پاکستان کے دردناک حالات کے پیش نظر دعاؤں کی خصوصی تحریک
خطبہ جمعہ 21؍ مئی 2010ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
تشہد و تعوذ اور سورة فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس آیت کی تلاوت فرمائی:
وَ کَذٰلِکَ جَعَلۡنَا لِکُلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّا مِّنَ الۡمُجۡرِمِیۡنَ ؕ وَ کَفٰی بِرَبِّکَ ہَادِیًا وَّ نَصِیۡرًا (الفرقان: 32) جب دنیا میں انبیاء آتے ہیں تو انبیاء اور ان کی جماعتوں سے ہمیشہ یہ سلوک ہوتا ہے کہ ان کی مخالفت کی جاتی ہے، ان سے ہنسی ٹھٹا کیا جاتا ہے۔ جس آیت کی میں نے تلاوت کی ہے اس میں قرآنِ کریم نے اسی بات کا نقشہ کھینچا ہے۔ اس کا ترجمہ یہ ہے۔’’اور اسی طرح ہم ہر نبی کے لئے مجرموں میں سے دشمن بنا دیتے ہیں، اور بہت کافی ہے تیرا رب بطور ہادی اور بطور مددگار‘‘۔
پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہر نبی کی مخالفت کی گئی اور یہ مخالفت کرنے والے خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے والے لوگ نہیں ہوتے بلکہ مجرموں میں سے ہیں۔ اور جب خدا کے نام پر خدا کے پیاروں کو تکلیفیں پہنچائی جاتی ہیں تو پھر ان مجرموں کے جرم بھی اور بھی بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ پس جب آنحضرتﷺ کی مخالفت ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو بھی فرمایا کہ یہ مخالفتیں مجرموں کا کام ہے۔ دشمنانِ دین ہمیشہ ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہیں کہ نبی کے پیغام کی مخالفت کریں۔ اس کے کام میں روکیں ڈالیں۔ اس کے ماننے والوں کو تکلیفیں پہنچائیں۔ لیکن یہ مخالفتیں، یہ تکلیفیں، یہ قتل مخالفین کو کبھی کامیاب نہیں ہونے دیتے۔ آخر کار انبیاء ہی جیتا کرتے ہیں اور مخالفین اللہ تعالیٰ کے عذاب کا نشانہ بنتے ہیں۔
مکہ میں مسلمانوں پر ظلم و ستم
مکّہ میں یہ سورة نازل ہوئی، سورة الفرقان، جس کی آیت میں نے پڑھی ہے۔ مخالفین نے وہاں کیا کیا ظلم آنحضرتﷺ اور آپ کے ماننے والوں پر نہیں کئے۔ ہر ظلم جو آپ پر ہوتا تھا اور آپ کے ماننے والوں پر ہوتا اس پرآپ صبر فرماتے اور صبر کرنے کی تلقین فرماتے۔ اس بارے میں تاریخ میں کئی ایک دردناک واقعات ہیں۔ ایک واقعہ اس طرح بیان ہوا ہے جو عماّر ان کے والد یاسر اور والدہ سمیہ کا آتا ہے جن پر بے انتہا ظلم کیا جاتا تھا۔ ایسے ہی ایک موقع پر جب ان کو جسمانی اذیتیں دی جا رہی تھیں تو آنحضرتﷺ کا وہاں سے گزر ہوا تو آنحضرتﷺ نے ان کی طرف دیکھا اور بڑے درد مند لہجے میں فرمایاکہ صَبْرًا آلَ یَاسِرَ فَاِنَّ مَوْعِدَکُمُ الْجَنَّۃ کہ اے اٰل یاسر! صبر کرتے رہو، یقیناً تمہارے اس صبر کی وجہ سے تمہارے لئے جنت تیار کی گئی ہے۔ یاسر تو اس وقت اس اذیت کے دوران چند لمحوں میں ہی شہید ہو گئے اور بوڑھی سمیہ جن میں کچھ جان تھی ان کو ابو جہل نے ایک ایسا نیزہ مارا جو ان کے پیٹ کے نچلے حصے میں لگا اور وہیں تڑپتے ہوئے انہوں نے جان دے دی۔ (السیرة النبویۃ از احمدبن زینی دحلان، جزء اول ص201، 202اورالرحیق المختوم از صفی الرحمن المبارکفوری صفحہ107مطبوعہ سعودی عرب ایڈیشن 2000ء)
تو یہ ظلم تھے جو آنحضرتﷺ کے ماننے والوں کے لئے روا رکھے گئے تا کہ کوئی آپؐ کے قریب نہ آئے۔ لیکن ان ظلموں سے سعید روحوں کو اور توجہ پیدا ہوئی۔ ان ایمان سے بھرے ہوئے دلوں کو دیکھ کر لوگوں کی آنحضرتﷺ کی طرف مزید توجہ پیدا ہوئی۔ اسلام کا پیغام مکہ سے نکل کر مدینہ تک پہنچا اور وہاں اسلام پھیلنا شروع ہوا۔ حبشہ میں اسلام کا پیغام پہنچا۔ پس جب مکہ کے سرداروں اور ان کے چیلوں نے ظلم و بربریت کی انتہا کر دی تو اسلام کے پیغام کو دبانے کی بجائے یہ ظلم و بربریت اس پیغام کے پھیلانے کا باعث بن گئی۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس مخالفت سے گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ یہی مخالفت بہت سوں کی ہدایت کا باعث بن جاتی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نصیر بھی ہے، ہادی بھی ہے۔ ہدایت دیتا ہے۔ نصیر بھی ہے، مدد کرتا ہے۔ وہ یقیناً تمہاری مدد کرے گا اور تمام تر مخالفتوں کے باوجود غلبہ اس کا ہو گا جسے خدا تعالیٰ نے مامور فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے انبیاء کی مدد کے لئے جب چاہتا ہے زمینی اور آسمانی نشان دکھاتا ہے۔ ایسے مجرموں کی ہلاکت کے لئے اپنی گہری تجلیاں بھی دکھاتا ہے، اور کبھی کوئی طاقتور بادشاہ، کوئی فرعون، کوئی سربراہ، انبیاء کے کاموں کو روک نہیں سکا۔ بلکہ مخالفتیں ترقی کے راستے دکھاتی ہیں۔
مخالفت کھاد کا کام
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی فرمایا ہے کہ جس طرح روڑی اور کھاد جو گند بلا ہوتا ہے۔ یہ فصلوں کی نشوونما کے لئے کام آتا ہے۔ اسی طرح یہ گندی مخالفتیں بھی الٰہی جماعتوں کے لئے کھاد کا کام دیتی ہیں۔ (ماخوذ از ملفوظات جلد 5صفحہ631) یہ مخالفت بھی بہت سوں کی ہدایت کا باعث بن جاتی ہے۔ پس یہ ہمیشہ مجرموں کا طریق ہے کہ اللہ کے پیاروں کی مخالفتیں کرتے ہیں۔ اور ظاہر ہے جب مسیح موعودنے دعویٰ کرنا تھا تو اللہ تعالیٰ کی یہ ہمیشہ کی سنت یہاں بھی جاری ہونی تھی اور ہوئی۔ آپ کی مخالفت بھی ہوئی، آپ کا استہزاء بھی کیا گیا۔ آپ کے ماننے والوں کو وقتاً فوقتاً تکلیفیں بھی دی جاتی رہیں اور دی جاتی ہیں۔ اور نام نہاد علماء کے پیچھے چل کر مسلمانوں نے احمدیوں کو تکلیفیں دینا خدمتِ اسلام سمجھا ہے۔
سورة الفرقان کی اس آیت سے پہلے جو آیت ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔وَ قَالَ الرَّسُوۡلُ یٰرَبِّ اِنَّ قَوۡمِی اتَّخَذُوۡا ہٰذَا الۡقُرۡاٰنَ مَہۡجُوۡرًا (الفرقان: 31) اور رسول نے کہا کہ اے میرے رب! میری قوم نے اس قرآن کو پیٹھ پیچھے پھینک دیا ہے۔ اس میں جہاں کفارِ مکّہ کے قرآن کو نہ ماننے کا بیان ہے وہاں اس زمانے میں جب مسیح موعود کی بعثت ہونی تھی اور آپ نے قرآنِ کریم کی حقیقی تعلیم کی طرف بلانا تھا، قرآنِ کریم کی تعلیم کو اپنے اوپر لاگو کرنے کی دعوت دینی تھی، اس طرف بھی اشارہ ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت خود تو قرآنِ کریم کی تعلیم کو بھلا بیٹھی ہے اور جب زمانے کا امام بلاتا ہے کہ آوٴ میں تمہیں قرآنی تعلیم کے اسرار اور رموز سکھاوٴں تا کہ تم اس خوبصورت تعلیم کو اپنے اوپر لاگو کرو اور اسلام کا پیغام دنیا تک پہنچاوٴ، تو اس کی مخالفت کی جاتی ہے۔ پس اس آیت کے بعد جو آیت ہے جس کا میں نے پہلے ذکر کیا ہے، جس کی ابھی تلاوت کی ہے۔ اس میں مسیح موعود اور آپ کی جماعت کو بھی تسلی کرائی گئی ہے کہ خدا اور قرآن کے نام پر جو تمہاری مخالفتیں کی جا رہی ہیں یہ قرآنِ کریم کو نہ سمجھنے کی وجہ سے ہیں۔ لیکن فکر کی کوئی بات نہیں، انبیاء سے یہی سلوک ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ ہادی ہے، وہ اس سلوک کی وجہ سے انشاء اللہ تعالیٰ بہت سوں کے ہدایت کے سامان بھی فرمائے گا۔ وہ تمہارا نصیر اور مددگار بھی ہے۔ جو مجرم ہیں جو نام نہاد علماء ہیں، جو لیڈر ہیں، جو عوام الناس کو مخالفتوں پر ابھارتے ہیں، ان کی کوششیں کبھی کامیاب نہیں ہوں گی۔ اور یقیناً کامیابیاں مسیح موعود کی جماعت کو ہی ملنی ہیں، انشاء اللہ۔
مخالفین کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہوگی
پس چاہے یہ لوگ مخالفتیں کریں، یا جتنا بھی زور لگانا ہے کسی بھی رنگ میں لگا لیں۔ ان کی کوئی کوشش کبھی کامیاب نہیں ہو گی۔ اور یہ سب مخالفتیں ایک دن ان مخالفین پر ہی لَوٹائی جائیں گی۔ پس ان مخالفین سے مَیں کہتا ہوں کہ اگر کوئی خوفِ خدا ہے، تو خدا تعالیٰ کی اس لاٹھی سے ڈرو جو بے آواز ہے اور اس کے عذابوں سے پناہ مانگو۔ کیونکہ وہ اپنے پیاروں کے لئے بہت غیرت دکھاتا ہے۔ پس یہ موقع جو اللہ تعالیٰ دے رہا ہے اس سے مخالفین کو فائدہ اٹھانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ بجائے نام نہاد علماء کے پیچھے چل کر اپنی دنیا و آخرت خراب کرنے کے اس شخص کی بات سنیں جو بڑے درد سے یہ بات کہتا ہے۔ ایک شخص جو نہایت ہمدردی اور خیر خواہی کے ساتھ اور پھر نری ہمدردی ہی نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے حکم اور ایماء سے اس طرف بلاوے تو اسے کذّاب اور دجّال کہا جاتا ہے۔ اس سے بڑھ کر اور کیا قابلِ رحم حالت اس قوم کی ہو گی۔
پھر آپ فرماتے ہیں کہ اگر خدا میں صفت رحمانیت کی نہ ہوتی تو ممکن نہ تھا کہ تم اس کے عذاب سے محفوظ رہ سکتے۔ پس آج بھی ہم اپنے مخالفین اور ان لوگوں سے جو احمدیوں کو تکلیفیں پہنچانا کارِ ثواب سمجھتے ہیں، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تعلیم پر عمل کرتے ہوئے اُس اسوہ پر چلتے ہوئے، جو آپ نے اپنے اور ہمارے آقا و مطاع حضرت محمد مصطفیﷺ سے لیا ہے، یہ کہتے ہیں کہ تمہاری ہمدردی اور خیر خواہی ہمیں مقدم ہے تمہاری قابلِ رحم حالت ہمیں بے چین کرتی ہے کہ کہیں اس حد تک خدا تعالیٰ کو ناراض نہ کر لو کہ واپسی کا کوئی راستہ نہ رہے۔ اس سے پہلے ہی خدا تعالیٰ کے فرستادہ کی مخالفت اور استہزاء چھوڑ دو۔ امامِ وقت کے ماننے والوں کو خدا کے نام پر اذیتوں اور تکلیفوں کا نشانہ نہ بناوٴ۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ان مخالفین کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’اے سونے والو!بیدار ہو جاوٴ۔ اے غافلو!اٹھ بیٹھو کہ ایک انقلابِ عظیم کا وقت آ گیا۔ یہ رونے کا وقت ہے، نہ سونے کا۔ اور تضرع کا وقت ہے، نہ ٹھٹھے اور ہنسی اور تکفیر بازی کا۔ دعا کرو کہ خداوند کریم تمہیں آنکھیں بخشے تا تم موجودہ ظلمت کو بھی بتمام و کمال دیکھ لو۔ اور نیز اس نور کو بھی جو رحمتِ الٰہیہ نے اس ظلمت کے مٹانے کے لئے تیار کیا ہے۔ پچھلی راتوں کو اٹھو اور خدا تعالیٰ سے رو رو کر ہدایت چاہو۔ اور نا حق حقّانی سلسلہ کے مٹانے کے لئے بد دعائیں مت کرو اور نہ منصوبے سوچو۔ خدا تعالیٰ تمہاری غفلت اور بھول کے ارادوں کی پیروی نہیں کرتا۔ وہ تمہارے دماغوں اور دلوں کی بے وقوفیاں تم پر ظاہر کرے گا اور اپنے بندہ کا مددگار ہو گا۔ اور اس درخت کو کبھی نہیں کاٹے گا جس کو اس نے اپنے ہاتھ سے لگایا ہے‘‘۔ (آئینہ کمالات اسلام۔ روحانی خزائن جلد5صفحہ53-54)
پاکستان میں کلمہ طیبہ مٹانے کی ناپا ک جسارت
خدا کرے کہ ہمارے مخالفین کو عقل آ جائے اور وہ امامِ وقت کی مخالفت ترک کریں اور اس درد مندانہ پیغام کو سمجھیں۔ پاکستان میں بدنامِ زمانہ اور ظالمانہ قانون نے احمدیوں پر جو پابندیاں لگائی ہوئی ہیں۔ اس میں ایک یہ بھی ہے کہ احمدی لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ کا کلمہ نہ پڑھ سکیں۔ نہ کسی جگہ لکھ کر اس کا اظہار کر سکتے ہیں۔ وقتاً فوقتاً انتظامیہ جو ہے وہ احمدیوں کو اپنے ظلم کا نشانہ بنانے کے لئے اس قانون کو استعمال کرتی رہتی ہے۔ اور مولویوں کو خوش کرنے کے لئے اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ گزشتہ دنوں سرگودھا کے ایک گاوٴں چک منگلا میں رات کے وقت پولیس آئی اور احمدیہ مسجد پر سامنے تختی پر لکھا ہواجو کلمہ آویزاں تھا، اس کو ایک بچہ وہاں کھڑا تھا، اس کو کہا کہ اتار دو اور اتار کر وہ تختی لے گئی۔ بہر حال جماعت نے راتوں رات ہی دوبارہ کلمہ لکھ دیا۔ بچہ چھوٹا تھا، احمدی تھا۔ بچے کو کس طرح ڈرا دھمکا کر انہوں نے یہ کام کروایا؟ اس کی تفصیل تو نہیں آئی، کس طرح اس نے تختی اتاری۔ مٹایا تو بہرحال نہیں، تختی اتار کر ان کو دی۔ لیکن یہ بھی نہیں ہونا چاہئے تھا۔ میں ہر احمدی بچے کو یہ نصیحت کرتا ہوں کہ آئندہ کہیں بھی کوئی ایسا واقعہ ہو تو بچے پولیس کو یہ کہیں کہ تم نے اتارنا ہے تو اتار لو میں تو ایسی حرکت کبھی نہیں کر سکتا۔ چاہے جتنا بھی ظلم تم کرنا چاہتے ہو ہم پر کر لو۔
ہر احمدی یاد رکھے کہ یہ کلمہ ہے جس کی ہر بڑے، بچے، مرد، عورت نے حفاظت کرنی ہے۔ اگر قانون نافذ کرنے والے ادارے، یا ادارے کے افراد یہ حرکت کرتے ہیں تو کریں، ہم قانون سے نہیں لڑتے۔ لیکن ہر احمدی کو یاد رکھنا چاہئے کہ ہم نے کبھی کسی بھی صورت میں اس بارے میں ان کا مددگار نہیں بننا۔ تا کہ قیامت کے دن یہ کلمہ ہمارے حق میں گواہی دے اور انہیں مجرم ٹھہرائے۔ پاکستان کا قانون کہتا ہے کہ احمدی کیونکہ ان کی بنائی ہوئی تعریف کے مطابق مسلمان نہیں ہیں اس لئے کلمہ پڑھنے اور لکھنے کی بھی ان کو اجازت نہیں ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ ہمیں تمہاری تعریف کی ضرورت نہیں ہے۔ اللہ اور اس کے رسول نے کہہ دیا کہ جو کلمہ پڑھے وہ مسلمان ہے۔ بلکہ حدیث میں آتا ہے، آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ سب سے افضل ذکر جو ہے، اور ایک شخص کو مومن بناتا ہے۔ وہ صرف لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کہنا ہی ہے۔ ہمارے ایمان اور اسلام کو ہم سے کوئی نہیں چھین سکتا۔ بلکہ اللہ تعالیٰ قرآنِ کریم میں فرماتا ہے۔وَ لَا تَقُوۡلُوۡا لِمَنۡ اَلۡقٰۤی اِلَیۡکُمُ السَّلٰمَ لَسۡتَ مُؤۡمِنًا (النساء: 95)۔ اور جو تم پر سلام بھیجے، اسے یہ نہ کہا کرو کہ تو مومن نہیں ہے۔
احمدی تمام ارکانِ اسلام پر یقین رکھتے ہیں
اور احمدی تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اللہ تعالیٰ، اس کے رسولﷺ اور قرآن پر کامل ایمان رکھتے ہیں۔ اور تمام ارکانِ اسلام اور ارکانِ ایمان پر یقین رکھتے ہیں۔ اور یہ ایمان رکھتے ہوئے نہ صرف مسلمان ہیں بلکہ حقیقی مومن ہیں۔ کیونکہ احمدی ہی ہیں جنہوں نے آنحضرتﷺ کی پیشگوئی کو پورا کرتے ہوئے زمانے کے امام کو بھی سلام پہنچایا ہے اور ان کی جماعت میں شامل ہیں۔
یہ کلمہ مٹانے کا واقعہ صرف وہیں ایک گاوٴں میں نہیں ہوا۔ بلکہ پچھلے دن یا ایک دن بعد سرگودھا کے ایک اور گاوٴں چک 152شمالی میں بھی ہوا۔ وہاں بھی پولیس گئی، لیکن صدر جماعت دروازہ بند کر کے بیٹھ گئے اور ان سے کہا کہ باوردی پولیس نے خود آنا ہے تو آئے، اور کوئی اندر نہیں آ سکتا۔ بوڑھے آدمی تھے اور دل کے مریض بھی تھے۔ انہوں نے کہا اگرکوئی آئے گا تو میری لاش پر سے گزر کے اندر جائے گا۔ ان کا نام ملک عطاء محمد صاحب ہے، اور مسلسل اس دوران یہ کلمہ کا ورد بھی کرتے رہے۔ پولیس بہر حال واپس چلی گئی کلمہ نہیں مٹایا۔ لیکن صدر صاحب کے متعلق امیر صاحب ضلع نے لکھا ہے کہ کیونکہ دل کے مریض تھے اس وجہ سے دل کی تکلیف بڑھ گئی۔ گھر گئے ہیں اور طبیعت زیادہ خراب ہو گئی۔ اس دوران پورے عرصہ میں کلمہ کا ورد کرتے رہے۔ گھر جا کر ان کو بڑی شدت سے ہارٹ اٹیک ہوا۔ اور تھوڑی دیر بعد ان کی وفات ہو گئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے۔ کل میں نے ان کا جنازہ ویسے ایک جنازہ کے ساتھ پڑھا دیا تھا۔
پاکستان میں آج کل مخالفت زوروں پر ہے۔ پاکستان کے احمدیوں کے لئے بھی باہر کے احمدی دعا کریں۔ اور پاکستانی احمدیوں کو بھی میں یاد دہانی کرواتا ہوں کہ اس وقت پاکستان کی بقا بھی احمدیوں کی دعاوٴں میں ہے۔ اس لئے بہت زیادہ دعائیں کریں۔ نام نہاد علماء نے کفر کے فتووں سے اس طرح عوام الناس کی عقلیں چکرا دی ہیں، کہ بالکل ہی ان کی عقل مار دی ہے۔ ان کو سمجھ ہی نہیں آتی کہ کیا سچ ہے اور کیا جھوٹ ہے۔ یہ بعض تو ایسے ہیں لوگ جو مجرم ہیں۔ قرآنِ کریم میں ان کا ذکر آتا ہے اور ان علماء کے دستِ راست ہیں۔ ان سے کسی نیکی کی امید رکھنا عبث ہے، فضول ہے۔ لیکن بعض ناسمجھ جنہیں دین کا علم نہیں ہے کم علمی میں مولویوں کی باتوں پر یقین کر لیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں بھی عقل دے اور حقیقت کو سمجھیں۔ اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت سے نیک فطرت لوگ بھی ہیں جو مولویوں کی ان حرکتوں سے بیزاری کا اظہار کرتے ہیں۔ ان کو چاہئے کہ اپنے ملک کو بچانے کے لئے اپنی آواز بلند کریں اور بزدلی چھوڑیں۔ مولوی کو تو اپنی پڑی ہوئی ہے کہ اس کا منبر قائم رہے جس پر کھڑا ہو کر وہ قوم کو بیوقوف بناتا رہے۔ یہی حال لیڈروں کا ہے۔ پاکستان میں معاشی بدحالی انتہا کو پہنچی ہوئی ہے۔ ٹی وی پروگراموں میں روز آتا ہے، اخباروں میں روز آ رہا ہے۔ کسی کو کسی کی پرواہ نہیں ہے۔ دہشت گردی زوروں پر ہے۔ اس کی بھی کسی کو پرواہ نہیں ہے کہ کیا کچھ ہو رہا ہے۔ روزانہ دس پندرہ لوگ مر رہے ہیں یا بعض دفعہ اس سے زیادہ۔ آسمانی آفات نے گھیرا ہوا ہے۔ اس کے بارے میں کوئی سوچنے کو تیار نہیں ہے۔ اب گزشتہ دنوں سے ہنزہ میں جھیل نے ہی اس علاقے میں خوف و ہراس پھیلایا ہوا ہے۔ اور پانی کی سطح غیرمعمولی بلند ہوتی چلی جا رہی ہے اور ایک جھیل نے کئی جھیلوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور کچھ پتا نہیں چل رہا کہ پانی کہاں سے آ رہا ہے۔ ان کے سب اندازے جو ہیں غلط ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ کئی دیہات جو ہیں کئی گاوٴں پانی کی لپیٹ میں آ گئے ہیں پہاڑی کی طرف اوپر چڑھتے ہیں تو اوپر پانی پہنچ جاتا ہے۔ کہتے ہیں شاہراہِ قراقرم ڈوب گئی ہے۔ راستے مسدود ہو گئے ہیں۔ اب تو اتنی شدت ہو گئی ہے پانی کی کہ کشتیوں کے ذریعے جو مدد کر رہے تھے اس کو بھی انہوں نے ختم کر دیا۔ پہاڑوں کے اوپر چلتے چلے جا رہے ہیں لیکن وہاں تک پانی پہنچ رہا ہے، آہستہ آہستہ وہ بھی پیچھا کر رہا ہے۔ اور اب تو سنا ہے کہ ہیلی کاپٹروں کے ذریعے سے بھی لوگوں کو نکالنا مشکل ہو گیا ہے۔ تو یہ تووہاں کے حالات ہیں۔ یہ غور کریں یہ سب کچھ کیا ہے؟ اور اب جو پانی کی سطح ہے، وہ اتنی بلند ہو رہی ہے کہ spillway کی خطرناک حد تک پہنچنے کے بعد جو spillway بنایا گیا تھا، وہاں سے اگر بہے گی تو یہ بھی خطرہ ہے کہ اس کو بھی ساتھ بہا کر نہ لے جائے۔ اور جتنا پانی بہے گا وہ پھر نچلے علاقوں میں تباہی پھیلائے گا اس کا بھی کہتے ہیں کچھ اندازہ نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن یہ سب باتیں جو ہیں ان کے کانوں پر جوں تک رینگنے کا باعث نہیں بن رہیں۔ ان کوکوئی توجہ نہیں، کوئی فکر نہیں کہ کیا ہو رہا ہے۔ فکر ہے تو ایک ہے کہ احمدیوں کے خلاف گند اگلو اور احمدیوں کی مسجدوں سے کلمے مٹاوٴ۔ ان کو قتل کرو۔ احمدی کو قتل کرنا تو شہادت کا درجہ رکھتا ہے۔ کیونکہ خالصتاً اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ کے نام پر قتل کئے جا رہے ہیں۔ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ کہنے کے باوجود ان کو قتل کیا جاتا ہے۔ آنحضرتﷺ نے تو فرمایا تھا کہ تم نے دل چیر کر دیکھا تھا کہ کلمہ دل سے پڑھ رہا ہے یا اوپر سے پڑھ رہا ہے؟ (سنن ابی داؤد کتاب الجہاد باب علی ما یقاتل المشرکون حدیث: 2643)
آپ کے صحابہ کو تو پتہ نہ چلا کہ کلمہ دل سے پڑھا جا رہا ہے یا اوپر سے پڑھا جا رہا ہے۔ آنحضرتﷺ کو جن کو براہِ راست اللہ تعالیٰ کی رہنمائی تھی ان کو تو پتہ نہ چلا کہ کلمہ کس جگہ سے پڑھا جا رہا ہے۔ یہ دلی کیفیت ہے یا اوپر سے پڑھا جا رہا ہے؟ ان مولویوں کو دل کی کیفیت کا پتہ چل جاتا ہے کہ کلمہ یہ ظاہراً پڑھتے ہیں۔
کراچی میں شہادت
گزشتہ دنوں دو دن پہلے پھر کراچی میں ایک شہادت ہوئی ہے۔ مکرم حفیظ احمد شاکر صاحب گلشنِ اقبال کراچی کے رہنے والے تھے۔ ان کا میڈیکل سٹورتھا، رات کو ساڑھے بارہ بجے دکان بند کر کے اپنے کاروبار سے واپس آ رہے تھے تو راستے میں ان کو روک کر کنپٹی پر پستول رکھ کر ان کو شہید کر دیا گیا۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ ان کی عمر48سال تھی خادم کی حیثیت سے بھی اور بعد میں انصاراللہ میں جانے کے بعدناصر کی حیثیت سے بھی یہ بڑے ایکٹو (Active)ممبر تھے۔ خاص طور پر قرآنِ کریم کی تلاوت کا ان کو بڑا شوق تھا نظم اور تلاوت کے مقابلہ جات میں نمایاں پوزیشن لیتے رہے۔ نہایت شریف النفس اور فدائی احمدی تھے۔ ان کی اہلیہ کے علاوہ ان کی والدہ بھی حیات ہیں۔ دو بیٹیاں قرة العین عمر 19سال اور طُوبیٰ عمر14سال اور ایک بیٹا ہے فائق احمدعمر 17سال۔ اللہ تعالیٰ ان کی والدہ کو اور بچوں کو صبر عطا فرمائے اور ان کے درجات بلند فرماتا رہے۔ تو یہ سب ظلم جیسا کہ میں نے کہا یہ شہادتیں، یہ تکلیفیں، یہ قتل، یہ کلمے مٹانے، ان مولویوں کے بھڑکانے کی وجہ سے ہو رہے ہیں۔ مسلمان اور موٴمن کی تعریف جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے کی ہے وہ تو میں نے بتا دی کہ کیا ہے؟ اب ان قتل کرنے والوں کے بارے میں قرآنِ کریم کیا کہتا ہے؟ فرماتا ہے وَ مَنۡ یَّقۡتُلۡ مُؤۡمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُہٗ جَہَنَّمُ خٰلِدًا فِیۡہَا وَ غَضِبَ اللّٰہُ عَلَیۡہِ وَ لَعَنَہٗ وَ اَعَدَّ لَہٗ عَذَابًا عَظِیۡمًا (النساء: 94) اور جو جان بوجھ کر کسی مومن کو قتل کرے تو اس کی جزا جہنم ہے۔ وہ اس میں لمبا عرصہ رہنے والا ہے۔ اور اللہ اس پر غضب ناک ہوا اور اس پر لعنت کی۔ اور اس نے اس کے لئے بہت بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے۔
معاملہ اللہ کے سپرد ہے
اور پھر احمدی تو ایک طرف رہے، جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ ایک دوسرے کی مخالفت میں جو خود تعریف کرتے ہیں، مسلمان کی جو نام نہاد تعریف ہے، اس تعریف کے مطابق جس کومسلمان کہتے ہیں ان کو بھی قتل کرتے چلے جا رہے ہیں۔ روزانہ پاکستان میں قتل ہو رہے ہیں۔ ذرا علماء اس بات پر بھی تو غور کریں۔ کسی جرم کے لئے ابھارنے والا اور پلاننگ (Planning) کرنے والا اسی طرح مجرم ہوتا ہے جس طرح وہ عمل کرنے والا مجرم ہے۔ بہر حال ہماری طرف سے تو یہ معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد ہے۔ اور ہم نے ہمیشہ صبر کیا ہے اور صبر کرتے چلے جائیں گے، انشاء اللہ تعالیٰ۔ اور اللہ تعالیٰ شہیدوں کے بارے میں فرماتا ہے کہ وَ لَا تَحۡسَبَنَّ الَّذِیۡنَ قُتِلُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ اَمۡوَاتًا ؕ بَلۡ اَحۡیَآءٌ عِنۡدَ رَبِّہِمۡ یُرۡزَقُوۡنَ (آل عمران: 170) اور جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کئے گئے ان کو ہرگز مردہ گمان نہ کرنا بلکہ وہ تو زندہ ہیں اور انہیں ان کے رب کے ہاں رزق عطا کیا جا رہا ہے۔
مسیح موعودؑ کی تکذیب ان کا ذریعہ رزق
پس شہیدوں کے لئے تو اخروی نعمتوں کا فیضان جاری ہے اس کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے اور ہمیشہ کی زندگی ان کا مقدر بن گئی ہے۔ لیکن مخالفین کے بارے میں فرماتا ہے کہ وَ تَجۡعَلُوۡنَ رِزۡقَکُمۡ اَنَّکُمۡ تُکَذِّبُوۡنَ (الواقعۃ: 83) کہ اپنا حصہ رزق تم نے صرف جھٹلانا بنا لیا ہے۔ تم مولویوں کی روٹی بھی اسی لئے ہے اور سیاستدانوں کی بھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تکذیب کی جائے آپ کو جھٹلایا جائے۔ گویا یہ ان کا ذریعہ رزق بن گیا ہے۔ ان کا جھٹلانا جو ہے ان کے رزق کا ذریعہ بن گیا ہے اور حقیقی رازق کو وہ بھول چکے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ پس جھٹلانے اور قتل کرنے کی سزا کا اعلان خود خدا تعالیٰ نے سورة نساء کی جو پہلی آیت میں نے پڑھی ہے اس میں بیان کر دیا ہے۔ پس یہ خوف کا مقام ہے، ان کو کچھ ہوش کرنی چاہئے۔ جماعت کی ترقی کے ساتھ ساتھ دنیا میں مخالفت بھی پھیل رہی ہے۔ اور یہ جیسا کہ میں پہلے بیان کر آیا ہوں۔ اللہ تعالیٰ کے اس قول کے عین مطابق ہے کہ ہر نبی کی مخالفت ہوئی ہے اور ہوتی ہے۔ پس مسیح موعود کی بھی ہونی تھی اور آپ کے ماننے والوں کی بھی مخالفت ہر اس جگہ ہونی تھی جہاں احمدیت ہے اور مختلف طریقوں سے یہ ہو رہی ہے۔ کہیں زیادہ، کہیں کم۔
مصر میں احمدیت کی مخالفت
آج کل جیسا کہ میں گزشتہ خطبہ میں بتا چکا ہوں مصر میں بھی جماعت کی مخالفت بہت زیادہ ہے۔ اور اس مخالفت کی وجہ سے حکومت کے بعض ادارے بھی مولویوں کے پیچھے لگ کر اس میں شامل ہو گئے ہیں اور احمدیوں کو حراست میں رکھا ہوا ہے، اور ان پر الزامات ہیں جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ نعوذ باللہ احمدی حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کو خاتم النبیین مانتے ہیں۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ ہمارے نزدیک آنحضرتﷺ کا مقام سب سے افضل ہے اور آپ کے بعدنہ کوئی شرعی نبی آ سکتا ہے اور نہ قرآنِ کریم کے بعد کوئی اور شرعی کتاب اتر سکتی ہے۔ پس حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام کا جو دعویٰ ہے وہ خالصتاً آپؐ کی غلامی میں اور آپؐ سے فیض پاتے ہوئے دعویٰ ہے کہ مجھے خدا تعالیٰ نے اس لئے مبعوث کیا کہ میں اس زمانے میں سب سے زیادہ آنحضرتﷺ کا عاشقِ صادق ہوں۔ پس اِن پڑھے ہوئے لوگوں سے بھی مَیں کہتا ہوں کہ آنکھیں بند کر کے کم علموں کی طرح سنی سنائی باتوں پر یقین کرنے کی بجائے احمدیت کا پیغام تو پڑھیں، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کا دعویٰ تو دیکھیں پھر اگر الزام ثابت ہوتا ہو تو دکھائیں۔ پہلے ہمارا موٴقف تو سنیں۔ احمدیت کا موٴقف توسنتے نہیں اور سننے کو تیار بھی نہیں اور یک طرفہ فیصلہ کرتے چلے جا رہے ہیں۔ خدا کا خوف کرنا چاہئے اور خدا کے غضب سے ڈرنا چاہئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اسلام کے لئے خدمات کا مشاہدہ تو کریں۔ آنحضرتﷺ کے لئے احمدیوں کی غیرت اور حمیت کو تو پرکھیں۔ ورنہ خدا تعالیٰ کے نزدیک ہم ملزم نہیں، آپ لوگ مجرم ہوں گے۔ وہ لوگ مجرم ہوں گے جو بغیر دیکھے ایک فیصلہ ٹھونستے چلے جا رہے ہیں۔ ان علماء کی حالت کا نقشہ تو ایک جگہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جن الفاظ میں کھینچا ہے، وہ میں پیش کرتا ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانے سے لے کر آج تک ان نام نہاد علماء کی فطرت اور ان کی حرکتوں میں کوئی فرق نہیں پڑا۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’اور وہ لوگ جو کہتے ہیں جو ہم علمائے اسلام ہیں اور نبی کے دین کے ایک نَر عالم ہیں، سو ہم ان کو ایک سست الوجود اور چارپایوں کی طرح کھانے پینے والے دیکھتے ہیں۔ وہ اپنی باتوں اور قلموں سے کچھ بھی حق کی مددنہیں کرتے، بجز اللہ جّل شانہ کے اُن خاص بندوں کے جو تھوڑے ہیں۔ اور اکثر کو تُو ایسا پائے گا کہ اہلِ حق کا کینہ رکھتے ہوں گے۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کوئی حق کی بات سن کر ان میں شور و غوغا پیدا نہ ہو۔ وہ نہیں جانتے کہ حق اور صواب کیا چیز ہے؟ وہ فتنہ سے باز نہیں آتے اور حق کے ساتھ باطل باتوں کو ملاتے ہیں تا اپنی نکتہ چینی سے جاہلوں کو دھوکہ میں ڈالیں‘‘۔
ایک جھوٹ اور بہتان
اور ان میں سے جو ہم نے ذکر کیا ایک یہی ہے کہ احمدی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو آنحضرتﷺ کے بعدنبی مان کر نعوذ باللہ خاتم النبیین سمجھتے ہیں۔ یہ سراسر جھوٹ اور بہتان ہے۔ اور اسی نے کم علم اور معصوم لوگوں کو احمدیوں کے خلاف بھڑکایا ہوا ہے۔
پھر آپ فرماتے ہیں: ’’اور وہ شخص جس کو خدا تعالیٰ نے لوگوں کی اصلاح کے لئے کھڑا کیا ہے اس کو ایک خنّاس سمجھتے ہیں اور مومنوں کو کافر ٹھہراتے ہیں۔ ان کے قدم بجز دروغگوئی کے کسی طرف حرکت نہیں کرتے اور ان کی زبانیں بجز کافر بنانے کے کسی طرف جھکتی نہیں اور نہیں جانتے کہ دین کی خدمت کیا شے ہے۔ انہوں نے حق کو باطل کے ساتھ ملایا اور دیدہ و دانستہ ہم پر افتراء کیا۔ پس یہ نبیﷺ کے دین پر ایک بڑی مصیبت ہے کہ اس زمانہ کے اکثر علماء دیانت اور امانت سے باہر نکل گئے ہیں۔ اور دینی دشمنوں کی مانند کام کر رہے ہیں اور جھوٹ پر گرے جاتے ہیں تا اس کو حق کے حملہ سے بچا لیں‘‘۔ (جھوٹ کو حق سے بچانے کی کوشش کر رہے ہیں )۔ فرمایا: ’’اور خداوند ذوالجلال کی کچھ بھی پرواہ نہیں کرتے اور عناد رکھنے والوں کی طرح کافروں کو مدد دے رہے ہیں۔ اور اپنے دلوں میں یہ بات بٹھا لی ہے کہ وہی حق پر ہیں حالانکہ سراسر ہلاکت کی راہ پر چلتے ہیں۔ وہ صرف اپنی نفسانی آرزووٴں کو جانتے ہیں اور معانی کو نہیں ڈھونڈھتے اور نہ غور کرتے ہیں۔ سچی بات کو سن کر پھر سرکشی کرتے ہیں گویا وہ موت کی طرف بلائے جاتے ہیں۔ اور دیکھتے ہیں کہ دنیا سخت بے وفا ہے اور زمانہ منہ کے بل گرنے والا ہے پھر دنیا پر عاشقوں کی طرح گرتے ہیں۔ اور بعض ان کے کام وہ ہیں جو گھر میں کرتے ہیں اور بعض وہ کام ہیں جو دکھلانے کے لئے ہیں “۔ یعنی گھر میں کچھ اور ہیں باہر کچھ اور ہیں۔ حضرت مسیح موعودؑ نے گھروں کی ایک مثال دی ہوئی ہے۔ ایک دفعہ ایک مولوی صاحب بڑے وعظ کر رہے تھے اور اسلام کی خاطر مالی قربانی کی تحریک کر رہے تھے اور ان کی بیوی بھی یہ سن رہی تھی اور اس پُر جوش تقریر کو سن کر بڑی متاثر ہوئی اور گھر آ کر اپنے سونے کے کڑے اور زیور اتار کر مولوی صاحب کو دیا کہ یہ میری طرف سے اس تحریک کے لئے ہیں۔ مولوی نے کہا یہ کیا؟اس نے کہا کہ آپ نے اتنی شدت سے تحریک کی تھی کہ میں بھی جذباتی ہو گئی تھی اور میں یہ پیش کر رہی ہوں۔ تو مولوی صاحب کا جواب تھا یہ تمہارے لئے تھوڑا تھا یہ تو دوسروں کے لئے تھا۔ تو یہ ان کے حال ہیں۔ فرمایا: ’’سو ریا کاروں پر واویلا ہے۔ انہوں نے خوب دیکھ لیا کہ کافروں کا فساد کیسا بڑھ گیا۔ اور وہ خوب جانتے ہیں کہ دین شریروں کا نشانہ بن گیا‘‘۔ یہ سب جو غیروں کی بھی جرأت بڑھتی جا رہی ہے، یورپ میں بھی اور بعض جگہ جو ویب سائٹس پہ اخباروں میں جو آنحضرتﷺ کے خلاف مواد دیا جاتا ہے، یا اب پاکستان میں facebook بند کر دی گئی ہے۔ facebook پر آنحضرتﷺ کے خلاف کچھ بیہودہ چیزیں دی گئی ہیں۔ تو یہ صرف اس لئے ہے کہ ان سب کو پتہ ہے کہ مسلمان ایک نہیں ہیں اور جو چاہے کر لویہ کبھی اکٹھے نہیں ہو سکتے اور بڑی جلدی بِکنے والے ہیں۔ اور زمانے کا امام جو مردِ میدان بن کر آیا ہے جو اسلام کے دفاع کے لئے آیا ہے اس کی مدد کرنا نہیں چاہتے۔ تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرما رہے ہیں کہ کافروں کا فساد کیسا بڑھ گیا ہے۔ یہ خوب دیکھتے ہیں اور خوب جانتے ہیں کہ ”دین شریروں کا نشانہ بن گیا۔ اور حق بدکاروں کے پیروں کے نیچے کچلا گیا۔ پھر غافلوں کی طرح پڑے سوتے ہیں اور دین کی ہمدردی کے لئے کچھ بھی توجہ نہیں کرتے۔ ہر یک دکھ دینے والی آواز کو سنتے ہیں۔ پھر کافروں، ناپاکوں کی باتوں کی کچھ بھی پرواہ نہیں رکھتے۔ اور ایک ذی غیرت انسان کی طرح نہیں اٹھتے بلکہ حمل دار عورتوں کی طرح اپنے تئیں بوجھل بنا لیتے ہیں حالانکہ وہ حمل دار نہیں۔ اور جب کسی نیکی کی طرف اٹھتے ہیں تو سست اور ڈھیلے اٹھتے ہیں۔ اور تو محنت کشوں کے لچھن ان میں نہیں پائے گا۔ اور جب کوئی نفسانی حظّ دیکھیں تو تُودیکھے گا کہ اس کی طرف دوڑتے بلکہ اچھلتے چلے جاتے ہیں‘‘۔ (انسانی خواہشات کی طرف اچھلتے ہیں)۔ فرمایا: ’’یہ تو ہمارے بزرگ علماء کا حال ہے۔ مگر کافر تو اسلام کے مٹانے کے لئے سخت کوشش کر رہے ہیں اور ان کے تمام مشورے اسی مقصد کے لئے ہیں اور باز نہیں آتے‘‘۔ (منن الرحمن روحانی خزائن جلد 9 صفحہ 177تا 179)
علماء کی حالت کا نقشہ کھینچ کر اور اسلام کی حالت کا بیان کر کے یہ درد کا اظہار ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کیا ہے اور کیا ان کو کرنا چاہئے؟ اور کیا ان کے عمل ہیں؟ آپ نے یہ لکھ کر صرف علماء پر اعتراض نہیں کیا۔ بلکہ جیسا کہ ہم تو جانتے ہیں کہ 80سے زائد کتابیں اسلام کے دفاع میں لکھیں۔ علماء کو بھی حق کا راستہ دکھانے کی کوشش کی۔ ہر مذہب کو مقابلے پر بلایا اور اسلام کی بالادستی ثابت کی۔ آنحضرتﷺ کے مقام کو اپنے ماننے والوں کے دلوں میں قائم فرمایا۔ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کے قیام کے لئے اپنی جان ہلکان کی۔ اپنے پیچھے ایسی جماعت چھوڑی جو اس مشن کو آگے بڑھا رہی ہے۔ آپ کے کارناموں کا ہر انصاف پسندنے اقرار کیا۔
مسیح موعودؑ کی وفات پر غیروں کا اظہار خراجِ تحسین
آپ کی وفات پر جو غیروں نے اظہار کیا اس میں سے ایک نمونہ مَیں پیش کرتا ہوں۔ مولانا ابوالکلام آزاد ایک مسلمان لیڈر تھے، احمدی نہیں تھے۔ انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات پر لکھا کہ ’’مرزا صاحب کی اس رِفعت نے ان کے بعض دعاوی اور بعض معتقدات سے شدید اختلاف کے باوجود ہمیشہ کی مفارقت پر مسلمانوں کو ہاں تعلیم یافتہ اور روشن خیال مسلمانوں کو محسوس کرا دیا ہے کہ ان کا ایک بڑا شخص ان سے جدا ہو گیا۔ اور اس کے ساتھ مخالفین اسلام کے مقابلہ پر اسلام کی اس شاندار مدافعت کا جو اس کی ذات سے وابستہ تھی، خاتمہ ہو گیا۔ ان کی یہ خصوصیت کہ وہ اسلام کے مخالفین کے برخلاف ایک فتح نصیب جرنیل کا فرض پورا کرتے رہے ہمیں مجبور کرتی ہے کہ اس احساس کا کھلم کھلا اعتراف کیا جاوے تا کہ وہ مہتم بالشان تحریک جس نے ہمارے دشمنوں کو عرصہ تک پست اور پامال بنائے رکھا آئندہ بھی جاری رہے‘‘۔ یہ تو ان کا خیال تھا بہر حال، ان کو یہ نہیں پتہ کہ اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی جماعت تھی اور آپ کا جو خزانہ تھا، جو ہمیں دے گئے ہیں وہ آج تک مخالفین کے منہ بند کرتا چلا جا رہا ہے۔
پھر یہ آگے لکھتے ہیں: ’’مرزاصاحب کا لٹریچر جو مسیحیوں اور آریوں کے مقابلہ پر ان سے ظہور میں آیا، قبولِ عام کی سند حاصل کر چکا ہے اور اس خصوصیت میں وہ کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ اس لٹریچر کی قدر و عظمت آج جب کہ وہ اپنا کام پورا کر چکا ہے، ہمیں دل سے تسلیم کرنی پڑتی ہے۔ اس لئے کہ وہ وقت ہرگز لوح قلب سے نَسْیًا مَّنْسِیًّا نہیں ہو سکتا جبکہ اسلام مخالفین کی یورشوں میں گھر چکا تھا اور مسلمان جو حافظ حقیقی کی طرف سے عالمِ اسباب ووسائط میں حفاظت کا واسطہ ہو کر اس کی حفاظت پر مامور تھے، اپنے قصوروں کی پاداش میں پڑے سسک رہے تھے‘‘۔ (مسلمانوں ہی کا کام تھا جو اسلام کی حفاظت کرنا۔ وہ تو اپنے قصوروں کی وجہ سے صرف سسک رہے تھے۔ کچھ کر نہیں سکتے تھے کیا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام نے اسلام کے دفاع کا کام کیا۔ )۔ پھر لکھتے ہیں: ’’اور اسلام کے لئے کچھ نہ کرتے تھے۔ یا نہ کر سکتے تھے۔ ایک طرف حملوں کے امتداد کی یہ حالت تھی کہ ساری مسیحی دنیا اسلام کی شمع عرفانِ حقیقی کو سرِ راہ منزل مزاحمت سمجھ کے مٹا دینا چاہتی تھی‘‘۔ اسلام کی جو عرفان کی روشنی تھی اس عیسائی دنیا کو اپنے لیے اپنے راستے میں اپنی ترقی کے راستے میں روک سمجھ کر مٹانے کے درپے تھی۔ ’’اور عقل و دولت کی زبردست طاقتیں اس حملہ آور کی پشت گری کے لئے ٹوٹی پڑی تھیں‘‘۔ ساری عقلیں بھی ان کے ساتھ تھیں، دولتیں بھی ان عیسائی مشنوں کے ساتھ تھیں۔ ’’اور دوسری طرف ضعفِ مدافعت کا یہ عالم تھا کہ توپوں کے مقابلے پر تیر بھی نہ تھے‘‘۔ وہ تو توپیں لے کر آئے ہوئے تھے۔ یعنی اپنی دولت اور کتابوں اور دلیلوں کے ساتھ اور مسلمانوں کی حالت یہ تھی اب مسلمانوں کے پاس ایک تیر بھی نہیں تھا ’’اور حملہ آور اور مدافعت دونوں کا قطعی وجود ہی نہ تھا‘‘۔ نہ حملے کرنے کی طاقت تھی، نہ دفاع کرنے کی طاقت تھی۔ آگے کہتے ہیں کہ ’’مسلمانوں کی طرف سے وہ مدافعت شروع ہوئی جس کا ایک حصہ مرزا صاحب کو حاصل ہوا‘‘۔ (تاریخ احمدیت جلد 2صفحہ560-561) ایک حصہ کیا۔ یہ سارے کا سارا جو کام ہے، مرزا صاحب کو ہی حاصل ہوا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوہ والسلام کو ہی حاصل ہوا۔ مسلمانوں ہی نے نہیں، جو مسلمان تھے حقیقت پسند مسلمان تھے، جیسا کہ ایک میں نے بیان کیا ہے، انہوں نے ہی تعریف نہیں کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے کام کی بلکہ غیر مسلم بھی آپ کے کام سے خوفزدہ تھے۔
آپؑ اسلام کے ایک عظیم جرنیل تھے۔ آپ کی تعلیم نے عیسائیت کی ترقی کی راہیں روکیں۔ اور عیسائیوں کو بھی یہ تسلیم کرنا پڑا کہ ان کی ترقی نہ صرف ہندوستان میں، بلکہ افریقہ میں بھی جماعت احمدیہ نے جو اسلام کے پیغام کا طریق اختیار کیا ہے اس کی وجہ سے رک گئی ہے۔ اس کے دو نمونے پیش کرتا ہوں۔ امریکی مشن کے پادری مسٹر ویورڈگار نے لکھا ہے کہ:
جماعت احمدیہ کے ذریعہ سے جو اسلامی کمک یہاں پہنچی ہے (سیرالیون میں ) اس نے لکھا ہے اس سے روکوپر کے نواحی علاقے (روکوپرایک سیرالیون کا شہر ہے) میں اس جماعت کی مضبوط مورچہ بندی ہو گئی ہے اور اب عیسائیت کے مقابلہ میں تمام تر کامیابی اسلام کو نصیب ہو رہی ہے۔ مثال کے طور پر اس مقابلہ کی صف آرائی کے نتیجہ میں تھوڑا عرصہ ہوا، شہر کامبیا میں امریکن عیسائی مشن بند کرنا پڑا۔ (اخبار ویسٹ افریقن فروری 1947ء) (ماخوذ ازتاریخ احمدیت جلد7صفحہ450جدید ایڈیشن)
پھر ایک اور عیسائی مصنف ہیں ایس جی ولیم سن، غانا یونیورسٹی کے پروفیسراپنی کتاب کرائسٹ اور محمد میں لکھتے ہیں کہ ’’غانا کے شمالی حصے میں رومن کیتھولک کے سوا عیسائیت کے تمام اہم فرقوں نے محمؐ د کے پیرووٴں کے لئے میدان خالی کر دیا ہے۔ اشانٹی اور گولڈ کوسٹ کے جنوبی حصوں میں عیسائیت آج کل ترقی کر رہی ہے۔ لیکن جنوب کے بعض حصوں میں خصوصاً ساحل کے ساتھ ساتھ احمدیہ جماعت کو عظیم الشان فتوحات حاصل ہو رہی ہیں۔ یہ خوش کن توقع کہ گولڈ کوسٹ جلد ہی عیسائی بن جائے گا اب معرضِ خطر میں ہے۔ (خطرے میں آ گیا ہے)۔ اور یہ خطرہ ہمارے خیال کی وسعتوں سے کہیں زیادہ عظیم ہے۔ کیونکہ تعلیم یافتہ نوجوانوں کی ایک خاصی تعداد احمدیت کی طرف کھچی چلی جا رہی ہے۔ اور یقیناً یہ صورتِ حال عیسائیت کے لئے کھلا چیلنج ہے۔ تاہم یہ فیصلہ ابھی باقی ہے کہ آئندہ افریقہ میں ہلال کا غلبہ ہو گا یا صلیب کا‘‘۔ (تعارف کتاب سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب روحانی خزائن جلد12صفحہ12) اور انشاء اللہ تعالیٰ ہلال کا ہی غلبہ ہونا ہے
میرے لئے یہ بَس ہے کہ وہ راضی ہو
آپؑ (حضرت مسیح موعودؑ) اپنی حالت کے بارے میں فرماتے ہیں، کیا درد ہے کہ: ’’میری روزانہ زندگی کا آرام اسی میں ہے کہ میں اسی کام میں لگا رہوں، بلکہ میں اس کے بغیر جی ہی نہیں سکتا کہ میں اُس (یعنی خدا) کا اور اس کے رسول (ﷺ) کا اور اس کی کلام کا جلال ظاہر کروں۔ مجھے کسی کی تکفیر کا اندیشہ نہیں اور نہ کچھ پروا۔ میرے لئے یہ بَس ہے کہ وہ راضی ہو جس نے مجھے بھیجا ہے۔ ہاں میں اس میں لذت دیکھتا ہوں کہ جو کچھ اس نے مجھ پر ظاہر کیا، وہ مَیں سب لوگوں پر ظاہر کروں۔ اور یہ میرا فرض بھی ہے کہ جو کچھ مجھے دیا گیا وہ دوسروں کو بھی دوں۔ اور دعوتِ مولیٰ میں ان سب کو شریک کر لوں جو ازل سے بلائے گئے ہیں۔ میں اس مطلب کے پورا کرنے کے لئے قریباً سب کچھ کرنے کے لئے مستعد ہوں اور جانفشانی کے لئے راہ پر کھڑا ہوں۔ …… اور امید رکھتا ہوں کہ وہ میری دعاوٴں کو ضائع نہیں کرے گا۔ اور میرے تمام ارادے اور امیدیں پوری کر دے گا‘‘۔ (ازالہ اوہام حصہ دوم روحانی خزائن جلد3صفحہ519-520)
پس کیا ایسے شخص کے بارے میں یہ بیہودہ الزام لگایا جا سکتا ہے کہ نعوذ باللہ وہ اپنے آپ کو خاتم النبیین سمجھتا ہے۔ اور اس کا مقام آنحضرتﷺ سے اونچا ہے؟ ہم ہی ہیں جو حضرت مسیح موعودؑ کی تعلیم کو سمجھتے ہوئے لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہُ کے حقیقی معنی کو سمجھنے والے ہیں۔ ہم ہیں جو آنحضرتﷺ کے مقامِ ختمِ نبوت کو سمجھنے والے ہیں۔ وقتاً فوقتاً احمدیوں پر الزام تراشی کرتے ہوئے ہمارے خلاف جو نام نہاد علماء مسلمانوں کے جذبات کو بھڑکا کر اپنے مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں، یا حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ان حقائق کو سامنے رکھ کر مسلمانوں کو چاہئے کہ دیکھیں اور پرکھیں۔ جہاں تک احمدیوں کا سوال ہے، احمدی اپنی جانوں کو تو قربان کر سکتے ہیں لیکن کبھی لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہُ کے حقیقی معنی سمجھ کر پھر اس سے منہ نہیں موڑ سکتے۔ یہ جو کلمے مٹائے جاتے ہیں، یہ جو کلمے کی حفاظت کے نام پر احمدیوں کو جیلوں میں ڈالا جاتا ہے، جو کلمے کے نام پر احمدیوں کو شہید کیا جاتا ہے یہی کلمہ مرنے کے بعد ہمارے حق میں خدا تعالیٰ کے حضور گواہی دے گا کہ یہی حقیقی کلمہ گو ہیں۔ اور یہی کلمہ احمدیوں پر ظلم کرنے والوں اور ان کو شہید کرنے والوں کے بارے میں قتلِ عمد کی گواہی دے گا۔ پس ہم خوش ہیں کہ جنت کی خوشخبری دے کراللہ تعالیٰ ہمیں دائمی زندگی سے نواز رہا ہے۔ پس جہاں شہداء دائمی زندگی کی خوشخبری پا رہے ہیں وہاں ہم سب جو ہیں اور ہم میں سے ہر ایک جو ثباتِ قدم کا مظاہرہ کر رہا ہے اللہ تعالیٰ کے پیار کو یقیناً جذب کرنے والا ہے۔ پس اس روح کو کبھی مرنے نہ دیں۔ کبھی مرنے نہ دیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔
آج میں اس شہید کا جنازہ بھی ابھی جمعہ کے بعد پڑھوں گا۔ اور ملک عطاء محمد صاحب کو بھی بیچ میں شامل کر رہے ہیں۔ اسی طرح ہمارے مصر کے ایک احمدی احمد محمد حاتم حلمی شافعی یہ 20مئی کو گردے فیل ہونے کی وجہ سے جوانی کی عمر میں ہی فوت ہو گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ ان کی 20، 22سال کی عمر تھی۔ یہ ڈاکٹر محمد حاتم صاحب کے بڑے بیٹے تھے، اور حلمی شافعی صاحب مرحوم کے پوتے تھے۔ حلمی شافعی صاحب کو تو سارے جانتے ہیں۔ یہ لقاء مع العرب میں ان کے کافی پروگرام حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کے ساتھ ریکارڈ ہوئے ہوئے ہیں۔ یہ بچپن سے معذور تھے۔ اور wheel chair پر تھے۔ لیکن اس کے باوجود بڑے صبر سے اپنی بیماری برداشت کرتے رہے اور اپنی والدہ کو بھی کہتے تھے کہ میں صبر سے سب کچھ برداشت کرتا ہوں پریشان نہ ہوں۔ ان کی والدہ کہتی ہیں کہ میں حیران ہوتی تھی ان کا صبر دیکھ دیکھ کے۔ اور تسلی جب ان کو دلائی جاتی، جب بیماری ان کی بڑھی ہے، تو خود ہی اپنی والدہ کو، اپنے عزیزوں کوبڑی تسلی دیا کرتے تھے۔ والدہ نے کہا کہ سب بہن بھائیوں سے بڑھ کر یہ ہماری اطاعت کرنے والے تھے۔ اور ان کے والد ڈاکٹر حاتم شافعی صاحب جو ہیں، میں نے ذکر کیا ہے مصریوں کا، کہ ان کو جیل میں رکھا ہوا ہے۔ ان میں سے ایک یہ بھی ہیں۔ اور حاتم صاحب صدر جماعت بھی ہیں۔ تو وہ جیل میں تھے جب یہ فوت ہوئے ہیں۔ باوجود معذوری کے، معذور تو تھے لیکن بزنس کی ڈگری انہوں نے لی ہے، پڑھتے رہے ہیں۔ کمپیوٹر کے کورس کئے ہوئے تھے۔ اور یہ بڑا ارادہ رکھتے تھے کہ اپنے دادا مرحوم کی طرح جماعتی لٹریچر میں ان کی مدد کریں گے۔ خلافت سے بڑی محبت کا تعلق تھا، میرے اس عرصے میں گزشتہ دو دفعہ یہاں جلسہ میں بھی آ چکے ہیں۔ والدہ یہ کہتی ہیں کہ وفات کے وقت ان کی زبان پر یہ الفاظ جاری تھے۔ اِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِی بِبَکَّۃَ، اور پھر لَبَّیْکَ اَللّٰھُمَّ لَبَّیْکَ کہا۔ گردے فیل ہونے کی وجہ سے کچھ عرصے سے ڈائی لیوسز (Dialysis) کے لئے جاتے تھے۔ والد ان کے اسیرِ راہِ مولیٰ ہیں اور ابھی جیل میں ہی ہیں، وہ تو ان کے جنازے میں شامل نہیں ہو سکے۔ اللہ تعالیٰ ان کے بھی درجات بلند کرے۔ اور والدین کو اور عزیزوں کو صبرِ جمیل عطا فرمائے۔ اور اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو ہر شر سے ہمیشہ محفوظ رکھے۔
(الفضل انٹرنیشنل جلد17شمارہ24مورخہ 11جون تا17جون 2010 صفحہ5تا9)
اللہ تعالیٰ تیرے لئے کافی ہےبطور ہادی اور مدد گار کے، مکہ میں مسلمانوں پر ظلم و ستم حضرت عمارؓ کے والدین کی قربانیوں کا ذکر، مخالفت کھاد کا کام دے رہی ہے، یہ مخالفتیں کبھی کامیاب نہیں ہوں گی بلکہ ایک دن انہیں مخالفین پر لوٹائی جائیں گی، پاکستان میں چک منگلا میں کلمہ طیبہ مٹانے کی ناپاک جسارت، تمام احمدیون کو نصیحت کہ ہم نے کلمہ کی حفاظت کرنی ہے، تمام احمدی تمام ارکان اسلام پر یقین رکھتے ہیں، پاکستان کے احمدیوں کے لئے دعاکی تحریک، پاکستان کی بقابھی احمدیوں کی دعاؤں میں ہے، پاکستان کے سیاستدانوں کی حالت اور خطرناک جھیل کے پانی کا ذکر، مکرم حفیظ احمد شاکر صاحب گلشن اقبال کراچی کی شہادت، ہمارا معاملہ خدا کے سپرد ہے، صبر کرتے چلے جائیں گے، مسیح موعودؑ کی تکذیب ان لوگوں کا ذریعہ رزق ہے، مصر میں احمدیوں کی مخالفت، ایک بہتان کہ نعوذ باللہ احمدی حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کو خاتم النبیین مانتے ہیں۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ ہمارے نزدیک آنحضرتﷺ کا مقام سب سے افضل ہے اور آپ کے بعدنہ کوئی شرعی نبی آ سکتا ہے اور نہ قرآنِ کریم کے بعد کوئی اور شرعی کتاب اتر سکتی ہے۔ حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام کا جو دعویٰ ہے وہ خالصتاً آپؐ کی غلامی میں اور آپؐ سے فیض پاتے ہوئے دعویٰ ہے کہ مجھے خدا تعالیٰ نے اس لئے مبعوث کیا کہ میں اس زمانے میں سب سے زیادہ آنحضرتﷺ کا عاشقِ صادق ہوں۔ پس اِن پڑھے ہوئے لوگوں سے بھی مَیں کہتا ہوں کہ آنکھیں بند کر کے کم علموں کی طرح سنی سنائی باتوں پر یقین کرنے کی بجائے احمدیت کا پیغام تو پڑھیں، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کا دعویٰ تو دیکھیں پھر اگر الزام ثابت ہوتا ہو تو دکھائیں۔ پہلے ہمارا موٴقف تو سنیں۔ احمدیت کا موٴقف توسنتے نہیں اور سننے کو تیار بھی نہیں اور یک طرفہ فیصلہ کرتے چلے جا رہے ہیں۔ خدا کا خوف کرنا چاہئے اور خدا کے غضب سے ڈرنا چاہئے، facebookپرآنحضرتﷺ کے خلاف بے ہودہ باتیں اس وجہ سے کہ مسلمان ایک نہیں ہیں، حضرت مسیح موعودؑ کا اسلام کے دفاع میں 80سے زائد کتابیں لکھنا اور آپؑ کی وفات پر غیروں کا خراج تحسین، آپؑ اسلام کے ایک عظیم جرنیل تھے، حضورؑ کا ارشاد کہ میرے لئے یہ بس ہے کہ وہ راضی ہو، احمدی اپنی جانوں کو تو قربان کر سکتے ہیں لیکن کبھی لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہُ کے حقیقی معنی سمجھ کر پھر اس سے منہ نہیں موڑ سکتے۔ یہ جو کلمے مٹائے جاتے ہیں، یہ جو کلمے کی حفاظت کے نام پر احمدیوں کو جیلوں میں ڈالا جاتا ہے، جو کلمے کے نام پر احمدیوں کو شہید کیا جاتا ہے یہی کلمہ مرنے کے بعد ہمارے حق میں خدا تعالیٰ کے حضور گواہی دے گا کہ یہی حقیقی کلمہ گو ہیں۔ اور یہی کلمہ احمدیوں پر ظلم کرنے والوں اور ان کو شہید کرنے والوں کے بارے میں قتلِ عمد کی گواہی دے گا۔ پس ہم خوش ہیں کہ جنت کی خوشخبری دے کراللہ تعالیٰ ہمیں دائمی زندگی سے نواز رہا ہے۔ پس جہاں شہداء دائمی زندگی کی خوشخبری پا رہے ہیں وہاں ہم سب جو ہیں اور ہم میں سے ہر ایک جو ثباتِ قدم کا مظاہرہ کر رہا ہے اللہ تعالیٰ کے پیار کو یقیناً جذب کرنے والا ہے، ملک عطاء محمد صاحب کی شہادت اور احمد محمد حاتم شافعی صاحب کی نماز جنازہ۔
خطبہ جمعہ فرمودہ 21مئی 2010ء بمطابق21ہجرت 1389 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن(برطانیہ)
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔