اللہ تعالیٰ کی صفت المتین

خطبہ جمعہ 16؍ اکتوبر 2009ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:

قرآن کریم میں ’’مَتِیْن‘‘ کا لفظ تین آیات میں، تین مختلف سورتوں میں استعمال ہوا ہے۔ ایک جگہ سورۃ اعراف میں، پھر سورۃ ذاریات میں اور سورۃقلم میں اور ہر جگہ اللہ تعالیٰ نے لفظ’’مَتِیْن‘‘ کو اپنی صفت کے طور پر بیان فرماتے ہوئے منکرین اور مشرکین کے بدانجام کی طرف اشارہ فرمایا۔ اس کا اظہار فرمایا ہے یا کچھ نصیحت فرمائی ہے۔ اس سے پہلے کہ ان جگہوں پر جس سیاق و سباق کے حوالہ سے اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمایا ہے، کچھ بیان کروں لفظ ’’مَتِیْن‘‘ کے لغوی معانی بیان کرتا ہوں۔ ایک تو اس کا عمومی استعمال ہے اور دوسرے خداتعالیٰ کے لئے لفظ ’’مَتِیْن‘‘ استعمال ہوتا ہے دونوں صورتوں میں اس کے کیا معنی بنتے ہیں؟ معنے تو ایک بنتے ہیں لیکن جب خداتعالیٰ کی ذات کے بارہ میں ہو گا تو بہرحال وسیع معنوں میں آئے گا۔ مَتُنَ کے معنی ہیں مضبوط پشت والا ہونا، مضبوط پشت والے آدمی کو جس کی مضبوط کمر ہومَتِیْن کہتے ہیں۔ بعض لغات میں لغت والے اس کو اس طرح بیان کرتے ہیں کہ کمر کے وہ پٹھے جو ریڑھ کی ہڈی کے ساتھ دائیں بائیں، اوپر سے نیچے جاتے ہیں۔ پھر اس کے معنی ٹھوس اور مضبوط کے بھی ہیں۔ لسان العرب میں جو مختلف معانی لکھے ہیں ان میں سے ایک معنی رَجُلٌ مَتْنٌ، اس شخص کو کہتے ہیں جو طاقتور ہو اور اس کی کمر مضبوط ہو۔

اللہ تعالیٰ کی صفت کے لحاظ سے لسانؔ میں اس کے یہ معنی لکھے ہیں کہ ذُوْالْقُوَّۃِ الْمَتِیْن۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ ذات جو اقتدار والی اور مضبوط ہو اور اَلْمَتِیْن اللہ تعالیٰ کی صفت کے لحاظ سے قوی کے معنوں میں ہے۔ ابن الاثیر کہتے ہیں کہ اس سے مراد وہ ذات ہے جو اتنی قوی اور مضبوط ہے کہ جس کو اپنے کاموں میں کوئی تکلیف یا مشقت یا تھکاوٹ نہیں ہوتی۔ اَلْمَتَان کا مطلب ہے شدت اور قوت۔ اور کوئی ذات قوی تب ہوتی ہے جب وہ اپنی قدرت کے کمال انتہا تک پہنچ جائے۔ اس لحاظ سے اللہ تعالیٰ کی ذات بہت زیادہ طاقت اور قوت والی ہے۔ یہ بھی لسان کے معنی ہیں۔ اسی طرح قَوِیْ کے لسان میں یہ معنی بھی لکھے ہیں طاقتور، ٹھوس اور مضبوط۔ پس اللہ تعالیٰ کی ذات ہے جو اپنی طاقت اور قوت کے کمال کے لحاظ سے اور مضبوط اور ٹھوس تدبیر کے لحاظ سے اپنے پیاروں اور انبیاء کی مخالفت کرنے والوں کے خلاف ایسی تدبیر کرتی ہے کہ جہاں تک مخالفین کی سوچ نہیں پہنچ سکتی کہ وہ اس کے مداوا کا کوئی سامان کر سکیں۔ اس کا مداوا صرف ایک ہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی پکڑ جب آنے والی ہے یا آ رہی ہے تو اس سے پہلے ہی جتنی استغفار کی جا سکتی ہے کر لی جائے اور توبہ کی جائے۔ گناہوں کی معافی مانگی جائے اور اسی طرح خود انبیاء کو بھی معین طور پر علم نہیں ہوتا کہ خدا نے مخالفین کو کس کس طریقہ سے اور کس ذریعہ سے پکڑنا ہے، سوائے اس کے کہ بعض دفعہ خداتعالیٰ خود اس کی نوعیت بتا دیتاہے۔ جیسا کہ آنحضرتﷺ کو بھی بدر کی جنگ میں بعض سرداران کفار کے انجام کے بارہ میں بتایا اور یہ بھی بتایا کہ اِن اِن جگہوں پر ان کی لاشیں گریں گی۔

یہ آیات جن کا مَیں نے ذکر کیا ہے ان کی اب میں کچھ وضاحت کرتا ہوں کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے مخالفین کے انجام کو اپنے ہاتھ میں لیا ہے اور اس حوالے سے کیا نصیحت فرمائی ہے۔

سورۃ اعراف کی آیات 184-183 میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَالَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا سَنَسْتَدْرِجُھُمْ مِّنْ حَیْثُ لَا یَعْلَمُوْنَ۔ وَاُمْلِیْ لَہُمْ۔ اِنَّ کَیْدِیْ مَتِیْنٌ(الاعراف: 184-183)۔ اور وہ لوگ جنہوں نے ہمارے نشانات کا انکار کیا ہم ضرور انہیں تدریجاً اس جہت سے پکڑیں گے جس کا انہیں کوئی علم نہیں ہو گا۔ اور مَیں انہیں مہلت دیتا ہوں۔ یقینا میری تدبیر بہت مضبوط ہے۔

پھر سورۃ القلم کی آیات میں فرمایا کہ فَذَرْنِیْ وَمَنْ یُّکَذِّبُ بِھٰذَالْحَدِیْثِ۔ سَنَسْتَدْرِجُھُمْ مِّنْ حَیْثُ لَا یَعْلَمُوْنَ۔ وَاُمْلِیْ لَہُمْ۔ اِنَّ کَیْدِیْ مَتِیْنٌ(القلم: 46-45) پس توُ مجھے اور اسے جو اس بیان کو جھٹلاتا ہے چھوڑ دے ہم انہیں رفتہ رفتہ اس طرح پکڑ لیں گے کہ انہیں کچھ علم نہ ہو سکے گا۔ اور مَیں انہیں ڈھیل دیتا ہوں۔ میری تدبیر یقینا بہت مضبوط ہے۔

اللہ تعالیٰ کے نشانوں کاانکار کرنے والے جنہوں نے مکّہ میں آنحضرتﷺ اور آپؐ کے صحابہؓ کا جینا دوبھر کیا ہوا تھاوہ نہیں جانتے تھے کہ اس ظلم اور زیادتی کی سزا کس طرح ان کو ملنے والی ہے۔ اس کا پہلا نظارہ اللہ تعالیٰ نے بدر کی جنگ میں دکھایا۔ یہ دونوں سورتیں جو ہیں مکّہ میں نازل ہوئی ہیں۔ سورۃ القلم کے بارے میں تو کہا جاتا ہے کہ ابتدائی چار پانچ سورتوں میں سے ہے بلکہ بعض کے نزدیک سورۃ الْعَلَقْ کے بعد کی سورۃ ہے۔ اسی طرح جو ذاریات ہے اس میں بھی یہ الفاظ آتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے ذوالقوۃ المتین ہونے کی بات کرتا ہے۔ تو یہ بھی مکی سورۃ ہے۔

بہرحال مکّہ میں مسلمانوں کی جو ناگفتہ بہ اور مظلومیت کی حالت تھی وہ تاریخ اسلام کا ایک دردناک باب ہے۔ لیکن ایسے وقت میں خداتعالیٰ آپﷺ کو یہ تسلی عطا فرما رہا ہے کہ مَیں متین ہوں۔ میری پکڑ بڑی مضبوط ہے۔ اور ایسی ٹھوس اور مضبوط پکڑ ہے کہ جس سے بچنا ان دشمنان اسلام کے لئے ممکن نہیں اور پھر جنگ بدر میں کس طرح انہیں گھیر کر ان کے تکبّراور غرور کو اللہ تعالیٰ نے تو ڑا، تاریخ ایسی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان دونوں سورتوں کی آیات میں اس بات کو بیان فرمایا ہے کہ جو لوگ ہمارے نشانات کو جھٹلاتے ہیں ان کو ہم ایسا پکڑیں گے کہ ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہو گا کہ یہ ہو کیا گیا ہے۔ یا ہمارے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے نبی جو لوگ تجھے جھٹلا رہے ہیں ان کے جھٹلانے کی پرواہ نہ کر۔ اے رسول! اس جھٹلانے کی وجہ سے تجھ پر اور تیرے ماننے والوں پر جو ظلم ہو رہے ہیں ان کو میرے لئے چھوڑ دے۔ یہ نہ سمجھ کہ وہ اپنے ظلموں میں کامیاب ہو جائیں گے یا وہ اپنے ظلموں کی وجہ سے مومنوں کو تجھ سے دُور کر دیں گے۔ نہیں وہ کبھی ایسا نہیں کر سکتے۔ مَیں جو سب طاقتوں کا مالک ہوں۔ جو مضبوط اور ٹھوس تدبیر کرنے والااور طاقتور ہوں۔ مَیں انہیں اس طرح ان کا انجام دکھاؤں گا کہ وہ عبرت کا نشان بن جائیں گے۔ اگر مَیں انہیں کچھ ڈھیل دے رہا ہوں تو اس لئے کہ شاید ان میں سے کچھ اصلاح کر لیں اور شیطانی حرکتوں سے باز آ جائیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ نعوذ باللہ خداتعالیٰ کمزوری دکھا رہا ہے جو ان کو ڈھیل دے رہا ہے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہر چیزاور ہر انسان کی اور ہر مخلوق کی جان ہے بلکہ ہر چیز اس کی پیدا کردہ ہے اور اسی کے قبضہ قدرت میں ہے اور اللہ تعالیٰ جب چاہے ان کو پکڑ سکتا ہے۔ اس لئے خدا تعالیٰ کو کوئی جلدی نہیں ہے۔ جب چاہے گا ان ظالموں کے ظلموں کی وجہ سے ان کو پکڑ کے پیس ڈالے گا۔ اگر باز نہیں آئیں گے تو خداتعالیٰ کی چکی اس قدر زور سے چلے گی جو ان کو بالکل خاک کر دے گی۔ پس یہ تسلی تھی جو اللہ تعالیٰ نے اس وقت آنحضرتﷺ کو مکّہ میں دی جب ان پر ظلم ہو رہے تھے۔ فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی جو لامحدود حکمت ہے جب ضروری سمجھے گی ان بدکرداروں کے انجام تک انہیں پہنچائے گی اور جب خداتعالیٰ کی تقدیر فیصلہ کر لے کہ دشمن کا کیا انجام ہونا ہے تو جیسا کہ لفظ متین سے ظاہر ہے اور پہلے بھی بیان ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے پیاروں کے دشمنوں کو اپنی بڑی مضبوط گرفت میں لے لیتا ہے اور اللہ تعالیٰ کوآنحضرتﷺ سے زیادہ کون پیارا ہو سکتا ہے۔ جیسا کہ مَیں نے کہاخداتعالیٰ کو آنحضرتﷺ سے زیادہ پیارا تو کوئی اور نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے بدر کی جنگ میں اپنے اس محبوب کی مدد کرنے کا اور ظالموں کو گرفت میں لینے کا ایک عظیم مظاہرہ دکھایا۔ عتبہ، شیبہ اور ابوجہل جیسے سرداران جومسلمانوں پر ظلم کرتے ہوئے اپنے آپ کو سب طاقتوں کا مالک اور بڑا مضبوط سمجھا کرتے تھے۔ وجاہت کے لحاظ سے بھی اور جسمانی لحاظ سے بھی بڑی مضبوط گرفت والا سمجھتے تھے۔ وہ سب خاک و خون میں لتھڑے ہوئے عبرت کا نشان بنے ہوئے تھے۔ ابو جہل جو تکبر میں اور طاقت کے گھمنڈ میں سب کو پیچھے چھوڑتا تھا۔ گویا کہ اس وقت وہ فرعونِ وقت تھا اس سے خداتعالیٰ نے کس طرح انتقام لیا؟ اور بدانجام کو پہنچا کہ اس کا قتل بھی دو کمسن انصاری بچوں نے کیا اور آخر وقت اس نے کہا کہ کاش مَیں کسی کسان کے ہاتھ سے قتل نہ ہوا ہوتا۔ مدینہ کے لوگ کیونکہ زراعت پیشہ تھے اور مکّہ کے جو کفار تھے وہ ان کے زراعت پیشہ ہونے کی وجہ سے انہیں کسان کہتے تھے اور انہیں تحقیر کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ایسا انتقام لیا کہ نہ صرف کسانوں سے بلکہ کسانوں کے بچوں سے اس کو قتل کروایا۔ اسی طرح بعض دوسرے سردار تھے جن کو قید کی ذلت برداشت کرنا پڑی۔ آنحضرتﷺ نے جب مکّہ کے ان 24سرداروں جو جنگ میں قتل ہوئے تھے اکٹھا دفنانے کا حکم فرمایا تو جب ان کو وہاں دفنا دیا گیا یا جب دفنایا جا رہا تھا، آپؐ اس گڑھے کے پاس تشریف لائے جس میں 24 لاشیں دفنائی گئی تھیں اور اُن مُردوں کو مخاطب کرکے فرمایا ھَلْ وَجَدْتُمْ مَا وَعَدَکُمُ اللّٰہُ حَقًّا فَاِنِّیْ وَجَدْتُ مَا وَعَدَنِیَ اللّٰہُ حَقًّا کہ کیا تم نے اُس وعدہ کو حق پایا جو خدا نے میرے ذریعہ تم سے کیا تھا؟ یقینا مَیں نے اس وعدہ کو حق پالیا ہے جو خداتعالیٰ نے مجھ سے کیا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس موقع پر فرمایا کہ یہ مرے ہوئے لوگ ہیں آپؐ ان سے کیا مخاطب ہو رہے ہیں۔ تو آنحضرتﷺ نے فرمایا تمہیں نہیں پتہ یہ مرے ہوئے تو ہیں لیکن اس وقت یہ جس جگہ پہنچ چکے ہیں وہاں یہ میرے الفاظ سن رہے ہیں۔ (مسند احمد بن حنبل جلد اول مسند عمر بن الخطابؓ، حدیث نمبر 182 صفحہ 130 عالم الکتب بیروت 1998ء)

پس جب خداتعالیٰ نے اپنے پیارے نبی سے کہا کہ ان کا معاملہ مجھ پر چھوڑ، دیکھ مَیں ان کے ساتھ کیا کرتا ہوں توتھوڑے سے، معمولی سے جنگی سازو سامان کے ساتھ ایک تجربہ کار اور تمام تر جنگی ساز وسامان سے لیس فوج کی اس طرح کمر توڑی کہ دنیاوی تدبیر سے نہ اتنی فاش شکست دی جا سکتی ہے نہ دنیا نے کبھی یہ نظارہ دیکھا۔ اور پھر یہیں پر بس نہیں بلکہ فتح مکّہ تک اور اس کے بعد بھی خداتعالیٰ نے پکڑکے یہ نظارے دکھائے۔ شاہ ایران نے اگر آنحضرتﷺ پر ہاتھ ڈالنے کی کوشش کی تو اللہ تعالیٰ نے اسے اُس کے بیٹے کے ذریعہ سے پکڑا۔ اور پھر الٰہی تقدیر یہیں پر ہی نہیں رکی۔ آپؐ کی وفات کے بعدزیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ یہ مملکت بھی آپؐ کے زیر نگیں ہو گئی۔ شاہ ایران نے تو مٹی کا بورا عاصم بن عمرو کے کندھے پر ذلیل کرنے کے لئے اٹھو ایا تھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اس مٹی کے بورے کو ہی ایران کی فتح کا نشان بنا دیا۔ تو یہ ہے اللہ تعالیٰ کے قوی اور متین ہونے کی نشانی اور وہ اس طرح پکڑتا ہے کہ جب وقت آتا ہے تو کمزوروں کو طاقتوروں پر حاوی کر دیتاہے۔

اب واپس آنحضرتﷺ کے زمانے کی طرف آتے ہوئے ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے دشمنوں کو سمجھنے کا موقع بھی عطافرمایا تھا کہ شاید وہ سمجھ جائیں اور جب آنحضرتﷺ ہجرت فرما رہے تھے اس وقت بھی ایسے موقعے آئے کہ اگر اس وقت اپنی وہ اپنی فرعونی صفت نہ دکھاتے اور سوچنے کی طرف توجہ دیتے تو پھر کبھی بدرکی جنگ کا معاملہ پیش نہ آتا۔

ہجرت کے وقت بھی تین مواقع آئے اور جیسا کہ مَیں نے کہا کہ اگر سوچنے کی عقل ہوتی اور نیک فطرت ہوتی تو انہیں یقینا اس بات پر سوچنے پر مجبور کرتی کہ کوئی طاقت ہے جو آنحضرتﷺ کے ساتھ ہے۔ اگر یہ طاقت آنحضرتﷺ کو بچا سکتی ہے تو وہ طاقت ہمیں بھی اپنی گرفت میں لے سکتی ہے۔ پہلے تو جب آنحضرتﷺ باوجود پہرے کے ان لوگوں کے سامنے سے گزر کر گھر سے نکلے اور اللہ تعالیٰ نے ان کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا تو اس وقت اُن کے لئے سوچنے کا موقع ہونا چاہئے تھا۔ پھر جب غار میں حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ بیٹھے تھے۔ پاؤں کے نشان بھی نظر آ رہے تھے اور کھوجی بھی وہاں تک لے گیا تھا۔ ۔ لیکن مکڑی کے جالے کی وجہ سے انہوں نے اس طرف توجہ نہیں دی۔ کھوجی نے یہی کہا کہ یا تو غار کے اندرہیں یا آسمان پر چڑھ گئے ہیں اس وقت بھی ان کو سوچنے کا موقع نہیں ملاکیونکہ ان بدفطرتوں نے اپنے انجام کو پہنچنا تھا۔ اسی لئے کسی نے اس بات پر غور نہیں کیا۔ پھر سفر کے دوران بھی آپ کو پکڑنے کی تمام کوششیں ناکام ہوئیں اور آخر اللہ تعالیٰ نے جیسا کہ ہم جانتے ہیں خیریت سے آپ کو مدینہ پہنچایا اور اس کے بعد وقتاً فوقتاً دشمنوں سے اللہ تعالیٰ جو سلوک فرماتا رہا اس کا مَیں پہلے بھی ذکر کر آیا ہوں کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے بدر سے لے کر فتح مکّہ تک اور اس کی بعدکی جنگوں میں بھی آپؐ کو محفوظ رکھا اور دشمنوں کی پکڑ کی۔

اللہ تعالیٰ ایک جگہ قرآن کریم میں فرماتا ہے وَلَا یَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوٓا اَنَّمَا نُمْلِیْ لَہُمْ خَیْْرٌ لِّاََنْفُسِہِمْ۔ اِنَّمَا نُمْلِیْ لَہُمْ لِیَزْدَادُوْآ اِثْمًا۔ وَلَہُمْ عَذَابٌ مُّہِیْنٌ (آل عمران: 179) اور ہرگز وہ لوگ گمان نہ کریں جنہوں نے کفر کیا کہ ہم جو انہیں مہلت دے رہے ہیں یہ ان کے لئے بہتر ہے۔ ہم تو انہیں محض اس لئے مہلت دے رہے ہیں تاکہ وہ گناہوں میں اور بھی بڑھ جائیں اور ان کے لئے رسوا کر دینے والا عذاب مقدر ہے۔

پس جہاں اللہ تعالیٰ اس لئے چھُوٹ دیتا ہے کہ جو نیک فطرت ہیں وہ سمجھ جائیں اور حق کو پہچان کر اللہ تعالیٰ کی پکڑ سے محفوظ ہو جائیں۔ وہاں زیادتیوں اور ظلموں سے بڑھنے والوں کو یہ چھوٹ، یہ ڈھیل ظلموں میں بڑھاتی ہے اور وہ گناہوں میں مزید مبتلا ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے کا انکار کرکے اور زیادہ اپنے گناہوں میں اضافہ کر رہے ہوتے ہیں اور پھر وہ لوگ سب سے زیادہ طاقتور اور مضبوط ہستی کی پکڑ میں آ کر ذلیل و رسوا کرنے والے عذاب میں مبتلا کر دئیے جاتے ہیں۔ پھر ایسے لوگوں کے لئے توبہ کا کوئی راستہ نہیں کھلا ہوتا۔ پھر وہ اللہ تعالیٰ کی ایسی چکی میں پستے ہیں جو ان کے باریک سے باریک ذرّے کرکے رکھ دیتی ہے۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرعون کی مثال دے کر فرمایا ہے کہ جس طرح فرعون کو ڈھیل دی اور پھر پکڑا اسی طرح آنحضرتﷺ کے دشمنوں کو بھی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مَیں پکڑوں گا اور پھر پکڑکر دکھایا۔ اللہ تعالیٰ کے پکڑنے کے اپنے طریقے ہیں۔ آنحضرتﷺ کا دور جو ایک جلالی دور بھی تھا اور جنگوں کا بھی زمانہ تھا کیونکہ دشمنوں نے آپؐ پر جنگیں مسلط کی تھیں، اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اسی طریقہ سے دشمنوں کو پکڑا کہ وہ اس وقت کی ضرورت تھی۔ اللہ تعالیٰ نے دشمنان اسلام کو اُسی حربہ کے ذریعہ سے ذلیل و رسوا کیا جو وہ مسلمانوں پر استعمال کرتے تھے اور اپنی مضبوط پکڑ کا اظہار فرمایا۔

آج بھی اللہ تعالیٰ کی صفت متین کام کر رہی ہے اور قائم ہے جیسے پہلے قائم تھی۔ اُمْلِیْ لَہُمْ اِنَّ کَیْدِیْ مَتِیْنٌ کے نظارے خداتعالیٰ آج بھی دکھاتا ہے اور آئندہ بھی دکھائے گا۔ لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانے میں تلوار کے جہاد کے ذریعہ سے نہیں جیسا کہ مَیں نے کہا، ہر زمانے میں اللہ تعالیٰ نے پکڑنے کے اپنے طریقے رکھے ہوئے ہیں۔ بلکہ جو بانی ٔاسلامﷺ پر ظالمانہ طور پر الزام لگانے والے ہیں اور استہزاء کا نشانہ بناتے ہیں، انہیں ایسے طریقہ سے پکڑے گا جس کے بارہ میں ہم سوچ نہیں سکتے۔ اللہ تعالیٰ کو پتہ ہے کس طرح پکڑنا ہے اور اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں ایسے لوگوں کو پکڑ کر پھر بتایا بھی۔ ان کو عبرت کا نشانہ بھی بنایا اور دنیا نے دیکھا۔ اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ سے جو گُر بتایا ہے وہ یہ ہے کہ پکڑ تو میری آنی ہے لیکن جہاد کے ذریعہ سے پکڑ نہیں ہونی۔ پکڑ تو اللہ تعالیٰ نے اپنے طریقہ سے کرنی ہے تم لوگوں نے کیا کرنا ہے لیکن جو طریق کار اختیار کرنا ہے اس میں تمہارا حصہ یہ ہو کہ تم دعا کا ہتھیار استعمال کرو اور یہ دعا کا ہی ہتھیار ہے جس کو ہم نے دیکھا۔ اس ہتھیار نے پنڈت لیکھرام کو بھی کچھ عرصہ ڈھیل دینے کے بعد اپنے انجام تک پہنچایا۔ عبداللہ آتھم کو بھی، ڈوئی کو بھی انجام تک پہنچایا اور باقی مخالفین بھی اپنے انجام کو پہنچے۔

پس آج بھی جو لوگ آنحضرتﷺ کے بارہ میں استہزاء اور نازیبا کلمات کہتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی پکڑ سے محفوظ نہیں ہیں چاہے وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھنے والے ہیں یا لامذہب ہیں۔ قرآن کریم جو آنحضرتﷺ کے واقعات کے علاوہ باقی انبیاء کے واقعات بھی بیان کرتا ہے کہ جب بھی مخالفین نے ان انبیاء کو دکھ پہنچائے تو اللہ تعالیٰ نے ایک مدت کے بعد، کچھ عرصے کے بعد، انہی کی تدبیریں ان پر الٹا دیں اور اپنے انبیاء کی حفاظت فرمائی۔ انسانی عقل اُس انتہا تک نہیں پہنچ سکتی جہاں اللہ تعالیٰ نے اپنے پیاروں کے حق میں دشمنوں کی سزا کا فیصلہ کیا ہوتا ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دشمنوں کو بھی اللہ تعالیٰ نے بعض کو موت دے کر عبرت کا نشان بنایا۔ بعض کو ڈھیل دے کر اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کامیابیاں دکھا کر انہیں اپنی آگ میں جلنے پر مجبور کیا۔ یہ بھی ان کے لئے پکڑ تھی۔

پس یہ فیصلہ خداتعالیٰ نے اپنے پاس رکھا ہوا ہے کہ کس کو کس طرح پکڑنا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے الہاماً فرمایا کہ وَمَکَرُوا وَمَکَرَاللّٰہُ وَاللّٰہُ خَیْرُ الْمَاکِرِیْنَ ثُمَّ یَتَقَضّٰی عَلَی الْمَاکِرِیْن  (تذکرہ صفحہ 219۔ ایڈیشن 2004ء مطبوعہ ربوہ) اور انہوں نے بھی تدبیریں کیں اور اللہ نے بھی تدبیریں کیں اور اللہ تدبیر کرنے والوں میں سب سے بہتر ہے۔ پھر وہ تدبیرکرنے والوں پر جھپٹ پڑے گا۔ یَتَقَضّٰی عَلَی الْمَاکِرِیْنَ تدبیرکرنے والوں پر جھپٹ پڑے گا۔ اس کو مزید کھولیں تو یہ اس طرح بنے گا کہ اللہ تعالیٰ ان کو فنا کرنے کے لئے ان پر جھپٹے گا۔

پس جب اللہ تعالیٰ تدبیر کرتا ہے تو کسی کی زندگی ختم کرکے فنا کرتا ہے اور کسی کی عزت خاک میں ملا کر اس کو دنیا میں ذلیل و رسوا کر دیتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کی تقدیر تو اپنا کام کرے گی اور کر رہی ہے۔ لیکن ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ آنحضرتﷺ جو اللہ تعالیٰ کے سب سے پیارے تھے اور جن کو کامل اور مکمل شریعت کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے مبعوث فرمایا تھا اور سب سے زیادہ اگر کسی نبی کی پیشگوئیاں اس کی زندگی میں پوری ہوئیں تو وہ آنحضرتﷺ کی ذات ہے۔ آپ سے بھی اللہ تعالیٰ نے یہی فرمایا۔ قرآن کریم میں اس کا ذکر بھی آتا ہے کہ فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ۔ اِنَّ شَانِئَکَ ھُوَ الْاَبْتَرُ(الکوثر4-3) کہ تو اپنے ربّ کی بہت زیادہ عبادت کراور اس کی خاطر قربانی کے معیار قائم کر۔ پس یہ حکم اُمّت کے لئے بھی ہے اور یہ عبادتیں اور ہر قسم کی قربانیوں کے اعلیٰ معیار ہیں جو خداتعالیٰ کے فضلوں کو پہلے سے بڑھ کر سمیٹیں گے اور ہر قسم کی قربانیوں کے معیار قائم کرنے کی آج بھی ضرورت ہے۔

آنحضرتﷺ کو اللہ تعالیٰ نے ان عبادتوں اور قربانیوں کے وہ اعلیٰ معیار قائم کرنے کی توفیق عطا فرمائی جو انسانی سوچ سے بھی باہر ہے۔ لیکن ایک اُسوۂ حسنہ آپ ہمارے لئے قائم فرما گئے اور اللہ تعالیٰ نے پھر اس معیار پر پہنچنے کے بعد اپنا وعدہ بھی پو را فرمایا۔ وہی لوگ جو آنحضرتﷺ پر یہ اعتراض کرتے تھے کہ آپ کی نسل چلانے والی اولادنہیں یعنی آپؐ کے ہاں لڑکے نہیں ہیں۔ ان کو اللہ تعالیٰ یہ جواب دے رہا ہے کہ وہ خود ابتر ہیں۔ آئندہ دیکھیں کیا نظارے ان کے ساتھ ہوتے ہیں۔ کس طرح اللہ تعالیٰ ان کو ذلیل کرتا ہے اور پھردنیا نے دیکھا کہ جن لڑکوں کو وہ اپنی اولاد سمجھتے تھے ایک وقت آیا کہ وہی لڑکے اللہ تعالیٰ کی پیشگوئی کے مطابق اپنے باپوں کی طرف منسوب ہونے کی بجائے آنحضرتﷺ کی طرف منسوب ہونے میں اپنی عزت اور افتخار سمجھتے تھے۔ چنانچہ اسلام کے غالب آنے کے بعد سرداران قریش کی تمام اولاد آنحضرتﷺ کی آغوش میں آگئی اور وہ اس بات پر فخر کرتے تھے۔ عکرمہ ابوجہل کا بیٹا تھا۔ لیکن مسلمان ہوئے تو جان کی بازی آنحضرتﷺ کے لئے اور آپؐ کے دین کے لئے لگا دی اور ہر وقت لگانے کے لئے تیار رہے۔ ولید آنحضرتﷺ کا بڑا دشمن تھا۔ اس کے بیٹے حضرت خالدؓ نے اسلام کے لئے وہ جوہر دکھائے جن کی مثال نہیں ملتی۔ آپ کا ایک بڑا دشمن عاصی نام کا تھا اور اس کے بیٹے حضرت عمرو بن عاص نے اسلام کی کئی شاندار خدمات سرانجام دیں اور اسلام میں بڑے پائے کے جرنیل مانے جاتے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ ہے جو سب طاقتوروں سے زیادہ طاقتور اور سب تدبیر کرنے والوں سے زیادہ تدبیر کرنے والا ہے۔ وہ آنحضرتﷺ کی شان کو بلند سے بلند کرتا چلا گیا اور دشمن ناکام و نامراد ہوتا چلا گیا اور اس کی اولاد بھی اللہ تعالیٰ نے پھر آنحضرتﷺ کی جھولی میں ڈال دی۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھی یہی الہام ہوا تھا کہ اِنَّ شَانِئَکَ ھُوَ الْاَبْتَرُ۔ (تذکرہ صفحہ 219۔ ایڈیشن چہارم 2004ء مطبوعہ ربوہ)

اور پھردنیا نے دیکھا کہ کس طرح اللہ نے دشمن کو کئی مواقع پر خائب و خاسر کیا اور آج تک کرتا چلا جا رہا ہے۔ یہ نظارے ہم نے دیکھے۔ کیا یہ خداتعالیٰ کی مضبوط تدبیرکرنے کی دلیل نہیں ہے؟ یا کیا یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے وعدے پور ے ہونے کا اظہار نہیں؟ یقینا ہے اور اس پر احمدیوں کو غور بھی کرنا چاہئے اور سوچنا بھی چاہئے اور ان وعدوں کے اپنی زندگیوں میں پورا ہوتے دیکھنے کے لئے دعاؤں کی طرف بہت توجہ دینی چاہئے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ’’بجز خدا کے انجام کون بتلا سکتاہے اور بجزا س غیب دان کے آخری دنوں کی کس کو خبر ہے۔ دشمن کہتا ہے کہ بہتر ہو کہ یہ شخص ذلت کے ساتھ ہلاک ہو جائے اور حاسد کی تمنا ہے کہ اس پر کوئی ایسا عذاب پڑے کہ اس کا کچھ بھی باقی نہ رہے۔ لیکن یہ سب لوگ اندھے ہیں اور عنقریب ہے کہ ان کے بدخیالات اور بدارادے انہی پر پڑیں۔ اس میں شک نہیں کہ مفتری بہت جلد تباہ ہو جاتا ہے اور جو شخص کہے کہ مَیں خداتعالیٰ کی طرف سے ہوں اور اس کے الہام اور کلام سے مشرف ہوں حالانکہ نہ وہ خداتعالیٰ کی طرف سے ہے نہ اس کے الہام اور کلام سے مشرف ہے وہ بہت بُری موت سے مرتا ہے اور اس کا انجام نہایت ہی بداور قابل عبرت ہوتا ہے۔ لیکن جو صادق اور اس کی طرف سے ہیں وہ مرکر بھی زندہ ہو جایا کرتے ہیں کیونکہ خداتعالیٰ کے فضل کا ہاتھ ان پر ہوتا ہے اور سچائی کی روح ان کے اندر ہوتی ہے۔ اگر وہ آزمائشوں سے کچلے جائیں اور پیسے جائیں اور خاک کے ساتھ ملائے جائیں اور چاروں طرف سے ان پر لعن طعن کی بارشیں ہوں اور ان کے تباہ کرنے کے لئے سارا زمانہ منصوبے کرے تب بھی وہ ہلاک نہیں ہوتے۔ کیوں نہیں ہوتے؟ اس سچے پیوند کی برکت سے جو ان کو محبوب حقیقی کے ساتھ ہوتا ہے۔ خدا ان پر سب سے زیادہ مصیبتیں نازل کرتا ہے مگر اس لئے نہیں کہ تباہ ہو جائیں بلکہ اس لئے کہ تا زیادہ سے زیادہ پھل اور پھول میں ترقی کریں۔ ہریک جو ہر قابل کے لئے یہی قانون قدرت ہے کہ اوّل صدمات کا تختہ مشق ہوتا ہے‘‘۔ (اس کو بہت ساری تکلیفیں پہنچتی ہیں) ’’مثلاً اس زمین کو دیکھو جب کسان کئی مہینے تک اپنی قلبہ رانی کا تختہ مشق رکھتا ہے اور ہل چلانے سے اس کا جگر پھاڑتا رہتا ہے…… اسی طرح وہ حقیقی کسان کبھی اپنے خاص بندوں کو مٹی میں پھینک دیتا ہے‘‘ (یعنی اللہ تعالیٰ کو یہاں کسان سے تشبیہ دی ہے کہ وہ حقیقی کسان اپنے خاص بندوں کو مٹی میں پھینک دیتا ہے) ’’اور لوگ ان کے اوپر چلتے ہیں اور پیروں کے نیچے کچلتے ہیں اور ہر یک طرح سے ان کی ذلت ظاہر ہوتی ہے۔ تب تھوڑے دنوں کے بعد وہ دانے سبزہ کی شکل پر ظاہر ہو کرنکلتے ہیں اور ایک عجیب رنگ اور آب کے ساتھ نمودار ہوتے ہیں جو ایک دیکھنے والا تعجب کرتا ہے۔ یہی قدیم سے برگزیدہ لوگوں کے ساتھ سنت اللہ ہے کہ وہ ورطۂ عظیمہ میں ڈالے جاتے ہیں‘‘ (یعنی ایسے گرداب میں، ایسی ہلاکت میں ڈالے جاتے ہیں جو بہت بڑی ہوتی ہے)۔ ’’لیکن غرق کرنے کے لئے نہیں۔ بلکہ اس لئے کہ تا ان موتیوں کے وارث ہوں کہ جو دریائے وحدت کے نیچے ہیں‘‘۔ (اللہ تعالیٰ ان کو اس لئے مشکلات میں نہیں ڈالتا کہ ان کو فنا کر دے یا غرق کر دے بلکہ نیک لوگوں کو ابتلاء اس لئے آتے ہیں تاکہ ان دریاؤں کے نیچے جا کر اللہ تعالیٰ کی وحدت کے دریا میں جو پھر رہے ہیں وہ مزید اس کی طرف توجہ کریں اور اس دریا میں سے موتی تلاش کرکے لائیں) ’’اور وہ آگ میں ڈالے جاتے ہیں۔ لیکن اس لئے نہیں کہ جلائے جائیں بلکہ اس لئے کہ تاخداتعالیٰ کی قدرتیں ظاہر ہوں اور ان سے ٹھٹھا کیا جاتا ہے اور لعنت کی جاتی ہے اور وہ ہرطرح سے ستائے جاتے اور دکھ دئیے جاتے اور طرح طرح کی بولیاں ان کی نسبت بولی جاتی ہیں۔ اور بدظنیاں بڑھ جاتی ہیں یہاں تک کہ بہتوں کے خیال و گمان میں بھی نہیں ہوتا کہ وہ سچے ہیں‘‘۔ (آج کل یہی الزام لگایا جاتا ہے ناکہ اگر آپ سچے ہوتے تو اس طرح تکلیفیں نہ اٹھا رہے ہوتے اور سارے مسلمانوں نے ایک طرف آپ کے خلاف محاذ نہ کھڑا کیا ہوتا۔) فرماتے ہیں کہ’’بہتوں کے خیال و گمان میں بھی نہیں ہوتا کہ وہ سچے ہیں بلکہ جو شخص ان کو دکھ دیتا اور لعنتیں بھیجتا ہے وہ اپنے دل میں خیال کرتا ہے کہ بہت ہی ثواب کا کام کر رہا ہے۔ پس ایک مدت تک ایسا ہی ہوتا رہتاہے اور اگر اس برگزیدہ پر بشریت کے تقاضا سے کچھ قبض طاری ہو تو خداتعالیٰ اس کو ان الفاظ سے تسلی دیتا ہے‘‘۔ (ان کو فکر پیدا ہوتی بھی ہے تو تسلی دیتا ہے) ’’کہ صبر کر جیسا کہ پہلوں نے صبر کیا اور فرماتا ہے کہ مَیں تیرے ساتھ ہوں۔ سنتا ہوں اور دیکھتا ہوں۔ پس وہ صبر کرتا رہتاہے۔ یہاں تک کہ امر مقدر اپنے مدّت مقررہ تک پہنچ جاتا ہے۔ تب غیرت الٰہی اس غریب کے لئے جو ش مارتی ہے اور ایک ہی تجلی میں اعداء کو پاش پاش کر دیتی ہے‘‘۔ (ایک ہی تجلی میں دشمنوں کو پاش پاش کر دیتی ہے) ’’سو اوّل نوبت دشمنوں کی ہوتی ہے اور اخیر میں اس کی نوبت آتی ہے‘‘۔ (پہلے دشمن خوش ہوتے ہیں کہ ان کو وہ تکلیفیں دے رہے ہیں۔ پھر آخر جو انجام ہوتاہے وہ اللہ تعالیٰ کے بندوں کا ہوتا ہے)۔ ’’اسی طرح خداوند کریم نے بارہا مجھے سمجھایا کہ ہنسی ہو گی اور ٹھٹھا ہو گا اور لعنتیں کریں گے اور بہت ستائیں گے۔ لیکن آخرنصرت الٰہی تیرے شامل ہو گی اور خدا دشمنوں کو مغلوب اور شرمندہ کرے گا‘‘۔ (انوارالاسلام۔ روحانی خزائن جلد 9صفحہ 52تا 54)

پھر اپنے ایک کشف کا ذکر کرتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں کہ:

’’مَیں نے ایک کشف میں دیکھا کہ ایک فرشتہ میرے سامنے آیا اور وہ کہتا ہے کہ لوگ پھرتے جاتے ہیں‘‘۔ (یعنی لوگ پیچھے ہٹتے جا رہے ہیں ) ’’تب مَیں نے اس کو کہا کہ تم کہاں سے آئے ہو تو اس نے عربی زبان میں جواب دیا اور کہا کہ جِئْتُ مِنْ حَضْرَۃِ الْوِتْرِ یعنی مَیں اس کی طرف سے آیا ہوں جو اکیلا ہے۔ تب مَیں اس کو ایک طرف خلوت میں لے گیا۔ اور مَیں نے کہا کہ لوگ پھرتے جاتے ہیں مگرکیا تم بھی پھر گئے تو اس نے کہا کہ ہم تو تمہارے ساتھ ہیں۔ تب مَیں اس حالت سے منتقل ہو گیا‘‘۔ (یعنی پھر واپس اسی حالت میں آ گیا۔) فرمایا کہ’’یہ سب امور درمیانی ہیں‘‘۔ (بیچ کے معاملات ہیں جو ہونے ہیں۔ یہ انجام نہیں ہیں بلکہ یہ جو معاملات ہو رہے ہیں، واقعات چل رہے ہیں ان کا ایک حصہ ہے)۔ فرمایا ’’جو خاتمہ امر پر منعقد ہو چکا ہے وہ یہی ہے کہ بار بار کے الہامات اور مکاشفات سے جو ہزار ہا تک پہنچ گئے ہیں اور آفتاب کی طرح روشن ہیں خداتعالیٰ نے میرے پر ظاہر کیا کہ مَیں آخر کار تجھے فتح دوں گا اور ہر ایک الزام سے تیری بریت ظاہر کر دوں گا اور تجھے غلبہ ہو گا اور تیری جماعت قیامت تک اپنے مخالفوں پر غالب رہے گی اور فرمایا کہ مَیں زور آور حملوں سے تیری سچائی ظاہر کروں گا‘‘۔ (انوارالاسلام۔ روحانی خزائن جلد 9صفحہ 54)

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ’’یاد رہے کہ یہ الہامات اس واسطے نہیں لکھے گئے کہ ابھی کوئی ان کو قبول کر لے۔ بلکہ اس واسطے کہ ہریک چیز کے لئے ایک موسم اور وقت ہے۔ پس جب ان الہامات کے ظہور کا وقت آئے گا۔ تو اس وقت یہ تحریر مستعد دلوں کے لئے زیادہ تر ایمان اور تسلی اور یقین کا موجب ہو گی۔ والسلام علی من اتبع الھدیٰ۔‘‘ (انوارالاسلام۔ روحانی خزائن جلد 9 صفحہ 54)

اللہ تعالیٰ ہمیں دعاؤں، قربانیوں اور ایمان کی مضبوطی کے ساتھ دین پر قائم رہتے ہوئے احمدیت یعنی حقیقی اسلام (کی ترقی)کے نظارے دکھاتا رہے۔ اس کے ساتھ ہی مَیں دعا کے لئے خاص طورپرایک اور بات بھی کہنا چاہتاہوں۔ پاکستان کی سا لمیت کے لئے بہت دعاکریں۔ اللہ تعالیٰ اس ملک کواحمدیت کی وجہ سے ہی بچا لے کیونکہ احمدیوں نے اس کے بنانے میں بہت کردار ادا کیاہے اور بہت قربانیاں دی ہیں۔ اس ملک کو توڑنے اور بدامنی پھیلانے والے جو لوگ ہیں آج کل اس میں مصروف ہیں۔ انہوں نے نہ ہی کبھی پاکستان کے قیام میں حصہ لیا اور نہ ہی اس حق میں تھے کہ پاکستان بنے۔ لیکن اب ملک سے ہمدردی کے نا م پر ایک نیا طریقہ انہوں نے اختیار کیاہے۔ اسلام اور ملک کی بقاکے نام پر ملک کوتوڑنے کے درپے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان ملک دشمنوں کی پکڑ کے بھی جلد سامان پیدا فرمائے اور ہمارے ملک کو بچائے۔ آمین

(الفضل انٹرنیشنل جلد 16 شمارہ 45 مورخہ 6 نومبر تا 12 نومبر 2009ء صفحہ 5 تا صفحہ 8)


  • خطبہ کا مکمل متن
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 16؍ اکتوبر 2009ء شہ سرخیاں

    آنحضرتؐ کا جلالی دور جو جنگوں کا زمانہ تھا اس میں اسی طریقہ سے اللہ نے دشمنوں کو پکڑا۔ آج بھی اللہ اپنے متین ہونے کے نظارے اَور رنگ میں دکھا رہا ہے۔ آج جو لوگ آنحضرتؐ کے بارہ میں استہزاء اور نازیبا کلمات کہتے ہیں وہ اللہ کی پکڑ سے محفوظ نہیں۔ آنحضرتؐ جو دنیا میں اللہ کو سب سے پیارے تھے آپؐ کو بھی عبادت کا حکم دیا گیا تھا اور یہ حکم امت کے لئے بھی ہے لہذا ہر قسم کی قربانیوں کے معیار قائم کرنے کی آج ضرورت ہے۔ احمدیت کے غلبہ کے متعلق ارشادات حضرت مسیح موعود علیہ السلام۔ پاکستان کی سا لمیت کے لئے دعا کی تحریک کہ احمدیت کی وجہ سے ہی اللہ بچا لے۔

    فرمودہ مورخہ16؍اکتوبر 2009ء بمطابق16؍اخاء 1388 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن (برطانیہ)

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور