مہمانوں اور ڈیوٹی والوں کے لئے ذرّیں ہدایات
خطبہ جمعہ 30؍ جولائی 2010ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
تشہد و تعوذ اور سورة فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےاس آیت کی تلاوت فرمائی:
اَلتَّآئِبُوۡنَ الۡعٰبِدُوۡنَ الۡحٰمِدُوۡنَ السَّآئِحُوۡنَ الرّٰکِعُوۡنَ السّٰجِدُوۡنَ الۡاٰمِرُوۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ النَّاہُوۡنَ عَنِ الۡمُنۡکَرِ وَ الۡحٰفِظُوۡنَ لِحُدُوۡدِ اللّٰہِ ؕ وَ بَشِّرِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ (التوبة: 112) اس آیت میں ان لوگوں کا نقشہ کھینچا گیا ہے جو دین کو دنیا پر مقدم کرنے والے ہیں اور اپنے ایمان کی اس حالت کی وجہ سے خدا تعالیٰ سے بشارت پانے والے ہیں۔ گویا یہ خصوصیات رکھنے والے حقیقی مومن کہلاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ اَلتَّـآئِبُوْنَ: توبہ کرنے والے، ایسی توبہ، جو توبہ کا حق ہے۔ اَلْعٰبِدُوْنَ: عبادت کرنے والے۔ ایسی عبادت جو عبادت کا حق ہے۔ اَلْحٰمِدُوْن: حمد کرنے والے جو حمد کرنے کا حق ہے۔ اَلسَّآئِحُوْنَ: اللہ کی راہ میں خالص ہو کر سفر کرنے والے، یعنی ایسا سفر جو دین کی غرض سے اور دین سیکھنے کے لئے ہو۔ اَلرّٰکِعُوْن: مکمل طور پر خدا تعالیٰ کے آگے جھکنے والے، اور عاجزی اور بے نفسی کا مکمل اظہار کرنے والے۔ اَلسّٰجِدُوْن: انتہائی انکسار، عاجزی اور کامل فرمانبرداری سے خدا تعالیٰ کے آگے سجدہ کرتے ہوئے ماتھا ٹیکنے والے۔ اَلْاٰمِرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَالنَّاھُوْنَ عَنِ الْمُنْکَر: یعنی خدا تعالیٰ کے پیغام کے داعی بن کر نیکیوں کا حکم دینے والے اور برائیوں سے روکنے والے ہیں۔ موٹی برائیوں اور باریک تر برائیوں سے بھی روکنے والے ہیں۔ اور موٹی موٹی نیکیوں کی طرف توجہ دلانے والے بھی اور باریک تر نیکیوں کی تلقین کرنے والے بھی ہیں۔ اور ظاہر ہے یہ اس وقت ہو سکتا ہے جب اپنے اندر یہ تبدیلی پیدا ہو جائے کہ خود برائیوں سے بچنے والے ہوں اور نیک اعمال بجا لانے والے ہوں۔ اور جس میں یہ پہلی چھ خصوصیات جو اس آیت میں بیان کی گئی ہیں پیدا ہو جائیں، یعنی توبہ کی طرف توجہ، عبادت کی طرف توجہ، اللہ تعالیٰ کی حمد کی طرف توجہ، دین سیکھنے کی خاطر سفر کرنا، اور رکوع و سجود کی طرف توجہ جو رکوع و سجود کا حق ہے تو ان میں یقیناً یہ خوبی پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ برائیوں سے دور بھاگنے والے ہوتے ہیں اور ان کے ہر قول و فعل سے نیکی کا اظہار ہو رہا ہوتا ہے۔ اور یہی لوگ ہیں جو اس مرتبے پر پہنچتے ہیں جس کا اللہ تعالیٰ نے یہ (کہہ کر) ذکر فرمایا ہے کہ اَلْحٰفِظُوْنَ لِحُدُوْدِ اللّٰہِ: اللہ تعالیٰ کی حدود کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ اس گروہ میں شامل ہو جاتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی حدود کی حفاظت کرنے والا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ انہیں نیکیوں میں بڑھتے چلے جانے کی توفیق عطا فرماتا ہے۔
اس وقت آپ جو میرے سامنے بیٹھے ہوئے ہیں میری دعا ہے اور میں امید رکھتا ہوں کہ ان خصوصیات کے حامل بننے کی کوشش کرتے ہوئے اس گروہ میں شامل ہونے کے لئے یہاں تشریف لائے ہیں۔ آپ میں سے ایک بڑی تعداد ان مسافروں کی ہے جنہوں نے تکلیف اٹھا کر یہ سفر اختیار کیا۔ اور آج جو جلسہ شروع ہو رہا ہے اس میں شامل ہونے کے لئے تشریف لائے ہیں۔ آج صبح ہی جب میں نمازِ فجر پڑھا کر جا رہا تھا تو مَیں نے دیکھا ایک خاندان بلکہ اور بھی کئی ہوں گے، جو ساری رات یورپ سے ایک لمبا سفر کر کے یہاں پہنچے تھے۔ بچے بھی تھے، عورتیں بھی تھیں۔ یہ تکلیف اٹھا کر سفر کرنے والے لوگ ہیں تا کہ جو جلسہ شروع ہو رہا ہے اس میں شامل ہو سکیں۔ بلکہ یہاں حدیقة المہدی میں آپ میں سے ہر ایک نے آنے کے لئے کچھ نہ کچھ سفر اختیار کیا ہے اور یہ خدا تعالیٰ کی نظر میں مومنین کی جماعت کی ایک بہت بڑی خصوصیت ہے کہ وہ دین کی خاطر اور دین سیکھنے کے لئے سفر اختیار کرتے ہیں۔ تبھی تو خدا تعالیٰ نے توبہ کرنے والوں، عبادت کے معیار قائم کرنے والوں، اللہ تعالیٰ کی حمد سے اپنی زبانوں کو تر رکھنے والوں، عاجزی اور انکسار سے اللہ تعالیٰ کے حضور رکوع و سجود کرنے والوں میں ان للّہی سفر اختیار کرنے والوں کو شامل فرمایا تا کہ وہ اپنی نیکی اور تقویٰ کی حالت کو مزید صیقل کرنے والے بنیں۔ پس آج جو لوگ ایک نیک مقصد کے لئے یہاں آئے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مہمان بن کر یہاں آئے ہیں، دنیاوی اعزاز اور دنیاوی خدمت کی بجائے ان اعلیٰ مقاصد میں مزید ترقی کو اپنے پیشِ نظر رکھیں جو بیان ہوئے ہیں۔ بے شک نظامِ جماعت کے تحت اس پاک اور بامقصد سفر کرنے والے مسافروں اور مہمانوں کے لئے خدمت کا نظام موجود ہے، لیکن جو للّٰہی سفر اختیار کرنے والے ہوتے ہیں ان کی ان دنیاوی ضروریات اور آراموں کی طرف بہت کم توجہ ہوتی ہے اور اس اکٹھ اور جمع ہونے کی روح اور بنیادی مقصد سے فیض پانے کی زیادہ کوشش ہوتی ہے۔ پس آپ اپنے آپ کو کبھی دنیاوی مسافروں اور مہمانوں کے زمرہ میں لانے کی کوشش نہ کریں۔ اگر اس بات کو آپ سمجھ جائیں گے تو میزبانوں کی کمزوریوں اور کمیوں سے بھی آپ صرفِ نظر کرتے رہیں گے۔ ورنہ بعض دفعہ یہ دیکھنے میں آیا ہے، یہ شکوہ ہو جاتا ہے کہ فلاں جگہ کے لوگوں کا بہتر انتظام ہے۔ ان کو فلاں جگہ بہتر انتظام کے تحت رکھا گیا ہے اور ہماری طرف توجہ نہیں دی گئی حالانکہ انتظامیہ کی اس طرف پوری کوشش ہوتی ہے کہ ہر مہمان کو آرام پہنچایا جائے۔ ہاں بعض غیر از جماعت مہمان ہوتے ہیں، یا بعض ایسے لوگ ہیں جو اپنی قوم کے لیڈر ہیں ان کے لئے علیحدہ انتظام کیا جاتا ہے اور یہ جائز ہے۔ انتظامیہ تو حتی الوسع مہمانوں کے آرام اور سہولت کو پیشِ نظر رکھتی ہے۔ پس میں شامل ہونے والے مہمانوں سے کہوں گا کہ اگر وہ اپنے سفر کے مقصد کو پیشِ نظر رکھیں گے اور جلسے کے دنوں میں نیکیوں کو مزیدنکھارنے کی کوشش کریں گے تو یقیناً بشارت پانے والے موٴمنین کے زمرہ میں شامل ہونے والے بنیں گے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنی بیعت میں آنے والے مہمانوں کی بہت عزت و تکریم فرماتے تھے۔ ان سے یہ بھی فرما دیا کرتے تھے کہ اپنی ضروریات بے تکلفی سے بیان کر دیا کرو۔ لیکن جلسے کے جو مہمان تھے ان کے لئے آپ فرمایا کرتے تھے کہ ایک ہی انتظام ہو۔ ہر مہمان کی اسی طرح مہمان نوازی کی جائے جو ایک انتظام کے تحت ہے۔ لیکن ساتھ ہی اس تکریم کے باوجود عام حالات میں بھی بڑے زور سے ہر مہمان کے دل میں یہ بات راسخ فرماتے تھے کہ تمہاری یہاں آنے کی اصل غرض دین سیکھنا ہے اور اپنے دل و دماغ کو پاک کرنا اور اللہ تعالیٰ کا قرب پانے کی منازل کو طے کرنا ہے۔ پس یہی غرض ہے جس کے حصول کے لئے ہر سال آپ لوگ مہمان بن کر یہاں آتے ہیں اور جمع ہوتے ہیں۔ اور اسی غرض کے لئے جلسہ سالانہ پر آنے والے مہمانوں کو جلسہ میں شامل ہونے کے لئے آنا چاہئے۔
مہمانوں کے لئے چند عمومی باتیں بھی مَیں سامنے رکھنا چاہوں گا۔ ایک مومن کے لئے اپنے وقت کا صحیح استعمال انتہائی ضروری ہے۔ جب ایسے اجتماعی موقعوں پر سب جمع ہوتے ہیں تو دور دور سے آئے ہوئے عزیزوں اور واقف کاروں کی ایک دوسرے سے ملاقاتوں اور مل بیٹھنے کی خواہش بھی ہوتی ہے۔ اب جبکہ صرف ایک ملک کے رہنے والے واقف کار اور عزیز نہیں بلکہ دوسرے ملکوں کے رہنے والے واقف کاروں اور عزیزوں سے بھی ملاقات کے سامان ہوتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہ جماعت پیدا فرمائی ہے جس نے ملکوں اور قوموں کی سرحدوں اور فرقوں کو بھی ختم کر دیا اور ایک عظیم بھائی چارے کی بنیاد پڑ چکی ہے۔ اور آپ نے جلسہ میں شامل ہونے والوں کا ایک مقصد یہ بھی بیان فرمایا ہے کہ جماعت کے تعلقاتِ اخوت استحکام پذیر ہوں۔ ان میں مضبوطی پیدا ہوتی چلی جائے۔ ہم ایک قوم بن جائیں۔ اور اس کے لئے ظاہر ہے، مل بیٹھنے کی ضرورت بھی ہو گی۔ ایک دوسرے سے واقفیت اور تعلق بڑھانے کی ضرورت بھی ہو گی۔ لیکن سارا دن جلسہ کا جو پروگرام ہو رہا ہوتا ہے، اس کو جلسہ سننے میں گزارنا چاہئے۔ اور اس کے بعد ہی اس کے لئے موقعہ میسر آتا ہے۔ لیکن بعض دفعہ یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ یہ مل بیٹھنا اتنا لمبا ہو جاتا ہے کہ خوش گپیوں میں ساری ساری رات ضائع ہو جاتی ہے۔ یا کھانے کی مارکی میں باتوں میں اتنا وقت لگ جاتا ہے کہ نمازوں کے اوقات میں انتظامیہ کو یاددہانی کروانی پڑتی ہے۔ اسی طرح جو گھروں میں اپنے عزیزوں یا واقفکاروں کے پاس ٹھہرے ہوئے ہیں، وہ بھی لمبی مجلسوں کی وجہ سے وقت ضائع کر رہے ہوتے ہیں اور جلسے پر آنے کی اصل غرض کو بھول جاتے ہیں۔ پس ہر کام میں اعتدال ہونا چاہئے اور یہی ایک مومن کی شان ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں مومنوں کو آنحضرتﷺ کی طرف سے کھانے کی دعوتوں اور اس میں شامل ہونے کے طریق اور دعوت ختم ہونے کے بعد کیا طریق ہونا چاہئے؟ اور آپ کے وقت کو ضائع کرنے سے بچانے کی نصیحت فرمائی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ خاص حکم جہاں آنحضرتﷺ کے مقام و مرتبہ اور آپ کے وقت کی قدر و قیمت کو مدّ نظر رکھ کر فرمایا ہے وہاں مومنین کو بھی وقت کے حوالے سے یہ عمومی نصیحت ہے کہ لَا مُسْتَاْنِسِیْنَ لِحَدِیْثٍ (الاحزاب: 54) کہ بیٹھے باتوں میں وقت نہ ضائع کیا کرو۔ بے شک تعارف حاصل کرو۔ بیٹھو، تعارف کو بڑھاوٴ۔ پہلے جو تعلقات ہیں انہیں مزید مستحکم کرو، لیکن اپنے وقت کا بھی کچھ پاس اور خیال کرو۔ اور جس کے گھر میں اور جس انتظام کے تحت بیٹھ کر ان خوش گپیوں میں مصروف ہو ان کا بھی کچھ خیال رکھا کرو۔ خاص طور پر جو یہاں کام کرنے والے ہیں ان لوگوں کی مصروف زندگی ہے، ان کو بھی باہر سے آنے والے جو مہمان ہیں بعض اوقات مجبور کرتے ہیں کہ ہماری ان مجلسوں میں بیٹھو، اور اگر کوئی نہ بیٹھے تو عزیز رشتے دار، تعلق والے پھر شکوہ کرتے ہیں۔ یہ غلط طریق ہے۔ اس کی بھی احتیاط ہونی چاہئے۔
اسی طرح صرف یورپ سے باہر کے لوگ نہیں بلکہ یورپ کے لوگ بھی، چونکہ خود فارغ ہو کے آئے ہوتے ہیں، اس لئے یہ سمجھتے ہیں کہ باقی لوگ بھی فارغ ہو چکے ہیں۔ آپ کی تو چھٹیاں ہیں، ہر ایک کی چھٹیاں نہیں ہوتیں۔ پھر اسی طرح جب بڑی تعداد میں لوگ جمع ہوں تو بعض دفعہ بد مزگیاں بھی پیدا ہو جاتی ہیں۔ کبھی انتظامیہ سے شکوے کی وجہ سے کسی کارکن کو برا بھلا کہہ دیا۔ کارکنان نے بھی آگے سے جواب دے دیا تو پھر مزید بات آگے بڑھتی چلی جاتی ہے اور اس طرح رنجشوں کا ایک سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ اگر تو شکوے کرنے والے یا کوئی غلط بات کہنے والے یہاں کے رہنے والے ہیں تو پھر یہ سلسلہ بہت ہی لمبا ہو جاتا ہے۔ ایک حقیقی مومن کے بارے میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے۔ وَالْکٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ (آل عمران: 135) کہ وہ غصہ کو دبانے والے ہوتے ہیں۔ پس زیادتی کرنے والے اور جس پر زیادتی ہو رہی ہے، دونوں کو میں کہتا ہوں کہ جلسے کے ماحول کے تقدس کو سامنے رکھیں اور مہمان بھی صرفِ نظر سے کام لیں اور عفو و درگزر کریں۔ اگر زیادتی ہو بھی جائے تب بھی صبر اور حوصلہ دکھائیں۔ اور کارکن بھی اپنے غصہ کو مہمان کی زیادتی ہونے کے باوجود دبا جائیں۔ اس سال خاص طور پر کارڈز کی چیکنگ اور سکیورٹی کے مختلف مرحلوں کی وجہ سے ہو سکتا ہے کسی کو تکلیف ہو اور دیر لگ جائے۔ اس وقت بھی مجھے عورتوں کی یہی رپورٹ ملی ہے کہ جہاں سے ان کے داخلے کے گیٹ ہیں، وہاں ان کے بہت زیادہ بیگ ہونے کی وجہ سے دیر لگ رہی ہے۔ بیگ تو ان کی مجبوری ہے، لانے پڑتے ہیں کیونکہ بیچ میں بچوں کی چیزیں بھی ہوتی ہیں لیکن خواتین کو بھی چاہئے کہ آئندہ دنوں میں کم سے کم بیگ لائیں۔ بعضوں نے دو دو تین تین اٹھائے ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ سے وقت ضائع ہو رہا ہے۔ اور اسی وجہ سے مَیں کچھ دیر رک کر آیا ہوں۔ لیکن مجھے بتایا گیا ہے کہ رش اتنا ہے کہ ابھی عورتوں کا اندر داخل ہونے پر مزید کافی وقت لگ جائے گا۔ جبکہ مردوں کا داخلہ بڑا smooth چل رہا تھا۔ تو بہر حال یہ دیر ہو رہی ہے۔ بعضوں کو دھوپ میں بھی کھڑا ہونا پڑے گا، اسی وجہ سے بے چینی پیدا ہوتی ہے، یا اپنے کسی عزیز کی وجہ سے جو کچھ معذور ہیں یا جو پوری طرح صحت مندنہ ہو، ان کی چیکنگ ہونے کی وجہ سے ان کو لانے والے کو بھی رکنا پڑتا ہے۔ گو یہ انتظام ہے کہ disable لوگوں کے لئے انہوں نے علیحدہ راستہ بنایا ہے اور جلدی فارغ کرنے کی کوشش ہوتی ہے۔ لیکن ان کو لانے والے جو دوسرے اٹنڈنٹ (Attendent) ہیں اُن کو بعض دفعہ چیکنگ میں وقت لگ جاتا ہے۔ تو پھر اس وجہ سے اس معذور کو بھی تکلیف ہوتی ہے۔ جس کی وجہ سے بعض زودرنج جو ہیں بڑبڑانا شروع کر دیتے ہیں۔ تو یہ چیزیں پھر ماحول میں بدمزگی کا باعث بنتی ہیں۔ پس صبر اور حوصلہ دکھانا بھی ایک مومن کی شان ہے۔
آنحضرتﷺ نے فرمایا ہے کہ بڑی فضیلت یہ ہے کہ تم قطع تعلق کرنے والے سے تعلق قائم رکھو۔ جو تمہیں نہیں دیتا اسے بھی دو۔ یہ نہیں کہ جو ضرورت کے وقت تمہارے کام نہیں آیا تو اس کو ضرورت پڑنے پر بدلہ لیتے ہوئے تم بھی اس کی مددنہ کرو۔ اور فرمایا کہ جو تمہیں برا بھلا کہتا ہے اس سے درگزر کرو۔ پس یہاں تو برا بھلا کہنے کا سوال نہیں ہے۔ یہاں تو ایک فرض کی ادائیگی ہے جو کارکنان کے ذمہ لگائی گئی ہے۔ پس یہاں اگر انجانے میں کسی کارکن سے کوئی غلطی ہو جائے یا چیکنگ کے دوران دیر لگ جائے یا کسی کے کارڈ پر کوئی اعتراض پیدا ہو جائے تو برا منانے کی بجائے حوصلہ دکھانا چاہئے۔ اب یہ تینوں باتیں جو آنحضرتﷺ نے فرمائی ہیں یہ وسعتِ حوصلہ کی طرف رہنمائی کرتی ہیں۔ اگر وسعتِ حوصلہ پیدا ہو جائے تو تمام بدمزگیاں اور جھگڑے ختم ہو جائیں۔ پس میں مہمانوں اور ڈیوٹی دینے والوں، دونوں کو کہتا ہوں کہ ان کا فرض ہے کہ وسعتِ حوصلہ دکھائیں۔ یہاں مَیں ایک بات چیکنگ کرنے والے کارکنان جو گیٹس پر ڈیوٹی والے ہیں، ان کو بھی کہنا چاہتا ہوں کہ بعض نوجوان اور لڑکپن کی عمر کے ہیں، گو کہ مجھے امید ہے کہ جلسے کے دوران ان دنوں میں تو ایسا واقعہ نہیں ہو گا۔ لیکن بعض جگہ ایسے واقعات ہوئے ہیں کہ غلط رویہ دکھایا گیا ہے۔ اور یہ نظام چونکہ نیا شروع ہوا ہے اس لئے باوجود میرے کہنے کے اور اس کوشش کے کہ یہاں ان جگہوں پر سنجیدہ طبع لوگوں کی ڈیوٹی لگائی جائے، بعض غیر سنجیدہ یا ایسے لوگ جو موقع محل نہیں دیکھتے انہیں ہروقت مذاق کی عادت ہوتی ہے ان کی بھی ڈیوٹی لگ گئی ہے۔ مذاق میں کسی واقف کار کو ضرورت سے زیادہ وقت لگا کر چیک کرتے ہیں۔ جس سے بعض اوقات وہ مذاق جو ہے وہ سنجیدگی میں بدل جاتا ہے۔ اس لئے گیٹ پر چیکنگ کے وقت انتظامیہ کو چاہئے کہ سنجیدہ لوگ موجود ہوں اور نائبین جو افسران ہیں وہ بھی ضرور موجود رہیں۔ دوسرے اس مذاق میں جو وقت ضائع ہوتا ہے تو اس سے جو دوسرے آنے والے ہیں ان کا بھی وقت لگ جاتا ہے ان کو بھی تکلیف ہوتی ہے، ان کو انتظار کرنا پڑتا ہے۔ میرے پاس ایک آدھ شکایت اس قسم کی بھی آئی ہے اس لئے یہ صورتِ حال بیان کر رہا ہوں۔ بہر حال تمام مہمان یہاں ایک نیکمقصد کے لئے آئے ہیں۔ اس لئے اس مقصد کے حصول کی کوشش کریں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خواہش کے مطابق باہم محبت و اخوت کی مثال بن جائیں۔ اللہ تعالیٰ نے جو موٴمنین کا نقشہ کھینچا ہے کہ رُحَمَآءُ بَیْنَھُمْ (الفتح: 30) کہ آپس میں ایک دوسرے سے بہت پیار اور محبت اور نرمی اور ملاطفت کا سلوک کرتے ہیں تا کہ خدا تعالیٰ کی رضا مندی اور اس کا فضل حاصل کرنے والے بن سکیں اور اس فضل کے حصول کے لئے چھوٹی چھوٹی باتوں میں الجھنے کی بجائے وہ رکوع و سجود اور عبادتوں سے اپنی زندگی کے مقصدکو حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پس ہر مہمان جو یہاں آیا ہے اپنے سفر کو خالصتاً للہ بنانے کی کوشش کرے۔ جیسا کہ مَیں نے گزشتہ خطبہ میں میزبانوں کو کہا تھا کہ باہر سے آنے والے مہمان، کارکنوں کے کام کو دیکھتے ہیں کہ کس طرح یہ کام کر رہے ہیں؟ اور اس کام کودیکھ کر بڑے متاثر ہوتے ہیں۔ اور ہر کارکن ایک خاموش تبلیغ کر رہا ہوتا ہے۔ اسی طرح جلسہ میں شامل ہونے والا ہر احمدی بھی احمدیت کی خاموش تبلیغ کر رہا ہوتا ہے اور احمدیت کا سفیر ہے۔ ہر سال مجھے یہاں بھی اور جرمنی وغیرہ میں بھی اور بعض دوسرے ملکوں سے بھی رپورٹیں آتی ہیں وہاں سے بھی پتہ لگتا ہے کہ پہلی دفعہ آنے والے غیر از جماعت مہمان یہی کہتے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے کہ اتنا بڑا مجمع اور بغیر کسی شور و فساد کے ہر کام بڑے آرام سے چل رہا ہوتا ہے۔ اور اس بات کو دیکھ کر ہر کوئی یہ کہتا ہے کہ مسلمانوں کا یہ رخ تو ہم نے پہلی دفعہ دیکھا ہے۔ دیکھنا کیا تھا ان کی اکثروں کی باتیں سنی سنائی ہوتی ہیں۔ بہر حال یہ ایک خاموش تبلیغ ہے جو ہر احمدی جلسے کے دنوں میں کر رہا ہوتا ہے۔ پس یہاں جلسہ میں شامل ہونے والے جلسہ میں شامل ہو کر صرف اپنی اصلاح نہیں کر رہے ہوتے، بلکہ بہت سوں کو سیدھی راہ دکھانے کا باعث بھی بنتے ہیں۔ پس اس عمل سے اللہ تعالیٰ کے پیار کی نظر پہلے سے بڑھ کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ان مہمانوں پر پڑتی ہے جو بعض حالات میں اللہ تعالیٰ کی خاطر اپنے صبر اور حوصلے اور ہمت اور برداشت کا مادہ ظاہر کر رہے ہوتے ہیں اور اسلام کے اعلیٰ اخلاق کا اسلامی نمونہ ہیں وہ دکھا رہے ہوتے ہیں۔ اور اسی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اُن دعاوٴں کے وارث بن رہے ہوتے ہیں جو جلسے میں شامل ہونے والوں کے حق میں آپ نے فرمائیں۔ ایک بات مَیں مہمانوں کو ہر سال یاد کرواتا ہوں، لیکن ایک طبقہ بات سن کر یوں اڑا دیتا ہے جیسے انہوں نے سنا ہی نہیں اور وہ یہ کہ جماعتی مہمان داری کے انتظام کے تحت یورپ کے یا امریکہ وغیرہ کے ترقی یافتہ ملکوں کے علاوہ جو دوسرے غریب ممالک پاکستان، ہندوستان، بنگلہ دیش وغیرہ، اسی طرح افریقہ کے ممالک سے آ رہے ہیں وہ دو یا تین ہفتے سے زیادہ نہ ٹھہرا کریں۔ اس سے جلسے کی انتظامیہ جو ہے اس کو بھی دِقّت ہوتی ہے۔ اور جماعت کا جومستقل نظام ہے اس کو بھی دِقّت ہوتی ہے۔ کیونکہ رہائش کی باقاعدہ جگہیں تو اس قدر یہاں نہیں ہیں کہ تمام نظام اور رہائش کا انتظام آسانی سے چل سکے۔ عارضی رہائشگاہیں بنائی جاتی ہیں چاہے وہ کسی جماعتی جگہ پر ہوں یا کسی سے گھر لیا ہو یا مسجد میں ہوں۔ گھروں کی تو خیر محدود رہائش ہے اس سے زیادہ گھروں کا استعمال نہیں کیا جا سکتا لیکن جو جماعتی جگہیں ہیں یا مسجد ہے اس میں تو ایک محدود وقت تک مہمان ٹھہرانے کی اجازت ہوتی ہے لیکن اس کے بعد پھر حکومتی ادارے نگرانی شروع کر دیتے ہیں اور جماعت کا یہاں کی مقامی انتظامیہ پر ایک اچھا اثر ہے کہ یہ لوگ قاعدہ اور قانون کی پابندی کرنے والے ہیں۔ تو اگر اس قواعد کی پابندی نہ ہو رہی ہو تو اس سے برا اثر پڑتا ہے۔ پس اس بات کا بھی خاص خیال رکھیں کہ اگر زیادہ دیر ٹھہرنا ہے تو اپنے واقفوں اور عزیزوں کے پاس ٹھہریں اگر وہ ٹھہرانے پر راضی ہوں۔ زبردستی تو وہاں بھی نہیں ہو سکتی۔ آنحضرتﷺ نے اس بات سے سختی سے منع فرمایا ہے اور اس کو جائز قرار نہیں دیا کہ مہمان اتنا لمبا عرصہ مہمان نوازی کروائے کہ میزبان کو تکلیف میں ڈال دے۔ پس ایک نیک مقصد کے لئے آئے ہوئے مومن کو اس بات کا خاص خیال رکھنا چاہئے۔ زبردستی کسی جگہ پر رہنا ایسا ہی ہے جیسا کہ کسی کے گھر ڈاکہ ڈالنا اور ایک موٴمن سے تو کبھی یہ توقع نہیں کی جا سکتی۔ اللہ تعالیٰ تویہاں تک فرماتا ہے کہ سلام کر کے لوگوں کے گھروں میں داخل ہو۔ فرمایا لَا تَدْخُلُوْا بُیُوْتًا (النور: 28) کہ دوسروں کے گھروں میں داخل نہ ہو حَتّٰى تَسْتَاْنِسُوْا (النور: 28) جب تک کہ اجازت نہ لے لو۔ اب لوگ اجازت لے کر مہمان بن کر تو آ جاتے ہیں لیکن پھر اتنا لمبا عرصہ مہمان بنتے ہیں کہ انتظامیہ ہو یا گھر والے ہوں ان کے لئے تکلیف کا باعث بن جاتے ہیں۔ اس لئے گھر والوں کی یا انتظامیہ کی اس فکر کو دور کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے آنے والے مہمانوں کو مزیدنصیحت فرمائی ہے کہ تُسَلِّمُوۡا عَلٰۤی اَہۡلِہَا (النور: 28) کہ گھر والوں کو سلامتی کا پیغام دو۔ انہیں بتا دو کہ مَیں تو ایک مومن کی طرح تمہارے لئے سلامتی کے سوا کچھ نہیں لایا۔ مَیں ان مہمانوں میں سے نہیں ہوں جو میزبان کی تکلیف کا باعث بنتے ہیں۔ مَیں تو ایک نیک مقصد کے لئے آیا ہوں۔ اور اس مقصد کے پورا ہونے کے بعد، کیونکہ دور سے آنے کی وجہ سے کچھ دیر تو ٹھہرنا پڑتا ہے، اس مجبوری کی وجہ سے کچھ عرصہ ٹھہر کر واپس چلا جاوٴں گا۔ اور پھر میری مہمان نوازی کی وجہ سے بھی تمہیں کسی تکلف اور تکلیف کی ضرورت نہیں ہے۔ کوئی شکوہ نہیں ہو گا کہ میری مہمان نوازی صحیح طرح نہیں کی گئی یا میری مہمان نوازی کا حق ادا نہیں کیا گیا۔ مومن تو سلام کو رواج دے کر محبت اور پیار کو بڑھانے والے ہیں۔ پس جب میرا سفر، ایک مومن کا سفر دینی غرض کے لئے ہے تو یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ مَیں اپنے میزبانوں کے لئے دکھ کا باعث بنوں۔ ایک دوسری جگہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ سلامتی کا پیغام گھر والوں کو اور اپنے میزبانوں کو دو۔ فرمایا کہ تَحِیَّۃً مِّنۡ عِنۡدِ اللّٰہِ مُبٰرَکَۃً طَیِّبَۃً (النور: 62) کہ یہ اصل سلامتی کا پیغام ہے کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بڑی برکت والی اور پاکیزہ دعا ہے۔ پس جب میزبان اور مہمان ایک دوسرے کو سلام کرتے ہیں تو جہاں وہ کسی قسم کے خوف اور فکر سے آزاد ہوتے ہیں وہاں ایک ایسی دعا سے وہ ایک دوسرے کو فیض یاب کرتے ہیں جو خدا تعالیٰ کی طرف سے بڑی پاکیزہ اور برکت والی دعا ہے۔ اور جو خدا تعالیٰ کے نزدیک پاکیزگی اور برکت لانے والی دعا ہو اور پیغام ہو، وہ آنے والے اور رہنے والے دونوں کی پاکیزگی اور برکت کا ذریعہ بن جاتا ہے۔
پس یہ وہ پیارا ماحول ہے، یہ وہ خوبصورت ماحول ہے جو خدا تعالیٰ ہم میں پیدا کرنا چاہتا ہے۔ لیکن اگر ہم اپنی چالاکیوں اور نفسانی اغراض کی وجہ سے اسے ضائع کر دیں تو یہ بد قسمتی ہے اور کوئی مومن اس کا تصور بھی نہیں کر سکتاکہ وہ اللہ تعالیٰ کی برکات سے محروم ہو جائے۔
ہم دیکھتے ہیں کہ آنحضرتﷺ کی صحبت میں رہنے والوں کے رہن سہن اور آپس کے تعلقات میں ایسی بے تکلفی تھی اور آپؐ ایسے انداز میں تبلیغ فرمایا کرتے تھے جو ہر ایک کو اخلاق کی بلندیوں پر لے جانے والا ہوتا تھا۔ جھوٹی اَناوٴں اور جھوٹی عزتوں اور جھوٹی غیرتوں کی تمام دیواروں کو گراتے ہوئے آپؐ تربیت کے نئے راستے کھولتے تھے۔ اور یہی اخلاق کا وہ اعلیٰ معیار تھا جو آپ نے اپنی اس طبیعت کی وجہ سے، قوتِ قدسی کی وجہ سے صحابہ میں پیدا کر دیا اور انہیں ہمارے لئے بھی ایک نمونہ بنا دیا۔
ایک حدیث میں ہمیں اس پاک تربیت کا ایک نمونہ اس طرح ملتا ہے۔ حضرت ابو مسعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص جسے ابو شعیب کہا جاتاتھا، اپنے قصائی غلام کی طرف گیا اور اسے کہا کہ میرے لئے پانچ آدمیوں کا کھانا تیار کر دو۔ مَیں نے رسول اللہﷺ کے چہرے پر بھوک کے آثار دیکھے ہیں۔ اس نے کھانا تیار کیا اور نبی کریمﷺ اور آپؐ کے ساتھیوں کو جو آپؐ کے پاس بیٹھے تھے بلا بھیجا۔ جب آنحضرتﷺ چلے تو ایک اور شخص بھی آپ کے پیچھے ہو لیا جو دعوت کے لئے بلانے کے وقت موجودنہیں تھا۔ جب رسول اللہﷺ اس کے دروازے پر پہنچے تو آپؐ نے گھر والے سے فرمایا کہ ہمارے ساتھ ایک ایسا شخص بھی آ گیا ہے جو اس وقت ہمارے ساتھ نہ تھا جب تم نے ہمیں دعوت دی تھی۔ اگر تم اجازت دو تو وہ بھی آ جائے۔ اس نے عرض کی کہ ہماری طرف سے اجازت ہے کہ وہ بھی ساتھ آ جائے۔(ترمذی کتاب النکاح۔ باب ما جاء فیمن یجییٴ الی الولیمة من غیر دعوةحدیث1099)
یہ وہ اعلیٰ اخلاق ہیں جو آپ اپنے صحابہؓ میں پیدا فرمانا چاہتے تھے اور آپ کی قوتِ قدسی نے بلا استثناء ہر ایک میں جو آپ سے فیضیاب ہوا وہ اخلاق پیدا کر دئیے۔ آپؐ اگر چاہتے تو اس شخص کو پہلے ہی فرما سکتے تھے کہ ہماری دعوت ہے۔ کیونکہ تمہیں نہیں بلایا گیا اس لئے ہمارے ساتھ نہ آوٴ۔ لیکن نہیں، آپؐ وہ عظیم مدرس تھے جو اپنے صحابہ کو عملی درس سے بھی نوازتے تھے۔ اس لئے آپؐ نے اس شخص کو ساتھ آنے دیا اور یقیناً آپ کو یہ بھی تسلی تھی کہ جو شخص میری محبت میں اس قدر بڑھا ہوا ہے کہ میرے چہرے کے آثار کو دیکھتا ہے، میرے پوچھنے پر بھلا یہ کیسے انکار کر سکتا ہے۔ لیکن جو شخص ساتھ تھا اس کو بھی سبق دے دیا کہ ایسی صورتِ حال میں اگر گھر والا انکار کرے تو بغیر برا منائے واپس چلے جانا۔ کیونکہ یہ تمہارا حق نہیں ہے گھر والے کا احسان ہے۔ اس لئے کبھی کسی قسم کی جھوٹی اَنا اور جھوٹی غیرت میں نہ پڑنا۔
صحابؓ ہ نے تو آنحضرتﷺ کی تربیت اور قوتِ قدسی سے وہ معیار حاصل کئے تھے کہ ایک صحابی کے بارے میں آتا ہے کہ آپ اس بات کی تلاش میں رہتے تھے کہ میں اس حکم کو بھی پورا کرنے والا بن جاوٴں کہ اگر تمہیں گھر والا کہے کہ واپس چلے جاوٴ تو بغیر برا منائے واپس آ جاوٴں۔ لیکن وہاں تو تمام صحابہ ہی آنحضرتﷺ کے تربیت یافتہ تھے۔ یہ کس طرح ہو سکتا تھا کہ کوئی مہمان نوازی کا حق ادا نہ کرتا اور گھر آئے ہوئے مہمان کو واپس لوٹا دیتا۔ اس لئے ان صحابی کی یہ خواہش باوجود کوشش کے کبھی پوری نہیں ہوئی۔ لیکن اس سے اس وسعتِ حوصلہ اور ہر حکم پر عمل کرنے کی خواہش اور تڑپ کا بہر حال واضح اظہار ہوتا ہے جو ان صحابہ کے دل میں ہوتی تھی۔ پس یہ وہ وسعتِ حوصلہ ہے جو ہم میں سے ہر ایک کو اپنے دل میں پیدا کرنی چاہئے اور اس کا عملی اظہار بھی ہماری زندگیوں میں ہونا چاہئے۔
اس ماحول میں جب آپ جلسہ کے لئے آئے ہوئے ہیں تو واقف کاروں کوملنے اور سلام کرنے کے بہت نظارے نظر آتے ہیں لیکن اصل اسلامی معاشرہ کی خوبی یہی ہے اور آنحضرتﷺ نے بھی یہ ارشاد فرمایا کہ جسے تم جانتے ہو یا نہیں جانتے ہر ایک کو سلام کہو۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت سے لوگ ایسے ہیں جو اس حکم کے مطابق عمل کرتے ہیں اور باہر سے آئے ہوئے نومبائعین جو ہیں اس سے بڑے متاثر ہوتے ہیں۔ پس فرمایا کہ تم جانتے ہو یا نہیں جانتے اسے سلام کہو۔ پس ان دنوں میں سلام کو بھی رواج دیں تا کہ یہ عادت پھر مستقل آپ کو پڑ جائے۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ سلام کو رواج دینا اسلام کی ایک بہترین قسم ہے۔ بشرطیکہ سلام کے رواج کی، سلام کا جو پیغام ہے اس کی روح کو سمجھا جائے۔ سلام ایک سلامتی کا پیغام ہے۔ ایک محبت کا اظہار ہے تا کہ محبت اور بھائی چارہ قائم ہو۔ کتنا اچھا ہو اگر آج بعض وہ لوگ جو ایک دوسرے سے ناراض ہیں وہ بھی دل کی گہرائی سے ایک دوسرے کو معاف کرتے ہوئے سلامتی کا پیغام پہنچائیں اور گلے لگ جائیں۔ مومن ایک ہو کر اپنے للّہی سفر کی برکات حاصل کرنے والے بن جائیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا اپنا عمل بھی ایک مہمان ہونے کی حیثیت سے ایک سبق دیتا ہے۔ یہ بھی ایک ایسی بات ہے جو ہر مومن کو اپنے مدنظر رکھنی چاہئے۔ ہر مہمان کو جو مہمان بن کر کہیں بھی جاتا ہے اس کو اپنے سامنے رکھنی چاہئے۔ نبی کا تو ہر سفر للّٰہی ہوتا ہے بلکہ اس کا تو ہر لمحہ خداتعالیٰ کے احکامات کی پیروی میں اور خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے گزرتا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سیرت کے واقعات میں سے ایک واقعہ پیش کرتا ہوں جو آپ کے مہمان ہونے کے ایک اعلیٰ ترین معیار کا پتہ دیتا ہے۔ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانؓ ی نے جو روایت کی ہے کہ جنگِ مقدس کی تقریب میں (جنگِ مقدس ایک عظیم مباحثہ کا نام ہے جو مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان امرتسر میں 1893ء میں ہوا تھا جو تقریباً 15دن تک جاری رہا) اسلام کی نمائندگی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کی اور بڑے واضح نشانات کے ساتھ اور دلائل کے ساتھ اور براہین کے ساتھ اسلام کی برتری ثابت فرمائی۔ بہر حال یہ روحانی خزائن میں کتابی شکل میں موجود ہے۔ جب آپ اس مباحثے کے لئے امرتسر میں ٹھہرے ہوئے تھے تو ایک دن مہمانوں کی کثرت کی وجہ سے منتظمین حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے لئے کھانا رکھنا یا پیش کرنا بھول گئے اور رات کا ایک بہت سا حصہ گزر گیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بڑے انتظار کے بعد جب کھانے کے بارہ میں پوچھا تو سب جو انتظام کرنے والے تھے ان کے تو ہاتھ پیر پھول گئے کہ کھانا رکھا ہوانہیں ہے اور بازار بھی اب بند ہو چکے ہیں کہ بازار سے ہی کھانا منگوا لیا جائے۔ بہر حال جب یہ صورتِحال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے علم میں آئی، آپ کو بتایا گیا تو آپ نے فرمایا کہ اس قدر گھبراہٹ اور تکلف کی ضرورت نہیں ہے۔ دستر خوان میں دیکھو کچھ بچا ہوا ہو گا۔ وہی کافی ہے۔ دستر خوان کو دیکھا گیا تو وہاں روٹیوں کے چند ٹکڑے تھے۔ آپ نے فرمایا کہ ہمارے لئے یہی کافی ہیں اور آپ نے وہی کھا لئے۔ تو یہ ہے آنحضرتﷺ کے عاشقِ صادق اور اس زمانے کے امام کا نمونہ۔
پس ہم جو اپنے آپ کو آپ کی جماعت میں شامل کرتے ہیں اور شامل ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں ہمیں یہ صبر اور حوصلہ اور شکر گزاری کے جذبات دکھانے کی ضرورت ہے۔ ان تین دنوں میں کسی کی مہمان نوازی میں کوئی کمی رہ گئی ہو تو اس سے درگزر کریں۔ انتظامیہ کوتو بے شک آپ توجہ دلا دیں لیکن بڑے پیار سے۔ کیونکہ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا مہمان کی بے تکلفی بھی ضروری ہے۔ اگر بعض کمیوں کی طرف توجہ نہ دلائی جائے تو پتہ نہیں لگتا کہ کس طرح خامیاں پوری ہوں گی۔ اللہ تعالیٰ جلسہ کی برکات سے سب کو فیض اٹھانے کی توفیق عطا فرمائے۔
آخر میں مَیں پھرسکیورٹی کے حوالے سے یاد دہانی کروانا چاہتا ہوں کہ یہ صرف ڈیوٹی کے کارکنان کا ہی کام نہیں ہے بلکہ یہ ہر شامل ہونے والے احمدی کا کام ہے کہ اپنی اور جلسے میں شامل ہونے والے ہر مہمان کی حفاظت کے لئے اپنے ماحول پر نظر رکھے۔ اور کسی بھی قسم کے شک کی صورت میں فوراً انتظامیہ کو اطلاع دے۔ اسی طرح جلسے کے ماحول اور صفائی وغیرہ کے لئے یا دوسرے معاملات کے لئے پروگرام میں جو تفصیلی ہدایات دی گئی ہیں ان کو پڑھیں اور ان پر عمل کرنے کی کوشش کریں، اور دعاوٴں میں اپنا وقت گزاریں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔
(الفضل انٹرنیشنل جلد 17 شمارہ 340 مورخہ 20؍ اگست تا 26؍ اگست 2010 صفحہ 5 تا 8)
جلسہ سالانہ میں شامل ہونے والے مہمانوں کو جلسہ کا مقصد اپنے سامنے رکھتے ہوئے اپنے اندر ایک نیک اور پاک تبدیلی پیداکرنی چاہیے، اصل غرض اس کی یہ ہے کہ دین سیکھا جائے، مہمانوں کو ڈیوٹی والوں سے مکمل تعاون کرنے کی تلقین، جلسہ پر آنے والے دو یا تین ہفتوں سے زیادہ نہ ٹھہرا کریں، ان دنوں میں سلام کو خاص طور پر رواج دیں، ڈیوٹی والوں کی طرف سے دی گئی ہدایات پر عمل کرنے کی کوشش کریں اور اپنا وقت زیادہ سے زیادہ دعاؤں میں گزاریں۔
خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 30جولائی 2010ء بمطابق 30وفا 1389 ہجری شمسی بمقام حدیقۃ المہدی۔ آلٹن۔ (برطانیہ)
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔