صفت الولی۔ اللہ کے دوست
خطبہ جمعہ 20؍ نومبر 2009ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد یہ آیت تلاوت فرمائی:
مَثَلُ الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مِنْْ دُوْنِ اللّٰہِ اَوْلِیَآءَ کَمَثَلِ الْعَنْکَبُوْتِ اِتََّخَذَتْ بَیْتًََا وَّ اِنَّ اَوْھَنَ الْبُیُوْتِ لَبَیْتُ الْعَنْکَبُوْتِ لَوْ کَانُوْا یَعْلَمُوْنَ۔ (العنکبوت: 42)
ان لوگوں کی مثال جنہوں نے اللہ کو چھوڑ کر اور دوست بنائے مکڑی کی طرح ہے اس نے بھی ایک گھر بنایا اور تمام گھروں میں یقینا مکڑی ہی کا گھر سب سے زیادہ کمزور ہوتا ہے۔ کاش وہ یہ جانتے۔
یہ آیت سورۃ عنکبوت کی آیت ہے۔ جیسا کہ اس کے مضمون سے ظاہر ہے اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ان بدقسمتوں کا ذکر فرمایاہے جو خداتعالیٰ کا در چھوڑ کر دوسروں کے درتلاش کرتے ہیں۔ خداتعالیٰ کی دوستی کو چھوڑ کر غیر اللہ کی دوستی کو اختیار کرتے ہیں۔ ظاہری اور عارضی فائدہ کو دیکھ کر ٹھوس اور مستقل فوائد کو نظر انداز کرتے ہیں۔ دنیا کی جاہ و حشمت کو دیکھ کر خداتعالیٰ کی رضا کے حصول کی کوشش کوبھول جاتے ہیں۔ دنیاداروں کی خوشنودی کی خاطر اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کو بھلا بیٹھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کو ولی بنانے کی بجائے غیر اللہ کو ولی بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے مضبوط حصار میں آنے کی بجائے مکڑی کے کمزور جالے کو اپنا حصار سمجھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت سے پہلی آیات میں عاد، ثمود کا ذکر کیا ہے۔ پھرقارون اور فرعون اور ہامان کا ذکر فرمایا ہے۔ بلکہ کچھ آیات پیچھے چلے جائیں تو لوط کی قوم کا بھی ذکر ہے اور پھر ان سب کے انجام کا ذکر ہے۔ اس لئے کہ وہ خدا کو بھول گئے اور دنیاداری ان کا مقصود ہو گئی۔ کسی کی قوم، کسی کی دولت، کسی کے اونچے محل، کسی کے پہاڑوں میں بنائے ہوئے محفوظ گھر اللہ تعالیٰ کے فیصلے کے آگے کوئی کام نہ آ سکے۔ قرآن کریم میں اس حوالے سے کئی جگہ ذکر ملتا ہے کہ کس طرح قومیں ہلاک ہوتی رہیں۔ کیونکہ بجائے خداتعالیٰ کو پناہ گاہ پکڑنے کے انہوں نے عارضی پناہ گاہوں پر بھروسہ کرنے کی کوشش کی۔ ان قوموں کا ذکر کرکے خداتعالیٰ نے ہمیں بھی ہوشیار کیا ہے۔ واضح کر دیا کہ صرف ایمان لانا ہی کافی نہیں ہے بلکہ خداتعالیٰ کو ولی بنانے کی بھی ضرورت ہے۔ اس کی پناہ میں آنے کے لئے اس کی دوستی کا حق ادا کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ جس طرح ماضی میں ہامان کا معزز ہونا یا اس کی حکومت کا ہونا کسی کو نہ بچا سکا، آئندہ بھی نہیں بچا سکے گا۔ اگر قارون کی دولت اور مال ماضی میں اس کے کسی تعلق رکھنے والے یا خود اسے نہ بچا سکی تو اب بھی کسی کا مال اور دولت خداتعالیٰ کی مرضی کے خلاف چلنے والوں کو اللہ تعالیٰ کی گرفت سے نہیں بچا سکے گی۔ قارون کی دولت نہ پہلے کسی کی بھوک مٹا سکی اور نہ اب مٹا سکتی ہے۔ نہ ہی فرعون کسی کے کام آ سکا کہ فرعون کی غلامی میں آنے سے ہامان اور قارون سے خود بخود بچت ہو جائے گی کہ وہ سب سے بڑا ہے۔ لیکن یہ بھی کام نہ آ سکا۔ پس یہ ساری پناہ گاہیں مکڑی کے جالوں سے زیادہ کچھ حیثیت نہیں رکھتیں۔ آج بھی دنیا دولتمندوں کی دولت کی طرف دیکھتی ہے۔ حسرت سے یہ کہا جاتا ہے کہ کاش ہمارے پاس بھی یہ ہوتا اور جس طرح یہ لوگ دولتمند ہیں، ہم بھی اس طرح دولتمند ہوتے۔ یا دولتمند شخص کی خوشامد کی جاتی ہے یا دولتمند حکومتوں کی خوشامدیں کی جاتی ہیں۔ جوغریب حکومتیں ہوتی ہیں وہ ان سے امداد لینے اور ان کی حکومتوں کے سائے میں آنے کے لئے ان کی خوشامد کرتی ہیں کہ اس سے ہما ری ملکی ترقی وابستہ ہے یا پھریہ کہ اس سے ہماری بقا وابستہ ہے۔ اپنے قومی اور ملکی مفاد کو، مفادات کو جو مفاد پرست لیڈر ہیں داؤ پر لگا دیتے ہیں اور یہ باتیں اب کئی ملکوں کے اندرونی راز ظاہر ہونے پر دنیا کے علم میں آ چکی ہیں۔ کئی ایسے مسلمان ملکوں کے سربراہ بھی اپنے ملکوں کو گروی رکھ چکے ہیں جن کو ضرورت تونہیں تھی کیونکہ ان کے پاس اچھی بھلی دولت ہے لیکن کیونکہ خداتعالیٰ پر یقین کامل نہیں ہے اس لئے اپنی حکومتوں کے بقا کے سہارے ڈھونڈے جاتے ہیں۔ لیکن خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ نہ قارون کے زیر تصرف دولت اس کے کچھ کام آ سکی اور نہ ہی فرعون کی طاقت اس کے کسی کام آ سکی۔ جب خداتعالیٰ کی تقدیر اپنا کام کرنا شروع کر دیتی ہے تو پھر کوئی اسے ٹالنے والا نہیں ہوتا۔ قرآن کریم میں جو پرانے لوگوں کے یہ ذکر محفوظ کئے گئے ہیں، یہ ہمیں صرف تاریخ سے آگاہ کرنے کے لئے نہیں ہیں بلکہ ایک مومن کے ایمان میں ترقی کے لئے ہیں اور اپنی حالتوں کی طرف توجہ دینے کے لئے ہیں۔ مثلاً قارون کے ضمن میں اس کا قصہ بیان کرنے کے بعد اس کے انجام کے بارے میں خداتعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ فَخَسَفْنَا بِہٖ وَبِدَارِہِ الْاَرْضَ فَمَا کَانَ لَہٗ مِنْ فِئَۃٍ یَّنْصُرُوْنَہٗ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ وَمَا کَانَ مِنَ الْمُنْتَصِرِیْنَ(القصص: 82)۔ پس ہم نے اسے اور اس کے گھر کو زمین میں دھنسا دیا پس اس کا کوئی گروہ نہ تھا جو اللہ کے مقابلے پر اس کی مدد کرتا اور وہ کسی تدبیر سے بچ نہ سکا۔ پس خداتعالیٰ کے مقابلے پر نہ گروہ کسی کام آ سکا، نہ ان کی دولت کسی کام آ سکی اور نہ یہ کبھی آتی ہے۔ جن کی دولت کے سہارے ڈھونڈتے ہوئے بعض لوگ ان سے تعلقات استوار کرتے ہیں اور اس حد تک تعلقات استوار کئے جاتے ہیں، اس حد تک ان کو سہارا بنایا جاتا ہے کہ خداتعالیٰ کو ہی بھلا دیا جاتا ہے۔
گزشتہ سال دولتمند ملکوں کو بلکہ ساری دنیا کو ہی اللہ تعالیٰ نے معاشی بحران کی شکل میں جوایک ہلکا سا جھٹکا دیا ہے جسے Credit Crunch کہتے ہیں، یہ ٹرم مشہور ہے۔ اس حالت سے ابھی تک نہ یہ کہ دنیا باہر آئی ہے بلکہ آج تک اس کے اثرات ظاہر ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ کہنے کو تو کہا جارہا ہے کہ معیشت میں استحکام پیداہونے کی طرف قدم اٹھنے شروع ہو گئے ہیں۔ لیکن آج تک ملازمتوں میں کمی اور فراغتوں کا سلسلہ چل رہا ہے۔ روزانہ کوئی نہ کوئی کمپنی اپنے ملازمین کو فارغ کر رہی ہے۔ سرمایہ کاری کرتے ہوئے ابھی تک خوف کے سائے منڈلا رہے ہیں۔ اسی طرح طاقت کا سہارا ہے۔ سمجھتے ہیں کہ ہم فرعون کی طاقت کے زیر اثر ہیں۔ اپنی پناہ گاہ تلاش کی ہوئی ہے اس سے بچ سکتے ہیں۔ صداقت کے حوالے سے قرآن کریم نے فرعون کی مثال دی ہے۔ وہ تو خدائی کا دعویٰ کرنے والا تھا۔ خدائی کی بڑمارنے والا تھا لیکن جب اس کے بھی انجام کا وقت آیا تو اس کی حکومت تو ایک طرف رہی وہ بڑ بھی اس کو نہ بچا سکی۔ کہاں تو اس کا یہ اعلان اور دعویٰ تھا کہ فَاجْعَلْ لِّیْ صَرْحًا لَّعَلِّیْٓ اَطَّلِعُ اِلٰٓی اِلٰہِ مُوْسٰی۔ وَاِنِّیْ لَاَظُنُّہٗ مِنَ الکَاذِبِیْنَ (القصص: 39) یعنی پس مجھے ایک محل بنا دے تاکہ میں موسیٰ کے معبود کو جھانک کر دیکھوں تو سہی اور میں یقینا یہ خیال کرتا ہوں کہ وہ جھوٹاہے۔ لیکن جب اللہ تعالیٰ کی گرفت میں آیا تو پھر بنی اسرائیل کے خدا پر ایمان لانے پر بھی تیار ہو گیا۔ جس کا قرآن کریم میں یوں ذکر ملتا ہے کہ حَتّٰۤی اِذَاۤ اَدۡرَکَہُ الۡغَرَقُ ۙ قَالَ اٰمَنۡتُ اَنَّہٗ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا الَّذِیۡۤ اٰمَنَتۡ بِہٖ بَنُوۡۤا اِسۡرَآءِیۡلَ وَ اَنَا مِنَ الۡمُسۡلِمِیۡنَ (یونس: 91) کہ جب غرق ہونے کی آفت نے پکڑا تو کہنے لگا کہ میں ایمان لاتا ہوں اس پر جس کے سوا کوئی معبودنہیں۔ جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں اور میں سچی فرمانبرداری کرنے والوں میں سے ہوں۔ پس کہاں تویہ بڑ کہ مَیں اونچے محل پر چڑھ کرموسیٰ کے خدا کا پتہ تو کروں اور کہاں یہ تذلّل کہ موت کو سامنے دیکھ کر ڈوبتے وقت یہ اعلان کہ میں بنی اسرائیل کے خدا پر ایمان لاتا ہوں۔ وہ قوم جو فرعون کی نظر میں حقیر قوم تھی اور معمولی مزدوروں کے کام کرتی تھی ان کے خدا کا حوالہ دے رہاہے۔ موسیٰ کے خدا کی بات کرتا تو حضرت موسیٰ ؑ اس کے گھر میں پلے بڑھے تھے اور اس لحاظ سے معزز سمجھے جاتے تھے۔ لیکن خداتعالیٰ نے اس وقت اس سے ایسے الفاظ کہلوائے جو اس کی نہایت ذلت اور عاجزی کی حالت کا اظہار کرتے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ نے دنیا کے سہاروں کا تو یہ نقشہ کھینچا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آج بھی دنیاوی سہاروں کی یہی حقیقت بیان فرمائی ہے۔ لیکن دنیا داروں کو پھر بھی سمجھ نہیں آتی۔ بادشاہتیں تو علیحدہ رہیں کسی کو اگر کسی عام ممبر پارلیمنٹ کے رشتہ دار سے بھی تعلق پیدا ہو جائے تو وہ دوسروں کو حقیر سمجھنے لگ جاتا ہے اور خاص طور پر جو غریب ملک ہیں، جوترقی پذیر ملک کہلا تے ہیں، ترقی پذیری تو ابھی تک ان میں نہیں آئی لیکن بہرحال کہلاتے ہیں۔ ان ملکوں کی یہ عام بیماری ہے اور پاکستان میں تو اس کی انتہا ہوئی ہوئی ہے۔ اس تعلق کی بنا پر جو ان کا بعض افسروں سے ہوتا ہے۔ ان پر انتظامیہ سے بھی ظلم کروائے جاتے ہیں۔ لیکن ظلم کرنے والے یہ نہیں سوچتے کہ اصل حکومت خداتعالیٰ کی ہے اور جب خداتعالیٰ کی تقدیر اپنے فیصلے کرنے شروع کرتی ہے تو پھر بڑے بڑے فرعونوں کو بھی ذلت اور رسوائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پس صرف خدا کا نام لینے سے خدا کا خوف اور ایمان دل میں قائم نہیں ہو جاتا۔ خدا کا خوف رکھنے والا وہی کہلاتا ہے جو طاقت ہوتے ہوئے بھی خدا کا خوف رکھے اور انصاف کے تمام تقاضے پورے کرے۔ ورنہ یہ سب منہ کی باتیں ہیں کہ ہمیں خداتعالیٰ کا خوف ہے۔ بعض لوگ جو خدا کا نام لے کر پھر مظالم کی انتہا کرتے ہیں انہیں تو خداتعالیٰ کی طاقتوں پر ایمان ہی نہیں ہوتا۔ صرف رسماً معاشرے کے اثر کی وجہ سے خدا کا نام لیتے ہیں۔ ایسے لوگ ان گھروں میں رہنے والے ہیں جو عنکبوت کا گھر ہے جو مکڑی کا جالا ہے، جس کو ہوا کا ایک جھونکا بھی اڑا کر لے جاتا ہے۔ ان لوگوں کو اصل یقین اپنی دولت، اپنے تعلقات، اپنی طاقت، اپنی پارٹی، اپنے جتھے، بڑی حکومتوں سے اپنے تعلقات پر ہوتا ہے اور نہیں جانتے کہ بڑی طاقتیں بھی اپنے مفاد پورے ہونے پر طوطا چشمی کا مظاہرہ کرتی ہیں اور وفا کرنے والی صرف اور صرف خدا تعالیٰ کی ذات ہے۔
پس مسلمانوں کو خاص طور پر بار بار اللہ تعالیٰ نے اس بات کی طرف توجہ دلائی ہے کہ اللہ کا تقویٰ اختیار کرو۔ اپنے دل میں اللہ تعالیٰ کا حقیقی خوف پیدا کرو۔ اللہ تعالیٰ کو اپنی ڈھال بناؤ۔ ہمیشہ یاد رکھو کہ قائم رہنے والی اور سب طاقتوں کی مالک صرف اور صرف خداتعالیٰ کی ذات ہے۔ اس لئے اسے ہی اپنے بچاؤ کا ذریعہ سمجھو۔ اسباب سے کام لینا، تعلقات قائم کرنا، تعلقات سے فائدہ اٹھانا بے شک جائز بھی ہے، ضروری بھی ہے۔ اسباب بھی خداتعالیٰ کے مہیا کر دہ ہی ہیں اور آپس کے معاشرتی تعلقات قائم کرنا، نبھانا، مدد لینا اور مدد دینا اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے اصولوں کے مطابق زندگیاں گزارنے اور معاشرے کی بقا کے لئے ضروری ہیں۔ مگر یہ خیال ایک مومن کو کبھی نہیں آتا، نہ آنا چاہئے کہ اسباب اور تعلقات ہی سب کچھ ہیں۔ اصل سہارا تو خداتعالیٰ کی ذات ہے اور یہ ہمیشہ پیش نظر رہنا چاہئے۔ اگر خداتعالیٰ کا سہارا نہ ہو اس کی مددنہ ہو تو ظاہری اسباب اور تعلقات رتی بھر فائدہ نہیں دے سکتے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی پہلی سورۃ میں ہی مومن کو اس کے مقام اور طریق کار کے حصول کے لئے ایک دعا سکھا دی فرمایا کہ یہ دعا کیا کرو اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّا کَ نَسْتَعِیْنُ (الفاتحہ: 5) کہ ہم عبادت بھی خداتعالیٰ کی کرتے ہیں اور کرنا چاہتے ہیں اور مدد بھی اسی سے مانگتے ہیں کہ عبادت کی توفیق بھی وہی دے اور ہماری احتیاجیں بھی وہی پوری کرے۔ اور اس دعا کی اتنی اہمیت ہے کہ پانچ نمازوں کے فرائض اور سنتوں میں اسے پڑھنا لازمی قرار دیا گیا ہے بلکہ نوافل میں بھی اسے پڑھنا لازمی قرار دیا گیا ہے تاکہ ہر وقت یہ خیال رہے کہ عبادت بھی سچے دل سے خداتعالیٰ کی ہی کرنی ہے اور مدد بھی سچے دل سے خدا تعالیٰ سے ہی مانگنی ہے۔ ہر ضرورت پر، ہر خواہش پر، ہر کوشش کی تکمیل کے لئے پہلی نظر خداتعالیٰ پر پڑنی چاہئے اور پھر اسباب کے ساتھ ساتھ اس اصول کو بھی پکڑے رکھنا چاہئے کہ دینے والا تو خداتعالیٰ ہے۔ ان کو ششوں میں، ان تعلقات میں برکت ڈالنی ہے تو خداتعالیٰ نے ڈالنی ہے۔ اگر کوئی اس اصول سے منہ پھیرتا ہے تو پھر وہ کامیابی کے اس دروازے کو اپنے اوپر بند کرتا ہے جو خداتعالیٰ نے پیدا فرمایا ہے اور اس طرح سوائے اپنی ہلاکت کے سامان کے اور کچھ نہیں کر رہا ہوتا۔ آخر کار پھر مادی اور روحانی زوال کا شکار ہو جاتا ہے۔
ایک مومن کے لئے روحانیت اور تقویٰ انتہائی اہم چیز ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مکڑی کے گھر کی مثال دے کر یہ بھی واضح فرما دیا کہ منہ سے مذہب کا اقرار کر لینا کافی نہیں ہے۔ مذہب کا لیبل لگا لینا اور اس کا لبادہ اوڑھ لینا کافی نہیں ہے۔ اس سے انسان اپنی نجات کے سامان نہیں کر لیتا۔ بلکہ نجات اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی تعلیم پر عمل کرنے سے ہے۔ اس روح کو پیدا کرنے سے ہے جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے مذہب بھیجا ہے۔ اور مذہب کا بنیادی سبق یہ ہے کہ خداتعالیٰ سے تعلق پیدا کیا جائے اور جب یہی مقصدہے تو ایک دیانتدار انسان کا کام ہے کہ خداتعالیٰ کی تلاش کرے۔ قرآن کریم میں تو خاص طور پر اللہ تعالیٰ نے مومن کو حکم فرمایا ہے کہ میری طرف قدم بڑھاؤ۔ ان باتوں پر عمل کرنے کی کوشش کرو جو خداتعالیٰ نے ایک مومن کے لئے لازمی قرار دی ہیں۔ اسی لئے انبیاء آتے ہیں اور یہی کام خداتعالیٰ کے مقربین اور اولیاء، انبیاء کے مقصد کو آگے بڑھانے کے لئے کرتے ہیں۔ یہی مقصد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کا بھی تھا اور ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں: ’’خدا نے مجھے دنیا میں اس لئے بھیجا کہ تا میں حِلم اور خلق اور نرمی سے گم گشتہ لوگوں کو خدا اور اُس کی پاک ہدایتوں کی طرف کھینچوں اور وہ نور جو مجھے دیا گیا ہے اس کی روشنی سے لوگوں کو راہِ راست پر چلاؤں‘‘۔ (تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 143)
پھر آپ فرماتے ہیں: ’’میں اس لئے بھیجاگیا ہوں کہ تا ایمانوں کو قوی کروں اور خداتعالیٰ کا وجود لوگوں پر ثابت کرکے دکھلاؤں۔ کیونکہ ہر ایک قوم کی ایمانی حالتیں نہایت کمزور ہو گئی ہیں اور عالم آخرت صرف ایک افسانہ سمجھا جاتا ہے۔ اور ہر ایک انسان اپنی عملی حالت سے بتا رہا ہے کہ وہ جیسا کہ یقین دنیا اور دنیا کی جاہ و مراتب پر رکھتا ہے اور جیسا کہ اس کو بھروسہ دنیوی اسباب پر ہے یہ یقین اور یہ بھروسہ ہرگز اس کو خداتعالیٰ اور عالم آخرت پر نہیں۔ زبانوں پر بہت کچھ ہے مگر دلوں میں دنیا کی محبت کا غلبہ ہے۔ …سو مَیں بھیجا گیا ہوں کہ تا سچائی اور ایمان کا زمانہ پھر آوے اور دلوں میں تقویٰ پیدا ہو‘‘۔ (کتاب البریہ، روحانی خزائن جلد 13 صفحہ291-293حاشیہ)
پس باوجود اس کے کہ قرآن کریم کی تعلیم اپنی اصلی حالت میں آج تک قائم ہے اور موجود ہے لیکن دلوں سے اس کا اثر غائب ہے اور جیسا کہ خداتعالیٰ کی سنت رہی ہے کہ ایسے وقت میں جب دنیا خداتعالیٰ کو بھول جاتی ہے۔ خدا کو چھوڑ کر دنیا پر انحصار کرنا شروع کر دے۔ اللہ تعالیٰ اپنے فرستادوں کو بھیجتا ہے تاکہ وہ دوبارہ اللہ تعالیٰ کی عظمت دنیا میں قائم کریں۔ جیسا کہ مَیں نے کہا، اللہ تعالیٰ نے پرانی قوموں کے قصے اس لئے بیان فرمائے کہ ان کو دیکھ کر ہوشیار رہو اور اپنے مقصد پیدائش کو نہ بھولو۔ اور مقصد پیدائش صرف اور صرف خداتعالیٰ کی عبادت کرنا ہے اور دوسرے یہ پیشگوئی کا رنگ بھی رکھتی ہے۔ یہ واقعات جو بیان کئے گئے ہیں یہ پیشگوئی کا رنگ رکھنے والے واقعات ہیں کہ آئندہ بھی یہ حالت ہو سکتی ہے۔ چاہے وہ مسلمانوں کی جماعت ہی ہو اور آج دنیا کی حالت بتا رہی ہے کہ یہ سو فیصد سچی بات ہے کہ خداتعالیٰ کو بھول کر غیر مسلم تو علیحدہ رہے، مسلمانوں کا انحصار بھی اور توجہ بھی، کوشش بھی اور لگن بھی، دنیاوی چیزوں کے حصول میں بڑھتی چلی جا رہی ہے۔
پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت اس مقصد کے لئے ہوئی کہ اس قرآنی تعلیم کو دنیا پر لاگو کریں جو آج سے تقریباً 15سو سال پہلے آنحضرتﷺ کے ذریعہ قائم ہوئی تھی۔ جس میں بندے اور خدا کا ایسا تعلق پیدا کیا گیا تھا کہ عبادات کے علاوہ اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرنے کے معاشرتی حقوق بھی اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے اصول کے مطابق اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ادا کئے جاتے تھے۔ مومن ایک دوسرے کے حق ادا کرنے کے لئے اور اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی حاصل کر سکے اپنے نصف وسائل دوسرے مسلمان کو دینے کے لئے تیار ہوتے تھے کہ اس کو ضرورت ہے۔ اس لئے کہ اس وجہ سے میں خداتعالیٰ کے قریب ہو جاؤں گا اور اللہ تعالیٰ پھر مجھے ہر مشکل اور کڑے وقت میں بچانے والا ہو گا اور اس قربت کی وجہ سے وہ کیا حسین معاشرہ تھا جو آنحضرتﷺ نے قائم فرمایا۔ جو آپ کی قوت قدسی کی وجہ سے قائم تھا جس میں خالصتاً اللہ تعالیٰ کو ہی ڈھال بنایا جاتا تھا۔ صرف اللہ تعالیٰ کی خوشنودی ان کا مقصود ہوتا تھا۔ جہاں ایک مومن صحابی اپنی چیز کی ایک قیمت مقرر کرتا ہے تو دوسرا مومن کہتا ہے کہ نہیں آپ نے اس کی یہ قیمت کم مقرر کی ہے۔ شہر میں تو آجکل اس سے بہت زیادہ قیمت ہے۔ بیچنے والا کہتا ہے کہ میں اسے کیونکہ گاؤں سے لایا ہوں وہاں یہی قیمت ہے میں تو اسے اسی قیمت پر بیچوں گا۔ میں زائد قیمت لے کر اللہ تعالیٰ کے دروازوں کو اپنے پربندنہیں کرنا چاہتا۔ دوسرا کہتا ہے کہ میں تمہیں کم قیمت دے کر اپنے پر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے دروازوں کو بندنہیں کرنا چاہتا۔ ان میں جو بات چل رہی ہے تکرار اور بحث کی شکل اختیار کر لیتی ہے، کوئی بھی ان میں ماننے کو تیار نہیں ہوتا، نہ لینے والا نہ دینے والا کہ میں کیوں عارضی منافع کی خاطر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے حصار سے باہر نکلوں۔ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو اپنے سے دور کروں۔ پس یہ معاشرہ ہے جو قائم کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام تشریف لائے اور اب احمدیوں کو بھی یہ جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ اس معاشرے کے قیام کے لئے کیاہم کوئی کردار ادا کر رہے ہیں؟ کیا ہم اللہ تعالیٰ کو ولی بنانے کی خواہش رکھتے ہیں یا دنیا کے مال و دولت کو یاتعلقات اور جاہ و حشمت کو اپنا ولی بنا رہے ہیں؟جب تک ہمار اہر فعل خداتعالیٰ کی رضا کی خاطر نہ ہو اور غیراللہ سے مکمل تعلق نہ ٹوٹے۔ اس پر بھروسے اور امیدیں نہ ختم ہوں ہم حقیقی مومن نہیں کہلا سکتے۔ اگر ہم اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کو مکمل طور پر اپنے اوپر لاگو کرنے کی کوشش نہیں کرتے تو پھر ہم ایسے گھرمیں پناہ ڈھونڈ رہے ہیں جو عنکبوت کا گھر ہے۔ بے شک ہم کہنے کو تو ایمان لانے والوں میں شامل ہیں لیکن ہمارا عمل خداتعالیٰ کو ڈھال نہیں سمجھ رہا۔ پس
ہمارا خداتعالیٰ کو ڈھال بنانا اس وقت حقیقی رنگ اختیار کرے گا جب ہمارا ہر قول و فعل، ہمارا اٹھنا بیٹھنا، ہمارا اوڑھنا بچھونا صرف اور صرف خدا تعالیٰ کی رضا کی خاطر ہو گا۔ ہمارا اللہ تعالیٰ سے ایک تعلق قائم ہو گا۔ ہماری تمام محبتوں پر خداتعالیٰ کی محبت حاوی ہو گی۔ ہم صرف ولیوں اور پیروں کے قصے سننے والے اور پڑھنے والے نہیں ہوں گے بلکہ اپنی روحانیت کو اس بلندی تک لے جانے والے ہوں گے جہاں ہمارا ہر کام خداتعالیٰ کی رضا کی خاطر ہو جائے اور اللہ تعالیٰ سے ایک تعلق پیدا ہو۔
اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ ولی بنو۔ ولی پرست نہ بنو۔ (ملفوظات جلد دوم صفحہ 139 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)
تمہارا تعلق خداتعالیٰ کے پیاروں سے صرف اس لئے نہ ہو کہ ان سے دعائیں کروانی ہیں یا پھر کسی کو ولی سمجھ کر اس کے پیچھے پڑ جاؤ کہ اسی کی دعائیں قبول ہوتی ہیں اور پھریہ اس حد تک بدعت اختیار کر لے کہ آپ تو دعاؤں کے قریب بھی نہ جاؤ، نمازیں بھی ادا نہ کرو اور کہہ دو کہ ہم نے فلاں بزرگ سے تعلق پیدا کر لیا ہے اور یہ کافی ہے۔ کسی کی بزرگی کی حالت کو توخداتعالیٰ بہتر جانتاہے۔ لیکن یہ بات واضح ہے کہ ایسے بزر گ جو اپنے آپ کو خدا کا قریبی سمجھ کر صرف یہ کہتا ہے یا کہتے ہیں کہ ٹھیک ہے میں دعا کروں گا اور تمہارا کام ہو جائے گا اور خداتعالیٰ سے تعلق پیدا کرنے کی تلقین نہیں کرتے ان میں بھی ایک قسم کا تکبر پایا جاتا ہے۔ جو بھی تعویذ گنڈہ کرنے والے غیروں میں ہیں، مسلمانوں میں تو یہ بہت زیادہ یہ رواج ہے، وہ سب بدعتیں پیدا کرنے والے ہیں۔ پس بجائے کسی کا محتاج ہونے کے ایک مومن کا کام ہے کہ خود خداتعالیٰ سے ایسے رنگ میں تعلق پیدا کرے کہ خدا کا ولی بن جائے۔ نہ لوگوں کے پاس یا کسی شخص کے پاس اس نیت سے دعا کروانے جائے کہ صرف اسی کی دعا قبول ہوتی ہے۔ نہ ہی اپنے اندر چنددعاؤں کی قبولیت کی وجہ سے یہ تکبر پیدا کر ے کہ میرا خداتعالیٰ سے بڑا تعلق قائم ہو گیا ہے۔ حقیقی ولی وہی ہے جس میں عاجزی اور انکسار ہے اور جماعت احمدیہ میں ہر فرد کو یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ اس میں حقیقی ولی وہی ہے جس کا خلافت کے ساتھ بھی گہرا تعلق ہے۔
جماعت میں بہت بڑے بڑے دعائیں کرنے والے اور اللہ تعالیٰ سے تعلق رکھنے والے بزرگ گزرے ہیں۔ حضرت مولانا غلام ر سول صاحبؓ راجیکی کی تو خودنوشت کتاب بھی ہے انہوں نے اپنے واقعات بیان کئے ہیں۔ ان کے قبولیت دعا کے بے شمار واقعات ہیں باوجود اس کے کہ ان کا اللہ تعالیٰ سے ایک خاص تعلق تھا۔ لیکن انہوں نے دعا کروانے والے کو ہمیشہ یہی کہا ہے کہ خلیفہ وقت کے ساتھ تعلق مضبوط کرو اور دعا کے لئے کہو اور خود بھی دعا کرو۔ یہ حقیقی ولایت ہے جو عاجزی میں بڑھاتی ہے اور ایسے ولی بننے کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے نصیحت فرمائی ہے کہ تمہارا حقیقی سہارا ہروقت خداتعالیٰ کی ذات ہو۔ یہ نہیں کہ جب کسی پریشانی کا وقت آئے تو پیروں اور فقیروں کے درباروں پر حاضریاں لگانی شروع کر دیں۔ جس کاغیروں میں بہت رواج ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے اور اللہ تعالیٰ ہمیشہ محفوظ رکھے جماعت کو اس بدعت سے۔ دعا کے لئے کہنا منع نہیں ہے۔ مومنوں کو ایک د وسروں کے لئے دعائیں کرنی بھی چاہئیں اور کہنا بھی چاہئے لیکن اس کے ساتھ خود بھی دعاؤں کی طرف توجہ ہونی چاہئے اور جیسا کہ میں نے کہا کہ کسی مشکل میں نہیں بلکہ عام حالت میں خداتعالیٰ سے ایسا تعلق ہو جو اللہ تعالیٰ کے ولی ہونے کا حق ادا کرنے والا ہو اور جب یہ حالت ہو گی تو تبھی کہا جا سکتا ہے کہ انسان نے ادھر ادھر پناہیں ڈھونڈے کی بجائے اللہ تعالیٰ کی پناہ ڈھو نڈنے کی کوشش کی ہے۔
اس بات کو مزید کھولنے کے لئے کہ کیوں خداتعالیٰ کی پناہ تلاش کی جائے اور باقی ہر وسیلے کو خداتعالیٰ کے مقابلے پر لاشئی محض سمجھا جائے خداتعالیٰ نے قرآن کریم میں ایک جگہ فرمایا ہے کہ قُلْ اَ غَیْرَاللّٰہِ اَتَّخِذُ وَلِیًّا فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَھُوَ یُطْعِمُ وَلَا یُطْعَمُ قُلْ اِنِّیْٓ اُمِرْتُ اَنْ اَکُوْنَ اَوَّلَ مَنْ اَسْلَمَ وَلَا تَکُوْنَنَّ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ (الانعام: 15) تو کہہ دے کہ کیا اللہ کے سوا میں کوئی دوست پکڑلوں جو آسمانوں اور زمین کی پیدائش کا آغاز کرنے والا ہے اور وہ سب کو کھلاتا ہے جبکہ اسے کھلایا نہیں جاتا۔ تو کہہ دے کہ یقینا مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں ہر ایک سے جس نے فرمانبرداری کی، اول رہوں اور تو ہرگز مشرکین میں سے نہ بن۔ پس زمین و آسمان کا مالک تو وہ خدا ہے۔ یہ کتنی بڑی بے وقوفی ہے کہ جو مالک ہے اس کو چھوڑ کر خدا تعالیٰ کی مخلوق کو مدد کے لئے پکارا جائے، اس مخلوق کے سہارے ڈھو نڈے جائیں۔ خداتعالیٰ نے زمین و آسمان کا آغاز کیا۔ اس نے سب کچھ پیدا فرمایا۔ اس کو بنانے والا وہ ہے۔ اس میں ہر موجود چیز خداتعالیٰ کی پیدا کردہ ہے۔ پس جو پیدا کرنے والا اور اصل مالک ہے اس کو چھوڑ کر غیراللہ کی جھولی میں گرنا کتنی بڑی حماقت ہے۔ پھر مزید اس دلیل کو مضبوط کیا کہ اس نے پیدا کرکے آغاز کرکے چھوڑ نہیں دیا بلکہ غذا جو ہماری بقا کے لئے ضروری ہے اس کا انتظام بھی اس خدا نے کیا ہے۔ پس جب زندگی کی بقا کے سامان خدا نے کئے ہیں تو کسی دوسرے کی دولت، حکومت، اثر و رسوخ دیکھ کر اس پر گرنا یقینا جہالت ہے۔ جس کے دروازوں پر انسان گرتا ہے وہ تو خود مخلوق ہونے کے ناطے خدا تعالیٰ کے محتاج ہیں اور جو خود کسی کا محتاج ہوا اور کسی سے لے رہا ہو اور اس کو دینے والے سے مانگنے کی بجائے لینے والے سے مانگنا یہ تو پرلے درجے کی حماقت ہے۔ جبکہ جن دنیاداروں کے در پر تم گر رہے ہو ان کو دینے والا خود تمہیں کہہ رہا ہے کہ میرے پاس آؤ میں تمہاری حاجات پوری کروں گا اور پھر یہ بھی فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کو کو ئی نہیں کھلاتا۔ ایک تو یہ کہ مالک کل ہے۔ اس کو اس کی مخلوق نے کیا دینا ہے۔ دوسرے اصل مطلب یہ ہے کہ اس کو کھانے کی احتیاج ہی نہیں ہے۔ اس کی بقا تمہاری طرح مادی وسائل سے نہیں ہے۔ اس کو کسی خوراک اور لباس کی یاد وسری اشیاء کی ضرورت نہیں ہے۔ پس یہ مادی ضرورتیں انسان کی ہیں خداتعالیٰ کی نہیں اور جس کی یہ ضرورتیں نہیں اور جو تمام وسائل کا منبع اور مہیا کرنے والا ہے اس کو چھوڑ کر ایک مومن کس طرح دوسرے کے در کو پکڑ سکتا ہے۔
پس اس خدا کی پناہ میں آنا ہر مومن کی زندگی کا مقصود ہونا چاہئے۔ ہر مومن کو یہ سمجھنا چاہئے کہ اس خدا کی عبادت کرنا میرا مطمح نظر ہو۔ اس خدا کے آگے اپنی ضروریات رکھنا یہی ایک مومن اور ایک انسان کی عقلمندی کا تقاضا ہے۔ پس اس خدا کی کامل فرمانبرداری کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہے اور جوایسے لوگ ہیں یہی حقیقت میں اللہ تعالیٰ کے اولیاء ہوتے ہیں اور پھر ان سے بڑھ کر انبیاء کا درجہ ہے جو یقینا اولیاء بھی ہیں۔ اس مقام کو حاصل کرنے کے بعد اس پر قائم رہنے اور اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہونے کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف علیہ السلام کے حوالے سے ہمیں یہ د عا سکھائی ہے۔ فرماتا ہے رَبِّ قَدْ اٰتَیْتَنِیْ مِنَ الْمُلْکِ وَعَلَّمْتَنِیْ مِنْ تَاْوِیْلِ الْا َحَادِیْثِ۔ فَاطِرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اَنْتَ وَلِیّٖ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ تَوَفَّنِیْ مُسْلِمًا وَّاَلْحِقْنِی بِالصّٰلِحِیْنَ(یوسف: 102) کہ اے آسمان اور زمین کے پیدا کرنے والے! تو دنیا اور آخرت میں میرا دوست ہے۔ مجھے فرمانبردار ہونے کی حالت میں وفات دے اور مجھے صالحین کے زمرہ میں شامل کر۔
خداتعالیٰ کے ولیوں کو نہ ہی کشائش اور نہ ہی بُرے حالات خداتعالیٰ کو بھلانے کا باعث بنتے ہیں۔ انہیں ہر حالت میں خدا یاد رہتا ہے اور وہ اس پر قائم رہنے کے لئے کہ ہر آن خداتعالیٰ سے ہی حاصل کرنا ہے یہ دعا بھی مانگتے ہیں جو بیان ہوئی ہے۔ جیسا کہ میں نے کہا کہ حضرت یوسفؑ کی دعا تھی جو قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائی ہے۔ اور اس دعا کا بیان اس لئے ہے کہ ہم بھی خداتعالیٰ سے تعلق اور روحانی ترقی کے لئے اللہ تعالیٰ سے قرب بڑھانے کے لئے یہ دعا کیا کریں دنیاوی کامیابیاں ہمیں خداتعالیٰ کی ذات سے دور نہ لے جائیں اور ابتلاء اور مشکلات ہمیں خداتعالیٰ کی ذات سے بدظن نہ کر دیں۔ بلکہ یہ دعا ہو کہ خداتعالیٰ ہمیں ہر حالت میں فرمانبرداری کرتے ہوئے وفات دے۔ ہمارا شمار ہمیشہ ان میں ہو جو صالحین اور خداتعالیٰ کے ولی ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے یہ دعا کا طریق بھی ہمیں سمجھا دیا کہ یہ دعا کس طرح کرنی ہے۔ ولی بننے کے لئے کس طرح کوشش کرنی ہے۔ کس حالت میں تم خداتعالیٰ کے قریب ہوتے ہو کہ جب خداتعالیٰ تمہاری دعائیں سنتا ہے اور تمہیں اپنے قرب سے نوازتا ہے اس بارہ میں سورئہ طٰہٰ میں اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرماتے ہوئے کہ جو دنیوی زندگی کے سامان ہیں جو دنیاد اروں کو دئیے گئے ہیں انہیں دیکھ کر تمہارے اندر بھی دنیاوی لالچ پیدا نہ ہو جائے بلکہ یہ عارضی رزق ہے۔ تم اپنے رب کے اس رزق کی تلاش کرو جو ہمیشہ رہنے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ولی بننے کی کوشش کرو۔ دنیاوی لالچ کی وجہ سے نہ دنیا داروں سے دوستی کرو، نہ ہی اس دولت کی طرف اتنے مائل ہو جاؤ کہ خداتعالیٰ تمہیں بھول جائے۔ ہمیشہ یاد رکھو کہ جو دنیاوی دولت تمہیں آ ج نظر آر ہی ہے اس کا انجام اچھا نہیں ہے۔ آجکل بھی ہم دیکھتے ہیں کہ یہ دنیاوی دولت کا لالچ ہی ہے جس نے دنیا کے دو بلاک بنائے تھے۔ پھر ان میں کوششیں ہوئیں تو کمی لانے کی کوشش کی گئی۔ روس کی سٹیٹس بنیں اور ٹوٹا۔ اب پھر وہی سوچیں ابھرنے لگ گئی ہیں۔ بلاک بننے شروع ہو رہے ہیں۔ پاکستان افغانستان وغیرہ پر بھی جو بڑی طاقتوں کی امن قائم کرنے کی مہربانی ہے یہ ان کی کسی ہمدردی کے لئے نہیں ہے بلکہ اپنی طاقت قائم رکھنے اور ہمسایہ ممالک کے وسائل کو استعمال کرنے کے لئے ہے اور آخر میں دنیا دیکھے گی کہ نتیجہ یہی نکلے گا۔
پس آجکل جوحالات ہیں، دنیا کی طاقتوں کی جو چھیڑ چھاڑ شروع ہے اس کا بھی انجام بڑا بھیانک نظر آ رہا ہے۔ اس کے لئے بھی احمدیوں کو بہت دعا کرنی چاہئے۔
مسلمانوں کوکہا گیا ہے کہ تم ان کی دولتوں اور ان موجودہ حالتوں کو نہ دیکھو۔ تمہاری کامیا بی خداتعالیٰ سے تعلق میں ہے اور اس کا طریق یہ ہے کہ فرمایا وَاْمُرْاَھْلَکَ بِالصَّلٰوۃِ وَاصْطَبِرْعَلَیْھَا لَا نَسْئَلُکَ رِزْقًا۔ نَحْنُ نَرْزُقُکَ۔ وَالْعَاقِبَۃُ لِلتَّقْوٰی(طٰہٰ: 133) اور اپنے گھر والوں کو نماز کی تلقین کرتا رہ اور اس پر ہمیشہ قائم رہ۔ ہم تجھ سے کسی قسم کا رزق طلب نہیں کرتے۔ ہم ہی تو تجھے رزق عطا کرتے ہیں اور نیک انجام تقویٰ ہی کا ہوتاہے۔ اپنی روحانی حالت بڑھانے کے لئے خداتعالیٰ سے تعلق پیدا کرنے کے لئے خود بھی نمازوں کی طرف توجہ دو اور اپنے گھر والوں کو بھی اس کی تلقین کرو۔ یہ اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے اور جیسا کہ رزق کا پہلے بھی ذکر آ چکا ہے یہاں بھی یہی بیان ہے کہ اصل رزق تو خداتعالیٰ کی طرف سے آتا ہے۔ مومن جب عبادت کی طرف متوجہ ہوتا ہے تو اس کو خداتعالیٰ جہاں مادی رزق دیتا ہے وہاں وہ روحانی رزق میں بھی ترقی کرتا چلا جاتا ہے۔ اس کا تعلق خداتعالیٰ سے بڑھتا ہے۔ اس میں قناعت پیدا ہوتی ہے۔ اس کی نظر دوسروں کی دولت پر پڑنے کی بجائے ہر آن خداتعالیٰ پر پڑتی ہے اور جب یہ صورت ہو گی تو تقویٰ میں ترقی ہو گی اور متقی کا اللہ تعالیٰ خود ہر معاملے میں کفیل ہو جاتا ہے۔ اسے ایسی ایسی جگہوں سے دیتا ہے جہاں سے اس کو گمان بھی نہیں ہوتا۔ یہ بھی قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ وہ متقی ہر وقت اللہ تعالیٰ کی پناہ میں ہوتے ہیں۔ دوسروں کی دولت اور طاقت کی انہیں رتی بھر پروا نہیں ہوتی۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اور ہماری اولادوں کو اپنے سے خاص تعلق پیدا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اس مقصد کے حصول کے لئے آنحضرتﷺ نے ایک دعا بھی سکھائی ہے۔
ایک حدیث میں آتا ہے۔ یہ روایت حضرت حسن بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے مجھے کچھ کلمات سکھائے کہ میں ان کو وتر میں پڑھا کروں۔ کلمات یہ ہیں کہ اے اللہ! مجھے ان لوگوں میں شامل کر کے ہدایت دے جنہیں تو نے ہدایت دی ہے۔ اور مجھے ان لوگوں میں شامل کرکے عافیت دے جنہیں تو نے عافیت دی ہے۔ اور ان لوگوں میں شامل کرکے میرا متکفل بن جا جن کی تو نے خود کفالت کی ہے۔ اور جو کچھ تو نے مجھے عطا کیا ہے اس میں میرے لئے برکت رکھ دے۔ اور جو شر تو نے مقدر کر رکھا ہے اس سے مجھے بچا۔ یقینا تو ہی فیصلہ کرنے والا ہے اور تیرے خلاف فیصلہ نہیں کیا جا سکتا۔ جس کا تو دوست بن جائے وہ کبھی ذلیل و رسوا نہیں ہوتا۔ اے ہمارے رب تو بڑی برکتوں والا اور بڑی شان والا ہے۔ یہ حدیث سنن ترمذی کتاب الصلوٰۃ میں ہے۔ پس یہ دعا ہمیشہ ہمیں مانگتے رہنا چاہئے۔ (سنن ترمذی کتاب الصلوٰۃ باب ما جاء فی القنوت فی الوتر حدیث 464)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ’’میں تو بہت دعا کرتا ہوں کہ میری سب جماعت ان لوگوں میں ہو جائے جو خداتعالیٰ سے ڈرتے ہیں اور نماز پر قائم رہتے ہیں اور رات کو اٹھ کر زمین پر گرتے ہیں اور روتے ہیں اور خدا کے فرائض کو ضائع نہیں کرتے اور بخیل اور ممسک اور غافل اور دنیا کے کیڑے نہیں ہیں‘‘۔ (مجموعہ اشتہارات۔ جلد دوم صفحہ619 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)
پھر فرمایا: ’’خدا اس جماعت کو ایک ایسی قوم بنانا چاہتا ہے جس کے نمونے سے لوگوں کو خدا یاد آوے اور جو تقویٰ اور طہارت کے اول درجہ پر قائم ہوں اور جنہوں نے درحقیقت دین کو دنیا پر مقدم رکھ لیا ہو‘‘۔ (مجموعہ اشتہارات۔ جلد دوم صفحہ619 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)
اللہ کرے کہ ہم قرآن کریم کی تعلیم پر عمل کرنے والے ہوں۔ خداتعالیٰ کی ذات میں ہر آن پناہ ڈھونڈنے والے ہوں۔ دنیاوی لالچوں سے دور ہوں دوسروں کے حقوق کی ادائیگی کرنے میں اول درجے میں شمار ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جو دعائیں ہیں ان سب کے وارث بنیں اور اللہ تعالیٰ کے ولی بننے کی طرف ہر آن ہمارے قدم بڑھتے چلے جائیں۔ آج یہاں ایک وضاحت بھی مَیں کر دوں، پہلے تو ایک آدھ خط مجھے آتے تھے، اب ایسے خطوں کی کثرت ہو گئی ہے۔ بعض لوگوں نے لکھنا شروع کر دیا ہے۔ میرے حوالے سے یہ مشہور کر دیا گیاہے کہ یہاں یورپ میں بھی اور دوسری جگہوں پہ بھی حکومتوں کی طرف سے جوسوائن فلو کا ٹیکہ پریوینٹو (Preventive) لگایا جا رہا ہے، وہ نہ لگوائیں کہ مَیں نے اس سے روکا ہے۔ مَیں نے قطعاً کوئی ایسی بات نہیں کی۔ جہاں جہاں لگا یا جا رہا ہے اور جن جن لوگوں کو، بچوں یا بوڑھوں کو حکومت نے کہا کہ لگوائیں، تو وہ بالکل لگوائیں۔ کسی نے روکا نہیں ہے۔ پتہ نہیں میری کس بات سے اخذ کر لیا گیاہے یا ویسے ہی ہوائی اڑا دی ہے۔ افواہوں سے بھی پرہیز کرنا چاہئے۔
(الفضل انٹرنیشنل جلد 16 شمارہ 50 مورخہ 11 دسمبر تا 17 دسمبر 2009ء صفحہ 5 تا صفحہ 8)
صفت الولی۔ صرف ایمان لانا کافی نہیں بلکہ خدا کو ولی بنانے کی بھی ضرورت ہے۔ دنیا کی خاطر خدا کو بھلا بیٹھنے والوں کے بدانجام کا ذکر۔ حکومت کی بقا کی خاطر کئی مسلمان ملکوں کے سربراہوں کا اپنے ملکوں کو گروی رکھنا کیونکہ انہیں خدا پر یقین کامل نہیں تھا، معاشی بحران کے باعث credit crunch کا ذکر۔ ترقی پذیر اور خاص پاکستان میں یہ بیماری انتہاء پر پہنچی ہوئی ہے کہ افسروں سے تعلق کی بنا پر انتظامیہ سے بھی ظلم کروائے جاتے ہیں۔ خدا کا نام لینے کے باوجود مظالم کی انتہاء۔ قرآن میں پرانے قصوں کو بیان کرنے کی وجہ۔ حضرت مسیح موعودؑ کی آمد کا مقصد۔ خدا کو ڈھال بنانے کی حقیقت۔ حقیقی ولی وہی ہے جس میں عاجزی اور انکسار ہے۔ خود ولی بنیں دعائیں کروانے کے لئے کسی کے پاس نہ جائیں۔ راجیکی صاحب کا دعا کروانے والے کو ہمیشہ کہنا کہ خلیفہ وقت کے ساتھ تعلق مضبوط کرو، دعا کے لئے کہو اور خود بھی کرو۔ دنیاوی دولت کا لالچ ہے جس نے آج دنیا کے دو بلاک بنائے ہوئے ہیں۔ پاکستان وغیرہ پر بڑی طاقتوں کی امن قائم کرنے کی مہربانی یہ کسی ہمدردی کے لئے نہیں بلکہ اپنی طاقت قائم رکھنے اور ہمسایہ ممالک کے وسائل کو استعمال کرنے کے لئے ہے۔ مومن کو دوسروں کی دولت کی طرف دیکھنے سے منع کیا گیا ہے۔
فرمودہ مورخہ 20؍نومبر 2009ء بمطابق20؍ نبوّت 1388 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن (برطانیہ)
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔