اللہ تعالیٰ کی صفت الولی
خطبہ جمعہ 23؍ اکتوبر 2009ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
اللہ تعالیٰ کی ایک صفت وَلِی ہے اور وَلِیٌّ کے تحت لغات میں لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے ایک صفت ہے۔ اس کا مطلب ہے مددگار۔ بعض نے اس کے یہ معنی کئے ہیں کہ وہ ذات جو تمام عالم اور مخلوقات کے معاملات سرانجام دینے والی ہے۔ جس کے ذریعہ سے وہ عالَم قائم ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے ایک صفت اَلْوَالی ہے جس کا مطلب ہے کہ وہ ذات جو تمام اشیاء کی مالک اور اُن پر تصرف رکھنے والی ہے۔
ابن اثیر کہتے ہیں کہ ولایت کا حق تدبیر، قدرت اور فعل کے ساتھ منسلک ہے۔ اور وہ ذات جس میں یہ امور مجتمع نہیں ہوں گے تو ان پر لفظ وَالِیْ کا اطلاق نہیں ہو گا۔ اور پھر لسان العرب میں یہ لکھا ہے۔ اَلْوَلِیُّ کا مطلب ہے دوست مددگار۔ ابن الاعرابی کے مطابق اس سے مراد ایسا محب ہے جو اتباع کرنے والا ہو۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اَللّٰہُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا (سورۃ البقرہ کی آیت 258ہے)۔ ابواسحق نے بیان کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے بارہ میں کہ مومنوں کی حاجات اور ان کے لئے ہدایت اور ان کے لئے براہین کے قائم کرنے کے حوالے سے مددگار ہے۔ کیونکہ وہی ہے جو انہیں ان کے ایمان کے لحاظ سے ہدایت میں بڑھاتا ہے، جیسا کہ خود اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَالَّذِیْنَ اھْتَدَوْا زَادَھُمْ ھُدًی(محمد: 18) اور اسی طرح وہ مومنوں کا ان کے دشمنوں کے خلاف مددگار ہے اور مومنوں کے دین کو ان کے مخالفین کے ادیان پر غلبہ دینے والا ہے۔ سورۃ بقرہ کی آیت کا تھوڑا سا حصہ مَیں نے بتایا تھا، یہ مکمل آیت اس طرح ہے اَللّٰہُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْایُخْرِجُھُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ۔ وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْآ اَوْلِیٰٓئُھُمُ الطَّاغُوْتُ۔ یُخْرِجُوْنَھُمْ مِّنَ النُّوْرِ اِلَی الظُّلُمٰتِ۔ اُوْلٰٓئِکَ اَصْحٰبُ النَّارِ۔ ھُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَ(البقرۃ: 258) کہ اللہ ان لوگوں کا دوست ہے جو ایمان لائے۔ وہ ان کو اندھیروں سے نور کی طرف نکالتا ہے۔ اور وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا ان کے دوست شیطان ہیں۔ وہ ان کو نور سے اندھیروں کی طرف نکالتے ہیں۔ یہی لوگ آگ والے ہیں وہ اس میں لمبا عرصہ رہنے والے ہیں۔ پس حقیقت یہی ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ایمان لانے والوں کا دوست بنتا ہے یعنی ایسا ایمان جس میں دنیا کی ملونی نہ ہو۔ ایمان لانے کے بعد وہ اللہ کے نُور کی تلاش میں مزید ترقی کی طرف قدم بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ انہیں پھر اللہ تعالیٰ کامیابیاں عطا فرماتا ہے۔ یہاں اندھیروں سے روشنی کی طرف نکالنے کا مطلب ہے کہ روحانی اور جسمانی کمزوریوں سے روحانی اور جسمانی ترقی اور مضبوطی کی طرف لے جانا۔ پس اللہ تعالیٰ اعلان فرما رہا ہے کہ جو ایمان لائے اللہ تعالیٰ انہیں انفرادی طور پر بھی اور جماعتی طور پر بھی روحانی اور جسمانی کامیابیاں عطا فرمائے گا اور ان کو تکلیفوں اور پریشانیوں سے نجات دے گا۔ مگر شرط ایمان لانا اور اس میں ترقی کرنا ہے اور یہ ترقی اللہ تعالیٰ کے احکامات کو پڑھنے، سمجھنے اور ان پر عمل کرنے سے ہوتی ہے اور جو اس طرح عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کا وَلِیْ ہوجاتا ہے۔ کوئی مخالف، کوئی دشمن، کوئی دنیا کی حکومت ایسے لوگوں کو ختم نہیں کر سکتی۔ لیکن یہاں یہ بات بھی واضح ہو کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مومنوں پر مشکلات بھی آتی ہیں، مصیبتیں بھی آتی ہیں۔ جان، مال اور اولا دکا نقصان بھی برداشت کرنا پڑتا ہے۔ اگر یہ سب کچھ ہے تو پھر یہ کہنا کہ جسمانی مشکلات سے بھی نکالتا ہے، اس کا کیا مطلب ہوا؟ اندھیروں سے روشنی کی طرف لے جانے کایہ تو مطلب لیا جا سکتا ہے کہ ایمان لانے والوں کے روحانی ترقی میں قدم آگے بڑھتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کا دوست ہو کر ان لوگو ں کو روحانیت میں ترقی دیتا چلاجا تا ہے اور پھر آخرت میں جیسا کہ اس نے وعدہ فرمایا ہے اجر سے نوازے گا۔ لیکن یاد رکھنا چاہئے کہ مومن جب اللہ تعالیٰ پر پختہ ایمان لاتا ہے تو صرف اپنی ذات کا مفاد اور ذاتی تکالیف اس کے پیش نظر نہیں ہوتیں بلکہ وہ جماعتی زندگی کی طرف دیکھتا ہے۔ بے شک ایک مومن کو ذاتی طور پر جسمانی اور مادی اور اقتصادی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، نقصانات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لیکن یہ انفرادی نقصانات بھی اگر وہ دین کی خاطر ہو رہے ہوں تو اکثر اوقات جماعتی ترقی کا باعث بنتے ہیں۔ اسلام کی ابتداء میں جب مکّہ میں آزادی سے تبلیغ نہیں کی جا سکتی تھی اور مسلمان بڑی سخت مظلومیت کی زندگی گزار رہے تھے۔ اس زمانہ میں جب مسلمانوں نے قربانیاں دیں تو کیا وہ قربانیاں رائیگاں گئیں؟ جو مسلمان اس وقت ظلموں کا نشانہ بنائے گئے کیاوہ بے فائدہ تھے؟ نہیں، ہرگز نہیں۔ اُس وقت بھی جب وہ مٹھی بھر مسلمان تھے، اُن کی ہر قربانی ان کے ایمانوں میں مضبوطی پیدا کرنے والی بنتی تھی اور اس کے ساتھ ساتھ جماعتی ترقی کا بھی باعث بنتی چلی جاتی تھی۔ اس سے تبلیغ نہیں رک گئی۔ مسلمان ہونا یا اسلام میں شامل ہونا اس سے رک نہیں گیا۔ ظلموں کے باوجود ترقی پر قدم پڑتے چلے گئے۔ پھر ان ظلموں کی وجہ سے ہجرت کرنی پڑی تو ہجرت کرنے پر اللہ تعالیٰ نے مزید ترقی کے دروازے کھولے۔ عددی لحاظ سے بھی اور مالی لحاظ سے بھی مسلمان بڑھتے چلے گئے کہ وہی کفار مکّہ جو ظلم کرنے والے تھے وہ مسلمانوں کے زیر نگیں ہو گئے۔
جماعت احمدیہ کی تاریخ بھی دیکھ لیں۔ ہر ابتلا اور امتحان جہاں جماعت کی روحانی ترقی کا باعث بنتا ہے اور بنا ہے وہاں مادی اور جسمانی ترقی کا بھی باعث بنا ہے۔ 1974ء کے حالات نہ ہوتے تو ایک حصہ جو ملک سے باہر نکل کر پھیلا، وہ نہ نکل سکتا۔ کوئی چھوٹا موٹا کاروبارکرنے والا تھا۔ کوئی معمولی زمیندارہ کرنے والا تھا۔ کوئی معمولی ملازمت کرنے والا تھا۔ بچوں کی تعلیم کے وسائل بھی بعض کو ٹھیک طرح میسر نہیں تھے۔ یا وسائل تھے تو ماحول نہیں تھا۔ یورپ میں آ کر کئی بچے جو ایم ایس سی اور پی ایچ ڈی کر رہے ہیں یا انہوں نے کی ہے یا ڈاکٹر بنے ہیں، انجینئر بنے ہیں پاکستان میں انہیں کے عزیز اتنی تعلیم نہیں حاصل کر سکے یا رجحان نہیں ہوا یا وسائل نہیں تھے۔ پس یہ بات باہر آئے ہوئے ہر احمدی کو ذہن میں پیدا کرنی چاہئے کہ جہاں ان کے ایمان کی وجہ سے انہیں ملک سے نکلنا پڑا تو خداتعالیٰ نے انہیں بہتر حالات مہیا فرمائے اور مالی کشائش کی صورت میں ان کے معیار بدل گئے۔ بچوں کی اچھی تعلیم کے لئے ماحول بھی پیدا فرمایا اور من حیث الجماعت جماعت نے مالی لحاظ سے بھی اور عددی لحاظ سے بھی ترقی کی۔ اسی طرح جب انفرادی طور پر تعلیمی میدان میں آگے قدم بڑھے تو جماعت کے اندر بھی دنیاوی تعلیم کا معیار بھی بہت بلند ہوا اور یہ چیز ہر احمدی کو خداتعالیٰ کے مزید قریب کرنے والی ہونی چاہئے اور ایمان میں ترقی کا باعث بنانے والی ہونی چاہئے۔ نہ کہ اس چیز سے کسی قسم کا تکبر یا فخر یا رعونت پیدا ہو جائے۔ اللہ تعالیٰ نے تو اپنے وَلِیْ ہونے کا اظہار فرما دیا۔ ہم نے بھی حقیقی عبد بنتے ہوئے حقیقی عبد بننے کا نمونہ دکھانا ہے اور پھر یہ چیز ہمیں مزید روشنیاں دکھانے والی بنتی چلی جائے گی اور پھر صرف باہر آنے والوں میں ہی ترقی نہیں ہوئی بلکہ ان ظلموں کی وجہ سے جو 1974ء میں پاکستان میں ہوئے پاکستان میں رہنے والوں پر بھی اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا۔ جن کے کاروبار تباہ کرنے کی کوشش کی گئی تھی اللہ تعالیٰ نے پھر ان کے کاروباروں میں ترقیاں دیں جیسا کہ ہم نے وَلِیْ کے معنوں میں دیکھا ہے۔ وَلِیْ دوست اور مددگار کو بھی کہتے ہیں۔ پس جس نے احمدیت کی خاطر قربانی دی اللہ تعالیٰ نے اسے یا اس کی نسل کو حقیقی دوست اور مددگار بنتے ہوئے ترقیات سے نوازا۔
پھر دیکھیں 1984ء میں جب جماعت پر زمین تنگ کی گئی یا تنگ کرنے کی کوشش کی گئی اور خلیفۂ وقت کو وہاں سے ہجرت کرنی پڑی۔ تو پھر کون کام آیا؟ وہی ولی دوست اور مددگار جو تمام اشیاء پر تصرف رکھنے والی ذات ہے۔ اس وقت سفر کے دوران مختلف مواقع پر حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی ایسی حفاظت اور مدد فرمائی جو کوئی بھی دنیاوی دوست نہیں کر سکتا۔ پھر اس بات نے جہاں افراد جماعت کے ایمانوں میں مضبوطی پیدا کی وہاں اس ہجرت کے نتیجہ میں جماعت کی عدد ی ترقی بھی ہوئی اور پھر ایم ٹی اے کی نعمت سے اللہ تعالیٰ نے روحانی ترقی اور تبلیغ کے سامان بھی مہیا فرمائے۔ ایک وقت میں دنیا میں ایک آواز سنی جاتی ہے جو تربیت اور تبلیغ کی طرف توجہ دلانے والی ہے۔ پھر اس آیت میں جہاں ایمان میں ترقی کے ساتھ ساتھ جسمانی ترقی کا وعدہ کیا گیا ہے وہاں ایمان نہ لانے والوں کے بارے میں بتایا کہ وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا اَوْلِیٰٓئُھُمُ الطَّاغُوْتُ یُخْرِجُوْنَھُمْ مِّنَ النُّوْرِ اِلَی الظُّلُمٰتِ اور جو لوگ کافر ہیں ان کے دوست شیطان ہیں کہ وہ انہیں روشنی سے اندھیروں کی طرف لے جاتے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ نے یہ اصولی فیصلہ فرما دیا کہ اللہ تعالیٰ کی باتوں کا انکار کرنے والے شیطان کے دوست ہیں اور شیطان روشنی سے اندھیروں کی طرف لے جاتا ہے۔ کبھی اس کے پیچھے چلنے والے رو شنی کے نظارے نہیں دیکھ سکتے۔ آنحضرتﷺ نے جب دعویٰ فرمایا اور مکّہ والوں کو ہدایت کی طرف بلایا تو سرداران قریش جن میں سے بعض بڑے عقلمند اور اچھے انسان کہلاتے تھے اور بعض نیکیاں بھی کرتے تھے لیکن آنحضرتﷺ کے انکار کی وجہ سے شیطان کے بہکاوے میں آکر، یا بہکاوے میں آنے کی وجہ سے ان نیکیوں سے محروم ہوتے چلے گئے اور آخر ہلاکت ان کا مقدر بن گئی۔
ابو الحکم پہلے ابو جہل بنا اور پھر ذلّت کی موت ملی۔ گزشتہ خطبہ میں مَیں نے اس کا ذکر بھی کیا تھا اور آج تک ابوجہل ہی کہلاتا ہے بلکہ تاقیامت ابو جہل ہی کہلائے گا۔ اس کا وَلِیْ شیطان تھا جو اس کی کوئی مددنہیں کر سکا۔ وہ اندھیروں میں ڈوبتا چلا گیا۔ لیکن حبشی غلام، بلالؓ ایمان کے نور کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے وَلِیْ بن گئے اور اللہ تعالیٰ کی دوستی اور مدد کے نتیجہ میں قیامت تک سیدنا بلالؓ کا مقام پا گئے۔
اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں روحانیت اور سچائی کے دعویدار ہونے کے باوجود آپؑ کے جو منکرین تھے آپ کے مقابلہ پر کھڑے ہو کر اندھیروں میں ڈوبتے چلے گئے۔ لیکن کئی ایسے جو جاہل اور اُجڈ تھے، کئی ایسے جو رشوت خور اور بدنام زمانہ تھے، جب ان پر اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا تو وہ ایمان لانے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق روحانیت میں ترقی کرنے والے بنتے چلے گئے۔ پس نبی کے انکارکرنے والے اس انکار کی وجہ سے اندھیروں میں گرتے چلے جاتے ہیں اور شیطان ان میں کینہ اور بغض اور ناانصافی اس قدر بھر دیتا ہے کہ وہ پھر مزید ظلمات میں گرتے چلے جاتے ہیں اور پھر ان کے انجام کے بارہ میں خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ ان کا انجام بہت برا ہو گا۔ اس دنیا میں بھی وہ حسد کی آگ میں اور دشمنی کی آگ میں جلتے چلے جائیں گے۔ جماعتی ترقی کا ہر قدم ان کے بغضوں اور کینوں کو بھڑکائے گا۔ لیکن ان کے یہ غصّے اور کینے ان لوگوں کو جن کا وَلِیْ اللہ تعالیٰ ہو جاتا ہے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکیں گے۔
پھر مَیں لغت کے کچھ حصے کی طرف آتا ہوں۔ لسان میں لکھا ہے کہ بعض نے وَلِیُّھُمْ کا یہ مطلب بیان کیاہے کہ مومنوں کو ثواب دینا۔ اور ان کے نیک اعمال پر انہیں جزادینا اللہ ہی کے اختیار میں ہے۔
پھر لکھا ہے وَلِیُّ اللّٰہِ، اللہ کا دوست۔ وَلِیْ میں مستقل مزاجی کے ساتھ اللہ کی اطاعت کرتے ہوئے کوئی کام کرنے کا مضمون پایا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا چنیدہ اور مقبول بندہ، اللہ تعالیٰ کے مسلسل فضلوں اور انعامات کا مظہر ہوتا ہے۔ اَلْوَلِیُّ وَالْمَوْلٰی، اس کی گرائمر کی تفصیلات چھوڑتا ہوں، آگے بیان ہے کہ مومن کو وَلِیُّ اللّٰہ تو کہہ سکتے ہیں لیکن مَوْلٰی اَللّٰہ کہنا ثابت نہیں ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ کے متعلق وَلِیُّ الْمُؤمِنِیْنَ وَمَوْلَاھُمْ دونوں طرح کہنا درست ہے۔ پھر انہوں نے مختلف آیات کے حوالے سے آگے اس کی مزید وضاحت کی ہے۔ مثلاً ذٰلِکَ بِاَنَّ اللّٰہَ مَوْلَی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا (محمد: 12) سورۃ محمدکی آیت ہے۔ پھر نِعْمَ الْمَوْلٰی وَنِعْمَ النَّصِیْر(الانفال: 41)انفال کی آیت ہے۔ پھرقُلْ یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ ھَادُوْٓا اِنْ زَعَمْتُمْ اَنَّکُمْ اَوْلِیَآئُ لِلّٰہِ مِنْ دُوْنِ النَّاسِ (جمعہ: 7)سورۃ جمعہ کی آیت میں ہے۔ ثُمَّ رُدُّوٓا اِلَی اللّٰہِ مَوْلٰھُمُ الْحَقِِّّ(الانعام: 63)سورۃ الانعام کی آیت ہے۔ وَمَالَھُمْ مِّنْ دُوْنِہٖ مِنْ وَّالٍ (الرعد: 12) الرعد کی آیت ہے۔ اس میں وَالٍ کے معنی وَلِیٌّ کے ہیں۔ پھر آگے انہوں نے ان آیات کے حوالے سے گرائمر کی بحث کی ہے۔ تو اس بحث میں جانے کی بجائے مَیں آیات کو پیش کرتا ہوں۔ پہلی آیت جو سورۃ محمدؐ کی ہے وہ مکمل اس طرح ہے کہ ذٰلِکَ بِاَنَّ اللّٰہَ مَوْلَی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَاَنَّ الْکٰفِرِیْنَ لَا مَوْلٰی لَھُمْ(محمد: 12) یہ اس لئے ہے کہ اللہ ان لوگوں کا مولیٰ ہوتا ہے جو ایمان لائے اور کافروں کا یقینا کوئی مولیٰ نہیں ہوتا۔ اس آیت سے پہلے کی آیات میں سے ایک آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اِنْ تَنْصُرُوْاللّٰہَ یَنْصُرْکُمْ وَیُثَبِّتْ اَقْدَامَکُمْ(محمد: 8) کہ اے مومنو! اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدموں کو مضبوط کرے گا۔ اس آیت میں آنحضرتﷺ کے بعد کے زمانہ کے مسلمانوں کو بھی نصیحت ہے اور تنبیہ بھی ہے کہ صرف ایمان لانا کافی نہیں ہو گا بلکہ اللہ کے دین کی مدد تم پر فرض ہے اور یہی چیز پھر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹتے ہوئے تمہیں اللہ تعالیٰ کی مدد سے حصہ لینے والا بنائے گی۔ تمہارے ایمان مضبوط ہوں گے اور تم ایک جماعت کہلاؤ گے اور خاص طورپر مسیح موعود کے زمانہ میں جب تجدید دین ہونی ہے تو مسلمانوں پر فرض ہے کہ خداتعالیٰ کے فرستادہ کی مدد کریں۔ اگر یہ مدد کریں گے تو پھر وہ اللہ تعالیٰ کی مدد کے نظارے دیکھیں گے اور ایمان نہ لانے والوں کا پہلے انبیاء کے منکرین والا حال ہو گا۔ آج بھی مسلمانوں کے لئے یہ سوچنے کامقام ہے۔ مَیں کئی مرتبہ پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ تو مدد اور نصرت کا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا تو وعدہ روشنیوں کی طرف لے جانے کا ہے لیکن مومن کہلانے کے باوجود اخباروں میں کالم نویس جو ہیں یہ لکھتے ہیں کہ ہم ایمان میں کمزوری کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ ہم روشنیوں سے اندھیروں کی طرف جا رہے ہیں۔ ہم مادی لحاظ سے بھی ترقی کی بجائے تنزل کی طرف قدم بڑھا رہے ہیں۔ کون سی ایسی بُرائی ہے جو اس وقت ہم میں نہیں۔ یہ ان کے خود اپنے لکھنے والے لکھتے ہیں۔ پس کہیں نہ کہیں ہم نے اس خدا کو ناراض کیا ہو اہے جو مومنوں کا مولیٰ ہے۔ اب بھی سوچنے کا وقت ہے کہ اپنے اندرایمان کی روشنی پیدا کریں۔ اللہ کے دین کی نصرت کے لئے آگے آئیں۔ وقت کے امام کی پہچان کریں۔ آنحضرتﷺ کا سلام پہنچائیں۔ صرف اس بات کی ضد کرنا کہ نبوت کا دروازہ بند ہو گیا ہے اور اب کوئی نبی نہیں آسکتاعقلمندی نہیں ہے۔ بزرگان سلف جو ہیں ان کے اقوال کو دیکھیں اور غور سے دیکھیں اور پڑھیں کہ وہ کیا کہتے ہیں۔ صرف آجکل کے علماء جو نام نہاد اور سطحی علماء ہیں ان کے پیچھے نہ چلیں۔ بعض پرانے بزرگوں کے حوالے مَیں پیش کرتا ہوں جو ہماری جماعت کے لٹریچر میں اکثر موجود ہیں بلکہ یہ ان کی اپنی کتابوں میں موجود ہیں اور ان کو ہم پیش کرتے ہیں۔ حضرت محی الدین ابن عربی فرماتے ہیں کہ وہ نبوت جو آنحضرتؐ کے وجود پر ختم ہوئی وہ صرف تشریعی نبوت ہے نہ کہ مقام ِنبوت۔ پس آنحضرتؐ کی شریعت کو منسوخ کرنے والی کوئی شریعت نہیں آ سکتی اور نہ اس میں کوئی حکم بڑھا سکتی ہے اور یہی معنی ہیں آنحضرت صلعم کے اس قول کے کہ رسالت اور نبوت منقطع ہو گئی اور لَارَسُوْلَ بَعْدِیْ وَلَا نَبِیَّ یعنی میرے بعد کوئی ایسا نبی نہیں جو میری شریعت کے خلاف کسی اور شریعت پر ہو۔ ہاں اس صورت میں نبی آ سکتا ہے کہ وہ میری شریعت کے حکم کے ماتحت آئے اور میرے بعد کوئی رسول نہیں یعنی میرے بعد دنیا کے کسی انسان کی طرف کوئی ایسا رسول نہیں آ سکتا جو شریعت لے کر آوے اور لوگوں کو اپنی شریعت کی طرف بلانے والا ہو۔ پس یہ وہ قسم نبوت ہے جو بند ہوئی اور اس کا دروازہ بند کر دیا گیا ہے۔ ورنہ مقام نبوت بندنہیں۔ (فتوحات مکیّہ جلد 2 صفحہ 6 الباب الثالث و السبعون فی معرفۃ عدد ما یحصل من الاسرار … دار احیاء التراث العربی بیروت طبع اول)
پھر ان کا ایک اور حوالہ ہے کہ نبوت کلی طور پر اٹھ نہیں گئی۔ اسی وجہ سے ہم نے کہا تھا کہ صرف تشریعی نبوت بند ہوئی ہے۔ یہی معنی ہیں لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ کے۔ پس ہم نے جان لیا کہ آنحضرتﷺ کا لَانَبِیَّ بَعْدِیْ فرمانا انہی معنوں سے ہے کہ خاص طور پر میرے بعد کوئی شریعت لانے والا نہ ہو گا۔ کیونکہ آنحضرت صلعم کے بعد اور کوئی نبی نہیں۔ (فتوحات مکیّہ جلد 2 صفحہ73 الباب الثالث و السبعون فی معرفۃ عدد ما یحصل من الاسرار … دار احیاء التراث العربی بیروت طبع اول)
یہ بعینہٖ اسی طرح ہے جس طرح آنحضرت صلعم نے فرمایا کہ جب یہ قیصر ہلاک ہو گا تو اس کے بعد قیصر نہ ہو گا اور جب یہ کسریٰ ہلاک ہو گا تو اس کے بعد کوئی کسریٰ نہ ہو گا۔ (صحیح بخاری کتاب الایمان و النذور باب کیف کانت یمین النبیؐ حدیث 6630)
حضرت امام شعرانیؒ فرماتے ہیں کہ وَقَوْلُہٗ صَلَعَمْ فَلَا نَبِیَّ بَعْدِیْ وَلَا رَسُوْلَ اَلْمُرَادُ بِہٖ لَا مُشَرِّعَ بَعْدِیْ کہ آنحضرت صلعم کا یہ قول کہ میرے بعدنبی نہیں اور نہ رسول۔ اس سے مراد یہ ہے کہ میرے بعد کوئی شریعت لانے والا نبی نہیں۔ (الیواقیت والجواہر جلد1 صفحہ 346 دار احیاء التراث العربی بیروت طبع اول 1998ء)
پھر حضرت ملاّ علی قاریؒ، موضوعات کبیر صفحہ 59-58 میں لکھتے ہیں کہ مَیں کہتا ہوں کہ اس کے ساتھ آنحضرتﷺ کا فرمانا کہ اگر میرا بیٹا ابراہیم زندہ رہتا تو نبی ہو جاتا اور اسی طرح اگر عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی ہو جاتے تو آنحضرتﷺ کے متبعین میں سے ہوتے۔ پس یہ قول خاتم النبیین کے مخالف نہیں ہے۔ کیونکہ خاتم النبییّن کا مطلب یہ ہے کہ آنحضرتﷺ کے بعد کوئی ایسا نبی نہیں آسکتا جو آنحضرتﷺ کی شریعت کو منسوخ کرے اور آپﷺ کی اُمّت سے نہ ہو۔ (موضوعات کبیر از ملا علی قاری حرف لام حدیث نمبر 745 صفحہ 192 ناشر قدیمی کتب خانہ کراچی)
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں۔ قُوْلُوْا اِنَّہٗ خَاتَم الْاَنْبِیَآءِ وَلَا تَقُوْلُوْا لَا نَبِیَّ بَعْدَہٗ کہ یہ تو کہو کہ آنحضرتﷺ خاتم النبییّن ہیں مگر یہ کبھی نہ کہنا کہ آپؐ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ (تکملہ مجمع البحار جلد5 صفحہ 502 زیر حرف ’’زید‘‘ مکتبۃ دار الایمان مدینہ منورہ طبع ثالث 1994ء)
پس ان حوالہ جات سے یہ ثابت ہوا کہ ہمارے اسلاف کا یہ نظریہ نہیں تھا جوآجکل کے علماء کا پیدا کیاہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی آیات پر غور کریں اور ان حوالہ جات پر غور کریں تو ہر بات روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے پھر اس بات پر بھی غور کریں کہ اللہ تعالیٰ ایسے شخص کو کس طرح مہلت دے سکتا ہے جو اس کی طرف جھوٹ منسوب کرکے الہامات بیان کر رہا ہو اور دعویٰ کرے کہ مَیں اس کی طرف سے بھیجا گیاہوں۔ یہاں تو اس کے الٹ ہم معاملہ دیکھ رہے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کی تائیدات ہمیں ہر قدم پر نظر آتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے وَلی اور مولیٰ ہونے کے روشن نشان ہمیں نظر آتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ایک د فعہ آپ کو فرمایا کہ وَاللّٰہُ ولیُّکَ وَرَبُّکَ اور خداتعالیٰ تیرا متولی اور تیرا پرورِندہ ہے یعنی ولی اور پالنے والا ہے۔
پھر آپؑ کو ایک الہام ہوا جو 1883ء کا ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو فرمایا اَلَا اِنَّ اَوْلِیَاءَ اللّٰہِ لَاخَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلَاھُمْ یَحْزَنُوْنَ خبردار ہو بہ تحقیق جو لوگ مقربان الٰہی ہوتے ہیں ان پر نہ کچھ خوف ہے اور نہ کچھ غم کرتے ہیں۔ (براہین احمدیہ حصہ چہارم۔ روحانی خزائن جلداوّل۔ صفحہ620بقیہ حاشیہ در حاشیہ نمبر 3)
اس کے علاوہ بھی اس مضمون کے بے شمار الہامات آپؑ کو ہوئے۔
جھوٹے مدعی نبوت کے بارہ میں خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ وَلَوْتَقَوَّلَ عَلَیْنَا بَعْضَ الْا َقَاوِیْلِ۔ لَا َخَذْنَا مِنْہُ بِالْیَمِیْنِ(الحاقۃ: 46-45) اور اگر بعض جھوٹ ہماری طرف منسوب کر دیتا تو ہم یقینا اسے دائیں ہاتھ سے پکڑ لیتے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام تو اپنے الہامات بیان کرنے کے بعد 26-25 سال اللہ تعالیٰ کے فضل سے زندہ رہے اور نہ صرف زندہ رہے بلکہ جماعت کی ترقیات دیکھیں۔ اور یہی نہیں بلکہ بہت سے الہامات اللہ تعالیٰ نے بڑی شان سے پورے ہوتے ہوئے آپ کو دکھائے اور اللہ تعالیٰ نے بے شمارموقعوں پر اپنے وَلِیْ ہونے کا ثبوت دیا۔ ایسا واضح ثبوت جو ایک اندھے کو بھی نظر آتا ہے۔
آپؑ کو اللہ تعالیٰ نے فرمایاکہ مَیں تیرے ساتھ ہوں، تیرے پیاروں کے ساتھ ہوں۔ آج تک ہم یہ نظارہ دیکھ رہے ہیں اور انشاء اللہ آگے بھی دیکھیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو فرمایا کہ’’تیری دعوت کو دنیا کے کناروں تک پہنچا دے گا‘‘۔ (تذکرہ صفحہ 112۔ ایڈیشن چہارم 2004ء مطبوعہ ربوہ) یہ ایک اَور الہام ہے کہ ’’مَیں تیری تبلیغ کو دنیا کے کناروں تک پہنچاؤں گا‘‘ (تذکرہ صفحہ 260 ایڈیشن چہارم 2004ء مطبوعہ ربوہ) اور اس کے علاوہ یہ بھی ہے کہ تیری دعوت کو دنیا کے کناروں تک پہنچا دے گا۔ یہ الہام 1886ء میں ہوا ہے۔ اس وقت قادیان کی کیا حالت تھی۔ کوئی ذرائع نقل و حمل اور رسل ورسائل نہیں تھے۔ کسی قسم کی سفر کی، ٹرانسپورٹ کی، کمیونیکیشن (Communication) کی صورت موجودنہیں تھی۔ سواری لینے کے لئے پیدل یا ٹانگہ پر چڑھ کے بٹالہ جانا پڑتا تھا۔ قادیان ایک چھوٹا سا گاؤں تھا کسی کا اس طرف آنا نہیں تھا اور اس گاؤں سے آپؑ نے ایک دعویٰ کیا۔ اس وقت لوگ اس دعویٰ کو سن کر ہنستے ہوں گے اور آج ہم دیکھتے ہیں کہ آپؑ کی دعوت دنیا کے کناروں تک پہنچ گئی ہے۔ اعتراض کرنے والے یہ اعتراض کرتے ہیں کہ یہ کون سی بڑی بات ہے کہ ہم بھی اپنی ویب سائٹس کے ذریعہ سے یا اپنے ٹی وی چینلز کے ذریعہ سے اپنے پروگرام جو احمدیت کے خلاف ہیں یا اسلام کی جو بھی تھوڑی بہت تبلیغ کرتے ہیں دنیا کے کناروں تک پہنچا رہے ہیں۔ تو اگر یہ ایم ٹی اے کے ذریعہ سے یا تبلیغ کے ذریعہ سے پہنچ گئے تو یہ تو کوئی ایسی بڑی بات نہیں ہے۔ لیکن سوچنے والی بات یہ ہے کہ کیا کسی نے ان وسائل کے نہ ہوتے ہوئے، ان وسائل کے شروع کرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ سے خبر پا کر یہ اعلان کیا تھا؟ کہ مَیں تیری تبلیغ کو دنیا کے کناروں تک پہنچاؤں گا۔ یا مَیں تیری دعوت کو دنیا کے کناروں تک پہنچاؤں گا۔ یا سو سال پہلے تو بڑی بات ہے اب بھی شروع کرنے سے چند مہینے یا سال پہلے کسی نے یہ اعلان کیا ہو کہ خداتعالیٰ نے مجھے بتایا ہے کہ مَیں تمہارے اس کام کو دنیا کے کناروں تک پہنچاؤں گا۔ اگر تو کوئی یہ دعویٰ کرتا ہے تو کھل کے اعلان کرے کہ ہاں مجھے خداتعالیٰ نے بتایا تھا کہ یہ میرا پیغام ہے دنیا تک پہنچاؤ۔ ویب سائیٹ کے ذریعہ پہنچاؤ یا ٹی وی چینل کے ذریعہ پہنچاؤ اور مَیں تمہاری مدد کروں گا لیکن کبھی کوئی سامنے نہیں آ سکتا۔ ویسے ہر بات پہ اعتراض کرنا تو بڑا آسان ہے اور آجکل کے سکالرزاور علماء کا یہی حال ہے کہ بیٹھے بٹھائے جو چاہامنہ میں آیا اور اعتراض کر دیا۔ یہ اصل میں حسد کی آگ ہے جو اب برداشت نہیں ہو رہی۔ جس کی وجہ سے دشمنیاں بڑھتی چلی جا رہی ہیں۔ جماعت کو پھیلتا ہوا دیکھ کر اندر ہی اندر سلگتے چلے جا رہے ہیں اور حسد کی یہ آگ پیدا ہونی ہی تھی کیونکہ اس کے بارہ میں خداتعالیٰ پہلے ہی فرما چکا ہے کہ نور سے ظلمات کی طرف جائیں گے۔ جب بھی اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے کا دعویٰ ہو گا مخالفین کھڑے ہوں گے اور وہ مخالفین اگر کوئی عقل رکھتے بھی تھے تو اس مخالفت کی وجہ سے پھر ان کی عقل ماری جائے گی اور روشنیوں کی بجائے وہ اندھیروں میں گم ہوتے چلے جائیں گے اور پھر اَصْحٰبُ النَّار بنتے چلے جائیں گے۔ اللہ رحم کرے اور ان لوگوں کو عقل دے۔
ہمارا تو اللہ مولیٰ ہے اور ہرقدم پر اپنے ولی ہونے اور دوست ہونے کا اور مددگار ہونے کا اور نگران ہو نے کا اپنے فضلوں سے مسلسل نوازنے کا اظہار کرتا ہے اور نظارے دکھاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی ہمیشہ خداتعالیٰ کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے تاکہ ہم ہمیشہ اس خداتعالیٰ سے فیض پاتے رہیں جس نے ہمیں یہ تسلی دی ہے کہ اَنَّ اللّٰہَ مَوْلَاکُمْ۔ نِعْمَ الْمَوْلٰی وَنِعْمَ النَّصِیْرُ۔ جان لو کہ اللہ ہی تمہارا مولیٰ ہے اور والی ہے۔ کیا ہی اچھا والی ہے اور کیا ہی اچھا مدد کرنے والا ہے۔
اب جمعہ کے بعد مَیں چند جنازے پڑھاؤں گا۔ اس کے بعد ان کے بارہ میں اعلان کرتا ہوں۔ پہلا تو ہے مکرم ذوالفقار منصور صاحب ابن مکرم منصور احمد صاحب مرحوم آف کوئٹہ کا، جن کو 11 ؍ اکتوبر کو کچھ شرپسندں نے فائرنگ کرکے شہید کر دیا۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ انہیں شہادت سے ایک ماہ قبل اپنے گھر سے کار پر نکلتے ہوئے اغوا ء کیا گیا تھا اور رقم کا مطالبہ کیا گیا کہ اتنی رقم دو۔ کافی بڑی رقم تھی اور مسلسل رابطہ رکھا اور رقم کا انتظام بھی ہو رہا تھا۔ لیکن آخر ایک دن پتہ لگا کہ ایک جنگل میں ان کی لاش پڑی ہے اور ساتھ یہ پیغام بھیجا کہ آپ لوگ کیونکہ بہت سے لوگوں کو قادیانی بنا لیتے ہیں اس لئے اس کو ہم زندہ نہیں چھوڑیں گے۔ شہادت سے قبل ان پر کافی تشدد بھی کیا گیا۔ ایک آنکھ میں فائر کرکے چہرے کو بری طرح مسخ کیا گیا۔ یہ بڑ ے ایکٹو (Active) خادم تھے۔ بڑے دیانتدار انسان تھے اور آجکل نائب قائد خدام الاحمدیہ کی خدمت بھی انجام دے رہے تھے۔ اس سے پہلے ان کے ایک چچا عباس احمد صاحب کو اپریل 2008ء میں شہید کیا گیا تھا اور 2009ء جون میں ان کے ایک اور رشتہ کے چچا خالد رشید صاحب کو شہید کیا گیا۔ یہ نوجوان حضرت منشی عبدالکریم صاحب بٹالوی صحابی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ السلام کے پڑپوتے تھے۔ پسماندگان میں ان کی بوڑھی والدہ اور اہلیہ ہیں اور دو بچے ہیں۔ ایک بیٹی بعمر9 سال اور ایک بیٹا بعمر 6 سال۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو صبر جمیل عطا فرمائے اور مرحوم کے درجات بلند کرتا چلا جائے۔
دوسرے ہمارے شام کے ایک دوست مُحَمَّد اَلشَّوَاء صاحب 14؍ اکتوبر 2009ء کو وفات پا گئے تھے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ آپ شام کے پرانے مخلص بزرگ تھے اور بڑے مثالی احمدی تھے خلافت اور نظام جماعت سے عشق و وفا کا اور اطاعت و احترام کا تعلق تھا۔ نیک اور متقی انسان تھے۔ جب بھی کوئی کام سپرد ہوتا بڑی ذمہ داری سے سرانجام دیتے تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے عشق تھا۔ آپؑ کے نام کے ساتھ ہی جذباتی ہو جایا کرتے تھے۔ 1950ء میں ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی اور بڑے منجھے ہوئے وکیل تھے۔ آپ کی بیعت کا واقعہ اس طرح ہے کہ بیعت سے قبل جماعت سے تعارف کے بعد ایک مشہور عالم ناصر البانی جو جماعت کے شدید مخالف تھے اور حدیث کے بہت بڑے عالم تھے اور عرب دنیامیں ان کا بہت چرچا تھا۔ ان سے ملنا شروع کیا اور ان سے جماعت کے عقائد کے بارہ میں پوچھا اور انہیں ایک واقعہ کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ ایک پادری ایک احمدی کے آگے کس طرح بے بس ہو گیا۔ کس طرح ہتھیار ڈالے اور کیسے اس احمدی کی اس بات نے صلیب کو توڑ کر رکھ دیا۔ اس پر ناصرالدین البانی نے کہا کہ ہم عیسائیوں کا منہ بند کر نے کے لئے ان سے کہہ سکتے ہیں کہ عیسیٰ بن مریمؑ فوت ہو گئے ہیں۔ اس پر انہوں نے پوچھا کہ کیا حقیقت میں حضرت عیسیٰؑ فوت ہو گئے ہیں؟ تو البانی صاحب نے کہا نہیں۔ اس پر آپ نے ان کو کہا کہ مَیں جا کے بیعت کرنے لگا ہوں کیونکہ عقیدہ کسی دوغلی پالیسی کا محتاج نہیں ہوتا اور پھرآپ نے بیعت کر لی۔ نیشنل عاملہ کے ممبر بھی تھے۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب شام تشریف لے گئے تو آپؓ کے ساتھ ان کو لبنان جانے کا شرف بھی حاصل ہوا۔ بیان کرتے ہیں کہ اس سفر کے دوران بَعْلَبَک کے آثار قدیمہ کی سیر بھی کی۔ بَعْلَبَک پرانا معبد تھا۔ اس کی سیر کے دوران حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ یہاں غیر اللہ کی عبادت ہوتی رہی ہے لیکن آج ہم میں سے ہر ایک یہاں پر خدائے واحد کی عبادت کرتے ہوئے دو رکعت نفل ادا کرے، چنانچہ سب نے ایسا ہی کیا۔ بڑے اچھے وکیل تھے اور خلافت سے ایسا تعلق تھا کہ وکیل ہونے کی وجہ سے ہر بات کے لئے وہ دلیل چاہتے تھے لیکن جب یہ کہہ دیا جائے کہ خلیفۂ وقت کی طرف سے یہ کہا گیا ہے تو کہتے تھے۔ بس ختم، جب یہ حکم آ گیا تو بات ختم ہو گئی۔ اب یہی فیصلہ ہے۔ خلافت رابعہ کے زمانہ میں بعض احمدیوں پر مقدمات بنائے گئے ان مقدمات کی انہوں نے پیروی کی اور رہائی کے سامان اللہ تعالیٰ نے فرمائے۔ بڑے حاضر جواب تھے۔ ایک دفعہ شروع میں نوجوانی میں عدالت میں پیش ہوئے۔ حالانکہ وکالت کا لباس بھی پہنا ہوا تھا تو جج نے بڑے استہزائیہ انداز میں کہ نوجوان وکیل ہے پوچھا کہ کیا تم وکیل ہو؟ آپ اس مقدمہ میں پیش ہونے والے اکیلے وکیل تھے اور تو کوئی تھا نہیں اور وکالت کے لباس میں بھی تھے، آپ نے فوراً جج سے پوچھا کہ کیا تم جج ہو؟ تو اس پر جج خاموش ہو گیا اور سنا ہے کہ بڑی سبکی برداشت کرنی پڑی۔ عربی ڈیسک والے ہمارے مبلغین جو پڑھنے جاتے رہے ہیں ان کے ساتھ بھی یہ بڑا شفقت کا سلوک فرماتے رہے اور ان کی زبان ٹھیک کرنے میں انہوں نے بڑی مدد کی۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے اور آگے ان کی نسلوں میں بھی احمدیت قائم رکھے۔ ہمارے محمد اویس السعودی صاحب ایم ٹی اے کے کارکن ہیں اور محمد ملص صاحب آجکل یو کے میں ہیں یہ دونوں ان کے نواسے ہیں۔ تیسرا جنازہ ہے میاں غلام رسول صاحب کا ہے جو مکرم میاں سراج الحق صاحب آف میرک ضلع اوکاڑہ کے بیٹے تھے۔ یہ ہمارے ٹرینیڈاڈکے مبلغ مظفر احمد خالد صاحب کے والد تھے۔ موصی تھے۔ بہشتی مقبرہ میں تدفین ہوئی۔ یہ حضرت میاں محمد دین صاحبؓ صحابی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بڑے پوتے تھے۔ غیر معمولی خوبیوں کے مالک تھے۔ نیک، تہجد گزار، غریبوں کا درد رکھنے والے مخلص انسان تھے۔ ان کے جنازہ میں کئی غیر از جماعت بھی شامل ہوئے اور انہوں نے کہا کہ آج ہم بھی یتیم ہو گئے ہیں۔ ایم ٹی اے کے ذریعہ یا کیسٹس کے ذریعہ سے لوگوں کو تبلیغ کیا کرتے تھے اور ان کے ذریعہ سے کئی بیعتیں ہوئی ہیں۔ چوتھے ہمارے ایک مبلغ مظفر احمد منصور صاحب وفات پا گئے ہیں۔ ان کو 9؍ اکتوبر 2009ء کو ہارٹ اٹیک ہوا اور اچانک وفات ہو گئی۔ ان کی عمر 60سال تھی۔ مغربی افریقہ میں آئیوری کوسٹ اور برکینا فاسو میں خدمات بجا لاتے رہے ہیں۔ آجکل اصلاح و ارشاد میں تھے۔ بڑی محنت سے کام کرنے والے تھے۔ مَیں ان کو بچپن سے جانتا ہوں۔ اطفال الاحمدیہ میں بھی اور خدام الاحمدیہ میں بھی ہم نے اکٹھے کام کیا ہے۔ بڑے ہی محنت سے اور توجہ سے کام کرنے والے تھے۔ اللہ تعالیٰ ان سب کے درجات بلند فرمائے اور ان کے لواحقین کو صبر دے۔ مظفر منصور صاحب کے پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ دو بیٹیاں اور دو بیٹے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سب کو اپنی حفاظت میں رکھے۔
(الفضل انٹرنیشنل جلد 16 شمارہ 46 مورخہ 13 نومبر تا 19 نومبر 2009ء صفحہ 5 تا صفحہ 8)
اسلام کے ابتدائی مسلمانوں کی قربانیاں رائیگاں نہیں گئیں۔ ہر ابتلا اور امتحان جہاں جماعت کی روحانی ترقی کا باعث بنتا ہے وہاں مادی اور جسمانی ترقی کا بھی باعث بنا ہے۔ 1974اور 84کے حالات کی مثال۔ نبی کے انکار کرنے والے اس انکار کی وجہ سے مزید ظلمات میں گرتے چلے جاتے ہیں۔ مسیح موعود کے تجدید کے زمانہ میں مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ خدا کے فرستادہ کی مدد کریں۔ ان بزرگان سلف کا ذکر جو اجرائے نبوت کے قائل مثلاً محی الدین ابن عربی، ملا علی قاری، امام شعرانی، حضرت عائشہؓ۔ حضرت مسیح موعودؑ کے اللہ کے ولی ہونے کے متعلق الہامات کا ذکر۔ حضرت مسیح موعودؑ کے الہام ’’میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا‘‘ کے پورا ہونے کا ذکر۔
فرمودہ مورخہ 23؍اکتوبر 2009ء بمطابق23؍اخاء 1388 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن (برطانیہ)
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔