اللہ تعالیٰ کی صفت خالق

خطبہ جمعہ 7؍ مئی 2010ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


تشہد و تعوذ اور سورة فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس آیت کی تلاوت فرمائی:

یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اذۡکُرُوۡا نِعۡمَتَ اللّٰہِ عَلَیۡکُمۡ ؕ ہَلۡ مِنۡ خَالِقٍ غَیۡرُ اللّٰہِ یَرۡزُقُکُمۡ مِّنَ السَّمَآءِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ ۫ۖ فَاَنّٰی تُؤۡفَکُوۡنَ  (فاطر: 4) اللہ تعالیٰ نے اپنے خالق ہونے کا ذکر قرآنِ کریم میں بے شمار جگہ پر کیا ہے۔ اور مختلف پیرایوں میں ہمیں سمجھایا ہے کہ میں خالق ہوں۔ تمہیں پیدا کرنے والا ہوں۔ اس کے باوجود تم میرے صحیح عبدنہیں بنتے۔ اس حوالے سے بعض آیات بیان کرنے سے پہلے میں اہلِ لغت نے لفظ خالق کے حوالے سے جو معنی بیان کئے ہیں وہ بتانا چاہتا ہوں۔ جیسا کہ میں نے کہا خدا تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں بے شمار جگہ پر اپنے آپ کو خالق کہا ہے۔ یعنی یہ اللہ تعالیٰ کا صفاتی نام ہے۔ مفردات جو لغت کی کتاب ہے اس میں لکھا ہے کہ اصل میں خَلْق کے معنی کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانے کے ہیں اور کبھی خَلْق، اِبْدَاع کے معنی میں بھی آ جاتا ہے۔ یعنی کسی چیز کو بغیر مادے کے اور بغیر کسی تقلید کے تخلیق کرنا۔ چنانچہ آیتِ کریمہ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ بِالۡحَقِّ (النحل: 4) یعنی اس نے آسمان اور زمین کو حق کے ساتھ پیدا کیا، میں خلق ابتدا کے معنوں میں ہی ہے کیونکہ دوسرے مقام پر اس کو اس طرح بیان کیا گیا ہے۔بَدِیۡعُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ (البقرہ: 118) وہ آسمان اور زمین کو بغیر کسی سابقہ نمونے کے پیدا کرنے والا ہے۔ پھر لکھتے ہیں کہ ایک چیز کو دوسری شے سے بنانے اور ایجاد کرنے کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ جیسے فرمایا خَلَقَکُمۡ مِّنۡ نَّفۡسٍ وَّاحِدَۃٍ (النساء: 2) کہ تمہیں ایک جان سے پیدا کیا ہے۔خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ مِنۡ سُلٰلَۃٍ مِّنۡ طِیۡنٍ (المومنون: 13) اور ہم نے انسان کو گیلی مٹی کے خلاصے سے بنایا۔ کہتے ہیں کہ خیال رہے کہ خلق بمعنی ابداع یعنی نئی چیز پیدا کرنا ذاتِ باری تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہے۔ چنانچہ ذاتِ باری تعالیٰ اور دوسروں کے درمیان فرق بیان کرتے ہوئے فرمایا۔اَفَمَنۡ یَّخۡلُقُ کَمَنۡ لَّا یَخۡلُقُ ؕ اَفَلَا تَذَکَّرُوۡنَ (النحل: 18)۔ پس کیا جو پیدا کرتا ہے اس جیسا ہو سکتا ہے جو کچھ بھی پیدا نہیں کرتا۔ کیا پھر بھی تم نہیں سمجھتے۔ (مفردات لالفاظ القرآن از علامہ راغب اصفہانی زیر مادہ: خلق)

ازہری کے نزدیک اَلْخَالِق اور اَلْخَلَّاق اللہ تعالیٰ کی صفاتِ حسنہ میں سے ہیں اور الف اور لام کے ساتھ یعنی اَلْ کے ساتھ یہ صفت اللہ کے سوا کسی غیر کے لئے استعمال نہیں ہو تی اور اس سے مراد وہ ذات ہے جو تمام اشیاء کو نیست سے پیدا کرتی ہے اور لفظ خَلْق کا بنیادی معنی اندازہ لگانا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ چیزوں کے وجود کا اندازہ کرنے کے اعتبار سے اور پھر اس اندازے کے مطابق انہیں وجود بخشنے کے اعتبار سے خالق کہلاتا ہے۔

اہلِ عرب کے کلام میں خَلْق سے مرادبغیر کسی سابقہ نمونے کے کسی چیز کو پیدا کرنا اور ہر وہ چیز جسے اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے اسے بغیر کسی سابقہ نمونے کے شروع کرنے والا ہے۔ (لسان العرب زیر مادہ: خلق)

قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ کی تخلیق کے حوالے سے اور نام بھی استعمال ہوئے ہیں جیسے بَارِی ہے، یعنی ایسا پیدا کرنے والا جس کا پہلے نمونہ نہیں تھا۔ پیدائش کا آغاز کرنے والا۔ بَدِیْع کی صفت بھی ہے۔ اس کا مطلب ہے ایسا صانع جو نمونہ یا آلہ یا زمان و مکان کی قید سے بالا ہو کر پیدا کرتا ہے۔ یعنی کسی چیز کو پیدا کرنے کے لئے اسے کسی چیز کی حاجت نہیں ہے۔ پھر ایک لفظ فَاطِرْ ہے جو خدا تعالیٰ کے لئے استعمال ہو گا۔ اس کا مطلب ہے کہ پیدائش کی ابتداء اور اس میں خوبصورتی پیدا کرنے والا۔ بہر حال یہ بہت سارے الفاظ ملتے جلتے ہیں ان کی وضاحت تو آئندہ اپنے اپنے موقع پر ہو گی۔ اس وقت صرف اَلْخَالِق کے حوالے سے قرآنِ کریم کی آیات پیش کروں گا۔

یہ آیت جو میں نے تلاوت کی ہے اس کا ترجمہ ہے کہ اے لوگو! اپنے اوپر اللہ کی نعمت کو یاد کرو۔ کیا اللہ کے سوا بھی کوئی خالق ہے جو تمہیں آسمان اور زمین سے رزق عطا کرتاہے۔ کوئی معبودنہیں مگر وہ۔ پس تم کہاں الٹے پھرائے جاتے ہو؟

پس اللہ تعالیٰ نے انسانیت کو ایک پیغام دیا ہے کہ خدا تعالیٰ نے انسان کو جو اشرف المخلوقات بنایا ہے تو اس کی پرورش کے لئے اپنی نعمتیں بھی اتاری ہیں۔ یہ مت خیال کرو کہ تمہیں جو رزق مہیا ہو رہا ہے یہ اللہ کے سوا کوئی اور مہیا کر رہا ہے۔ اس رزق کا پیدا کرنے والا بھی اللہ تعالیٰ ہی ہے جو رب العالمین ہے۔ زمین جو رزق تمہارے لئے پیدا کر رہی ہے اس رزق کے پیدا کرنے کے لئے بھی آسمان کی مدد کی ضرورت ہے۔ آسمانی پانی نہ ہو تو زمینی پانی بھی خشک ہو جاتا ہے۔ پس زمین سے رزق پیدا کرنے والا بھی خدا ہے اور آسمان سے ان ذرائع کا پیدا کرنے والا بھی خدا ہے جو زمینی رزق پیدا کرنے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ قرآنِ کریم میں ایک جگہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ قُلۡ اَرَءَیۡتُمۡ اِنۡ اَصۡبَحَ مَآؤُکُمۡ غَوۡرًا فَمَنۡ یَّاۡتِیۡکُمۡ بِمَآءٍ مَّعِیۡنٍ  (الملک: 31) تو کہہ بتاوٴ تو سہی کہ اگر تمہارا پانی زمین کی گہرائی میں غائب ہو جائے تو بہنے والا پانی تمہارے پاس خدا کے سوا اور کون لائے گا؟پس زمین کے چشمے، پہاڑوں پر برف، بارشیں یہ سب اللہ تعالیٰ کے پیدا کردہ ہیں۔ پھر زمینی زندگی کے لئے، انسانیت کی بقا کے لئے سورج، چاند اور دوسرے سیارے ہیں یہ بھی ایک اہم کردار ادا کر رہے ہیں اور یہ سب خدا تعالیٰ کی مخلوق ہیں۔ اس میں یہ بھی واضح کر دیا کہ جس طرح تمہاری دنیاوی زندگی اور تمام نعمتوں کا خالق خدا ہے اسی طرح تمہاری روحانی زندگی میں بھی خدا تعالیٰ نے سامان کئے ہیں۔ اور یہ روحانی اور دنیاوی زندگی کے سامان ایک نیک فطرت انسان سے یہ تقاضا کرتے ہیں کہ ایک خدا کی عبادت کی جائے جس نے جسمانی اور روحانی زندگی کے سامان پیدا فرمائے۔ یہ بھی فرمایا کہ ہمیشہ یاد رکھو کہ یہ دنیاوی رزق تو عارضی رزق ہے۔ اصلی رزق وہ روحانی رزق ہے جو دائمی رہنے والا ہے۔ جو آخرت میں کام آنے والا ہے۔ اور یہ اس وقت تک نہیں مل سکتا جب تک کہ کامل موحدنہیں بنتے، جب تک صرف اور صرف خدا تعالیٰ کی عبادت کرنے والے نہیں بنتے۔ پس یہ اصل ہے جس کو سمجھنے کی ہمیں بھی ضرورت ہے اور دنیا کو سمجھانے کی بھی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ کے روحانی سامانوں کی تخلیق میں انبیاء کا وجود ہوتا ہے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ اظہار خدا تعالیٰ نے آنحضرتﷺ کو مبعوث فرما کر فرمایا، جو ہر لحاظ سے خدا تعالیٰ کی کامل تخلیق کا ایک نمونہ ہیں، جو انسانِ کامل کہلائے۔ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا حقیقی اظہار چاہے وہ دنیاوی ہیں یا روحانی ہیں آپ کے اسوہ پر چل کر ہی ہو سکتا ہے جس کو ہم نے بھی اپنے سامنے رکھنا ہے اور دنیا کو بھی بتانا ہے۔ پس یہ چیز ہے جو بہت اہم ہے۔ خدا کرے کہ ہم اس مقصد کو ادا کرنے والے بھی ہوں اور دنیا اس چیز کو سمجھنے والی بھی ہو اور اللہ کا عبد بنے۔

پھر ایک جگہ قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اَمَّنۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ وَ اَنۡزَلَ لَکُمۡ مِّنَ السَّمَآءِ مَآءً ۚ فَاَنۡۢبَتۡنَا بِہٖ حَدَآئِقَ ذَاتَ بَہۡجَۃٍ ۚ مَا کَانَ لَکُمۡ اَنۡ تُنۡۢبِتُوۡا شَجَرَہَا ؕ ءَ اِلٰہٌ مَّعَ اللّٰہِ ؕ بَلۡ ہُمۡ قَوۡمٌ یَّعۡدِلُوۡنَ  (النمل: 61) کہ یہ بتاوٴ کہ کون ہے وہ جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور تمہارے لئے آسمان سے پانی اتارا۔ اور اس کے ذریعہ ہم نے پُر رونق باغات اگائے۔ تمہارے بَس میں تو نہ تھا کہ تم ان کے درخت پروان چڑھاتے۔ پس کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود ہے؟۔ (نہیں، نہیں)۔ بلکہ وہ ناانصافی کرنے والے لوگ ہیں۔ پس ہمیں اس طرف توجہ دلائی کہ زمینی اور آسمانی نظام پر غور کرو۔ اگر انصاف اور عقل کو استعمال کرو گے تو اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ زمین و آسمان کو پیدا کرنے والا ایک خدا ہے۔ اور پھر پیدا کر کے چھوڑ نہیں دیا بلکہ فرمایا کہ وَ اَنْزَلَ لَكُمْ مِّنَ السَّمَآءِ مَآءً۔ کہ تمہارے لئے آسمان سے پانی اتارا ہے تا کہ تمہاری زندگی قائم رہ سکے۔ پہلے بھی بیان کر کے آیا ہوں کہ اگر تمہارا پانی زمین میں غائب ہو جائے تو کیا کرو گے؟ کون اسے لا سکتا ہے؟ پس اللہ تعالیٰ نے اپنی ہستی کا ثبوت دیا ہے کہ پانی بھیجنا خدا تعالیٰ کا کام ہے۔ زمین کی زندگی میں پانی کا بڑا اہم کردار ہے۔ جب زمین میں زندگی نہیں تھی اور زمین میں شدید حرارت تھی۔ اس وقت کہتے ہیں کہ بعض خاص قسم کے بیکٹیریا موجود تھے لیکن یہ عمومی زندگی جو اَب ہے یہ اس میں پنپ نہیں سکتی تھی۔ تو اس وقت پانی کے ذریعے سے اس میں زندگی کے سامان پیدا کئے۔ مسلسل بارشوں نے زمین کو اس قابل بنایا کہ اس میں موجودہ زندگی پیدا ہو سکے اور یہ سب خدا تعالیٰ کا منصوبہ تھا جس کے تحت اس نے کائنات اور تمام نظاموں کی تخلیق کی۔ فرمایا کہ یہ پُر رونق باغات یہ تمہارے ماحول کی صفائی، صحت اور خوراک مہیا کرنے کا ذریعہ ہیں۔ ان کو خدا تعالیٰ نے ہی پیدا کیا ہے اور اس پانی کے ذریعہ پیدا کیا ہے جو آسمان سے اترا اور ایک مسلسل عمل ہے جو زمین سے پانی کو اوپر لے جاتا ہے اور پھر صاف مصفّٰی پانی اور زندگی بخش پانی انسانی زندگی کی بقا کے لئے زمین پر اترتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ تمہارے بس میں نہیں تھا کہ زمینی زندگی کے سامان کر سکتے۔ پس اس بات پر غور کرو اور خدا تعالیٰ کی طرف جھکو۔ اس میں اس بات کی طرف بھی توجہ دلائی گئی جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا کہ اگر خدا تعالیٰ نے جسمانی ضروریات کے سامان مہیا فرمائے ہیں اور اپنی صفتِ ربوبیت کے تحت ہماری پیدائش کے سامان پیدا فرما رہا ہے تو انسانی پیدائش کا جویہ مقصد ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی عبادت کرنے والا بنے، اس کے لئے کیوں انتظام نہ فرماتا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس مقصد کی یاد دہانی کے لئے انبیاء کا نظام ہے جو اس طرف توجہ کرواتا ہے۔ وہ روحانی پانی انبیاء کے ذریعے نازل ہوتا ہے۔ جس طرح بارش کا پانی نازل ہونے سے، اترنے سے زمین میں روئیدگی پیدا ہوتی ہے فصلیں باغات اپنا جوبن دکھاتے ہیں تو ساتھ ہی ایسی نباتات بھی نکل آتی ہیں۔ ایسی جڑی بوٹیاں بھی نکل آتی ہیں جو ان فصلوں کے لئے نقصان دہ ہوتی ہیں۔ زمینداراس کو جانتے ہیں اور بعض دفعہ بعض فصلوں میں اس قدر جڑی بوٹیاں ہوتی ہیں کہ تلف کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اصل فصل جو ہے وہ دَب جاتی ہے۔ اب تو ترقی یافتہ ممالک میں دوائیں چھڑک کر ان بوٹیوں کو ختم کیا جاتا ہے لیکن بہر حال دنیا کے ممالک ایسے بھی ہیں جہاں کے زمیندار جو محنت نہیں کرتے ان بارشوں کی وجہ سے جو بوٹیاں اگتی ہیں اس سے ان کا نقصان بھی ہوتا ہے یا بعض دفعہ اتنی زیادہ ہوتی ہیں کہ ختم کر ہی نہیں سکتے۔ تو وہی بارش جو بارش سے صحیح فائدہ نہ اٹھانے کی وجہ سے ایک کو فائدہ دے رہی ہوتی ہے تو دوسرے کو اس بارش سے نقصان پہنچ رہا ہوتا ہے۔ روحانی زندگی میں بھی یہی حال ہے۔ انبیاء کے آنے سے جو روحانی بارش ہوتی ہے اس سے نیک فطرت اور محنتی تو فائدہ اٹھاتے ہیں اور مخالفت میں پڑنے والے اور دین سے لا تعلق محروم رہ جاتے ہیں اور نہ صرف محروم رہ جاتے ہیں بلکہ اپنی عاقبت برباد کرنے والے بن جاتے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ غریب تو اس بارش سے فائدہ اٹھانے والے بنے اور فائدہ اٹھا کر رضی اللہ عنہ کا درجہ پا گئے۔ لیکن بعض سرداران دنیا میں بھی اپنے بد انجام کو پہنچے اور آخرت میں بھی ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے عذاب کی خبریں ہی دی ہیں تو اس کا بھی یہی حال ہے۔ اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے جو روحانی پانی اتارا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جو عاشقِ صادق ہیں ان سے جنہوں نے فائدہ اٹھایا انہوں نے خدا تعالیٰ کی محبت اور سلوک کے نظارے دیکھے۔ اپنی زندگیوں میں اپنی خوبصورتی اور اپنی روحانیت کو بڑھتے پھلتے پھولتے دیکھا۔ جو مخالفین تھے وہ اس آسمانی پانی سے محروم رہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صورت میں اترا۔ جڑی بوٹیاں بھی بے شک بڑھیں لیکن پاک فطرتوں کی ایمانی حالت کے باغات ان سے پاک صاف رہ کر ایمان اور ایقان میں ترقی کرتے چلے گئے۔ آنحضرتﷺ کے طفیل آپ کے اس غلامِ صادق کا زمانہ بھی تاقیامت ہے۔ اس لئے ہم دیکھتے ہیں کہ مخالفتوں کی جڑی بوٹیاں بھی سر اٹھاتی رہتی ہیں۔ پس ہمیں اللہ تعالیٰ نے یہ توجہ دلائی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تم پر فضل کیا ہے جو آسمان سے اس زمانے میں یہ پانی اتارا ہے جس نے تمہارے دلوں کے باغات کو سیراب کیا ہے اس سے ہمیشہ صحیح فائدہ اٹھاتے رہو۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جو تمہیں ہدایت ملی ہے اس کی قدر کرو۔ اپنے تقویٰ اور اعمال کے درختوں کو اس پانی سے سینچتے رہو۔ قرآنی تعلیم کو اپنے اوپر لاگو رکھواور لاگو رکھنے کی کوشش کرتے رہو۔ خدائے واحد کی عبادت کی طرف توجہ کرو۔ اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے رہو۔ جس طرح ہوا سے بعض دفعہ خراب کھیتوں کے، جڑی بوٹیوں کے بیج اچھے کھیتوں میں بھی آ جاتے ہیں اور آئندہ نقصان پہنچانے کا ذریعہ بن جاتے ہیں تو اچھے زمیندار جب انہیں اپنے کھیتوں میں اُگتا دیکھتے ہیں تو فوراً تلف کرنے کی کوشش کرتے ہیں اسی طرح اپنے دلوں کے کھیتوں کی صفائی کرتے رہو کیونکہ دنیاوی باتیں اس دنیا کے ماحول میں رہنے کی وجہ سے اثر انداز ہوتی رہتی ہیں تبھی تم اپنے حقیقی خالق و مالک کے عبد بننے کا حق ادا کرنے والے بن سکتے ہو۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہارے بس میں نہیں ہے کہ تم اعمالِ صالحہ کے باغوں کو پروان چڑھاوٴ۔ یہ سب اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہے۔ پس اس بات کی قدر کرو اور اللہ تعالیٰ کو معبودِ حقیقی سمجھو۔ اس کی عبادت سے کبھی غافل نہ ہو۔

عبادت کی طرف توجہ دلاتے ہوئے پھر خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اَمَّنۡ یُّجِیۡبُ الۡمُضۡطَرَّ اِذَا دَعَاہُ وَ یَکۡشِفُ السُّوۡٓءَ وَ یَجۡعَلُکُمۡ خُلَفَآءَ الۡاَرۡضِ ؕ ءَ اِلٰہٌ مَّعَ اللّٰہِ ؕ قَلِیۡلًا مَّا تَذَکَّرُوۡنَ (سورة النمل: 63) پھر وہ کون ہے جو بے قرار کی دعا قبول کرتا ہے جب وہ اسے پکارے اور تکلیف دور کر دیتا ہے اور تمہیں زمین کے وارث بناتا ہے۔ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود ہے؟بہت کم ہے جو تم نصیحت پکڑتے ہو۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ دیکھو کون بے کس اور مصیبت زدہ کی باتوں کو سنتا ہے۔ پس ایسے لوگوں کا نقشہ اس آیت میں کھینچا گیا ہے جو انتہائی اضطرار کی حالت میں ہیں یا ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے آگے جھکتے ہیں اور جب اضطرار کی کیفیت ہو یعنی وہ حالت جب کوئی جائے پناہ نظر نہ آتی ہو اور پھر انسان خدا تعالیٰ کے حضور حاضر ہو اور کہے کہ دنیا کے سارے دروازے تو بند ہو گئے اے خدا! تو زمین و آسمان کا خالق و مالک ہے، روحانی بارش کا نزول بھی تیرا انعام ہے اور تیرے فرستادے کو قبول کرنا بھی تیرا انعام ہے۔ لیکن اس قبول کرنے کے بعد، اس قبولیت کے بعد میرے پر زمین تنگ کی جا رہی ہے۔ یہ ابتلاء جو آ رہے ہیں انہیں دور کرنے والا بھی تو ہے۔ پس میرے سے ابتلاوٴں کو دور فرما۔ ہم دیکھتے ہیں آج کل پھر پاکستان میں احمدیوں کے جو حالات ہیں اور ایک لمبے عرصے سے یہ چل رہے ہیں ان کو اگر دور کرنا ہے تو صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کو امن کی جگہ اور جائے پناہ سمجھ کر خالص ہو کر اس کے آگے جھکنے کی ضرورت ہے اس کے علاوہ اور کوئی صورت نہیں جس سے یہ دور ہو سکیں۔ اب تو بعض اور ممالک بھی شامل ہو گئے ہیں۔ مثلاً مصر ہے آج کل وہاں بھی احمدیوں پر تنگی وارد کی جا رہی ہے۔ اس کا ایک ہی حل ہے کہ خداتعالیٰ کے آگے اضطراری رنگ میں جھکا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جب ایسی اضطراری حالت ہو گی اور ایسی حالت میں دعائیں کی جائیں گی تو میں انہیں قبول کرتا ہوں۔ انسان کی پیدائش کے بعد خدا تعالیٰ نے اسے چھوڑ نہیں دیا۔ بلکہ رحمانیت اور رحیمیت کے جلوے ساتھ ساتھ چل رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے آگے خالص ہو کر جب جھکا جاتا ہے تو خدا تعالیٰ فرماتا ہے میں نہ صرف تکلیفیں دور کر دیتا ہوں بلکہ اپنے ایسے پیاروں کو زمین کا وارث بنا دیتا ہوں۔ احمدیوں پر سختیاں اور ابتلا اگر ہیں تو اس وجہ سے کہ اللہ کے پیارے کو ہم نے سچا سمجھ کر مانا اور اللہ کے حکم کے مطابق مانا۔ پس اللہ تعالیٰ یقیناً قدرت رکھتا ہے اور دکھائے گا کہ آج جوزمین کے وارث بنے بیٹھے ہیں ان کی جگہ اللہ تعالیٰ اپنے پیارے کے پیاروں کو زمین کا وارث بنا دے گا اور دنیا کو بتا دے گا کہ تم دنیا والوں کو معبود سمجھ کر میرے پیاروں پر زمین تنگ کرنے والے بن رہے تھے تو دیکھ لو کہ میرے سوا کوئی اس دنیا کا مالک نہیں۔ اور میرے سوا کوئی معبودنہیں اور میں اپنے نیک اعمال بجا لانے والے اور عابد بندوں کی کس طرح مدد کرتا ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ’’ کلامِ الٰہی میں لفظ مضطر سے وہ ضرر یافتہ مراد ہیں جو محض ابتلاء کے طور پر ضرر یافتہ ہوں نہ سزا کے طور پر۔ لیکن جولوگ سزا کے طور پر کسی ضرر کے تختہ مشق ہوں وہ اس آیت کے مصداق نہیں ہیں ورنہ لازم آتا ہے کہ قومِ نوحؑ اور قومِ لوطؑ اور قومِ فرعون وغیرہ کی دعائیں اس اضطرار کے وقت میں قبول کی جاتیں مگر ایسا نہیں ہوا اور خدا کے ہاتھ نے ان قوموں کو ہلاک کر دیا۔‘‘  (دافع البلاء روحانی خزائن جلد 18صفحہ 231)

پس جہاں جہاں احمدی تکلیف میں ہیں وہ یاد رکھیں کہ صرف احمدی ہیں جو اس وقت ابتلا کی صورت میں ضرر یافتہ ہیں اور انہی کی دعائیں اللہ تعالیٰ قبول کرنے کا وعدہ فرماتا ہے۔ باقی دنیا اگر کسی مشکل میں گرفتار ہے تو وہ ابتلا نہیں ہے وہ سزا ہے۔ پس ایک اضطرار کی کیفیت اپنی دعاوٴں میں طاری کریں۔ پھر دیکھیں کہ خدا تعالیٰ کس طرح تمام تکالیف کو اپنے فضل سے دور فرما دیتا ہے۔

پھر ایک جگہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ: ’’یاد رکھو کہ خدا تعالیٰ بڑا بے نیاز ہے جب تک کثرت سے اور بار بار اضطراب سے دعا نہیں کی جاتی وہ پرواہ نہیں کرتا‘‘۔ (ملفوظات جلد پنجم صفحہ 455 مطبوعہ ربوہ)

اللہ تعالیٰ ہمیں ایسی دعاوٴں کی توفیق دے جو صرف اور صرف خدا تعالیٰ کو جائے پناہ سمجھ کر اس کے حضور کی جائیں۔ پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔اَمَّنۡ یَّہۡدِیۡکُمۡ فِیۡ ظُلُمٰتِ الۡبَرِّ وَ الۡبَحۡرِ وَ مَنۡ یُّرۡسِلُ الرِّیٰحَ بُشۡرًۢا بَیۡنَ یَدَیۡ رَحۡمَتِہٖ ؕ ءَ اِلٰہٌ مَّعَ اللّٰہِ ؕ تَعٰلَی اللّٰہُ عَمَّا یُشۡرِکُوۡنَ (النمل: 64) یا پھر وہ کون ہے جو خشکی اور تری کے اندھیروں میں تمہاری رہنمائی کرتا ہے؟اور کون ہے وہ جو اپنی رحمت کے آگے آگے خوشخبری کے طور پر ہوائیں چلاتا ہے۔ کیا اللہ کے سوا کوئی اور معبود ہے؟ بہت بلند ہے اللہ اس سے جو وہ شرک کرتے ہیں۔ پس یہاں پھر جہاں ظاہری دنیاوی بارشوں کا ذکر ہے اور مصیبتوں سے نجات کا ذکر ہے وہاں روحانی اندھیروں کا بھی ذکر ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کے برگزیدوں کے آنے سے پہلے خدا کو ماننے والے اور نہ ماننے والے دونوں جو ہیں وہ خدا سے دور ہوتے ہیں اور اندھیروں میں پڑے ہوئے ہوتے ہیں۔ پھر خدا تعالیٰ جو اپنی مخلوق کی بہتری کے سامان پیدا فرماتا رہتا ہے انبیاء کو بھیجتا ہے۔ آنحضرتﷺ کی بعثت بھی اس وقت ہوئی جب دنیا کی ایسی حالت تھی جس کا نقشہ قرآنِ کریم میں اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ ظَہَرَ الۡفَسَادُ فِی الۡبَرِّ وَ الۡبَحۡرِ  (الروم: 42) یعنی خشکی اور تری میں فساد برپا تھا۔ وہ قومیں جو خدا پر یقین کرتی تھیں وہ بھی اپنے بگاڑ کے انتہاء کو پہنچی ہوئی تھیں اور جو خدا پر یقین نہیں کرتی تھیں وہ بھی اپنے بگاڑ کے انتہاء کو پہنچی ہوئی تھیں۔ اس وقت آنحضرتﷺ کو اللہ تعالیٰ نے مبعوث فرمایا۔ بعض نیک لوگوں نے اس وقت بھی ٹھنڈی ہواوٴں کو محسوس کر لیا جس طرح ایک عیسائی راہب کے بارے میں آتا ہے کہ آپ کے ظہور کی خبر اس نے دی۔ (السیرة النبویۃ لابن ہشام۔ قصۃبُحیَری صفحہ 145مطبوعہ بیروت ایڈیشن 2001ء)

اسی طرح اس زمانے میں آنحضرتﷺ کے غلامِ صادق کے زمانے میں بشمول مسلمان ہر مذہب والے کی ایمانی حالت میں بگاڑ پیدا ہو چکا تھا بلکہ ابھی تک پیدا ہوا ہوا ہے۔ آپ علیہ السلام کی بعثت سے قبل بعض نیک فطرت کسی مصلح کے آنے کے منتظر تھے اور محسوس کر رہے تھے کہ کوئی آنے والا ہے کیونکہ زمانے کا بگاڑ انتہا تک پہنچ چکا ہے۔ لیکن ان میں سے ایسے بھی تھے جنہوں نے ضرورت محسوس کرنے کے باوجود جب آپ نے اپنی بعثت کا اعلان فرمایا تو آپ کو قبول نہ کیا۔

بہر حال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنی بعثت کے تعلق میں لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ: ’’اے بندگانِ خدا! آپ لوگ جانتے ہیں کہ جب امساکِ باراں ہوتا ہے اور ایک مدت تک مہینہ نہیں برستا تو اس کا آخری نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کنوئیں بھی خشک ہونے شروع ہو جاتے ہیں۔ پس جس طرح جسمانی طور پر آسمانی پانی بھی زمین کے پانیوں میں جوش پیدا کرتا ہے اسی طرح روحانی طور پر جو آسمانی پانی ہے (یعنی خدا کی وحی) وہی سفلی عقلوں کو تازگی بخشتا ہے۔ سو یہ زمانہ بھی اس روحانی پانی کا محتاج تھا‘‘۔ فرمایا: ’’میں اپنے دعویٰ کی نسبت اس قدر بیان کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ میں عین ضرورت کے وقت خدا کی طرف سے بھیجا گیا ہوں جبکہ اس زمانہ میں بہتوں نے یہود کا رنگ پکڑا اور نہ صرف تقویٰ اور طہارت کو چھوڑا بلکہ ان یہود کی طرح جو حضرت عیسیٰ کے وقت میں تھے سچائی کے دشمن ہو گئے۔ تب بالمقابل خدا نے میرا نام مسیح رکھ دیا۔ نہ صرف یہ ہے کہ میں اس زمانہ کے لوگوں کو اپنی طرف بلاتا ہوں بلکہ خود زمانے نے مجھے بلایا ہے‘‘۔ (براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد 21صفحہ428)

پھر خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اَمَّنۡ یَّبۡدَؤُا الۡخَلۡقَ ثُمَّ یُعِیۡدُہٗ وَ مَنۡ یَّرۡزُقُکُمۡ مِّنَ السَّمَآءِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ ءَ اِلٰہٌ مَّعَ اللّٰہِ ؕ قُلۡ ہَاتُوۡا بُرۡہَانَکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ  (النمل: 65) کہ یا وہ کون ہے جو تخلیق کا آغاز کرتا ہے۔ پھر وہ اسے دھراتا ہے اور کون ہے جو تمہیں آسمان اور زمین سے رزق عطا کرتا ہے۔ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود ہے؟ تو کہہ دے کہ تم اپنی دلیل لاوٴ اگر تم سچے ہو۔

یہ جوساری آیات ہیں سورة نمل کی ہیں اور ان سب میں ہر جگہ ہر بات کہنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے یہی فرمایا ہے کہ کیا تمہارا اور کوئی معبود ہے؟ اگر ہے تو لاوٴ۔ اس آیت میں بھی اللہ تعالیٰ یہی فرما رہا ہے، اس تخلیق کے بارے میں جس کا آیت میں ذکر ہے کہ یَّبۡدَؤُا الۡخَلۡقَ ثُمَّ یُعِیۡدُہٗ۔ حضرت مصلح موعودؓ کے نزدیک پیدائشِ اولیٰ سے مراد قوموں کی تمکنت ہے اور يُعِيْدُهٗ سے مراد غالب قوموں کے زوال کے بعد ان میں دوبارہ زندگی کی اور بیداری کی روح پیدا کرنا ہے۔ یعنی اگر غور کرو تو تمہیں نظر آئے گا کہ اگر کسی قوم نے ترقی کی ہے تو الٰہی مدد اور تائید سے کی ہے۔ اور انحطاط کے بعد احیائے ثانیہ بھی، دوسری زندگی بھی ان کو ملی ہے تو الٰہی تقدیروں کے ماتحت ہوئی ہے۔ یہ سب کچھ خود بخودنہیں ہوا اور یہی توجہ اب مسلمانوں کو بھی دلائی گئی ہے کہ تمہیں غلبہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہو گا۔ (ماخوذ از تفسیر کبیر جلد ہفتم صفحہ 425)

پس نہ کسی شدت پسند گروپ کی ضرورت ہے۔ نہ ہی کسی تلوار کے جہاد کی ضرورت ہے۔ اگر غلبہ حاصل کرنا ہے تو خدا تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرتے ہوئے۔ ہو سکتا ہے اور اس کے لئے خدا تعالیٰ نے اس زمانے میں مسیح موعود کو بھیجا ہے جنہوں نے ہمیں غلبہ کا جو ہتھیار دیا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تائید یافتہ دلائل اور براہین ہیں اور خدا تعالیٰ نے ہمیں یہ کہا ہے کہ یہ سب کچھ دعاوٴں سے ہونا ہے۔ اس لئے خالص ہو کر اس کے آگے جھکنا بھی ضروری ہے۔ پس اگر مسلمانوں نے اپنی پیدائشِ نو کے نظارے دیکھنے ہیں تو مسیح موعود کے ساتھ جڑنے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ کے حضور خالص ہو کر حاضر ہونے کی ضرورت ہے۔ نہ کہ تلواریں اٹھانے کی یا دہشت گردی کرنے کی اور پھر اس آیت میں اس بات کو دہرایا کہ رزق جو آسمان اور زمین سے مل رہا ہے یہ اللہ تعالیٰ ہی مہیا فرما رہا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کی طرف جھکو اور اس سے ہی سب خیر مانگو۔

احمدیوں کا بھی یہ فرض ہے کہ اس اصول کو ہمیشہ یاد رکھیں۔ بغیر خدا تعالیٰ کی مدد کے نہ مادی رزق مل سکتا ہے نہ روحانی رزق مل سکتا ہے۔ بعض احمدی بھی اس اصل کو بھولتے چلے جا رہے ہیں۔ جیسا کہ میں کئی مرتبہ پہلے بھی بیان کر چکا ہوں اور یہ واقعات اکثر ہوتے رہتے ہیں اس لئے میں بیان کرتا ہوں کہ اس طرف توجہ دینے کی بہت زیادہ ضرورت ہے کہ اپنی نمازوں کی حفاظت کریں، پابندی کریں۔ جب دعا کے لئے بعض لوگ مجھے کہتے ہیں تو بعض کے چہروں سے ہی پتا لگ جاتا ہے کہ رسمی طور پر کہا جا رہا ہے۔ جب ان سے پوچھو کہ تم خودنماز پڑھتے ہو؟ دعاوٴں کی طرف توجہ ہے؟ تو جواب نفی میں ہوتا ہے تو یہ انتہائی خوفناک صورتحال ہے۔ ہم میں سے تو ایک بھی ایسا نہیں ہونا چاہئے جو نماز کا تارک ہو۔ بلکہ گذشتہ دنوں ایک واقعہ ہوا۔ مجھے باپ بیٹا ملنے کے لئے آئے تو باپ نے بیٹے کے سامنے ہی بیٹے کی شکایت کی کہ اس کی نمازوں کی طرف توجہ نہیں ہے اور کاروبار میں بڑا اچھا ہے، کاروبار کی طرف توجہ ہے۔ اور بیٹا بھی اپنے کاروبار کے لئے ہی دعا کے لئے کہہ رہا تھا تو اسے میں نے کہا کہ یہ تو خدا تعالیٰ سے مذاق ہے۔ یہ باتیں بھی تم صرف رسماً کر رہے ہو۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک جگہ فرمایا کہ جو لوگ صرف کاروبار کے لئے، اپنی دنیا داری کے لئے مجھے دعا کے لئے کہتے ہیں ان سے مجھے ایک طرح کی کراہت آتی ہے۔ تو دنیاوی ترقی کے لئے بھی دعا کرنا ضروری ہے اس کے بغیر نہیں ہو سکتی لیکن صرف دنیا مقصودنہ ہو بلکہ سب سے اول خدا تعالیٰ کا حق ادا کرنے کی ضرورت ہے اور اس طرف ہر احمدی کو توجہ دینی چاہئے۔ میں نے یہ بھی کہا تھا کہ اگر تمہارا کاروباراچھا چل گیا تو یہ بھی اللہ تعالیٰ کا ایک فضل ہے۔ جو خدا اس بات پر قدرت رکھتا ہے کہ اس نے تمہارا کاروبار کامیاب کر دیا تو وہ یقیناً اس بات کی بھی قدرت رکھتا ہے کہ اس میں اس کشائش کو دور کر دے اور اپنے فضلوں کا جوہاتھ ہے وہ اٹھا لے۔ اس لئے ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے کے لئے خدا تعالیٰ کی عبادت کی ضرورت ہے اور یہ انسانی تخلیق کا سب سے بڑا مقصد ہے۔ پس ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ اپنے خالق و مالک کا ہم تبھی حق ادا کر سکتے ہیں جب اس کو معبودِ حقیقی سمجھیں اور اس کے سامنے جھکیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔

(الفضل انٹرنیشنل جلد17شمارہ22 مورخہ28مئی تا3جون 2010 صفحہ5تا7)


  • خطبہ کا مکمل متن
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 7؍ مئی 2010ء شہ سرخیاں

    خدا تعالیٰ نے زمینی رزق کے ساتھ ساتھروحانی رزق کا بھی انتظام کیا ہے، اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا حقیقی اظہار آپﷺ کے اسوہ پر چل کر ہو سکتا ہے، آسمانی اور دنیاوی نظام پر غور کرو، عبادت سے ہر گز غافل نہ ہو، احمدیوں پر حالات تنگ کئے جانے کا ذکر، اضطرار کے ساتھ خدا سے دعا کریں، آپﷺ کی بعثت کے وقت ظہر الفساد فی البر والبحر کا نظارہ، غلبہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہی ہوگا، مقصد تخلیق اس وقت پورا ہوگاب ہم اس کو معبود حقیقی سمجھ کر اس کے آگے جھکیں گے۔

    خطبہ جمعہ فرمودہ 07مئی 2010ءبمطابق 07ہجرت 1389 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن (برطانیہ)

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور