جماعت احمدیہ کے لئے 2010ء ایک بابرکت سال
خطبہ جمعہ 31؍ دسمبر 2010ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
آج اس سال کا آخری دن ہے، یعنی گریگورین کیلنڈر کے حساب سے جو آج کل دنیا میں رائج ہے یہ آخری دن ہے۔ گو کہ اسلامی سال کے پہلے مہینے کا آخری عشرہ بھی شروع ہو چکا ہے لیکن چونکہ دنیا میں اس وقت رائج کیلنڈر یہی ہے جس کو مسلمان بھی اور غیر مسلم بھی سب اچھی طرح جانتے ہیں اور یہی تمام دنیا میں اب رواج پا چکا ہے۔ اس لئے عموماً نئے سال کے شروع ہونے کی مبارکبادیں بھی اس کیلنڈر کے حساب سے دی جاتی ہیں۔ اور رواں سال کے آخری دن کو بھی اسی حساب سے الوداع کہا جاتا ہے۔ عموماً الوداع کہنے کا رواج تو کم ہے لیکن نئے سال کے پہلے دن کا استقبال بڑے ذوق اور شوق اور شور و غل اور ہنگامے سے کیا جاتا ہے۔ اور اس استقبال میں دنیا کے ہر ملک اور ہر قوم کا باشندہ اپنی اپنی بساط اور رواج کے مطابق حصہ لیتا ہے تو بہر حال جیسا کہ مَیں نے کہا، آج کے دن کا ذکر اس لئے ہے کہ آج یہ اس سال کا، 2010ء کا آخری دن ہے۔ ہر سال آخری دن آتا ہے اور گزر جاتا ہے، کوئی اہمیت نہیں ہے، لیکن اس سال ہمارے لئے سال کا یہ آخری دن بھی مبارک ہے۔ اس لئے کہ اس سال کا اختتام آج جمعہ کے بابرکت دن سے ہو رہا ہے۔ یہ 2010ء کا سال جس کا آغاز بھی جمعہ سے ہوا تھا، جو بابرکت دن تھا اور جس کا اختتام بھی جمعہ سے ہو رہا ہے جو جیسا کہ مَیں نے کہا ایک بابرکت دن ہے۔ کہنے والے کہہ سکتے ہیں اور کہتے بھی ہیں کہ اچھا بابرکت دن ہے۔ بعض فتنہ پرداز، بعض مخالفین بھی احمدیوں کے جذبات کو انگیخت کرنے کے لئے کہ تمہارے لئے اچھا سال ہے جس میں جماعت احمدیہ کو تقریباً سو افراد کی جان کی قربانی دینی پڑی، سو گھر اپنے باپوں، خاوندوں اور بچوں کے لئے رو رہا ہے۔ اگر بعض غیر از جماعت لوگوں نے ہماری شہادتوں پر ہمدردی کا اظہار کیا ہے تو ایسے بھی ظالم ہیں اور کافی تعداد میں ہیں جو سخت دل ہیں، جنہوں نے ان شہادتوں کے حوالے سے سخت الفاظ استعمال کئے ہیں اور کرتے چلے جا رہے ہیں۔ بلکہ مسلسل دھمکیاں بھی ہیں کہ ہم ابھی بہت کچھ تم سے کریں گے۔ یہ لوگ انسانیت سے عاری ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے ساتھ خدا تعالیٰ کے سلوک کو نہیں دیکھا کہ خدا تعالیٰ اُن سے کیا کر رہا ہے۔ جن آفات نے انہیں گھیرا ہے اُس سے عبرت حاصل نہیں کی بلکہ اس کا بھی الٹا اثر ہو رہا ہے۔ اور اُن کی حالت قرآنِ کریم میں جو اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائی ہے، قَسَتْ قُلُوْبُھُم(الانعام: 44) والی ہے۔ اُن کے دل ان چیزوں کو دیکھ کر اور بھی سخت ہو گئے ہیں اور شیطنت میں بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ وَزیَّنَ لَھُمُ الشَّیْطٰنُ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ (الانعام: 44) اور شیطان نے جو وہ کرتے تھے انہیں اور بھی خوبصورت کر کے دکھایا، یہ لوگ اس چیز کا مصداق بن رہے ہیں۔ پس یہ لوگ اس بات پر خوش نہ ہوں کہ احمدیوں کی جانیں ہم نے لے لی ہیں اور ہم مزید تنگ کریں گے، مزید ان پر تنگیاں وارد کرنے کی کوشش کریں گے۔ جو کچھ ان کو شیطان نے خوبصورت کر کے دکھایا ہے اس کا ذکر تو خدا تعالیٰ نے پہلے ہی قرآن شریف میں فرمادیا ہے کہ ایسے لوگ یہی کچھ کیا کرتے ہیں اور اس کے بعد خدا تعالیٰ نے ایسے لوگوں کے لئے ایک بہت سخت انذار بھی کیا ہے۔ جہاں تک ہمارے شہیدوں کے گھروں کا تعلق ہے۔ انہوں نے تو ان شہادتوں پر کسی بھی قسم کا جزع فزع کرنے کی بجائے اپنے جذبات کو خدا تعالیٰ کے حضور اس طرح پیش کیا کہ ان کی سوچوں کے دھارے ہی بدل گئے ہیں۔ مختلف ممالک سے مَیں نے شہداء کے لواحقین سے ملنے کے لئے وہاں کے مقامی احمدیوں کو بھجوایا تھا۔ اور یہ وفود جب شہداء کی فیملیوں سے مل کر آتے ہیں تو اپنے ایمانوں میں بھی ترقی پاتے ہیں۔
گزشتہ دنوں افریقہ کے بعض ممالک سے وفود بھجوائے تھے۔ ان میں ایک وفد غانا کا تھا۔ اُس میں غانا کے امیر اور مشنری انچارج وہاب آدم صاحب بھی تھے اور ایک اور احمدی دوست تھے، طاہرھامنڈ (Homond) صاحب جو گھانین احمدی ہیں اور گھانا کی پارلیمنٹ کے ممبر بھی ہیں۔ یہ لوگ واپسی پر مجھ سے مل کر گئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان شہداء کے عزیزوں، والدین، بیوی بچوں سے مل کر ہمارے ایمان میں اضافہ ہوا۔ جو رویے ہم نے وہاں دیکھے ہیں ہم سوچ ہی نہیں سکتے تھے۔ ہم انہیں تسلی دیتے تھے تو وہ آگے سے ہمیں ایمان کی مضبوطی کا اظہار کرتے ہوئے تسلی دیتے تھے۔ یہ دوست کہتے ہیں کہ ہماری آنکھوں میں جذبات سے مغلوب ہو کر آنسو آتے تھے تو وہ کہتے تھے ہمیں تو ہمارے جانے والے تمغے لگا گئے ہیں۔ تو اُن شہداء کے خاندانوں کا یہ رویہ تھا اور ہے۔ ایک احمدی طالب علم جو تھوڑا عرصہ ہوا یہاں یو۔ کے میں تعلیم کے لئے آئے ہیں، کل ہی مجھے ملنے آئے تھے۔ اُس نے مجھے بتایا کہ آج مَیں آپ سے اپنی ماں کی ہمت کی ایک بات کرنا چاہتا ہوں۔ اس طالب علم لڑکے کو مسجد میں دو گولیاں لگی تھیں۔ کہتا ہے مَیں جو زخمی ہوا ہوں تو ماں کو فون کر کے بتایا کہ اس طرح گولیاں لگی ہیں اور خون بہہ رہا ہے تو ماں نے جواب دیا کہ بیٹا میں نے تمہیں خدا کے سپرد کیا۔ اگر شہادت مقدر ہے، خبریں آ رہی ہیں، لوگ شہید ہوئے ہیں تو جرأت سے جان اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کرنا۔ کسی قسم کی بزدلی نہ دکھانا۔ بہر حال اس بچے کو اللہ تعالیٰ نے محفوظ کیا۔ آپریشن سے گولی نکال دی گئی۔ تو جس قوم کی ایسی مائیں ہوں جو اپنے بیٹوں کو شہادت کے لئے تیار کر رہی ہوں، ایسے لواحقین جن شہداء کے ہوں جو افسوس پر آنے والوں کو تسلی دلا رہے ہوں تو ایسا جان دینا جو ہے وہ خدا تعالیٰ کی ناراضگی یا سزا کے طور پر نہیں ہوا کرتا۔ دلوں کی تسلی اور تسکین کے لئے یہ سامان خدا تعالیٰ کے خاص فضل سے ہوتے ہیں۔ میں نے پہلے بھی بتایا تھا کہ مَیں تو جب بھی شہداء کے لواحقین سے بات کرتا ہوں تو پُر عزم آوازیں ہی سننے میں ملتی ہیں۔ پس غیر ممالک سے افسوس کے لئے جانے والوں کے ایمان میں اضافہ، ماؤں کا اپنے بیٹوں کو شہادت کے لئے تیار کرنا اور پُر عزم جذبات کا اظہار، یہ خدا تعالیٰ کا فضل نہیں تو اور کیا چیز ہے؟ پس ہم تو وہ قوم ہیں جو دشمن سے ڈر کر کبھی اپنے خدا کا دامن نہیں چھوڑتے۔ ہم تو وہ قوم ہیں جو خوف اور بھوک اور مال اور جان کی قربانی کرنے سے ڈر کر خدا تعالیٰ کا دامن چھوڑنے والے نہیں۔ اپنے پیارے خدا سے بے وفائی کرنے والے نہیں۔ بلکہ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ کہہ کر پھر اپنے خدا کے پیار کو حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں تا کہ اپنے پیارے خدا کی رضا حاصل کر کے خوش قسمت لوگوں میں شامل ہو جائیں۔ جو اللہ تعالیٰ کی رضا کی جنت حاصل کرنے والے ہیں اُن لوگوں میں شامل ہو جائیں۔ بہت سے ایسے ہیں جو مجھے خط لکھتے ہیں اور یقین دلاتے ہیں کہ وہ ان لوگوں میں ہیں جن کے بارہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ وَمِنْہُمْ مَّنْ یَّنْتَظِرُ (الاحزاب: 24) اور ان میں سے ایسے بھی ہیں جو انتظار کر رہے ہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ کے ہاں اُن سے قربانی لینا ہی مقدر ہے تو انشاء اللہ تعالیٰ وہ اس میدان میں ثابت قدم رہیں گے۔ پس کسی کا یہ اعتراض کہ کس طرح تم سال کے ابتداء اور سال کے اختتام کے بابرکت ہونے اور سال کے بابرکت ہونے کی بات کرتے ہو، ان پُر عزم اور خدا کی رضا حاصل کرنے والے لوگوں کے جواب سے باطل ہو جاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے جس کثرت سے اس سال احمدیت کے خوبصورت پیغام کو دنیا کے امیر ملکوں میں بھی اور دنیا کے غریب ملکوں میں بھی متعارف کروانے کا سامان پیدا فرمایا ہے یہ خدا تعالیٰ کے بے انتہا فضلوں اور برکتوں کا ہی نظارہ ہے۔ اس سال میں ان شہداء کی قربانیوں نے جس طرح ہمیں اپنے جذبات پر کنٹرول رکھتے ہوئے اسلام کے خوبصورت اور پُر امن پیغام کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کا موقع دیا ہے، اس کثرت سے جماعت کا تعارف اور اسلام کا پیغام پہلے کبھی نہیں پہنچا۔ مختلف ذرائع، مختلف میڈیا، چاہے وہ یورپ میں ہے، امریکہ میں ہے، افریقہ میں ہے، ایشیا میں ہے یہ سب دوسرے ذرائع اور میڈیا استعمال ہوئے۔ قومیں اپنے مقاصد میں قربانیاں دے کر ہی کامیاب ہوتی ہیں۔ یہ قربانیاں جو شہدائے پاکستان نے دی ہیں، دیتے رہے ہیں، جس کی انتہا 2010ء کے سال میں بھی ہوئی، یہ قربانیاں انشاء اللہ کبھی رائیگاں نہیں جائیں گی بلکہ نہیں جا رہیں۔ جیسا کہ مَیں نے کہا کہ احمدیت کا پیغام اور تعارف اسلام کی امن پسند تعلیم کا پیغام دنیا کے ہر کونے میں کثرت سے پہنچنا، یہ ان قربانیوں کا ہی نتیجہ ہے اور یہ سلسلہ چلتا چلا جا رہا ہے۔ یقینا یہ بات ان قربانیوں کی قبولیت کا ایک حصہ ہے، ایک جزو ہے اور آئندہ دنیا کے افق پر احمدیت کی جو فتوحات اُبھر رہی ہیں، وہ اس سے بہت بڑھ کرانشاء اللہ تعالیٰ اس چمک کا نظارہ دکھانے والی ہیں۔ پس ہمارا کام یہ ہے کہ جس طرح ہمارے قربانیاں کرنے والوں کی قربانیوں کو قبول کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے انہیں اُن لوگوں کے زمرہ میں شامل فرمایا ہے، جن کے بارے میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَمْوَاتاً بَلْ اَحْیَآئٌ عِنْدَ رَبِّہِمْ یُرْزَقُونَ (سورۃ آل عمران آیت 170)۔ جو لوگ اپنے ربّ کے حضور مارے گئے تم انہیں مردہ نہ سمجھو بلکہ وہ زندہ ہیں اور انہیں رزق دیا جاتا ہے۔ پس وہ تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس دائمی رزق کو پانے والے ہیں جو ہر لمحہ اُن کے درجات بلند کر رہا ہے۔ یہاں اموات کے لفظ کے ساتھ اس آیت کا یہ مطلب بھی ہوگا کہ جس کا خون رائیگاں نہیں جاتا۔ اور دوسرے یہ کہ جو اپنے پیچھے اپنے نقشِ قدم پر چلنے والے چھوڑ جاتے ہیں۔ پس ہمیں دعا کرنی چاہئے کہ ہم نیکیوں میں بڑھنے کے لئے اپنے قربانیاں کرنے والوں کی نیکیوں کو بھی زندہ رکھیں۔ اللہ تعالیٰ کے فرشتے ان کی قربانیوں کی وجہ سے جو کامیابیاں ملی ہیں ان سے بھی انہیں آگاہ کرتے رہتے ہیں۔ جس پر وہ اپنی زندگیاں قربان کرنے کے بعد بھی خوش ہوتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی رضا بھی حاصل کر لی اور ان کی قربانیاں بھی انتہائی نتیجہ خیز ثابت ہوئیں۔ اس کا نقشہ سورۃ آلِ عمران میں اس طرح کھینچا گیا ہے کہ فَرِحِیْنَ بِمَآ اٰتٰہُمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ وَیَسْتَبْشِرُوْنَ بِالَّذِیْنَ لَمْ یَلْحَقُوْا بِہِمْ مِنْ خَلْفِہِمْ اَلَّا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ (سورۃ ال عمران آیت نمبر171) بہت خوش ہیں اس بات پر جو اللہ نے اپنے فضل سے انہیں دیا ہے اور وہ خوشخبریاں پاتے ہیں اپنے پیچھے رہ جانے والوں کے متعلق جو ابھی اُن سے نہیں ملے کہ ان پر بھی کوئی خوف نہیں ہو گا اور وہ غمگین نہیں ہوں گے۔
پس ان شہداء کی قربانیاں ہمارے ایمانوں میں بھی اضافے کا باعث بن رہی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی اس خوشخبری کو سن کر کہ وہ خوشخبریاں پارہے ہیں اور پیچھے رہنے والوں کے بارہ میں خوشخبریاں پا رہے ہیں، اس بارہ میں بہت سے خطوط خط لکھنے والے شہداء کے ورثاء مجھے لکھتے ہیں کہ ہم خواب میں فلاں شہید کو ملے، اپنے شہید کو ملے، بھائی کو ملے، باپ کو ملے، بیٹے کو ملے۔ اُس نے کہا کہ مَیں بہت خوش ہوں۔ یہاں عجیب نرالہ سلوک مجھ سے ہو رہا ہے۔ تم لوگ تو اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ جب ہم اُن سے اُن کی خوشی کے اظہار سن کر اس یقین پر پختہ ہوتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کو خاص رزق دے رہا ہے، اُن کے لئے خوشی کے سامان بہم پہنچا رہا ہے تو اس بات پر بھی ہمارا یقین بڑھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ پیچھے رہ جانے والوں کی کامیابیوں کے بارہ میں جو انہیں خوشخبریاں دے رہا ہے وہ بھی انشاء اللہ تعالیٰ ضرور سچ ثابت ہوں گی اور ہو رہی ہیں۔ جب اللہ تعالیٰ کی تقدیر ایک فیصلہ کر کے چلتی ہے تو پھر تدریجی نتائج پیدا کرتے ہوئے وہ اپنے عروج پر پہنچتی ہے۔ بندے کو بظاہر پتہ نہیں چل رہا ہوتا لیکن جب آخری نتیجہ نکلتا ہے تو پھر اسے پتہ چلتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے وعدے کتنے سچے ہیں۔ وہ کتنے سچے وعدوں والا خدا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کے وعدوں سے زیادہ سے زیادہ اور جلدی فیض پانے کے لئے اللہ تعالیٰ کے ساتھ پہلے سے بڑھ کر چمٹنے کی ضرورت ہے۔ ہم اپنی قربانیاں کرنے والوں کے نیک اعمال کا ذکر کرتے ہیں، اُن کی نیکیوں کا ذکر کرتے ہیں، مختلف خصوصیات کا ذکر کرتے ہیں تو ہمیں اپنے اعمال کے جائزے لینے کی بھی ضرورت ہے تا کہ ہم اللہ تعالیٰ کی تقدیر کے تحت جماعت کو جو کامیابیاں ملنی ہیں، جن کی خبریں اللہ تعالیٰ کی راہ میں جان قربان کرنے والوں کو بھی اللہ تعالیٰ فرشتوں کے ذریعے دیتا ہے، ہم بھی اُن کامیابیوں کا حصہ بن جائیں۔ اس بابرکت دن ’’جمعہ‘‘ کا مَیں نے ذکر کیا ہے تو اس سال اللہ تعالیٰ نے عموم سے ہٹ کر جو کبھی کبھی واقع ہوتا ہے ایک خصوصیت ہمیں دی ہے۔ اس سال میں اس خصوصیت سے گزارا ہے جیسا کہ مَیں نے پہلے بھی ذکر کیا کہ ابتداء بھی جمعہ سے اور انتہا بھی جمعہ سے۔ اور اس طرح عموماً سال کے باون جمعہ ہوتے ہیں، اس سال ترپّن جمعہ ہمیں ملے۔ اور حدیث کے مطابق جمعہ وہ دن ہے جس میں ایک ایسی گھڑی آتی ہے جس میں اللہ تعالیٰ بندے کی دعا خاص طور پر قبول فرماتا ہے۔ (ماخوذاز بخاری کتاب الطلاق باب فی الاشارۃ فی الطلاق والامور حدیث نمبر 5294)
مَیں امید کرتا ہوں اور پہلے بھی کئی دفعہ توجہ دلا چکا ہوں کہ ہم نے اپنی کوشش کے مطابق اپنے جمعے دعاؤں میں گزارنے کی کوشش کی ہو گی۔ ہمارے شہداء جو لاہور میں شہید ہوئے یا چند ایک جو مردان میں بھی مثلاً ایک شہید ہوئے، انہوں نے بھی جمعے کے دن دعائیں کرتے ہوئے اپنی جانیں اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کی ہیں۔ یقینا اُن دعاؤں نے جنت میں ان کے لئے جہاں بہترین رزق کے سامان پیدا کئے ہوں گے وہاں یہ دعائیں پیچھے رہنے والوں اور جماعت کی ترقی کی انہیں خوشخبریاں بھی پہنچانے کا باعث بن رہی ہوں گی۔ آج پھر اس آخری دن کے جمعہ کو ہمیں اپنی خاص دعاؤں میں گزارنا چاہئے۔
جمعہ کا دن جہاں بابرکت ہے وہاں ابنِ آدم کے لئے اس دن میں خوف کا پہلو بھی ہے۔ کیونکہ حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جمعہ کا دن دنوں کا سردار ہے اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ عظیم ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک یوم الاضحی اور یوم الفطر سے بھی بڑھ کر ہے۔ اس دن کی پانچ خصوصیات ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس دن حضرت آدم کو پیدا کیا، اس دن اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم کو زمین پر اتارا۔ اُس دن اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم کو وفات دی اور اس دن میں ایک گھڑی ایسی بھی آتی ہے کہ اس میں بندہ حرام چیز کے علاوہ جو بھی اللہ سے مانگے تو وہ اسے عطا کرتا ہے اور اسی دن قیامت برپا ہو گی۔ مقرب فرشتے، آسمان اور زمین اور ہوائیں اور پہاڑ اور سمندر اس دن سے خوف کھاتے ہیں۔ (سنن ابن ماجہ۔ کتاب اقامۃ الصلوۃ والسنۃ فیہا باب فی فضل الجمعۃ حدیث نمبر 1084)
پس اس دن کا فیض پانے کے لئے اپنی زندگیاں اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے گزارنے کی ضرورت ہے۔ اس دن جہاں نیک اعمال کرنے والوں کے جنت میں جانے کے سامان ہیں تو شیطان کے بھرّے میں آ کر غلط کام کر کے، غلط عمل کر کے جنت سے نکلنے کی بھی خبر ہے۔ اور پھر ہم جواس زمانے کے آدم کے ماننے والے ہیں، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی خدا تعالیٰ نے آدم کہہ کر مخاطب فرمایا ہے، جس کو اللہ تعالیٰ نے خلیفہ اور سلطان بنایا ہے۔ پس اس آدم کے ذریعہ اب دنیا میں بھی جنت قائم ہونی ہے جس نے اخروی جنت کے بھی سامان کرنے ہیں۔ جب آپ کے ذریعہ نئی زمین اور نیا آسمان بننا ہے تو وہ کوئی مادّی زمین اور مادّی آسمان تو نہیں بننا بلکہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس غلامِ صادق کے ذریعے اسلام کی حقیقی تعلیم پر عمل کرنے والے پیدا ہوں گے جو خدا کی رضا کے حصول کو ہمیشہ پیشِ نظر رکھیں گے۔ دنیا میں روحانی نظام کے قیام کے لئے نئی زمین اور نئے آسمان بنانے کی کوشش کریں گے۔ قربانیوں کے اعلیٰ معیار پر قائم ہوں گے۔ اعمالِ صالحہ بجا لانے والے ہوں گے اور اعمالِ صالحہ میں اضافہ کرنے والے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول ان کے پیشِ نظر ہو گا۔ پس اگر تو ہم نے اس زمانے کے امام کے ساتھ کئے گئے خدا تعالیٰ کے وعدوں سے فیض پانا ہے اور دونوں جہان کی نعمتوں سے حصہ لینا ہے تو ایسے اعمال کی ضرورت ہے جو خدا تعالیٰ کا قرب دلانے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ کے چھوٹے سے چھوٹے حکم سے لے کر ہر بڑے حکم پر اپنی تمام تر استعدادوں کے ساتھ عمل کرنے کی ضرورت ہے تا کہ ہم اس ترقی کا حصہ بن جائیں جو آپؑ کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے مقدر فرمائی ہے۔ اُن خوشخبریوں کا حصہ بن جائیں جو ہمارے قربانی کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ دکھا رہا ہے۔
پس ہمیں صرف اس بات پر ہی تسلی نہیں پکڑنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ قربانیوں کو ضائع نہیں کرتا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ مَیں تجھے فتوحات دوں گا، یہ تو ہو گا اور انشاء اللہ تعالیٰ یقینا ہو گا لیکن ہمیں اپنی حالتوں کے جائزے لینے کی بھی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَھُمْ اَجْرٌ غَیْرُ مَمْنُوْن (حم السجدۃ: 9)۔ یقینا وہ لوگ جو ایمان لائے اور اس کے مطابق نیک عمل بھی کئے اُن کے لئے نہ ختم ہونے والا اجر ہے۔ پس ایمان لا کر پھر نیک اعمال بھی ضروری ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ’’مَیں اپنی جماعت کو مخاطب کر کے کہتا ہوں کہ ضرورت ہے اعمالِ صالحہ کی، خدا تعالیٰ کے حضور اگر کوئی چیز جا سکتی ہے تو وہ یہی اعمالِ صالحہ ہیں‘‘۔ (ملفوظات جلد 1صفحہ14۔ مطبوعہ ربوہ)
پس ایمان لانے کے بعد عملِ صالح انتہائی ضروری ہے۔ اور عملِ صالح یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکموں کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالنا۔ پھر جو اجر ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق نہ ختم ہونے والے اجر ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں اعمالِ صالحہ کی اہمیت ایک جگہ اس طرح بیان فرمائی ہے کہ وَبَشِّرِالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُواالصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَھُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْا َنْھٰرُ۔ کُلَّمَا رُزِقُوْا مِنْھَا مِنْ ثَمَرَۃٍ رِّزْقًا قَالُوْا ھٰذَاالَّذِیْ رُزِقْنَا مِنْ قَبْلُ وَاُ تُوْا بِہٖ مُتَشَابِھًا۔ وَلَھُمْ فِیْھَا اَزْوَاجٌ مُّطَہَّرَۃٌ وَّھُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَ (البقرۃ: 26)اور خوشخبری دے دے ان لوگوں کو، جو ایمان لائے اور نیک اعمال بجا لائے کہ اُن کے لئے ایسے باغات ہیں جن کے دامن میں نہریں بہتی ہیں۔ جب وہ ان باغات میں سے کوئی پھل بطور رزق دئیے جائیں گے تو وہ کہیں گے کہ یہ تو وہی ہے جو ہمیں پہلے بھی دیا جا چکا ہے۔ حالانکہ اس سے پہلے ان کے پاس محض اس سے ملتا جلتا رزق لایا گیا تھا۔ اور ان کے لئے اُن باغات میں پاک بنائے ہوئے جوڑے ہوں گے اور وہ ان میں ہمیشہ رہنے والے ہوں گے۔
اس بارہ میں حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ’’اس آیت میں ایمان کو اعمالِ صالحہ کے مقابل پر رکھا ہے۔ جنّات اور انہار۔ یعنی ایمان کا نتیجہ تو جنت ہے اور اعمالِ صالحہ کا نتیجہ انہار ہیں‘‘۔ (نہریں ہیں )۔ ’’پس جس طرح باغ بغیر نہر اور پانی کے جلدی برباد ہو جانے والی چیز ہے اور دیرپا نہیں۔ اسی طرح ایمان بے عملِ صالح بھی کسی کام کا نہیں۔ پھر ایک دوسری جگہ پر ایمان کو اشجار (درختوں) سے تشبیہ دی ہے اور فرمایا ہے کہ وہ ایمان جس کی طرف مسلمانوں کو بلایا جاتا ہے وہ اشجار ہیں اور اعمالِ صالحہ ان اشجار کی آبپاشی کرتے ہیں۔ غرض اس معاملہ میں جتنا جتنا تدبر کیا جاوے اُسی قدر معارف سمجھ میں آویں گے۔ جس طرح سے ایک کسان کاشتکار کے واسطے ضروری ہے کہ وہ تخم ریزی کرے۔ اسی طرح روحانی منازل کے کاشتکار کے واسطے ایمان جو کہ روحانیات کی تخم ریزی ہے ضروری اور لازمی ہے۔ اور پھرجس طرح کاشتکار کھیت یا باغ وغیرہ کی آبپاشی کرتا ہے اسی طرح سے روحانی باغ ایمان کی آبپاشی کے واسطے اعمالِ صالحہ کی ضرورت ہے۔ یاد رکھو کہ ایمان بغیر اعمالِ صالحہ کے ایسا ہی بیکار ہے جیسا کہ ایک عمدہ باغ بغیر نہر یا کسی دوسرے ذریعہ آبپاشی کے نکما ہے‘‘۔
فرمایا’’درخت خواہ کیسے ہی عمدہ قسم کے ہوں اور اعلیٰ قسم کے پھل لانے والے ہوں مگر جب مالک آبپاشی کی طرف سے لاپروائی کرے گا تو اس کا جو نتیجہ ہو گا وہ سب جانتے ہیں۔ یہی حال روحانی زندگی میں شجرِ ایمان کا ہے۔ ایمان ایک درخت ہے جس کے واسطے انسان کے اعمالِ صالحہ روحانی رنگ میں اس کی آبپاشی کے واسطے نہریں بن کر آبپاشی کا کام کرتے ہیں۔ پھر جس طرح ہر ایک کاشتکار کو تخم ریزی اور آبپاشی کے علاوہ بھی محنت اور کوشش کرنی پڑتی ہے، اسی طرح خدا تعالیٰ نے روحانی فیوض و برکات کے ثمراتِ حسنہ کے حصول کے واسطے بھی مجاہدات لازمی اور ضروری رکھے ہیں‘‘۔ (ملفوظات جلد پنجم۔ صفحہ 649-648۔ جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)
پس اگر نہ ختم ہونے والے اجر لینے ہیں برکات سے فائدہ اٹھانا ہے، دعاؤں کی قبولیت کے نظارے دیکھنے ہیں تو اعمالِ صالحہ کی ضرورت ہے۔ خوشخبری ان لوگوں کے لئے ہے جنہوں نے اپنے ایمان کو نیک اعمال سے سجایا۔ جنہوں نے اگر یہ اعلان کیا ہے کہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کو پورے ہوتے دیکھ کر زمانے کے امام پر ایمان لائے ہیں تو اپنی حالتوں اور اپنے عملوں کو بھی اللہ تعالیٰ کی تعلیم کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی ہے۔
پس آج بھی یہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی زندگیاں اس طرح گزارنے کی توفیق عطا فرمائے جو ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت میں شامل ہونے والوں کا حقدار بنانے والی ہو۔ ہماری عبادتیں اور ہماراہر عمل جو ہے خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ہو۔ اور آج رات اس سال کو الوداع کرنے کے لئے اور نئے سال کے استقبال کے لئے یہ دعا کریں، اللہ تعالیٰ سے خاص یہ توفیق چاہیں کہ ہمیں اللہ تعالیٰ اپنی کمزوریوں کو دور کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اپنی کمزوریوں کی وجہ سے گزرنے والے سال میں جو ہم نیک اعمال نہیں بجا لا سکے، نئے سال میں ہم ان کو بجا لانے والے ہوں۔ ایمان کے بیج کو اعمالِ صالحہ کی بروقت آبپاشی کے ذریعے پروان چڑھانے والے ہوں۔ ہمارا اٹھنا ہمارا بیٹھنا خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ہو۔
ایک طرف تو ہم اس بات پر خوش ہیں کہ جماعت کے ایک طبقہ نے قربانیاں دے کر جماعت کی تبلیغ کے نئے راستے کھول دئیے ہیں۔ لیکن دوسری طرف مَیں ایک یہ بات بھی افسوس سے کہنا چاہتا ہوں کہ میرے پاس بعض غیر از جماعت کے ایسے خطوط بھی آتے ہیں کہ فلاں شخص آپ کی جماعت کا ہے، اس نے میرے ساتھ کاروبار کیا تھا، کاروباری شراکت تھی، یا قرض لیا تھا اور اب اس میں دھوکے کا مرتکب ہو رہا ہے۔ تو ایسے لوگ جو اس طرح جماعت کی بدنامی کا باعث بنتے ہیں وہ ایسے لوگ ہی ہیں جن کا زبانی دعویٰ تو یہ ہے کہ ہم ایمان لائے ہیں لیکن یہ جودعویٰ ہے انہیں کوئی فائدہ نہیں دیتا۔ ایسے لوگ تو جماعت کی ترقی میں شامل ہونے کی بجائے جماعت کی بدنامی کرنے والوں میں شامل ہیں۔ پھر آپس کے تعلقات ہیں۔ آپس کے جوتعلقات ایک احمدی کے دوسرے احمدی کے ساتھ ہونے چاہئیں، ایک رشتے کے دوسرے رشتے کے ساتھ ہونے چاہئیں اگر ان حقوق کا پاس نہیں تو پھر ان جگہوں کی برکات سے انسان فیض نہیں پا سکتا۔ نہ دعاؤں سے کوئی فیض حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اعمالِ صالحہ میں تمام حقوق بھی آتے ہیں۔ پس ہم میں سے ہر ایک اگر اپنے جائزے لے اور دیکھے کہ گزرنے والے سال میں ہم نے اپنے اندر سے کتنی برائیوں کو دور کیا ہے؟ ہمارے قربانی کرنے والوں نے ہماری اپنی طبیعتوں میں، ہمارے اپنے رویّوں میں کیا انقلاب پیدا کیا ہے؟ تو یقینا انفرادی طور پر بھی یہ سال جس کا آغاز اور اختتام بھی جمعہ کو ہوا اور ہو رہا ہے ہمارے لئے برکتوں کا سال ہے۔ لیکن اگر ہم دنیا داری میں بڑھتے رہے، اسی میں پڑے رہے اور ایک دوسرے کے حقوق غصب کرتے رہے۔ میاں بیوی، نند، بھابھی، ساس، کاروباری شراکت دار ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے رہے، ایک دوسرے کے ساتھ طعن و تشنیع کرتے رہے، اپنے رویوں میں، اپنی بول چال میں غلط الفاظ استعمال کرتے رہے تو پھر ہم برکتیں تو نہیں اللہ تعالیٰ کی ناراضگی مول لینے والے ہیں۔ ہمارے جو قربانی کرنے والے ہیں ان کی زبانی یاد کا دعویٰ کرنے والے تو ہم بنے ہیں، اُن کو اپنے لئے نمونہ بنا کر اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے ہم نہیں بنے۔ اگر ہمارے اپنے رویے نہیں بدلے تو ہم نے ان قربانی کرنے والوں کی تسکین کا سامان نہیں کیا۔ چاہئے تو یہ تھا کہ اگر دشمنانِ احمدیت کی طرف سے ہمارے لئے تکلیفیں پہنچانے کی انتہا کی گئی تو ہم اپنے ایمان کو اپنے اعمال سے سجاتے، اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کرتے۔ ہمارے خلاف اگر آگ بھڑکائی گئی تو ہمیں اس آگ میں سے اس سونے کی طرح نکلنا چاہئے تھا جو آگ میں سے کندن بن کر نکلتا ہے۔ ہمارے آنسو اس آگ کو ٹھنڈا کرنے کے لئے یوں نکلتے جو ہماری ذاتی زندگیوں میں بھی انقلاب پیدا کر دیتے۔ پس ہم میں سے جن کا یہ گزرنے والا سال اس طرح گزرا اور انہوں نے اپنے ایمان کی اپنے اعمال سے آبیاری کی وہ خوش قسمت ہیں۔ آئندہ آنے والے سال میں پہلے سے بڑھ کر اس تعلق کو مضبوط کرنے کی خدا تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے۔ اور جو لوگ اپنی اصلاح کی طرف توجہ نہیں دے سکے وہ آج رات کی دعاؤں میں، اس وقت جمعہ کی دعاؤں میں بھی اس پہلو کے لئے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ نیک اعمال بجا لانے کی توفیق عطا فرمائے اور آئندہ سال میں اپنی اصلاح کے پہلو کو ہر وقت سامنے رکھیں۔ اور اس کو سامنے رکھتے ہوئے، اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے ہوئے نیک اعمال بجا لانے کی کوشش کریں۔ اپنی عبادتوں کے معیار بلند کریں۔ اللہ کرے کہ ہم سب اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے اپنے عملوں کو ڈھالنے والے ہوں۔ آج رات جب خاص طور پر مغربی دنیا میں اکثریت شرابوں اور ناچ گانوں اور شور شرابوں میں مصروف ہو گی اس وقت ہم اپنے جذبات کو خدا تعالیٰ کے حضور اس عہد کے ساتھ بہائیں کہ آئندہ سال اور ہمیشہ ہمارے جذبات اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کرتے ہوئے اُس کے حضور بہتے چلے جائیں گے۔ ہم اپنے ایمان میں ترقی کی کوشش کرنے والے ہوں گے۔ اپنی ہر حالت اور ہر عمل کو خدا تعالیٰ کے حکم کے مطابق ڈھالنے والے بنیں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے اور ہماری دعائیں بھی قبول فرمائے۔ آئندہ سال جو آ رہا ہے وہ سب احمدیوں کے لئے، انفرادی طور پر بھی اور جماعتی طور پر بھی بے انتہا مبارک سال ہو۔
مَیں اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بات کرنا چاہتا تھا۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے اس سال ہمیں یہ بھی ایک فضل عطافرمایا جس کا مَیں اپنے جلسہ کے جو دوسرے دن کی رپورٹس ہوتی ہیں اس میں پہلے بھی ذکر کر چکا ہوں کہ رشین ڈیسک کے ذریعہ سے ایم۔ ٹی۔ اے پر رشین پروگرام بھی اب جاری ہیں، خطبات کا ترجمہ بھی اور ویب سائٹ بھی شروع ہو گئی ہے۔ پہلے کہیں اِکّا دُکّا مجھے رشین احمدیوں کے خطوط آیا کرتے تھے اور وہ تھے بھی چند ایک۔ لیکن اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے اُن کی تعداد سینکڑوں میں ہو گئی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا الہام بھی ہے کہ روس میں ریت کے ذروں کی طرح احمدیت کو پھیلتے دیکھا۔ (ماخوذ از تذکرہ صفحہ 691۔ چوتھا ایڈیشن۔ مطبوعہ ربوہ)
اللہ کرے کہ یہ پیغام ان تک تیزی سے پہنچتا چلا جائے اور ہم اپنی زندگیوں میں اس الہام کے پورا ہونے کے بھی نظارے دیکھنے والے ہوں۔ ایک اور بات جس کا مَیں آج اظہار کرنا چاہتا ہوں۔ مَیں نے یہ بات قادیان کے جلسے کے اختتام پر بتانی تھی کہ alislam جو ہماری ویب سائٹ ہے اس میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے انہوں نے ایک نیا اضافہ کیا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی روحانی خزائن کے نام سے جو کتب ہیں اُن سب کو ایک ایسے سرچ انجن (Search Engine) میں ڈالا ہے جس میں اگر آپ نے تلاش کرنا ہے تو آپ کوئی بھی لفظ، مثلاً اللہ کا نام ہے، یسوع مسیح کا نام ہے، محمدؐ کا نام ہے اس میں ڈالیں تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب میں، اُن کتب میں جو روحانی خزائن کی جلدوں میں ہیں جہاں بھی وہ نام استعمال ہوا ہے، وہ نام اور اقتباس سامنے آ جائیں گے۔ اور پھر اسے آپ سرچ کر کے جو انٹرنیٹ سے دلچسپی رکھنے والے یا alislam دیکھنے والے ہیں وہ مزید صفحہ بھی دیکھ سکتے ہیں جو اصل کتاب کا صفحہ ہے۔ تو یہ ایک بہت بڑی پیش رفت ہے اور یہ بہت مشکل کام تھا۔ اللہ کے فضل سے ہمارے نوجوانوں کی ٹیم نے یہ کیا ہے۔ جس میں سے دو تو واقفینِ نَو لڑکے ہیں، ایک نعمان احمد لاہور کے اور ایک کراچی کے ہیں مبارک احمد۔ اس کے علاوہ انڈیا کے لڑکے ہیں۔ اس لئے مَیں قادیان کے جلسہ سالانہ کے آخری دن اعلان کرنا چاہتا تھاکہ اس میں سے تین کے علاوہ جوباقی لڑکے ہیں وہ سارے انڈیا کے ہیں۔ فضل الرحمن یہ چنائی کے ہیں۔ اسی طرح مقصود احمد بنگلور کے، شاہد پرویز بنگلور کے، عبدالسلام بنگلور کے اور پھر عائشہ مقصود صاحبہ ہیں بنگلور کی۔ پھر الطاف احمد بنگلور کے ہیں اور ریاض احمد مینگلور (Mangalore) اور اسی طرح ایک ہیں خرم نصیر، یہ پاکستان کے ہیں او ر کلیم الدین شیخ یہ چنائی کے ہیں۔ تو یہ ایک بہت بڑا کام ہے جو انہوں نے کیا ہے۔ دیکھنے والے تو اتنا محسوس نہیں کرتے۔ ہر کتاب کو پڑھنا، ہر کتاب میں سے ہر لفظ کو تلاش کرنا اور پھر اس کا انڈیکس بنانا، پھر اس انڈیکس کے اقتباسات، پھر اس کے صفحے کا پروگرام بنانا ایک کافی بڑا کام تھا جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان نوجوانوں نے کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو جزا دے اور دنیا اس سے فائدہ اٹھانے والی ہو۔ معترضین تو آج کل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب پر اعتراض کرتے رہتے ہیں لیکن اگر دیکھیں تو یہی ایک خزانہ ہے جو دنیا کی اصلاح کا باعث بن سکتا ہے۔ لیکن جن پر اثر نہیں ہونا وہ لوگ تو قرآنِ کریم کی آیات کا بھی استہزاء اڑاتے تھے، اُن پر اثر نہیں ہوا۔ اللہ تعالیٰ دنیا کو عقل اور سمجھ دے۔
تیسری بات مَیں آج یہ کہنا چاہتا تھا کہ مجھے پتہ لگا کہ میرے نام سے آج کل انٹرنیٹ وغیرہ پرفیس بک (FaceBook)ہے۔ فیس بُک کا ایک اکاؤنٹ کھلا ہوا ہے جس کا میرے فرشتوں کو بھی پتہ نہیں۔ نہ کبھی مَیں نے کھولا نہ مجھے کوئی دلچسپی ہے بلکہ مَیں نے تو جماعت کو کچھ عرصہ ہوا اس بارہ میں تنبیہ کی تھی کہ اس فیس بُک سے بچیں۔ اس میں بہت ساری قباحتیں ہیں۔ پتہ نہیں کسی نے بے وقوفی سے کیا ہے۔ کسی مخالف نے کیا ہے یا کسی احمدی نے کسی نیکی کی وجہ سے کیا ہے لیکن جس وجہ سے بھی کیا ہے، بہر حال وہ توبند کروانے کی کوشش ہو رہی ہے انشاء اللہ تعالیٰ وہ بند ہو جائے گا۔ کیونکہ اس میں قباحتیں زیادہ ہیں اور فائدے کم ہیں۔ اور بلکہ انفرادی طور پر بھی مَیں لوگوں کو کہتا رہتا ہوں کہ یہ جو فیس بُک ہے اس سے غلط قسم کی بعض باتیں نکلتی ہیں اور پھر اس شخص کے لئے بھی پریشانی کا موجب بن جاتی ہیں۔ خاص طور پر لڑکیوں کو تو بہت احتیاط کرنی چاہیے۔ لیکن بہر حال مَیں یہ اعلان کر دینا چاہتا تھا کہ یہ جو فیس بُک ہے اور اس میں وہ لوگ جن کے اپنے فیس بُک کے اکاؤنٹ ہیں، وہ آ بھی رہے ہیں، پڑھ بھی رہے ہیں، اپنے کمنٹس (Comments) بھی دے رہے ہیں جو بالکل غلط طریقہ کار ہے اس لئے اس سے بچیں اور کوئی اس میں شامل نہ ہو۔ اگر ایسی کوئی صورت کبھی پیدا ہوئی جس میں جماعتی طور پر کسی قسم کی فیس بک کی طرز کی کوئی چیز جاری کرنی ہوئی تو اس کو محفوظ طریقے سے جاری کیا جائے گا جس میں ہر ایک کی access نہ ہو اور صرف جماعتی مؤقف اس میں سامنے آئے اور اس میں جس کا دل چاہے آ جائے۔ کیونکہ مجھے بتایا گیا ہے کہ بعض مخالفین نے بھی اپنے کمنٹ (Comment) اس پر دئیے ہوئے ہیں۔ اب ایک تو ویسے ہی غیر اخلاقی بات ہے کہ کسی شخص کے نام پر کوئی دوسرا شخص چاہے وہ نیک نیتی سے ہی کر رہا ہو بغیر اس کو بتائے کام شروع کر دے۔ اس لئے جس نے بھی کیا ہے اگر تو وہ نیک نیت تھا تو وہ فوراً اس کو بند کر دے اور استغفار کرے اور اگر شرارتی ہیں تو اللہ تعالیٰ ان سے خودنپٹے گا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ہر شر سے محفوظ رکھے اور جماعت کو ترقی کی راہوں پر چلاتا چلا جائے۔
2010ء کے سال کا آغاز بھی جمعہ سے ہوا تھا جو بابرکت دن تھا اور اس کا اختتام بھی جمعہ سے ہورہاہے جو ایک بابرکت دن ہے۔
جس قوم کی ایسی مائیں ہوں جو اپنے بیٹوں کو شہادت کے لئے تیار کر رہی ہوں، ایسے لواحقین جن شہداء کے ہوں جو افسوس پر آنے والوں کو تسلی دلا رہے ہوں تو ایسا جان دینا جو ہے وہ خدا تعالیٰ کی ناراضگی یا سزا کے طور پر نہیں ہوا کرتا۔ دلوں کی تسلی اور تسکین کے لئے یہ سامان خدا تعالیٰ کے خاص فضل سے ہوتے ہیں۔ ہم تو وہ قوم ہیں جو دشمن سے ڈر کر کبھی اپنے خدا کا دامن نہیں چھوڑتے۔
اللہ تعالیٰ نے جس کثرت سے اس سال احمدیت کے خوبصورت پیغام کو دنیا کے امیر ملکوں میں بھی اور دنیا کے غریب ملکوں میں بھی متعارف کروانے کا سامان پیدا فرمایا ہے۔ یہ خدا تعالیٰ کے بے انتہا فضلوں اور برکتوں کا ہی نظارہ ہے۔
یہ قربانیاں جو شہدائے پاکستان نے دی ہیں، دیتے رہے ہیں، جس کی انتہا 2010ء کے سال میں بھی ہوئی، یہ قربانیاں انشاء اللہ کبھی رائیگاں نہیں جائیں گی بلکہ نہیں جا رہیں۔ احمدیت کا پیغام اور تعارف، اسلام کی امن پسند تعلیم کا پیغام دنیا کے ہر کونے میں کثرت سے پہنچنا، یہ ان قربانیوں کا ہی نتیجہ ہے۔ اور یہ سلسلہ چلتا چلا جا رہا ہے۔
آئندہ دنیا کے افق پر احمدیت کی فتوحات اُبھر رہی ہیں۔ شہداء کی قربانیاں ہمارے ایمانوں میں بھی اضافے کا موجب بن رہی ہیں۔ ہمیں صرف اس بات پر ہی تسلی نہیں پکڑنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ قربانیوں کو ضائع نہیں کرتا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ مَیں تجھے فتوحات دوں گا، یہ تو ہوگا اور انشاء اللہ تعالیٰ یقینا ہو گا لیکن ہمیں اپنی حالتوں کے جائزے لینے کی بھی ضرورت ہے۔
سال 2010ء میں رشین ڈیسک کے ذریعہ ایم ٹی اے پر رشین پروگرام بھی جاری ہیں۔ اب سینکڑوں کی تعداد میں رشین احمدیوں کے خطوط آتے ہیں۔
حضرت مسیح موعودؑ کی کتب کو جو روحانی خزائن کے نام سے طبع شدہ ہیں جماعتی ویب سائٹ پر ایک سرچ انجن میں ڈالا گیاہے۔ یہ بہت بڑا کام تھا جو اللہ کے فضل سے ہمارے نوجوانوں کی ٹیم نے کیا ہے۔ اس میں ہندوستان کے بہت سے نوجوان شامل ہیں۔
حضور ایدہ اللہ کے نام سے کسی نے فیس بُک (FaceBook) پر اکاؤنٹ کھولا ہوا ہے جو غلط طریق کار ہے۔ احباب جماعت کو فیس بُک کی قباحتوں سے بچنے کے لئے تاکیدی نصیحت۔
فرمودہ مورخہ 31؍دسمبر 2010ء بمطابق 31 ؍فتح 1389 ہجری شمسی، بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن (برطانیہ)
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔