رمضان المبارک اور دعاؤں کی قبولیت کے لوازمات

خطبہ جمعہ 13؍ اگست 2010ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


تشہد و تعوذ اور سورة فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےاس آیت کی تلاوت فرمائی:

وَ اِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیۡ عَنِّیۡ فَاِنِّیۡ قَرِیۡبٌ ؕ اُجِیۡبُ دَعۡوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ ۙ فَلۡیَسۡتَجِیۡبُوۡا لِیۡ وَ لۡیُؤۡمِنُوۡا بِیۡ لَعَلَّہُمۡ یَرۡشُدُوۡنَ  (سورة البقرہ: 187)

یہ آیت جومَیں نے تلاوت کی ہے۔ اس کا ترجمہ یہ ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’اور جب میرے بندے تجھ سے میرے متعلق سوال کریں تو یقیناً میں قریب ہوں۔ مَیں دعا کرنے والے کی دعا کا جواب دیتا ہوں۔ جب وہ مجھے پکارتا ہے۔ پس چاہئے کہ وہ بھی میری بات پر لبیک کہیں اور مجھ پر ایمان لائیں تا کہ وہ ہدایت پائیں۔‘‘

روزے ایک مجاہدہ ہیں

اللہ تعالیٰ کے ارشادپرمبنی یہ آیت روزوں کے حکم اور ان کی تفصیلات کے ساتھ بیان کی گئی ہے۔ یعنی خدا تعالیٰ کا عبد بننا اور دعاوٴں کی قبولیت کا نظارہ دیکھنا یہ ایک مجاہدہ کو چاہتا ہے۔ اور رمضان کے روزے بھی ایک مجاہدہ ہیں جو اس کا ادراک حاصل کرتے ہوئے ایک مومن کو رکھنے چاہئیں۔ یہ سمجھتے ہوئے رکھنے چاہئیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کی خاطر یہ کام کر رہے ہیں نہ کہ صرف فاقہ۔ اور یہ کہ اس کے لوازمات کیا ہیں؟ ان کا بھی پوری طرح علم ہونا چاہئے۔

بہر حال جیسا کہ مَیں نے کہا روزے ایک مجاہدہ ہیں۔ خدا تعالیٰ کو نہ کسی کے فاقہ زدہ رہنے سے غرض ہے نہ ظاہری عبادتوں سے غرض ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں جیسا کہ ہم نے دیکھا پکارنے والے کی پکار کا جواب دینے کو مشروط کیا ہے۔ یہ نہیں کہا کہ جو بھی مجھے پکارے، مَیں فوراً اس کا جواب دینے کے لئے بیٹھا ہوں مَیں جواب دوں گا چاہے جیسا بھی اس کا عمل ہو، جیسی بھی اس کی حالت ہو۔ ایسا نہیں ہے۔ بلکہ فرمایا فَلۡیَسۡتَجِیۡبُوۡا لِیۡ۔ پس اگریہ میرے بندے دعاوٴں کی قبولیت چاہتے ہیں تو پہلے اُن کا فرض ہے کہ میری بات کو سن کر اس پر لبیک کہیں اور دوسری بات یہ کہوَ لۡیُؤۡمِنُوۡا بِیۡ مجھ پر ایمان لائیں۔ یہ حکم مسلمانوں کے لئے ہے لیکن پھر بھی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مجھ پر ایمان لائیں۔ اپنے ایمان کو پختہ کریں اپنے ایمان میں ترقی پیدا کریں۔ کیونکہ ایمان صرف ایک دفعہ کا خالی خولی اقرار نہیں ہے بلکہ اس میں ترقی کی طرف قدم بڑھنے چاہئیں۔ اللہ تعالیٰ کی ذات پر ایمان اور یقین میں ترقی ہوتی رہنی چاہئے۔ اور جب ایسی حالت ہو گی تبھی کوئی شخص ہدایت پانے والا بھی کہلائے گااور وہ مقام بھی حاصل ہو گا جو ایک حقیقی مومن کا مقام ہے۔ اللہ تعالیٰ نے پھر فرمایا ہے کہ لَعَلَّھُمْ یَرْشُدُوْنَ اس کا مطلب یہ ہے کہ حقیقی نیکی اور ہدایت کی طرف قدم بڑھتے چلے جائیں اور ہدایت میں کاملیت کی تلاش رہے۔ اللہ تعالیٰ کی وہ باتیں جن پر لبیک کہنا ہے اور جن سے خدا تعالیٰ کی ذات پر ایمان میں بڑھنا ہے ان کا پتہ کہاں سے ملے گا؟ اس کا پتہ دینے کے لئے ہمیں اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب قرآنِ کریم دی ہے جو تمام ہدایتوں کا مجموعہ ہے۔ جس کا اعلان اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف کے شروع میں فرما دیا کہ ذٰلِکَ الۡکِتٰبُ لَا رَیۡبَ ۚۖۛ فِیۡہِ ۚۛ ہُدًی لِّلۡمُتَّقِیۡنَ (البقرہ آیت: 3) یہی کامل کتاب ہے اس میں کوئی شک نہیں اور یہ متقیوں کے لئے ہدایت ہے۔ جو لوگ ہدایت کے متلاشی ہیں، جو لوگ خدا تعالیٰ پر اپنا ایمان مضبوط کرنا چاہتے ہیں، جو لوگ نیکیوں کی انتہا کو چھونا چاہتے ہیں، جو لوگ ان دعاوٴں کی قبولیت کو چاہتے ہیں جو وہ کر رہے ہیں، ان کے لئے کوئی راستہ نہیں مگر یہ کامل کتاب جو کامل رسولﷺ پر اتری ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کا خالص عبد بننے کے لئے، دعاوٴں کی قبولیت سے حصہ لینے کے لئے اور اپنی دنیا و عاقبت سنوارنے کے لئے اب اور کوئی راستہ نہیں ہے مگر یہ کہ خدا تعالیٰ کے ان احکامات پر عمل کیا جائے جو اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائے ہیں۔ جس کے راستے ہمیں قرآن کریم پڑھنے سے ہی ملیں گے اور جس کے نمونے ہمیں اللہ تعالیٰ کے اس پاک رسولﷺ کے اسوہ میں ہی ملیں گے۔

اصل میں تو قرآن کریم کی عملی تصویر ہی آنحضرتﷺ کی ذات ہے جس کی طرف ہدایت فرماتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے موٴمنین کو فرمایا ہے کہ لَقَدۡ کَانَ لَکُمۡ فِیۡ رَسُوۡلِ اللّٰہِ اُسۡوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنۡ کَانَ یَرۡجُوا اللّٰہَ وَ الۡیَوۡمَ الۡاٰخِرَ وَ ذَکَرَ اللّٰہَ کَثِیۡرًا  (الاحزاب: 22) یقیناً تمہارے لئے اللہ تعالیٰ کے رسول میں ایک اعلیٰ نمونہ اور اُسوہ حسنہ ہے ہر اس شخص کے لئے جو اللہ اور یومِ آخرت کے ملنے کی امید رکھتا ہے اور اللہ تعالیٰ کو بہت زیادہ یاد کرتا ہے۔ پس یومِ آخرت پر ایمان اور مرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہونے پر ایمان اور اللہ تعالیٰ کی عبادت اور ذکر اس وقت اللہ تعالیٰ کے نزدیک قابلِ قبول ہے جب اللہ تعالیٰ کے اس پیارے رسولﷺ کا اُسوہ اپنانے کی کوشش کی جائے۔ اور یہ اُسوہ اپنانا بھی اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی تعمیل ہے جو مَیں نے پہلے آیت تلاوت کی ہے اس میں کہا گیا ہے کہ وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ اور جب میرے بندے تجھ سے میرے بارہ میں سوال کریں، اگر وہ میرے بندے ہیں، مومن ہیں تو یقیناً وہ تجھ سے ہی اے رسول میرے بارہ میں سوال کریں گے۔ کیونکہ سوال اس سے کیا جاتا ہے جو اس راہ کا جاننے والا ہو جس کا پتہ پوچھا جا رہا ہے۔ جو اس میدان کا کھلاڑی ہو۔ اللہ تعالیٰ کی طرف جانے والے، جانے کی خواہش رکھنے والے ہی اس سے پوچھنے کی کوشش کریں گے جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنا خاص رسول اور پیارا فرمایا ہے۔ جس کے بارہ میں خدا تعالیٰ نے یہ اعلان کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا محبوب بننے کے لئے بھی اس کی پیروی کرنی ضروری ہے۔ ایک مسلمان، ایک مومن تو اس بات کا تصور بھی نہیں کر سکتا کہ وہ کسی اور سے راستہ پوچھے یا کسی اور کو اپنے لئے اُسوہ سمجھے۔ اگر اللہ تعالیٰ کے اس پیارے رسولﷺ کے علاوہ موٴمنین کے لئے، ہمارے لئے، ہم جو اس زمانے میں رہنے والے ہیں، ان کے لئے اگر آنحضرتﷺ کے بعد کوئی اسوہ ہو سکتا ہے۔ تو آپؐ کے اصحاب ہیں جنہوں نے آپ کی کامل پیروی کی۔ اور یا پھر اس زمانہ میں اللہ تعالیٰ کے اس پیارے کا عاشقِ صادق ہے جس نے ہمیں قرآنِ کریم کے احکامات سمجھنے اور عشقِ رسولﷺ میں فنا ہونے کے نئے اسلوب سکھائے ہیں۔ پس جو آنحضرتﷺ کے علاوہ اُسوہ قائم کرنے والے ہیں ان سب کا مرکز اور سَوتا آنحضرتﷺ کی ذات ہی ہے جو اللہ تعالیٰ کے عبدِ کامل ہیں اور قیامت تک کوئی ایسا عبدِ کامل پیدا نہیں ہو سکتا جو آنحضرتﷺ کے معیار کا ہو۔ پس اللہ تعالیٰ اِس عبدِ کامل کو فرماتا ہے کہ جو بندے میرا قرب حاصل کرنے کے لئے، اپنی دعاوٴں کی قبولیت کے لئے تیرے ارد گرد جمع ہو گئے ہیں اور میرے بارہ میں پوچھتے ہیں کہ میں کہاں ہوں؟ تو انہیں بتا دے کہ اِنِّیْ قَرِیْبٌ کہ مَیں قریب ہوں۔ لیکن اس قرب کو پانے کے لئے بھی معرفت کی نظر چاہئے۔ نظر میں وہ تیزی چاہئے جس سے مَیں نظر آوٴں۔ اور یہ معرفت اور نظر کی تیزی حاصل کرنے کے لئے بھی میرے پیارے کے اُسوہ کی طرف دیکھو۔ کیونکہ وہی ہے جو کامل طور پر میری تعلیم پر عمل کرنے والا ہے۔ جنہوں نے اس رسولﷺ کے اسوہ کو دیکھ کر اس پر عمل کیا، جنہوں نے سچا عشقِ رسول دکھایا وہ باخدا بن کر حقیقی عبد بن گئے۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے قرب کے نظارے دیکھے۔ انہوں نے اُجِیۡبُ دَعۡوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ کا مزا چکھا۔ انہوں نے اپنی دعاوٴں کے جواب سنے۔ اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کے نظارے دیکھے۔ پس آج بھی سوال کرنے والوں کے لئے وہی جواب ہے جو آج سے چودہ سو سال پہلے تھا۔ آج بھی محمد رسول اللہﷺ کا خدا اُسی طرح زندہ ہے جس طرح ہمیشہ سے زندہ تھا اور ہمیشہ رہے گا۔ پس اگر ضرورت ہے تو ان احکامات کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اگر ضرورت ہے تو اس کے رسول کے اُسوہ اور تعلیم پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ پس اس اُسوہ کی ہمیں وقتاً فوقتاً جگالی کرتے رہنا چاہئے، دیکھتے رہنا چاہئے تا کہ ہمارے نیکیوں کے معیار بڑھیں، تا کہ ہم اپنی خامیوں پر نظر رکھ سکیں، تا کہ ہمارا خدا تعالیٰ پر ایمان پختہ ہو، تا کہ ہم دعاوٴں کے فلسفے کو سمجھ سکیں۔ آنحضرتﷺ نے جہاں اپنے عمل اور اُسوہ سے ہماری تربیت اور رہنمائی فرمائی ہے وہاں مومنین کو نصائح بھی فرمائی ہیں۔

دعاؤں کی قبولیت کا مہینہ

رمضان اللہ تعالیٰ کا قرب پانے، عبادات کو بجا لانے، فسق و فجور سے بچنے اور حقوق العباد ادا کرنے کی طرف پہلے سے بڑھ کر توجہ دینے کا مہینہ توہے ہی اور دعاوٴں کی قبولیت کا مہینہ تو یہ ہے ہی۔ اس میں تو آنحضرتﷺ کا عمل کئی سو گنا بڑھ جایا کرتاتھا۔ مثلاً صدقہ و خیرات کے ادا کرنے میں آپ بے انتہا سخی تھے۔ عام حالات میں بھی تھے جس کا کوئی عام انسان مقابلہ نہیں کر سکتا۔ لیکن احادیث میں آتا ہے کہ رمضان میں آپ کی سخاوت تیز ہوا سے بھی بڑھ جاتی تھی۔ (بخاری کتاب الصوم باب اجود ما کان النبیﷺ یکون فی رمضان حدیث نمبر 1902)

اسی طرح عبادات اور اللہ تعالیٰ کے دوسرے احکامات پر عمل کا حال ہے۔ یہ جو مَیں نے کہا اور اکثر کہا جاتا ہے کہ آپ کے عمل تک عام انسان نہیں پہنچ سکتا لیکن پھر بھی اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ آپ کے اُسوہ کی پیروی کرو۔ اس سے قطعاً یہ مطلب نہیں ہو سکتا کہ جب اس مقام تک پہنچنا نہیں تو عمل کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ پھر اسوہ کیسا؟ یہ مضمون بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بڑا کھول کر بیان فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کی استعدادیں رکھی ہیں۔ جس کی جس قدر استعداد ہے اسے اس کو استعمال میں لانے کا حکم ہے اور اللہ تعالیٰ جو ہر ایک کی طاقت اور استعداد کو جانتا ہے، جو انسان کی استعداد سے بڑھ کر اس پر بوجھ نہیں ڈالتا اس نے یہ فرمایا ہے کہ یہ اُسوہ تمہارے سامنے ہے تم نے اس کی پیروی کرنی ہے۔ اس پیروی کی وجہ سے تمہاری استعدادوں کے مطابق تمہیں اس کا اجر ملے گا۔ اور یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ استعدادوں کی تعیین کرنا انسان کا کام نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ کس انسان میں کتنی استعداد ہے۔ انسان کا کام ہے کہ اپنی کوشش کی انتہا کر دے اور پھر معاملہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑدے۔ انسان کا کام، ایک مومن کا کام جہاد کرنا ہے اور جہاد کا مطلب ہی یہ ہے کہ اپنی تمام تر طاقتوں کے ساتھ کوشش کرنا کسی کام میں پورے شوق اور اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ اپنے آپ کو مشقت میں ڈالتے ہوئے جُت جانا۔ اس حد تک کوشش کرنا کہ انسان تھک کر چُور ہو جائے۔ یہی جہاد کے معنی ہیں۔ اللہ تعالیٰ قرآنِ کریم میں ایک جگہ فرماتا ہے کہ وَ الَّذِیۡنَ جَاہَدُوۡا فِیۡنَا لَنَہۡدِیَنَّہُمۡ سُبُلَنَا (العنکبوت: 70) اور وہ لوگ جو ہم سے ملنے کی کوشش کرتے ہیں ہم ضرور ان کو اپنے راستوں کی طرف آنے کے طریق بتائیں گے۔ پس اللہ تعالیٰ نے جَاھَدُوْا کا لفظ استعمال فرما کر ہمیں اس طرف توجہ دلائی ہے کہ ایک انسان کو جو ایمان میں بڑھنا چاہتا ہے اللہ تعالیٰ کے قرب کے لئے جہاد کی ضرورت ہے۔ ایسی کوشش کی ضرورت ہے جو مسلسل ہو اور اسے تھکا کر چُور کر دے۔ جب ایسی کوشش ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ بڑھ کر ایسے انسان کو گلے لگا لیتا ہے۔ حکم تو یہ فرمایا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی صفتِ کریمی یہ ہے کہ بے شک یہ حکم تو دیا ہے کہ مجھ تک پہنچنے کے لئے اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ کوشش کرو لیکن اپنے رسولﷺ کو بتا دیا کہ ان مومنوں کو بتا دے کہ جب وہ ایک قدم میری طرف بڑھتے ہیں تو مَیں دو قدم بڑھتا ہوں۔ جب وہ چل کر آتے ہیں تو مَیں دوڑ کر آتا ہوں۔ (سنن الترمذی ابواب الدعوات باب فی حسن الظن باللہ عز و جل حدیث: 3603)

پس انسان کی کوششیں تو نام کی کوششیں ہیں۔ ہمارا پیارا خدا تو ایسا دیالو خدا ہے کہ جب وہ دیکھتا ہے کہ میرے بندے نے فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ یعنی میری بات پر لبیک کہنے پر عمل کرتے ہوئے قرب پانے کے لئے پہلا ہی قدم اٹھایا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے یہ فاصلے کم کرتا چلا جاتا ہے اور ایک کمزور انسان اور عبدِ رحمان بننے کے خواہش مند کو سینے سے لگا لیتا ہے۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کو اپنی طرف آنے والے بندے کو پا کر اس سے زیادہ خوشی ہوتی ہے جو ایک ماں کو اپنے گمشدہ بچے کے ملنے سے ہوتی ہے۔ (صحیح بخاری۔ کتاب الادب۔ باب رحمة الولد وتقبیلہ ومعانقتہ حدیث نمبر 5999)

پس یہ تو اللہ تعالیٰ کی رحمانیت کے جلوے ہیں ورنہ ایک عاجز انسان کی کیا کوشش ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رحمانیت ہی ہے جو اسے اپنے قریب لے آتی ہے۔ بہر حال مَیں واپس اپنی بات کی طرف آتا ہوں جیسا کہ مَیں نے کہا تھا کہ آنحضرتﷺ کا اُسوہ جو خدا تعالیٰ کے احکامات پر عمل کی ایک کامل تصویر تھے رمضان میں تو اس کے غیر معمولی نظارے دیکھنے کو ملتے ہیں لیکن عام حالات میں بھی آپ کی عبادتوں، اخلاقِ فاضلہ اور حقوق کی ادائیگی کی وہ مثالیں نظر آتی ہیں جو کسی انسان میں نہیں ہو سکتیں۔ آپ کی عبادت کے معیار اور دوسری باتوں کی چند مثالیں مَیں پیش کرتا ہوں۔ ایک روایت ہے۔ ایک دفعہ گھوڑے سے گِر جانے کی وجہ سے آپﷺ کے جسم کا ایک حصہ شدید زخمی ہو گیا۔ کھڑے ہو کر نماز نہیں پڑھ سکتے تھے اس لئے آپ نے بیٹھ کر نماز پڑھائی لیکن اس حالت میں بھی نماز باجماعت کا ناغہ نہیں کیا۔ (صحیح بخاری کتاب المرضیٰ باب اذا عاد مریضاً فحضرت الصلاة فصلی بھم جماعةحدیث نمبر 5658)

پھر غزوہٴ احد میں جب لوہے کی کڑیاں آپ کے رخسارِ مبارک میں ٹوٹنے کی وجہ سے آپ انتہائی زخمی تھے اور تکلیف کی حالت میں تھے تو اس دن بھی جب اذان کی آواز سنی تو اسی طرح نماز کے لئے تشریف لائے جس طرح عام دنوں میں تشریف لایا کرتے تھے۔ (ماخوذ از شروح الحرب ترجمہ اردو فتوح العرب از محمد بن عمر واقدی مترجم مولوی ممتاز بیگ صفحہ 387 تا 390 مکتبہ رحمانیہ لاہور)  پھر حضرت عائشہؓ نے آپ کی نمازوں کا، نوافل کا نقشہ کھینچا ہے کہ نماز کی ہر حالت کی لمبائی اور خوبصورتی بیان سے باہر ہے۔ (صحیح بخاری کتاب التہجد باب قیام النبیﷺ باللیل فی رمضان وغیرہ حدیث نمبر 1147)

پس یہ عبدِ کامل تھا جس نے عبادت کا ایک حسین اُسوہ قائم فرمایا۔ جس نے صحابہ کی عبادتوں میں بھی حسن پیدا کر دیا۔ پس جب اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میری بات پر لبیک کہیں، تبھی مَیں اپنے قرب کا پتہ دے سکتا ہوں تو اس کا سب سے پہلا اور اہم اور بنیادی مرحلہ جس سے گزرنا ضروری ہے وہ اپنی عبادت میں طاق ہونا ہے۔ اور یہ عبادت صرف آج کل ہم نے رمضان کی وجہ سے ہی ایک خاص ذوق اور شوق سے نہیں بجا لانی بلکہ جیسا کہ ہم آنحضرتﷺ کی زندگی میں دیکھتے ہیں کہ عام دنوں میں بھی، عام حالات میں بھی، بلکہ بیماری اور جنگ کی وجہ سے زخمی حالت میں بھی آپﷺ حقِ بندگی ادا کرتے ہوئے اپنی باجماعت نمازوں کو نہیں بھولے۔ جب اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا ہے کہ مومن کی نشانی یہ ہے کہ یُقِیۡمُوۡنَ الصَّلٰوۃَ   (البقرة: 04) کہ وہ نمازوں کو قائم کرتے ہیں۔ نماز باجماعت ادا کرنے کے لئے نماز کے اوقات میں جمع ہوتے ہیں۔ تو وہ کامل انسان جس سے خدا تعالیٰ نے یہ اعلان کروایا تھا کہ قُلۡ اِنَّ صَلَاتِیۡ وَ نُسُکِیۡ وَ مَحۡیَایَ وَ مَمَاتِیۡ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ  (الانعام: 163) اے نبی! تو اعلان کر دے کہ میری نمازیں اور میری قربانی اور میرا زندہ رہنا اور میرا مرنا اللہ تعالیٰ کے لئے ہے جو تمام جہانوں کا ربّ ہے تووہ اس بات کو کس طرح برداشت کر سکتا تھا کہ کسی بھی حالت میں اللہ تعالیٰ کے اس حکم سے سر مُو رُوگردانی کی جائے یا اسے ٹالا جائے۔ بلکہ آپ تو اپنی آخری بیماری میں بھی جب کمزوری کی انتہا تھی اور چلا نہیں جاتا تھا تو سہارے سے مسجد میں تشریف لائے تھے۔ (صحیح بخاری کتاب الاذان باب حد المریض ان یشھد الجماعۃ حدیث نمبر 664)

پس یہ سب کچھ آپﷺ کے اللہ تعالیٰ کی محبت میں فنا ہونے کی وجہ سے تھا۔ پس ایمان میں بڑھنے کی اور عمل کی معراج بھی اس وقت حاصل ہوتی ہے جب محبت کی بھی انتہا ہو۔ پس ہمیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ محبت کی انتہا کا نمونہ تمہارے سامنے ہے۔ تم جو سوال کرتے ہو کہ خدا تعالیٰ کہاں ہے؟ تو اللہ تعالیٰ کو اس محبوب کے عمل میں دیکھو۔ میرے حقیقی عبد بننے کا حق ادا کرنے کی کوشش کروپھر مجھے اپنے قرب میں دیکھو گے۔

اگر صرف رمضان میں ہی اپنی مسجدیں آباد کیں اور پھر مجھے بھول گئے یا آج جو مشکل کے دن تم پر آئے ہوئے ہیں تو اس میں مسجد میں آنے کے لئے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کر رہے ہو۔ اور حالات ٹھیک ہونے پر مجھے بھول گئے یا وقت گزرنے پر مجھے بھول گئے تو یہ میری بات پر لبیک کہنا نہیں ہے۔ یہ تو اپنی غرض کو پورا کرنا ہے۔ میری بات پر لبیک کہنا تو تب ہو گا جب یہ حالات، یہ جذباتی کیفیت، یہ مشکل وقت، رمضان کا یہ عمومی روحانی ماحول ختم بھی ہو جائے گا تو تب بھی میرے رسولﷺ کے اُسوہ پر عمل کرتے ہوئے اپنی عبادتوں اور اپنے عمل کو میرے احکامات پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہوئے مستقل طور پر بجا لانے کی کوشش کرو گے۔

جیسا کہ مَیں نے کہا حالات کی وجہ سے عبادت کی طرف توجہ ہے۔ آج کل پاکستان میں احمدیوں کے جو حالات ہیں اس نے پوری دنیائے احمدیت کو عبادت کے معیار بہتر بنانے اور اللہ تعالیٰ کا قرب پانے کی کوشش کی طرف مائل کیا ہے۔ کئی لوگوں کو دعاؤں اور خدا تعالیٰ کے قرب کی وجہ سے تسلی بھی دلائی گئی ہے۔ گویا کہ انہوں نے اِنِّیْ قَرِیْبٌ کا مشاہدہ کر لیا۔ پاکستان میں احمدیوں پر سخت حالات اور اس کے بعد جو جلسوں نے اس کیفیت کو ابھی تک جاری رکھا ہوا ہے۔ اور پھر اب رمضان آگیا ہے۔ یہ دعاوٴں کا، دعاوٴں کی قبولیت کا، اللہ تعالیٰ کا قرب پانے کا ایک مہینہ ہے۔ اس میں جہاں یہ کوشش اپنی انتہا تک پہنچانے کی کوشش کرنی چاہئے وہاں یہ بھی دعا کرنی چاہئے کہ یہ حالت اب ہم میں ہمیشہ کے لئے قائم ہو جائے۔ رمضان ختم ہونے اور وقت گزرنے کے ساتھ آہستہ آہستہ کہیں ہم پھر اپنی کمزوری کی طرف نہ چلے جائیں۔ احمدیوں کو یہ احساس بھی ہے کہ جلسوں نے جو کیفیت جاری رکھی ہے اب رمضان آنے سے اس میں مزید جِلا پیدا ہو گی اور اس کے لئے دعا کے لئے لکھتے بھی ہیں۔ لیکن یہ کوشش بھی کرنی چاہئے کہ یہ عارضی تبدیلی نہ ہو بلکہ مستقل نوعیت کی تبدیلی ہو اور ہم اللہ تعالیٰ کا حقیقی عبد بنتے ہوئے اپنی عبادتوں کے معیار اونچے سے اونچے کرتے چلے جائیں۔ ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ اپنی دعاوٴں، عبادتوں اور نیک اعمال سے اللہ تعالیٰ کا وہ قرب حاصل کریں جس کا تسلسل کبھی ختم نہ ہو۔ ہماری عبادتوں کے معیار اونچے ہوتے چلے جائیں۔ ہمارے تقویٰ کے معیار اونچے ہوتے چلے جائیں۔ اس کے حصول کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک جگہ جو طریق بتایا ہے وہ یہ ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ: ’’یاد رکھو کہ سب سے اول اور ضروری دعا یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو گناہوں سے پاک صاف کرنے کی دعا کرے۔ ساری دعاوٴں کا اصل اور جُز یہی دعا ہے۔ کیونکہ جب یہ دعا قبول ہو جاوے اور انسان ہر قسم کی گندگیوں اور آلودگیوں سے پاک صاف ہو کر خدا تعالیٰ کی نظر میں مطہر ہو جاوے توپھر دوسری دعائیں جو اس کی حاجاتِ ضروریہ کے متعلق ہوتی ہیں وہ اس کو مانگنی بھی نہیں پڑتیں‘‘۔ فرمایا کہ ’’بڑی مشقت اور محنت طلب یہی دعا ہے کہ وہ گناہوں سے پاک ہو جاوے‘‘۔ (ملفوظات جلد سوم صفحہ 617)

آپ فرماتے ہیں کہ یہ دعا بہت مشکل دعا ہے اور اس کے لئے بہت محنت کرنی پڑتی ہے۔ لیکن اصل دعایہی ہے کہ انسان اپنے آپ کو گناہوں سے پاک کرنے کی دعا کرے۔ پس یہ دعا ہے جو اصل ہے۔ جب انسان اپنے آپ کو ہر قسم کے گناہوں سے پاک کرنے کی کوشش کرتا ہے تبھی وہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد پر عمل کرنے کی کوشش کر رہا ہوتا ہے کہ میری بات پر لبیک کہو۔ جیسا کہ مَیں نے کہاقرآنِ کریم اللہ تعالیٰ کے احکامات سے بھرا پڑا ہے۔ ان پر عمل ہو گا تو تبھی ہم اللہ تعالیٰ کی آواز پر لبیک کہنے والے بن سکیں گے۔ تبھی ہم اپنے آپ کو گناہوں سے پاک کرنے کی کوشش کرنے والے بنیں گے۔ جیسا کہ مَیں نے کہا اللہ تعالیٰ کے قرآنِ کریم میں بے شمار احکامات ہیں۔ تمام کا بیان تو ایک مجلس میں ہو نہیں سکتا۔ رمضان کے مہینے میں جب تلاوت کی طرف بھی توجہ زیادہ ہوتی ہے، قرآنِ کریم کی تلاوت کر رہے ہوتے ہیں، درس وغیرہ سننے کی طرف توجہ ہوتی ہے تو ان میں ان احکامات پر غور کرنے کی ہر مومن کو کوشش کرنی چاہئے۔ لیکن بہر حال جیسا کہ میں نے کہا تھا کہ اس وقت میں آنحضرتﷺ کے اُسوہ میں سے چند باتوں کا ذکر کروں گا۔ آپ کی عبادت کے بارہ میں تو ایک ہلکی سی جھلک مَیں نے دکھائی کہ کیا معیار تھا؟۔ اب آپ کے اُسوہ کے چند اور نمونے۔

اللہ تعالیٰ قرآنِ کریم میں فرماتا ہے کہ وَ اَوۡفُوۡا بِالۡعَہۡدِ ۚ اِنَّ الۡعَہۡدَ کَانَ مَسۡـُٔوۡلًا (بنی اسرائیل: 35) اور اپنے عہد پورے کرو، یقیناً عہد کے بارہ میں جواب طلبی ہو گی۔ اب اس میں کس حد تک آپ پابندی فرماتے تھے۔

ایک روایت میں حذیفہؓ بن یمان بیان کرتے ہیں کہ میرے بدر کی جنگ میں شامل ہونے میں یہی روک ہوئی کہ مَیں اور میرا ساتھی ابو سہل گھر سے نکلے۔ راستے میں کفار قریش نے ہمیں پکڑ لیا اور پوچھا تم محمد کے پاس جا رہے ہو؟ ہم نے کہا۔ ہم مدینہ جا رہے ہیں۔ انہوں نے ہم سے عہد لیا کہ ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ لڑائی میں شامل نہیں ہوں گے۔ ہم جب رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو یہ سارا واقعہ بیان کیا۔ آپﷺ نے فرمایا جاوٴ اور اپنا عہد پورا کرو۔ ہم دشمن کے مقابل پر دعا سے مدد چاہیں گے۔ (صحیح مسلم کتاب الجہاد باب الوفاء بالعہد حدیث نمبر 4639)

فرمایا کہ تم جاوٴ اپنا عہد پورا کرو۔ گو ہمیں ضرورت تو ہے لیکن ہم اب دشمن کے مقابل پردعا سے مدد چاہیں گے۔ پس یہ اللہ تعالیٰ کے حکم پر عمل کا اعلیٰ معیار ہے۔ بدر کی جنگ میں ایک ایک فرد کی مدد کی ضرورت تھی۔ کفار کا لاوٴلشکر جو ہر طرح سے لیس تھا، اس کے مقابلہ پر دیکھا جائے تو مسلمانوں کی حیثیت نہتوں جیسی تھی۔ لیکن آپ نے فرمایا کہ تم عہد کر چکے ہو پس یہ عہد پورا کرو۔ میں دعا سے اللہ تعالیٰ کی مدد چاہوں گا۔ اور پھر دنیا نے یہ نظارہ دیکھا اور تاریخ نے اسے محفوظ کر لیا اور دشمن بھی آپ کے اس عہد کے معترف ہیں، لیکن اس عبدِ کامل کو جس کو پہلے بھی اپنے خدا پر بھروسہ تھا اور وہ خدا جو اس عبدِ کامل کے ہر وقت قریب رہتا تھا اس نے کس طرح اپنی قربت کا نشان دکھایا کہ آپﷺ کی دعاوٴں کو قبول فرماتے ہوئے نہتوں اور کمزوروں کو طاقت وروں اور لاوٴ لشکر سے لیس فوج پر نہ صرف غلبہ عطا کر دیا بلکہ ایسا غلبہ عطا فرمایا جو واضح غلبہ تھا۔ جس یقین سے آپ نے فرمایا تھا کہ مَیں دعا سے خدا تعالیٰ کی مدد چاہوں گا اس یقین کو سچے وعدوں والے خدا نے پورا فرمایا اور صحابہ کے ایمان کو مزید مضبوط کیا اور دشمن پر ہیبت طاری فرمائی۔

ایک عورت نے فتح مکّہ کے موقع پر دشمن کو پناہ دینے کا وعدہ کیا تو آنحضرتﷺ نے فرمایا: اے اُمّ ہانی! جسے تُو نے پناہ دی، اسے ہم نے پناہ دی۔ (صحیح بخاری کتاب الصلاة باب الصلوٰة فی الثوب الواحد ملتحفاً بہ حدیث نمبر357)

پس ایک مومنہ کے زبان دینے کا آپ نے اس قدر پاس کیا کہ باوجود اس کے کہ حضرت علیؓ جیسے لوگوں نے اس کی مخالفت بھی کی، آپ نے جو اعلیٰ اخلاق پیدا کرنے آئے تھے فرمایا کہ اپنے وعدے کا پاس کرو۔ اور کیونکہ تم نے وعدہ کر لیا ہے اس لئے ہم بھی تمہارے وعدے کا پاس کرتے ہیں۔ آج ہم دیکھتے ہیں، آج کل کے معاشرے میں، ذرا ذرا سی بات پر عہد شکنیاں ہو رہی ہوتی ہیں اور معاشرے کا امن برباد ہو رہا ہوتا ہے۔ غیروں میں تو خیر بہت زیادہ ہے لیکن جماعت میں بھی ایسی صورت پیدا ہو جاتی ہے۔ اور اس پر مستزاد یہ کہ بعض اوقات جھوٹ کا بھی سہارا لیا جاتا ہے۔ جب مقدمے بازیاں ہو رہی ہوتی ہیں یا معاملات پیش کئے جاتے ہیں، توایک عہد شکنی ہو رہی ہوتی ہے اور دوسرے جھوٹ بھی بولا جا رہا ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی عبدیت سے ویسے ہی نکال دیتا ہے۔ کیونکہ خدا تعالیٰ نے جھوٹ اور شرک کو جمع کر کے یہ واضح فرما دیا کہ جھوٹ اور شرک برابر ہیں جیسا کہ فرماتا ہے۔فَاجۡتَنِبُوا الرِّجۡسَ مِنَ الۡاَوۡثَانِ وَ اجۡتَنِبُوۡا قَوۡلَ الزُّوۡرِ (الحج: 31) پس بتوں کی پلیدی سے احتراز کرو اور جھوٹ کہنے سے بچو۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ’’قرآن شریف نے جھوٹ کو بھی ایک نجاست اور رجس قرار دیا ہے جیسا کہ فرمایا ہےفَاجۡتَنِبُوا الرِّجۡسَ مِنَ الۡاَوۡثَانِ وَ اجۡتَنِبُوۡا قَوۡلَ الزُّوۡرِ (الحج: 31)‘‘ فرمایا: ’’دیکھو!یہاں جھوٹ کو بت کے مقابل رکھا ہے اور حقیقت میں جھوٹ بھی ایک بت ہی ہے، ورنہ کیوں سچائی کو چھوڑ کر دوسری طرف جاتا ہے۔ جیسے بت کے نیچے کوئی حقیقت نہیں ہوتی اسی طرح جھوٹ کے نیچے بجز ملمع سازی کے اور کچھ بھی نہیں ہوتا۔ جھوٹ بولنے والوں کا اعتبار یہاں تک کم ہو جاتا ہے کہ اگر وہ سچ کہیں تب بھی یہی خیال ہوتا ہے کہ اس میں بھی کچھ جھوٹ کی ملاوٹ نہ ہو‘‘۔ (ملفوظات جلد دوم صفحہ 266جدید ایڈیشن ربوہ)

پس جب انسان اپنے معاملات میں جھوٹ شامل کر لیتا ہے تو پھر خدا تعالیٰ ایسے شخص کو شرک کرنے والے کے برابر ٹھہراتا ہے۔ اور شرک کرنے والا تو خدا تعالیٰ کی عبدیت کا دعویٰ کر ہی نہیں سکتا۔ پس یہ بڑے خوف کا مقام ہے۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ چھوٹی موٹی غلط بیانی جو ہے وہ جھوٹ نہیں ہوتا۔ یہ جھوٹ کے زمرہ میں نہیں آتا، حالانکہ یہ بھی جھوٹ ہے۔ آنحضرتﷺ نے تو یہاں تک فرمایا ہے کہ کسی شخص کے جھوٹا ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات دوسروں کو بتاتا پھرے۔ (صحیح مسلم مقدمہ باب النھی عن الحدیث بکل ما سمع حدیث: 7)

پس اللہ تعالیٰ کا قرب پانے کے لئے یہ باریکیاں ہیں جن کو اختیار کرنے کا حکم ہے۔ یہ باتیں ہیں جن پر اللہ تعالیٰ ہم سے لبیک کہلوانا چاہتا ہے۔ اور یہی چیز ہے جو ایمانوں میں مضبوطی پیدا کرتی ہے اور اللہ تعالیٰ کا عبد بناتی ہے۔

روزہ کے حوالے سے بھی آنحضرتﷺ نے خاص طور پر توجہ دلائی ہے۔

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ جو شخص جھوٹ بولنا اور اس پر عمل کرنا نہیں چھوڑتا اللہ تعالیٰ کو اس چیز کی قطعاً ضرورت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑ دے۔ (صحیح بخاری کتاب الصوم باب من لم یدع قول الزور والعمل بہ فی الصوم حدیث نمبر 1903)

پھر ایک روایت ہے کہ روزہ ڈھال ہے جب تک کہ وہ اس ڈھال کو جھوٹ اور غیبت کے ذریعے نہیں پھاڑتا۔ (الجامع الصغیر للسیوطی حرف الصاد حدیث نمبر 5197 جزء اول و دوم صفحہ 320 دارالکتب العلمیة بیروت ایڈیشن 2004ء)

کیونکہ روزہ تو ایک مومن رکھتا ہے۔ جب جھوٹ آگیا تو ایمان تو ختم ہو گیا۔ خدا تعالیٰ کی خاطر روزہ رکھا جاتا ہے۔ جب جھوٹ آگیا تو خدا تعالیٰ تو بیچ میں سے نکل گیا۔ تب تو شرک پیدا ہو گیا۔ اس لئے روزہ بھی ختم ہو گیا۔ یہ تو خاص روزے کے حالات کے لئے ہے۔ لیکن عام حالات میں بھی جیسا کہ مَیں نے پہلے بیان کیا جھوٹ کو شرک کے برابر قرار دیا گیا ہے۔ پس اس رمضان میں اس بات پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم اپنی بعض کمزوریوں کا جائزہ لے کر انہیں دور کرنے کی کوشش کریں تبھی ہم اللہ تعالیٰ کا حقیقی عبد بن سکتے ہیں۔ ایمان میں مضبوطی کی طرف قدم بڑھا سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی باتوں پر لبیک کہنے والے بن سکتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی اِنِّیْ قَرِیْبٌ کی آواز کو سن سکتے ہیں۔ قرآنِ کریم میں بھی اللہ تعالیٰ نے معاشرے کے حقوق کے بارے میں بڑی تفصیل سے بتایا اور آنحضرتﷺ کی زندگی میں بھی ہمیں اس کی بہت تفصیل نظر آتی ہے، اس کی باریکیاں نظر آتی ہیں۔ مثلاً ایک حق ہے صلہ رحمی کا۔ یہ حق بعض لوگ نظر انداز کر جاتے ہیں۔ مثلاً رحمی رشتوں کی ادائیگی کے بارے میں خدا تعالیٰ نے حکم فرمایا ہے اور ہر نکاح پر ایک آیت پڑھی جاتی ہے۔ لیکن اس کا حق ادا کرنے کی طرف توجہ کم ہوتی ہے۔ حالانکہ رحمی رشتے جو آپس میں قائم ہوتے ہیں وہ تو دونوں طرف کے رشتے ہیں۔ لڑکے کی طرف کے بھی، لڑکی کی طرف کے بھی۔ اگر ان کا حق ادا کیا جائے تو بہت سارے مسائل جورشتوں میں پیدا ہوتے ہیں وہ پیدا نہ ہوں جن کی تعداد اب بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ آج کل بعض رشتوں میں دراڑوں کی بہت بڑی وجہ یہی ہے۔ آنحضرتﷺ تونہ صرف رحمی رشتوں کا پاس فرمایا کرتے تھے بلکہ رضاعی رشتوں کا بھی بڑا احترام کیا کرتے تھے۔ پس یہ اُسوہ آج کل کے فساد کو ختم کرنے کے لئے بڑا ضروری ہے۔ گھروں کے ٹوٹنے میں آج کل بہت بڑی وجہ بنی ہوئی ہے۔ مَیں نے اکثر دیکھا ہے کہ ایک دوسرے کے رشتوں کی قدر نہ کرنا بھی خاوند بیوی کے تعلقات میں دراڑیں ڈالتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرا بندہ بننے کا فیض اٹھانا ہے تو عبادتوں کے بھی حق ادا کرنے ہوں گے اور اعلیٰ اخلاق کا بھی مظاہرہ کرنا ہو گا۔ میرے بندوں کے بھی حق ادا کرنے ہوں گے جس کا اسوہ ہمارے سامنے اللہ تعالیٰ نے آنحضرتﷺ کی ذات میں قائم فرمایا اور جس کی نصائح آپ نے ہمیں فرمائیں۔ اور جب ہماری یہ حالت ہو گی تو ہم ان لوگوں میں شمار ہوں گے جو اللہ تعالیٰ کا قرب پانے والے ہیں۔ ورنہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس مضمون کو ایک جگہ اس طرح بیان فرمایا ہے کہ:‘‘اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مَیں تو قریب ہوں، تم دُور ہو۔ پس اپنے اعمال درست کرتے ہوئے میرے قریب آوٴ تو مجھے اپنے قریب پاوٴ گے’’۔ یہ دو طرفہ معاملہ ہے اور اس میں بھی پہل بہر حال بندے نے ہی کرنی ہے۔ اللہ کرے کہ ہم اس اصل کو سمجھنے والے ہوں اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے اپنے گناہوں سے بچنے کے لئے دعائیں مانگنے والے ہوں تا کہ اس بابرکت مہینے میں اللہ تعالیٰ کا فضل ہم پر نازل ہو اور ہم اللہ تعالیٰ کے مقرب بندے بننے والے کہلا سکیں۔ رمضان کے دنوں میں ایک یہ دعابھی کریں، جماعت اسے پہلے بھی کرہی رہی ہے، یاد دہانی کرواتا ہوں کہ پاکستان کے بارہ میں خاص طور پر دعا کریں۔ پاکستان کے احمدیوں کے بارے میں خاص طور پر دعا کریں۔ یہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ہر وقت اپنی رحمت کی چادر میں لپیٹے رکھے۔ دشمن کے تمام منصوبے خاک میں ملائے۔ جماعت کو اپنی خاص حفاظت میں رکھے۔ اپنی خارق عادت قدرت کا جلوہ دکھائے۔ اور اللہ تعالیٰ کی نظر میں جو شَرُّالنَّاس ہیں ان کا خاتمہ فرمائے۔ پاکستان کی جو حالت ہے یہ لوگ جو وہاں کے اربابِ حل وعقد ہیں، جو لیڈر شپ ہے سمجھ نہیں رہے کہ کس طرف جا رہا ہے اور کیا ہونے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی رحم فرمائے اور اسلام اور احمدیت کی ترقی ہمیں پہلے سے بڑھ کر دکھائے۔

(الفضل انٹرنیشنل جلد 17 شمارہ 36 مورخہ 3ستمبر تا 9 ستمبر 2010 صفحہ 5 تا 8)


  • خطبہ کا مکمل متن
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 13؍ اگست 2010ء شہ سرخیاں

     روزہ تو ایک مجاہدہ ہے، یہ مہینہ تو دعاؤں کی قبولیت کا مہینہ ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ کا قرب پانے، عبادات بجا لانے، فسق و فجور سے بچنے اور حقوق العباد ادا کرنے کی طرف پہلے سے بڑھ کر توجہ دینے کا مہینہ ہے۔ اور اس بارہ میں رسولِ کریمﷺ کے ارشادات اور آپؐ کے اسوہ حسنہ کی پاک جھلک، آج کل پاکستان میں احمدیوں کے جو حالات ہیں اس نے پوری دنیائے احمدیت کو عبادت کے معیار بہتر بنانے اور اللہ تعالیٰ کا قرب پانے کی کوشش کی طرف مائل کیا ہے، روزہ میں جھوٹ سے بچنے کی تلقین، صلہ رحمی، پاکستان کے احمدیوں کے لئے خاص دعا کی تحریک۔

    خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 13اگست 2010ء بمطابق 13ظہور 1389 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن (برطانیہ)

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور