اللہ تعالیٰ کی صفت النور
خطبہ جمعہ 11؍ دسمبر 2009ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
گزشتہ جمعہ میں اللہ تعا لیٰ کی صفت نُور کے حوالے سے مختلف لغوی معنی بیان کرنے کے بعد اہل لغت نے اپنی وضاحتوں کے لئے جو آیات قرآنیہ درج کی ہیں ان میں سے چند آیات کے کچھ حصے پیش کئے تھے اور سورۃ نور کی آیت اَللّٰہُ نُوْرُالسَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ(النور: 36) کے حوالے سے کچھ وضاحت کی تھی۔ جیسا کہ مَیں نے کہا کہ اہل لغت نے اپنے بیان کردہ مختلف معانی کو ثابت کرنے کے لئے آیات کے حوالے دئیے ہیں۔ آج کے خطبہ میں ان میں سے ایک دو آیات کی وضاحت کروں گا جن کا حوالہ گزشتہ خطبہ میں دے چکا ہوں۔ مَیں نے بتایا تھا کہ نُور پھیلنے والی روشنی کو بھی کہتے ہیں اور یہ نُور بھی دو قسم کا ہے یعنی یہ روشنی جو پھیلتی ہے مفسرین کے نزدیک آگے اس کی پھر دو قسمیں ہیں۔ ایک دنیوی نُور ہے اور دوسرا اُخروی نُور ہے۔ اور دنیوی نُور پھر دو قسم کا ہے ایک نُور کی قسم وہ ہے جس کا ادراک بصیرت کی نگاہ سے ہوتا ہے اس کا نام انہوں نے معقول رکھا ہے یعنی یقین اور عقل اور دانائی کی وجہ سے یہ نُور ملتا ہے اور الٰہی امور میں یہ نُور ِعقل اور نُورِ قرآن ہے۔ اور دوسرا وہ نُور ہے جس کو جسمانی آنکھ کے ذریعہ محسوس کیا جاتا ہے۔ اس کو محسوس کہتے ہیں۔ جیسے وہ نُورجو چاند اور سورج اور ستاروں اور دیگر روشن اجسام میں پایا جاتا ہے۔
نُور الٰہی کی مثال میں مفردات کے حوالے سے مَیں نے سورۃ مائدہ کی آیت اور سورۃ انعام کی آیات کا حوالہ دیا تھا۔ جس کی تفصیل مَیں نے بیان نہیں کی تھی۔ بہرحال جسمانی آنکھ کی حِس کے ذریعہ دیکھنے والے نُور کی مثال مفردات نے سورۃ یونس کی آیت نمبر 6 کی دی ہے۔ جس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ھُوَالَّذِیْ جَعَلَ الشَّمْسَ ضِیَآءً وَّالْقَمَرَ نُوْرًا(یونس: 6) یعنی وہی ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور کیا ہے۔
یہاں بعض کو شاید یہ الجھن ہو کہ سورج کے لئے ضیاء اور چاند کے لئے نور کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ اس لئے ضیاء جو ہے وہ زیادہ روشن چیز ہے اور نُور کم روشن ہے۔ اہل لغت بھی یہی لکھتے ہیں کہ ضیاء روشن چیز کو کہتے ہیں اور نور کم روشن کو۔ ضیاء نور کے مقابلے پر زیادہ طاقتور ہے۔ اپنی ذات میں جوروشنی ہوتی ہے اس کو ضیاء اور ضوء کہتے ہیں اور نور کا لفظ عمومی طورپر اس وقت بولا جاتا ہے یا استعمال کیا جاتا ہے جب کسی غیر سے روشنی لیتی ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے بارے میں فرمایا کہ اَللّٰہُ نُوْرُالسَّمٰوٰتِ وَالْاَرْض۔ تو اس کا کیا مطلب ہے۔ اس کا مفسرین نے یہ جواب دیا ہے کہ نُور کے اور بھی کئی معنی ہیں اور یہ نُور جو ہے یہ ضیاء کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ آنحضرتﷺ کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے وَسِرَاجًا مُّنِیْرًا(الاحزاب: 47) کہ وہ روشن سورج ہے۔ یعنی آپ کے نُور سے دوسرے لو گ روشن ہوں گے جبکہ آپ کا نور بھی اللہ تعالیٰ کے نور سے ہے۔ نیزلغت والے یہ بھی لکھتے ہیں کہ نُور ضیاء کی روشنی کو بھی کہتے ہیں، ضیاء کی شعاع کو بھی کہتے ہیں یعنی جو چیز اپنی ذات میں روشن ہے اس روشنی کے انعکاس کو بھی نور کہتے ہیں۔ پس خداتعالیٰ کے نور کی شعاعوں کا جو انعکاس ہے یا خداتعالیٰ کا جو انعکاس ہے یہی ہمیں مادی اور روحانی زندگی میں نظر آتا ہے۔ کائنات کا حقیقی ادراک اس وقت حاصل ہوتا ہے جب اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ نُور سے اُسے دیکھیں۔ کیونکہ نُور ہر اس چیز کو بھی کہتے ہیں جس کے ذریعہ سے دوسری چیز یں نظر آنے لگیں۔ پس خداتعالیٰ کی ذات میں ڈوب کر ظاہری آنکھ سے بھی اس نُور کا حقیقی رنگ میں ادراک ہو سکتا ہے جو خداتعالیٰ نے انسان کے لئے ظاہر کیا ہے اور انسانوں کے لئے مسخر کیا ہے۔ سورج بھی اور چاند بھی اور کائنات کی ہر چیز بھی اُسی طرح حقیقی طور پر نظر آ سکتی ہے جب اُسے اللہ تعالیٰ کے نور کے سامنے رکھتے ہوئے دیکھا جائے۔ لیکن اگر کسی دہریہ کو ان چیزوں میں خدا نظر نہیں آتا جبکہ مومن کو تو ہر چیز میں خدا نظر آتا ہے اور وہ ان چیزوں سے فیض بھی پا رہا ہے تو پھر یہ اللہ تعالیٰ کی رحمانیت ہے اور پھر بعض دفعہ ان کی یا سائنسدانوں کی کوششیں بھی اللہ تعالیٰ کی رحیمیت کے جلوے ہیں کہ انہیں خداتعالیٰ کی بنائی ہوئی اس کائنات کی چیزوں کا ایک حد تک علم حاصل ہو رہاہے اور چانداور سورج اور دوسرے ستاروں کے دنیاوی فائدے ایک دہریہ اٹھا رہا ہے۔ جبکہ مذہب کی دنیا میں رہنے والا اور ایک حقیقی مومن جسے نوُرِ قرآن بھی دیا گیا ہے اس سے روحانی اور مادی دونوں طرح کے فائدے اٹھاتا ہے۔ خداتعالیٰ نے قرآن کریم میں بعض جگہ دونوں نُوروں کا ایک ہی جگہ ذکربھی فرمایا ہے تاکہ دنیاوی کاموں میں بھی راہنمائی ملے اور روحانی کاموں کی طرف بھی توجہ پیدا ہو۔
پھر نُورِ اخروی کے متعلق مفردات میں آتا ہے کہ نُورِ اخروی کیا چیز ہے۔ اس کے بارہ میں انہوں نے اس آیت کو سامنے رکھا ہے کہ نُوْرُھُمْ یَسْعٰی بَیْنَ اَیْدِیْہِمْ وَبِاَیْمَانِہِمْْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَااَتْمِمْ لَنَا نُوْرَنَا (التحریم: 9) اُن کا نور اُن کے آگے اور دا ہنی طرف روشنی کرتا ہوا چل رہا ہو گا اور وہ خدا سے التجا کریں گے کہ اے پروردگار ہمارا نور ہمارے لئے مکمل کر دے۔ یہ وہ اخروی نُور ہے جوان کو مرنے کے بعدنظر آئے گا۔ بہرحال یہ تھوڑا سا بیان پچھلے خطبہ میں رہ گیا تھا۔ اس لئے میں نے اس کی وضاحت کر دی۔
اب مَیں ان آیات کی وضاحت کروں گا جن کا بیان مَیں گزشتہ خطبہ میں کر چکا ہوں لیکن اِن کی وضاحت نہیں ہوئی تھی۔ یہ سورۃ مائدہ کی آیات ہیں اور ان کا ایک حصہ پڑھ چکا ہوں۔ اللہ تعالیٰ فرماتاہے یٰۤاَہۡلَ الۡکِتٰبِ قَدۡ جَآءَکُمۡ رَسُوۡلُنَا یُبَیِّنُ لَکُمۡ کَثِیۡرًا مِّمَّا کُنۡتُمۡ تُخۡفُوۡنَ مِنَ الۡکِتٰبِ وَ یَعۡفُوۡا عَنۡ کَثِیۡرٍ ۬ؕ قَدۡ جَآءَکُمۡ مِّنَ اللّٰہِ نُوۡرٌ وَّ کِتٰبٌ مُّبِیۡنٌ۔ یَّہۡدِیۡ بِہِ اللّٰہُ مَنِ اتَّبَعَ رِضۡوَانَہٗ سُبُلَ السَّلٰمِ وَ یُخۡرِجُہُمۡ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوۡرِ بِاِذۡنِہٖ وَ یَہۡدِیۡہِمۡ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسۡتَقِیۡمٍ (المائدہ: 17-16) اے اہل کتاب یقینا تمہاے پاس ہمارا وہ رسول آ چکا ہے جو تمہارے سامنے بہت سی باتیں جو تم اپنی کتاب میں سے چھپایا کرتے تھے خوب کھول کر بیان کر رہا ہے اور بہت سی ایسی ہیں جن سے وہ صَرفِ نظر کر رہا ہے۔ یقینا تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نُور آ چکا ہے اور ایک روشن کتاب بھی۔
اور دوسری آیت کا ترجمہ ہے کہ اللہ اس کے ذریعہ انہیں جو اس کی رضا کی پیروی کریں سلامتی کی راہوں کی طرف ہدایت دیتا ہے اور اپنے اذن سے انہیں اندھیروں سے نور کی طرف نکال لاتا ہے اور انہیں صراط مستقیم کی طرف ہدایت دیتا ہے۔ پس وہ تمام باتیں جو پہلی کتابوں میں ان کے ماننے والوں نے یا تو بدل دی تھیں یا چھپا لیا کرتے تھے۔ ظاہر نہیں کیا کرتے تھے ان کے بارہ میں خداتعالیٰ نے اعلان فرمایا کہ اللہ تعالیٰ سے اطلاع پا کر آنحضرتﷺ اب دوبارہ دنیا کے سامنے وہ باتیں پیش فرما رہے ہیں۔ اور صرف یہی نہیں بلکہ یہ جو اَب آپﷺ کے ذریعہ سے دنیا کے سامنے پیش ہو رہی ہیں ان میں بہت سے نئے احکامات ہیں۔ بہت سی نئی باتیں ہیں۔ خداتعالیٰ تک پہنچنے کے، روحانیت میں ترقی کے نئے اور وسیع راستے کھل رہے ہیں۔ اور ایسے احکامات ہیں جو انسان کی فطرت کے مطابق ہیں اور جن میں کوئی افراط اور تفریط نہیں ہے۔ ایک ایسا رسول آیا ہے جو نہ شرقی ہے نہ غربی ہے۔ ایک معتدل تعلیم ہے جو اسلام پیش کرتا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ’’ہر یک وحی نبی منزّل علیہ کی فطرت کے موافق نازل ہوتی ہے‘‘۔ (یعنی جس نبی پر وہ وحی اتر رہی ہو اس کی فطرت کے مطابق وحی نازل ہوتی ہے۔) ’’جیسے حضرت موسیٰ ؑ کے مزاج میں جلال اور غضب تھا۔ توریت بھی موسوی فطرت کے موافق ایک جلالی شریعت نازل ہوئی۔ حضرت مسیح علیہ السلام کے مزاج میں حلم اور نرمی تھی۔ سو انجیل کی تعلیم بھی حلم اور نرمی پر مشتمل ہے۔ مگر آنحضرتﷺ کا مزاج بغایت درجہ وضع استقامت پر واقعہ تھا۔‘‘ (ایسا بہت زیادہ ایک ایسی جگہ پہ واقع تھا جہاں نہ سختی تھی نہ نرمی تھی۔) فرمایا کہ’’نہ ہر جگہ حلم پسندتھا اور نہ ہر مقام پرغضب مرغوبِ خاطر تھا‘‘۔ (نہ ہر جگہ نرمی ظاہر کرتے تھے۔ نہ ہر جگہ اور موقع پر غصہ ہی ظاہر کیا جاتا تھا۔ بلکہ ایک ایسا رستہ تھا جو سیدھا راستہ تھا)۔ فرمایا کہ’’بلکہ حکیمانہ طور پر رعایت محل اور موقعہ کی ملحوظ طبیعت مبارک تھی۔ سو قرآن شریف بھی ایسی طرز موزون و معتدل پر نازل ہوا کہ جامع شدت ور رحمت، وہیبت و شفقت و نرمی و درشتی ہے‘‘۔ (براہین احمدیہ۔ روحانی خزائن جلداول۔ صفحہ 193 حاشیہ11)
چنانچہ دیکھ لیں قرآن کریم کے احکامات بھی سموئے ہوئے ہیں۔ مثلاً اللہ تعالیٰ ایک جگہ فرماتا ہے جَزَآؤُ سَیِّئَۃٍ سَیِّئَۃٌ مِّثْلُھَا فَمَنْ عَفَا وَاَصْلَحَ فَاَجْرُہٗ عَلَی اللّٰہِ(الشوریٰ: 41) اور بدی کا بدلہ اتنی ہی بدی ہے اور جو معاف کرے اور اصلاح کو مدنظر رکھے تو اس کا بدلہ اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے۔ پس یہ ہے اسلام کی سموئی ہوئی تعلیم جو آنحضرتﷺ پر نازل ہوئی کہ سزا کا مقصد اصلاح ہے، غلط کام کرنے والے کے اخلاق کی بہتری ہے۔ اگر معاف کرنے سے اصلاح ہو جاتی ہے، اخلاق میں بہتری آ سکتی ہے تو معافی ہونی چاہئے۔ اور اگر سزا ہی اس کی اصلاح کا ذریعہ ہے تو سزا دینا ضروری ہے۔ ہاں یہ ضروری ہے کہ سزا اتنی ہی دی جائے جتنا کہ جرم ہے۔ کسی طرح کا بھی ظلم نہ ہو۔ اسلام کی تعلیم نہ تو یہ ہے کہ دائیں گال پر تھپڑ کھا کر بایاں بھی آگے کردو اور نہ ہی یہ ہے کہ آنکھ کے بدلے آنکھ ضرور نکالنی ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ’’اب دیکھو اس آیت میں دونوں پہلوؤں کی رعایت رکھی گئی ہے اور عفو اور انتقام کو مصلحتِ وقت سے وابستہ کر دیا گیا ہے۔ سو یہی حکیمانہ مسلک ہے جس پر نظام عالم کا چل رہا ہے۔‘‘ (نسیم دعوت روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 438)
یہ بتانے کے بعد کہ تمہارے پاس ایک رسول آیا جس نے تمام پرانی باتیں اور نئی باتیں بھی کھول کر سامنے رکھ دیں۔ پھر خداتعالیٰ فرماتاہے کہقَدۡ جَآءَکُمۡ مِّنَ اللّٰہِ نُوۡرٌ وَّ کِتٰبٌ مُّبِیۡنٌ (المائدہ: 16) یقینا تمہارے پاس ایک رسول آ چکا ہے اور ایک روشن کتاب بھی۔ یہ نُور جو یہاں بیان ہوا ہے یہ آنحضرتﷺ کی ذات ہے جیسا کہ ہم جانتے ہیں۔ اس کی مثال مَیں نے پہلے بھی پیش کی تھی کہ آنحضرتﷺ کو اللہ تعالیٰ نے سِرَاجًا مُّنِیْرًا کہا ہے۔ ایک روشن چمکتا ہوا سورج کہا ہے۔ کیونکہ اب آپ ہی ہیں جن کے ذریعہ سے خداتعالیٰ کے نُور نے آگے اپنی چمک دکھانی ہے اور اب کوئی نہیں جو اس واسطے کے بغیر اللہ تعالیٰ کی روشنی اور نور کو حاصل کر سکے اور آنحضرتﷺ کی پیشگوئیوں کے مطابق اور خداتعالیٰ کے وعدے کے مطابق آخری زمانہ میں سب سے بڑھ کر اس شخص نے اُس نُور سے حصہ پانا تھا جسے مسیح و مہدی کا اعزاز دیا گیا اور اس حیثیت سے اُمّتی نبی ہونے کے خطاب سے بھی نوازا گیا۔ کیونکہ اب اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے انسان کامل، افضل الرسل اور سراجًا منیرًا کی مہر، جو مہر نبوت ہے یہ جس پر لگے گی اُسے پھر اللہ تعالیٰ کے نُور سے بھر دے گی۔ پس آنحضرتﷺ کی خاتمیت نبوت خداتعالیٰ کے نوروں کو بند کرنے کے لئے نہیں ہے بلکہ نوروں کو مزید جلا بخشنے کے لئے اور صیقل کرنے کے لئے ہے۔ پس یہ ہے مقام ختم ِنبوت کہ وہ ایسی روحانی روشنی ہے جو پھر اعلیٰ ترین روشنیاں پیدا کر سکتی ہے۔ لیکن یہ واضح ہو کہ جیسا کہ خداتعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اس نُور کے ساتھ کتاب مبین ہے جو پھر ایک نور ہے۔ اس لئے اب قرآن کریم کے علاوہ جو کامل اور مکمل کتاب اور شریعت ہے کوئی اور کتاب اور شریعت نہیں اتر سکتی۔ یہی ہم احمدی مانتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان دونوں باتوں کو یعنی نور ِمحمدﷺ اور نورِ قرآن کریم کو اپنے ایک شعر میں یوں بیان فرمایا ہے۔ اس شعر سے دونوں مطلب نکلتے ہیں۔ خداتعالیٰ کا نور بھی اور قرآن کریم بھی جو خداتعالیٰ کا کلام ہے کہ ؎
نور لائے آسماں سے خود بھی وہ اک نور تھے
قوم وحشی میں اگر پیدا ہوئے کیا جائے عار
(براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 144)
دشمن اعتراض کرتا ہے کہ ایک اَن پڑھ اور وحشی قوم کا شخص آخری پیغمبر ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔ جو خود بھی اُمّی ہے پڑھا لکھا نہیں۔ فرمایا یہ توکوئی اعتراض کی بات نہیں ہے۔ یہ بات تو آپ کے مقام کو بڑھا رہی ہے کہ آسمان سے وہ کامل نور لے کر آئے جس نے وحشیوں کو انسان اور انسانوں کو بااخلاق اور باخدا انسان بنا دیا۔ اس وحشی قوم نے جب اس نُور سے حصہ پایا اور قرآن کریم کی تعلیم پر عمل کیا تو دنیا کی سب سے زیادہ مہذب قوم بن گئی۔ اور ان لوگوں نے تو جنہوں نے آنحضرتﷺ سے اور کتاب سے یہ نُورپایا، انہوں نے تو ہزار سال پہلے اپنی علمیت کا سکّہ منوالیا تھا۔ یورپ جو آج علم کی روشنی کا اظہار کر رہا ہے، یورپ نے ان سے علوم سیکھے تھے۔ پس صرف روحانی نُور نہیں بلکہ دنیاوی ترقیات کے لئے بھی وہ لوگ جو تھے روشنی کا مینار بن گئے۔ پس آج مسلمانوں کو غور کی ضرورت ہے کہ وہ نُور جس نے تمام دنیا کو روشن کیا، کیا دنیاوی علوم کے لحاظ سے اور کیا روحانی علوم کے لحاظ سے، وہ نُور کیوں ان کے اندر سے نکل کر نہیں پھیل رہا جس کے لئے آنحضرتﷺ مبعوث ہوئے تھے اور اپنے ماننے والوں میں وہ نُور پیدا کیا تھا۔ اللہ، رسول اور قرآن کی پیروی کا دعویٰ ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ نُور نظر نہیں آ رہا۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ اس زمانہ میں جس شخص نے اس نُور کا حقیقی پَر تو بننا تھا اس کا انکار ہے۔ لیکن ساتھ ہی احمدیوں کے لئے بھی سوچنے کا اور فکر کرنے کا مقام ہے کہ منہ سے ماننے کا دعویٰ کرکے نُور سے حصہ نہیں مل جاتا۔ اس قرآنی نُور سے حصہ لینے کے لئے اس انسان کامل کے عاشق صادق کی بیان کردہ تعلیم اور قرآنی تفسیر پر غور کرنا اور اس کو اپنے اوپر لاگو کرنا بھی ضروری ہے۔ دنیا میں ڈوب کر روشنی تلاش نہ کریں۔ بلکہ قرآن کریم میں ڈوب کر حکمت کے موتی تلاش کرنا ہر ایک احمدی کا فرض ہے اور دنیا کو حقیقی روشنی سے روشناس کروانا ضروری ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے ایک عربی شعری کلام میں آنحضرتﷺ کے نُور کو اس طرح بیان فرمایاہے۔ ایک شعر میں فرماتے ہیں کہ
نُوْرٌ مِّنَ اللّٰہِ الَّذِیْ اَحْیَا الْعُلُوْمَ تَجَدُّدَا
اَلْمُصْطَفٰی وَالْمُجْتَبٰی وَالْمُقْتَدٰی وَالْمُجْتَدٰی
(کرامات الصادقین روحانی خزائن جلد 7 صفحہ 70)
وہ اللہ کا نور ہے جس نے علوم کو نئے سرے سے زندہ کیا۔ وہی برگزیدہ اور چنیدہ ہے جس کی پیروی کی جاتی ہے اور فیض طلب کیا جاتا ہے۔
پس علوم معارف کا خزانہ اب آنحضرتﷺ کی ذات اور قرآن کریم ہے۔ لیکن اس کو سمجھنے کے لئے آنکھ میں نور پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ جس کا پیدا کرنا اس زمانہ میں خداتعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے جُڑ کر ہی مقدر کر دیا ہے۔ پس خوش قسمت ہیں وہ جو اس نُور کو حاصل کرنے کے لئے آپ کی بیعت کا حق ادا کرنے والے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام یہ بیان فرماتے ہوئے کہ مَیں نے یہ مقام کس طرح پایا، فرماتے ہیں کہ: ’’مَیں ہمیشہ تعجب کی نگہ سے دیکھتا ہوں کہ یہ عربی نبی جس کا نام محمدؐ ہے(ہزار ہزار درود اور سلام اس پر)۔ یہ کس عالی مرتبہ کا نبی ہے۔ اس کے عالی مقام کا انتہا معلوم نہیں ہو سکتا اور اس کی تاثیر قدسی کا اندازہ کرنا انسان کا کام نہیں۔ افسوس کہ جیسا حق شناخت کا ہے اُس کے مرتبہ کو شناخت نہیں کیا گیا۔ وہ توحید جو دنیا سے گم ہو چکی تھی وہی ایک پہلوان ہے جو دوبارہ اس کو دنیا میں لایا۔ اس نے خدا سے انتہائی درجہ پر محبت کی اور انتہائی درجہ پر بنی نوع کی ہمدردی میں اس کی جان گداز ہوئی۔ اس لئے خدا نے جو اس کے دل کے راز کا واقف تھا اس کو تمام انبیاء اور تمام اوّلین و آخرین پر فضیلت بخشی اور اس کی مرادیں اس کی زندگی میں اس کو دیں۔ وہی ہے جو سرچشمہ ہر ایک فیض کا ہے اور وہ شخص جو بغیر اقرارافاضہ اس کے کسی فضیلت کا دعویٰ کرتا ہے وہ انسان نہیں بلکہ ذریت شیطان ہے‘‘۔ (کہ اب جو کچھ ہے وہ آنحضرتﷺ سے منسوب ہو کر ہی ہے۔ جو اس کے علاوہ کوئی دعویٰ کرتا ہے وہ اللہ کا بندہ نہیں کہلا سکتا پھر وہ شیطان کی ذریت ہے۔)
فرمایا ’’کیونکہ ہر ایک فضلیت کی کنجی اس کو دی گئی ہے اور ہر ایک معرفت کا خزانہ اس کو عطا کیا گیا ہے جو اس کے ذریعہ سے نہیں پاتا وہ محروم ازلی ہے‘‘۔ (وہ ہمیشہ محروم رہے گا)۔ ’’ہم کیا چیز ہیں اور ہماری حقیقت کیا ہے؟ ہم کافر نعمت ہوں گے اگر اس بات کا اقرار نہ کریں کہ توحید حقیقی ہم نے اِسی نبی کے ذریعہ سے پائی اور زندہ خدا کی شناخت ہمیں اِسی کامل نبی کے ذریعہ سے اور اس کے نُور سے ملی ہے اور خدا کے مکالمات اور مخاطبات کا شرف بھی جس سے ہم اس کا چہرہ دیکھتے ہیں اِسی بزرگ نبی کے ذریعہ سے ہمیں میسر آیا ہے۔ اس آفتابِ ہدایت کی شعاع دھوپ کی طرح ہم پر پڑتی ہے اور اُسی وقت تک ہم منور رہ سکتے ہیں جب تک کہ ہم اس کے مقابل پر کھڑے ہیں‘‘۔ (حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن جلد 22صفحہ118-119)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس اقتباس میں آنحضرتﷺ کے مقام پر جو آپؑ کی نظر میں ہے، روشنی پڑتی ہے۔ اگر فطرت نیک ہو تو آپ پر اعتراض کرنے والوں کے لئے یہ کافی جواب ہے کہ آنحضرتﷺ کی ذات سے علیحدہ ہو کر آپ کا کچھ بھی مقام نہیں ہے اور ہم اس وقت تک خداتعالیٰ کے نور سے فیضیاب ہو سکتے ہیں جب تک اُس آفتاب ہدایت کے سامنے کھڑے رہیں گے جسے خداتعالیٰ نے سِرَاجًا مُّنِیْرًاکہا ہے۔
سورۃ مائدہ کی دوسری آیت 17 جو مَیں نے پڑھی تھی اس میں تو خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ دو نُور ہیں ایک حضرت اقد س محمد مصطفیﷺ کی ذات اور دوسرا قرآن کریم۔ گزشتہ آیت کا حوالہ دیتے ہوئے اب اللہ تعالیٰ کی تقدیر نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ یہی دو چیزیں ہیں جو اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کا ذریعہ بنیں گی اور ہیں اور یہی دو چیزیں ہیں جو سلامتی کی راہوں کی طرف لے جانے والی ہیں، جو اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کا ذریعہ ہیں۔ سلامتی کی راہیں کیا ہیں؟ یہ خداتعالیٰ تک پہنچنے کے یا پہنچانے کے مختلف راستے ہیں جو محفوظ طریقہ سے خداتعالیٰ تک پہنچاتے ہیں۔ ہر راستہ پر شیطان بیٹھا ہے لیکن سلامتی کی راہیں وہ ہیں جہاں اللہ تعالیٰ تک انسان شیطان سے بچ کر پہنچ جاتا ہے اور نور سے فیض پاتا ہے۔ اور یہ سلامتی کی راہیں ان کو ملتی ہیں جو خداتعالیٰ کے فضل سے ہدایت پاتے ہوئے اس کی رضا کی تلاش میں رہتے ہیں۔ اس کے قدم پھر اندھیروں سے نکل کر نُور کی طرف بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ وہ صراط مستقیم پر چل پڑتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اور اس کی روشن کتاب سے فیض پانے کے لئے اللہ تعالیٰ کی رضا کی پیروی کی ضرورت ہے یا اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے ان دونوں چیزوں سے جُڑنا ضروری ہے۔ آنحضرتﷺ کے بعداللہ تعالیٰ کی رضا کا جو اعلیٰ ترین نمونہ ہے وہ آپ کی تربیت کی وجہ سے، قوت قدسی کی وجہ سے آپؐ کے صحابہؓ نے دکھایا۔ اور وہ لوگ پھر صرف اندھیروں سے روشنی کی طرف ہی نہیں آئے بلکہ انہوں نے رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ کا اعزاز پایا۔ پس صحابہ رسول اللہﷺ بھی ان نُوروں سے فیض پا کر ہمارے لئے اسوہ حسنہ بن گئے۔ ان کے بارہ میں آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ وہ ستاروں کی مانند ہیں جن سے تم راستوں کی طرف راہنمائی حاصل کرتے ہو۔ پس یہ لوگ بھی وہ تھے جو صراط مستقیم پر چل کر اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے بن گئے۔ پس کیا خوش قسمت تھے وہ لوگ جنہوں نے آنحضرتﷺ سے براہ راست فیض پایا اور اندھیروں سے نور کی طرف جانے کی منزلیں جلد جلد طے کرتے چلے گئے اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے بن گئے۔ اور پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدے کے مطابق آخری زمانے میں آنحضرتﷺ کے عاشق صادق کو بھیجا جس کو پھر اپنے آقا و مطاع کے نُور کا پَرتو بنا دیا۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں ؎
مصطفیؐ پر تیرا بیحد ہو سلام اور رحمت
اُس سے یہ نور لیا بارِ خدایا ہم نے
(آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 225)
اور آپؐ پر جب اس نُور کی انتہا ہوئی تو آپؐ سے براہ راست فیض پانے والے بھی اپنے دلوں کو نُور سے بھرتے ہوئے صراط مستقیم پر قائم ہو گئے اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے بن گئے۔ توحید کا قیام کرنے والے بن گئے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں جو صراط مستقیم کی دعا سکھائی ہے تو اس کے لئے اپنی اپنی استعدادوں کے مطابق اُس نور سے فیض حاصل کرنے کی کوشش بھی کرنی چاہئے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی یہی فرمایا ہے کہ ہر ایک کو اپنی اپنی استعدادوں کے مطابق نور ملتا ہے، کسی کو کم اور کسی کو زیادہ۔ لیکن ملتا ضرور ہے۔ نور سے فائدہ ہر انسان ضرور اٹھاتا ہے۔ ہر مومن اٹھاتا ہے جو نیک نیتی سے اس کی طرف بڑھے گا۔ اللہ تعالیٰ کسی کی طاقت سے بڑھ کر بوجھ نہیں ڈالتا۔ اس لئے یہ نہیں فرمایا کہ ہر ایک نے بہرحال اس مقام تک پہنچنا ہے جو اعلیٰ ترین مقام ہے۔ لیکن کوشش کا حکم ہے۔ جس کے لئے پوری طر ح کوشش ہونی چاہئے۔ بے شک صراط مستقیم کی طرف اللہ تعالیٰ ہی ہدایت دیتا ہے اور اس کے لئے اس نے ہمیں دعا بھی سکھائی ہے جو ہم ہر نماز کی ہر رکعت میں پڑھتے ہیں لیکن اس کے لئے کوشش کا بھی حکم ہے۔ فرمایا کہ صراط مستقیم پر چلنے کے لئے نُور کی ضرورت ہے اور نُور اللہ تعالیٰ، اس کے رسولﷺ اور قرآن کریم سے حاصل ہو گا اور جو اس کے حصول کی کوشش کرے گا اللہ تعالیٰ پھر ایسے شخص کو صراط مستقیم پر چلاتے ہوئے اس نُورسے فیض حاصل کرنے والابناتا چلا جائے گا۔
صراط مستقیم کیا ہے؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ’’صراط مستقیم جو حق اور حکمت پر مبنی ہے تین قسم پر ہے۔ علمی اور عملی اور حالی۔ اور پھر یہ تینوں تین قسم پر ہے۔ علمی میں حق اللہ اور حق العباد اور حق النفس کا شناخت کرنا ہے‘‘۔ (علمی صراط مستقیم یہ ہے کہ اللہ کا حق تلاش کرو، بندوں کے حقوق کی پہچان کرو اور اپنے نفس کے حق کی پہچان کرو اور عملی صراط مستقیم جو ہے)۔ فرمایا کہ’’اور عملی میں ان حقوق کو بجا لا نا‘‘۔ (عملی صراط مستقیم یہ ہے کہ یہ حق جس کی شناخت کرنی ہے ان پر پھر عمل کیا جائے) فرماتے ہیں کہ’’مثلاً حق علمی یہ ہے کہ اس کو ایک سمجھنا‘‘۔ (خداتعالیٰ کو ایک سمجھنا) ’’اور اس کو مبدء تمام فیوض کااور جامع تمام خوبیوں کا اور مرجع اور مآب ہر ایک چیز کا اور منزہ ہر ایک عیب اور نقصان سے جاننا اور جامع تمام صفات کاملہ ہونا اور قابل عبودیت ہونا‘‘۔ (یعنی اللہ تعالیٰ کا جو حق علمی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو ایک سمجھنا۔ انسان کو تمام فیض جو پہنچتے ہیں، جو نعمتیں حاصل ہوتی ہیں اور جو کچھ بھی وہ حاصل کر رہا ہے اس کو پیدا کرنے والا خداتعالیٰ کو سمجھنا کہ وہ خداتعالیٰ کی طرف سے آتی ہیں اور تمام خوبیوں کا جامع وہ ہے اور ہر ایک چیز نے اسی کی طرف لوٹنا ہے اور ہر ایک عیب سے وہ پاک ہے اور تمام صفات، جتنی اس کی صفات ہیں ان کا وہ جامع ہے چاہے وہ صفات ہمیں معلوم ہیں یا ہمیں نہیں معلوم اور کامل طور پر اس کی بندگی میں آ جانا۔ یہ ہے اللہ تعالیٰ کا حق)اور فرمایا کہ’’اسی میں محصور رکھنا۔ یہ تو حق اللہ میں علمی صراط مستقیم ہے‘‘۔ (یہ جو باتیں بیان کی گئی ہیں اسی دائرے میں اپنے آپ کو رکھنا اس سے باہر نہ نکلنے دینا۔ اللہ تعالیٰ کے حق ادا کرنے کی یہ علمی صراط مستقیم ہے)۔ ’’اور عملی صراط مستقیم یہ ہے جو اس کی طاعت اخلاص سے بجا لانا اور طاعت میں اس کا کوئی شریک نہ کرنا‘‘۔ (اللہ تعالیٰ کے جو احکامات ہیں ان پر پوری طرح عمل کرنا اور طاعت کے معاملہ میں اس کا کوئی شریکنہ ٹھہرانا۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے جو احکامات ہیں ان کے مقابلے پہ کوئی چیز نہیں ہونی چاہئے)۔ ’’اور اپنی بہبودی کے لئے اسی سے دعا مانگنا اور اسی پر نظر رکھنا اور اسی کی محبت میں کھوئے جانایہ عملی صراط مستقیم ہے کیونکہ یہی حق ہے‘‘۔
پھر آپ فرماتے ہیں ’’اور حق العباد میں علمی صراط مستقیم یہ جو ان کو اپنا بنی نوع خیال کرنا اور ان کو بندگان خدا سمجھنا اور بالکل ہیچ اور نا چیز خیال کرنا کیونکہ معرفت حقہ مخلوق کی نسبت یہی ہے جو ان کا وجود ہیچ اور ناچیزہے اور سب فانی ہیں‘‘۔ (علمی صراط مستقیم یہی ہے کہ انسان کو اللہ تعالیٰ کی مخلوق سمجھنا اور اس کو کسی رنگ میں بھی خداتعالیٰ کے مقابلہ پر کوئی فوقیت نہ دینا)۔ فرمایا’’یہ توحید علمی ہے کیونکہ اس سے عظمت ایک کی ذات کی نکلتی ہے کہ جس میں کوئی نقصان نہیں اور اپنی ذات میں کامل ہے‘‘۔ (یہ چیز پیدا ہو گی تو تبھی اللہ تعالیٰ کی عظمت قائم ہو گی جو کامل ذات ہے)۔ پھر فرمایا کہ ’’اورعملی صراط مستقیم یہ ہے (کہ) حقیقی نیکی بجا لانا۔ یعنی وہ امر جو حقیقت میں ان کے حق میں اصلح اور راست ہے بجا لانا۔ یہ تو حید عملی ہے کیونکہ موحدکی اس میں یہ غرض ہوتی ہے کہ اس کے اخلاق سراسر خدا کے اخلاق میں فانی ہوں‘‘۔ (اس کی تھوڑی سی وضاحت کر دوں۔ یعنی عملی صراط مستقیم جو ہے وہ یہی ہے کہ ہر کام کرتے ہوئے یہ دیکھنا کہ میرا کام ان اخلاق پر قائم ہو جو خداتعالیٰ نے کہا ہے کہ میرے رنگ میں رنگین ہو جاؤ تو اللہ تعالیٰ کی صفات کو اپنے اندر لاگو کرنے کی کوشش کرنا اور تبھی یہ کہا جا سکتا ہے کہ انسان حقیقی نیکی بجا لایا ہے اور وہ صحیح رستے پر چل رہا ہے)۔ ’’اور حق النفس میں علمی صراط مستقیم یہ ہے کہ جو جو نفس میں آفات پیدا ہوتے ہیں جیسے عُجب اور ریا اور تکبر اور حقد اور حسد‘‘۔ (حقد کہتے ہیں کینے کو)۔ ’’اور غرور اور حرص اور بخل اور غفلت اور ظلم اُن سب سے مطلع ہونا اور جیسے وہ حقیقت میں اخلاق رذیلہ ہیں ویسا ہی ان کو اخلاق رذیلہ جاننا۔ یہ علمی صراط مستقیم ہے‘‘۔ (نفس کا جو حق ہے اس کا صراط مستقیم یہ ہے کہ تمام برائیاں جن کے بارہ میں بتایا گیا ہے ان کو انتہائی، گھٹیا چیزیں اور گناہ سمجھنا۔ تبھی انسان صراط مستقیم پر چل سکتا ہے)۔ ’’اور یہ توحید علمی ہے کیونکہ اس سے عظمت ایک ہی ذات کی نکلتی ہے کہ جس میں کوئی عیب نہیں اور اپنی ذات میں قدوس ہے‘‘۔
پھر فرماتے ہیں کہ’’اور حق النفس میں عملی صراط مستقیم یہ ہے جو نفس سے ان اخلاق رذیلہ کا قلع قمع کرنا اور صفت تخلّی عن رذائل اور تحلّی بالفضائل سے متصف ہونا‘‘۔ (کہ حق النفس کا جو صراط مستقیم کاعملی حصہ ہے وہ یہ ہے کہ جتنے اخلاق رذیلہ ہیں، گھٹیا قسم کے اخلاق ہیں، برائیاں ہیں ان کو اپنے سے پاک کرنا۔ خالی کرنا اور صرف خالی نہیں کرنا بلکہ جو نیکیاں ہیں ان سے اپنے آپ کو پُر کرنا۔ صرف برتن برائیوں سے خالی نہیں کرنابلکہ اس برتن کو نیکیوں سے پُر بھی کرنا ہے)۔ ’’یہ عملی صراط مستقیم ہے۔ یہ توحید حالی ہے۔ کیونکہ موحد کی اس سے یہ غرض ہوتی ہے کہ تا اپنے دل کو غیراللہ کے دخل سے خالی کرے اور تا اس کو فنا فی تقدس اللہ کا درجہ حاصل ہو اور اس میں اور حق العباد میں جو عملی صراط مستقیم ہے ایک باریک فرق ہے اور وہ یہ ہے جو عملی صراط مستقیم حق النفس کا وہ صرف ایک ملکہ ہے جو بذریعہ ورزش کے انسان حاصل کرتا ہے اور ایک بالمعنی شرف ہے خواہ خارج میں کبھی ظہور میں آوے یا نہ آوے‘‘۔ (جو عملی صراط مستقیم ہے یہ برائیوں کا ایک ملکہ ہے۔ ظہور میں آوے نہ آوے سمجھ لیا کہ میرے دل سے خالی ہوگئیں۔ لیکن حق العباد میں بعض دفعہ بعض انسانوں میں ان اخلاق کو دکھانے کے موقعے نہیں پیداہوتے لیکن انسان سمجھتا ہے کہ میرے اندر وہ اخلاق ہیں لیکن جب موقع آئے تو تب پتہ لگتا ہے کہ حق ادا ہو رہا ہے یا نہیں۔ لیکن فرمایا کہ حق العباد میں حق النفس میں یہ باریک فرق ہے)۔ فرمایا کہ’’حق العباد جو عملی صراط مستقیم ہے وہ ایک خدمت ہے اور تبھی متحقق ہوتی ہے کہ جب افراد کثیرہ بنی آدم کو خارج میں اس کا اثر پہنچے اور شرط خدمت کی ادا ہو جائے‘‘۔ (اب یہ جو اعلیٰ اخلاق ہیں بندوں کے حقوق اس صورت میں ادا ہوں گے۔ فرمایا یا عملی صراط مستقیم کا اظہار اس وقت ہو گا جب یہ ثابت ہو جائے کہ عملی طور پر اکثریت کو اپنے معاشرہ میں ان اعلیٰ اخلاق کا فیض پہنچ رہا ہے اور اثر پہنچ رہا ہے اور فائدہ پہنچ رہا ہے اور خدمت کی شرط جو ہے وہ ادا ہو رہی ہے)۔ فرماتے ہیں: ’’غرض تحقق عملی صراط مستقیم حق العباد کا ادا ئے خدمت میں ہے اور عملی صراط مستقیم حق النفس کا صرف تزکیہ نفس پر مدار ہے‘‘۔ (اپنے نفس کی اصلاح کی طرف کوشش ہے۔ لیکن اس کا اظہار تبھی ہوتا ہے جب حقوق العباد ادا کئے جائیں۔ تزکیہ نفس بھی تبھی پتہ لگتا ہے کہ ہوا ہے کہ نہیں جب حق العباد کی ادائیگی ہوتی ہے)۔ ’’کسی خدمت کا ادا ہونا ضروری نہیں۔ یہ تزکیہ نفس ایک جنگل میں اکیلے رہ کر بھی ادا ہو سکتا ہے‘‘۔ (عبادات میں مشغول رہ کر بھی انسان تزکیہ نفس کر سکتا ہے)۔ ’’لیکن حق العباد بجز بنی آدم کے ادا نہیں ہو سکتا۔ اسی لئے فرمایا گیا جو رہبانیت اسلام میں نہیں‘‘۔ (رہبانیت کو اسلام میں اس لئے منع کیا گیا ہے کہ حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں ادا ہوں۔ تزکیہ نفس کرکے انسان حقوق اللہ تو جنگل میں بیٹھ کر بھی ادا کر سکتا ہے لیکن جنگل میں بیٹھ کر حقوق العباد ادا نہیں ہو سکتے اور پھر اس وجہ سے صراط مستقیم کی علمی اور عملی صورت واضح نہیں ہوتی)۔ فرماتے ہیں کہ’’اب جاننا چاہئے جو صراط مستقیم علمی اور عملی سے غرض اصلی توحید علمی اور توحید عملی ہے۔ یعنی وہ توحید جو بذریعہ علم کے حاصل ہو اور وہ توحید جو بذریعہ عمل کے حاصل ہو۔ پس یاد رکھنا چاہئے جو قرآن شریف میں بجز توحید کے اور کوئی مقصود اصلی قرار نہیں دیا گیا اور باقی سب اس کے وسائل ہیں‘‘۔ (الحکم جلد 9 نمبر 33 مورخہ 17 ستمبر 1905ء صفحہ 3-4 کالم 4)
پس جب صراط مستقیم کی طرف انسان ہدایت پا لے تو اسے اَللّٰہُ نُوْرُالسَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ کا بھی ادراک حاصل ہوتا ہے کہ وہی ایک ہے جو نوروں کا منبع ہے اور جس نے اس غرض کے لئے دنیا میں انبیاء بھیجے کہ دنیا کو اس کے نور کا علم ہو اور سب سے بڑھ کر آنحضرتﷺ کو بھیجا اور قرآن کریم کی صورت میں کتاب مبین اتاری جو اسی ایک نور کا پتہ دیتی ہے جو خدائے واحد کی ذات ہے۔ جس کی روشنی وہ انبیاء منعکس کرتے ہیں اور سب سے بڑھ کر آنحضرتﷺ نے منعکس فرمائی اور قرآن کریم کو سمجھنے والے بھی اس سے فیض پاتے ہیں اور یہی ایک روشنی ہے جس نے تمام دنیا کو روشن کرنا ہے اور تمام دنیا کو خدائے واحد کا عبد بنانا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں بھی توفیق دے کہ ہم اس حقیقی نور کا ادراک حاصل کرنے والے ہوں۔ اپنی زندگیوں کو اس سے فیضیاب کرنے والے ہوں اور اس کو پھیلانے کا حق ادا کرنے والے بھی ہوں۔
(الفضل انٹرنیشنل جلد 17شمارہ1مورخہ یکم جنوری تا 7جنوری2010ء صفحہ5تا8)
اللہ نور السموات والارض کی لطیف تشریح۔ نور کی دو اقسام اور ان کی تفصیلات۔ اسلام ایک معتدل تعلیم پیش کر رہا ہے۔ آنحضرتؐ سراج منیر ہیں اور اب آپؐ کے واسطے کے بغیر کوئی نہیں جو اللہ کی روشنی اور نور کو حاصل کر سکے۔ اس لئے اب قرآن کے بعد کوئی اور شریعت نہیں اترے گی۔ قرآنی نور کا مسلمانوں پر اثر۔ یورپ جن علوم کی روشنی کا اظہار کر رہا ہے وہ انہوں نے مسلمانوں سے ہی سیکھے تھے۔ احمدیوں کا فرض کہ انسان کامل کے عاشق صادق کی قرآنی تفسیر اور تعلیم پر غور کرنا اور اپنے اوپر لاگو کرنا ضروری ہے۔ علو م و معارف کا خزانہ اب آنحضرتؐ اور قرآن ہے۔ ارشاد حضرت اقدسؑ کی رو سے آنحضرتؐ کے بلند مقام کا ذکر۔
فرمودہ مورخہ 11؍دسمبر 2009ء بمطابق11؍فتح 1388 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن (برطانیہ)
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔