گناہ سے بچو
خطبہ جمعہ 5؍ فروری 2010ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
تشہد و تعوذ اور سورة فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس آیت کی تلاوت فرمائی:
وَ ذَرُوۡا ظَاہِرَ الۡاِثۡمِ وَ بَاطِنَہٗ ؕ اِنَّ الَّذِیۡنَ یَکۡسِبُوۡنَ الۡاِثۡمَ سَیُجۡزَوۡنَ بِمَا کَانُوۡا یَقۡتَرِفُوۡنَ (الانعام:121)
اور تم گناہ کے ظاہر اور اس کے باطن (دونوں) کو ترک کر دو۔ یقیناً وہ لوگ جو گناہ کماتے ہیں وہ ضرور اس کی جزا دئے جائیں گے جو (بُرے کام) وہ کرتے تھے۔
اس آیت میں اِثْم کا لفظ دو مرتبہ استعمال ہوا ہے۔اِثْم کے لغوی معنی ہیں گناہ یا جرم یا کسی بھی قسم کی غلطی یا حدود کو توڑنا یا ایسا عمل جو نافرمانی کرواتے ہوئے سزا کا مستحق بنائے۔ یا ایسا عمل یا سوچ جو کسی کو نیکیاں بجالانے سے روکے رکھے۔ یا کوئی بھی غیرقانونی حرکت ۔
ذَنْب ایک لفظ ہے جس کا معنی بھی گناہ کاہے لیکن اہل لغت کے نزدیک ذَنْب اور اِثْم میں یہ فرق ہے کہ بعض یہ کہتے ہیں کہ ذَنْب ارادة ً بھی اور غیرارادی طور پر دونوں طرح ہوسکتا ہے۔ لیکن اِثْم جو ہے وہ عموماً ارادةً ہوتا ہے۔
بہرحال اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اِثْم کے حوالے سے دو باتوں کی طرف توجہ دلائی ہے۔ ایک حکم یہ ہے کہ تم گناہ کی ظاہری صورت سے بھی بچو اور اس کے باطن سے بھی بچو۔ ہر کام کرنے سے پہلے غور کرو ۔بعض چیزیں اور بعض عمل ایسے ہوتے ہیں جو واضح طور پر نظر آرہے ہوتے ہیں کہ غلط ہیں اور یہ شیطانی کام ہیں۔ لیکن دوسری قسم کے وہ عمل یا باتیں بھی ہیں جو بظاہر تو اچھے نظر آرہے ہوتے ہیں لیکن حقیقت میں وہ بدنتائج پر منتج ہوتے ہیں۔ ان کی اصل حقیقت چھپی ہوتی ہے۔ شیطان کہتا ہے کہ یہ کام کرلو کوئی ایسا بڑا گناہ نہیں لیکن کرنے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ اس کام سے یہ ایسا گند ہے جس میں پھنس گیا ہوں اس سے نکلنا مشکل ہے۔ اور پھر ایسا چکر چلتا ہے کہ ایک کے بعد دوسرا گناہ سرزد ہوتا چلا جاتا ہے۔ خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ تقویٰ پر چلنے والے کا کام ہے کہ ظاہر برائیاں جو ہیں ان پر بھی نظر رکھے اور باطن اور حقیقی برائیاں جو ہیں جن کے بدنتائج نکل سکتے ہیں ان پر بھی نظر رکھے۔ ہر کام کرنے سے پہلے خداتعالیٰ سے مدد چاہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے شر سے بچائے ،جو بھی اس کام میں شر ہے اس سے بچائے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ صرف ظاہری حسن دیکھ کر کسی کام کے کرنے پر تیار نہ ہو جاوٴ، اس پر آمادہ نہ ہو جاوٴ، کسی چیز کو دیکھ کر اس کے حسن کو دیکھ کر اس پہ مرنے نہ لگو۔ بلکہ جہاں شبہات کا امکان ہے وہاں اچھی طرح چھان پھٹک کرلو اور ہر کام کرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ سے راہنمائی اور مدد چاہو۔ اس سے کام میں ایک تو برکت پڑتی ہے اور برائیوں میں ڈوبنے سے یا برائیوں کے بداثرات سے انسان بچتا ہے اور اس طرح اللہ تعالیٰ اس کو ہر شر سے محفوظ رکھتا ہے۔
زندگی کے ہر کام میں تقویٰ
دوسری بات یہ واضح فرمادی کہ اگر زندگی میں ہر کام میں تقویٰ کو سامنے نہیں رکھو گے، پھونک پھونک کر قدم نہیں اٹھاوٴ گے، حلال، حرام کے فرق کو نہیں سمجھو گے تو پھر گناہ کا ارتکاب کرو گے۔ جو بھی گناہ کرو گے اس کی سزا ملے گی۔ یہ بہانے کام نہیں آئیں گے کہ ہمیں پتہ نہیں چلا۔ اللہ تعالیٰ نے اس سے پہلی آیت میں ایک اصولی بات یہ بیان فرمادی کہ بہت سے لوگ اپنی خواہشوں کے مطابق لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں۔ اس لئے تمہیں ہوشیار ہونا چاہئے حلال حرام کے فرق کو پہچانو۔ جس کام سے خداتعالیٰ نے روکا ہے اس سے رک جاوٴ۔اِثْم کا لفظ استعمال فرما کر واضح فرمادیا کہ اس ہدایت کے باوجوداگر تم باز نہیں آتے اور غلط راستے پر چلانے والوں کی باتوں میں آتے ہو تو یہ ایسا گناہ ہے جو ظاہر ہے پھر تم جان بوجھ کر کررہے ہو۔ اور جو گناہ جان بوجھ کر کئے جائیں وہ سزا کا مورد بنا دیتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے اِثْم ،گناہ کے حوالے سے قرآن کریم میں متعدد احکامات دےئے ہیں جن میں سے بعض اور بھی مَیں یہاں بیان کروں گا۔
اللہ تعالیٰ نے سورة الاعراف میں اس بات کی یوں وضاحت فرمائی ہے۔ فرمایا کہ قُلۡ اِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّیَ الۡفَوَاحِشَ مَا ظَہَرَ مِنۡہَا وَ مَا بَطَنَ وَ الۡاِثۡمَ وَ الۡبَغۡیَ بِغَیۡرِ الۡحَقِّ وَ اَنۡ تُشۡرِکُوۡا بِاللّٰہِ مَا لَمۡ یُنَزِّلۡ بِہٖ سُلۡطٰنًا وَّ اَنۡ تَقُوۡلُوۡا عَلَی اللّٰہِ مَا لَا تَعۡلَمُوۡنَ (الاعراف:34) تو کہہ دے کہ میرے ربّ نے محض بے حیائی کی باتوں کو حرام قرار دیا ہے وہ بھی جو اس میں سے ظاہر ہو اور وہ بھی جو پوشیدہ ہو۔ اسی طرح گناہ اور ناحق بغاوت کو بھی اور اس بات کو بھی کہ تم اس کو اللہ کا شریک ٹھہراوٴ جس کے حق میں اس نے کوئی حجت نہیں اتاری اور یہ کہ تم اللہ کی طرف ایسی باتیں منسوب کرو جن کا تمہیں کوئی علم نہیں ہے۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی اس بات کو مزید واضح فرمایا کہ تمام قسم کے غلط اور شیطانی کام کی اسلام سختی سے مناہی فرماتا ہے۔ ایک مومن کے لئے ضروری ہے کہ ان باتوں کی تلاش میں رہے کہ کون سے کام تقویٰ پر چلانے والے ہیں اور کون سے کام تقویٰ سے دور لے جانے والے ہیں اور خداتعالیٰ سے دور لے جانے والے ہیں۔ بیشک بعض غلط کام انسان سے پوشیدہ بھی ہوتے ہیں اور شیطان اس تلاش میں ہے کہ کب مَیں ابن آدم کو آدم کی طرح ورغلاوٴں اور ان گناہوں کی طرف راغب کروں۔ اور ایسے خوبصورت طریق سے ان غلط کاموں اور گناہوں کا حُسن اس کے سامنے پیش کروں کہ وہ غلطی نہیں بلکہ اسے اچھا سمجھتے ہوئے اسے کرنے لگے اور پھر ان برائیوں میں ڈوب کر ان کو کرتا چلا جائے۔ پس اللہ تعالیٰ نے ہمیں ہوشیار کرد یا کہ ان سے بچو یہ حرام چیزیں ہیں۔ یہ تمہیں سزا کا مستوجب ٹھہرائیں گی۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّیَ الۡفَوَاحِشَ(الاعراف:34) کہ میرے ربّ نے بے حیائی کی باتوں کو حرام قرار دیا ہے۔ خواہ وہ ظاہری بے حیائیاں ہیں اور بداعمال ہیں یا چھپی ہوئی بے حیائیاں ہیں یا بُرے اعمال ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے یہ کہہ کر کہ بے حیائی کی باتیں حرام ہیں بات ختم نہیں کردی بلکہ جہاں بے حیائی کی باتوں کی نشاندہی فرمائی ہے کہ کون کون سی باتیں بے حیائی کی باتیں ہیں وہاں اس کا علاج بھی بتایا ہے کہ فواحش سے تم کس طرح بچ سکتے ہو ایک جگہ فرمایاکہ اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنۡہٰی عَنِ الۡفَحۡشَآءِ وَ الۡمُنۡکَرِ (العنکبوت:46) کہ یقیناً نماز فحشاء اور ناپسندیدہ باتوں سے روکتی ہے۔ اور کیونکہ بے حیائی اور فحشاء اس زمانہ میں تو خاص طور پرہر وقت انسان کو اپنے روزمرہ کے معاملات میں نظر آتے رہتے ہیں اور اپنی طرف راغب کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس لئے پانچ وقت کی نمازیں رکھ کر ان سے بچنے اور اللہ تعالیٰ کی پناہ میں رہنے کاراستہ دکھایااور اس کی تلقین فرمائی ۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’نماز کیا ہے؟ ایک قسم کی دعا ہے جو انسان کو تمام برائیوں اور فواحش سے محفوظ رکھ کر حسنات کا مستحق اور انعام الٰہیہ کا مورد بنا دیتی ہے۔ کہا گیا ہے کہ اللہ اسم اعظم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تمام صفات کو اس کے تابع رکھا ہے۔ اب ذرا غور کرو‘‘۔ فرمایا ’’اب ذرا غور کرو۔ نماز کی ابتدا اذان سے شروع ہوتی ہے۔ اذان اللہ اکبر سے شروع ہوتی ہے۔ یعنی اللہ کے نام سے شروع ہو کر لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ یعنی اللہ ہی پر ختم ہوتی ہے۔ یہ فخر اسلامی عبادت ہی کو ہے کہ اس میں اوّل و آخر اللہ تعالیٰ ہی مقصود ہے نہ کچھ اور‘‘۔ فرمایا کہ ’’مَیں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ اس قسم کی عبادت کسی قوم اور ملت میں نہیں ہے ۔ پس نماز جو دعا ہے اور جس میں اللہ کو جو خدائے تعالیٰ کا اسم اعظم ہے مقدم رکھا ہے۔ ایسا ہی انسان کا اسم اعظم استقامت ہے۔ اسم اعظم سے مراد یہ ہے کہ جس ذریعہ سے انسانیت کے کمالات حاصل ہوں‘‘۔ (ملفوظات جلد سوم صفحہ 37 مطبوعہ ربوہ)
پس اگر ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے اس فقرے پر غور کریں کہ انسان کا اسم اعظم استقامت ہے تو ایک کوشش کے ساتھ اُس نماز کی تلاش میں رہیں گے جو اللہ تعالیٰ کے قریب کرتی ہے اور جب انسان اللہ تعالیٰ کے قریب ہوتا ہے تو اسے وہ نماز ادا کرنے کی توفیق بھی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جو شیطان کے حملوں سے محفوظ
رکھتی ہے، جو فحشاء سے روکتی ہے، جو حسنات کا وارث بناتی ہے۔ ظاہری اور باطنی فواحش سے انسان محفوظ رہتا ہے۔
ایسی نمازوں کے حصول کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے ہماری مزید راہنمائی فرمائی ہے۔ فرمایا کہ:
نماز سے دنیا بھی سنور جاتی ہے اور دین بھی
’’نماز ایسی چیز ہے کہ اس سے دنیا بھی سنور جاتی ہے اور دین بھی۔… نماز تو وہ چیز ہے کہ انسان اس کے پڑھنے سے ہر ایک طرح کی بدعملی اور بے حیائی سے بچایا جاتا ہے مگر… اس طرح کی نماز پڑھنی انسان کے اپنے اختیار میں نہیں ہوتی۔ اور یہ طریق خدا کی مدد اور استعانت کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتا اور جب تک انسان دعاوٴں میں نہ لگا رہے اس طرح کا خشوع اور خضوع پیدا نہیں ہوسکتا۔ اس لئے چاہئے کہ تمہارا دن اور تمہاری رات غرض کوئی گھڑی دعاوٴں سے خالی نہ ہو‘‘۔ (ملفوظات جلد پنجم صفحہ 403 ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)
پس ہمیں اللہ تعالیٰ کا ذکر اور اس کی یاد سے اپنے دلوں کو بھرنے کی ضرورت ہے تاکہ آج دنیا میں فحشاء اور بے حیائیوں کے جو ہر طرف نظارے نظر آتے ہیں ان سے ہم بچے رہیں۔ کیونکہ اس کے بغیر شیطان ہمیں ایسے گناہوں کی طرف لے جاتا ہے جو اِثْم کہلاتے ہیں ،جن میں انسان ڈوبتا چلا جاتا ہے، جو ہمیں اپنے فرائض کے بجالانے سے روکے رکھتے ہیں، غلطیوں پر غلطیاں سرزد ہوتی چلی جاتی ہیں، اللہ تعالیٰ کے حکموں کی نافرمانی کرتے چلے جاتے ہیں۔ اس لئے فرمایا کہ بغاوت سے بھی بچو۔ یہ بھی حرام ہے۔ اگر احساس پیدا نہ کیا تو تمام حدود قیود جو ہیں ان کو تم توڑ دو گے۔ تمہیں احساس نہیں رہے گا کہ کون سے عمل احسن ہیں اور صالح ہیں اور کون سے غیرصالح۔ بعض نمازیں پڑھنے والے بھی ہیں جو اللہ تعالیٰ کی حدود کو توڑ رہے ہوتے ہیں۔ اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے فرمایا کہ نمازوں کا صحیح مقام حاصل کرنے کے لئے بھی خداتعالیٰ کی مدد اور استعانت کی ضرورت ہے اور اس کے لئے ہر وقت خداتعالیٰ کا خوف رکھنے کی ضرورت ہے۔ ہر قسم کے شرک سے اپنے آپ کو پاک رکھنے کی ضرورت ہے۔ پس جب یہ صورتحال پیدا ہوگی تبھی ایک مومن حقیقی مومن کہلائے گا اور بے حیائی کی باتوں سے اپنے آپ کو محفوظ رکھ سکے گا۔
پھر سورة بقرہ میں اللہ تعالیٰ اس کے حوالہ سے بعض اور برائیوں کا بھی ذکر فرماتا ہے۔ فرمایا کہ یَسۡـَٔلُوۡنَکَ عَنِ الۡخَمۡرِ وَ الۡمَیۡسِرِؕ قُلۡ فِیۡہِمَاۤ اِثۡمٌ کَبِیۡرٌ وَّ مَنَافِعُ لِلنَّاسِ ۫ وَ اِثۡمُہُمَاۤ اَکۡبَرُ مِنۡ نَّفۡعِہِمَا (البقرة:220) کہ وہ تجھ سے شراب اور جوئے کے متعلق سوال کرتے ہیں توُکہہ دے کہ ان دونوں میں بڑا گناہ ہے اور لوگوں کے لئے فوائد بھی ۔ اور دونوں کا گناہ (کا پہلو ) جو ہے ان کے فائدے سے بڑھ کر ہے۔
شراب اور جوئے کے بارہ میں پہلے فرمایا کہ ان میں بڑا گناہ ہے ۔اور پھر فرمایا کہ ان میں خداتعالیٰ نے فوائد بھی رکھے ہیں لیکن فرمایا کہ اس کا گناہ جو ہے اس کے فائدہ سے بڑھ کر ہے۔ اس آیت کے آخر میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تمہارے لئے نشانات کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ تم سوچ اور فکر سے کام لو۔
شراب اور جوئے کے تباہ کن نقصانات
پس واضح کیا کہ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز جو بنائی ہے بیشک اس کے فوائد بھی ہوتے ہیں اور نقصان بھی۔ اس لئے یہ اصولی بات یاد رکھو کہ جس چیز کے نقصان اس کے فائدے سے زیادہ ہوں اس کے استعمال سے بچو اور یہ دونوں چیزیں جوٴا اور شراب تو ایسے ہیں جو اِثْم کَبِیْر ہیں۔ ان میں بڑے بڑے گناہ ہیں۔باوجود فائدہ کے یہ گناہ میں بڑھانے والے ہیں اور جیسا کہ مَیں نے اِثْم کے لغوی معنوں میں بتایا تھا اور قرآن کریم میں بھی ایک جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَ مَنۡ یَّفۡعَلۡ ذٰلِکَ یَلۡقَ اَثَامًا (الفرقان:69) یعنی اپنے گناہ کی سزا بھگتے گا۔ پس باوجود اس کے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جوئے اور شراب میں فائدہ بھی ہے ،یہ کھول کر بیان کردیا کہ تم غور کرو لیکن غور اس بات پر نہیں کہ مَیں تھوڑا فائدہ اٹھاوٴں یا زیادہ۔ یہ دیکھوں کہ اس میں فائدہ ہے کہ نہیں ہے۔ غور اس بات پر کرنا ہے کہ اگرمَیں نے اس کو استعمال کیا یا یہ کام کیا تو گناہگار بنوں گا اور سزا کا سزا وار ٹھہروں گا ۔کیونکہ اِثْمُھُمَا اَکْبَر کہہ کر بتا دیا کہ تمہیں اس کے جرم کی سزا ملے گی۔ اور یہ ایسا گناہ ہے جس میں ایک دفعہ انسان پڑتا ہے تو پھر پڑتا چلا جاتا ہے۔ جان بوجھ کر اس گڑھے میں گرتا چلا جاتا ہے۔ دونوں کاموں کے کرنے کا ایک نشہ، ایک چاٹ لگ جاتی ہے اور یوں بغاوت کا رویہ اختیار کرتے ہوئے سزا کا بھی مستحق بن جاتا ہے۔ تو دونوں چیزیں ہی ایسی ہیں جس میں انسان اپنے پاکیزہ مال کو بھی ضائع کررہا ہوتا ہے اور نہ صرف یہ کہ پاکیزہ مال ضائع کررہا ہوتا ہے بلکہ حرام مال جو ہے اس کو اپنے طیب مال میں شامل کرکے تمام مال کو ہی حرام بنا لیتا ہے۔ جوٴا کھیلنے والا مال ضائع کردیتا ہے۔ شراب پینے والا جو ہے وہ شراب میں مال ضائع کردیتا ہے۔ اپنی صحت برباد کرلیتا ہے۔ قرآن کریم میں دوسری جگہ واضح طور پر مناہی کرکے بتایا کہ شراب، جوئے اور قرعہ اندازی کے تیر جو ہیں یہ سب شیطانی کام ہیں جو نیکیوں سے روکتے ہیں، اعلیٰ اخلاق سے روکتے ہیں۔ عبادات سے روکتے ہیں۔
سورة مائدہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنَّمَا الۡخَمۡرُ وَ الۡمَیۡسِرُ وَ الۡاَنۡصَابُ وَ الۡاَزۡلَامُ رِجۡسٌ مِّنۡ عَمَلِ الشَّیۡطٰنِ فَاجۡتَنِبُوۡہُ لَعَلَّکُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ۔اِنَّمَا یُرِیۡدُ الشَّیۡطٰنُ اَنۡ یُّوۡقِعَ بَیۡنَکُمُ الۡعَدَاوَۃَ وَ الۡبَغۡضَآءَ فِی الۡخَمۡرِ وَ الۡمَیۡسِرِ وَ یَصُدَّکُمۡ عَنۡ ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ عَنِ الصَّلٰوۃِ ۚ فَہَلۡ اَنۡتُمۡ مُّنۡتَہُوۡنَ۔وَ اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیۡعُوا الرَّسُوۡلَ وَ احۡذَرُوۡا ۚ فَاِنۡ تَوَلَّیۡتُمۡ فَاعۡلَمُوۡۤا اَنَّمَا عَلٰی رَسُوۡلِنَا الۡبَلٰغُ الۡمُبِیۡنُ (المائدہ :93-91) کہ اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! یقیناً مدہوش کرنے والی چیز اور جوٴا اور بت (پرستی) اور تیروں سے قسمت آزمائی یہ سب ناپاک شیطانی عمل ہیں۔ پس ان سے پوری طرح بچو تاکہ تم کامیاب ہو جاوٴ۔ یقیناً شیطان چاہتا ہے کہ نشے اور جوئے کے دوران تمہارے درمیان بغض اور عناد پیدا کردے اور تمہیں ذکر الٰہی اور نماز سے باز رکھے تو کیا تم باز آجانے والے ہو؟ اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور (برائی سے) بچتے رہو اور اگر تم پیٹھ پھیر جاوٴ تو جان لو کہ ہمارے رسول پر صرف پیغام پہنچانا ہے۔
آجکل ان ملکوں میں شراب جُوا تو عام ہے بلکہ اب تو ہر جگہ ہے۔ جہاں پابندیاں ہیں وہاں بھی بعض ایسی جگہیں ہیں جہاں لوگ جا کر پیتے ہیں ۔ ان ملکوں میں تو ہر جگہ نہ صرف یہ کہ عام ہے بلکہ کسی نہ کسی طریق سے اس کی تحریص بھی کروائی جاتی ہے۔ ہر سروس سٹیشن پر یا ہر بڑے سٹور پر جوئے کی مشینیں نظر آتی ہیں۔ کسی نہ کسی رنگ میں اس میں جوٴا کھیلا جاتا ہے اور جہاں تک شرک کا سوال ہے اگر ظاہری بت نہ بھی ہوں تو نفس کے بہانوں کے بہت سے بت انسان نے تراش لئے ہیں۔ باوجود ایمان لانے کے بہت ساری چیزیں ایسی ہیں جن کی انسان پرواہ نہیں کرتا۔ اور پھر یہ جو بت ہیں،بعض ایسے جو مخفی شرک ہیں یہ عبادات میں روک بنتے ہیں، نمازوں میں روک بنتے ہیں۔ نمازیں جو فحشاء کو دور کرنے والی ہیں ان کی ادائیگی میں روک بن جاتے ہیں۔ پھر تیروں سے قسمت نکالنا ہے اور آج کل اس کی ایک صورت لاٹری کا نظام بھی ہے اس میں بھی لوگ بے پرواہ ہیں۔ زیادہ تر پرواہ نہیں کرتے اور لاٹری کے ٹکٹ خرید لیتے ہیں۔ یہ چیز بھی حرام ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ سب شیطانی کام ہیں۔ پس ایک حقیقی مومن کاکام ہے کہ عبادات میں استقامت دکھائے۔ نیک اعمال بجالانے کی کوشش میں استقامت دکھائے۔برائیوں اور بے حیائیوں سے بچنے کے لئے استقامت دکھائے اور یہ استقامت اس وقت آئے گی جب اللہ تعالیٰ کا ذکر اور نمازوں کی طرف توجہ ہوگی۔
پھر نیکی اور تقویٰ میں بڑھنے اور گناہوں سے بچنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ایک جگہ اس طرح حکم فرمایا ہے کہ فرمایا تَعَاوَنُوۡا عَلَی الۡبِرِّ وَ التَّقۡوٰی ۪ وَ لَا تَعَاوَنُوۡا عَلَی الۡاِثۡمِ وَ الۡعُدۡوَانِ ۪ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ شَدِیۡدُ الۡعِقَابِ (المائدہ :3) کہ نیکی اور تقویٰ میں ایک دوسرے سے تعاون کرو اور گناہ اور زیادتی (کے کاموں) میں تعاون نہ کرو۔ اور اللہ سے ڈرو۔ یقیناً اللہ تعالیٰ سزا دینے میں بہت سخت ہے۔
یہ اسلام کی خوبصورت تعلیم ہے کہ اس میں پہلے یہ بیان کرکے کہ دشمن کی زیادتی اور دشمنی بھی تمہیں کسی قسم کی زیادتی پر آمادہ نہ کرے، پھر فرمایا کہ نیکی اور تقویٰ میں ہمیشہ تمہارا تعاون رہے۔ اصل تقویٰ تو ایک مومن کے اندر ہے اور ہونا چاہئے۔ پس نیکی کے کاموں میں تقویٰ سے کام لیتے ہوئے تعاون ہمیشہ جاری رہنا چاہئے اور تقویٰ ہی ہے جو پھرمزید نیکیوں کے بیج بوتا چلا جاتا ہے۔ اگر کوئی چیز ایک مومن کو بار بار دوہرانے کی ضرورت ہے اور دوہرانی چاہئے تو وہ نیکیوں کی طرف توجہ اور نیکیوں کا فروغ ہے۔ اور اگر کسی چیز سے بچنا ہے تو وہ گناہ اور زیادتی ہے۔ ایک مومن کی شان نہیں کہ اِثْم اس سے سرزد ہو۔ ایسا گناہ سرزد ہو جو جان بوجھ کر کیا جائے۔ جو زیادتی کرنے والوں سے زیادتی کرواتا چلا جائے۔ زیادتی کرنے والوں کو یہ احساس نہیں ہوتا کہ مَیں کیا کررہا ہوں۔ وہ ظلموں کی انتہا کر دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم اِثْم اور عُدْوَان یا بار بار کئے جانے والے گناہ اور زیادتی سے نہیں رکو گے تو یاد رکھو اللہ تعالیٰ سزا دینے میں بڑا سخت ہے۔ ایسی خوبصورت تعلیم ہوتے ہوئے پھر یہ الزام اسلام پر لگایا جاتا ہے کہ ظلم و زیادتی سے اسلام پھیلا ہے اور اسلام زیادتی کرتا ہے اور ظلم کرتا ہے اور آئے دن کہیں نہ کہیں ان ملکوں میں اسلام کے خلاف کچھ نہ کچھ شوشے چھوڑے جاتے ہیں۔ لیکن آج کل اگر ہم دیکھیں تو مغرب میں کیا ہورہا ہے۔ عراق وغیرہ پر یا بعض اور ملکوں میں جو ظلم کئے جارہے ہیں، عراق کے ظلموں کا حال تو ہم نے سن لیا جو پبلک انکوائری ہورہی ہے اس میں بہت ساروں نے تسلیم کیا کہ یہ ظلم تھا اور ہے لیکن ظلم کے باوجود بعض ایسے بھی ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ بالکل ٹھیک ہوا ہے اور ہونا چاہئے تھا۔ لیکن اسلام کہتا ہے کہ نہیں، تقویٰ کا یہ کام نہیں۔ جہاں تمہاری غلطی ہے اس غلطی کو مانو اور جہاں صلح صفائی کی ضرورت ہے یا نیک کاموں میں بڑھنے کی ضرورت ہے وہاں تقویٰ سے کام لیتے ہوئے نیکیوں کو پھیلاوٴ۔ زیادتیوں سے اپنے آپ کو روکو اور اگر یہ نہیں ہوگا تو پھر یہ چیز اللہ تعالیٰ کی نظر میں ایک مومن کو سزا کا مستحق بناتی ہے۔جب غیروں کو اس قدر تاکید ہے تو اپنوں سے حسن سلوک کس قدر ہونا چاہئے۔
اس بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
’’یہ دستور ہونا چاہئے کہ کمزور بھائیوں کی مدد کی جاوے اور اُن کو طاقت دی جاوے۔ یہ کس قدر نامناسب بات ہے کہ دو بھائی ہیں ایک تیرنا جانتا ہے اور دوسرا نہیں تو کیا پہلے کا یہ فرض ہونا چاہئے کہ وہ دوسرے کو ڈوبنے سے بچاوے یا اس کو ڈوبنے دے۔ اس کا فرض ہے کہ اس کو غرق ہونے سے بچائے۔ اسی لئے قرآن شریف میں آیا ہےتَعَاوَنُوۡا عَلَی الۡبِرِّ وَ التَّقۡوٰی(المائدہ:3) کمزور بھائیوں کا بار اٹھاوٴ، عملی، ایمانی اور مالی کمزوریوں میں بھی شریک ہو جاوٴ۔ بدنی کمزوریوں کا بھی علاج کرو۔ کوئی جماعت جماعت نہیں ہوسکتی جب تک کمزوروں کو طاقت والے سہارا نہیں دیتے اور اس کی یہی صورت ہے کہ اُن کی پردہ پوشی کی جاوے۔ صحابہ کو یہی تعلیم ہوئی کہ نئے مسلموں کی کمزوریاں دیکھ کر نہ چڑو ،کیونکہ تم بھی ایسے ہی کمزور تھے۔ اسی طرح یہ ضرور ی ہے کہ بڑا چھوٹے کی خدمت کرے اور محبت ملائمت کے ساتھ برتاوٴ کرے‘‘۔
فرمایا: ’’دیکھو وہ جماعت جماعت نہیں ہوسکتی جو ایک دوسرے کو کھائے اور جب چار مل کر بیٹھیں تو ایک اپنے غریب بھائی کا گلہ کریں اور نکتہ چینیاں کرتے رہیں اور کمزوروں اور غریبوں کی حقارت کریں اور ان کو حقارت اور نفرت کی نگاہ سے دیکھیں۔ ایسا ہرگز نہیں چاہئے بلکہ اجماع میں چاہئے کہ قوت آجاوے اور وحدت پیدا ہو جاوے جس سے محبت آتی ہے اور برکات پیدا ہوتے ہیں… کیوں نہیں کیا جاتا ہے کہ اخلاقی قوتوں کو وسیع کیا جاوے اور یہ تب ہوتا ہے کہ جب ہمدردی، محبت اور عفو اور کرم کو عام کیا جاوے اور تمام عادتوں پر رحم اور ہمدردی اورپردہ پوشی کو مقدم کرلیا جاوے۔ ذرا ذرا سی بات پر ایسی سخت گرفتیں نہیں ہونی چاہئیں جو دل شکنی اور رنج کا موجب ہوتی ہیں…۔ جماعت تب بنتی ہے کہ بعض بعض کی ہمدردی کرے۔ پردہ پوشی کی جاوے۔ جب یہ حالت پیدا ہو تب ایک وجود ہو کر ایک دوسرے کے جوارح ہو جاتے ہیں اور اپنے تئیں حقیقی بھائی سے بڑھ کر سمجھتے ہیں… خداتعالیٰ نے صحابہ کو بھی یہی طریق و نعمت اخوت یاددلائی ہے۔ اگر وہ سونے کے پہاڑ بھی خرچ کرتے تو وہ اخوت ان کو نہ ملتی جو رسول اللہ ﷺکے ذریعہ ان کو ملی۔ اسی طرح پر خدا تعالیٰ نے یہ سلسلہ قائم کیا ہے اور اسی قسم کی اخوت وہ یہاں قائم کرے گا‘‘۔ (ملفوظات جلد دوم صفحہ 263-265 مطبوعہ ربوہ)
پس یہ وہ اعلیٰ اخلاق ہیں جو نیکی اور تقویٰ میں بڑھانے والے ہیں اور گناہ سے بچاتے ہیں اور زیادتی سے روکتے ہیں۔ عبادتوں سے جو اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہوتا ہے تویہ اعلیٰ اخلاق جو ہیں ان سے پھر حقوق العباد کی طرف توجہ بھی پیدا ہوتی ہے۔
حسن ظن
پھر ایک بہت بڑی برائی کی طرف خداتعالیٰ نے ہمیں توجہ دلاتے ہوئے یہ حکم فرمایا کہ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اجۡتَنِبُوۡا کَثِیۡرًا مِّنَ الظَّنِّ ۫ اِنَّ بَعۡضَ الظَّنِّ اِثۡمٌ وَّ لَا تَجَسَّسُوۡا وَ لَا یَغۡتَبۡ بَّعۡضُکُمۡ بَعۡضًا ؕ اَیُحِبُّ اَحَدُکُمۡ اَنۡ یَّاۡکُلَ لَحۡمَ اَخِیۡہِ مَیۡتًا فَکَرِہۡتُمُوۡہُ ؕ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ تَوَّابٌ رَّحِیۡمٌ (الحجرات:13) کہ اے لوگو جو ایمان لائے ہو! بکثرت ظن سے اجتناب کیا کرو۔ یقیناً بعض ظن گناہ ہوتے ہیں۔ اور تجسس نہ کیا کرو۔ اور تم میں سے کوئی کسی دوسرے کی غیبت نہ کرے ۔کیا تم میں سے کوئی یہ پسند کرتا ہے کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے ؟پس تم اس سے سخت کراہت کرتے ہو ۔اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو ۔یقیناً اللہ بہت توبہ قبول کرنے والا (اور) بار بار رحم کرنے والا ہے۔
اللہ تعالیٰ مومنوں میں محبت، پیار اور بھائی چارہ پیدا کرنا چاہتا ہے اور یہ حسن ظن سے پیدا ہوتا ہے ۔پس فرمایا کہ بدظنی سے بچو کیونکہ بدظنی گناہ کی طرف لے جاتی ہے، جو نہ صرف انسان کی اپنی ذات کے لئے نقصان دہ ہے بلکہ یہ ایک ایسا گناہ ہے جو معاشرے کے امن کو بھی برباد کردیتا ہے۔ دلوں میں دوریاں پیدا ہوتی ہیں۔ پس خداتعالیٰ نے اسے بہت بڑا گناہ قرار دیا ہے۔ ایک ایسا گناہ جو انسان بعض اوقات اپنی اَنا کی تسکین کے لئے کررہا ہوتا ہے۔ پھر فرمایا کہ تجسس نہ کرو، تجسس بھی بعض اوقات بدظنی کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے اور جب انسان کسی کے بارہ میں تجسس کررہا ہوتا ہے اس کے بعد بھی جب پوری معلومات نہیں ملتیں تو جو معلومات ملتی ہیں انہی کو بنیاد بنا کر پھر بدظنّیاں اور بڑھ جاتی ہیں اور بدظنی میں بعض اوقات انسان اتنا اندھا ہو جاتا ہے کہ بعض لوگوں کی حالت دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ بڑے بڑے پڑھے لکھے بھی ہیں، خدمت کرنے والے بھی ہیں اور ایسی باتیں کر جاتے ہیں جو جاہل اجڈ عورتیں بھی نہیں کرتی ہوں گی۔ چھوٹے چھوٹے شکووں کو اتنا زیادہ اپنے اوپر سوار کر لیا جاتا ہے۔ بلکہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہماری زندگی میں اس سے بڑی بات ہی کوئی نہیں ہے۔ اور اس سے نہ صرف اپنے کاموں میں حرج کر رہے ہوتے ہیں ۔ایسی سوچوں کے ساتھ اپنی زندگی بھی اجیرن کررہے ہوتے ہیں بلکہ اِدھر اُدھر باتیں کرکے جس کے خلاف شکوہ ہوتا ہے اس کی زندگی بھی اجیرن کررہے ہوتے ہیں۔ اور بعض دفعہ ایسے معاملات میرے پاس بھی آجاتے ہیں اور جب تحقیق کرو تو کچھ بھی نہیں نکلتا۔ بڑی معمولی سی بات ہوتی ہے۔ پھر بعض معاملات ایسے ہوتے ہیں کہ ان کا شکایت کرنے والے کے ساتھ براہ راست معاملہ بھی نہیں ہوتا۔ ادھر سے بات سنی ادھر سے بات سنی، تجسس والی طبیعت ہے شوق پیدا ہوا کہ مزید معلومات لو اور ادھ پچدی جو معلومات ملتی ہیں ان کو پھر فوراً اپنے پاس سے حاشیہ آرائی کرکے اچھالا جاتا ہے۔ تو جب کسی کے بارہ میں باتیں کی جاتی ہیں اور انہیں اچھالا جاتا ہے تو اس شخص بیچارے کی زندگی اجیرن ہوئی ہوتی ہے کیونکہ اس ماحول میں اس کو دیکھنے والا ہر شخص ایسی نظر سے دیکھ رہا ہوتا ہے جیسے وہ بہت بڑا گناہگار انسان ہے۔ وہ چھپتا پھرتا ہے۔ بعض دفعہ ایسے حالات پیدا ہو جاتے ہیں۔ بہرحال یہ ایک ایسا گناہ ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے سختی سے منع فرمایا ہے۔ ہر احمدی کو اس سے بچنا چاہئے۔
پھر غیبت ایک گناہ ہے جس سے اصلاح کی بجائے معاشرے میں بدامنی کے سامان ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس گندے فعل سے کراہت دلاتے ہوئے فرمایا کہ تم تو آرام سے غیبت کرلیتے ہو۔یہ سمجھتے ہو کہ کوئی بات نہیں ،بات کرنی ہے کرلی۔ زبان کا مزا لینا ہے لے لیا۔ یا کسی کے خلاف زہر اگلنا ہے اگل دیا۔لیکن یاد رکھو یہ ایسا مکروہ فعل ہے ایسی مکروہ چیز ہے جیسے تم نے اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھالیا۔ اور کون ہے جو اپنے مردہ بھائی کے گوشت کھانے سے کراہت نہ کرے۔ غیبت یہی ہے کہ کسی کی برائی اس کے پیچھے بیان کی جائے ۔پس اگر اس شخص کی اصلاح چاہتے ہو جس کے بارہ میں تمہیں کوئی شکایت ہے تو علیحدگی میں اسے سمجھاوٴ تاکہ وہ اپنی اصلاح کرلے اور پھر بھی اگر نہ سمجھے تو پھر اصلاح کے لئے متعلقہ عہدیدار ہیں، نظام جماعت ہے، امیر جماعت ہے اور اگر کسی وجہ سے کوئی مصلحت آڑے آرہی ہے یا تسلی نہیں ہے تو مجھ تک پیغام پہنچایا جاسکتا ہے۔ بعض لوگ مجھے شکایت کرتے ہیں لیکن ان شکایتوں سے صاف لگ رہا ہوتا ہے کہ اصلاح کی بجائے اپنے دل کا غبار نکال رہے ہیں اور پھر اکثر یہی ہوتاہے کہ شکایت کرنے والے اپنا نام نہیں لکھتے صرف ایک احمدی یا ایک ہمدرد لکھ دیتے ہیں نیچے یا پھر ایسا نام اور پتہ لکھتے ہیں جس کا وجود ہی نہیں ہوتا جو بالکل غلط ہوتا ہے ۔ایسے لوگ سوائے میرے دل میں کسی کے خلاف گرہ پیدا کرنے کی کوشش کے اور کچھ نہیں کررہے ہوتے۔ اور اس میں بھی وہ کامیاب نہیں ہوتے۔ کیونکہ نام چھپانے سے ایک تو صاف پتہ چل رہا ہوتا ہے کہ کوئی ہمدرد نہیں ہے بلکہ صرف کسی دوسرے کو بدنام کرنا چاہتے ہیں۔ عموماً تو ایسے خطوں پر کوئی کارروائی نہیں ہوتی اور میرا کام تو ویسے بھی یہ ہے کہ انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے پہلے تحقیق کرواوٴں، پتہ کروں اور جس کا نام پتہ ہی نہیں اس کی تحقیق بھی نہیں ہوسکتی۔ لیکن اگر کسی کو سزا ہو بھی تو میرے دل میں اس کے خلاف نفرت کبھی نہیں پیدا ہوئی ،نہ کوئی گرہ پیدا ہوتی ہے بلکہ دکھ ہوتا ہے کہ ایک احمدی کو کسی بھی وجہ سے سزا ہوئی ہے ۔بہرحال ایک احمدی کو ہمیشہ یہ یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ کہ تقویٰ اختیار کرو۔ اِنَّ اللّٰہَ تَوَّابٌ رَّحِیۡمٌ کہ اللہ تعالیٰ توبہ قبول کرنے والا ہے اور بار بار رحم کرنے والا ہے۔ جن کو اس قسم کی بدظنیوں کی یا تجسس کی یا غیبت کی عادت ہے اپنے دلوں کو ٹٹولیں اور اللہ تعالیٰ کا خوف کریں۔ اللہ تعالیٰ سے گناہوں کی معافی چاہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ احساس ندامت لے کر میرے پاس آوٴ گے تو مَیں تمہاری توبہ قبول کروں گا اور تمہارے ساتھ رحم کا سلوک کروں گا۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہیں کہ:’’فساد اس سے شروع ہوتا ہے کہ انسان ظنونِ فاسدہ اور شکوک سے کام لینا شروع کرے۔ اگر نیک ظنّ کرے تو پھر کچھ دینے کی توفیق بھی مل جاتی ہے۔ جب پہلی ہی منزل پر خطاکی تو پھر منزلِ مقصود پر پہنچنا مشکل ہے۔ بدظنی بہت بُری چیز ہے۔ انسان کو بہت سی نیکیوں سے محروم کردیتی ہے اور پھر بڑھتے بڑھتے یہاں تک نوبت پہنچ جاتی ہے کہ انسان خدا پر بدظنّی شروع کر دیتا ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد اول صفحہ 375 جدید ایڈیشن)
پھر ایک جگہ آپؑ فرماتے ہیں: ’’بدظنّی صِدق کی جڑ کاٹنے والی چیز ہے۔ اس لئے تم اس سے بچو اور صدّیق کے کمالات حاصل کرنے کے لئے دعائیں کرو‘‘۔ (ملفوظات جلد اول صفحہ 247 مطبوعہ ربوہ)
پھر فرمایا: ’’بعض گناہ ایسے باریک ہوتے ہیں کہ انسان ان میں مبتلا ہوتا ہے اور سمجھتا ہی نہیں۔ جوان سے بوڑھا ہو جاتا ہے مگر اسے پتہ نہیں لگتا کہ گناہ کرتا ہے۔ مثلاً گلہ کرنے کی عادت ہوتی ہے( شکوے شکایتیں کرنے کی عادت ہوتی ہے) ایسے لوگ اس کو بالکل ایک معمولی اور چھوٹی سی بات سمجھتے ہیں۔ حالانکہ قرآن شریف نے اس کو بہت ہی بڑا قرار دیا ہے۔ چنانچہ فرمایا ہے اَیُحِبُّ اَحَدُکُمۡ اَنۡ یَّاۡکُلَ لَحۡمَ اَخِیۡہِ مَیۡتًا (الحجرات: 13) خداتعالیٰ اس سے ناراض ہوتا ہے کہ انسان ایسا کلمہ زبان پر لاوے جس سے اس کے بھائی کی تحقیر ہو اور ایسی کارروائی کرے جس سے اس کو حرج پہنچے۔ ایک بھائی کی نسبت ایسا بیان کرنا جس سے اس کا جاہل اور نادان ہونا ثابت ہو یا اس کی عادت کے متعلق خفیہ طور پر بے غیرتی یادشمنی پیدا ہو۔ یہ سب بُرے کام ہیں‘‘۔ (ملفوظات جلد چہارم صفحہ 653-654 مطبوعہ ربوہ)
اللہ تعالیٰ ہمیں ہر قسم کے گناہوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہر قسم کی نیکیاں بجالانے کی توفیق عطا فرمائے۔ اللہ تعالیٰ کے تمام احکام پر ہم عمل کرنے والے ہوں اور اس کی رضا کی جنتوں کو حاصل کرنے والے ہوں۔
آج بھی ایک افسوسناک خبر ہے۔ مکرم سمیع اللہ صاحب ابن مکرم ممتاز احمد صاحب شہداد پور ضلع سانگھڑ کو تین فروری کو شہداد پور میں شہید کر دیا گیا۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ ان کی وہاں الیکٹرک اور موٹر وائنڈنگ وغیرہ کی ایک دکان تھی ۔وہ شام کو بند کرکے واپس آرہے تھے اپنے گاوٴں کے قریب پہنچے تو دو موٹر سائیکل والے قریب آئے پہلے ان کو روکا پھر ایک شخص نے راستہ پوچھا اور دوسرے نے ان کے سر پر پستول رکھ کر گولی چلادی اور یہ وہیں موقع پر شہید ہوگئے۔ ان کی عمر 53 سال تھی ۔جماعت کے بڑے فعال رکن تھے۔ سیکرٹری اصلاح و ارشاد ،سیکرٹری دعوت الی اللہ، زعیم انصاراللہ اور نائب ناظم انصاراللہ ضلع کی حیثیت سے بھی خدمت کرتے رہے۔ فعال داعی الی اللہ بھی تھے۔ دکان پر بغیر کسی خوف کے، باوجود مخالفت کے ایم ٹی اے لگوایا ہوا تھا۔ تبلیغ کرتے رہتے تھے۔ جماعتی مذاکرے اور سوال و جواب کی مجلسیں بھی ان کے گھر پر ہوتی تھیں۔ ایمانی غیرت رکھنے والے بڑے بہادر اور نڈر انسان تھے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے۔ ان کی دو شادیاں تھیں۔ ایک اہلیہ اور تین بیٹیاں اور ایک بیٹا کینیڈا میں ہیں اور دوسری شادی سے ایک بیٹی اور دو بیٹے ہیں جو ان کے پاس ہی تھے۔ اللہ تعالیٰ شہید کو اپنی رضا کی جنتوں میں جگہ دے اور درجات بلند فرمائے اور پسماندگان کو بھی صبر اور حوصلہ اور ہمت عطا فرمائے۔ ان کا حافظ و ناصر ہو۔ نماز کے بعد انشاء اللہ ان کی نماز جنازہ غائب بھی ادا کی جائے گی۔
(الفضل انٹرنیشنل جلد17شمارہ9 مورخہ26فروری تا24مارچ صفحہ5تا8)
ذنب اور اثم کا فرق، زندگی کے ہر کام میں تقویٰ کو سامنے نہیں رکھیں گے تو پھر گناہ کا ارتکاب کریں گے ، اسلام تمام شیطانی کاموں کی سختی سے مناہی کرتا ہے، نماز تمام بے حیائیوں سے روکتی ہے، شراب اور جوئے کے تباہ کن نقصانات، لاٹری کا نظام بھی حرام ہے، کمزور بھائیوں کی پردہ پوشی کرو،تجسس سے بچو، اللہ تعالیٰ مومنوں میں محبت پیاراور بھائی چارہ پیدا کرنا چاہتا ہے، غیبت سے جماعت اور عہدیراروں کو بھی بچنا چاہیے ، بدظنی سے بچاؤ کی تلقین، مکرم سمیع اللہ صاحب شہدادپور ضلع سانگھڑ کی شہادت ۔
خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 5 فروری 2010ء بمطابق 5تبلیغ 1389 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح ،لند ن (برطانیہ)
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔