دورہ سپین، فرانس، اٹلی اور سوئٹزر لینڈ کے سفر کے حالات

خطبہ جمعہ 30؍ اپریل 2010ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


تشہد و تعوذ اور سورة فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ گزشتہ چند ہفتے مَیں یورپ کے بعض ممالک کے سفر پر رہا ہوں۔ ان دنوں میں پہلے تو وکالت تبشیر جو گذشتہ چند مہینوں سے پروگرام بنا رہی تھی وہ افریقہ کے بعض ممالک کے دورے کا تھا۔ اس کے لئے تیاریاں بھی ہو رہی تھیں۔ جائزے بھی شروع ہو چکے تھے۔ مغربی افریقہ کے بعض ایسے ممالک جن میں مَیں پہلے نہیں گیا سیرالیون وغیرہ، ان جماعتوں کا مطالبہ بھی تھا اور میری خواہش بھی تھی۔ لیکن پھر ان ممالک سے جنوری فروری میں اطلاعیں آنی شروع ہو گئیں کہ سیاسی بھی اور ملکی بھی حالات ایسے نہیں ہیں کہ دورہ کیا جائے۔ تو بہر حال اس وجہ سے پھر وہ دورہ ملتوی کر دیا گیا۔ اللہ تعالیٰ کی اسی میں مرضی تھی۔ لیکن یہ دورہ ملتوی کرنے کے بعد بھی میرا کسی ملک کے دورہ کا پروگرام نہیں تھا۔ پھر سپین کے جلسہ کی اطلاع ملی تو سپین جانے کی دل میں تحریک پیدا ہوئی۔ پھر اٹلی کے مشن ہاوٴس وغیرہ خریدے گئے تھے وہاں جانے کا خیال آیا۔ جب اٹلی کا پروگرام بنا تو سوئٹزرلینڈ والوں نے کہا کہ اب قریب آ گئے ہیں تو وہاں کا بھی دورہ کر لیں، اس کا دورہ کئے بھی کئی سال ہو گئے ہیں۔ بہر حال بغیر کسی planningکے یہ پروگرام بنتے رہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اس سفر میں بڑی برکت عطا فرمائی اور یہ سفر جہاں ان متعلقہ جماعتوں کے افراد کے لئے ازدیادِ ایمان کا باعث بنا، میرے لئے بھی بنا اور ہر کام میں خدا تعالیٰ کی حکمتوں کا مزید ادراک پیدا ہوا۔

سپین کے دورے کا پروگرام بنانے کے بعد بھی میں نے سپین جماعت کو نہیں بتایا تھا کہ جلسہ میں شرکت کر رہا ہوں۔ اندازاً ان دنوں کا پروگرام تھا۔ وہ یہی سمجھتے تھے کہ شاید میرا جماعتی جائزے کا دورہ ہو گا یا شایدکچھ سیر کا دورہ ہو۔ تو یہاں جانے سے پہلے امیر صاحب سپین کا پیغام آیا کہ ان دنوں میں جلسہ بھی ہے جو پہلے سے مقرر شدہ ہے اور جلسہ سے ایک دو دن پہلے آپ آ رہے ہیں۔ اگرفوری طور پر جلسے میں شمولیت ان دنوں میں مشکل ہو جائے تو جلسے کو ایک ہفتہ آگے کر لیا جائے؟ تو میں نے انہیں کہا کہ میرے علم میں ہے کہ جلسہ ہے اور اسی لئے میں نے یہ تاریخیں مقرر کی ہیں جلسہ آگے کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ بہر حال بتانے کا مقصد یہ ہے کہ یہ دورے کا پروگرام پہلے سے کسی معین اور منظور شدہ پروگرام کے بغیر بنا تھا۔ یہاں تک کہ جیسا کہ میں نے کہا سپین کی جماعت جن کا جلسہ ہو رہا تھا، انہیں بھی پوری طرح یقین نہیں تھا کہ میں جلسہ میں شامل ہوں گا۔

اس سفر میں پہلا قیام فرانس کا تھا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے مراکش، الجزائر وغیرہ کے لوگوں میں جو ان یورپین ممالک میں رہ رہے ہیں، جماعت کی طرف بڑی توجہ پیدا ہو رہی ہے۔ اور بڑی بیعتیں ہو رہی ہیں۔ اسی طرح بعض جزیرے جو فرانس کے زیرِ اثر ہیں جن میں افریقن آبادی ہے۔ اسی طرح افریقہ کے فرانسیسی بولنے والے علاقے ہیں ان کے جو افراد فرانس میں آئے ہوئے ہیں ان میں سے بھی بیعتیں ہو رہی ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اچھی تعداد میں ہو رہی ہیں۔ یہ لوگ بڑے فعال اور فوری طور پر نظامِ جماعت میں سموئے جانے والے بن رہے ہیں۔ نیشنل مجلس عاملہ میں بھی ان نو مبائعین میں سے ایک اچھی تعداد شامل ہے۔ فرانس میں ایک فرنچ اور ایک بیلجیئم اور مراکش کے چند باشندوں نے بیعت بھی کی تھی اور بیعت کے دوران بھی عجیب جذباتی کیفیت ان پر طاری تھی۔ بہت سے نو مبائعین کی پہلی ملاقات تھی۔ ان کے بھی عجیب جذبات تھے۔ کئی ایک ایسے تھے، جب میں ان سے پوچھتا کہ کوئی بات یا سوال؟ تو یہی کہتے تھے کہ دعا کریں کہ ہمارے ایمان میں ترقی ہو۔ ہمارے تقویٰ میں ترقی ہو۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مشن کو آگے بڑھانے اور تقویٰ میں ترقی کرنے کی ایک لگن ان لوگوں میں ہے۔ خلافت سے وفا کے تعلق کا اظہار بھی وہ کرتے تھے اور ان کی آنکھوں اور حرکات سے بھی وہ نظر آتا تھا اور جو ان کے جذبات تھے اس کا بیان کرنا بہت مشکل ہے۔ رپورٹیں شائع ہوں گی ان میں آپ پڑھ لیں گے یا ہو سکتا ہے پڑھ بھی لی ہوں۔ لیکن ان نو مبائعین کی حالت کو میرے خیال میں بیان کرنا مشکل ہے۔ اور صرف فرانس میں ہی نہیں، جن ملکوں کا میں نے دورہ کیا ہے، وہاں ہر بیعت کرنے والا چاہے وہ عربی بولنے والے ممالک سے تعلق رکھتا ہے یا وہاں کا مقامی ہے اس میں ایسا اخلاص ہے جسے بیان کرنا ممکن نہیں۔ عربی بولنے والوں میں سے تو ہر ملک کے احمدیوں نے مجھے بتایا کہ ایم۔ ٹی۔ اے تھری العربیہ جو ہے، اس کے ذریعے سے ہمیں احمدیت کا پیغام پہنچا۔ پھر یہ کہ ہم نے یہ پیغام سن کر دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے ہماری رہنمائی فرمائی۔ بعض ایسے بھی تھے جن کو خدا تعالیٰ نے خوابوں کے ذریعے خود رہنمائی فرمائی اور انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام یا کسی خلیفہ کو خودخواب میں دیکھا۔ ایم ٹی اے العربیہ کا میں نے کہا ہے۔ وہ لوگ جب بھی اس کا ذکر کرتے تھے تو ایم ٹی اے تھری العربیہ کی ٹیم کے افراد کو نام بنام دعائیں دیتے تھے۔ خاص طور پر وہ افراد جو سوال وجواب کی الحوار المباشر کی مجلس میں آتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان تمام دوستوں کو جزادے اور ان کے ایمان و ایقان اور اخلاص میں اضافہ کرے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا پیغام پہنچانے میں دن رات مصروف ہیں۔ اسی طرح ایم ٹی اے کے دوسرے چینلز بھی ہیں۔ ان کے تمام کارکنان کو بھی اللہ تعالیٰ جزا دے جو سامنے تو نہیں آتے لیکن سکرین کے پیچھے غیر معمولی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ بہر حال میں فرانس کی بات کر رہا تھا۔ فرانس میں مخلصین کے درمیان میرے دو دن پلک جھپکتے میں گزر گئے۔ پتا نہیں لگا کتنی جلدی گزرے اور سپین کے لئے روانگی ہوئی۔

دو دن کے سفر کے بعد سپین (پیدرو آباد) جہاں ہماری مسجد بشارت ہے، ہم وہاں پہنچے۔ وہیں دو دن کے بعد جلسہ بھی شروع ہونا تھا۔ احباب جمع ہوئے تھے۔ پرتگال سے بھی احبابِ جماعت آئے ہوئے تھے۔ مراکش سے بھی جماعت کے افراد آئے ہوئے تھے۔ پرتگال ابھی تک سپین کے زیرِ انتظام ہے۔ اس لحاظ سے کہ سپین کے مشنری انچارج جو ہیں وہی اب تک پرتگال کی جماعت کوبھی سنبھالتے تھے۔ میرے جانے سے پہلے مبلغ کے آنے کی کوشش ہو رہی تھی اور اب وہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے پہنچ گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس جماعت کو بھی فعاّل کرے۔

پرتگال میں بھی مسجد کے لئے رقبہ لینے کی کوشش ہو رہی ہے۔ تقریباً سودے کے قریب ہے۔ اللہ کرے پرتگال میں بھی جلد مسجد بن جائے اور جماعت کی ترقی کا باعث بنے۔ پرتگال میں بھی مختلف ممالک سے آئے ہوئے لوگوں کی ایسی بڑی تعداد ہے جو مذہب میں دلچسپی رکھنے والی ہے اور وہاں خاصی تعداد میں بیعتیں بھی ہوئی ہیں۔ لیکن سنبھالنے کے لئے اور مزید تبلیغ کے لئے مسجد بہت ضروری ہے۔ مسجد بننے سے انشاء اللہ تعالیٰ مقامی لوگوں میں بھی امید ہے تبلیغ کا میدان کھلے گا۔ وہاں جو نئے مبلغ گئے ہیں اللہ تعالیٰ ان کو بھی توفیق دے کہ وہ صحیح طور پر کام کر سکیں۔ اسی طرح مراکش کی جماعت کے صدر صاحب بھی بعض افراد کے ساتھ آئے ہوئے تھے۔ سپین کے قریب ہونے کی وجہ سے شروع میں سپین کے ذریعے ہی وہاں جماعت قائم کی گئی تھی۔ اب ماشاء اللہ یہ جماعت بھی ترقی کی طرف بڑھنے والی جماعت ہے۔ اخلاص و وفا میں بھی بڑھ رہی ہے۔ اسی طرح سپین میں بھی عربی بولنے والے احمدیوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ یہاں بھی چند بیعتیں ہوئیں اور دستی بیعت کا بھی پروگرام بنا۔ اللہ تعالیٰ ان سب کے ایمان و ایقان میں برکت ڈالے۔ ترقی عطا فرمائے۔

سپین کا جلسہ ہوا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہاں جو مہمان آئے تھے وہ بھی بڑا اچھا اثر لے کر گئے۔ بعض نے بعد میں مجھ سے ملاقات کی اور اپنے تأثرات کا اظہار کیا۔

میں نے گزشتہ دورہ سپین میں 2005ء میں ویلینسیا میں جماعت کی دوسری مسجد تعمیر کرنے کا اظہار کیا تھا اور جماعت کو تلقین کی تھی۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے قریباً ڈیڑھ سال کے عرصہ کے اندر اندر ہی ایک جگہ ایک پلاٹ اور اس پر بنا ہوا ایک گھر جماعت کو خریدنے کی توفیق عطا فرمائی جو مشن ہاوٴس اور سینٹر کے طور پر استعمال ہو رہا ہے۔ لیکن وہاں کی کونسل کی طرف سے بعض روکیں کھڑی کی جا رہی تھیں جس کی وجہ سے ابھی تک باوجود مسجد کا پلان کونسل میں جمع کروانے کے مسجد کی تعمیر کی اجازت نہیں مل رہی تھی۔ اب وہاں حالات میں کچھ تبدیلی کی صورت پیدا ہوئی ہے اور امید ہے انشاء اللہ تعالیٰ مسجد کی اجازت مل جائے گی۔ اس امید پر کہ اللہ تعالیٰ فضل فرمائے گا میں وہاں مسجد کی بنیاد بھی رکھ آیا ہوں۔ دعا کریں جو کاغذی کارروائیاں ہیں، روکیں ہیں اللہ تعالیٰ وہ بھی اب دور فرما دے۔ اللہ تعالیٰ جلد ہمیں وہاں مسجد کی تعمیر کی توفیق دے اور وہ مسجد پھر اس علاقے میں احمدیت اور اسلام کا پیغام پہنچانے کا ذریعہ بن جائے۔ جہاں مسجد کی جگہ ہے وہ بڑا خوبصورت علاقہ ہے۔ اچھی جگہ ہے۔ امید ہے انشاء اللہ تعالیٰ مسجد بننے کے بعد اسلام کی حقیقی تصویر پیش کرنے کا موقع ملے گا اور لوگوں کو اسلام اور جماعت کے بارے میں جو غلط تحفظات ہیں وہ بھی دور ہوں گے۔ ویلنسیا کے علاقے میں مسلمانوں کی آبادی سولہویں صدی تک رہی ہے اور اس علاقے کے مسلمانوں نے بڑی قربانی دے کر تین چار سو سال بعد تک اسلام اپنے اندر قائم رکھا ہے۔ اللہ کرے کہ یہ علاقہ دوبارہ اسلام کی آغوش میں آ جائے۔

اسی طرح پیدرو آباد کے قریب اب جماعتی ضروریات کے تحت مسجد کے ساتھ تعمیر کی ضرورت تھی۔ جماعتی ضروریات بڑھ رہی ہیں۔ لجنہ ہال اور ایک گیسٹ ہاوٴس وغیرہ کی تعمیر کی بنیاد بھی رکھی گئی۔ سپین میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے نیشنل عاملہ کی میٹنگ میں ان کو تبلیغ کی طرف توجہ دلائی گئی اور دوسرے بعض معاملات کی بھی منصوبہ بندی ہوئی۔ انہوں نے وعدہ بھی کیا ہے کہ انشاء اللہ تعالیٰ اب اس بارے میں تیزی پیدا کریں گے اور جو سستیاں ہوئی ہیں ان کا مداوا کریں گے۔ اللہ ان کو بھی توفیق دے۔ جب دنیا میں اسلام کے خلاف جگہ جگہ محاذ ہے تو یہی وقت تبلیغ کا بھی ہے۔ یہی میں نے ان کو بھی کہا اور ہر ایک کو کہتا ہوں۔ لوگوں کی توجہ ہے اور نیک فطرت لوگ جو ہیں جب مخالفت کی باتیں سنتے ہیں تو حقیقت بھی جاننا چاہتے ہیں۔ میرے مختلف جگہوں پر جانے کی وجہ سے لوگوں کی توجہ بھی پیدا ہوتی تھی تو ہمارے لوگوں کو احمدیت کے تعارف میں کچھ لٹریچر ان لوگوں کو دینے کی توفیق بھی ملتی تھی، موقع مل جاتا تھا۔ بہر حال سپین کے سفر میں دس بارہ دن مصروفیت میں گزرے۔ ان کی رپورٹیں بھی جیسا کہ میں نے کہا آپ پڑھ لیں گے۔

یہاں سے تقریباً تین دن کے سفر کے بعد ہم اٹلی پہنچے ہیں۔ یہاں بھی اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا ہر جگہ مشاہدہ کیا ہے۔ اٹلی ایک ایسا ملک ہے جس میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے زمانے میں جماعت قائم ہوئی تھی۔ مبلغین بھی وہاں بھجوائے گئے تھے۔ لیکن بعض نامساعد حالات کی وجہ سے یہ سلسلہ جاری نہ رہ سکا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے 1937ء میں ملک محمد شریف صاحب کو روم جانے کا حکم فرمایا تھا اور ان کی تبلیغ سے 1940ء تک کچھ لوگ احمدیت میں داخل بھی ہوئے تھے۔ پھر جنگ کے حالات کی وجہ سے ملک صاحب کو 1944ء تک جنگِ عظیم دوئم کے حالات کی وجہ سے دشمن کے قیدی کیمپ میں رہنا پڑا۔ اسی دوران حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے مکرم محمد ابراہیم خلیل صاحب اور مولوی محمد عثمان صاحب کو اٹلی بھجوایا اور ملک صاحب کو امیر مقرر کیا۔ ملک صاحب نے ان دونوں کو سسلی بجھوا دیا۔ سسلی بھی اٹلی کا وہ جزیرہ اور علاقہ ہے جہاں تقریباً 260سال تک مسلمانوں کی حکومت رہی ہے۔ یہاں پہلے تو مبلغین کو تکلیف کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک دفعہ تو ان کو چوبیس گھنٹے کے اندر اندر نکل جانے کا نوٹس بھی ملا لیکن پھر اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا اور حکومت نے نکل جانے کا نوٹس کینسل کیا اور کچھ عرصہ وہاں رہے۔ لیکن بہر حال مشکل حالات ہی تھے، اٹلی کا مشن بند ہو گیا۔ اور ان واقعات کی ایک لمبی تفصیل ہے۔ ان مبلغین کے بڑے ایمان افروز واقعات ہیں۔ ان کا ذکر بھی ہو سکتا ہے رپورٹ لکھنے والے کچھ نہ کچھ رپورٹ میں دے دیں گے انشاء اللہ۔ جیسا کہ میں نے کہا جب مشن بند ہوا تو یہ دونوں مبلغین وہاں سے چلے گئے لیکن ملک شریف صاحب اپنے گزارے کا سامان خود پیدا کر کے 1955ء تک اٹلی میں رہے ہیں اور تبلیغ کا کام کیا ہے۔ (ماخوذ از تاریخ احمدیت جلد 7صفحہ 339 تا 344 مطبوعہ ربوہ)

اس کے بعد باقاعدہ رابطہ نہ ہونے کی وجہ سے جو احمدی وہاں ہوئے تھے (ان کے زمانے میں تیس چالیس کا ذکر تو انہوں نے ایک جگہ پہ کیا ہوا ہے) ان کی نسلوں میں آگے شائد احمدیت قائم نہیں رہی۔ بہر حال اب اللہ تعالیٰ نے ایسے حالات پیدا کئے ہیں کہ پاکستانی احمدی بھی اچھی تعداد میں وہاں پہنچے ہیں۔ نیز گھانین احمدی بھی کافی تعداد میں وہاں ہیں۔ بلکہ ایک شہر کی جماعت ہی پوری گھانین احمدیوں کی ہے۔ اور عربوں میں مراکش اور الجزائر وغیرہ کے لوگوں میں سے بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک مخلص جماعت بن رہی ہے۔ ان عربی بولنے والے احمدیوں کی فدائیت کا تو عجیب حال ہے۔ جیسا کہ پہلے میں ذکر کر چکا ہوں۔ ان کا یہاں بھی یہی حال ہے کہ تھوڑی تھوڑی دیر بعد جذبات سے مغلوب ہو کر رونے لگ جاتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے وہاں جیسا کہ میں نے پہلے بھی ایک خطبے میں ذکر کیا ہے کہ جماعت کو مشن ہاوٴس اور سینٹر خریدنے کی توفیق عطا فرمائی ہے۔ 2008ء میں یہ خریدا گیا تھا اور مسجد کے لئے بھی کوشش ہو رہی ہے اور میئر اور مقامی کونسلر وغیرہ جو ہیں اس کے لئے بھر پور تعاون کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو بھی جزا دے اور جلد یہاں بھی مسجد بنانے کی توفیق ہمیں مل جائے۔ یہاں بھی دو تین احباب و خواتین نے بیعت کی۔ اور اسی طرح گزشتہ چند ماہ میں جو بیعت کرنے والے ہیں، انہوں نے بھی دستی بیعت کی۔ الحمد للہ۔

یہاں ایک ریسپشن کا پروگرام بھی جماعت نے بنایا تھا جس میں ہمارے سینٹر بیت التوحید کے علاقے یعنی اس شہرکے میئر (اس شہر کا نام کافی لمبا ہےsan pietroin casale سان پیاٹرو ان کسیلے) اور کونسلر تھے اور پڑھے لکھے لوگ بھی تھے۔ پولیس افسران بھی تھے۔ اس میں ساتھ کے جو شہر ہیں ان کے میئر تھے۔ ایک شہر کے میئر کے نمائندے آئے ہوئے تھے اور سب نے جماعت کے بارے میں بڑا اچھا اظہارِ خیال کیا۔ جماعت کی خدمات کو سراہا۔ تعلیم کو سراہا۔ آخر میں میں نے بھی قرآنِ کریم کے حوالے سے اسلام کی خوبصورت اور امن پسند تعلیم کے متعلق بیان کیا اور اس زمانے کے امام اور مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس خوبصورت تعلیم کے بارے میں بتایا ہے اس کے حوالے سے بات کرتے ہوئے اسلام کے نام سے بلاوجہ نفرت کرنے کی بجائے اس خوبصورت تعلیم کی طرف توجہ دینے کی طرف توجہ دلائی۔ اور پھر یہ بتایا کہ ہمارے اس سینٹر کے حوالے سے چند ماہ پہلے اس علاقے میں ہمارے خلاف بڑا شور اٹھا تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا اور اس علاقے کے میئر اور ہمسایہ شہر کے میئر اور ہمارے آرکیٹیکٹ جو اٹالین ہی ہیں، اور مشن ہاؤس کی Renovationکا کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے ہمارے حق میں اس علاقے میں بڑا کام کیا۔ بہر حال میں نے ان کوبتایا کہ اسلام کی تعلیم تو بڑی خوبصورت تعلیم ہے اس لئے نفرتوں کی دیواریں کھڑی کرنے کی بجائے آپس میں محبت اور پیار سے رہنا چاہئے۔ بہر حال اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ ریسپشن بھی اچھی رہی۔ اللہ کرے کہ اس کے بعد ہمارے حق میں مزید زمین ہموار ہو جائے۔ یہاں کے بعض تاریخی شہر بھی دیکھنے کا موقع ملا۔

یہاں چار پانچ دن قیام کے بعد سوئٹزرلینڈ روانہ ہوئے۔ لیکن مجھے لندن سے جانے سے پہلے یہ بتایا گیا تھا کہ ٹیورین میں اس کپڑے کی نمائش ہو رہی ہے جسے یہ کفنِ مسیح کہتے ہیں اور جس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو صلیب سے اتار کر لپیٹا گیا تھا۔ صدر جماعت نے پوچھا کہ کیا آپ اس کو دیکھنا پسند کریں گے؟ یہیں مجھے اطلاع مل گئی تھی۔ میں نے کہا انشاء اللہ ضرور دیکھیں گے۔ انہوں نے وہاں چرچ کی انتظامیہ سے بات کی۔ تو انہوں نے کہا کہ ہمیں بڑی خوشی ہو گی اگر جماعتِ احمدیہ کے خلیفہ اسے دیکھنے آئیں اور ہم اس کے لئے خاص انتظام بھی کر دیں گے۔ چنانچہ سوئٹزرلینڈ جاتے ہوئے شہر ٹیورین راستے میں آتا ہے۔ ہم دوپہر کے وقت وہاں پہنچے ہیں اور شام پانچ بجے اس چرچ میں گئے ہیں جہاں اس کی نمائش تھی۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے انتظام ہوا ہے۔ میرے ذہن میں نہیں تھا کہ نمائش لگی ہوئی ہے۔ باوجود اس کے کہ غالباً میر محمود احمد صاحب کی طرف سے اطلاع آئی تھی کہ یہ نمائش لگ رہی ہے اور لندن سے کسی کو بھیج دیں تا کہ دیکھ لے اور آج کل اس زمانے میں بھی ہمارا جماعت احمدیہ کا کوئی عالم اس کا گواہ بن جائے کہ اس نے یہ شراوٴڈ (shroud) دیکھا تھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے کسی عالم کی بجائے مجھے خود ہی جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ایک ادنیٰ غلام ہوں اس بات کی توفیق عطا فرمائی کہ خود دیکھ لوں۔ اٹلی کے پروگرام کے باوجود جیسا کہ میں نے کہا کہ یہ خیال نہیں آیا تھا کہ ٹیورین جانا ہو گا۔ جو روٹ بنا اس کے راستے میں ٹیورین بھی آتا ہے۔ اگر نہ بھی آتا تو جیسا کہ میں پہلے کہہ چکا ہوں اس نمائش کی وجہ سے وہاں میں ضرور جاتا۔ بہر حال جب ہم وہاں گئے ہیں تو نمائش کے جو ڈائریکٹر ہیں جو ان کی پادریوں کی کونسل کے بڑے پادریوں میں شمار ہوتے ہیں وہ استقبال کے لئے موجود تھے۔ انہوں نے ایسا انتظام کیا اور ایسے دروازے سے ہمیں لے کر گئے جہاں سے عام پبلک نہیں جاتی۔ عموماً وہاں کیمروں کی اجازت نہیں ہوتی۔ میں نے ان سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ کیمرہ بے شک استعمال کریں۔ لیکن فلیش استعمال نہ کریں بہرحال ایم ٹی اے کے کارکنوں اور ہمارے فوٹوگرافروں نے وہاں تصویریں لی ہیں۔ پہلے ہال میں جب ہم داخل ہوئے ہیں تو انہوں نے ہمیں جا کر بڑی سکرین پر شراوٴڈ کی تصویریں دکھائیں اور دکھاکراس کے ساتھ وضاحت کرتے رہے اور ہر عکس کے بارے میں بتاتے رہے کہ کس کس چیز کا ہے یہ چہرہ ہے، ہاتھ ہے، پاوٴں ہیں۔ کلوزاپ کر کے دکھاتے تھے۔ لیکن یہ سب دکھانے کے ساتھ ان ڈائریکٹر صاحب نے مختصر تعارف بھی اس کا بیان کیا اور بتایا کہ چودھویں صدی سے اس شراوٴڈ کی تاریخ کا پتا ہے کہ کہاں کہاں رہا ہے؟ لیکن بعض شواہد ایسے ہیں جن سے پانچویں صدی عیسوی میں بھی جہاں جہاں یہ رہا ہے اس کا پتا لگتا ہے بہرحال اسی تسلسل میں انہوں نے یہ بھی بتایا کہ یہ ایک کپڑا ہے جس کی لمبائی 4.42میٹر ہے۔ چوڑائی 1.13میٹر ہے۔ اس پر ایک شخص کا عکس ہے۔ جو کسی بہت بڑے نیک شخص کا عکس لگتا ہے اور انہوں نے یہ کہا اگر اس کپڑے کی تاریخ وغیرہ پر غور کریں تو ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ یہ حضرت عیسیٰ کا عکس ہے اور اس کی 1898ء میں ایک شخص نے تصویر لی تھی جس کا نام Secondo Pia تھا۔ غالباً pronounce اسی طرح ہی کرتے ہیں اور اس تصویر میں اس کپڑے کے عکس کا پوزیٹو (Positive) بنا اور یوں حقیقی شکل بھی سامنے آئی۔ بہرحال پھر اس کے بعد یہ ہمیں چرچ کے بڑے ہال میں لے گئے۔ جہاں لوگ گزرتے جا رہے تھے اور سامنے سٹیج کی طرح کی ایک جگہ پر بہت بڑے شیشے کے بکس میں اس کی نمائش کی جا رہی تھی۔ اس کے پیچھے روشنی پڑ رہی تھی۔ ان ڈائریکٹر نے بتایا کہ اس ڈبے کے اندر بھی بعض گیسز ہیں جو اس لئے اندر رکھ چھوڑی ہیں یا چھوڑی جاتی ہیں تاکہ یہ کپڑا خراب نہ ہو۔ بہرحال ہمیں انہوں نے باقی لوگوں کو وقفہ دے کر آنا بند کر کے اس بکس کے جو قریب ترین گلی تھی وہاں کھڑا کر دیا جہاں سے ہم نے کافی دیر تک اس کو دیکھا۔ تصویریں لینے والوں نے تصویریں بھی لیں۔ شاید کسی اور کو بھیجتے تو اتنی دیر تک اور اتنے غور سے دیکھنے کا ان کو موقع نہ ملتا۔ جو وہاں بروشر ہمیں دیاگیا تھا جس پر تفصیلات لکھی ہوئی تھیں تصویریں بنی ہوئی تھیں اس میں بھی لکھا ہوا تھا اور ڈائریکٹر نے بتایا کہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان پولنز (Polens) سے جو شراوٴڈ پر لگے ہوئے ہیں یہ کپڑا فلسطین اور مشرقی وسطیٰ کے علاقے سے آیا ہے اور یہ بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم جو اسے کفنِ مسیح کہتے ہیں یہ صحیح ہے۔

یہ بھی عجیب بات ہے کہ 1898ء میں یہ تصویر لی گئی تھی اور اس کے بعد سے اس کپڑے کو پہلے تو متبرک سمجھا جاتا تھا پھراس کو کفنِ مسیح بھی کہنے لگے۔ اُس زمانے میں 1899ء میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ’’مسیح ہندوستان میں‘‘ کے نام سے ایک کتاب لکھی تھی۔ چھپی تو 1908ء میں لیکن لکھی اس وقت گئی تھی۔ گو اس کے علاوہ بھی آپ کی تحریرات اور کتب میں حضرت مسیح علیہ السلام کے صلیب سے زندہ بچ جانے اور مرہمِ عیسیٰ وغیرہ کا ذکر بھی آتا ہے۔ لیکن اس کتاب میں آپ نے تفصیل سے اس پر بحث فرمائی ہے۔ کفنِ مسیح کے بارے میں اس وقت تک شاید انگریزی لٹریچر میں کوئی بات نہیں آئی تھی تفصیلات نہیں آئی تھیں۔ گو کہ کہتے ہیں کہ اٹالین اور جرمن میں معلومات تھیں اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کفن کا ذکر تو نہیں فرمایا لیکن اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے لئے آپ کے وقت میں ہی مزید حقائق ظاہر فرما کر حضرت عیسیٰ کے صلیب سے بچ جانے کے مزید شواہد مہیا فرما دئیے۔ بہر حال اس نمائش کو دیکھنے کے بعد یہ ڈائریکٹر صاحب ہمیں ساتھ ایک کیتھیڈرل تھا اس کی عمارت میں لے گئے۔ پہلے نیچے سے دکھایاپھر اوپروالی منزل میں لے گئے کہ لائبریری اوپر ہے اور اوپر جا کر لائبریری دیکھ لیں۔ میں نے کہا چلیں۔ لیکن جب ہم اوپر پہنچے ہیں تو ایک اور صاحب وہاں کھڑے تھے جو پروفیسر صاحب تھے۔ ان کے بارے میں انہوں نے پہلے ہی بتا دیا تھا کہ یہ بھی ملیں گے۔ یہ پروفیسر اس دینی ادارے کے اسلامی علوم کے ماہر سمجھتے جاتے ہیں۔ مختلف عرب ممالک میں رہ کر انہوں نے تعلیم حاصل کی ہے۔ جیسا کہ میں نے کہا وہ وہاں کھڑے تھے۔ پھر یہ دونوں ایک میٹنگ ہال میں ہمیں لے گئے کہ پہلے یہاں کچھ دیر بیٹھتے ہیں۔ بڑے احترام سے انہوں نے وہاں بٹھایا۔ پھرآپس میں مختلف سوال جواب شروع ہوئے، باتیں شروع ہوئیں۔ مجھ سے انہوں نے پوچھا کہ کیوں دیکھنے کا شوق پیدا ہوا؟ کیا جذبات اور تأثرات ہیں؟۔ وغیرہ وغیرہ۔ اس سے پہلے میں ان کامزید تعارف کرا دوں۔ میں نے پہلے تعارف تو کروایا ہے کہ بڑے پادری تھے لیکن یہ ڈائریکٹر جن کا میں نے ذکر کیا ہے کفنِ مسیح کی حفاظت کے لئے متعین جو کمیٹی ہے اس کے صدر بھی ہیں اور یہ نمائش بھی ان کی نگرانی میں ہو رہی ہے۔ ان کا نام مونسونیئر لیبرٹی ہے اور جو اسلامی علوم کے ماہر ہیں یہ مستشرق ہیں ان کا نام ڈون تینونیگری ہے۔ میں نے انہیں بتایا کہ اس شہر میں آنے کا پروگرام تو اتفاقاً بن گیا تھا لیکن جب پتا لگا کہ کفنِ مسیح کی نمائش ہو رہی ہے تو دیکھنے کا شوق بھی پیدا ہوا اور اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ہم جو جماعت احمدیہ سے منسلک ہیں اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ یہ کپڑا یقیناًحضرت عیسیٰ علیہ السلام کے لئے استعمال ہوا ہو گا۔ لیکن اس کے لئے یہ جو نتیجہ آپ اخذ کرتے ہیں اس سے ہمارا نظریہ مختلف ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ نبی تھے۔ یہودیوں نے جب انہیں صلیب پر مارنا چاہا تو چونکہ یہ موت جو ہے ایک نبی کی شان کے خلاف ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے انہیں صلیب سے بچا لیا اور بانی جماعت احمدیہ جنہیں ہم مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مانتے ہیں آپ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زندگی کو ثابت بھی فرمایا ہے اور یہ کپڑا بھی حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی موت کا نہیں بلکہ زندگی یعنی صلیب سے بچ جانے کا ثبوت ہے۔ اس لحاظ سے یہ متبرک ضرور ہے۔ لیکن ہمارے اور آپ کے نظریات میں اختلاف ہے۔

وہ مستشرق کہنے لگے کہ آپ بھی یہی سمجھتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کشمیر میں فوت ہوئے؟ میں نے کہا ہاں بالکل یہی بات ہے بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہی یہ ثابت فرمایا ہے اور آپ کی اس بارے میں ایک کتاب بھی ہے جس کا نام ’’مسیح ہندوستان میں‘‘ ہے۔ بہر حال مختلف سوالات ہوتے رہے جماعت احمدیہ کی خلافت کے انتخاب کے طریق کے بارے میں۔ پھر اور باتیں ہوئیں۔ ان کو میں نے کہا یہ بھی میری ایک خوش قسمتی ہے کہ مجھے اس کپڑے کو دیکھنے کا موقع ملا جسے آپ کفن کہتے ہیں۔ جس کی نمائش عموماً بیس پچیس سال بعد ہوتی ہے۔ تو پھر انہوں نے بتایا کہ یہ ضروری نہیں۔ بعض دفعہ کم سالوں بعد بھی ہوئی، مثلاً 1998ء میں ہوئی پھر 2000ء میں۔ 1998ء میں تو تقریباًبیس سال کے بعد ہوئی تھی، لیکن 2000ء میں حضرت عیسیٰ کے دو ہزار سال پورے ہونے کی وجہ سے انہوں نے نمائش کی۔ اور اس سال بھی انہوں نے بتایا کہ پروگرام ایسا نہیں تھا لیکن پوپ نے حکم دیا تھا کہ نمائش کی جائے۔ اور یہ نمائش 10مئی تک جاری رہے گی۔ بہرحال بہت خلقت تھی ہجوم تھا جو اس نمائش کودیکھنے آتے تھے۔ دس سال بعد یہ نمائش ہوئی ہے اور اللہ تعالیٰ نے میرے سفر اور اس نمائش کو بھی ملا دیا۔ اور اس طرح ہمیں بھی دیکھنے کا موقع مل گیا۔ اپریل کے آخر میں 2مئی کو پوپ نے اس نمائش کو دیکھنے آنا ہے۔ ہمیں اللہ تعالیٰ نے اس سے پہلے دیکھنے کا موقع دیا۔ پھر انہوں نے اپنی باتوں میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تکالیف کا ذکر کیا تو میں نے انہیں کہا کہ انبیاء تکالیف اٹھاتے ہیں اور اس زمانے میں جو مسیح موعود ہیں انہوں نے بھی بہت سی تکالیف برداشت کی ہیں۔ بہر حال پھر جماعت کے بارے میں پوچھا کیا وجہ ہے کہ آپ لوگ مختلف مذاہب کے ساتھ تعلقات رکھنا چاہتے ہیں اور ڈائیلاگ کرتے ہیں؟ میں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے واضح فرمایا ہے کہ مذہب کے بارے میں کوئی جبر نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہدایت واضح کر دی ہے جو چاہے اب مانے یا نہ مانے۔ اور ہدایت دینا ویسے بھی اللہ تعالیٰ کا کام ہے۔ پیغام پہنچانا ہمارا کام ہے۔ لیکن دوسری طرف جو انسانی قدریں ہیں ان کا پاس کرتے ہوئے ہم ہر مذہب کے شخص کی عزت بھی کرتے ہیں اور احترام بھی کرتے ہیں اور بات بھی کرتے ہیں۔ بہر حال مذاہب، امن بین المذاہب سیمینار زوغیرہ کے بارے میں باتیں ہوتی رہیں۔ میں نے انہیں باتوں باتوں میں یہ بھی کہا، انہوں نے اس بارہ میں بھی سوال کیا تھا تو جواب میں مجھے کہنا پڑا کہ آج عیسائی دنیا دنیاوی لحاظ سے جوترقی کر رہی ہے یہ سب کچھ بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بدولت، ان کے خدا ہونے کی وجہ سے نہیں بلکہ ان کی ان تکالیف کی وجہ سے اور اللہ تعالیٰ کے وعدوں کی وجہ سے آپ کو مل رہا ہے اور یہ جو تمہاری اتنی عالی شان عمارت ہے اور یہ سب سامان ہے یہ انہی کا مرہونِ منت ہے اور میری دعا ہے کہ تم لوگ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حقیقی پیغام کو سمجھنے والے بنو اور اس کو پھیلاوٴ۔ بہرحال پھر انہوں نے اس کے بعد لائبریری دکھائی اور پھر میں نے ان سے پوچھاکہ اسلام کے بارے میں بھی اگر کتب رکھی جائیں، قرآنِ کریم بھی ہے کہ نہیں؟ تو انہوں نے مثبت جواب دیا۔ تو میں نے انہیں کہا کہ ہماری ایک انگریزی کی کمنٹری ہے فائیو والیم (Five volumes) میں وہ ہم بھجوا دیں گے۔ اسی طرح کیونکہ وہاں ان کے بعض عربی پڑھنے والے سکالربھی تیار ہوتے ہیں، ان کے لئے تفسیرِ کبیر کا عربی ترجمہ جو مومن طاہر صاحب نے بڑی محنت سے کیا ہے وہ بھی میں نے کہا، ہم بھجوائیں تو رکھیں گے؟ انہوں نے کہا کہ بڑی خوشی سے۔ تو بہرحال اس کا بھی انتظام وہاں ہو گیا۔ یہ سفر ہمارے لئے جہاں معلوماتی تھا وہاں جماعت اور اسلام کے تعارف کا باعث بھی بن گیا۔ اللہ کرے کہ عیسائی دنیا اس حقیقت کو تسلیم کرنے لگ جائے کہ کفنِ مسیح اصل میں کفن نہیں بلکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے صلیب سے زندہ بچ جانے اور لمبی عمر پانے کا ایک معجزاتی نشان کا ثبوت ہے۔

مکرم سید میر محمود احمد صاحب کی نگرانی میں ربوہ میں مرہمِ عیسیٰ پر ریسرچ ہوئی ہے اور مزید وہ کر بھی رہے ہیں۔ اس سے بھی یہ ثابت ہے کہ اس مرہم کی وجہ سے بھی ایک خاص ٹمپریچر اور حالات میں اس قسم کے کپڑے پر عکس نمودار ہوئے۔ انہوں نے لڑکے پر تجربہ کیا اور اس کی شبیہ بن گئی۔ ان کی ریسرچ بھی اب آگے بڑھ رہی ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے بھی فرمایا تھا کہ بعض کیمیائی عمل بھی ہیں جن کی وجہ سے یہ عکس بنا۔ امونیا اور سلفر کی وجہ سے جو کیمیائی عمل ہوئے اور اس علاقے میں دونوں چیزوں کے ذخائر موجود ہیں اور بعیدنہیں کہ جب زلزلہ آیا ہو تو اس وقت یہ گیسز نکلی ہوں جس کی وجہ سے وہ عکس جو ان میں ہے اور زیادہ مضبوط ہو گیا اور فکس (Fix)ہو گیا۔ مکرم میر محمود احمد صاحب کا میں نے ذکر کیا ان کی ٹیم اس نہج پر بھی کام کر رہی ہے۔ اور ان کی تحقیق کو ایک عیسائی سکالر نارما والر (Norma Waller) نے جو یہیں کی انگلستان کی ہیں بڑا سراہا اور اپنی ایک کتاب میں اس ریسرچ کا ذکر بھی کیا۔ سنا ہے کہ وہ فوت ہو گئی ہیں۔ اللہ تعالیٰ اور سکالر پیدا کر دے گا جو اس ریسرچ کو آگے لے جانے والے ہوں گے کیونکہ ابھی تک تو یہی ہوتا آیا ہے کہ اسلام کے حق میں اسلام کی صداقت کے ثبوت میں اللہ تعالیٰ عیسائیوں سے بھی بعض ایسی باتیں نکلواتا ہے جو ہمارے حق میں جاتی ہیں۔ بہر حال یہ تحقیق جو ہے یہ دنیا کی مزید تسلی کے لئے کی جا رہی ہے۔

جہاں تک ہمارا تعلق ہے ہم تو اس یقین پر قائم ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام صلیب سے بچ گئے تھے۔ کشمیر میں محلہ خانیار میں دفن ہیں۔ لیکن آج کل پھر ایک رَو چلی ہوئی ہے کفنِ مسیح کے بارے میں بھی کہ اس کو غلط ثابت کیا جائے کہ یہ اتنے سال پرانا نہیں ہے بلکہ ہزار سال پرانا ہے۔ کوئی کہتے ہیں معین وقت نہیں ہے۔ لیکن بہرحال اس کو غلط ثابت کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ کیونکہ اس تصویر سے زندگی کے آثار نمایاں ہوتے ہیں اور یہ عیسائیت کو برداشت نہیں۔ بلکہ اب مسلمانوں کی طرف سے کشمیر میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی قبر دیکھنے پر بھی پابندی لگ گئی ہے۔ شاید یہ بھی کسی بڑی سازش اور اس کڑی کا نتیجہ ہو جس کے تحت آج کل کفنِ مسیح پر بحث ہو رہی ہے۔ کاش کہ جو چیزیں مسلمانوں کے پاس ہیں اس کے ذریعے وہ اسلام کی برتری ثابت کر سکیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس مرہمِ عیسیٰ کے بارے میں اور عیسیٰ علیہ السلام کی زندگی کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ’’رومی زبان میں حضرت مسیح کے زمانہ میں ہی کچھ تھوڑا عرصہ واقعہ صلیب کے بعد ایک قرابادین تالیف ہوئی جس میں یہ نسخہ تھااور جس میں یہ بیان کیا گیا تھاکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی چوٹوں کے لئے یہ نسخہ بنایا گیا تھا۔ پھر وہ قرابا دین کئی مختلف زبانوں میں ترجمہ ہوئی یہاں تک کے مامون رشید کے زمانہ میں عربی زبان میں اس کا ترجمہ ہوا اور یہ خدا کی عجیب قدرت ہے کہ ہر ایک مذہب کے فاضل طبیب نے کیا عیسائی کیا یہودی اور کیا مجوسی اور کیا مسلمان سب نے اس نسخہ کو اپنی کتابوں میں لکھا ہے۔ اور سب نے اس نسخہ کے بارے میں یہی بیان کیا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے لئے ان کے حواریوں نے تیار کیا تھا اور جن کتابوں میں ادویہ مفردہ کے خواص لکھے ہیں ان کے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ نسخہ اُن چوٹوں کے لئے نہایت مفید ہے جو کسی ضربہ یا سقطہ سے لگ جاتی ہیں‘‘۔ یعنی چوٹ، مارنے کی چوٹ ہے یا گہرا زخم ہے۔’’اور چوٹوں سے جو خون رواں ہوتا ہے وہ فی الفور اس سے خشک ہو جاتا ہے اور چونکہ اس میں مُر بھی داخل ہے اس لئے زخم کیڑا پڑنے سے بھی محفوظ رہتا ہے۔ اور یہ دوا طاعون کے لئے بھی مفید ہے۔ اور ہر قسم کے پھوڑے پھنسی کو اس سے فائدہ ہوتا ہے۔ یہ معلوم نہیں کہ یہ دوا صلیب کے زخموں کے بعد خود ہی حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے الہام کے ذریعہ سے تجویز فرمائی تھی یا کسی طبیب کے مشورہ سے تیار کی گئی تھی۔ اس میں بعض دوائیں اکسیر کی طرح ہیں۔ خاص کر مُرّ جس کا ذکر توریت میں بھی آیا ہے۔ بہرحال اس دوا کے استعمال سے حضرت مسیح علیہ السلام کے زخم چند روز میں ہی اچھے ہو گئے۔ اور اس قدر طاقت آ گئی کہ آپ تین روز میں یروشلم سے جلیل کی طرف ستر کوس تک پیادہ پا گئے‘‘۔ (مسیح ہندوستان میں۔ روحانی خزائن جلد15صفحہ58-57)

پھر ایک جگہ آپؑ نے فرمایا ہے: ’’یعنی جب کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام یہود عَلَیْھِمُ اللَّعْنَةُ کے پنجہ میں گرفتار ہو گئے اور یہودیوں نے چاہا کہ حضرت مسیح کو صلیب پر کھینچ کر قتل کریں تو انہوں نے گرفتار کر کے صلیب پر کھینچنے کی کارروائی شروع کی مگر خدا تعالیٰ نے یہود کے بد ارادہ سے حضرت عیسیٰ کو بچا لیا۔ کچھ خفیف سے زخم بدن پر لگ گئے۔ سو وہ اس عجیب و غریب مرہم کے چند روز استعمال کرنے سے بالکل دورہو گئے۔ یہاں تک کہ نشان بھی جو دوبارہ گرفتاری کے لئے کھلی کھلی علامتیں تھیں بالکل مٹ گئے۔ یہ بات انجیلوں سے بھی ثابت ہوتی ہے کہ جب حضرت مسیح نے صلیب سے نجات پائی کہ جو درحقیقت دوبارہ زندگی کے حکم میں تھی تو وہ اپنے حواریوں کو ملے اور اپنے زندہ سلامت ہونے کی خبر دی۔ حواریوں نے تعجب سے دیکھا کہ صلیب پر سے کیونکر بچ گئے اور گمان کیا کہ شاید ہمارے سامنے ان کی روح متمثل ہو گئی ہے تو انہوں نے اپنے زخم دکھلائے جو صلیب پر باندھنے کے وقت پڑ گئے تھے تب حواریوں کو یقین آیا کہ خدا تعالیٰ نے یہودیوں کے ہاتھ سے ان کو نجات دی۔‘‘ (ست بچن۔ روحانی خزائن جلد 10صفحہ 301)

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنی کتاب ’’مسیح ہندوستان میں‘‘ یہ فرماتے ہیں کہ: ’’اس کتاب کو میں اس مراد سے لکھتا ہوں کہ تا واقعاتِ صحیحہ اور نہایت کامل اور ثابت شدہ تاریخی شہادتوں اور غیر قوموں کی قدیم تحریروں سے ان غلط اور خطرناک خیالات کو دور کروں جو مسلمانوں اور عیسائیوں کے اکثر فرقوں میں حضرت مسیح علیہ السلام کی پہلی اور آخری زندگی کی نسبت پھیلے ہوئے ہیں‘‘۔ (مسیح ہندوستان میں روحانی خزائن جلد15صفحہ3)

پھر آپؑ نے فرمایا: ’’سو میں اس کتاب میں یہ ثابت کروں گا کہ حضرت مسیح علیہ السلام مصلوب نہیں ہوئے اور نہ آسمان پر گئے اور نہ کبھی امید رکھنی چاہئے کہ وہ پھر زمین پر آسمان سے نازل ہوں گے بلکہ وہ 120برس کی عمر پا کر سری نگر کشمیر میں فوت ہو گئے اور سری نگر محلہ خانیار میں ان کی قبر ہے‘‘۔ (مسیح ہندوستان میں روحانی خزائن جلد15صفحہ14)

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس کتاب میں پہلے تو حضرت مسیح علیہ السلام کے صلیبی موت سے بچنے کے انجیلی دلائل دئیے ہیں۔ پھر قرآن و حدیث کی شہادتوں کا ذکر فرمایا۔ جن سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی صلیبی موت سے بچنے کا پتا چل جاتا ہے۔ پھر تیسرے باب میں طب کی کتابوں کی شہادتوں کو بیان کیا ہے، جس سے صلیب سے زندہ بچنے کے بعد مرہمِ عیسیٰ کے استعمال اور اس سے شفا کا ذکر ہے پھر آخر میں آپ نے تاریخی شہادتوں کاجو کتبِ تاریخ سے لی گئی ہیں ان کا ذکر فرمایا ہے کہ نصیبین میں، افغانستان میں اور ہندوستان کی طرف ہجرت کی۔

آپؑ نے فرمایا کہ: ’’جو شخص میری کتاب مسیح ہندوستان میں اول سے آخر تک پڑھے گا گو وہ مسلمان ہو یا عیسائی یا یہودی یا آریہ ممکن نہیں کہ اس کتاب کے پڑھنے کے بعد اس بات کا وہ قائل نہ ہو جائے کہ مسیح کے آسمان پر جانے کا خیال لغو اور جھوٹ اور افتراء ہے‘‘۔ (تریاق القلوب روحانی خزائن جلد15صفحہ145)

بہر حال ٹیورین کے مختصر دورے کے بعد سوئٹزرلینڈ روانگی ہوئی۔ یہاں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے بعض لوگوں کو بیعت کرنے کی توفیق ملی اور دستی بیعت بھی یہاں ہوئی۔ یہاں اٹلی کے ایک نوجوان ہیں جو بڑے سلجھے ہوئے ہیں یہیں کام کرتے ہیں اور دینی علم کے حصول کا بھی انہیں بہت شوق ہے۔ انہوں نے چند سال پہلے انہوں نے بیعت کی تھی۔ میرے ساتھ ان کی پہلی ملاقات تھی۔ جماعت کے کچھ لٹریچر کا وہ اٹالین میں ترجمہ بھی کر چکے ہیں۔ تو میں نے انہیں کہا کہ اس طرف بھی اب توجہ دیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتب کے بھی کچھ ترجمے کریں۔ تو انہوں نے بتایا کہ وہ اس وقت ’’مسیح ہندوستان میں‘‘ اس کتاب کا ترجمہ کر رہے ہیں اور انشاء اللہ تعالیٰ جلد مکمل ہو جائے گا۔ اللہ تعالیٰ ان کے علم و معرفت میں بھی ترقی دے ان کے اخلاص اور ایمان میں بھی برکت ڈالے۔

جمعہ کے بعد سوئٹزر لینڈ سے فرانس کی طرف روانگی ہوئی اور سٹراس برگ میں قیام ہوا۔ دنیاوی لحاظ سے تو اس کی مشہوری ہے۔ یوروپین پارلیمنٹ کا مرکز ہے۔ لیکن یہاں جماعت کی اہمیت اس لحاظ سے ہے کہ یہاں جماعت کی تعداد بڑھ بھی رہی ہے اور دو سو کے قریب یہاں افراد ہیں۔ اور خوشی کی بات یہ ہے کہ ستر فیصد غیر پاکستانی افرادِ جماعت ہیں اور اخلاص میں بڑھنے والے لوگ ہیں۔ یہاں بھی قیام کے دوران دو نئی بیعتیں ہوئیں اور بعض شخصیات سے ملنے کا موقع ملا۔ اسلامی تعلیم بتانے کا اور اسلام کی تعلیم کی روشنی میں دنیا میں امن کس طرح قائم کیا جا سکتا ہے اس بارے میں باتیں ہوئیں۔ یہاں کے آرچ بشپ کے نمائندہ مسٹر مائیکل ریبر (Micheal Reebar) آئے تھے اُن سے بھی ملاقات ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ آرچ بشپ نے آنا تھا لیکن وہ نہیں آئے۔ عالمی امن کے بارے میں، اسلامی تعلیم کے بارے میں باتیں ہوتی رہیں۔ بڑے شریف النفس انسان ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ بعض عرب ممالک میں بھی رہے ہیں۔ عربی بھی ان کو آتی تھی۔ ایک بات پر وہ کہنے لگے کہ تینوں مذاہب جو ہیں یعنی یہودی عیسائی اور مسلمان ایک نکتے پر اکٹھے ہیں اور وہ ایک خدا ہے۔ تو میں نے کہا کہ اگر آپ اس چیز کو تسلیم کرتے ہیں تو یہ بہت اچھی بات ہے۔ ہمیں تو اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی بتا دیا ہے، بلکہ قرآن شریف میں اہلِ کتاب سے یہ کہنے کا لکھا ہواہے۔ کہ  تَعَالَوۡا اِلٰی کَلِمَۃٍ سَوَآءٍۢ بَیۡنَنَا وَ بَیۡنَکُمۡ (آل عمران: 65) تو اس سے اچھی بات اور کیا ہو سکتی ہے کہ اہلِ کتاب کو کہہ دو ایسی بات پر اکٹھے ہو جائیں جو ہمارے اور تمہارے درمیان مشترک ہے اور وہ یہ کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہیں کرنی اور کسی کو اس کا شریک نہیں ٹھہرانا۔ مجھے اس بات پر بھی حیرت ہوئی کہ یہ ایک خدا کی بات کر رہے ہیں۔ اور باتوں میں انہوں نے یہ بھی مجھے بتایا کہ میں تو اکثر تمہارے خطبے اور خطابات ایم ٹی اے پر بھی سنتارہتا ہوں۔ بہر حال کافی اچھے ماحول میں کافی دیر تک گفتگو ہوئی۔ تو یہ سب جیسا کہ میں نے کہا جہاں جماعتی تربیت وغیرہ کا باعث بنتے ہیں وہاں اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدیت اور اسلام کی خوبصورت تعلیم پہنچانے کا بھی باعث بنتے ہیں۔ سٹراس برگ میں جیسا کہ میں نے کہا ہے کہ ستر فیصد احمدی غیر پاکستانی ہیں۔ اور ان میں بھی اکثریت عربی بولنے والے ممالک کی ہے۔ اس سفر کے دوران بعض جگہ نو مبائعین کو خدا تعالیٰ نے خواب کے ذریعے یہ بتا دیا کہ اس علاقے سے ہم گزر رہے ہیں جس کی وجہ سے انہوں نے رابطہ کیا اور ان کے لئے پھر یہ بات ازدیادِ ایمان کا باعث بنی اور آخر انہوں نے ملاقات بھی کی۔ یہاں تھوڑا ساقیام تھا۔ امیر صاحب فرانس جو اس سفرکی تیاری کے لئے مختلف جگہوں پر گئے انہوں نے بھی بتایا کہ اس سفر کے دوران حیرت انگیز طور پر ہمیں تیس بیعتیں بھی حاصل ہوئیں۔ اور یہ عجیب واقعہ ہے کہ 29مارچ کو جب ہم فرانس سے سپین کی طرف گئے ہیں تو وہ (امیر صاحب) ایک بیعت کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ خاکسار جب پیرس واپس پہنچا تو ڈاک کے ذریعے خاکسار کو مراکش کی ایک خاتون کا بیعت فارم موصول ہوا جو فرنچ نیشنل ہے۔ خاکسار نے فون پر اس سے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ کافی عرصے سے ایم ٹی اے بھی میں دیکھتی ہوں۔ اور میں نے کچھ عرصہ قبل ایک خواب دیکھی کہ بہت سی احمدی گاڑیاں ادھر سے گزری ہیں اور میں بھی احمدیوں کی گاڑی میں بیٹھ گئی ہوں۔ میں نے اس سے پوچھا کہ آپ کون سی جگہ رہتی ہیں۔ (امیر صاحب نے ان سے پوچھا) تو انہوں نے بتایا کہ وہ Bordeauxکے علاقے میں رہتی ہیں۔ اور یہ وہی علاقہ ہے جہاں سے ہم فرانس سے سپین جاتے ہوئے گزرے تھے۔ اور جس دن گزرے تھے اسی دن انہوں نے بیعت فارم فِل (Fill) کیا۔ بہر حال اللہ تعالیٰ کے فضل سے گو اس سفر کا پروگرام جیسا کہ میں نے کہا اچانک بنا لیکن اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹنے والا بنا۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے سامان پیدا فرمائے کہ بیعتیں بھی ہوئیں۔ اللہ تعالیٰ نئے شامل ہونے والوں کو ایمان اور ایقان میں بڑھاتا چلا جائے اور ہم جماعت کی ترقی کے نظارے ہمیشہ دیکھتے رہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل اپنے مسیح موعود کی تائید میں اور آپ سے کئے گئے وعدوں کے مطابق ہیں اور ہمارے ایمانوں کو بھی تقویت بخشتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ہمیشہ ان فضلوں سے نوازتا رہے۔

(الفضل انٹرنیشنل جلد 17شمارہ21 مورخہ21 مئی تا 27مئی 2010 صفحہ5تا 9)


  • خطبہ کا مکمل متن
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 30؍ اپریل 2010ء شہ سرخیاں

    افریقہ کے بعض ممالک کے دورے کا پروگرام  مگر ان کے ملکی حالات کی وجہ سے دورہ ملتوی کیا گیا، سپین کے جلسہ کے ایام میں دورہ، سپین، فرانس، اٹلی کے سفر کے حالات، ایم۔ ٹی۔ اے العربیہ کی مقبولیت کاذکران کے لئے دعا، مساجداور جماعتی بلڈنگز کا افتتاح، سوئٹزر لینڈ کا سفر اور اٹلی میں کفن مسیح کی نمائش، کسی بھی خلیفة المسیح کا پہلی مرتبہ یہ کفن دیکھنا، کفن مسیح کی تاریخ اس کے بارے مختلف نظریات اور جماعت کا مؤقف ان کی لائبریری میں جماعتی لٹریچر اور فائیو والیم انگریزی کمنٹری کا رکھوانا، مرہم عیسیٰ کے بارے تحقیق، میر محمود احمدناصر صاحب کی نگرانی میں چلنے والی ریسرچ کا ذکر، عیسائی سکالر نارما والر کا ذکر، وفات مسیح اور قبر مسیح کا ذکر، اٹلی کے نوجوان کا ذکر جو حضرت مسیح موعودؑ کی کتب کا اٹالین ترجمہ کر رہا ہے، سڑراس برگ میں قیام، آرچ بشپ کے نمائندے سے حضور ایدہ اللہ کی ملاقات، فرینچ نیشنل مراکش عورت کی خواب اور اس کی بیعت کا ذکر۔

    خطبہ جمعہ خطبہ جمعہ فرمودہ 30اپریل 2010ء بمطابق 30شہادت 1389 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن (برطانیہ)

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور