شہداء سانحہ لاہور کے مختصر کوائف اور ان کے واقعات کا ذکر

خطبہ جمعہ 9؍ جولائی 2010ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


تشہد و تعوذ اور سورة فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

مکرم احسان احمد خان صاحب

شہداء کا جو ذکرِ خیر چل رہا ہے۔ اسی سلسلے میں آج سب سے پہلے میں ذکر کروں گا۔ مکرم احسان احمد خان صاحب شہید ابن مکرم وسیم احمد خان صاحب کا۔ شہید مرحوم کے پڑدادا حضرت منشی دیانت خان صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے صحابی تھے۔ نارو ضلع کانگڑہ کے رہنے والے تھے۔ یوسف زئی خاندان سے تعلق تھا۔ شہید مرحوم کے پڑدادا کے دو بھائی حضرت شہامت خان صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت منشی امانت خان صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے 1890ء میں بیعت کر کے احمدیت میں شمولیت اختیار کی تھی۔ اور 313صحابہ میں شامل ہوئے۔ مکرم ظہیر احمد خان صاحب مربی سلسلہ جو آجکل یہاں لندن میں ہیں، شہید مرحوم کے چچا ہیں۔ جبکہ شہید مرحوم کے دوسرے بھائی ندیم احمد خان صاحب جامعہ احمدیہ ربوہ میں زیرِ تعلیم ہیں۔ شہید مرحوم 1984ء میں پیدا ہوئے۔ دو سال سے شیزان انٹرنیشنل میں ملازمت کر رہے تھے۔ جبکہ جماعت احمدیہ بھماں ضلع لاہور میں بطور سیکرٹری (یہ پتہ نہیں کون سی جماعت ہے بہر حال) بطور سیکرٹری وقفِ جدید خدمت کی توفیق مل رہی تھی۔ بوقتِ شہادت ان کی عمر 26سال تھی۔ اور مسجد دارالذکر گڑھی شاہو میں جامِ شہادت نوش فرمایا۔ سانحہ کے روز صبح غسل کے بعدنماز پڑھی اور تلاوت کی اور ملازمت کے لئے روانہ ہونے سے پہلے اہلیہ کو بتایا کہ میں یہ جمعہ دارالذکر میں پڑھوں گا۔ اور ساتھ ہی بتایا کہ پچھلا جمعہ میرے سے رہ گیا تھا۔ بیٹی کو اٹھا کر پیار کیا اور روانہ ہو گئے۔ قریباً 1:35 پر مسجد دارالذکر سے اپنی والدہ محترمہ کو فون کر کے بتایا کہ یہاں دہشتگرد آ گئے ہیں۔ والدہ محترمہ کو تسلی دی، پھر اس کے بعد دوبارہ رابطہ نہ ہو سکا۔ اس دوران دہشتگردوں نے جب گرنیڈ پھینکے اس کے شیل لگنے سے زخمی ہوئے۔ جب غلط افواہ پھیلی کہ دہشتگرد مارے گئے ہیں اور باہر آ جائیں تو باہر نکلنے پر دوبارہ گرنیڈ کے ٹکڑے لگنے سے شہید ہو گئے۔ ربوہ میں تدفین ہوئی ہے۔ تدفین سے قبل ان کے چچا نے اپنے گھر ان کی نمازِ جنازہ پڑھائی جس میں بہت سے غیر از جماعت لوگوں نے شرکت کی۔ شہید مرحوم کی والدہ نے شہادت سے ایک ماہ قبل خواب میں دیکھا کہ ان کا بیٹا شہید ہو گیا ہے اور اس کی میت کو صحن میں رکھا گیا ہے اور میں بیٹے کے منہ پر پیار سے ہاتھ پھیرتی ہوں اور پوچھتی ہوں کہ کیا ہوا؟ اس خواب سے گھبرا کر اٹھ جاتی ہوں اور صدقہ دیتی ہوں۔ شہادت کے بعد اسی جگہ پر جنازہ لا کر رکھا گیا جہاں خواب میں دیکھا تھا۔ شہادت سے چند دن پہلے شہیدنے خود بھی ایک خواب دیکھا اور ہڑ بڑا کر اٹھ گئے۔ والدہ کو صرف اتنا بتایا کہ بہت بُرا خواب ہے۔ پھر صدقہ بھی دیا۔

شہید مرحوم بہت ہی ایماندار اور نیک فطرت انسان تھے۔ دوسروں سے ہمدردی اور محبت سے پیش آتے تھے۔ والدین کی خدمت بڑی توجہ سے کیا کرتے تھے۔ ان کے چچا نے مجھے بتایا کہ کام سے گھر آتے تھے تو پہلے والدین کو سلام کرتے تھے پھر بیوی بچوں کے پاس اپنے گھر جاتے تھے۔ اور روزانہ رات کو اپنے والد کے پاوٴں دبا کے سویا کرتے تھے۔ انہوں نے والد والدہ کی کافی خدمت کی خدمت کاحق ادا کیا۔ ڈیڑھ سال ہوا ان کی شادی کو، ان کی ایک چار ماہ کی وقفِ نو کی بچی ہے۔ اللہ تعالیٰ درجات بلند فرمائے۔

مکرم منور احمد قیصر صاحب

اگلا ذکر ہے مکرم منور احمد قیصر صاحب شہید ابن مکرم میاں عبدالرحمن صاحب کا۔ شہید مرحوم کے خاندان کا تعلق قادیان سے تھا، قادیان سے پاکستان بننے کے بعد گوجرہ منتقل ہوئے۔ اس کے بعد لاہور شفٹ ہو گئے۔ ان کے خاندان میں سب سے پہلے حضرت عبدالعزیز صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو آڑھتی تھے انہوں نے بیعت کی تھی۔ وہ صحابی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام تھے۔ یہ شہید مرحوم کے دادا مکرم میاں دوست محمد صاحب کے کزن تھے۔ ان کے دادا اور خاندان کے دیگر لوگوں نے خلافتِ ثانیہ میں بیعت کی۔ شہید مرحوم پیشے کے لحاظ سے فوٹو گرافر تھے۔ پچھلے قریباً بیس سال سے جمعہ کے روز دارالذکر کے مین گیٹ پر ڈیوٹی دیا کرتے تھے۔ بوقتِ شہادت ان کی عمر 57برس تھی۔ مسجد دارالذکر میں جامِ شہادت نوش فرمایا۔ دارالذکر کے مین گیٹ پر ڈیوٹی کے دوران کئی دفعہ اس بات کا اظہار کیا کہ اگر کوئی حملہ کرے گا تو میری لاش سے گزر کر ہی آگے جائے گا۔ سانحہ کے روز قریباً گیارہ بجے ڈیوٹی پر پہنچے فرنٹ لائن پر کھڑے تھے کہ 1:40 پر دہشتگردوں نے آتے ہی فائرنگ شروع کر دی۔ ایک کو تو انہوں نے مضبوطی سے پکڑ لیا جبکہ دوسرے نے آپ پر فائر کر کے آپ کو شہید کر دیا۔ اہلیہ محترمہ نے چند دن قبل خواب میں دیکھا کہ ایک تابوت ہے جو عام سائز سے کافی اونچا ہے جس کے قریب ایک بنچ پڑا ہے۔ ان کے ایک عزیز بنچ پر پاوٴں رکھ کر تابوت کے اندر لیٹ جاتے ہیں۔ پوچھنے پر کہ یہ کیوں لیٹے ہیں حالانکہ یہ تو اچھے بھلے ہیں، (یہ واقعہ بیچ میں رہ گیا ہے پورا بیان کرنے سے) اہلیہ نے بتایا کہ جمعہ پر جانے سے پہلے میں نے ان کو گولڈن رنگ کا سوٹ استری کر کے دیا اور ساتھ ہی کہا کہ آج تو آپ دلہوں والا سوٹ پہن رہے ہیں۔ چنانچہ خوب تیاری کر کے نمازِ جمعہ کے لئے گئے۔ بے شمار خوبیوں کے مالک تھے۔ احساسِ ذمہ داری بہت زیادہ تھا۔ کبھی کسی سے شکوہ نہیں کیا۔ نمازوں کے پابند تھے۔ فوٹو سٹیٹ کا کام بھی کرتے تھے۔ قریبی کالج سے بچے فوٹو سٹیٹ کروانے آتے تو بغیر گنے ہی پیسے رکھ لیتے۔ کہتے تھے کہ کبھی کسی کے پاس پورے پیسے نہیں بھی ہوتے اس لئے میں نہیں گنتا۔ بعض دفعہ مخالفین آپ کی دکان پر آپ کے سامنے ہی مخالفانہ پوسٹر لگا جاتے تھے۔ آپ ان سے جھگڑا نہ کرتے اور بعد میں اتار دیتے۔ اپنے بیٹے کو کہا کرتے تھے کہ اگر کوئی زیادتی کرے تو خاموشی سے واپس آ جاوٴ۔ اگر آپ نے جواب دیا تو پھر آپ نے اپنا معاملہ خود ہی ختم کر لیا۔ اگر اللہ پر چھوڑ دیا تو اللہ ضرور بدلہ لے گا۔

مکرم حسن خورشید اعوان صاحب

اگلا ذکر ہے مکرم حسن خورشید اعوان صاحب شہید ابن مکرم خورشید اعوان صاحب کا۔ شہید مرحوم کا تعلق بندیال ضلع چکوال سے تھا۔ ان کے والد اور دادا پیدائشی احمدی تھے۔ تا ہم کچھ عرصہ قبل ان کی فیملی کے دیگر افرادنے کمزوری دکھاتے ہوئے ارتداد اختیار کر لیا جبکہ شہید مرحوم بفضلہ تعالیٰ شہادت کے وقت تک جماعت سے وابستہ رہے۔ ان کے ایک اور بھائی مکرم سعید خورشید اعوان صاحب جو جرمنی میں ہیں، انہوں نے بھی جماعت کے ساتھ وابستگی رکھی۔ شہادت کے وقت ان کی عمر 24سال تھی۔ غیر شادی شدہ تھے۔ مسجد دارالذکر میں جامِ شہادت نوش فرمایا۔ سانحہ کے روز دارالذکر میں نمازِ جمعہ ادا کرنے گئے۔ دہشتگردوں کے آنے پر گھر فون کر کے بتایا کہ مسجد پر حملہ ہو گیا ہے، میں زخمی ہوں، دعا کریں۔ اسی دوران دہشتگردوں کی فائرنگ سے شہید ہو گئے۔ ان کے فیملی کے غیر از جماعت ممبران ان کے احمدی ہونے کے بارے میں اعتراضات کرتے رہے جس پر ان کے والدین ان کے دباوٴ میں آگئے اور اطلاع دی کہ اگر احمدی احباب نے نمازِ جنازہ پڑھی تو علاقے میں فساد پھیل جائے گا۔ یہاں پر ختمِ نبوت والے (نام نہاد ختم نبوت والے کہنا چاہئے) کافی ایکٹو (Active) ہیں۔ انہی وجوہات کی بنا پر احمدی احباب کو نمازِ جنازہ ادا نہ کرنے دی گئی۔ غیر از جماعت نے ہی نمازِ جنازہ پڑھی اور تدفین کی۔ تا ہم علاقے میں عام لوگ مجموعی طور پر اس امر پر افسوس کا اظہار کرتے رہے۔ شہید کے والد پہلے تو مخالفت کے باعث کوائف دینے سے انکار کرتے رہے، جس پر سمجھایا گیا کہ آپ کے بیٹے نے جان دے کر پیغام دیا ہے کہ دنیاوی لوگوں سے خوف نہ کھائیں، خواہ جان ہی کیوں نہ چلی جائے۔ شہید مرحوم کی قربانیوں کو چھپانا شہید کے ساتھ زیادتی ہے۔ لیکن پھر بھی انہوں نے کوئی کوائف نہیں دئیے۔ اللہ تعالیٰ شہید کے درجات بلند فرمائے اور ان کی یہ قربانی ان کے گھر والوں کی بھی آنکھیں کھولنے کا باعث بنے۔

مکرم ملک حسن خورشید اعوان صاحب کے بارے میں امیر صاحب چکوال نے لکھا ہے کہ دعوتِ الی اللہ کا کوئی موقع بھی ہاتھ سے جانے نہ دیتے تھے۔ پچھلے چند سالوں سے آپ کے والد مکرم ملک خورشید احمد صاحب نے جماعت احمدیہ سے علیحدگی اختیار کی تو ملک حسن خورشید صاحب اپنے حقیقی عقیدہ یعنی احمدیت سے منسلک رہے اور تا دمِ آخر اس کے ساتھ رہے۔ نمازِ جمعہ گڑھی شاہو دارالذکر میں جا کر ادا کرتے تھے۔ متعدد بار والدین کے اصرار کے باوجود اپنے ایمان پر قائم رہے۔

مکرم محمود احمد شاد صاحب

اگلا ذکر ہے مکرم و محترم محمود احمد شاد صاحب شہید مربی سلسلہ ابن مکرم چوہدری غلام احمد صاحب کا۔ شہید مرحوم کے خاندان کا تعلق خونن ضلع گجرات سے تھا۔ شہید مرحوم کے دادا مکرم فضل داد صاحب نے بیعت کی تھی۔ شہید مرحوم کے والد بہت متعصب تھے۔ ایک دفعہ ایک کتاب ’’تبلیغِ ہدایت‘‘ فرش پر بکھری پڑی تھی اس کو اکٹھا کرنے لگے اور سوچا کہ اس کو پڑھنا نہیں ہے۔ لیکن جب ترتیب لگا رہے تھے تو کچھ حصہ پڑھا، دلچسپی پیدا ہوئی اور ساری کتاب پڑھنے کے بعد کہا کہ میں نے بیعت کرنی ہے۔ اور 1922ء میں گیارہ سال کی عمر میں بیعت کر لی۔ شہید مرحوم کے والد صاحب نائب تحصیلدار رہے۔ آپ نے کبھی کسی سے رشوت نہیں لی تھی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی سندھ میں زمینوں کے مختارِ عام تھے اور انتہائی نیک اور متقی انسان تھے۔

شہید مرحوم 31مئی 1962ء کو پیدا ہوئے اور پیدائشی وقف تھے۔ 1986ء میں جامعہ پاس کیا۔ اس کے علاوہ محلے کی سطح پر متعدد جماعتی عہدوں پر خدمت کا موقع ملا۔ اس کے علاوہ نائب ایڈیٹر ماہنامہ خالد کے طور پر بھی کام کرتے رہے۔ پاکستان کے مختلف شہروں میں بطور ِ مربی سلسلہ تقرری کے علاوہ تنزانیہ میں بھی گیارہ سال مربی سلسلہ کے طور پر خدمت کی توفیق پاتے رہے۔ بیت النور ماڈل ٹاوٴن میں قریباً تین ماہ قبل تقرری ہوئی تھی۔ بوقتِ شہادت ان کی عمر قریباً 48سال تھی اور نظامِ وصیت میں بھی شامل تھے۔ مسجد بیت النور ماڈل ٹاوٴن میں جامِ شہادت نوش فرمایا۔

سانحہ کے روز نیا سوٹ پہنا، نیا رومال لیا۔ اپنی رہائشگاہ میں دور کعت ادا کرنے کے بعد اپنے بیٹے کے ہمراہ نمازِ جمعہ کے لئے مین ہال میں پہنچ گئے۔ لوگوں نے بتایا کہ حملے کے دوران آپ مسلسل لوگوں کو دعاوٴں کی طرف توجہ دلا رہے تھے۔ جب حملہ آور مسجد کے اندر آیا تو آپ نے بلند آواز میں نعرہ بھی لگایا اور مسلسل درود شریف کا ورد کرتے رہے۔ آپ کے سینے میں دو گولیاں لگی تھیں جس کی وجہ سے آپ کی شہادت ہوگئی۔ اس سانحہ میں آپ کا بیٹا اللہ کے فضل سے محفوظ رہا۔ شہید مرحوم کی اہلیہ بتاتی ہیں کہ شہادت سے ایک روز قبل موٴرخہ 27مئی کی رات ایم ٹی اے پر عہدنشر ہو رہا تھا۔ (وہ عہد جو خلافت کا میں نے خلافت جوبلی پر دہرایا تھا) انہوں نے اونچی آواز میں یہ عہد دوہرایا اور یہ ارادہ کیا کہ جمعہ کے دن خطبہ کے بعد پوری جماعت کے ساتھ یہ عہد دہرائیں گے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ اہلیہ نے مزید بتایا کہ آپ بہت ہی نڈر تھے۔ جب جماعت کے خلاف آرڈیننس آیا تو اس کے کچھ عرصہ بعد اپنی ہمشیرہ کے ہمراہ سفر پر جا رہے تھے قمیص پر کلمہ طیبہ کا بیج لگا ہوا تھا۔ ان کی ہمشیرہ ڈر رہی تھیں اور احتیاط کے لئے ان سے کہا۔ لیکن انہوں نے جواب دیا کہ تمہارا ایمان اتنا کمزور ہے؟ سٹیشن پر اترنے کے بعد وہاں موجود پولیس اہلکار سے جا کر سلام کیا اور اپنی ہمشیرہ سے کہا دیکھو میں تو ان سے سلام کر کے آیا ہوں۔ آپ کو خدا تعالیٰ پر بہت ہی توکل تھا۔ شہید مرحوم کی اہلیہ بتاتی ہیں کہ تنزانیہ میں بھی خدمت کے دوران ان کی مخالفت ہوئی اور اس دوران اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کے نشان بھی دیکھے۔ 1999ء میں معاندِ احمدیت شیخ سعیدی نے مربی صاحب پر ایک الزام لگایا کہ انہوں نے کچھ غیر قانونی بندوں کو اپنے مشن ہاوٴس میں پناہ دے رکھی ہے۔ پولیس مشن ہاوٴس آ گئی اور تلاشی کے بعد مربی صاحب کو تھانہ لے گئی۔ یہ قصہ تنزانیہ کا ہے۔ مربی صاحب نے وہاں پہنچ کر اپنا اور جماعت کا تعارف کروایا تو پولیس والوں نے معذرت کرتے ہوئے آپ کو چھوڑ دیا۔ بعد ازاں پولیس سے بہت اچھے تعلقات بن گئے۔ اس کے تھوڑے ہی عرصے بعد شیخ سعیدی کو اسی الزام میں حکومت نے سعودی عرب سے ڈی پورٹ (Deport) کر دیا اور یہ خبر اخبارات میں بھی شائع ہوئی۔ ان کی اہلیہ کہتی ہیں تنزانیہ میں ہی ایک دفعہ جماعتی دورے پر جانے لگے تو مجھے ملیریا بخار تھا۔ میں نے کہا کہ میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے اور آپ جا رہے ہیں؟ مربی صاحب کہتے ہیں کہ مَیں اللہ کا کام کرنے جا رہا ہوں اور تمہیں بھی اللہ کے حوالے کر کے جا رہا ہوں۔ شہید کی اہلیہ بتاتی ہیں کہ ماڈل ٹاوٴن لاہور میں تقرری کے کچھ عرصے بعد سے دھمکی آمیز ٹیلیفون کالز کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ جب پہلی کال آئی تو مربی صاحب ایک شادی کے فنکشن میں گئے ہوئے تھے۔ معلوم ہوا کہ کچھ لوگ آپ کا پیچھا کر رہے ہیں۔ تو خدام الاحمدیہ کے کچھ ممبران نے بحفاظت مربی صاحب کو گھر پہنچا دیا۔ گھر واپس پہنچنے پر مجھے کہتے ہیں کہ دیکھو کیسی عظیم الشان جماعت ہے کہ ان خدام سے ہمارا کوئی دنیاوی رشتہ نہیں ہے لیکن ہر وقت یہ ہماری حفاظت کے لئے تیار رہتے ہیں۔ مربی صاحب کہتے ہیں کہ میں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی ہے کہ اگر تُو نے میری قربانی لینی ہے تو میں حاضر ہوں لیکن میری اولاد کو ہمیشہ خلافت سے وابستہ رکھنا۔ ان حالات میں جب ان کو بہنوں کے فون آتے اور وہ اس خواہش کا اظہار کرتیں کہ چھٹی لے کرربوہ آ جائیں تو آپ کہتے کہ جب باقی احمدی قربانی دے رہے ہیں تو ہم قربانیاں کیوں نہ دیں اور میدان چھوڑ کر کیوں بھاگیں۔ ان حالات سے بعض دفعہ پریشان ہو کرمَیں جب رو پڑتی تو مجھے کہتے کہ شہداء کی فیملی کو اللہ تعالیٰ ضائع نہیں کرتا اور ان کی خود حفاظت فرماتا ہے۔

شہید مرحوم کو دعوتِ الی اللہ کا بہت شوق تھا۔ شہادت سے ایک ماہ قبل ایک غیر از جماعت ڈاکٹر صاحب جو چاہتے تھے کہ ان کومطمئن کیا جائے ان کی کافی مربیان سے بحث ہوئی لیکن ان کی تسلی نہیں ہو رہی تھی، تو مربی صاحب نے (شاد صاحب نے) دو تین مجلسوں کے دوران کئی کئی گھنٹے ان کو تبلیغ کی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الہامات اور کلام بڑے آبدیدہ ہو کر بڑی جذباتی کیفیت میں ان کو سناتے تھے۔ یہی ڈاکٹر صاحب جن کو تبلیغ کی جا رہی تھی کہتے ہیں کہ آج میرے لئے فرار ہونے کا کوئی راستہ نہیں۔ میں اب مطمئن ہو گیا ہوں۔ جو شخص خود آبدیدہ ہو کر مجھے تبلیغ کر رہا ہے ان کی جماعت جھوٹی کیسے ہو سکتی ہے۔ یہ بھی تبلیغ کرنے کا اپنا اپنا ہر ایک کا انداز ہوتا ہے اور جو دل سے نکلی ہوئی باتیں ہوتی ہیں پھر اثر کرتی ہیں اور پھر ڈاکٹر صاحب نے بیعت کر لی۔

مربی صاحب کے والدین کے علاوہ باقی تمام رشتے دار غیر از جماعت ہیں۔ آخری سانس تک ان کو بھی تبلیغ کرتے رہے۔ ہر غمی اور خوشی کے موقع پر اپنے بچوں کو خاص طور پر غیر از جماعت رشتے داروں کے پاس دکھانے کی غرض سے ساتھ لے جاتے تھے کہ دیکھو ہم میں اور اِن میں کیا فرق ہے؟ اِن لوگوں کے گلوں میں بد رسومات اور بدعات کا طوق ہے اور ہم خلافت کی لڑی میں پروئے ہوئے ہیں۔ ان کے بارے میں ایک صاحب نے مجھے خط میں لکھا کہ 2006ء میں خاکسار کو پنڈی میں اطلاع ملی، (یہ راولپنڈی کے ہیں ) کہ محمود شاد صاحب مربی سلسلہ کو بیت الحمد مری میں تعینات کیا گیا ہے۔ خاکسار کو امیر صاحب ضلع راولپنڈی نے صدر حلقہ اور بیت الحمد شرقی کے علاوہ بیت الحمد مری روڈ، مربی ہاوٴس مری روڈ اور گیسٹ ہاوٴس مری روڈ کی نگرانی بھی سونپی تھی۔ تو امیر صاحب کی ہدایت آئی کہ مربی صاحب کے قیام و طعام کا بندوبست کریں۔ گیسٹ ہاوٴس میں طعام کا ابھی بندوبست نہیں تھا۔ کھانا جو بھی پیش کیا جاتا مربی صاحب بڑے صبر و رضا کے ساتھ کھا لیتے۔ مربی ہاوٴس اور گیسٹ ہاوٴس مری روڈ تین منزلہ ہے۔ پہلے مربی ہاوٴس دوسری منزل پر تھا۔ جماعت نے فیصلہ کیا کہ اسے تیسری منزل پر شفٹ کر دیا جائے اور پہلی دو منزلیں گیسٹ ہاوٴس بنائی جائیں۔ تیسری منزل پر شدید گرمی ہوتی تھی۔ مگر مربی صاحب کمال صبر و رضا کے ساتھ وہاں مقیم رہے اور کبھی حرفِ شکایت زبان پر نہ لائے۔ خلیفہ وقت کے خطباتِ جمعہ بڑے اہتمام سے سنتے تھے اور احبابِ جماعت کو بھی بار بار سننے کی تلقین کرتے تھے۔ اگر کبھی کسی جماعت میں ڈش خراب ہو گیا تو اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھتے تھے جب تک ڈش درست نہ کروا لیتے تھے۔ مربی صاحب نہایت ہی نرم دل اور خوش مزاج انسان تھے۔ ہر ایک کے ساتھ دوستی اور پیار کا تعلق قائم کرتے۔ خاندانوں کا بہت علم رکھتے تھے۔ اس طرح احباب کے ساتھ ایک ذاتی تعلق بنا لیتے تھے۔ خطباتِ جمعہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ السلام کی تحریرات اور منظوم کلام بھی بکثرت استعمال کرتے۔ دشمن کے ناکام و نامراد رہنے اور جماعت کی کامیابی پر کامل یقین تھااور بڑی تحدی سے اس کا ذکر کرتے تھے۔ خطبات میں اکثر ان کی آواز بھرّا جاتی تھی۔ 28مئی سے دو یا تین جمعہ پہلے عشرہ تعلیم القرآن کے سلسلے میں ماڈل ٹاوٴن میں خطبہ دیا۔ اور حضرت مسیح موعودؑ کا ایک انذار پڑھ کر سنایا جس میں جماعت کے ان لوگوں کا ذکرہے جو قرآن کو باقاعدگی سے نہیں پڑھتے۔ اس پر جذبات کو قابو میں نہیں رکھ سکے اور آواز بھرّا گئی۔ خلافت، جماعت اور نظام کے تقدس کے بارے میں ایک ننگی تلوار تھے۔ اگر خلافت اور جماعت کے بارے میں کوئی معمولی سی بات بھی کر دیتا تو اسی وقت اس کا منہ بند کر دیتے اور اس وقت تک نہ چھوڑتے جب تک اس کو غلطی کا احساس نہ ہو جاتا۔ خاکسار کے حلقے میں (یہ وہی صاحب لکھ رہے ہیں اعظم صدیقی صاحب) کہ خاکسار کے حلقے کی مجلسِ عاملہ کا اجلاس اکثر رات کو نو یا دس بجے شروع ہوتا تھا۔ رات گئے سخت سردی میں سائیکل پر اجلاس میں شامل ہوتے اور اپنی ہدایت سے نوازتے۔ صدیقی صاحب لکھتے ہیں کہ جب ان کی لاہور میں تبدیلی ہوئی تو بڑے خوش تھے کہ ماڈل ٹاوٴن میں تبدیلی ہو گئی ہے اور ساتھ جب میں نے بتایا کہ میری بھی سرکاری ملازمت لاہور پوسٹنگ ہو گئی ہے تو مذاق سے مجھے کہنے لگے کہ صدیقی صاحب! لاہور تک ساتھ جانا ہے یا آگے بھی ساتھ جانا ہے؟

ان کے بارہ میں ایک مربی صاحب نے مزیدلکھا ہے کہ شہید ایک ہنس مکھ اور بڑی سے بڑی مصیبت اور دکھ کو خندہ پیشانی سے برداشت کر کے مسکرانے والے تھے۔ دلیر اور نڈر تھے۔ تبلیغ کے شیدائی تھے۔ خاکسار کی تقرری جب تنزانیہ میں ہوئی تو ان کے ساتھ دارالسلام سے مورو گورو جا رہا تھا۔ راستے میں کچھ مولوی برلبِ سڑک نظر آئے۔ محمود شاد صاحب نے گاڑی روکی اور ان کو تبلیغ کرنے لگے جبکہ شام کا وقت ہو چلا تھا اور آگے راستہ بھی خطرناک تھا۔ ایک مجمع اکٹھا ہو گیا اور دعوتِ الی اللہ سے تمام لوگ مستفید ہوئے اور ان مولویوں کو لاجواب کر کے دوڑا دیا۔ گاڑی میں بیٹھتے ہوئے خاکسار کو کہا کہ ہمیں یہاں مذہبی آزادی ہے، ڈرنا نہیں کھل کر تبلیغ کریں۔ پھر ان کے بارے میں مزید لکھتے ہیں کہ شہید مرحوم کئی بہنوں کے اکیلے بھائی تھے۔ اس لئے والدین اور خاص طور پر بیمار والدہ کی خوب خدمت کی۔ جب آپ کا تقرر بیرونِ ملک ہونے والا تھا تو پریشان تھے کہ بیمار والدہ کو کس کے پاس چھوڑ کر جاوٴں گا؟ چنانچہ والدہ کی زندگی میں آپ کو پاکستان میں ہی خدمت کا موقع ملتا رہا۔

یہ بھی مربی صاحب ہیں، لکھ رہے ہیں کہ جب خاکسار کا تقرر 1999ء میں بطور امیر، انچارج مبلغ تنزانیہ ہوا تو اس وقت آپ تنزانیہ میں تعینات تھے۔ بڑے ہی شوق اور لگن سے تبلیغ کیا کرتے تھے۔ نئی سے نئی جگہوں پر رابطے کر کے ویڈیو آڈیو کیسٹ کے ذریعے اور مجالس لگا کر آپ تبلیغی کیمپس لگایا کرتے تھے جس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے کئی جماعتیں بھی عطا کیں۔ آپ ارنگا (Iringa) تنزانیہ میں تعینات تھے کہ آپ کی کامیابیوں کو دیکھتے ہوئے مقامی علماء نے عرب ریاستوں کی طرف سے مذہبی امداد دینے والے ایجنٹوں سے ویسی ہی تبلیغی سہولیات کا مطالبہ کرنا شروع کیا جو احمدی مبلغ محمود احمد شاد صاحب کو حاصل تھیں تا کہ وہ احمدیہ نفوذ کو روک سکیں۔ جب ایک ایک کر کے ان کی تمام تبلیغی ضروریات پوری کر دی گئیں اور کوئی نتیجہ نہ نکلا بلکہ احمدیت مزید تیزی سے صوبے میں پھیلتی رہی تو مقامی علماء سے پوچھا گیا کہ کیا وجہ ہے کہ تمام تبلیغی سہولیات کے حصول کے بعد بھی آپ کے کام کا کوئی نتیجہ نہیں نکل رہا؟ تو انہوں نے کہا کہ ابھی ہمارے پاس ایک چیز کی کمی ہے؟ وہ یہ کہ جماعت احمدیہ کے پاس پاکستانی مبلغ ہے جو کہ ہمارے پاس نہیں ہے۔ اگر ہمیں بھی ایک پاکستانی مبلغ دے دیا جائے تو اس کی رہنمائی میں ہم بھی کامیاب ہوں گے۔ یہ بھی بیچاروں کی غلط فہمی تھی کیونکہ ان کے جو غیر از جماعت پاکستانی مبلغ آنے تھے انہوں نے ان کو تبلیغ کے بجائے صرف گالیاں سکھانی تھیں۔

مکرم وسیم احمد صاحب

اگلا ذکر ہے مکرم وسیم احمد صاحب شہید ابن مکرم عبدالقدوس صاحب آف پون نگر کا۔ شہید مرحوم کا تعلق حضرت میاں نظام دین صاحب رضی اللہ عنہ جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ہاتھ پر بیعت کی تھی اور حضرت بابو قاسم دین صاحب رضی اللہ عنہ صحابی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خاندان سے ہے۔ حضرت بابو قاسم دین صاحب رضی اللہ عنہ کافی لمبا عرصہ سیالکوٹ کے امیر مقامی اور امیر ضلع رہے ہیں۔ یہ خاندان اسی محلّے سے تعلق رکھتا ہے جس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوہ والسلام دعوی سے قبل دورانِ ملازمت قیام پذیر رہے اور دعویٰ کے بعداسی جگہ پر آ کر قیام فرماتے تھے۔ سیالکوٹ میں ایف ایس سی کے بعد یونیورسٹی آف پنجاب لاہور میں سپیس(Space) سائنس میں بی ایس سی میں ان کو سیلیکٹ کیا گیا۔ پھر اسی یونیورسٹی سے ایم ایس سی کمپیوٹر سائنس میں کیا۔ شہادت سے قبل سوفٹ وئیر کی ایک فرم میں بطور مینجر کام کر رہے تھے۔ بطور ناظم اطفال مجلس علامہ اقبال ٹاوٴن خدمت کی توفیق پا رہے تھے۔ بوقتِ شہادت ان کی عمر 38 سال تھی اور نظامِ وصیت میں شامل تھے۔ مسجد دارالذکر میں جامِ شہادت نوش فرمایا۔

شہید مرحوم ہمیشہ نمازِ جمعہ مسجد دارالذکر میں ادا کرتے تھے۔ سانحہ کے روز بھی مال روڈ پر واقع اپنے دفتر سے نماز ادا کرنے کے لئے دارالذکر پہنچے۔ عموماً مین ہال کی پہلی صف میں بیٹھتے تھے۔ سانحہ کے روز بھی پہلی صف میں ہی بیٹھے اور دہشتگردوں کے آنے پر امیر صاحب کے حکم پر وہیں بیٹھے رہے۔ جب باقی دوست ہال کے پچھلے گیٹ سے جان بچانے کے لئے باہر جا رہے تھے تو ان کو بھی کہا گیا لیکن انہوں نے کہا کہ پہلے باقی دوست چلے جائیں، پھر میں جاوٴں گا۔ اسی دوران دہشتگرد کی گولیوں سے شہید ہو گئے۔ شہید مرحوم کی شہادت پر ان کے دفتر والوں نے ان کی یاد میں اپنے دفتر میں دو گھنٹے کا پروگرام بھی رکھا۔ تمام سٹاف تعزیت کے لئے ان کے گھر بھی آیا اور بہت اچھے الفاظ میں شہید کو یاد کیا۔ ان کی شہادت پر ان کے دفتر کا سٹاف ہسپتال میں بھی ان کی مدد کے لئے موجود تھا اور تدفین کے لئے ربوہ بھی آئے۔ ان کی کمپنی کے ڈائریکٹر کراچی سے تعزیت کے لئے سیالکوٹ بھی آئے اور ربوہ بھی آئے اور بہت دکھ اور رنج کا اظہار کیا۔ شہید مرحوم کی اہلیہ بتاتی ہیں کہ اپنے والدین اور بزرگوں کے نہایت ہی فرمانبردار تھے۔ ہر کسی سے عزت و احترام سے پیش آتے تھے۔ والدین کے ساتھ کبھی بھی اونچی آواز میں بات نہیں کی بلکہ اس چیز کو گناہ سمجھتے تھے۔ جماعت کے نہایت ہی خدمت کرنے والے ممبر تھے۔ جماعت لاہور کے چندوں کے حوالے سے سوفٹ وئیر بھی تیار کیا۔ ناظم اطفال کے طور پر خدمت کرتے رہے اور بچوں سے نہایت ہی شفقت اور محبت کا تعلق تھا۔ شہادت کے بعد ان کا جنازہ ان کے خاندان والے لاہور سے سیالکوٹ لے گئے جہاں نمازِ جنازہ ادا کرنے کے بعد تدفین کے لئے ربوہ لے آئے۔ وسیم صاحب کو شہادت کی بہت تمنا تھی۔ اکثر کہتے تھے کہ اگر کبھی میری زندگی میں ایسا وقت آیا تو میرا سینہ سب سے آگے ہو گا۔

مکرم عمران ندیم صاحب سیکرٹری اشاعت مجلس اطفال الاحمدیہ ضلع لاہور ان کے بارے میں بتاتے ہیں کہ نہایت دھیمی طبیعت تھی، اطاعت کا مادہ بہت زیادہ تھا، بڑے آرام سے اور غور سے بات سنتے اور پھر ہدایت پر عمل کرتے۔ کسی اجلاس یا پروگرام میں بچوں کو شامل کرنے کے لئے اپنی گاڑی پر بڑی ذمہ داری سے لاتے اور گھر واپس چھوڑتے۔ دوسروں کے بچوں کو گھروں سے اکٹھا کرتے تھے۔ آخری دم تک یہ جماعتی خدمات سرانجام دیتے رہے۔ صدر صاحب حلقہ علامہ اقبال ٹاوٴن ان کے بارے میں بتاتے ہیں کہ بہت ہی مخلص احمدی نوجوان تھے۔ مجلس خدام الاحمدیہ کے کاموں میں بہت دلچسپی لیتے تھے۔ اطفال کی تعلیم وتربیت کے لئے بہت ہی بہترین رہنما تھے۔ وسیم صاحب پانچ بہن بھائیوں میں سب سے بڑے تھے۔ نہایت ہی لائق ذہین اور محنتی نوجوان تھے۔ ان کی والدہ محترمہ نے ان کی تعلیم و تربیت میں بہت اہم کردار ادا کیا تھا۔ والدین کے کم تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود والدین کی خواہش تھی کہ ان کی اولاد تعلیم حاصل کرے۔ چنانچہ اپنی لگن اور علم سے محبت کی بدولت کامیاب ہوئے۔

ان کی اہلیہ نے مجھے خط لکھا تھا، کہتی ہیں کہ ان کی خوبیاں تو شاید میں گنوا ہی نہیں سکتی۔ حضور! اگر میں یہ کہوں کہ وہ ایک فرشتہ صفت انسان تھے تو جھوٹ بالکل نہ ہو گا۔ یہ تو پورے خاندان کے افراد کا کہنا ہے کہ وسیم صاحب جیسا دوسرا نہیں۔ میں تو یہی سوچتی ہوں کہ خدا تعالیٰ نے یہ اعزاز وسیم صاحب کی اعلیٰ اور نمایاں خوبیوں کی وجہ سے ہی دیا ہے اور وسیم نے نہ صرف والدین کا اور میرا بلکہ پورے خاندان کا سر فخر سے بلند کر دیا۔ پھر لکھتی ہیں کہ جماعت سے محبت کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ دو سال سے ناظم اطفال علامہ اقبال ٹاوٴن لاہور تھے۔ بچوں سے بہت پیار کرتے تھے۔ انتہائی دفتری مصروفیات کے باوجود بچوں کے پروگرام کرواتے اور انہیں علمی مقابلہ جات کے لئے تیار کرتے۔ کمزور بچوں پر توجہ دیتے اور ان کے والدین کو بھی تاکید کرتے کہ بچوں کو آگے لائیں۔ اکثر ہماری مجلس کے بچے بہت انعامات جیتتے اور پھر وسیم صاحب کو دلی خوشی ہوتی تھی۔ اپنی گاڑی پر بچوں کو دارالذکر لے کر جاتے اور واپس گھروں تک پہنچاتے۔ غرض ہر کام کو محنت اور لگن سے کرتے تھے۔ دفتری مصروفیات کے باوجود اکثر شام کو دارالذکر میں میٹنگ کے لئے جاتے اور باجماعت نماز ادا کرتے۔ دفتر میں باقاعدگی سے نماز کے وقت نماز ادا کرتے تھے۔ میں نے اکثر وسیم صاحب کو نماز ادا کرتے ہوئے غور کیا کہ وہ نماز ادا کرتے ہوئے حق ادا کرتے تھے۔ کبھی نماز میں جمائی لیتے یا کوئی ایسی حرکت کرتے ہوئے نہیں دیکھا جس سے لگے کہ ان کا نماز میں دھیان نہیں ہے۔ ایسا لگتا تھا جیسے وہ واقعی ہی خدا تعالیٰ کو سامنے دیکھ کر دعا کر رہے ہیں۔ پھر لکھتی ہیں: مالی قربانی میں بھی وسیم صاحب ہمیشہ پیش پیش رہتے تھے۔ ہمیشہ اپنی تنخواہ پر پورے دس حصہ ادا کرتے۔ اور اس کے علاوہ جو بھی چندہ جات ہوتے ان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔ کبھی بھی اپنی ذات پر فالتو پیسے خرچ نہیں کرتے تھے۔ کبھی اپنے والدین کے سامنے اونچی آواز سے بات نہیں کی۔ نہ صرف والدین سے بلکہ کسی سے بھی کبھی اونچی آواز سے بات نہیں کی۔ انتہائی نرم مزاج تھے۔ میں نے اپنی پوری شادی شدہ زندگی میں ان کے منہ سے کبھی کوئی سخت بات نہیں سنی۔ وسیم صاحب کا چہرہ ہر وقت مسکراتا رہتا تھا اور کبھی میں کسی بات پر ناراض ہوتی تو بڑے پیار سے مناتے اور جب تک میری ناراضگی دور نہیں ہو جاتی منانا نہیں چھوڑتے تھے۔ شہادت کے بعد جب ان کی میت گھر لائی گئی تو ان کے چہرے پر وہی مسکراہٹ اور سکون تھا جو ہر وقت ان کے چہرے پر ہوتا تھا۔ کوئی بھی مہمان ہو ہر ایک سے بہت عمدہ طریق سے ملتے۔ ماں باپ کا، بہن بھائیوں کا ہر طرح سے خیال رکھتے تھے۔ عزیز رشتے داروں سے کبھی بھی کوئی ناراضگی نہ رکھتے تھے یہاں تک کہ آفس کے لوگ بھی کہتے کہ وسیم صاحب نے کبھی اپنے جونیئرز سے سخت لہجے میں بات نہیں کی۔ وسیم صاحب نڈر قسم کے انسان تھے۔ احمدی ہونے پر فخر تھا۔ گاڑی میں تشحیذ رسالے اکثر پڑے ہوتے تھے۔ ان کا جونیئر جو کہ احمدی تھا، انہیں اکثر کہتا تھا کہ وسیم صاحب! کہیں کوئی مولوی فطرت انسان دیکھ کر آپ کو نقصان نہ پہنچائے؟ تو وسیم صاحب کہتے کہ یار! شہادت کا رتبہ ہر ایک کی قسمت میں نہیں ہوتا۔ گھر میں بھی اکثر کہتے تھے کہ تبلیغ سے کبھی نہیں ڈرنا چاہئے کیونکہ ہم جیسے گناہگاروں کو ایسا اعزاز کہاں ملتا ہے۔ ان کے جونیئر تھے اسد، انہوں نے بتایا کہ وسیم صاحب اور وہ اگلی صف میں بیٹھتے تھے، جیسے ہی فائرنگ شروع ہوئی تو سب لوگ ہال کے ایک طرف اکٹھے ہو گئے اور کسی دروازے سے باہر نکل رہے تھے۔ اسدنے وسیم کو آواز دی لیکن وسیم نے کہا کہ پہلے اگلے لوگوں کو نکل جانے دو پھر میں آتا ہوں۔ اسی دوران وسیم صاحب کو آٹھ گولیاں پیٹ میں لگیں اور ایک گھنٹے کے اندر شہادت ہو گئی۔

مکرم وسیم احمد صاحب

اگلا ذکر ہے مکرم وسیم احمد صاحب شہید ابن مکرم محمد اشرف صاحب چکوال کا۔ شہید مرحوم کے آباوٴ اجداد کا تعلق رتوچھہ ضلع چکوال سے تھا شہید مرحوم نے میٹرک تک تعلیم اپنے آبائی گاوٴں سے حاصل کی۔ پھر فوج میں بطور لانس نائیک ملازمت شروع کر دی۔ فوج سے ریٹائرمنٹ کے بعد اسلام آباد میں ایک سکیورٹی کمپنی میں ملازمت شروع کی۔ بعد ازاں 2009ء میں مسجد دارالذکر میں سکیورٹی گارڈ کی ملازمت شروع کر دی۔ ان کے خسر مکرم عبدالرزاق صاحب نظارتِ علیاء صدر انجمن احمدیہ پاکستان ربوہ کے ڈرائیور تھے۔ شہادت کے وقت وسیم احمد صاحب کی عمر 54سال تھی۔ مسجد دارالذکر میں ڈیوٹی دینے کے دوران جامِ شہادت نوش فرمایا۔ سانحے کے روز وسیم صاحب مسجد دارالذکر کے مین گیٹ پر ڈیوٹی پر تھے۔ حملہ آوروں نے دور ہی سے فائرنگ شروع کر دی جس سے سانحے کے آغاز میں ہی ان کی شہادت ہو گئی۔ شہید مرحوم کی دو شادیاں ہوئی تھیں۔ 1983ء میں پہلی بیوی کی وفات ہو گئی پھر 1990ء میں عبدالرزاق صاحب جن کا میں نے ذکر کیا ہے ان کی بیٹی سے شادی ہوئی۔ ان کی اہلیہ بتاتی ہیں کہ بہت ہی اچھے انسان تھے۔ معاشرے میں بہت اچھا مقام تھا۔ ہر ایک کے ساتھ بہت اچھے تعلقات تھے۔ ہر رشتے کے لحاظ سے بہت اچھے انسان تھے۔ خاص طور پر یتیم بچے اور بچیوں کے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے تھے۔ چاہے وہ رشتے دار، غیر رشتے دار غیر از جماعت یا احمدی ہوتا۔ جماعتی خدمات کا بہت جوش اور جذبہ تھا۔ اسی لئے جب بھی لاہور سے چھٹی پر گھر آتے تو بتاتے کہ میں ادھر بہت خوش ہوں، مسجد میں آنے والا ہر احمدی چاہے وہ چھوٹا ہے یا بڑا ہر ایک بہت عزت سے ملتا ہے۔ شہید مرحوم کے بچوں نے بتایا کہ ہمارے ابّو بہت اچھے انسان تھے۔ ہمارے ساتھ بہت اچھا تعلق تھا۔ ہر ایک خواہش کا احترام کرتے تھے۔ بیٹی نے بتایا کہ خاص طور پر میری ہر خواہش پوری کرتے تھے۔ بچوں کی تعلیم کے بارہ میں بہت جذبہ اور شوق تھا۔ بیٹی نے بتایا کہ مجھے کہتے تھے کہ میں تمہیں تعلیم حاصل کرنے کے لئے ربوہ بھیج دوں گا۔ ماحول اچھا ہے اور وہیں جماعت کی خدمت کرنا۔ چاہے مجھے تمہارے ساتھ ربوہ میں ہی کیوں نہ رہنا پڑے۔ بہت ہی شفقت اور پیار کرنے والے باپ تھے۔ شہیدمرحوم کی اہلیہ نے مزید بتایا کہ شہادت سے کچھ روز قبل فون کر کے مجھے بتایا کہ میں ڈیوٹی پر کھڑا تھا، صدر صاحب حلقہ مسجد میں تشریف لائے۔ میرے پاس سے گزرے تو میں نے کہا صدر صاحب! میری وردی پرانی ہو گئی ہے اگر مجھے نئی وردی لے دیں تو ہر ایک آنے والے کو اچھا محسوس ہو گا۔ لہٰذا صدر صاحب نے نئی وردی لے دی۔ شہادت والے روز سانحہ سے قبل فون کر کے بتایا کہ میں نے نئی وردی پہنی ہے۔ اسی وردی میں شہادت کا رتبہ پایا۔ ان کی اہلیہ لکھ رہی ہیں کہ شہادت کی خبر پہلے ٹی وی کے ذریعہ ملی کہ لاہور میں احمدی مساجد پر حملہ ہو گیاہے۔ پھر ہم نے لاہور وسیم صاحب کے نمبر پر رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن رابطہ نہ ہو سکا۔ وسیم صاحب کے نمبر سے کسی احمدی بھائی نے فون کر کے خبر دی کہ وسیم صاحب شہید ہو گئے ہیں۔ یہ خبر سن کر بہت دکھ اور تکلیف بھی ہوئی لیکن شہادت جیسا بلند مرتبہ پانے پر بہت خوشی تھی اور سر فخر سے بلند تھا کہ مسجد میں نمازیوں کی حفاظت کرتے ہوئے شہادت پائی۔ شہید مرحوم پنجوقتہ نماز کے پابند تھے، نیکی کے ہر کام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے۔

مکرم نذیر احمد صاحب

اگلا ذکر ہے مکرم نذیر احمد صاحب شہید ابن مستری محمد یاسین صاحب کا۔ شہید مرحوم اپنے خاندان میں اکیلے احمدی تھے اور اکیلے احمدی ہونے کی وجہ سے پورے خاندان میں مخالفت تھی۔ شہید مرحوم تجنید اور بجٹ کے لحاظ سے حلقہ کوٹ لکھپت میں شامل تھے۔ نماز جمعہ ادا کرنے کے لئے مسجد بیت النور ماڈل ٹاوٴن میں آتے۔ اس کے علاوہ باقی نمازیں اپنے حلقے میں واقع نماز سینٹر میں ادا کرتے۔ بوقتِ شہادت ان کی عمر 72سال تھی۔ مسجد ماڈل ٹاوٴن بیت النور میں جامِ شہادت نوش فرمایا۔ ان کی نمازِ جنازہ اور تدفین ان کے غیر از جماعت رشتے داروں نے ہی ادا کی اور کوٹ لکھ پت قبرستان میں دفن کیا۔ شہید مرحوم نمازِ جمعہ کی ادائیگی کے لئے مسجد بیت النور ماڈل ٹاوٴن پہنچے ہی تھے۔ اس دوران دہشتگردوں نے حملہ کر دیا اور گولیاں لگنے سے شہید ہو گئے۔ ان کا جسدِ خاکی جناح ہسپتال میں رکھا گیا جہاں سے ان کے بھانجے جو غیر از جماعت ہیں نعش کو جنازہ اور تدفین کے لئے لے گئے۔ مسجد دارالذکر میں ان کا نمازِ جنازہ غائب ادا کیا گیا۔ شہید مرحوم چندہ جات کی ادائیگی میں باقاعدہ تھے اور نمازی بھی تھے۔ خاندان میں شدید مخالفت کے باوجود شہادت پانے تک مضبوطی سے احمدیت پر قائم رہے۔ ان کے بارہ میں صدر صاحب نے مزیدلکھا ہے کہ مین بازار میں ان کی اپنی قیمتی جائیداد تھی۔ ان کی دکانیں تھیں، دکانوں پر بھتیجوں نے زندگی میں ہی قبضہ جما لیا تھا۔ ایسے حالات میں ساری عمر سادہ زندگی بسر کی۔ خاندان کی مخالفت بھی برداشت کی لیکن احمدیت سے تعلق نہ توڑا اور نہ کمزور ہونے دیا۔ شہادت تک باقاعدہ بجٹ کے ممبر تھے گو آمدنہ ہونے کے برابر رہ گئی تھی مگر ادائیگی کرتے تھے۔ پرانی وضع کے آدمی تھے۔ سادہ لباس اور باقاعدگی سے جمعہ کی ادائیگی کے لئے سائیکل پر بیت النور وقت پر پہنچتے تھے اور پہلی صف میں بیٹھتے تھے۔ ہر ایک کو بڑی گرمجوشی سے ملتے تھے اور جب مسجد میں آتے تھے تو بڑا وقت گزارتے تھے کہ جتنا زیادہ وقت احمدیوں کے درمیان میں گزرے اتنا اچھا ہے۔ انہوں نے باوجود مخالفت کے گھر کے اندر اور باہر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور خلفاء کی تصویریں لگائی ہوئی تھیں۔ عہدیداروں سے عقیدت رکھتے تھے۔ تبلیغ کا شوق جنون کی حد تک تھا۔ جہاں آپ کی رہائش ہے وہاں مخالفین کی سرگرمیاں عروج پر ہیں مگر کسی خوف کے بغیر دعوتِ الی اللہ جاری رکھتے تھے۔

مکرم محمد حسین صاحب

اگلا ذکر ہے مکرم محمد حسین صاحب شہید ابن مکرم نظام دین صاحب کا۔ شہید مرحوم کے خاندان کا تعلق ضلع گورداسپور سے تھا۔ آپ کی پیدائش بھی وہیں ہوئی۔ کوئی دنیاوی تعلیم حاصل نہیں کی۔ لیکن قرآنِ مجید پڑھنا جانتے تھے۔ مکرم شیخ فضل حق صاحب سابق صدر جماعت سبّی کے ذریعے بیعت کر کے جماعت احمدیہ میں شامل ہوئے۔ ان کے خاندان میں خود یہ اور ان کی ایک بہن احمدی تھی۔ مکرم انعام الحق کوثر صاحب مربی سلسلہ شکاگو امریکہ کے ماموں تھے۔ کچھ عرصہ ایم ای ایس لیبر سپروائزر کے طور پر کام کرتے رہے۔ کارپنٹر کی حیثیت سے بھی کام کیا۔ ملازمت کے بعد کوئٹہ میں فرنیچر کی دکان بھی تھی۔ فرقان فورس میں خدمت کی توفیق پائی۔ بوقتِ شہادت ان کی عمر 80سال تھی اور مسجد دارالذکر میں جامِ شہادت نوش فرمایا۔ جمعہ کے روز صدقہ دینا ان کا معمول تھا۔ گھر سے گیارہ بجے تیار ہو کر نمازِ جمعہ کی ادائیگی کے لئے نکل پڑتے۔ سانحہ کے روز مسجد دارالذکر کے مین ہال میں موجود تھے۔ ان کی نعش دیکھی گئی تو ان کے دائیں جانب کا سارا حصہ جل چکا تھا۔ پیٹ پر بھی کافی زخم تھے۔ غالباً گرنیڈ پھٹنے سے شہادت ہوئی ہے۔ شام کو میو ہسپتال سے ان کے غیر از جماعت لواحقین ان کی نعش لے گئے اور جنازہ اور تدفین بھی انہوں نے ہی کی۔ اہلِ خانہ کے مطابق شہید مرحوم نماز کے پابند تھے۔ چندہ جات باقاعدگی سے ادا کرتے تھے۔ باوجود اس کے کہ مالی حالت زیادہ اچھی نہ تھی اپنی ضروریات سے بچا کر غریب اور ضرورتمندوں کی بلا تفریق مذہب و ملّت مدد کرتے تھے۔ جماعت سے بہت مضبوط تعلق تھا۔ اہلِ خانہ نے مزید بتایا کہ عام طور پر نمازِ جمعہ کی ادائیگی کے لئے پہلی صفوں میں بیٹھتے تھے۔ بڑھاپے کی وجہ سے یہ یادنہ رہتا تھا کہ آج کون سا دن ہے؟ کیونکہ گھر والے تمام غیر از جماعت ہیں، تو وہ نہ بتاتے تھے کہ آج جمعہ ہے۔ شہید مرحوم نے ایک فقیر کے آنے کی نشانی رکھی ہوئی تھی کہ یہ فقیر جمعہ کو آتا ہے، کبھی بھول جاتے تو اس فقیر کو دیکھ کر یاد آ جاتا کہ آج جمعہ ہے۔ ایک دن فقیر نہ آیا لیکن اچانک ایک بیٹی نے یاد دلایا کہ آج جمعہ ہے اور بغیر کھانا کھائے ہی جلدی میں نمازِ جمعہ کی ادائیگی کے لئے گھر سے نکل گئے۔ بڑے بیٹے نے بتایا کہ عموماً رات کو بستر پر نہ ہوتے۔ جب ان کو ڈھونڈھتے تو جائے نماز پر نماز ادا کر رہے ہوتے۔ بچوں کو کہا کرتے تھے کہ مجھے اہلِ بیت آنحضرتﷺ سے محبت ہے اور تم کو نہیں ہے۔ میں نے خواب میں اہلِ بیت سے ملاقات بھی کی ہے۔ بیٹے نے مزید بتایا کہ عموماًدس محرم کو روزہ رکھا کرتے تھے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دورہ کوئٹہ کا بہت ذکر کیا کرتے تھے کہ جب حضور کا پارک ہاوٴس والی کوٹھی میں قیام تھا تو انہوں نے وہاں پر دن رات مرمت وغیرہ کا کام کیا۔ جب حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ تشریف لائے تو فرماتے تھے کس نے کام کروایا ہے۔ دیواروں سے خلوص ٹپک رہا ہے۔ اسی قیام کے دوران ایک دن پانی کا پائپ لیک (Leak) کر رہا تھا تو ٹھیک نہ کر سکا، تو حضور نے فرمایا کہ محمد حسین کو بلاوٴ وہ ٹھیک کر دے گا۔ اور جب انہوں نے ٹھیک کر دیا تو بہت خوش ہوئے۔ فرمایا دیکھو میں نے کہا تھا ناں کہ محمد حسین ٹھیک کر دے گا۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے اور ان کی اولاد کو بھی احمدیت حقیقی اسلام کو پہچاننے کی توفیق عطا فرمائے۔

یہ واقعات تو ایسے ہیں کہ اگر ان کی تفصیلات میں جایا جائے تو یہ لمبا سلسلہ چلا جائے گا۔ اس لئے میں نے مختصر بیان کئے ہیں، لیکن ایک شہید کا ذکر جو پہلے ہو چکا ہے وہ بہت ہی مختصر تھا ان کی اہلیہ نے بعد میں کچھ کوائف بھیجے ہیں، اس لئے ان کا مختصر ذکر میں دوبارہ کر دیتا ہوں۔

مکرم ڈاکٹر عمر احمد صاحب

ڈاکٹر عمر احمد صاحب شہید ہیں۔ ان کی اہلیہ نے لکھا کہ میرا اور ان کا ساتھ تو صرف ڈیڑھ سال کا ہے لیکن اس عرصے میں مجھے نہایت ہی پیار کرنے والے شفیق، کم گو اور سادہ طبیعت انسان کے ساتھ رہنے کا موقع ملا۔ بچپن سے ہی شہادت کا شوق تھا۔ دوسری اور تیسری کلاس میں تھے کہ میجر عزیز بھٹی کو خط لکھا کہ مجھے آپ بہت اچھے لگتے ہیں۔ عزیز بھٹی شہید فوجی تھے پاکستان کے، ان کا کتاب میں ذکر تھا۔ اور ایک فرضی خط لکھا کہ مجھے آپ بہت اچھے لگتے ہیں میں بھی آپ کی طرح شہید ہونا چاہتا ہوں۔ یہ مختصر خط ان کی والدہ کے پاس محفوظ ہے۔ شادی کے بعد اکثر شہادت کے موضوع پر بات کرتے رہتے تھے۔ ایک دن کہنے لگے کہ میں نے بہت ہی غور کیا ہے اور میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ جنت میں جانے کا واحد شارٹ کٹ شہادت ہے۔ لیکن میری قسمت میں کہاں؟ انہوں نے دو دفعہ آرمی میں کمیشن کی کوشش کی تھی لیکن دونوں دفعہ آخری سٹیج پر رہ گئے۔ اس کا انہیں بہت دکھ تھا۔ وہ خیال کرتے تھے کہ شہادت کے لئے فوج ہی اچھا ذریعہ ہے۔ یہ ان لوگوں کو بھی جواب ہے جو کہتے ہیں کہ جماعت احمدیہ ملک کے خلاف ہے۔ ان میں ملک کی خدمت کا جذبہ اس طرح کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ کہتی ہیں کہ مجھے اکثر کہا کرتے تھے کہ دیکھنا جب بھی جماعت کو کوئی ضرورت ہوئی تو عمر پہلی صف میں ہو گا اور سینے پر گولی کھائے گا۔ اور یہ جو خط لکھا تھا میجر عزیز بھٹی شہید کو اس کے نیچے بھی لکھا تھا ’’میجر عمر شہید‘‘۔ گھر پر ہوتے تو مسجد میں جا کرنماز ادا کرتے۔ نماز مغرب پر مسجد جاتے اور عشاء پڑھنے کے بعد کچھ نہ کچھ جماعتی کام کرنے کے بعد واپس آتے، یہ ان کا معمول تھا۔ خدام الاحمدیہ میں نہایت مستعد تھے۔ سال میں ایک دو دفعہ وقفِ عارضی پر جاتے تھے۔ خدمتِ خلق کا بے انتہا شوق تھا۔ سال میں دو دفعہ ضرور خون کا عطیہ دیا کرتے تھے۔ جس دن دارالذکر میں زخمی ہوئے اس دن صبح دفتر جانے کے لئے جلدی میں نکلے یہ کہتے ہوئے کہ مجھے دیر ہو رہی ہے۔ چونکہ ان کے آفس سے مسجد دارالذکر قریب پڑتی تھی اس لئے وہ جمعہ وہیں پڑھتے تھے۔ میری چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی ضرورت کا خیال رکھا۔ اپنی بیٹی سے جو کہ اب آٹھ ماہ کی ہو گئی ہے بہت پیار کرتے تھے۔ دفتر سے آکر اس کے ساتھ بہت دیر تک کھیلتے تھے۔ اس کے بارے میں کسی بھی قسم کی بے احتیاطی برداشت نہیں کرتے تھے۔ اہلیہ لکھتی ہیں کہ صرف اپنی بیٹی ہی نہیں بلکہ تمام بچوں سے بہت شفقت کا سلوک کرتے اور کہتے تھے کہ بچے معصوم ہوتے ہیں اس لئے مجھے پسند ہیں۔ لکھتی ہیں کہ شہادت سے قریباً دو ماہ قبل میں نے خواب میں دیکھا کہ عمر کی دوسری شادی ہو رہی ہے اور میں زارو قطاررو رہی ہوں۔ اس خواب کا ذکر میں نے عمر سے بھی کیا لیکن انہوں نے ہنس کر ٹال دیا۔ لکھتی ہیں کہ بہت زیادہ صفائی پسند تھے۔ اسی طرح دل کے بھی بہت صاف تھے۔ کبھی کسی کو تکلیف نہ دی۔ سخت گرمی میں بھی، پاکستان میں گرمی بہت شدید ہوتی ہے ہر ایک جانتا ہے دوپہر کو آفس سے آتے تو ہلکی سی گھنٹی بجاتے تا کہ کوئی ڈسٹرب نہ ہو۔ اکثر اوقات تو کافی کافی دیر آدھ آدھ گھنٹہ تک باہر ہی خاموش کھڑے رہتے۔ آفس کے تمام لوگ بے حد تعریف کرتے تھے۔ یہ گورنمنٹ ریسرچ کے ادارے میں تھے اور وہ کہتے تھے کہ ہمارا ایک بہت ہی پیارا بچہ ہم سے علیحدہ ہو گیا۔ آفس کا تمام سٹاف گھر افسوس کرنے کے لئے آیا۔ جب بھی کوئی پریشانی ہوتی تو فوراً خلیفہ وقت کو خط لکھتے۔ اور کہتی ہیں مجھے بھی کہتے تھے کہ خط ضرور لکھا کرو۔ میرے والدین اور تمام عزیز رشتے داروں کی بہت زیادہ عزت کیا کرتے تھے۔ اپنے دوستوں کی بہت عزت کرتے تھے۔ ان کے لئے ضرور تھوڑا بہت وقت نکالتے۔ خلیفہ وقت کی طرف سے جو بھی تحریک ہوتی چاہے وہ دعاوٴں کی ہو، روزہ ہو، تہجد ہو، صدقات ہوں فوراً اس پر کمر بستہ ہو جاتے۔ تمام چندہ جات بروقت ادا کرتے اور ہمیشہ صحیح آمد پر چندہ بنواتے تھے، بجٹ بنواتے تھے۔ 23مئی کوانہوں نے چندہ حصہ آمد کی آخری قسط جو کہ ساڑھے نو ہزار روپے تھی ادا کی اور گھر آ کر مجھے اور باقی سب گھر والوں کو بڑی خوشی سے بتایا کہ شکر ہے کہ آج چندہ پورا ہو گیا۔ جب سے سیدنا بلال فنڈ کا اجراء ہوا اس وقت سے اس فنڈ میں باقاعدگی سے چندہ دیتے تھے۔ کبھی گھر میں سالگرہ منانے اور تحائف دینے کی بات ہوتی تو سخت ناپسند کرتے اور کہتے کہ آپ کو پتہ نہیں کہ حضور نے منع فرمایا ہے بلکہ کہتے کہ یہ پیسے جماعت کی کسی مد میں دے دو تو زیادہ اچھا ہے۔ چند دن ہسپتال میں رہے پھر اس کے بعد ان کی شہادت ہوئی ہے۔

یہ اب شہداء کا ذکر تو ختم ہوا۔ یہ ذکر جو میں نے شہداء کا کیا ہے اس میں ہمیں ان سب میں بعض اعلیٰ صفات قدر مشترک کے طور پر نظر آتی ہیں۔ ان کا نمازوں کا اہتمام اور نہ صرف خودنمازوں کا اہتمام بلکہ اپنے بچوں اور گھر والوں کو بھی اس طرف توجہ دلانا۔ کوئی اپنے کام کی جگہ سے فون کر کے بچوں کو نماز کی یاد دہانی کروا رہا ہے تو کوئی مسجد اور نماز سینٹر دور ہونے کی وجہ سے گھر میں ہی نماز باجماعت کا اہتمام کر رہا ہے۔ کیوں؟ اس لئے کہ انہیں فکر تھی کہ نمازیں ان کی اور ان کے اہل کی اس دنیا میں بھی اور اخروی زندگی میں بھی خیر اور بھلائی کی ضمانت ہیں۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کا قرب پانے کے راستے عبادات سے ہی متعین ہوتے ہیں۔ ان سب میں ہم نماز جمعہ کا خاص اہتمام دیکھتے ہیں۔ بعض نوجوان گھر سے تویہ کہہ کر نکلتے تھے کہ شاید کام کی وجہ سے جمعہ پر نہ جا سکیں، لیکن جب جمعہ کا وقت آتا تھا تو سب دنیاوی کاموں کو پسِ پشت ڈال کر جمعہ کے لئے روانہ ہو جاتے تھے۔ پھر بہت سے ایسے ہیں جو تہجد کا التزام کرنے والے ہیں۔ بعض اس کوشش میں رہتے تھے کہ نوافل اور تہجد کی ادائیگی ہو۔ اکثر نوجوان شہداء میں بھی اور بڑی عمر کے شہداء میں بھی یہ خواہش بڑی شدت سے نظر آتی ہے کہ ہمیں شہادت کا رتبہ ملے۔ پھر ہم دیکھتے ہیں کہ دوسرے اخلاقِ حسنہ کس کثرت سے ان میں نظر آتے ہیں۔ یہ اخلاقِ حسنہ جو ہیں، گھریلو زندگی میں بھی ہیں اور گھر سے باہر زندگی میں بھی ہیں۔ جماعتی کارکنوں اور ساتھیوں کے ساتھ جماعتی خدمات کی بجا آوری کے وقت بھی ان اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ ہو رہا تھا تو اپنے کام اور کاروبار کی جگہوں پر بھی اپنے ساتھ کام کرنے والوں کو اپنے اعلیٰ اخلاق سے اپنا گرویدہ بنایا ہوا تھا۔ مرد کے اعلیٰ اخلاق اس کے اپنے اہل کی اس کے اخلاق کے بارے میں گواہی سے پتہ چلتے ہیں۔ بعض دفعہ مردباہر تو اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کر رہے ہوتے ہیں۔ لیکن گھر میں بیوی بچوں کے ساتھ حسنِ سلوک نہیں کر رہے ہوتے۔ ایک شادی شدہ مرد کی سب سے بڑی گواہ تو اس کی بیوی ہے۔ اگر بیوی کی گواہی اپنے خاوند کی عبادتوں اور حسنِ سلوک کے بارے میں خاوند کے حق میں ہو تو یقیناً یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ شخص اللہ تعالیٰ کا خوف رکھتے ہوئے حقوق اللہ اور حقوق العبادادا کرنے والا تھا۔ پھر ان شہداء کے حسنِ اخلاق کی گواہی صرف بیوی نہیں دے رہی بلکہ معاشرے میں ہر فرد جس کا ان سے تعلق تھا ان کے حسنِ اخلاق کا گواہ ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی اس مضمون کو بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ جو حقوق العباد کی ادائیگی نہیں کرتا، بیوی بچوں اور عزیزوں کے حق ادا نہیں کرتا، وہ خدا تعالیٰ کے حق بھی ادا نہیں کرتا۔ اگر وہ بظاہر نمازیں پڑھنے والا ہے بھی تو حقوق العباد ادا نہ کرنے کی وجہ سے اس کی عبادتیں رائیگاں چلی جاتی ہیں۔ پس یہ شہداء جو شہادت کے مقام پر پہنچے یقیناً یہ شہادت کا رتبہ ان کے لئے عبادتوں کی قبولیت اور حقوق العباد کی ادائیگی کا حق ادا کرنے کی سند لئے ہوئے ہے۔ پھر ہم دیکھتے ہیں کہ صرف اپنی عبادتوں اور حسنِ اخلاق پر ہی ان لوگوں نے بس نہیں کی بلکہ اپنی ذمہ داریوں کی جزئیات کو بھی نبھایا۔ ایک باپ اپنے گھر کا راعی ہے اور بچوں کی تعلیم و تربیت اور نگرانی اس کی ذمہ داری ہے تو ان لوگوں نے اس فریضے کی ادائیگی کی طرف بھی توجہ دی، اور یہ توجہ ہمیں ہر شہید میں مشترک نظر آتی ہے۔ اس قرآنی حکم کو انہوں نے اپنے پیشِ نظر رکھا کہ وَ لَا تَقۡتُلُوۡۤا اَوۡلَادَکُمۡ خَشۡیَۃَ اِمۡلَاقٍ  (بنی اسرائیل: 32) کہ تم مفلسی کے خوف سے اولاد کو قتل نہ کرو۔ اپنے کاروباروں میں اس قدر محو نہ ہو جاوٴ کہ یہ خیال ہی نہ رہے کہ اولاد کی تربیت بھی ہماری ذمہ داری ہے۔ یہ لوگ اپنے اس عہد کو بھولے نہیں کہ دین کو دنیا پر مقدم رکھنا ہے۔ اور اس عہد کی پاسداری کی خاطر انہوں نے اپنے کاموں کی جگہوں سے فون کر کر کے گھر میں بیوی کو یاد کروایا کہ بچوں کو نماز پڑھوا دو کہ دین کو مقدم کرنے کی ابتدا تو نمازوں سے ہی ہوتی ہے۔ ایک بچی نے باپ کی تربیت کا یہ اسلوب بتایا کہ لمبے تفریحی سفر پر ہمارے ابّا ہمیں ساتھ لے جاتے تھے اور راستے میں مختلف دعائیں پڑھتے رہتے تھے اور اونچی آواز میں اور بار بار پڑھتے تھے کہ ہمیں بھی دعائیں یاد ہو جائیں، اور ہمیں ان سے یاد ہو گئیں اور پھر صرف دعائیں یاد ہی نہیں کروائیں بلکہ یہ بھی کہ کس موقع پر کون سی دعا کرنی ہے؟ تو یہ تھے ان جانیں قربان کرنے والوں کے اپنی اولاد کے لئے تربیت کے اسلوب۔ پھر نوجوان تھے جن کے والدین بفضلہ تعالیٰ حیات ہیں۔ ان کے حقوق بھی ہمہ وقت ان جوان شہیدوں نے ادا کئے۔ والدین بیمار ہیں تو رات دن ان کی خدمت میں ایک کر دئیے۔ خدا تعالیٰ کے حکم کہ والدین سے حسنِ سلوک کرو اور ان کی کسی سخت بات پر بھی اُف کا کلمہ منہ سے نہ نکالو اس کا حق ادا کر دیا ان لوگوں نے۔ پھر بعض دفعہ یہ ہوتا ہے کہ شادی شدہ جوان اگر ماں باپ کا حق ادا کر رہے ہیں تو بیوی کا حق بھول جاتے ہیں، اگر بیوی کا حق ادا کرنے کی طرف توجہ ہے تو ماں باپ کا حق بھول جاتے ہیں۔ لیکن ان مومنوں نے تو مومن ہونے کا اس بارے میں بھی حق ادا کر دیا۔ بیویاں کہہ رہی ہیں کہ والدین کے حق کے ساتھ ہمارا اس قدر خیال رکھا کہ کبھی خیال ہی دل میں پیدا نہیں ہونے دیا کہ ہماری حق تلفی تو کجا ہلکی سی جذباتی تکلیف بھی پہنچائی ہو۔ اور ماں باپ کہہ رہے ہیں کہ ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارے حق ادا کرنے کی کوشش میں کہیں بیوی کے حق کی ادائیگی میں کمی نہ کی ہو۔ پس یہ اعتماد اور یہ حقوق کی ادائیگی ہے جو حسین معاشرے کے قیام اور اپنی زندگی کو بھی جنت نظیر بنانے کے لئے ان لوگوں نے قائم کیا اور پھر اللہ تعالی ٰ نے بھی کتنا بڑا اجر عطا فرمایا کہ دائمی زندگی کی ضمانت دے دی۔ 17، 18سال کا نوجوان ہے تو اس کی طبیعت کے بارے میں بھی ماں باپ اور قریبی تعلق رکھنے والے، بلکہ جس کالج میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں وہ نوجوان کہہ رہے تھے، ان سب کی رائے یہ ہے کہ یہ عجیب منفرد قسم کا اور منفرد مزاج کا بچہ تھا۔ پھر ان سب میں ایک ایسی قدرِ مشترک ہے جو نمایاں ہو کر چمک رہی ہے۔ اور وہ ہے جماعتی غیرت کا بے مثال اظہار۔ اطاعتِ نظام کا غیر معمولی نمونہ، جماعت کے لئے وقت قربان کرنے کے لئے ہر وقت تیار رہنا اور کرنا، دین کو دنیا پر مقدم رکھتے ہوئے سارے حقوق کی ادائیگی کے باوجود، ساری ذمہ داریوں کے حقوق کی ادائیگی کے باوجود جماعت کے لئے وقت نکالنا۔ اور صرف ہنگامی حالت میں ہی نہیں بلکہ عام حالات میں بھی کئی کئی گھنٹے وقت دینا۔ اور بعض اوقات کھانے پینے کا بھی ہوش نہ رہنا۔ اور پھر یہ کہ خلافت سے غیر معمولی تعلق، محبت اور اطاعت کا اظہار۔ یہ اظہار کیوں تھا؟اس لئے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا تھا کہ مسیح موعود اور مہدی موعود کے بعد جو دائمی خلافت کا سلسلہ چلنا ہے اس نے مومنین کے جذبہ وفا اور اطاعت اور خلافت کے لئے دعاوٴں سے ہی دائمی ہونا ہے۔ پس یہ لوگ تھے جنہوں نے عبادات اور اعمالِ صالحہ کے ذریعے سے نظامِ خلافت کو دائمی رکھنے کے لئے آخر دم تک کوشش کی اور اس میں نہ صرف سرخرو ہوئے بلکہ اس کے اعلیٰ ترین معیار بھی قائم کئے۔ یہ لوگ اپنے اپنے دائرے میں خلافت کے دست و بازو بنے ہوئے ہیں۔ یہ سلطانِ نصیر تھے خلافت کے لئے جن کے لئے خلیفہ وقت دعا کرتا رہتا ہے کہ مجھے عطا ہوں۔

اللہ تعالیٰ ان سب کے درجات بلند فرماتا رہے۔ اپنے پیاروں کے قرب سے ان کو نوازے۔ یہ شہداء تو اپنا مقام پا گئے، مگر ہمیں بھی ان قربانیوں کے ذریعے سے یہ توجہ دلا گئے ہیں کہ اے میرے پیارو! میرے عزیزو! میرے بھائیو! میرے بیٹو! میرے بچو! میری ماوٴں ! میری بہنو! اور میری بیٹیو! ہم نے تو صحابہ کے نمونے پر چلتے ہوئے اپنے عہدِ بیعت کو نبھایا ہے مگر تم سے جاتے وقت یہ آخری خواہش کا اظہار کرتے ہیں کہ نیکیوں اور وفا کی مثالوں کو ہمیشہ قائم رکھنا۔ بعض مردوں نے اور عورتوں نے مجھے خط بھی لکھے ہیں کہ آپ آج کل شہداء کا ذکرِ خیر کر رہے ہیں، ان کے واقعات سن کر رشک بھی آتا ہے کہ کیسی کیسی نیکیاں کرنے والے اور وفا کے دیپ جلانے والے وہ لوگ تھے۔ اور پھر شرم بھی آتی ہے کہ ہم ان معیاروں پر نہیں پہنچ رہے۔ ان کے واقعات سن کر افسوس اور غم کی حالت پہلے سے بڑھ جاتی ہے کہ کیسے کیسے ہیرے ہم سے جدا ہو گئے۔ یہ احساس اور سوچ جو ہے بڑی اچھی بات ہے لیکن آگے بڑھنے والی قومیں صرف احساس پیدا کرنے کوکافی نہیں سمجھتیں بلکہ ان نیکیوں کو جاری رکھنے کے لئے پیچھے رہنے والا ہر فرد جانے والوں کی خواہشات اور قربانیوں کے مقصد کو پورا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ پس ہمارا کام ہے اور فرض ہے کہ اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرتے ہوئے ان قربانیوں کا حق ادا کریں۔ ان کے بیوی بچوں کے حق بھی ادا کر کے اپنی ذمہ داریوں کو نبھائیں۔ ان کے چھوٹے بچوں کی تربیت کے لئے جہاں نظامِ جماعت اپنے فرض ادا کرے وہاں ہر فردِ جماعت ان کے لئے دعا بھی کرے۔ اللہ تعالیٰ تمام لواحقین کو اپنی حفظ و امان میں رکھے۔ ان کی پریشانیوں، دکھوں اور تکلیفوں کو دور فرمائے اور خود ہی ان کا مداوا کرے۔ انسان کی کوشش جتنی بھی ہو اس میں کمی رہ جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی ہے جو صحیح تسکین کے سامان پیدا فرماتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے لئے تسکین کے سامان پیدافرمائے اور ان کے بہتر حالات کے سامان پیدا فرمائے۔ پس ان شہداء کے ورثاء کو بھی دعاوٴں میں یاد رکھیں اور احبابِ جماعت اپنے لئے بھی دعائیں کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی دشمن کے ہر شر سے محفوظ رکھے۔ کیونکہ دعاوٴں کی آج کل بہت زیادہ ضرورت ہے۔ پاکستان میں حالات جو ہیں وہ بدتر ہی ہو رہے ہیں۔ کوئی فرق نہیں پڑا اس سے، مخالفت بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر شر سے بچائے اور اُن شریروں کے شر اُن پر الٹائے اور ہمیں، ہر احمدی کو ثباتِ قدم عطا فرمائے۔

آخر میں ابھی میں نماز جمعہ کے بعد ایک نماز جنازہ غائب پڑھاوٴں گااس کا اعلان کرتا ہوں۔ یہ مکرم نذیر شفیق المرادنی صاحب سابق امیر جماعت سیریا کا نمازِ جنازہ ہے۔ 30جون 2010ء کو 67سال کی عمر میں ان کی وفات ہوئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

آپ ایف اے کرنے کے بعد چھ سال تک شیخ ہاشم کے ہاں شریعت پڑھتے رہے۔ آپ کا گھر دمشق کے محلہ شاغور میں تھا جہاں مکرم منیر الحصنی صاحب جوامیر شام تھے وہ رہتے تھے۔ آپ بچپن سے ان کو جانتے تھے۔ اسی زمانے میں آپ کو ان کی خدمت کا شرف بھی حاصل ہوا۔ اور نذیر صاحب نے 1963ء میں جماعت کے بعض عقائد سنے اور بیعت کر لی۔ آپ دمشق میں اربن ٹرانسپورٹ کے انچارج تھے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے 1986ء میں آپ کو شام کا پہلا صدر مجلس انصار اللہ اور 1988ء میں مکرم منیر الحصنی صاحب کی وفات کے بعد بلادِ شام کا امیر مقرر فرمایا۔ 1989ء میں سیریا کے نامناسب حالات ہونے کی وجہ سے وہاں امارت ختم کر دی گئی۔ ان حالات میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے جماعت سیریا سے فرمایا کہ اصحابِ رقیم بن جائیں۔ تو آپ نے کتابیں لکھنی شروع کر دیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ کی آٹھ کتابیں چھپ چکی ہیں۔ وفات سے قبل بھی آپ ایک کتاب تصنیف کر رہے تھے۔ آپ کو 1996ء میں جلسہ سالانہ انگلستان میں شمولیت کی توفیق ملی۔ اور اس جلسہ کے بعد آپ ساری زندگی خلیفہ وقت کی مہمان نوازی اور نوازشوں کا ذکر کرتے رہے۔ آپ نہایت سادہ مگر مزاحیہ اور شگفتہ طبیعت کے مالک تھے۔ واقفین کی بہت عزت کرتے تھے۔ وہاں ہمارے بعض واقفِ زندگی تعلیم حاصل کرنے جاتے ہیں اور دمشق آنے والے تمام سٹوڈنٹس کا بہت خیال رکھتے تھے۔ خلافتِ احمدیہ سے آپ کو ایک عشق کا تعلق تھا جو خلافت کا ذکر آنے پر آپ کی آنکھوں اور آواز سے جھلکتا تھا۔ صابر ایسے تھے کہ بڑی سے بڑی تکلیف پر بھی دل سے شکر و حمد کے گیت گایا کرتے تھے۔ باوفا دوست اور ایک مستقل مزاج احمدی تھے۔ اپنے سسرال سے ایسا اپنائیت اور محبت سلوک تھا۔ کہ آپ کی نسبتی بہن آپ کو اپنا والد سمجھتی تھی۔ مکرم محمد مسلّم الدروبی صاحب جو آج کل سیریا کے صدر جماعت ہیں بیان کرتے ہیں کہ جب مجھے شام کا نیشنل صدر مقرر کیا گیا تو آپ نے ایسی اطاعت اور عاجزی اور اخلاص کا اظہار کیا کہ میں حیران رہ گیا۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔ ان کے لواحقین کو صبرِ جمیل عطا فرمائے۔

(الفضل انٹرنیشنل جلد17شمارہ31، 32 مورخہ30 جولائی تا12 اگست 2010 صفحہ5 تا 9)


  • خطبہ کا مکمل متن
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 9؍ جولائی 2010ء شہ سرخیاں

    سانحہ لاہور کے شہداء کے کوئف اور ان کے واقعات  اور یہ ذکر کہ ان شہداء میں بعض اعلیٰ صفات قدرِ مشترک کے طور پر نظر آتی ہیں۔ ان کا نمازوں کا خود بھی اہتمام کرنا اور اپنے گھر والوں کو بھی اس کی تلقین کرتے رہنا۔ اور دوسرے اخلاقِ حسنہ بھی ان میں کثرت سے نظر آتے تھے۔ اور فرمایا کہ یقینا یہ شہادت کا رتبہ ان کے لئے عبادتوں کی قبولیت اور حقوق العباد کی ادائیگی کاحق ادا کرنے کی سند لئے ہوئے ہے۔ اور ان تمام شہداء اور ان کے اہلِ خانہ کے لئے دعا کی طرف بھی توجہ دلائی۔ اور اس کے بعد مکرم نذیر شفیق المردانی صاحب سابق امیر جماعت سیریا کے نمازِ جنازہ کا اعلان۔

    خطبہ جمعہ فرمودہ 09 جولائی 2010ء بمطابق 09 وفا 1389 ہجری شمسی بمقام بیت الفتوح، لندن (برطانیہ)

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور