جلسہ سالانہ پر مہمان نوازی
خطبہ جمعہ 23؍ جولائی 2010ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
تشہد و تعوذ اور سورة فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
انشاء اللہ تعالیٰ اگلے جمعہ سے جماعت احمدیہ برطانیہ کا جلسہ سالانہ شروع ہو رہا ہے۔ سب سے پہلی بات تو اس حوالے سے مَیں آج یہ کہنا چاہوں گا کہ جلسے کے کامیاب انعقاد اور ہر لحاظ سے بابرکت ہونے کے لئے جماعت کے افراد عموماً اور جماعت برطانیہ کے افراد خصوصاً بہت زیادہ دعاوٴں اور صدقات پر زور دیں۔ اللہ تعالیٰ دشمن کے ہر شر اور شرارت سے جماعت کو محفوظ رکھے اور جلسہ بے انتہا برکتوں کے ساتھ شروع بھی ہو اور اختتام پذیر بھی ہو۔
دوسرے اس جمعہ کے خطبہ میں جو عموماً جلسہ سے ایک ہفتہ پہلے ہوتا ہے، مَیں ڈیوٹیاں دینے والے مردوں، عورتوں، بچوں کو ان کے فرائض اور ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتا ہوں۔ اس سلسلے میں آج بھی چند باتیں کہوں گا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جلسہ کی ڈیوٹیوں میں اب ڈیوٹیاں دینے والے تمام مرد و زن کارکنان اور کارکنات کافی تربیت یافتہ اور پختہ ہو چکے ہیں۔ جہاں تک ہر شعبے کے کارکنان کا اپنے اپنے شعبہ کے بارہ میں علم اور ذمہ داریوں کے جاننے کا تعلق ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ میں سے اکثریت اس سے بخوبی واقف ہے۔ لیکن کاموں میں مزید بہتری پیدا کرنے کے لئے، ذمہ داری کے احساس کو مزید اجاگر کرنے کے لئے یاد دہانی کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ قرآنی حکم بھی ہے کہ نصیحت اور یاد دہانی یقیناً مومنوں کو فائدہ دیتی ہے۔ قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے،فَاِنَّ الذِّکۡرٰی تَنۡفَعُ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ (الذاریٰت: 56)۔ پس یاد دلانا مومنوں کو نفع بخشتا ہے۔ نئے بچے جو اِن ڈیوٹیوں میں شامل ہو رہے ہیں اسی طرح بعض نوجوان بھی جن کو پہلی مرتبہ موقع مل رہا ہے، یا اپنی ڈیوٹی کی اہمیت کا ان کو پوری طرح احساس نہیں ہے ان کے سامنے بھی ڈیوٹیوں کی اہمیت بیان کرنا ضروری ہے۔ یہ ڈیوٹی جو جلسے کے کاموں کی بجا آوری کے لئے لگائی جاتی ہے، کوئی معمولی ڈیوٹی نہیں ہے۔ جلسہ کے مہمانوں کی خدمت کے لئے بڑے اور بچے اپنے آپ کو پیش کرتے ہیں اور جلسہ کے مہمان وہ مہمان ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اپنی روحانی سیری کے لئے جلسہ میں شامل ہوتے ہیں۔ شاید کچھ لوگ غیر سنجیدہ بھی ہوں اور وقت گزارنے کے لئے آتے ہوں لیکن اس بات کو ہم عموم پر محمول کر کے اپنی ذمہ داریوں سے بری الذمہ نہیں ہو سکتے۔
ان آنے والے مہمانوں کی بھی مختلف قسمیں ہیں۔ ایک تو وہ مہمان ہیں جو UK کے رہنے والے ہیں اور جلسہ کے دنوں میں اپنے ٹینٹوں میں، خیموں میں یا جماعتی انتظام کے تحت رہائش رکھتے ہیں اور تین دنوں میں جلسہ کے تمام شعبہ جات سے ان کا واسطہ پڑتا رہتا ہے یا اکثر شعبہ جات سے واسطہ پڑتا ہے۔ اس لئے ہر شعبہ کے کارکن کو ان سے اپنے اخلاق کا اعلیٰ نمونہ دکھانا ہے۔ یہ نہیں کہ یہ UK کے رہنے والے ہیں یا کسی کے ساتھ کسی ڈیوٹی والے کارکن کی پہلے سے کوئی ناراضگی یا بدمزگی ہے تو اس کی مہمان نوازی کا حق ادا نہ کیا جائے۔ اگر اس طرح کی حالت کسی میں پیدا ہوتی ہے تو وہ اپنی ڈیوٹی سے خیانت کر رہا ہو گا۔ تو پہلی بات تو یہ کہ اپنی تمام تر رنجشوں کو بھول کر اپنے فرائض کی ادائیگی کرنا سب سے مقدم سمجھیں۔ اگر پھر بھی کسی کارکن کو کسی خاص شخص کے بارہ میں دل میں کوئی انقباض ہے جس کی وجہ سے وہ سمجھتا ہے کہ اس کی مہمان نوازی کا حق ادا نہیں کر سکتا تو پھر اپنے ساتھ والے کارکن سے کہہ کر اس مہمان کی ضروریات کا خیال رکھوائیں۔ پھر دوسری قسم UK کے رہنے والے مہمانوں کی ہی ہے، جو روزانہ جلسہ سننے کے لئے آتے ہیں اور ایک یا دو دفعہ کھانا بھی جلسہ میں کھاتے ہیں۔ اسی نظام کے تحت، نظامت مہمان نوازی کے تحت، حدیقة المہدی میں یا اسلام آباد میں کھانا کھا رہے ہوتے ہیں۔ ان کا خیال رکھنا اور انہیں کھانا مہیا کرنا اس شعبہ کی ذمہ داری ہے۔ گذشتہ سالوں میں بعض جگہوں سے شکایات آتی رہی ہیں کہ نہ صرف یہ کہ کھانا نہیں مہیا کیا گیا، بلکہ کارکن کا رویہ بھی اچھا نہیں تھا۔ گو اس میں بعدتحقیق یہی ظاہر ہوا کہ کارکن کی اتنی غلطی نہیں تھی کیونکہ ان جگہوں پر جہاں وہ مطالبہ کیا جا رہا تھا کھانے کا انتظام ہی نہیں تھا۔ لیکن بہر حال اگر کسی وجہ سے انتظام نہیں ہے، تو بڑے آرام سے، پیار سے مہمان کو سمجھا دیں۔ اسی طرح پارکنگ والے اور ٹریفک کنٹرول والے ہیں اور سکیورٹی والے کارکنان ہیں۔ ان کو بھی مہمانوں سے بات چیت کرتے ہوئے اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔ یہ جو مَیں نے شکایت کی بات کی ہے، یہ کوئی عموم نہیں ہے، ایک آدھ واقعہ میں ایسا ہوتا ہے لیکن پورے نظام کے لئے بعض دفعہ تکلیف دہ بن جاتا ہے۔ عمومی طور پر تو بڑے حوصلہ سے اور تحمل سے کارکنان بعض لوگوں کی زیادتیاں بھی برداشت کر جاتے ہیں۔ پھر تیسری قسم ہے ان مہمانوں کی جو یورپ کے مختلف ممالک سے آئے ہوئے ہیں یا آئیں گے۔ بعض تو جماعتی نظام کے تحت اجتماعی قیام گاہوں میں ٹھہرتے ہیں۔ بعض کے اپنے رہائش کے انتظام ہیں۔ لیکن UK سے باہر ہونے کی وجہ سے ان کی توقعات کچھ زیادہ ہوتی ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ چند ایک ان میں سے غلط مطالبات بھی کر جاتے ہیں۔ لیکن کارکنان اپنی پوری کوشش کریں کہ کسی کو شکایت کا موقع نہ ملے۔
پھر ایک قسم ان مہمانوں کی ہے جو پاکستان، ہندوستان اور افریقہ وغیرہ کے ممالک سے آئے ہیں۔ افریقن ممالک کے احمدی مہمانوں اور اسی طرح بعض امریکہ کے مہمانوں کو بھی تبشیر کا شعبہ مہمان نوازی کافی حد تک سنبھال لیتا ہے۔ لیکن پھر بھی عام شعبہ جات سے ان کا واسطہ پڑتا رہتا ہے۔ اس لئے ان کے احساسات کا بھی مکمل خیال رکھنے کی ضرورت ہے۔
جہاں تک پاکستان اور ہندوستان، بنگلہ دیش وغیرہ کے مہمان ہیں یہ لوگ اپنی غربت کے باوجود خلافت سے دُوری کی پیاس بجھانے کے لئے آتے ہیں اور پاکستان کے احمدی تو خاص طور پر آج کل مظلومیت کی انتہا کو پہنچے ہوئے ہیں۔ اس قسم کے مہمانوں کے ساتھ بھی بہت زیادہ حسنِ سلوک کی ضرورت ہے۔ بعض ان میں سے ایسے بھی ہیں جن کو زبان کا بھی مسئلہ ہوتا ہے اس لئے جہاں بھی ان کو مدد کی ضرورت ہو، کارکنات اور کارکنان، ان کی خدمت پر کمر بستہ رہیں۔ اگر کسی کارکن سے کوئی بھی مہمان کسی بات کی درخواست کریں اور وہ شخص جس سے مدد کی درخواست کی جا رہی ہے اگر اس کا وہ شعبہ نہیں بھی ہے، تب بھی مہمان کو روکھا جواب دینے کی بجائے ان کی رہنمائی کر دیں۔ عموماً تو پاکستانی احمدیوں کے کوئی نہ کوئی عزیز یہاں ہیں جو ان کی مدد کرتے ہیں، لیکن جن کے نہیں ہیں وہ بعض اوقات پریشان ہو جاتے ہیں۔ گو کہ گزشتہ دو تین سال سے یہ لوگ جو جلسہ کے دنوں کے علاوہ بھی یہاں رہتے ہیں کیونکہ دور سے آئے ہوتے ہیں اس لئے تین دن کے علاوہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کی مہمان نوازی چل رہی ہوتی ہے، ان کی رہائش اور مہمان نوازی کا اچھا انتظام ہوتا ہے۔ لیکن جیسا کہ مَیں نے کہا یاد دہانی بھی ضروری ہے۔ اور اسی ضمن میں مَیں ان لوگوں کوبھی توجہ دلانا چاہتا ہوں جن کے عزیز پاکستان سے ان کے ہاں مہمان آئے ہوئے ہیں۔ کہ یہ صرف جلسہ کے انتظام ہی کا کام نہیں ہے کہ مہمانوں کو سنبھالیں بلکہ آپ لوگوں کا بھی کام ہے کہ اپنے عزیزوں کی مہمان نوازی کا حق ادا کریں۔ پھر ایک قسم ان غیر از جماعت غیر مسلم اور مسلمان مہمانوں کی ہے جو جماعتی انتظام کے تحت آتے ہیں۔ جہاں تک اِن مہمانوں کی مہمان نوازی کا تعلق ہے ایک خاص انتظام کے تحت یہ مہمان نوازی ہوتی ہے۔ لیکن یہ لوگ عمومی طور پر ہمارے کارکنوں کو کام کرتے ہوئے بھی بڑے غور سے دیکھتے ہیں۔ ان کے رویّہ کو بھی نوٹ کر رہے ہوتے ہیں۔ ان کے کام کے طریق اور اخلاق کو نوٹ کر رہے ہوتے ہیں۔ عموماً ہر سال یہ لوگ کارکن اور کارکنات کے اخلاق کو دیکھ کر بہت متاثر ہو جاتے ہیں۔ اب تو جرمنی میں بھی غیر ملکی مہمانوں کی کافی تعداد آنے لگ گئی ہے اور وہ بھی کارکنوں کے اخلاق سے متأثر ہوتے ہیں اور اس سال اکثر مہمانوں نے جو غیر تھے وہاں میرے سامنے اس بات کا اظہار کیا۔ بہر حال یہ جو جماعت احمدیہ کے کارکنان کا ہر جگہ مزاج بن چکا ہے کہ اعلیٰ اخلاق دکھانے ہیں، اگر کسی مہمان کا نہ بھی کسی سے براہِ راست واسطہ ہو، تب بھی جیسا کہ مَیں نے کہا ان کے کام کے طریق، محنت، شوق اور اخلاق مہمانوں کو متاثر کرتے ہیں۔ گویا کہ یہ کارکنان علاوہ اپنی ڈیوٹیوں کے ایک خاموش مبلغ کا کردار ادا کر رہے ہوتے ہیں اور دوہرا ثواب کما رہے ہوتے ہیں۔ ایک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مہمانوں کی خدمت کر کے اور دوسرے غیروں پر احمدیت اور حقیقی اسلام کی تصویر پیش کر کے، جس سے کئی نیک فطرت جو ہیں وہ حق کو شناخت کر لیتے ہیں اور اپنی دنیا و آخرت سنوارتے ہیں۔ پس یہ جلسہ کی ڈیوٹیاں ہر کارکن اور کارکنہ کے لئے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کا ذریعہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ سب کو اپنے فرائض احسن رنگ میں بجا لانے کی توفیق عطا فرمائے۔
اس سال سکیورٹی کے ضمن میں بھی میں خاص طور پر توجہ دلانا چاہتا ہوں۔ گزشتہ سال سے خاص طور پر اس شعبے میں بہت بہتری پیدا ہوئی ہے اور وسعت بھی پیدا ہوئی ہے۔ لیکن اس سال خاص طور پر اس میں معمولی سے سقم اور کمی کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہئے۔ اور جو بھی انتظام ہے، ان کو اپنی باریکی میں جا کر اس کا خیال رکھنا چاہئے۔ جماعت کی طرف سے جو کارڈ ایشو ہوئے ہیں ان کی مکمل تسلی کرنی چاہئے۔ ہر ایک کو چاہے وہ واقف ہی ہو، جو بھی سکین وغیرہ کرنے کا، چیک کرنے کا طریقہ کار ہے اس پر پورا عمل ہونا چاہئے۔ کسی کی چند لمحوں کی معمولی ناراضگی برداشت کر لیں لیکن فرائض میں کوتاہی نہیں ہونی چاہئے۔ اس تعلق میں اس سال مَیں جرمنی کی مثال دے رہا ہوں۔ جرمنی کے جلسہ سالانہ پر بہت اچھا انتظام تھا اور کافی تعداد میں گیٹ ہونے کی وجہ سے کوئی دقت بھی پیش نہیں آئی۔ ہر ایک کارڈ کی معلومات، جب سکین ہوتا تھا بمعہ تصویر اور اس کے ذیلی تنظیم سے تعلق، عمر وغیرہ وہ سب سامنے آ جاتا تھا۔ بہر حال اس سال مجموعی طور پر جلسہ جرمنی کے اعلیٰ انتظامات کے علاوہ ان کا سکیورٹی کا انتظام اور چیکنگ کا انتظام بھی بہت قابلِ تعریف تھا۔ اللہ تعالیٰ ان تمام احمدی نوجوانوں کو جزا دے اور ان کے ذہنوں کو مزید جِلا بخشے جنہوں نے بڑی محنت سے یہ سسٹم ترتیب دیا تھا۔ عموماً مَیں جرمنی کے جلسہ کے بعد ان کے کارکنان کی خدمات اور خوبیوں کا ذکر کر دیا کرتا ہوں۔ اس سال کیونکہ موقع نہیں پیدا ہو سکا تو آج مَیں نے سوچا کہ مختصر ذکر کر دوں۔ بہر حال جلسہ کے دنوں میں گیٹس پر چیکنگ اور سکیورٹی کے نظام کے شعبے کو یہاں بھی جلسہ گاہ میں بھی اور اَور جگہوں میں بھی، قیامگاہوں میں بھی بہت زیادہ ہوشیار ہو کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اور ہر جگہ صرف نو عمر لڑکے ہی مقرر نہ کر دئیے جائیں بلکہ ان کے ساتھ ان کے پختہ ذہن کے جو افسران ہیں، یا نائبین ہیں وہ بھی ہونے چاہئیں۔ لیکن سب سے بڑھ کر یہ بات یاد رکھیں، جیسا کہ مَیں نے شروع میں ہی کہہ دیا ہے کہ ہمارا اصل انحصار خدا تعالیٰ کی ذات پر ہے۔ اس لئے کوئی بھی لمحہ دعاوٴں سے خالی نہ جانے دیں۔ ڈیوٹی کے دوران بھی دعائیں کرتے رہیں۔ سکیورٹی کے ضمن میں یہ بات بھی یاد رکھیں کہ عارضی قیام گاہیں جو اجتماعی طور پر حدیقۃ المہدی میں یا اسلام آباد میں مارکیوں میں بنائی جاتی ہیں، یا مستقل۔ (مستقل سے مراد ہے جو مسجد بیت الفتوح میں یا اور جگہ کہیں بھی)۔ اسی طرح انفرادی خیموں کی قیام گاہیں ہیں جو لوگ خود بھی لگاتے ہیں۔ خاص طور پر جوحدیقة المہدی اور اسلام آباد میں ہیں ان میں بعض دفعہ چوری کے اکّا دکّا واقعات ہو جاتے ہیں۔ اس لئے حفاظت کے انتظام کو خاص طور پر اس انتظام پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ اگر کوئی چوری کے لئے اندر آ سکتا ہے تو اور نقصان بھی پہنچا سکتا ہے، اس کو ہمیشہ یاد رکھیں۔ اس لئے قطع نظر اس کے کہ لوگوں کو آپ نے کہہ دیا کہ اپنا قیمتی سامان ساتھ لے جاوٴ اور لوگ لے جاتے ہیں لیکن پھر بھی آپ نے حفاظت اور پہرے کے کام کو پوری طرح اور ذمہ داری سے اسی طرح بجا لانا ہے اور گہری نظر رکھتے ہوئے یہ کام کرنا ہے۔ کسی بھی قسم کی سستی یا لاپرواہی سے کام نہیں لینا ہے۔ صرف چوری ہی نہیں بلکہ اور وجوہات کی وجہ سے بھی توجہ اور Vigilance کی ضرورت ہے اور پھر سکیورٹی والوں کو ہمیشہ پُر اعتماد رہنے کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ کبھی کسی صورت میں بھی panic ہونے کی ضرورت نہیں۔ اسی طرح دوسری ڈیوٹی والے ہیں۔ بعض دفعہ کھانے کے اوقات میں کھانے کی کمی اور مہمانوں کا رش ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے عموماً ایسا نہیں ہوتا ہے۔ لیکن کیونکہ کھانا اور جگہ پک رہا ہوتا ہے اور جلسہ کے دنوں میں کھلایا اَور جگہ جاتا ہے۔ اس لئے اگر دیر ہو جائے تو تحمل سے مہمانوں کی تسلی کروایا کریں۔ اسی طرح ٹرانسپورٹ ہے، جلسہ کے آنے اور جانے کے اوقات میں بسوں اور ٹرینوں پر رش ہو جاتا ہے۔ کارکنان تحمل سے رہتے ہوئے اپنے فرائض بھی ادا کریں اور مہمانوں کو بھی صبر اور حوصلہ دلائیں۔ یہ وقتی دِقّت ہے، مشکل کا سامنا ہونا چاہئے۔ مہمانوں کو حوصلہ دلائیں۔ ان کو تلقین کریں۔ غصہ میں آنے کی ضرورت نہیں ہے۔
پھر اسی طرح اور شعبہ جات ہیں۔ پانی کا شعبہ ہے، اس میں کمی بیشی ہو جاتی ہے۔ گرمی آج کل زیادہ ہے، پانی کی ضرورت بھی زیادہ ہوتی ہے۔ اگر موسم اچھا ہو تو ضرورت نہیں ہوتی لیکن اب تو یہاں بھی گرمی ہونے لگ گئی ہے اس لئے یہ بھی بڑا اہم شعبہ ہو گیا ہے۔ علاوہ پینے کے پانی کے ٹائیلٹس وغیرہ میں غسل خانوں میں پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ تو یہ سب شعبے ایسے ہیں جہاں باوجود کارکنان کے تجربہ کار ہونے کے مہمانوں کی بے حوصلگی کی وجہ سے بعض وفعہ افراتفری کی صورت پیدا ہو جاتی ہے۔ اس لئے جہاں کارکنان کو اپنی حالت کو صحیح رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے وہاں مہمانوں کو بھی تحمل کے ساتھ صحیح رہنمائی کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ احسن رنگ میں سب کو اپنے فرائض ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
مہمان نوازی ایک تو ویسے بھی ایک مومن کا طرّہ امتیاز ہے۔ اور جو مہمان خالص دینی غرض سے آ رہے ہوں اور جن کو زمانہ کے امام نے اپنا مہمان کہا ہو، ان کی مہمان نوازی تو خاص طورپربہت برکتیں لئے ہوئے ہے اور اس وجہ سے خاص توجہ چاہتی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مہمان جیسا کہ مَیں نے کہا دینی غرض کے لئے آتے ہیں۔ اور دینی غرض کیا ہے؟ کہ آنحضرتﷺ پر نازل ہوئے ہوئے دین کا زیادہ سے زیادہ علم حاصل کر کے اپنی زندگیوں میں پاک تبدیلیاں پیدا کریں اور خدا تعالیٰ کا مقرب بننے کی کوشش کریں۔ آنحضرتﷺ اس غرض کے لئے آئے ہوئے مہمانوں کی مہمان نوازی کس طرح فرمایا کرتے تھے؟ اس کی بے شمار مثالیں ہیں۔ کبھی ہم دیکھتے ہیں کہ مہمان آ گیا تو آنحضرتﷺ اپنے گھر میں پیغام بھیجتے ہیں، اپنی ہر بیوی کے گھر پیغامبر کو بھجواتے ہیں کہ آج میرا مہمان آ گیا ہے، اس کے کھانے کا بندوبست کرو۔ لیکن ہر بیوی کے گھر سے جواب ملتا ہے کہ آج تو ہمارا صرف پانی پر گزارا ہے، کھانے کی کوئی چیز نہیں۔ اب دیکھیں یہاں، آپ کی بیویوں کے بھی صبر اور شکر کے انتہائی مقام کا پتہ چلتا ہے۔ آپﷺ کی قوتِ قدسی کی وجہ سے کوئی واویلا نہیں۔ کوئی ہلکا سا احساس بھی نہیں دلایا جا رہا کہ آپ کے گھر والے بھوکے ہیں۔ گویا اس حالت کا بھی پتہ چلتا ہے تو مہمان کے آنے کی وجہ سے پتہ چل رہا ہے۔ تو بہر حال اس مہمان کو پھر ایک صحابی رسولﷺ اپنے ساتھ لے جاتے ہیں، اور وہ بھی کوئی امیر آدمی نہیں ہیں۔ ان کے گھر میں بھی صرف بچوں کے لئے خوراک ہے۔ وہ بچوں کو تو کسی طرح سلا دیتے ہیں، اور کھانا مہمان کے سامنے رکھ دیتے ہیں۔ اور خود چراغ بجھا کر اندھیرے میں اس طرح ظاہر کرتے ہیں، منہ چلا رہے ہیں، تا کہ مہمان کو بھی پتہ نہ چلے کہ وہ گھر والے بھی ساتھ کھانا کھا رہے ہیں کہ نہیں؟ اس کو احساس نہ ہو کہ گھر والے میرے ساتھ کیوں شامل نہیں ہو رہے۔ اور پھر اللہ تعالیٰ کے پیار کی نظر بھی دیکھیں اپنے بندوں کے اس فعل پر کس طرح پڑتی ہے؟ کہ اس کی خبر اللہ تعالیٰ اپنے پیارے رسولﷺ کو دیتا ہے کہ اس مومن مرد اور مومن عورت کے عمل نے رات مجھے ہنسا دیا اور جس مومن کے فعل سے اللہ تعالیٰ خوش ہو جائے اس کو تو دونوں جہان کی نعمتیں مل گئیں۔ اس کے لئے ایک وقت کے کھانے کی قربانی کی کیا حیثیت ہے۔ (بخاری کتاب مناقب الانصار باب قول اللہ ویوٴثرون علیٰ انفسہم ولوکان بہم خصاصة، حدیث نمبر3798)
کبھی ہم آنحضرتﷺ کی مہمان نوازی کا یہ انداز بھی دیکھتے ہیں کہ ایک یہودی جو بستر گندا کر کے چلا جاتا ہے، تو آپ خود اس کی صفائی کر رہے ہیں اور صحابہؓ کے کہنے پر کہ اے ہمارے پیارے! ہمارے ماں باپ آپ پر فدا ہوں ہمیں یہ کام کرنے دیں، تو آپ کہتے ہیں: نہیں، وہ مہمان میرا تھا اس لئے مَیں یہ کام خود کر رہا ہوں۔ پس مجھے یہ کام کرنے دو۔ (ملفوظات جلد 3صفحہ 370، 371)
پھر حضرت ابو ہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ آپؐ نے ہمیں نصیحت کرتے ہوئے ایک مومن جو اللہ اور یومِ آخرت پر یقین رکھتا ہے، اس کی تین نشانیاں بتائی ہیں۔ پہلی بات یہ کہ عمدہ اخلاق کے حامل بن کر ہمیشہ منہ سے اچھی بات نکالو۔ کسی کے لئے کسی قسم کی دل آزاری کی بات تمہارے منہ سے نہ نکلے۔ کیونکہ بد اخلاقی ہمارے ایمان کو بھی داغدار کر دیتی ہے۔ پس یا تو تم اچھی بات کہو یا خاموش رہو۔ اس سے جہاں تم خدا تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے والے بنو گے اور ایمان کی مضبوطی حاصل کرنے والے بنو گے وہاں معاشرے کے امن کی ضمانت بھی بن جاوٴ گے۔
دوسری بات اللہ تعالیٰ اور آخرت پر ایمان لانے والے کے لئے یہ ضروری ہے کہ اپنے پڑوس کی عزت کرو۔ اور پڑوسی کے حق کے لئے اللہ تعالیٰ نے ہمیں بڑے واضح حکم دئیے ہیں، اور آنحضرتﷺ نے مومنین کو بھی یہی بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کثرت سے پڑوسی سے حسنِ سلوک کرنے اور تعلق رکھنے اور اس کا حق ادا کرنے کا فرمایا ہے کہ مجھے خیال ہوا کہ شاید پڑوسی وراثت میں بھی حق دار نہ بن جائے اور اس کو حصہ دارنہ بنا دیا جائے۔ تو اللہ تعالیٰ نے پڑوسی صرف مستقل پڑوسی، گھروں کے ہمسایوں کو نہیں کہا بلکہ عارضی پڑوسیوں کا بھی ذکر ہے، اس کا بھی حق ادا کرنے کا ذکر ہے۔ کچھ وقت کے لئے جو ساتھ بیٹھ گیا ہے وہ بھی ہمسائے کے زمرے میں آتا ہے اور اس کا بھی حق ادا کرنے کا ذکر ہے اور یہاں تو ہم اپنے دینی بھائیوں کا حق ادا کر رہے ہیں۔ ان کا حق ہم نے ادا کرنا ہے، جو ان چند دنوں کی ہمسائیگی کے علاوہ بھی اپنا حق رکھتے ہیں۔ پھر ایک مومن کی آنحضرتﷺ نے تیسری نشانی یہ بتائی ہے کہ وہ مہمان کا احترام کرتا ہے۔ پس مہمان نوازی بھی ایمان میں مضبوطی اور اس کے اظہار کے لئے ضروری ہے اور اللہ تعالیٰ کے قرب کو پانے کا ذریعہ ہے۔ (صحیح مسلم، کتاب الایمان باب الحث علی اکرام الجار…، حدیث نمبر78)
جیسا کہ مَیں نے بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے اس مومنہ اور مومن کے عمل کو کس قدر خوشی سے دیکھا تھا۔ کتنا خوشی کا اظہار کیا تھا کہ آنحضرتﷺ کو بھی اس خوشی میں شامل فرمایا۔ انہوں نے اپنی بھوک تو ایک طرف رہی، بچوں کی بھوک کو بھی مہمان کی مہمان نوازی پر ترجیح دی۔ یہ نہیں کہا گیا کہ تم بچوں کیلئے کچھ رکھ لیتے، بلکہ اپنے آپ کو اور بچوں کو تکلیف میں ڈال کر مہمان نوازی کرنے پر اللہ تعالیٰ نے خوشنودی کی ایک سند عطا فرما دی کہ یہی حقیقی مومن ہیں جو اللہ تعالیٰ اور یومِ آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔ ہم نے تو یہاں صرف وقت اور جذبات کی تھوڑی سی قربانی دینی ہے، جو بھی ہم ان کی تھوڑی بہت خدمت کرتے ہیں۔ یہی اصول آنحضرتﷺ کے غلامِ صادق اور عاشقِ صادق نے آپؐ کی محبت اور پیروی میں اپنایا تھا کہ خدا تعالیٰ کی محبت کو سب سے بڑھ کر حاصل کرنے والے بنیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مہمان نوازی کوئی عارضی اور وقتی اور چند دنوں کی مہمان نوازی نہیں تھی بلکہ کثرت سے اور مستقل مہمان نوازی تھی۔ اور آپ اس کا ہمیشہ حق ادا فرماتے تھے۔ لیکن پھر بھی اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس بارہ میں فرمایا کہ وَلَا تُصَعِّرْ لِخَلْقِ اللّٰہِ وَلَا تَسْئَمْ مِّنَ النَّاس۔ اور جو لوگ تیرے پاس آئیں گے تجھے چاہئے کہ ان سے بد خلقی نہ کر اور ان کی کثرت کو دیکھ کر تھک نہ جانا۔ (تذکرہ، صفحہ197ایڈیشن چہارم)
باوجود اس کے کہ آپ مہمان نوازی کی انتہا کرتے تھے اور ابتداء میں ہی اللہ تعالیٰ نے آپ کو لوگوں کے آنے کی خبر دے دی تھی۔ آپ کو اللہ تعالیٰ نے الہام کر کے مختلف موقعوں پر باربار جو اس طرف توجہ دلائی ہے اس کا ذکر ہے۔ وہ اس لئے بھی ہے کہ یہ کثرت تو اب بڑھتی جانی ہے۔ اس لئے آپ کے بعد خلافت کے نظام نے خلیفہ وقت نے اور نظامِ جماعت نے بھی اس اصل کو سامنے رکھنا ہے، اس تعلیم کو سامنے رکھنا ہے اور مہمان نوازی کے اس اہم کام کو بھولنا نہیں ہے۔ پس یہ اہم کام جو ہمارے ذمّہ ہے اور یہ اہم وصف ہے جو ہم میں سے خاص طور پر ہر اس شخص نے اپنانا ہے جس کو خدا تعالیٰ نے مہمانوں کی خدمت کی توفیق دی ہے یا جو اپنے آپ کو مہمانوں کی خدمت کے لئے پیش کرتا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مہمان نوازی کو صحابہ نے کس طرح دیکھا اور ہم تک پہنچایا۔ کس طرز پر آپ مہمان نوازی فرمایا کرتے تھے۔ آپ کی مہمان نوازی کے طریق کیا تھے؟
حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ نے اپنی ایک کتاب میں اس بارہ میں کچھ لکھا ہے۔ جو کچھ باتیں انہوں نے نوٹ کیں، محسوس کیں اور ہم تک پہنچائیں، وہ اپنے الفاظ میں بیان کرتا ہوں۔ ایک تو یہ بتایا کہ آپ مہمانوں کے آنے پر بہت خوش ہوتے تھے۔ اور کارکنانِ لنگر خانہ کو ہدایت تھی کہ ان کے آرام کی ہر ممکن کوشش کی جائے۔ مہمانوں کی آمد سے، ان کے آنے پر آپ کو اطلاع دی جائے۔ ان مہمانوں کے علاقوں کے لحاظ سے ان کی خوراک کا بھی خیال رکھا جائے۔ اور اس کا خوراک کا خیال رکھنے کامقصد کیا تھا۔ فرمایا کرتے تھے کہ اگر ان کی صحت ہی ٹھیک نہ رہے تو وہ لوگ دین کیا سیکھیں گے؟ مہمان کے لئے آپ چاہتے تھے کہ مہمان اگر غیرہے تو اس کو زیادہ دن روک کر احمدیت یعنی حقیقی اسلام کا پیغام پہنچایا جائے۔ پھر یہ کہ مہمان سے تکلّف کا برتاوٴ نہیں ہوتا تھا۔ فرمایا کرتے تھے کہ مہمان بھی بے تکلفی سے اپنی ضروریات کا اظہار کر دیا کرے۔ اور بے تکلفی میں بھی مہمان کی عزت اور تکریم کا پورا خیال رکھا جاتا تھا اور خدام کویہ ہدایت فرماتے تھے۔ (ماخوذ از سیرت حضرت مسیح موعودؑ جلد اول ص: 141-142از حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ)
پھر آپ کی ایک خصوصیت تھی کہ مہمانوں کے آرام کے لئے ہر قسم کی قربانی فرماتے تھے۔ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب اپنا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ حضور علیہ السلام کے گھر کے لوگ لدھیانہ گئے ہوئے تھے، جون کا مہینہ تھا اور جون کا مہینہ پنجاب میں بڑا سخت گرمی کا مہینہ ہوتا ہے۔ اس وقت ایک مکان یا مکان کا ایک حصہ نیا نیا بنا تھا تو مولوی صاحب کہتے ہیں وہاں ایک چارپائی پڑی ہوئی تھی۔ اس میں موسم بھی، نسبتاً ذرا بہتر ہوتا ہے کیونکہ پانی وغیرہ کے استعمال کی وجہ سے، نئی اینٹوں کی وجہ سے اس میں کچھ نہ کچھ ٹھنڈک ہوتی ہے۔ جن لوگوں کو یہ سہولتیں یہاں میسر ہیں اور موسم بھی اچھا ہے ان کو وہ اندازہ نہیں ہوسکتا۔ لیکن وہاں کے رہنے والے جو ہیں، پرانے لوگ جو آئے ہوئے ہیں، وہ صحیح اندازہ کر سکتے ہیں کہ گرمیوں میں نیا بنا ہوا مکان کتنا آرام دہ لگتا ہے۔ تو بہر حال مولوی صاحب فرماتے ہیں کہ وہاں چارپائی بچھی ہوئی تھی مَیں بھی اس پر لیٹ گیا۔ اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ٹہل رہے تھے۔ تو مولوی صاحب کہتے ہیں کہ لیٹنے کے تھوڑی دیر بعد میری آنکھ لگ گئی۔ جب میری آنکھ کھلی تو مَیں نے دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرش پر میری چارپائی کے نیچے لیٹے ہوئے ہیں۔ مولوی صاحب کہتے ہیں کہ یہ دیکھ کر مَیں گھبرا کر اٹھ بیٹھا۔ آپ نے فرمایا کیا ہوا؟ آپ کیوں اس طرح اٹھ بیٹھے ہیں؟ تو مَیں نے عرض کی کہ حضور نیچے لیٹے ہوئے ہیں، یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ مَیں اوپر چارپائی پر سو جاوٴں۔ تو آپ نے مسکرا کر فرمایا کہ مَیں تو آپ کا پہرہ دے رہا تھا کہ لڑکے شور کرتے تھے، انہیں روکتا تھاکہ آپ کی نیند میں خلل نہ ہو۔ تو یہ محبت ہے جو مہمان نوازی سے بہت بڑھ کر ہے۔ جو صرف ماں باپ میں ہی شاید دیکھی جاتی ہے۔ بلکہ نہیں، یہ تو ماں باپ سے بڑھ کر محبت ہے۔ اور یہ تو اللہ تعالیٰ کے نبی کا ہی حصہ ہو سکتا ہے۔ لیکن ہم جو اس کام پر مامور کئے گئے ہیں، ہمیں یہ ذمہ داری لگائی گئی ہے کہ مہمانوں کی خدمت کرو۔ انہیں اس کا کچھ نہ کچھ حصہ تو بہر حال اپنانا چاہئے۔ لینا چاہئے، نمونہ دکھانا چاہئے۔ (ماخوذ از سیرت حضرت مسیح موعودؑ جلد اول ص155-156از حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ)
پھر آپ کی یہ خصوصیت تھی کہ مہمان کے مقام اور مرتبہ کا خیال فرمایا کرتے تھے لیکن عمومی مہمان نوازی ہر ایک کی ایک طرح ہی ہوتی تھی۔ یہاں بھی ہمارے غیر از جماعت اور غیر مسلم مہمان آتے ہیں۔ بعض ملکوں کی حکومتوں کے نمائندے ہوتے ہیں یا اپنی قوم کے لیڈر ہوتے ہیں، جیسے افریقہ کے چیف وغیرہ تو ان کی مہمان نوازی اور خیال رکھنے کی طرف خاص توجہ دینی چاہئے اور دی جاتی ہے۔ اور اس پر کوئی اعتراض کی بھی وجہ نہیں ہے کیونکہ آنحضرتﷺ کا بھی یہی ارشاد ہے کہ قوم کے سرداروں کو مناسب مقام اور مرتبے کے لحاظ سے اعزاز دو۔ لیکن اس میں اعتدال اس لحاظ سے ہونا چاہئے کہ جلسہ کی انتظامیہ اس حوالے سے جو بلا وجہ کئی قسم کی کیٹیگریز بنا لیتی ہے اور اخراجات کو بڑھا لیا جاتا ہے اس پر کنٹرول ہوناچاہئے۔ بعض دفعہ بعض خاص مارکیز اور جگہوں پر کوئی بھی نہیں ہوتا اور وہاں صرف کارکن ہی بیٹھے ہوتے ہیں۔ پھر بعض دفعہ مجھے اطلاعیں ملتی ہیں تو VIPکے نام کا بھی بعض اوقات غلط استعمال شروع ہو گیا ہے یا ہو جاتا ہے۔ تو اس طرف بھی انتظامیہ کو توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ بہر حال بے شک خاص مہمانوں کے لئے خاص انتظام کریں لیکن جگہ ایک ہی بنانی چاہئے اور اس میں بھی اعتدال ہو۔
پھر یہ کہ آپ کے دو ہی مقصد ہوتے تھے بلکہ تین کہنے چاہئیں، مہمانوں کی خدمت کے لئے، مہمانوں کو وصول کر کے ان کی مہمان نوازی کے۔ ایک تو یہ کہ مہمان نوازی کا حق تو ادا کرنا ہی ہے وہ تو ایک مومن پر فرض ہے۔ لیکن اس کے علاوہ آپ کے دو مقاصد تھے کہ ایک مہمانوں کی تربیت کریں اور دوسرے تبلیغ۔ پس جلسہ میں متعلقہ شعبہ جات کو اس طرف توجہ دیتے رہنا چاہئے۔ جلسہ کے اوقات میں ڈیوٹی والے جو بھی کارکنان ہیں وہ شامل ہونے والوں کو پیار سے جلسہ کا پروگرام سننے کی طرف توجہ دلائیں۔ جو ادھر ادھر پھر رہے ہوں ان کو نرمی سے سمجھائیں کہ آپ جلسہ گاہ میں چلے جائیں۔ اسی طرح شعبہ تبلیغ کو اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔
پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام دوست دشمن کی مہمان نوازی میں بھی فرق نہیں فرماتے تھے۔ کئی مخالفین بھی آتے تھے، لیکن اگر مہمان بن کر آئے ہیں تو خدام کو فرمایا کرتے تھے کہ ان کی مہمان نوازی کرو اور یہ کیونکہ مخالفین میں سے ہیں ہو سکتا ہے کہ بعض ایسی باتیں کر جائیں جو تمہاری دل شکنی کا باعث ہوں، لیکن تم لوگوں نے خاموش رہنا ہے، ان کو جواب نہیں دینا۔ ایسے کئی واقعات ہیں۔ مثلاً ایک مولوی عبدالحکیم نصیر آبادی بڑا مخالف تھا اس کی مہمان نوازی کا آپ نے حکم دیا۔ وہاں اپنے لنگر میں یا اس علاقہ میں تو نہیں ٹھہرایا، باہر نواب صاحب نے ایک نیا مکان بنوایا تھا، اس کو وہاں اس کے کمرے میں ٹھہرایا تا کہ احتیاط کے تقاضے بھی پورے ہوں لیکن خدام کومہمان نوازی کا حق بھی ادا کرنے کی تلقین فرمائی۔ اور یہ بھی فرمایا کہ کسی قسم کی بات نہیں کرنی۔ وہ کسی مباحثہ کے سلسلے میں آیا تھا۔ لیکن پھر وہ اس کے بغیر ہی چلا گیا۔ (ماخوذ از سیرت حضرت مسیح موعودؑ جلد اول ص: 160-161از حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ)
پھر اسی طرح ایک بغدادی مولوی کے نام سے مشہور تھا اس کا قصہ ہے۔ وہ گالیاں نکالنے میں بھی شیر تھا کیونکہ یہ مولوی جو ہیں اس کام میں بہت شیر ہوتے ہیں۔ بہر حال وہ خاص طور پر وہابیوں کے بڑا خلاف تھا۔ حضورعلیہ السلام نے اس کی مہمان نوازی فرمائی یعنی اس کا حکم دیا۔ کسی نے اس بغدادی مولوی کو کہا کہ جن کی مہمان نوازی سے تم لطف اٹھا رہے ہو اور جن کے سامنے بیٹھ کر وہابیوں کو گالیاں دے رہے ہو، یہ بھی وہابی ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس بات پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ گالیاں تو بہت زیادہ دیتا تھا لیکن مَیں نے اسے کبھی احساس نہیں ہونے دیا اور کہنے والے کا حضرت مسیح موعود کے متعلق یہ کہنا کہ یہ بھی وہابی ہیں، فرمایا کہ ایک لحاظ سے ٹھیک ہے کیونکہ مَیں بھی قرآن شریف کے بعد صحیح احادیث پر عمل کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ (ماخوذ از سیرت حضرت مسیح موعودؑ جلد اول ص: 161-162از حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ)
بہر حال ایسے کئی واقعات ہیں جن کی تفصیلات ہمارے لٹریچر میں، کتب میں موجود ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس عمل کو جو آپ علیہ السلام نے اپنے آقا و مطاع حضرت محمد مصطفیﷺ کے اسوہ کو دیکھ کر اپنایا ہم بھی اپنا کر عمل کرنے والے بنیں۔ مہمانوں کا حق ادا کرنے والے بھی ہوں۔ لیکن ساتھ ہی ایک بات مَیں کہنا چاہتا ہوں جیسا کہ پہلے بھی مَیں نے کہا، اپنی آنکھیں کھلی رکھ کر گرد و پیش کا جائزہ بھی لیتے رہیں کیونکہ آج کل جماعت کی مخالفت اور دشمنی نے شرارتی عنصر کو ہر قسم کی اخلاقی پابندیوں سے عاری کر دیا ہے۔ اور نہ صرف اخلاقی، بلکہ کسی بھی قسم کی شرارت کی ان سے توقع کی جا سکتی ہے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو احسن رنگ میں اپنی ذمہ داریاں نبھانے کی توفیق عطا فرمائے اور ہر شر سے محفوظ رکھے۔
نمازِ جمعہ کے بعد مَیں ایک جنازہ غائب بھی پڑھاوٴں گا جو مکرمہ مبارکہ بیگم صاحبہ اہلیہ صوفی نذیر احمد صاحب کا ہے، جو 14 جولائی 2010ء کو مختصر علالت کے بعد وفات پا گئیں۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ ان کی عمر نواسی (89) سال تھی، آج کل جرمنی میں تھیں۔ آپ بہت دعا گو اور صابر شاکر، صاحبِ روٴیا بزرگ خاتون تھیں۔ خلافت کی بڑی سچی وفا دار عاشق تھیں۔ اپنی مرض الموت جو چند دن کی بیماری تھی اس میں بھی میرے متعلق یہی پوچھتی رہتی تھیں کہ ان کا کیا حال ہے؟ اپنی بیماری کی فکر نہیں تھی۔ ہر ایک کے لئے نفع رساں وجود تھیں۔ کسی کو دکھ نہیں دیا بلکہ دوسروں کے دکھوں کو اپنا لیا۔ طبیعت میں قربانی اور ایثار کا بڑا مادہ تھا۔ ایک دفعہ ان کو دعا کے لئے کہہ دیا جائے تو ہمیشہ دعائیں کرتی رہتی تھیں۔ ہمیشہ ہر ایک کی معمولی نیکی کی بھی قدر کی۔ قناعت ان میں بہت زیادہ تھی۔ ایک زیور بنوایا تھا تو وہ مریم شادی فنڈ میں دے دیا۔ پھر وفات سے پہلے ان کے پاس کچھ رقم جمع تھی تو فرمایا کہ یہ بھی بلال فنڈ میں دے دینا۔ مرحومہ نے اپنے دو بھائیوں کی بیویوں کے وفات پا جانے کے بعد اپنے محدود وسائل کے باوجود ان کے بچوں کی تعلیم و تربیت کی۔ ان کے پسماندگان میں دو بیٹیاں اور چار بیٹے ہیں۔ دو بیٹے واقفِ زندگی ہیں۔ ایک تو مکرم ڈاکٹر جلال شمس صاحب ہیں جو آج کل ٹرکش ڈیسک کے انچارج ہیں۔ اور دوسرے منیر جاوید پرائیویٹ سیکرٹری ہیں۔ ان کے یہ دو بیٹے واقفِ زندگی ہیں۔ اور ان کی ایک بیٹی مکرم حنیف محمود صاحب واقفِ زندگی جو ربوہ میں نائب ناظر اصلاح و ارشاد ہیں، ان کی اہلیہ ہیں۔ تو اس لحاظ سے ان کے تین بچے واقفینِ زندگی ہی سمجھے جائیں۔ دو تو ابھی بھی واقفِ زندگی ہی ہیں۔ واقفِ زندگی کی بیوی بھی واقفِ زندگی ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ مرحومہ کے درجات بلند فرمائے۔ مغفرت کا سلوک فرمائے، اور جیسا کہ مَیں نے کہا نمازِ جمعہ کے بعد ان کی نماز جنازہ ادا کی جائے گی۔
(الفضل انٹرنیشنل جلد 17 شمارہ 33 مورخہ13؍اگست تا 19؍اگست 2010 صفحہ 5 تا 8)
جماعتِ احمدیہ برطانیہ کے جلسہ سالانہ کے حوالہ سے ڈیوٹیاں دینے والوں کے فرائض، مہمان نوازی اور مہمانوں سے حسنِ سلوک کرنے کی نصیحت، اور اس حوالہ سے رسولِ کریمﷺ کا اسوہ حسنہ، حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام کی مہمان نوازی، محترم منیراحمدجاویدصاحب پرائیویٹ سیکرٹری لندن کی والدہ محترمہ مبارکہ بیگم صاحبہ اہلیہ صوفی نذیر احمد صاحب کے نمازِ جنازہ اور اوصاف حمیدہ کا تذکرہ۔
خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 23جولائی 2010ء بمطابق 23وفا 1389 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن (برطانیہ)
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔