اللہ تعالیٰ کی صفت حسیب۔ بے حساب جزا
خطبہ جمعہ 12؍ مارچ 2010ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
گزشتہ خطبہ میں اللہ تعالیٰ کی صفتِ حَسِیْب کے حوالے سے ایک تو مومنوں کی حالت کا ذکر ہوا تھاکہ وہ ایمان کی مضبوطی کی وجہ سے ہر ابتلا میں، ہر تکلیف میں جو انہیں مخالفین کی طرف سے پہنچائی جاتی ہے، حَسْبُنَا اللّٰہ کا اعلان کرتے ہیں اور دنیا داروں کی طرف سے پہنچنے والی کوئی تکلیف، کوئی دباوٴ یا کسی بھی قسم کے ظلم کا طریق ان کے ایمان کو کمزور نہیں کرتا۔ اور دوسری بات یہ ہوئی تھی کہ انبیاء اور مومنین کے مخالفین، ان کے دشمنوں اور انہیں تکلیف پہنچانے والوں سے اللہ تعالیٰ حساب لینے کے لئے کافی ہے۔ سَرِيْعُ الْحِسَابِ۔ جس کا مطلب ہے کہ وہ فیصلہ کر لے کہ مخالفین اور زیادتیوں میں حد سے بڑھنے والوں سے کیا سلوک کرنا ہے؟ تو پھر وہ ہر مغرور اور متکبر کو اس دنیا میں یا آخرت میں پکڑتا ہے۔ اور اس کے ظلموں کا حساب لیتا ہے۔ عموماً ظالم انسان اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کی کسی گرفت سے بچتا ہے۔ تو سمجھتا ہے کہ میں جو کر رہا ہوں ٹھیک کر رہا ہوں۔ اور یہ بات اسے ظلم و تعدی میں بڑھا دیتی ہے۔ وہ بظاہر منہ سے خدا کا نام لے رہا ہوتا ہے۔ لیکن خدا تعالیٰ کے علم میں ہر چیز ہے۔ اسے پتہ ہے کہ اس کے دل میں کیا ہے؟ پس ایسے لوگوں کے بارے میں جب اللہ تعالیٰ حساب کا حکم جاری فرماتا ہے۔ تو بڑا خوفناک انجام ہوتا ہے۔ اس کی وضاحت ایک حدیث سے یوں ہوتی ہے جس میں بڑا سخت انذار فرمایا گیا ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ قیامت کے روز جس کا حساب لیا گیا۔ اسے عذاب دیا جائے گا۔ اس پر حضرت عائشہؓ کہتی ہیں کہ میں نے کہا کہ کیا اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا؟ کہ فَسَوْفَ يُحَاسَبُ حِسَابًا يَّسِيْرًا۔ (صحیح مسلم کتاب الجنۃ وصفۃ نعیمہا واھلہا باب اثبات الحساب۔ حدیث نمبر7119دارالفکر بیروت۔ لبنان 2004ء)
یعنی پھر اس سے آسان حساب لیا جائے گا۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ یہ وہ حساب نہیں ہے جس حساب کا ذکر قرآن کریم میں ہے۔ یہ تو صرف پیش ہونا ہے۔ جس سے قیامت کے روز کرید کرید کر حساب لیا گیا اسے عذاب دیا جائے گا۔
پس یہ بڑا خوفناک انذار ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر ایک پر رحم فرمائے۔ ایک مومن کا امتیاز تو تقویٰ پر چلنا ہے۔ اور تقویٰ پر چلنے والا اللہ تعالیٰ کے انعامات سے حصہ پانے والا ہوتا ہے۔ تقویٰ پر چلنے والے وہی ہیں جو اللہ تعالیٰ کا خوف دل میں رکھے ہوئے ہوتے ہیں۔ اپنے اعمال پر نظر رکھنے کی کوشش کرتے ہیں اور حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کی کوشش کرتے ہیں۔ اور جب یہ کوشش ہو رہی ہو تو ان کے لئے اللہ تعالیٰ کی صفتِ حسیب کس طرح ظاہر ہوتی ہے۔ اس بارہ میں اللہ تعالیٰ قرآنِ کریم میں ایک جگہ اپنے حسیب ہونے کا یوں ذکر فرماتا ہے۔ فرمایا کہ وَّ یَرۡزُقۡہُ مِنۡ حَیۡثُ لَا یَحۡتَسِبُ ؕ وَ مَنۡ یَّتَوَکَّلۡ عَلَی اللّٰہِ فَہُوَ حَسۡبُہٗ ؕ اِنَّ اللّٰہَ بَالِغُ اَمۡرِہٖ ؕ قَدۡ جَعَلَ اللّٰہُ لِکُلِّ شَیۡءٍ قَدۡرًا (الطلاق: 4) ’’یعنی وہ اسے وہاں سے رزق عطا کرتا ہے جہاں سے وہ گمان بھی نہیں کر سکتا۔ اور جو اللہ پر توکل کرے تو وہ اس کے لئے کافی ہے۔ یقیناً اللہ اپنے فیصلہ کو مکمل کر کے رہتا ہے۔ اللہ نے ہر چیز کا ایک منصوبہ بنا رکھا ہے۔“
اس آیت سے پہلے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَ مَنۡ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجۡعَلۡ لَّہٗ مَخۡرَجًا (الطلاق: 3) یعنی جو اللہ کا تقویٰ اختیار کرے گا اس کے لئے اللہ تعالیٰ کوئی نہ کوئی رستہ نکال دے گا۔
رزق کا وسیع تر مفہوم
پس متقی کو اللہ تعالیٰ رزق عطا فرماتا ہے اور ایسے راستے کھولتا ہے جو اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتے۔ ایک متقی رزق کے لئے صرف اور صرف خدا تعالیٰ پر توکل کرتا ہے۔ اور جب توکل حقیقی ہو تو پھر خدا تعالیٰ اپنے حسیب ہونے کا اور اپنے کافی ہونے کا نظارہ دکھاتا ہے۔ یہاں یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ رزق محدود لفظ نہیں جو اس مادی رزق تک ہی محدود ہوبلکہ اس کے بڑے وسیع معنی ہیں۔ چنانچہ اس کے معنی لغات میں ہر قسم کے رزق کے بھی کئے گئے ہیں۔ مادی رزق کے بھی جو زندگی کی بقاء کے لئے ضروری ہے خوراک ہے اور دوسری چیزیں روپیہ پیسہ ہے۔ اس کے معنی روحانی رزق کے بھی ہیں۔ روحانیت کے ملنے کے بھی ہیں۔ اور اس کے معنی علم کی دولت کے بھی ہیں بلکہ تمام انسانی قویٰ بھی اس میں شامل ہیں۔ ایک متقی انسان کو اور خدا تعالیٰ پر توکل کرنے والے کو صرف دنیاوی مادی رزق کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ وہ ہر قسم کے رزق کی اللہ تعالیٰ سے خواہش رکھتا ہے۔ رزق کے وسیع تر معنوں کے لحاظ سے یہ مضمون حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہم پر بہت اعلیٰ رنگ میں کھولا ہے اور جب آپ یہ مضمون بیان فرماتے ہیں جب اس کی مثالیں بیان فرماتے ہیں تو پھر یہ کیونکر ہو سکتا ہے کہ آنحضرتﷺ کے اس غلامِ صادق کی کوئی بات جس کو کسی اعلیٰ ترین مثال سے بیان کرنا مقصود ہو بغیر آقا کے ذکر کے ہو۔ پس جب آپ روحانی رزق کا بھی ذکر کرتے ہیں تو مثال آنحضرتﷺ کی ہی بیان فرماتے ہیں۔ فرمایا کہ ’’برکاتِ تقویٰ میں سے ایک یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ متقی کو ان مصائب سے مخلصی بخشتا ہے جو دینی امور کے حارج ہوں‘‘۔ یعنی ایسی مشکلات جن سے دینی امور میں حرج آتا ہو ان سے اللہ تعالیٰ نجات دلاتا ہے۔’’ایسا ہی اللہ تعالیٰ متقی کو خاص طور پر رزق دیتا ہے‘‘۔ فرمایا کہ ’’یہاں میں معارف کے رزق کا ذکر کروں گا۔ آنحضرت کو باوجود اُمّی ہونے کے تمام جہان کا مقابلہ کرنا تھا۔ جس میں اہلِ کتاب، فلاسفر، اعلیٰ درجہ کے علمی مذاق والے لوگ اور عالم فاضل شامل تھے لیکن آپ کو روحانی رزق اس قدر ملا کہ آپ سب پر غالب آئے اور ان سب کی غلطیاں نکالیں۔ یہ روحانی رزق تھا جس کی نظیر نہیں‘‘۔ (رپورٹ جلسہ سالانہ 1897ء صفحہ 35-34۔ تفسیر حضرت مسیح موعود جلد 4 صفحہ 401زیرآیت سورة الطلاق: 4)
قرآن کریم۔ روحانی مائدہ
قرآنِ کریم کی صورت میں جو روحانی مائدہ آنحضرتﷺ پر اترا اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ یہ قرآنِ کریم کا چیلنج ہے کہ اس جیسی ایک سورۃ بھی کوئی نہیں بنا سکتا۔ چاہے وہ چھوٹی سورۃ ہی کیوں نہ ہو۔ یہ ایک ایسا رزق ہے اور ایک ایسا علمی اور روحانی خزانہ ہے جو آنحضرتﷺ کو دیا گیا۔ جس نے نہ صرف آپﷺ کی زندگی میں دنیا کے منہ بند کرنے کے نشان دکھائے بلکہ تا قیامت یہ زندہ جاوید کتاب ہے جس میں ایک پڑھنے والے پر، غور کرنے والے پر، تفکر کرنے والے پر ہر نئی ایجاد اور ہر نئے علم کے راستے کھلتے چلے جاتے ہیں۔ بشرطیکہ غور کرنے کی نظر ہو۔ جو علم آنحضرتﷺ کو دیا گیااس میں سے بعض باتیں تو ایسی تھیں جو قرآنِ کریم میں بیان ہوئی ہیں۔ اس وقت تو اُن تک صحابہ کی سوچ بھی نہیں پہنچ سکتی تھی۔ اس لئے بعض باتوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تمہیں ابھی یہ سمجھ نہیں کہ کون کون سے علمی خزانے ہیں جو حضرت محمد رسول اللہﷺ کو دئیے گئے ہیں۔ مثلاً ایٹم کے بارے میں اس زمانے کے عام مومن توکیا بڑے بڑے کبار صحابہ جو تھے، اُن کا تصور بھی نہیں تھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ایٹم کی خوفناکیوں کے بارے میں آپﷺ کو علم عطا فرمایا جس کا نام قرآنِ کریم نے حُطَمَۃ رکھا ہے۔ اور فرمایا وَ مَاۤ اَدۡرٰٮکَ مَا الۡحُطَمَۃُ (الھمزة: 6) اور تجھے کیا معلوم ہے کہ حُطَمَۃ کیا ہے۔ اب یہ صحابہ کو مخاطب کیا گیا ہے۔ پھر فرمایا کہ یہ ایسی چیز ہے جو دلوں تک پہنچتی ہے۔ یعنی پہلے دل متاثر ہوتے ہیں پھر باقی جسم پر اثر ہوتا ہے۔ جاپان میں ناگا ساکی میں بھی ایک میوزیم بنایا ہوا ہے۔ جہاں ایٹم بم پڑا تھا۔ جس میں ایٹم بم پڑنے کے وقت لوگوں کی جو حالت تھی اس کا نقشہ کھینچا گیا ہے۔ جو شخص جہاں بیٹھا ہے وہیں بیٹھا رہ گیا۔ دل بند ہو گیا اور اسی حالت میں رہا اور پھر اسی بیٹھی ہوئی حالت میں یا لیٹی ہوئی حالت میں یا کھڑے ہونے کی حالت میں جسم پر جوکھال وغیرہ ہے وہ پگھل گئی ہے اور لٹک رہی ہے۔ بہر حال یہ ایک مثال ہے اور ایسی کئی مثالیں مل جاتی ہیں۔ جو جو سائنسی ایجادیں ہو رہی ہیں ان کے بارہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ قرآنِ کریم کی برتری کو ثابت کرتی ہیں۔ آنحضرتﷺ کے مقام اور آپ کی علمی اور روحانی برتری کو یہ چیزیں ثابت کرتی ہیں۔ آنحضرتﷺ کے صحابہؓ جنہوں نے آپ سے روحانی فیض پایا اور اپنی استعدادوں کے مطابق علم و معرفت کے خزانے حاصل کئے۔ ان کی فکریں بھی دینی اور روحانی رزق کی تلاش میں ہی تھیں۔ اور بعض تو ایسے تھے کہ دنیاوی اور مادی رزق کو خدا کے سپرد کیا ہوا تھا اور اس کوشش میں ہو تے تھے کہ کب ہمیں علم و معرفت کے خزانے آنحضرتﷺ کی زبانِ مبارک سے سننے کو ملیں۔ اور ہم اپنے آپ کو اس رزق سے مالا مال کریں۔ جن میں ایک مثال حضرت ابوہریرہؓ کی ہے جو ہر وقت آنحضرتﷺ کے دَر پر بیٹھے رہتے تھے کوئی فکر نہیں ہوتی تھی۔ بھوک اور پیاس سے برا حال ہو جاتا تھا۔ لیکن جو علم کا رزق، جو روحانیت کا رزق انہوں نے حاصل کیا وہ آج دیکھیں کہ حضرت ابوہریرہؓ کی روایات ہم تک پہنچ کر اس رزق کی تقسیم آج بھی جاری ہے اور تاقیامت جاری رہے گی۔ تو یہ لوگ تھے جو اپنے رزق سے جو انہوں نے حاصل کیا فیض پانے والے تھے اور فیض پہنچانے والے تھے۔ بے شک صحابہؓ کی اکثریت کاروباروں اور تجارتوں میں بھی مصروف ہوتی تھی۔ لیکن تقویٰ پر چلتے ہوئے ان کی سب سے پہلی اور بڑی خواہش یہی ہوتی تھی کہ وہ روحانیت میں بڑھنے والے ہوں۔ اور آنحضرتﷺ کے ہر حکم پر لبیک کہنے والے ہوں۔ اور روحانی مائدوں سے فیض پانے والے ہوں جو آنحضرتﷺ پر تازہ بتازہ اترتا تھا۔ اور پھر ان میں سے ایسے تھے جو تھوڑا سا کام بھی کرتے تھے تو اللہ تعالیٰ اس میں ایسی برکت ڈالتا تھا کہ اس کا منافع بے شمار اور بے حساب انہیں دیتا تھا۔ ایک صحابی کہتے ہیں کہ آنحضرتﷺ کو ایک دفعہ انہوں نے رزق و برکت میں دعا کے لئے عرض کی۔ اس کے بعد کہتے ہیں کہ میرے کاروبار میں ایسی برکت پڑی ہے کہ میں مٹی کو بھی ہاتھ لگاتا تھا تو وہ سونا بن جاتی تھی۔ (الشفاء لقاضی عیاض جلد اول باب الرابع فیما اظھرہ علی یدیہ من المعجزات۔ فصل فی اجابۃ دعائہ صفحہ 200تا 203 مطبع دارالکتب العلمیہ بیروت 2002)
پس جب انہوں نے تقویٰ پر قدم مارا، دین کو دنیا پر مقدم کیا تو دنیا ان کی غلام بن گئی۔ کئی صحابہ ایسے تھے جو دنیاکے کاروبار بھی کرتے تھے لیکن دنیا کے کیڑے نہیں تھے۔ جب ان کی وفات ہوئی تو بعض اوقات انہوں نے کروڑوں کا سونا پیچھے چھوڑا۔ پس یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے روحانی رزق کے ساتھ مادی رزق کے بے حساب پانے کے نظارے بھی دیکھے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ: ’’جو خدا کا متقی اور اس کی نظر میں متقی بنتا ہے‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کی نظر میں۔’’اس کو خدا تعالیٰ ہر ایک قسم کی تنگی سے نکالتا اور ایسی طرز سے رزق دیتا ہے کہ اُسے گمان بھی نہیں ہوتا کہ کہاں سے اور کیونکر آتا ہے۔ خدا کا یہ وعدہ برحق ہے اور ہمارا ایمان ہے کہ خدا اپنے وعدوں کا پورا کرنے والا ہے اور بڑا رحیم کریم ہے۔ جو اللہ تعالیٰ کا بنتا ہے وہ اسے ہر ذلت سے نجات دیتا اور خود اس کا حافظ و ناصر بن جاتا ہے۔ مگر وہ جو ایک طرف دعویٰ اتقاء کرتے ہیں اور دوسری طرف شاکی ہوتے ہیں کہ ہمیں وہ برکات نہیں ملے ان دونو میں ہم کس کو سچا کہیں اور کس کو جھوٹا خداتعالیٰ پر ہم کبھی الزام نہیں لگا سکتے۔ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُخْلِفُ الْمِیْعَادَ خدا تعالیٰ اپنے وعدوں کے خلاف نہیں کرتا۔ ہم اس مدعی کو جھوٹا کہیں گے۔ اصل یہ ہے کہ ان کا تقویٰ یا ان کی اصلاح اس حد تک نہیں ہوتی کہ خدا تعالیٰ کی نظر میں قابلِ وقعت ہو یا وہ خدا کے متقی نہیں ہوتے۔ لوگوں کے متقی اور ریا کار انسان ہوتے ہیں۔ سو ان پر بجائے رحمت اور برکت کے لعنت کی مار ہوتی ہے جس سے سرگرداں اور مشکلاتِ دنیا میں مبتلا رہتے ہیں۔ خدا تعالیٰ متقی کو کبھی ضائع نہیں کرتا۔ وہ اپنے وعدوں کا پکا اور سچا اور پورا ہے‘‘۔ پھر فرمایا کہ ’’حضرت داوٴدؑ زبور میں فرماتے ہیں کہ مَیں بچہ تھا، جوان ہوا۔ جوانی سے اب بڑھاپا آیا مگر مَیں نے کبھی کسی متقی اور خدا ترس کو بھیک مانگتے نہ دیکھا اور نہ اس کی اولاد کو دَر بدر دھکے کھاتا اور ٹکڑے مانگتے دیکھا‘‘۔ فرمایا ’’یہ بالکل سچ اور راست ہے کہ خدا اپنے بندوں کو ضائع نہیں کرتا اور ان کو دوسروں کے آگے ہاتھ پِسارنے سے محفوظ رکھتا ہے بھلا اتنے جو انبیاء ہوئے ہیں، اولیاء گزرے ہیں۔ کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ وہ بھیک مانگا کرتے تھے۔ یا ان کی اولاد پر یہ مصیبت پڑی ہو کہ وہ دَر بدر خاک بسر ٹکڑے کے واسطے پھرتے ہوں ہرگز نہیں‘‘۔ فرمایا ’’میرا تو اعتقاد ہے کہ اگر ایک آدمی با خدا اور سچا متقی ہو تو اس کی سات پشت تک بھی خدا رحمت اور برکت کا ہاتھ رکھتا اور ان کی خود حفاظت فرماتا ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد 3صفحہ182) (الحکم جلد 7 نمبر 12مورخہ 31مارچ1903ء صفحہ 5کالم 1)
پس اللہ تعالیٰ کا بننا، تقوی اختیار کرنا بنیادی شرط ہے اور تقویٰ میں بڑھنے کی کوشش ہر ایک انسان جس کا ایمان لانے کا دعویٰ ہے اس کی اور ہر ایک مومن کی تقویٰ میں بڑھنے کی کوشش ہونی چاہئے۔ تقویٰ کے ساتھ دوسری بنیاد اللہ تعالیٰ پر توکل ہے۔ پس جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایامتقی یا متوکل بن کر ایک مومن نہ صرف اپنے رزق کے سامان پیدا کرتا ہے بلکہ اپنی نسلوں کے رزق کے سامان بھی پیدا کرتا ہے۔ یہاں یہ بات بھی واضح ہو کہ متقی کی اولاد اگر ظلم اور بغاوت پر قائم ہو گی تو پھر اللہ تعالیٰ کا دوسرا قانون چلتاہے۔ اور وہ برکت اور حفاظت کا ہاتھ اٹھا لیتا ہے۔ پس حقیقی متقی کی اولاد اس نیک تربیت کی وجہ سے، ان دعاوٴں کی وجہ سے جو وہ اپنی اولاد کے لئے کرتا ہے، خود بھی تقویٰ پر چلنے کی کوشش کرنے والی ہوتی ہے۔ اور اس طرح نیکی کی جاگ کے ساتھ اگلی نسل میں اللہ تعالیٰ کی محبت برکت اور حفاظت کی جاگ بھی لگتی چلی جاتی ہے۔ پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے یہ الفاظ کسی قانونِ قدرت کے خلاف نہیں اور نہ واقعات کے خلاف ہیں کہ نوحؑ کا بیٹا کیونکر غرق ہو گیا؟ نوحؑ کے بیٹے نے اس تقویٰ سے حصہ لینے کی کوشش ہی نہیں کی بلکہ بغاوت کی۔ اس لئے اپنے انجام کو پہنچا۔ لیکن ایک نیک اور متقی شخص کی اولاد اگر شرک کے علاوہ کسی بھی قسم کی کمزوری دکھاتی ہے۔ یا نا سمجھی کی وجہ سے مادی رزق میں یا کاروبار میں اُسے کسی قسم کا دھچکا لگتا ہے یا احتمال ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ ایسے حالات ہی پیدا نہیں کرتا جس کی وجہ سے اس کا اتنا برا حال ہو جائے کہ بھوک کے حالات پیدا ہو جائیں بلکہ ان کو جلد سنبھالا دے دیتا ہے اور اگر وہ تقویٰ پر قائم ہو ں تو وہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے نظارے خود بھی دیکھ لیتے ہیں۔ پھر بعض اوقات بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم نمازیں بھی پڑھتے ہیں۔ دوسری نیکیاں بھی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مگر ہمارے حالات بد سے بدتر ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ یہاں ایک بات ہمیشہ یاد رکھنی چاہئے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے شروع میں بیان کی کہ اللہ تعالیٰ کی نظر میں متقی ہو اور اس کے لئے بڑی کوشش کرنی پڑتی ہے۔ ایسے لوگوں کو فکر کرنے کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ استغفار پڑھنے کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ کا وعدہ تو کبھی جھوٹا نہیں ہو سکتا۔ اگر کہیں بھی کمی ہے تو ہمارے اندر کمی ہے۔ ہماری کوششوں میں ہی کمی ہے۔ تقویٰ باریک سے باریک نیکیوں کو بجا لانے کا، ان کا خیال رکھنے کا نام ہے۔ پس اگر کہیں ایسی صورت پیدا ہو رہی ہے جہاں باوجود تمام محنت اور کوشش کے حالات بھی بد سے بدتر ہو رہے ہوں، تو ہمیں اپنے جائزے لینے چاہئیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ کاروباری آدمی کے متعلق کاروبار کے سلسلے میں اگر معمولی جھوٹ بھی بولا جائے تو یہ چیز انسان کو تقویٰ سے دور لے جاتی ہے۔ اور یہ اللہ تعالیٰ پر توکل کے بھی خلاف ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کے انعامات سے فیض پانے کے لئے ہمیں باریک بینی سے اپنے جائزے لینے ہوں گے۔ کہ کہیں ہماری باتوں میں جھوٹ کی ملونی تو نہیں؟ کہیں نیت میں کھوٹ تو نہیں؟ جو بھی کام کیا ہے صاف اور کھرا اور قولِ سدید سے کام لیتے ہوئے کیا ہے؟ قولِ سدید صرف سچائی کا نام نہیں ہے۔ بلکہ ایسی سچائی ہے جو واضح طور پر دوسرے کو سمجھ میں آنے والی ہو۔ پھر عبادت کا حق ہے۔ متقی بننے کے لئے عبادت کا حق ادا کرنا بھی ضروری ہے۔ پس حقیقی متقی وہی ہے جو حقوق اللہ ادا کرنے والا بھی ہو اور حقوق العباد ادا کرنے والا بھی ہو۔ اور اس کے لئے جیسا کہ میں نے کہا حقیقی طور پر گہرائی میں جا کر اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے۔ بعض لوگ بلکہ فی زمانہ تو ایک بہت بڑی تعداد دھوکے سے دولت کما لیتی ہے، بڑے امیر بن جاتے ہیں اور ظاہر میں بڑی کشائش رکھنے والے ہوتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کی نظرمیں یہ دولت ان کے لئے آگ ہے۔ ایک تو اس دنیا میں یہ لوگ بیماریوں کی صورت میں، مقدموں کی صورت میں، پھر اور تکلیفوں کی صورت میں، بلاوٴں کی صورت میں ہر قسم کی آگ میں جَل رہے ہوتے ہیں۔ اور یہ دولت پھر ان کے لئے بے چینی کا باعث بنتی ہے۔ دوسرے آخرت کی آگ ہے۔ خدا تعالیٰ اس سے بھی ڈراتا ہے۔ پس یہ جو ان کی دولت ہے یہ کوئی قابلِ رشک چیز نہیں ہے جس کی طرف ہماری نظرہو، ایک مومن کی نظر ہو۔ بلکہ یہ خوف دلانے والی بات ہے۔ لیکن مومن کے لئے جب رزق کا ذکر خدا تعالیٰ فرماتا ہے تو بابرکت رزق کا ذکر فرماتا ہے۔ اصل مقصود ایک مومن کا روحانی رزق ہے۔ جو ہر چیز پر مقدم ہوتا ہے اور اس کے نتیجہ میں اس دنیا میں بھی اطمینانِ قلب نصیب ہوتا ہے اور مرنے کے بعد بھی جو دائمی ٹھکانا ہے اس میں بھی اللہ تعالیٰ اپنی رضا کا، اپنی جنتوں کا وعدہ فرماتا ہے۔ پس ایک دنیا دار کے معیار اور ایک مومن کے معیار بہت مختلف ہیں۔ جس کو خدا تعالیٰ کی رضا مطلوب ہو وہ دنیا کے پیچھے نہیں دوڑتا۔ بلکہ دنیاوی مادی رزق کو بھی خدا تعالیٰ کی رضا کا ذریعہ بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ مومن کو بغیر حساب کے رزق دینے اور کافر اور دنیا دار کے لئے اس دنیا کی آسائشوں میں ڈوبنے کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے۔
زُیِّنَ لِلَّذِیۡنَ کَفَرُوا الۡحَیٰوۃُ الدُّنۡیَا وَ یَسۡخَرُوۡنَ مِنَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ۘ وَ الَّذِیۡنَ اتَّقَوۡا فَوۡقَہُمۡ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ ؕ وَ اللّٰہُ یَرۡزُقُ مَنۡ یَّشَآءُ بِغَیۡرِ حِسَابٍ (البقرة: 213)
کہ جن لوگوں نے کفر کیا ان کے لئے دنیا کی زندگی خوبصورت کر کے دکھائی گئی ہے۔ اور یہ ان لوگوں سے تمسخر کرتے ہیں جو ایمان لائے۔ اور وہ لوگ جنہوں نے تقویٰ اختیار کیا وہ قیامت کے دن ان سے بالا ہوں گے۔ اور اللہ جسے چاہے بغیر حساب کے رزق عطا کرتا ہے۔
پس یہ آیت جہاں خاص طور پر کافروں کے دنیا کی دولت کو ہی سب کچھ سمجھنے کے بارے میں بتا رہی ہے۔ وہاں عموم کے رنگ میں ہر دنیا دار کی تصویر کھینچ رہی ہے کہ دنیا دار ایک مومن کو اپنی دولت کی وجہ سے حقیر سمجھتا ہے۔ طاقتور بظاہر خدا کے نام پر۔ لیکن دراصل دنیا کے نشے میں ڈوب کر کمزور مومنوں پر زیادتی کرتا ہے۔ لیکن انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ قیامت کا بھی ایک دن مقرر ہے۔ اور اس دن خوب کھل جائے گا کہ ظلم اور تعدی کرنے والے، اپنی حکومت پر زعم کرنے والے، اپنے گروہ کی طاقت کا اظہار کرنے والے کامیاب ہیں یا وہ مسکین جو خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ہر زیادتی برداشت کرنے والے ہیں۔ پس یہاں پھر اللہ تعالیٰ نے ’’ وَ الَّذِیۡنَ اتَّقَوۡا‘‘ جنہوں نے تقویٰ اختیار کیا کہہ کراس طرف توجہ دلائی ہے کہ صرف ایمان لانا کافی نہیں ہے بلکہ تقویٰ کا حصول اصل جڑ ہے۔ اس کو حاصل کرنا ضروری ہے۔ مومنوں کو اس طرف توجہ دینی چاہئے۔ اگر تقویٰ نہیں تو صرف ایمان لانا خدا تعالیٰ کا مقرب نہیں کر سکتا۔ آج جب ہم عمومی طور پر عالمِ اسلام پر نظر ڈالتے ہیں تو باوجود اللہ تعالیٰ کے اس وعدہ کے کہ جنگوں میں مومنوں کو اللہ تعالیٰ کافروں پر برتری اور فوقیت دیتا ہے۔ مسلمانوں کی حالتِ زار کاہی نمونہ ظاہر ہورہا ہے۔ یہ بات ظاہر کرتی ہے کہ تقویٰ کی کمی ہے ورنہ خدا تعالیٰ تو وعدہ فرماتا ہے کہ میں ایسے ایسے راستے مومنوں کے لئے کھولتا ہوں جس کا ان کو گمان بھی نہیں ہوتا۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مَیں بغیر حساب دیتا ہوں۔ اس بغیر حساب کے دئیے جانے کا نظارہ ہمیں قرونِ اولیٰ میں نظر آتا ہے جب خدا تعالیٰ نے مسلمانوں کی قربانیوں سے بہت زیادہ بڑھ کر انہیں عطا فرمایا اور جب تک ان میں تقویٰ کاکچھ حصہ بھی قائم رہا اسلامی حکومتوں کا رعب اور دبدبہ قائم رہا۔ آج بے شک مادی لحاظ سے بعض اسلامی ممالک کو خدا تعالیٰ نے تیل کی دولت سے مالا مال کیا ہوا ہے لیکن اس کے باوجود مغربی طاقتوں نے معاشی غلامی کا طوق ان کی گردنوں میں ڈالا ہوا ہے۔ اور اس وجہ سے غریب مسلمان ممالک کی معیشت کو سنبھالنے میں یہ دولت کام نہیں آ رہی یا سنبھالنے کی نیتیں نہیں یا خوف ہے۔ جو بھی صورتِ حال ہے بہر حال مسلمان مسلمان کے اس طرح کام نہیں آ رہا جس طرح آنا چاہئے۔ اگر کہیں غریب کی مدد کرنی بھی ہو تو پہلے یہ حکومتیں مغربی حکومتوں کی طرف دیکھتی ہیں۔ ایک تو وہ زمانہ تھا جب باوجود کمزور ہونے کے فوجی سازو سامان کے لحاظ سے بھی، تعداد کے لحاظ سے بھی، دولت کے لحاظ سے بھی، ہر لحاظ سے کمزور ہونے کے مسلمانوں نے ایران کی ناقابلِ شکست تصور کی جانے والی حکومت اور دوسری بڑی بڑی حکومتوں سے ٹکر لی اور انہیں اپنے زیر کیا۔ حکومتیں فتح کرنے کے لئے نہیں بلکہ ظلموں کو روکنے کے لئے اس ایمان نے کام دکھایا جو تقویٰ سے پُر تھا۔ پس ان کو اللہ تعالیٰ نے بے حساب دیا۔ لیکن آج غریب اسلامی حکومتیں جو ہیں وہ تو مغربی ممالک کی طرف دیکھتی ہی ہیں۔ بظاہر چند ایک جو دولت مند حکومتیں ہیں وہ اپنے حقیقی ربّ اور مالک اور معبود کو چھوڑ کر دنیاوی ربوں اور مالکوں اور معبودوں کی طرف نظر کئے ہوئے ہیں۔ یہ چیز ظاہر کرتی ہے کہ تقویٰ میں کمی ہے۔ جس نے ان لوگوں کو جنہیں خدا تعالیٰ نے دنیا کے لئے رہنما بنایا تھا۔ محکوم بنایا اور ایک طرح کی غلامی کی زنجیریں ہیں جن میں یہ مسلمان جکڑے گئے ہیں۔ اور یہ بات یقیناً اللہ تعالیٰ کی آخری تقدیر کے خلاف ہے۔ اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے اِنَّ اللّٰہَ بَالِغُ اَمْرِہٖ (الطلاق: 4) کہ یقیناً اللہ اپنے فیصلے کو مکمل کر کے رہتا ہے۔ اور یہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے جس کا کئی جگہ قرآنِ کریم میں ذکر ہوا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول غالب آتے ہیں (المجادلہ: 22)۔ دنیا کی تقدیر اب اسلام کے ساتھ وابستہ ہے لیکن کس طرح؟ اس کا جواب یہ ہے۔ اس طرح جس طرح صحابہ نے آنحضرتﷺ سے فیض پا کر دنیا کو اپنی لونڈی بنایا تھا اور دین کو دنیا پر مقدم کیا تھا۔ تقویٰ کی باریک راہوں کی تلاش کی اور اس پر چلے۔ اسلام کی خاطر جان، مال، وقت اور عزت کو قربان کرنے کے لئے ہر وقت تیار ہوئے۔ دشمن کے حملوں اور زیادتیوں سے تنگ ہوئے تو اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق ہجرت کی اور پھر اللہ تعالیٰ نے فتوحات کے ایسے دروازے کھولے جن کو شمار کرنا بھی مسلمانوں کے لئے مشکل ہو گیا۔ اس کے بعدپھر بغیر حساب دئیے جانے کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں کئی جگہ یوں فرمایا ہے۔ فرمایا قُلۡ یٰعِبَادِ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوۡا رَبَّکُمۡ ؕ لِلَّذِیۡنَ اَحۡسَنُوۡا فِیۡ ہٰذِہِ الدُّنۡیَا حَسَنَۃٌ ؕ وَ اَرۡضُ اللّٰہِ وَاسِعَۃٌ ؕ اِنَّمَا یُوَفَّی الصّٰبِرُوۡنَ اَجۡرَہُمۡ بِغَیۡرِ حِسَابٍ (الزمر: 11) ’’تو کہہ دے کہ اے میرے بندوجو ایمان لائے ہو! اپنے ربّ کا تقویٰ اختیار کرو۔ ان لوگوں کے لئے جو احسان سے کام لیتے ہیں اس دنیا میں بھی بھلائی ہو گی اور اللہ کی زمین تو وسیع ہے۔ یقیناً صبر کرنے والوں کو بغیر حساب کے ان کا بھر پور اجر دیا جائے گا۔“
اس زمانے میں مسلمانوں کی جو حالت زار تھی۔ جب اسلام کی ابتداء تھی تو مسلمان مکّہ میں انتہائی کسمپرسی کی حالت میں رہتے تھے۔ آنحضرتﷺ کی ذات تک پر کفار ظلم کرنے سے باز نہیں آتے تھے اور غریب مسلمانوں پر تو ظلم کی انتہاء کرتے ہوئے مردوں عورتوں کو شہید بھی کر دیا جاتا تھا۔ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کوفرما رہا ہے۔ پہلی بات یہ کہ ایمان کے ساتھ تقویٰ سب سے بنیادی شرط ہے اور پھر فرمایا جو تقویٰ پر چلتے ہوئے تمام نیکیاں بجا لانے کی کوشش کرتے ہیں انہیں آخرت کے علاوہ اس دنیا میں بھی اجر ملے گا۔ پھر فرمایا۔ جب مکّہ میں ظلم کی انتہاء ہوگی تو اس ظلم سے بچنے کے لئے تمہارے لئے بہتر ہے کہ ہجرت کر جاوٴ۔ اور یہ ہجرت جو ہے تمہارے لئے وسعتوں کے سامان پیدا کرے گی۔ یہ نہ سمجھو کہ جو ظلم تم پر ہوئے یہ یونہی رائیگاں چلے جائیں گے۔ ہر ہر ظلم کے بدلے میں خدا تعالیٰ تمہیں ایسے اجروں سے نوازے گا جن کا تم شمار بھی نہیں کر سکتے اور یہی صبر کرنے والوں کی جزا ہے۔ اور پھر جیسا کہ مَیں نے پہلے ذکر کیا کہ ان صبر کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ نے دنیا کے ایک بڑے حصے کا حکمران بنا دیا۔ ان کو حکومتیں عطا ہوئیں۔ پس وہ تقویٰ تھا، اللہ تعالیٰ کے احکامات کی پابندی تھی جس نے نہتوں اور کمزوروں کو حکومتیں عطا فرمائیں۔ آج یہ مسلمانوں کی بد قسمتی ہے کہ حکومتیں ہونے کے باوجود ایک لحاظ سے محکوم ہیں لیکن ظاہر ہے اللہ تعالیٰ کیونکہ سچے وعدوں والا ہے، اس نے یہ تمام نظارے آنحضرتﷺ کو پہلے دکھا کر یہ بھی بتا دیا تھا کہ تقویٰ اور صبر کے پھل صرف کسی زمانے تک محدودنہیں۔ بلکہ جس طرح قرونِ اولیٰ کے مومنوں نے نمونے دکھائے اور یہ پھل کھائے۔ ایک تاریک زما نے کے بعد مومنین پھر یہ پھل کھائیں گے اور آنحضرتﷺ کو یہ خوشخبری دی کہ غلبہ اسلام تیرے عاشقِ صادق اور اس کی جماعت کے ذریعے سے ہو گا اور یہی حالات جو بیان ہوئے ہیں ہزاروں مسلمانوں پر من حیث الجماعت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت پر بھی گزریں گے اور جس طرح ابتداء میں مسلمانوں پر زمین تنگ کی گئی تھی تو اسلام کے پھیلنے کے دروازے کھلتے چلے گئے، اسی طرح مسیح موعود علیہ السلام پر بھی زمین تنگ کی جائے گی اور اس کے بعد یہ راستے کھلیں گے۔ اس لئے آنحضرتﷺ نے مسلمانوں کو یہ نصیحت فرمائی تھی بلکہ وصیت فرمائی تھی کہ تم اس زمانے میں مسیح محمدی کو تنگ کرنے والوں میں سے نہ ہو جانابلکہ اس کو جا کر میرا سلام پہنچانا اور اس کی مدد کرنا۔ (المعجم الاوسط جلد 3 من اسمہ عیسیٰ حدیث نمبر 4898 صفحہ 383-384۔ دار الفکر، عمان اردن طبع اول 1999ء)
آج ہر احمدی گواہ ہے کہ پاکستان میں جماعتی طور پر ہمارے پر زمین تنگ کی گئی۔ مختلف قسم کی پابندیاں لگائی گئیں تو اللہ تعالیٰ نے آج 195ممالک میں احمدیت کا پودا لگا دیا۔ ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ افراد کی ترقی جماعت کی ترقی سے وابستہ ہے۔ انفرادی نقصانات سے جماعت کی ترقیاں رک نہیں جاتیں۔ پہلے زمانے میں بھی مسلمانوں کی شہادتوں نے نئی حکومتوں کے دروازے کھولے تھے اور آج بھی احمدیوں کی قربانیاں احمدیت کی ترقی کا باعث بنتی چلی جا رہی ہیں۔ آج دنیا کا کوئی ملک ایسا نہیں ہے جہاں مسیح محمدی کا پیغام نہیں پہنچ رہا۔ جہاں آنحضرتﷺ پر درود بھیجنے والے موجودنہیں۔ دنیا میں اس وقت MTAکے ذریعہ سے ہر جگہ پیغام پہنچ رہا ہے اور جب MTAکے ذریعے سے درُودپڑھا جاتا ہے تو دنیا کے ان ملکوں میں چاہے کوئی پڑھنے والا ہو نہ ہو، اس کی فضاوٴں میں وہ درُود بہر حال پھیل رہا ہے۔ اس وقت جیسا کہ میں نے کہا دنیا کے 195ممالک ایسے ہیں جہاں MTA کا چینل دیکھا اور سنا جا رہا ہے لیکن دنیا کے کسی اور چینل کی یہ ضمانت نہیں ہے کہ ایک وقت میں تمام براعظموں کے 195ممالک میں ان کا ٹی وی چینل دیکھا اور سنا جاتا ہو۔ اور یہ چینل احمدیوں کے علاوہ غیر از جماعت بھی دیکھ رہے ہیں۔ بعض اعتراض تلاش کرنے کے لئے دیکھتے ہیں۔ بعض علم کے حصول کے لئے دیکھتے ہیں۔ لیکن بہر حال دیکھا ضرور جاتا ہے۔ پس کہنے کا مقصد یہ ہے کہ الٰہی جماعتوں کی یہی نشانی ہے جو اللہ تعالیٰ نے بتائی ہے کہ جب ان پر زمین تنگ کی جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ ان کے لئے اور جگہوں پر اور مختلف رنگ میں اور مختلف طریقوں سے وسعت کے سامان پیدا فرما دیتا ہے اور مسیح محمدی کی جماعت کے ساتھ یہ سلوک تو خاص طور پر اللہ تعالیٰ نے اس لئے فرمایا اور فرمانا تھا کہ اسلام کی آخری فتح اللہ تعالیٰ کے وعدوں اور آنحضرتﷺ کی پیشگوئیوں کے مطابق مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعے ہونی ہے۔ انشاء اللہ۔
اللہ کرے کہ ہم انفرادی طور پر بھی اس اہم ذمہ داری کو سمجھتے ہوئے تقویٰ پر قدم مارتے ہوئے اس مقصد کے حصول کے لئے کوشش کرنے والے ہوں جس مقصد کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مبعوث ہوئے تھے اور اللہ تعالیٰ کے بغیر حساب اَجر کے نظارے دیکھنے والے ہوں۔ آمین
(الفضل انٹرنیشنل جلد17شمارہ14 مورخہ2اپریل 8اپریل2010 صفحہ5تا7)
خدا تعالی اس دنیا میں اور آخرت میں ان کے مخالفین کو پکڑتاہے اور ظلم کا حساب لیتا ہے، مومن کا امتیاز تقویٰ پر چلنا ہے، رزق کا وسیع تر مفہوم، رزق میں تمام قسم کا رزق مراد ہے قویٰ وغیرہ بھی، ایٹم بم کا نقشہ ’’حطمہ‘‘، آپﷺ کے علم و معرفت کے خزانے جو آپﷺ نے تقسیم کئے صحابہؓ کے ذریعے آج بھی جاری ہیں، متقی بننے کے لئے بنیادی حق ادا کرنے ضروری ہیں، صرف ایمان لانا کافی نہیں بلکہ تقویٰ کا حصول اصل جڑ ہےآج کل غریب حکومتیں خدا کو چھوڑ کر دنیاوی معبودوں کی طرف جھک رہی ہیں جو نشانی ہے کہ تقویٰ میں کمی ہے، الہی جماعتوں کی نشانی جو اللہ تعالیٰ نے بتائی ہے کہ زمین ان پر تنگ کی جاتی ہے اور جگہوں سے خدا تعالیٰ وسعت کے سامان پیدا فرما دیتا ہے۔
خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 12مارچ 2010ء بمطابق 12امان 1389 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن (برطانیہ)
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔