اللہ تعالیٰ کو پانے کے لئے مستقل اور لمبی کوشش
خطبہ جمعہ 3؍ ستمبر 2010ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا۔ وَاِنَّ اللّٰہَ لَمَعَ الْمُحْسِنِیْنَ(العکبوت: 70)
اور وہ لوگ جو ہمارے بارہ میں کوشش کرتے ہیں، ہم ضرور انہیں اپنی راہوں کی طرف ہدایت دیں گے اور یقینا اللہ احسان کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
یہ آیت سورۃ عنکبوت کی ہے۔ آج کل ہم رمضان کے آخری عشرہ سے گزر رہے ہیں۔ یہ مہینہ جیسا کہ ہر مسلمان جانتا ہے دعاؤں کی قبولیت کا خاص مہینہ ہے۔ اور یہ عشرہ اس قبولیت کی معراج حاصل کرنے کا خاص عشرہ ہے، جس میں لیلۃ القدر آتی ہے۔ جس کا مَیں نے گزشتہ خطبہ میں تفصیل سے ذکر بھی کیا تھا۔ آج کا دن بھی خدا تعالیٰ کی نظر میں ایک بابرکت دن ہے یعنی جمعہ کا دن، جو اپنی تمام تر برکتوں کے ساتھ ہر ساتویں دن آتا ہے، جس میں ایک خاص گھڑی قبولیتِ دعا کی بھی آتی ہے۔ پس یہ تمام برکتیں ان دنوں میں جمع ہوئی ہیں۔ اور خدا تعالیٰ کے اپنے بندوں پر احسانوں کی طرف توجہ دلا رہی ہیں۔ یہ توجہ عارضی توجہ نہیں ہونی چاہئے بلکہ مستقل مزاجی سے اس امر کی طرف متوجہ کرنے والی ہونی چاہئے جس کا اس آیت میں ذکر ہے جس کی مَیں نے تلاوت کی ہے۔ یعنی خدا کی تلاش کے لئے جدوجہد۔ اگر یہ جدوجہد کامیاب ہو جائے تو ایک بندے کو خدا تعالیٰ کا قرب دلا کر اس کی کایا پلٹ دیتی ہے۔ جدوجہد کامیاب کس طرح ہو گی جس سے خدا تعالیٰ اپنی طرف آنے کے راستے دکھائے گا؟ جیسا کہ اس آیت سے ظاہر ہے اس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم سے ملنے کی کوشش کرتے رہو۔ ایک مستقل مزاجی سے کوشش ہونی چاہئے اور جب اللہ سے ملنے کی کوشش ہو گی تو ظاہر ہے ان باتوں کا بھی خیال رکھنا ہو گا جو خدا تعالیٰ کو پسند ہیں اور اس کے قریب کرتی ہیں۔ جیسا کہ مَیں نے کہا خدا تعالیٰ کا احسان ہے کہ ایسا ماحول پیدا کر دیتا ہے جب اللہ تعالیٰ کی طرف بڑھنے کی خاص توجہ ہوتی ہے۔ اور آج کل رمضان کا مہینہ ہمیں اس کوشش اور جدوجہد کا موقع میسر کر رہا ہے۔ رمضان کے روزے اور اس کی عبادتیں بھی ایک خاص مجاہدہ ہیں اگر انسان سمجھ کر کرے۔ اس کو سمجھے، اس کی روح کو سمجھے جو اللہ تعالیٰ کی طرف لے جاتی ہیں۔ پس اس روحانی ماحول میں ہمیں خاص طور پر اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کی کوشش کرنی چاہئے۔
اس وقت میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ارشادات کے حوالے سے بات کروں گا کہ کیا کیا باتیں اور طریق ہیں جن کو اختیار کرنے کی ضرورت ہے اور جن کو اختیار کر کے، جن پر توجہ دے کر ہم اللہ تعالیٰ کا قرب پا سکتے ہیں اور ان لوگوں میں شامل ہو سکتے ہیں جن کو محسنین کا گروہ بنا کر اللہ تعالیٰ نے ایک خوشخبری دی ہے کہ مَیں محسنین کے ساتھ ہوں۔ یعنی مَیں ان لوگوں کے ساتھ ہوں جو نیک اعمال بجا لانے والے ہیں۔ نیکیوں پر قائم رہنے والے ہیں۔ میرے راستوں کی تلاش کرنے والے ہیں۔ اس کی تفصیل جیسا کہ مَیں نے کہا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے حوالے سے ہم دیکھیں گے کہ اب کس طرح ہم اللہ تعالیٰ کے راستوں کو پا کر ہمیشہ اس گروہ میں شامل رہ سکتے ہیں جن کے ساتھ خدا تعالیٰ ہمیشہ رہتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تو قرآنِ کریم کی مختلف آیات سے اور ان کی آیات کی روشنی میں وضاحت فرمائی ہے۔ لیکن اس وقت جیسا کہ مَیں نے کہا اس خاص آیت کے حوالے سے بات کروں گا جس کی آپ نے مختلف جگہوں پر تفصیل بیان فرمائی ہے۔
ہر انسان کی استعدادیں بھی مختلف ہوتی ہیں۔ اس کی سوچیں بھی مختلف ہوتی ہیں۔ جہاں تک استعدادوں کا تعلق ہے اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کی استعدادیں اور طاقتیں معیار کے حساب سے مختلف رکھی ہیں جیسا کہ مَیں نے کہا لیکن حکم یہ ہے کہ جو بھی استعدادیں ہیں ان کے مطابق اللہ تعالیٰ کی تلاش اور جستجو کرو۔ اگر یہ کرو گے تو اللہ تعالیٰ اپنی طرف آنے کے راستے دکھائے گا۔ لیکن اگر انسانی سوچ ان استعدادوں کے انتہائی استعمال میں روک بن جائے، نفس مختلف بہانے تلاش کرنے لگے، تھوڑی سی کوشش کو جَہَد کا نام دے دیا جائے تو اس سے انسان اللہ تعالیٰ کو حاصل نہیں کر سکتا۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:
’’بھلا یہ کیونکر ہو سکے کہ جو شخص نہایت لاپرواہی سے سستی کر رہا ہے وہ ایسا ہی خدا کے فیض سے مستفید ہو جائے جیسے وہ شخص کہ جو تمام عقل اور تمام زور اور تمام اخلاص سے اس کو ڈھونڈھتا ہے‘‘۔ (براہین احمدیہ روحانی خزائن جلدنمبر1صفحہ نمبر566حاشیہ نمبر11)
پس خالص ہوجاؤ۔ اللہ تعالیٰ کی تلاش کرنے والے ہی اللہ تعالیٰ کو پا سکتے ہیں۔ یا ہم کہہ سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے قرب کے مختلف درجے ہیں جو ایک جُہد مسلسل سے اللہ تعالیٰ کی توجہ کو جذب کر کے انسان کو اللہ تعالیٰ کا قرب دلاتے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ کو پانے کے لئے اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ پر ایمان بالغیب اور اس کی طاقتوں اور صفات پر کامل ایمان اس مسلسل کوشش کی طرف انسان کو مائل کرتا ہے۔ اگر صرف عقل کے ترازو سے اللہ تعالیٰ کی پہچان کی کوشش ہو گی تو اللہ تعالیٰ نظر نہیں آ سکتا۔ وہ اپنی طرف آنے کے راستے نہیں دکھائے گا۔ اللہ تعالیٰ کو پانے کے لئے اس کے راستوں کی تلاش کے لئے پہلی کوشش بندے نے کرنی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس پہچان کے لئے بھی بندے کو اندھیرے میں نہیں رکھا کہ کس طرح راستے تلاش کرنے ہیں؟ سب سے اوّل اس زمانہ کے لئے بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے لے کے قیامت تک کے زمانے کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآنِ کریم کو ہمارے سامنے رکھا ہے۔ اس میں سے راستے تلاش کرو۔ اس سے پہلے بھی اللہ تعالیٰ انبیاء کے ذریعہ انسان کو راستوں کی نشاندہی کرتا رہا ہے۔ اور پھر انبیاء کے ذریعے سے نشانات اور عجائبات دکھا کر اپنی ہستی کا ثبوت بھی پیش کرتا ہے تا کہ ان چیزوں سے اللہ تعالیٰ کی طرف آنے کے راستوں کی پہچان ہو سکے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو ہمارے راہ میں مجاہدہ کرے گا ہم اس کو اپنی راہ دکھلا دیں گے یہ تو وعدہ ہے اور ادھر یہ دعا ہے کہ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم۔ سو انسان کو چاہئے کہ اس کو مدنظر رکھ کر نماز میں بالحاح دعا کرے اور تمنا رکھے کہ وہ بھی ان لوگوں میں سے ہو جاوے جو ترقی اور بصیرت حاصل کر چکے ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ اس جہان سے بے بصیرت اور اندھا اٹھایا جاوے‘‘۔ (رپورٹ جلسہ سالانہ 1897صفحہ 38,39مطبوعہ انوار احمدیہ پریس قادیان)
اخلاص اور وفا کا تعلق
پس یہ دعا جو سورۃ فاتحہ میں ہر نماز کی ہر رکعت میں ہم پڑھتے ہیں اس پر غور کریں اور نہایت درد سے اللہ تعالیٰ سے صراطِ مستقیم کی ہدایت چاہیں تو اللہ تعالیٰ ہدایت دیتا ہے۔ اپنی طرف آنے کے راستے دکھاتا ہے اور جیسا کہ مَیں نے کہا اللہ تعالیٰ کے انبیاء اور فرستادے نشانات کے ساتھ آتے ہیں تا کہ انسانوں کو توجہ دلائیں کہ اللہ تعالیٰ کے راستوں کو تلاش کرنے کی کوشش کرو اور اللہ تعالیٰ کا قرب پا سکو۔ اور ظاہر ہے ایک عقلمند انسان جب کسی کام کو کسی کے توجہ دلانے پر کرتا ہے اور اس سے فائدہ بھی اٹھا لیتا ہے۔ تو لا محالہ اس توجہ دلانے والے کا بھی شکر گزار ہو کر اس سے بھی تعلق پیدا کرتا ہے اور کرنا چاہئے۔ یہی عقل کا تقاضا ہے کہ مزید فائدے اٹھائے۔ پس اس نکتہ کو سمجھنا ضروری ہے۔ جو سمجھتا ہے وہ کامیاب ہوتا ہے۔ اور جیسا کہ مَیں نے کہا انبیاء اور اللہ تعالیٰ کے فرستادے اللہ تعالیٰ کے راستوں کی طرف نشاندہی کرتے ہیں تو وہ اس بات کے سب سے زیادہ مستحق ہیں کہ ایک عقل مند انسان ان کے ساتھ جڑ کر اخلاص اور وفا کا تعلق پیدا کرے۔ اس زمانے کے لئے جبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسیح و مہدی کے آنے کی خبر بھی دی ہے تو جس نے پھر خدا تعالیٰ سے بندے کے تعلق کو قائم کروانا تھا اس کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے اور دعا بھی مسلمانوں کے سامنے موجود ہے اور اکثر پڑھتے بھی ہیں۔ تو کس قدر ضروری ہے کہ اس سے تعلق جوڑ کر اللہ تعالیٰ کے راستوں کو پانے کا تجربہ تو کریں۔ بجائے اس کے کہ بغیر سوچے سمجھے انکار کرتے چلے جائیں۔ حضرت مصلح موعودؓ نے تو ایک جگہ لکھا ہے کہ کئی دفعہ مَیں تو غیر مسلموں کو بھی کہہ چکا ہوں کہ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم کی دعا ہمیں سکھائی گئی ہے، تم یہ پڑھو۔ یہ تو تم نہیں پڑھ سکتے لیکن خالی الذہن ہو کر یہ دعا مانگو کہ اللہ تعالیٰ ہمیں سیدھا راستہ دکھائے تو اللہ تعالیٰ رہنمائی فرمائے گا۔ اور آپ نے فرمایا کہ کئی لوگوں نے مجھے بتایا کہ اس سے ان پر اسلام کی سچائی کھل گئی۔ (ماخوذ از تفسیرکبیر جلد اول صفحہ 35)
یہ اور بات ہے کہ بعض غیر مسلم خوفزدہ ہو کر یا اپنے مفاد کی وجہ سے انہوں نے اسلام کو قبول نہیں کیا۔ لیکن سچائی بہر حال ظاہر ہو جاتی ہے۔ مسلمانوں کو تو خاص طور پر اس نسخہ کو آزمانا چاہئے تا کہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی مول لینے کی بجائے اس کی نہ صرف رضا حاصل کرنے والے بنیں بلکہ نئے سے نئے راستوں کو بھی پائیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف لے جانے والے راستے ہیں۔ اور یہی چیز ہمارے لئے بھی ضروری ہے۔ ہم جو احمدی ہیں، ہم جنہوں نے اس زمانے کے امام کو قبول کیا ہے کہ صرف بیعت کر کے بیٹھ نہ جائیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی تلاش اور قرب کے لئے جہدِ مسلسل کرتے چلے جائیں اور خاص طور پر ان چند دنوں میں بہت توجہ دیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے اور اگر تم صالح ہو تو وہ اپنی طرف جھکنے والوں کے واسطے غفور ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد پنجم صفحہ 450 جدید ایڈیشن ربوہ)
پس اگر ہم خالص ہو کر اس کی بخشش طلب کرتے ہوئے اس کے حضور جھکیں گے تو وہ اپنے وعدے کو پورا کرے گا۔ اور اپنے وعدے کے مطابق اپنی طرف آنے کے مزید روشن راستے دکھائے گا۔ مزید درجے بلند ہوں گے۔ جس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف آنے کی کوشش کرنے والوں سے راستے دکھانے کا وعدہ فرمایا ہے اسی طرح جو اللہ تعالیٰ سے دُور ہٹتے ہیں پھر ان پر اللہ تعالیٰ کا یہ فعل ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اندھیروں میں گرتے چلے جاتے ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا قرآنِ کریم میں فَلَمَّا زَاغُوْآ اَزَاغَ اللّٰہُ قُلُوبَھُمْ واللّٰہ لَا یَھْدِی الْقَوْمَ الْفَاسِقِیْنَ (سورۃ الصّف: 6)۔ پس جب وہ ٹیڑھے ہو گئے تو اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو ٹیڑھا کر دیا۔ اللہ تعالیٰ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا۔
اس کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:
’’جس طرح ہماری دنیاوی زندگی میں صریح نظر آتا ہے کہ ہمارے ہر ایک فعل کے لئے ایک ضروری نتیجہ ہے اور یہ نتیجہ خدائے تعالیٰ کا فعل ہے ایسا ہی دین کے متعلق بھی یہی قانون ہے جیسا کہ خدا تعالیٰ ان دو مثالوں میں صاف فرماتا ہے۔ وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَاَ (العکبوت: 70)۔ اور فَلَمَّا زَاغُوْآ اَزَاغَ اللّٰہُ قُلُوبَھُمْ (سورۃ الصّف: 6) یعنی جو لوگ اس فعل کو بجا لائے کہ انہوں نے خدا تعالیٰ کی جستجو میں پوری پوری کوشش کی تو اس فعل کے لئے لازمی طور پر ہمارا یہ فعل ہو گا کہ ہم ان کو اپنی راہ دکھا دیں گے۔ اور جن لوگوں نے کجی اختیار کی اور سیدھی راہ پر چلنا نہ چاہا تو ہمارا فعل اس کی نسبت یہ ہو گا کہ ہم ان کے دلوں کو کج کر دیں گے‘‘ (ٹیڑھا کر دیں گے)۔ (اسلامی اصول کی فلاسفی روحانی خزائن جلدنمبر 10صفحہ 389)۔ پس یہ بندے کی بدقسمتی ہے کہ وہ اپنے آپ کو خدا سے دُور کرتا ہے۔
چند دن ہوئے مجھے ہمارے ایک غیر از جماعت جو پاکستان سے آئے تھے، کہنے لگے کہ جو کچھ ملک میں ہو رہا ہے کیا وجہ ہے؟ کب ٹھیک ہو گا؟ کس طرح ہو گا؟ تو مَیں نے انہیں کہا کہ دو ہی باتیں ہیں جو ہمیں سامنے رکھنی چاہئیں۔ ایک تو یہ کہ اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ میری طرف آؤ، کوشش کرو، جدوجہد کرو۔ (اس آیت کا حوالہ دیا ہے کہ میری رضا حاصل کرنے کے تمام راستوں کو تلاش کرنے کی جان لڑا کر کوشش کرو، تومَیں راستے دکھاتا ہوں)۔ پھر ان سے پوچھا کہ آپ ہی بتائیں کیا یہ صورت آپ کو نظر آ رہی ہے؟۔ تو کہنے لگے کہ نہیں، بلکہ الٹا حساب ہے۔ تو مَیں نے کہا پھر جب الٹا حساب ہے تو اللہ تعالیٰ کا پھر دوسرا فعل ظاہر ہوتا ہے۔ پس مِن حیث القوم بھی ہمیں اپنی سوچوں کے دھارے اور سمتیں ٹھیک کرنی ہوں گی۔ اگر ہم نیک نیتی سے ملک کی ترقی چاہتے ہیں تو پاکستانی قوم کو بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ تمام میڈیا آج کل پاکستان کا شور مچا رہا ہے۔ باہر بھی اور پاکستان میں بھی اور یہ لوگ بہت کچھ کہہ رہے ہیں جو مجھے یہاں کہنے کی ضرورت نہیں۔ انہوں نے تو بعض الفاظ کہہ کے، باتیں کہہ کے انتہا کر دی ہے۔ لیکن ظلم و بربریت کے جو نمونے ہر طرف نظر آ رہے ہیں اس کو روکنے کی کوئی خاطر خواہ کوشش نہیں کر رہا۔ اللہ تعالیٰ ہی رحم کرے۔ اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہ سعید فطرتوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کس طرح سلوک کرتا ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’انسان کے دل پر کئی قسم کی حالتیں وارد ہوتی رہتی ہیں۔ آخر خدا تعالیٰ سعید روحوں کی کمزوری کو دور کرتا ہے اور پاکیزگی اور نیکی کی قوت بطور موہبت عطا فرماتا ہے‘‘۔ (یعنی خود پھر اپنی طرف سے عطا کرتا ہے)۔ ’’پھر اس کی نظر میں وہ سب باتیں مکروہ ہو جاتی ہیں جو اللہ تعالیٰ کی نظر میں مکروہ ہیں‘‘۔ (یعنی اس انسان کی نظر میں۔ جب اللہ تعالیٰ اس کو یہ عطا فرما دیتا ہے پاکیزگی اور نیکی۔ اس کی اس کوشش کی وجہ سے جو کچھ تھوڑی سی وہ کر رہا ہوتا ہے اس میں برکت ڈال دیتا ہے، اور دروازے کھول دیتا ہے)۔ تو فرمایا: ’’اور وہ سب راہیں پیاری ہو جاتی ہیں جو خدا تعالیٰ کو پیاری ہیں۔ تب اس کو ایک ایسی طاقت ملتی ہے جس کے بعد ضعف نہیں۔ اور ایک ایسا جوش عطا ہوتا ہے جس کے بعد کسل نہیں۔ اور ایسی تقویٰ دی جاتی ہے کہ جس کے بعد معصیت نہیں۔ اور ربّ کریم ایسا راضی ہو جاتا ہے کہ جس کے بعد خطا نہیں۔ مگر یہ نعمت دیر کے بعد عطا ہوتی ہے۔ اوّل اوّل انسان اپنی کمزوریوں سے بہت سی ٹھوکریں کھاتا ہے اور اسفل کی طرف گر جاتا ہے مگر آخر اس کو صادق پا کر طاقتِ بالا کھینچ لیتی ہے‘‘۔ (یعنی ایک مسلسل کوشش ہے کہ انسان گرتا ہے پھر اللہ تعالیٰ کے دَر پر آتا ہے پھر دور ہٹتا ہے دنیا اس کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔ پھر وہ دنیا سے پرے ہٹ کے پھر اللہ تعالیٰ کی طرف جاتا ہے۔ اور یہ مسلسل کوشش ہے جو جاری رہتی ہے۔ آخر جب اللہ تعالیٰ دیکھتا ہے کہ یہ کوشش کرتا چلا جا رہا ہے۔ ایک جہدِ مسلسل ہے تو پھر اللہ تعالیٰ کی جو طاقت ہے وہ طاقتِ بالا اس کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہے)۔ فرمایا کہ: ’’اس کی طرف اشارہ ہے جو اللہ جل شانہ فرماتا ہے کہ وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا‘‘۔ (پس یہ مستقل اور لمبی کوشش ہے جس کی آپ نے تشریح کی ہے عربی میں ) فرمایا کہ’’یعنی نُثَبِّتُھُمْ عَلَی التَّقْوٰی وَالْاِیْمَانِ۔ وَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَ الْمَحَبَّۃِ وَالْعِرْفَانِ۔ وَسَنُیَسِّرُھُمْ لِفِعْلِ الْخَیْرَاتِ وَ تَرْکِ الْعِصْیَان‘‘۔ (مکتوبات احمدیہ جلد 5نمبر 2صفحہ47۔ مکتوب نمبر 31بنام حضرت خلیفہ اوّلؓ)
پس یہ مستقل اور لمبی کوشش ہے جس سے تقویٰ اور ایمان میں دوام حاصل ہوتا ہے۔ پھر آدمی اس پر ثابت قدم ہوتا ہے اس پر اور اللہ تعالیٰ کی محبت اور عرفان کے راستے اس کو ملتے ہیں۔ نیکیوں کے کرنے اور گناہوں کوچھوڑنے کی طرف توجہ پیدا ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ پھر اس کی مدد فرماتا ہے اور فرمائے گا۔ یہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے۔
پھر ایک جگہ اس آیت کی وضاحت کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ:
’’سارا مدار مجاہدہ پر ہے۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا۔ جو لوگ ہم میں ہو کر کوشش کرتے ہیں ہم ان کے لئے اپنی تمام راہیں کھول دیتے ہیں۔ مجاہدہ کے بدُوں کچھ بھی نہیں ہو سکتا۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ سید عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک نظر میں چور کو قطب بنا دیا دھوکے میں پڑے ہوئے ہیں اور ایسی ہی باتوں نے لوگوں کو ہلاک کر دیا ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کسی کی جھاڑ پھونک سے کوئی بزرگ بن جاتا ہے‘‘۔ (مسلمانوں میں بڑا رواج ہے۔ قبروں پر جاتے ہیں۔ پیروں کے پاس جاتے ہیں۔ تعویز گنڈے لیتے ہیں دعائیں قبول کروانے کے لئے اپنے مسائل حل کرنے کے لئے یا ان کے خیال میں چاہے نمازیں پڑھیں یا نہ پڑھیں اسی طرح ان کے تمام گناہ بخشے جاتے ہیں )۔ فرمایا کہ: ’’جو لوگ خدا کے ساتھ جلدی کرتے ہیں وہ ہلاک ہو جاتے ہیں۔ دنیا میں ہر چیز کی ترقی تدریجی ہے۔ روحانی ترقی بھی اسی طرح ہوتی ہے اور بدُوں مجاہدہ کے کچھ بھی نہیں ہوتا۔ اور مجاہدہ بھی وہ ہو جو خدا تعالیٰ میں ہو کر۔ یہ نہیں کہ قرآنِ کریم کے خلاف خود ہی بے فائدہ ریاضتیں اور مجاہدہ جوگیوں کی طرح تجویز کر بیٹھے۔ یہی کام ہے جس کے لئے خدا نے مجھے مامور کیا ہے تا کہ مَیں دنیا کو دکھلا دوں کہ کس طرح پر انسان اللہ تعالیٰ تک پہنچ سکتا ہے۔ یہ قانونِ قدرت ہے، نہ سب محروم رہتے ہیں نہ سب ہدایت پاتے ہیں‘‘۔ (ملفوظات جلد اول صفحہ نمبر338,339جدید ایڈیشن ربوہ)
لوگوں نے بعض ذکر کی محفلیں یا مجلسیں بنائی ہوئی ہیں۔ بعض دفعہ بعض جگہوں پر چند ایک احمدیوں کی شکایت آتی ہیں کہ اس بات پر بڑا زور دیتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ جو سنت سے ہٹ کر کام کرو گے وہ اللہ تعالیٰ کا قرب نہیں دلا سکتا۔ یا صرف اَللّٰہ ھُو کر کے اور اس طرح کے دوسرے ذکر کر کے یا بعض دفعہ صرف مختلف قسم کے ذکر اذکار کی لمبی لمبی مجلسیں لگا کر یہ سمجھنا کہ ہمارے فرائض ادا ہو گئے اور نمازوں سے بھی چھٹی مل گئی اور باقی باتوں سے بھی چھٹی مل گئی، یہ نہیں ہو سکتا۔
آپ نے فرمایا کہ: ’’جو لوگ چاہتے ہیں کہ ہمیں کوئی محنت اور مشقت نہ کرنی پڑے وہ بیہودہ خیال کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ شریف میں صاف فرمایا ہے وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی معرفت کے دروازوں کے کھلنے کے لئے مجاہدہ کی ضرورت ہے۔ اور وہ مجاہدہ اسی طریق پر ہو جس طرح کہ اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے۔ اس کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نمونہ اور اُسوہ حسنہ ہے۔ بہت سے لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوۂ حسنہ کو چھوڑ دیتے ہیں۔ اور پھر سبز پوش یا گیروے پوش فقیروں کی خدمت میں جاتے ہیں کہ پھونک مار کر کچھ بنا دیں۔ یہ بیہودہ بات ہے۔ ایسے لوگ جو شرعی امور کی پابندیاں نہیں کرتے اور ایسے بیہودہ دعوے کرتے ہیں وہ خطر ناک گناہ کرتے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول سے بھی اپنے مراتب کو بڑھانا چاہتے ہیں کیونکہ ہدایت دینا اللہ تعالیٰ کا فعل ہے اور وہ مشتِ خاک ہو کر خود ہدایت دینے کے مدعی ہوتے ہیں‘‘۔ (ملفوظات جلد چہارم صفحہ 240جدید ایڈیشن ربوہ)
یہ پیر فقیر جو ہیں وہ بھی بجائے خدا تعالیٰ کے اپنے آپ کو ہدایت دینے والا سمجھتے ہیں کہ کوئی تعویز دے دیا گنڈا دے دیا اور کہہ دیا کہ بس، تمہارے مسائل حل ہو گئے اور یہ یہ چیزیں بھی تمہاری ہوں گی اور تم نیکیوں پر قائم رہو گے۔
پھر آپؑ ایک جگہ فرماتے ہیں:
’’خدا تعالیٰ کا یہ سچا وعدہ ہے کہ جو شخص صدقِ دل اور نیک نیتی کے ساتھ اس کی راہ کی تلاش کرتے ہیں وہ ان پر ہدایت و معرفت کی راہیں کھول دیتا ہے جیسا کہ اس نے خود فرمایا ہے وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا۔ یعنی جو لوگ ہم میں ہو کر مجاہدہ کرتے ہیں ہم ان پر اپنی راہیں کھول دیتے ہیں۔ ہم میں سے ہو کر سے یہ مراد ہے کہ محض اخلاص اور نیک نیتی کی بنا پر خدا جوئی اپنا مقصد رکھ کر۔ لیکن اگر کوئی استہزاء اور ٹھٹھے کے طریق پر آزمائش کرتا ہے، وہ بدنصیب محروم رہ جاتا ہے۔ پس اسی پاک اصول کی بنا پر اگر تم سچے دل سے کوشش کرو اور دعا کرتے رہو تو وہ غفور الرحیم ہے۔ لیکن اگر کوئی اللہ تعالیٰ کی پرواہ نہیں کرتا وہ بے نیاز ہے‘‘۔ (الحکم جلد 8نمبر18مورخہ 31؍مئی 1904ء صفحہ 2)
ہر حوالے میں کچھ نہ کچھ زائد باتیں ہیں اس لئے مَیں نے یہ لئے ہیں۔ پس جیسا کہ پہلے بھی ذکر ہو چکا ہے کہ کسی کو ہدایت دینا اللہ تعالیٰ کا کام ہے اور ہمیشہ ہدایت اللہ تعالیٰ سے ہی ملتی ہے۔ اور جو شخص اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہونے کا دعویٰ کرے اس کی حقیقت جاننے کے لئے بھی اللہ تعالیٰ سے ہدایت کی ضرورت ہے۔ اگر کسی کوشک و شبہ ہے، کسی قسم کے نشانات پر تسلی نہیں ہو رہی۔ لیکن اگر اسے ہنسی اور ٹھٹھے کا نشانہ بنایا جائے تو پھر انسان ہدایت سے محروم رہ جاتا ہے اور نہ صرف محروم رہ جاتا ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی گرفت کا مورد بن جاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کے رنگ میں رنگین ہونے کی کوشش
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:
’’خدا تعالیٰ تو ہر ایک انسان کو اپنی معرفت کے رنگ میں رنگین کرنا چاہتا ہے کیونکہ انسان کو خدا تعالیٰ نے اپنی صورت پر پیدا کیا ہے۔ (ملفوظات جلد دوم صفحہ 23جدید ایڈیشن ربوہ)
قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ صِبْغَۃَ اللّٰہِ وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰہِ صِبْغَۃً۔ وَّنَحْنُ لَہٗ عٰبِدُوْنَ(البقرۃ: 139) کہ اللہ کا رنگ پکڑو اور رنگ میں اللہ سے بہتر اور کون ہو سکتا ہے؟ اور ہم اس کی عبادت کرنے والے ہیں‘‘۔ پس اللہ تعالیٰ کے رنگ میں رنگین ہونے کی کوشش ہے جو ہر مومن کو کرنی چاہئے۔ جس سے انسان خدا تعالیٰ کا قرب پانے کے راستے طے کرتا ہے، قرب پانے کے راستے اس کو نظر آتے ہیں۔ صِبْغَۃَ اللّٰہ کا مطلب ہے کہ صفاتِ الٰہیہ کا رنگ اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کی جائے۔ اور اللہ تعالیٰ جب یہ فرماتا ہے تو فرمایا اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانی فطرت میں یہ صلاحیت رکھی ہے کہ وہ صفاتِ الٰہیہ کا رنگ اختیار کر سکتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے آدم کو اپنی صورت پر پیدا کیا ہے۔ (بخاری کتاب الاستیذان باب بدء السلام حدیث نمبر6227)
اور صورت سے یہی مراد ہے کہ آدم خدا تعالیٰ کی صفات کو اپنائے ہوئے ہے۔ یہاں آدم سے مراد ابنِ آدم اور انسان ہیں، ہر انسان ہے۔ اللہ تعالیٰ کی صفات ہیں۔ مثلاً اللہ تعالیٰ ستّار ہے تو انسان کو بھی اللہ تعالیٰ کی اس صفت سے حصہ لیتے ہوئے ستّاری اور پردہ پوشی کی صفت اختیار کرنی چاہئے۔ خدا تعالیٰ شکور ہے، انسان کو بھی شکور بننا چاہئے۔ جب اللہ تعالیٰ کے بارے میں شکور آتا ہے تو گو اس کے معنی اور ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ تمام طاقتوں کا مالک ہے لیکن بندہ شکر گزار بنتا ہے اور اللہ تعالیٰ قدر کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ایک صفت، بڑی وسیع تر صفت رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ(الفاتحہ: 2)ہے۔ اس کو سامنے رکھتے ہوئے ایک مومن بھی اپنے اپنے دائرہ میں ربّ ہے۔ والدین بچوں کی پرورش کرتے ہیں۔ ایک محدود دائرے میں ان کا بھی اس لحاظ سے ربّ ہونے کا ایک حلقہ ہے۔ اسی طرح دوسری صفات ہیں۔ پس یہ صفاتِ حسنہ جو ہیں ان کو سامنے رکھتے ہوئے جب انسان کوشش کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی رہنمائی فرماتا ہے اور پھر جیسا کہ ایک جگہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا جب انسان کوشش کرتا ہے توپھر اس کی کوششوں میں برکت ہوتی ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ خدا میں ہو کر خدا تلاش کرو تو خدا ملتا ہے۔ خدا میں ہو کر خدا تلاش کرو۔ خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کو تلاش کرنے کی کوشش کرو گے تو خدا ملے گا۔ اور خدا میں ہو کر خدا تلاش کرنے کا مطلب ہی یہ ہے کہ اس کی صفات اپناؤ۔ اب اللہ تعالیٰ رحمان اور رحیم ہے اور اس کی رحمت ہر چیز پر حاوی ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب ہو کر اس کے نام پر ظلم و بربریت پھیلانے والے کس طرح اللہ تعالیٰ کی راہ کو پا سکتے ہیں۔ آج بھی ایک افسوسناک ہمیں اطلاع ملی۔ جمعہ کے دوران مردان میں ہماری مسجد پر دہشت گردوں نے حملہ کیا لیکن ڈیوٹی پر موجود خدام کی بروقت کارروائی سے ان کو زیادہ کامیابی نہیں ہوئی۔ زیادہ کیا؟ہوئی ہی نہیں۔ اندر نہیں آ سکے۔ انہوں نے گرنیڈ وغیرہ پھینکے اور ایک خود کش حملہ آور زخمی ہو گیا۔ زخمی حالت میں پھر اس نے اپنے آپ کو اڑا لیا جس کی وجہ سے مسجد کا گیٹ اور دیواریں وغیرہ گر گئیں۔ وہاں خدام ڈیوٹی پر تھے چند ایک زخمی ہوئے اور ایک خادم شہید بھی ہوئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ اللہ تعالیٰ اس شہید کے بھی درجات بلند کرے اور زخمیوں کو بھی شفاء دے۔ باقی حملہ آور جو تھے وہ فرار ہو گئے۔
تو بہر حال کہنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ کون سے لوگ ہیں جو اسلام کے نام پر، خدا کے نام پر یہ کام کرنے والے ہیں جو کہتے ہیں ہم اللہ تعالیٰ کی صفات کو اپنانے والے ہیں۔ یہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کے نام پر اللہ کی عبادت کرنے والوں پر حملہ کرنے والے ہیں یہ تو کسی طرح بھی خدا والے نہیں کہلا سکتے۔ پھر دو دن پہلے ہم نے دیکھا کہ ایک شیعوں کا جلوس تھا اس پر حملہ کیا۔ وہاں بلا وجہ معصوم جانیں ضائع ہوئیں۔ بہت سے زخمی بھی ہوئے۔ تو یہ لوگ تو ایسے ہیں جیسا کہ مَیں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو اتنا ٹیڑھا کر دیا ہے کہ اب بظاہر لگتا ہے ان لوگوں کے لئے کوئی واپسی کا راستہ نہیں رہا۔ اور جو لوگ ان کو مدد کرنے والے ہیں، مددگار ہیں یا جن کے ہاتھ میں طاقت ہے اور پوری طرح ہاتھ نہیں ڈالتے وہ لوگ بھی اس کے ذمہ دار ہیں۔ اللہ تعالیٰ جلد ان ظالموں سے ملک کو نجات دے بلکہ دنیا کو نجات دے کیونکہ اب تو دنیا میں بھی یہ لوگ پھیل گئے ہیں۔ ایک جگہ اللہ تعالیٰ کو پانے کے لئے کوشش کی حالت کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ مثال دی ہے۔ فرمایا کہ:
’’جو لوگ کوشش کرتے ہیں انجام کار رہنمائی پر پہنچ جاتے ہیں۔ جس طرح وہ دانہ تخم ریزی کا بدوں کوشش اور آبپاشی کے بے برکت رہتا ہے بلکہ خود بھی فنا ہو جاتا ہے۔ اسی طرح تم بھی اس اقرار کو ہر روز یادنہ کرو گے اور دعائیں نہ مانگو گے کہ خدایا ہماری مدد کر تو فضلِ الٰہی واردنہیں ہو گا۔ اور بغیر امدادِ الٰہی کے تبدیلی ناممکن ہے‘‘۔ (الحکم جلد8 نمبر38,39مورخہ 10,17نومبر 1904ء صفحہ 6کالم نمبر3)
پس دانہ جب پودہ بنتا ہے تو فرمایا کہ وہ پودہ بننے کے لئے خود فنا ہو کر پودہ بنتا ہے۔ تم بھی اگر ثمر آور درخت بننا چاہتے ہو، اگر اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنا چاہتے ہو تو اپنے آپ کو فنا کرو۔ اسی سے اللہ تعالیٰ کی رضا بھی حاصل ہو گی اور آئندہ نسلوں میں بھی یہ روح قائم رہے گی جو دین پر چلنے والے ہوں گے۔ تو یہ عارضی کوششیں نہیں ہیں بلکہ مسلسل کوشش ہے جو ایک مومن کا فرض ہے کرتا چلا جائے۔ اس دانے کی طرح فنا ہونے کی ضرورت ہے جس سے پھل دار پودہ بنتا ہے۔ اور فرمایا کہ یہ اس صورت میں ہو گا جب اس اقرار اس عہد کو سامنے رکھو گے جو تم نے اس زمانے میں اس امام سے کیا ہے۔ اور خدا تعالیٰ سے کیا ہے۔ چونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم ان کی مدد کرتے ہیں۔ اب اللہ تعالیٰ کے اس وعدے کو سامنے رکھو گے کہ ہم ان کی مدد کرتے ہیں، ان کو راستہ دکھاتے ہیں جو مسلسل کوشش کرتے ہیں تو پھر ہی کامیاب ہو گے۔ اگر نہیں رکھو گے تو پھر کامیابی نہیں۔ پھر ایک جگہ اس کی وضاحت کرتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ:
’’بموجب تعلیم قرآنِ شریف ہمیں یہ امر یوں معلوم ہوتا ہے کہ ایک طرف تو اللہ تعالیٰ قرآنِ شریف میں اپنے کرم، رحم، لطف اور مہربانیوں کے صفات بیان کرتا ہے اور رحمان ہونا ظاہر کرتا ہے اور دوسری طرف فرماتا ہے کہ اَنْ لَیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰی(النجم: 40) اور وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا فرما کر اپنے فیض کو سعی اور مجاہدہ میں منحصر فرماتا ہے۔ نیز اس میں صحابہ رضی اللہ (عنہم) کا طرزِ عمل ہمارے واسطے ایک اُسوہ حسنہ اور عمدہ نمونہ ہے۔ صحابہ رَضِیَ اللّٰہَ عَنْھُمْ کی زندگی میں غور کر کے دیکھو بھلا انہوں نے محض معمولی نمازوں سے ہی وہ مدارج حاصل کر لئے تھے؟ نہیں بلکہ انہوں نے تو خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے واسطے اپنی جانوں تک کی پرواہ نہیں کی اور بھیڑ بکریوں کی طرح خدا کی راہ میں قربان ہو گئے۔ جب جا کر کہیں ان کو یہ رتبہ حاصل ہوا تھا۔ اکثر لوگ ہم نے ایسے دیکھے ہیں وہ یہی چاہتے ہیں کہ ایک پھونک مار کر ان کو وہ درجات دلا دئیے جاویں اور عرش تک ان کی رسائی ہو جاوے‘‘۔
فرمایا کہ’’ہمارے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وسلم) سے بڑھ کر کون ہو گا۔ وہ افضل البشر، افضل الرسل والانبیاء تھے جب انہوں نے ہی پھونک سے وہ کام نہیں کئے تو اور کون ہے جو ایسا کر سکے۔ دیکھو آپ نے غارِ حرا میں کیسے کیسے ریاضات کئے۔ خدا جانے کتنی مدت تک تضرعات اور گریہ و زاری کیاکئے۔ تزکیہ کے لئے کیسی کیسی جانفشانیاں اور سخت سے سخت محنتیں کیا کئے۔ جب جا کر کہیں خدا کی طرف سے فیضان نازل ہوا۔ اصل بات یہی ہے کہ انسان خدا کی راہ میں جب تک اپنے اوپر ایک موت اور حالتِ فنا واردنہ کر لے تب تک ادھر سے کوئی پرواہ نہیں کی جاتی۔ البتہ جب خد ادیکھتا ہے کہ انسان نے اپنی طرف سے کمال کوشش کی ہے اور میرے پانے کے واسطے اپنے اوپر موت وارد کر لی ہے تو پھر وہ انسان پر خود ظاہر ہوتا ہے اور اس کو نوازتا اور قدرت نمائی سے بلند کرتا ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد پنجم صفحہ 507جدید ایڈیشن ربوہ)
پھر ایک جگہ آپ فرماتے ہیں کہ:
’’خدا کی طرف سعی کرنے والا کبھی بھی ناکام نہیں رہتا۔ اس کا سچا وعدہ ہے کہ وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا۔ خدائے تعالیٰ کی راہوں کی تلاش میں جو جُویا ہوا وہ آخر منزلِ مقصود پر پہنچا۔ دنیوی امتحانوں کے لئے تیاری کرنے والے، راتوں کو دن بنا دینے والے طالب علموں کی محنت اور حالت کو ہم دیکھ کر رحم کھا سکتے ہیں تو کیا اللہ تعالیٰ جس کا رحم اور فضل بے حد اور بے انت ہے اپنی طرف آنے والے کو ضائع کر دے گا؟ ہرگز نہیں، ہرگز نہیں۔ اللہ تعالیٰ کسی کی محنت کو ضائع نہیں کرتا‘‘۔ (رپورٹ جلسہ سالانہ 1897ء صفحہ 162-161مطبوعہ انوار احمدیہ پریس قادیان)
پھر ایمانی حالت کے حصول اور اللہ تعالیٰ کے قرب کے حصول میں جو باریک فرق ہے اس کی علمی بحث کرتے ہوئے ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:
’’روح القدس کی تائید جو مومن کے شامل ہوتی ہے وہ محض خدا تعالیٰ کا انعام ہوتا ہے جو ان کو ملتا ہے جو سچے دل سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآنِ شریف پر ایمان لاتے ہیں۔ وہ کسی مجاہدہ سے نہیں ملتا محض ایمان سے ملتا ہے اور مفت ملتا ہے۔ صرف یہ شرط ہے کہ ایسا شخص ایمان میں صادق ہو اور قدم میں استوار اور امتحان کے وقت صابر ہو۔ لیکن خدائے عزّوجل کی لدنّی ہدایت جو اس آیت میں مذکور ہے وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا۔ وہ بجز مجاہدہ کے نہیں ملتی‘‘۔ (ایک اللہ تعالیٰ کی طرف سے مل رہی ہے یہ چیزاور ایک خاص مجاہدہ سے ملتی ہے۔) ’’مجاہدہ کرنے والا ابھی مثل اندھے کے ہوتا ہے‘‘۔ (عام ایمانی حالت تو مل جاتی ہے اس سے بغیر زیادہ مجاہدے کے، لیکن ابھی اس کی حالت اندھے کی سی ہے۔ اس میں مزید ترقی کے درجے پانے کی ضرورت ہے۔ فرمایا کہ اس کی حالت ابھی مثل اندھے کی ہے) ’’اور اس میں اور بینا ہونے میں ابھی بہت فاصلہ ہوتا ہے۔ مگر روح القدس کی تائید اس کو نیک ظن کر دیتی ہے اور اس کو قوت دیتی ہے جو وہ مجاہدہ کی طرف راغب ہو‘‘۔ (تو جب انسان اللہ تعالیٰ کی طرف کوشش کر رہا ہوتا ہے تو پھر اس کو روح القدس سے قوت مل رہی ہوتی ہے کہ مجاہدہ کرتا چلا جائے) ’’اور مجاہدہ کے بعد انسان کو ایک اور روح ملتی ہے جو پہلی روح سے بہت قوی اور زبردست ہوتی ہے۔ مگر یہ نہیں کہ دو روحیں ہیں، روح القدس ایک ہی ہے صرف فرق مراتبِ قوت کا ہے‘‘ (کہ ایک روح ہے ایک میں زیادہ قوت ہے ایک میں کم۔ پہلے درجے میں کم قوت تھی، جب دوسرا درجہ حاصل کیا تو زیادہ قوت پیدا ہو گئی۔ اور اللہ تعالیٰ کی عرفان اور پہچان زیادہ ہو گئی۔ اس کی طرف بڑھنے کے نئے نئے راستوں کی طرف رہنمائی مل گئی۔) ’’جیسا کہ دو خدا نہیں ہیں صرف ایک خدا ہے۔ مگر وہی خدا جن خاص تجلیات کے ساتھ ان لوگوں کا ناصر اور مربی ہوتا اور ان کے لئے خارق عادت عجائبات دکھاتا ہے وہ دوسروں کو ایسے عجائباتِ قدرت ہرگز نہیں دکھلاتا‘‘۔ (چشمہ معرفت روحانی خزائن جلدنمبر23صفحہ 425,426)
پھر آپ فرماتے ہیں: ’’جو شخص خدا تعالیٰ کی طرف رجوع کرے گا تو اللہ تعالیٰ بھی اس کی طرف رجوع کرے گا۔ ہاں یہ ضروری ہے کہ جہاں تک بس چل سکے وہ اپنی طرف سے کوتاہی نہ کرے۔ پھر جب اس کی کوشش اس کے اپنے انتہائی نکتہ پر پہنچے گی تو وہ خدا تعالیٰ کے نور کو دیکھ لے گا۔ وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا میں اس کی طرف اشارہ ہے کہ جو حق کوشش اس کے ذمہ ہے اسے بجا لائے۔ یہ نہ کرے کہ اگر پانی بیس ہاتھ نیچے کھودنے سے نکلتا ہے تو صرف دو ہاتھ کھود کر ہمت ہار دے۔ ہر ایک کام میں کامیابی کی یہی جڑ ہے کہ ہمت نہ ہارے۔ پھر اِس امت کے لئے تو اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ اگر کوئی پورے طور سے دعا و تزکیہ نفس سے کام لے گا سب وعدے قرآنِ شریف کے اس کے ساتھ پورے ہو کر رہیں گے۔ ہاں جو خلاف کرے گا وہ محروم رہے گا کیونکہ اس کی ذات غیور ہے۔ اس نے اپنی طرف آنے کی راہ ضرور رکھی ہے لیکن اس کے دروازے تنگ بنائے ہیں۔ پہنچتا وہی ہے جو تلخیوں کا شربت پی لیوے۔ لوگ دنیاکی فکر میں درد برداشت کرتے ہیں حتی کہ بعض اسی میں ہلاک ہو جاتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کے لئے ایک کانٹے کی درد بھی برداشت کرنا پسندنہیں کرتے۔ جب تک اس کی طرف سے صدق اور صبر اور وفاداری کے آثار ظاہر نہ ہوں تو ادھر سے رحمت کے آثار کیسے ظاہر ہوں؟۔ (ملفوظات جلد چہارم صفحہ 223,224جدید ایڈیشن ربوہ)
پس اس بات کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ مسلسل کوشش جاری رکھنا ایک مومن کا کام ہے۔
فرمایا کہ’’اسلام اور دوسرے مذاہب میں جو امتیاز ہے وہ یہی ہے کہ اسلام حقیقی معرفت عطا کرتا ہے جس سے انسان کی گناہ آلود زندگی پر موت آ جاتی ہے اور پھر اسے ایک نئی زندگی عطا کی جاتی ہے جو بہشتی زندگی ہوتی ہے۔ …… اب سوال ہوتا ہے کہ جبکہ یہ مابہ الامتیاز ہے تو کیوں ہر شخص نہیں دیکھ لیتا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ سنت اللہ اسی پر واقع ہوئی ہے کہ یہ بات بجز مجاہدہ، توبہ اور تبتلِ تام کے نہیں ملتی۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا۔ یعنی جو لوگ ہماری راہ میں مجاہدہ کریں گے انہی کو یہ راہ ملے گی۔ پس جو لوگ خدا کی وصایا اور احکام پر عمل نہ کریں بلکہ ان سے اعراض کریں ان پر یہ دروازہ کس طرح کھل جائے۔ یہ نہیں ہو سکتا‘‘۔ (ملفوظات جلد چہارم صفحہ 344جدید ایڈیشن ربوہ)
فرماتے ہیں: ’’پھر وہ لوگ روح القدس کی طاقت سے بہرہ ور ہو کر ان مجاہدات میں لگے کہ اپنے پاک اعمال کے ساتھ شیطان پر غالب آ جائیں‘‘(پھر وہ لوگ یعنی صحابہ روح القدس کی طاقت سے بہرہ ور ہو کر ان مجاہدات میں لگے کہ اپنے پاک اعمال کے ساتھ شیطان پر غالب آ جائیں ) ’’تب انہوں نے خدا کے راضی کرنے کے لئے ان مجاہدات کو اختیار کیا کہ جن سے بڑھ کر انسان کے لئے متصور نہیں۔ انہوں نے خدا کی راہ میں اپنی جانوں کو خس و خاشاک کی طرح بھی قدر نہ کیا۔ آخر وہ قبول کئے گئے اور خدا نے ان کے دلوں کو گناہ سے بکلی بیزار کر دیا اور نیکی کی محبت ڈال دی۔ جیسا کہ وہ فرماتا ہے وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا۔ یعنی جو لوگ ہماری راہ میں مجاہدہ کرتے ہیں ہم ان کو اپنی راہ دکھایا کرتے ہیں‘‘۔ (چشمہ معرفت روحانی خزائن جلدنمبر 23صفحہ 425)
اسی مجاہدہ کی وجہ سے صحابہ کو وہ مقام ملا جس کے بارہ میں حدیث میں آتا ہے حضرت عمر سے روایت ہے کہ مَیں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا۔ حضور نے فرمایا کہ مَیں نے اپنے صحابہ کے اختلاف کے بارہ میں اللہ تعالیٰ سے سوال کیا تو اللہ تعالیٰ نے میری طرف وحی کی کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) تیرے صحابہ کا میرے نزدیک ایسا مرتبہ ہے جیسے آسمان میں ستارے ہیں۔ بعض بعض سے روشن تر ہیں۔ لیکن نور ہر ایک میں موجود ہے۔ پس جس نے تیرے کسی صحابی کی پیروی کی میرے نزدیک وہ ہدایت یافتہ ہو گا۔ حضرت عمر (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نے یہ بھی کہا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا کہ میرے صحابہ ستاروں کی طرح ہیں ان میں سے جس کی بھی تم اقتداء کرو گے ہدایت پا جاؤ گے۔ (مشکوٰۃ کتاب المناقب مناقب الصحابہ الفصل الثالث حدیث نمبر 6018دار الکتب العلمیۃ بیروت ایڈیشن 2003)
تو یہ مقام تھا مسلسل کوشش اور جہاد کا، جو صحابہ نے اپنے نفسوں کو پاک کرنے کے لئے کیا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے یہ اجر دیا۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہمیں نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
’’اس بیعت کی اصل غرض یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی محبت میں ذوق و شوق پیدا ہو اور گناہوں سے نفرت پیدا ہو کر اس کی جگہ نیکیاں پیدا ہوں۔ جو شخص اس غرض کو ملحوظ نہیں رکھتا اور بیعت کرنے کے بعد اپنے اندر کوئی تبدیلی کرنے کے لئے مجاہدہ اور کوشش نہیں کرتا، جو کوشش کا حق ہے اور پھر اس قدر دعا نہیں کرتا جو دعا کرنے کا حق ہے تو وہ اس اقرار کی جو خدا تعالیٰ کے حضور کیا جاتا ہے سخت بے حرمتی کرتا ہے۔ اور وہ سب سے زیادہ گنہگار اور قابلِ سزا ٹھہرتا ہے۔ پس یہ ہرگز نہ سمجھ لینا چاہئے کہ یہ بیعت کا اقرار ہی ہمارے لئے کافی ہے اور ہمیں کوشش نہیں کرنی چاہئے۔ مثل مشہور ہے جوئندہ یا بندہ۔ جو شخص دروازہ کھٹکھٹاتا ہے اس کے لئے کھولا جاتا ہے۔ اور قرآنِ شریف میں بھی فرمایا گیا ہے کہ وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا۔ یعنی جولوگ ہماری طرف آتے ہیں اور ہمارے لئے مجاہدہ کرتے ہیں ہم ان کے واسطے اپنی راہ کھول دیتے ہیں اور صراطِ مستقیم پر چلا دیتے ہیں۔ لیکن جو شخص کوشش ہی نہیں کرتا وہ کس طرح اس راہ کو پا سکتا ہے؟ خدا یابی اور حقیقی کامیابی اور نجات کا بھی یہی گر اور اصول ہے۔ انسان کو چاہئے کہ خدا تعالیٰ کی راہ میں مجاہدہ کرنے سے تھکے نہیں۔ نہ درماندہ ہو اور نہ اس راہ میں کوئی کمزوری ظاہر کرے‘‘۔ (ملفوظات جلد چہارم صفحہ نمبر181,182مطبوعہ ربوہ)
اللہ کرے ہم میں سے ہر ایک اس روح کو سمجھنے والا ہو اور ہماری کوششیں ہر آن آگے بڑھنے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے اپنا عہد پورا کرنے اور اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے کی طرف لے جا رہی ہوں۔ اپنے عہدوں میں کمزوری دکھا کر اور اپنی کوششوں میں کمی کر کے ہم کبھی اللہ تعالیٰ کے حضور شرمندہ نہ ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنا عہدنبھانے اور خدا تعالیٰ کا قرب پانے کی توفیق دیتا چلا جائے۔ اور یہ باقی دن ہم خاص طور پر دعاؤں میں پہلے سے بڑھ کر گزارنے والے بنیں۔ اللہ تعالیٰ خود ہماری ڈھال بن جائے اور ہمارے دشمنوں کی پکڑ کے سامان فرمائے۔
جس شہید کا مَیں نے ذکر کیا تھا پہلے تو میرا خیال تھا کہ شاید کوائف نہیں آئے، جنازہ اگلے جمعہ ہو گا۔ لیکن پھر کوائف آ گئے ہیں تو ان کا ابھی نمازِ جمعہ کے بعد انشاء اللہ تعالیٰ ہم جنازہ غائب بھی پڑھیں گے۔ جو شہید ہوئے ہیں ان کا نام شیخ عامر رضا صاحب ولد مکرم مشتاق احمد صاحب ہے۔ ان کی عمر چالیس سال تھی۔ اس وقت بطور سیکرٹری وقفِ جدید خدمت کی توفیق پا رہے تھے۔ علاوہ ازیں شہید جو تھے قائد مجلس اور قائد ضلع کے طور پر خدمت کی توفیق پا چکے ہیں۔ ان کا اپنا الیکٹرونکس کابزنس تھا۔ مسجد کے اندر تھے، وہاں جو دھماکہ ہوا ہے وہ اتنا شدید تھا کہ اندر ان کے آ کے دیواریں گری ہیں اور دروازہ اندر آ کے گرا ہے اس کی وجہ سے شدید زخمی بھی ہو گئے۔ ہسپتال لے جاتے ہوئے راستے میں شہید ہو گئے تھے۔ نہایت مخلص اور محنتی احمدی تھے۔ ان کے لواحقین میں ان کی اہلیہ لبنیٰ عامر صاحبہ اور ایک بیٹا اسامہ عامر، عمر 9سال اور ایک بچی ڈیڑھ سالہ ہے۔ ان کا جنازہ انشاء اللہ تدفین کے لئے ربوہ لے جایا جائے گا۔ جیسا کہ مَیں نے کہا ابھی جمعہ کے بعدہم جنازہ غائب ادا کریں گے۔
(الفضل انٹرنیشنل جلد 17شمارہ 39 مورخہ24ستمبر تا 30ستمبر 2010 صفحہ5 تا9)
رمضان کے روزے اور اس کی عبادتیں ایک خاص مجاہدہ ہیں۔
اللہ تعالیٰ کو پانے کے لئے اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ مستقل اور لمبی کوشش ہے جس سے تقویٰ اور ایمان میں دوام حاصل ہوتاہے۔
انبیاء اور اللہ تعالیٰ کے فرستادے اللہ تعالیٰ کے راستوں کی طرف نشاندہی کرتے ہیں تو وہ اس بات کے سب سے زیادہ مستحق ہیں کہ ایک عقلمند انسان ان کے ساتھ جڑ کر اخلاص اور وفا کا تعلق پیدا کرے۔
انسان کو چاہئے کہ خداتعالیٰ کی راہ میں مجاہدہ کرنے سے تھکے نہیں، نہ درماندہ ہو اور نہ اس راہ میں کوئی کمزوری ظاہر کرے۔
مردان میں جمعہ کے دوران احمدیہ مسجد پر دہشتگردوں کے حملہ میں مکرم شیخ عامر رضا صاحب ولد مکرم مشتاق احمد صاحب کی شہادت۔ شہید مرحوم کا ذکرخیر اور نمازجنازہ غائب۔
فرمودہ مورخہ 03؍ستمبر 2010ء بمطابق 03؍تبوک 1389 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن (برطانیہ)
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔