نوجوانوں کی قربانی اور توحید کا قیام

خطبہ جمعہ 24؍ ستمبر 2010ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

ستمبر، اکتوبر کے مہینے اکثر ہماری ذیلی تنظیموں، یعنی اکثر ممالک کی ذیلی تنظیموں کے سالانہ اجتماعات کے مہینے ہوتے ہیں۔ انشاء اللہ تعالیٰ آج خدام الاحمدیہ کا اجتماع شروع ہو رہا ہے اور اسی طرح اگلے جمعہ انصار اور لجنہ کے اجتماعات بھی شروع ہونے ہیں۔ گزشتہ تقریباً 27، 28سال سےUKکے اجتماعات میں خلیفۂ وقت کی شمولیت اجتماعات کا حصہ بن چکی ہے۔ ربوہ سے، پاکستان سے خلیفۂ وقت کی ہجرت سے پہلے تمام ذیلی تنظیموں کے اجتماعات میں خلیفۂ وقت کی شمولیت ہوتی تھی اور پاکستان سے تمام متعلقہ ذیلی تنظیموں کے نمائندے اجتماعات میں شرکت کیا کرتے تھے جس سے ربوہ کی رونقیں بھی دوبالا ہو جایا کرتی تھیں۔ خاص طور پر خدام اور اطفال کو اس زمانہ میں ایک خاص شوق اور لگن ہوتی تھی اور اجتماع کا انتظار رہتا تھا۔ خیموں میں رہائش ہوتی تھی۔ ہر مجلس اپنی اپنی چادریں لا کر عارضی خیمے بنایا کرتی تھی۔ باقاعدہ اس طرح کے ٹینٹ، خیمے نہیں تھے جیسے یہاں مل جایا کرتے ہیں بلکہ بستروں کی چادروں سے ہی خیمے بنائے جاتے تھے اور ان خیموں میں رہائش ہوتی تھی۔ ہر مجلس یا خیمے میں رہنے والاہر گروپ جو ہے وہ اپنی اپنی چادریں لاتا تھا اور یوں رنگ برنگے اور پھول دار اور قسما قسم کے خیمے وہاں رہائش گاہ میں بنے ہوتے تھے۔ اکتوبر کے مہینے میں پاکستان میں عموماً موسم اچھا رہتا ہے۔ بارشیں نہیں ہوتیں۔ اس لئے گزارہ ہو جاتا تھا۔ اگر یہاں کا موسم ہو تو شاید گزارہ نہ ہو سکے بلکہ شاید کا کیا سوال ہے گزارہ ہو ہی نہیں سکتا۔ بہر حالUK کے خدام الاحمدیہ کے اجتماع نے مجھے بچپن اور جوانی کے اجتماعات کی یادیں دلا دی تھیں اور ساتھ ہی ان مظلوموں کی یاد بھی جو ظالموں کے ظالمانہ قوانین کا شکار ہو کر اپنے اس حق سے بھی محروم کر دئیے گئے ہیں کہ اپنی اصلاح، تربیت اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے ذکر کے لئے جمع ہو کر اس مجلس اور اجتماع کا انعقاد کر سکیں۔ بہر حال مَیں بھی اور آپ بھی اس یقین پر قائم ہیں کہ یہ حالات ہمیشہ کے لئے نہیں ہیں۔ انشاء اللہ تعالیٰ ایک دن یہ ظلم بھی اور ظالم بھی صفحہ ہستی سے مٹا دئیے جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں صبر، استقامت اور دعا سے کام لیتے چلے جانے کی توفیق عطا فرماتا رہے۔

اجتماع کے حوالہ سے یہ باتیں جو ہیں مجھے ان کا ذکر اصل میں تو اجتماع کے موقع پر کرنا چاہئے تھا۔ اور ہر سال مَیں اجتماع کی مناسبت سے متعلقہ ذیلی تنظیموں کو ان کے حوالہ سے مخاطب بھی ہوتا ہوں۔ لیکن مجھے اس دفعہ خیال آیا کہ جمعہ پر اس حوالے سے بھی ذکر کر دوں۔ کیونکہ ایک تو پاکستان کے مرکزی اجتماع میں افتتاحی اور اختتامی خطابات خلیفۂ وقت کے ہوتے تھے۔ دوسرے اجتماع کے موقع پر جومیری اختتامی تقریرہوتی ہے، وہ عموماً براہِ راست ایم۔ ٹی۔ اے سے نشر نہیں ہوتی بلکہ کچھ دنوں کے بعد ہفتہ دس دن بعدنشر ہوتی ہے اور ہو سکتا ہے کہ اس کو ایک بڑی تعدادنہ سن سکتی ہو۔ تیسرے جہاں جہاں بھی اجتماعات ہو رہے ہیں وہ اس خطبہ کو اپنے لئے بھی پیغام سمجھتے ہوئے ان باتوں پر عمل کرنے کی کوشش کریں اور پاکستان کے مظلوم احمدیوں کو اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں۔ اور چوتھے جہاں جہاں نئی جماعتیں یا ذیلی تنظیمیں اور مجالس قائم ہو رہی ہیں وہ بھی اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے براہِ راست باتیں سن کر ان سے استفادہ کرنے کی کوشش کریں۔ بہر حال اب مَیں اس حوالہ سے خدام الاحمدیہ کو خصوصاً اور ہر فردِ جماعت کو عموماً چند باتوں کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں۔ قرآنِ کریم میں دین کی خدمت، اصلاح اور توحید کے قیام کے لئے نوجوانوں کے حوالہ سے سورۃ کہف میں دو جگہ ذکر آیا ہے۔ یہ وہ نوجوان تھے جو مسیح موسوی کے ماننے والے تھے جو تقریباً تین سو سال تک سختیاں اور ظلم سہتے رہے۔ اس قدر سختیاں ان پر ہوئیں کہ لمبا عرصہ ان کو غاروں میں چھپ کر رہنا پڑا۔ غاروں میں بھی حکومتِ وقت کے کارندے ان کا پیچھا کر کے قتل و غارت کرتے رہے۔ لیکن دین اور توحید کی خاطر وہ لوگ یہ ظلم برداشت کرتے رہے۔ جب حالات کچھ بہتر ہوتے تھے تو باہر بھی آ جاتے تھے۔ لیکن ظلم کی جو حالت تھی یا حالات تھے، ان سے انہیں وقتاً فوقتاً گزرنا پڑتا تھا۔ بہر حال توحید کے قیام اور دین کی حفاظت کے لئے ان لوگوں کی کوشش اس قابل تھی کہ اللہ تعالیٰ نے اس واقعہ کو قرآنِ کریم میں بھی محفوظ فرما لیا۔ اس حوالہ سے جن دو آیتوں کا مَیں نے ذکر کیا ہے وہ مَیں پیش کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ قرآنِ کریم میں فرماتا ہے: اِذْ اَوَی الْفِتْیَۃُ اِلَی الْکَھْفِ فَقَالُوْا رَبَّنَآ اٰتِنَا مِنْ لَّدُنْکَ رَحْمَۃً وَّ ھَیِّئْ لَنَامِنْ اَمْرِنَا رَشَدًا (الکھف: 11) جب چندنوجوانوں نے ایک غار میں پنا لی تو انہوں نے کہا’’اے ہمارے ربّ! ہمیں اپنی جناب سے رحمت عطا کر اور ہمارے معاملے میں ہمیں ہدایت عطا کر‘‘۔

پھر دوسری جگہ دو آیتیں چھوڑ کے ذکر ہے کہ: نَحْنُ نَقُصُّ عَلَیْکَ نَبَاَھُمْ بِالْحَقِّ۔ اِنَّہُمْ فِتْیَۃٌ اٰمَنُوْا بِرَبِّہِمْ وَزِدْنٰہُمْ ہُدًی (الکہف: 14) ہم تیرے سامنے ان کی خبر سچائی کے ساتھ بیان کرتے ہیں۔ یقینا وہ چندنوجوان تھے جو اپنے ربّ پر ایمان لے آئے اور ہم نے انہیں ہدایت میں ترقی دی۔

اور پھر اس کی وضاحت میں اگلی آیت بھی ہے کہ وَرَبَطْنَا عَلٰی قُلُوْبِہِمْ اِذْ قَامُوْا فَقَالُوْا رَبُّنَا رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْا َرْضِ لَنْ نَّدْعُوَاْ مِنْ دُوْنِہٖٓ اِلٰہًا لَّقَدْ قُلْنَا اِذًا شَطَطًا(الکہف: 15)اور ہم نے ان کے دلوں کو تقویت بخشی جب وہ کھڑے ہوئے۔ پھر انہوں نے کہا ہمارا رب تو آسمانوں اور زمین کا ربّ ہے۔ ہم ہرگز اس کے سوا کسی کو معبودنہیں پکاریں گے۔ اگر ایسا ہو تو ہم یقینا اعتدال سے ہٹی ہوئی بات کہنے والے ہوں گے۔

پس توحید کے قیام کے لئے انہوں نے کوشش کی۔ ظلم سہے اور اللہ تعالیٰ سے دعا مانگتے رہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی رحمت سے وحدانیت پر قائم رکھے اور ہدایت کے راستے پر ہم چلتے رہیں۔ اس سے پہلے قرآنِ کریم میں جو آیات ہیں ان سے پہلی آیت میں یہ ذکر ہے کہ آج کل کے عیسائی وحدانیت کو چھوڑ کر ایک شخص کو خدا کا بیٹا بنائے بیٹھے ہیں جو سراسر جھوٹے نظریات اور جھوٹی تعلیم ہے اور جس کا عیسائیت کی اصل تعلیم سے کوئی واسطہ نہیں۔ یہ ایسی خطرناک بات ہے جو یقینا انہیں سزا کا مورد بنائے گی۔ حقیقی تعلیم جس کے لئے عیسائیوں نے قربانی دی، تثلیث کی تعلیم نہیں تھی بلکہ وحدانیت کی تعلیم تھی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان کے مختلف ادوار اور حالات کا نقشہ کھینچنے کے بعد بیان فرمایا کہ ان کے اس ایمان لانے اور ایک خدا پر یقین کرنے کی وجہ سے ہم نے انہیں ہدایت پر قائم رکھا اور ان کے دلوں کو مضبوط کیا۔ اور وہ ایک خدا کی پرستش کرنے کا اعلان کرتے رہے اور اس کی عبادت کرتے رہے۔ انہوں نے اس بات سے سخت بیزاری کا اظہار کیا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی اور بھی معبود ہے۔ لیکن پھر زمانہ کے اثر کے تحت، حکومتوں کے اثر کے تحت عیسائیت نے آہستہ آہستہ تثلیث کی صورت اختیار کر لی، اس میں بگاڑ پیدا ہو گیا۔ غلط لوگوں کے ہاتھ میں جب عیسائیت کی باگ ڈور چلی گئی تو پھر تثلیث کا نظریہ پیدا ہوا اور دنیا داری نے ان کے دین پر قبضہ کر لیا۔ ان شرک کرنے والوں کے لئے خدا تعالیٰ نے آگ میں ڈالے جانے کا انذار فرمایا ہے۔

بہر حال ان آیات کے بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ عیسائیت جب تک اپنی اصلی حالت پر قائم رہی اس کی حفاظت کرنے والے نوجوان تھے اور انہوں نے ایمان کی حفاظت کی۔ اور اللہ تعالیٰ نے ان کے اس ایمان کی وجہ سے، ان کے ظالم حکمرانوں کے سامنے اپنے دین کی حفاظت کی وجہ سے، صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کو معبودِ حقیقی ماننے کی وجہ سے ان کو ہدایت یافتہ رکھا۔ انہوں نے کسی دنیاوی انعام کی پرواہ نہیں کی بلکہ خدا تعالیٰ کی رضا کو مقدم رکھا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ چندنوجوان جو تھے ان کے ساتھ ہم نے ان کے ایمان کی وجہ سے کیا سلوک کیا؟ فرمایا وَزِدْنٰھُمْ ھُدًی ہم نے انہیں ہدایت میں ترقی دی۔ وَرَبَطْنَا عَلٰی قُلُوْبِہِمْ اور ہم نے ان کے دلوں کو تقویت بخشی اور اس ہدایت میں ترقی اور دلوں کی تقویت کی وجہ سے انہوں نے اپنے وقت کے تمام جابر سلطانوں کے سامنے جرأت کے ساتھ یہ اعلان کیا کہ لَنْ نَّدْعُوَاْ مِنْ دُوْنِہٖٓ اِلٰہًا کہ ہم ہرگز اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو معبودنہیں پکاریں گے۔ ہم اپنی جان تو دے سکتے ہیں، ہم اپنے حقوق کو تو قربان کر سکتے ہیں، ہم اپنے پیاروں اور جان و مال کی قربانی تو دے سکتے ہیں لیکن توحید سے پیچھے نہیں ہٹ سکتے۔ پس ہمارے سامنے ان ایمان لانے والوں کایہ نمونہ ہے، جن کے سامنے اُسوہ کا وہ معیار نہیں تھا جو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ہمارے سامنے اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کے ذریعہ رکھا ہے۔ پس ہمارے سامنے اس اُسوہ کا اعلیٰ ترین معیار یہ تقاضا کرتا ہے کہ ہم توحید کے قیام اور استحکام اور ہدایت کے راستوں پر چلنے کے لئے جان، مال، وقت اور عزت کو قربان کرنے کے عہد کو ہر وقت سامنے رکھتے ہوئے پورا کرتے چلے جائیں۔ کوئی ابتلا، کوئی دنیاوی لالچ ہمیں اپنے عہد کو نبھانے اور پورا کرنے میں روک نہ بن سکے۔

جب الٰہی جماعتوں کی ابتلا سے گزرنے کی مثالیں سامنے آتی ہیں تو توجہ فوراً پاکستان کے احمدیوں کی طرف خاص طور پر پھر جاتی ہے۔ اور پھر چند دوسرے ممالک بھی ہیں جہاں احمدیوں پر سختیاں روا رکھی جا رہی ہیں۔ آج پاکستان کے احمدی ذہنی اور جسمانی اذیت سے گزرنے کے ساتھ ساتھ جان اور مال کی قربانیاں بھی پیش کر رہے ہیں۔ اسی طرح عرب ممالک میں احمدی ہیں جن کی تعداد میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے آج کل روزانہ کی ڈاک میں بیعتوں کے خطوط آتے ہیں۔ ان عرب ملکوں میں بھی احمدی ہونے کی وجہ سے مشکلات ہیں۔ اور ان ملکوں کے احمدی بھی اصحابِ کہف کی سی زندگی گزار رہے ہیں۔ پاکستان کی تو پرانی جماعت ہے اور بلا خوف اپنے ایمان کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ کسی احمدی کی احمدیت چھپی ہوئی نہیں ہے، پتہ لگ ہی جاتا ہے۔ لیکن نئے شامل ہونے والوں کے لئے یہ اظہار بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ اکثریت ان شامل ہونے والوں کی پُرجوش بھی ہے اور ایمان میں ترقی کرنے والوں کی بھی ہے لیکن بعض کمزور بھی ہوتے ہیں۔ وسیع طور پر ایک جگہ جمع ہونے یا باجماعت نماز کی ادائیگی یا جمعہ پڑھنے سے روکا جاتا ہے۔ اور پھر جماعت کے استحکام کے لئے بعض دفعہ ضروری بھی ہوتا ہے اور بعض انتظامی اقدامات احمدیوں کی حفاظت کے لئے کرنے پڑتے ہیں۔ یہ بعض دفعہ عرب ملکوں سے بڑے بے چین ہو کر مجھے لکھتے ہیں کہ کب تک ہم اسی طرح گزارہ کریں گے۔ تو مَیں ان کو اصحابِ کہف کی مثال دے کر ہمیشہ صبر کی تلقین کیا کرتا ہوں۔ یہ دن انشاء اللہ تعالیٰ بدلنے ہیں اور انبیاء کی تاریخ بتاتی ہے کہ بدلتے ہیں اور بدلیں گے انشاء اللہ تعالیٰ۔ پس ان مسلمان ملکوں کے احمدی جو بعض اوقات اس وجہ سے پریشان ہو جاتے ہیں کہ کب تک ہم چھپ کر اپنے پروگرام کریں گے، حتی کے جیسے مَیں نے کہا کہ نماز اور جمعہ بھی چھپ کر پڑھیں گے تو ان سے مَیں کہتا ہوں کہ آپ کو تو ابھی اس مزے کا احساس نہیں ہے جو براہِ راست خلافت کے زیرِ سایہ اجتماعوں اور جلسوں کا پاکستانی احمدیوں کو ملا ہے۔ لیکن اس کے باوجود گزشتہ اٹھائیس سالوں سے مسیح محمدی کے یہ غلام اپنے ایمانوں اور اپنے عَہدوں کی حفاظت ہر طرح قربانی کر کے کرتے چلے جا رہے ہیں۔ اتنے عرصے کی بندش اور مستقل اذیت کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ لیکن صبر و استقامت کے یہ پیکر مرد، عورت، بوڑھے، بچے یہ قربانیاں دیتے چلے جا رہے ہیں۔ لیکن یہ ہمیشہ کی قربانیاں نہیں ہیں۔ یہ تین سو سال سے زائد عرصہ تک رہنے والی قربانیاں نہیں ہیں۔ یہ قربانیاں اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑی تیزی کے ساتھ ہمیں کامیابیوں اور فتوحات کے قریب تر لے جاتی چلی جا رہی ہیں۔ جماعت احمدیہ کے قیام کے مقصد کے حصول کی کوشش چند ملکوں میں جماعت پر سختیوں سے بندنہیں ہو گئی۔ جماعت احمدیہ کے سپرد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام کو دنیا کے کناروں تک پہنچانا اور توحید کے قیام کا کام ہے۔ ان مخالفتوں، دشمنیوں اور پابندیوں سے یہ کام ختم نہیں ہو گیا۔ جماعت احمدیہ ہر دن ایک نئی شان سے اپنی ترقی کو طلوع ہوتا دیکھتی ہے۔

گزشتہ دنوں آئر لینڈ میں مسجد کا سنگِ بنیاد رکھا گیا تھا۔ یہ ملک بھی یورپ میں عیسائیت کا اس لحاظ سے گڑھ ہے کہ یہاں ابھی تک لوگوں کی عیسائیت کے ساتھ بہت زیادہ وابستگی ہے۔ اکثریت کیتھولک ہیں اور چرچوں وغیرہ میں آنا اور چرچ سے تعلق بہت زیادہ ہے۔ جبکہ یورپ کے اکثر ممالک کے عیسائی مذہب سے لا تعلق ہو گئے ہیں۔ بہر حال یہ ملک جو زمین کا کنارہ بھی ہے جیسا کہ مَیں نے گزشتہ خطبہ میں تفصیل سے بیان بھی کیا تھا، یہاں سنگِ بنیاد اور receptionجو ہوٹل میں ہوئی جس میں ایک سو کے قریب پڑھے لکھے لوگ تھے۔ جن میں پارلیمنٹ کے ممبر بھی تھے، سرکاری افسران بھی تھے، پروفیسر اور ٹیچر بھی تھے۔ مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی تھے۔ وہاں Galwayشہر کے میئر بھی تھے۔ وہاں کے بڑے پادری بھی تھے۔ سب کے سامنے اسلام کی خوبصورت تعلیم اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا پیغام پہنچانے کی توفیق ملی جس کو نیشنل ٹی وی اور اخباروں نے بڑی اچھی کوریج دی۔ جس سے اسلام کی خوبصورت تعلیم کا یہ پیغام لاکھوں لوگوں تک پہنچا۔ پس اگر ایک طرف جماعت احمدیہ کو دبانے کی کوشش کی جا رہی ہے تو دوسری طرف تبلیغ کے راستے بھی خدا تعالیٰ کھول رہا ہے۔

آئر لینڈ میں تعداد کے لحاظ سے گو چھوٹی سی جماعت ہے۔ اکثریت جوانوں کی ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اچھی ایکٹو (Active) جماعت ہے۔ ایکٹو (Active) ہونے کی وجہ سے ان کے رابطے جو ہیں وہ بھی کافی اچھے ہیں اور اب اس فنکشن کی وجہ سے ان کے رابطے اور تبلیغ کی کوشش مزید وسیع ہو گی اور نئے راستے اس کے لئے متعین ہوں گے، انشاء اللہ۔ اگر انہوں نے اس جذبہ کو جاری رکھا اور جو وسیع تعارف ہو گیاہے اس سے فائدہ اٹھایا تو انشاء اللہ تعالیٰ مسیح محمدی کے یہ چند غلام مسیح موسوی کے وحدانیت سے دور ہٹے ہوئے لوگوں کو ایک دن خدائے واحد کے آگے جھکنے والا بنا دیں گے، انشاء اللہ۔

پس جہاں ایک طرف بعض ملکوں میں اصحابِ کہف والی صورتِ حال فکر میں ڈالتی ہے تو دوسری طرف کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِی(المجادلہ: 22)۔ (اللہ تعالیٰ نے فرض کر چھوڑا ہے کہ مَیں اور میرا رسول غالب آئیں گے۔) کی جونوید ہے یہ تسلی دلاتی ہے۔ مسیح موسوی کے اصحابِ کہف کے دور کے بعد جو عیسائیت پھیلی تو شرک کے پھیلانے کا باعث بن گئی۔ لیکن مسیح محمدی کے ماننے والوں کو تین سو سال گزرنے سے بہت پہلے انشاء اللہ تعالیٰ غلبہ ملے گا۔ اور یہ غلبہ بھی شرک کو جڑ سے اکھاڑ کر توحید کے قیام کا باعث ہو گا۔ انشاء اللہ۔ پس ہمیں کوئی مایوسی نہیں ہے۔

آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیائے احمدیت میں بہت وسعت آ چکی ہے۔ اگر چند ملکوں میں احمدیوں کے حقوق اور آزادی کو سلب کیا گیا ہے تو آسٹریلیا، افریقہ، امریکہ، اور جزائر کے رہنے والے احمدی آزادی کی زندگی بھی گزار رہے ہیں۔ ان کے لئے صحیح اسلامی تعلیم پر عمل کرنے اور اسے اپنی زندگیوں پر لاگو کرنے کے راستے کھلے ہیں۔ تبلیغ کے میدان بھی کھلے ہیں۔ پس ان ممالک کے رہنے والے احمدیوں سے مَیں کہتا ہوں کہ اس سہولت، کشائش اور آزادی اور آزاد زندگی کو اپنے مقصود کے حصول کا ذریعہ بنا لیں۔ اللہ تعالیٰ نے وَزِدْنٰھُمْ ھُدًی کے الفاظ صرف اصحابِ کہف کے لئے استعمال نہیں کئے بلکہ یہ اصول بیان کیا ہے کہ جو بھی اپنے ایمان کی حفاظت کرے گا، دین پر قائم رہنے کی کوشش کرے گا، اللہ تعالیٰ اسے ہدایت میں بڑھاتا چلا جائے گا۔ ان کے ایمان میں ترقی دیتا چلا جائے گا۔

اس بات کو اللہ تعالیٰ نے سورۃ انفال میں یوں بھی بیان فرمایا ہے۔ فرماتا ہے: اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اِذَا ذُکِرَاللّٰہُ وَجِلَتْ قُلُوْبُھُمْ وَاِذَا تُلِیَتْ عَلَیْھِمْ اٰیٰتُہٗ زَادَتْھُمْ اِیْمَانًا وَّ عَلٰی رَبِّھِمْ یَتَوَکَّلُوْنَ (الانفال: 3) مومن صرف وہی ہیں کہ جب اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان کے دل ڈر جاتے ہیں اور جب ان پر اس کی آیات پڑھی جاتی ہیں تو وہ ان کو ایمان میں بڑھا دیتی ہیں اور وہ اپنے ربّ پر توکل کرتے ہیں۔ پھر فرمایاکہ: اَلَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ وَیُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَمِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ(البقرۃ: 04) وہ لوگ جوغیب پر ایمان لاتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور اس میں سے ہی جو ہم نے ان کو عطا کیا ہے وہ خرچ کرتے ہیں۔ پھر آگے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ: اُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّا۔ لَّھُمْ دَرَجٰتٌ عِنْدَ رَبِّھِمْ وَمَغْفِرَۃٌ وَّرِزْقٌ کَرِیْمٌ (الانفال: 5) کہ یہی ہیں جو کھرے اور سچے مومن ہیں۔ ان کے لئے ان کے ربّ کے حضور بڑے درجات ہیں اور مغفرت ہے اور بہت عزت والا رزق بھی۔

اللہ تعالیٰ نے یہاں ایک حقیقی مومن کی نشانیاں بیان فرمائی ہیں۔ جو ایمان کا دعوی کرتا ہے وہ صرف زبانی دعویٰ سے مومن نہیں بن جاتا۔ اس کی کچھ خصوصیات بھی ہوتی ہیں۔ وہ ابتلاؤں میں بھی اپنے ایمان کی حفاظت کرتا ہے اور کشائش میں بھی اپنی ایمانی حالت کی حفاظت کرتا ہے۔ اور جب یہ ہو تو وہ ان وعدوں سے حصہ لینے والا بن جاتا ہے، اُن وعدوں کا حق دار ٹھہرتا ہے جو ایک حقیقی مومن سے خدا تعالیٰ نے فرمائے ہیں۔ اگر یہ دعویٰ ایک شخص کا، ایک مومن کا ہے کہ اسے اللہ تعالیٰ پر ایمان ہے تو اس کا ہر قول و فعل خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ہونا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ کا نام صرف منہ پر یا زبان پر ہی نہ ہوبلکہ دل میں خدا تعالیٰ کی خشیت ہو۔ فرمایا کہ ایمان کی نشانی یہ ہے کہ اِذَا ذُکِرَاللّٰہُ وَجِلَتْ قُلُوْبُھُمْ کہ جب اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان کے دل ڈر جاتے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ ایک مومن کے لئے وہ محبوب ہستی ہے جس کی رضا ہر وقت اس کے پیشِ نظر رہتی ہے اور رہنی چاہئے۔ اور رضا کس طرح حاصل ہوتی ہے؟ اس کے احکامات پر عمل کر کے۔ پس ایمان صرف زبانی دعویٰ نہیں ہے بلکہ ایک عمل ہے جو مسلسل جاری رہنا چاہئے۔

پھر یہ نشانی ہے کہ آیات اسے ایمان میں بڑھاتی ہیں۔ یہ بہانے نہیں ہوتے کہ یہ باتیں مشکل ہیں اور ان پر عمل مشکل ہے یا یہ عمل تو میں کر لوں اور یہ نہ کروں، یا کر نہیں سکوں گا۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کے تمام احکامات پر کان دھرنا اور ان پر عمل کرنا، ان کو سننا، یہی ایک اصل مومن کی نشانی ہے۔

اس بات کو دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے یوں بھی بیان فرمایا ہے کہ اِذَا ذُکِّرُوْا بِاٰیٰتِ رَبِّھِمْ لَمْ یَخِرُّوْا عَلَیْھَا صُمًّا وَّ عُمْیَانًَا (الفرقان: 74) کہ جن کا ایمان حقیقی ہوتا ہے جب ان کے ربّ کی آیات انہیں یاد دلائی جاتی ہیں تو ان سے بہروں اور اندھوں کا معاملہ نہیں کرتے۔ پس زبانی دعویٰ کہ مَیں توحید پر یقین رکھتا ہوں، ایمان میں زیادتی کا باعث نہیں بنتا جب تک کہ اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے کی کوشش بھی نہ ہو۔ پس توحید کے قیام کی کوشش اس وقت کامیاب ہوتی ہے جب خدا تعالیٰ کی رضا کی خاطر انسان اپنے نفس کو قربان کرتا ہے اور جب ہر معاملہ میں کامل توکل اللہ تعالیٰ کی ذات پر ہوتا ہے۔

پھریہ آیات جو مَیں نے پڑھی ہیں ان میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ حقیقی مومن کی ایک نشانی نمازوں کا قیام ہے۔ اب اجتماعات میں اور ان کے بعد بھی ہر خادم کو، ہر احمدی کو، اس کا خاص اہتمام کرنا ضروری ہے۔ اجتماعوں میں تو خاص طور پر کہ نمازیں باجماعت ادا ہوں اور اس کے بعد بھی عام طور پر نمازوں کا قیام اور باجماعت ادا کرنا اور وقت پر ادا کرنا یہ بھی ضروری ہے۔ اسی طرح کچھ خدام جو ڈیوٹی والے یا اجتماعات میں شامل ہونے والے ہوتے ہیں ان کو چاہئے کہ وہ بھی اپنی نمازوں کا اہتمام کریں۔ ڈیوٹی کے بہانہ سے نمازیں ضائع نہ ہوں۔ اور پھر جیسا کہ مَیں نے کہا صرف اجتماع کے دنوں میں نہیں بلکہ عام دنوں میں بھی۔ جب ہماری ترقی اور فتوحات دعاؤں سے ہی وابستہ ہیں جس کے لئے بار بار حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں توجہ دلائی ہے تو پھر دعاؤں کا جو بہترین ذریعہ قیامِ نماز ہے، اس کی طرف توجہ دینے کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ توحید کے قیام کی کوشش اور اللہ تعالیٰ کو ہی معبودِ حقیقی سمجھنا ایک مسلمان کا یہی مقصد ہے۔ اور توحید کا قیام اور اللہ تعالیٰ کومعبودِ حقیقی سمجھنا بغیر نمازوں کی ادائیگی کے اور اس کے قیام کے ممکن ہو ہی نہیں سکتا۔ پانچ وقت کی نمازیں ہی ہیں جو ایک مومن کے بہت سے متوقع بتوں کو توڑنے کا باعث بنتی ہیں۔ اور خاص طور پر اس مادی دنیا میں تو یہ پانچ وقت کی نمازیں ہی ہیں جو توحید کے قیام کا باعث بنتی ہیں۔ ہمارے نفس کے اندر کے بتوں کو بھی توڑتی ہیں۔ اور ہمارے ظاہری اسباب کے بتوں کو بھی توڑتی ہیں۔ پس توحید کو قائم کرنے اور پھیلانے کے لئے یہ ایک بنیادی نسخہ ہے جسے ہمیشہ ہمیں یاد رکھنا چاہئے۔

پھر فرمایا  وَمِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْن۔ اور جو کچھ انہیں ہم نے دیا ہے اس میں سے وہ خرچ کرتے ہیں۔ دین کی اشاعت اور توحید کے قیام کے لئے خرچ کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ ایمان میں بڑھاتا ہے۔ پس مالی قربانیوں کی جو جماعت میں تحریک کی جاتی ہے وہ بھی اللہ تعالیٰ کے اس حکم کے تحت ہی ہے۔

پھر آخری آیت جو مَیں نے پڑھی ہے جس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ پہلی دو آیات میں بیان کردہ خصوصیات کا جوحامل ہے وہی اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں حقیقی مومن ہے اور جو اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں حقیقی مومن ٹھہر جائے وہ اللہ تعالیٰ کے حضور اس کے انعامات کا وارث بنتا ہے اور وہ انعامات یہ ہیں کہ دَرَجٰتٌ عِنْدَ رَبِّھِمْ کہ ان کے ربّ کے پاس ان کے لئے بڑے بڑے درجے ہیں۔ مَغْفِرَۃٌ، اس کے گناہوں کی بخشش ہے اور رِزْقٌ کَرِیْمٌ، اور معزز رزق ہے۔ یہ رزق اس دنیا کا بھی ہے اور آخرت کا بھی۔ پس ایمان میں زیادتی، ہدایت میں زیادتی  اللہ تعالیٰ کے انعامات کا وارث بناتی ہے۔ اور ایک مومن کا کام ہے کہ ایمان اور ہدایت میں زیادتی کے لئے اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کی کوشش میں ہر وقت لگا رہے۔ اور یہی حقیقی تقویٰ ہے جو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والا حاصل کرتا ہے۔ یعنی تقویٰ سے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی طرف قدم بڑھتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے سے تقویٰ میں ترقی ہوتی ہے۔

اللہ تعالیٰ ایک جگہ فرماتا ہے کہ: وَالَّذِیْنَ اھْتَدَوْا زَادَھُمْ ھُدًی وَّاٰتٰھُمْ تَقْوٰھُمْ (سورۃمحمد: 18) اور وہ لوگ جنہوں نے ہدایت پائی ان کو اس نے ہدایت میں بڑھا دیا اور ان کو ان کا تقویٰ عطا کیا۔

پس اٰتٰھُمْ تَقْوٰھُمْ ان کو ان کا تقویٰ عطا کیا یعنی اللہ تعالیٰ کی رضا کے معیار بڑھنے کے ساتھ ساتھ تقویٰ بھی بڑھتا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو جو اس کی طرف بڑھتے اور اس کی رضا کے طالب اور اس کے لئے کوشاں ہوتے ہیں انہیں نئے نئے راستے سکھاتا ہے جس کے حاصل کرنے سے ان کے تقویٰ کے معیار بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ اور پھر یہ بھی کہ اللہ اپنی رضا اور فضلوں کی چادر میں ایسے مومنوں کو لپیٹتا جاتا ہے۔ وہ پہلے سے زیادہ فضلوں کا وارث بنتے چلے جاتے ہیں۔ وہ اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آتے چلے جاتے ہیں۔ ان کی قربانیاں اللہ تعالیٰ کے حضور قبولیت کا درجہ پاتی ہیں۔ دشمنوں کی خوفزدہ کرنے کی کوشش مومنوں کو بجائے خوفزدہ کرنے کے اللہ تعالیٰ کا قرب دلانے کا باعث بنتی ہیں۔ نَحْنُ اَوْلِیٰٓؤُکُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَۃِ (حم السجدۃ: 32) کہ ہم دنیا میں بھی تمہارے ساتھ ہیں اور آخرت میں بھی تمہارے ساتھ ہیں۔ اس پر یقین بڑھتا چلا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات پر یہ یقین ہی تھا جس نے مسیح موسوی کے ماننے والوں کو قربانیوں پر آمادہ کیا۔ ہمارے ساتھ تو خدا تعالیٰ کے ان سے بڑھ کر وعدے ہیں۔ پس کوئی وجہ نہیں کہ ہم خدا تعالیٰ سے کبھی بھی بے وفائی کا اظہار کریں یا یہ سوچیں کہ اس کی عبادتوں سے کبھی غافل ہوں، توحید کے قیام کے لئے کوشش سے کبھی غافل ہوں۔ جیسا کہ مَیں نے کہا پاکستان اور بعض دوسرے ملکوں میں مسیح محمدی کے ماننے والوں کا ایک گروہ تو صبر اور دعا کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے ثباتِ قدم، استقامت اور رُشد و ہدایت مانگ رہا ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایمان اور ایقان میں اور ہدایت میں ترقی بھی کر رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس گروہ کی دعاؤں کو سن بھی رہا ہے۔ ان کے ایمانوں کی مضبوطی اور شیطانی حملوں کا مقابلہ اور بے خوفی اس بات کا ثبوت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی دعاؤں کو سنتے ہوئے ان کے دلوں کو تقویت بخشی ہے۔ وہ نوجوان بھی جو ابھی نوجوانی میں قدم رکھنے والے ہیں اور بڑی عمر کے جوان بھی، یہ تمام خدام بڑے جذبے اور شوق سے اور بغیر کسی خوف کے پاکستان میں اپنی جماعتی طور پر جو بھی ڈیوٹیاں لگائی جاتی ہیں یا جو فرائض دئیے جاتے ہیں ان کو ادا کر رہے ہیں۔ بعض بزرگ مجھے لکھتے ہیں کہ ان نوجوانوں کے جذبے کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔ آج کل پاکستان میں جماعت احمدیہ کی مساجد خاص طور پر انتظامیہ کی طرف سے اور پولیس کی طرف سے بڑی خطرناک جگہیں قرار دی گئی ہیں۔ لیکن وہاں ہمارے نوجوان ڈیوٹیوں پر جاتے ہیں تو لکھنے والے لکھتے ہیں کہ اگر کسی وجہ سے ایک خادم ڈیوٹی پر نہ آ سکے تو یہ نہیں کہ وہاں نوجوانوں کی کمی ہو جاتی ہے، دو دو تین تین اس کی جگہ تیار ہوتے ہیں اور کوشش کر رہے ہوتے ہیں کہ جو متبادل لینا ہے وہ ہمیں لیا جائے۔ گھر سے یہ کہہ کر جاتے ہیں کہ اگر ہم واپس آگئے تو ٹھیک ہے الحمدللہ اور اگر نہ آ سکے تو اللہ تعالیٰ اپنے وعدے ہمارے حق میں پورے فرمائے۔ یہ ایمان ہے جو ان کے دلوں میں قائم ہو رہا ہے۔ ایک عجیب جذبہ ہے جو مسیح محمدی کے یہ غلام دکھا رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے جذبوں کوجہاں ہمیشہ زندہ رکھے وہاں اپنے خاص فضل سے ان کی حفاظت بھی فرماتا رہے۔

آج مسیح محمدی کے ماننے والے نوجوان بھی ایک عجیب تاریخ رقم کر رہے ہیں۔ یہ بھی وہ نوجوان ہیں جو اپنے عہدوں کی پابندی اور توحید کے قیام کے لئے کسی سے پیچھے نہیں۔ حقیقت میں یہ وہ لوگ ہیں جو اپنی جان، مال، وقت اور عزت کی قربانی کے لئے ہر وقت تیار بیٹھے ہیں۔ یقینا یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے والے ہیں۔ پس تقویٰ پر قدم مارتے ہوئے اور عبادتوں کے معیار بڑھاتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کو پہلے سے بڑھ کر حاصل کرتے چلے جائیں۔ آج خدام الاحمدیہ کا اجتماع ہے تو آپ لوگ جو میرے سامنے یہاں بیٹھے ہیں یا اجتماع گاہ میں بیٹھے ہیں اور میرے براہِ راست مخاطب ہیں، جن کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اجتماعات کرنے کی بھی آزادی ہے اور اپنی مرضی سے جو پروگرام بھی ترتیب دینا چاہیں اس پر عمل کرنے کی بھی آزادی ہے۔ جن کو تربیتی پروگرام بنانے کی آزادی بھی ہے اور جن کو تبلیغ کے پروگرام بنانے کی آزادی بھی ہے۔ آپ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں۔ صرف اجتماع کے یہ تین دن ہی آپ میں عارضی تبدیلی کا باعث نہ بنیں بلکہ ایک مستقل تبدیلی اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ تقویٰ کے معیار بڑھائیں۔ عبادتوں کے معیار بڑھائیں۔ مغرب کی بیہودہ کشش آپ کو اپنی طرف راغب کرنے والی نہ بن جائے۔ اپنے ان بھائیوں کی قربانیوں کو ہمیشہ سامنے رکھیں جو اپنے ایمانوں میں مضبوطی پیدا کرتے ہوئے احمدیت یعنی حقیقی اسلام کے جھنڈے کو بلند رکھنے کے لئے ہر کوشش کر رہے ہیں۔ اپنی وفاؤں اور اپنے عہدوں کو پورا کرنے کے لئے ہر قربانی دے رہے ہیں۔ پس آپ اس آزادی کے شکرانے کے طور پر جہاں اپنی عبادتوں اور تقویٰ کے معیار کو بلند کریں وہاں احمدیت کا پیغام ہر جگہ پہنچانے کے لئے بھر پور کردار بھی ادا کریں۔ ہر ذریعۂ تبلیغ کو استعمال کرنے کی کوشش کریں۔ جدید ذرائع کا استعمال نوجوان زیادہ بہتر طور پر کر سکتے ہیں۔ آج کل احمدی نوجوانوں نے دو طرفہ محاذوں پر اپنا کردار ادا کرنا ہے، یعنی بیرونی محاذ جو ہے اس کی دو قسمیں ہیں۔ نفس کی اصلاح جو اندرونی محاذ ہے وہ تو ہے ہی، اس کے علاوہ بیرونی محاذ بھی دو طرح کے ہیں۔ ایک طرف تو اسلام کے خلاف مہم میں حصہ لے کر اسلام کا دفاع کرنا ہے اور دوسرے احمدیت کے خلاف جو حملے ہیں ان میں دفاع کرنا ہے۔ مختلف ویب سائٹس ہیں ان میں مختلف قسم کے بیہودہ قسم کے اعتراضات آتے ہیں، ان کو سچائی کے پیغام سے بھر دیں۔ ایک ایسا منظم لائحہ عمل تیار کیا جائے کہ ان سب ویب سائٹس کو اپنی سچائی کے پیغام سے بھر دیں۔ اگر علم میں کمی ہے تو اپنے بڑوں اور مبلغین سے مدد لیں۔ آج دنیا میں رہنے والے ہر خادم کو ان مہمات کا حصہ بننے کی ضرورت ہے۔ تبھی توحید کے قیام میں حقیقی کردار ادا کر سکیں گے۔ مسیح موسوی کے نوجوان تو محدود علاقوں میں اپنا کردار ادا کرتے رہے۔

مسیح محمدی کے خدام تو نئے ذرائع کے ذریعے سے تمام دنیا میں ایک انقلاب پیدا کر سکتے ہیں۔ پس اس بات پر خاص توجہ دیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔

آخر میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک اقتباس بھی آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔ آپؑ فرماتے ہیں۔ ’’اے میری جماعت! خدا تعالیٰ آپ لوگوں کے ساتھ ہو، وہ قادر کریم آپ لوگوں کو سفرِ آخرت کے لئے ایسا طیّار کرے جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب طیّار کئے گئے تھے۔ خوب یاد رکھو کہ دنیا کچھ چیز نہیں ہے۔ لعنتی ہے وہ زندگی جو محض دنیا کے لئے ہے اور بدقسمت ہے وہ جس کا تمام ہم و غم دنیا کے لئے ہے۔ ایسا انسان اگر میری جماعت میں ہے تو وہ عبث طور پر میری جماعت میں اپنے تئیں داخل کرتا ہے کیونکہ وہ اس خشک ٹہنی کی طرح ہے جو پھل نہیں لائے گی۔

اے سعادتمند لوگو! تم زور کے ساتھ اس تعلیم میں داخل ہو جو تمہاری نجات کے لئے مجھے دی گئی ہے۔ تم خدا کو واحد لا شریک سمجھو اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک مت کرو۔ نہ آسمان میں سے، نہ زمین میں سے۔ خدا اسباب کے استعمال سے تمہیں منع نہیں کرتا لیکن جو شخص خدا کو چھوڑ کر اسباب پر ہی بھروسہ کرتا ہے وہ مشرک ہے۔ قدیم سے خدا کہتا چلا آیا ہے کہ پاک دل بننے کے سوا نجات نہیں۔ سو تم پاک دل بن جاؤ اور نفسانی کینوں اور غصوں سے الگ ہو جاؤ۔ انسان کے نفسِ امّارہ میں کئی قسم کی پلیدیاں ہوتی ہیں مگر سب سے زیادہ تکبر کی پلیدی ہے۔ اگر تکبر نہ ہوتا تو کوئی شخص کافرنہ رہتا۔ سو تم دل کے مسکین بن جاؤ۔ عام طور پر بنی نوع کی ہمدردی کرو۔ جبکہ تم انہیں بہشت دلانے کے لئے وعظ کرتے ہو۔ سو یہ وعظ تمہارا کب صحیح ہو سکتا ہے اگر تم اس چند روزہ دنیا میں ان کی بدخواہی کرو۔ خدا تعالیٰ کے فرائض کو دلی خوف سے بجا لاؤ کہ تم ان سے پوچھے جاؤ گے۔ نمازوں میں بہت دعا کرو کہ تا خدا تمہیں اپنی طرف کھینچے اور تمہارے دلوں کو صاف کرے کیونکہ انسان کمزور ہے، ہر ایک بدی جو دور ہوتی ہے وہ خدا تعالیٰ کی قوت سے دور ہوتی ہے۔ اور جب تک انسان خدا سے قوت نہ پاوے کسی بدی کے دور کرنے پر قادر نہیں ہو سکتا۔ اسلام صرف یہ نہیں ہے کہ رسم کے طور پر اپنے تئیں کلمہ گو کہلاؤ بلکہ اسلام کی حقیقت یہ ہے کہ تمہاری روحیں خدا تعالیٰ کے آستانے پر گر جائیں۔ اور خدا اور اس کے احکام ہر ایک پہلو کے رو سے تمہاری دنیا پر تمہیں مقدم ہو جائیں‘‘۔ (تذکرۃ الشہادتین روحانی خزائن جلد 20صفحہ 63)

اللہ تعالیٰ ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ان ارشادات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔


  • خطبہ کا مکمل متن
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 24؍ ستمبر 2010ء شہ سرخیاں

    پاکستان سے خلیفۂ وقت کی ہجرت سے پہلے تمام ذیلی تنظیموں کے اجتماعات میں خلیفۂ وقت کی شمولیت ہوتی تھی اور پاکستان سے تمام متعلقہ ذیلی تنظیموں کے نمائندے اجتماعات میں شرکت کیا کرتے تھے جس سے ربوہ کی رونقیں بھی دوبالا ہو جایا کرتی تھیں۔ UK کے خدام الاحمدیہ کے اجتماع نے مجھے بچپن اور جوانی کے اجتماعات کی یادیں دلا دی تھیں اور ساتھ ہی ان مظلوموں کی یاد بھی جو ظالموں کے ظالمانہ قوانین کا شکار ہو کر اپنے اس حق سے بھی محروم کر دئیے گئے ہیں کہ اپنی اصلاح، تربیت اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے ذکر کے لئے جمع ہو کر اس مجلس اور اجتماع کا انعقاد کر سکیں۔ گزشتہ اٹھائیس سالوں سے مسیح محمدی کے یہ غلام اپنے ایمانوں اور اپنے عَہدوں کی حفاظت ہر طرح قربانی کر کے کرتے چلے جا رہے ہیں۔ مَیں بھی اور آپ بھی اس یقین پر قائم ہیں کہ یہ حالات ہمیشہ کے لئے نہیں ہیں۔ انشاء اللہ تعالیٰ ایک دن یہ ظلم بھی اور ظالم بھی صفحہ ہستی سے مٹا دئیے جائیں گے۔

    اللہ تعالیٰ ہمیں صبر، استقامت اور دعا سے کام لیتے چلے جانے کی توفیق عطا فرماتا رہے۔

    اگر چند ملکوں میں احمدیوں کے حقوق اور آزادی کو سلب کیا گیا ہے تو آسٹریلیا، افریقہ، امریکہ، اور جزائر کے رہنے والے احمدی آزادی کی زندگی بھی گزار رہے ہیں۔ ان کے لئے صحیح اسلامی تعلیم پر عمل کرنے اور اسے اپنی زندگیوں پر لاگو کرنے کے راستے کھلے ہیں۔ تبلیغ کے میدان بھی کھلے ہیں۔ پس ان ممالک کے رہنے والے احمدیوں سے  مَیں کہتا ہوں کہ اس سہولت، کشائش اور آزادی اور آزاد زندگی کو اپنے مقصود کے حصول کا ذریعہ بنا لیں۔ جہاں اپنی عبادتوں اور تقویٰ کے معیار کو بلند کریں وہاں احمدیت کا پیغام ہر جگہ پہنچانے کے لئے بھر پور کردار بھی ادا کریں۔ ہر ذریعۂ تبلیغ کو استعمال کرنے کی کوشش کریں۔ جدید ذرائع کا استعمال نوجوان زیادہ بہتر طور پر کر سکتے ہیں۔ مختلف ویب سائٹس ہیں ان میں مختلف قسم کے بیہودہ قسم کے اعتراضات آتے ہیں، ان کو سچائی کے پیغام سے بھر دیں۔ اگر علم میں کمی ہے تو اپنے بڑوں اور مبلغین سے مدد لیں۔ آج دنیا میں رہنے والے ہر خادم کو ان مہمات کا حصہ بننے کی ضرورت ہے۔ تبھی توحید کے قیام میں حقیقی کردار ادا کر سکیں گے۔

    مسیح موسوی کے نوجوان تو محدود علاقوں میں اپنا کردار ادا کرتے رہے۔ مسیح محمدی کے خدام تو نئے ذرائع کے ذریعے سے تمام دنیا میں ایک انقلاب پیدا کر سکتے ہیں۔ (مجلس خدام الاحمدیہ برطانیہ کے سالانہ اجتماع کے حوالہ سے دنیا بھر کے خدام کو اللہ تعالیٰ کی خشیت پیدا کرنے، نمازوں کے قیام، عبادتوں کے معیار کو بلند کرنے، خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے اور تبلیغ جیسی اہم ذمہ داریوں کی طرف خصوصی توجہ دینے کی پُر اثر نصائح)

    فرمودہ مورخہ 24؍ستمبر 2010ء بمطابق 24؍تبوک 1389 ہجری شمسی، بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن (برطانیہ)

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور