مساجد کی اہمیت۔ مسجد نور فرینکفرٹ (جرمنی)

خطبہ جمعہ 18؍ دسمبر 2009ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد یہ آیات تلاوت فرمائیں:

قُلْ اَمَرَ رَبِّیْ بِالْقِسْطِ۔ وَاَقِیْمُوْا وُجُوْہَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ وَّادْعُوْہُ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنِ۔ کَمَا بَدَاَکُمْ تَعُوْدُوْنَ (الاعراف: 30)

اَلتَّائِبُوْنَ الْعٰبِدُوْنَ الْحٰمِدُوْنَ السَّآئِحُوْنَ الرّٰکِعُوْنَ السّٰجِدُوْنَ الْاٰمِرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَالنَّاھُوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَالْحٰفِظُوْنَ لِحُدُوْدِ اللّٰہِ۔ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ(التوبۃ: 112)

آج مَیں مسجدنور فرینکفرٹ سے یہ پہلاخطبہ دے رہا ہوں۔ جیسا کہ جرمنی میں رہنے والے احمدی جانتے ہیں، اس کی وجہ اس سال اس مسجد کی تعمیر پر پچاس سال پورے ہونا بنی ہے۔ پچاس سال پہلے یہ مسجد اس وقت کی جماعتی ضرورت اور وسائل کے مطابق تعمیر کی گئی تھی۔ گو آج یہ احمدیوں کی تعداد کے مطابق ضرورت پوری نہیں کرتی۔ ایک چھوٹی سی مسجد ہے۔ اس لئے یہاں کے علاقہ کے احمدیوں کے علاوہ بہت کم تعداد میں دوسروں کو اجازت دی گئی کہ آج جمعہ پر یہاں آئیں۔ یہاں جرمنی کی یہ دوسری مسجد ہے جو جماعت احمدیہ نے تعمیر کی۔ پہلی مسجد ہمبرگ کی تھی جس کے پچاس سال میرا خیال ہے 2007ء میں پورے ہوئے تھے۔ بہرحال وہاں تو کسی تقریب میں مَیں شامل نہیں ہوا تھا لیکن فرینکفرٹ کی اس مسجد کے پچاس سال پورے ہونے کے حوالے سے جماعت جرمنی ایک فنکشن منعقد کرنا چاہتی تھی جس میں انہوں نے بعض شخصیات کو بلایا ہے یا بلانا چاہتے تھے۔ اس لئے امیرصاحب جرمنی نے مجھے کہا کہ میں بھی اس میں شامل ہونے کی کوشش کروں۔ اس لئے مَیں نے مسجد کے پچاس سال پورے ہونے کی اس تقریب میں شامل ہونے اور یہاں جمعہ پڑھنے کی حامی بھر لی تھی۔ جیسا کہ مَیں نے کہا کہ مَیں نے یہ سوچ کر بھی حامی بھری تھی کہ اس حوالہ سے اعلیٰ شخصیات کو جو دعوت دی گئی ہے تو اس تقریب میں کچھ کہنے کا موقع ملے گا اور اسلام کی تعلیم کے بارے میں ان لوگوں تک بھی گو کہ پہلے آواز پہنچی ہو گی اور جانتے بھی ہوں گے، بہت سارے احمدیوں کے واقف ہیں، لیکن پھر بھی مجھے خود بھی ان تک کچھ نہ کچھ پیغام اپنے رنگ میں پہنچانے کا موقع مل جائے گا۔

ہماری نئی مساجد بھی تعمیر ہوتی ہیں اور دنیا میں جماعت احمدیہ کی کئی پرانی مساجدبھی پھیلی ہوئی ہیں جن کی تعمیر پر پچاس سال یا پچہتّر سال یا سو سال پورے ہو چکے ہیں۔ مساجد کی اہمیت ان کے پچاس سال یا سو سال پورے ہونے سے نہیں ہے۔ مساجد کی اہمیت اور ان کی خوبصورتی ان کو آباد کرنے کے لئے آنے والے لوگوں سے ہے جو اللہ تعالیٰ کا تقویٰ رکھتے ہیں اور تقویٰ رکھتے ہوئے مساجد میں آکر پانچ وقت ان کی رونق کو دوبالا کرتے ہیں۔ مساجد کے مقام اور اس کی اہمیت کے بارے میں ہمیں قرآن اور احادیث سے بڑی راہنمائی ملتی ہے اور ایک احمدی کی یہی شان اور پہچان ہے کہ ہمیشہ مسجدکے اس مقام کو پہچانے جس کی خدا تعالیٰ نے ہمیں ہدایت فرمائی ہے اور اسی حوالے سے میں چند باتیں آج کروں گا۔ لیکن اس سے پہلے کہ مسجد کی اہمیت کے بارے میں کچھ کہوں اس مسجد کے حوالے سے بھی چند باتیں کہوں گا۔

یہاں کے رہنے والے تو جانتے ہیں اور اب دنیا کے احمدی بھی جان گئے ہوں گے کہ اس مسجد کا نام ’’مسجدنُور‘‘ ہے۔ اتفاق سے گزشتہ دو خطبوں سے مَیں نُور کے حوالے سے اس کے مختلف معانی اور اللہ تعالیٰ کی صفت ہونے کے بارہ میں روشنی ڈال چکا ہوں۔ پس یہ مسجد اور ہماری ہر مسجد اس نُور کو اپنے دلوں میں قائم کرنے اور اسے دنیا میں پھیلانے کے لئے ہی تعمیر ہوتی ہے جو خداتعالیٰ کا نور ہے۔ چاہے جو بھی اس کی پہچان کے لئے اس کا نام رکھ دیا جائے لیکن اس کا مقصد یہی ہے کہ جونور خدا تعالیٰ نے آنحضرتﷺ اور قرآن کے ذریعہ سے ہم پر اتارا اور پھر اس کا حقیقی پرتو اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بنایا تاکہ یہ نور ہر سُو پھیلتا چلا جائے۔ تو یہی ہماری مساجد کا مقصد ہے۔

لیکن یہ بھی اتفاق ہے بلکہ مَیں کہوں گا کہ سوئس(Swiss) حکومت کی بدقسمتی ہے کہ اسلام دشمن ایک پارٹی کے کہنے پر ایک ریفرنڈم کی بنیاد پر یا ایک ریفرنڈم کو بنیاد بناتے ہوئے جس میں ایک حساب سے جو حصہ لینے والے تھے ان کی اکثریت نے یہ فیصلہ کیا کہ سوئٹزرلینڈ میں آئندہ تعمیرہونے والی مساجد کے مینار نہ تعمیر کئے جائیں۔ لیکن یہ بھی رپورٹ ہے کہ اس ریفرنڈم میں جن لوگوں نے حصہ لیا اگر ان کی تعداد کا اندازہ کیا جائے تو 32فیصد لوگوں نے حقیقت میں ’’ہاں‘‘ میں ووٹ دئیے ہیں کہ مینارے تعمیر نہ کئے جائیں۔ گویا اکثریت یا اس سے لاتعلق رہی ہے یا ان کو تجویزپسندنہیں تھی۔ یہ بھی آج آنحضرتﷺ کے عاشق صادق کی جماعت کا ہی کام ہے کہ جہاں تمام مسلمان فرقے سوئے ہوئے تھے بلکہ بعض نے توجہ دلانے پر یہاں تک بھی کہا کہ کیا ضرورت ہے میناروں کے ایشو پر شور مچانے کی۔ یونہی ہم کیوں ان لوگوں کی مخالفت مول لیں لیکن وہاں صرف جماعت احمدیہ نے پبلک میٹنگ کرکرکے اور سیاستدانوں سے رابطے کرکے بھی اس احمقانہ قانون کے خلاف پہلے بھی آواز اٹھائی اور اب بھی اٹھا رہے ہیں۔ بعض سیاسی پارٹیوں نے ہم سے اس بات پر معذرت کی ہے کہ یہ ہمارا فعل نہیں ہے اور ہم اس قسم کی احمقانہ چیزوں کے بڑے سخت مخالف ہیں۔ بلکہ سوئٹزر لینڈ میں زیورخ میں جہاں ہماری مسجد ہے وہاں کے علاقہ کے لوگوں نے ہمارے حق میں، مسجد کے میناروں کے حق میں نعرے لگائے، جلوس نکالے، سڑکوں پر آئے اور کہا کہ یہ بالکل احمقانہ بات ہے کہ دوسروں کے مذہبی جذبات سے کھیلا جائے۔ ایک سیاسی پارٹی کے نیشنل لیڈرنے اس ریفرنڈم سے یہ سمجھ کر کہ دوسری پارٹی نے اس ایشو سے اپنا ایک مقام حاصل کر لیا ہے اور اس کی کچھ اہمیت ہو گئی ہے یہ آواز بلند کرنی شروع کر دی کہ اب قانونی طور پر حجاب پر بھی پابندی لگنی چاہئے اور مزید پابندیاں بھی مسلمانوں پر لگنی چاہئیں۔ لیکن اسی پارٹی کی زیورخ صوبے کی جو صوبائی برانچ تھی اس کے صدر اور اس پارٹی کے دوسرے لیڈروں نے اپنے اس نیشنل لیڈر کی اس بات پر سخت احتجاج کیا اور یہاں تک انہوں نے شور مچایا اور اس کو خطوط لکھے کہ اس نیشنل لیڈر کو ٹی وی پر آ کر معافی مانگنی پڑی۔ اور اس کے بعد پھر اس پارٹی کا جو صوبائی لیڈر ہے اس نے ہمارے امیر صاحب سوئٹزر لینڈ کو ایک خط لکھا کہ یہ شخص ہمارا لیڈر ہے لیکن پٹڑی سے اتر گیاہے۔ اب ہم نے اس کو سیدھے رستے پر ڈال دیا ہے اور ہم ہیں جو مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت کریں گے۔ تو شرفاء ہر جگہ موجود ہیں جو آواز بلند کرنے والے ہیں۔ تو مَیں بتانا چاہتا ہوں کہ یہ وہ کام ہے جو جماعت احمدیہ اسلام کے دفاع کے لئے ہر جگہ کر رہی ہے اور جماعت کے شور مچانے پر ہی ان سیاستدانوں کو بھی اس طرف توجہ پیدا ہوئی کہ اس قانون کے خلاف آواز بلند کریں۔ اسلام کے جو نام نہاد ٹھیکیدار بنے ہوئے ہیں ان کا توصرف یہی کام ہے کہ ایک دوسرے کو گالیاں دیتے رہیں یا معصوموں کی جانوں سے کھیلتے رہیں اور اس کے باوجودپھر یہ کہتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی آمد کی کیا ضرورت تھی اور ہمیں کسی لیڈر کی کسی روحانی لیڈر کی ضرورت نہیں ہے۔ کیونکہ ہمارے پاس آخری رسول حضرت محمد مصطفیﷺ اور کتاب مبین کی صورت میں نُور موجود ہے۔ یہ سب ٹھیک ہے۔ ہم بھی یہی کہتے ہیں بلکہ ان سے زیادہ ہم اس بات پر ایمان رکھتے ہیں لیکن اس نور سے حصہ لینے کے لئے اللہ اور رسولﷺ کی پیشگوئیوں کے مطابق اس زمانہ میں ایک ایسے شخص کی ضرورت تھے جو اس نُور کو جذب کرکے پھر آگے پھیلائے۔

پس اسلام کی یہ روشنی کے پھیلانے کا کام اب صرف اور صرف جماعت احمدیہ کاہی مقدر ہے اور اسی کے ذمہ لگایا گیا ہے۔ چنانچہ صرف سوئٹزر لینڈ میں ہی نہیں سپین کے ایک بہت بڑے سیٹلائٹ چینل نے یہ خبر دی اور خبر کے ساتھ پیڈرو آباد میں جو ہماری مسجد بشارت ہے اس کی تصویر دی اور مقامی لوگوں کے انٹرویو دئیے اور سب نے یہ کہا کہ اس قسم کے قوانین جو ہیں یہ بڑے غلط قسم کے قوانین ہیں اور یہ بتایا کہ ہمارے علاقہ میں مسلمانوں کی یہ مسجد ہے یہاں سے تو امن و محبت کا پیغام پھیلانے والی آواز اٹھتی ہے۔ بلکہ ایک شخص نے تو یہاں تک کہا کہ تم ان لوگوں سے Terrorism کی بات کرتے ہو، یا کسی قسم کی نفرت کی بات کرتے ہو، مَیں تو کہتا ہوں کہ اصل امن پسند یہ لوگ ہیں اور ہمیں بھی ان جیسا ہونا چاہئے۔ یہ ایک انقلاب ہے جو دنیا میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت نے آپؑ سے تربیت پا کر پیدا فرمایا ہے کہ وہ ملک جہاں چنددہائیاں پہلے مسلمان سے سلام کرنا بھی شاید ایک دوسرے کو خوفزدہ کر دیتا تھا۔ آج ٹی وی پر کھل کر وہاں سے اعلان کیا جاتا ہے کہ اگر سپینش لوگ امن چاہتے ہیں تو ان مسلمانوں جیسے بنیں جو اسلام کی خوبصورت تعلیم کو ساری دنیا میں پھیلا رہے ہیں اور یہ وہ لوگ ہیں جو امن اور محبت کا سمبل(Symbol) ہیں۔ پس یہ انتہائی احمقانہ حرکت ہے کہ یہ قانون بنایا جائے کہ مساجد کے میناروں کی تعمیر روک دی جائے۔ اگر فرض کر لیں کہ تمام مسلمان دہشت گرد ہی ہیں تو کیا مینار نہ بنانے سے یہ دہشت گردی رک جائے گی؟ نہایت بچگانہ باتیں ہیں۔ مینار کا لفظ تو خودنور سے نکلا ہے اور اس کا مقصد جس کے لئے بنایا جاتا ہے یہ ہے کہ اونچی جگہ سے اذان کی آواز خدائے واحد کی عبادت کرنے والوں کو نماز کے لئے عبادت کے لئے بلانے کے لئے بلند کی جائے۔ پہلے جب یہ بجلی اور لاؤڈ سپیکر کی سہولت نہیں تھی تو مینار پر کھڑے ہو کر ہی اذان دی جاتی تھی۔ اب تو جو مینارے ہیں یہ ایک سمبل کے طور پر ہیں۔ مسلمان ملکوں میں بعض جگہ لاؤڈ سپیکرلگا دئے جاتے ہیں جن سے اذان کی آواز سنائی دیتی ہے۔ یہاں تو اس کی اجازت نہیں۔ ان میناروں کا توپھر بھی کچھ نہ کچھ مقصد ہے لیکن اگر یہ اعترا ض کرنا چاہیں تو چرچوں کے گنبد ہیں یاکون ہیں ان پر بھی اعتراض کیا جا سکتا ہے۔ گو کہ ہمارا مقصدنہیں ہے اعتراض کرنا۔

مَیں نے جو میناروں کا مقصد بتایا ہے جیساکہ اذان کی آواز پہنچانا اور یہ اذان کیا ہے؟ اذان کے الفاظ میں خدا تعالیٰ کی بڑائی بیان کی جاتی ہے۔ اس کی وحدانیت بیان کی جاتی ہے۔ آنحضرتﷺ کے رسول ہونے کا اعلان کیا جاتا ہے۔ عبادت کی طرف بلایا جاتا ہے۔ کیوں؟ اس لئے کہ یہی انسانی پیدائش کا مقصد ہے اور اسی میں انسان کی فلاح ہے۔ اس لئے فلاح کی طرف آؤ۔ وہ فلاح حاصل کرو جس سے تمہارادین بھی سنور جائے اور آخرت بھی سنور جائے۔ تمہاری دنیا بھی سنور جائے۔ کتنا حسین اور ٹھوس پیغام ہے جو ان میناروں سے دیا جاتا ہے۔ اس کے باوجود بھی کہ چرچوں پر ہم اعتراض کر سکتے ہیں، ہم نے اعتراض نہیں کیا، نہ کرتے ہیں کیونکہ ہمارا مقصدیہ نہیں ہے کہ کسی کے مذہبی جذبات سے کھیلا جائے۔ ہم تو ہر ایک کے معبد ہے یا مندر ہے یا چرچ ہے اس کی عزت کرتے ہیں کیونکہ قرآن کریم نے ہمیں نہ صرف ان عبادت گاہوں کی عزت کرنے کا کہا ہے بلکہ ان کی حفاظت کی ذمہ داری بھی مسلمانوں پر ڈالی ہے تاکہ دنیا میں محبت اور پیار کی فضا قائم ہو۔ فرینکفرٹ کی اس مسجد کے افتتاح کے موقع پر، آج سے پچاس سال پہلے اس مسجد کے مینار کے بارے میں جو اخبار نے لکھا تھا وہ ان اخبار نویسوں کی شرافت کی عکاسی کرتا ہے۔ اس وقت جرمنی کے ستّر سے زائد اخبارات نے مسجد کے افتتاح کی خبریں شائع کیں۔ مثلاً ایک اخبار ہے فرینکفرٹ رمشاؤ (Frankfurter Rundschah) (اگر مَیں نے تلفظ صحیح بولا ہے) اس نے 14ستمبر 1959ء کی اشاعت میں لکھا کہ فرینکفرٹ میں ایک سفید مسجد بلند اور دلفریب میناروں کے ساتھ تعمیر ہو چکی ہے۔

اسی طرح Abend Post نے لکھا کہ فرینکفرٹ میں اللہ کا گھر موجود ہے۔

پھر ایک اخبار’منہائم مورگن‘ نے لکھا کہ اسلام یورپ کی طرف بڑھ رہا ہے۔ یہ ہیڈنگ دے کے پھر تفصیل لکھی اور لکھا کہ محمد (ﷺ ) کے پیرو اس سے قبل تلواروں اور نیزوں کی مدد سے جنوبی فرانس تک آئے۔ موجودہ زمانہ میں یہ کام روحانی ہتھیاروں سے ہو رہا ہے۔ بہت سے اسلامی ممالک کے لوگ یورپ آتے ہیں جو ساتھ ساتھ اسلام پھیلانے کی بھی کوشش کرتے ہیں۔ اسی طرح مختلف تبلیغی فرقے جن میں ایک فرقہ جس نے خاص طور پر مختلف جگہوں پر مساجد بنائی ہیں مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کا ہے جو 1890ء میں پنجاب میں قائم ہوا۔

بہرحال سال اس نے تھوڑا سا غلط لکھا ہے۔ 1889ء کی بجائے 1890ء لکھ دیا لیکن خبر بڑی تفصیل کے ساتھ دی۔ لیکن یہ دیکھیں کہ جب جرمنی میں چند ایک جرمن احمدی تھے اس وقت اس مسجد اور اسلام کے حقیقی پیغام کی وجہ سے آنحضرتﷺ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے نام کو پریس نے عزت اور احترام کے ساتھ اپنی خبروں میں پیش کیا۔ یہ ان کی شرافت تھی۔ لیکن اب جب آپ کی تعداد بہت زیادہ ہو چکی ہے تو آپ کو پہلے سے بڑھ کر اسلام کے دفاع اور اس کی حقیقی تصویر دنیا کے سامنے پیش کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔

مساجد کے مینار جس طرح اس زمانے میں دلفریب تھے آج بھی اسی طرح دلفریب ہیں۔ لیکن آج مغربی ممالک کے بعض لوگ اور سیاستدانوں کی انصاف کی نظر ختم ہو گئی ہے۔ چند ایک کے جرم کو پوری اُمّت کے سر تھوپ دیا جاتا ہے۔ اسلام کے نام کو بدنام کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور بعض پریس کے نمائندہ بھی اور پریس میڈیا بھی اس میں غلط کردار ادا کرتا ہے۔ مثلاً کل ٹی وی پر ایک خبر آ رہی تھی (کل کی ہی تھی میرا خیال ہے) کہ ایک شخص نے جو مسلمان تھا (پوری طرح تو مَیں نے خبر نہیں سنی) غالباً برطانوی شہری تھا۔ اس نے اپنی پندرہ سالہ بیٹی کو قتل کر دیا۔ تو خبر اس طرح بیان ہو رہی تھی کہ ایک مسلمان نے اپنی بیٹی کو قتل کر دیا۔ جب کہ اس طرح کے جرائم مغرب کے باشندے بھی کرتے ہیں اور آئے دن اخباروں میں ان جرائم کی خبریں شائع ہوتی رہتی ہیں بلکہ اس سے زیادہ بھیانک جرائم کی خبریں آرہی ہوتی ہیں۔ لیکن یہ نہیں لکھا جاتا کہ فلاں عیسائی نے قتل کر دیا۔ یا فلاں یہودی نے قتل کر دیا یا فلاں مذہب کے ماننے والے نے قتل کر دیا۔ یا یہ جرم کیا ہے۔ فلاں فلاں جرم کیا ہے۔ لیکن اگر کوئی مسلمان جرم کرتا ہے تو اسلام کے حوالہ سے ضرور اس کا تعارف کروایا جاتا ہے۔ یہ سب باتیں ظاہر کرتی ہیں کہ اسلام کے خلاف ایک مہم ہے۔ پس مغرب میں رہنے والے مسلمانوں کا فرض ہے کہ اپنی حالتوں کو بدلتے ہوئے اس مہم کے خلاف کھڑے ہو جائیں اور اسلام کی حقیقی تصویر پیش کریں۔ لیکن نہیں۔ آج یہ کام ہر ایک کے بس کا نہیں ہے۔ یہ کام جیسا کہ مَیں نے کہا صرف اور صرف جماعت احمدیہ کا مقدر ہے۔ ہر احمدی کا کام ہے۔ آنحضرتﷺ کے عاشق صادق کی بیعت میں آنے والوں کا کام ہے۔ انہیں سے اب منسوب ہو چکا ہے۔ آپ لوگوں کو مَیں جلسہ میں بھی اس طرف توجہ دلا چکا ہوں۔ پس احمدی اپنی ذمہ داری کو سمجھیں اور مساجد اور اس کے میناروں سے اسلام کے نُور کو، اللہ تعالیٰ کے نور کو یورپ اور مغرب کے ہر ملک اور ہر باشندے تک پہنچائیں اور اس کو پہنچانے کے لئے کمر بستہ ہو جائیں۔ اور یہ اس وقت ہو گا جب مسجدوں کے ساتھ جڑ کر اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرتے ہوئے، اس سے مدد مانگتے ہوئے، اس کام کو سرانجام دینے کے لئے کوشش کریں گے۔ مسجد کے مقام اور اہمیت کو ہمیشہ پیش نظر رکھیں گے۔

جو آیات مَیں نے تلاوت کی ہیں ان میں بھی اس بارہ میں کچھ راہنمائی ملتی ہے۔ ان آیات میں سے پہلی آیت جو تھی سورہ اعراف کی تھی۔ اس کا ترجمہ یہ ہے کہ تو کہہ دے کہ میرے ربّ نے انصاف کا حکم دیا ہے۔ نیز یہ کہ تم ہر مسجد میں اپنی تو جہات (اللہ کی طرف) سیدھی رکھو۔ اور دین کو اُس کے لئے خالص کرتے ہوئے اُسی کو پکارا کرو۔ جس طرح اس نے تمہیں پہلی بار پیدا کیا اسی طرح تم (مرنے کے بعد) لوٹو گے۔ یہ کیا خوبصورت تعلیم ہے۔ اعتراض کرتے ہیں کہ مساجد دہشتگردی کا اڈہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں پہلا حکم یہ دیا ہے کہ انصاف پر قائم ہو جاؤ۔ پھر مسجد کا حق ادا کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف بھی توجہ پیدا ہو گی۔ یا اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرنے کے لئے تمہیں اپنے دلوں کو ہر قسم کی ناانصافی سے پاک کرنا ہو گا۔ قرآن کریم میں اور کئی مقامات پر بھی اس بات کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ مثلاً ایک جگہ فرمایا وَاِذَا حَکَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْکُمُوْا بِالْعَدْل (النساء آیت: 59) کہ جب تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے فیصلہ کرو۔ یہ ہے خوبصورت تعلیم۔ یہ نہیں کہا کہ جب مسلمانوں کے درمیان فیصلہ کرو تو انصاف کرو۔ بلکہ محسن انسانیت پر جو تعلیم اتاری گئی تھی وہ بھی کُل انسانیت کی بہتری کے لئے ہے۔ اور اس کا اظہار ایک اور جگہ اس طرح ہے کہ کسی قوم کی دشمنی بھی انصاف سے نہ روکے اور جو مسجد فتنہ اور شر کے لئے بنائی گئی تھی اس کے گرانے کا حکم قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے دے دیا۔

پس مسجد کا تو وہ مقام ہے جہاں تقویٰ پر قائم رہتے ہوئے انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے پھر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹنے کے لئے اس کے آگے جھکنے کے لئے آیا جاتا ہے۔ مسجد کا لفظ سَجَدَ سے نکلا ہے۔ جس کا مطلب ہے عاجزی انکساری اور فرمانبرداری کی انتہا۔ پس مسجد تو یہ اعلیٰ اخلاق پیدا کرنے والی جگہ ہے اور اس آیت میں یہی حکم ہے کہ جب نماز کا وقت آئے تو مسجد میں جمع ہو کر، ایک ہو کر اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے ہوئے اپنی کم مائیگی کا اظہار کرتے ہوئے اس کو پکارو کہ تو ہی ہے جو ہمیں سیدھے راستے پر چلانے والا ہے۔ ہمارے اندر سجدے کی حقیقی روح پیدا کرنے والا ہے۔ توُہی ہے جو ہمیں دین کے لئے خالص کرتے ہوئے اس کے احکامات پر عمل کرنے کی توفیق

دینے والا ہے۔ توُ ہی ہے جو ہمارے سے انصاف کے تمام تقاضے پورے کروانے والا ہے اور اے اللہ توُ ہی ہے جو ہمیں اپنے حقوق کی ادائیگی کی طرف بھی توجہ دلانے والا ہے اور بندوں کے حقوق کی ادائیگی کی توفیق دینے والا ہے۔ پس ہم آج تیرے آگے سجدہ ریز ہیں کہ ہمیں ان نیکیوں کے کرنے کی توفیق عطا فرما۔ ایک مومن جسے آخرت پر یقین ہے، مرنے کے بعد خداتعالیٰ کے سامنے حاضر ہونے پر یقین ہے۔ وہ کوئی ایسی حرکت کر ہی نہیں سکتا جو اسے آخرت کے انعام سے محروم کرے کیونکہ ہر عمل درجہ بڑھانے کا باعث بنتا ہے اور ترقی کایہ عمل اسی طرح جاری ہے جس طرح پیدائش کا عمل ہوا۔ پس اگر ہر نیکی کے بجا لانے کی طرف توجہ نہیں تو روحانی ترقی کے درجے حاصل کرنے بھی ممکن نہیں ہوں گے۔ پس یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ ایک مومن ایک طرف تو خداتعالیٰ کی رضا چاہتے ہوئے، خالص اس کے لئے ہوتے ہوئے، مسجدوں کی طرف آئے اور دوسری طرف ان مساجد سے نفرتوں کی آوازیں گونجیں جو دنیا میں فتنہ و فساد کا باعث بنیں۔ پس مساجد تو حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف قدم بڑھانے کا ایک نشان ہیں اور مینارے اس مقصد کے حصول کے لئے ایک ذریعہ ہیں جن پر کھڑے ہو کر اس نور کی طرف بلایا جاتا ہے جو انسان کے لئے اپنے مقصدِ پیدائش کو سمجھتے ہوئے اپنی دنیا و آخرت کو روشن تر کرنے کا باعث بنتا ہے۔

پس آج ہم احمدیوں کا فرض ہے کہ دنیا کو یہ بتائیں کہ اسلام کی حقیقت کیا ہے اور مساجد کی حقیقت کیا ہے۔ دنیا کی بقا بھی اسی سے وابستہ ہے کہ ایک خدا کو مانتے ہوئے اس نُور کو تلاش کریں جو اللہ تعالیٰ کا نُور ہے۔ جو دنیا میں اگر نظر آ سکتا ہے تو آنحضرتﷺ کی ذات میں نظر آ سکتاہے۔ جو اگر نظر آ سکتا ہے تو آنحضرتﷺ پر اتری ہوئی شریعت اور آخری شرعی کتاب قرآن کریم میں نظر آ سکتا ہے۔ جس کی خوبصورت تعلیم دنیا کی بقا کا واحد ذریعہ ہے۔ جس کی تعلیم اللہ تعالیٰ کے حقوق کی ادائیگی کے راستے دکھانے اور اس کے بندوں کے حقوق کی ادائیگی کے راستے دکھانے کا واحد ذریعہ ہے۔ جس کی خوبصورت تعلیم دنیا کے امن کی ضمانت ہے کیونکہ اس تعلیم پر عمل کرنے والوں کی حالت کا قرآن کریم نے جو نقشہ کھینچا ہے وہ ایک جگہ اس طرح بیان ہوا ہے۔

دوسری آیت جومَیں نے تلاوت کی تھی اس کا ترجمہ یہ ہے کہ: توبہ کرنے والے، عبادت کرنے والے، حمد کرنے والے، (خدا کی راہ میں ) سفر کرنے والے، رکوع کرنے والے، سجدہ کرنے والے، نیک باتوں کا حکم دینے والے اور بری باتوں سے روکنے والے اور اللہ کی حدود کی حفاظت کرنے والے (سب سچے مومن ہیں ) اور تو مومنوں کو بشارت دے دے۔ تو یہ ایک مومن کی خصوصیات ہیں۔ جو خداتعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرتے ہوئے اس کی رضا کے حصول کی کوشش کرتاہے اس میں یہ پائی جانی ضروری ہیں۔ پہلی بات یہ فرمائی۔ توبہ کرنے والے۔ توبہ کیا چیز ہے؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ برائیوں سے قطع تعلق کرنا۔ اس کی وضاحت ایک جگہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس طرح فرمائی ہے۔ فرمایا:

’’انسان کو چاہئے کہ اگر توبہ کرے تو خالص توبہ کرے۔ توبہ اصل میں رجوع کو کہتے ہیں۔ خداتعالیٰ نے یہ نہیں کہا کہ صرف زبان سے توبہ توبہ کرتے پھرو بلکہ فرمایا کہ خداتعالیٰ کی طرف رجوع کرو، جیسا کہ حق ہے رجوع کرنے کا۔ کیونکہ جب متناقض جہات میں سے ایک کو چھوڑ کر انسان دوسری طرف آ جاتا ہے تو پھر پہلی جگہ دور ہوتی جاتی ہے‘‘ (جب انسان متناقض جہات، یعنی الٹی طرف جانا شروع کرتا ہے۔ ایک طرف کو چھوڑ کر جب دوسری طرف آتا ہے تو پہلی جگہ سے دوری ہوتی جاتی ہے) ’’اور جس کی طرف جاتا ہے وہ نزدیک ہوتی جاتی ہیں۔ یہی مطلب توبہ کا ہے کہ جب انسان خدا کی طرف رجوع کر لیتا ہے اور دن بدن اس کی طرف چلتا ہے تو آخر یہ نتیجہ ہوتا ہے کہ وہ شیطان سے دور ہو جاتا ہے اور خدا کے نزدیک ہو جاتا ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد پنجم صفحہ 409 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)

پھر اللہ تعالیٰ نے دوسری خصوصیت ایک مومن کی یہ بتائی کہ عبادت کرنے والے ہیں۔ ظاہر ہے جب خداتعالیٰ کی طرف قدم بڑھ رہے ہوں گے تو خالص ہو کر اس کی عبادت کی طرف بھی توجہ پیدا ہو گی اور یہی قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے انسان کی پیدائش کا مقصد قرار دیاہے۔ اور ایک مومن جو خداتعالیٰ پر کامل یقین رکھتا ہے وہ اس بات کی پوری کوشش کرتا ہے کہ عبادت کا حق ادا کرے۔ وہ اس بات کو اچھی طرح سمجھتا ہے کہ عبادت کے بغیر میری زندگی ادھوری ہے اور عبادت کے بارہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے کہ اس کا حق ادا کرنا ہوگا۔ اور اس کا حق اس کو ادا کرنے سے ہوگا۔ فرمایا وَاَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ (البقرۃ: 44) کہ نماز کو قائم کرو اور نماز کا قائم کرنا یہی ہے کہ مسجد میں جا کر باجماعت نماز ادا کی جائے او ریہی نمازوں کی ادائیگی کا حقیقی حق ہے۔

یہاں ضمناً مَیں یہ بھی بتا دوں کہ مجھے اس مسجد کے بارہ میں پتہ لگا ہے کہ یہاں نمازوں کے وقت پوری طرح پر مسجد میں لوگ نہیں آتے۔ مجھے کسی نے لکھا تھا، بلکہ کسی لوکل اخبار نے بھی لکھا کہ ایک وقت میں یہاں پانچوں نمازیں ہوتی تھیں اب یہ مسجد صرف جمعہ کے لئے استعمال ہوتی ہے۔ اس علاقہ کے لوگوں کا، احمدیوں کا فرض بھی ہے کہ یہاں آئیں۔ باقاعدہ پانچ وقت یہ مسجد کھولیں اور نمازیں ادا کیا کریں۔ صرف عشاء کی نماز ادا کرنا یا مغرب کی نماز ادا کرنا یا چند ایک کا فجر پر آ جانا ہی کافی نہیں ہے۔ یہ حق آپ ادا کریں گے تو تبھی آپ حقیقی مومن کہلانے والے ہوں گے۔ مسجد کی بنیاد رکھتے ہوئے غیر بھی اکثریہ سوال پوچھتے ہیں کہ کیوں مسجد بنا رہے ہیں۔ پرسوں بھی ایک شہر میں جہاں مَیں نے مسجد کی بنیاد رکھی ہے، وہاں پریس والے نے یہی سوال کیا کہ آپ مسجدیں کیوں بنا رہے ہیں؟ تو سیدھا سادہ جواب تو اس کا یہی ہے کہ نماز باجماعت کی ادائیگی کے لئے جس کی اسلام میں بہت اہمیت ہے۔ نماز کے قیام کا حکم ہے اور اس کا مطلب یہی ہے کہ باجماعت ادا کرو۔ اس لئے مسجد تعمیر کرتے ہیں کیونکہ حقیقی نمازیں ہی ہیں جو اللہ تعالیٰ اور بندوں کے حقوق ادا کرنے کی طرف توجہ دلاتی ہیں اور جو نمازیں اس سوچ کے ساتھ ادا نہیں کرتے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے بندوں کے حقوق ادا کرنے کی طرف توجہ ہو تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَوَیْلٌ لِّلْمُصَلِّیْنَ (الماعون: 5) پس ان نمازیوں کے لئے ہلاکت ہے جو اپنی نمازیں ظاہری حرکات کے لئے تو ادا کرتے ہیں اور اس مقصد کو بھول جاتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے احکام کی کامل فرمانبرداری ہے۔ پس قرآن کریم تو خودہر قدم پر توجہ دلا رہا ہے اور توجہ دلا کر ایک حقیقی مسلمان کو اس کے اعلیٰ معیار حاصل کرنے کے راستے دکھا رہا ہے۔ پھر ایک حقیقی مسلمان خداتعالیٰ کی حمد کرنے والا بھی ہے اور حقیقی رنگ میں اللہ تعالیٰ کی حمد وہی کر سکتا ہے جو اللہ تعالیٰ کو تمام صفات کا جامع سمجھتا ہو اور جو اللہ تعالیٰ کو تمام صفات کا جامع سمجھتے ہوئے اُن تمام احکامات پر عمل کرنے والا ہو جس کے بارہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ کیونکہ اگر وہ حقیقی مومن ہے تویہ ہو نہیں سکتا کہ وہ ایسی حرکت کرے جو اسے خداتعالیٰ کی رضا سے دور لے جانے والی ہو۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام حمد کے بارہ میں کہ یہ کیا چیز ہے ایک جگہ فرماتے ہیں کہ: ’’تمام اقسام حمد کے (جو تمام قسمیں ہیں حمد کی) کہ کیا باعتبار ظاہر کے اور کیا باعتبار باطن کے اور کیاباعتبار ذاتی کمالات کے اور کیا باعتبار قدرتی عجائبات کے اللہ سے ہی مخصوص ہیں‘‘۔ (براہین احمدیہ روحانی خزائن جلد اول صفحہ 436)

تو اللہ تعالیٰ کی ذات کے متعلق یہ سوچ رکھنے والے جب اس کے سامنے جھکتے ہیں، اس کے حضور سجدہ ریز ہوتے ہیں حتیٰ کہ اپنے گھروں سے بھی اس کی رضا کے حصول کے لئے ہی نکلتے ہیں تو یہی لوگ ہیں جو پھر نیکیاں پھیلانے والے ہیں اور برائیوں سے روکنے والے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی حدود کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی حدود کیا ہیں؟ اللہ تعالیٰ کی حدود وہ تمام احکامات ہیں جو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں مومنوں کو دئیے ہیں۔ ایک متقی کا یہی کام ہے کہ ان حدود کے دائرہ کے اندر رہے۔ تو پھر اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو بشارت دیتا ہے۔ یہ شور، یہ مخالفتیں ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں۔ یہاں اس حوالہ سے مَیں ایک یہ بات بھی آپ کو کہنا چاہوں گا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ خداتعالیٰ کی راہ میں سفر کرنے والوں کے لئے بھی بشارت ہے۔ جیسا کہ مَیں نے ذکر کیا، ان میں ایک تو وہ ہیں جو اللہ تعالیٰ کی خاطر جہاد کے لئے نکلتے ہیں۔ اس کے پیغام کی اشاعت کے لئے مصروف ہیں۔ تبلیغ بھی ایک جہاد ہے۔ اس کام کو سرانجام دے رہے ہیں۔ اس لئے خداتعالیٰ نے حکم بھی فرمایا ہے اور توفیق بھی عطا فرما رہا ہے۔ دوسرے وہ بھی ایک طرح اس میں شامل ہیں جن کے حالات اپنے ملکوں میں اس قدر تنگ کر دئیے گئے کہ انہیں ہجرت کرنی پڑی۔ یہ بھی خداتعالیٰ کا حکم ہے کہ اگر تمہیں توفیق ہے تو اگر تم پر دینی تنگیاں وارد کی جاتی ہیں تو ہجرت کر جاؤ۔ آپ میں اکثر اس وجہ سے یہاں آئے ہیں اور جرمن حکومت کی بھی یہ مہربانی ہے کہ انہوں نے اس حقیقت کو سمجھتے ہوئے کہ آپ اپنے ملک میں آزادنہیں ہیں، بعض تنگیاں وارد کی جا رہی ہیں، آپ کو یہاں رہنے کی اجازت دے دی۔ اس لئے ہمیشہ یہ ذہن میں رکھیں کہ اگر آپ نے خداتعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنا ہے، اگر حقیقی احمدی کہلانا پسند کرنا ہے، اگر اللہ تعالیٰ کے دنیوی اور اخروی انعاموں کو بھی اپنے اور پھر اپنی نسلوں پر بھی نازل ہوتے دیکھنا ہے تو ان مومنین میں سے بننا ہو گا جو عبادتوں کا بھی حق ادا کرنے والے ہیں۔ اپنے رکوع و سجود سے کامل فرمانبرداری کا اظہار کرنے والے ہیں۔ نیکیوں کو اپنے اوپرلاگو کرنے والے ہیں اور معاشرے میں بھی یہ نیکیاں پھیلانے والے ہیں۔ برائیوں سے اپنے آپ کو بھی بچانے والے ہیں اور معاشرے کو بھی بچانے والے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے تمام احکامات پر حتی الوسع کوشش کرنے والے ہیں اور اپنی نسلوں کو بھی اسلام کی حقیقی تعلیم سے روشناس کرانے والے ہیں۔ اگر یہ باتیں نہیں تو پھر اسلام دشمن یہ کہنے میں حق بجانب ہوں گے کہ ہمیں یہ نہیں پتہ کہ تمہاری تعلیم کیا ہے۔ ہم تو تمہارے عمل دیکھ کر تمہیں اور تمہارے دین کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ پس ایک باغیرت احمدی کی طرح ہمیشہ اپنے کسی فعل اور حرکت سے احمدیت اور حقیقی اسلام کو بدنام کرنے کی کوشش نہ کریں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس درد کو ہمیشہ یاد رکھیں کہ آپ نے فرمایا کہ ’’ہماری طرف منسوب ہو کر پھر ہمیں بدنام نہ کریں‘‘۔ (ماخوذ از ملفوظات جلد سوم صفحہ 184 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)

پس ہراحمدی کو ہمیشہ یہ سوچنا چاہئے کہ اس ملک میں آ کر مجھے اپنے حالات پہلے سے بہتر کرنے کا اور آزادی سے زندگی گزار نے کا موقع اللہ تعالیٰ نے احمدیت کی وجہ سے دیا ہے۔ اس لئے مَیں نے خداتعالیٰ کا شکر گزار بندہ بنتے ہوئے اپنی زندگی اس نہج پر گزارنی ہے کہ جو جہاں مجھے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والی بنائے وہاں دشمنان اسلام کے منہ بند کرنے والی بھی بنائے۔ امر بالمعروف میرا طرئہ امتیاز ہو اور نہی عن المنکر میری پہچان ہو۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ایک بڑا مقام عطا فرمایا ہے اور جو احمدی مسلمان ہیں انہوں نے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ہاتھ پر بیعت کرکے اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ ہم اس مقام کو حاصل کرنے اور اس کی حفاظت کرنے کی سر توڑ کوشش کریں گے۔ اللہ تعالیٰ نے جو مقام دیا ہے وہ یہ ہے کہ کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ (آل عمران: 111) کہ تم وہ لوگ ہوجو انسانیت کی بھلائی کے لئے پیدا کئے گئے ہو۔ صرف اپنی بھلائی نہیں بلکہ دوسروں کی بھلائی کے لئے پیدا کئے گئے ہو۔ قطع نظر اس کے کہ کون کس مذہب کا ہے آج انسانیت کی بھلائی تمہارے ساتھ وابستہ ہے۔ یہ اتنا بڑا اعزاز ہے کہ یونہی نہیں مل گیا بلکہ یہ وجہ بتائی کہ تم نیکیوں کا حکم دیتے ہو اور برائیوں سے روکتے ہو۔ پس اگر اپنے اندر یہ نیکیاں ہوں گی۔ آپس میں احمدی معاشرے میں بھی ان نیکیوں کا اظہار نظر آ رہا ہو گا جو خداتعالیٰ نے ہمیں قرآن کریم میں بتائی ہیں۔ تبھی دوسروں کو ہم فائدہ پہنچا سکتے ہیں۔ تبھی ہم یہ اعزاز حاصل کرنے والے بن سکتے ہیں۔ ورنہ جیسا کہ مَیں نے کہا دوسرے اس سے کیا سبق حاصل کریں گے۔ پس ہر احمدی کو اس بات کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں آ کر اس پر بہت بڑی ذمہ داری پڑ گئی ہے اور اس بات کی شکر گزاری کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی عبادت کی طرف مزید توجہ دیں کہ جب زمین آپ پر تنگ کی گئی تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو دنیا میں پھیلنے کی توفیق دی۔ آپ کا دنیا میں نکلنا آپ کے کسی استحقاق کی وجہ سے نہیں تھا بلکہ اللہ تعالیٰ کا فضل تھا اور اس لئے بھی تھا کہ بعض مسلمانوں کے عمل سے جب اسلام کے خلاف بغض اور عناد کی دیواریں بعض طبقات کی طرف سے کھڑی کی جائیں گی تو اس وقت احمدی وہاں موجود ہوں جو اپنے نمونے سے اور اس حقیقی اسلام کی تعلیم کے اظہار سے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمارے سامنے پیش فرمائی ہے اسلام کا دفاع کریں۔ دنیا کو دکھائیں کہ آؤ دیکھو مساجد کی کیا حقیقت ہے۔ آؤ دیکھو ہم تمہیں بتائیں کہ میناروں کی کیا حقیقت ہے۔ آؤ دیکھو ہم تمہیں بتائیں کہ اعلیٰ اخلاق کیا ہیں۔ آؤ ہم تمہیں بتائیں کہ نیکیاں کس طرح پھیلائی جاتی ہیں اور برائیاں کس طرح دُور کی جاتی ہیں۔ آؤ ہم تمہیں بتائیں کہ دنیا کا امن کس طرح قائم کیا جا سکتا ہے۔

پس یہ ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے جو آج احمدیوں کے ذمہ لگائی گئی ہے۔ دنیا کو بتانا ہے کہ یہ حقیقی اسلام ہے جو جماعت احمدیہ پیش کرتی ہے اور اس کے پھیلانے کی خاطر ہر احمدی مرد، عورت، بچہ، جوان اپنی جان، مال، وقت اور عزت قربان کرنے کا عہد کرتا ہے۔ اگر ہم نے اپنے آپ کو دوسرے مسلمانوں سے ممتا زنہ کیا تو ہم اسلام کا دفاع کسی صورت نہیں کر سکتے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں: ’’مَیں بار بار اور کئی مرتبہ کہہ چکا ہوں کہ ظاہر میں تو ہماری جماعت اور دوسرے مسلمان دونوں مشترک ہیں۔ تم بھی مسلمان ہو، وہ بھی مسلمان کہلاتے ہیں۔ تم بھی کلمہ گو ہو، وہ بھی کلمہ گو ہیں۔ تم بھی اتباع قرآن کریم کا دعویٰ کرتے ہو، وہ بھی اتباع قرآن ہی کے مدعی ہیں۔ غرض دعووں میں تم اور وہ دونوں برابرہو۔ مگر اللہ تعالیٰ صر ف دعووں سے خوش نہیں ہوتا جب تک کوئی حقیقت ساتھ نہ ہو اور دعویٰ کے ثبوت میں کچھ عملی ثبوت اور تبدیلی ٔ حالت کی دلیل نہ ہو‘‘۔ (ملفوظات جلد پنجم صفحہ 604 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)

پس خیر امت بننے کے لئے، حقیقی تعلیم پیش کرنے کے لئے ہمیں عملی ثبوت پیش کرنے ہوں گے۔ اپنی حالتوں کو بدلنا ہو گا۔ اپنی عبادتوں کے معیار قائم کرنا ہوں گے۔ اپنے اعلیٰ اخلاق کے معیار بلند کرنے ہوں گے۔ آپس میں محبت اور پیار اور بھائی چارے کی فضا پیدا کرنی ہو گی اور پھر اس کو معاشرے میں پھیلانا ہو گا۔ اللہ تعالیٰ اس کی توفیق عطا فرمائے۔

اس حوالے سے کہ مسجد میں افتتاح بھی ہوتے ہیں یہ تو خیر پچاس سالہ تقریب ہے۔ ایک بات مَیں اَور کہنا چاہتا ہوں کہ بعض مساجد کیونکہ چھوٹی ہیں تو مسجدوں کے افتتاح پراب عموماًیہ روایت بن گئی ہے کہ جو ریسپشن (reception) ہوتی ہے اس میں مسجد کے اندر ہی میٹ (Mat) بچھا کر دعوت اور کھانے وغیرہ کا انتظام کر لیا جاتا ہے۔ آئندہ سے اس کی اجازت نہیں ہے۔ اگر کہیں مسجد کی ریسپشن وغیرہ ہونی ہے توصحن میں مارکی لگا کر کریں۔ مسجد کا جو اندرونی ہال ہے اس میں کسی قسم کی کوئی کھانے وغیرہ کی دعوت آئندہ سے نہیں ہو گی۔ یہ آپ بھی نوٹ کر لیں اور دنیا میں رہنے والی باقی جماعتیں بھی نوٹ کر لیں۔

(الفضل انٹرنیشنل جلد 1شمارہ 2مورخہ8جنوری تا 14جنوری صفحہ5تا8)


  • خطبہ کا مکمل متن
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 18؍ دسمبر 2009ء شہ سرخیاں

    اس مسجد کی تعمیر کو پچاس سال ہو گئے ہیں۔ مساجد کی اہمیت اور انکی اہمیت انہیں آباد کرنے کیلئے آنے والے لوگوں سے ہے جو اللہ کا تقویٰ رکھتے ہوں اور پانچ وقت ان کی رونق دوبالا کرتے ہوں۔ سوئٹزرلینڈ میں مساجد کے میناروں کے نہ بنانے کے متعلق ریفرنڈم کا ذکر۔ جماعت احمدیہ کا اس معاملے میں آواز اٹھانا جبکہ دوسرے مسلمان سوئے ہوئے ہیں۔ لفظ مینار کی حقیقت۔ اس اعتراض کا جواب کہ مساجد دہشتگردی کا اڈہ ہیں۔ لفظ مسجد کی وضاحت۔ مقامی احمدیوں کا فرض کہ وہ اس مسجد کو پانچ وقت باقاعدہ کھولیں۔ پریس کے دوران حضور انور کا اس سوال کا جواب دینا کہ ہم مساجد کیوں بنا رہے ہیں؟ اپنے کسی فعل اور حرکت سے احمدیت اور اسلام کو بدنام کرنے کی کوشش نہ کریں۔ مسجد کے اندرونی ہال میں کھانے سے ممانعت۔ 

    فرمودہ مورخہ 18؍دسمبر 2009ء بمطابق18؍فتح 1388 ہجری شمسی بمقام مسجدنور۔ فرینکفرٹ (جرمنی)

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور