تبلیغ اور اسلام کی نشاة ثانیہ
خطبہ جمعہ 9؍ اپریل 2010ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
تشہد و تعوذ اور سورة فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
گزشتہ خطبہ میں مَیں نے بتایا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا کام احیائے دین ہے۔ وہ دین جو زمانہ کے ساتھ ساتھ اپنی عظمت تقریباً کھو چکا تھا۔ وہ ساکھ جو اس دین کی تھی وہ اس طرح نظر نہیں آتی تھی، جس پر ہر طرف سے حملے ہو رہے تھے۔ مثلاًدنیاوی لحاظ سے اس ملک میں ہی چند صدیوں کے عروج کے بعد ایسا زوال آیا کہ اسلام کا نام ہی اس ملک سے ختم کر دیا گیا اور جو اسلام پر قائم رہنا چاہتے تھے انہیں بھی عیسائی بادشاہوں نے ظلم کا نشانہ بنا کر جبر سے عیسائی بنا لیا یا کم از کم ظاہری اقرار کروا لیا اور پھر آہستہ آہستہ ان کی نسلوں سے اسلام ختم ہی ہو گیا۔ روحانی لحاظ سے اسلام کا یہ حال تھا کہ ہر جگہ عیسائی مبلغین اپنا زبردست جال بچھا کر مسلمانوں کو عیسائیت کے جال میں پھانستے چلے جا رہے تھے۔ یا یوں کہہ لیں کہ مسلمان اپنی روحانی کمزوری کی وجہ سے ان کے جال میں پھنستے چلے جا رہے تھے۔ ہندوستان جو مسلمان بزرگوں اور اولیاء کی وجہ سے اسلام کا قلعہ کہلاتا تھا اس میں بھی لاکھوں مسلمان عیسائیت کی آغوش میں جا کر خود روحانی موت کی آغوش میں گر رہے تھے۔ اُس وقت اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مبعوث فرما کر اسلام کی نشأة ثانیہ کے سامان پیدا فرمائے اور آپ نے اللہ تعالیٰ سے علم پا کر تمام مذاہب کے ماننے والوں پر اسلام کی خوبصورت تعلیم کا سب مذاہب سے اعلیٰ ہونا ثابت فرمایا۔ عیسائی پادری جوحضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آنحضرتﷺ پر فوقیت اور برتری دیتے تھے، اس کی حقیقت کو اس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے سامنے رکھا کہ عیسائی پادری جو چند سالوں میں پورے ہندوستان میں عیسائیت کے غلبہ کی باتیں کرتے تھے، اپنے دفاع پر مجبور ہوئے۔ بلکہ میدان سے ہی بھاگ گئے۔ (The Mission by Rev. Robert Clark M.A. page 234. London Church Missionary Society Salisbury Sqaure. E.C. 1904) (دیباچہ تفسیر القرآن از مولانا اشرف علی تھانوی صفحہ 30۔ ایڈیشن 1934ء)
اور اپنے ماننے والوں کو یہ ہدایت دینے لگ گئے کہ احمدیوں سے کسی قسم کی بحث نہیں کرنی۔ ورنہ وہ تم پر اسلام کی برتری ثابت کر کے تمہیں تمہارے دین سے برگشتہ کر دیں گے۔ (ماخوذ تاریخ احمدیت جلد 2 صفحہ 95 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)
پادریوں نے یہاں تک تسلیم کیا کہ جو اسلام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پیش کر رہے ہیں۔ اور جس طرح کی تعلیم آپ پیش کر رہے ہیں اس نئے اسلام کی وجہ سے (جو ان کی نظر میں نیا تھا لیکن حقیقی اسلام تھا) محمدﷺ کو پھر وہی پہلی سی عظمت حاصل ہو رہی ہے۔ (The Offical Report of the Missionary Conference of the Anglican Comunion, 1894. Page64) (بحوالہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ مسلم ہندوستان اور انگریز از جمیل احمد بٹ صفحہ 224طبع اول 2003ء)
جیسا کہ مَیں نے کہایہ کوئی نیا اسلام نہیں تھا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے پیش فرمایا بلکہ اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق احیائے موتیٰ کے نظارے تھے جو آپ نے اللہ تعالیٰ سے علم پا کر دکھائے۔ اور اسلام کی برتری عیسائیت اور تمام ادیان پر ثابت فرمائی۔
پس جیسا کہ مَیں گزشتہ خطبہ میں کہہ چکا ہوں، احیائے مو تیٰ کا یہ کام آج ہر احمدی کا بھی ہے۔ اپنی حالتوں کو بدلنے کی طرف توجہ کرتے ہوئے اور اپنی عملی کوششوں کو بروئے کار لاتے ہوئے سپین کی جماعت کے ہر فرد کو بھی اب اس طرف توجہ دینی چاہئے اور سستیاں دُور کرنی چاہئیں۔ ان دلائل سے اور علمی اور روحانی خزانے سے کام لیتے ہوئے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیں دئیے ہیں، اپنی تبلیغی کوششوں کو تیز کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن یہ بھی واضح ہو کہ اس زمانہ میں عیسائیوں کی اکثریت عموماً مذہب سے دور ہے۔ اس لئے پہلے تو ان کو مذہب کی ضرورت اور خدا تعالیٰ کی ہستی پر یقین کی طرف لانا ہے۔ اور جیسا کہ مَیں نے کہااس کے لئے عملی نمونے اور علمی اور روحانی ترقی کی طرف قدم بڑھانا ضروری ہے۔ تقویٰ میں ترقی ضروری ہے۔ کیونکہ جب تک ہماری روحانی ترقی نہیں ہوتی ہماری تبلیغ میں بھی برکت نہیں پڑ سکتی۔ یہ تو خدا تعالیٰ کی تقدیروں میں سے تقدیر ہے کہ اسلام کا غلبہ تمام ادیان پر ہونا ہے۔ انشاء اللہ۔ یہ تو خدا تعالیٰ کا فیصلہ ہے کہ حقیقی اور زندہ دین صرف اور صرف اسلام ہے۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کا اعلان ہے کہ حضرت محمد مصطفیﷺ کی اطاعت ہی اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کا ذریعہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا اقرار اور اس کے لئے اس کے مطابق اپنے عملوں کو ڈھالنا ہی نجات کا ذریعہ ہے۔ پس یہی مقصد ہے جس کے لئے کوشش کی اور دعاوٴں کی ضرورت ہے۔ یہی ایک چیز ہے جس کو ہم نے اپنے اوپر بھی لاگو کرنا ہے اور دنیا کو بھی نجات دلانے کے لئے یہ پیغام پہنچانا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ’’خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ ان تمام روحوں کو جو زمین کی متفرق آبادیوں میں آباد ہیں کیا یورپ اور کیا ایشیا ان سب کو جو نیک فطرت رکھتے ہیں توحید کی طرف کھینچے اور اپنے بندوں کو دینِ واحد پر جمع کرے۔ یہی خدا تعالیٰ کا مقصد ہے جس کے لئے مَیں دنیا میں بھیجا گیا۔ سوتم اس مقصد کی پیروی کرو مگر نرمی اور اخلاق اور دعاوٴں پر زور دینے سے‘‘۔ (رسالہ الوصیت۔ روحانی خزائن جلد 20صفحہ307-306)
پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام جس مقصد کے لئے بھیجے گئے، اس کے حصول کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہماری بھی یہ ذمہ داری لگائی ہے کہ اپنی تمام استعدادوں اور صلاحیتوں کے ساتھ کوشش کریں۔ جیسا کہ مَیں نے کہا ہے آج کل یورپ بلکہ پوری دنیا ہی مذہب کے نام پر شرک میں مبتلا ہے، یا خدا تعالیٰ کے وجود سے ہی انکاری ہے۔ آپ لوگ چونکہ یورپ میں رہتے ہیں اس لئے یورپ کی بات کر رہا ہوں۔ اور پھر جیسا کہ مَیں پہلے بھی اظہار کر چکا ہوں، ایک وقت تو وہ تھا جب اِس ملک میں لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ اور اَللّٰہُ اَکْبَرُ کی آواز ہر طرف گونجا کرتی تھی۔ مختلف جگہوں پر مساجد اس بات کی آئینہ دار ہیں۔ مختلف جگہوں پر دیواروں پر جو الفاظ کُھدے ہوئے ہیں وہ اس بات کا اعلان کرتے ہیں کہ اس ملک کی فضا میں توحید کے اعلان کی خوشبو رچی بسی ہوئی تھی۔ لیکن ہمارے ہی لوگوں کی روحانی گراوٹ نے توحید کی حفاظت نہ کر سکنے کی وجہ سے جہاں اپنی ذلت کے سامان کئے وہاں اس ملک کو تثلیث کی جھولی میں ڈال دیا۔
اب جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ یہ فیصلہ تو خدا تعالیٰ نے کر لیا ہے کہ دنیا کو توحید پر قائم کرے اور دینِ واحد کی طرف کھینچے اور جیسا کہ اللہ تعالیٰ کی ہمیشہ سے یہ سنت ہے اس مقصد کے لئے وہ اپنے فرستادے اور انبیاء بھیجتا ہے۔ اس نے اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھی اسی مقصد کے لئے بھیجا ہے اور ہمیں اپنے خاص فضل اور رحم سے یہ توفیق دی کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں شامل ہوئے۔ لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہماری بیعت کو ہماری زندگی کا آخری مقصد قرار نہیں دیا بلکہ فرمایا کہ میرے آنے کا مقصد توحید کا قیام ہے اور دنیا کو دینِ واحد پر جمع کرنے کے لئے تم میری پیروی کرو تبھی تم اس مقصد کو حاصل کرنے والے کہلا سکتے ہوجو میری بعثت کا مقصد ہے۔ لیکن نرمی سے اور نرمی بھی اس وقت آتی ہے جب دلائل پاس ہوں۔ ہمارے مخالفین ہمارے خلاف اسی لئے سخت زبان استعمال کرتے ہیں، گالیاں نکالتے ہیں یا سختیاں کرتے ہیں اور ہمارے خلاف طاقت کا استعمال کیا جاتا ہے کہ ان کے پاس دلائل نہیں ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیں فرمایاکہ مَیں نے تو قرآنی دلائل سے تمہیں اس قدر بھر دیا ہے کہ غصہ میں آنے کی ضرورت ہی نہیں۔ اپنی بحثوں میں، باتوں میں نرمی اختیار کرو۔ دنیا پر ثابت کرو کہ اسلام کی تعلیم وہ خوبصورت تعلیم ہے جس کو پھیلنے کے لئے تلوار کی ضرورت نہیں۔ یہ تو وہ نور ہے جو ہر سعید فطرت کے دل کو روشن کرتا چلا جاتا ہے۔ یہ تو وہ اعلیٰ تعلیم ہے جو اخلاقی معیاروں کو بڑھاتی چلی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ جہاں حقوق اللہ کی ادائیگی کی تعلیم دیتا ہے، وہاں اسلام کی تعلیم حقوق العباد کی طرف بھی خاص طور پر توجہ دلاتی ہے۔ لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک بنیادی بات کی طرف بھی ہمیں توجہ دلا دی کہ یہ پیروی اس وقت تک حقیقی پیروی نہیں کہلا سکتی، تمہاری کوششیں اور تمہاری کاوشیں اس وقت تک ثمر آور نہیں ہو سکتیں جب تک ان کو دعاوٴں سے نہیں سینچو گے۔ توحید کے قیام اور دینِ واحد کے پھیلنے کا اصل ذریعہ روحانی ترقی ہے۔ اور روحانی ترقی اس وقت تک نہیں ہو سکتی جب تک تم دعاوٴں کے ذریعہ خدا تعالیٰ سے اپنا تعلق پیدا نہیں کرتے۔ وہ کام جو خدا تعالیٰ کی خاطر اس کی طرف بلانے کے لئے ہو رہا ہو، وہ کام جو خدا تعالیٰ کو سب سے زیادہ پسندیدہ ہو، اس کو تم کس طرح اس سے زندہ تعلق پیدا کئے بغیر سر انجام دے سکتے ہو۔
پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیں اس بنیادی نکتہ کی طرف توجہ دلائی ہے کہ دعاوٴں سے کام لو، دعاوٴں سے کام لو کہ اس کے بغیر کامیابی یقینی نہیں ہو سکتی، اس کے بغیر مقصد حاصل نہیں ہو سکتا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بڑا واضح فرمایا ہے کہ ہماری فتح تو ہونی ہی دعاوٴں کے ذریعہ سے ہے۔ لیکن ساتھ ہی تبلیغ کی طرف بھی توجہ دلائی ہے۔ کوشش کے ساتھ دعا ہو تو پھر پھل لگتے ہیں۔ اور دعا کے ساتھ اپنی حالتوں کی طرف توجہ کرنی بھی ضروری ہے۔
اللہ تعالیٰ نے جب تبلیغ کی طرف توجہ دلائی ہے تو ساتھ ہی تبلیغ کرنے والوں کو عملی حالت کی درستی کی طرف بھی توجہ دلائی ہے۔ فرمایا۔وَ مَنۡ اَحۡسَنُ قَوۡلًا مِّمَّنۡ دَعَاۤ اِلَی اللّٰہِ وَ عَمِلَ صَالِحًا وَّ قَالَ اِنَّنِیۡ مِنَ الۡمُسۡلِمِیۡنَ(حٰمٓ السجدة: 34)۔ اور بات کہنے میں اس سے بہتر کون ہو سکتا ہے جو اللہ کی طرف بلائے اور نیک اعمال بجا لائے۔ اور کہے کہ مَیں یقیناً کامل فرمانبرداروں میں سے ہوں۔ پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ بہترین بات جو تم کرتے ہو وہ اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دینا ہے۔ باقی تمام کام ثانوی حیثیت رکھتے ہیں۔ جو ذرائع میسر ہیں انہیں کام میں لاوٴ اور جب موقع ملے، ان بہترین لوگوں میں شامل ہونے کی کوشش کرو جو خدا تعالیٰ کی طرف بلاتے ہیں اور پھرخدا تعالیٰ کی طرف بلانے کے لئے اپنے عمل کی طرف بھی توجہ رکھو۔ وہ نیک اعمال بجا لانے کی کوشش کرو جن کے کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ قرآنِ کریم میں سینکڑوں ایسے احکامات ہیں۔ بعض حکم ہیں جن کے کرنے کا ایک مومن کو حکم ہے۔ بعض باتیں ہیں جن کو نہ کرنے کا ایک مومن کو حکم ہے۔ تو جب ایک انسان ان چیزوں کے کرنے سے رکتا ہے جن سے خدا تعالیٰ نے روکا ہے اور ان چیزوں کو بجا لانے کی کوشش کرتا ہے جن کے کرنے کا خدا تعالیٰ نے حکم دیا ہے تو یہ اعمالِ صالحہ ہیں۔ اب اگر ہم جائزہ لیں تو بہت سی باتیں نیکی کی ایسی ہیں روزمرہ کے گھریلو معاملات میں بھی، معاشرے کے معاملات میں بھی، جماعتی طور پر نظام کی پابندی کرنے کے بارے میں بھی اور عبادات بجا لانے میں بھی جو ہم نظر انداز کر دیتے ہیں۔ تو ایک داعی الی اللہ کو اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ اس کی ایک شرط اور بہت اہم شرط اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمائی ہے کہ وہ نیک اعمال بجا لانے والا ہو۔ اپنے نیک عمل ہوں گے تو تب ہی دوسروں کو بھی نیکی کی طرف بلایا جا سکتا ہے۔ دوسرے کو بھی کہا جا سکتا ہے کہ آوٴ مَیں تمہیں دکھاوٴں کہ اللہ تعالیٰ کے ایک فرستادہ نے، ایک شخص نے جو اس زمانے کی اصلاح کے لئے آیا ہے، مجھے ایسے راستے بتائے ہیں جن پر چل کر مَیں خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والا بن گیا ہوں یا اس طرف چل کے مَیں بہت لحاظ سے، ایک حد تک اپنے دل میں سکون اور چین پاتا ہوں اور اس طرف میرے ترقی کے قدم بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ اپنی دنیا و آخرت سنوارنے کی طرف مَیں اس تعلیم کی وجہ سے متوجہ ہوا ہوں۔ آوٴ تم بھی میری باتیں سنو۔ جس طرح مَیں فرمانبردار بننے کی کوشش کر رہا ہوں، تم بھی اس دین کی طرف آوٴ اور اپنی دنیا و عاقبت سنوارنے کی کوشش کرو۔
پس ایک داعی الی اللہ کے لئے یہ ضروری ہے اور صرف یہ داعی الی اللہ کو یاد رکھنا ہی ضروری نہیں ہے بلکہ ہر احمدی چاہے وہ فعال ہو کر تبلیغ کرتا ہے یا نہیں اگر دنیا کے علم میں ہے کہ فلاں شخص احمدی ہے، اگر ماحول اور معاشرہ جانتا ہے کہ فلاں شخص احمدی ہے تو وہ احمدی یاد رکھے کہ اس کے ساتھ احمدی کا لفظ لگتا ہے، اگر وہ تبلیغ نہیں بھی کر رہا تو تب بھی اس کا احمدی ہونا اسے خاموش داعی الی اللہ بنا دیتا ہے۔ بعض دفعہ غیر احمدیوں اور غیر مسلموں کے مجھے خط آ جاتے ہیں کہ آپ کی جماعت کی نیکی کی تو بڑی شہرت سنی ہے اور آپ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم سب مسلمانوں سے اچھے ہیں، لیکن فلاں احمدی نے مجھے اس طرح دھوکہ دیا ہے، میرا حق اُس سے دلوایا جائے۔ تو ایک احمدی کا ایک عمل، ایک فعل، پوری جماعت کی بدنامی کا باعث بن جاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ جو انسانی فطرت کی پاتال تک سے واقف ہے جس طرح وہ اپنی مخلوق کو جانتا ہے کوئی اور نہیں جان سکتا ہے، اسی نے پیدا کیا ہے۔ اس نے یہ فرمایا کہ دعوت الی اللہ کرنے والے سے کون بہتر ہو سکتا ہے؟ تو ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ دعوتِ الی اللہ کرنے والے کی کوشش ہوتی ہے اور ہونی چاہئے کہ وہ اعمالِ صالحہ بجا لائے اور یہ اعلان کرے کہ مَیں کامل فرمانبردار بنتا ہوں یا بننے کی کوشش کروں گا۔ مجھ پرمسلمان ہونے کا احمدی ہونے کا صرف Labelنہیں لگا ہوا۔ بلکہ مَیں خدا تعالیٰ کے احکامات کو کامل فرمانبرداری سے ادا کرنے کی کوشش کرنے والا ہوں اور ایک مسلمان فرمانبردار تبھی بنتا ہے جب حقوق اللہ کی طرف بھی توجہ رہے اور حقوق العباد کی طرف بھی توجہ ر ہے۔ یاد رکھنا چاہئے کہ مسلمان کے فرمانبردار ہونے کا عبادت کے ساتھ بہت تعلق ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی فرمایا ہے کہ مسلمان وہی ہے جو دعا اور صدقات کا قائل ہو۔ (ملفوظات جلد اول صفحہ 195) حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام نے جب خانہ کعبہ کی دیواریں کھڑی کرتے ہوئے دعا کی اور ایک عظیم نبی کے برپا ہونے کے لئے خدا تعالیٰ سے دعا مانگی کہ وہ نبی جو آیات پڑھ کر سنائے، کتاب اور حکمت سکھائے اور نفسوں کو پاک کرے تو اس دعا سے پہلے اپنے لئے اور اپنی ذریت کے لئے بھی یہ دعا مانگی کہ رَبَّنَا وَ اجۡعَلۡنَا مُسۡلِمَیۡنِ لَکَ وَ مِنۡ ذُرِّیَّتِنَاۤ اُمَّۃً مُّسۡلِمَۃً لَّکَ ۪ وَ اَرِنَا مَنَاسِکَنَا (البقرة: 129) کہ اے ہمارے ربّ! ہم دونوں کو اپنا فرمانبردار بنا اور ہماری اولادمیں سے بھی ایک فرمانبردار جماعت بنا اور ہمیں ہمارے عبادت کے طریق بتا۔
پس عبادت کے بغیر وہ مقصد پورا نہیں ہو سکتا جس کے لئے انبیاء آتے ہیں اور جس کے لئے آنحضرتﷺ انسانِ کامل اور اوّل المسلمین تشریف لائے۔ اللہ تعالیٰ کی تعلیم اور حکمت کی باتوں کی سمجھ اس وقت آتی ہے جب نفس میں پاکیزگی ہو۔ اور نفس کی پاکیزگی اس وقت آتی ہے جب عبادت کے اسلوب آتے ہوں، جب خدا تعالیٰ رہنمائی فرمائے اور اس عبادت کے طریق سکھائے جو اس کے ہاں مقبول ہوتی ہے۔
ہم احمدیوں کی خوش قسمتی ہے کہ ہم اس رسولﷺ پر ایمان لائے جنہوں نے ہمیں وہ عبادت کے طریق سکھائے جو اللہ تعالیٰ کے ہاں مقبول ہونے والے ہیں۔ اور پھر ہماری خوش قسمتی یہ بھی ہے کہ ہمیں اللہ تعالیٰ کا قرب پانے کے لئے آنحضرتﷺ کے عاشقِ صادق کو ماننے کی توفیق ملی جنہوں نے ہمیں بار بار دعاوٴں اور عبادت کی طرف توجہ دلائی اور واضح فرمایا کہ جہاں دعوتِ الی اللہ کے لئے علم حاصل کرو، وہاں اللہ تعالیٰ کا یہ بھی فرمان ہے کہ اپنے اعمال کی سمت بھی درست رکھو۔ اپنے اعمال کو اس نہج پر بجا لاوٴ جس کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ دعاوٴں اور عبادات پر زور دو۔
پس ایک تو ہر احمدی جو اپنے آپ کو احمدی کہتا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرف منسوب کرتا ہے اس کا فرض ہے کہ وہ اپنے اعمال اس لئے درست رکھے کہ اس پر ہر ایک کی نظر ہے۔ اگر کسی قسم کا ایسا دینی علم نہیں بھی ہے جو اسے فعّال داعی الی اللہ بنا سکے تب بھی اس کا ہر فعل اور عمل اور قول دوسروں کی توجہ کھینچنے کا باعث بن سکتا ہے۔ اگر نیک اعمال ہیں تو لوگ نیکی سے متاثر ہو کر قریب آئیں گے۔ اگر نیک اعمال توجہ کھینچنے کا باعث نہیں ہیں تو شیطان کے چیلے جو ہیں اسے اپنے مقاصد کے لئے پکڑ لیں گے۔ اس سے غلط حرکتیں کرائیں گے۔ آج کل کے زمانے میں تو اس قسم کے لوگ ہر طرف پھیلے ہوئے ہیں جو کوشش کرتے ہیں کہ کسی طرح ہم کسی کو قابو کریں اور اپنے مقاصد کے لئے استعمال کریں۔ اور پھر ایک احمدی جو ہے برائیوں میں پڑ کر ان کے ہاتھوں میں چڑھ کر جماعت کی بدنامی کا باعث بن جاتا ہے۔
دوسری بات جیسا کہ مَیں پہلے گزشتہ تقریر میں شائد بتا چکا ہوں کہ ہر احمدی جو پاکستانی ہے عموماً اس کا باہر کے ملک میں آنا اس کے احمدی ہونے کی وجہ سے ہے۔ اس لئے جہاں دنیا کمانے کی طرف توجہ دیتے ہیں وہاں اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بندہ بنتے ہوئے ہفتہ میں کچھ وقت کم از کم ایک دن تو ضرور دعوتِ الی اللہ کے لئے نکالیں۔ یہاں جو چند سو احمدی ہیں اگر وہ فعال ہو جائیں تو تبلیغ کی رفتار کئی گنا بڑھ سکتی ہے۔ جماعتی طور پر بھی تبلیغ کا پروگرام بنے اور ذیلی تنظیموں کی سطح پر بھی تبلیغ کا پروگرام بنے تو ایک بہت بڑے طبقہ میں نہیں تو کم از کم ایک خاصے طبقہ میں جماعتی تعارف ہو جائے گا۔ جیسا کہ مَیں نے کہا ہے کہ آج کل ان لوگوں کو مذہب سے بھی لا تعلقی ہے اور ایک تعداد ایسی بھی ہے جن کو خدا تعالیٰ کے وجود پر ہی یقین نہیں۔ اللہ تعالیٰ کی ہستی پر ہی یقین نہیں ہے۔ پس ہر طبقہ کے لحاظ سے ان کو تبلیغ کی ضرورت ہے۔ بیشک یہاں کی اکثریت مذہب سے دوری کے باوجود کیتھولک اثر کے تحت اور ایک لمبا عرصہ عیسائیت کے زیرِ اثر رہنے کی وجہ سے اور اس ظالمانہ تاریخ کی وجہ سے جو مسلمانوں کو زبردستی عیسائی بنانے کی ثابت ہے، اور بعض خاندانوں اور قبیلوں میں یہ ظالمانہ قصے چلتے بھی چلے جا رہے ہیں، اب بھی روایتاً چل رہے ہیں، اسلام کے بارہ میں یہ لوگ اس وجہ سے سننا بھی نہیں چاہتے۔ لا تعلق ہیں یا خوفزدہ ہیں۔ لیکن اب بعض جگہ اس ملک میں بھی عیسائیت یا مذہب کے متعلق بے چینی کا اظہار ہونا شروع ہو گیا ہے۔ بلکہ ڈاکٹر منصور صاحب نے مجھے بتایا کہ ویلنسیا میں چار سو سالہ کوئی تقریب منائی جا رہی ہے اس میں یہ بھی اظہار ہو گا کہ ہم نے مسلمانوں کا جو جینوسائیڈ (Genocide) کیا یا بڑے وسیع پیمانے پر قتلِ عام کیا ہے، وہ غلط تھا اور ہمیں اس کی معافی مانگنی چاہئے۔ تو یہ احساس جو اَب ابھر رہا ہے اس کو مزید ابھارنے کے لئے ہمارے پاس ایسا لٹریچر اور تبلیغی کوشش ہونی چاہئے کہ اسلام کی خوبصورت تعلیم تو یہ ہے جو پیار، محبت اور بھائی چارہ سے رہنے اور مذاہب کے عزت و احترام کی تلقین کرتی ہے۔ جو کچھ ہوا وہ یقیناً ظلم تھا۔ تو یہ ایک تعارف کا ذریعہ بنے گا۔ عیسائیت کو چھیڑنے کی ضرورت نہیں ہے۔ بڑی حکمت سے اسلام کی خوبیاں بیان کرنے کی ضرورت ہے تا کہ زیادہ سے زیادہ اسلام کا تعارف ہو۔ اور پھر یہ بتایا جائے کہ اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے آکر اسلام کا یہ صحیح رخ پیش کیا ہے جو دنیا کی نجات کا باعث بننے والا ہے۔ یہ حالات جب خدا تعالیٰ نے پیدا فرمائے ہیں تو اللہ تعالیٰ اب یہ موقع عطا فرما رہا ہے اور جن کے سپرد اس زمانہ میں اسلام کی تبلیغ کا کام کیا گیا ہے ان کو یہ موقع دیا جا رہا ہے کہ وہ اس سے فائدہ اٹھائیں اور اس ملک میں اسلام کی کھوئی ہوئی عظمت کو دوبارہ قائم کرنے کی کوشش کریں۔ اور یہ اس وقت ہو گا جب یہاں رہنے والوں میں سے ہر ایک احمدی کو یہ احساس ہو گا کہ دعوت الی اللہ ہماری ذمہ داری ہے۔ صرف اس بات پر نہ بیٹھے رہیں کہ یہ لوگ مذہب سے لا تعلق ہیں یا کیتھولک اثر کی وجہ سے اسلام کا پیغام سننا نہیں چاہتے۔ کیا چالیس پچاس یا ساٹھ سال پہلے کوئی تصور کر سکتا تھا کہ مسلمانوں کو آزادی سے یہاں تبلیغ کی اجازت مل سکتی ہے یا ہم مسجد بنا سکتے ہیں۔ کیا یہ تصور ہو سکتا تھا کہ ایک وقت آئے گا کہ جب انہیں مسلمانوں پر ظلموں کی وجہ سے شرمندگی کا احساس ہو گا اور معافی مانگنے کے اظہار کئے جائیں گے۔ پس یہ کام خدا تعالیٰ کے ہیں، جب چاہتا ہے کہ سعید فطرت لوگوں کو حق پہچاننے کی توفیق ملے تو ایسی ہوا چلاتا ہے کہ دل خود مائل ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ دلوں کو مائل کرنا خدا تعالیٰ کا کام ہے اور تبلیغ کرنا انبیاء کے ساتھ الٰہی جماعتوں کے افراد کا کام ہے۔ پس ہمارا کام یہ ہے کہ اپنے ملک کے حالات کے مطابق یہاں تبلیغ کے نئے نئے راستے تلاش کریں۔ مربیان کے ہفتہ میں ایک دن یا سال میں چند دنوں کے تبلیغی پروگرام بنانے سے پیغام نہیں پہنچ سکتا۔ وسیع اور باہمت منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ ٹارگٹ مقرر کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم نے ایک سال میں آبادی کے کم از کم ایک یا دو فیصد تک احمدیت کا تعارف پہنچانا ہے۔ جن ملکوں میں اس نہج پر کوشش ہو رہی ہے وہاں اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑے کامیاب نتائج نکل رہے ہیں۔ اور اس کے لئے جیسا کہ مَیں نے کہا ہے مربیان بھی اور جماعتی نظام بھی اور تمام ذیلی تنظیمیں بھی یہ سارے نظام ساتھ ساتھ چلیں۔ اللہ تعالیٰ نے انبیاء کے ذمہ بھی یہی کام لگایا تھا۔ یہی کام آنحضرتﷺ کے ذمہ بھی لگایا گیا۔ اور یہی کام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذمہ لگایا گیاکہ تمہارا کام پیغام پہنچانا ہے۔
اللہ تعالیٰ ایک جگہ فرماتا ہےفَاِنۡ اَعۡرَضُوۡا فَمَاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ عَلَیۡہِمۡ حَفِیۡظًا ؕ اِنۡ عَلَیۡکَ اِلَّا الۡبَلٰغُ (الشوریٰ: 49) پھر اگر وہ اعراض کریں تو ہم نے تجھے ان پر نگران بنا کر نہیں بھیجا۔ تجھ پر پیغام پہنچا دینے کے علاوہ کچھ فرض نہیں ہے۔ پس یہ فرض ہے جو ہر ملک میں احمدی نے ادا کرنا ہے۔ یہ فرض ہے جو آپ نے اس ملک میں ادا کرنا ہے۔ بڑی بڑی کتابیں دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ دو ورقہ شائع کریں بلکہ ایک ورقہ ہی جس میں مختصر الفاظ میں احمدیت کا تعارف ہو اور ایم ٹی اے، ویب سائٹ وغیرہ کا پتہ ہو۔ دلچسپی لینے والے پھر خود ہی توجہ کرتے ہیں۔ اسی طرح جہاں جہاں بھی احمدی رہتے ہیں اپنے علاقہ کے بڑے اور مشہور لوگوں سے رابطے کریں۔ اگر جس طرح مرکز ہدایات دے رہا تھا صحیح طور پر کام ہوا ہوتا، تو مسجد بشارت کو بنے ہوئے اب اٹھائیس سال ہو گئے ہیں اس حوالہ سے ہی آپ کا تعارف مختلف حلقوں میں ہو جاتا۔ ویلنسیا میں مسجد بنانے میں جوروک پڑ رہی ہے اگر تعلقات صحیح رکھے ہوتے تو وہ روکیں بہت پہلے دور ہو چکی ہوتیں۔ جب وقت آتا ہے تو اس وقت آپ کوشش کرتے ہیں، بجائے اس کے کہ لمبی منصوبہ بندی کرنے کے لئے پہلے سے سوچیں اور مستقل تعلقات رکھیں۔ پس ان سوچوں کو بھی بدلنے کی ضرورت ہے۔ ۔ اس مسجد کی تاریخ کے اٹھائیس سال میں اگر سال میں چند وفود یہاں آ جاتے ہیں تو یہ کوئی کامیابی نہیں ہے یا کوئی بہت بڑا معرکہ نہیں ہے جو آپ نے مار لیا ہے۔ لٹریچر کی وافر تعداد بھی آپ کے پاس نہیں ہے۔ آج کل دنیا کو امن اور معاشی حالات پر بھی کچھ کہنے سننے کا شوق ہے۔ اسلام کی جہاد کے نام پر جو بدنامی ہو رہی ہے اس بارہ میں بھی کچھ سننے کا شوق ہے۔ اس کے مطابق لٹریچر مہیا ہونا چاہئے، اور ہے مہیا، صرف ترجمہ کرنے کی ضرورت ہے۔
مَیں نے کہا تھا کہ بڑے شہروں سے ہٹ کر چھوٹے شہروں اور قصبوں میں جا کر جلسے اور سیمینار وغیرہ کریں۔ اس سے پہلے وہاں جا کر تعارف حاصل کریں۔ وہاں کے مذاہب کے لیڈروں کو دعوت دیں کہ ایک جلسہ منعقد کرتے ہیں جس میں ہر مذہب والا اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کرے اور اس کے مختلف عنوان آپ خود مقرر کر سکتے ہیں۔ اگر سیکرٹریان دعوت و تبلیغ فعّال ہوں، اگر جماعتی نظام فعّال ہو تو اس کے لئے کرائے پر ہال لئے جا سکتے ہیں۔ غرض کہ بے شمار طریقے ہیں۔ اگر مبلغین اور ذیلی تنظیمیں سب فعّال ہو جائیں تو بہت کام ہو سکتا ہے۔ جو سستیاں ہو رہی ہیں وہ ہر طرف سے ہو رہی ہیں۔ فی الحال تو ہم یہ دعویٰ نہیں کر سکتے کہ ہم نے پیغام پہنچانے کا حق ادا کر دیا۔ یہاں ٹورسٹ بھی بے انتہا آتے ہیں۔ ان کے لئے چھوٹا چھوٹا خوبصورت لٹریچر مختلف شکلوں میں بنا کر دیا جا سکتا ہے۔ ٹھیک ہے کچھ ایسے بھی ہوں گے جو نہیں بھی لیں گے۔ کچھ لیں گے لیکن تھوڑے فاصلے پر جا کے پھینک دیں گے۔ لیکن ایک ایسی تعداد بھی ہو گی جو پڑھے گی۔ پس ہمارا کام اپنی ذمہ داری کا ادا کرنا ہے۔ اگر ہم اس بات پر کہ Responceاچھی نہیں ہوتی ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جائیں تو یہ تو خدا تعالیٰ نے کہا ہی نہیں کہ تم تبلیغ کرو ضرور تمہیں اچھی توجہ ملے گی۔ اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے کہ اِنَّکَ لَا تَہۡدِیۡ مَنۡ اَحۡبَبۡتَ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ یَہۡدِیۡ مَنۡ یَّشَآءُ ۚ وَ ہُوَ اَعۡلَمُ بِالۡمُہۡتَدِیۡنَ(القصص: 57)۔ تو جسے پسند کرے ہدایت نہیں دے سکتا لیکن اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔
پس دنیا کی اصلاح کے لئے آنحضرتﷺ کی تڑپ اور آپ کی دعاوٴں کے جواب میں اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ ہدایت دینا خدا تعالیٰ کا کام ہے۔ جسے اللہ چاہے گا، جو سعید فطرت ہیں، انہیں ہدایت ملے گی۔ آپ کا کام تبلیغ کرنا اور دعائیں کرنا ہے، وہ کرتے رہیں۔ تو ہم کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ ہماری ہر کوشش کو ضرور پھل لگے گا۔ آپ کا کام اتمامِ حجت کرنا ہے، وہ کریں اور پھر دعاوٴں پر زور دیں۔ اللہ تعالیٰ ہماری بھی پردہ پوشی فرمائے۔ ہماری کمزوریوں سے صرفِ نظر فرمائے اور ہماری کوششوں کو قبول کرے۔ یہ دعائیں ہیں جو ہمیں کرنی چاہئیں۔ اگر ہماری کوششیں صحیح رنگ میں ہوں گی تو باقی کام خدا تعالیٰ کا ہے۔ پس کوشش اور دعا کا جو اُسوہ آنحضرتﷺ نے قائم فرمایا ہے اسے ہمیں اختیار کرنا ہو گا۔
یہاں مَیں اس سلسلہ میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ سپین کے جو واقفینِ نو بچے ہیں ان میں سے ایک تعداد جو یہاں کے پلے بڑھے ہیں، جن کو سپینش زبان بھی اچھی طرح آتی ہے اور جو نوجوانی میں قدم رکھ رہے ہیں، وہ اپنے آپ کوجامعہ میں جانے کے لئے بھی پیش کریں۔ تا کہ یہاں بھی اور دنیا کی اور مختلف جگہوں میں بھی جہاں سپینش بولی جاتی ہے اس زبان کو جاننے والے مبلغین کی جوکمی ہے اسے پورا کیا جا سکے اور ہم ان تک پیغام پہنچانے کا حق ادا کر سکیں یا کم از کم کوشش کر سکیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ’’ہمیں ایسے آدمیوں کی ضرورت ہے جو نہ صرف زبانی بلکہ عملی طور سے کچھ کر کے دکھانے والے ہوں۔ علمیت کا زبانی دعوی کسی کام کا نہیں۔ ایسے ہوں کہ نخوت اور تکبر سے بکلی پاک ہوں‘‘۔ (ملفوظات جلد 5 صفحہ 682 مطبوعہ ربوہ)
پھر آپ فرماتے ہیں کہ: ’’تبلیغِ سلسلہ کے واسطے ایسے آدمیوں دوروں کی ضرورت ہے، مگر ایسے لائق آدمی مل جاویں کہ وہ اپنی زندگی اس راہ میں وقف کر دیں۔ آنحضرتﷺ کے صحابہ بھی اشاعتِ اسلام کے واسطے دور دراز ممالک میں جایا کرتے تھے‘‘۔ (ملفوظات جلد 5 صفحہ 682 ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)
پھر آپ یورپ وغیرہ میں تبلیغ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’ان ممالک میں جانا ایسے لوگوں کا کام ہے جو ان کی زبان سے بھی بخوبی واقف ہوں۔ اور ان کے طرزِ بیان اور خیالات سے خوب آگاہ (ہوں )۔‘‘ (ملفوظات جلد 5 صفحہ 684 مطبوعہ ربوہ)
یہاں رہنے والے جو ہیں وہی اس چیز سے آگاہ ہو سکتے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ نے جو وقفِ نو کی سکیم کے تحت والدین کو اولاد وقف کرنے کی توفیق عطا فرمائی ہے۔ اب اس نہج پر بچپن سے ہی ان کی تربیت کرنا بھی والدین کا کام ہے۔ ایسی تربیت کریں کہ وہ جامعہ کے لئے اپنے آپ کو پیش کریں۔ یہاں کی زبان اور طرزِ زندگی سے بھی واقفیت حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ جماعت کا تبلیغ کا کام کوئی چند سال کا یا دوچار، دس سال کا کام نہیں ہے۔ یہ تو ہمیشہ جاری رہنا ہے۔ پس جہاں فوری طور پر ہنگامی بنیادوں پر تبلیغ کے پروگرام بنیں۔ وہاں لمبے عرصہ پر حاوی اور گہری سوچ و بچار کے بعد وسیع پروگرام بھی بنائیں۔ تبھی ہم تبلیغ کا حق ادا کرنے کی کوشش کرنے والے کہلا سکتے ہیں۔ پس اس کے لئے ہمیں خالص ہو کر کوشش کرنے کی ضرورت ہو گی۔ اپنی زندگیوں کو تقویٰ سے بھرنا ہو گا۔ عہدیداروں کو صرف عُہدوں سے غرض نہیں ہونی چاہئے بلکہ اس مقصد کی پہچان کرنی ہو گی جس کے لئے اللہ تعالیٰ ان کو خدمت کا موقع دے رہا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ’’اللہ کا خوف اسی میں ہے کہ انسان دیکھے کہ اس کا قول و فعل کہاں تک ایک دوسرے سے مطابقت رکھتا ہے‘‘۔
فرماتے ہیں: ’’جو دل ناپاک ہے، خواہ قول کتنا ہی پاک ہو، وہ دل خدا کی نگاہ میں قیمت نہیں پاتا‘‘۔
فرمایا: ’’پس میری جماعت سمجھ لے کہ وہ میرے پاس آئے ہیں، اسی لئے کہ تخم ریزی کی جاوے جس سے وہ پھلدار درخت ہو جائے۔ پس ہر ایک اپنے اندر غور کرے کہ اس کا اندرونہ کیسا ہے؟ اور اس کی باطنی حالت کیسی ہے؟‘‘ (ملفوظات جلد اول صفحہ 8 مطبوعہ ربوہ)
اب یہ جو فرمایا کہ تخم ریزی کی جائے تو تخم (بیج) تو اسی لئے لگایا جاتا ہے کہ اس کو پھل لگیں۔ ہر احمدی کو پھل کی دو صورتیں ہیں۔ ایک اپنی حالتوں کو بدلنے کے لئے، ایک اپنی نسلوں کو احمدیت پر قائم رکھنے اور تقویٰ پر چلانے کے لئے اور پھر پیغام پہنچا کر دنیا کو اسلام کی خوبصورت تعلیم سے روشناس کروانے کے لئے۔ تو ایک ہی درخت ہے جس کو مختلف قسم کے پھل لگ رہے ہیں۔ اور ہر احمدی کو اس طرف سوچنے کی ضرورت ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ہم اس کی تعلیم پر عمل کرنے والے ہوں، ہمارے قول و فعل میں کوئی تضادنہ ہو۔ ہمیشہ اس کے آگے جھکے رہنے والے ہوں اور اس سے مدد پانے والے ہوں۔ اس کی رضا کو حاصل کرنے والے ہوں۔ اور اس زمانہ کے مامور کے ذریعہ اسلام کا پیغام پہنچانے کا جو کام ہمارے سپرد ہوا ہے اس کو احسن رنگ میں ادا کرنے والے ہوں۔
(الفضل انٹرنیشنل جلد17شمارہ18 مورخہ30اپریل تا6مئی 2010صفحہ5تا8)
حضرت مسیح موعودؑ کا کام احیاء دین ہے، ہندوستان جو اسلام کا قلعہ کہلاتا تھا اس وقت عیسائی مبلغین اپنا جال بچھا رہے تھے اس وقت حضرت مسیح موعودؑ کو مبعوث کیا اور عیسائی پادری اپنے دفاع پر مجبور ہوگئےبلکہ میدان سے ہی بھاگ گئے، یورپ بلکہ پوری دنیا مذہب کے نام پر شرک میں مبتلا ہیں یا خدا کے وجود کے ہی انکاری ہیں، حضرت مسیح موعودؑ کا مقصد توحید کاقیام ہے آپؑ نے فرمایا نرمی سے قرآنی تعلیم پر عمل کرو، دعاؤں کے ذریعہ ہماری فتح ہو سکتی ہے، ایک احمدی کا فعل پوری جماعت کی بدنامی کا باعث بن جاتا ہے، دعا اور صدقات حقوق العباد اور حقوق اللہ کی طرف توجہ، لوگ اب اسلام کے بارے جاننا چاہتے ہیں اسلام کا پیغام لوگوں تک پہنچائیں، مربیان، جماعتی نظام، ذیلی تنظیمیں بھی نظام کے ساتھ چلیں اور اس پیغام کو آگے پہنچائیں، شہروں، قصبوں میں جاکر جلسے سیمینارکریں جماعت کا تعارف کروائیں لٹریچر دیں وقف نو بچوں کی تربیت کی طرف توجہ۔
خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 09اپریل 2010ء بمطابق 09شہادت 1389 ہجری شمسی بمقام مسجد بشارت۔ پیدروآباد۔ سپین
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔