قرآن کریم کا عالمگیر پیغام

خطبہ جمعہ 20؍ اگست 2010ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ ھُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّنٰتٍ مِّنَ الْھُدٰی وَالْفُرْقَانِ۔ فَمَنْ شَھِدَ مِنْکُمُ الشَّہْرَ فَلْیَصُمْہُ۔ وَمَنْ کَانَ مَرِیْضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ۔ یُرِیْدُ اللّٰہُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَلَا یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَ۔ وَلِتُکْمِلُوْا الْعِدَّۃَ وَلِتُکَبِّرُوااللّٰہَ عَلٰی مَا ھَدٰکُمْ وَلَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ۔ (سورۃ البقرہ آیت: 186)

اس آیت کا ترجمہ ہے کہ رمضان کا مہینہ جس میں قرآن انسانوں کے لئے ایک عظیم ہدایت کے طور پر اور ایسے کھلے نشانات کے طور پر اتارا گیاجن میں ہدایت کی تفصیل اور حق و باطل میں فرق کر دینے والے امور ہیں۔ پس جو بھی تم میں سے اس مہینے کو دیکھے تو اس کے روزے رکھے اور جو مریض ہو یا سفر پر ہو تو گنتی پوری کرنا دوسرے ایام میں ہو گا۔ اللہ تمہارے لئے آسانی چاہتا ہے اور وہ تمہارے لئے تنگی نہیں چاہتا۔ اور چاہتا ہے کہ تم سہولت سے گنتی کو پورا کرو۔ اور اس ہدایت کی بناء پر اللہ کی بڑائی بیان کرو جو اس نے تمہیں عطا کی اور تا کہ تم شکر کرو۔

رمضان کا بابرکت مہینہ

اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں رمضان کے مہینے کی قرآن کریم سے خاص نسبت کا بیان فرمایا ہے۔ یعنی یہ مہینہ وہ بابرکت مہینہ ہے جس میں قرآنِ کریم اتارا گیا۔ قرآنِ کریم کے نازل ہونے کی ابتدا بھی اس مہینے میں ہوئی اور اس بابرکت مہینے میں جبرئیلؑ ہر سال اس وقت تک نازل شدہ قرآنِ کریم کی دہرائی آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم کو کروایا کرتے تھے۔ (بخاری کتاب فضائل القرآن باب کان جبریل یعرض القرآن علی النبیؐ حدیث نمبر: 4998)

پس یہ مہینہ اللہ تعالیٰ کے اس پاک کلام کو خاص طور پر پڑھنے اور سمجھنے کا مہینہ ہے۔ گویا یہ اس لحاظ سے بھی بڑی اہمیت کا مہینہ ہے۔ صرف روزے رکھنے اور اس فرض کو پورا کرنے کی حد تک نہیں جس کی کچھ تفصیل پہلی آیات میں بیان ہوئی ہے اور کچھ تفصیل اس آیت میں اور بعد کی آیت میں بیان ہوئی ہے۔ بلکہ اس کی اہمیت اس لئے بھی بہت بڑھ جاتی ہے کہ اس مبارک مہینے میں قرآنِ کریم جیسی عظیم الشان کتاب خدا تعالیٰ نے نازل فرمائی جو کامل اور مکمل شریعت کی کتاب ہے جو انسانِ کامل پر نازل ہوئی، وہ نبی جو تمام انسانوں کے لئے مبعوث ہوا جیسا کہ قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعًا (الاعراف: 159) کہ اے نبی کہہ دے مَیں تم سب کی طرف اللہ تعالیٰ کا رسول بن کر آیا ہوں۔ پھر اللہ تعالیٰ ایک دوسری جگہ فرماتا ہے کہ وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا کَآفَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِیْرًا وَّنَذِیْرًا وَّلٰکِنْ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْن (سبا: 29) اور ہم نے تجھے نہیں بھیجا مگر تمام لوگوں کے لئے بشیر اور نذیر بنا کرمگر اکثر لوگ نہیں جانتے۔

آنحضرت ﷺ اور قرآن کریم آخری

بہر حال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارہ میں قرآنِ کریم مختلف جگہوں پر مختلف انداز میں بیان فرماتا ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کے وہ پیارے رسول ہیں جو تمام انسانوں کے لئے مبعوث ہوئے ہیں اور اب تا قیامت کوئی اور شرعی کتاب والانبی نہیں آ سکتا، شریعت لے کر نہیں آ سکتا۔ پس قرآنِ کریم کا پیغام ایک عالمگیر پیغام ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم تمام انسانوں کے لئے تا قیامت نبی ہیں۔ اپنے آخری ہونے اور تمام انسانیت کے لئے ہونے کا دعویٰ قرآنِ کریم نے کیا ہے۔ یہ اعزاز قرآنِ کریم کو حاصل ہے۔ اس لئے اس کی عظمت روزِ روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے اور بڑھ جاتی ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:

’’ہم ایسے نبی کے وارث ہیں جو رَحْمَۃٌ لِّلْعَالَمِیْن اور کَآفَّۃً لِّلنَّاس کے لئے رسول ہو کر آیا۔ جس کی کتاب کا خدا محافظ اور جس کے حقائق و معارف سب سے بڑھ کر ہیں‘‘۔ (الحکم جلد6 نمبر36مورخہ10اکتوبر 1902ء صفحہ 11)

اسلام کی رحمت کی تعلیم

قرآنِ کریم میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو رَحْمَۃٌ لِّلْعَالَمِیْن بھی کہا گیا ہے، پس یہ وہ عظیم نبی ہے جس سے اب انسانیت کے لئے رحمت کے چشمے پھوٹنے ہیں اور پھوٹتے ہیں۔ اور آپؐ پر اتری ہوئی کتاب ہی ہے جس کی تعلیم پر حقیقی عمل کرنے والے اپنے عظیم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر چلتے ہوئے دنیا کے لئے رحمت ہیں۔ کاش کہ آج کے شدت پسندمُلّاؤں اور اپنے زعم میں عالم کہلانے والوں کو بھی یہ پتہ لگ جائے۔ ان لوگوں کو بھی پتہ لگ جائے جو مذہبی جبہ پوش ہیں کہ قرآنِ کریم کی تعلیم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو دنیا میں رحمتوں کی تقسیم کے لئے آئے تھے، نہ کہ امن پسند شہریوں کے امن چھیننے کی تعلیم دینے کے لئے، نہ کہ معصوموں کی جانوں سے بے رحمانہ طور پر کھیلنے کے لئے۔ بہر حال اس آیت کے اس حصّہ میں جس میں قرآنِ کریم کے حوالے کے طور پر بات ہو رہی ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس قرآن میں تمام دنیا کے انسانوں کے لئے ہدایت ہے۔ اس میں کھلے کھلے نشانات بیان کئے گئے ہیں۔ اس میں حق و باطل میں فرق کرنے والے امور بیان کئے گئے ہیں۔ پس مومنین کا فرض ہے کہ اس روشن تعلیم اور ہدایت سے پُر جامع کتاب قرآن کو جو حق و باطل میں فرق کرتی ہے اس مہینے میں جو رمضان کا مہینہ کہلاتا ہے، جو روحانیت میں ترقی کا مہینہ کہلاتا ہے، جس میں روزے رکھ کر انسان خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ جس میں ایک مؤمن اپنی عبادتوں کے معیار بلند کرنے کی کوشش کرتا ہے اس میں قرآنِ کریم کو اپنے سامنے رکھو کہ یہ تمہارا رہنما ہے۔ اس مہینے میں اس پر غور کرو۔ اس کی تلاوت پر جہاں زور دو وہاں اس کے احکامات پر غور کرتے ہوئے اپنی ہدایت کے سامان پیدا کرو۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ کہ یہ متقیوں کے لئے ہدایت ہے۔ پہلے فرمایا تمام انسانیت کے لئے ہدایت ہے۔ ہدایتوں کے معیار مختلف ہیں۔ متقیوں کے لئے بھی اس میں ہدایت ہے۔ صرف ایک دفعہ ایمان لا کر یا تقویٰ پر قائم ہو کر ہدایت ختم نہیں ہو جاتی۔ بلکہ ہدایت کا یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔ یعنی وہ لوگ جو متقی ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے خوف اور اس کی خشیت پر ہر قسم کے خوف، خشیت اور محبت کو حاوی سمجھتے ہیں۔ اگر ان دعویٰ کرنے والوں کایہ دعویٰ سچا ہے تو پھر اس تعلیم کی تمام باریکیوں پر عمل کرنا بھی ضروری ہے ورنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ایسے لوگ جو غور نہیں کرتے، تقویٰ پر چلنے کی کوشش نہیں کرتے ایسے لوگوں کا رات کا جاگنا بھی صرف جاگنا ہے۔ اور ان لوگوں کے روزے بھی صرف بھوک اور پیاس ہیں۔ (سنن ابن ماجہ کتاب الصیام باب ماجاء فی الغیبۃ و امر فث للصائم حدیث نمبر 1690)

پس روزے کی اہمیت اس وقت ہے جب قرآن کی اہمیت ہو۔ اس کی تعلیم کی اہمیت ہو جو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائی ہے۔ اس تعلیم پر عمل کرنے کی کوشش ہو۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان دنوں میں تزکیہ نفس پر زور دینے کو اہمیت دی ہے جس کا پتہ بھی ہمیں قرآنِ کریم سے چلتا ہے۔ جب یہ حالت ایک مومن کی ہو گی تب وہ اس خوبصورت تعلیم کو دنیا کے سامنے پیش کر سکتا ہے۔ تب ہم دنیا کو بتا سکتے ہیں کہ جس طرف تم جا رہے ہو یہ بہت خطر ناک راستہ ہے۔ یہ تباہی کا راستہ ہے۔ یہ تمہاری دنیا و آخرت کی بربادی کا راستہ ہے۔ اگر تم دنیا و آخرت کی بقا چاہتے ہو تو آؤ ہم تمہیں ہدایت کے راستے بتاتے ہیں۔ قرآنِ کریم کا صرف دعویٰ نہیں ہے کہ ھُدًی لِّلنَّاس۔ بلکہ اگر تم اس تعلیم پر عمل کرو تو اس دنیا میں ہدایت کے اثرات نظر آتے ہیں۔ یعنی جیسا کہ مَیں نے کہا، سب سے پہلے تو ایک مسلمان کے عمل ہمارے سامنے ہونے چاہئیں، دنیا کے سامنے ہونے چاہئیں، جسے دنیا دیکھ سکے۔ یہ بڑی بد قسمتی ہے کہ آج مسلمانوں کے عمل ہی ہیں جو مخالفینِ اسلام کو یہ موقع دے رہے ہیں کہ وہ قرآنِ کریم پر اعتراض کریں، اس کی تعلیم پر اعتراض کریں۔

اسلامی تعلیم کو بدنام کرنے کی ایک مذموم کوشش

آج کل قرآنِ کریم اور اسلامی تعلیم کو بدنام کرنے کی ایک مذموم کوشش امریکہ کے ایک چرچ کی طرف سے ہو رہی ہے۔ انہوں نے اپنا جو پروگرام بنایا ہے اس میں ایک ظالمانہ کام 11؍ستمبر کو قرآنِ کریم کو جلانے کا بھی ہے جسے میڈیا نے ہر جگہ بیان کیا ہے۔ اس چرچ نے جو اعتراضات کئے ہیں وہ دس اعتراضات ہیں جو انتہائی لغو اور بودے اعتراضات ہیں۔ اعتراض کرنے ہوں تو ہم بائبل پر بہت سارے اعتراض کر سکتے ہیں لیکن ہمارا یہ کام نہیں ہے کہ فساد پیدا کریں۔ ہاں علمی بحث ہے اور اعتراض کا حق ہر ایک کو حاصل ہے۔ علمی بحث ہم کرتے ہیں۔ لیکن کسی مسلمان کا یہ حق نہیں کہ ان باتوں کی وجہ سے کہ بائبل بعض باتیں کرتی ہے، بلکہ بعض جگہ توحید کی منکر ہے، تو اس بائبل کو جلانا شروع کر دیں؟ قرآنِ کریم تو شروع سے آخر تک توحید کی تعلیم دیتا ہے اور یہی کام ہم نے کرنا ہے۔ اور تمام انبیاء اسی مقصد کے لئے آئے ہیں۔ سب سے بڑھ کر قرآنِ کریم ہی ہے جس نے توحید کی تعلیم دی ہے اور یہ حقیقت ہے کہ توحید ہی ہے جس کے بغیر کسی مذہب کی بنیاد ہی نہیں ہوسکتی۔ اور اس زمانہ میں جس جری اللہ کو اللہ تعالیٰ نے مبعوث فرمایا ہے اس نے اس تعلیم کو اس عظمت سے ظاہر فرمایا کہ جو بندے کو خدا بنانے والے تھے، انہوں نے یہ اعلان کر دیا کہ مرزا غلام احمد قادیانی علیہ الصلوٰۃ والسلام اور ان کے ماننے والوں سے مذہبی بحث نہ کرو۔ آج کل کی عیسائیت کی توبنیاد ہی تثلیث پر ہے۔ توحید سے تو اس کی بنیادیں ہی ہل جاتی ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تو بائبل سے ہی حضرت عیسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام کے اپنے اقوال سے ثابت فرمایا کہ وہ خدا کے بیٹے نہیں ہیں اور کوئی خدا کا بیٹا نہیں بن سکتا۔ اس چرچ کو جو قرآن کے خلاف مہم چلا رہا ہے سب سے بڑا اعتراض ہی یہی ہے۔ پہلا اعتراض ہی انہوں نے یہ لکھا ہوا ہے اور دوسرے میں اسی اعتراض کو پھر آگے پھیلایا کہ قرآنِ کریم حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خدا کا بیٹا نہیں مانتا۔ اور اس وجہ سے کہتا ہے کہ نجات انسان کے عمل سے ہے نہ کہ کسی کے یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے صلیب پر چڑھنے کی وجہ سے۔ ان عقل کے اندھوں کو یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ اس بات پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام خود بھی یقین کرتے تھے لیکن ان کے نام پر ان کی تعلیم کو بعد میں بگاڑ دیا گیا اور اللہ تعالیٰ کے مقابل پر ایک عاجز انسان کو لا کر کھڑا کر دیا گیا۔ پس جب انسان شکست خوردہ ہو جائے، اس کے پاس کوئی دلیل نہ ہو تو اس کے پاس اس کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہوتا کہ شدت پسندی پہ اتر آئے۔ اور یہ چرچ جس کا نام Dove world outreach centre church ہے، یہی کر رہا ہے۔ بائبل میں تو ایک جگہ بلکہ ایک جگہ کیا کئی جگہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے کہا ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام مرقس میں جسے انگریزی میں Mark کہتے ہیں، ایک جگہ فرماتے ہیں، اس کا باب 12 آیت30-29 ہے کہ: ’’اول یہ کہ اے اسرائیل سن خداوند ہمارا خدا ایک ہی خدا وند ہے۔ اور تُو خداوند اپنے خدا سے اپنے سارے دل اور اپنی ساری جان اور اپنی ساری عقل اور اپنی ساری طاقت سے محبت رکھ‘‘۔ (مرقس باب 12آیت 29,30)

اس کے علاوہ اور بہت سی جگہوں پر مسیح کی الوہیت کی تردید بائبل میں موجود ہے۔ خود بائبل تردید کرتی ہے۔

دلائل سے پُر اس بحث اور قرآنِ کریم کی حقیقت بیانی اور برتری کو تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ثابت فرمایااور عیسائیوں کی ہر دلیل کو ردّ کیا تھا اور آج تک جماعتِ احمدیہ کرتی چلی آ رہی ہے۔ قرآنِ کریم کی تو یہ خوبصورت تعلیم ہے کہ حق کی تبلیغ کرو۔ دنیا کو بتا دو کہِ قَدْ تَّبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیّ(بقرہ: 257) کہ یقینا ہدایت اور گمراہی کا فرق ظاہر ہو چکا۔ لیکن یہ فرق بیان کرنے اور منوانے کے لئے کسی جبر کی ضرورت نہیں ہے۔ جس کی مرضی ہے مانے، جس کی مرضی ہے نہ مانے۔ فرمایا: اے نبی! تیرا کام صرف اس کلام کو، اس پیغام کو جو قرآنِ کریم کی صورت میں تجھ پر اترا ہے لوگوں تک پہنچا دینا ہے، ہدایت دینا اللہ تعالیٰ کا کام ہے۔ پس اس خوبصورت تعلیم کو یہ مذموم کوشش کر کے جلانا چاہتے ہیں۔ اس تعلیم کی روشنی میں شدت پسندی اور بدامنی کی تعلیم یہ چرچ دے رہا ہے یا مسلمان؟

یہ چرچ تو اپنی تعلیم پر بھی عمل نہیں کر رہا، جو بائبل میں ان کی اپنی تعلیم ہے۔ بائبل تو کہتی ہے کہ اگر تمہارے ایک گال پر کوئی طمانچہ مارے تو دوسرا بھی آگے کر دو۔ (متی باب 5آیت 39)

دنیا کو آج امن کی ضرورت ہے

یہ تو بائبل نے نہیں کہا کہ تم مذہبی نفرتوں کوہوا دو۔ بہت سے عیسائی چرچوں نے بھی اس چرچ کی اس ظالمانہ سوچ اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کی مذمت کی ہے اور سختی سے تردید کی ہے کہ ہم اس میں شامل نہیں ہوں گے۔ اور ہر عقل مند اور امن پسند انسان کا یہی ردّعمل ہونا چاہئے۔ جماعت احمدیہ بھی میڈیا کے ذریعے اور مختلف طریقوں سے اس Dove Churchکو اپنی اس مذموم حرکت سے روکنے کی کوشش کر رہی ہے۔ (Dove عیسائیت میں روح القدس کا نشان بھی ہے کہ یہی کہا جاتا ہے کہ حضرت عیسیٰ پر فاختہ کی صورت میں روح القدس اتری)۔ بہر حال امریکہ کی جماعت کو بھی مَیں نے کہا تھا کہ ایک مہم کی صورت میں اس پر کام کریں اور دنیا کی باقی جماعتوں کو بھی اسی طرح کرنا چاہئے کہ یہ جو طریقہ اپنا رہے ہیں یہ دنیا میں فساد پیدا کرنے کا طریقہ ہے۔ اس سے بجائے محبتوں کے کینوں اور بغضوں کی دیواریں کھڑی ہوں گی۔ قرآنِ کریم میں حضرت مریم اور حضرت عیسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام کا مقام جو ظاہر کیا ہے وہ ان لوگوں کو نظر نہیں آتا۔ قرآنِ کریم تو ہر نبی کی عزت کرتا ہے۔ بہر حال جیسا کہ مَیں نے کہا ان کی یہ حرکت نفرتوں کی دیواریں کھڑی کرے گی۔ وہ مسلمان جو بدقسمتی سے اس زمانہ کے امام کو نہ مان کر بے لگام ہیں، یا ان کی لگامیں بدقسمتی سے ان لوگوں کے ہاتھوں میں آ گئی ہیں جو اپنے مفاد حاصل کرنا چاہتے ہیں، ان مسلمانوں سے غلط ردِ عمل بھی ہو سکتا ہے۔ دنیا کو آج امن کی ضرورت ہے، محبت کی ضرورت ہے، بھائی چارہ کی ضرورت ہے، جنگوں کی تباہی سے بچنے کی ضرورت ہے، خدا تعالیٰ کے پیار کو جذب کرنے کی ضرورت ہے تا کہ تباہ ہونے سے بچ سکیں۔ اس کے حصول کے لئے عیسائیوں کوبھی اپنے قبلہ کو درست کرنے کی ضرورت ہے۔ اور مسلمانوں کو بھی صحیح ردّعمل دکھانے کی ضرورت ہے۔ دلائل کی بحثیں کریں، علمی بحثیں کریں۔ لیکن ایک دوسرے کے مذہبی جذبات کا خیال رکھنا چاہئے۔ آج مسلمان بھی اگر حقیقت میں حُبّ پیغمبری اور حُبّ قرآن کا دعویٰ کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کے حکم کو سمجھتے ہوئے اپنی رہنمائی کے لئے اس رہنما کو تلاش کریں جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے ارشاد کے تابع اور پیشگوئیوں کے مطابق مبعوث ہوا۔ یہ رمضان کا مہینہ جس میں خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ قرآنِ کریم نازل ہوا جو تمام انسانوں کے لئے ہدایت ہے تو ہدایت کے وہ راستے متعین کریں جو قرآنِ کریم نے متعین کئے ہیں۔ ہدایت کے معیار وہ بنائیں جو قرآنِ کریم نے بنائے ہیں۔ ہدایت دینے والے کو پانے کے لئے بھی خالص ہو کر دعا کرنے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم کی دعا سکھائی ہے۔ اگر خالص ہو کر یہ دعا کریں گے تو اللہ تعالیٰ ضروررہنمائی فرماتا ہے۔ اس دعا کے ساتھ تواللہ تعالیٰ غیر مسلموں کی بھی رہنمائی فرما دیتا ہے، مسلمانوں کی تو ضرور کرے گا۔ کاش کہ ہمارے مسلمان بھائی ہمارے اس دردمندانہ پیغام اور جذبات کو سن کر اس پر عمل کرنے کی کوشش کریں۔ اور اپنی دنیا و آخرت سنوار لیں۔

قرآن حقیقی برکات کا سرچشمہ

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:

’’یاد رکھو قرآنِ شریف حقیقی برکات کا سرچشمہ اور نجات کا سچا ذریعہ ہے۔ یہ ان لوگوں کی اپنی غلطی ہے جو قرآنِ شریف پر عمل نہیں کرتے۔ عمل نہ کرنے والوں میں سے ایک گروہ تو وہ ہے جس کو اس پر اعتقاد ہی نہیں اور وہ اس کو خدا تعالیٰ کا کلام ہی نہیں سمجھتے۔ یہ لوگ تو بہت دور پڑے ہوئے ہیں۔ لیکن وہ لوگ جو ایمان لاتے ہیں کہ وہ خدا تعالیٰ کا کلام ہے اور نجات کا شفا بخش نسخہ ہے اگر وہ اس پر عمل نہ کریں تو کس قدر تعجب اور افسوس کی بات ہے۔ ان میں سے بہت سے تو ایسے ہیں جنہوں نے ساری عمر میں کبھی اسے پڑھا ہی نہیں۔ پس ایسے آدمی جو خدا تعالیٰ کی کلام سے ایسے غافل اور لاپرواہ ہیں اُن کی ایسی مثال ہے کہ ایک شخص کو معلوم ہے کہ فلاں چشمہ نہایت ہی مصفّٰی اور شیریں اور خنک ہے‘‘۔ (صاف اور میٹھا اور ٹھنڈا پانی ہے) ’’اور اس کا پانی بہت سی امراض کے واسطے اکسیر اور شفا ہے۔ یہ علم اس کو یقینی ہے لیکن باوجود اس علم کے اور باوجود پیاسا ہونے اور بہت سی امراض میں مبتلا ہونے کے وہ اس کے پاس نہیں جاتا تو یہ اس کی کیسی بدقسمتی اور جہالت ہے۔ اسے تو چاہئے تھا کہ وہ اس چشمے پر منہ رکھ دیتا اور سیراب ہو کر اُس کے لطف اور شفا بخش پانی سے حظ اٹھاتا مگر وہ باوجود علم کے اس سے ویسا ہی دور ہے جیسا کہ ایک بے خبر۔ اور اس وقت تک اس سے دُور رہتا ہے جو موت آ کر خاتمہ کر دیتی ہے۔ اس شخص کی حالت بہت ہی عبرت بخش اور نصیحت خیز ہے۔ مسلمانوں کی حالت اس وقت ایسی ہی ہو رہی ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ ساری ترقیوں اور کامیابیوں کی کلید یہی قرآنِ شریف ہے جس پر ہم کو عمل کرنا چاہئے۔ مگر نہیں، اس کی پرواہ بھی نہیں کی جاتی۔ ایک شخص‘‘ (یعنی اپنے آپ کے بارہ میں کہہ رہے ہیں کہ) ’’ایک شخص جونہایت ہمدردی اور خیرخواہی کے ساتھ اور پھرنری ہمدردی ہی نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے حکم اور ایماء سے اس طرف بلاوے تو اُسے کذّاب اور دجّال کہا جاتا ہے۔ اس سے بڑھ کر اَور کیا قابلِ رحم حالت اس قوم کی ہو گی‘‘۔ (ملفوظات جلد 4صفحہ 140جدید ایڈیشن ربوہ)

آج بھی یہی حقیقت ہے کہ قرآنِ کریم پر غور کرنا تو ایک طرف اکثریت قرآنِ کریم پڑھنے کی طرف بھی توجہ نہیں دیتی۔ اور نام نہاد علماء کے اس بات پر ورغلانے سے ان کے پیچھے چل پڑے ہیں کہ قرآنِ کریم کہتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں اور مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے۔ کاش کہ یہ غور کریں اور ہم سے پوچھیں کہ کیا دعویٰ ہے؟ حق کو پہچاننے کی جستجو کریں۔ ان کے پاس دلیل نہیں ہے اس لئے علماء نے جماعت پر پاکستان میں خاص طور پر اور باقی مسلم ملکوں میں بھی ہر جگہ پابندی لگائی ہے۔ مسلمانوں کو یہ کہا جاتا ہے کہ ان کی بات سننا بھی کفر ہے بلکہ یہاں تک کہتے ہیں کہ ان سے سلام کرنا بھی کفر ہے۔ وہی شدت پسندی اگر عیسائی دکھا رہے ہیں تو یہاں احمدیوں کے بارہ میں مسلمان بھی دکھا رہے ہیں۔ بلکہ عمومی طور پر ایک بہت بڑا گروہ، ایک طبقہ ایسا ہے جو شدت پسندی کا اظہار کر رہا ہے تو عیسائیوں کو بھی جرأت پیدا ہوئی ہے۔ پس یہ تو ان لوگوں کی حالت ہے۔ مسلمانوں کو اپنے آپ پہ اتنا بھی یقین نہیں ہے کہ اگر احمدی غلط ہیں تو ان کی بات کو ردّ کر دیں۔ کیا یہ اتنے خوفزدہ ہیں، اپنے ایمانوں کو اتنا کمزور دیکھتے ہیں کہ احمدی سے بات کریں گے تو ان کے ایمان کمزور ہو جائیں گے اور اسلام چھوڑ دیں گے۔ بہر حال یہ تو ان کے علماء کی باتیں ہیں جن کے پیچھے چل کر عامۃ المسلمین جو ہیں وہ بھی اپنی دنیا و عاقبت خراب کر رہے ہیں۔ اسی طرح ہم جو احمدی ہیں ہمارا بھی فرض ہے کہ اپنا حق ادا کریں۔ ہمارا بھی فرض ہے کہ ان ہدایات کے راستوں کا عملی نمونہ بنیں جو قرآنِ کریم میں بیان کی گئی ہیں۔ پس رمضان کا یہ مہینہ جو اللہ تعالیٰ نے ہماری روحانی حالتوں کی بہتری اور قرآنِ کریم پر عمل اور غور کرنے کے لئے ہمیں پھر میسر فرمایا ہے اس سے ہمیں بھر پور فائدہ اٹھا نا چاہئے اور پوری کوشش کرنی چاہئے۔ اور بھر پور فائدہ تبھی اٹھایا جا سکتا ہے جب ہم اس کی روزانہ باقاعدگی سے تلاوت بھی کرنے والے ہوں۔ اس کے احکامات پر غور کرنے والے ہوں۔ ان پر عمل کرنے کے لئے اپنے آپ کو تیار کریں۔ اس کے لئے کوشش کریں۔ اللہ تعالیٰ نے بعض حکم دئیے ہیں کہ ان کو بجا لاؤ، بعض نیکیاں ہیں ان کو کرنے کا حکم دیا ہے جن سے ہدایت کے راستے ملتے ہیں۔ بعض برائیاں ہیں ان سے کہا ہے کہ بچوتو ان راستوں پر چل سکو گے جو منزلِ مقصود تک لے جانے والے راستے ہیں۔ اور ایک مومن کی منزلِ مقصود اللہ تعالیٰ کی رضا کے علاوہ اور کیا ہو سکتی ہے؟

ہدایت کے راستوں کو پانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلا قدم جو رکھا ہے وہ ایمان بالغیب ہے، اور یہ کوئی معمولی چیز نہیں ہے۔ یہ ایمان بالغیب ہی ہے جو ایمان میں ترقی کا باعث بنتا ہے۔ اور یہ ایمان میں ترقی ہدایت کے ان راستوں کی طرف لے جاتی ہے جو خدا تعالیٰ کے پانے کے راستے ہیں۔ خدا تعالیٰ کی تعلیم کو سمجھنے کے راستے ہیں۔ خدا تعالیٰ کے ساتھ تعلق میں بڑھنے کے راستے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک جگہ اس کی وضاحت اس طرح فرمائی ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ:

’’متقی کی حالت میں چونکہ رؤیتِ باری تعالیٰ اور مکالمات و مکاشفات کے مراتب حاصل نہیں ہوتے اس لئے اس کو اول ایمان بالغیب ہی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور وہ تکلف کے طور پر ایمانی درجہ ہوتا ہے کیونکہ قرائن قویہ کو دیکھ کر اللہ تعالیٰ کی ہستی پر ایمان لاتا ہے جو بین الشک والیقین ہوتا ہے‘‘ (کہ شک اور یقین کے درمیان یہ چیزیں ہوتی ہیں )۔

فرمایا کہ ’’… متقی اللہ تعالیٰ کو مان لیتا ہے اور اس پر ایمان لاتا ہے۔ جیسے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ‘‘۔ فرمایا کہ’’یہ مت سمجھو کہ یہ ادنیٰ درجہ ہے یا اس کا مرتبہ کم ہے‘‘۔ پھر فرماتے ہیں ’’یہ ایمان بالغیب متقی کے پہلے درجہ کی حالت اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہت بڑی وقعت رکھتی ہے۔ حدیث صحیح میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے پوچھا کہ جانتے ہو کہ سب سے بڑھ کر ایمان کس کا ہے؟ صحابہ نے عرض کی کہ حضور آپؐ کا ہی ہے۔ آپؐ نے فرمایا کہ میرا کس طرح ہو سکتا ہے، مَیں تو ہر روز جبریل کو دیکھتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ کے نشانات کو ہر وقت دیکھتا ہوں۔ پھر صحابہ نے عرض کی کہ کیا ہمارا ایمان؟ پھر آپؐ نے فرمایا کہ تمہارا ایمان کس طرح؟ تم بھی تو نشانات دیکھتے ہو۔ آخر خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو لوگ صدہا سال کے میرے بعد آئیں گے ان کا ایمان عجیب ہے کیونکہ وہ کوئی بھی ایسا نشان نہیں دیکھتے جیسے تم دیکھتے ہو مگر پھر بھی اللہ تعالیٰ پر ایمان لاتے ہیں۔ غرض خدا تعالیٰ متقی کو اگر وہ اسی ابتدائی درجہ میں مر جاوے، تو اسی زمرہ میں داخل کر لیتا ہے‘‘۔ فرماتے ہیں کہ ’’اس لذت اور نعمت سے ابھی اس نے کچھ بھی نہیں پایا‘‘۔ (جو نشانات دیکھ کر ملتی ہے)۔ ’’لیکن پھر بھی وہ ایسی قوت دکھاتا ہے کہ نہ صرف اللہ تعالیٰ پر ایمان ہی رکھتا ہے بلکہ اس ایمان کو اپنے عمل سے بھی ثابت کرتا ہے۔ یعنی یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ۔‘‘ عمل یہ ہے کہ نمازوں پر قائم ہو جاتے ہیں۔ فرمایا کہ ’’تقویٰ کی اس حالت میں نمازوں میں بھی وسوسے ہوتے ہیں اور قسم قسم کے وہم اور شکوک پیدا ہو کر خیالات کو پراگندہ کرتے ہیں۔ باوجود اس کے بھی وہ نماز نہیں چھوڑتے اور نہیں تھکتے اور ہارتے۔ بعض لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ چند روز نماز پڑھی اور ظنونِ فاسدہ اور خیالات پراگندہ دل میں گزرنے لگے‘‘۔ بدظنیاں پیدا ہونے لگ گئیں۔ گندے خیالات آنے لگ گئے۔ ’’نماز چھوڑ دی اور ہار کر بیٹھ رہے۔ مگر متقی اپنی ہمت نہیں ہارتا۔ وہ نماز کو کھڑی کرتا، نماز گری پڑتی ہے، وہ بار بار اسے کھڑی کرتا ہے۔ تقویٰ کی حالت میں دو زمانے متقی پر آتے ہیں۔ ایک ابتلا کا زمانہ دوسرا اصطفا کا زمانہ۔ ابتلا کا زمانہ اس لئے آتا ہے کہ تاتمہیں اپنی قدرو منزلت اور قابلیت کا پتہ مل جائے اور یہ ظاہر ہو جائے کہ کون ہے جو اللہ تعالیٰ پر راستبازوں کی طرح ایمان لاتا ہے۔ اس لئے کبھی اس کو وہم اور شکوک آ کر پریشان دل کرتے ہیں۔ کبھی کبھی خدا تعالیٰ ہی کی ذات پر اعتراض اور وہم پیدا ہونے شروع ہو جاتے ہیں۔ صادق مومن کو اس مقام پر ڈرنا اور گھبرانا نہ چاہئیے بلکہ آگے ہی قدم رکھے‘‘۔ فرمایا کہ ’’شیطان پلید کا کام ہے کہ وہ راضی نہیں ہوتا جب تک کہ اللہ تعالیٰ کی ذات سے منکر نہ کرا لے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت سے روگردان نہ کر لے۔ وہ وساوس پر وساوس ڈالتا رہتا ہے۔ لاکھوں کروڑوں انسان انہیں وسوسوں میں مبتلا ہو کر ہلاک ہو رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ اب کر لیں پھر دیکھا جائے گا۔ باوجود اس کے کہ انسان کو اس بات کا علم نہیں کہ ایک سانس کے بعد دوسرا سانس آئے گا بھی یا نہیں؟‘‘ (مطلب یہ کہ دل میں جو وسوسہ پیدا ہوا ہے یا غلط خیال پیدا ہوا ہے وہ کر لو دیکھا جائے گا۔ پھر بعد میں اصلاح ہو جائے گی)۔ فرمایا کہ’’لیکن شیطان ایسا دلیر کرتا ہے کہ وہ بڑی بڑی جھوٹی امیدیں دیتا اور سبز باغ دکھاتا ہے۔ شیطان کا یہ پہلا سبق ہوتا ہے، مگر متقی بہادر ہوتا ہے اس کو ایک جرأت دی جاتی ہے کہ وہ ہر وسوسہ کا مقابلہ کرتا ہے۔ اس لئے یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ فرمایا، یعنی اس درجہ میں وہ ہارتے اور تھکتے نہیں اور ابتدا میں اُنس اور ذوق اور شوق کا نہ ہونا ان کو بے دل نہیں کرتا۔ وہ اسی بے ذوقی اور بے لطفی میں بھی نماز پڑھتے رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ سب وساوس اور اوہام دور ہو جاتے ہیں۔ شیطان کو شکست ملتی اور مومن کامیاب ہو جاتا ہے۔ غرض متقی کا یہ زمانہ سستی کا زمانہ نہیں ہوتا بلکہ میدان میں کھڑے رہنے کا زمانہ ہوتا ہے۔ وساوس کا پوری مردانگی سے مقابلہ کرے‘‘۔ (الحکم جلد 5نمبر 6مورخہ 17؍فرور ی1901ء صفحہ 201)

نمازوں کی طرف توجہ

پس ان دنوں میں جب ہر ایک کو نمازوں کی طرف بھی توجہ پیدا ہوئی ہوئی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے مسجدیں بھی بھری ہوئی ہیں۔ شیطان کے ساتھ مقابلے میں پوری طاقت صرف کر دینی چاہئے۔ جب یہ صورت پیدا ہو گی کہ شیطان کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ سے مدد چاہ رہے ہوں گے۔ خدا تعالیٰ سے مضبوط تعلق پیدا کرنے کی طرف قدم بھی اٹھ رہے ہوں گے۔ جب خدا تعالیٰ سے مضبوط تعلق بھی بڑھیں گے۔ جب یہ کوشش ہو گی تب ان ہدایت کے راستوں کی طرف بھی رہنمائی ملے گی جو خدا تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں بیان فرمائے ہیں۔ ہدایت کے وہ راستے نظر آئیں گے جو اپنے ساتھ روشن نشان رکھتے ہیں۔ یہاں یہ بات بھی یاد رہے کہ ایمان بالغیب کا تقاضا ہے کہ ان تمام پیشگوئیوں پر بھی یقین رکھا جائے جو اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں بیان فرمائی ہیں۔ اور جب نمازوں میں توجہ ہو گی۔ ایمان بالغیب کے ساتھ عملی صورت کا اظہار ہوگا جس کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ذکر فرمایا ہے۔ یعنی نمازوں کا قیام اور اس میں شیطان کے حملوں سے بچنے کی دعائیں، تو پھر یہ دعا بھی ہو رہی ہو گی کہ اللہ تعالیٰ ہمارے ایمان بالغیب کی حالت کو نشانات کے ساتھ مزید مضبوط بھی کر دے۔ اللہ تعالیٰ پر ایمان یہ تقاضا کرتا ہے اور ایک مومن اس کے لئے دعا کرتا ہے کہ جس طرح تیرے فرستادے پہلے زمانے کی اصلاح اور ہدایت کے لئے تیری طرف سے مبعوث ہوتے تھے اب بھی ہوں۔ کیونکہ زمانے کی حالت یہ تقاضا کر رہی ہے کہ کسی فرستادے کی ضرورت ہے۔ قرآنِ کریم نے ہی یہ پیشگوئی بھی فرمائی تھی کہ وَآخَرِیْنَ مِنْہُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ (الجمعۃ: 4)۔ اور ایک دوسری قوم میں سے بھی وہ اسے بھیجے گا جو ابھی ان سے نہیں ملے۔ پس یہاں یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو نشانات نہیں دیکھیں گے ان کے ایمان قابلِ تعریف ہیں بلکہ یہ اس عرصے کی طرف اشارہ ہے جو آپ کی پیشگوئی کے مطابق ہی اندھیرے زمانے کا عرصہ تھا جب مسلمانوں میں وسیع پیمانے پر روحانیت کو آگے بڑھانے کے لئے، مسلمانوں کی تربیت کے لئے کوئی بڑا وسیع نظام نہیں تھا۔ ہاں چھوٹی چھوٹی جگہوں پر مجددین تھے جو اپنے کام کر رہے تھے یا وہ لوگ ہیں جن تک بعد میں بھی اللہ تعالیٰ کے آئے ہوئے فرستادے کا پیغام نہیں پہنچا۔ ان کی اگر ایمانی حالت پھر بھی قائم رہتی ہے تو یہ لوگ وہ ہیں جنہوں نے ایمان بالغیب کی صحیح حفاظت کی ہے۔ اور جو ایمان بالغیب کی صحیح حفاظت کرنے والے ہیں وہ پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئے ہوئے کو اس کی نشانیاں دیکھ کر پہچانتے بھی ہیں اور قبول بھی کرتے ہیں۔ بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر جو ایمان لائے تھے انہوں نے کوئی نشانات نہیں مانگے تھے۔ بہت سارے ایسے تھے جو ایمان بالغیب پر ہی یقین رکھتے تھے‘‘۔ (ماخوذاز ملفو ظات جلد 2صفحہ 644)

صرف آپ کی ظاہری حالت دیکھ کر ان کو یقین تھا کہ جو کچھ آپ نے کہا ہے وہ سچ ہے۔ اور پھر مسیح و مہدی کے آنے کے ساتھ یہ نشانات کا دور شروع ہو گیا۔ یہ بھی پیشگوئی تھی کہ نشانات کا دور شروع ہو گا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ یہ نشانات دیکھ رہی ہے۔ اور ایمان بالغیب کی وجہ سے اس یقین پر بھی قائم ہے کہ جو وعدے اور پیشگوئیاں ہیں جو اب تک ہمیں نظر نہیں آ رہیں وہ بھی انشاء اللہ تعالیٰ پوری ہوں گی۔ ہم شیطان کے حملوں اور وسوسوں کو اپنی نمازوں کی خوبصورتی سے ادائیگی اور دوام اختیار کرتے ہوئے دور کرتے چلے جائیں گے۔ اور شیطان کے وسوسے کبھی ہمارے پائے ثبات کو ہلا نہیں سکتے۔ شیطان کے چیلوں کا تمام زور اس زمانے میں احمدیوں کو اپنے ایمان میں کمزور کرنے پر صَرف ہو رہا ہے۔ لیکن ہم تو اب اس حالت میں آ چکے ہیں کہ جب نشانات بھی سامنے نظر آ رہے ہیں اور اگر کوئی ابتلاؤں کا دور ہے تو یہ بھی پہلے سے ہی قرآنِ کریم کی پیشگوئیاں ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں بیان فرمایا ہوا ہے۔ الٰہی جماعتو ں کے لئے یہ ابتلاء آتے ہیں اور زمانے کے امام نے ہمیں اس کے لئے تیار کیا ہوا ہے۔ اور جیسا کہ مَیں نے کہا ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ رمضان کی برکتوں سے فیض اٹھائیں۔ اس میں دعاؤں کے ذریعہ سے، اپنی نمازوں کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ کا قرب پانے اور اپنے ایمانوں میں مضبوطی کی دعائیں بھی کرنی چاہئیں۔ اور اللہ تعالیٰ سے اس کے وعدے پورے ہونے کے لئے دعاؤں سے مدد مانگنی چاہئے۔ یہ مہینہ جو دعاؤں کی قبولیت کا مہینہ بھی ہے اس میں جب ہم خدا تعالیٰ سے قرآنِ کریم کی حکومت اور اس کی عظمت اور تمام دنیا میں اس کی حکومت کے قیام کی دعا مانگ رہے ہوں گے تو یقینا خدا تعالیٰ اپنے زور آور حملوں سے نشانات کا ایک نیا سلسلہ اور دور شروع فرمائے گا۔ اور قرآنِ کریم کی تعلیم اپنی تمام تر عظمتوں کے ساتھ حق کے قیام اور باطل کے فرار کے نظارے ہمیں دکھائے گی۔ لوگ زمانے کے امام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشقِ صادق اور خدا تعالیٰ کے فرستادے کی آواز سننے کی طرف توجہ دیں گے۔ جو عین قرآنی تعلیم کے مطابق دنیا کو ہدایت اور حق کی طرف دعوت دے رہا ہے۔ آج اگر کوئی حفاظتِ قرآن کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے کھڑا ہے تو وہ یہی مسیح موعود ہے۔ اور آج اگر کوئی جماعت یہ کام احسن رنگ میں سرانجام دے سکتی ہے اور دے رہی ہے تو وہ جماعت احمدیہ ہے۔ جس کے لئے ہمیں پہلے سے بڑھ کر کمر بستہ ہونے کی ضرورت ہے۔ جس کے لئے ہمیں اپنی دعاؤں میں شدت پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ ورنہ ہم اپنے فرائض سے کوتاہی کر رہے ہوں گے یا کوتاہی کرنے والے بن رہے ہوں گے۔ پس ہر احمدی کا فرض ہے کہ قرآنِ کریم کی تعلیم کی عملی تصویر بننے کے لئے اپنی استعدادوں کے لحاظ سے بھی بھر پور کرشش کرے۔

حفاظت قرآن

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:

’’قرآن شریف میں یہ وعدہ تھا کہ خدا تعالیٰ فتنوں اور خطرات کے وقت میں دینِ اسلام کی حفاظت کرے گا۔ جیسا کہ وہ فرماتا ہے اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ (الحجر: 10) سو خدا تعالیٰ نے بموجب اس وعدہ کے چار قسم کی حفاظت اپنے کلام کی کی۔

اول: حافظوں کے ذریعہ سے اس کے الفاظ اور ترتیب کو محفوظ رکھا اور ہر ایک صدی میں لاکھوں ایسے انسان پیدا کئے جو اس کی پاک کلام کو اپنے سینوں میں حفظ رکھتے ہیں۔ ایسا حفظ کہ اگر ایک لفظ پوچھا جائے تو اس کا اگلا پچھلا سب بتا سکتے ہیں اور اس طرح پر قرآن کو تحریفِ لفظی سے ہر ایک زمانہ میں بچایا۔

دوسرے: ایسے ائمہ اور اکابر کے ذریعہ سے جن کو ہر ایک صدی میں فہمِ قرآن عطا ہوا ہے۔ جنہوں نے قرآنِ شریف کے اجمالی مقامات کی احادیثِ نبویہ کی مدد سے تفسیر کر کے خدا کی پاک کلام اور پاک تعلیم کو ہر ایک زمانہ میں تحریفِ معنوی سے محفوظ رکھا۔

تیسرے: متکلمین کے ذریعہ سے جنہوں نے قرآنی تعلیمات کو عقل کے ساتھ تطبیق دے کر (عقل کے مطابق کر کے یا عقلی دلیلوں کے ساتھ) خدا کی پاک کلام کو کوتہ اندیش فلسفیوں کے استخفاف سے بچایا ہے۔

چوتھے: روحانی انعام پانے والوں کے ذریعہ سے جنہوں نے خدا کی پاک کلام کو ہر ایک زمانہ میں معجزات اور معارف کے منکروں کے حملہ سے بچایا ہے‘‘۔

فرماتے ہیں کہ’’سو یہ پیشگوئی کسی نہ کسی پہلو کی وجہ سے ہر ایک زمانہ میں پوری ہوتی رہی ہے‘‘ (قرآنِ کریم کی پیشگوئی کہ مَیں نے یہ کتاب اتاری اور مَیں اس کی حفاظت کروں گا۔ ) فرمایا ’’اور جس زمانہ میں کسی پہلو پر مخالفوں کی طرف سے زیادہ زور دیا گیا تھا اسی کے مطابق خدا تعالیٰ کی غیرت اور حمایت نے مدافعت کرنے والا پیدا کیا ہے لیکن یہ زمانہ جس میں ہم ہیں یہ ایک ایسا زمانہ تھا جس میں مخالفوں نے ہر چہار پہلو کے رو سے حملہ کیا تھا اور یہ ایک سخت طوفان کے دن تھے کہ جب سے قرآنِ شریف کی دنیا میں اشاعت ہوئی ایسے خطر ناک دن اسلام نے کبھی نہیں دیکھے۔ بدبخت اندھوں نے قرآنِ شریف کی لفظی صحت پر بھی حملہ کیا اور غلط ترجمے اور تفسیریں شائع کیں۔ بہتیرے عیسائیوں اور بعض نیچریوں اور کم فہم مسلمانوں نے تفسیروں اور ترجموں کے بہانے سے تحریفِ معنوی کا ارادہ کیا اور بہتوں نے اس بات پر زور دیا کہ قرآن اکثر جگہ میں علوم عقلیہ اور مسائل مسلّمہ مثبتہ طبعی اور ہیئت کے مخالف ہے‘‘۔ (بعض ایسے ثابت شدہ مسائل جو طبیعات اور ہیئت دانوں کے ہیں اس کے مخالف ہیں )۔ فرمایا ’’اور نیز یہ کہ بہت سے دعاوی اس کے عقلی تحقیقاتوں کے برعکس ہیں اور نیز یہ کہ اس کی تعلیم جبر اور ظلم اور بے اعتدالی اور ناانصافی کے طریقوں کو سکھاتی ہے۔ اور نیز یہ کہ بہت سی باتیں اس کی صفاتِ الٰہیہ کے مخالف اور قانونِ قدرت اور صحیفۂ فطرت کے منافی ہیں اور بہتوں نے پادریوں اور آریوں میں سے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات اور قرآنِ کریم کے نشانوں اور پیش گوئیوں سے نہایت درجہ کے اصرار سے انکار کیا اور خدا تعالیٰ کی پاک کلام اور دینِ اسلام اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک ایسی صورت کھینچ کر دکھلائی اور اس قدر افتراء سے کام لیا جس سے ہر ایک حق کا طالب خواہ نخواہ نفرت کرے۔ لہٰذا اب یہ زمانہ ایسا زمانہ تھا کہ جو طبعاً چاہتا تھا کہ جیسا کہ مخالفوں کے فتنہ کا سیلاب بڑے زور سے چاروں پہلوؤں پر حملہ کرنے کے لئے اٹھا ہے ایسا ہی مدافعت بھی چاروں پہلوؤں کے لحاظ سے ہواور اس عرصہ میں چودھویں صدی کا آغاز بھی ہو گیا۔ اس لئے خدا نے چودھویں صدی کے سر پر اپنے وعدہ کے موافق جو اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْن ہے اس فتنہ کی اصلاح کے لئے ایک مجدد بھیجا۔ مگر چونکہ ہر ایک مجدد کا خدا تعالیٰ کے نزدیک ایک خاص نام ہے اور جیسا کہ ایک شخص جب ایک کتاب تالیف کرتا ہے تو اس کے مضامین کے مناسبِ حال اس کتاب کا نام رکھ دیتا ہے۔ ایسا ہی خدا تعالیٰ نے اس مجدد کا نام خدماتِ مفوضہ کے مناسبِ حال مسیح رکھا کیونکہ یہ بات مقرر ہو چکی تھی کہ آخرالزمان کے صلیبی فتنوں کی مسیح اصلاح کرے گا۔ پس جس شخص کو یہ اصلاح سپرد ہوئی ضرور تھا کہ اس کا نام مسیح موعود رکھا جائے۔ پس سوچو کہ یَکْسِرُ الصَّلِیْب کی خدمت کس کو سپرد ہے۔ اور کیا اب یہ وہی زمانہ ہے یا کوئی اَور ہے؟ سوچو خدا تمہیں تھام لے‘‘۔ (ایام الصلح۔ روحانی خزائن جلد 14صفحہ 288۔ 290)

چرچ کے اعتراض

جیسا کہ مَیں نے پہلے بیان کیا تھا آج چرچ نے جو اعتراض کئے ہیں یہ پرانے اعتراض ہیں جنہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے اس اقتباس میں سو سال پہلے ہی بیان کر دیا تھا۔ وہ اعتراض تقریباً اس سے ملتے جلتے ہیں جو اس چرچ نے کئے ہیں۔ اور جیسا کہ مَیں نے کہا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مقابل پر کوئی نہیں ٹھہر سکا۔ افسوس کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس عظیم کام کو دیکھتے ہوئے جس کی بعض مسلمان لیڈروں نے تعریفیں بھی کی ہیں، بجائے اس کے کہ مسلمان آپ کے گرد جمع ہوتے، جبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یہ حکم فرمایا تھا کہ مسیح موعود کے آنے پر میرا سلام اسے پہنچانا۔ (مسند احمد بن حنبل جلد 3صفحہ 182مسند أبی ھریرۃ حدیث نمبر5957مطبوعہ بیروت ایڈیشن 1998)

اکثریت آپ کی مخالفت میں لگ گئی۔ یہ سب بھی ایمان بالغیب کی نفی ہے۔ اور یہ مخالفت شدت پسندوں اور نا انصاف حکومتوں کی وجہ سے اپنی شدت کا رنگ اختیار کرتی چلی جا رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو بھی عقل دے اور وہ اس عاشقِ رسول اور عاشقِ قرآن اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے قرآنِ کریم کی حفاظت پر مامور کے پیغام کو سن کر اس کے مددگار بنیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی توفیق دے کہ ہم بھی اپنی تمام استعدادوں کے ساتھ اس جری اللہ کے سلطانِ نصیر بنیں اور قرآنِ کریم کے پیغام کو دنیا میں پھیلانے کا باعث بنیں۔

احمدیوں پر مظالم کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ کی گرفت

مَیں نے دشمنوں کا ذکر کیا ہے تو آج پھر ان ظالموں کے ظلموں کی دو افسوس ناک خبریں ہیں۔ اس ہفتہ میں صوبہ سندھ میں دو شہادتیں ہوئی ہیں۔ ایک کراچی میں اور دوسری سانگھڑ میں۔ یہ لوگ نہیں دیکھ رہے کہ ظلموں کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ کی تقدیر کیا دکھلا رہی ہے۔ خود تسلیم کر رہے ہیں اور اخباروں میں لکھ رہے ہیں۔ کالم آ رہے ہیں کہ ہماری غلطیوں کی وجہ سے خدا تعالیٰ کا عذاب ہم پر آ رہا ہے۔ لیکن ان غلطیوں کی نشاندہی غلط طریقوں پر کر رہے ہیں، ان کی آنکھوں پر اس قدرپردے پڑ گئے ہیں کہ مجھے کسی نے بتایاکہ ایک جگہ کچھ بدفطرت مُلّاں یہ وعظ کر رہے تھے کہ ہم نے قادیانیوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے لئے پوری طرح کوشش نہیں کی اس لئے یہ عذاب ہم پر آیا۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ احمدی تو انشاء اللہ تعالیٰ اس امتحان سے گزر جائیں گے لیکن اے بدفطرت مُلّاؤ! تم جو ظلموں کی تعلیم خدا اور رسول کے نام پر دے رہے ہو، تم جو قرآنِ کریم کی تعلیم کا مذاق اڑا رہے ہوتو تم ضرور خدا تعالیٰ کی پکڑ میں آؤ گے۔

بعض لوگ مجھے یہ بھی لکھ دیتے ہیں اور کہتے بھی ہیں کہ میری باتیں جب میں بعض دفعہ مُلّاؤں کو مخاطب کر کے کہتا ہوں تو وہ ان کو اور بھڑکاتی ہیں اور مجھے نہیں کرنی چاہئیں۔ ہمارے بعض معصوموں کی یہ غلط فہمی ہے۔ اس لئے مَیں تو اپنوں کو بھی سمجھانا چاہتا ہوں کہ جو منصوبے انہوں نے بنائے ہوئے ہیں ان کا میرے کہنے یا نہ کہنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ان کے خوفناک منصوبے ہیں کہ احمدیوں کے خلاف پاکستان میں کیا کچھ کرنا ہے اور باہر بھی کوششیں کرتے ہیں، کر رہے ہیں۔ مَیں تو اس لئے بھی کہتا ہوں کہ شاید میری باتیں کسی شریف النفس کو

شَرّ النّاس سے قوم کو ہوشیار کرنے کے کام آ جائیں۔ بہر حال ہمارا کام تو صبر، استقامت اور دعا سے اپنی منزل کی طرف سے رواں دواں رہنا ہے اور یہ ہم انشاء اللہ کرتے چلے جائیں گے۔ اور ان دنوں میں احمدی خاص طور پر خدا تعالیٰ کے آستانے پر اس طرح جھکیں کہ بس اسی کے ہو جائیں۔ اللہ تعالیٰ دشمنوں کے ہر شر ان پر الٹائے اور ہر احمدی کو اللہ تعالیٰ اپنی حفاظت میں رکھے۔ اور ہم اللہ تعالیٰ کے انعامات کے وارث بنتے چلے جائیں۔ جن دو شہادتوں کامَیں نے ذکر کیا ہے ان میں ایک کراچی کے ڈاکٹر نجم الحسن صاحب شہید ہیں۔ آپ 16؍اگست کو رات تقریباً ساڑھے گیارہ بجے اپنے کلینک واقعہ اور نگی ٹاؤن سے واپس جانے کے لئے جب گاڑی میں بیٹھ رہے تھے تو کسی نامعلوم شخص نے فائرنگ کر دی۔ آپ کو قریبی ہسپتال میں لے جایا گیالیکن زخموں کی تاب نہ لا کر شہادت پا گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔ سنا ہے کہ ان کے سینے پرتیرہ گولیاں لگی تھیں۔ ڈاکٹر نجم الحسن شہید کا آبائی تعلق بہار کے ایک شہر بھاگلپور سے تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دور میں بھاگلپور سے مکرم محمود عالم صاحب قادیان تشریف لے گئے اور وہاں بیعت کا شرف حاصل کیا۔ انہی کے ذریعے بھاگلپور میں احمدیت کا نفوذ ہوا۔ ڈاکٹر صاحب کے دادا مخدوم الحسن صاحب اور مکرم مولوی عبد الماجد صاحب بھاگل پوری خلافتِ ثانیہ کے دور میں احمدیت میں داخل ہوئے۔ 1956ء میں ان کا خاندان بھاگلپور سے ہجرت کر کے ڈھاکہ آ گیا۔ 1971ء میں جب بنگلہ دیش بنا تو ڈاکٹر صاحب شہید کے والدین ہجرت کر کے چند سال انڈیا اور نیپال میں رہے۔ پھر 1975ء میں کراچی منتقل ہو گئے۔ ڈاکٹر نجم الحسن صاحب کی پیدائش 1971ء میں ڈھاکہ میں ہوئی تھی۔ آپ سات بھائی اور ایک بہن ہیں۔ اپنے بہن بھائیوں میں ڈاکٹر صاحب دوسرے نمبر پر تھے۔ اپنی تمام تعلیم پرائمری سے لے کر چائلڈ سپیشلسٹ بننے تک کراچی میں ہی حاصل کی۔ سندھ میڈیکل کالج سے M.B.B.Sکیا۔ F.C.P.Sکیا۔ اپنی پریکٹس بھی کر رہے تھے اور ڈاؤ یونیورسٹی میں بچوں کے شعبے کے ہیلتھ سائنسز کے اسسٹنٹ پروفیسر بھی تھے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے۔ روز مرہ کے معمول کے مطابق ہی یہ اپنی کلینک سے باہر نکلے ہیں اور گاڑی سٹارٹ کی ہے تونامعلومافرادنے آکر ان پر فائرنگ کردی۔ قریب ہی ان کے بھائی کی میڈیکل سٹور کی دکان تھی، وہ جب باہر آئے ہیں تودیکھا کہ ڈاکٹر صاحب خون میں لت پت تھے۔ ڈاکٹر صاحب کی عمر ساڑھے انتالیس سال تھی۔ ایک نڈر اور بے خوف شخصیت کے مالک تھے۔ کئی دفعہ آپ کے خسر نے انہیں کہا بھی کہ یہاں سے کلینک تبدیل کر لیں۔ لیکن ڈاکٹر صاحب نے ہمیشہ یہی جواب دیا کہ اسی علاقہ میں پلا بڑھا ہوں۔ اس علاقے کے لوگوں کا مجھ پر حق ہے۔ اس لئے مَیں ان کی خدمت کے لئے یہیں پریکٹس کروں گا۔ خدام الاحمدیہ کے کیمپس میں بھی وقت دیا کرتے تھے۔ لیکن لوگ حق ادا کرنا نہیں چاہتے ہیں۔ جو نافع الناس لوگ ہوتے ہیں ان کو بھی ظالمانہ طریق پر ختم کر دینے سے یہ نہیں چوکتے۔ آپ نے کبھی کہیں اپنی احمدیت کو نہیں چھپایا۔ موصی تومَیں نے بتایا کہ تھے ہی لیکن نمازیں بڑے خشوع و خضوع سے پڑھنے والے تھے۔ چندوں میں بڑے باقاعدہ اور بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے تھے۔ پسماندگان میں اہلیہ ہیں اور بیٹی شافیہ حسن عمر پانچ سال اور بیٹا محمد حسن عمر دو سال اور ایک بیٹی ملیحہ حسن اڑھائی ماہ۔ اور تینوں بچے اللہ تعالیٰ کے فضل سے وقفِ نو کی تحریک میں شامل ہیں۔ دوسری شہادت مکرم حبیب الرحمن صاحب سانگھڑ کی ہے۔ حبیب الرحمان صاحب کاآبائی تعلق ضلع گجرات سے ہے۔ آپ کے خاندان میں احمدیت کا نفوذ آپ کے دادا کے بھائی حضرت ڈاکٹر رحمت علی صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ذریعہ سے ہوا۔ ان کے بعد آپ کے دادا حضرت پیر برکت علی صاحب بھی بیعت کرکے احمدیت میں داخل ہوگئے۔ آپ کے دادا کے بھائی پہلے احمدی ہوئے تھے پھر آپ کے دادا احمدی ہوئے۔ بعد ازاں انہی کے دو بھائی حضرت پیر افتخار علی صاحب اور حضرت حافظ روشن علی صاحب بھی بیعت کر کے 1901ء میں احمدیت میں داخل ہو گئے۔ 1912ء میں آپ کے خاندان کے بڑوں نے کچھ زمین سندھ میں خریدی جس کی وجہ سے سندھ میں شفٹ ہو گئے۔

حبیب الرحمن صاحب کی پیدائش 1950ء میں سانگھڑ میں ہوئی۔ اور تعلیم انہوں نے ربوہ میں حاصل کی۔ ربوہ میں جب یہ تعلیم حاصل کر رہے تھے تومیرے ساتھ ہی پڑھتے تھے۔ بڑے ہنس مکھ اور خوش مزاج تھے اور اچھی لیکن پاکیزہ مجلس لگانے والے۔

حبیب الرحمن صاحب شہید 19؍اگست 2010ء کو صبح ساڑھے دس بجے گھر سے اپنی زرعی زمینوں کی طرف جا رہے تھے کہ راستے میں ایک موڑ پر جب کار کی رفتار آہستہ ہوئی تو دو نا معلوم نقاب پوش موٹر سائیکل سواروں نے موقع پا کر آپ پر فائرنگ کر دی۔ جس سے گولی آپ کی کنپٹی پر لگی اور موقع پر جامِ شہادت نوش فرما گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ جیسا کہ مَیں نے بتایا آپ کی پیدائش 1950ء کی تھی۔ ساٹھ سال آپ کی عمر تھی۔ 1990ء میں بچوں سمیت امریکہ شفٹ ہو گئے تھے۔ امریکہ جانے سے پہلے آپ قائد مجلس خدام الاحمدیہ سانگھڑ اور قائد ضلع سانگھڑ کے طور پر بھی خدمت کی توفیق پاتے رہے۔ جماعتی طور پر سیکرٹری مال کے طور پر بھی خدمت کی توفیق ملی۔ امریکہ میں آپ کو alislam.org جو جماعت کی ویب سائٹ ہے، اس میں بڑی نمایاں خدمت کی توفیق ملی ہے۔ اور ابتدائی کارکنان میں سے تھے اور بڑے اچھے ورکر تھے۔ اور اسی طرح ورکر اور کام کرنے والے تلاش کرنے میں بھی آپ نے بڑا کام کیا ہے۔ 2006ء میں آپ کے بھائی ڈاکٹر مجیب الرحمن صاحب کو شہید کر دیا گیا تھا تو آپ بوڑھے والد کی خدمت کرنے کے لئے امریکہ سے سانگھڑ شفٹ ہو گئے تھے۔ اور یہاں شفٹ ہونے کے کچھ عرصے بعد جب ان کو تحریک کی گئی تو پھر اپنے شہید بھائی کی جو بیوہ تھی ان سے ان کی شادی ہو گئی۔ کیونکہ ان کی بیوی پہلے فوت ہو چکی تھی۔ نمازوں کے پابند، چندہ جات کی ادائیگی کے بڑے پابند، خلافت سے بڑا تعلق رکھنے والے۔ غریبوں کا دکھ بانٹنے والے مخلص وجود تھے۔ ان کے والد مکرم پیر فضل الرحمن صاحب زندہ ہیں، حیات ہیں۔ ان کی عمر 91 سال ہے۔ چار بہنیں اور دو بھائی ہیں۔ اور پہلی بیوی تو مَیں نے بتایا فوت ہو گئی تھیں۔ اولاد میں سے انیس الرحمن ہیں 32سال ان کی عمر ہے۔ حمیرا صاحبہ 23سال، عائشہ صاحبہ 28سال۔ سب بچے امریکہ میں ہیں اور دوسری اہلیہ جو ان کے بھائی مجیب الرحمن صاحب شہید کی بیوہ ہیں۔ ان کے اپنے بچے اعزازالرحمن 13سال، معاذالرحمن 11سال، اور مشعل عمر 7سال، یہ پسماندگان میں شامل ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے اور لواحقین کوصبر اور حوصلہ دے۔

ایک اور مخلص دوست کا مَیں ذکر کرنا چاہتا ہوں جو موسیٰ رستمی صاحب ہیں، ان کا جنازہ تو میرا خیال ہے مَیں نے مصطفی ثابت صاحب کے جنازے کے ساتھ ہی پڑھ دیا تھا۔ لیکن ایک انتہائی مخلص دوست تھے۔ اس لئے مَیں چاہتا ہوں کہ ان کا ذکر بھی یہاں ہو جائے۔ 5؍اگست 2010ء کو ان کی وفات ہوئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ کوسوو کے جلسے میں اس سال آپ کی تقریر تھی، اس میں انہوں نے بتایا کہ 1985ء میں ان کے بھائی UK آئے اور انہوں نے حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ سے ملاقات کی۔ جب ان کے بھائی واپس گئے اور اپنی یادوں کا ذکر کیا کہ حضورِ انور سے کیسے ملاقات ہوئی تو موسیٰ صاحب پر اس کا بہت اثر ہوا۔ اس کے علاوہ اپنے بھائی میں غیر معمولی انقلاب دیکھ کر بھی ان پر گہرا اثر ہوا۔ ہائی سکول اور ملٹری سروس مکمل کرنے کے بعد آپ سوئٹزرلینڈ چلے گئے۔ وہاں تقریباً چار سال رہے۔ انہوں نے خود بتایا کہ وہاں کے احمدیوں سے مل کر ہمیں بہت خوشی ہوئی۔ بعد ازاں آپ کچھ عرصہ ہالینڈ رہے، ہالینڈ جاتے ہوئے یہ فیصلہ کیا کہ وہ اپنی زندگی جماعت کی خدمت کے لئے وقف کریں گے۔ بیعت تو وہ اپنے بھائی کے اثر کو دیکھ کر پہلے ہی کر چکے تھے۔ ہالینڈ میں ہی حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ سے پہلی ملاقات ہوئی اور اس پہلی ملاقات میں انہوں نے اپنی زندگی وقف کرنے کا ذکر کیا تو حضور رحمہ اللہ نے انہیں البانیہ چلے جانے کا کہا۔ بہر حال چند وجوہات کی وجہ سے نہیں جا سکے۔ سن 2000ء میں امیر صاحب جرمنی ہالینڈ تشریف لائے اور انہوں نے کہا کہ کسی کو تلاش کریں جو کوسوو جا سکے تو انہوں نے جواب دیا کہ میرا خیال ہے کہ کوئی بھی وہاں نہیں جانا چاہے گالیکن مَیں اس کے لئے تیار ہوں۔ چنانچہ مئی 2000ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی اجازت سے وہ کوسووو چلے گئے۔ کوسووو میں سب سے پہلے جولان (Gjilan) میں اپنے بھائی کے گھر ٹھہرے جہاں ان کی بہن بھی اپنی فیملی کے ساتھ رہتی تھیں۔ بعد میں ان کی بہن بھی احمدی ہو گئیں۔ اس طرح پہلا جمعہ ان کے گھر میں ہی ادا کیا گیا۔ اس کے بعد پرشتنا (Prishtna) چلے گئے۔ دس سال تک جماعت کوسوو کے صدر رہے۔ جماعت کی ترقی اور اس کے مفاد کے لئے ہمیشہ کوشاں رہے۔ تبلیغ کا بہت شوق تھا۔ کسی نہ کسی رنگ میں پیغامِ حق پہنچاتے رہتے تھے۔ بڑی دلجمعی سے جماعت کے کام کرتے تھے۔ جماعتی رقوم کو بڑی احتیاط سے خرچ کیا کرتے تھے۔ پہلے مشن ہاؤس کی تکمیل کے ہر مرحلے پر اخراجات کا خود جائزہ لیتے رہے۔ بہت سا حصہ وقارِ عمل کے ذریعہ مکمل کروایا۔ ایک دفعہ انہیں پتہ چلا کہ ان کی تنخواہ مبلغ سے کچھ زیادہ ہے تو پوچھے اور بتائے بغیر ہی اپنی تنخواہ کو کم کر لیا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ میری تنخواہ ایک مبلغ سے زیادہ ہو۔ ان کے پاس کار نہیں ہوتی تھی، بائیسکل پر ہی سارے کام کیا کرتے تھے۔ کوسووو میں جماعت کو صحیح بنیادوں پر قائم کرنے اور نو مبائعین کی تربیت کی ہر لمحے فکر رہتی تھی۔ اور ایک فیملی کی طرح انہوں نے نومبائعین کوسنبھالا ہے اور ان کی تربیت کی ہے۔ ان کی تربیت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے کوسووو جماعت کی اکثریت موصی ہے اور انتہائی پڑھے لکھے افراد پر مشتمل ہے۔ بڑے خوش مزاج، نیک، نمازوں میں باقاعدہ اور بڑے خشوع و خضوع سے نمازیں ادا کرنے والے، خلافت سے بڑا وفا کا تعلق رکھنے والے تھے۔ ان کی آنکھوں سے بڑا عشق ٹپکتا تھا۔ ہر دفعہ جرمنی کے جلسے میں مجھے ملا کرتے تھے۔ انہوں نے پچھلے سال ایک دفعہ مجھے کہا کہ ہمار ے بارہ میں کوسوو کے جو مسلمان علماء ہیں، انہوں نے مسلمانوں کے دلوں میں یہ ڈال دیا ہے کہ احمدی جو ہیں یہ حج نہیں کرتے بلکہ یہ جلسے پر جاتے ہیں۔ تو اس وجہ سے بعض لوگ ہماری باتیں نہیں سنتے۔ تو ان کو مَیں نے کہا تھا کہ اس سال آپ حج کریں۔ اللہ کے فضل سے پچھلے سال انہوں نے حج بھی کیا تھا اور اس کے بعد اب ملے تو مَیں نے پوچھا کہ یہ شکوہ تو اب دور ہو گیا ہو گا۔ تو بڑے خوش تھے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں حج کی توفیق دی اور حاجی کہلاتے تھے۔ بہر حال عمراتنی زیادہ نہیں تھی لیکن کسی اچانک بیماری کی وجہ سے ان کی وفات ہوئی۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔ مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ اور ان کے پسماندگان کو بھی صبر دے۔ اور احمدیت پر قائم رکھے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان سے بہتر اور ان جیسے کام کرنے والے کوسووو جماعت میں مزید افراد عطا فرمائے بلکہ ہر ملک میں جماعت کو ایسے افراد عطا فرمائے جو اخلاص اور وفا میں بڑھے ہوئے اور بے نفس ہو کر جماعت کی خدمت کرنے والے ہوں۔

(نما زجمعہ کے بعد حضور ایدہ اللہ نے ہر دو شہداء کی نماز جنازہ غائب پڑھائی)

(الفضل انٹرنیشنل جلد17شمارہ37 مورخہ 10ستمبر تا16 ستمبر2010 صفحہ5 تا8)


  • خطبہ کا مکمل متن
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 20؍ اگست 2010ء شہ سرخیاں

    قرآن کریم کا پیغام ایک عالمگیر پیغام ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم  تمام انسانوں کے لئے تا قیامت نبی ہیں۔ آج کل قرآن کریم اور اسلامی تعلیم کو بدنام کرنے کی ایک مذموم کوشش امریکہ کے ایک چرچ  کی طرف سے ہو رہی ہے۔ انہوں نے 11؍ستمبر کو قرآ ن کریم کو جلانے کا بھی ایک پروگرام بنا یا ہے۔  جماعت احمدیہ میڈ یا کے ذریعہ اور مختلف طریقوں سے  اس چرچ کو اس مذموم حرکت سے روکنے کی کوشش کر رہی ہے۔

    امریکہ کی جماعت کو ہدایت کہ ایک مہم کی صورت میں اس پر کام کریں۔ دنیا کی باقی جماعتوں کو بھی اس سلسلہ میں اقدام کی ہدایت۔ دنیا کو بتائیں کہ یہ دنیا میں فساد پیدا کرنے کا طریقہ ہے اس سے بجائے محبتوں کے کینوں اور بغضوں کی دیواریں کھڑی ہوں گی۔ (حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے ارشادات کے حوالہ سے قرآن کریم پر بعض اعتراضات کے جوابات اور قرآنی تعلیم کی فضیلت کا تذکرہ)

    رمضان کے دنوں میں جب ہر ایک کو نمازوں کی طر ف توجہ پیدا ہوئی ہے اور اللہ کے فضل سے مسجد یں بھری ہوئی ہیں توشیطان کے ساتھ مقابلے میں پوری طاقت صرف کر دینی چاہئے۔

    مکرم ڈاکٹر نجم الحسن صاحب شہید(کراچی) اور مکرم حبیب الرحمن صاحب شہید (سانگھڑ)  اور مکرم موسیٰ رستمی صاحب (آف کوسووو) کا ذکرخیراور نماز جنازہ غائب۔

    فرمودہ مورخہ 20؍اگست 2010ء بمطابق 20؍ظہور 1389 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن (برطانیہ)

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور