی نقصان نہیں اٹھاتا۔ (خدا کی طرف ہو جاؤ۔ کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا۔) نقصان کی اصل جڑ گناہ ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد سوم صفحہ 64 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)
اللہ کرے کہ ہم ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے کامل وفاداروں میں رہیں۔ ہر گناہ سے بچنے والے ہوں اور اللہ تعالیٰ کی محبت کی آگ ہراحمدی اپنے دل میں اس شدت سے بھڑکائے کہ تمام آلودگیاں جل کر خاک ہوجائیں، راکھ ہو جائیں اور پھر ہم دنیا کو وہ نظارہ دکھائیں جس کے دکھانے کے لئے ہی ہمارے دل میں تمنااور آرزو ہے۔ اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو۔
(الفضل انٹرنیشنل جلد 16 شمارہ 44 مورخہ 30 اکتوبر تا 5 نومبر 2009ء صفحہ 5 تا صفحہ 8)
حقیقی مومن کی یہ تعریف ہے کہ اس کو خدا سے محبت سب محبتوں سے زیادہ ہوتی ہے۔ اللہ کی محبت تب کامل ہو گی جب اس کے رسول سے بھی بے غرض محبت ہو گی اور دوسرے انسانوں سے بھی ہو گی۔ حضرت اقدسؑ کے ارشاد کی روشنی میں محبت کی حقیقت کا ذکر۔ جہاد اور دوسری جنگوں میں فرق۔ آجکل مسلمانوں کا ہر جگہ ذلیل ہونا اس امر کا ثبوت کہ وہ جہادنہیں کر رہے۔ جہاد کی حقیقت۔ مسلمانوں کی پست حالت کا ذکر اور یہ کہ تیل کی دولت والے ممالک کی طرف دوسرے حسد کی نظر سے دیکھ رہے ہیں۔ اب اسلام کا غلبہ حضرت مسیح موعودؑ کے ذریعہ ہونا ہے اگرچہ کئی ممالک میں احمدیت مظلومیت کی حالت میں ہے۔
فرمودہ مورخہ 09؍اکتوبر 2009ء بمطابق09؍اخاء 1388 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن (برطانیہ)
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔