اللہ تعالیٰ کی صفت حسیب اور روحانی رزق
خطبہ جمعہ 19؍ مارچ 2010ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
تشہد و تعوذ اور سورة فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
آج مَیں پہلے تو ایک امر کا ذکر کروں گا جو گزشتہ خطبہ کا ہی حصہ ہے جس کے بارہ میں گزشتہ خطبہ میں توجہ نہیں دلاسکا۔ اس کے بعد پھر بعض آیات کی وضاحت ہوگی جو آج کا مضمون ہیں۔ جیسا کہ مَیں نے گزشتہ خطبہ میں بتایا تھا کہ رزق صرف مادی رزق اور دولت کا نام نہیں بلکہ انسان کی تمام تر روحانی صلاحیتیں اور جو قویٰ اللہ تعالیٰ نے انسان کو بخشے ہیں رزق کے زُمرہ میں آتے ہیں۔ یا کسی بھی قسم کی صلاحیتیں جو اس میں موجود ہیں اور یہ رزق بھی تمام و کمال اللہ تعالیٰ نے آنحضرتﷺ کو عطا فرمایا تھا جو آگے صحابہؓ کو آپ نے بانٹا۔ اس میں ایک تو قرآن کریم ہے جو اللہ تعالیٰ نے آپ پر نازل فرمایا اور دوسرے آپؐ کی سنت، آپؐ کے ارشادات، جن سے صحابہؓ نے روحانی فیض پایا اور خوب خوب اپنی جھولیاں بھریں۔ اور پھر آخری زمانہ کے لئے بھی آپﷺ نے پیشگوئی فرمائی کہ جس طرح دنیا روحانی دیوالیہ پن کا شکار تھی۔ آنحضرتﷺ کے زمانہ میں اور اس میں انتہاء کو پہنچی ہوئی تھی اور میرے آنے سے یہ روحانی رزق تقسیم ہوا اور اس رزق سے پھر ہزاروں لاکھوں روحانی مردوں میں جان پڑ گئی۔ تو ایک وقت آئے گاکہ خال خال کے علاوہ پھر مسلمانوں میں بھی اس رزق کی کمی ہو جائے گی۔ اس روحانی مائدہ اور خزانہ پر توجہ نہ دے کر عمومی مسلمان بھی اس روحانی دولت سے بے فیض اور محروم ہو جائیں گے۔ اور اُس وقت پھراللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک جری اللہ، مسیح موعود اور مہدی موعود کی صورت میں آئے گا اور پھر میرے اس خزانے کو تقسیم کرے گا۔ پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے وہ خزانے تقسیم کرنے تھے اور کئے جن کے بارہ میں ایک جگہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہیں کہ: ’’اب مَیں وہ حدیث جو ابوداوٴدنے اپنی صحیح میں لکھی ہے ناظرین کے سامنے پیش کرکے اس کے مصداق کی طرف ان کو توجہ دلاتا ہوں۔ سو واضح ہو کہ یہ پیشگوئی جو ابوداوٴد کی صحیح میں درج ہے کہ ایک شخص حارث نام یعنی حراث، ماوراء النہر سے یعنی سمر قند کی طرف سے نکلے گا جو آل رسول کو تقویت دے گا۔ جس کی امداد اور نصرت ہر ایک مومن پر واجب ہوگی اور الہامی طور پر مجھ پر یہ ظاہر کیا گیا ہے کہ یہ پیشگوئی اور مسیح کے آنے کی پیشگوئی جو مسلمانوں کا امام اور مسلمانوں میں سے ہوگا دراصل یہ دونوں پیشگوئیاں متحد المضمون ہیں‘‘۔ (ایک ہی مضمون رکھتی ہیں) ’’اور دونوں کا مصداق یہی عاجز ہے۔ مسیح کے نام پر جو پیشگوئی ہے۔ اس کی علامات خاصہ درحقیقت دو ہی ہیں۔ ایک یہ کہ جب وہ مسیح آئے گا تو مسلمانوں کی اندرونی حالت کو جو اس وقت بغایت درجہ بگڑی ہوئی ہوگی اپنی صحیح تعلیم سے درست کر دے گا اور ان کے روحانی افلاس اور باطنی ناداری کو بکلی دور فرما کر جواہرات علوم حقائق و معارف ان کے سامنے رکھ دے گا۔ یہاں تک کہ وہ لوگ اس دولت کو لیتے لیتے تھک جائیں گے اور ان میں سے کوئی طالب حق روحانی طور پر مفلس اور نادار نہیں رہے گا بلکہ جس قدر سچائی کے بھوکے اور پیاسے ہیں ان کو بکثرت طیب غذا صداقت کی اور شربت شیریں معرفت کا پلایا جائے گا اور علوم حقہ کے موتیوں سے ان کی جھولیاں پُرکردی جائیں گی اور جو مغز اور لب لباب قرآن شریف کا ہے اس عطر کے بھرے ہوئے شیشے ان کو دئے جائیں گے‘‘۔ (ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 141-142 حاشیہ)
پس یہ روحانی خزانہ ہے جسے ایک طرف تو وہ بدقسمت لوگ ہیں جو اسے لینے سے انکار کررہے ہیں اور دوسری طرف سچائی کے بھوکے اور پیاسے ہیں جو اس سے سیر ہو رہے ہیں اور ہوں گے۔ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰة والسلام نے روحانی علوم و معارف کا وہ خزانہ ہمیں دے دیا ہے جو اللہ تعالیٰ کے قرب سے نوازنے والا اور آنحضرتﷺ کی محبت دلوں میں بھرنے والا ہے اور تمام ادیان پر اسلام کی سچائی ثابت کرکے دکھلانے والا ہے۔ پس ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم اس علمی اور روحانی خزانے سے اپنی جھولیاں بھریں اور کامیاب اور بامراد ہوں۔ اردو پڑھنے اور سمجھنے والے تو آپ کے اس روحانی خزانے کو پڑھنے اور سمجھنے کی کوشش اپنی تمام تر استعدادوں کے ساتھ کررہے ہیں اور کرنی چاہئے۔ مَیں پہلے بھی اس طرف توجہ دلاچکا ہوں کہ تمام ذیلی تنظیمیں بھی اور جماعتی نظام بھی اس بات کا خاص اہتمام کریں۔ اور اردو نہ جاننے والے آپ کا کلام جو دوسری زبانوں میں جس حد تک میسر ہے اس سے فیض اٹھانے کی کوشش کریں۔ تراجم کا کام بھی ہورہا ہے۔ انگریزی زبان میں زیادہ اور دوسری زبانوں میں ذرا کم یا کچھ حد تک۔ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ اس روحانی خزانے کو جلدازجلد دنیا تک مختلف زبانوں میں پہنچانے والے ہم بن سکیں۔ آج کی جو آیات مَیں نے صفت حَسِیْب کے حوالے سے چنی ہیں اب مَیں ان کے بارہ میں کچھ کہوں گا بات کروں گا۔ سورة بقرہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ ؕ وَ اِنۡ تُبۡدُوۡا مَا فِیۡۤ اَنۡفُسِکُمۡ اَوۡ تُخۡفُوۡہُ یُحَاسِبۡکُمۡ بِہِ اللّٰہُ ؕ فَیَغۡفِرُ لِمَنۡ یَّشَآءُ وَ یُعَذِّبُ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَ اللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ (البقرة: 285) کہ اللہ ہی کا ہے جو آسمان میں ہے اور جو زمین میں ہے اور خواہ تم اسے ظاہر کرو جو تمہارے دلوں میں ہے یا اسے چھپاوٴ اللہ اس کے بارہ میں تمہارا محاسبہ کرے گا۔ پس جسے وہ چاہے گا بخش دے گا اور جسے چاہے گا عذاب دے گا اور اللہ ہر چیز پر جسے وہ چاہے دائمی قدرت رکھتا ہے۔
ایک مومن کا ایمان تبھی مکمل ہوتا ہے جب وہ ہر وقت اپنے نفس پر نظر رکھنے والا ہو اور اس کو اس تعلیم کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرے جو خداتعالیٰ نے آنحضرتﷺ کے ذریعے ہمیں عطا فرمائی ہے۔ ورنہ اس کی ظاہری عبادتیں کوئی حیثیت نہیں رکھتیں۔ اس کی جماعتی خدمات بھی جو وہ بجالارہا ہوتا ہے اور جس کو دنیا یعنی اس کے اردگرد کے لوگ اور معاشرے کے لوگ بعض دفعہ بڑا سراہ رہے ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ جو دلوں کا حال جانتا ہے اسے علم ہے کہ اس کے دل میں کیا ہے۔ تو اگر صرف دکھاوے کے لئے ہے تو اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اگر تبلیغ کرکے پیغام پہنچا رہا ہے لیکن اپنے عمل اس کے مطابق نہیں تو یہ بات بندوں سے تو چھپی رہ سکتی ہے خداتعالیٰ سے نہیں۔ پس اللہ تعالیٰ نے مومن پر یہ واضح کر دیا کہ اللہ تعالیٰ سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے اور جو پوشیدہ نہیں تو پھر اللہ تعالیٰ کا اجر بھی اس کے مطابق ہے جو کسی کے اپنے نفس کی کیفیت اور حالت ہے۔ اس لئے آنحضرتﷺ نے بھی فرمایا ہے کہ اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ کہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔ (صحیح بخاری کتاب بدء الوحی باب کیف کان بدء الوحی الی رسول اللہﷺ۔ حدیث نمبر 1)
یعنی کسی بھی عمل کو اس کی نیت کے مطابق پر کھا جائے گا جو کسی بھی عمل کرنے والے کے دل میں ہے۔ اب نیتوں کا حال تو صرف خدا ہی جان سکتا ہے اور جانتا ہے اس لئے مومنوں کو واضح کیا کہ جس خدا نے زمین و آسمان پیدا کیا ہے وہ اس میں موجود ہر چیز کی کنہ تک سے واقف ہے اور انسان بھی اس سے باہر نہیں ہے۔ پس جب اللہ تعالیٰ تمہارے ہر عمل سے جو تم چھپ کرکرتے ہو یا ظاہر کرتے ہو اس سے واقف ہے بلکہ ہر خیال جو تم دل میں لاتے ہو اس سے بھی واقف ہے تو اپنے نفسوں کا تزکیہ کرو۔ اپنے دلوں کو خالصتاً خداتعالیٰ کے لئے پاک کرنے کی کوشش کرو۔ پس جب اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہیُحَاسِبۡکُمۡ بِہِ اللّٰہُ (البقرہ: 285) یعنی اللہ تعالیٰ اس کا حساب لے گا تو اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں فرماتا ہے تمہارے عمل تمہارے دل کی حالت اور نیت کے مطابق جزا پائیں گے۔
قرآن کریم میں ایک اور مقام پر خداتعالیٰ فرماتا ہے وَ نَضَعُ الۡمَوَازِیۡنَ الۡقِسۡطَ لِیَوۡمِ الۡقِیٰمَۃِ فَلَا تُظۡلَمُ نَفۡسٌ شَیۡئًا ؕ وَ اِنۡ کَانَ مِثۡقَالَ حَبَّۃٍ مِّنۡ خَرۡدَلٍ اَتَیۡنَا بِہَا ؕ وَ کَفٰی بِنَا حٰسِبِیۡنَ (الانبیاء: 48) اور ہم قیامت کے دن ایسا پورا تولنے والے سامان پیدا کریں گے کہ جن کی وجہ سے کسی جان پر ذرا سا بھی ظلم نہیں کیا جائے گا اور اگر ایک رائی کے دانے کے برابر بھی کوئی عمل ہوگا تو ہم اسے موجود کر دیں گے اور ہم حساب لینے میں کافی ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ ہر جزا سزا انسان کے عمل کے مطابق دیتا ہے اور کبھی ظلم نہیں کرتا۔ لیکن کیونکہ دلوں کی پاتال تک سے بھی واقف ہے۔ ہر عمل کا محرک اور نیت اس کے علم میں ہے اس لئے اس بات کا بھی حساب ہوگا کہ نمازیں خداتعالیٰ کی خاطر پڑھی جارہی تھیں یا دکھاوے کے لئے۔ صدقات خداتعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے کئے جارہے تھے یا دئے جارہے تھے یا دکھاوے کے لئے۔ یا جو بھی نیکیاں ہیں ان کے کرنے کا محرک کیا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تزکیہ نفس ہر وقت تمہارے مدّنظر رہنا چاہئے اور اس مقصد کو سامنے رکھتے ہوئے ہر عمل بجالانا چاہئے۔ پھر برائی یا نیکی کے بعض خیالات ہیں ان کی جزا بھی خداتعالیٰ دیتا ہے لیکن کیونکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت وسیع ہے اس لئے ہر برائی کا خیال جو دل میں آتا ہے اس کی پکڑ نہیں کرتا۔ بلکہ اس خیال کو جب انسان دل میں بٹھالیتا ہے اور موقع ملنے پر اس بدخیال کے کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو پھر قابل مواخذہ ہوتا ہے۔ جیسے مثلاً ایک انسان دشمنی میں یا کسی بھی قسم کے بغض اور کینے کی وجہ سے دوسرے انسان کو نقصان پہنچانا چاہتا ہے گو عملاً نقصان نہ پہنچایا ہو لیکن دل میں یہ خیال جمائے بیٹھا رہے کہ جب بھی موقع ملا اس کو نقصان پہنچاوٴں گا تو ایسے عمل پھر اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا موجب بنتے ہیں۔ لیکن کیونکہ انسان کمزور واقع ہوا ہے اور برائی کے خیالات بھی دل میں آسکتے ہیں۔ اس لئے اللہ تعالیٰ ہر عمل پر فوری پکڑ نہیں لیتا۔ لیکن اگر انسان نیت کرے کہ مَیں نے کرنا ہے تب پکڑ میں آتا ہے۔ اگر انسان ایسے بُرے خیالات پر عمل کرنے کی نیت نہ کرے اور موقع کی تلاش میں نہ رہے تو ایسے بدخیالات جو انسان کے دل میں آتے ہیں ان کو اللہ تعالیٰ معاف فرمادیتا ہے۔
اس بارہ میں آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو حکم دیا ہے کہ اگر میرا بندہ کوئی بُرا کام کرنے کا سوچے تو یہ گناہ نہیں لکھنا۔ لیکن اگر وہ اس کو عملی شکل دینے کی کوشش کرے تو پھر اس کا گناہ لکھا جائے گا۔ اور اگر کوئی نیکی کا ارادہ کرے مگر وہ کر نہ سکے یا کسی وجہ سے رک جائے تو ایک نیکی لکھ لو اور اگر عملاً اس نیکی کو سرانجام دے دے تو اس کے بدلے میں دس نیکیاں لکھو۔ (صحیح مسلم کتاب الایمان باب اذا ھم العبد بحسنۃ کتبت … حدیث نمبر 233)
پس اللہ تعالیٰ تو اس طرح اپنے بندوں پرمہربان ہے۔ ایک مومن کا کام ہے کہ اپنے اعمال اور اپنی نیتوں کو درست کرنے کی کوشش کرتا رہے۔ اپنے گناہوں اور اپنی کمزوریوں پر نظر رکھے تاکہ اللہ تعالیٰ کی وسیع تر رحمت سے حصہ پائے اور عذاب سے بچے۔
پھرایک جگہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَ کُلَّ اِنۡسَانٍ اَلۡزَمۡنٰہُ طٰٓئِرَہٗ فِیۡ عُنُقِہٖ ؕ وَ نُخۡرِجُ لَہٗ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ کِتٰبًا یَّلۡقٰٮہُ مَنۡشُوۡرًا۔اِقۡرَاۡ کِتٰبَکَ ؕ کَفٰی بِنَفۡسِکَ الۡیَوۡمَ عَلَیۡکَ حَسِیۡبًا (بنی اسرائیل: 15-14) اور ہر انسان کا اعمالنامہ ہم نے اس کی گردن سے چمٹا دیا ہے اور ہم قیامت کے دن اس کے لئے اسے ایک ایسی کتاب کی صورت میں نکالیں گے جسے وہ کھلی ہوئی پائے گا۔ اور اگلی آیت میں (یہ دو آیتیں ہیں) فرمایا کہ اپنی کتاب پڑھ، اللہ فرمائے گا آج کے دن تیرا نفس تیرا حساب لینے کے لئے کافی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے یہاں پھر انسان کو متنبہ کیا ہے کہ اپنے اعمال پر نظر رکھو۔ یہ نہ سمجھو کہ ایک عمل نیک یا بد جو تم نے بھی کیا ہے وہ بھولی بسری چیز بن گئی ہے۔ ایک تو جیسا کہ پہلے ذکر ہوچکا ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ چاہے چھپاوٴ یا ظاہر کرو اللہ تعالیٰ اس کا محاسبہ کرے گا جو بھی تمہارے دل میں ہے۔ یہاں مزید کھولا کہ چھپانے کا کیا سوال ہے تمہارا ہر عمل تمہاری گردن کے ساتھ لٹکا دیا گیا ہے۔ ایک ڈائری ہے جو روز کی بن رہی ہے جس میں نیکیاں بھی لکھی جارہی ہیں اور بدیاں بھی لکھی جارہی ہیں اور قیامت کے دن یہ کتاب کھل کر سامنے آجائے گی۔
بعض دفعہ کیا بلکہ اکثر اوقات انسان اپنی برائیوں کو یادنہیں رکھتا یا ان کو اتنی اہمیت ہی نہیں دیتا کہ وہ یاد رہیں۔ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ کتاب جو لکھی جارہی ہے، جو تمہاری گردن میں لٹکائی گئی ہے اس میں ہر واقعہ مع تاریخ اور وقت کے لکھا جارہا ہے۔ ہر عمل جو تم کرتے ہو اس پہ لکھا جارہا ہے اور یہ تمہارے اعمالنامے کا ایک دائمی حصہ بن چکا ہے۔ اس سے چھٹکارا نہیں پایا جاسکتا۔
پس انسان کو ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے اور جیسا کہ پہلے ذکر ہوچکا ہے چھوٹے سے چھوٹا عمل بھی لکھا ہوا سامنے ہوگا۔ اس لئے بجائے اس کے کہ انسان مرنے کے بعد اعمالنامے کو پڑھے اور پھر اگر بُرے اعمال ہیں تو خفت اٹھانی پڑے یا اللہ تعالیٰ کی سزا کا مستوجب بنے۔ انسان کو اس زندگی میں اپنا روز محاسبہ کرنا چاہئے اور یہ جو روزانہ کا محاسبہ ہے وہ جہاں انسان کو معاشرہ کی نظروں سے بچاتا ہے وہاں خداتعالیٰ کی رضا کے حصول کا ذریعہ بھی بناتا ہے۔ بہت سارے کام انسان معاشرے میں کرتا ہے اور پھر لوگ اس پہ انگلیاں اٹھاتے ہیں۔ لیکن اگر انسان خود اپنا محاسبہ کر رہا ہو تو جہاں یہ محاسبہ ہر وقت انسان کو محتاط کرے گا وہاں لوگوں کی نظروں سے بھی انسان بچے گا۔ پس کوشش یہ ہونی چاہئے کہ جب کتاب ملے تو نیک اعمال لئے ہوئے ہو گوکہ یہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہی ہوتا ہے۔ لیکن اس کے فضل کے حصول کے لئے بھی اسی کی طرف جھکنے کی ضرورت ہے۔
ایک جگہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ فَاَمَّا مَنۡ اُوۡتِیَ کِتٰبَہٗ بِیَمِیۡنِہٖ۔ فَسَوۡفَ یُحَاسَبُ حِسَابًا یَّسِیۡرًا (الانشقاق: 9-8) تو اس سے جلد ہی آسان حساب لیا جائے گا۔ داہنے ہاتھ سے مرادنیکیاں ہیں۔ ایسے لوگوں کی برائیوں پر نیکیاں غالب ہوں گی اور حساب آسان ہوگا۔ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے یہ حساب آسان کر دے گا۔ اور دوسرا اگر وہ وہ ہے جس کا حساب مشکل ہوگا۔ ان کو پیٹھ پیچھے سے کتاب دی جائے گی۔
مَیں نے گزشتہ خطبہ میں ایک حدیث بھی سنائی تھی کہ مومنوں کا جو حساب ہے وہ حساب نہیں ہے۔ (مسلم کتاب الجنۃ و صفۃ نعیمھا و اھلھا۔ باب: اثبات الحساب۔ حدیث نمبر 7119)
آسان حساب ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ رحم اور مغفرت کا سلوک فرمائے گا۔ تو ایسا گروہ جن کو پیٹھ پیچھے سے کتاب دی جائے گی، اللہ تعالیٰ انہیں یہ کتاب دے کر فرمائے گا کہ یہ کتاب پڑھ اور پھر اپنامحاسبہ کر۔ کیونکہ تیرا نفس خود ہی حساب کے لئے کافی ہے۔ پس جب اللہ تعالیٰ فرماتا ہےفَیَغۡفِرُ لِمَنۡ یَّشَآءُ وَ یُعَذِّبُ مَنۡ یَّشَآءُ وہ جسے چاہے گا بخش دے گا اور جسے چاہے گا سزا دے گا تو کسی زبردستی کی وجہ سے نہیں ہے۔ بلکہ ہر انسان کو اس کی کتاب دے کر فرمائے گا کہاِقۡرَاۡ کِتٰبَکَ (بنی اسرائیل: 15)کہ اپنی کتاب پڑھ۔ اور بداعمال کرنے والوں کے نفس خود یہ گواہی دے رہے ہوں گے کہ ہاں ہمارے عمل ہی ایسے ہیں جو ہمیں سزا کا مستوجب بنا رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کسی سے بے انصافی نہیں کرتا۔ وہ تو رائی کے دانہ کے برابر بھی عمل کی جزا دیتا ہے۔ چھوٹے سے چھوٹے عمل کی بھی جزا دیتا ہے۔ ہاں وہ کیونکہ ہر چیز پر قادر ہے اس لئے چاہے تو بخش بھی سکتا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس بارے میں فرماتے ہیں کہ:
”قرآن شریف بار بار یہی فرماتا ہے کہ عالم آخرت کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ بلکہ اس کے تمام نظارے اسی دنیاوی زندگی کے اظلال و آثار ہیں۔ جیسا کہ وہ فرماتا ہے …… ہم نے اسی دنیا میں ہر ایک شخص کے اعمال کا اثر اس کی گردن سے باندھ رکھا ہے اور انہی پوشیدہ اثروں کو ہم قیامت کے دن ظاہر کر دیں گے اور ایک کھلے کھلے اعمالنامے کی شکل پر دکھاویں گے۔ اس آیت میں جو طَائِر کا لفظ ہے تو واضح ہو کہ طَائِر اصل میں پرندے کو کہتے ہیں پھر استعارے کے طور پر اس سے مراد عمل بھی لیا گیا ہے۔ کیونکہ ہر ایک عمل نیک ہو یا بد ہو وہ وقوع کے بعد پرندے کی طرح پرواز کر جاتا ہے اور مشقت یا لذت اس کی کالعدم ہو جاتی ہے اور دل پر اس کی کثافت یا لطافت باقی رہ جاتی ہے‘‘۔ (ہر عمل کو انسان بھول جاتا ہے اور پھر اس کا نیکی یا بدی کا جو اثر ہے وہی دل پر قائم رہتا ہے۔) فرمایا کہ ”یہ قرآنی اصول ہے کہ ہر ایک عمل پوشیدہ طور پر اپنے نقوش جماتا رہتا ہے۔ جس طور کا انسان کا فعل ہوتا ہے اسی کے مناسب حال ایک خداتعالیٰ کا فعل صادر ہوتا ہے اور وہ فعل اس گناہ کو یا اس کی نیکی کو ضائع ہونے نہیں دیتا بلکہ اس کے نقوش دل پر، منہ پر، آنکھوں پر، کانوں پر، ہاتھوں پر، پیروں پر لکھے جاتے ہیں اور یہی پوشیدہ طور پر ایک اعمالنامہ ہے جو دوسری زندگی میں کھلے طور پر ظاہر ہو جائے گا‘‘۔ (اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 400-401)
اللہ تعالیٰ نے انسان کو صرف بھلائی اور خیر کے کرنے اور برائی اور شر سے بچنے کی طرف تاکیدنہیں فرمائی بلکہ اس حقیقت کی وجہ سے کہ انسان کمزورپیدا کیا گیا ہے اور کمزوریوں اور گناہوں کی طرف راغب ہوسکتا ہے اور ان عملوں کی وجہ سے سزا کا مستوجب بن سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی وسیع تر رحمت نے بندے پر یہ بھی احسان فرمایا ہے کہ اسے اپنی رضا کے حصول کے لئے دنیا و آخرت کی حسنات کے حاصل کرنے کے لئے دوزخ کے عذاب سے بچنے کے لئے دعائیں بھی سکھا دی ہیں تاکہ یہ دعائیں کرنے کے ساتھ ساتھ اللہ کے بندوں کو نیک اعمال کرنے کی طرف توجہ بھی پیدا ہوتی رہے اور برائیوں سے بچنے کا احساس بھی رہے۔
سورۃ بقرہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ یہ دو آیات ہیں کہ وَ مِنۡہُمۡ مَّنۡ یَّقُوۡلُ رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِی الدُّنۡیَا حَسَنَۃً وَّ فِی الۡاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ (البقرة: 202) اور انہیں میں سے وہ بھی ہے جو کہتا ہے کہ اے ہمارے ربّ ہمیں دنیا میں بھی حسنہ عطا کر اور آخرت میں بھی حسنہ عطا کر اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔
پھر فرمایا اُولٰٓئِکَ لَہُمۡ نَصِیۡبٌ مِّمَّا کَسَبُوۡا ؕ وَ اللّٰہُ سَرِیۡعُ الۡحِسَابِ (البقرة: 203) یہی وہ لوگ ہیں جن کے لئے ایک بڑا اجر ہوگا اس میں سے جو انہوں نے کمایا اور اللہ حساب لینے میں بہت تیز ہے۔
پس پہلے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ مومن کے اعمال اور کوششیں صرف اس دنیا کی حسنہ کے حصول تک ہی محدودنہیں رہتیں۔ ایک تو وہ دنیا کی حسنات کی تلاش میں بھی رہتے ہیں۔ دوسرے آخرت کی حسنات کی تلاش میں بھی رہتے ہیں۔ تیسرے آگ کے عذاب سے بچنے کی بھی دعا کرتے ہیں۔ اور آگ کا عذاب صرف آخرت میں آگ کا عذاب نہیں ہے بلکہ ہر ایسی چیز جو کسی بھی انسان کے لئے تکلیف کا باعث بن سکے وہ آگ کا عذاب ہے۔ اللہ تعالیٰ اس سے بچائے۔ یہ دعا ان کی اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی رہتی ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے حقیقی مومن کی یہ نشانی بتائی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ہر خیر کے وہ متلاشی ہوتے ہیں۔ چاہے وہ دنیا کی خیر ہو یا آخرت کی خیر ہو اور ہر اس عمل سے خداتعالیٰ کی پناہ میں آنے کی کوشش کرتے ہیں جو انہیں خداتعالیٰ سے دور لے جا کر عذاب کا باعث بنائے۔ پس یہ بڑی جامع دعا ہے اور ہر طبقہ اور استعداد کے انسان کے لئے اس کی روحانی اور دنیاوی ترقی کے لئے بہت اہم دعا ہے جو ہمیں بہت زیادہ کرنی چاہئے اور ایک حقیقی مومن کو خاص طور پر آنحضرتﷺ نے یہ تلقین فرمائی ہے کہ اپنی دنیا و آخرت کی حسنات کے لئے یہ دعا مانگا کرو۔ (صحیح بخاری کتاب الدعوات باب قول النبیﷺ ربنا اٰتنا فی الدنیا حسنۃ، حدیث نمبر 6389)
پس اس دنیا کی حسنات طلب کرنے سے انسان اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں کو طلب کرتا ہے جو خداتعالیٰ کے نزدیک حسنات ہیں۔ جس میں پاک رزق بھی شامل ہے اور حقوق العباد کی ادائیگی بھی شامل ہے۔ نیک اعمال بھی شامل ہیں جو خداتعالیٰ کا قرب دلانے والے ہیں۔ احسن رنگ میں خداتعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے عبادات بھی شامل ہیں۔ اور پھر ان حسنات کی وسعت اس طرح ہے کہ جو حسنات ایک انسان کے علم میں ہیں یا نہیں وہ بھی ایک مومن خداتعالیٰ سے مانگتا ہے اور جب یہ حسنات اللہ تعالیٰ کی طرف سے مل رہی ہوں گی تو دنیا کی ہر قسم کی تکلیفوں اور ایسے اعمال سے جو اسے آگ کے عذاب کا مورد بنا سکتے ہوں اللہ تعالیٰ ایک حقیقی مومن کو بچالیتا ہے اور یہ دنیا کی حسنات ہی آخرت کی حسنات سے نوازے جانے کا باعث بھی بنتی ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے دو اقتباس مَیں نے لئے ہیں جو اس پر بڑی روشنی ڈالتے ہیں۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ:
” مومن کے تعلقات دنیا کے ساتھ جس قدر وسیع ہوں وہ اس کے مراتب عالیہ کا موجب ہوتے ہیں۔ کیونکہ اس کا نصب العین دین ہوتا ہے’’(یعنی مومن کا)‘‘ اور دنیا، اس کا مال و جاہ دین کا خادم ہوتا ہے۔ پس اصل بات یہ ہے کہ دنیا مقصود بالذات نہ ہو بلکہ حصول دنیا میں اصل غرض دین ہو اور ایسے طور پر دنیا کو حاصل کیا جاوے کہ وہ دین کی خادم ہو۔ جیسے انسان کسی جگہ سے دوسری جگہ جانے کے واسطے سفر کے لئے سواری یا اَور زاد راہ کو ساتھ لیتا ہے تو اس کی اصل غرض منزل مقصود پر پہنچنا ہوتا ہے۔ نہ خود سواری اور راستہ کی ضروریات۔ اسی طرح پر انسان دنیا کو حاصل کرے مگر دین کا خادم سمجھ کر اللہ تعالیٰ نے جو یہ دعا تعلیم فرمائی ہے کہ رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِی الدُّنۡیَا حَسَنَۃً (البقرة: 202) اس میں بھی دنیا کو مقدم کیا ہے۔ لیکن کس دنیا کو؟ حَسَنَة الدنیا کو جو آخرت میں حسنات کی موجب ہو جاوے۔ اور اس دعا کی تعلیم سے صاف سمجھ میں جاتا ہے کہ مومن کو دنیاکے حصول میں حسنات الآخرة کا خیال رکھنا چاہئے اور ساتھ ہی حَسَنَة الدُّنْیَا کے لفظ میں ان تمام بہترین ذرائع حصول دنیا کا ذکر آگیا ہے جوکہ ایک مومن مسلمان کو حصول دنیا کے لئے اختیار کرنی چاہئیں۔ دنیا کو ہر ایسے طریق سے حاصل کرو جس کے اختیار کرنے سے بھلائی اور خوبی ہی ہو نہ وہ طریق کسی دوسرے بنی نوع انسان کی تکلیف رسانی کا موجب ہو، نہ ہم جنسوں میں کسی عار اور شرم کا باعث۔ ایسی دنیا بیشک حسنة الآخرة کا موجب ہوگی۔ پس یاد رکھو کہ جو شخص خدا کے لئے زندگی وقف کردیتا ہے یہ نہیں ہوتا کہ وہ بے دست و پا ہو جاتا ہے؟نہیں ہرگز نہیں بلکہ دین اور الٰہی وقف انسان کو ہوشیار اور چابکدست بنادیتا ہے۔ سستی اور کسل اس کے پاس نہیں آتا۔
حدیث میں عمار بن خزیمہ سے روایت ہے کہ حضرت عمرؓ نے میرے باپ کو فرمایا کہ تجھے کس چیز نے اپنی زمین میں درخت لگانے سے منع کیا۔ تو میرے باپ نے جواب دیا کہ مَیں بڈھا ہوں کل مرجاوٴں گا۔ پس اس کو حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ تجھ پر ضرور ہے کہ درخت لگاوے۔ (پھر راوی کہتے ہیں ) مَیں نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیکھا کہ خود میرے باپ کے ساتھ مل کر ہماری زمین میں درخت لگاتے تھے اور ہمارے نبی کریمﷺ ہمیشہ عجز اور کسل سے پناہ مانگا کرتے تھے۔ مَیں پھر کہتا ہوں کہ سست نہ بنو۔ اللہ تعالیٰ حصول دنیا سے منع نہیں فرماتا بلکہ حسنة الدنیا کی دعا تعلیم فرماتا ہے۔ (الحکم جلد 4نمبر 29مورخہ 16اگست 1900ء صفحہ 3-4) (تفسیر حضرت مسیح موعود جلد اول صفحہ 695-694 زیر سورة البقرة آیت 202)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰہ والسلام نے جویہ حدیث یہاں کوٹ (Quote) کی اس کا مطلب تھا کہ میں تواب مررہا ہوں مجھے دنیا کی حسنات سے کیا غرض ہے۔ لیکن حضرت عمرؓ نے فرمایا نہیں تمہیں جب تک تمہاری زندگی ہے اس دنیا کی حسنات کے لئے بھی کوشش کرتے رہو۔ اگر اپنے لئے نہیں تو اپنی اولاد کے لئے، جو بعد میں آنے والوں کے لئے بھی دنیاوی حسنہ بن جائے۔ اور بعض دفعہ اولاد کے لئے دنیاوی سامان کرنا بھی دین کے لئے ضروری ہو جاتا ہے تاکہ اولاد در در کی ٹھوکریں کھانے سے بچ جائے اور کوئی مجبوری، غربت، افلاس انہیں دین سے دور نہ کردے اور اس طرح وہ اپنی عاقبت بگاڑ لیں۔ یعنی حسنہ صرف اپنے لئے نہیں بلکہ اپنی نسلوں کے لئے بھی دنیا کی بعض حسنات ہیں جو جاری ہو جاتی ہیں اور ہمیشہ جاری رہتی ہیں بشرطیکہ اولاد کی روحانی تربیت بھی ہو اور اس حسنہ سے بھی وہ فائدہ اٹھا رہے ہوں اور تقویٰ پر چلنے والے ہوں۔ اور پھر اپنے والدین کے لئے ایسی اولاد ہی ہے جو دعا بھی کرتی ہے اور یہ دعا پھر ان کی آخرت کی حسنات کا موجب بن جاتی ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں قرآن شریف میں سکھائی ہے کہ رَّبِّ ارۡحَمۡہُمَا کَمَا رَبَّیٰنِیۡ صَغِیۡرًا(بنی اسرائیل: 25) کہ ان سے رحم کا سلوک فرما، میرے بچپن میں جو رحم فرماتے رہے۔ مجھے انہوں نے اس دنیا کی حسنات سے نوازا۔
پھر ایک اور اقتباس ہے۔ اس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہیں کہ:’’انسان اپنے نفس کی خوشحالی کے واسطے دوچیزوں کا محتاج ہے۔ ایک دنیا کی مختصر زندگی اور اس میں جو کچھ مصائب شدائد اور ابتلاء وغیرہ اسے پیش آتے ہیں ان سے امن میں رہے۔ دوسرے فسق و فجور اور روحانی بیماریاں جو اسے خدا سے دور کرتی ہیں ان سے نجات پاوے۔ تو دنیا کا حسنہ یہ ہے کہ کیا جسمانی اور کیا روحانی طور پر یہ ہر ایک بلا اور گندی زندگی اور ذلت سے محفوظ رہے۔خُلِقَ الۡاِنۡسَانُ ضَعِیۡفًا (النساء: 29)‘‘ (فرمایا کہ دو چیزیں ہیں جن چیزوں کا انسان محتاج ہے۔ ایک تو اس دنیا کی زندگی ہے جو مختصر زندگی ہے گو کہ بعض دنیادار اس کو بہت لمبی زندگی سمجھتے ہیں اس میں جتنی مصیبتیں آنی ہیں، مشکلات آنی ہیں تکالیف آنی ہیں ابتلاء آنے ہیں ان سے بچنے کے لئے کوشش کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ وہ بچے۔ دوسرے فسق و فجور اور جتنی روحانی بیماریاں ہیں جو اسے خدا سے دُور کردیں ایک دیندار کے لئے یہ بھی بڑا ضروری ہے کہ وہ ان سے بھی نجات پائے تو یہ دنیا کی حسنات ہیں؟ فرمایا کہ) ’’ایک ناخن ہی میں درد ہو تو زندگی بیزار ہو جاتی ہے۔ …… اسی طرح جب انسان کی زندگی خراب ہوتی ہے جیسے بازاری عورتوں کا گروہ ہے کہ ان کی زندگی کیسی ظلمت سے بھری ہوئی اور بہائم کی طرح ہے کہ خدا اور آخرت کی کوئی خبر نہیں۔ تو دنیا کا حسنہ یہی ہے کہ خدا ہر ایک پہلو سے خواہ وہ دنیا کا ہو خواہ آخرت کا ہر ایک بلا سے محفوظ رکھے اورفِی الۡاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً میں جو آخرت کا پہلو ہے وہ بھی دنیا کی حسنہ کا ثمرہ ہے۔ اگر دنیا کا حسنہ انسان کو مل جاوے تو وہ فال نیک آخرت کے واسطے ہے‘‘۔ (اگر اس دنیا میں انسان کو حسنہ دنیا کی حسنات مل جائیں جن کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے اوپر ذکرفرمایا۔ تو فرمایا کہ وہ آخرت کے لئے نیک فال ہے۔) ’’یہ غلط ہے جو لوگ کہتے ہیں کہ دنیا کا حسنہ کیا مانگنا ہے آخرت کی بھلائی ہی مانگو۔ صحت جسمانی وغیرہ ایسے امور ہیں جس سے انسان کو آرام ملتا ہے اور اسی کے ذریعہ سے وہ آخرت کے لئے کچھ کرسکتا ہے اور اس لئے ہی دنیا کو آخرت کا مزرعہ کہتے ہیں‘‘ (کہ دنیا جو ہے وہ آخرت کی کھیتی ہے) ’’اور درحقیقت جسے خدا دنیا میں صحت عزت اولاد اور عافیت دیوے اور عمدہ عمدہ اعمال صالح اس کے ہوویں تو امید ہوتی ہے کہ اس کی آخرت بھی اچھی ہوگی۔‘‘ (تفسیرحضرت مسیح موعود جلد اول صفحہ 696-695 زیر سورة البقرہ آیت 202) (تب بھی اللہ تعالیٰ کا خوف دل میں رہتا ہے۔ اعمال کرکے انسان بے پرواہ نہیں ہو جاتا کہ اب میں نے ایسے اعمال کرلئے کہ مجھے اللہ تعالیٰ کی رضا یقینی ہے اور جنت یقینی ہے۔) فرمایا کہ امید ہوتی ہے کہ اس کی آخرت بھی اچھی ہوگی۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ اس دنیا کی جو حسنات ہیں وہ آخرت میں بھی کام آئیں گی۔
اور پھر یہ دوسری آیت جو مَیں نے پڑھی تھی اس میں یہ فرمایا ہے کہ اُولٰٓئِکَ لَہُمۡ نَصِیۡبٌ مِّمَّا کَسَبُوۡا ؕ وَ اللّٰہُ سَرِیۡعُ الۡحِسَابِ(البقرة: 203) کہ یہی وہ لوگ ہیں جن کے لئے ایک بڑا اجر ہوگا اس میں سے جو انہوں نے کمایا۔ اللہ حساب لینے میں بہت تیز ہے۔ اس میں ایک تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو لوگ یہ دعا کریں گے کہ انہیں حسنات ملیں اور پھر اپنے عملوں کو بھی حتی المقدور اس کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کریں گے، ان حسنات کو حاصل کرنے کی کوشش کریں گے ان کو ان کے اعمال کے مطابق اللہ تعالیٰ اجر عطا فرمائے گا اور یقیناً وہ دنیا کی حسنات بھی حاصل کرنے والے ہوں گے۔ دین کی حسنات بھی حاصل کرنے والے ہوں گے اور آخرت کی حسنات بھی حاصل کرنے والے ہوں گے اور یہ جو فرمایا کہ وَ اللّٰهُ سَرِيْعُ الْحِسَابِ یہاں اس کا یہ مطلب ہے کہ اصل یہ دعا ہے جو پہلے کی گئی ہے جب تمہارے عمل دعا کے ساتھ مل جائیں گے تو جو نیکیاں کماوٴ گے اللہ تعالیٰ پھر اس کی جزا بھی دیتا ہے اور فوری دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کسی نیکی کا ادھار نہیں رکھتا بلکہ فوری بدلہ دیتا ہے۔ وہ نیکیاں فوری طور پر انسان کے کھاتے میں لکھی جاتی ہیں اور اپنے وقت پر وہ ظاہر ہورہی ہوتی ہیں۔ دعاوٴں کی قبولیت کے نشان جو ہیں ہر احمدی اس کا گواہ ہے ہر ایک کو کچھ نہ کچھ تجربہ ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے انہی حسنات کا ایک اظہار ہے۔
پھر ایک اور دعا ہے جو عموماً نماز میں تشہد اور درود شریف کے بعد پڑھتے ہیں۔ حضرت ابراہیمؑ کی دعا ہے کہ رَبِّ اجۡعَلۡنِیۡ مُقِیۡمَ الصَّلٰوۃِ وَ مِنۡ ذُرِّیَّتِیۡ ٭ۖ رَبَّنَا وَ تَقَبَّلۡ دُعَآءِ۔رَبَّنَا اغۡفِرۡ لِیۡ وَ لِوَالِدَیَّ وَ لِلۡمُؤۡمِنِیۡنَ یَوۡمَ یَقُوۡمُ الۡحِسَابُ (ابراھیم: 41-42) کہ اے میرے ربّ! مجھے نماز قائم کرنے والا بنا اور میری نسلوں کو بھی اے ہمارے ربّ اور میری دعا قبول کر اور اے ہمارے ربّ مجھے بخش دے اور میرے والدین کو بھی اور مومنوں کو بھی جس دن حساب برپا ہوگا۔
پس جب ہر نماز میں حساب کے دینے کی طرف توجہ دلائی گئی ہے تو یہ اس لئے ہے کہ ہمیں یہ کہا گیا ہے کہ اپنے ہر عمل پر نظر رکھو۔ حسنات یونہی نہیں مل جاتیں۔ دنیا کی حسنات کے لئے جو آخرت کی حسنات کا باعث بننے والی ہیں اپنے ہر عمل پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ روزمرہ خود اپنا محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے۔ عبادات کی طرف توجہ کرنے کی ضرورت ہے۔ نماز کے قیام کی طرف توجہ دلائی گئی ہے اور پھر اپنی اولاد کی نمازوں کی طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے۔ ان کی عبادات کی طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے۔ اس طرف بھی توجہ دینا ایک راعی کی حیثیت سے، گھر کے نگران کی حیثیت سے تمہارا فرض ہے۔ اور پھر اس میں من حیث الجماعت افراد جماعت کو توجہ دلائی گئی کہ ایک دوسرے کے لئے دعا کریں۔ اپنے والدین کے لئے بھی اور تمام مومنین کے لئے بھی اللہ تعالیٰ سے بخشش مانگیں جس دن کہ حساب قائم ہوگا۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے یہ فرمایا ہے کہ رَبَّنَا اغۡفِرۡ لِیۡ سے صرف اپنی مغفرت مرادنہیں ہے۔ آگے اس کی وضاحت بھی ہوتی ہے لیکن فرمایا کہ بعض دفعہ جو واحد متکلم ہے جمع متکلم ہو جاتا ہے۔ (ملفوظات جلد دوم صفحہ585، 586) (ماخوذ از البدر جلد اول نمبر 9مورخہ 26 دسمبر 1902ء صفحہ 69 کالم 1)
یعنی کہ جو ایک کلام کرنے والا ہے، اپنے لئے مانگنے والا ہے بول رہا ہوتا ہے تو وہ بعض صورتوں میں ایک نہیں رہتا بلکہ جمع ہو جاتا ہے۔ اور یہاں یہی صورت ہے کہ پوری جماعت کے لئے دعا مانگی گئی ہے۔ پورے مومنین کے لئے دعا مانگی گئی ہے۔ پس اس دعا کو ہمیشہ ہمیں اپنے سامنے رکھنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں تمام نیکیاں بجالانے کی توفیق عطا فرمائے اور دنیا اور آخرت کی حسنات حاصل کرنے کے لئے ہمیں تمام ان راستوں پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے جو اللہ تعالیٰ کی نظر میں حقیقی راستے ہیں، جو اس طرف لے جانے والے راستے ہیں۔ اسی طرح ایک اور بات کی طرف بھی اس حوالے سے توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ ایک عام احمدی اور ایک عہدیدار میں بھی جو فرق ہے وہ عہدیداروں کو بھی ملحوظ رکھنا چاہئے اور نمازوں کے قیام کے لئے بھی اور دوسری نیکیاں بجالانے کی طرف بھی اپنے نمونے قائم کریں۔ تبھی ایک عام احمدی جو ہے اس کی بھی اس طرف توجہ ہوگی۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔
(الفضل انٹرنیشنل جلد17شمارہ15 مورخہ9اپریل تا15اپریل 2010صفحہ5تا8)
رزق مادی رزق اور دولت کا نام ہی نہیں بلکہ تمام تر روحانی صلاحیتیں اور قویٰ جو انسان کو دئے گئے ہیں وہ رزق کے زمرہ میں آتے ہیں اور یہ رزق بھی تمام و کمال اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کو عطا فرمایا تھا آپﷺ نے وہ روحانی رزق آگے صحابہؓ میں تقسیم فرمایا اور آج مسیح موعودؑ نے بھی وہی خزانے تقسیم کرنے ہیں، حارث یعنی حراث والی حدیث کا مضمون، حضرت مسیح موعودؑ کی کتب کے تراجم کا کام ہو رہا ہےاردو پڑھنے والے خاص طور پر اس روحانی غذا سے فائدہ اٹھائیں، عمل کو بھی نیت کے مطابق پرکھا جائے گا، اعمال نامہ ایک ڈائری کی شکل میں تیار ہو رہا ہے اور قیامت کے دن گردن میں لٹکایا جائے گا، انسان کو خود اپنا محاسبہ کرنا چاہیے اس طرح انسان محتاط رہتا ہے، سریع الحساب کی تشریح، دعا ربنا اغفرلی سے اپنی مغفرت مرادنہیں بلکہ حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا ہے کہ بعض دفعہ واحد متکلم جمع متکلم کا ہو جاتا ہے، ایک عام احمدی اور عہدیدارمیں ایک جو فرق ہے اسے بھی ملحوظ رکھنا چاہیےنمازوں کے قیام اور دوسری نیکیوں میں اپنے نمونے قائم کریں۔
خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 19مارچ 2010ء بمطابق 19امان 1389 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن (برطانیہ)
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔