صفت الولی۔ صحابہ کے واقعات کی روشنی میں
خطبہ جمعہ 27؍ نومبر 2009ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
تشہد و تعوذ اور سورۃفاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
گزشتہ چند جمعوں سے قرآن کریم کی آیات کی روشنی میں مَیں وَلِیْ کے مضمون کو خطبات میں بیان کر رہا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کس طرح ہمارا والی ہے اور مولیٰ ہے اور کس کس طرح اپنی اس صفت کا اظہار فرماتا ہے اور ایک انسان کو اللہ تعالیٰ کا وَلِیْ اور دوست کس طرح بننا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ کے قرب کا سب سے اعلیٰ مقام حضرت محمد مصطفیﷺ کو ملا اور اللہ تعالیٰ کے اس اعلان کہ نَحْنُ اَوْلِیٰٓؤُکُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَۃِ۔ وَلَکُمْ فِیْھَا مَا تَشْتَھِیْٓ اَنْفُسُکُمْ وَلَکُمْ فِیْھَا مَا تَدَّعُوْنَ (حم سجدہ: 31-33) ہم اس دنیوی زندگی میں بھی تمہارے ساتھ ہیں اور آخرت میں بھی اور اس میں تمہارے لئے وہ سب کچھ ہو گا جس کی تمہارے نفس خواہش کرتے ہیں اور اس میں تمہارے لئے وہ سب کچھ ہو گا جو تم طلب کرتے ہو۔ اس کے سب سے پہلے مخاطب آنحضرتﷺ ہی ہیں، سب سے پیارے تو خداتعالیٰ کے آپؐ ہی ہیں۔ زمین و آسمان آپؐ کی خاطر پیدا کیا گیا۔ آپؐ کی پیدائش سے وفات تک اللہ تعالیٰ آپؐ کے ولی ہونے کے ہر دم نظارے دکھاتا رہا۔ آپؐ کی خواہش کی آپؐ کی زندگی میں تکمیل ہوئی۔ شریعت کامل ہوئی اور خاتم الانبیاء کہلائے اور آپؐ کا سلسلہ یہ آج تک بھی قائم و دائم ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے آپؐ سے یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ (المائدۃ: 68) کا وعدہ فرمایا تو ہر سختی اور مشکل میں آپؐ کی حفاظت فرماتے ہوئے ہر قسم کے نقصان سے بچایا۔ بلکہ ہجرت کے وقت جب حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پکڑے جانے کے خدشہ اور خوف کا اظہار فرمایا تو لَاتَحْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا (التوبۃ: 40) کہ خوف نہ کرو جو ہمارا آقا اور مولیٰ ہے جو ہمارا اللہ ہے، جو ہمارا وَلِیْ ہے وہ ہمارے ساتھ ہے، یہ کہہ کر ان کی تسلی کرائی۔ پس اللہ تعالیٰ کے مومنین کے لئے وَلِیْ ہونے کے نظارے بھی آپؐ کی قوت قدسی کی وجہ سے آپؐ کے ماننے والوں کو بھی نظر آئے اور حضرت ابو بکرؓ صدیق کا تو آپؐ کا خاص ساتھی ہونے کی وجہ سے ایک خاص مقام تھا۔ انہوں نے تو ہر آن دیکھے ہی، عمومی طور پر بھی صحابہؓ نے اللہ تعالیٰ کے وَلِیْ بن کر اس کے وَلِیْ ہونے کے نظارے دیکھے۔ اور آج تک آنحضرتﷺ کی قوت قدسی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ یہ نظارے دکھاتا چلا جا رہا ہے۔ ہر قدم پر اللہ تعالیٰ کے لئے خالص ہونے والے یہ نظارے دیکھتے ہیں۔ جب اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ میں مسیح محمدی کو بھیجا تو اللہ تعالیٰ کی اس دوستی، مدداورولی ہونے کی نئی مثالیں بھی ہم نے اس زمانے میں دیکھیں، ایمان میں ترقی کے نظارے نظر آنے لگے۔ بہرحال اس وقت مَیں اسی حوالے سے بعض واقعات بیان کروں گا جو پہلے تو آنحضرتﷺ کے صحابہؓ کی زندگی کے واقعات ہیں۔ اس کے بعد پھرحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے صحابہؓ کے بھی۔ جن سے اللہ تعالیٰ کے اپنے بندوں کے ساتھ تعلق اور ان کے لئے غیرت رکھنے پر روشنی پڑتی ہے کہ کس طرح ان کی زندگی میں بھی اللہ تعالیٰ ان کا مددگار بنتا ہے اور اُن کے مرنے کے بعد بھی۔ اُن کی ذات پر دنیا کے حملوں سے انہیں بچاتا ہے۔ اگر کسی نے کوئی دعا کی تو اس کو صرف اس کی زندگی تک ہی محدودنہیں رکھابلکہ ان کی خواہش کو جس کے لئے دعا کی گئی تھی مرنے کے بعد بھی اللہ تعالیٰ نے پورا فرمایا۔
پہلی جو مثال مَیں نے لی ہے، واقعہ جو مَیں نے لیا ہے وہ آنحضرتﷺ کے صحابی حضرت زبیرؓ کاہے۔ حضرت عبداللہ بن زبیرؓ جو حضرت زبیرؓ کے بیٹے تھے وہ بیان کرتے ہیں کہ جنگ جمل کے روز میں حضرت زبیرؓ کے پہلو میں کھڑا تھا۔ آپؓ نے فرمایا اے میرے بیٹے! آج کے دن یا تو کوئی ظالم قتل ہو گا یا کوئی مظلوم، دو طرح کے لوگ آج قتل ہونے والے ہیں۔ یا ایک ظالم یا مظلوم۔ اور یقینا مَیں دیکھ رہا ہوں کہ مَیں مظلوم قتل کیا جاؤں گا۔ میرا سب سے بڑا مسئلہ میرا قرض ہے۔ کیا توُدیکھتا ہے کہ قرض کی ادائیگی کے بعد ہمارے مال میں سے کچھ بچے گا؟ پھر آپؓ نے کہا اے میرے بیٹے! ہمارے مال کو بیچ کر میرا قرض ادا کر دینا۔ ان کی عرب کے مختلف شہروں میں جائیدادیں تھیں۔ اس لئے انہوں نے کہا کہ میرا قرض جو ہو تم جائیدادوں کو بیچ کر ادا کر دینا اور آپؓ نے تیسرے حصے کی وصیت کی اور تین میں سے تیسرے حصے کی وصیت اپنے بیٹے یعنی حضرت عبداللہ بن زبیرؓ کے حق میں کی۔ پھر کہا کہ قرض کی ادائیگی کے بعد اگر ہمارے مال میں سے کچھ بچ رہے تو تیرے بیٹے کے لئے بھی تیسرا حصہ ہے۔ عبداللہ ابن زبیرؓ نے کہا کہ وہ مجھے قرض کی ادائیگی کے لئے کہتے رہے۔ پھر کہاکہ اے میرے بیٹے! اگر توقرض ادا کرنے سے رہ جائے تو میرے مولیٰ سے مدد طلب کرنا۔ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ مَیں نہ سمجھا کہ آپؓ کی اس سے کیا مراد ہے۔ مَیں نے عرض کیا کہ اے میرے باپ! آپؓ کا مولیٰ کون ہے؟ آپؓ نے کہا کہ اللہ۔ عبداللہ بن زبیرؓ کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم! کہ جب بھی میں نے زبیر کے قرض کی ادائیگی کرتے ہوئے مشکل محسوس کی میں نے دعا کی، اے زبیرؓ کے مولیٰ! ان کا قرض ادا کر دو تو اللہ تعالیٰ آپ کا قرض ادا کر دیتا تھا۔ انتظام فرما دیتا تھا جس سے قرض ادا ہو جاتا تھا۔ (صحیح بخاری کتاب الخمس باب برکۃ الغازی فی مالہ حیاً و میتاً حدیث نمبر 3129)
پس یہ ہے اللہ تعالیٰ کا اپنے بندے کے ساتھ مدد اور دوستی کا سلوک کہ وفات کے بعد بھی کسی ذاتی کمزوری کی وجہ سے، کسی قرض کی وجہ سے، کسی کو آپ پر انگلی اٹھانے یا اعتراض کرنے کا موقع نہیں دیا اور جب ضرورت ہوئی قرض کی ادائیگی کے انتظام ہوتے چلے گئے۔
پھر ایک اور عجیب روایت ہے، ایک واقعہ ہے کہ کس طرح خداتعالیٰ نے ایک صحابی کی خواہش کے مطابق اس کی شہادت کے بعد بھی اسے کافروں کے ہاتھوں سے محفوظ رکھا۔ یہ واقعہ الرجیع کے شہید کی بابت ہے جو سیرت ابن ہشام میں درج ہے، رجیع وہ جگہ تھی جہاں دھو کے سے 10 صحابہؓ کو دینی تربیت کے لئے بلا کر لے گئے تھے، ایک قبیلہ والے اور وہاں جا کے ان کو شہید بھی کیا ان میں سے سات کو پہلے۔ ایک دو جو بچے تھے ان کو بھی بعد میں قید کرکے شہید کر دیا۔ توبہرحال ان میں عاصم بن ثابتؓ بھی شامل تھے انہوں نے دشمنوں سے مقابلہ جاری رکھا اور لڑتے لڑتے وہ شہید ہو گئے۔ جب حضرت عاصم بن ثابتؓ کی شہادت ہو گئی تو اہل ہُذَیْل نے کوشش کی کہ ان کا سر حاصل کر لیں تاکہ وہ ان کو سَلَافَۃ بنت سعدبن شہیدکے ہاتھ بیچ سکیں۔ اس عورت نے نذر مانی تھی کہ اگر اس کو عاصم بن ثابتؓ کی کھوپڑی مل گئی تو وہ اس میں شراب پئے گی کیونکہ حضرت عاصمؓ نے جنگ اُحد کے دن اس کے دو بیٹوں کا کام تمام کیا تھا۔ لیکن اہل حُضَیْل کواس کی توفیق نہ ملی کیونکہ عاصم کی لاش اور ان کے درمیان شہد کی مکھیاں حائل ہو گئی تھیں۔ جب شہید ہو کے گرے تو تھوڑی دیر بعد ہی مکھیوں اور بھڑوں نے قبضہ کر لیا۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ اس کو رات کو پھر آ کر لے جائیں گے۔ رات تک پڑا رہنے دیتے ہیں۔ لیکن اس کا موقع بھی ان کو نہیں ملا۔ پھر بارش ہوئی بڑی شدید اور خداتعالیٰ نے ایسا سیلاب بھیجا کہ عاصم کے جسم کو اٹھایا اور وہ سیلاب اپنے ساتھ بہا کر لے گیا۔ یہ وہی عاصم تھے جنہوں نے قبول اسلام کے بعد خدا سے عہد کیا تھا کہ کوئی مشرک ان کو نہ چھوئے گا اور نہ ہی وہ کسی مشرک کو چھوئیں گے۔ کیونکہ کہیں وہ اس سے ناپاک نہ ہو جائیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں ان کو جب یہ پتہ چلا کہ مکھیوں نے عاصم کی لاش کی حفاظت کی تھی تو فرمایا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں کی حفاظت فرمایا کرتا ہے۔ عاصم نے یہ نذر مانی تھی کہ وہ ساری زندگی ہرگز کسی مشرک کو نہ چھوئیں گے اور نہ کبھی کوئی مشرک ان کو چھوئے گا۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان مشرکین کو عاصم کی وفات کے بعد بھی اس سے باز رکھا جس طرح اللہ تعالیٰ نے انہیں زندگی میں مصروف رکھا تھا۔ (ماخوذ از السیرۃ النبویۃ لابن ہشام صفحہ 592 ذکر یوم الرجیع فی سنۃ الثلاث۔ دار الکتب العلمیۃ بیروت 2001ء)
پھر ایک واقعہ ہے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ مدد فرماتے ہوئے بھوک مٹانے کے انتظامات کرتا ہے۔ حضرت جابرؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے ایک مہم کے لئے ہمیں بھیجا اور حضرت ابوعبیدہؓ کو ہمارا امیر مقرر کیا اور ہمارے ذمہ قریش کے ایک قافلے کو روکنے کا فرض تھا اور ایک تھیلا صرف ہمیں دیا سفر کے زادراہ کے لئے اور اس کے علاوہ اور کچھ کھانے کو نہیں تھا۔ حضرت ابو عبیدہؓ کہتے ہیں کہ ہم ایک کھجور روزانہ کھایا کرتے تھے اور پانی پی لیتے تھے اور جیسے بچہ چوستا رہتا ہے، سارا دن چوستے رہتے ہیں۔ پھر بعض دفعہ یہ ہوتا تھا کہ پیٹ بھرنا ہو تو درختوں پر سوٹیاں ما ر کے ان کے پتے جھاڑتے تھے اور ان کو پھر پانی میں تر کرکے کھالیا کرتے تھے۔ ایک دن ہم سمندر کے کنارے جا رہے تھے تو ایک بہت بڑا ساٹیلہ سا نظر آیا، ہم نے دیکھا تو وہ ایک مچھلی تھی۔ حضرت ابوعبیدہؓ نے کہا یہ مردار ہے اسے نہیں کھانا چاہئے لیکن تھوڑی دیر کے بعد کہا کہ ہم اللہ تعالیٰ کے رسولﷺ کے بھیجے ہوئے ہیں اللہ تعالیٰ کی راہ میں نکلے ہیں اور مجبوری بھی ہے اور اس لئے تم کھا سکتے ہو۔ کہتے ہیں ہم نے اس مچھلی پر جو اتنی بڑی تھی کہ ہم نے اس مچھلی پر ایک مہینہ گزارا کیا۔ 300 آدمی تھے اور اس کو کھا کر سب خوب موٹے ہو گئے اور بہت بڑی مچھلی تھی اس میں سے تیل مشکیں بھر بھر کے نکالتے رہے۔ اس کی آنکھ اتنی بڑی تھی کہ 13 آدمی اس میں آرام سے بیٹھ سکتے تھے۔ اس کی پسلی کی ہڈی اتنی اونچی تھی کہ اونٹ پر بیٹھ کر اس میں سے گزر سکتے تھے۔ بہرحال اللہ تعالیٰ نے یہ ان کے لئے انتظام کیا، اس میں سے کچھ بچا کے وہ لے بھی آئے اور آنحضرتﷺ کو بتایا تو فرمایا کہ بالکل ٹھیک کیا تم نے، یہ تمہارے لئے جائز تھی بلکہ اگر کوئی ٹکڑا ہے تو مجھے بھی دو مَیں بھی کھاؤں گا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے یہ رزق مہیاکیا تھا۔ (مسلم کتاب الصید و الذبائح باب اباحۃ میتۃ البحر حدیث 4891)
تو یہ ہیں خداتعالیٰ کی مدد کے طریق کہ جو اس کی راہ میں نکلتے ہیں ان کی خوراک کے بھی سامان فرما دیتا ہے۔ کہاں ایک کھجور کھاکر پانی پی کر اور پتوں پر گزارا کر رہے تھے اور پھر اللہ تعالیٰ نے یہ انتظام کیا کہ گوشت بھی مہیا ہو گیا اور تیل بھی مہیا ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ کامل ایمان لانے والوں اور تقویٰ پر چلنے والوں کو، توکل کرنے والوں کو فرماتا ہے وَیَرْزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُ (الطلاق: 4) کہ اور ان کو وہاں سے رزق دیتا ہے جہاں سے وہ گمان بھی نہیں کر سکتے۔ پس جب دنیا میں اللہ تعالیٰ کے وعدوں کو پورا ہوتے ہم دیکھتے ہیں تو اس بات پر یقین اور بڑھتا ہے کہ جو اس دنیا میں وَلِیْ ہونے کا ثبوت دیتا ہے، اپنے بندوں کے انتظامات کرتاہے اس نے جو آخرت کے متعلق وعدے کئے ہوئے ہیں ان کو بھی یقینا پورا فرمائے گا۔
جیسا کہ مَیں نے کہا کہ آنحضرتﷺ کی غلامی میں اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھیجا اور آخَرِیْنَ مِنْہُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ (الجمعۃ: 4)کے وعدہ کو پورا فرماتے ہوئے آنحضرتﷺ کے غلام صادق کے ماننے والوں کو بھی ان صفات سے متصف کیا جو آقا نے انقلاب لا کر اپنے ساتھیوں میں پیدا کی تھی، تقویٰ پر چلنے والوں میں پیدا کی تھی۔ اللہ تعالیٰ کے اس خاص سلوک کے واقعات جو صحابہؓ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے روا رکھے اور ہر تقویٰ پر چلنے والے اور اللہ تعالیٰ کا ولی بننے کی کوشش کرنے والے کے ساتھ آج بھی روا رکھ رہا ہے ان میں سے چندبیان کروں گا۔ پہلے تو آنحضرتﷺ کے چند صحابہؓ کے بیان کئے تھے۔
یہ واقعات بیان کرنے سے پہلے ایک عجیب روایت ہے ڈاکٹر عطر دین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایک گواہی ہے وہ بھی پیش کرتا ہوں جو ایک غیر نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بارہ میں اظہار کرتے ہوئے دی۔ ڈاکٹر عطر دین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے صحابی تھے ان کے حالات میں لکھا ہے کہ ایک مجذوب راہوں ضلع جالندھر کا رہنے والا مصری شاہ نام امرتسر آیا۔ وہ ایک صوبہ دار میجر کا لڑکا تھا۔ ڈاکٹر صاحب اس مجذوب کی شہرت سن کر اس کے پاس گئے۔ اس نے آپ کو دیکھتے ہی کہاکہ جس نے وَلِیْ بننا ہے وہ قادیان جائے۔ چنانچہ آپ نے 1899ء میں بیعت کا خط قادیان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں لکھ دیا۔ (اصحاب احمد جلد 10 صفحہ 2)
پھر حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو ایک پائے کے حکیم تھے اور بہت بڑے بزرگ تھے، عالم دین تھے، ان کے بارہ میں حضرت مولانا راجیکی صاحبؓ لکھتے ہیں کہ چوہدری نواب خان صاحب تحصیلدار جو مخلص احمدی تھے جب گجرات میں تبدیل ہو کر آئے تو جب دورہ پرراجیکی میں تشریف لاتے میرے پاس کچھ دیر ضرور قیام فرماتے۔ ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صداقت اور عظمت شان کے متعلق اکثر تذکرہ کرتے رہتے۔ ایک دن اسی طرح کی گفتگو کا سلسلہ جا ری تھا کہ نواب خان صاحب تحصیلدار نے مجھ سے ذکر کیا کہ مَیں نے حضرت حکیم نورالدین صاحب سے ایک دفعہ عرض کیا کہ مولانا آپ تو پہلے ہی باکمال بزرگ تھے آپ کو حضرت مرزا صاحب کی بیعت سے کیا فائدہ حاصل ہوا؟ اس پر حضرت حکیم نورالدین صاحب نے فرمایا کہ نواب خان ! مجھے حضرت مرزا صاحب کی بیعت سے فوائد بہت حاصل ہوئے ہیں۔ لیکن ایک فائدہ ان میں سے یہ ہوا ہے کہ پہلے مجھے نبی کریمﷺ کی زیارت بذریعہ خواب ہوا کرتی تھی اب بیداری میں بھی ہوتی ہے۔ (حیات نور صفحہ 194) پھر فرمایا آپؑ کی صحبت میں یہ فائدہ اٹھایا کہ دنیا کی محبت مجھ پر بالکل سرد پڑ گئی ہے۔ یہ سب مرزا کی قوت قدسیہ اور فیض صحبت سے حاصل ہوا۔
اب کچھ اور واقعات ہیں جو مَیں بیان کرنا چاہتا ہوں۔ حضرت مولانا غلام رسول صاحبؓ راجیکی کا واقعہ ہے۔ لکھتے ہیں کہ ایک موقع پر چوہدری اللہ داد صاحب نے مجھ سے دریافت کیا کہ یہ جو دست غیب کے متعلق مشہور ہے کہ بعض وظائف یا بزرگوں کی دعا سے انسان کی مالی امداد ہو جاتی ہے کیا یہ صحیح بات ہے؟ مَیں نے کہا ہاں بعض خاص گھڑیوں میں جب انسان پر ایک خاص روحانی کیفیت طاری ہوتی ہے تو اس وقت اس کی تحریری یا تقریری دعا باذن اللہ یقینا حاجت روائی کا موجب ہو جاتی ہے۔ میری یہ بات سن کر چوہدری اللہ داد کہنے لگے تو پھر آپ مجھے کوئی ایسی دعایا عمل لکھ دیں جس سے میری مالی مشکلات دور ہو جائیں۔ مَیں نے کہا کہ اچھا اگر کسی دن کوئی خاص وقت اور گھڑی میسر آ گئی تو انشاء اللہ مَیں آپ کو وہ دعا لکھ دوں گا۔ چنانچہ ایک دن جب افضال ایزدی اور سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی برکت سے مجھے روحانی قوت کا احساس اور قوت مؤثرہ کی کیفیت کا جذبہ محسوس ہوا (یعنی ایسی طاقت جس سے اثر ہو سکتا ہے دعا میں) تو مَیں نے حسب وعدہ چوہدری اللہ داد کو ایک دعا لکھ کر دی۔ جس کے الفاظ غالباً اَللّٰھُمَّ اکْفِنِیْ بِحَلَالِکَ عَنْ حَرَامِکَ وَاَغْنِنِیْ بِفَضْلِکَ عَمَّنْ سِوَاکَ تھے اور تلقین کی کہ وہ اس دعا کو ہمیشہ اپنے پاس رکھیں۔ چنانچہ انہوں نے اسی وقت اس دعا کو اپنی پگڑی کے ایک گوشہ میں باندھ کر محفوظ کر لیا۔ خدا کی حکمت ہے کہ میرے مولیٰ کریم نے سیدناحضرت مسیح موعودؑ کے طفیل اس وقت اس ناچیز کی دعا کو ایسا قبول فرمایا کہ ایک سال تک چوہدری اللہ داد غیبی امداد اور مالی فتوحات کے کرشمے اور عجائبات اور ملاحظہ کرتے رہے۔ اس کے بعد اتفاق سے، بدقسمتی سے یہ دعا چوہدری اللہ داد صاحب سے ضائع ہو گئی اور وہ دست غیب کا سلسلہ ختم ہو گیا۔ جب تک وہ کاغذ رہا چلتا رہا اس کے گمنے کے بعد ختم ہو گیا۔ (ماخوذ از حیات قدسی حصہ اول صفحہ 45-46 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)
پھر حکیم محمد اسماعیل صاحب بیان کرتے ہیں کہ میرے بچے محمد یعقوب کی پیدائش پر جب اس کا ختنہ کیا گیاتو حجام کی غلطی سے اس کی رگیں تک کٹ گئیں۔ خون کسی صورت میں بندنہ ہوتا تھا۔ خون کے مسلسل خارج ہونے سے بچے کی حالت غیر ہو گئی۔ دودھ پینا تو ایک طرف رہا اس میں اتنی سکت بھی نہیں رہی کہ حرکت کر سکے، آنکھیں پتھرا گئیں اور بظاہر ایک بے جان لا شے کی طرح نظر آنے لگا۔ اس گھبراہٹ اور پریشانی کے عالم میں میں اپنے مطب سے، حکمت کرتے تھے، دواخانہ سے دوائی لینے کے لئے گیا تو اس وقت اتفاقاً حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ میرے مطب کے سامنے سے گزر رہے تھے۔ مَیں نے السلام علیکم کہا اور تمام حالات بیان کرکے دعا کی درخواست کی۔ حضرت مولوی صاحب نے اسی وقت ہاتھ اٹھا کر دعا کرنی شروع کر دی اور کافی دیر تک نہایت سوز و گداز اور انہماک سے دعا میں مشغول رہے۔ دعا سے فراغت کے بعد جب مَیں گھر پہنچا اور بیوی سے کہا بچے کو ذرا دودھ تو پلاؤ۔ جب اس کو ماں نے اشارہ کیا تو نہایت اشتیاق سے تندرست بچے کی طرح دودھ پینے لگا۔ جیسے اس کو کبھی کوئی تکلیف ہی نہیں تھی۔ کہتے ہیں مَیں حضرت مولوی صاحب کے اس دعا کے اعجاز کو دیکھ کر حیران رہ گیا اور اللہ تعالیٰ سے آپ کے گہرے تعلق کا یہ کرشمہ میرے لئے بہت ایمان افروز ثابت ہوا۔ (سیرت حضرت مولانا شیر علی صاحب صفحہ 227-228)
پھر حضرت محمد حسین جہلمی ٹیلر ماسٹر کہتے ہیں یہ بھی حضرت مولوی شیر علی صاحب کا ہی قصہ ہے کہ ایک د فعہ موضع پھلر وال ضلع جہلم تشریف لائے ایک غیر احمدی عورت کی شادی ہوئے چھ سات برس کا طویل عرصہ گزر چکا تھا۔ لیکن وہ اولاد سے محروم تھی۔ عورت کو جب آپ ایسی بزرگ ہستی کی آمد کا علم ہوا تو کہنے لگی سنا ہے مولوی صاحب بڑے بزرگ آدمی ہیں ان سے مجھے اولاد کا کوئی تعویذ ہی لے دیں۔ مَیں نے کہا مولوی صاحب تعویذ تو نہیں دیتے البتہ دعا کے لئے کہوں گا۔ چنانچہ جب آپ واپس جانے لگے تو سٹیشن پر پہنچ کر مَیں نے سارا واقعہ بیان کیا اور دعا کے لئے عرض کیا، آپ نے وہیں ہاتھ اٹھا کر دعا کی، آپ کی دعا کا یہ اثر ہوا کہ قریباًایک سال کے اندر ہی خداتعالیٰ نے اس کو لڑکا عطافرمایا۔ (سیرت حضرت مولانا شیر علی صاحب صفحہ 240-241)
پھر مولوی غلام رسول صاحب راجیکی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ فیضان ایزدی نے سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت راشدہ کے طفیل اور تبلیغ احمدیت کی برکت سے میرے اندر ایک ایسی روحانی کیفیت پیدا کر دی تھی کہ بعض اوقات جو کلمہ بھی منہ سے نکالتا تھا اور مریضوں اور حاجتمندوں کے لئے دعا کرتا تھا مولا کریم اسی وقت میرے لئے معروضات کو شرف قبولیت بخش کر لوگوں کی مشکل کشائی فرما دیتا تھا۔ چنانچہ ایک موقع پر جب موضع سعداللہ پور گیا تو مَیں نے چوہدری اللہ داد صاحب کو جو چوہدری عبداللہ خان نمبردار کے بھائی تھے اور ابھی احمدیت سے مشرف نہ ہوئے تھے مسجد کی ایک دیوار کے ساتھ بیٹھے دیکھا، بھائی کے بیٹے تھے کہ وہ بے طرح دمہ کے شدید دورہ میں مبتلا تھے اور سخت تکلیف کی وجہ سے نڈھال ہو رہے تھے۔ مَیں نے وجہ دریافت کی انہوں نے کہا کہ 25سال سے پرانا دمہ ہے مجھے اور اس کی وجہ سے میری زندگی دوبھر ہو گئی ہے۔ مَیں نے علاج کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا سارے ہندوستان کے جتنے قابل ڈاکٹر ہیں، طبیب ہیں ان سے علاج کروا چکا ہوں لیکن کوئی فائدہ نہیں ہو رہا۔ ایسی بیماری کو موروثی اور مزمن کہتے ہیں اور ڈاکٹروں نے اسے لاعلاج قرار دے دیا ہے۔ تو مایوس ہو چکا ہوں اب علاج سے اور اب تو مَیں زندگی سے تنگ آ چکا ہوں۔ تو مَیں نے انہیں کہا کہ آنحضرتﷺ نے تو کسی بیماری کو لِکُلِّ دَآئٍ دَوَائٌ کے فرمان سے لاعلاج قرار نہیں دیا۔ آپ اسے لاعلاج سمجھ کر مایوس کیوں ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہامایوسی کے سوا چارہ کوئی نہیں۔ مَیں نے کہا کہ ہمارا خدا تو فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُ (ھود: 108) ہے۔ اس نے فرمایا کہ اِنَّہٗ لَا یَایْئَسُ مِنْ رَّوْحِ اللّٰہِ اِلَّا الْقَوْمُ الْکَافِرُوْنَ (یوسف: 88) یعنی یاس اور کفر تو اکٹھے ہو سکتے ہیں لیکن ایمان اور یاس اکٹھے نہیں ہو سکتے۔ ناامیدی اکٹھی نہیں ہو سکتی ایمان کے ساتھ۔ اس لئے آپ ناامیدنہ ہوں اور پیالے میں تھوڑا سا پانی منگوائیں۔ مَیں آپ کو دم کرکے دیتا ہوں چنانچہ انہوں نے پانی منگوایا اور کہتے ہیں کہ مَیں نے خداتعالیٰ کی صفت شافی سے استفادہ کرتے ہوئے اتنی توجہ سے پانی پر دم کیا کہ مجھے خداتعالیٰ کی صفت کے فیوض کرنوں کی طرح اس پانی میں برستے ہوئے نظر آئے۔ اس وقت مجھے یقین ہو گیا کہ یہ پانی اللہ کے فضل سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی برکت سے مجسم شفا بن چکا ہے۔ چنانچہ جب مَیں نے یہ پانی حضرت چوہدری اللہ داد کو پلایا تو تھوڑی دیر میں ان کا دمہ رک گیا اور پھر اس کے بعد کبھی ان کو دمہ کی تکلیف نہیں ہوئی۔ اس کے بعد 16-15 سال وہ زندہ رہے۔ اور اس قسم کے نشانات سے اللہ تعالیٰ نے چوہدری صاحب موصوف کو احمدیت نصیب فرمائی اور وہ نہ صرف احمدی ہوئے بلکہ مخلص احمدی مبلغ بن گئے۔ (ماخوذ از حیات قدسی حصہ اول صفحہ 44-45 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)
پھر حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکیؓ ایک اور واقعہ بیان کرتے ہیں کہ موضع جامو ڈولا جو ہمارے گاؤں سے شمال کی طرف 2میل کے فاصلے پر ہے وہاں کے اکثر زمیندار ہمارے بزرگوں کے ارادتمند تھے جب انہوں نے جیون خان ساکن دھدرہا کی معجزانہ بیماری اور معجزانہ صحت یابی کا حال سنا تو ان میں سے خان محمد زمیندار میرے والد صاحب، یہ بھی ایک واقعہ ہے جو میں بیان نہیں کر رہا جو کافی لمبا ہے، جیون خان بھی ایک شخص تھا جو مولوی صاحب کے ساتھ مل کے گاؤں کے خوب مخالفت کیا کرتا تھا اور ان کا وہاں آنا بند کر دیا تھا۔ لیکن پھر اس کو کچھ ایسی تکلیف ہوئی پیٹ کی کہ آخر مجبوراً انہوں نے کہا کہ اب یہ اس کی اگر صحتیابی ہو سکتی ہے تو مولوی صاحب کی دعا سے ہو سکتی ہے۔ ان کو بلا کے لاؤ۔ چنانچہ مولوی صاحب گئے، دعا کی، تھوڑی دیر کے لئے شفا ہوئی واپس گئے تو پھر تکلیف شروع ہو گئی۔ پھر انہوں نے خاص طور پر دعا کی اس کے لئے اور اللہ تعالیٰ نے اس کو شفادی۔ پھر مولوی صاحب نے اس واقعہ میں لکھا ہے کہ مولویوں نے اس وقت کہا تھا کہ ساری دنیا کے علاج ہو چکے ہیں اس کے اس کو شفا نہیں ہوئی یہ کونسا اللہ تعالیٰ کا خاص بندہ آ گیا ہے جو کہتاہے کہ مَیں کروں گا، مرزا صاحب کا مرید تو دیکھ لینا یہ بھی کچھ نہیں کر سکتا۔ اس بات پہ پھر مولوی صاحب کہتے ہیں مَیں نے اللہ تعالیٰ سے خاص طور پر یہ واسطہ دے کے دعا کی اور اللہ تعالیٰ نے اس شخص کو شفا دی۔ تو بہرحال جیون خان کے اس واقعہ کے معجزانہ شفاء کی وجہ سے جو زمیندار تھے، خان محمد زمیندار کہتے ہیں وہ میرے والد کی خدمت میں حاضرہوئے اور عرض کیا کہ میرا چھوٹا بھائی جان محمد عرصہ سے ٹی بی کے مرض میں مبتلا ہے اس لئے مہربانی کرکے میاں غلام رسول راجیکی کو میرے ساتھ بھیجیں تاکہ وہ کچھ دن ہمارے گھر ٹھہریں اور جان محمد کے لئے دعا کرے۔ (یہ خلاصہ مَیں بیان کر رہا ہوں )۔ چنانچہ ان کی درخواست پر مولوی صاحب کہتے ہیں والد صاحب نے مجھے کہا مَیں چلا گیا اور وہاں جاتے ہی وضو کرکے نماز میں اس کے بھائی کے لئے دعا کرنی شروع کر دی۔ سلام پھیرتے ہی مَیں نے ان سے دریافت کیا کہ اب جان محمد کی حالت کیسی ہے گھر والوں نے دیکھا تو جواب دیا کہ بخار تو بالکل اتر گیا ہے۔ کچھ بھوک بھی محسوس ہوتی ہے۔ چنانچہ اس کے بعد چند دنوں کے اندر ہی اس کے کمزور جسم میں جان پڑ گئی اور اس میں اتنی طاقت آ گئی کہ وہ چلنے پھر نے لگ گیا۔ اس نشان کو دیکھ کر اگرچہ ان لوگوں کے اندر احمدیت سے متعلق کچھ حسن ظن تو پیدا ہوا مگر حضرت مسیح موعودؑ کے حلقہ بیعت میں کوئی شخص نہ آیا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا (لکھتے ہیں مولوی صاحب) کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے فرمایا کہ اس مریض کو جو صحت دی گئی ہے وہ ان لوگوں پر اتمام حجت کی غرض سے ہے اگر انہوں نے احمدیت قبول نہ کی تو یہ مریض اسی شعبان کے مہینے کی 28ویں تاریخ کی درمیانی شب قبر میں ڈالا جائے گا۔ چنانچہ مَیں نے بیدار ہوتے ہی قلم اور دوات منگوائی اور الہام الٰہی کاغذ پر لکھا اور اسی گاؤں کے بعض غیر احمدیوں میں دے دیا اور انہیں تلقین کی کہ اس پیشگوئی کو تعین موت کے عرصہ سے پہلے ظاہر نہ کریں۔ اس کے بعد مَیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بارگا ہ اقدس میں قادیان چلاآیا اور یہیں رمضان مبارک کا مہینہ گزارا۔ خداتعالیٰ کی حکمت ہے کہ جب جان محمد بظاہر صحت یاب ہو گیا اور جا بجا اس معجزہ کا چرچا ہونے لگا تو اس مرض نے دوبارہ حملہ کیا اور وہ ٹھیک شعبان کی29ویں رات اس دنیائے فانی سے کوچ کر گیا۔ اس کے مرنے کے بعد غیر احمدیوں نے میری تحریر لوگوں کے سامنے رکھی کہ ان کی حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی۔ مگر افسوس اس کے بعد بھی اس کو دیکھ کر بھی اس کے عزیز رشتہ دار اور گاؤں والے احمدی نہیں ہوئے۔ (ماخوذ از حیات قدسی حصہ اول صفحہ 27-28 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت خلیفہ اولؓ کو دیکھ لو کہ انہیں جو ضرورت ہو اس وقت پوری ہو جاتی ہے اور کوئی روک یا دیر نہیں ہوتی۔ ان سے اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ جب تمہیں ضرورت ہو ہم دیں گے۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ میرے سامنے ایک آدمی آیا۔ اس نے دو سو روپے بطور امانت دو سال کے لئے دیا اور کہا کہ مَیں دو سال کے بعد آکے آپ سے لے لوں گا… ایک شخص جس نے جناب سے ایک سو روپیہ قرض مانگا ہوا تھا وہ پاس ہی بیٹھا ہوا تھا۔ دوسرا آدمی جس نے حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ سے سو روپیہ قرض مانگا تھا تو پاس بیٹھا ہوا تھا۔ آپؓ نے اس دو سو روپیہ میں سے ایک سو روپیہ اسے دیا اور رسید دے کر اسی تھیلی میں رکھ دی جس میں بقایا رقم تھی اور روپوں کی تھیلی گھر بھجوا دی۔ تھوڑی دیر کے بعد وہی امانت رکھوانے والا دوبارہ واپس آیا اور کہا کہ میرا ارادہ بدل گیا ہے وہ روپیہ مجھے ابھی دے دیں۔ دو سال کی مدت نہیں۔ فرمایا کب جاؤ گے، کہیں باہر جانا تھا اس نے، اس نے کہا کہ ایک گھنٹے تک۔ آپؓ نے فرمایا کہ اچھا پھر ایک گھنٹہ کے بعد آ کر لے جانا۔ جب وہ وقت پر پہنچا، آپ کے پاس بیٹھا ہی تھا تو آپ نے فرمایا کہ دیکھو انسان پر بھروسہ کرنا کیسی غلطی ہے۔ مَیں نے غلطی کی خدا نے بتلا دیا کہ تم نے غلطی کی ہے۔ اب دیکھو میرا مولیٰ میری کیسی مدد کرتا ہے۔ وہ ایک سو روپیہ اس کے آنے سے پہلے ایک گھنٹے کے اندر اندر آپ کو مل گیا کسی اور ذریعہ سے اور آپ نے اسے دے دیا۔ (ماخوذ از تاریخ احمدیت جلد سوم صفحہ 555-556 مطبوعہ ربوہ)
قاضی عبدالرحیم صاحب بیان کرتے ہیں کہ اہلیہ چراغ دین جمونی کی تذلیل کے واقعہ کے قریباً ایک سال بعد یہ واقعہ ہوا کہ خاکسار عام طور پر، (پہلا واقعہ ہے اس کے بعد یہ واقعہ ہے) کہتے ہیں کہ خاکسار عام طور پر عشاء کے بعد اپنے مکان کے آگے محلے والوں کو تبلیغ کیا کرتا تھا اور ایک مجلس لگ جایا کرتی تھی۔ ایک دن ایک ہندو جو پرلے درجے کا مفتن تھا اس نے ایک ایسی بات کہی جس کے جواب میں مجھے حضرت مسیح موعودؑ کی صداقت کی مثال کسی نبی کی مثال سے دینی پڑی۔ اس پر اس شخص نے مجلس کے مسلمانوں کو اشارہ کیا اور اس میں سے ایک ملاح نے جو وہاں جموں کے ایک گھاٹ کا ٹھیکیدار تھا اور بڑا زبان دراز تھا یہ کہنا شروع کر دیا کہ مرزا کی مثال نبیوں سے دیتا ہے؟اور اس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کواور مجھے سخت گندی گالیاں دینی شروع کر دیں اور مجھے گلے سے پکڑ لیا اور خوب مارا۔ یہاں تک کہتے ہیں کہ بہت برا حال کیا میرا۔ اس وقت مجھے اپنی کسی رسوائی اور تکلیف کی تو حس نہیں تھی مگر حضورؑ کی شان میں اس کی بدزبانی سے سخت درجہ دکھ ہوا اور اکثر حصہ رات کا بے چینی میں گزرا۔ خداتعالیٰ کی شان دیکھئے کہ رات کو یکدم بارش ہوئی اور زور کی بارش ہوئی اور اگلی صبح کے اوّل وقت میں اس ملاح کے دروازے کے سامنے تھانیدار اور سپاہی کھڑے ہوئے سخت گندی گالیاں دے رہے تھے اور اس کو گھر سے نکلنے کے لئے بلا رہے تھے جب وہ نکلا تو اس کو ہتھکڑی لگا کر تھانہ میں لے گئے۔ اس شخص کو جو لڑا تھا ان سے۔ کہتے ہیں یہاں اس بات کا ذکر بھی کر دینا ضروری ہے کہ ریاست کے تھانیدار گورنمنٹ انگریزی کے تھانیدار وں کی طرح نہیں ہوتے اس وقت کے رواج کے مطابق جابر، سخت گیر اور بے باک ہوا کرتے تھے اس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ انہوں نے کس قدر فحش کلامی کی ہو گی۔ اور واقعہ یوں ہوا کہ ٹھیکیدار پابند ہوتے ہیں کہ رات کے وقت دریا عبور کرکے کشتیاں نہ چلائیں لیکن اس کے آدمیوں نے جو کشتی رات کو استعمال کرتے تھے کی اس رات اور بارش اور طوفان کی وجہ سے اس میں جو بیٹھی ہوئی تھیں عورتیں وہ ڈوب گئیں جس کی وجہ سے پولیس کو اطلاع ہوئی اور پولیس نے آ کے اس کو مارا پیٹا بھی اور گالیاں بھی دیں اور پکڑ کے بھی لے گئے۔ کہتے ہیں اس شوخی کا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ دکھائی تھی فوری مزاچکھ لیا۔ (ماخوذ از اصحاب احمد جلد 6 صفحہ 133-134 جدید ایڈیشن مطبوعہ قادیان)
ماسٹر عبدالرحمن صاحب نے سنایا کہ ایک د فعہ مَیں قادیان کے ہندو بازار میں سے گزرا بے پناہ گرمی پڑ رہی تھی۔ چند ہندوؤں نے کہا کہ آپ ہر روز دعا کی برکات بیان کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ قادر ہے۔ آپ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ آج بارش برسا دے تا گرمی دور ہو۔ آپ نے ان کے طنز و تمسخر کو بری طرح محسوس کیا(وہ دعا کے لئے نہیں کہہ رہے تھے بلکہ تمسخر کرتے ہوئے کہہ رہے تھے مذاق اڑاتے ہوئے) اور آپ کی غیرت جوش میں آئی۔ آسمان بالکل صاف تھا آپ مسجد اقصیٰ میں جا کر اس وقت تک دعا میں مصروف رہے جب تک بارش کی وجہ سے آپ کے کپڑے گیلے نہ ہو گئے۔ فرماتے تھے کہ مَیں ہندوؤں سے جب بھی اس نشان کا ذکر کرتا تو وہ شرمندہ ہو کر آنکھیں نیچی کر لیتے۔ (اصحاب احمد جلد 7 صفحہ 135 جدید ایڈیشن مطبوعہ قادیان)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں۔ واقعات تو بہت ہیں بیان کرنے کا وقت نہیں ملے گا۔ ایک اقتباس پڑھنا چاہتا ہوں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃالسلام کا۔
آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’حدیث شریف میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مَنْ عَادٰی لِیْ وَلِیًّا فَاٰذَنْتُہٗ لِلْحَرْب یعنی جو شخص میرے ولی کے ساتھ دشمنی کرتا ہے وہ گویا میرے ساتھ جنگ کرنے کو تیار ہوتا ہے۔ فرمایا کہ یہ قاعدہ کی بات ہے کہ جب کوئی شخص کسی کے ساتھ محبت کرتا ہے اور محبت بھی ایسی جیسے کوئی اپنی اولاد سے کرتا ہے اور ہر ایک دوسرا شخص بار بار کہے کہ یہ شخص مر جائے یا اس کی نسبت اور اسی قسم کی دلآزاری کی باتیں کہے اور اسے تکلیف دے تو وہ شخص ایسی باتوں سے خوش ہو سکتا ہے اور وہ باپ جس کے بچے کے لئے کوئی شخص بددعائیں کر رہا ہو یا دیگر رنجیدہ کلمات اس کے بچے کے لئے استعمال کر رہا ہو ایسے شخص سے کب محبت کر سکتا ہے۔ اسی طرح پر اولیاء اللہ بھی اطفال اللہ کا رنگ رکھتے ہیں (اللہ کے جو اولیاء ہوتے ہیں، اللہ کے بچوں کی طرح کا رنگ رکھتے ہیں )۔ کیونکہ انہوں نے جسمانی بلوغ کا چولہ اتارا ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی آغوش رحمت میں پرورش پاتے ہیں۔ وہ خود ان کا متولی اور متکفل اور ان کے لئے غیرت رکھنے والا ہوتا ہے۔ جب کوئی شخص خواہ وہ کیسا ہی نماز روزے رکھنے والا ہو ان کی مخالفت کرتا ہے اور ان کے دکھ دینے پر کمر بستہ ہو جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی غیرت جوش مارتی ہے اور ان کی مخالفت کرنے والوں پر اس کا غضب بھڑکتا ہے۔ اس لئے کہ انہوں نے اس کے ایک محبوب کو دکھ دینا چاہا ہے۔ اس وقت پھر نہ وہ نماز کام آتی ہے اور نہ وہ روزہ۔ کیونکہ نماز اور روزہ کے ذریعہ سے اسی ذات کو خوش کرنا تھا جس کو ایک دو سرے فعل سے ناراض کر لیا ہے۔ (نماز روزہ اللہ تعالیٰ کو خوش کرنے کے لئے تھی لیکن اللہ تعالیٰ کے پیاروں کو تکلیف دے کر جو کام کیا اس سے اللہ تعالیٰ کو ناراض کر لیا)۔ فرمایا کہ پھر وہ رضا کا مقام کیونکر ملے۔ جب تک غضب الٰہی دور نہ ہو۔ وہ اولیاء اللہ کا مخالف نادان ان اسباب غضب سے ناواقف ہوتا ہے بلکہ اپنے نماز روزے پر اسے ایک ناز اور گھمنڈ ہوتا ہے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ خداتعالیٰ کا غضب دن بدن بڑھتا جاتا ہے اور وہ بجائے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے دن بدن اللہ تعالیٰ سے دور ہٹتا جاتا ہے یہاں تک کہ بالکل راندہ درگاہ ہو جاتا ہے۔ وہ شخص جو بالکل فنا کی حالت میں ہے اور آستانہ الوہیت پر گرا ہوا ہے اور آغوش ربوبیت میں پرورش پا رہا ہے اور خداتعالیٰ کی رحمت نے اسے ڈھانپ لیا ہے۔ یہاں تک کہ اس کا بات کرنا اللہ تعالیٰ کی بات کرنا ہوتا ہے اور اس کا دوست خداتعالیٰ کا دوست اور اس کا دشمن خداتعالیٰ کا دشمن ہو جاتا ہے۔ پس ایسے مومن کامل کا دشمن رہ کر کوئی شخص کیونکر مومن کامل ہو سکتا ہے اور ایسے ہی مومن کامل کی دشمنی سے اس کا ایمان سلب ہو جاتا ہے اور اسے مَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ میں سے بنا دیتا ہے۔ خداتعالیٰ کے ماموروں اور اولیاء اللہ کی مخالفت اور ان کی ایذاء رسانی کبھی اچھا پھل نہیں دے سکتی۔ جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ مَیں ان کو ستا کر اور دکھ دے کر بھی آرام پا سکتا ہوں وہ سخت غلطی کرتا ہے اور اس کا نفس اسے دھوکہ دے رہا ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد اول صفحہ 229-230 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)
اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے لئے ہمیشہ غیرت دکھائی ہے اور آج بھی دکھاتا ہے۔ لیکن جیسا کہ واقعات سے ظاہر ہے جس نے نہ سمجھنا ہو نہیں سمجھتے۔ دعاؤں کے ذریعہ سے ان کی تکلیفیں بھی دور ہوئیں لیکن پھر بھی سمجھ نہیں آیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا دعویٰ سچا ہے اور ہمیں ان کو تکلیف دینے کی بجائے ان کے ساتھ ان کی بیعت میں آنا چاہئے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا جو تعلق ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ، آپ کی جماعت کے ساتھ، یہ آج تک قائم ہے۔ جو خالص ہو کر دعائیں کرنے والے ہیں اللہ تعالیٰ ان کو نظارے دکھاتا ہے اور یہ تعلق قائم ہو بھی سکتا ہے ہر ایک کے ساتھ، اگر خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کے آگے جھکا جائے صرف تقویٰ پر چلنے اور عبادات کی طرف توجہ پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں ’’یہ قویٰ جو انسان کو دئے گئے ہیں اور اگر وہ ان سے کام لے تو یقینا ولی ہو سکتاہے مَیں یقینا کہتا ہوں کہ اس اُمّت میں بڑی قوت کے لوگ آتے ہیں جو نور اور صدق اور و فاسے بھرے ہو ئے ہوتے ہیں اس لئے کوئی شخص اپنے آپ کو ان قویٰ سے محروم نہ سمجھے۔ کیا اللہ تعالیٰ نے کوئی فہرست شائع کر دی ہے۔ جس سے یہ سمجھ لیا جائے کہ ہمیں ان برکات سے حصہ نہیں ملے گا۔ خداتعالیٰ بڑا کریم ہے اس کی کریمی کا بڑا گہرا سمندر ہے کبھی ختم نہیں ہو سکتا اور جس کو تلاش کرنے والا اور طلب کرنے والا کبھی محروم نہیں رہا۔ اس لئے تم کو چاہئے کہ راتوں کو اٹھ اٹھ کر دعائیں مانگو اور اس کے فضل کو طلب کرو۔ ہر ایک نماز میں دعا کے لئے کئی مواقع ہیں، رکوع، قیام، قعدہ، سجدہ وغیرہ پھر آٹھ پہروں میں پانچ مرتبہ نماز پڑھی جاتی ہے۔ فجر، ظہر، عصر، شام اور عشاء اور ان پر ترقی کرکے اشراق اور تہجد کی نمازیں ہیں یہ سب دعا ہی کے لئے مواقع ہیں۔ (ملفوظات جلد اول صفحہ 233-234 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)
آنحضرتﷺ نے بھی ہمیں دعا کا طریق سکھایا ہے کہ کس طرح دعا کرنی چاہئے اللہ تعالیٰ کا قرب پانے کے لئے۔
ایک روایت میں آتا ہے حضرت ز ید بن ثابت بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ہمیں ایک دعا سکھائی اور فرمایا کہ ہر روز اس کے ذریعہ سے اپنے گھر والوں کا خیال رکھا کریں۔ آپ نے فرمایا کہ تو صبح کے وقت یہ کہہ مَیں حاضر ہوں، اے اللہ مَیں حاضر ہوں اور سب ساعتیں اور خوشیاں تجھ سے ہی ہیں اور ہر قسم کی بھلائی تیرے ہاتھوں میں ہے اور تجھ سے ہی ہے اور تیرے ذریعہ ہی مل سکتی ہے اور تیری طرف رجوع کرکے ہی مل سکتی ہے۔ اے اللہ مَیں جو بھی کہوں یا جو بھی نذر مانوں یا کوئی قسم کھاؤں تو تیری مشیت اس سے پہلے ہے۔ جو توُ چاہے وہی ہوتا ہے اور جس کو تو پسندنہ کرے وہ ہرگز نہیں ہوتا۔ اور ہر قسم کی قوت اور طاقت تجھ سے ہی یقینا تجھ سے ہی ہے۔ یقینا تو ہر چیزپر قادر ہے۔ اے میرے اللہ! مَیں جو بھی درود بھیجوں تو وہ اس پر ہو جس پر تُودرود بھیجے اور مَیں جس پر لعنت کروں وہ لعنت اس پر ہو جس پر تُو لعنت کرے۔ یقینا توُ ہی میرا دوست اور مددگار ہے۔ اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ مجھے مسلمان ہونے کی حالت میں وفات دے اور مجھے صالحین سے ملا دے۔ اے میرے اللہ!میں تجھ سے راضی بالقضاء رہنے کی توفیق مانگتا ہوں اور مرنے کے بعد زندگی کی ٹھنڈک کا اور تیرے چہرہ کو دیکھ کے حاصل ہونے والی لذت کا طلبگار ہوں۔ اور مَیں کسی نقصان پہنچانے والے کے نقصان اور گمراہ کر دینے والے فتنے کے بغیر تیری ملاقات کے شوق کا طلبگار ہوں اے میرے اللہ مَیں تیری پناہ چاہتا ہوں کہ مَیں ظلم کروں یا مجھ پر ظلم کیا جائے۔ یا مَیں زیادتی کروں یا مجھ پر زیادتی کی جائے۔ یا مَیں کوئی نیچے گرا دینے والی خطا کروں یا ایسا گنا ہ کروں جو بخشا نہ جائے۔ اے آسمانوں اور زمین کو پھاڑ نے والے، اے غیب اور حاضر کا علم رکھنے والے، اے عزت و جلال والے مَیں دنیا میں بھی اپنے آپ کو تیرے سپرد کرتا ہوں اور تجھے گواہ ٹھہراتا ہوں اور تُو گواہ ہونے کے لحاظ سے کافی ہے۔ مَیں گواہی دیتا ہوں کہ تیرے سوا کوئی معبودنہیں۔ تُو اکیلا ہے تیرا کوئی شریک نہیں۔ بادشاہت اور ہر قسم کی ستائش تیرے لئے اور توُہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے اور مَیں گواہی دیتا ہوں کہ محمدﷺ تیرے بندے اور رسول ہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ تیرا وعدہ سچا ہے اور تیری ملاقات حق ہے اور جنت حق ہے اور وہ گھڑی آنے والی ہے اس میں کوئی شک نہیں۔ اور جو قبروں میں ہیں تُو انہیں کھڑا کرے گا اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اگر تُو نے مجھے اپنے نفس کے سپرد کردیا تو تُو نے مجھے گھاٹے اور تنگ اور گناہ اور خطا کے سپرد کر دیا۔ مَیں یقینا تیری رحمت پہ بھروسہ کرتا ہوں۔ پس توُمجھے میرے تمام گناہ بخش دے۔ یقینا تیرے سوا کوئی گناہوں کو نہیں بخشتا اور میری طرف رحمت کے ساتھ متوجہ ہو یقینا تو ہی بہت زیادہ رحمت کے ساتھ توجہ کرنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے۔ (مسند احمد بن حنبل جلد 7 صفحہ 255 مسند زید بن ثابتؓ حدیث 22006 عالم الکتب بیروت 1998ء)
یہ ایک لمبی دعا ہے جو آنحضرتﷺ نے سکھائی ہے۔
اللہ تعالیٰ ہم میں سے ہر ایک کو توفیق دے کہ ہمارے دل میں اللہ تعالیٰ کی یاد ہر وقت قائم رہے اور اس کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کرنے والے ہم ہوں اور اس کے انعامات سے ہر آن فیضیاب ہوتے رہیں۔ آج ایک افسوسناک خبر ہے۔ ہمارے ایک احمدی دوست مکرم رانا سلیم احمد صاحب نائب امیر ضلع، ناظم انصاراللہ ضلع اور علاقہ سانگھڑ کو 26نومبر کو کل نماز مغرب کے بعد احمدیہ مسجد سانگھڑ سے باہر نکل کر موٹر سائیکل کھڑی کرکے نماز پڑھنے کے بعد باہر نکلے، گیٹ بند کر رہے تھے کہ کسی بدبخت نے آپ کی ناک پر پستول رکھ کر فائر کیا اور گولی سر کے پیچھے سے نکل گئی۔ فوری طور پر ہسپتال لے جایا گیا لیکن بہرحال وہاں جانبر نہ ہو سکے اور ان کی وفات ہو گئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔
آپ پڑھے لکھے آدمی تھے ایم اے بی ایڈ کیا ہوا تھا۔ شعبہ تعلیم سے وابستہ تھے اور سانگھڑ میں ایک سکول چلا رہا تھے نیولائیٹ اکیڈمی کے نام سے او ربڑا اچھا مشہور سکول ہے یہ سانگھڑ کا۔ اس وقت بھی آپ کے سکول میں تقریباً ایک ہزار طالب علم تھے۔ اللہ کے فضل سے موصی تھے اور جماعتی خدمات میں پیش پیش تھے۔ اور مختلف پوزیشنوں میں جماعت کی رہے ہیں، حیدر آباد، سانگھڑ میں، سیکرٹری دعوت الی اللہ بھی رہے۔ اصلاح و ارشاد کے عہدہ پر بھی فائزتھے، 2004ء میں آپ کو نائب امیر ضلع سانگھڑ بنایا گیا تھا۔ والدین تو ان کے وفات پا چکے ہیں ان کے پسماندگان میں اہلیہ اور دو بیٹیاں اور ایک بیٹاہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو صبر جمیل عطا فرمائے اور شہید کے درجات کو بلند فرمائے اور اپنی رضا کی جنتوں میں ان کو جگہ دے۔
دوسرا ایک اور جنازہ ہے وفات کا اعلان جو گیانی عبداللطیف صاحب درو یش ابن مکرم عبدالرحمن صاحب قادیان کا ہے جو 21-20 نومبر کی درمیا نی رات کو 82سال کی عمر میں وفات پا گئے تھے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ آپ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے صحابیؓ حضرت محمد حسین صاحب کپور تھلوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پوتے تھے، آپ نے گورمکھی کا امتحان گیانی پاس کیاتھا اس لئے گیانی کے نام سے مشہور تھے۔ حضرت مصلح موعودؓ کی تحریک پر فوج سے ریلیز ہو کر قادیان آئے اور 313 درویشوں میں شامل ہوئے۔ کچھ عرصہ دیہاتی مبلغین میں شامل ہو کر فیلڈ میں خدمات بجا لاتے رہے پھر ریٹائرمنٹ کے بعد ری امپلائی ہو کر دفتر زائرین میں لمبا عرصہ خدمت کی توفیق پائی۔ قرآن کریم کے گور مکھی کے ترجمے کے نظر ثانی اور پروف ریڈنگ بھی بڑی محنت سے آپ نے کی۔ کچھ عرصہ مینیجر بدر بھی رہے۔ اس طرح بہشتی مقبرہ کا ایک قطعہ بھی اپنے ذمہ لیا ہوا تھا۔ مسلسل وقار عمل کرتے رہتے تھے اس کو ٹھیک رکھنے کے لئے۔ خوش طبع اور زندہ دل انسان تھے مطالعہ کا شوق تھا۔ معاشی تنگی کے باوجود ہمیشہ خوش باش نظر آتے تھے۔ او رکہتے ہیں کہ ایک افسردہ شخص بھی ان سے بات کرتا تو خوش ہوئے بغیر نہ رہتا۔ ان کے پسماندگان بھی تین بیٹیاں اور دو بیٹے ہیں۔ عبدالہادی صاحب نور ہسپتال کی لیب میں کام کر رہے ہیں اور ایک ان کی بیٹی شمیم اختر…… سکول میں ٹیچر ہیں اور قادیان کی صدر لجنہ بھی ہیں۔ ان کے ایک داماد صباح الدین صاحب نائب ناظر بیت المال ہیں۔ بچے مختلف حیثیتوں میں جماعت کی خدمت کی توفیق پا رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان بچوں کو بھی اپنے والد کی نیکیوں کو جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان کے درجات بلند فرمائے۔ ان دونوں مرحومین کے شہید کے بھی اور ان کے بھی۔ نماز جنازہ غائب ابھی میں جمعہ اور عصر کی نماز کے بعد ادا کروں گا۔
(الفضل انٹرنیشنل جلد 16 شمارہ 51 مورخہ 18 دسمبر تا 24 دسمبر 2009ء صفحہ 5 تا صفحہ 8)
صحابہ نبی کریمﷺ اور صحابہ حضرت مسیح موعودؑ کے واقعات کی روشنی میں اس صفت کا تذکرہ۔
فرمودہ مورخہ 27؍نومبر 2009ء بمطابق27؍نبوت 1388 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن (برطانیہ)
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔