تسبیح کر اپنے ربّ کی جو اعلیٰ ہے

خطبہ جمعہ 14؍ مئی 2010ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


تشہد و تعوذ اور سورة فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس آیت کی تلاوت فرمائی:

سَبِّحِ اسۡمَ رَبِّکَ الۡاَعۡلَی۔ الَّذِیۡ خَلَقَ فَسَوّٰی۔ وَ الَّذِیۡ قَدَّرَ فَہَدٰی (الاعلیٰ: 2-4)

یہ آیات جو مَیں نے تلاوت کی ہیں۔ سورة اعلیٰ کی پہلی تین آیات ہیں۔ یعنی بسم اللہ کے علاوہ۔ اس سورة کو جیسا کہ ہمارے ہاں عموماً طریق رائج ہے، جمعہ اور عیدین میں پہلی رکعت میں پڑھا جاتا ہے۔ کیونکہ حدیث میں روایت ملتی ہے کہ آنحضرتﷺ جمعہ اور عیدین پر پہلی رکعت میں سورة اعلیٰ پڑھا کرتے تھے۔ اسی طرح دوسری رکعت میں سورة الغاشیہ پڑھا کرتے تھے۔ (مسلم کتاب الجمعة باب ما یقرأ فی صلٰوة الجمعة حدیث نمبر 1912)

پس یہ اس سنت کی پیروی ہے جو آنحضرتﷺ کی سنت ہے جس کی وجہ سے یہ سورتیں پڑھی جاتی ہیں۔ اسی طرح یہ بھی روایت ہے کہ آنحضرتﷺ وتروں کی پہلی رکعت میں سورة اعلیٰ پڑھا کرتے تھے۔ اور دوسری رکعت میں سورة الکافرون اور تیسری رکعت میں بعض روایات میں آتا ہے سورة الاخلاص اور بعض میں یہ ہے کہ آخری تین سورتیں۔ آخری دو قل اور سورة اخلاص۔ (ترمذی ابواب الوتر باب ما جاء فی ما یقرأ بہ فی الوترحدیث نمبر 462، 463)

تفسیر سورة الاعلیٰ

بہر حال اس وقت سورة الاعلیٰ کی ان آیات کے حوالے سے کچھ کہوں گا۔ حضرت مصلح موعودؓ نے تفسیرِ کبیر میں اس کی بڑی تفصیل سے تفسیر بیان کی ہے اور بحث فرمائی ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ کی تفاسیر جو ہیں وہ بھی ایک عظیم علمی خزانہ ہیں۔ گو یہ پوری قرآنِ کریم کی تو تفسیر نہیں ہے لیکن جن جن سورتوں کی ہے اُن کو پڑھنے کی طرف جماعت کو توجہ کرنی چاہئے۔ یہ مختلف دس جلدیں ہیں۔سَبِّحِ اسۡمَ رَبِّکَ الۡاَعۡلَی (الاعلیٰ: 2) یعنی تسبیح کر اپنے ربّ کی جو اعلیٰ ہے۔ یعنی تیرا رب جو ربوبیت کے لحاظ سے سب سے بلند اور اعلیٰ شان رکھتا ہے اُس کی تسبیح کر۔ اس کا یہ مطلب بھی ہے کہ تو اپنے رب کا نام دنیا میں بلند کر۔ گویا دو ذمہ داریاں ایک مومن کی لگائی گئی ہیں جو اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ آنحضرتﷺ اللہ تعالیٰ کے آخری نبی ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے کامل نمونہ بنایا اور آپؐ پر شریعت کامل ہوئی اور آپؐ کے طریق پر چلنا ہم پر فرض قرار دیا۔ پس ہر شخص جو آپ کی طرف حقیقی رنگ میں منسوب ہوتا ہے اور ہونا چاہتا ہے، اس کا یہ فرض ہے کہ آپ کے اسوہ پر چلنے کی کوشش کرے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ لَقَدۡ کَانَ لَکُمۡ فِیۡ رَسُوۡلِ اللّٰہِ اُسۡوَۃٌ حَسَنَۃٌ (الاحزاب: 22) یقیناً تمہارے لئے اللہ کے رسول میں ایک کامل نمونہ ہے جس کی پیروی کرنی چاہئے۔ اور اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرنے میں آپ کا کیا نمونہ تھا؟ آپ کے صبح شام، رات دن اللہ تعالیٰ کے ذکر سے پُر گزرتے تھے۔ پھر بھی آپ فرماتے ہیں کہ اے رب! مجھے اپنا ذکر کرنے والا اور اپنا شکر کرنے والا بنا۔ (سنن ابن ماجہ کتاب الدعاء باب دعاء رسول اللہﷺ حدیث نمبر3830)

رکوع اور سجدے میں آپ اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تحمید فرماتے تھے۔ اور آپ کی تسبیح و تحمید اور گریہ و زاری ایک عجیب رنگ رکھتی تھی۔ رکوع میں جب سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْم سے اپنے عظیم ربّ جو رب العالمین ہے، اس کی بزرگی اور برتری کا ذکر فرماتے ہیں تو کھڑے ہو کر سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہ کہہ کر پھر اللہ تعالیٰ کی بے شمار حمد کی طرف توجہ فرماتے ہیں۔ آپؐ کے رکوع اور سجود اور قیام اور نماز کی ہر حرکت کے بارہ میں ایک دفعہ پوچھنے پر حضرت عائشہؓ نے فرمایا تھا کہ اس کی خوبصورتی اور لمبائی نہ پوچھو۔ (بخاری کتاب التہجد باب قیام النبیﷺ باللیل فی رمضان وغیرہ حدیث نمبر 1147)

آنحضرتﷺ کا جذبۂ شکر

سجدوں کی لمبائی کے بارہ میں ایک روایت میں یہ ذکر ملتا ہے۔ حضرت عبدالرحمٰنؓ بن عوف کہتے ہیں کہ آنحضرتﷺ ایک دن مسجد میں تشریف لائے اور قبلہ رُو ہو کر سجدے میں چلے گئے۔ بہت لمبا سجدہ کیا۔ اتنا لمبا کہ مَیں آپ کو دیکھ کر پریشان ہو گیا۔ بلکہ یہاں تک میری پریشانی بڑھی کہ مجھے گمان ہونے لگا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی روح قبض کر لی ہے۔ اس پریشانی کی حالت میں مَیں آپ کے قریب پہنچا تو آپ سجدہ سے اٹھ بیٹھے۔ آپ نے فرمایا کہ کون ہے؟ مَیں نے عرض کی یا رسول اللہ! مَیں عبدالرحمن ہوں۔ پھرمَیں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول!آپ کا یہ سجدہ اتنا زیادہ لمبا ہو گیا تھا کہ مجھے اندیشہ ہوا کہ کہیں آپ کی روح تو قبض نہیں ہو گئی۔ آپ نے فرمایا کہ میرے پاس جبریل آئے تھے اور یہ خوشخبری دی تھی کہ اللہ تعالیٰ آپ کے حق میں فرماتا ہے کہ جو آپ پر درُود بھیجے گا اس پر میں رحمتیں نازل کروں گا۔ اور جو سلامتی بھیجے گا اس پر مَیں سلامتی نازل کروں گا۔ اس بات پر مَیں سجدہ شکر بجا لا رہا تھا اور اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تحمید کر رہا تھا۔ (مسند احمد بن حنبل جلد 1صفحہ 512-513حدیث نمبر: 1664مسند عبدالرحمن بن عوف مطبوعہ بیروت ایڈیشن 1998ء)

یہی نہیں کہ آپ پر اللہ تعالیٰ کا یہ اتنا بڑا انعام تھا اس کی وجہ سے شکر بجا لا رہے ہیں، بلکہ ہر چھوٹی سے چھوٹی اللہ تعالیٰ کی جو نعمت تھی، اس پر بھی آپ اللہ تعالیٰ کی بے انتہا تسبیح و حمد و شکر گزاری فرمایا کرتے تھے۔ آپ کی خوراک کیا تھی۔ بعض وقت تو فاقے بھی ہوتے تھے اور روکھی سوکھی روٹی ہوتی تھی۔ لیکن اس کے بعد بھی اللہ تعالیٰ کا بے انتہا شکر فرماتے تھے۔ اور تسبیح سے اپنی زبان کو تَر رکھتے تھے۔

یہاں یہ بھی بتا دوں کہ روایت میں آتا ہے کہسَبِّحِ اسۡمَ رَبِّکَ الۡاَعۡلَی (الاعلیٰ: 2) کی آیت اترنے سے پہلے آنحضرتﷺ خود بھی یہ دعا کرتے اور اپنے صحابہ کو بھی آپ نے فرمایا ہوا تھا کہ سجدے میں یہ دعا پڑھا کرو کہ اَللّٰھُمَّ لَکَ سَجَدْتُ۔ لیکن اس آیت کے بعد پھر آپ نے سُبْحَانَ رَبِّیَ الاعلٰی کی دعا سکھائی۔ اسی طرح فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّکَ الْعَظِیم کی آیت جب نازل ہوئی ہے تو پھر آپ نے رکوع میں بھی سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیم کی دعا سکھائی ہے۔ (ابوداوٴد کتاب الصلوٰة باب مایقول الرجل فی رکوعہ و سجودہ حدیث نمبر869، 871)

آپ نے اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرنے کے طریق کس طرح سکھائے؟ کس طرح ہر وقت آپ کے دل میں اللہ تعالیٰ کی بزرگی اور برتری کا خیال رہتا تھااور آپ راہنمائی فرماتے تھے؟ اس بارے میں ایک روایت میں حضرت جویریہؓ بیان کرتی ہیں کہ صبح کی نماز کے وقت آنحضرتﷺ میرے پاس سے گئے۔ اس وقت مَیں مصلّے پر بیٹھی تھی اور دن چڑھے جب آپ واپس آئے تو میں اس وقت بھی مصلّے پر بیٹھی تھی اور ذکر کر رہی تھی اور تسبیح کر رہی تھی۔ تو آپ نے پوچھا تم صبح سے اس حال میں یہاں بیٹھی کیا کر رہی ہو؟ مَیں نے عرض کی کہ مَیں تسبیح کر رہی ہوں۔ اللہ تعالیٰ کا ذکر کر رہی ہوں۔ آپؐ نے فرمایا اس کے بعد جب سے مَیں یہاں سے گیا ہوں اور اب آیا ہوں مَیں نے صرف چار کلمات تین دفعہ دہرائے ہیں۔ اگر ان کلمات کا موازنہ میں تمہارے اس سارے وقت کے ذکر اور تسبیح سے کروں تو میرے کلمے جو ہیں وہ بھاری ہیں۔ جو یہ ہیں۔ کہ سُبْحَانَ اللّٰہِ عَدَدَ خَلْقِہٖ، سُبْحَانَ اللّٰہِ رِضَاءَ نَفْسِہٖ، سُبْحَانَ اللّٰہِ زِنَۃَ عَرْشِہٖ، سُبْحَانَ اللّٰہِ مِدَادَ کِلمَاتِہٖ۔ (مسلم کتاب الذکر و الدعا والتوبۃوالاستغفار باب التسبیح اوّل النہار وعندالنوم: 6807-6808)

اللہ پاک ہے اس قدر جتنی اس کی مخلوق ہے۔ اللہ پاک ہے جس قدر اس کی ذات یہ بات پسند کرتی ہے۔ اللہ پاک ہے جس قدر اس کے عرش کا وزن ہے یعنی بے انتہا پاک ہے اور اللہ پاک ہے جس قدر اس کے کلمات کی سیاہی ہے۔

ایک تو اس سے آنحضرتﷺ کی قوت قدسی سے آپ کی ازواج کی تسبیح و تحمید اور ذکر سے رغبت اور اس کے لئے کوشش کا پتا چلتا ہے کہ کس قدر انہماک سے اور کتنی دیر تک یہ دعائیں اور ذکر فرمایا کرتی تھیں۔ پھر آنحضرتﷺ کی اس تسبیح کا اندازہ ہوتا ہے۔ آپ نے جس غور اور جس گہرائی سے یہ تسبیح کی اس کا اندازہ لگائیں کہ ایک لمبے عرصے میں جو کم از کم گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹے پر تو محیط ہو گا، اس میں آپ نے صرف تین مرتبہ یہ الفاظ دوہرائے۔ یہ تو آپ کا ہی مقام تھا۔ لیکن توجہ دلائی کہ تسبیح ان جامع الفاظ میں کرو اور ساتھ ساتھ غور کرو۔ اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو یاد کرتے ہوئے، اللہ تعالیٰ کی عظمت و جبروت کو سامنے رکھتے ہوئے یہ تسبیح کرو۔

پھر جب فتح مکہ ہوئی تواس تسبیح اور شکر گزاری کا ایک اور انداز دیکھیں کہ اونٹنی پر بیٹھے ہیں۔ سر جھک کر پالان سے چھو رہا تھااور سجدہ شکر بجا لاتے ہوئے یہ دعا آپ پڑھ رہے تھے کہ سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ رَبَّنَا وَبِحَمْدِکَ اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ۔ کہ اے اللہ! تو پاک ہے اپنی حمد اور تعریف کے ساتھ۔ اے اللہ مجھے بخش دے۔

یہ معیار حاصل کرنے کے بعد جب خدا تعالیٰ نے آپ کی امت کے افراد سے اپنی محبت کو بھی آنحضرتﷺ کی پیروی کے ساتھ مشروط کیا ہے۔ توپھر بھی آپ اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تحمید کے ساتھ، شکر گزاری کے ساتھ اپنی مغفرت طلب فرما رہے ہیں۔ پس یہ آپؐ کے نمونے ہیں۔ انفرادی طور پر بھی تسبیح و تحمید کے طریق سکھا رہے ہیں تا کہ اللہ تعالیٰ کی بزرگی اور تقدیس کا اظہار حقیقی رنگ میں کرنے کا پتہ چلے۔ آپ کے لئے امت کے درود اور سلامتی بھیجنے پر تسبیح اور تحمید اور شکر گزاری کا وہ اظہار فرمایا کہ جس کی مثال نہیں مل سکتی۔ ایک شکر گزاری اس لئے کہ خدا تعالیٰ نے مجھ پر درود بھیجنے کو اس قدر اہمیت دی ہے کہ یہ امت کے لئے بخشش کا سامان ہو گیا ہے۔ اور ایک اللہ تعالیٰ کی تسبیح اس لئے کہ کس کس طرح اللہ تعالیٰ میری امت کو بخشنے کے سامان فرما رہا ہے۔ اور کیا مقام اللہ تعالیٰ مجھے عطا فرما رہا ہے؟ پھر جب اللہ تعالیٰ نے فتح مکہ کی صورت میں کامیابی عطا فرمائی تو تسبیح و تحمید اور شکر گزاری کا وہ اعلیٰ نمونہ ہے اور عاجزی کا وہ اعلیٰ نمونہ ہے جس کی مثال نہیں ملتی۔ یعنی یہ سب تسبیح کے نمونے دکھا کر اور سکھا کر امت کو اس طرف متوجہ فرمایا ہے کہ تمہاری بقا اور تمہاری کامیابی اور تمہاری ترقی اور تمہاری فتح بھی اسی میں ہے کہ دنیاوی اسباب پر بھروسہ نہ کرو بلکہ ربّ اعلیٰ کی تسبیح اور تحمید کروجو ربّ العالمین ہے۔ یاد رکھو بے شک اپنے اپنے رنگ میں بعض اور بھی رب ہیں جن سے تمہیں واسطہ پڑتا رہتا ہے۔ شروع میں، ابتدا میں انسان جب بچہ ہوتا ہے، بچے کی پرورش میں بھی اس کے ماں باپ حصہ لیتے ہیں۔ اس لحاظ سے وہ بھی رب کہلاتے ہیں۔ پھر اس کے بعد بڑا ہوتا ہے اور دنیاوی کاموں میں پڑتا ہے۔ افسران ہیں، بادشاہ ہیں، ملکی سربراہ ہیں جو ایک طرح سے پرورش میں حصہ لیتے ہیں۔ لیکن ان سب کی ربوبیت جو ہے وہ نقائص سے پُر ہے، کامل نہیں ہے۔ ماں ہے جو سب سے زیادہ خالص ہو کر بچے کی پرورش کر رہی ہوتی ہے لیکن اس میں بھی کاملیت نہیں ہے، اس لئے اس کی پرورش میں کمیاں رہ جاتی ہیں۔ کبھی بچے کو زیادہ کھلا دیا تو وہ بیمار ہو گیا۔ کبھی خوراک کا خیال نہ رکھا تو کمزور ہو گیا۔ کبھی کسی اور طرف توجہ ہو گئی تو بچے کی نگہداشت صحیح طرح نہ ہو سکی۔ کبھی کسی چیز میں کمی رہ جاتی ہے، کبھی کسی چیز میں۔ اسی طرح تمام دنیاوی افسران ہیں یا ملازمین کے مالک ہیں، وہ سب کمزور ہیں۔ اور پھر وہ لوگ یہ تو چاہتے ہیں کہ ان کی تعریف کی جائے لیکن تعریف وہ کروانا چاہتے ہیں جس پر وہ کبھی پورا نہیں اترتے اور یوں اکثر جھوٹی تعریفیں اور خوشامدیں کرنی پڑتی ہیں۔ جس سے انسان کی طبیعت میں جھوٹی خوشامدیں کر کے، تعریفیں کر کے بعض دفعہ منافقت بھی پیدا ہو جاتی ہے۔ لیکن ربّ اعلیٰ وہ ہے جو ہر عیب سے پاک ہے۔ جس کی تعریف حقیقی ہے۔ جس نے رحمانیت کے جلوے دکھاتے ہوئے بھی پرورش کے انتظام کئے ہیں۔ اور جو رحیمیت کے جلوے دکھاتے ہوئے بھی اپنے بندوں کے لئے بے انتہا فضل نازل فرماتا ہے۔ دعاوٴں کو سنتا ہے، وہ مجیب بھی ہے۔ غرض کہ اس کے بے انتہا اور بھی صفاتی نام ہیں جس کے مطابق وہ اپنے بندوں سے سلوک بھی کرتا رہتا ہے۔ پس ایک مومن کو چاہئے کہ سَبِّحِ اسۡمَ رَبِّکَ الۡاَعۡلَی (الاعلیٰ: 2)پر عمل کرتے ہوئے اس کامل صفات والے اعلیٰ ربّ کی تسبیح کرتا رہے اور اس کی خیر کی تمام صفات سے حصہ لینے کی کوشش کرے اور اس کی ناراضگی اور پکڑ سے بچنے کی کوشش کرے۔ ہر خیر کے ساتھ شر بھی ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے تمام قسم کے شرور سے بچنے کی دعا کرنی چاہئے اور حقیقی تسبیح کرنے والے کو اللہ تعالیٰ یقیناً اپنی پناہ میں لے لیتا ہے۔

نمازوں کی ادائیگی

قرآنِ کریم میں تسبیح کے ذکر میں جو بیان ہوا ہے اس میں نمازوں کو بھی تسبیح کے ساتھ ملایا گیا ہے۔ یعنی نمازیں بھی ایک قسم کی تسبیح ہیں۔ پس ان کی پابندی کرنا اور باقاعدگی سے ادا کرنا یہ بھی ضروری ہے۔ سَبِّحِ اسۡمَ رَبِّکَ الۡاَعۡلَی کا صحیح ادراک حاصل ہو گا۔

پھر جیسا کہ مَیں نے بیان کیا کہ اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ اپنے ربّ کے نام کو دنیا میں بلند کرنا۔ اپنے ربّ کے نام کو دنیا میں بلند کرنا، یہ بھی حکم ہے۔ اس بارے میں جب سب سے اول آنحضرتﷺ کی ذات کو ہم دیکھتے ہیں تو اس کے بھی اعلیٰ ترین نمونے آپؐ نے ہی قائم فرمائے۔ آپ نے دعوت الی اللہ کا حق قائم فرما دیا۔ جب اللہ تعالیٰ نے آپ کے بارہ میں فرمایا کہ دَاعِیًا اِلَی اللّٰہِ بِاِذۡنِہٖ (الاحزاب: 47) کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے آپ کواللہ تعالیٰ کی طرف بلانے والا بنا کر بھیجا گیا ہے۔ اور جب آپ کو فرمایا کہ یٰۤاَیُّہَا الرَّسُوۡلُ بَلِّغۡ مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکَ مِنۡ رَّبِّکَ (المائدة: 68) کہ اے رسول! تیری طرف تیرے رب کی طرف سے جو کلام اتارا گیا ہے اسے لوگوں تک پہنچا تو اس کا بھی آپ نے حق ادا کر دیا۔ کیونکہ اس کے بعد رب اعلیٰ کے نام کی سر بلندی جو پہلے ہی آپ کا مقصود تھی اس میں اور زیادہ اضافہ ہو گیا۔ نرمی سے، حکمت سے، احسان سے، احسان کرتے ہوئے اور صبر دکھاتے ہوئے آپ نے ہر حالت میں تبلیغ کے کام کے حق کو ادا کرنے کی کوشش فرمائی۔ ہر حال میں اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتے ہوئے اس حق کو ادا کیا۔ مشکلات بھی آئیں تو تب بھی اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتے ہوئے آپ کے قدم آگے ہی بڑھتے چلے گئے۔ کوئی خوف، کوئی ڈر آپ کو اس کام سے روک نہیں سکا۔ آپ کی قوتِ قدسی نے یہی روح صحابہ میں بھردی تھی۔ اللہ تعالیٰ کے نام کی سربلندی کے لئے وہ بھی قربانیاں دیتے چلے گئے۔

پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہےالَّذِیۡ خَلَقَ فَسَوّٰی (الاعلیٰ: 3) یعنی جس نے پیدا کیا پھر ٹھیک ٹھاک کیا۔ اس کے یہ معنی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس حالت میں پیدا کیا ہے کہ اس کے اندر تمام ضروری طاقتیں رکھی ہیں اور ترقی کے مادے اس میں موجود ہیں۔ عموماً ایک نارمل بچے کی جب پیدائش ہوتی ہے تو اس میں تمام ضروری طاقتیں بھی موجود ہوتی ہیں۔ اور جوں جوں اس کی نشوونما ہوتی رہتی ہے اور جس طرح پہلے زمانوں میں بھی ہوتی رہی ان طاقتوں میں اس ماحول کے لحاظ سے نکھار پیدا ہوتا چلا جاتا ہے۔ بیشک بعض ذہنی اور جسمانی لحاظ سے کمزور بھی ہوتے ہیں لیکن یہ عمومی حالت نہیں ہے۔ پس انسان کو جب اشرف المخلوقات بنایا تو اس میں ذہنی صلاحیتیں بھی ایسی رکھیں کہ اگر ان کو صحیح طور پر استعمال کیا جائے تو تمام مخلوق کو وہ زیر کر لیتا ہے۔ گویاانسان اللہ تعالیٰ کی صفات کا پرتَو بن سکتا ہے۔ اور جیسا کہ پہلے بھی میں ذکر کر چکا ہوں اس کا کامل نمونہ ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفیﷺ ہیں جن پر اللہ تعالیٰ نے اپنی کامل تعلیم اتاری اور اس مزاج کے مطابق اتاری جو انسان میں خدا تعالیٰ نے پیدا فرمایا ہے یا جس کی نشوونما اس زمانے میں ہو چکی تھی اور آئندہ بھی انسان کی ذیلی صلاحیتوں کا اور اس کے قویٰ کا نشوونما اب قیامت تک ہوتے چلے جانا ہے۔ انسان کی فطرت میں اگر اللہ تعالیٰ نے نرمی اور غصہ رکھا ہے تو یہ بھی عین ضرورت کے مطابق ہے۔ کبھی نرمی کا اظہار ہو جاتا ہے، کبھی غصہ کا اظہار۔ اس لئے قرآنِ کریم میں جو تعلیم آنحضرتﷺ پر اتاری گئی ہے اس میں بھی یہی فرمایا ہے کہ غصے کا اور نرمی کا اظہار اپنے وقت پر کرو تبھی ان انسانوں میں شامل ہو گے جو سَوّٰی کے لفظ کے تحت آتے ہیں۔ یعنی جب ہر عمل جو ہے موقع اور محل کے مطابق ہو۔ مثلاً اگراصلاح کی ضرورت ہے تو یہ دیکھنا ہو گا کہ اس کے لئے معاف کرنے میں اصلاح کا پہلو نکلتا ہے یا سزا دینے میں۔ اگر صرف ہر صورت میں معاف ہی کیا جاتا رہے تو معاشرے میں ان لوگوں کے ہاتھوں جو ہر وقت فساد پر تلے رہتے ہیں معاشرے کا امن برباد ہی ہوتا چلا جائے گا۔ پس ایک عقل مند اور اللہ تعالیٰ کی طرف رغبت رکھنے والا انسان ہمیشہ اعتدال سے کام لیتا ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں نے اس کو اس طرح پیدا کیا ہے جو ہر لحاظ سے مناسب ہے۔ عیب سے پاک ہے۔ پھر عقلمند انسان کا ہر عمل اور فعل، موقع اور محل کے مناسبِ حال ہوتا ہے۔

خَلَقَ فَسَوّٰی (الاعلیٰ: 3) کا یہ مطلب بھی ہے کہ اس میں جب خرابیاں پیدا ہوتی ہیں تو اس عیب کو درست کرنے کے لئے بھی خدا تعالیٰ سامان پیدا فرماتا ہے۔ بیماریاں ہیں تو ان کا علاج ہے اور یہ علاج کے طریق بھی خدا تعالیٰ ہی سکھاتا ہے۔ بعض دہریہ یہ خیال کرتے ہیں کہ شاید ان کی دماغی صلاحیتوں کی وجہ سے انہیں علاج سمجھ آ گیا لیکن حقیقت یہی ہے کہ اس کے پیچھے سب اللہ تعالیٰ کی قدرت کارفرما ہے۔ اور یہ باتیں پھر اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے ایسا ذہن عطا فرمایا ہے کہ وہ اپنی ضروریات کے لئے، سہولیات کے لئے ایجادات کرتا چلا جا رہا ہے۔ مثلاً بیماریوں کے خلاف علاج ہے تو اس کے بھی نئے نئے طریق نکال رہا ہے۔ بہت سی بیماریاں جو پہلے نہیں ہوتی تھیں یا پتہ نہیں تھا، جن کی صلاحیت نہیں تھی جب اللہ تعالیٰ نے صلاحیت پیدا کی، انسان کی نشوونماکی۔ اس کی ذہنی اور جسمانی طاقتیں بڑھائیں تو بعض ایسی نئی نئی باتیں بھی اس کے ذہن میں پیدا ہو گئیں جن کو استعمال کر کے وہ اپنی زندگی کو مزید بہتر بنا سکتا ہے۔ مثلاً دل ہے انسان کا۔ پہلے تو کسی کو پتہ ہی نہیں لگتا تھا یا انسانی زندگی اتنی سخت تھی کہ ورزش کی وجہ سے اور اپنی دوسری مصروفیات کی وجہ سے اور ایسی خوراک ہونے کی وجہ سے جو دل کو نقصان نہیں پہنچاتی، دل کی بیماریاں نہیں تھیں۔ لیکن جہاں جہاں اور جوں جوں انسان کی بعض صلاحیتیں بڑھتی چلی گئیں، بیماریاں بڑھتی چلی گئیں۔ دل کی بیماریاں بھی ان میں سے ایک ہیں۔ اس کا علاج کا طریقہ آپریشن کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے انسان کو سمجھایا۔ پھر اس میں ترقی ہوئی تو ایک اور طریقہ اینجوپلاسٹی کا سمجھایا جو اس سے زیادہ آسان ہے۔ اور اب مزید سٹیم سیل (Stem Cell) کے ذریعے علاج کی ریسرچ ہو رہی ہے۔ بہر حال اللہ تعالیٰ انسانی صلاحیتوں کو ساتھ ساتھ اس کی ضروریات کے مطابق اجاگر کرتا چلا جاتا ہے۔ اور یہ اللہ تعالیٰ کی ربوبیت ہے۔ یہ وہ اعلیٰ ربّ ہے جس کی تعریف ایک بندے پر فرض ہے۔ وہ اگر عیبوں کو ظاہر فرماتا ہے تو اس کے لئے پھر اس کا مداوا اور علاج بھی سمجھا دیتا ہے۔ ایک موحّد جب بھی نئی ریسرچ دیکھتا ہے تو اسے خدا تعالیٰ کے فضل کی طرف منسوب کرتا ہے۔

آنحضرتﷺ کی بعثت

اور جب اللہ تعالیٰ جسمانی بیماریوں کے علاج کی طرف یوں رہنمائی فرما رہا ہے تو روحانی بیماریوں کے علاج کے سامان بھی کرتا ہے اور کیوں نہیں کرے گا۔ پس ہر زمانے میں انبیاء روحانی بیماریوں کے علاج کے لئے آئے اور اپنے اپنے وقت کی بیماریوں کے علاج کرتے رہے۔ جب انسانی زندگی روحانی بیماریوں کا مجموعہ بن گئی اور نئی نئی بیماریاں پیدا ہو گئیں، ہر زمانے کی بیماری جمع ہو گئی تو آنحضرتﷺ کو مبعوث فرمایا اور قرآنِ کریم کی کامل تعلیم اتاری جس نے علاج کیا اور آنحضرتﷺ نے اپنے زمانے میں اس کے اعلیٰ ترین نمونے اپنی قوتِ قدسیہ سے دکھائے۔ اس تعلیم کی روشنی میں دکھائے جس سے انسانوں کو، جانوروں کو باخدا انسان بنا دیا۔ لیکن ایک زمانے کے بعد جب مسلمان بھی اس تعلیم کو سمجھنے سے قاصر ہو گئے اور اس پر عمل کرنا بھول گئے تو اللہ تعالیٰ نے مسیح موعود کو اپنے وعدے کے مطابق بھیجا جنہوں نے پھر اس تعلیم میں سے جو قرآنِ کریم کی صورت میں موجود تھی، علم و عرفان کے موتی نکال کر ہماری بیماریوں کے علاج کئے۔ اور یہ بتایا کہ امت میں جو بیماریاں پیدا ہوئی ہیں، ان کے علاج یہ ہیں۔ اور میرے ساتھ جڑو گے تو اس سے اپنے علاجوں میں کامیاب ہو سکتے ہو۔ ڈاکٹروں کو تو نئی بیماریوں کا علاج ایک ریسرچ اور لمبا عرصہ محنت کرنے سے پتہ لگتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے روحانی علاج کے لئے چودہ سو سال پہلے قرآنِ کریم میں کامل شریعت اتار کر یہ علاج رکھ دیا تھا۔ اور ہر زمانے میں جو اللہ کے بندے تھے اس کو سمجھتے رہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت

اور آخر پر جو مزیدنئی بیماریاں پیدا ہوئی تھیں ان کے علاج حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے آ کر اسی جگہ سے بتا دئیے۔ کیونکہ قرآنِ کریم کا فہم اور عرفان اس زمانے کی بیماریوں کے مطابق آپ کو ہی اللہ تعالیٰ نے عطا فرمایا تھا۔ اور پھر جب ہر قسم کی ناسخ و منسوخ کے الزام سے اس کلام قرآنِ کریم کو پاک کر دیا تو پھر ہی پتہ لگ سکتا تھا کہ کیا صحیح علاج ہیں اور یہ کام بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہی فرمایا۔ اور حقیقی مومنوں اور قرآنِ کریم پر غور کرنے والوں کوآپ کی تفسیروں اور وضاحتوں اور تعلیم کی روشنی میں جو قرآنِ کریم سے نکال کر آپ نے ہمارے سامنے رکھی حسبِ ضرورت یہ علاج میسر آتے رہے۔ پس جو لوگ سمجھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے آنے کی ضرورت نہیں تھی یا اب کسی مصلح کے آنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ان کی بیماریاں جو ہیں وہ ظاہر ہو کر پھر بڑھتی چلی جاتی ہیں اور بڑھتی چلی جا رہی ہیں لیکن وہ اس بات کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں کہ جو اس زمانے کا امام اللہ تعالیٰ نے بھیجا ہے اس کو قبول کریں۔ یہ سب دشمنیاں جو ہیں ان میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ خود کُش حملے جو ہیں، قتل و غارت جو ہے، دہشت گردی جو ہے کیا یہ اسلامی تعلیم ہے؟ خدا کے نام پر اور مذہب کے نام پر ظلم جو ہے، یہ اسلام کی تعلیم ہے؟ یقیناً نہیں۔ صرف ان لوگوں نے ناسمجھی یا ڈھٹائی کی وجہ سے اس تعلیم کو ماننے سے انکار کر دیا ہے جو حقیقی تعلیم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پیش فرما رہے ہیں۔ یہ سب چیزیں جو ہیں جس پر آج کل مسلمانوں کے عمل ہو رہے ہیں، یہ تو اپنے عارضی ربوں کو خوش کرنے کے لئے ہیں۔ جبکہ مسیح موعود واحد و یگانہ خدا کی طرف بلا رہے ہیں اور اس تعلیم پر عمل کروانے کے لئے دعوت دے رہے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے آنحضرتﷺ پر اتاری اور جو حقیقی اسلامی تعلیم ہے۔ ایک طرف تو بعض طبقوں کی طرف سے پریشان ہو کریہ دعوے بھی کئے جا رہے ہیں کہ کسی مصلح کی ضرورت ہے۔ مسلمانوں میں خلافت کی ضرورت ہے۔ اور دوسری طرف اس چیز کو ٹھیک کرنے کے لئے جب اللہ تعالیٰ نے اپنے سامان پیدا فرمائے ہیں اور معالج بھیجا ہے تو اس کو قبول کرنے کے لئے یہ لوگ تیار نہیں ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔وَ الَّذِیۡ قَدَّرَ فَہَدٰی (الاعلیٰ: 4)۔ جس نے طاقتوں کا اندازہ کیا اور ہدایت دی۔ اس کا تعلق بھی پہلی آیت سے ہے۔ اس کے بارے میں حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا کہ قَدَّرَ فَھَدٰی کے دو معنی ہوں گے۔ جیسا کہ پچھلی آیت میں بتایا گیا ہے کہ چونکہ انسان میں ترقی کی استعداد رکھی گئی تھی اور اسے کامل القویٰ بنایا گیا تھا اس لئے خدا تعالیٰ نے اس کی طاقتوں کا اندازہ کر کے اس کے متواتر ترقی کرتے چلے جانے کے ذرائع مہیا کئے ہیں۔ یعنی پہلے پیدائش کو اس تعلیم اور طاقت کے مطابق کیا پھر تعلیم بھجوائی۔ یعنی جوں جوں ذہنی اور جسمانی طاقتوں نے ترقی کی اللہ تعالیٰ نے اس کے مطابق ہدایت کے سامان پیدا فرمائے۔ اور دوسرے معنے یہ ہیں کہ جب بھی انسان کج ہوا اللہ تعالیٰ نے اس کی ضرورت کے مطابق ہدایت بھجوا دی۔ (مأخوذ از تفسیر کبیر جلد 8صفحہ 405-406مطبوعہ ربوہ)

اور جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے کہ یہ ہدایت کامل طور پر آنحضرتﷺ کے ذریعہ نازل فرمائی تا کہ انسان اللہ تعالیٰ کے حقوق کا بھی صحیح ادراک کر سکے اور اپنی ذمہ داریوں کو سمجھے اور بندوں کے حقوق بھی ادا کرے۔ پس جب یہ ہدایت آ گئی تو اس کے مطابق ہی اب ایک مومن کو چلنا ہے۔ اور اگر سمجھ نہیں آتی تو پھر جو امام اور جو معالج اللہ تعالیٰ نے بھیجا ہے اس کی طرف رجوع کرنا ہو گا۔ اسی میں دنیا کی بقا ہے۔ جس کے لئے پہلی آیت میں بھی اللہ تعالیٰ نے طریق بیان فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی تسبیح اور اس کی عبادت کی ضرورت ہے اور اس بھیجے ہوئے کو ماننے کی ضرورت ہے۔ اگر سمجھ نہیں آتی تو پھر اللہ تعالیٰ سے خالص ہو کر مدد مانگی جائے کہ اللہ تعالیٰ صحیح راہنمائی فرمائے تا کہ ہم اس کا حق ادا کر سکیں۔ اور دوسرے اس تسبیح کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے پیغام کو دنیا تک پہنچانا بھی فرض ہے۔ اور یہی ہر قسم کی کجی سے پاک ایک مومن کی نشانی ہے۔

اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ہم خالص ہو کر اس کے بھیجے ہوئے کے ساتھ جُڑ کر اس تعلیم کے مطابق عمل کرنے والے ہوں اور صحیح رنگ میں تسبیح کرنے والے ہوں، اس کی عبادت کرنے والے ہوں اور اس کے پیغام کو پہنچانے والے ہوں۔ مصر کے احمدیوں کے لئے بھی میں پھر خاص طور پر دعا کے لئے کہنا چاہتا ہوں۔ وہاں گزشتہ کچھ عرصے سے جماعت کے خلاف ایک شور اٹھا ہوا ہے اور ہمارے بارہ، تیرہ کے قریب احمدی حراست میں ہیں جن کا ابھی تک پتا نہیں لگ رہا کیا بننا ہے؟ اس لئے ان کے لئے خاص طور پر دعا کریں اللہ تعالیٰ جلد ان کی رہائی کے بھی سامان پیدا کرے۔ شاید ان کا خیال ہے کہ اسیر بنا کر وہ ان کو ایمان سے پھیر لیں گے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر احمدی جو دنیا کے کسی بھی کونے میں رہنے والا ہے وہ اپنے ایمان کے لحاظ سے بڑا مضبوط ہے۔ اور انشاء اللہ تعالیٰ یہ بھی اسی طرح مضبوطی کا اظہارکر رہے ہیں اور کرتے چلے جائیں گے، انشاء اللہ۔ اور یہی مجھے پیغام بھیج رہے ہیں کہ آپ فکر نہ کریں انشاء اللہ ہمارے ایمان میں کوئی لغزش نہیں آئے گی۔ بلکہ گزشتہ دنوں ایک خاتون کو بھی گرفتار کر لیا تھا پھر چھوڑ دیا۔

اور پاکستان کے احمدیوں کے لئے بھی دعا کریں۔ وہاں بھی کافی سخت حالات ہیں۔ اللہ تعالیٰ دنیا کو مسیح محمدی کے پیغام کو سننے کی اور سمجھنے کی اور ماننے کی توفیق عطا فرمائے تاکہ ہر قسم کی کجیاں دنیا سے دور ہوتی چلی جائیں۔ جیسا کہ میں نے کہااللہ تعالیٰ نے تو ذرائع مہیا فرما دئیے ہیں اب اس سے فائدہ اٹھانا بندوں کا کام ہے۔ اگر نہیں اٹھاتے تو پھر اللہ تعالیٰ کس طرح ٹھیک کرتا ہے، کیا سامان پیدا فرماتا ہے یہ وہ بہتر جانتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر ایک کو کسی بھی قسم کی آفت اور بلا اور تباہی سے محفوظ رکھے اور اپنی طرف جھکنے والا خالص بندہ بننے کی توفیق عطا فرمائے۔

(الفضل انٹرنیشنل جلد 17شمارہ 23 مورخہ 4جون تا 10جون 2010ء صفحہ5تا7)


  • خطبہ کا مکمل متن
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 14؍ مئی 2010ء شہ سرخیاں

    سورۃ الاعلیٰ کی تفسیر اور آپﷺ کا  جذبہ شکر اورآپﷺ کی تسبیح و تحمید عاجزی و انکساری، نمازوں اور عبادات کی ادائیگی، آپﷺ کی بعثت، انبیاء روحانی بیماریوں کے علاج کے لئے آتے ہیں، حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی بعثت، اسلام کے نام پر دہشت گردی، مصر اور پاکستان کے احمدیوں کےلئے دعا کی خاص تحریک۔

    خطبہ جمعہ فرمودہ 14مئی 2010ء بمطابق 14ہجرت 1389 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن (برطانیہ)

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور