شہداء سانحہ لاہور کے مختصر کوائف اور ان کے واقعات کا ذکر
خطبہ جمعہ 2؍ جولائی 2010ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
تشہد و تعوذ اور سورة فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
آج بھی لاہور کی مساجد کے شہداء کا ذکرِ خیر ہو گا۔
مکرم عبدالرحمن صاحب
پہلا نام آج کی فہرست میں ہے۔ مکرم عبدالرحمن صاحب شہید ابن مکرم محمد جاوید اسلم صاحب کا۔ شہید مرحوم نے اپنی والدہ، خالہ اور چھوٹی بہن کے ہمراہ اگست 2008ء میں احمدیت قبول کی تھی۔ نومبائع تھے۔ حکمت کے تحت دیگر خاندان میں فوری طور پر اس کا اظہار نہیں کیا۔ شہید مرحوم کا خیال تھا کہ MBBSکی تکمیل کے بعد دیگر تمام رشتے داروں کو بتا دیں گے۔ میڈیکل کی تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ ننھیال کی طرف سے سوائے نانا کے سب احمدی ہیں۔ ان کی نانی محترمہ سعیدہ صاحبہ مرحومہ نہایت ہی مخلص احمدی تھیں۔ بہشتی مقبرہ میں مدفون ہیں۔ نہایت مخالفانہ حالات میں بھی وہ احمدیت سے وابستہ رہیں۔ شہید مرحوم کی عمر شہادت کے وقت اکیس سال تھی اور دارالذکر میں جامِ شہادت نوش فرمایا۔ سانحہ کے روز شہید مرحوم کالج سے نمازِ جمعہ کے لئے سیدھے مسجد دارالذکر پہنچے۔ مسجد کے مین ہال میں بیٹھے تھے تو والدہ کو فون پر بتایا کہ بہت گولیاں چل رہی ہیں، آپ فکر نہ کریں۔ اور ساتھ ہی خالہ زاد بھائی کو فون کر کے کہا کہ اگر میری شہادت ہو جائے تو میری تدفین ربوہ میں کرنا۔ ان کا خیال تھا کہ باقی عزیز رشتہ دار شاید ربوہ لے جانے نہ دیں۔ شہید مرحوم کو تین گولیاں لگیں جس سے شہید ہو گئے۔ ان کے خاندان کے دیگر افراد بھی اس سانحہ میں شہید ہو ئے جن میں ملک عبدالرشید صاحب، ملک انصار الحق صاحب اور ملک زبیر احمد صاحب شامل ہیں۔ سانحہ کے بعد جب دیگر خاندان اور اہلِ محلہ کو علم ہواتو ان کی خالہ کو ان کے شوہر نے گھر سے نکال دیا۔ محلے میں بھی شدید مخالفت شروع ہو گئی۔ دھمکیوں کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو اپنی حفاظت میں رکھے۔ جنازہ کے لئے ان کے گھر میں بہت شور شرابہ ہوااور شہید مرحوم کے خالو جو شدید مخالف ہیں، انہوں نے اور دوسرے رشتے داروں نے مل کر کہا کہ جنازہ یہیں پڑھیں گے۔ اس وقت شہید کی خالہ کھڑی ہو گئیں اور بڑی سختی سے اور بڑی جرأت کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے کہا: نہیں، اس بچے نے فون کیا تھا کہ مجھے ربوہ لے کر جانا۔ ان کی خواہش کے مطابق ان کو ہم ربوہ ہی لے کر جائیں گے۔ شہید مرحوم کے والدنے تاحال بیعت نہیں کی۔ پہلے تو ان کا رویہ سخت تھا مگر اب نسبتاً نرم ہے۔ شہید مرحوم کی والدہ نے شہادت سے پہلے خواب میں مجھے دیکھا کہ مَیں ان کے گھر گیا ہوں۔ ان کی کزن نے خواب میں دیکھا کہ پانچوں خلفاء کی تصاویر لگی ہیں اور ایک راستہ بنا ہوا ہے جس پر لکھا ہوا ہے This is the right way۔ جیسا کہ میں نے بتایا شہید ایم بی بی ایس کر رہے تھے اور پہلے سال کے طالب علم تھے۔ پڑھائی کابڑا شوق تھا۔ بزرگوں کی خدمت کا بڑا شوق تھا۔ ان کی خواہش تھی کہ عملی زندگی میں جب قدم رکھوں تو بے سہارا لوگوں کے لئے اپنی نانی کے نام پر ایک سعیدہ اولڈ ہاوٴس بناوٴں گا۔ ابھی بھی جیسا کہ میں نے کہاان کے خاندان میں اور محلّے میں ان لوگوں کی بڑی سخت مخالفت ہے اور والدہ نے یہ درخواست بھی کی ہے کہ دعا کریں اللہ تعالیٰ ہمیں ثباتِ قدم عطا فرمائے اور ہر شر سے محفوظ رکھے۔ اتنی مخالفت ہے کہ جوجماعتی وفدملنے گیا، جو احمدی لوگ تعزیت کرنے گئے ہیں وہ ان کے گھر بھی نہیں جا سکے تھے۔ شہید مرحوم نے باوجودنو مبائع ہونے کے جو استقامت دکھائی ہے یقیناً یہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے خاص تعلق کی وجہ سے تھی کہ انہوں نے جب مسیح موعود کوپہچانا اور ان کو آپ کا سلام پہنچایا تو اس کے لئے اپنی جان کی بازی لگا دی۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے۔
مکرم نثار احمد صاحب
دوسرا ذکر ہے مکرم نثار احمد صاحب شہیدابن مکرم غلام رسول صاحب کا۔ شہید مرحوم کے آباوٴ اجداد کا تعلق ضلع نارووال سے تھا۔ ان کے دادا حضرت مولوی محمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحابی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام امرتسر کے رہنے والے تھے۔ یہ بیعت کر کے جماعت میں شامل ہوئے۔ شہید مرحوم سترہ سال کی عمر میں لاہور آ گئے اور اشرف بلال صاحب جو اس سانحہ میں شہید ہو گئے ہیں ان کی فیکٹری میں کام شروع کیا، ان کے ساتھ ہی رہے۔ شہادت کے وقت شہید کی عمر 46سال تھی اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے۔ مسجد دارالذکر میں اشرف بلال صاحب کو بچاتے ہوئے انہوں نے جامِ شہادت نوش فرمایا۔ عموماً نمازِ جمعہ دارالذکر میں ہی ادا کرتے اور بچوں کو بھی ساتھ لاتے۔ سانحہ کے روز بھی بچوں کو ساتھ لے کر آئے۔ نمازِ جمعہ سے قبل صدقہ دینا ان کا معمول تھا۔ بچوں کوبھی اس کی تلقین کرتے تھے کہ اس سے ثواب ہوتا ہے۔ سانحہ کے روز بھی صدقہ دیا۔ ایک بیٹے نے کہا کہ میری طرف سے بھی صدقہ دیں۔ انہوں نے کہا کہ بیٹا آپ خود اپنے ہاتھ سے صدقہ دیں۔ بعد میں پتہ چلا کہ بیٹے کی طرف سے بھی ادا شدہ صدقہ کی رسید ان کی جیب میں موجود تھی۔ فائرنگ کے دوران اشرف بلال صاحب جو شدید زخمی ہوگئے، جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں، ان کو بچانے کے لئے ان کے اوپر لیٹ گئے۔ اسی دوران ایک دہشتگردنے گولیوں کی بوچھاڑ ماری جس سے آپ کی کمر چھلنی ہو گئی اور آپ موقع پر شہید ہو گئے۔ شہید مرحوم نے سانحہ سے دس دن قبل خواب میں دیکھا تھا کہ والدین مرحومین سے ملاقات ہوئی ہے۔ والدین کہتے ہیں کہ بیٹا ہمارے پاس ہی آ کر بیٹھ جاوٴ۔ اہلِ خانہ نے بتایا کہ تہجد اور نمازوں میں باقاعدہ تھے۔ شادی کے پچیس سالہ عرصہ میں کبھی سختی سے بات نہیں کی۔ دونوں بچوں کو وقفِ نو کی بابرکت تحریک میں پیش کیا۔ والدین کی وفات سے قبل بھر پور طریقے سے والدین کی خدمت کا موقع ملا۔ خدمتِ خلق کا بہت شوق اور جذبہ تھا۔ احمدیت کے حوالے سے بہت جذباتی تھے۔ اپنے آبائی گاوٴں میں ان کا اکیلا احمدی گھر تھا۔ ایک دفعہ مخالفین نے جلسہ کیا اور لاوٴڈ سپیکر میں جماعت کے خلاف سخت بدزبانی کی۔ رات کا وقت تھا، یہ چپکے سے گھر سے نکلے اور وہاں جا کر ان کو سختی سے کہا کہ یہ بدکلامی بند کرو اور اونچی آواز کو بند کرو اور اگر کوئی بات کرنی ہے تو ہمارے ساتھ بیٹھ کر بات کر لو۔ جس پر مخالفین نے لاوٴڈ سپیکر کی آواز بند کر دی۔ واپس آنے پر اہلیہ نے کہا آپ اکیلے چلے گئے تھے، مخالفین اتنے زیادہ تھے اگر وہ آپ کو مار دیتے تو کیا ہوتا۔ تو جواباً کہا زیادہ سے زیادہ شہید ہو جاتا۔ اس سے اچھا اور کیا تھا؟ لیکن مجھ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے سلسلہ کے خلاف بدزبانی سنی نہیں جا رہی تھی۔
مکرم ڈاکٹر اصغر یعقوب خان
اگلا ذکر ہے مکرم ڈاکٹر اصغر یعقوب خان صاحب شہید ابن مکرم ڈاکٹر محمد یعقوب خان صاحب کا۔ شہید مرحوم صاحب کے والد 1903ء میں بٹالہ میں پیدا ہوئے۔ ان کے دادا حضرت شیخ عبدالرشید خان صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحابی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام تھے۔ ان کے والد اور ان کے نانا حضرت ڈاکٹر محمد ابراہیم صاحب حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے معالج کی حیثیت سے بھی خدمت کی توفیق پاتے رہے۔ شہید مرحوم 25؍اگست 1949کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ ایف ایس سی کے بعد ایم ایس سی بائیو کیمسٹری میں کیااور پھر ایم بی بی ایس کی ڈگریاں لیں۔ بوقتِ شہادت ان کی عمر 60سال تھی۔ مسجد دارالذکر میں جامِ شہادت نوش فرمایا اور ماڈل ٹاوٴن لاہور میں تدفین ہوئی۔ عموماً نمازِ جمعہ کڑک ہاوٴس میں ادا کیا کرتے تھے۔ کبھی کبھی دارالذکر بھی چلے جاتے۔ سانحہ کے روز بیٹے کو کالج چھوڑنے گئے اس کے بعد قریب ہی دارالذکر چلے گئے۔ ایک بج کر چالیس منٹ کے قریب یہ مسجد میں داخل ہوئے۔ اسی دوران گیٹ کے قریب ہی دہشتگردوں کی فائرنگ شروع ہوئی۔ چھاتی اور ٹانگ میں گولیاں لگیں، تھوڑی دیر تک ہوش میں رہے۔ ایمبولینس میں اپنا نام وغیرہ بتایا تاہم ہسپتال لے جاتے ہوئے راستے میں شہید ہو گئے۔ اہلِ خانہ نے بتایا کہ حقیقی معنوں میں انسانیت کی خدمت کرنے والے تھے۔ کبھی کسی امیر و غریب میں فرق نہیں کیا۔ سب سے ایک جیسا ہمدردانہ سلوک کرتے تھے۔ مریضوں کے لئے کوئی وقت مقرر نہیں ہوتا تھا۔ جب بھی کوئی ضرورتمند آ جاتا آپ خدمت کے لئے تیار ہوتے اور ہمیشہ ہر ایک کے ساتھ ہمدردی سے پیش آتے۔ شہید مرحوم کے ایک عزیزنے سانحہ سے ایک روز قبل خواب میں دیکھا تھا کہ میرے والد ڈاکٹروسیم صاحب قبر کھود رہے ہیں اور ساتھ روتے ہیں کہ میرے کسی عزیز کی قبر ہے۔ خدا تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔
مکرم میاں محمد سعید دردصاحب
اگلا ذکر ہے مکرم میاں محمد سعید دردصاحب شہیدابن مکرم حضرت میاں محمد یوسف صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا۔ شہید مرحوم کے آباوٴ اجداد گجرات کے رہنے والے تھے۔ پھر قادیان شفٹ ہو گئے۔ ان کے والد حضرت میاں محمد یوسف صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور دادا حضرت ہدایت اللہ صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحابی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام تھے اور انہوں نے 1900ء میں بیعت کی تھی۔ شہید مرحوم کے والد صاحب پارٹیشن تک حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پرائیویٹ سیکرٹری بھی رہے۔ اس کے علاوہ نائب امیر ضلع لاہور بھی رہے۔ شہید مرحوم 1930ء میں گجرات میں پیدا ہوئے۔ پیدائش کے بعد گھر والے قادیان شفٹ ہو گئے چنانچہ آپ نے ابتدائی تعلیم قادیان میں حاصل کی۔ مولوی فاضل پاس کرنے کے بعد بی اے کیا اور بعد میں نیشنل بینک میں ملازمت اختیار کی جہاں سے 1970ء میں مینجر کے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔ زندگی میں چھ مرتبہ حج اور متعدد بار عمرہ کرنے کی سعادت بھی ملی۔ شہادت کے وقت ان کی عمر 80سال تھی۔ مسجد بیت النور ماڈل ٹاوٴن میں جامِ شہادت نوش فرمایا۔ قریباً ایک بجے بیت النور ماڈل ٹاوٴن پہنچ گئے۔ جنرل ناصر صاحب کے ساتھ ویل چیئر پر بیٹھے تھے۔ دو گولیاں ٹانگ میں اور ایک بازو میں لگی۔ شدید زخمی حالت میں ہسپتال لے جایا گیا جہاں اڑھائی گھنٹے آپریشن جاری رہا لیکن جانبر نہ ہو سکے اور جامِ شہادت نوش فرمایا۔ اہلِ خانہ نے بتایا کہ بہت دعا گو انسان تھے۔ کبھی کسی سے شکوہ نہیں کیا۔ ہمیشہ صبر کی تلقین کرتے۔ نہایت مہمان نواز تھے۔ باوجود بڑھاپے کے ہر ایک سے کھڑے ہو کر ملتے تھے۔ بچوں کو نصیحت کی کہ اپنا دستر خوان ہر ایک کے لئے کھلا رکھنا۔ اتنی عمر کے باوجود سارے روزے رکھتے تھے۔ 1969ء سے ہر سال اعتکاف بیٹھا کرتے تھے۔ صرف گزشتہ دو سال سے بچوں کے اصرار کی وجہ سے اعتکاف نہیں بیٹھے۔ بیت النور ماڈل ٹاوٴن کے سنگِ بنیاد کے وقت حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ شہید مرحوم کے والد صاحب کو بھی بنیاد میں اینٹ رکھنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ اکثر بیٹھے بیٹھے رونے لگ جاتے تھے اور کہتے تھے کہ میں اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے اتنی نعمتیں مجھے دی ہیں۔ شہادت سے چند دن پہلے نائب امیر صاحب ضلع لاہور ان سے ملنے آئے تو ان سے کہا کہ یہ میری آپ سے آخری ملاقات ہے۔ جب تک نظر ٹھیک رہی بچوں کو قرآنِ کریم پڑھاتے رہے۔ آخری وقت تک دیگر احباب سے چندہ وصول کرنے کے لئے خود پیدل جاتے اور کہتے کہ میں اگر اس غرض سے ایک قدم بھی چلوں گا تو سو قدم کا ثواب ملے گا۔ بیت النور میں حصولِ ثواب کی خاطر اکثر پیدل جاتے تھے۔ ان کی شہادت کے بعد ان کے میز پر دعائیہ خزائن کی کتاب کھلی ملی ہے جو کہ الٹی رکھی ہوئی تھی۔ ان کے اہلِ خانہ کہتے ہیں عموماًپہلے نہیں ہوتی تھی اور جو صفحہ کھلا ہواتھا اس پر الوداع کہنے کی دعا اور بلندی پر چڑھنے کی دعا تحریر تھی۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔
مکرم محمد یحییٰ خان صاحب
اگلا ذکرہے مکرم محمد یحییٰ خان صاحب شہید ابن مکرم ملک محمد عبد اللہ صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا۔ شہید مرحوم کے والد حضرت ملک محمد عبداللہ صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور دادا حضرت برکت علی صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحابی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام تھے۔ حضرت مولانا عبد الرحمن صاحب جٹ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سابق ناظرِ اعلیٰ قادیان (بھارت) ان کے چچا تھے۔ شہید مرحوم 1933ء میں قادیان میں پیدا ہوئے۔ ان کی اپنی زندگی بھی ایک معجزہ تھی۔ ان کے بڑے بھائی اور ان کی عمر میں 18سال کا فرق تھا کیونکہ درمیان کی ساری اولاد چار سے پانچ سال کی عمر میں فوت ہو گئی اور ان کی صحت بھی چار پانچ سال کی عمر میں خراب ہو گئی۔ ان کی والدہ صاحبہ ان کو لے کر حضرت اماں جان رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس گئیں۔ حضرت اماں جان رضی اللہ تعالیٰ عنہا ان کو لے کر حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس گئیں۔ ان کی والدہ نے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پنجابی میں عرض کیا کہ‘‘حضور اے وی جا ریا جے’’ (کہ حضور یہ بھی جا رہا ہے)۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ کو (اس بچے کو) گود میں لے لیا اور آپ کا نام شریف احمد سے بدل کر محمد یحییٰ رکھ دیا۔ حضور رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ان دعاؤں کے طفیل آپ نے نہ صرف لمبی عمر پائی بلکہ شہید ہو کر ابدی حیات پا گئے۔ پارٹیشن کے بعد فیصل آباد آگئے۔ ہجرت سے قبل ان کی ڈیوٹی مینارة المسیح قادیان پر ہوتی تھی۔ یہ دوربین لگا کر ارد گرد کے ماحول کی نگرانی کیا کرتے تھے۔ سول انجینئرنگ کے بعد مختلف جگہوں پر تعینات رہے۔ 1981-1982ء میں بسلسلہ ملازمت عراق چلے گئے جہاں ان کو جماعت کو Establish کرنے کا موقع بھی ملا۔ بوقت شہادت ان کی عمر77سال تھی۔ بیت النور ماڈل ٹاؤن میں جام شہادت نوش فرمایا۔ سانحہ کے دوران مسجد کے مین ہال میں کرسیوں پر پہلی رو میں بیٹھے تھے کہ اچانک فائرنگ شروع ہو گئی۔ کسی دوست نے کہا کہ آپ پیچھے چلے جائیں تو کہا کہ گھبراؤنہیں اللہ یہیں فضل کرے گا۔ اس کے بعد عہد یداران کی ہدایت پر دیوار کے ساتھ نیچے بیٹھ گئے۔ اسی دوران دہشت گردنے گرنیڈ پھینکے جن میں سے ایک گرنیڈ کے پھٹنے سے ان کے سر کا پچھلا حصہ زخمی ہو گیا جس سے موقع پر ہی شہید ہوگئے۔ ان کے دو بیٹے دارالذکر میں ڈیوٹی پر تھے جو کہ رات 12بجے تک ریسکیو کا کام کرتے رہے۔ حالانکہ ان کو والد صاحب کی شہادت کی اطلاع مل چکی تھی۔ اہل خانہ نے بتایا کہ شہید مرحوم انتہائی حلیم طبیعت کے مالک تھے۔ کبھی غصے میں نہیں دیکھا۔ جماعتی کاموں میں غیرت تھی۔ بچوں کو جماعتی کاموں اور نمازوں میں کوتاہی کی صورت میں معافی نہیں ملتی تھی۔ عرصہ دراز تک سیکرٹری تعلیم القرآن رہے۔ لوگوں کو گھروں میں جا جا کر قرآن کریم کی تعلیم دی۔ یہ لوگ آپ کی شہادت پر زارو قطار روتے ہوئے ملے کہ ان کا یہ احسان ہماری نسلیں کبھی نہیں بھلا سکتیں۔ عزیزو اقارب اور دیگر رشتہ داروں کی ہمیشہ مشکل حالات میں مدد کی اور ان کو سپورٹ کیا۔ جو بھی آپ کو پنشن ملتی تھی وہ سار ی کی ساری غریبوں پر ہی خرچ کر دیتے تھے۔ نماز ظہر و عصر گھر میں باجماعت ادا کرتے اور باقی تین نمازیں مسجد میں جاکر ادا کرتے تھے۔ کبھی تہجدنہیں چھوڑی۔ داماد اور بیٹے میں کبھی فرق نہیں کیا۔ بہوؤں کواپنی بیٹی سمجھا۔ سانحہ سے ایک جمعہ قبل تین نئے سفید سوٹ سلوائے دونوں بیٹوں نے اپنے اپنے سوٹ پہن لئے۔ جب شہید مرحوم کو کہا گیاکہ تیسرا سوٹ آپ پہن لیں تو انہوں نے کہا کہ نہیں میں اگلے جمعہ پہنوں گا۔ کچھ عرصہ قبل آپ کی بیٹی نے خواب میں دیکھا کہ کوئی تہہ خانے والی بلڈنگ ہے جس میں میڈل تقسیم کیے جا رہے ہیں۔ ان میں میرے والد صاحب بھی شامل ہیں۔ خواب میں ہی کوئی شخص کہتا ہے کہ یہ میڈل ان کو دیئے جا رہے ہیں جنہوں نے کوئی خاص کارنامہ سرانجام دیا ہے۔ مطالعہ کا بے حد شوق تھا۔ ان کی اپنی لائبریری تھی جس میں ہزاروں کتابیں موجودتھیں۔ ان کے ایک بیٹے خالد محمود صاحب واقفِ زندگی ہیں اور تحریکِ جدید کی سندھ کی زمینوں میں مینجر ہیں۔ اللہ تعالیٰ شہید مرحوم کے درجات بلند فرمائے۔
مکرم ڈاکٹر عمر احمد صاحب
اگلا ذکر ہے مکرم ڈاکٹر عمر احمد صاحب شہید ابن مکرم ڈاکٹر عبدالشکور میاں صاحب کا۔ شہید مرحوم کے دادا چوہدری عبدالستار صاحب نے 1921ء یا 22ء میں بیعت کی تھی۔ ان کے ننھیال گورداسپور جبکہ ددھیال میاں چنّوں کے رہنے والے تھے۔ ان کے والد صاحب کے خالو حضرت مولوی محمد دین صاحب لمبا عرصہ صدر، صدر انجمن احمدیہ رہے ہیں۔ تعلیم الاسلام ہائی سکول کے ہیڈ ماسٹر بھی رہے ہیں۔ اسی طرح مولانا رحمت علی صاحب مبلغ انڈونیشیا اور چوہدری احمد جان صاحب سابق امیر ضلع راولپنڈی ان کے والد کے خالو تھے۔ حضرت منشی عبدالعزیز صاحب اوجلوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کے والد کے نانا تھے۔
شہید مرحوم جولائی 1979ء میں لاہور میں پیدا ہوئے۔ ایم ایس سی آنر زمائیکرو بیالوجی کرنے کے بعد سترہ گریڈ کے ویٹرنری آفیسر تعینات ہوئے۔ بوقتِ شہادت ان کی عمر اکتیس برس تھی۔ نظامِ وصیت میں شامل تھے۔ مسجد دارالذکر میں شدید زخمی ہوئے۔ ہسپتال میں زیرِ علاج رہے اور بعد میں شہید ہوئے۔ سانحہ کے روز ملازمت سے ہی نمازِ جمعہ ادا کرنے دارالذکر پہنچے۔ ابھی وضو کر رہے تھے کہ فائرنگ شروع ہو گئی۔ لفٹ کے پاس کھڑے تھے کہ دہشتگرد کی دو تین گولیاں ان کے گردوں کو چھلنی کرتی ہوئیں نکل گئیں۔ شدید زخمی حالت میں ہسپتال لے جایا گیا۔ جہاں ان کے چار آپریشنز ہوئے۔ ایک گردہ بالکل ختم ہو چکا تھااسے نکال دیا گیا۔ علاج کی پوری کوشش کی گئی۔ ستّر بوتلیں خون کی دی گئیں لیکن جانبر نہ ہو سکے اور موٴرخہ 4 جون کو جامِ شہادت نوش فرمایا۔ اہلِ خانہ نے بتایا کہ شہید مرحوم بہت کم گو اور ملنسار انسان تھے۔ کبھی کسی نے بھی ان کے بارے میں شکایت نہیں کی۔ نماز کے پابند تھے۔ ہر جمعرات کو اپنے مسجد کے حلقہ کے وقارِ عمل میں حصہ لیا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔
مکرم لعل خان صاحب ناصر
اگلا ذکر ہے مکرم لعل خان صاحب ناصر شہید ابن مکرم حاجی احمد صاحب کا۔ شہید مرحوم ادرحماں ضلع سرگودھا کے رہنے والے تھے۔ ان کے دادا نے اپنے خاندان میں سب سے پہلے بیعت کی تھی۔ بچپن میں شہید مرحوم کے والد وفات پا گئے تھے۔ والدہ بھی 1995ء میں وفات پا گئیں۔ ابتدائی تعلیم کے بعد ربوہ آ گئے تھے۔ بی۔ اے تک تعلیم حاصل کی جس کے بعد بسلسلہ ملازمت کچھ عرصہ کے لئے کراچی چلے گئے۔ بعد میں تربیلا میں ملازمت مل گئی۔ اس وقت گریڈ سترہ کے بجٹ اکاوٴنٹ آفیسر تھے اور گریڈ اٹھارہ ملنے والا تھا۔ دورانِ ملازمت ملتان اور وہاڑی میں بھی بھر پور جماعتی خدمات کا موقع ملا۔ اس کے علاوہ مظفر گڑھ میں پہلے قائد ضلع اور پھر امیر ضلع مظفر گڑھ کی حیثیت سے بھی خدمت سرانجام دیتے رہے۔ بوقتِ شہادت ان کی عمر52سال تھی اور نظامِ وصیت میں شامل تھے۔ مسجد بیت النور ماڈل ٹاوٴن میں شہادت کا رتبہ پایا۔ مسجد بیت النور کے دوسرے ہال میں بیٹھے تھے۔ دہشتگردوں کے آنے پر آپ نے بھاگ کر دروازہ بند کیا اور احبابِ جماعت سے کہا کہ آہستہ آہستہ ایک طرف ہو جائیں۔ اسی دوران دروازے میں سے دہشتگردنے گن کی نالی اندر کر کے فائر کئے جو آپ کے سینے میں لگے اور موقع پر ہی شہید ہو گئے۔ ان کی اہلیہ محترمہ نے بتایا کہ سانحہ سے ایک روز قبل شہید مرحوم غالباً کوئی خواب دیکھتے ہوئے ایک دم ہڑ بڑا کے اٹھ گئے تھے۔ میں نے پوچھا کہ کیا ہوا؟ کوئی ڈراوٴنا خواب دیکھا ہے؟ تو خاموش رہے۔ تاہم اٹھ کر بچوں کو دیکھا لیکن خواب نہیں سنائی۔ بڑے بیٹے نے بتایا کہ تدفین سے اگلے روز غیر از جماعت لڑکوں کے گالیوں بھرے ایس ایم ایس (SMS) آتے رہے۔ یہ ان کی اخلاقی حالت کا حال ہے۔ لڑکے نے بتایاکہ میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک کالی سکرین ہے جس پر سفید الفاظ لکھے آ رہے ہیں اور ساتھ ہی ابو شہید کی آواز آتی ہے کہ ignore کرو سب کو، خوش قسمت ہیں وہ لوگ جنہوں نے قربانی دی۔ شہید مرحوم کے ایک عزیز نے شہادت کے بعد خواب میں دیکھا کہ ہرے بھرے گراوٴنڈ میں ٹہل رہے ہیں۔ ایک ہاتھ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب ہے اور دوسرے ہاتھ میں سیب ہے جو کھا رہے ہیں۔ بروز جمعہ شہید مرحوم نے نماز سینٹر جا کر باجماعت تہجد پڑھائی اور رو رو کر اللہ تعالیٰ کے حضور دعائیں کیں۔ پھر اس کے بعدنمازِ فجر پڑھائی تو آخری سجدہ بہت لمبا کیا۔ اہلِ خانہ نے بتایا کہ وقفِ عارضی کا بہت شوق تھا۔ وقفِ نو کی کلاسز بہت دلجمعی سے لیتے تھے۔ فرداً فرداً بچوں کو وقت دے کر جائزہ لیا کرتے تھے۔ گھر میں ایک عیسائی بچی ملازمہ تھی، اس کے تعلیمی اخراجات بھی برداشت کئے۔ اس کو جہیز بنا کر دیا اور بعد میں اس کی شادی کی۔ ان کی اہلیہ لکھتی ہیں کہ عینی شاہدنے بتایا کہ لعل خان صاحب دہشتگردی کا واقعہ ہوا تو فوراً اپنے ہی حلقہ کے انصار بھائی کے ساتھ مسجد کی چھت پر چلے گئے۔ جب اس فائر کرنے والے درندہ صفت کی بندوق کی گولیاں ختم ہو گئیں تو دوبارہ گولیاں بھرنے لگ گیا۔ تب تھوڑی دیر کے لئے خاموشی ہوئی تو چھت پر جانے والے تمام افرادنے یہ سمجھا کہ حالات قابو میں آ گئے ہیں۔ چنانچہ وہ فوراً نیچے آ گئے۔ اتنی دیر میں اس نے اپنی بندوق پھر لوڈ کر لی۔ خان صاحب اپنے ہاتھ اپنے ساتھیوں سے چھڑا کر بھاگ کر ہال کے پچھلے دروازے کو بند کر کے دروازے کے آگے سینہ تان کر کھڑے ہوگئے اور باقی نمازیوں سے کہنے لگے کہ آپ درود شریف کا ورد کرتے ہوئے جلدی جلدی محفوظ جگہوں پر چلے جائیں۔ تقریباً پونے دو بجے تک وہ خیریت سے تھے۔ اور دہشتگردنے جب دروازہ بند کرتے دیکھا تو فوراً بھاگ کر دروازے پر پہنچا اور دروازہ کھولنے کے لئے دھکا دینے لگا۔ انہوں نے مضبوطی سے تھامے رکھا۔ اور اس دوران جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے اس نے نالی اندر کی اور فائر کر دیا۔ اس دوران ان کے دواور ساتھی بھی شہید ہو گئے۔ ان تینوں کی شہادت سے اس عرصے میں جو دہشتگرد کے ساتھ زور آزمائی ہو رہی تھی، ہال خالی ہو چکا تھا اور باقی نمازی محفوظ جگہوں پر چلے گئے۔ ان کی اہلیہ کہتی ہیں کہ میرے میاں ایک فرشتہ صفت انسان تھے، ہر وقت جماعت کی خدمت کی فکرتھی۔ جوں ہی جماعت کی طرف سے کوئی اطلاع آتی تو فوراً عمل کرتے۔ اپنے حلقہ پنجاب سوسائٹی کے زعیم انصار اللہ، سیکرٹری تربیت نو مبائعین، سیکرٹری رشتہ ناطہ تھے۔ وقفِ عارضی بہت شوق سے کرتے تھے۔ شہادت سے پندرہ دن پہلے ان کی وقفِ عارضی مکمل ہوئی تھی۔ وقفِ عارضی کے لئے انہوں نے عصر سے لے کرنمازِ عشاء کا ٹائم وقف کیا ہوا تھا۔ عصر سے مغرب تک واپڈا ٹاوٴن کے بچوں سے قرآنِ مجید، نماز باترجمہ اور نصاب وقفِ نو میں سے سورتیں وغیرہ سنتے۔ اگر کسی بچے کا تلفظ درست نہ ہوتا تو اس کا تلفظ درست کرواتے۔ اور نماز مغرب کے بعد NESS پارک سوسائٹی میں آ جاتے۔ نمازِ عشاء تک وہاں کے بچوں کو پڑھاتے۔ بچوں کے دلوں میں جماعت کی محبت، خلیفہ وقت کی محبت اور اطاعت کا شوق پیدا کرنے والے واقعات سناتے۔ میرے میاں کی شہادت کے بعد تمام بچے سوگوار تھے اور یہی کہتے کہ انکل تو ہمارے فیورٹ (Favourite) انکل تھے۔ ہمیں انہوں نے بہت کچھ سکھایا۔ ہر وقت زبان پر درود شریف اور خلافت جوبلی کی دعائیں ہوتی تھیں۔ گھر میں ہم سب کو بھی درود شریف اور خلافت جوبلی کی دعائیں پڑھنے کی تلقین کرتے رہتے تھے۔ اول وقت میں نماز پڑھنے کے عادی تھے اور اہلِ خانہ کو بھی اس کا عادی بنایا۔ ان کے ایک اور واقف نے لکھا ہے کہ 1998ء سے 2001ء تک مظفر گڑھ کے امیر ضلع رہے۔ آپ کو جماعت کے افراد کی تربیت کا بڑا فکر ہوتا تھا۔ آغاز اپنے گھر سے کرتے تھے۔ لوگوں کے عائلی معاملات میں صلح و صفائی کی کوشش کرتے۔ ایک دفعہ شہر سلطان، (یہ وہاں جگہ کا نام ہے) میں عائلی معاملہ پیش تھا۔ آپ نے فریقین کے حالات و واقعات سنے اور دیگر افراد سے بھی تصدیق چاہی۔ دونوں خاندانوں کو سمجھایا۔ اس وقت آپ کی آنکھوں میں آنسو تھے اور بار بار یہ نصیحت کرتے تھے کہ آپ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت سے ہیں۔ آپ کوشش کریں کہ اپنے گلے شکوے دور کر کے پھر اکٹھے ہو جائیں اور ناراضگی جانے دیں۔ عاجزی اور انکساری کمال کی تھی۔ کوئی معاملہ درپیش ہوتا تو مجلسِ عاملہ کے اراکین کے سامنے رکھتے اور ان سے رائے لیتے۔ آپ میں کمال کی ستّاری دیکھی۔ کسی سے کوئی لغزش ہو جاتی تو اس کے لئے دعا بھی کرتے۔ مرکز کو حالات لکھتے اور حالات سے آگاہ رکھتے اور اگر اصلاح دیکھتے تو اس کی اطلاع بھی مرکز کو کرتے۔ جب تک یہ امیر ضلع رہے جماعت کے لئے ایک پُرشفقت باپ کا کردار ادا کیا۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔
مکرم ظفر اقبال صاحب
اگلا ذکر ہے مکرم ظفر اقبال صاحب شہید ابن مکرم محمد صادق صاحب کا۔ شہید مرحوم عارف والا ضلع لیّہ کے رہنے والے تھے۔ ابتدائی تعلیم عارف والا میں حاصل کرنے کے بعد لاہور شفٹ ہو گئے۔ بی اے تک تعلیم لاہور میں حاصل کی۔ اس کے بعد سعودی عرب چلے گئے۔ جہاں قیام کے دوران پانچ بار حج کرنے کی سعادت ملی۔ پاکستان واپس آنے پر ٹرانسپورٹ لائن اختیار کی اور شہادت تک اسی سے وابستہ رہے۔ ایک سال قبل مع فیملی بیعت کر کے جماعت میں شمولیت اختیار کی۔ بوقتِ شہادت ان کی عمر 59برس تھی۔ دارالذکر میں جامِ شہادت نوش فرمایا۔ شہید مرحوم باقاعدگی سے تہجد کی ادائیگی کے لئے اٹھتے اور نمازِ فجر ادا کرنے کے بعد کام کے سلسلے میں سات بجے گھر سے نکلتے۔ 28مئی سانحہ کے دن نمازِ تہجد ادا کرنے کے بعد تلاوت کی اور نمازِ فجر ادا کرنے کے بعدناشتہ کر کے کام کے لئے گھر سے نکلے۔ کام سے فارغ ہو کر مسجد دارالذکر پہنچے۔ سانحہ کے دوران مسلسل بیٹے سے فون پر بات ہوتی رہی۔ کہا کہ ہم چھپے ہوئے ہیں۔ لیکن کہاں چھپے ہوئے تھے یہ نہیں بتایا اور بتایا کہ فائرنگ بہت ہو رہی ہے، آپ دعا کریں۔ اللہ خود ہی ہماری مدد کرے گا۔ پھر بیٹی سے بھی بات کی تو یہی کہا کہ دعا کریں۔ پھر بار بار فون کرنے سے منع کر دیا۔ دہشتگردوں کی فائرنگ کے دوران ایک گولی آپ کے کندھے پر لگی۔ مین گیٹ کے قریب ان کی لاش پڑی ہوئی تھی جس سے یہ اندازہ لگایا گیا کہ جب وہ آپریشن مکمل ہونے کی غلط خبر پھیلی تو یہ باہر نکل کر آئے ہیں اور مینار پر موجود دہشتگردنے ان پر فائرنگ کر دی جس کے نتیجے میں گولی ان کے کندھے میں لگی جو ترچھی ہو کر دل کی طرف چلی گئی۔ اس کے بعد جب ان کو اٹھا کر ایمبولینس میں ڈالا گیا تب تک ان کی نبض چل رہی تھی۔ طبی امداد دینے کی کوشش کی گئی لیکن جانبر نہ ہو سکے اور جامِ شہادت نوش فرمایا۔
شہید مرحوم کی اہلیہ بیان کرتی ہیں کہ مَیں اپنے تأثرات لفظوں میں بیان کرنے سے قاصر ہوں۔ لیکن میرا ایمان اس قدر پختہ ہو گیا ہے کہ خدا تعالیٰ نیتوں کا حال جانتا ہے اور وہ جو بھی اپنے بندے کے لئے کرتا ہے وہ انسان کی سوچ سے بھی بہت بڑھ کر ہوتا ہے۔ خدا تعالیٰ نے میرے میاں کو شہید کا جو رتبہ دیا ہے وہ اصل میں اس کے حق دار تھے اور مجھے اس پر فخر ہے۔ میری ساری اولاد بھی احمدیت کے لئے قربان ہو جائے تو مجھے رَتّی بھر بھی ملال نہیں ہو گا بلکہ میں خدا کی بے انتہا شکر گزار ہوں گی۔ شہید مرحوم کے بیٹے نے بتایا کہ ابّو کی شہادت سے چند روز قبل میرے ماموں طاہر محمود صاحب نے خواب دیکھا اور جب فجر کی نماز کے لئے بیدار ہوئے تو بتایا کہ مجھے خواب تو یادنہیں، بس ایک جملہ یاد رہا ہے‘‘پہاڑوں کے پیچھے چھوڑ آئے’’اور جب ہم ابو شہید کو ربوہ ہمیشہ کے لئے چھوڑنے جا رہے تھے تو پہاڑوں میں گھری اس وادی کو دیکھتے ہوئے انہوں نے اپنا خواب بیان کیا۔ پہلی دفعہ ربوہ گئے تھے اور پھر ہمیشہ کے لئے وہیں رہ گئے۔ بیٹے نے مزید بتایا کہ ابو ابتدا میں تو جماعت کے شدید مخالف تھے لیکن پھر خدا تعالیٰ نے ایسا فضل فرمایا کہ سچے دل سے احمدیت قبول کی اور اخلاص، تقویٰ اور ایمانداری میں اس قدر بڑھ گئے کہ بیعت کے صرف ایک سال بعد ہی شہادت کا بلند مرتبہ پایا۔ ایک سال میں ہی جماعت سے بے پناہ لگاوٴ ہو گیا تھا۔ ڈش انٹینا لگوا کر ایم ٹی اے بڑے شوق سے سنتے تھے۔ کس طرح بیعت کی؟یہ بھی ان کی عجیب کہانی ہے۔ اس کا ذکر آگے آتا ہے۔ ان کے ملنے والے نے ایک خط میں ذکر کیاہے کہ سانحہ لاہور میں ایک ایسے وجودنے بھی جامِ شہادت نوش کیا جس کو بیعت کی توفیق تو اللہ تعالیٰ نے گزشتہ سال ہی عطا فرمائی تھی لیکن اس تھوڑے سے عرصہ ہی میں ان کو خلافت سے اتنی محبت ہو گئی تھی کہ جب بھی وہ ایم ٹی اے پر میرا کوئی پروگرام دیکھتے تھے، تو چہرے کو زوم (Zoom) کر کے سکرین پر لے آتے تھے اور جماعت سے اتنا گہرا تعلق ہو گیا تھا کہ ہمیشہ دارالذکر میں ہی جا کر جمعہ پڑھتے تھے۔ اور باوجود یہ کہ قریب ہی مسجد تھی، کہتے تھے کہ مجھے وہیں جانا ہے۔ کچھ دن پہلے تلاوت کے کسی مقابلے میں حصہ لیا اور پہلا انعام حاصل کیا اور انعام میں ایک جائے نماز ملی جس پر بہت خوش تھے۔ یہ ان کی بیوی کے بھائی کا خط ہے۔ کہتے ہیں کہ خاکسار کے بہت مخلص، سادہ طبیعت اور پیارے بہنوئی کی یہ باتیں خاکسار کی ہمشیرہ نے ان کی شہادت کے بعد بتائیں۔ میرے بہنوئی اپنے خاندان کے پہلے احمدی تھے۔ ان کے رشتے داروں کی طرف سے مخالفت تھی۔ بہت زیادہ ہنس مکھ اور ہر کسی کا خیال رکھنے والے تھے۔ ہر کسی کے غم یا خوشی میں سب سے آگے ہوتے تھے۔ ان کی اہلیہ کہتی ہیں کہ مارچ 2009ء میں بیعت کی تھی۔ مَیں پیدائشی احمدی ہوں اور میرے بچوں اور میاں نے اکٹھے بیعت کی تھی۔ میری شادی کے بعد احمدیت کے بہت بڑے مخالف تھے بلکہ پورا سسرال ہی مخالف تھا لیکن ظفر صاحب تب بھی نماز کے بہت پابند اور بہت اچھے اخلاق کے مالک تھے۔ دس سال تک سعودی عرب رہے۔ ماشاء اللہ پانچ حج اور لاتعداد عمرے کئے۔ 1986ء میں پھر سے پاکستان آ گئے۔ احمدیت میں آنے سے پہلے بھی بحیثیت شوہر کے انتہائی پیار کرنے والے شوہر اور باپ تھے۔ اپنے بچوں کے علاوہ دوسرے بچوں سے بھی بے حد پیار کرتے تھے۔ احمدیت میں آنے کے بعد پہلے سے بھی زیادہ نمازوں کی پابندی اور تہجد کی پابندی کرنے لگے۔ کتابیں پڑھنے کا زیادہ شوق نہیں تھا لیکن بیعت کرنے کے بعد سونے سے پہلے اکثر مجھے کہتے کہ مسیح موعود علیہ السلام کی کوئی کتاب پڑھ کر سناوٴ، یا خود پڑھ کر سوتے تھے۔ ایک دو ماہ پہلے ہم سب گھر والوں نے نوٹ کیا تھا، احمدیت سے بہت زیادہ وابستہ ہو گئے تھے۔ انصار اللہ کی کوئی بھی تقریب ہوتی تو ضرور شرکت کرتے اور ہمیشہ سب سے آگے بیٹھے ہوتے۔ ان کے بیٹے نے کہا کہ انہوں نے مجھے مسجد سے فون کیا لیکن مَیں مصروف تھا تو مَیں نے فون ریسیو نہیں کیا۔ پھر مجھے پتہ لگا کہ مسجد میں اس طرح فساد ہو رہا ہے۔ جب میں گھر آیا تو میں نے ان کو فون کیا۔ انہوں نے مجھے بھی کہا کہ یہاں بہت فائرنگ ہو رہی ہے، آپ ہمارے لئے بہت دعا کریں۔ میں نے کہا کہ ابّو جی اپنا خیال رکھنا۔ اس وقت بھی انہوں نے ہنس کر جواب دیا کہ کیا خیال رکھوں، خیال تو اللہ میاں نے رکھنا ہے، آپ بس دعائیں کریں۔ احمدیت قبول کرنے سے پہلے، ان کی اہلیہ تو احمدی تھیں، بیٹا کہتا ہے کہ اگر میری ماں کو کبھی جماعت کا لٹریچر پڑھتے دیکھ لیتے تھے تو بہت غصہ آتا اور انہوں نے میری ماں کو سختی سے کہہ دیا تھا کہ یہاں احمدیوں کی کوئی کتاب نظر نہیں آنی چاہئے۔ پھر ایک دفعہ احمدی رشتے داروں کے پاس ملتان گئے۔ کہتے ہیں کہ میری ممانی بتاتی ہیں کہ وہاں انہوں نے گلشنِ وقفِ نو کا پروگرام دیکھا جو ایم ٹی اے پر آ رہا تھا۔ تو اگلے دن ان سے ہی جن کے گھر مہمان گئے تھے دوبارہ پوچھا کہ وہ جو کل پروگرام لگا ہوا تھا وہ روز لگتا ہے؟ ممانی نے کہا: جی روز لگتا ہے۔ تو بیٹا کہتا ہے کہ ابّو نے کہا اچھا پھر اس کو دوبارہ لگائیں۔ پھر کچھ عرصہ بعد ماموں کے کہنے پر میری ماما نے ابّو کوڈش لگانے کا کہا تو فوراً گئے اور خود ڈش لا کر لگائی اور ایم ٹی اے سیٹ کیا۔ خطبات نہایت شوق سے سنتے تھے۔ پھر ابّو نے مارچ 2009ء میں بیعت کر لی۔ یہ بیٹے کا بیان ہے۔ پھر یہ بیٹا کہتا ہے کہ جب پیارے ابّو شہید ہوئے تو اس وقت بھی انہوں نے چندہ دیا ہوا تھا لیکن اس کی رسید ان کی شہادت کے بعد مربی صاحب نے ہمیں دی۔ پھر بیٹالکھتا ہے کہ ابّا کی شہادت کے بعد ہمارے محلے میں مخالفت شروع ہو گئی ہے اور فتووں کے پوسٹر اور سٹکر وغیرہ چسپاں ہو رہے ہیں اور پمفلٹ بانٹے جا رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو اپنی حفاظت میں رکھے۔
مکرم منصور احمد صاحب
اگلا ذکر ہے مکرم منصور احمد صاحب شہید ابن مکرم عبدالحمید جاوید صاحب کا۔ شہید مرحوم کے خاندان کا تعلق شاہدرہ لاہور سے ہے۔ ان کے پڑدادا مکرم غلام احمد صاحب ماسٹر تھے۔ غالباً حضرت خلیفۃ المسیح الاول کے دورِ خلافت میں بیعت کی تھی۔ 1953ء میں ان کے مکانات کو آگ لگا دی گئی جس کے بعد ربوہ چلے گئے۔ پھر والد صاحب 1970ء کے قریب کراچی چلے گئے۔ 1974ء میں کراچی میں ان کے والد محترم کی دکان کو آگ لگا دی گئی جس کے بعد یہ لاہور شفٹ ہو گئے۔
شہید مرحوم امپورٹ ایکسپورٹ کی ایک فرم میں ملازمت کرتے تھے۔ باہر جانے کی کوشش کر رہے تھے۔ ان کا ایک بھائی مانچسٹر میں تھا۔ کچھ دنوں سے کہہ رہے تھے کہ میں نے ربوہ سیٹ ہونا ہے۔ بوقتِ شہادت ان کی عمر 36برس تھی۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے نظامِ وصیت میں بھی شامل تھے۔ مسجد دارالذکر میں جامِ شہادت نوش فرمایا۔ شہید مرحوم کے دفتر والے جو ان کی بہت تعریف بھی کر رہے تھے، بتاتے ہیں کہ ان کے ساتھ ایک اور احمدی دوست بھی کام کرتے تھے۔ ان کو ہر جمعہ پر اپنے ساتھ لے کر جاتے۔ سانحہ کے روز کہا کہ ہر جمعہ پر آپ مجھے لیٹ کروا دیتے ہیں، آج کسی صورت بھی لیٹ نہیں ہونا۔ اور باقاعدہ لڑائی کر کے بحث کر کے، اپنے دوست کو جمعہ کے لئے جلدی لے کر گئے۔ مسجد پہنچ کر پہلی صف میں سنتیں ادا کیں۔ حملے کے دوران اپنے دفتر فون کر کے کہا کہ میں بہت زیادہ زخمی ہو گیا ہوں، خون کافی بہہ گیا ہے، مجھے بچانے کی کوشش کریں۔ گھر سے والدہ نے فون کیا تو ان کو بھی یہی کہا کہ کسی کو بھیجیں تا کہ ہمیں یہاں سے نکال سکے۔ اہلیہ سے گفتگو کے دوران بھی گولیاں چلنے کی آوازیں انہوں نے سنیں۔ پھر ان کی آواز بند ہو گئی۔ شہید مرحوم کی اہلیہ نے بتایا کہ بہت زیادہ حسّاس طبیعت کے مالک تھے۔ شہادت سے ایک ہفتہ قبل مجھ سے کہا کہ آپ بچوں کا خیال رکھا کریں، بچوں کی ذمہ داری آپ بہترطریقے سے نبھا سکتی ہیں۔ اب میں شاید بچوں کو زیادہ وقت نہ دے سکوں۔ بچوں کو زیادہ سے زیادہ اپنے ساتھ اٹیچ (Attach)کرو تا کہ یہ مجھے یادنہ کریں۔ شہادت کے روز صبح کے وقت کہا کہ بیٹا شانزیب محسن(جو صحتمند اور خوبصورت ہے) جب تین سال کا ہو جائے گا تو اسے ہم نے ربوہ بھیج دینا ہے اور جماعت کو پیش کرنا ہے۔ وہ اسے جو چاہیں بنا لیں۔ کچھ عرصہ قبل ایک پڑوسی کا ایکسیڈنٹ ہو گیا۔ وہ موٹر سائیکل چلانے کے قابل نہیں رہے تھے۔ شہید مرحوم کافی عرصہ مسلسل ان کو گھر سے دفتر اور دفتر سے گھر واپس لاتے رہے۔ مذکورہ پڑوسی کی والدہ نے جب شکریہ ادا کرنے کی کوشش کی تو کہا کہ جب تک میری سانس ہے مَیں آپ کے بیٹے کوساتھ لے کر جاتا اور آتا رہوں گا، شکریہ کی کوئی بات نہیں۔ ایک مربی صاحب نے ان کے بارے میں لکھا ہے کہ منصور احمد صاحب شہید سادہ مزاج، نہایت مخلص اور نظامِ خلافت سے محبت اور وفا کا تعلق رکھنے والے تھے۔ موصوف اپنے وقفِ نو بچوں کو بڑی باقاعدگی کے ساتھ وقفِ نو کی کلاس میں شامل کرتے تھے۔ ان کے بچوں کو خلافت کے ساتھ محبت و عقیدت پر مبنی بڑی لمبی لمبی نظمیں یاد ہیں۔ بڑی بچی جس کی عمر پانچ سال ہے، بہت خوش الحانی اور سوز و گداز کے ساتھ نظم پڑھتی ہے۔ خاکسار نے ایک دفعہ کلاس کے موقع پر مکرم منصور احمد صاحب شہید سے پوچھا کہ ان چھوٹے چھوٹے بچوں کو آپ نے اتنی لمبی لمبی نظمیں کیسے یاد کروا دیں؟ تو کہنے لگے کہ یہ نظمیں میں نے اپنے موبائل فون میں ریکارڈ کی ہوئی ہیں اور بچے ہر وقت سنتے رہتے ہیں۔ ان کی خواہش تھی کہ ان کے بچے جلدی سیکھ جائیں اور جماعت میں نام پیدا کریں۔ وہ لوگ جو اپنے موبائل میں میوزک اور مختلف چیزیں بھر لیتے ہیں ان کے لئے اس میں ایک سبق ہے۔
مکرم مبارک علی اعوان صاحب
اگلا ذکر ہے مکرم مبارک علی اعوان صاحب شہید ابن مکرم عبد الرزاق صاحب کا۔ شہید مرحوم قصور کے رہنے والے تھے۔ آپ کے دادا مکرم میاں نظام دین صاحب اور پڑدادا نے خاندان میں سب سے پہلے شدید مخالفت کے باوجود بیعت کی تھی۔ مرحوم کے نانا حضرت مولانا محمد اسحاق صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحابی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام تھے۔
شہید مرحوم بی اے، بی ایڈ کے بعد محکمہ تعلیم سے وابستہ ہوئے اور لاہور میں تعینات تھے۔ بوقتِ شہادت ان کی عمر 59سال تھی۔ مسجد دارالذکر میں جامِ شہادت نوش فرمایا۔ روزانہ قصور سے بسلسلہ ملازمت لاہور آتے تھے۔ نمازِ جمعہ مسجد دارالذکر میں ادا کرتے تھے۔ سانحہ کے روز مین ہال میں بیٹھے ہوئے تھے کہ دہشتگردوں کے حملے کے دوران امیر صاحب ضلع قصور کو بذریعہ فون اطلاع دی کہ مسجد دارالذکر پر دہشتگردوں نے حملہ کر دیا ہے۔ تھوڑی دیر بعد فون کیا کہ مجھے گولیاں لگ گئی ہیں اور مَیں شدید زخمی ہوں۔ بعد میں بیٹے سے بھی سوا تین بجے بات ہوئی اور صورتحال سے آگاہ کیا اور دعا کے لئے کہا۔ اس کے بعد ایک اَور دوست نے رابطے کی کوشش کی تو آگے سے اللہ اللہ کی آواز آ رہی تھی۔ زخمی ہونے کی وجہ سے خون زیادہ بہہ جانے اور زخموں کی وجہ سے جامِ شہادت نوش فرما گئے۔
اہلِ خانہ نے بتایا کہ شہید مرحوم مثالی انسان تھے۔ آپ کے اخلاق کی وجہ سے محلے میں کبھی کسی کو کھل کر مخالفت کرنے کی جرأت نہیں ہوئی۔ جماعت کے ساتھ خصوصی لگاوٴ تھا۔ فراخ دل اور مہمان نواز تھے۔ غریبوں کی بہت مدد کیا کرتے تھے۔ جب ان کا جنازہ اٹھایا گیا تو ایک غیر احمدی خاتون روتی ہوئی آئیں اور کہا کہ ان کے بعد میرا اور میرے بوڑھے خاوند کا کون سہارا ہو گا؟ نماز سینٹر قائم کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ نمازِ تہجد اور باجماعت نماز کے پابند تھے۔ جماعتی پروگرامز کا اہتمام خود کرتے۔ مربی صاحب ضلع قصور نے بتایا کہ سانحہ کے روز سکول سے تعطیلات ہو گئی تھیں۔ اگر چاہتے تو آرام سے قصور پہنچ کر جمعہ پڑھ سکتے تھے، لیکن انہوں نے کسی سے ذکر کیا کہ میرا ارادہ ہے کہ میں آخری جمعہ دارالذکر میں ہی پڑھ کر جاوٴں کیونکہ اس کے بعد تو چھٹیاں ہو جائیں گی۔ شہید مرحوم نے چند دن پہلے خواب میں دیکھا کہ میں کسی بہت ہی اچھی جگہ میں جا رہا ہوں۔ بعد میں اہلیہ سے مذاقاً کہا کہ اب تو دل چاہتا ہے کہ جنّت میں ہی چلا جاوٴں۔ سال میں دو ایک مرتبہ کھانے کی دیگیں پکوا کر مستحقین میں تقسیم کیا کرتے تھے۔
مربی صاحب لکھتے ہیں کہ خاکسار کو قصور میں چار سال تک بطور مربی سلسلہ کام کا موقع ملا۔ مکرم مبارک علی اعوان صاحب شہید کو احمدیت کی غیرت اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ذات یا جماعتِ احمدیہ پر کسی بھی قسم کے اعتراض کے جواب میں منفرد شخصیت کا مالک پایا۔ آپ چونکہ ٹیچنگ (Teaching) کے پیشہ سے منسلک تھے اس لئے وہاں پر دوسرے اساتذہ کے ساتھ جماعتی موضوعات پر بحث رہتی تھی۔ کسی بھی اعتراض یا سوال کے جواب کے لئے مکرم مبارک علی اعوان صاحب اُس وقت تک چین سے نہ بیٹھتے تھے جب تک اس کا کافی و شافی جواب حاصل نہ کر لیتے۔ اور جب ان کو سیر حاصل بحث کے بعد جواب دے دیا جاتا تو ان کے چہرے پر عجیب طمانیت اور بشاشت دیکھنے کو ملتی گویا سمندر طغیانی کے بعد سکون کی حالت میں آ گیا ہو۔ اسی طرح آپ جماعت اور اپنے عزیز رشتے داروں کے متعلق نہایت رقیق القلب اور ہمدرد تھے۔ غلطی خواہ دوسرے کی ہو، وہ خود جا کر معذرت کرتے اور پھر پہلے سے بڑھ کر اس سے ہمدردی کا سلوک کرتے۔
مکرم عتیق الرحمن صاحب
اگلا ذکر ہے مکرم عتیق الرحمن صاحب ظفر شہید ابن مکرم محمد شفیع صاحب کا۔ شہید مرحوم سیّداں والی غربی ضلع سیالکوٹ کے رہنے والے تھے۔ 1998ء سے مانانوالہ ضلع شیخوپورہ میں مقیم تھے۔ 1988ء میں بیعت کر کے احمدیت میں شمولیت اختیار کی۔ ان کے ایک سال بعد ان کی اہلیہ نے بھی بیعت کر لی۔ ذاتی کاروبار تھا، کچھ عرصہ دبئی میں بھی رہے۔ 2009ء کے آغاز میں پاکستان واپس آ گئے۔ پچھلے قریباً چھ ماہ سے مکرم امیر صاحب ضلع لاہور کے ساتھ بحیثیت ڈرائیور ڈیوٹی کر رہے تھے۔ بوقتِ شہادت ان کی عمر 55سال تھی مسجد دارالذکر میں جامِ شہادت نوش فرمایا۔ مسجد دارالذکرکے مین ہال میں بیٹھے تھے کہ ان کے قریب ہی گرنیڈ پھٹا۔ اہلِ خانہ کو فون کر کے حملہ کی اطلاع دی۔ اسی دوران ان کو گولیاں لگیں جس سے فون گر گیا اور دوبارہ بات نہ ہو سکی اور ساتھ ہی شہادت ہو گئی۔ شہید مرحوم کے غیر احمدی بھائیوں کا مطالبہ تھا کہ ان کی تدفین آبائی گاوٴں میں ہو، جبکہ اہلیہ نے کہا کہ شہید مرحوم چونکہ احمدی ہیں اور شہید کی خواہش چونکہ ربوہ شفٹ ہونے کی تھی لہذا ربوہ میں تدفین کی جائے جس پر بھائی مان گئے اور ربوہ میں ہی تدفین ہوئی۔ شہید مرحوم کی بیعت سے پہلے ان کی بیٹی نے خواب میں دیکھا تھا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ ان کے گھر آئے ہیں اور گلاب کے پودے لگا رہے ہیں اور بعد میں مَیں اور میرے ابّو اِن پودوں کی حفاظت کرتے ہیں اور پانی دیتے ہیں۔ کچھ عرصہ بعد یہ خاندان احمدی ہو گیا۔ بیعت کرنے کے بعد ان کے والدین نے انہیں عاق کر کے گھر سے نکال دیا۔ دیگر رشتے دار اور اہلِ محلہ بھی ان کے ساتھ بدزبانی کرتے، گالیاں دیتے، پتھر مارتے۔ بالآخر انہوں نے ایک احمدی گھرانے میں پناہ لی۔
اللہ تعالیٰ خاندانوں کے لئے بھی تسلی کے سامان پیدا فرماتا ہے، خوابوں کے ذریعے تسلی دیتا ہے۔ ان کی بیٹی کہتی ہیں کہ ایک روز قبل میں نے خواب دیکھا کہ گھر اور باہر ہر جگہ بہت زیادہ ہجوم ہے۔ دوسری بیٹی مریم نے ایک روز خواب دیکھا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث تشریف لائے ہیں اور ہمارے سر پر ہاتھ رکھ کر پیار دے رہے ہیں۔ پھر تیسری بیٹی نے بھی اسی طرح کا خواب دیکھا کہ ایک جنگل ہے جہاں بہت خطر ناک بھینسیں اور جانور ہیں اور میں ڈر کر بھاگ رہی ہوں کہ اچانک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نظر آتے ہیں، میں بھاگ کر ان کے گلے لگ جاتی ہوں۔ اہلِ خانہ نے بتایا کہ شہید مرحوم ہمیشہ باوضو رہتے تھے۔ ہر وقت درود شریف پڑھتے رہتے تھے۔ بہت محنتی تھے۔ نمازِ تہجد پڑھنے کے بعد ڈیوٹی پر چلے جاتے اور پھر رات کولیٹ واپس آتے۔ جب پوچھا گیا کہ آپ تھکتے نہیں، تو کہتے کہ میں ہر وقت درود شریف پڑھتا رہتا ہوں جس سے تھکاوٹ نہیں ہوتی۔ کبھی تبلیغ کا موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے۔ رشتے داروں اور دوستوں میں بیٹھ کر باتوں کا رخ ہمیشہ تبلیغ کی طرف کر دیا کرتے تھے۔ دبئی میں دو فیملیوں کو بیعت کروا کر جماعت احمدیہ میں شامل کرنے کی سعادت پائی۔
مکرم محمود احمد صاحب
اگلا ذکر ہے مکرم محمود احمد صاحب شہید ابن مکرم مجید احمد صاحب کا۔ شہید مرحوم کے دادا مکرم عمر دین صاحب وینس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور پڑدادا حضرت کریم بخش صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحابی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام تھے۔ انہوں نے 1900ء میں بیعت کی تھی۔ قادیان کے قریب گاوٴں بھینیاں کے رہنے والے تھے۔ قیامِ پاکستان کے بعد ہجرت کر کے کُجر ضلع شیخوپورہ میں شفٹ ہو گئے۔ بعد میں چک 9متابہ ضلع شیخو پورہ رہائش اختیار کر لی۔ بوقتِ شہادت ان کی عمر 53سال تھی۔ عرصہ 15سال سے دارالذکر کے سکیورٹی گارڈ کی حیثیت سے خدمت کر رہے تھے۔ مسجد دارالذکر میں جامِ شہادت نوش فرمایا۔ مسجد کے مین گیٹ پر ڈیوٹی پر تھے۔ سانحہ کے دوران انہوں نے ایک دہشتگرد کو پکڑنے کی کوشش کی۔ اس کوشش میں ان پر فائرنگ ہوئی۔ دو گولیاں سینے میں لگیں جبکہ ایک برسٹ ان کے پیٹ کے نچلے حصہ اور ٹانگ پرلگا جس سے موقع پر ہی ان کی شہادت ہو گئی۔
اہلِ خانہ نے بتایا کہ بہت ہی عمدہ شخصیت کے مالک تھے۔ کبھی کسی سے جھگڑا نہیں کیا۔ سادہ اور صلح پسندانسان تھے۔ ایک دوست نے بتایا کہ شہید مرحوم ایک روز وردی پہن کر خوب ناز سے چل رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح کیوں چل رہے ہیں؟ تو جواباً کہا کہ جو بھی غلط ارادے سے آئے گا وہ میری لاش پر ہی سے گزر کر جائے گا۔ شہید مرحوم کی خواہش تھی کہ اگر اب میری کوئی اولاد ہو تو میں اسے وقفِ نو میں پیش کروں گا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعا سنتے ہوئے بڑے بیٹے کی پیدائش کے گیارہ سال بعد بیٹا عطا کیا جو وقفِ نو میں ہے۔ اہلِ خانہ بتاتے ہیں کہ جمعہ والے دن مصروفیت کی وجہ سے کبھی گھر فون نہیں کیا۔ تاہم شہادت سے بیس منٹ پہلے فون کر کے بات کی۔ جب انہوں نے پوچھا کہ آج آپ نے جمعہ والے دن کیسے فون کر لیا ہے؟ تو انہوں نے کہا بس میرا دل چاہ رہا تھا لہٰذا پاس ہی کھڑے خادم سے فون لے کر بات کر رہاہوں۔ یہ ذکر شاید زیادہ لمبا ہو جائے اس لئے چھوڑتا ہوں۔ باقی آئندہ پھر ذکر ہو جائے گا۔
اس وقت ایک اور ذکر بھی کرنا چاہتا ہوں اور اُن کی نمازِ جنازہ غائب بھی جمعہ کے بعد ادا کروں گا۔ مکرمہ سرور سلطانہ صاحبہ اہلیہ مکرم مولانا عبدالمالک خان صاحب مرحوم۔ 22؍ جون 2010ء کو ستاسی سال کی عمر میں لمبی بیماری کے بعد ان کی وفات ہوئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ آپ حضرت مولانا ذوالفقار علی خان صاحب گوہر صحابی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بہو تھیں۔ ہمیشہ اپنے واقفِ زندگی خاوند کا بھر پور ساتھ دیا اور وقف کے تقاضے نبھانے کی پوری کوشش کی۔ آپ کو خود بھی خدا تعالیٰ نے خدمتِ دین کی توفیق عطا فرمائی اور لجنہ کراچی اور لجنہ ربوہ میں 48سال تک بطور صدر لجنہ حلقہ نمایاں کام کیا۔ ایک موقع پر جب 71ء میں جنگ کے دوران جماعت نے فوجیوں کے لئے صدریاں تیار کروائیں تو آپ نے بھی اس میں حصہ لیا۔ یا ہو سکتا ہے 65ء میں یہ کی ہوں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو سندِ خوشنودی حاصل ہوئی۔ ان کی بیٹی ڈاکٹر نصرت جہاں صاحبہ جو واقفِ زندگی ہیں اور فضلِ عمر ہسپتال میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت نمایاں خدمات سرانجام دے رہی ہیں، اللہ تعالیٰ ان کی عمر و صحت میں برکت دے، ان کا بیان ہے کہ 1953ء کے فسادات کے دوران ہم بند روڈ کراچی میں احمدیہ لائبریری کے عقب میں ایک ڈبل سٹوری مکان میں مقیم تھے جبکہ اوپر والی منزل پر غیراحمدی رہائش پذیر تھے۔ کہتی ہیں کہ ان دنوں میں ابّا جان مولوی عبدالمالک خان صاحب گھر پر موجودنہیں تھے۔ غیر از جماعت نے ہمارے گھر پر تیل چھڑک کر آگ لگانے کا منصوبہ بنایا۔ اس دوران امی نے بچوں کو اکٹھا کیا اور دعائیں کرتی رہیں کہ اگر خدا کو یہی منظور ہے تو ہم اس پر راضی ہیں۔ اسی دوران خدا نے یوں فضل فرمایا کہ اوپر والی منزل پرجوغیر احمدی رہائش پذیر تھے وہ نیچے آئے اور آگ لگانے والوں کو کہا کہ ہم بھی اوپر رہائش پذیر ہیں، ہمارا گھر بھی جل جائے گا۔ اس پر وہ وہاں سے چلے گئے اور اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا۔ انہوں نے اپنے بچوں کے علاوہ بے شمار بچے بچیوں کو قرآن کریم بھی پڑھایا۔ دینی تربیت بہت اچھی طرح کرتی تھیں۔ خدمتِ خلق کا جذبہ تھا۔ اپنے نفس پر قربانی وارد کر کے بھی دوسروں کا خیال رکھتی تھیں۔ ہر مشکل میں دعا کا دامن تھامے رکھتیں۔ چندہ جات میں بڑی باقاعدہ تھیں۔ ہر تحریک میں بڑا بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی کوشش کرتیں۔ ابتدا میں دین کا علم کم تھا لیکن سیکھنے کا شوق بہت تھا اس لئے اپنے شوہر سے بہت کچھ سیکھنے کی توفیق پائی۔ اپنے خاوند کے مبلغ سلسلہ ہونے کی حیثیت سے بہت عزت کرتی تھیں۔ نمازوں کی پابندی کرنے کے علاوہ نوافل بھی ادا کرتی تھیں۔ قرآنِ شریف بہت شوق سے پڑھتی تھیں۔ خدا تعالیٰ پر خود بھی توکل رکھتی تھیں اور بچوں کے دلوں میں بھی بچپن سے اس بات کو راسخ کیا۔ بہت بااخلاق، ملنسار، منکسر المزاج، مہمان نواز اور ہر دلعزیز خاتون تھیں۔ خلافت سے بے انتہا وفا کا تعلق تھا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصیہ تھیں۔ مولوی عبدالمالک خان صاحب جماعت کے بڑے پایہ کے عالم تھے اور ناظر اصلاح و ارشاد بھی رہے ہیں، مبلغ سلسلہ بھی رہے ہیں شروع میں جماعت کے حالات بھی ایسے تھے، ایک دفعہ انہوں نے خود مجھے بتایا کہ ہم میاں بیوی بڑی تنگدستی سے گزارہ کرتے تھے، الاوٴنس اتنا ملتا تھا کہ مشکل سے گھر کا خرچ چلتا تھا۔ لیکن خود ہم روکھی سوکھی کھا لیتے تھے لیکن بچوں کو اچھا کھلایا اور اچھا پڑھایا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے آج ان کے سارے بچے پڑھے لکھے ہیں۔ ان کے ایک بیٹے جو ہیں انور خان صاحب امریکہ میں ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہاں جماعتی خدمات بھی انجام دے رہے ہیں۔ اور جیسا کہ مَیں نے ذکر کیا ان کی ایک بیٹی واقفِ زندگی ڈاکٹر ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔ ان کے پسماندگان میں چار بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے۔ ڈاکٹر نصرت جہاں صاحبہ گائنا کالوجسٹ فضل عمر ہسپتال ربوہ۔ شوکت گوہر صاحبہ، ڈاکٹر لطیف صاحب کی اہلیہ ہیں۔ اور ایک بیٹی ان کی ڈاکٹر صالح محمد الہ دین صاحب کی اہلیہ ہیں جو انڈیا میں ہیں اور آج کل مَیں نے ان کو صاحبزادہ مرزا وسیم صاحب کی وفات کے بعد سے صدر، صدر انجمن احمدیہ قادیان مقرر کیا ہوا ہے۔ ان کی تقاریر بھی آپ نے سنی ہوں گی اچھے عالم آدمی ہیں۔ اور ایک ان کے داماد سید حسین احمد مربی سلسلہ ہیں۔ یہ سید حسین احمد، حضرت میرمحمد اسحاق صاحبؓ کے نواسے ہیں۔ جیسا کہ میں نے کہا نمازِ جمعہ کے بعدان کی نمازِ جنازہ غائب ادا کروں گا۔
باقی ذکرانشاء اللہ آئندہ۔
(الفضل انٹرنیشنل جلد17 شمارہ 30 مورخہ23 جولائی تا 29 جولائی2010 صفحہ5 تا 9)
مکرمہ ڈاکٹرنصرت جہاں صاحبہ کی والدہ محترمہ سرور سلطانہ صاحبہ اہلیہ مکرم مولانا عبد المالک خان صاحب مرحوم کی نمازِجنازہ
خطبہ جمعہ فرمودہ 02 جولائی 2010ء بمطابق 02 وفا 1389 ہجری شمسی بمقام بیت الفتوح، لندن(برطانیہ)
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔