شہدائے لاہور کی قربانیوں پر صبر اور دعا

خطبہ جمعہ 4؍ جون 2010ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


تشہد و تعوذ اور سورة فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس آیت کی تلاوت فرمائی:

اِنَّ الَّذِیۡنَ قَالُوۡا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسۡتَقَامُوۡا تَتَنَزَّلُ عَلَیۡہِمُ الۡمَلٰٓئِکَۃُ اَلَّا تَخَافُوۡا وَ لَا تَحۡزَنُوۡا وَ اَبۡشِرُوۡا بِالۡجَنَّۃِ الَّتِیۡ کُنۡتُمۡ تُوۡعَدُوۡنَ۔نَحۡنُ اَوۡلِیٰٓؤُکُمۡ فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا وَ فِی الۡاٰخِرَۃِ ۚ وَ لَکُمۡ فِیۡہَا مَا تَشۡتَہِیۡۤ اَنۡفُسُکُمۡ وَ لَکُمۡ فِیۡہَا مَا تَدَّعُوۡنَ۔نُزُلًا مِّنۡ غَفُوۡرٍ رَّحِیۡمٍ (حٰمٓ سجدہ: 31 تا 33)

یقیناً وہ لوگ جنہوں نے کہا اللہ ہمارا رب ہے۔ پھر استقامت اختیار کی، ان پر بکثرت فرشتے نازل ہوتے ہیں کہ خوف نہ کرو اور غم نہ کھاوٴ اور اس جنت (کے ملنے) سے خوش ہو جاوٴ جس کا تم وعدہ دئیے جاتے ہو۔ ہم اس دنیاوی زندگی میں بھی تمہارے ساتھ ہیں اور آخرت میں بھی۔ اور اس میں تمہارے لئے وہ سب کچھ ہو گا جس کی تمہارے نفس خواہش کرتے ہیں اور اس میں تمہارے لئے وہ سب کچھ ہو گا جو تم طلب کرتے ہو۔ یہ بخشنے والے اور بے انتہا رحم کرنے والے خدا کی طرف سے بطور مہمانی کے ہو گا۔

یہ ترجمہ ہے ان آیات کا جو میں نے تلاوت کی ہیں۔ ہر ہفتہ میں ہزاروں خطوط مجھے آتے ہیں جنہیں میں پڑھتا ہوں، جن میں مختلف قسم کے خطوط ہوتے ہیں۔ کوئی بیماری کی وجہ سے دعا کے لئے لکھ رہا ہوتا ہے۔ عزیزوں کے لئے لکھ رہا ہوتا ہے۔ شادیوں کی خوشیوں میں شامل کر رہا ہوتا ہے۔ رشتوں کی تلاش میں پریشانی کا اظہار کر رہا ہوتا ہے۔ کاروباروں اور ملازمتوں کے بابرکت ہونے اور دوسرے مسائل کا ذکر کر رہا ہوتا ہے۔ امتحانوں میں کامیابیوں کے لئے طلباء لکھ رہے ہوتے ہیں، ان کے والدین لکھ رہے ہوتے ہیں۔ غرض کہ اس طرح کے اور اس کے علاوہ بھی مختلف نوع کے خطوط ہوتے ہیں۔ لیکن گزشتہ ہفتے میں ہزاروں خطوط معمول کے ہزاروں خطوط سے بڑھ کر مجھے ملے اور تمام کا مضمون ایک محور پر مرکوز تھا، جس میں لاہور کے شہداء کی عظیم شہادت پر جذبات کا اظہار کیا گیا تھا، اپنے احساسات کا اظہار لوگوں نے کیا تھا۔ غم تھا، دکھ تھا، غصہ تھا، لیکن فوراً ہی اگلے فقرہ میں وہ غصہ صبر اور دعا میں ڈھل جاتا تھا۔ سب لوگ جو تھے وہ اپنے مسائل بھول گئے۔ یہ خطوط پاکستان سے بھی آ رہے ہیں، عرب ممالک سے بھی آ رہے ہیں، ہندوستان سے بھی آ رہے ہیں، آسڑیلیا اور جزائر سے بھی آ رہے ہیں۔ یورپ سے بھی آ رہے ہیں، امریکہ سے بھی آ رہے ہیں، افریقہ سے بھی آ رہے ہیں، جن میں پاکستانی نژاد احمدیوں کے جذبات ہی نہیں چھلک رہے کہ ان کے ہم قوموں پر ظلم ہوا ہے۔ باہر جو پاکستانی احمدی ہیں، ان کے وہاں عزیزوں یا ہم قوموں پر ظلم ہوا ہے۔ بلکہ ہر ملک کا باشندہ جس کو اللہ تعالیٰ نے مسیح محمدی کی بیعت میں آنے کی توفیق دی، یوں تڑپ کر اپنے جذبات کا اظہار کر رہا تھا یا کر رہا ہے جس طرح اس کا کوئی انتہائی قریبی خونی رشتہ میں پرویا ہوا عزیز اس ظلم کا نشانہ بنا ہے۔ اور پھر جن کے قریبی عزیز اس مقام کو پا گئے، اس شہادت کو پا گئے، ان کے خطوط تھے جو مجھے تسلیاں دے رہے تھے اور اپنے اس عزیز، اپنے بیٹے، اپنے باپ، اپنے بھائی، اپنے خاوند کی شہادت پر اپنے رب کے حضور صبر اور استقامت کی ایک عظیم داستان رقم کر رہے تھے۔

پھر جب میں نے تقریباً ہر گھر میں کیونکہ میں نے تو جہاں تک یہاں ہمیں معلومات دی گئی تھیں، اس کے مطابق ہر گھر میں فون کر کے تعزیت کرنے کی کوشش کی۔ اگر کوئی رہ گیا ہو تو مجھے بتا دے۔ جیسا کہ میں نے کہا میں نے ہر گھر میں فون کیا تو بچوں، بیویوں، بھائیوں، ماوٴں اور باپوں کو اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی پایا۔ خطوط میں تو جذبات چھپ بھی سکتے ہیں، لیکن فون پر ان کی پُر عزم آوازوں میں یہ پیغام صاف سنائی دے رہا تھا کہ ہم اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کو سامنے رکھتے ہوئے مومنین کے اس ردّ عمل کا اظہار بغیر کسی تکلف کے کر رہے ہیں کہ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔ ہم پورے ہوش و حواس اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کا ادراک کرتے ہوئے یہ کہہ رہے ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کی رضا پر خوش ہیں۔ یہ ایک ایک دو دو قربانیاں کیا چیز ہیں ہم تو اپنا سب کچھ اور اپنے خون کا ہر قطرہ مسیح موعودؑ کی جماعت کے لئے قربان کرنے کے لئے تیار ہیں۔ اس لئے تیار ہیں کہ آج ہمارے لہو، آج ہماری قربانیاں ہی حضرت محمد رسول اللہﷺ کے افضل الرسل اور خاتم الانبیاء ہونے کا اظہار اور اعلان دنیا پر کریں گی۔ ہم وہ لوگ ہیں جو قرونِ اولیٰ کی مثالیں قائم کریں گے۔ ہم ہیں جن کے سامنے صحابہ رسولﷺ کا عظیم نمونہ پھیلا ہوا ہے۔ یہ سب خطوط، یہ سب جذبات پڑھ اور سن کر اپنے جذبات کا اظہار کرنا تو میرے بس کی بات نہیں ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اس یقین پر قائم کر دیا، مزید اس میں مضبوطی پیدا کر دی کہ یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پیارے یقیناً ان اعلیٰ مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو عطا فرمائے ہیں جن کے پورا کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مبعوث ہوئے تھے۔ یہ صبر و استقامت کے وہ عظیم لوگ ہیں، جن کے جانے والے بھی ثباتِ قدم کے عظیم نمونے دکھاتے ہوئے خدا تعالیٰ کے حضور حاضر ہو گئے اور اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق وَ لَا تَقُوۡلُوۡا لِمَنۡ یُّقۡتَلُ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ اَمۡوَاتٌ ؕ بَلۡ اَحۡیَآءٌ وَّ لٰکِنۡ لَّا تَشۡعُرُوۡنَ (البقرة: 155) کے مصداق بن گئے، اور دنیا کو بھی بتا گئے کہ ہمیں مردہ نہ کہو۔ بلکہ ہم زندہ ہیں۔ ہم نے جہاں اپنی دائمی زندگی میں خدا تعالیٰ کی رضا کو پا لیا ہے وہاں خدا تعالیٰ کے دین کی آبیاری کا باعث بھی بن گئے ہیں۔ ہمارے خون کے ایک ایک قطرے سے ہزاروں ثمر آور درخت نشوونما پانے والے ہیں۔ ہمیں فرشتوں نے اپنی آغوش میں لے لیا ہے۔ ہمیں تو اپنی جان دیتے ہوئے بھی پتہ نہیں لگا کہ ہمیں کہاں کہاں اور کتنی گولیاں لگی ہیں؟ ہمیں گرینیڈ سے دئیے گئے زخموں کا بھی پتہ نہیں لگا۔ یہ صبر و رضا کے پیکر اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے بے چین، دین کی خاطر اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرنے والے، گھنٹوں اپنے زخموں اور ان میں سے بہتے ہوئے خون کو دیکھتے رہے لیکن زبان پر حرفِ شکایت لانے کی بجائے دعاوٴں اور درود سے اپنی اس حالت کو اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کا ذریعہ بناتے رہے۔ اگر کسی نے ہائے یا اُف کا کلمہ منہ سے نکالا تو سامنے والے زخمی نے کہا ہمت اور حوصلہ کرو، لوگ تو بغیر کسی عظیم مقصد کے اپنی جانیں قربان کر دیتے ہیں تم تو اپنے ایک عظیم مقصد کے لئے قربان ہونے جا رہے ہو۔ اور پھر وہ اُف کہنے والا آخر دم تک صرف درود شریف پڑھتا رہا۔ آنحضرتﷺ پر درود بھیجتے ہوئے اللہ اور اس کے رسولﷺ کو یہ یقین کرواتا رہاکہ ہم نے جو مسیح محمدی سے عہد کیا تھا اسے پورا کر رہے ہیں۔ میں نے ایک ایسی دردناک ویڈیو دیکھی، جو زخمیوں نے ہی اپنے موبائل فون پر ریکارڈ کی تھی۔ اس کو دیکھ کر دل کی عجیب کیفیت ہو جاتی ہے۔ پس یہ وہ لوگ ہیں جن سے بیشک قربانیاں تو خدا تعالیٰ نے لی ہیں لیکن اس کے فرشتوں نے ان پر سکینت نازل کی ہے۔ اور یہ لوگ گھنٹوں بغیر کراہے صبر و رضا کی تصویر بنے رہے۔

فون پر لاہور کے ایک لڑکے نے مجھے بتایا کہ میرے 19سالہ بھائی کو چار پانچ گولیاں لگیں، لیکن زخمی حالت میں گھنٹوں پڑا رہا ہے، اپنی جگہ سے ہلا تک نہیں اور دعائیں کرتا رہا۔ اگر پولیس بروقت آ جاتی تو بہت سی قیمتی جانیں بچ سکتی تھیں۔ لیکن جب پورا نظام ہی فساد میں مبتلا ہو تو ان لوگوں سے کیا توقعات کی جا سکتی ہیں؟ ایک نوجوان نے دشمن کے ہینڈ گرینیڈ کو اپنے ہاتھ پر روک لیا اس لئے کہ واپس اس طرف لوٹا دوں لیکن اتنی دیر میں وہ گرینیڈ پھٹ گیا اور اپنی جان دے کر دوسروں کی جان بچا لی۔ ایک بزرگ نے اپنی جان کا نذرانہ دے کر نوجوانوں اور بچوں کو بچا لیا۔ حملہ آور کی طرف ایک دم دوڑے اور ساری گولیاں اپنے سینے پر لے لیں۔ آج پولیس کے آئی جی صاحب بڑے فخر سے یہ بیان دے رہے ہیں کہ، پولیس نے دو دہشت گردوں کو پکڑ لیا۔ جب اوپر سے نیچے تک ہر ایک جھوٹ اور سچ کی تمیز کرنا چھوڑ دے تو پھر ایسے بیان ہی دئیے جاتے ہیں۔ دو دہشت گرد جو پکڑے گئے ہیں انہیں بھی ہمارے ہی لڑکوں نے پکڑا۔ اور پکڑنے والا بھی مجھے بتایا گیا، ایک کمزور سا لڑکا تھایعنی بظاہر جسمانی لحاظ سے بڑے ہلکے جسم کا مالک تھا لیکن ایمان سے بھرا ہوا تھا۔ اس نے ایک ہاتھ سے اس دہشتگرد کی گردن دبوچے رکھی اور دوسرے ہاتھ سے اس کی جیکٹ تک اس کا ہاتھ نہ جانے دیا، اس ہُک تک اس کا ہاتھ نہ جانے دیا جسے وہ کھینچ کر اس کو پھاڑنا چاہتا تھا۔

یہ بیچارے لوگ جو نوجوان دہشت گرد ہیں، چھوٹی عمر کے، اٹھارہ انیس سال کے، یا بیس بائیس سال کے لڑکے تھے، یہ بیچارے غریب تو غریبوں کے بچے ہیں۔ بچپن میں غربت کی وجہ سے ظالم ٹولے کے ہاتھ آجاتے ہیں جو مذہبی تعلیم کے بہانے انہیں دہشت گردی سکھاتے ہیں اور پھر ایسا brain wash کرتے ہیں کہ ان کو جنت کی خوشخبریاں صرف ان خود کش حملوں کی صورت میں دکھاتے ہیں۔ حالانکہ یہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا باعث بننے والی موت ہے۔ لیکن یہ بات سمجھنے سے اب یہ لوگ قاصر ہو چکے ہیں۔ ان دہشت گردوں کے سرغنوں کو کبھی کسی نے سامنے آتے نہیں دیکھا، کبھی اپنے بچوں کو قربان کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ اگر قربانیاں دیتے ہیں تو غریبوں کے بچے، جن کے برین واش کئے جاتے ہیں۔ بہر حال ایسے دو دہشت گرد جو پکڑے گئے، ہمارے اپنے لڑکوں نے ہی پکڑے۔

یہ فرشتوں کا اترنا اور تسکین دینا جہاں ان زخمیوں پر ہمیں نظر آتا ہے وہاں پیچھے رہنے والے بھی اللہ تعالیٰ کے اس خاص فضل کی وجہ سے تسکین پا رہے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے ان پر رکھا ہوا ہے۔ اس ایمان کی وجہ سے جو زمانے کے امام کو ماننے کی وجہ سے ہم میں پیدا ہوا یہاں بھی اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو حکم دیا ہے کہ جاوٴ اور میرے بندوں کے دلوں کی تسکین کا باعث بنو۔ ان دعائیں کرنے والوں کے لئے تسلی اور صبر کے سامان کرو۔ اور جیسا کہ میں نے کہا، ہر گھر میں مجھے یہی نظارے نظر آئے ہیں۔ ایسے ایسے عجیب نظارے ہیں کہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ کیسے کیسے لوگ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کوعطا فرمائے ہوئے ہیں۔ ہر ایک اِنَّمَاۤ اَشۡکُوۡا بَثِّیۡ وَ حُزۡنِیۡۤ اِلَی اللّٰہِ   (یوسف: 87) کہ میں اپنی پریشانی اور غم کی فریاد اللہ تعالیٰ کے حضور کرتا ہوں کی تصویر نظر آتا ہے۔ اور یہی ایک مومن کا طرہ امتیاز ہے۔ مومنوں کو غم کی حالت میں صبر کی یہ تلقین خدا تعالیٰ نے کی ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اسۡتَعِیۡنُوۡا بِالصَّبۡرِ وَ الصَّلٰوۃِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصّٰبِرِیۡنَ (البقرة: 154)  اے لوگو! جو ایمان لائے ہو۔ صبر اور صلوٰة کے ساتھ اللہ سے مدد مانگو، یقیناً اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔

پس ایک بندہ تو خدا تعالیٰ کے آگے ہی اپنا سب کچھ پیش کرتا ہے، جو اللہ کا حقیقی بندہ ہے، عبدِ رحمان ہے، جزع فزع کی بجائے، شور شرابے اور جلوس کی بجائے، قانون کوہاتھ میں لینے کی بجائے، جب صبر اور دعاوٴں میں اپنے جذبات کو ڈھالتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ کی بشارتوں کا حق دار ٹھہرتا ہے۔ مومنوں کی جماعت کو خدا تعالیٰ نے پہلے ہی آزمائشوں کے متعلق بتا دیا تھا۔ یہ فرما دیا تھا کہ آزمائشیں آئیں گی۔ فرماتا ہے۔ وَ لَنَبۡلُوَنَّکُمۡ بِشَیۡءٍ مِّنَ الۡخَوۡفِ وَ الۡجُوۡعِ وَ نَقۡصٍ مِّنَ الۡاَمۡوَالِ وَ الۡاَنۡفُسِ وَ الثَّمَرٰتِ ؕ وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِیۡنَ (البقرة: 156)اور ہم ضرور تمہیں کچھ خوف اور کچھ بھوک اور کچھ اموال اور جانوں اور پھلوں کے نقصان کے ذریعے سے آزمائیں گے۔ اور صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دے۔

پس صبر اور دعائیں کرنے والوں کے لئے خدا تعالیٰ نے خوشیوں کی خبریں سنائی ہیں۔ اپنی رضا کی جنت کا وارث بننے کی خبریں سنائی ہیں۔ اللہ کی راہ میں شہید ہونے والوں کو بھی جنت کی بشارت ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق اس دنیا میں رہنے والوں کے لئے بھی جنت کی بشارت ہے۔ ایسے لوگوں کی خواہشات اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول بن جاتی ہیں۔ جو آیات میں نے تلاوت کی ہیں، ان میں اللہ تعالیٰ نے مومنین کی انہی خوبیوں کا ذکر کیا ہے کہ جو لوگ ابتلاوٴں میں استقامت دکھاتے ہیں فرشتے ان کے لئے تسلی کا سامان کرتے ہیں۔ جب مومنین ہر طرف سے ابتلاوٴں میں ڈالے جاتے ہیں جانوں کو بھی نقصان پہنچایا جاتا ہے۔ اموال کو بھی نقصان پہنچایا جاتا ہے یا پہنچانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ عزتوں کو بھی نقصان پہنچایا جاتا ہے یا پہنچانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ہر طرف سے بعض دفعہ لگتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی مدد کے دروازے ہی بند ہو گئے ہیں اس وقت جب مومنین بَشِّرِ الصّٰبِرِیۡنَ کو سمجھتے ہوئے استقامت دکھاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹنے والے بن جاتے ہیں اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آ جاتے ہیں۔ ایک دم ایسی فتح و ظفر اور نصرت کی خبریں ملتی ہیں، اس کے دروازے کھلتے ہیں کہ جن کا خیال بھی ایک مومن کو نہیں آ سکتا۔ ایسے ایسے عجائب اللہ تعالیٰ دکھاتا ہے کہ جن کا تصور بھی نہیں ہو سکتا۔ پس استقامت شرط ہے اور مبارک ہیں لاہور کے احمدی جنہوں نے یہ استقامت دکھائی، جانے والوں نے بھی اور پیچھے رہنے والوں نے بھی۔ پس یقیناً اللہ تعالیٰ جو سچے وعدوں والا ہے اپنے وعدے پورے کرے گا۔ اور دلوں کی تسکین کے لئے جو وعدے ہیں، جو ہمیں نظر آ رہے ہیں، یہ اللہ تعالیٰ کے وعدے پورے ہونے کا ہی نشان ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس ضمن میں فرماتے ہیں کہ: ’’وہ لوگ جنہوں نے کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے اور باطل خداوٴں سے الگ ہو گئے پھر استقامت اختیار کی یعنی طرح طرح کی آزمائشوں اور بلا کے وقت ثابت قدم رہے۔ ان پر فرشتے اترتے ہیں کہ تم مت ڈرو اور مت غمگین (ہو) اور خوش ہو اور خوشی میں بھر جاوٴ کہ تم اس خوشی کے وارث ہو گئے جس کا تمہیں وعدہ دیا گیا ہے۔ ہم اس دنیوی زندگی میں اور آخرت میں تمہارے دوست ہیں۔ اس جگہ ان کلمات سے یہ اشارہ فرمایا کہ اس استقامت سے خدا تعالیٰ کی رضا حاصل ہوتی ہے۔ یہ سچ بات ہے کہ استقامت فوق الکرامت ہے۔ کمال استقامت یہ ہے کہ چاروں طرف بلاوٴں کو محیط دیکھیں اور خدا کی راہ میں جان اور عزت اور آبرو کو معرضِ خطر میں پاویں اور کوئی تسلی دینے والی بات موجودنہ ہو یہانتک کہ خدا تعالیٰ بھی امتحان کے طور پر تسلّی دینے والے کشف یا خواب یا الہام کو بند کر دے اور ہولناک خوفوں میں چھوڑ دے۔ اس وقت نامردی نہ دکھلاویں اور بزدلوں کی طرح پیچھے نہ ہٹیں اور وفا داری کی صفت میں کوئی خلل پیدا نہ کریں۔ صدق اور ثبات میں کوئی رخنہ نہ ڈالیں۔ ذلت پر خوش ہو جائیں، موت پر راضی ہو جائیں اور ثابت قدمی کے لئے کسی دوست کا انتظار نہ کریں کہ وہ سہارا دے، نہ اس وقت خدا کی بشارتوں کے طالب ہوں کہ وقت نازک ہے اور باوجود سراسر بے کس اور کمزور ہونے کے اور کسی تسلّی کے نہ پانے کے سیدھے کھڑے ہو جائیں اور ہر چہ بادا باد کہہ کر گردن کو آگے رکھ دیں اور قضاء و قدر کے آگے دم نہ ماریں اور ہرگز بے قراری اور جزع فزع نہ دکھلاویں جب تک کہ آزمائش کا حق پورا ہو جائے۔ یہی استقامت ہے جس سے خدا ملتا ہے۔ یہی وہ چیز ہے جس کی رسولوں اور نبیوں اور صدیقوں اور شہیدوں کی خاک سے اب تک خوشبو آ رہی ہے‘‘۔ (اسلامی اصول کی فلاسفی روحانی خزائن جلدنمبر10صفحہ420-419)

آج ہمارے شہداء کی خاک سے بھی یقیناً یہ خوشبو آ رہی ہے جو ہمارے دماغوں کو معطر کر رہی ہے۔ ان کی استقامت ہمیں پکار پکار کر کہہ رہی ہے کہ جس استقامت اور صبر کا دامن تم نے پکڑا ہے، اسے کبھی نہ چھوڑنا۔ یقیناً اللہ تعالیٰ اپنے وعدوں کا سچا ہے۔ ابتلاء کا لمبا ہونا تمہارے پائے استقلال کو ہلا نہ دے۔ کہیں کوئی نا شکری کا کلمہ تمہارے منہ سے نہ نکل جائے۔ ان شہداء کے بارے میں تو بعض خوابیں بھی بعض لوگوں نے بڑی اچھی دیکھی ہیں۔ خوش خوش جنت میں پھر رہے ہیں۔ بلکہ ان پر تمغے سجائے جا رہے ہیں۔ دنیاوی تمغے تو لمبی خدمات کے بعد ملتے ہیں یہاں تو نوجوانوں کو بھی نوجوانی میں ہی خدمات پر تمغے مل رہے ہیں۔ پس ہمارا رونا اور ہمارا غم خدا تعالیٰ کے حضور ہے اور اس میں ہمیں کبھی کمی نہیں ہونے دینی چاہئے۔ آپ لاہور کے وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو یہ الہام ہوا تھا کہ ’’لاہور میں ہمارے پاک ممبر موجود ہیں‘‘۔ (تذکرہ صفحہ328جدید ایڈیشن) اور ’’لاہور میں ہمارے پاک محبّ ہیں‘‘۔ (تذکرہ صفحہ328) پس یہ آپ لوگوں کا اعزاز ہے جسے آپ لوگوں نے قائم رکھنے کی کوشش کرنی ہے۔ خدا تعالیٰ کی رضا کو صبر اور دعا سے حاصل کرنے کی کوشش کرنی ہے۔ اور پھر اس تعلق میں بہت سی خوشخبریاں بھی اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بتائی ہیں۔ پس خوش قسمت ہیں آپ جن کے شہر کے نام کے ساتھ خوشخبریاں وہاں کے رہنے والوں کو اللہ تعالیٰ نے اپنے پاک مسیح علیہ السلام کے ذریعہ دی ہیں۔ دشمن نے تو میرے نزدیک صرف جانی نقصان پہنچانے کے لئے یہ حملہ نہیں کیا تھا، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اور بھی مقصد تھے۔ ایک تو خوف پیدا کر کے اپنی نظر میں، اپنے خیال میں کمزور احمدیوں کو احمدیت سے دور کرنا تھا، نوجوانوں میں بے چینی پیدا کرنی تھی۔ لیکن نہیں جانتے کہ یہ ان ماوٴں کے بیٹے ہیں جن کے خون میں، جن کے دودھ میں جان، مال، وقت، عزت کی قربانی کا عہد گردش کر رہا ہے۔ جن کے اپنے اندر عہدِ وفا نبھانے کا جوش ہے۔ دوسرے دشمن کایہ خیال تھا کہ اس طرح اتنی بڑی قربانی کے نتیجے میں احمدی برداشت نہیں کر سکیں گے اور سڑکوں پر آ جائیں گے۔ توڑ پھوڑ ہو گی، جلوس نکلیں گے اور پھر حکومت اور انتظامیہ اپنی من مانی کرتے ہوئے جو چاہے احمدیوں سے سلوک کرے گی۔ اور اس ردّ عمل کو باہر کی دنیا میں اچھال کر پھر احمدیوں کو بدنام کیا جائے گا۔ اور پھر دنیا کو دکھانے کے لیے، بیرونی دنیا کو باور کرانے کے لئے یہ لوگ اپنی تمام تر مدد کے وعدے کریں گے۔ لیکن نہیں جانتے کہ احمدی خدا تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ صبر اور دعا کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی مدد مانگنے والے اور اس کی پناہ میں آنے والے لوگ ہیں۔ خلافت کے جھنڈے تلے جمع ہونے والے لوگ ہیں۔ اور یہ کبھی ایسا ردّ عمل نہیں دکھا سکتے۔ جب یہ ردّ عمل جو مخالفین کی توقع تھی ان لوگوں نے نہیں دیکھا اور پھر بیرونی دنیا نے بھی اس ظالمانہ حرکت پر شور مچایا اور میڈیا نے بھی ان کو ننگا کر دیا تو رات گئے حکومتی اداروں کو بھی خیال آ گیا کہ ان کی ہمدردی کی جائے۔ اور اپنی شرمندگی مٹائی جائے۔ اور پھر آ کے بیان بازی شروع ہو گئی۔ ہمدردیوں کے بیان آنے لگ گئے۔ حیرت ہے کہ ابھی تک دنیا کو، ان لوگوں کو خاص طور پر یہ نہیں پتہ چلا کہ احمدی کیا چیز ہیں؟ گزشتہ ایک سو بیس سالہ احمدیت کی زندگی کے ہر ہر سیکنڈ کے عمل نے بھی ان کی آنکھیں نہیں کھولیں۔ یہ ایک امام کی آواز پر اٹھنے اور بیٹھنے والے لوگ ہیں۔ یہ اس مسیح موعود کے ماننے والے لوگ ہیں جو اپنے آقا ومطاع حضرت محمد مصطفیﷺ کی تعلیم کو دنیا میں رائج کرنے آیا تھا۔ جنہوں نے جانور طبع لوگوں کو انسان اور انسانوں کو باخدا انسان بنایا تھا۔ پس اب جبکہ ہم درندگی کی حالتوں سے نکل کر باخدا انسان بننے کی طرف قدم بڑھانے والے ہیں، ہم کس طرح یہ توڑ پھوڑ کر سکتے ہیں۔ جلوس اور قتل و غارت کا ردّ عمل کس طرح ہم دکھا سکتے تھے۔ ہم نے تو اللہ تعالیٰ کی رضا کو مقدم رکھتے ہوئے اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ کہا اور اپنا معاملہ خدا پر چھوڑ دیا۔ ہم نے تو اپنا غم اور اپنا دکھ خدا تعالیٰ کے حضور پیش کر دیا ہے اور اس کی رضا پر راضی اور اس کے فیصلے کے انتظار میں ہیں۔ یہ درندگی اور سفاکی تمہیں مبارک ہو جو خدا کے نام پر خدا کی مخلوق بلکہ خدا کے پیاروں کے خون کی ہولی کھیلنے والے ہو۔ عوام کو مذہب کے نام پر دوبارہ چودہ پندرہ سو سال پہلے والی بدّووانہ زندگی میں لے جانے والے اور اس میں رہنے والے ہو۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ کسی مصلح کی ضرورت نہیں ہے۔ اب کسی مسیح موعود کی آنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اب اس سے بھی انکاری ہوتے جا رہے ہیں۔ ہمارے لئے قرآن اور شریعت کافی ہے۔ کیا تمہارے یہ عمل اس شریعت اور قرآن پرہیں جو ہمارے آقا حضرت محمد مصطفیﷺ لائے تھے؟ یقیناً نہیں۔ تم میرے آقا، ہاں وہ آقا جو محسنِ انسانیت تھا اور قیامت تک اس جیسا محسنِ انسانیت پیدا نہیں ہو سکتا، اس محسنِ انسانیت کو بدنام کرنے کی ناکام کوشش کرنے والے ہو۔ ناموسِ رسالت کے نام پر میرے پاک رسولﷺ کو بدنام کرنے والے ہو۔ یقیناً قیامت کے دن لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ کا کلمہ تم میں سے ایک ایک کو پکڑ کر تمہیں تمہارے بد انجام تک پہنچائے گا۔ ہمارا کام صبر اور دعا سے کام لینا ہے اور انشاء اللہ تعالیٰ ہر احمدی اس پر کاربند رہے گا۔

یہ صبر کے نمونے جب دنیا نے دیکھے تو غیر بھی حیران ہو گئے۔ ظلم اور سفّاکی کے ان نمونوں کو دیکھ کر غیروں نے نہ صرف ہمدردی کا اظہار کیا بلکہ احمدیت کی طرف مائل بھی ہوئے بلکہ بیعت میں آنے کی خواہش کا اظہار بھی کیا۔ پس یہ ظلم جو تم نے ہمارے سے روا رکھااس کا بدلہ اس دنیا میں ہمیں انعام کی صورت میں ملنا شروع ہو گیا۔

میرا خیال تھا کہ کچھ واقعات بیان کروں گا لیکن بعض اتنے دردناک ہیں کہ ڈرتا ہوں کہ جذبات سے مغلوب نہ ہو جاوٴں۔ اس لئے سارے تو بیان نہیں کر سکتا۔ چند ایک واقعات جو ہیں وہ آپ کے سامنے رکھتاہوں۔ ہمارے نائب ناظر اصلاح و ارشاد ہیں۔ انہوں نے لکھا کہ ایک نمازی نے جب وہ جنازے پر آئے تھے، کسی کو مخاطب ہو کر کہا کہ ایک انعام اور ملا کہ شہید باپ کا بیٹا ہوں اور مجھے کہا کہ عزم اور حوصلے بلند ہیں، ماڈل ٹاوٴن میں مکرم اعجاز صاحب کے بھائی شہید ہو گئے اور انہیں مسجد میں ہی اطلاع مل گئی اور کہا گیا کہ فلاں ہسپتال پہنچ جائیں۔ انہوں نے کہا کہ جانے والا خدا کے حضور حاضر ہو چکا، اب شاید میرے خون کی احمدی بھائیوں کو ضرورت پڑ جائے، اس لئے میں تو اب یہیں ٹھہروں گا۔ ایک ماں نے کہا کہ اپنی گود سے جواں سالہ بیٹا خدا کی گود میں رکھ دیا۔ جس کی امانت تھی اس کے سپرد کر دی۔ ہمارے مربی سلسلہ محمود احمد شاد صاحب نے ماڈل ٹاوٴن میں اپنے فرض کو خوب نبھایا۔ خطبہ کے دوران دعاوٴں اور استغفار، صبر اور درود پڑھنے کی تلقین کرتے رہے۔ بعض قرآنی آیتیں بھی دہرائیں۔ دعائیں بھی دہرائیں اور درود شریف بھی بلند آواز سے دہرایا اور نعرۂ تکبیر بھی بلند کیا اور آپ نے جامِ شہادت بھی نوش کیا۔ سردار عبد السمیع صاحب نے بتایا کہ فجر کی نماز پر چک سکندر کے واقعات اور شہادتوں کا ذکر فرما رہے تھے کیونکہ یہ اس وقت وہاں متعین تھے۔

ایک صاحب لکھتے ہیں کہ باہر سیڑھیوں کے نیچے صحن میں ڈیڑھ دو سو آدمی کھڑے تھے۔ اس وقت دہشتگرد فائرنگ کرتے ہوئے ہال کے کارنر میں تھے۔ ایک آدمی بالکل صحن کے کونے تک آ گیا۔ اگر وہ اس وقت باہر آ جاتا تو جو ڈیڑھ دو سو آدمی باہر تھے وہ شاید آج موجودنہ ہوتے۔ لیکن میری آنکھ کے سامنے ایک انصار جن کی عمر لگ بھگ 65سال یا اوپر ہو گی، انہوں نے pillar کے پیچھے سے نکل کر اس کی طرف دوڑ لگا دی۔ اور اس کی وجہ سے بالکل ان کی چھاتی میں گولی لگی اور وہ شہید ہو گئے، لیکن ان کی بہادری کی وجہ سے دہشت گرد کے باہر آنے میں کچھ وقت لگا۔ لیکن اس عرصہ میں بہت سے احمدی محفوظ جگہ پر پہنچ گئے اور پھر اس نے گرینیڈ بعد میں پھینکا۔ اور کہتے ہیں جب ہم باہر آئے ہیں تو ہم نے دیکھا کہ بے شمار لوگ سیڑھیوں پر شہید پڑے تھے۔

ایک صاحب نے مجھے لکھا، جوجاپان سے وہاں گئے ہوئے تھے اور جنازے میں شامل ہوئے کہ آخرین کی شہادتوں نے نبی اکرمﷺ کے دورِ مبارک کی یادوں کو تازہ کر دیا۔ ربوہ کے پہاڑ کے دامن میں ان مبارک وجودوں کو دفناتے ہوئے کئی دفعہ ایسا لگا جیسے اس زمانے میں نہیں۔ صبر و رضا کے ایسے نمونے تھے جن کو الفاظ میں ڈھالنا ناممکن ہے۔ انصار اللہ کے لان میں مَیں نے اپنی دائیں طرف ایک بزرگ سے جو جنازے کے انتظار میں بیٹھے تھے پوچھا کہ چچا جان! آپ کے کون فوت ہوئے ہیں؟ فرمایا میرا بیٹا شہید ہو گیا ہے۔ لکھنے والے کہتے ہیں کہ میرا دل دہل رہا تھا اور پُر عزم چہرہ دیکھ کر ابھی میں منہ سے کچھ بول نہ پایا تھا کہ انہوں نے پھر فرمایا کہ الحمدللہ! خدا کو یہی منظور تھا۔ لکھنے والے کہتے ہیں کہ میرے چاروں طرف پُر عزم چہرے تھے اور میں اپنے آپ کو سنبھال رہا تھا کہ ان کوہ وقار ہستیوں کے سامنے کوئی ایسی حرکت نہ کروں کہ خود مجھے شرمندگی اٹھانی پڑے۔ کہتے ہیں کہ میں مختلف لوگوں سے ملتا اور ہر بار ایک نئی کیفیت سے گزرتا رہا۔ خون میں نہائے ایک شہید کے پاس کھڑا تھا کہ آواز آئی میرے شہید کو دیکھ لیں۔ اس طرح کے بے شمار جذبات احساسات ہیں۔ ایک خاتون لکھتی ہیں کہ میرے چھوٹے بچے بھی جمعہ پڑھنے گئے تھے اور خدا نے انہیں اپنے فضل سے بچا لیا۔ جب مسجد میں خون خرابہ ہو رہا تھا تو ہماری ہمسائیاں ٹی وی پر دیکھ کر بھاگی آئیں کہ رو دھو رہی ہو گی۔ یعنی میرے پاس آئیں کہ رو دھو رہی ہوں گی کیونکہ مسجد کے ساتھ ان کا گھر تھا۔ لیکن میں نے ان سے کہا کہ ہمارا معاملہ تو خدا کے ساتھ تھا۔ مجھے بچوں کی کیا فکر ہے؟ ادھر تو سارے ہی ہمارے اپنے ہیں۔ اگر میرے بچے شہید ہو گئے تو خدا کے حضور مقرب ہوں گے اور اگر بچ گئے تو غازی ہوں گے۔ یہ سن کر عورتیں حیران رہ گئیں اور الٹے پاوٴں واپس چلی گئیں کہ یہ کیسی باتیں کر رہی ہے؟ اور پھر آگے لکھتی ہیں کہ اس نازک موقع پر ربوہ والوں نے جو خدمت کی اور دکھی دلوں کے ساتھ دن رات کام کیا اس پر ہم سب آپ کے اور ان کے شکر گزار ہیں۔ ایک ماں کا اٹھارہ سال کا اکلوتا بیٹا تھا۔ ایک لڑکاتھا باقی لڑکیاں ہیں۔ میڈیکل کالج میں پڑھتا تھا۔ شہید ہو گیا اور انتہائی صبر اور رضا کا ماں باپ نے اظہار کیا اور یہ کہا کہ ہم بھی جماعت کی خاطر قربان ہونے کے لئے تیار ہیں۔ مسلم الدّروبی صاحب سیریا کے ہیں وہ بھی ان دنوں میں وہاں گئے ہوئے تھے۔ اور ان کو بھی ٹانگ پرکچھ زخم آئے ہیں۔ شام کے احمدی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ایسا نظارہ میں نے کبھی نہیں دیکھا۔ کوئی افراتفری نہیں تھی۔ کوئی ہراسانی نہیں تھی۔ کوئی خوف نہیں تھا۔ ہر ایک آرام سے اپنے اپنے کام کر رہا تھا اس وقت بھی جب دشمن گولیاں چلا رہا تھااور انتظامیہ کی طرف سے جو بھی ہدایات دی جا رہی تھیں ان کے مطابق عمل ہو رہا تھا۔ کہتے ہیں کہ میرے لئے تو ایک ایسی انہونی چیز تھی کہ جس کو میں نے کبھی نہیں دیکھا۔

پس یہ وہ لوگ ہیں، یہ وہ مائیں ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی جماعت میں پیدا کی ہیں۔ قربانیوں کی عظیم مثال ہیں۔ اس بات کی فکر نہیں کہ میرے بچوں کا کیا حال ہے یا میرا بچہ شہید ہو گیا ہے۔ پوری جماعت کے لئے یہ مائیں درد کے ساتھ دعائیں کر رہی ہیں۔ پس اے احمدی ماوٴں ! اس جذبے کو اور ان نیک اور پاک جذبات کو اور ان خیالات کو کبھی مرنے نہ دینا۔ جب تک یہ جذبات رہیں گے، جب تک یہ پُر عزم سوچیں رہیں گی، کوئی دشمن کبھی جماعت کا بال بھی بیکا نہیں کر سکتا۔

ایک احمدی نے لکھا کہ میں ربوہ سے گیا تھا۔ ایک نوجوان خادم کے ساتھ مل کر لاشیں اٹھاتا رہا تو سب سے آخر میں اس نے میرے ساتھ مل کرایک لاش اٹھائی اور ایمبولینس تک پہنچا دی، اور اس کے بعد کہنے لگا کہ یہ میرے والد صاحب ہیں۔ اور پھر یہ نہیں کہ اس ایمبولینس کے ساتھ چلا گیا بلکہ واپس مسجد میں چلا گیا اور اپنی ڈیوٹی جو اس کے سپرد تھی اس کام میں مستعد ہو گیا۔

یہ ہیں مسیح محمدی کے وہ عظیم لوگ جو اپنے جذبات کو صرف اور صرف خدا تعالیٰ کے حضور پیش کرتے ہیں۔ اس طرح کے بیسیوں واقعات ہیں۔ بعد میں انشاء اللہ تعالیٰ یہ جمع کر کے لکھے بھی جائیں گے۔ ایک بات جو سب نے بتائی ہے جو کامن (Common) ہے، عینی شاہد جو بتاتے ہیں کہ دہشت گرد جب یہ سب کارروائی کر رہے تھے تو کوئی پینک (Panic) نہیں تھا۔ جیسا کہ الدّروبی صاحب نے بھی لکھا ہے۔ امیر صاحب اور مربی صاحب اور عہدیداران کی ہدایات پر جب تک یہ لوگ عہدیداران زندہ رہے سکون سے عمل کرتے رہے اور اس کے بعد بھی کوئی بھگدڑ نہیں مچی بلکہ بڑے آرگنائزڈ طریقے سے دیواروں کے ساتھ لگ گئے تا کہ گولیوں سے بچ سکیں اور بیٹھ کردعائیں کرتے رہے۔ اور ایک بزرگ اس حالت میں مسلسل سجدہ میں رہے ہیں کوئی پرواہ نہیں کی کہ دائیں بائیں گولیاں آ رہی ہیں۔ یہ ہیں ایمان والوں اور حقیقی ایمان والوں کے نظارے۔

کئی خطوط مجھے اس مضمون کے بھی آ رہے ہیں جو سورة احزاب میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مِنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ رِجَالٌ صَدَقُوۡا مَا عَاہَدُوا اللّٰہَ عَلَیۡہِ ۚ فَمِنۡہُمۡ مَّنۡ قَضٰی نَحۡبَہٗ وَ مِنۡہُمۡ مَّنۡ یَّنۡتَظِرُ ۫ۖ وَ مَا بَدَّلُوۡا تَبۡدِیۡلًا  (الاحزاب: 24) کہ مومنوں میں ایسے مرد ہیں جنہوں نے جس بات پر اللہ سے عہد کیا تھا اسے سچا کر دکھایا۔ پس ان میں سے وہ بھی ہیں جس نے اپنی منت کو پورا کر دیا اور ان میں سے وہ بھی ہیں جو ابھی انتظار کر رہا ہے۔ اور انہوں نے ہرگز اپنے طرزِ عمل میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔ اور وَ مِنۡہُمۡ مَّنۡ یَّنۡتَظِرُ لکھ کر یہ لوگ پھر اپنے عہدِ وفا اور قربانی کا یقین دلا رہے ہیں۔ پس دشمن تو سمجھتا تھا کہ اس عمل سے احمدیوں کو کمزور کر دے گا، جماعت کی طاقت کو توڑ دے گا۔ شہروں کے رہنے والے شاید اتنا ایمان نہیں رکھتے۔ لیکن انہیں کیا پتہ ہے کہ یہ شہروں کے رہنے والے وہ لوگ ہیں جن میں مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایمان کی حرارت بھر دی ہے۔ جو دین کی خاطر بڑی سے بڑی قربانی کرنے کے لئے ہر دم تیار ہیں۔ بے شک دنیا کے دھندوں میں بھی لگے ہوئے ہیں لیکن صرف دنیا کے دھندے مقصودنہیں ہیں۔ جب بھی دین کے لئے بلایا جاتا ہے تو لبیک کہتے ہوئے آتے ہیں۔ بلکہ جیسا کہ میں نے کہا یہ درندگی کے بجائے انسانیت کے علمبردار ہیں۔ آخر یہ احمدی بھی تو اسی قوم میں سے آئے ہیں۔ وہی قبیلے ہیں، وہی برادریاں ہیں جہاں سے وہ لوگ آ رہے ہیں جومذہب کے نام پر درندگی اور سفّاکی دکھاتے ہیں۔ لیکن مسیح موعود کے ماننے کے بعد یہی لوگ ہیں جو مذہب کی خاطر قربانیاں تو دیتے ہیں لیکن خدا تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق۔

میں نے ذکر کیا تھا کہ ان واقعات کا پریس نے اور پاکستان پریس نے بھی ذکر کیا۔ اللہ تعالیٰ انہیں بھی جزا دے اور ہمیشہ حق کہنے کی توفیق دیتا رہے۔ اب اس حق کہنے کے بعد کہیں مولویوں کے ردِّ عمل سے ڈر کر پھر پرانی ڈگر پر نہ چل پڑیں۔ اسی طرح دنیا کے مختلف ممالک کے پریس ہیں، حکومتیں ہیں ان کی طرف سے بیان آئے، statementsآئیں، ہمدردی کے پیغام آئے اور مختلف حکومتوں کے نمائندے، یہاں کی حکومت کے نمائندے نے بھی انگلستان کے ممبران پارلیمنٹ نے بھی ہمدردی اور تعزیت کے پیغام بھیجے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو جزا دے۔

اور تو اور ختمِ نبوت کی طرف سے بھی اخبار میں خبر آئی تھی کہ بڑا غلط کام ہوا ہے اور یہ درندگی ہے اور یہ نہیں ہونی چاہئے تھی۔ تو پھر وہ جو بینر ہیں جو پوسٹر ہیں جو دیواروں پر لگے ہوئے ہیں جو سڑکوں پر لگے ہوئے ہیں حتیٰ کے ہائی کورٹ کے ججوں کے نیم پلیٹس (Name Plates)کے نیچے لگے ہوئے ہیں، جس میں احمدیوں کے خلاف گندی زبان استعمال کی گئی ہے انہیں مرتد کہا گیا ہے، انہیں واجب القتل کہا گیا ہے، وہ کس کے لگائے ہوئے ہیں؟ تم لوگ ہی تو ہو اس دنیا کو، ان لوگوں کو، بے عقلوں کو جوش دلانے والے، اور اب جب یہ دیکھا کہ دنیا کا رُخ اس طرف آ گیا ہے تو ہم بھی ہیں تو سہی اس اس ظلم میں شامل، پھردنیا کی نظر میں ہم اس ظلم میں شامل ہونے سے بچ جائیں تو یہ بیان دینے لگ گئے ہیں۔ تو احمدیوں کے خلاف یہ بغض اور کینہ جو ان نام نہاد علماء کی طرف سے دکھایا جا رہا ہے۔ یہی اصل وجہ ہے جو یہ ساری کارروائی ہوئی ہے۔ پاکستان کے چیف جسٹس صاحب ہیں۔ ذرا ذرا سی بات پر خودنوٹس لیتے ہیں۔ اخباروں میں یہ بات آجاتی ہے۔ تو یہ جو اتنا بڑا ظلم ہوا ہے اور یہ جو بینر لگے ہوئے ہیں اور جو پوسٹر لگے ہوئے ہیں اس پر ان کو خیال نہیں آیا کہ خود کوئی نوٹس لیں اور یہ علماء جو لوگوں کو اُکسا رہے ہیں، ان کے خلاف کارروائی کریں۔ کیا انصاف قائم کرنے کے معیار صرف اپنی پسند پر منحصر ہیں؟

جیسا کہ میں نے کہا، ہمارا رونا اور ہمارے دکھ تو خدا تعالیٰ کے سامنے ہیں۔ ان سے تو ہم نے کچھ نہیں لینا۔ لیکن صرف ان کے معیاروں کی طرف میں نشاندہی کر رہا ہوں۔ ہمارا تو ہر ابتلاء کے بعد اللہ تعالیٰ کی خاطر قربانیوں کا اور اس کی رضا کے حصول کا ادراک اور بڑھتا ہے۔ بندے نہ تو ہمارا کچھ بگاڑ سکتے ہیں اور نہ ہی ہمیں یہ کچھ دے سکتے ہیں۔ بے شک دنیا میں آج کل دہشتگردی بہت زیادہ ہے۔ پاکستان میں اس کی انتہا ہوئی ہوئی ہے۔ لیکن احمدیوں کے خلاف دہشتگردی کو قانون کا تحفظ حاصل ہے۔ اس لئے جو ان کے دل میں آتا ہے وہ کرتے ہیں۔ مونگ رسول کا واقعہ ہوا، وہاں بھی دہشت گردی ہوئی، وہاں کے جو دہشت گرد تھے پکڑے گئے تھے ان کے ساتھ کیا سلوک ہوا؟ کیا ان کو سزا دی گئی؟ وہ پاکستانی گلیوں میں آج بھی آزادی کے ساتھ پھر رہے ہیں۔ پس ان سے تو کوئی احمدی کسی قسم کی کوئی توقع نہیں کر سکتا اور نہ کرتا ہے۔ ہمارا مولیٰ تو ہمارا اللہ ہے اور اس پر ہم توکل کرتے ہیں۔ وہی ہمارا معین و مددگار ہے اور انشاء اللہ تعالیٰ وہ ہمیشہ ہماری مدد کرتا رہے گا اور اپنی حفاظت کے حصار میں ہمیں رکھے گا۔ ان لوگوں سے آئندہ بھی کسی قسم کی خیر کی کوئی امیدنہیں اور نہ کبھی ہم رکھیں گے۔ اس لئے احمدیوں کو ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ اور دعاوٴں کی بھی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَجْعَلُکَ فِیْ نُحُوْرِھِمْ وَنَعُوْذُ بِکَ مِنْ شُرُوْرِھِمْ۔ کی دعا بہت پڑھیں۔ رَبِّ کُلُّ شَیْءٍ خَادِمُکَ رَبِّ فَاحْفَظْنِیْ وَانْصُرْنِیْ وَارْحَمْنِی کی دعا ضرور پڑھیں۔ اس کے علاوہ بھی بہت دعائیں کریں۔ ثباتِ قدم کے لئے دعائیں کریں۔ ان لوگوں کو کیفرِ کردار تک پہنچانے کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور گڑگڑائیں، روئیں۔ ان دو مساجد میں جو ہمارے زخمی ہوئے ہیں ان کے لئے بھی دعائیں کریں۔ ان زخمیوں میں سے بھی آج ایک اور ڈاکٹر عمران صاحب تھے ان کی شہادت ہو گئی ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ اللہ تعالیٰ باقی جو زخمی ہیں ان کو شفا عطا فرمائے اور ہر احمدی کو ہر شر سے ہمیشہ بچائے۔ احمدیوں نے پاکستان کے بنانے میں کردار ادا کیا تھا اور ان لوگوں سے بڑھ کر کیا تھا، جو آج دعویدار ہیں، جو آج پاکستان کے ٹھیکیدار بنے ہوئے ہیں اس لئے ملک کی بقا کے لئے بھی دعا کرنا ہمارا فرض ہے۔ اور ان لوگوں کے شر سے بچنے کے لئے اور ان کے عبرتناک انجام کے لئے بھی دعا کریں جو ملک میں افراتفری اور فساد پھیلا رہے ہیں، جنہوں نے ملک کا سکون برباد کیا ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو ہر شر سے محفوظ رکھے۔

یہ شہید۔ قطب ستارے

ایک بات اور کہنا چاہوں گا۔ ایک احمدی نے بڑے جذباتی انداز میں ایک خط لکھا لیکن اس سوچ پہ مجھے بڑی حیرت ہوئی، کیونکہ پڑھے لکھے بھی ہیں جماعتی خدمات بھی کرنے والے ہیں۔ ایک فقرہ یہ تھا کہ ’’دشمن نے کیسے کیسے ہیرے مٹی میں رول دئیے‘‘۔ یہ بالکل غلط ہے۔ یہ ہیرے مٹی میں رولے نہیں گئے۔ ہاں دشمن نے مٹی میں رولنے کی ایک مذموم کوشش کی۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کی اہمیت پہلے سے بھی بڑھا دی اور ان کو اٹھا کر اپنے سینے سے لگا لیا۔ ان کو دائمی زندگی سے نوازا۔ اس ایک ایک ہیرے نے اپنے پیچھے رہنے والے ہیروں کو مزید صیقل کر دیا۔ ان جانے والے ہیروں کو اللہ تعالیٰ نے ایسے چمکدار ستاروں کی صورت میں آسمانِ اسلام اور احمدیت پر سجا دیا جس نے نئی کہکشائیں ترتیب دے دی ہیں اور ان کہکشاوٴں نے ہمارے لئے نئے راستے متعین کر دئیے۔ ان میں سے ہر ہر ستارہ جب اس سے علیحدہ ہو کے بھی ہمارے لئے قطب ستارہ بن جاتا ہے۔ پس ہمارا کوئی بھی دشمن کبھی بھی اپنی مذموم اور قبیح کوشش میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔ اور ہر شہادت بڑے بڑے پھل پیدا کرتی ہے، بڑے بڑے مقام حاصل کرتی ہے۔

اللہ تعالیٰ ان سب شہیدوں کے درجات بلند سے بلند تر کرتا چلا جائے، اور ہم بھی ہمیشہ استقامت کے ساتھ دین کی خاطر قربانیاں دیتے چلے جانے والوں میں سے ہوں۔ شہداء کا ذکر بھی کرنا چاہتا تھا لیکن یہ تو ایک لمبی بات ہو جائے گی۔ آئندہ انشاء اللہ مختصر ذکر کروں گا کیونکہ تقریباً 85شہداء ہیں مختصر تعارف بھی کروایا جائے تو کافی وقت لگتا ہے۔ جمعہ کے بعد انشاء اللہ تعالیٰ ان کی نمازِ جنازہ بھی پڑھاوٴں گا۔

اسی دوران گزشتہ دنوں اس واقعہ کے دو تین دن کے بعدنارووال میں ہمارے ایک احمدی کو شہید کر دیا گیا۔ ان کا نام نعمت اللہ صاحب تھا اور اپنے گھر میں سوئے ہوئے تھے۔ صحن میں آ کر چھریوں کا وار کر کے ان کو شہید کیا۔ ان کا بڑا بیٹا بچانے کے لئے آیا تو اس کو بھی زخمی کر دیا۔ وہ ہسپتال میں ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کو بھی شفا عطا فرمائے اور مرحوم کے درجات بلند کرے۔ ان کی اہلیہ اور تین بیٹیاں ہیں اور تین بیٹے ہیں۔ ان کے دوسرے عزیزوں میں سے بھی لاہور میں دو شہید ہوئے ہیں۔ اور قاتل کا تعلق تحفظِ ختم نبوت سے ہے۔ ایک طرف تحفظِ ختمِ نبوت والے اعلان کر رہے ہیں کہ بہت برا ہوا۔ دوسری طرف اپنے لوگوں کو اُکسا رہے ہیں کہ جاوٴ اور احمدیوں کو شہید کرو اور جنت کے وارث بن جاوٴ۔ وہ پکڑا گیا ہے اور اس نے اقرار کیا ہے کہ سانحہ لاہور کے پسِ منظر میں مجھے بھی کیونکہ ہمارے علماء نے یہی کہا ہے اس لئے میں شہید کرنے کے اس نیک کام کے لئے ثواب حاصل کرنے کے لئے آیا تھا۔ اور پھر پکڑے جانے کے بعد یہ بھی کہہ دیا کہ یہاں ہم کسی بھی احمدی کو زندہ نہیں چھوڑیں گے۔ تو یہ تو ان کے حال ہیں۔ پھر یہ کہتے ہیں کہ ہمیں دنیا میں بدنام کیا جاتا ہے۔ دنیا میں توخود تم اپنے آپ کو بدنام کر رہے ہو۔ اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو ہر شر سے محفوظ رکھے۔ بہت دعائیں کریں اور جیسا کہ میں نے کہا کہ مریضوں کے لئے بھی بہت دعائیں کریں۔ اللہ تعالیٰ انہیں شفائے کاملہ و عاجلہ عطافرمائے۔

(الفضل انٹرنیشنل جلد 17شمارہ 26 مورخہ 25 جون تا یکم جولائی 2010 صفحہ 5 تا 9)


  • خطبہ کا مکمل متن
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 4؍ جون 2010ء شہ سرخیاں

    سانحہ لاہور کے بعد خطوط کے آنے کا ذکر ، حضورایدہ اللہ کا فون کر کے ہر شہید کے گھر تعزیت اور لواحقین کا جواب کہ ہم اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی ہیں، شہداء اور زخمیوں کا صبر اور دہشت گرد پکڑنے کاذکر، جزع فزع کی بجائے صبر اور تحمل کی تلقین، حملہ کے مقاصد صرف جانی نقصان کرنا نہیں تھا بلکہ اور بھی تھا مگر سب کو پتہ چل گیا ہے کہ احمدی کیا چیز ہیں ایک امام کی آواز پر اٹھنے بیٹھنے والے لوگ ہیں، صبر کے نمونے دنیا نے دیکھے ہیں، شہداء کے واقعات کہ کس طرح صبر اور تحمل کے ساتھ قربانی دی ہے اور ورثاء کی تحریرات کا ذکر، احمدیوں کو جب بھی دین کے لئے بلایا جاتا ہے تو لبیک کہتے چلے آتے ہیں، مختلف ممالک ممبران پارلیمنٹ کی طرف سے تعزیت کے پیغامات کا ذکر، احمدیوں کے خلاف دہشت گردوں کو تحفظ حاصل ہے، یہ شہید قطب ستارے ہیں جنہوں نے آسمان احمدیت پر نئی کہکشائیں ترتیب دی ہیں، نارووال کے نعمت اللہ صاحب کی شہادت اور بیٹے کے زخمی ہونا۔

    خطبہ جمعہ فرمودہ 4جون 2010ء بمطابق 4 احسان 1389 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن (برطانیہ)

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور