شہداء سانحہ لاہور کے مختصر کوائف اور ان کے واقعات کا ذکر

خطبہ جمعہ 18؍ جون 2010ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


تشہد و تعوذ اور سورة فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

شہدائے لاہور کا ذکر جاری ہے۔ اسی سلسلے میں کچھ اور شہداء کا ذکر کرتا ہوں۔

مکرم عبدالرشید ملک صاحب

مکرم عبدالرشید ملک صاحب شہید ابن مکرم عبدالحمید ملک صاحب۔ شہید مرحوم لالہ موسیٰ کے رہنے والے تھے۔ ان کے دادا حضرت مولوی مہر دین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے 313 صحابہ میں شامل تھے، ۔ شہید کی عمر شہادت کے وقت 64سال تھی۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے۔ مجلس انصار اللہ کے فعال رکن تھے۔ وصایا و تعلیم القرآن کے سیکرٹری تھے۔ مسجد دارالذکر میں ان کی شہادت ہوئی ہے۔ عموماً کڑک ہاوٴس میں نمازِ جمعہ ادا کرتے تھے اور کافی عرصہ بعد دارالذکر گئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے شہادت کا رتبہ دینا تھا۔ جمعہ پر جانے سے قبل اہلیہ کو کہا کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے کہ کبھی کبھی بڑی مسجد میں جمعہ پڑھنا چاہئے اس لئے میں آج دارالذکر جا رہا ہوں۔ مین ہال میں کرسیوں پر بیٹھے ہوئے تھے۔ گھر فون کیا کہ میرے پاوٴں میں گولی لگی ہے۔ اہلیہ کہتی ہیں ان کی بات کے دوران گولیوں کی آوازیں آتی رہیں۔ اپنا فون تو تھا نہیں، کسی کے فون سے بات کر رہے تھے۔ بہر حال پھررابطہ ختم ہو گیا۔ اہلیہ کا بھی بڑا صبر اور حوصلہ ہے۔ بیان کرتی ہیں کہ ان کی شہادت پر اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی ہیں۔ اللہ تعالیٰ پوری جماعت کا حامی و ناصر ہو اور بہت ترقیات عطا فرمائے۔ یہ بھی لجنہ کی کارکن ہیں۔ کہتی ہیں کہ بطور باپ بہت شفیق انسان تھے۔ تین بیٹیاں ہیں اور کبھی اظہار نہیں کیا کہ بیٹا نہیں ہے۔ بیٹیوں پر بہت توجہ دی اور دینی اور دنیاوی تعلیم میں ہمیشہ آگے رکھا اور تینوں بچیوں سے برابری کا سلوک کیا۔ ایک نو مبائع بچی جو گھر کا کام کرنے کے لئے آتی تھی، کو بھی تبلیغ کرتے رہے۔ اس کو پالا، اس کی بیعت کروائی اور اس کی شادی کے بھی انتظامات کئے تھے۔ اور بڑی پیار کرنے والی طبیعت تھی۔ دعا گو، سادہ، متقی، ملنساراور اطاعت گزار شخص تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔

مکرم محمد رشید ہاشمی صاحب

مکرم محمد رشید ہاشمی صاحب شہید ابن مکرم منیر شاہ ہاشمی صاحب۔ شہید مکرم شاہ دین ہاشمی صاحب رضی اللہ عنہ صحابی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پڑپوتے تھے اور شہید کے والد مکرم محمد منیر شاہ ہاشمی صاحب ایبٹ آباد میں جنرل پوسٹ ماسٹر تھے۔ 1974ء کے فسادات میں آپ کے گھر کو مخالفین نے جلا دیا۔ ریڈیو پاکستان پشاور سٹوڈیو میں ملازمت کرتے تھے، خبریں پڑھتے تھے۔ نوائے وقت اخبار میں کالم نویسی بھی کرتے تھے۔ شہادت کے وقت ان کی عمر 78سال تھی۔ مجلس انصار اللہ کے بڑے فعال کارکن تھے۔ 16سال تک صدر حلقہ بھی رہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے۔ اور آپ کی شہادت بھی دارالذکر لاہور میں ہوئی ہے۔ تین گولیاں آپ کو لگی تھیں۔ بہت ہی پیار کرنے والے تھے، جماعت کا درد رکھنے والے تھے۔ خدمتِ دین کا شوق رہتا تھا۔ اور بیوی بچوں کو بھی یہ تلقین کرتے تھے۔ صدر شمالی چھاوٴنی کو جمعہ کے روز فون کیا کہ میرے پاس جماعت کی ایک امانت ہے۔ یہ رقم قومی بچت سے پرافٹ (Profit) ملا تھا وہ آ کر لیں جائیں۔ شہادت کے وقت بھی یہ رقم ان کی جیب میں موجود تھی اور گولی لگنے سے اس رقم میں (پیسوں میں بھی) نوٹوں پہ بھی سوراخ ہوئے ہوئے تھے۔ ہر کام میں وقت کی پابندی کابہت خیال تھا، لاہور میں وہاں کے ایک صدر صاحب نماز سینٹربنانا چاہتے تھے لیکن نقشہ کی اجازت نہیں ملتی تھی۔ انہوں نے راتوں رات خود ہی پنسل سے نقشہ بنایا اور اس کی منظوری لے لی۔ غیر احمدی بھی ان کی بہت عزت کرتے تھے۔ سارے محلے والے تعزیت کے لئے گھر آئے۔ بہت بہادر تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے۔ اپنے حلقے کو جماعتی طور پر بڑا اونچا رکھا ہوا تھا۔ ان کے بارے میں عطاء القادر طاہر صاحب کا ایک خط مجھے ملا۔ وہ کہتے ہیں کہ انتہائی مہمان نواز، ملنسار، منکسر المزاج تھے۔ تلاوت اور نظم پڑھتے تھے۔ کمزوری صحت کے باعث چلنے پھرنے میں دشواری آتی تھی لیکن صدارت سے معذوری ظاہر کرنے کے باجود جماعتی کاموں کے لئے ہر وقت تیار تھے۔ خلافت سے آپ کو والہانہ عشق تھا اور ہر تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔

مکرم مظفر احمد صاحب

مکرم مظفر احمد صاحب شہید ابن مکرم مولانا ابراہیم صاحب قادیانی درویش مرحوم۔ شہید مرحوم کے خسر حضرت میاں علم دین صاحب رضی اللہ عنہ صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام تھے اور ان کے والد سابق ناظر اصلاح و ارشاد و اشاعت قادیان کو حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے صاحبزادوں کے استاد ہونے کا شرف حاصل ہوا۔ شہید مرحوم اپنے حلقے کے امام الصلوة تھے۔ لمبے عرصے تک مجلس دھرم پورہ کے سیکرٹری مال رہے۔ شہادت کے وقت آپ کی عمر 73سال تھی اور ان کی شہادت بھی دارالذکر میں ہوئی۔ باقاعدہ نمازیں دارالذکر میں ادا کرتے تھے۔ بارہ بجے جمعہ کی نماز ادا کرنے کے لئے گھر سے نکل گئے۔ بیٹا نمازِ جمعہ کے لیے مسجد بیت النور ماڈل ٹاوٴن گیا۔ چھ بجے معلوم ہوا کہ مظفر صاحب شہید ہو گئے ہیں۔ وہاں مردہ خانے میں ان کی نعش ملی۔ پانچ گولیاں ان کو لگی ہوئی تھیں۔ زخمی ہونے کی حالت میں ان کو دیکھنے والے جو ان کے قریبی تھی انہوں نے بتایا کہ خود بھی درود شریف پڑھ رہے تھے اور دوسروں کو بھی یہی تلقین کرتے تھے کہ درود پڑھو اور استغفار کرو۔ ان کی اہلیہ بیان کرتی ہیں کہ مظفر صاحب بچپن سے ہی نمازِ تہجد ادا کرنے کے عادی تھے۔ کبھی تہجدنہیں چھوڑی۔ بچوں کو بھی یہ تلقین کرتے تھے۔ اونچی آواز میں تلاوت کرتے تھے۔ بلکہ پانچوں وقت نماز کے بعد تلاوت کیا کرتے تھے۔ کچھ دن قبل روزے بھی رکھے۔ تھوڑے تھوڑے دنوں بعد روزے رکھتے رہتے تھے۔ ہر ایک کو یہی کہتے تھے کہ میرے لئے دعا کرو کہ میرا انجام بخیر ہو۔ گھر کی سب ذمہ داریاں پوری کرتے تھے۔ نہ کبھی جھوٹ بولانہ جھوٹ برداشت کر سکتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو شہادت کا رتبہ دیا اور جس چیز کے لئے دعا کے لئے کہا کرتے تھے اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ان کا انجام بھی قابلِ رشک کیا ہے۔ ان کی ہمشیرہ قادیان میں ہیں جو ناظر صاحب اعلیٰ کی اہلیہ ہیں۔ انہوں نے بھی لکھا کہ داماد سے دوستوں کی طرح تعلق تھا۔ بہنوں سے بھی بڑا حسنِ سلوک کرتے تھے۔ بڑی بیٹی نے بتایا کہ میرے ماموں کی بیٹی وہاں ربوہ میں بیاہی ہوئی ہیں۔ اس کے گھر گئے تو دو مرتبہ ایسا ہوا کہ ایم ٹی اے پر خلافت جوبلی والا عہد دہرایا جا رہا تھا تو کھڑے ہو کر بلند آواز سے اس عہد کو دہرانے لگے۔ جس طرح کمرے میں اور کوئی موجودنہیں ہے اور صرف انہی کو کہا جا رہا ہے کہ عہد دہرائیں۔ 1980ء میں ان کو حج کرنے کی بھی سعادت نصیب ہوئی۔

مکرم میاں مبشر احمد صاحب

مکرم میاں مبشر احمد صاحب شہید ابن مکرم میاں برکت علی صاحب۔ شہید مرحوم کے والد میاں برکت علی صاحب نے 1928ء میں بیعت کی تھی اور پھر تحریکِ جدید کے پانچ ہزاری مجاہدین میں شامل ہوئے۔ شہید مرحوم حضرت میاں نورالدین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان سے ہیں۔ کھاریاں ضلع گجرات کے رہنے والے تھے۔ پھر یہ 2008ء میں لاہور شفٹ ہو گئے۔ پہلے یہ لوگ وزیرآباد رہتے تھے۔ ان کا کوکا کولا کا ڈسٹری بیوشن کا کاروبار تھا۔ 1974ء میں کاروبار ختم ہو گیا۔ لوگوں نے تمام سامان لوٹ لیا۔ شدید مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ ان حالات میں ایک دفعہ جماعتی ڈاک مرکز دے کر ربوہ سے واپس وزیر آباد جا رہے تھے تو چنیوٹ پہنچنے پر ان کو گاڑی سے اتارنے کی کوشش کی گئی کہ مرزائی ہے، اسے مارو۔ لیکن بہر حال ڈرائیورنے گاڑی چلا دی اور وہاں تو کچھ نہیں ہوا۔ پھر گوجرانوالہ پہنچنے پر بھی جلوس نے آپ پر حملہ کیا۔ بہر حال اس طرح بچتے بچاتے آدھی رات کو اپنے گھر پہنچے۔ ان دنوں جوحالات تھے بڑے خوفناک حالات تھے۔ اور مرکز سے رابطے کے لئے جو لوگ آتے تھے وہ بڑی قربانی دے کر آتے تھے۔ بہر حال قربانیوں کے لئے تویہ ہر دم تیار تھے۔ اور پھر دوبارہ انہوں نے 1998ء میں ڈسٹری بیوشن کا کام شروع کیا۔ کوکا کولا کے ڈسٹری بیوٹر بنے۔ جب بوتلوں کا کام کرتے تھے تو کئی پارٹیاں آ کر یہ لالچ دیتی تھیں کہ آپ کی ایمانداری کی بہت شہرت ہے۔ جب آپ بوتلیں تقسیم کرتے ہیں تو آپ کی کوئی بوتل جعلی نہیں ہوتی۔ بالکل خالص چیز ہوتی ہے۔ پاکستان میں تو جعلی بوتلوں کا، کسی بھی چیز کا جعلی کاروبار بہت زیادہ ہے۔ ہر چیز میں ملاوٹ ہوتی ہے۔ تو انہوں نے ان کو مشورہ دیا کہ آپ کی شہرت تو ہے ہی، آپ اپنے جو کریٹ بیچتے ہیں ان میں دو جعلی بوتلیں ڈال دیا کریں۔ اس سے آپ کا منافع جو ہے کئی گنا بڑھ جائے گا اور کروڑ پتی ہو جائیں گے۔ لیکن آپ نے کبھی ان کی بات نہیں مانی اور نہ کبھی ایسے سوچا۔ جو مشورہ دینے آتے تھے آپ ان لوگوں کی بڑی مہمان نوازی کرتے تھے اور اس وقت بڑے آرام سے کہہ دیا کرتے تھے کہ آپ غلط جگہ پر آ گئے ہیں۔ چھ سال امیر جماعت تحصیل وزیر آباد بھی رہے۔ آپ کے ایک بیٹے قمر احمد صاحب مربی سلسلہ آج کل بینن میں ہیں۔ شہادت کے وقت ان کی عمر 65سال تھی۔ وصیت کی ہوئی تھی اور آپ کی شہادت بھی دارالذکر مسجد میں ہوئی۔ جب حملہ ہوا ہے تو اپنی جگہ پر لیٹے رہے اور حملہ کے بعد محراب کے پاس گرینیڈ گرا تو زخمی ہو گئے۔ گردن کا بائیں طرف کا حصہ گرینیڈ پھٹنے سے اڑ گیا۔ اور کافی بلیڈنگ ہوئی اور بھانجے کو فون کیا کہ بیٹا میں کافی زخمی ہو گیا ہوں۔ پانچ چھ گولیاں میرے جسم میں بھی لگی ہیں۔ انتہائی نرم دل، غریب پرور اور توکل کرنے والے انسان تھے۔ ہر ایک سے شفقت اور محبت کا سلوک کرتے تھے۔ دعا گو انسان تھے۔ کسی کی تکلیف کا پتہ چلتا تو فوری دعا شروع کر دیتے۔ ان کی اہلیہ کہتی ہیں کہ میری رفاقت ان سے 39سال رہی۔ کبھی انہوں نے مجھے اُف نہیں کہا۔ اور نہ ہی بچوں کو کچھ کہا میں اگر کچھ کہتی تھی تو یہی کہتے تھے کہ دعا کیا کرو، میں بھی ان کے لئے دعا کرتا ہوں۔ بچوں کے لئے بہت محبت تھی۔ گھر میں کسی قسم کی غیبت کو ناپسند کرتے اور منع کر دیتے۔ اور کوئی بات شروع کرتا تو فوراً روک دیتے۔ گوجرانوالہ میں کرائے کے مکان میں رہتے تھے۔ وہاں کی مالکن جو غیر احمدی تھی وہ شہید مرحوم کے بارے میں کہتی تھیں کہ میری یہ سعادت ہے کہ میاں مبشر صاحب میرے کرایہ دار ہیں اور میں یہ دعا کرتی ہوں کہ اللہ تعالیٰ میرے بچوں کو بھی ان جیسا انسان بنائے اور بھائی جان آپ بھی میرے بچوں کی تربیت کریں۔ کاروبار میں جب کھانے کا وقت آتا تھا تواپنے کام کرنے والے جو ملازمین تھے، ان کے کھانے وانے کا بڑا خیال رکھتے تھے۔ تبلیغ بھی کرتے رہتے تھے۔ اہلیہ کہتی ہیں کہ اکثر یہ فقرہ کہا کرتے تھے کہ میں تو نالائق انسان ہوں اللہ تعالیٰ مجھے 33 نمبر دے کر ہی پاس کر دے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے تو اپنے فضل سے سو فیصدنمبر دے کر شہادت کا رتبہ دے دیا۔

مکرم فدا حسین صاحب

فدا حسین صاحب شہید ابن مکرم بہادر خان صاحب۔ ان کا تعلق کھاریاں ضلع گجرات سے ہے۔ وہیں پیدا ہوئے۔ قریباً چار سال کی عمر میں ہی والدین ایک ماہ کے وقفہ سے وفات پا گئے۔ یہ میاں مبشر احمد صاحب جن کا پہلے ذکر آیا ہے ان کے کزن بھی تھے۔ اور والدین کی بچپن میں وفات کی وجہ سے میاں مبشر احمد صاحب کے زیرِ کفالت ہی رہے۔ غیر شادی شدہ تھے۔ ان کی عمر شہادت کے وقت 69 سال تھی اور انہوں نے دارالذکر میں شہادت کا رتبہ حاصل کیا۔ یہ تھوڑے سے معذور تھے، جمعہ کے روز مسجد کے صحن میں معذوری کے پیشِ نظر کرسیوں پر بیٹھتے تھے، لیکن سانحہ کے روز اندر ہال میں کرسی پر بیٹھے ہوئے تھے کہ دہشتگردنے جب گولیوں کی بوچھاڑ کی تو آپ کو 35کے قریب گولیاں لگیں اور موقع پر شہید ہو گئے۔ اللہ درجات بلند فرمائے۔

مکرم خاور ایوب صاحب

خاور ایوب صاحب شہید ابن مکرم محمد ایوب خان صاحب۔ شہید مرحوم کا خاندان گلگت کا رہنے والا تھا۔ تاہم ان کی پیدائش بھیرہ ضلع سرگودھا میں ہوئی۔ دسویں تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد لاہور آ گئے۔ 1978ء میں واپڈا میں ملازمت شروع کر دی۔ اس وقت اکاوٴنٹ اور بجٹ آفیسر کی حیثیت سے کام کر رہے تھے۔ 1984ء میں بیعت کر کے احمدیت میں شمولیت اختیار کی۔ شہادت کے وقت ان کی عمر 50سال تھی۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے۔ سیکرٹری وقفِ نو اور محاسب کی حیثیت سے خدمات بجا لا رہے تھے۔ سابق قائد مجلس انصار اللہ بھی تھے۔ دارالذکر میں ان کی شہادت ہوئی۔ ایک عرصے سے دارالذکر میں نمازِ جمعہ ادا کیا کرتے تھے۔ سانحہ کے روز بھی ملازمت سے جمعہ پڑھنے کے لئے گئے اور مین ہال میں بیٹھے تھے۔ دو گولیاں لگیں ایک دل کے قریب، اور دوسری گھٹنے میں۔ قریباً سوا دو بجے گھر فون کیا کہ دہشت گرد آ گئے ہیں، ان کے پاس اسلحہ ہے، آپ دعا کریں۔ پھر اہلیہ رابطہ کرتی رہیں۔ تیسری دفعہ رابطہ ہوا تو یہی کہا کہ بس سب دعا کرو۔ اس کے بعد پھر شہید ہو گئے۔ اہلیہ کہتی ہیں بڑے اچھے انسان تھے۔ باجماعت نماز ادا کرتے تھے۔ لوگوں نے ان کے متعلق یہی رائے دی ہے کہ بڑے اچھے انسان تھے اور آپ میں بڑی انتظامی صلاحیت تھی۔ بچوں کی تربیت بھی خوب اچھی طرح کی۔ حقوق العباد ادا کرنے والے بھی تھے۔ خلافت کے وفا دار اور شیدائی تھے۔ خاور ایوب صاحب کے بارے میں الیاس خان صاحب نے لکھا ہے کہ 1980ء میں خاور ایوب صاحب کو بی اے کے بعد واپڈا میں ملازمت مل گئی۔ اور یہ عزیز داری کی بنیاد پر بھیرہ ضلع سرگودھا سے ہمارے گھر رحمان پورہ آ گئے۔ ہمارے گھر کا احمدی ماحول تھا۔ الیاس خان صاحب کہتے ہیں ہماری تربیت احمدی تعلیمات کے مطابق تھی تو خاور ایوب صاحب بھی ہمارے ماحول کا ایک حصہ بن چکے تھے۔ مگر احمدی نہیں ہوئے تھے۔ البتہ احمدیت کی تعلیم سن کے روایتی اعتراضات جو مولوی کرتے ہیں وہ کرتے رہتے تھے۔ یہاں تک کہ ہم ان کو چھیڑا کرتے تھے کہ سوال کرو۔ کیونکہ شہید مرحوم بہت سوال کیا کرتے تھے۔ ایک روز ایک ہمارے مبلغ سلسلہ برکت اللہ صاحب مرحوم نے مجلسِ سوال و جواب کا انعقاد کیا۔ خاور صاحب سوال کی کثرت کی وجہ سے مشہور تھے اس لئے مربی صاحب نے شہید مرحوم کو مخاطب کر کے فرمایا خاور صاحب سوال کریں۔ تو انہوں نے کہا اب میرا کوئی سوال نہیں ہے۔ اور پھر کچھ عرصے بعد بیعت کر لی۔ ان کے عزیز کہتے ہیں کہ ہم ان کو کہتے تھے کہ سوچ لو۔ لیکن انہوں نے ہمارا یہ کہہ کر منہ بند کرا دیاکہ اگر تم میری بیعت نہیں کرواوٴ گے تو میں حضور کو لکھوں گا کہ یہ میری بیعت نہیں کرواتے۔ اور پھر بیعت کرنے کے بعدنیکی اور روحانیت میں اللہ کے فضل سے بڑی ترقی کی۔

مکرم شیخ محمد یونس صاحب

مکرم شیخ محمد یونس صاحب شہید ابن مکرم شیخ جمیل احمد صاحب۔ شیخ یونس صاحب مرحوم 1947ء میں امروہہ (انڈیا) میں پیدا ہوئے تھے۔ 1950ء میں قادیان اور پھر 1955ء میں ربوہ میں آ گئے۔ ان کے والد شیخ جمیل احمد صاحب حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں بیعت کر کے جماعت میں شامل ہوئے تھے اور درویشانِ قادیان میں سے تھے۔ شہید مرحوم نے میٹرک ربوہ سے کیا۔ اس کے بعد صدر انجمن احمدیہ میں کارکن رہے۔ 2007ء میں ریٹائرمنٹ ہو گئی۔ پھر یہ اپنے بیٹے کے پاس لاہور چلے گئے اور بطور سیکرٹری اصلاح و ارشاد اور دعوت الی اللہ خدمت سرانجام دے رہے تھے۔ 63سال ان کی عمر تھی۔ بیت النور ماڈل ٹاوٴن میں ان کی شہادت ہوئی۔ اللہ کے فضل سے موصی تھے۔ اور ان کا معمول یہی تھا کہ جمعہ کے لئے جلدی مسجد میں جاتے تھے اور اس روز بھی جمعہ کے دن کے لئے مسجد بیت النور میں گیارہ بجے پہنچ گئے اور پہلی صف میں بیٹھے تھے۔ بیٹا بھی ساتھ تھا۔ لیکن وہ دوسرے ہال میں تھا۔ پہلی صف میں سب سے پہلے زخمی ہو کر گرتے ہوئے دیکھے گئے۔ ان کے سر اور سینے میں گولیاں لگی تھیں۔ گرینیڈ پھٹنے کی وجہ سے پسلیاں بھی زخمی ہو گئی تھیں جس کی وجہ سے شہادت ہوئی۔ شیخ صاحب نے ایک خواب میں دیکھا کہ ربوہ میں ایک بہت خوبصورت سڑک ہے یا خوبصورت قالین بچھے ہوئے ہیں، بڑی بڑی کرسیوں پر خلفاء تشریف فرما ہیں اور سب سے اونچی کرسی پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام تشریف فرما ہیں اور کہتے ہیں میں بھی(یعنی شیخ صاحب خود) ساتھ گھٹنے جوڑ کر بیٹھا ہوا ہوں۔ اہلِ خانہ نے بتایا کہ خلافت کے شیدائی تھے۔ پنجوقتہ نماز کے پابند۔ دل کے مریض ہونے کے باوجود شدید گرمیوں اور سردیوں میں نمازیں مسجد میں جا کر ہی ادا کیا کرتے تھے۔ کسی شکرانہ کے موقع پر جب الحمدللہ ادا کرتے تو ساتھ ہی ان کی آنکھیں نم ہو جاتیں۔ خدا پر توکل بہت زیادہ تھا۔ کہتے تھے کہ بظاہر ناممکن کام بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ممکن ہو جاتے ہیں۔ تہجد گزار تھے، ضرورتمندوں کا خیال رکھتے تھے۔ جو بھی معمولی آمدنی تھی اس سے دوسروں کا بھی خیال رکھتے تھے۔ سادہ زندگی بسر کرتے تھے۔ مختلف علمی مقالہ جات لکھے اور نمایاں پوزیشن حاصل کیں۔ دعوت الی اللہ میں مستعد تھے۔ ان کی اہلیہ کہتی ہیں کہ ڈاور(یہ ربوہ کے قریب ایک گاوٴں ہے) کے قریب ایک گاوٴں میں ہم دونوں میاں بیوی مختلف اوقات میں قریباً چھ سات سال تک دعوت الی اللہ کرتے رہے اور قرآنِ مجید کی کلاسیں لیتے رہے۔ پھر مخالفت شروع ہوئی تو کام روکنا پڑا۔ لیکن بہر حال اللہ تعالیٰ نے ان کو پھل بھی عطا فرمائے۔

مکرم مسعود احمد بھٹی صاحب

مکرم مسعود احمد بھٹی صاحب شہید ابن مکرم احمد دین صاحب بھٹی۔ شہید مرحوم کے آباوٴ اجداد کھریپڑ ضلع قصور کے رہنے والے تھے۔ ان کے دادا مکرم جمال دین صاحب نے 1911-12ء میں بیعت کی تھی۔ 1975ء میں یہ خاندان لاہور شفٹ ہو گیا۔ اپنے والد کے ساتھ یہ ٹھیکے داری کا کام کرتے تھے۔ میٹرک تک تعلیم حاصل کی۔ خدام الاحمدیہ کے بہت دلیر اور جرأت مند رکن تھے۔ دوسرے دو بھائی بھی ان کے کاروبار میں شریک تھے۔ ان کے ایک بھائی مکرم محمد احمد صاحب صدر جماعت ہڈیارہ ضلع لاہور ہیں۔ دارالذکر میں انہوں نے شہادت پائی۔ اور ان کی عمر 33سال تھی۔ مسجد دارالذکر میں نماز جمعہ سے قبل سنتیں ادا کر رہے تھے کہ شیلنگ شروع ہو گئی۔ سلام پھیرنے کے بعد اپنی بنیان اتار کر ایک لڑکے کے زخموں کو باندھا جو ان کے ساتھ ہی زخمی تھا اور اس کو تسلی دی اور اس کے بعد انتہائی بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک دہشتگرد کو پکڑ کر گرانے اور قابو پانے میں کامیاب ہو گئے۔ اسی دوران دوسرے دہشت گردنے گولیوں کی بوچھاڑ کی اور ان کو شہید کر دیا۔

مکرم حاجی محمد اکرم ورک صاحب

مکرم حاجی محمد اکرم ورک صاحب شہید ابن مکرم چوہدری اللہ دتہ ورک صاحب۔ شہید مرحوم کے آباوٴ اجداد قاضی مرال ضلع شیخو پورہ کے رہنے والے تھے۔ ان کے آباوٴ اجدادنے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں بیعت کی تھی۔ بعد میں یہ خاندان علی پور قصور میں شفٹ ہو گیا۔ جہاں شہید مرحوم کی پیدائش ہوئی۔ میٹرک تک ان کی تعلیم تھی۔ پچاس کی دہائی میں یہ خاندان لاہور شفٹ ہو گیا۔ محکمہ اوقاف میں ملازم تھے۔ 1966ء میں ریٹائر ہو گئے۔ کافی عرصہ اپنے حلقے کے زعیم انصار اللہ رہے۔ شہادت کے وقت سیکرٹری تعلیم اور نائب صدر حلقہ تھے اور ان کی عمر 74سال تھی۔ ان کی شہادت بھی دارالذکر میں ہوئی ہے۔ چوتھی صف میں مسجد میں بیٹھے تھے۔ جہاں دہشتگردوں کی فائرنگ سے شہید ہو گئے۔ ان کے والد صاحب نے اپنا پتوکی والا آبائی گھر جماعت کو تحفہ میں پیش کر دیا تھا جو آج کل مربی ہاوٴس ہے۔ ان کے والد صاحب پتوکی جماعت کے کافی عرصہ صدر رہے ہیں۔ اہلِ خانہ نے بتایا کہ بہت محنتی تھے۔ بزرگ ہونے کے باوجود اہلِ خانہ اور دیگر چھوٹے بچوں کی خدمت کیا کرتے تھے۔ بڑے صاف گو انسان تھے۔

مکرم میاں لئیق احمد صاحب

مکرم میاں لئیق احمد صاحب شہید ابن مکرم میاں شفیق احمد صاحب۔ شہید مرحوم کے آباوٴ اجداد انبالہ کے رہنے والے تھے۔ پڑدادا مکرم بابو عبدالرحمن صاحب انبالہ کے امیر رہے۔ پارٹیشن کے بعد یہ خاندان ہجرت کر کے لاہور آ گیا۔ یہ شہید مرحوم انبالہ میں پیدا ہوئے۔ بنیادی تعلیم لاہور سے حاصل کی۔ شہادت کے وقت ان کی عمر 66سال تھی۔ ان کو بطور سیکرٹری اشاعت حلقہ کینال پارک خدمت کی توفیق مل رہی تھی۔ مسجد دارالذکر میں ان کی شہادت ہوئی۔ مسجد کے مین ہال کی تیسری صف میں کرسی پر بیٹھے ہوئے تھے کہ دہشتگردوں کی فائرنگ سے شدید زخمی ہو گئے۔ تین گھنٹے تک تو وہاں سے کوئی نکل نہیں سکتا تھا۔ اس دوران ان کو بلیڈنگ اتنی ہو گئی تھی کہ ایمبولینس کے ذریعے ہسپتال لے جا رہے تھے کہ راستے میں خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ شہید مرحوم پیشہ کے لحاظ سے الیکٹریشن تھے۔ نہایت سیدھے سادھے اور خاموش طبیعت کے مالک تھے۔ کبھی کسی سے کوئی زیادتی نہیں کی۔ تہجد گزار تھے۔ گھر میں بچوں سے دوستانہ ماحول تھا۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔

مرزا شابل منیر صاحب

مرزا شابل منیر صاحب شہید ابن مکرم مرزا محمد منیر صاحب۔ شہید مرحوم کے پڑدادا حضرت احمد دین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی تھے۔ جبکہ شہید مرحوم کے والد مکرم مرزا محمد منیر صاحب کا ساوٴنڈ سسٹم وغیرہ کا بزنس تھا۔ شہید مرحوم بی کام کے بعد بی بی اے (BBA) کر رہے تھے۔ اور شہادت کے وقت ان کی عمر 19سال تھی۔ خدام الاحمدیہ کے بڑے سرگرم رکن تھے۔ ہر آواز پر لبیک کہا۔ اور دارالذکر میں جامِ شہادت نوش کیا۔ شہید مرحوم کے چھوٹے بھائی شہزاد منعم صاحب کے ہمراہ مین ہال میں محراب کے سامنے سنتیں ادا کرنے کے بعد بیٹھے ہوئے تھے کہ فائرنگ شروع ہو گئی۔ پہلا حملہ محراب پر ہوا۔ اس موقع پر شہید مرحوم پہلے ہال سے باہر نکل گئے۔ پھر تھوڑی دیر بعد اندر واپس آئے اور دروازے کے پاس بیٹھ گئے، اور دوسرا بھائی بھی پاس آ گیا۔ گھر فون پر بات کی اور دوستوں سے بھی بات کی۔ اتنے میں مینار کی طرف سے ایک دروازے سے ایک دہشت گرد اندر داخل ہوا اور فائرنگ کر دی جس سے کافی لوگ شہید ہو گئے۔ شہید مرحوم اس وقت گولی لگنے سے شدید زخمی تھے۔ ان کا بھائی کہتا ہے کہ میں نے آواز دی لیکن خاموش رہے۔ میں نے دیکھا کہ ٹانگ سے کافی خون بہہ رہا ہے اور مجھے کہا کہ میری ٹانگ سیدھی کرو۔ میں نے اپنی قمیض اتار کر پٹی باندھنے کی کوشش کی، لیکن نہیں باندھ سکا کیونکہ کہتے تھے جہاں میں ہاتھ لگاتا تھا وہیں سے گوشت لٹک جاتا تھا۔ قریباً آدھا گھنٹہ اسی کیفیت میں رہے۔ اور اسی عرصے میں پھر تھوڑی دیر بعد شہادت کا رتبہ پایا۔ بھائی کہتا ہے کہ میں ساتھ بیٹھا تھا انہوں نے بڑی ہمت دکھائی۔ ایسی حالت میں بھی کوئی چیخ و پکار نہیں تھی۔ بلکہ آنکھوں سے لگ رہا تھا خوش ہیں کہ چلو میرا بھائی تو بچ گیا اور بالکل سلامت بیٹھا ہے۔ آپ کے ایک دوست نے، ایک کارکن نے لکھا ہے کہ خدام الاحمدیہ میں ایک حزب کے سائق تھے۔ کچھ ماہ سے نہایت جذبہ اور اخلاص کے ساتھ کام کر رہے تھے۔ ایک مرتبہ خاکسار رات ساڑھے گیارہ بجے گھر گیا کہ حقیقة الوحی کے پرچے پُر کروانے تھے۔ وہ اسی وقت موٹر سائیکل لے کر نکل کھڑے ہوئے اور گھروں کا دورہ کیا۔ ان کے پاس گاڑی ہوتی تواس کے علاوہ بھی مجلس کے کاموں کے لئے پیش کرتے۔ غرض نہایت شریف، سادہ اور کبھی نہ نہ کرنے والے وجود تھے۔ ان کے ایک دوست نے لکھا کہ مجھے خواب میں شابل منیر ملا مَیں اس سے کہتا ہوں کہ تم کدھر ہو تو وہ مجھے جواب دیتا ہے، (شہادت کے بعد کا ذکر ہے) کہ بھائی میں تو ادھر ہوں تم کدھر ہو۔ پھر وہ ساتھ ہی مجھے کہتا ہے کہ بھائی میں ادھر بہت خوش ہوں تم بھی آ جاوٴ۔ مجھے خود بھی وہ خوش محسوس ہوتا ہے۔ پھر یہ منظر ختم ہو جاتا ہے۔ بہر حال اللہ تعالیٰ اس نوجوان کے بھی درجات بلند فرمائے۔ یہ وہ نوجوان ہیں، جو اپنے پیچھے رہنے والے نوجوانوں کو اپنا عہد پورا کرنے کی یاد دلاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں ہم تو قربان ہو گئے، تم اپنے عہد سے پیچھے نہ ہٹنا۔

مکرم ملک مقصود احمد صاحب

مکرم ملک مقصود احمد صاحب شہید ابن مکرم ایس اے محمود صاحب۔ شہید مرحوم کے دادا بٹالہ کے رہنے والے تھے جبکہ ان کے والد صاحب مکرم ایس اے محمود صدر پاکستان ایوب خان کے مشیر بھی رہے۔ اسی طرح ان کے نانا حضرت ملک علی بخش صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی تھے اور ریاست بھوپال کے رہنے والے تھے۔ بچپن میں ان کی والدہ محترمہ کے سر پر بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنا شفقت بھرا ہاتھ پھیرا تھا، شہید مرحوم کے نانا، دادا اور والدہ محترمہ صحابی تھے۔ شہید مرحوم کی پیدائش بھوپال میں ہوئی۔ نانی محترمہ مختار بی بی صاحبہ کے پاس انہوں نے قادیان میں پرورش پائی۔ تعلیم الاسلام کالج میں زیرِ تعلیم رہے۔ ایف اے کے امتحان سے قبل واپس بھوپال چلے گئے۔ پھر یہ فیملی لاہور آ کر سیٹل (Settle) ہو گئی۔ شہادت کے وقت ان کی عمر 80سال تھی۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے اور اپنے حلقے میں بطور سیکرٹری تعلیم، سیکرٹری تعلیم القرآن امین اور آڈیٹر خدمت کی توفیق پا رہے تھے۔ شہید مرحوم ملک طاہر صاحب قائمقام امیر ضلع لاہور کے بہنوئی تھے۔ دارالذکر میں ان کی شہادت ہوئی۔ شہید مرحوم کے نواسے نے بتایا کہ وہ مسجد کے مین ہال میں دوسری صف میں بیٹھے تھے۔ فائرنگ کے وقت مربی صاحب کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے صحن کی طرف باہر نکلے تو دیکھا کہ شہید مرحوم کانوں میں انگلیاں ڈال کر لیٹے ہوئے تھے۔ لیکن مجھے ان کے اندر کوئی حرکت نظر نہیں آ رہی تھی۔ شاید اس وقت شہید ہو چکے ہوئے تھے کیونکہ کافی گولیاں لگی ہوئی تھیں۔ شہید مرحوم کے اہلِ خانہ نے بتایا کہ پنجوقتہ نماز اور تہجد کے پابند تھے۔ باقاعدگی سے چندے ادا کرتے تھے۔ تبلیغ کا بہت شوق تھا۔ جماعتی کتب کا مطالعہ اور خلیفہ وقت کے خطبات باقاعدگی سے سنتے تھے۔ ایم ٹی اے کے دیگر پروگرام بھی دلچسپی سے دیکھتے اور سنتے تھے۔ اکاوٴنٹس کے ماہر تھے۔ ایک مرتبہ بتایا کہ بچپن میں قادیان میں مقابلہ ہواکہ کون سب سے پہلے مسجد آئے گا تو دیکھا کہ آپ صبح اڑھائی بجے مسجد پہنچے ہوئے تھے۔ حالانکہ اس وقت آپ کی بہت چھوٹی عمر تھی۔ ان کے ایک بیٹے تبسم مقصود صاحب وکیل ہیں اور زندگی وقف کر کے آج کل ربوہ میں کام کر رہے ہیں۔

مکرم چوہدری محمد احمد صاحب

مکرم چوہدری محمد احمد صاحب شہید ابن مکرم ڈاکٹر نور احمد صاحب۔ شہید مرحوم کے والد صاحب اور دادا مکرم چوہدری فضل داد صاحب نے 1895-1896٭میں بیعت کر کے جماعت میں شمولیت اختیار کی۔

٭ یہ تصحیح روزنامہ الفضل ربوہ مورخہ 8 مارچ 2011ء کے مطابق ہے۔

آبائی تعلیم کھیوہ ضلع فیصل آباد سے حاصل کی۔ شہید مرحوم کے والد صاحب حضرت میر محمد اسماعیل صاحب کے ساتھ جونئیر ڈاکٹر کے طور پر کام کرتے رہے۔ ان کے والد صاحب نے شدھی تحریک کے دوران ایک سال سے زائد عرصہ وقف کیا تھا۔ شہید مرحوم 1928ء میں کھیوہ میں پیدا ہوئے۔ فیصل آباد سے میٹرک تک تعلیم حاصل کی۔ میٹرک کے بعد ائیر فورس جوائن (Join)کر لی۔ دو سال کی ٹریننگ کے بعد وارنٹ افسر کے طور پر کام کرتے رہے۔ پھر دورانِ سروس 65ء اور 71ء کی جنگوں میں حصہ لیا۔ 65ء کی جنگ کے دوران ایک موقع پر جب طیارے کا بم لوڈر خراب ہو گیا تو ساتھیوں کو ہمت دلا کر بم کندھوں پر لاد کر خود لوڈ کیا کرتے تھے۔ آج یہ نام نہاد ملک کے ہمدرد احمدیوں پر الزام لگاتے ہیں کہ یہ ملک کے ہمدردنہیں۔ اور یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ملک کی خاطر بھی قربانیاں دیں اور دینے کے لئے ہر وقت تیار رہے۔ حکومت کی طرف سے غیر ممالک کے دورے پر بھی ٹریننگ کے لئے جاتے رہے۔ 1971ء میں ریٹائرڈ ہوئے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد سول ڈیفنس کے بم ڈسپوزل اسکواڈ کے ہیڈ کے طور پر 1988ء تک کام کرتے رہے۔ شہادت کے وقت ان کی عمر 85سال تھی۔ اللہ کے فضل سے موصی تھے۔ ماڈل ٹاوٴن کی مسجد میں ان کی شہادت ہوئی۔ یہ اکثر وہیں جمعہ ادا کیا کرتے تھے۔ جمعرات کو جمعہ کی تیاری کا بڑا اہتمام کیا کرتے تھے۔ جمعرات کو ہی کپڑے استری کروا کر لٹکوا دیا کرتے تھے اور بارہ بجے مسجد چلے جاتے تھے۔ عموماً ہال کے اندر بائیں طرف کرسیوں پر بیٹھتے تھے۔ وقوعہ کے روز ایک نوجوان نے ان کو دوسری اور تیسرے صف کے درمیان خون میں لت پت دیکھا۔ انہوں نے اس نوجوان کو آواز دی اور کہا کہ مجھے گولیاں لگی ہیں میرے پیٹ پر کپڑا باندھ دو۔ اس کے بعد انہوں نے دیگر زخمیوں کو پانی پلانے کی ہدایت کی۔ خود زخمی تھے، اس کے بعد انہوں نے نوجوان کو کہا کہ زخمیوں کو پانی پلاؤ۔ ساتھ ساتھ دیگر احباب کو بچاوٴ کی ہدایات دیتے رہے کہ یہ اس شعبہ کے ماہر تھے۔ ایک گولی ان کی ہتھیلی پر بھی لگی ہوئی تھی۔ زخمی حالت میں ان کو جناح ہسپتال میں لے جایا گیا جہاں رات آٹھ بجے کے قریب ان کی شہادت ہوئی۔ شہید کی فیملی میں ایک خاتون نے دو دن قبل خواب میں دیکھا کہ لاہور میں فائرنگ ہو رہی ہے۔ اس طرح کی خوابیں اکثر احمدیوں کو پاکستان میں بھی اور باہر کے ملکوں میں بھی آئی ہیں جو اس واقعہ کی نشاندہی کرتی تھیں۔ کسی سے بغض نہیں رکھتے تھے، صحت اچھی تھی اور بچوں کے ساتھ بہت پیار کا تعلق تھا۔ نماز باجماعت اور قرآنِ کریم کی تلاوت کے شوقین کبڈی اور فٹبال کے بڑے اچھے کھلاڑی رہے۔ خلافت سے عشق تھا۔ ان کے بارے میں ان کی بیٹی نے ایک عینی شاہد کے حوالے سے لکھا ہے کہ ابا جی ہال میں کرسیوں پر بیٹھے تھے جہاں مربی صاحب خطبہ دے رہے تھے۔ خطبہ ابھی شروع ہوا ہی تھا کہ باہر سے گولیوں کی آوازیں آئیں اور پھر یہ آوازیں لمحہ بہ لمحہ قریب ہوتی گئیں۔ اس دوران مربی صاحب لوگوں کو درود شریف پڑھنے کی ہدایت دیتے رہے اور کہا کہ خطبہ جاری رہے گا۔ کہتی ہیں کہ میرے ابا جی کے ساتھ چوہدری وسیم احمد صاحب صدر کینال ویو اور ان کے بزرگ والد بیٹھے تھے۔ وہ اپنے عمر رسیدہ والد کو تقریباً گھسیٹتے ہوئے Basementکی طرف لے گئے۔ اور میرے والد صاحب سے بھی کہا کہ بزرگو اٹھو! لیکن آپ نہ اٹھے۔ بقول وسیم صاحب کے وہ ایسے بیٹھے تھے جیسے ان کا اندر کا فوجی جاگ گیا ہو اور وہ حالات کا بغور مطالعہ کر رہے ہوں۔ اسی بھیڑ چال میں چند اور لوگوں نے بھی ان سے کہا کہ اٹھ جائیں لیکن وہ نہیں اٹھے۔ اسی دوران اس دہشتگردنے گولیوں کا رخ کرسیوں کی طرف کر دیا اور فائرنگ کرتا ہوا ابا جی کے نزدیک ہوتا گیا۔ بقول کرنل بشیر احمد باجوہ صاحب (جو کرسیوں کے پیچھے تھے) ان پر بھی فائر ہوئے لیکن وہ بچ گئے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس دوران یہ زخمی ہو چکے تھے۔ وہ دہشتگرد سمجھا کہ میرا کام ختم ہو گیا ہے۔ فارغ ہو کر مڑا اور شاید اپنی گن لوڈ کرنے لگا۔ تو کہتی ہیں کہ کرنل صاحب نے بتایا کہ اسی دوران میرے ابا جی نے زخمی ہونے کے باوجود موقع غنیمت جانا اور پیچھے سے ایک دم چھلانگ لگا کر اس کی گردن پکڑ لی۔ یقیناً کوئی خاص طاقت تھی جو ان کی مدد کر رہی تھی کرنل بشیرصاحب نے جو کرسیوں کے پیچھے تھے انہوں نے بھی فوراً چھلانگ لگائی اور دہشتگرد کو قابو کرنے لگے۔ وسیم صاحب کا بیان ہے کہ ہم سیڑھیوں سے چند step ہی نیچے تھے اور دیکھ رہے تھے۔ جب دیکھا کہ دہشتگرد قابو میں آ رہا ہے تو دوسرے خدام بھی اس دوران میں مدد کے لئے آ گئے اور اس ہاتھا پائی کے دوران ان کے بقول ان کو گولیاں لگ چکی تھیں۔ لیکن اس سے پہلے بھی لگ چکی تھیں۔ اور ایک ہتھیلی سے بھی پار ہوئی، دوسری بازو میں کلائی کے پاس لگی۔ اور تیسری پسلیوں میں پیٹ کے ایک طرف۔ پہلے کم زخمی تھے، اس ہاتھا پائی میں مزید گولیاں بھی لگیں۔ بہر حال ان کی اس ابتدائی کوشش کے بعد کرنل بشیر اور باقی نمازی شامل ہوئے اور اس دہشتگرد کی جیکٹ کو (Defuse) کر دیا اور اس کے ہاتھ پاوٴں باندھ دئیے۔ دیکھنے والے بتاتے ہیں کہ عمر کے اس حصے میں بھی گولیاں لگنے کے باوجودآپ کا دماغ صحیح کام کر رہا تھا۔ اور جیکٹ کو ڈفیوژ (Defuse) کرنے کے بارے میں بھی وہی ہدایت دیتے تھے۔ کیونکہ ان کا یہی کام تھا، بم ڈسپوزل میں کام کرتے رہے ہیں۔ اور دیکھنے والے مزیدکہتے ہیں کہ اس وقت ان کی حالت دیکھ کر ہماری بری حالت ہو رہی تھی لیکن ایک دفعہ بھی انہوں نے ہائے نہیں کی اور بڑے آرام سے اپنی جان جانِ آفرین کے سپرد کر دی اور شہادت کا رتبہ پایا۔

مکرم الیاس احمد اسلم قریشی صاحب

الیاس احمد اسلم قریشی صاحب شہید ولد مکرم ماسٹر محمد شفیع اسلم صاحب۔ شہید مرحوم کے خاندان کا تعلق قادیان سے تھا۔ پھر گوجرانوالہ شفٹ ہو گئے۔ آپ کے والد محترم مبلغ سلسلہ تھے۔ تحریکِ شدھی کے دوران انہوں نے نمایاں خدمات سرانجام دیں۔ ان کے بھائی یونس احمد اسلم صاحب 313 درویشانِ قادیان میں سے تھے۔ گریجوایشن کے بعدنیشنل بنک جوائن کیا۔ اور اے وی پی کے اسسٹنٹ وائس پریذیڈنٹ کے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔ شہادت کے وقت ان کی عمر 76سال تھی۔ اللہ کے فضل سے وصیت کے نظام میں شامل تھے۔ اور بطور صدر جماعت جوہر ٹاوٴن خدمات سرانجام دے رہے تھے۔ بیت النور میں ان کی شہادت ہوئی پچھلے ہال میں پہلی صف میں بیٹھے تھے۔ دیگر دو ساتھیوں کے ساتھ ہال کا دروازہ بند رکھنے کی کوشش کے دوران حملہ آوروں کی فائرنگ سے شدید زخمی ہو گئے اور زخمی حالت میں کئی گھنٹے پڑے رہے۔ چار بجے کے قریب یہ شہید ہوئے ہیں۔ ان کی اہلیہ کہتی ہیں کہ بہت سادہ دل، نیک اور ہر حال میں صبر و شکر کرنے والے اور متوکل انسان تھے۔ دعاوٴں کی طرف خصوصی توجہ تھی۔ جماعتی کام خوشی سے سرانجام دیتے تھے۔ آپ کے بچے کہتے ہیں، آپ ایک نہایت شفیق باپ اور ایک ہمدرد انسان تھے۔ نمازوں اور تہجد کے پابند تھے۔ کبھی ہم نے انہیں نماز قضاء پڑھتے ہوئے نہیں دیکھا۔ اپنی اولاد کو بھی نماز کی طرف توجہ دلاتے رہتے۔ بڑے ہنس مکھ، ملنسار انسان تھے۔ پانچ سال سے حلقہ جوہر ٹاوٴن کے صدر کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے تھے۔ کبھی بھی کوئی کارکن یا کوئی جماعتی کام کے لئے خادم یا انصار میں سے کسی بھی وقت آ جاتا، دوپہر کو یا رات کو تو کبھی برا نہیں مناتے تھے۔ اور اپنے بچوں سے بھی کہتے تھے کہ اگر کوئی جماعتی کام سے گھر آئے تو بیشک میں سو بھی رہا ہوں تو مجھے اٹھا دیا کرو۔ اور انہوں نے اسی پر ہمیشہ عمل کیا۔ اکثر نصیحت کرتے کہ جماعت اور خلافت سے وفا کرنا۔

مکرم طاہر محمود احمد صاحب (پرنس)

مکرم طاہر محمود احمد صاحب (پرنس) شہید ابن مکرم سعید احمد صاحب مرحوم۔ یہ کوٹ ادّو ضلع مظفر گڑھ کے رہنے والے تھے۔ 1953ء میں آپ کے والد صاحب خاندان میں پہلے احمدی ہوئے۔ 1993ء میں لاہور منتقل ہو گئے۔ شہید مرحوم نے کوٹ ادّو سے میٹرک کیا۔ پھر ایک پرائیویٹ ملازمت اختیار کر لی۔ پھر ملائیشیا چلے گئے۔ تھوڑے سے ذہنی طور پر پسماندہ بھی تھے۔ شہادت کے وقت ان کی عمر 53 سال تھی۔ مسجد بیت النور ماڈل ٹاوٴن میں ان کی شہادت ہوئی۔ جمعہ پر آنے سے قبل حلقے کے صدر صاحب کے گھر گئے تو صدر صاحب نے ویسے ہی مذاقاً کہہ دیا کہ چلو میں تمہیں جمعہ پڑھا کر لاتا ہوں اس طرح صدر صاحب کے ساتھ پہلی دفعہ مسجد بیت النور گئے تھے۔ اور وہیں ان کی شہادت ہوئی ورنہ اکثر ٹھوکر نیاز بیگ سنٹر یا کبھی کبھی دارالذکر جا کر نمازِ جمعہ ادا کرتے تھے۔ رات شام سات بجے ان کی شہادت کا علم ہوا۔ چھاتی میں دو گولیاں اور ماتھے پر ایک گولی لگی ہوئی تھی۔ بڑے دبنگ احمدی تھے۔ زندگی میں بھی کہتے تھے کہ میں گولیوں سے نہیں ڈرتا، میں نے شہید ہی ہونا ہے۔ سارے علاقے میں واقفیت تھی۔ مخلص اور جذباتی احمدی تھے اور ہر راہ چلتے کو السلام علیکم کہا کرتے تھے۔

مکرم سید ارشاد علی صاحب

سید ارشاد علی صاحب شہید ابن مکرم سید سمیع اللہ صاحب۔ شہید مرحوم کوچہ میر حسام الدین (سیالکوٹ) کے رہنے والے تھے۔ ان کے دادا حضرت سید خصیلت علی شاہ صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور نانا حضرت سید میر حامد شاہؓ صاحب سیالکوٹی صحابی تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے رفقائے خاص میں شامل تھے۔ سیالکوٹ میں قیام کے دوران حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان کے گھر قیام کیا۔ ان کے والد صاحب تعلیم الاسلام ہائی سکول ربوہ کے ہیڈماسٹربھی رہ چکے ہیں۔ انہوں نے اپنا گھر جماعت کو وقف کر دیا تھا۔ شہید مرحوم بی اے کے بعد مقابلے کا امتحان پاس کر کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر بھرتی ہوئے اور ڈپٹی ڈائریکٹر لیبر ڈیپارٹمنٹ کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے۔ گارڈن ٹاوٴن میں اس وقت سیکرٹری مال کے فرائض سر انجام دے رہے تھے۔ شہادت کے وقت ان کی عمر 80سال تھی۔ مسجد بیت النور میں ان کی شہادت ہوئی۔ ان کے گھر والے کہتے ہیں کہ نمازِ جمعہ کی ادائیگی کے لئے جانے سے قبل گھر میں سینے پر ہاتھ باندھے لیٹے ہوئے تھے اور کہہ رہے تھے کہ آج سکون کرنے کو دل چاہ رہا ہے۔ جانے کو جی نہیں چاہ رہا۔ پھر تھوڑی دیر بعد اٹھ کر نمازِ جمعہ کی ادائیگی کے لئے چلے گئے اور جاتے ہوئے آواز دی کہ میں جا رہا ہوں۔ پھر دوسری دفعہ کہا کہ میں جا ہی رہا ہوں۔ داماد کے ساتھ بیت النور میں باہر صحن میں بڑی کرسیوں پر بیٹھے تھے، شروع کے حملے میں کرسیوں پر بیٹھنے والوں کو فوری طور پر ہال کے اندر بھجوا دیا گیا۔ جہاں ان کی شہادت ہوئی۔ جسم پر تین گولیاں لگی ہوئی تھیں۔ ان کے اہلِ خانہ نے بتایا کہ کافی سال قبل شہید مرحوم نے بتایا کہ ان کو آواز آئی کہ اِنِّیْ رَافِعُکَ وَ مُتَوَفِّیْکَ۔ شاید سننے والے نے یا بیان کرنے والے نے الٹا لکھ دیا ہو۔ ہو سکتا ہے اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ وَ رَافِعُکَ ہو، بہر حال جو بھی ہے، کہتے ہیں مجھے آواز آئی لیکن مجھے سمجھ نہیں آئی کہ اس کا کیا مطلب ہے۔ کہتے ہیں شہادت سے دس پندرہ بیس دن پہلے مجھے یہ آواز آئی کہ We recieve you with open arms with red carpet شہید مرحوم نے شہادت سے چند دن قبل خواب میں ایک گھر دیکھا۔ اس میں ایک خوبصورت بگھی آ کر رکی اور آواز آئی ہے کہ مرزا بشیر الدین محمود احمد رضی اللہ عنہ آئے ہیں۔ گزشتہ ڈیڑھ دو ماہ سے کہا کرتے تھے کہ میں اپنے آباوٴ اجداد کی طرح دین کی خدمت نہیں کر سکا۔ اس سے بڑے پریشان ہوتے تھے۔ حقوق العباد کی ادائیگی ان کا خاص وصف تھا۔ صلہ رحمی کرنے والے تھے اور بڑے زندہ دل آدمی تھے۔

مکرم نور الامین صاحب

مکرم نور الامین صاحب شہید ابن مکرم نذیر نسیم صاحب۔ شہید مرحوم راولپنڈی میں پیدا ہوئے۔ وہیں سے میٹرک کیا۔ اس کے بعدنیوی میں بطور فوٹو گرافر بھرتی ہو گئے۔ ان کے دادا حضرت پیر فیض صاحب رضی اللہ عنہ آف اٹک صحابی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام تھے۔ جب کہ ان کے پڑنانا مکرم بابو عبدالغفار صاحب تھے جو امیر ضلع حیدر آباد رہے اور خدا کی راہ میں شہید ہوئے، مجلس خدام الاحمدیہ کے بڑے ذمے دار اور محنتی رکن تھے۔ منتظم عمومی حلقہ ماڈل ٹاوٴن خدمت سر انجام دے رہے تھے۔ کلوز سرکٹ سسٹم کی مانیٹرنگ کرتے رہے جومسجد میں لگایا تھا۔ کچھ عرصے کے لئے کراچی چلے گئے شہادت کے وقت ان کی عمر 39سال تھی اور مسجد دارالذکر میں ان کی شہادت ہوئی۔ سانحہ کے دوران ان کا اپنے گھر والوں کو اور دوستوں کو فون آیا کہ میں ایسی جگہ پر ہوں کہ اگر چاہوں تو نکل سکتا ہوں، لیکن میری یہاں ڈیوٹی ہے۔ یہ دارالذکر کے صحن میں پڑی ڈش انٹینا کے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے۔ وہیں گرینیڈ لگنے سے شہید ہوئے۔ شہید مرحوم کی اہلیہ بتاتی ہیں کہ بے انتہا خوبیوں کے مالک تھے۔ جمعہ کو جب دو بجے فون کیا تو انہوں نے کہا کہ خیریت سے ہوں۔ میں نے کہا کہ آپ وہاں سے نکل آئیں تو انہوں نے کہا یہاں بہت لوگ پھنسے ہوئے ہیں میں ان کو چھوڑ کر نہیں آ سکتا۔ بچوں کی تربیت کے بارے میں خاص طور پر وقفِ نو بچوں کے بارے میں فکر مند رہتے تھے اور جماعتی ڈیوٹیوں میں ہمیشہ پیش پیش رہے۔

چوہدری محمد مالک صاحب

چوہدری محمد مالک صاحب چدھڑ شہید ابن مکرم چوہدری فتح محمد صاحب۔ شہید مرحوم کے آباوٴ اجداد گکھڑ منڈی کے رہنے والے تھے، وہاں سے گوجرانوالہ اور پھر لاہور شفٹ ہو گئے۔ ان کی پیدائش سے قبل ہی ان کے والد صاحب وفات پا گئے تھے۔ میٹرک میں پڑھتے تھے کہ والدہ نے بازو میں پہنی ہوئی سونے کی چوڑی اتار کر ہاتھ میں دے دی کہ جا کر پڑھو۔ مرے کالج سیالکوٹ سے بی۔ اے کیا۔ سپرنٹنڈنٹ جیل کی نوکری ملتی تھی لیکن نہیں کی بلکہ زمیندارہ کرتے رہے۔ اسی سے بچوں کو تعلیم دلوائی۔ شہادت کے وقت ان کی عمر 93 سال تھی اور موصی بھی تھے۔ اب اس عمر میں جانا تو تھا ہی لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کو یہ رتبہ عطا فرمایا۔ مسجد بیت النور میں ان کی شہادت ہوئی۔ اہلِ خانہ بتاتے ہیں کہ ان کو بڑھاپے کی وجہ سے بھولنے کی عادت تھی جس کی وجہ سے تقریباً سات آٹھ جمعے چھوڑے۔ اور 28 مئی کو جمعہ پر جانے کے لئے بہت ضد کر رہے تھے۔ ان کی بہو بتاتی ہیں کہ ان کو کہا گیا کہ باہر موسم ٹھیک نہیں ہے، آندھی چل رہی ہے اس لئے آپ جمعہ پر نہ جائیں۔ بچوں کی بھی یہی خواہش تھی کہ جمعہ پر نہ جائیں۔ لیکن نمازِ جمعہ کی ادائیگی کے لئے تیار ہو کر گھر سے چلے گئے۔ عموماً مسجد کے صحن میں کرسی پر بیٹھ کر نماز جمعہ ادا کرتے تھے۔ ہمیشہ کی طرح سانحے کے روز بھی صحن میں کرسی پر بیٹھے ہوئے تھے اور حملے کے شروع میں ہی گولیاں لگنے سے شہادت ہو گئی۔ بہت امن پسند تھے کبھی کسی سے زیادتی نہیں کی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتب بہت شوق سے پڑھتے تھے اور گھر والوں کو بھی تلقین کرتے تھے۔ ان کے صاحبزادے داوٴد احمد صاحب بتاتے ہیں کہ جب میں نے ایم اے اکنامکس پاس کیا والد صاحب سے ملازمت کی اجازت چاہی تو انہوں نے جواب دیا کہ میری نوکری کر لو۔ میں نے کہا وہ کیا ہے؟ تو انہوں نے کہا تم باقاعدہ دفتر کی طرح تیار ہو کر صبح نو بجے آنا، درمیان میں وقفہ بھی ہو گا اور شام پانچ بجے چھٹی ہو جایا کرے گی۔ اور یہاں میز پر بیٹھ جاوٴ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتابیں پڑھا کرو اور اپنی نوکری سے جتنی تنخواہ ملنے کی تمہیں امید ہے اتنی تنخواہ تمہیں میں دے دیا کروں گا تو کتابیں پڑھوانے کے بعد پھراس نوکری سے فارغ کیا۔ تو بچپن سے لے کر شادی تک بچوں کی اس طرح تربیت کی۔ اذان کے وقت سب بچوں کے دروازے کھٹکھٹاتے، اور جب تک انہیں اٹھا نہیں لیتے تھے نہیں چھوڑتے تھے۔ اور پھر وضو کروا کے گھر میں باجماعت نماز ادا ہوتی تھی۔ بچوں کی تربیت کے لئے انہیں کبھی بھی نہیں مارا۔ اور لڑکے کہتے ہیں کہ ہمیں بھی یہی فلسفہ سمجھاتے تھے کہ بچوں کے لئے دعا کرنی چاہئے۔ یہی ان کی ہمدردی ہے۔ اور مار پیٹ سے تربیت نہیں ہوتی۔ کہتے ہیں کہ جب بھی رات کومیری آنکھ کھلتی میں نے رو رو کر ان کو اپنی اولاد کے لئے دعائیں کرتے ہوئے ہی دیکھا ہے۔ 1974ء میں لڑکے کہتے ہیں کہ ہم سیٹلائٹ ٹاوٴن گوجرانوالہ میں تھے۔ حالات خراب ہونے پر کافی احمدی احباب ہمارے گھر جمع ہو گئے۔ اور ڈیڑھ دو ماہ ان کا کیمپ ہمارے گھر کے پاس تھا۔ چنانچہ ان سب کی بہت خدمت کی، بہت دیانتدار تھے۔ جھوٹ تو منہ سے نکلتا ہی نہیں تھا۔ ہمیشہ سچ بولا اور سچ کا ساتھ دیا اور سارے خاندان کی خود کہہ کر وصیت کروائی۔

مکرم شیخ ساجدنعیم صاحب

شیخ ساجدنعیم صاحب شہید ابن مکرم شیخ امیر احمد صاحب۔ شہید مرحوم کے آباوٴ اجداد کا تعلق بھیرہ سے تھا۔ انہوں نے لاہور سے بی۔ اے کیا۔ راولپنڈی میں ایم سی بی بینک میں گریڈ تھرڈ کے افسر بھرتی ہوئے۔ اور 2003ء میں بطور مینیجر ریٹائرمنٹ لی۔ بچے چونکہ لاہور میں تھے اس لئے لاہور آ گئے۔ مکرم شیخ محمد یوسف قمر صاحب امیر ضلع قصور کے برادرِ نسبتی تھے۔ شہید مرحوم مجلس انصار اللہ کے بہت ہی ذمہ دار رکن تھے۔ اور بطور نائب منتظم تعلیم القرآن خدمت کی توفیق پا رہے تھے۔ بوقتِ شہادت ان کی عمر 59 سال تھی۔ نظامِ وصیت میں شمولیت کے لئے درخواست دی ہوئی تھی۔ مسل نمبر مل چکا تھا۔ مسجد بیت النور میں ان کی شہادت ہوئی۔ نمازِ جمعہ کے لئے وقت سے پہلے ہی گھر سے نکل جاتے اور نماز بہت سنوار کر پڑھتے۔ عموماً اپنی جگہ بیت النور کے دوسرے ہال میں بیٹھے ہوئے تھے۔ فائرنگ شروع ہونے کے پندرہ بیس منٹ کے بعد اپنے بیٹے شہزادنعیم کو فون کیا کہ تم ٹھیک ہو؟ وہ ٹھیک تھا اور بتایا کہ ہم لوگ مسجد میں ہی ہیں۔ دیگر ساتھیوں کے ساتھ ہال کے مین دروازے کو بند کیا اور اس کے آگے کھڑے رہے، کیونکہ اس دروازے کی کنڈی صحیح طرح نہیں لگ رہی تھی۔ اس وجہ سے ہال میں موجود اکثر لوگ بیسمینٹ میں جانے میں کامیاب ہو گئے۔ دہشتگرد کے اندھا دھند فائرنگ اور بعد میں گرینیڈ کے پھٹنے کی وجہ سے شہید ہو گئے۔ ایک بیٹے کی شادی اور ملازمت کی وجہ سے فکر مند تھے۔ اور اس دن بھی، جمعہ والے دن بیٹے کا انٹر ویو دلوایا۔ اس سے سوال جواب پوچھے، کیسا ہوا؟ اور خوش تھے کہ انشاء اللہ نوکری مل جائے گی۔ اور پھر اللہ کے فضل سے یکم جون سے بیٹے کو نوکری مل بھی گئی۔ بیوی بچوں کے حقوق کا بہت خیال رکھتے تھے۔ سسرالی رشتوں اور دیگر رشتے داروں کا بھی بہت خیال رکھتے تھے۔ نرم طبیعت اور اطاعت گزار تھے۔ خلافت سے عشق تھا۔ بچوں کی ہر قسم کی ضرورت کا خیال رکھتے تھے۔ ان کے بیٹے نے بتایا کہ محلے کے غیر احمدی یا غیر از جماعت دکاندار نے سانحہ کے بعد اتوار کو خواب میں دیکھا کہ شیخ صاحب کہہ رہے ہیں کہ پتہ نہیں میں یہاں کیسے پہنچا ہوں۔ لیکن بہت خوش ہوں اور مزے میں ہوں۔

مکرم سید لئیق احمد صاحب

مکرم سید لئیق احمد صاحب شہید ابن مکرم سید محی الدین احمد صاحب۔ شہید کے والد محترم کا تعلق رانچی ضلع بہار، بھارت سے تھا۔ علیگڑھ یونیورسٹی کے سٹوڈنٹ تھے، یونیورسٹی میں ایک احمدی سٹوڈنٹ سے ملاقات ہوئی جس نے ان کے والد کو کہا کہ حضرت عیسیٰ فوت ہو گئے ہیں اور امام مہدی علیہ السلام آ چکے ہیں۔ تو شہید کے والدنے محی الدین صاحب نے غصے میں اس احمدی سٹوڈنٹ کا سر پھاڑ دیا۔ بعد میں شرمندگی بھی ہوئی، پھر کچھ کتابیں پڑھیں تو مولوی ثناء اللہ امرتسری سے رابطہ کیا۔ اس نے گالیوں سے بھری ہوئی کتابیں ان کو بھیج دیں۔ یہ دیکھ کر ان کو غصہ آیا اور کہا کہ میں نے ان سے مسائل پوچھے ہیں اور یہ گالیاں سکھا رہے ہیں۔ چنانچہ احمدیت کی طرف مائل ہوئے اور بیعت کر کے احمدیت میں شامل ہو گئے۔ یہ مُلّاں کی عادت جو ہمیشہ سے ہے آج تک بھی یہی قائم ہے۔ اب پوچھنے پر یہ گالیوں کا لٹریچر نہیں بھیجتے بلکہ ٹی وی پہ بیٹھ کے جماعت کے خلاف جو منہ میں آتا ہے بکتے چلے جاتے ہیں۔ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف بڑی دریدہ دہنی کرتے ہیں۔ بہر حال اس سے لوگوں کو توجہ بھی پیدا ہوتی ہے، اسی طرح ان کو توجہ پیدا ہوئی۔ شہید تو پیدائشی احمدی تھے۔ ان کے والد وکیل تھے، پھر انجمن کے ممبر بھی تھے۔ رانچی میں انہوں نے میٹرک کیا اور میٹرک فرسٹ ڈویژن میں کیا تو والد بہت خوش ہوئے۔ پھر پٹنہ یونیورسٹی سے ایم اے انگلش کیا۔ پارٹیشن کے بعد یہ لاہور آ گئے اور 1969ء میں ایم سی بی جوائن کیا۔ 1997ء میں بینک مینیجر کی حیثیت سے ریٹائرڈ ہوئے۔ لیکن ریٹائرمنٹ کے بعد بھی ایم سی بی بینک میں کام کرتے رہے۔ شہادت کے وقت ان کی عمر 72سال تھی۔ اور نظامِ وصیت میں شامل تھے۔ مسجد میں آتے ہی سنتیں ادا کیں۔ مربی صاحب سے ایک صف پیچھے بیٹھ گئے۔ اور ساتھ بیٹھے بزرگ مکرم مبارک احمد صاحب کے ماتھے پر گولی لگی تو ان کو تسلی دیتے رہے۔ اسی دوران دہشتگردکی گولیوں کا نشانہ بنے اور زخمی ہو گئے، اٹھنے کی بہت کوشش کی لیکن اٹھ نہیں سکے۔ سامنے سے گولی نہیں لگی تھی البتہ ریڑھ کی ہڈی میں گولی لگی اور وہیں شہید ہو گئے۔ بہت دھیمی طبیعت کے مالک تھے۔ لیکن اگر کوئی شخص جماعت یا بزرگانِ سلسلہ کے متعلق کوئی بات کرتا تو ان کو ہرگز برداشت نہیں کرتے تھے۔ کم گو تھے لیکن اگر کوئی حضرت مسیح موعود علیہ السلام یا خلفائے سلسلہ کا ذکر چھیڑ دیتا تو گھنٹوں ان سے باتیں کرتے رہتے تھے۔ جماعت سے خاموش لیکن گہری وابستگی تھی اور عشق کی حد تک پیار تھا۔ سب بچوں کو تکلیف کے باوجود پڑھایا۔ بچے ڈاکٹر بنے۔ ایک کو آئی ٹی میں تعلیم دلوائی۔ اور ایک بیٹی کو فرنچ میں ایم اے کروایا۔ سب بچے اللہ تعالیٰ کے فضل سے اپنے اپنے اچھے کاموں میں لگے ہوئے ہیں۔ ان کے بارے میں اہلِ خانہ لکھتے ہیں کہ جمعہ کی نماز کا خاص طور پر بڑا خیال رکھتے تھے اور یہی وجہ تھی جس نے اولاد میں نماز کی محبت پیدا کی۔ ایک دفعہ ایک بار ان کی اہلیہ بہت بیمار ہو گئیں اور انہیں ہسپتال داخل کروانا پڑا اور جمعہ کا وقت ہو گیا تو یہ سیدھے وہیں سے مسجد چلے گئے۔ یہ نہ سوچا کہ واپس آوٴں گا تو اہلیہ زندہ بھی ہوں گی کہ نہیں۔ وہ کافی شدید بیمار تھیں۔

مکرم محمد اشرف بھلر صاحب

محمد اشرف بھلر صاحب شہید ابن مکرم محمد عبداللہ صاحب۔ شہید مرحوم کے آباوٴ اجداد رَکھ شیخ ضلع لاہور کے رہنے والے تھے۔ ان کے دادا مکرم چوہدری سکندر احمد صاحب احمدی ہوئے تھے۔ چوہدری فتح محمد صاحب سابق نائب امیر ضلع لاہور کے تایا تھے آباوٴ اجداد کی زرعی زمین تھی، کھیتی باڑی کرتے تھے۔ لیکن کچھ عرصے بعد رائے ونڈ میں اینٹوں کا بھٹّہ بنا لیا۔ تعلیم صرف پرائمری تھی۔ 2004ء میں عمرہ کرنے کے لئے بھی گئے اور سب بھائیوں کو جماعتی کام کرنے کی تلقین کرتے تھے۔ شہادت کے وقت ان کی عمر 47سال تھی۔ گھر کے واحد کفیل تھے۔ ماڈل ٹاوٴن کی مسجد میں ان کی شہادت ہوئی۔ جمعہ باقاعدگی سے ادا کرتے تھے۔ سانحہ کے روز بھی مسجد بیت النور کے ہال میں تھے۔ ہال کا چھوٹا دروازہ بند کر کے کمر دروازے کے ساتھ لگا کر اس کے آگے کھڑے ہو گئے۔ دہشت گرد باہر سے زور لگاتا رہا لیکن دروازہ نہیں کھولنے دیا۔ تو دہشت گردنے باہر سے ہی گولیوں کی بوچھاڑ کر دی جس سے ان کی کمر چھلنی ہو گئی اور موقع پر شہید ہو گئے۔ دروازہ توڑنے کے لئے جو گولیوں کی بوچھاڑ کی تو ان کو لگتی رہیں۔ دعوتِ الی اللہ کا بہت شوق تھا۔ اپنے علاقے میں اپنی شرافت اور ایمانداری کی وجہ سے بہت مشہور تھے۔ بعض غیر از جماعت بھی ان کی نمازِ جنازہ میں شامل ہوئے۔ اور 30مئی کو نوائے وقت اخبار میں خبر آئی کہ مولویوں کی طرف سے یہ اعلان ہواکہ جنہوں نے بھی (غیر احمدیوں نے) ان کا جنازہ پڑھا ہے ان کا نکاح ٹوٹ گیا ہے۔ اور یہ خبر ایکسپریس ٹی وی پر بھی چلتی رہی۔ جنازہ پڑھنا تو بڑی بات ہے یہ مولوی تو جنہوں نے تعزیت کی ہے اور ہمدردی کی ہے ان کے بھی نکاح توڑ کے بیٹھے ہوئے ہیں۔ گھر والے کہتے ہیں کہ عمرہ ادا کرنے کے بعد تہجد کی ادائیگی میں بڑے باقاعدہ ہو گئے تھے۔ قرآنِ کریم پڑھنے کی بھی روزانہ تلقین کرتے تھے۔ اپنے بچوں کو بھی کہتے تھے کہ قرآنِ کریم روزانہ پڑھو۔ چاہے ایک لائن پڑھو اور پھر ترجمہ پڑھو، کیونکہ اس کے بغیر کوئی فائدہ نہیں۔

مکرم مبارک احمد طاہر صاحب

مکرم مبارک احمد طاہر صاحب شہید ابن مکرم عبد المجید صاحب شہید لاہور کے رہنے والے تھے۔ ان کی دادی محترمہ قادیان کی تھیں۔ ان کے والد محترم نے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں بیعت کی۔ یہ ایک بینک میں ٹائپسٹ کے طور پر بھرتی ہوئے اور اس سروس کے دوران پہلے بی اے کیا۔ پھر ایم اے کیا۔ اور بینک کے مختلف کورسز بھی کئے اور بینک میں ہی ترقی کرتے کرتے اس وقت نیشنل بنک میں وائس پریذیڈنٹ کے طور پر کام کر رہے تھے۔ اور سینیئر پریذیڈنٹ کی پروموشن بھی ان کی ڈیو (Due) تھی۔ بینک کے بیسٹ ایمپلائی (Best Employee) ہونے کا ان کو کیش پرائز بھی ملا۔ یہ مولانا دوست محمد شاہد مرحوم موٴرخ احمدیت کے داماد تھے۔ شہادت کے وقت ان کی عمر 57سال تھی۔ بطور نائب قائد اور ناظم تعلیم حلقہ دارالذکر خدمت سرانجام دے رہے تھے۔ اللہ کے فضل سے موصی تھے۔ سانحہ والے روز نمازِ جمعہ ادا کرنے کے لئے اپنے دونوں بیٹوں کے ہمراہ مسجد بیت النور ماڈل ٹاوٴن میں آئے اور خود مین ہال میں پیچھے بیٹھ گئے اور دونوں بیٹے دوسرے ہال میں بیٹھ گئے۔ جب دہشتگردنے اپنی کارروائی شروع کی اور مربی صاحب نے دعا کے لئے کہا تو انہوں نے ہاتھ اٹھا کر دعا کرنی شروع کر دی۔ دعا کے دوران ہی ایک گولی ان کے بائیں بازو میں لگی اور دوسری دل کے پاس، جس سے موقع پر ہی ان کی شہادت ہو گئی۔ بہت ہمدرد انسان تھے۔ بینک میں اپنے لیول کے آفیسر سے اتنی دوستی نہیں تھی جتنی کہ ان کی اپنے ماتحت ورکر سے دوستی تھی۔ اپنے گھر میں نماز سینٹر بنایا ہوا تھا۔ اور پہلی منزل صرف نماز سینٹر کے لئے ہی تعمیر کروائی تھی۔ خلافت سے بہت عشق تھا۔ ان کے بیٹے بیان کرتے ہیں کہ جماعتی کام سے واپس آتے ہوئے اگر رات کے تین بج جاتے تو ہمیں کچھ نہیں کہتے تھے۔ لیکن اگر کسی اور کام سے ہم گھر سے باہر جاتے اور عشاء کی نماز سے لیٹ واپسی ہوتی تو بڑی ڈانٹ پڑا کرتی تھی۔ سخاوت ان کی زندگی کا ایک بڑا خُلق تھا۔ لوگوں کو بڑی بڑی چیزیں مفت بھی دے دیا کرتے تھے۔ مربیان سلسلہ سے بہت لگاوٴ ہوتا۔ ان کی بہت عزت کرتے تھے اور مہمان نوازی کرتے تھے۔ جہاں بھی گھر لیا حلقے کا مرکز اور سینٹر اپنے گھر کو ہی بنانے کی کوشش کرتے تھے۔ بہت ملنسار تھے۔

مکرم انیس احمد صاحب

مکرم انیس احمد صاحب شہید ولد مکرم صوبیدار منیر احمد صاحب۔ شہید مرحوم کا خاندان ضلع فیصل آباد سے تھا جہاں سے بعد میں لاہور شفٹ ہو گئے۔ میٹرک کی تعلیم کے بعد کمپیوٹر ہارڈویئر کا کام کرتے تھے۔ گلبرگ میں ان کا آفس تھا۔ شہادت کے وقت ان کی عمر 35سال تھی۔ نظامِ وصیت میں شامل تھے۔ مسجد دارالذکر میں ان کی شہادت ہوئی۔ نمازِ جمعہ کی ادائیگی کے لئے عموماً ماڈل ٹاوٴن جایا کرتے تھے۔ سانحہ کے روز کسی کام سے نکلے اور نمازِ جمعہ کے لئے مسجد دارالذکر چلے گئے۔ اپنے والد صاحب کے ساتھ محراب کے قریب ہی بیٹھے تھے۔ فائرنگ شروع ہو گئی تو والد صاحب نے چھپنے کے لئے کہا تو جواباً کہا کہ آپ چھپ جائیں میں ادھر لوگوں کی مدد کرتا ہوں اور اس دوران دہشتگرد کی گولیوں سے شہید ہو گئے۔ بیوی بچوں سے بہت پیار کرتے تھے۔ اسی طرح والد صاحب کی بہت اطاعت کرتے تھے۔ سسرالی رشتے داروں سے بھی بھائیوں جیسا تعلق تھا۔ خدمتِ خلق کا بہت شوق تھا۔ ایک جگہ کسی احمدی دوست کا ایکسیڈنٹ ہو گیا تو اس وقت فوری طور پر خون نہیں مل رہا تھا اپنا خون بھی دیا اور پھر اس نے علاج کے لئے قرض کے طور پر پانچ ہزار یا جتنے بھی پیسے مانگے تو وہ دے دیے اور قرض واپس بھی نہیں لیا۔ اپنے بیٹے کو باقاعدگی سے قرآن کلاس کے لئے بھجواتے تھے۔ اور جماعتی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔ اس سانحے میں ان کے چھوٹے بھائی مکرم منور احمد صاحب بھی شہید ہو گئے ہیں۔

مکرم منور احمد صاحب

مکرم منور احمد صاحب شہید ابن مکرم صوبیدار منیر احمد صاحب۔ اپنے بھائی کی طرح ان کا تعلق بھی فیصل آباد سے تھا۔ پیدائشی احمدی تھے، لیکن کچھ عرصہ شیعہ عقائد کی طرف مائل رہے، کیونکہ انہوں نے اپنی نانی جو ذاکرہ تھیں، ان کے پاس پرورش پائی تھی۔ پھر یہ ذاکر اور پیر بن گئے تھے۔ اور اسی دوران انہوں نے خواب میں حضرت امام حسین اور حضرت علیؓ کو دیکھا۔ وہ آئے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صداقت کے بارے میں ان کو بتایاتو دوبارہ انہوں نے بیعت کر لی اور بڑے فعال کارکن تھے۔ فطرت نیک تھی۔ اللہ تعالیٰ نے خود ان کی رہنمائی فرما دی۔ احمدیت کا بہت علم تھا، بہت تبلیغ کرتے تھے، انہوں نے بہت ساری بیعتیں بھی کروائیں۔ دعوتِ الی اللہ کے شیدائی تھے۔ بڑے بڑے مولویوں کو لاجواب کر دیتے تھے۔ شہادت کے وقت ان کی عمر 30سال تھی۔ بطور نائب ناظم اصلاح و ارشاد خدمت کی توفیق ملی۔ اللہ کے فضل سے موصی تھے۔ دارالذکر میں ان کی شہادت ہوئی۔ دارالذکر میں نماز جمعہ کے وقت حملے کے وقت یہ بیرونی گیٹ سے فائرنگ کی آواز آئی۔ تو یہ نہایت پھرتی سے کرالنگ (Crawling) کرتے ہوئے باہر نکلے اور جلدی سے واپس آ کر مین ہال کی طرف جانے والے اندرونی گیٹ کوبند کیا اور ہال کے مین گیٹ میں دروازے بند کروائے۔ حملے کے دوران مسلسل فون سے گھر رابطہ رکھا اور اپنے چچا سے دعا کے لئے کہتے رہے اور کہا کہ میں اوپر جا رہا ہوں میرے لئے دعا کریں۔ ایک عینی شاہد دوست نے بتایا کہ حملہ کے شروع میں ہی ہال کے اندر آئے اور زور سے آوازیں دینی شروع کر دیں کہ اگر کسی کے پاس اسلحہ ہے تو مجھے دوکیونکہ دہشتگرد اندر آ گئے ہیں۔ (وہاں لوگ مسجد میں نمازیں پڑھنے آئے تھے، اسلحہ لے کر تو نہیں آئے تھے) اس کے بعد جب اندر فائرنگ سے لوگ زخمی ہوئے اور جب دہشتگرد ہال سے اوپرگئے تو یہ موقع پا کر بڑی پھرتی سے کرالنگ (Crawling)کرتے ہوئے زخمی بزرگان کو پانی پلاتے رہے۔ پولیس اور انتظامیہ یہی اعتراض کر رہی ہے نہ کہ آپ لوگ کیوں نہیں اسلحہ لے کر بیٹھے ہوئے تھے۔ یہ غیر احمدیوں کا مقام ہے کہ وہ لے کر بیٹھ سکتے ہیں لیکن احمدی نہیں۔ یا پولیس بالکل ہاتھ اٹھا لے اور کہہ دے کہ اپنی حفاظت کا خود انتظام کریں۔ بہرحال مسلسل موقع کی تلاش میں رہے کہ دہشتگرد کو پکڑیں۔ بالآخر موقع پا کر نہایت بہادری سے دہشتگرد کو پکڑا جس کی وجہ سے دہشتگردنے اپنے آپ کو دھماکے سے اڑا لیا۔ دھماکے کی وجہ سے یہ بھی شہید ہو گئے۔ ان کو شروع میں معلوم ہو چکا تھا کہ ان کے بھائی مکرم انیس احمد صاحب شہید ہو چکے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود بڑی بہادری سے لوگوں کی مدد کرتے رہے۔ ان کے گھر بڑے عرصے سے باہر منافرت پھیلانے والے اشتہارات اور پوسٹر چسپاں تھے۔ اس سے پہلے بھی غیر از جماعت انتشار پسند ایسی کارروائیاں کرتے رہتے تھے بچوں کے ذریعے سے ہی کام کرواتے ہیں۔ لیکن شہید مرحوم نے پوسٹر لگانے والے بچوں کو بڑے پیار اور اخلاق سے سمجھایا اور بچوں کو اثر بھی ہو گیا ان کو سمجھ بھی آ گئی۔ لیکن پھر وہ بڑوں کے کہنے پر مجبور تھے، لگا جایا کرتے تھے۔ ان کے ناظم اصلاح و ارشاد صاحب ضلع منور احمد صاحب نے بتایا کہ سانحہ سے تقریباً ایک ڈیڑھ ماہ قبل انہوں نے اپنی ایک خواب مجھے بتائی۔ خواب میں ان کی وفات یافتہ والدہ ملی ہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ میں نے تمہارا کمرہ تیار کر لیا ہے، میں تمہیں بلا لوں گی۔ حافظ مظفر احمد صاحب نے لکھا ہے کہ اپنے عزیزوں کو پہلے ہی بتا دیا تھا بلکہ پچھلے سال شادی ہوئی ہے تو اپنی بیوی کو بھی پہلے دن ہی کہہ دیا کہ میں نے تو شہید ہو جانا ہے، اس لئے میرے شہید ہو جانے کے بعد کوئی واویلا نہ کرنا۔

مکرم سعید احمدطاہر صاحب

ایک شہید ہیں مکرم سعید احمدطاہر صاحب ولد مکرم صوفی منیر احمد صاحب۔ ان کا میں آج جنازہ غائب بھی پڑھوں گا۔ شہید مرحوم کے آباوٴ اجداد ضلع کرنال بھارت کے رہنے والے تھے۔ ان کے پڑدادا حضرت رمضان صاحب رضی اللہ عنہ صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام تھے۔ ہجرت کے بعد تخت ہزارہ ضلع سرگودھا میں آباد ہوئے۔ ان کا خاندان لاہور میں مقیم تھا۔ شہادت کے وقت ان کی عمر 37سال تھی۔ مسجد بیت النور ماڈل ٹاوٴن میں شہید ہوئے۔ سانحہ کے روز کام سے سیدھے جمعہ پڑھنے چلے گئے۔ مسجد بیت النور میں ان کے پہنچنے سے پہلے مسجد میں فائرنگ شروع ہو چکی تھی۔ دو دہشتگرد جو موٹر سائیکل پرماڈل ٹاوٴن آئے تھے، اپنی موٹر سائیکل پھینک کر گیٹ پرفائرنگ کرتے ہوئے داخل ہو گئے تھے۔ چند سیکنڈ بعد موٹر سائیکل پھٹ گیا۔ یہ اس کے قریب تھے اس کی وجہ سے ان کو آگ لگ گئی اور جسم جھلس گیا۔ آٹھ دن یہ ہسپتال میں رہے ہیں لیکن جانبر نہ ہو سکے اور 5جون کو جامِ شہادت نوش کیا۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ شہادت سے ایک دن پہلے انہوں نے اپنی بہن کو گاوٴں فون کیا کہ گوشت کی دیگ پکوا کر تقسیم کر دو۔ انہوں نے خواب دیکھی تھی، بہر حال اللہ تعالیٰ کی یہی تقدیر تھی، اور پھر جمعہ والے دن بچوں کو پیار کیا اور جلدی جلدی تیار ہو کر کام کے لئے نکل گئے اور اس کے بعد پھر جمعہ پڑھنے مسجدنور چلے گئے۔ مرحوم کی بیوہ نے چند ڈائریاں دکھائی ہیں جن میں کئی مقامات پر یہ لکھا تھا کہ شہادت میری آرزو ہے۔ انشاء اللہ۔ ڈائری میں ایک اور جگہ تحریر ہے کہ اے اللہ! شہادت نصیب فرما۔ یہ گردن تیری راہ میں کٹے۔ میرے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے تیری راہ میں ہوویں۔ پیارے حبیب کے صدقے میرے مولیٰ میری یہ دعا قبول فرما۔ آمین۔ اللہ تعالیٰ نے دعا قبول بھی کر لی۔ 30 نومبر 2000ء کو انہوں نے ڈائری میں یہ الفاظ لکھے تھے۔ ڈائری میں نمازوں کی ادائیگی، جمعہ کی ادائیگی، خطبہ جمعہ کا مختصر خلاصہ اور نوٹس، چندہ جات کی باقاعدہ ادائیگی کا جا بجا ذکر ملتا ہے۔ اور چونکہ تخت ہزارہ کے رہنے والے تھے، وہاں کچھ سال پہلے چار پانچ شہید ہوئے تھے ان کے لئے دعا کی تحریک کا بھی ذکر ملتا ہے۔ والدین اور رشتے داروں کے حقوق کا بہت خیال رکھتے تھے۔ غرباء کو صدقہ دیتے تھے۔ بہت ہنس مکھ تھے، بہت پیار کرنے والے تھے۔ ماں باپ، بہن بھائی، اہلیہ سب کا خیال رکھتے تھے۔ انہوں نے ایک ڈبہ رکھا ہوا تھا جس میں روزانہ کچھ رقم ڈال دیتے تھے۔ اور جب گاوٴں جاتے تھے تو وہاں مستحقین میں یہ رقم تقسیم کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔ تمام شہداء جو ہیں ان کے درجات بلند فرمائے۔

یہ تمام شہداء قسم قسم کی خوبیوں کے مالک تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کی دعائیں اور ان کی نیک خواہشات اپنے بیوی بچوں اور نسلوں کے لئے قبول فرمائے۔ سب (پسماندگان) کو صبر اور حوصلہ سے یہ صدمہ برداشت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اب یہ ذکرِ خیر تو ابھی آئندہ بھی چلے گا۔

اس کے علاوہ آج کی جنازہ غائب میں ایک اور جنازہ غائب میں پڑھاوٴں گا جو مکرم ڈاکٹر محمد عارف صاحب واقفِ زندگی کا ہے، جو مکرم محمد صادق صاحب ننگلی درویش قادیان کے بیٹے تھے، خود بھی درویش تھے، (مطلب قادیان میں ہی تھے) 13جون 2010ء کو 53سال کی عمر میں ان کی وفات ہو گئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ 30 سال تک مختلف جماعتی عہدوں پر احسن رنگ میں خدمت انجام دیتے رہے۔ ابتدا میں نائب ناظم وقفِ جدید تھے۔ پھر نائب ناظم بیت المال آمد، نائب ناظر نشر و اشاعت رہے۔ 1995ء میں ناظر بیت المال خرچ مقرر ہوئے اور تاوفات اسی عہدے پر فائز رہے۔ اس کے علاوہ آٹھ سال تک ناظر تعلیم کی حیثیت سے بھی خدمت بجا لاتے رہے۔ چھ سال تک صدر مجلس خدام الاحمدیہ بھارت اور پھر نائب صدر مجلس انصار اللہ انڈیا بھی رہے۔ 1993ء میں افسر جلسہ سالانہ قادیان مقرر ہوئے اور نہایت عمدگی سے یہ فریضہ سرانجام دیا۔ 2005ء میں جب مَیں قادیان گیا ہوں تو اس وقت بھی یہی افسر جلسہ سالانہ تھے۔ اور بڑی ہمت اور محنت سے انہوں نے اس سارے نظام کو سنبھالا۔ باوجود اس کے کہ بلڈ پریشر وغیرہ کی وجہ سے ان کی طبیعت میں لگتا تھا کہ کچھ آثار بیماری کے نظر آ رہے ہیں۔ صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب کے دور میں بھی اور ان کے بعد بھی کئی مرتبہ ان کو قائمقام ناظرِ اعلیٰ خدمت کی توفیق ملی۔ اور میاں صاحب کی وفات کے بعد تو میں نے ان کو نائب امیر مقامی بھی مقرر کیا تھا۔ صدر انجمن احمدیہ کے علاوہ انجمن تحریکِ جدید، انجمن وقفِ جدید اور مجلس کارپرداز کے بھی ممبر تھے۔ صدر فنانس کمیٹی تھے۔ اسی طرح نور ہسپتال کی کمیٹی کے صدر تھے۔ مختلف خدمات بجا لاتے رہے۔ انہوں نے اردو میں ایم اے کرنے کے بعد گرو نانک یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی تھی۔ تہجد اور نمازوں کے بڑے پابند، خلافت سے والہانہ محبت رکھنے والے مخلص اور باوفا انسان تھے۔ اکثر سچی خوابیں آیا کرتی تھیں۔ اور انہوں نے اپنی اہلیہ کو بتا دیا تھا کہ لگتا ہے میرا وقت قریب ہے تو اس لئے تیار رہنا۔ پہلے ان کے گردوں اور پھیپھڑوں میں انفیکشن ہو گیا۔ پہلے گردے ان کے خراب ہوئے۔ لمبا عرصہ ڈائیلسز میں رہے۔ پھر گردہ تبدیل بھی ہو گیا لیکن حالت سنبھل نہیں سکی۔ لیکن بڑے صبر اور حوصلے سے بڑی لمبی بیماری انہوں نے کاٹی ہے۔ آخر میں پھیپھڑوں میں انفیکشن ہو گیا۔ میں نے بھی ان کو ہمیشہ جیسا کہ میں نے کہا ہے ہنستے مسکراتے دیکھا ہے۔ 1991ء میں مَیں نے بھی ان کے ساتھ جلسہ سالانہ پر عام کارکن کی حیثیت سے ڈیوٹی دی ہے۔ اس وقت بھی میں دیکھتا تھا، بعد میں اپنے وقت میں بھی میں نے دیکھاکہ خلافت کے لئے ان کی آنکھوں سے بھی ایک خاص محبت اور پیار ٹپکتا تھا۔ بڑی محنت سے ڈیوٹی دیتے تھے۔ اور افسران کے سامنے ہمیشہ موٴدب رہے اور کامل اطاعت کا نمونہ دکھاتے رہے۔ بلکہ بعض دفعہ 1991ء میں ڈیوٹی کے دوران مجھے احساس ہوتا تھا کہ افسر بعض دفعہ ان سے زیادتی کر جاتے ہیں لیکن کبھی ان کے ماتھے پر بل نہیں آیا۔ مسکراتے ہوئے، کامل اطاعت کے ساتھ افسر کا حکم مانتے تھے۔ اور غلطی نہ بھی ہوئی تو یہ نہیں کہا کہ نہیں میں نے یہ کام نہیں کیا۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔

5 جون کو لاہور والوں میں سے جو ایک شہید ہوئے ہیں، اُن کا اور ان کا نمازِ جنازہ غائب جمعہ کے بعد ادا ہو گا۔

(الفضل انٹرنیشنل جلد 17 شمارہ 289 جولائی تا 15 جولائی 2010 صفحہ5 تا 11)


  • خطبہ کا مکمل متن
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 18؍ جون 2010ء شہ سرخیاں

    سانحہ لاہور کے شہداء کے کوئف اور ان کے واقعات کا ذکر

    خطبہ جمعہ فرمودہ 18 جون 2010ء بمطابق 18احسان 1389 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح لندن (برطانیہ)

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور