انبیاء کی بعثت اور مخالفت

خطبہ جمعہ 28؍ مئی 2010ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


تشہد و تعوذ اور سورة فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس آیت کی تلاوت فرمائی:

اِذۡ قَالَ رَبُّکَ لِلۡمَلٰٓئِکَۃِ اِنِّیۡ خَالِقٌۢ بَشَرًا مِّنۡ طِیۡنٍ۔فَاِذَا سَوَّیۡتُہٗ وَ نَفَخۡتُ فِیۡہِ مِنۡ رُّوۡحِیۡ فَقَعُوۡا لَہٗ سٰجِدِیۡنَ۔فَسَجَدَ الۡمَلٰٓئِکَۃُ کُلُّہُمۡ اَجۡمَعُوۡنَ۔اِلَّاۤ اِبۡلِیۡسَ ؕ اِسۡتَکۡبَرَ وَ کَانَ مِنَ الۡکٰفِرِیۡنَ(صٓ: 75- 72)

جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا یقیناً میں مٹی سے بشر پیدا کرنے والا ہوں۔ پس جب میں اسے ٹھیک ٹھاک کرلوں اور اس میں اپنی روح میں سے کچھ پھونک دوں تو اس کے سامنے سجدہ کرتے ہوئے گِر پڑو۔ اس پر سب کے سب فرشتوں نے سجدہ کیا مگر ابلیس نے نہیں۔ اس نے استکبار کیا اور وہ تھا ہی کافروں میں سے۔

ابتدائے عالم سے ہی شیطان اور انسان کی جنگ شروع ہے اور مذہبی تاریخ میں ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت آدم علیہ السلام پر اللہ تعالیٰ کے پیار کی نظر پڑنے کے ساتھ ہی شیطان نے جنگ شروع کر دی تھی۔ شدت سے انسانوں کے خلاف جنگ کا اعلان کیا۔ اور پھر جو بھی انبیاء کا زمانہ آیا ہر زمانے میں یہ تاریخ دہرائی جاتی رہی، اور دوہرائی جا رہی ہے۔ انبیاء جب آتے ہیں تو آ کر انسان کو خدا تعالیٰ کی طرف لے جانے والے راستے دکھاتے ہیں اور شیطان ان میں بگاڑ پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ پہلے بھی کرتا رہا ہے اور اب بھی کرتا ہے۔ مختلف طریقوں، حیلوں، بہانوں، لالچوں اور خوف کے ذریعے سے ڈراتا ہے۔ گمراہی کی طرف لے جاتا ہے۔ قرآنِ کریم میں بے شمار جگہ اس بات کا ذکر آیا ہے۔ انسان اور آدم کی تخلیق کے ساتھ ہی شیطان نے اپنے ہتھکنڈے استعمال کرنے شروع کر دئیے۔ قرآنِ کریم میں سورة فاتحہ سے لے کر سورة الناس تک شیطان کا ذکر کر کے اللہ تعالیٰ نے اس کے حملوں سے ہوشیار کیا ہے اور بچنے کا حکم دیا ہے اور دعا بھی سکھائی ہے کہ اے اللہ! ہمیں شیطانِ لعین کے حملوں سے بچا اور ہمیں ہر دم اپنی پناہ میں رکھ۔

انبیاء کی بعثت اور مخالفت

یہ آیات جو میں نے تلاوت کی ہیں ان میں اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے اپنا محبوب اور قریبی ہونے کا اعلان اس کی پیدائش کے اعلان کے ساتھ کیا اور فرشتوں کو اس کی کامل فرمانبرداری اور اطاعت کا حکم دیا۔ تو شیطان نے بڑی رعونت اور تکبر سے کام لیتے ہوئے کہا، میں اس انسان کو سجدہ کروں جو مٹی سے پیدا کیا گیا ہے؟ جبکہ میں تو اپنے اندر ناری صفات رکھتا ہوں، آگے آیات میں اس کا ذکر ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے جب بشر پیدا کیا اور اس میں وہ صلاحیتیں رکھیں جن سے وہ خدا تعالیٰ کے رنگ میں رنگین ہو کر قربِ خداوندی کے انتہائی مقام تک پہنچ سکتا ہے تو فرشتے بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے اس کی خدمت پر مامور ہوئے۔ پس جب اللہ تعالیٰ اپنے انبیاء بھیجتا ہے جو سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ کا قرب پانے والے ہوتے ہیں اور اس وجہ سے اللہ تعالیٰ کے الہام، وحی اور روح القدس سے حصہ پانے والے ہوتے ہیں تو تمام فرشتوں کا نظام ان کی تائید میں کھڑا ہو جاتاہے، یا اس نبی کی تائید میں کھڑا ہو جاتا ہے۔ اور وہ نتائج اس کے کام میں پیدا ہوتے ہیں جو اس کے مقصد کو جس مقصد کے لئے وہ آیا ہوتا ہے ترقی کی طرف لے جاتے چلے جاتے ہیں۔ ایک تقدیرِ خاص اللہ تعالیٰ کی جاری ہو جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بعض جگہ بشر کہہ کر اور بعض جگہ آدم کے الفاظ استعمال کر کے اس بات کو بیان فرمایا ہے کہ انسان کو خدا تعالیٰ نے اشرف المخلوقات بنایا ہے۔ تو تمام عالم اور دوسری مخلوق جو ہے اس کی خدمت پر لگا دی۔ جب ایک بشر اللہ تعالیٰ کے مقامِ قرب کا درجہ حاصل کر لیتا ہے اور نبوت کے مقام پر پہنچ کر اپنے وقت کا آدم بن جاتا ہے تو اس کے ساتھ کس قدر خدا تعالیٰ کی تائیدات ہوتی ہیں اس کا تصور بھی انسانی سوچ سے باہر ہے۔

ہم دیکھتے ہیں جب آنحضرتﷺ اور مومنین پر ظلم کی انتہا ہوئی اور مسلمانوں کو قتل کرنے کے لئے مدینہ پر کفار نے حملہ کرنے کی نیت سے فوج کشی کی اور پھر بدر کے میدان میں جنگ کا میدان جما تو کس طرح فرشتوں کے ذریعے خدا تعالیٰ نے مسلمانوں کے حق میں جنگ کا پانسا پلٹا۔ جماعتی سطح پر بھی ہر موقع پر یہ نظارے نظر آتے ہیں۔ قومی سطح پر بھی نظارے نظر آتے ہیں۔ انفرادی طور پر بھی انبیاء کے ساتھ یہ سلوک دیکھتے ہیں۔ پھر جنگِ حنین میں بھی یہ نظارہ دیکھا تو ہر موقع پر اللہ تعالیٰ فرشتوں کے ذریعے آپ کی، مومنین کی تائید فرماتا رہا۔ اور اسلام کی تائید میں اس طرح کے بے شمار واقعات ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ آنحضرتﷺ کے ساتھ اور مسلمانوں کی ابتدائی حالت میں ہمیشہ فرشتوں کی ایک فوج ساتھ تھی۔ بے شک مسلمانوں کے جانی نقصان بھی ہوئے ہیں۔ مالی نقصان بھی ہوئے ہیں لیکن ابلیس کا گروہ جو ہے وہ اپنے مقاصد حاصل نہیں کر سکا۔ ابلیس اور شیطان کے چیلے اپنا زور لگاتے رہتے ہیں کہ کسی طرح سے، کسی بھی رنگ میں وسوسے پیدا کر کے اللہ کے بندوں کے دلوں میں شکوک ڈالتے رہیں۔ انہیں قتل و غارت کے ذریعے سے خوف دلاتے رہیں۔ مالی نقصان کے ذریعے سے خوف دلاتے رہیں۔ چھپ کے حملوں کے ذریعے سے بھی خوف دلائیں۔ ظاہری حملوں کے ذریعے سے بھی خوف دلائیں۔ مخالفین کا انبیاء کو نہ ماننا اور شیطان کے قبضہ میں جانا ان کے تکبر کی وجہ سے ہوتا ہے جو ان کو نیکیوں کی طرف قدم بڑھانے کی توفیق نہیں دیتا۔ اور ہمیشہ ان کا جواب یہ ہوتا ہے کہ اس نبوت کے دعویدار اور خدا تعالیٰ کی طرف بلانے والے کو ماننے والے تو غریب لوگ ہیں اور ہم بڑے لوگ ہیں۔ ہم صاحبِ علم ہیں۔ ہمیں دین کا علم زیادہ پتہ ہے اس لئے ہم کس طرح اس جماعت میں شامل ہو جائیں یا اس کی بیعت کر لیں۔ آج اس زمانے میں بھی جو زمانے کے امام کو نہیں مانتے تو یہ تکبر ہی ہے جو ان کو نہ ماننے پر مجبور کر رہا ہے۔ پس جب اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو فرمایا کہ جو بشر میں نے بنایا ہے اس کو سجدہ کرو تو یہ کوئی ظاہری سجدہ نہیں تھا۔ ظاہری سجدہ تو صرف خدا تعالیٰ کو کیا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں دین پھیلانے کے لئے میں نے جس شخص کو مبعوث کیا ہے اس کے لئے کامل فرمانبرداری کرتے ہوئے اس کے مشن کو آگے بڑھانے میں اس کی مدد کرو اور شیطانوں کے منصوبوں کو کبھی کامیاب نہ ہونے دو۔ ان مقاصد کو کبھی شیطان حاصل نہ کر سکے۔ اور شیطان کے تمام منصوبوں کو ناکام و نا مراد کرنے میں نبی کی تائید کرو۔ اس کا ہاتھ بٹاوٴ اور نیک فطرت اور سعید لوگوں کے دلوں میں نبی کے پیغام اور اللہ تعالیٰ کی اس کے ساتھ تائیدات کے سلوک کی پہچان بھی پیدا کرو تا کہ وہ حق کو پہچانے اور حق کو پہچان کر اس کی جماعت میں شامل ہو جاوٴ۔ پھر ایسے لوگ اپنے اندر بھی نفخِ روح کے نظارے دیکھیں گے۔ خدا تعالیٰ کے سلوک کے نظارے دیکھیں گے۔ اپنی دنیا و آخرت سنوارنے کا باعث بنتے ہوئے جنتوں کا وارث ٹھہریں گے۔ نبی کے پیغام کو دنیا میں پھیلانے میں، فرشتے انسانوں کو بھی جو حکم دیتے ہیں کہ نبی کا پیغام دنیا میں پھیلانے کے لئے اس کے مدد گار بن جاوٴ توسعید فطرت لوگوں میں یہ تحریک پیدا ہوتی ہے اور یہی وہ مقام ہے جب تمام فرشتے بھی نبی کی تائید میں  فَسَجَدَ الۡمَلٰٓئِکَۃُ کُلُّہُمۡ اَجۡمَعُوۡنَ  کا اعلان کرتے ہیں۔ یعنی اس چیز کا نظارہ پیش کرتے ہیں کہ سب فرشتوں نے سجدہ کیا۔ اور خارق عادت اور غیر معمولی برکات نبی کے کام میں پڑ رہی ہوتی ہیں۔ اور فرشتہ صفت انسانوں کے ذریعے بھی اس سجدہ کے نظارے نظر آتے ہیں جو فرمانبرداری کا سجدہ ہے۔ جو اطاعت کا سجدہ ہے۔ جو اپنی تمام تر طاقتیں اور صلاحیتیں نبی کے کام کو آگے بڑھانے کا سجدہ ہے۔ اور وہ نبی کے سلطانِ نصیر بن کر اس کے کام کو آگے بڑھانے والے ہوتے ہیں۔

خدا کے فرستادوں کی توہین

اس زمانے میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ آنحضرتﷺ کے عاشقِ صادق کے ساتھ بھی اللہ تعالیٰ کا یہ سلوک ہے جسے اللہ تعالیٰ نے آدم کہہ کر مخاطب کیا ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ یاد رکھو خدا کے فرستادہ کی توہین خدا کی توہین ہے۔ تمہارا اختیار ہے چاہو تو مجھے گالیاں دو کیونکہ آسمانی سلطنت تمہارے نزدیک حقیر ہے۔ پس آج بھی جو مقابلہ کر رہے ہیں وہ خدا تعالیٰ سے مقابلہ کر رہے ہیں۔ حضرت مسیح موعودؑ یا آپ کی جماعت سے مقابلہ نہیں ہے۔ پھر ایک تفصیل بیان فرماتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ ’’حقیقی خلافت میری ہے یعنی میں خلیفۃ اللہ ہوں اور پھر اپنے ایک الہام کا ذکر فرمایا کہ اَرَدْتُ اَنْ اَسْتَخْلِفَ فَخَلَقْتُ آدَمَ خَلِیْفَۃَ اللّٰہِ السُّلْطَانَ۔ کہ میں نے چاہا کہ اپنا خلیفہ بناوٴں تو آدم کو پیدا کیا جو اللہ کا خلیفہ اور سلطان ہے‘‘۔

آپ فرماتے ہیں۔’’ہماری خلافت روحانی ہے۔ اور آسمانی ہے، نہ زمینی‘‘۔ (ماخوذ از مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحہ111اشتہار مورخہ 7جون 1897)

پس یہ آدم کا مقام خدا تعالیٰ نے آنحضرتﷺ کی غلامی کی وجہ سے آپ کو عطا فرمایا۔ اور جب یہ مقام دیا تو جیسا کہ خدا تعالیٰ کا قانون ہے، فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو۔ اس خاص بشر کو سجدہ کرو جس کو میں نے اپنے دین کو پھیلانے کے لئے چن لیا ہے۔ تو غیر معمولی تائیدات کا ایک سلسلہ بھی آپ کے ساتھ شروع ہو گیا۔ وہ ایک آدمی کروڑوں میں بن گیا۔ آپ کو الہاماً یہ تسلی دی گئی کہ میں تیرے ساتھ ہوں اور میرے فرشتے بھی تیری مدد کے لئے ہمہ وقت مستعد ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو فرمایا۔’’فَاِنِّیْ مَعَ الرَّسُوْلِ اَقُوْمُ وَیَنْصُرُہُ الْمَلٓئِکَۃُ ‘‘ پس میں اپنے رسول کے ساتھ کھڑا ہوں گا اور ملائکہ بھی اس کی مدد کریں گے۔ (تذکرہ صفحہ 309 ایڈیشن چہارم)

اور یہ خدا تعالیٰ کی مدد کوئی پرانے قصے نہیں ہیں بلکہ اپنے وعدے کے مطابق آج تک خدا تعالیٰ کی مدد کے نظارے ہم دیکھتے ہیں۔ شیطان بھی اپنا کام کئے چلا جا رہا ہے اور فرشتے بھی۔ جب اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں کے ذریعے سینے کھولتا ہے تو اس کی تمام روکیں دور ہو جاتی ہیں۔ ایک جگہ ظلم کر کے جماعت کو دبایا جاتا ہے تو دوسری جگہ نئی نئی جماعتیں پیدا ہو جاتی ہیں۔ گزشتہ دنوں مَیں عربوں کے متعلق الفضل میں ندیم صاحب جو ایک صفحہ لکھتے ہیں اس میں ایک واقعہ دیکھ رہا تھااس میں حلمی شافعی صاحب کی قبولیتِ احمدیت کا واقعہ تھا کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے ان کو احمدیت کی طرف مائل کیا؟ مصطفیٰ ثابت صاحب جو پہلے احمدی تھے۔ وہ اور حلمی شافعی صاحب صنعاء کے صحراء میں جس کمپنی میں وہ کام کرتے تھے ایک جگہ اکٹھے ہو گئے۔ تو کہتے ہیں میں دیکھتا تھا ایک نوجوان ہے جو دوسروں سے الگ تھلگ رہتا ہے۔ نمازیں بھی باقاعدہ پڑھتا ہے۔ پہلے مجھے خیال ہوا کہ یہ بہائی ہے یا کوئی اور ہے۔ پھر دیکھا جو باقاعدہ نمازیں پڑھتا ہے تو خیال ہوا بہائی تو نہیں ہو سکتا۔ پھر اور بعض فرقوں کی طرف دھیان گیا۔ پھر میں نے آہستہ آہستہ اس سے تعلق پیدا کرنا شروع کیا تو دیکھا کہ وہ نوجوان یعنی مصطفیٰ ثابت صاحب اسلام کے جو نظریات پیش کرتا تھا اور جو دلیلیں دیتا تھا وہ ایسی ہوتی تھیں کہ میرے پاس جواب ہی نہیں ہوتا تھا۔ علماء سے بھی مَیں جواب مانگتا لیکن تسلی نہیں ہوتی تھی۔ ایک موقع ایسا آیا کہ مجھے وہاں سے کام چھوڑ کے آنا پڑا اور انہوں نے اپنی کتابوں کا بکس میرے سپرد کر دیا کہ یہ لے جاوٴ۔ تو میں نے کہا کہ اس شرط پہ لے جاوٴں گا کہ یہ کتابیں میں پڑھوں۔ اس میں میں نے قرآنِ کریم کی تفسیر جو فائیو والیم میں ہے وہ اور بعض اور کتب پڑھیں، اسلامی اصول کی فلاسفی پڑھی۔ توکہتے ہیں کہ ہر کتاب کو پڑھ کے جس طرح غیر از جماعت علماء کی اور پڑھے لکھوں کی بھی عادت ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب میں اعتراض تلاش کرنا اور آج کل پاکستان میں یہ اعتراض کی صورت بڑی انتہاء پر گئی ہوئی ہے کتابیں نکال نکال کر اس پر اعتراض کرتے ہیں اور یہ اعتراض کرنے والا جس طرح کے بودے اعتراض کر رہا ہوتا ہے اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اس کی کم علمی ہے اور فطرت صحیحہ کی بجائے وہ شیطان کے پیچھے چلنے والے لوگ ہیں۔ بہر حال یہ کہتے ہیں کہ میں بھی اعتراض تلاش کرتا تھا۔ اور اعتراض نکالنے کے بعد جب میں علماء سے تسلی کروانے جاتا تھا تووہاں میری تسلی نہیں ہوتی تھی۔ پھر کہتے ہیں میں نے اسلامی اصول کی فلاسفی پڑھی تو اس نے میرے دل میں ایک ہلچل مچا دی۔ میں نے اپنے والد صاحب کو بھی سنائی تو میں نے کہا یہ کیسا ہے؟ لکھنے والا کون شخص ہو سکتا ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ اس کتاب کا لکھنے والا یقیناً کوئی ولی اللہ ہے۔ اس پر میں نے کہا اگر یہ مسیح موعود کا دعویٰ کر رہا ہو تو پھر؟ تو سوچ میں پڑ گئے اور کہا کہ ٹھیک ہے۔ بہر حال میں اس پر کوئی اعتراض نہیں کر سکتا کیونکہ ایسی اعلیٰ پائے کی چیز اللہ تعالیٰ کا کوئی انتہائی مقرب ہی لکھ سکتا ہے۔ لیکن میں تو اب بوڑھا ہو رہا ہوں اس لئے مذہب کے معاملے میں پکا ہو چکا ہوں تو میں تو قبول نہیں کر سکتا۔ لیکن بہرحال حلمی شافعی صاحب کے دل میں آہستہ آہستہ تبدیلیاں پیدا ہوئیں۔ وہ سعید فطرت تھی جس نے اعتراضوں کی تلاش کے باوجود ان کو حق پہچاننے کی توفیق عطا فرمائی اور انہوں نے بیعت کر لی۔ (ماخوذ از الفضل انٹرنیشنل موٴرخہ 28 مئی 2010ء صفحہ 3-4)

تو اس طرح کے واقعات بے شمار ہیں۔ آج کل بھی ہوتے ہیں۔ کچھ لوگوں کو اللہ تعالیٰ خوابوں کے ذریعہ سے دکھاتا ہے۔ اب خوابوں کے ذریعے سے جو پیغام پہنچتا ہے اس میں تو کسی انسان کا ہاتھ نہیں ہوتا۔ تو یہ سب اس کی تائید میں ان فرشتوں کی ایک ہلچل ہے جو سارے نظام میں مچی ہوئی ہوتی ہے جو اللہ تعالیٰ اپنے فرستادے کے لئے ظاہر کر رہا ہوتا ہے۔ اور پھر اس طرح سے جو سعید فطرت ہیں وہ حق کی طرف آتے چلے جاتے ہیں لیکن دوسری طرف شیطان کے قدموں پر چلنے والے مخالفت میں بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ وہ روکیں ڈالتے ہیں اور ان کے پیچھے ان کا وہ تکبر کام کر رہا ہوتا ہے جس کی اللہ تعالیٰ نے نشاندہی فرمائی تھی جو انہیں ملائکہ کے زمرہ سے نکال کر بغاوت پر آمادہ کرتے ہیں اور شیطان کے پیچھے چلنے پر مجبور کرتے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ کے بندے تو خدائی صفات کا پرتَو بنتے ہیں اور ان کا خدا تعالیٰ سے تعلق بڑھتا چلا جاتا ہے۔ روحانی ترقی میں بھی ان کے قدم بڑھتے ہیں۔ اور اس طرح دنیاوی اور مادی معاملات میں بھی خدا تعالیٰ کی رضا کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے وہ ترقی کرتے چلے جاتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس کی جو تفسیر ایک جگہ فرمائی ہے یہ میں ابھی آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔ آپ فرماتے ہیں: ’’تکبر ایسی بلا ہے کہ انسان کا پیچھا نہیں چھوڑتی۔ یاد رکھو! تکبر شیطان سے آتا ہے اور تکبر کرنے والے کو شیطان بنا دیتا ہے۔ جب تک انسان اس راہ سے قطعاً دور نہ ہو قبولِ حق و فیضانِ الوہیت ہرگز پا نہیں سکتا‘‘۔ (بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد 2 صفحہ 520 سورة الاعراف زیر آیت 13)

یعنی اللہ تعالیٰ کا جو حق کا پیغام ہے وہ اس کو کبھی قبول نہیں کرتا۔ اور اللہ تعالیٰ کے جو فیض ہیں ان سے استفادہ نہیں کر سکتا۔ اور یہ سب اس مخالفت کا نتیجہ ہے جو انبیاء کی کی جاتی ہے۔ چاہے جتنی بھی عبادتیں ہوں، جتنے بھی سجدے ہوں وہ کوئی فائدہ نہیں دے رہے ہوتے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے:۔ تم میری مخالفت میں اور مجھے بد دعائیں دینے کے لئے سجدے کرو اور ناکیں رگڑ لو۔ تمہاری ناکیں جل جائیں گی لیکن تم مجھے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ (ماخوذ از اربعین نمبر 3 روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 400)

پھر فرماتے ہیں: ’’کیونکہ یہ تکبر اس کی راہ میں روک ہو جاتا ہے۔ پس کسی طرح سے بھی تکبر نہیں کرنا چاہئے۔ علم کے لحاظ سے نہ دولت کے لحاظ سے نہ وجاہت کے لحاظ سے، نہ ذات اور خاندان اور حسب نسب کی وجہ سے۔ کیونکہ زیادہ تر تکبر انہیں باتوں سے پیدا ہوتا ہے۔ جب تک انسان اپنے آپ کو ان گھمنڈوں سے پاک وصاف نہ کرے گااس وقت تک وہ اللہ جلّ شانہ کے نزدیک پسندیدہ وبرگزیدہ نہیں ہوسکتا اور وہ معرفت الٰہی جو جذبات نفسانی کے مواد ردّیہ کو جلا دیتی ہے اس کو عطا نہیں ہوتی‘‘۔ یہ کھوکھلے علم جو ہیں یہ صرف کھوکھلے علم ہی رہتے ہیں ان کو معرفت نہیں مل سکتی۔ فرمایا: ’’کیونکہ یہ گھمنڈ شیطان کا حصہ ہے اس کو الله تعالیٰ پسندنہیں کرتا۔ شیطان نے بھی یہی گھمنڈ کیااور اپنے آپ کو آدم علیہ السلام سے بڑا سمجھا اور کہہ دیا اَنَا خَیۡرٌ مِّنۡہُ ۚ خَلَقۡتَنِیۡ مِنۡ نَّارٍ وَّ خَلَقۡتَہٗ مِنۡ طِیۡنٍ (الاعراف: 13) (میں اس سے اچھا ہوں تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا، اس کو مٹی سے) نتیجہ اس کا یہ ہوا کہ بارگاہِ الٰہی سے مردود ہو گیا۔ اس لئے ہر ایک کو اس سے بچنا چاہئے۔ جبتک انسان کو کامل معرفتِ الٰہی حاصل نہ ہو وہ لغزش کھاتا ہے اور اس سے متنبہ نہیں ہوتا مگر معرفتِ الٰہی جس کو حاصل ہو جائے اگرچہ اس سے کوئی لغزش ہو بھی جاوے تب بھی اللہ تعالیٰ اس کی محافظت کرتا ہے‘‘۔

پس یہ جوانبیاء کے مخالفین ہوتے ہیں یہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مخالفین ہیں۔ یہ ان کا تکبر ہے اور یہ کبھی بھی اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں نہیں رہ سکتے بلکہ شیطان کی گود میں گرتے چلے جاتے ہیں۔ فرمایا: ’’چنانچہ آدم علیہ السلام نے اپنی لغزش پر اپنی کمزوری کا اعتراف کیا اور سمجھ لیا کہ سوائے فضلِ الٰہی کے کچھ نہیں ہو سکتا۔ اس لئے دعا کر کے وہ اللہ تعالیٰ کے فضل کا وارث ہوا۔ رَبَّنَا ظَلَمۡنَاۤ اَنۡفُسَنَا ٜ وَ اِنۡ لَّمۡ تَغۡفِرۡ لَنَا وَ تَرۡحَمۡنَا لَنَکُوۡنَنَّ مِنَ الۡخٰسِرِیۡنَ (الاعراف: 24) (اے رب ہمارے! ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا۔ اگر تیری حفاظت ہمیں نہ بچاوے اور تیرا رحم ہماری دستگیری نہ کرے تو ہم ضرور ٹوٹے والوں میں سے ہو جاویں )‘‘۔ (بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد 2 صفحہ 520 سورة الاعراف زیر آیت 13)

کاش کہ یہ بات ان لوگوں کو بھی سمجھ میں آ جائے جو اپنے آپ کو امتِ مسلمہ کی طرف منسوب کرتے ہیں اور جس مسیح موعود کے آنے کی آنحضرتﷺ نے پیشگوئی فرمائی تھی اور جو خدا تعالیٰ کی تائیدات کے ساتھ مبعوث ہوا اس کو ماننے لگ جائیں۔ بجائے اس کی مخالفت کرنے کے اور باغیانہ خیالات کے لوگوں کے پیچھے چل کر زمانے کے امام کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرنے کے وہ اس کو ماننے کی طرف توجہ دیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بارہا فرمایا ہے کہ اگر یہ خدائی سلسلہ نہ ہوتا تو کب کا ختم ہو چکا ہوتا۔ پس مسیح موعود کی مخالفت کے بجائے آدم کی دعا پر غور کریں۔ آج بھی بہت ساروں نے سن لیا ہو گا، ٹی وی پر بھی آ رہا ہے، اطلاعیں آ رہی ہیں، لاہور میں دو مساجد پر ماڈل ٹاوٴن میں اور دارالذکر میں بڑا شدید حملہ ہوا ہے۔ اسی طرح کنری میں بھی جلوس نکالے گئے ہیں اس طرح دنیا میں اور جگہوں پر بھی مولویوں کے پیچھے چل کر مختلف ممالک میں مخالفت ہو رہی ہے۔ کیا یہ مخالفتیں احمدیت کو ختم کر دیں گی؟ کیا پہلے کبھی مخالفتوں سے احمدیت ختم ہوئی تھی؟ ہرگز نہیں ہوئی اور نہ یہ کر سکتے ہیں۔ ہاں ان کو ضروراللہ تعالیٰ کی پکڑ عذاب کا مورد بنا دے گی۔ ہمیں نصیحت فرماتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ’’دعا ایسی شے ہے کہ جب آدم کا شیطان سے جنگ ہوا تو اس وقت سوائے دعا کے کوئی اور حربہ کام نہ آیا۔ آخر شیطان پر آدم نے فتح بذریعہ دعا پائی‘‘۔ (ملفوظات جلد سوم صفحہ 171)

پھر آپ فرماتے ہیں: ’’ہمارا اعتقاد ہے کہ خدا نے جس طرح ابتدا میں دعا کے ذریعہ سے شیطان کو آدم کے زیر کیاتھا اسی طرح اب آخری زمانہ میں بھی دعا ہی کے ذریعہ سے غلبہ اور تسلّط عطا کرے گا، نہ تلوار سے۔ …… آدمِ اول کو(شیطان پر) فتح دعا ہی سے ہوئی تھی رَبَّنَا ظَلَمۡنَاۤ اَنۡفُسَنَا ٜ وَ اِنۡ لَّمۡ تَغۡفِرۡ لَنَا وَ تَرۡحَمۡنَا لَنَکُوۡنَنَّ مِنَ الۡخٰسِرِیۡنَ (الاعراف: 24)‘‘ اے ہمارے رب! ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا، اگر تو ہمیں نہیں بخشے گا اور ہم پر رحم نہیں کرے گاتو ہم خسارہ اٹھانے والوں میں سے ہوں گے۔ فرمایا: ’’اور آدمِ ثانی کو بھی (یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھی جن کو اللہ تعالیٰ نے آدمِ ثانی فرمایا ہے) جو آخری زمانہ میں شیطان سے آخری جنگ کرنا ہے، اسی طرح دعا ہی کے ذریعہ فتح ہو گی‘‘۔ (ملفوظات جلد سوم صفحہ 191-190)

پس جب یہ دشمنیاں بڑھ رہی ہیں، بلکہ دشمنی میں بعض جگہ معمولی اضافہ نہیں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے، اور یہ اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے ہمیں دعاوٴں کی طرف بہت زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ باوجود ساری مخالفتوں کے، باوجود تمام تر روکوں کے، باوجود اس کے کہ شیطان ہر راستے پر بیٹھا ہوا ہے جماعت بھی بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ سعید فطرت لوگوں کے ذریعے ملائکۃ اللہ بھی حرکت میں ہیں اور جو سعید فطرت لوگ ہیں وہ جماعت میں شامل ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ سورة اعراف میں یہ دعا سکھائی گئی ہے رَبَّنَا ظَلَمۡنَاۤ اَنۡفُسَنَا  (الاعراف: 24) اللہ تعالیٰ کے قریب ہونے اور زیادہ سے زیادہ برکات کو سمیٹنے اور شیطان کے ہر حملے سے بچنے کے لئے دعاوٴں کی طرف اور اپنی اصلاح کی طرف ہمیں انفرادی طور پر بھی اور جماعتی طور پر بھی بہت زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

پھر ایک جگہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’حکمتِ الٰہیہ نے آدم کو ایسے طور سے بنایا کہ فطرت کی ابتداء سے ہی اس کی سرشت میں دو قسم کے تعلق قائم کر دئیے۔ یعنی ایک تعلق تو خدا سے قائم کیا جیسا قرآنِ شریف میں فرمایا:۔فَاِذَا سَوَّیۡتُہٗ وَ نَفَخۡتُ فِیۡہِ مِنۡ رُّوۡحِیۡ فَقَعُوۡا لَہٗ سٰجِدِیۡنَ (الحجر: 30) یعنی جب میں اس کو ٹھیک ٹھاک بنا لوں اور میں اپنی روح اس میں پھونک دوں تو اے فرشتو! اسی وقت تم سجدے میں گر جاوٴ‘‘۔ فرمایا: ’’ کہ مذکورہ بالا آیت سے صاف ثابت ہے کہ خدا نے آدم میں اس کی پیدائش کے ساتھ ہی اپنی روح پھونک کر اس کی فطرت کو اپنے ساتھ ایک تعلق قائم کر دیا۔ سو یہ اس لئے کیا گیا کہ تا انسان کو فطرتاً خدا سے تعلق پیدا ہو جاوے۔ ایسا ہی دوسری طرف یہ بھی ضروری تھا کہ ان لوگوں سے بھی فطرتی تعلق ہو جو بنی نوع کہلائیں گے کیونکہ جبکہ ان کا وجود آدم کی ہڈی میں سے ہڈی اور گوشت میں سے گوشت ہو گا تو وہ ضرور اس روح میں سے بھی حصہ لیں گے جو آدم میں پھونکی گئی‘‘۔ (ریویو آف ریلیجنز مئی 1902 جلد اول نمبر 5 صفحہ 178-177)

پس یہ تو ہے ہماری ذمہ داری کہ اللہ تعالیٰ کے تعلق میں اور بڑھیں اور اگر ہمارا یہ تعلق صحیح ہو گا تو یہ جو آدم کی فطرت ہے، یہ ہماری فطرت کا خاصّہ بن جائے گی۔ اسی طرح حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف بھی توجہ پیدا ہو گی۔ پس اس مشن کو آگے بڑھاتے جائیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام لے کر آئے تھے۔ لیکن شیطان کے چیلوں کو تو اللہ تعالیٰ نے جہنم سے بھرنے کا فرمایا ہے۔

جیسا کہ میں نے کہا مخالفت کی آندھیاں تیز تر ہو رہی ہیں۔ لاہور میں جو مسجد پر حملہ ہوا ہے اس کے نقصان کی نوعیت ابھی پوری طرح سامنے نہیں آئی۔ لیکن کافی زیادہ شہادتیں بھی ہوئی ہیں اور زخمی بھی بہت زیادہ ہیں اور بعضوں کی حالت کافی criticalہے۔ دارالذکر میں ابھی تک پوری طرح صورتحال واضح نہیں ہوئی۔ پتا نہیں کس حد تک شہادتیں ہو جاتی ہیں۔ لوگ جمعہ کے لئے آئے ہوئے تھے۔ بہر حال تفصیلات آئیں گی تو پتہ لگے گا لیکن کافی تعداد میں شہادتیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سب شہیدوں کے درجات بلند فرمائے اور زخمیوں کے لئے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کو شفا بخشے۔ بعض کافی critical حالت میں ہیں۔ مخالفین نے جو یہ اجتماعی نقصان پہنچانے کی کوشش کی ہے، اللہ تعالیٰ یقیناً اس کا بدلہ لینے پر قادر ہے۔ کس ذریعہ سے اس نے اپنی قدرت کا ہاتھ دکھانا ہے، کس طرح اس نے ان فساد اور ظلم بجا لانے والوں کو پکڑنا ہے، یہ وہ بہتر جانتا ہے۔ لیکن یہ لوگ جو خدا تعالیٰ کی غیرت کو بار بار للکار رہے ہیں اور ظلم میں بڑھتے چلے جا رہے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں عبرت کا نشان بنا دے۔ اور انشاء اللہ تعالیٰ یہ ہو گا۔

جیسا کہ میں نے کہا احمدی اپنی دعاوٴں میں مزید درد پیدا کریں۔ اللہ تعالیٰ ان کے تکبر، ان کی شیطنت، ان کی بڑائی، ان کی طاقت کے زعم کو اپنی قدرتوں اور طاقتوں کا جلوہ دکھاتے ہوئے خاک میں ملا دے۔ اللہ تعالیٰ احمدیوں کے ایمان اور ایقان میں ترقی دیتا چلا جائے۔ اور یہ ابتلا کبھی ہمارے ایمان میں کمزوری کا باعث نہ بنے۔ تمام دنیا کے احمدی پاکستان کے احمدیوں کے لئے آج کل بہت دعا کریں۔ بڑے شدید تنگ حالات ہیں۔ اسی طرح مصر کے اسیران کے لئے بھی بہت دعاوٴں کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی بھی جلد رہائی کے سامان پیدا فرمائے۔ ہندوستان میں بھی گزشتہ دنوں کیرالہ میں دو تین احمدیوں پر غلط الزام لگا کر اسیر بنایا گیا ہے۔ ان کو بھی دعاوٴں میں یاد رکھیں۔ اللہ تعالیٰ کے وعدہ کے مطابق ان اسیروں، زخمیوں اور شہیدوں کی قربانیاں کبھی رائیگاں نہیں جائیں گی اور شیطان اور اس کے چیلے کبھی کامیاب نہیں ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ ہم پر بھی رحم فرمائے اور آئندہ ہر ابتلاء سے ہر ایک کو محفوظ رکھے۔

(الفضل انٹرنیشنل جلد 17شمارہ 25 مورخہ 18تا 24 جون 2010 صفحہ5تا 7)


  • خطبہ کا مکمل متن
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 28؍ مئی 2010ء شہ سرخیاں

    ابتدائے عالم سے انسان اور شیطان کی  جنگ شروع ہے، انبیاء کی بعثت اور مخالفت، مسلمانوں کی ابتدائی حالت میں ایسے واقعات ملتے ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ آپﷺ کے ساتھ ہمیشہ فرشتوں کی فوج تھی، جو اس زمانے کے امام کو نہیں مانتے وہ تکبر کرتے ہیں، خدا کے فرستادہ کی توہین خدا کی توہین ہے، حلمی شافعی صاحب کے قبولیت احمدیت کے واقعات کا ذکر، تکبر سے بچنے کی تلقین، انبیاء کے جو مخالفین ہوتے ہیں یہی حضرت مسیح موعودؑ کےمخالفین ہیں، لاہورمیں دو احمدیہ مساجد پر حملے کا ذکر اور ددعا کی تحریک، حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف توجہ، اللہ تعالیٰ شہداء کی قربانیاں رائیگاں نہیں جانے دے گا اللہ تعالیٰ یقیناً بدلہ لینے پر قادر ہے۔

    خطبہ جمعہ فرمودہ 28مئی 2010ء بمطابق28ہجرت 1389 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن (برطانیہ)

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور