آنحضرتﷺ کی برداشت اور عفو و درگزر اور حسن سلوک
خطبہ جمعہ 14؍ جنوری 2011ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
خُذِالْعَفْوَوَاْمُرْبِالْعُرْفِ وَاَعْرِضْ عَنِ الْجٰھِلِیْنَ (الاعراف: 200)۔ عفو اختیار کر، اور معروف کا حکم دے اور جاہلوں سے کنارہ کشی اختیار کر۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے اس فقرے نے کہ کَانَ خُلُقُہٗ اَلْقُرْآن۔ یعنی آپ کی زندگی قرآنی احکام اور اخلاق کی عملی تصویر تھی، آپؐ کے اعلیٰ ترین اخلاق کے وسیع سمندر کی نشاندہی فرمادی کہ جاؤ اور اس سمندر میں سے قیمتی موتی تلاش کرو۔ اور خلقِ عظیم کے جو موتی بھی تم تلاش کرو گے اس پر میرے پیارے آقا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی مہر ثبت ہو گی۔
یہ ہے وہ مقامِ خاتمیتِ نبوت جواَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ (المائدہ: 4) کے خدائی ارشاد میں ہمیں نظر آتا ہے۔ پس دین کا کمال اور نعمت کا پورا ہونا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر آخری شرعی کتاب اتار کر اللہ تعالیٰ نے آپ کی ذات میں پورا فرما دیا۔ پس آپ سے زیادہ کون اس الٰہی کتاب کو سمجھنے والا اور اپنے رب کے منشاء کو سمجھنے والا ہو سکتا ہے؟ آپ اکی زندگی کا ہر پہلو جہاں قرآن کی عملی تصویر ہے وہاں اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق ہمارے لئے اسوہ حسنہ بھی ہے۔
اس وقت مَیں آپ کے سامنے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے ایک حسین پہلو کی چند جھلکیاں پیش کروں گا جس نے نیک فطرت لوگوں کو تو آپ کے عشق و محبت میں بڑھا دیا۔ اور منافقین کے گند سے صرفِ نظر کرتے ہوئے جب آپ نے یہ خُلق دکھایا کہ وَاَعْرِضْ عَنِ الْجٰھِلِیْنَ تو دنیا پر ان لوگوں کی فطرت واضح ہو گئی۔ یہ خُلق جس کے بارے میں مَیں بیان کرنا چاہتا ہوں یہ ’’عفو‘‘ ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’خدا کے مقربوں کو بڑی بڑی گالیاں دی گئیں۔ بہت بری طرح ستایا گیا۔ مگر ان کو اَعْرِضْ عَنِ الْجٰھِلِیْنَ (الاعراف: 200) کا ہی خطاب ہوا۔ خود اس انسان کامل ہمارے نبی ا کو بہت بری طرح تکلیفیں دی گئیں اور گالیاں، بد زبانی اور شوخیاں کی گئیں۔ مگر اس خلق مجسم ذات نے اس کے مقابلہ میں کیا کیا؟ ان کے لئے دعا کی اور چونکہ اللہ نے وعدہ کر لیا تھا کہ جاہلوں سے اعراض کرے گاتو تیری عزت اور جان کو ہم صحیح وسلامت رکھیں گے اور یہ بازاری آدمی اس پر حملہ نہ کر سکیں گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ حضور(صلی اللہ علیہ وسلم) کے مخالف آپ کی عزت پر حرف نہ لا سکے اور خود ہی ذلیل و خوار ہو کر آپ کے قدموں پر گرے یا سامنے تباہ ہوئے۔‘‘ (رپورٹ جلسہ سالانہ 1897ء صفحہ 99)
کہنے کو تو یہ ایک عام سی بات ہے لیکن مسلسل ظلموں سے خود بھی اور اپنے صحابہ کو بھی گزرتے ہوئے دیکھنا، اور پھر جب طاقت آتی ہے تو عفو کا ایک ایسا نمونہ دکھانا جس کی مثال جب سے کہ دنیا قائم ہوئی ہے ہمیں نظر نہیں آتی، یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی خاصہ ہے۔ پھر منافقین اور غیر تربیت یافتہ لوگوں کے مقابل پر آپؐ نے تحمل اور برداشت کا اظہار فرمایا۔ یہ بھی کوئی معمولی چیز نہیں ہے۔ اگر انصاف کی نظر سے دیکھنے والا کوئی تاریخ دان ہو تو باوجود مذہبی اختلاف کے یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ آپ کی برداشت اور عفو اور ہر خلق کا نمونہ بے مثال تھا۔ اور لکھنے والے جنہوں نے لکھا ہے بعض ہندو بھی ہیں اور بعض عیسائی بھی۔ بہر حال اس وقت میں چند واقعات بیان کرتا ہوں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عفو کے خلقِ عظیم پر کچھ روشنی ڈالتے ہیں۔ پہلے مَیں عبداللہ بن أبی بن سلول کے واقعات لیتا ہوں، جو رئیس المنافقین تھا۔ ظاہر میں گو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کو منظور کر لیا تھا لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر غلیظ حملے کرنے کا کوئی دقیقہ نہ چھوڑتا تھا۔ مدینہ میں رہتے ہوئے مسلسل یہ واقعات ہوتے رہتے تھے۔ اس کی دشمنی اصل میں تو اس لئے تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ ہجرت سے پہلے مدینہ کے لوگ اسے اپنا سردار بنانے کا سوچ رہے تھے لیکن آپؐ کی مدینہ آمد کے بعد جب آپ ا کو ہر قبیلے اور مذہب کی طرف سے سربراہِ حکومت کے طور پر تسلیم کر لیا گیا تو یہ شخص ظاہر میں تو نہیں لیکن اندر سے، دل سے آپ اکے خلاف تھا اور اس کی مخالفت مزید بڑھتی گئی، اس کا کینہ اور رنجشیں مزید بڑھتی گئیں۔ ایک روایت میں آپ اکے مدینہ جانے کے بعد اور جنگِ بدر سے پہلے کا ایک واقعہ ملتا ہے جس سے عبداللہ بن أبی بن سلول کے دل کے بغض اور کینے اور اس کے مقابلے پر آپ کے صبر کا اظہار ہوتا ہے۔ اور یہ اظہار جو دراصل عفو تھا، یہ عفو ار آپ اکا ردّ عمل ظاہر ہوتا ہے۔ بہر حال روایت میں آتا ہے۔ امام زہری روایت کرتے ہیں کہ مجھے عروہ بن زبیر نے بتایا کہ اسامہ بن زیدرضی اللہ عنہما نے مجھے بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فدک کے علاقہ کی ایک چادر ڈال کر گدھے پر سوار ہوئے اور اپنے پیچھے اسامہ بن زید کو بٹھایا اور سعد بن عبادہؓ کی عیادت کے لئے بنو حارث بن خزرج میں واقعہ بدر سے پہلے (یعنی جنگِ بدر سے پہلے) تشریف لے جا رہے تھے تو ایک ایسی مجلس کے پاس سے گزرے جس میں عبداللہ بن أبی بن سلول بیٹھا ہوا تھا۔ اس نے اس وقت اسلام قبول نہیں کیا تھا۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ اس مجلس میں مسلمان بھی بیٹھے ہیں، بُت پرست بھی ہیں اور یہودی بھی بیٹھے ہیں اور اسی مجلس میں عبداللہ بن رواحہ بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ جب اس مجلس پر گدھے کے پاؤں سے اٹھنے والی دھول پڑی تو عبداللہ بن أبی بن سلول نے اپنی چادر سے ناک کو ڈھانک لیا۔ پھر کہا ہم پر مٹی نہ ڈالو۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سب لوگوں کو سلام کیا۔ پھر رُک گئے اور اپنی سواری سے اترے اور ان کو دعوتِ اِلی اللہ کی۔ اُن کو قرآن پڑھ کر سنایا۔ اُس پر عبداللہ بن أبی بن سلول نے کہا اے صاحب! جو بات تم کہہ رہے ہو، وہ اچھی بات نہیں ہے اور اگر یہ حق بات بھی ہے تو ہمیں ہماری مجلس میں سنا کر تکلیف نہ دو۔ اپنے گھر میں جاؤ اور جو شخص تمہارے پاس آئے اسے قرآن پڑھ کر سنانا۔ عبداللہ بن أبی بن سلول کی یہ باتیں سن کر حضرت عبداللہ بن رواحہؓ نے کہا۔ کیوں نہیں یا رسول اللہ! آپ ہماری مجالس میں آ کر قرآن سنایا کریں کیونکہ ہم قرآن کو سننا پسند کرتے ہیں۔ یہ سننا تھا کہ مسلمان اور مشرک اور یہود سب اُٹھ کھڑے ہوئے اور اس طرح بحث میں الجھ گئے کہ لگتا تھا کہ ایک دوسرے کے گلے پکڑ لیں گے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کو مسلسل خاموش کرواتے رہے اور وہ چُپ ہو گئے۔ جب خاموش ہو گئے تو آپؐ اپنی سواری پر سوار ہوئے اور سعد بن عبادہؓ کے پاس پہنچے اور اس کو جا کر بتایا کہ ابو حباب یعنی عبداللہ بن أبی بن سلول نے کیا کہا ہے؟ اُس نے یہ بات کی ہے۔ تو سعد بن عبادہؓ نے عرض کی۔ یا رسول اللہ! اس سے عفو اور درگزر کا سلوک فرمائیں۔ اُس ذات کی قسم جس نے آپ پر قرآنِ کریم جیسی عظیم کتاب نازل کی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس حق کو لے آیا جس کو اس نے آپ پر نازل فرمایا۔ اس سرزمین کے لوگوں نے فیصلہ کیا تھا کہ وہ عبداللہ بن أبی بن سلول کو تاج پہنا کر اپنا بادشاہ بنا ئیں اور اس کے دست و بازو کو مضبوط کریں۔ پھر جب اللہ تعالیٰ نے اُن کے اس فیصلے سے اس حق کے باعث جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو عنایت فرمایا ہے انکار کر دیا تو اس سے اس کو بڑا دکھ پہنچا۔ اس وجہ سے اس نے آپ سے یہ بدسلوکی کی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے عفو کا سلوک فرمایا۔
یہ اس وجہ سے نہیں فرمایا کہ سعد بن عبادہ نے بات کی تھی کہ عفو کا سلوک فرمائیں بلکہ آپؐ نے اس کو یہ بتانے کے لئے بات کی تھی کہ آج اس نے اس طرح میرے ساتھ یہ سلوک کیا ہے لیکن مَیں تو بہر حال عفو کا سلوک کرتا چلا جاؤں گا۔ آگے پھر لکھا ہے کہ آپؐ اور آپ کے صحابہ مشرکوں اور اہلِ کتاب سے درگزر کا سلوک فرماتے تھے جیسا کرنے کا اللہ تعالیٰ نے ان کو حکم دیا تھا۔ اور وہ ان کی طرف سے ملنے والی تکالیف پر صبر کرتے تھے۔ لیکن کچھ عرصہ بعد جب عبداللہ بن اُبی بن سلول بظاہر مسلمان ہوا تو اپنی منافقانہ چالوں سے آپؐ کو تکلیف پہنچانے کی ہمیشہ کوشش کرتا رہتا تھا۔
ایک روایت میں آتا ہے۔ جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک دفعہ وہ کسی غزوہ کے لئے گئے ہوئے تھے کہ مہاجرین میں سے ایک شخص نے ایک انصاری کی پشت پر ہاتھ مارا۔ اس پر اس انصاری نے بآوازِ بلند کہا کہ اے انصار! میری مدد کو آؤ اور مہاجر نے جب معاملہ بگڑتے ہوئے دیکھا تو اس نے بآوازِ بلند کہا کہ اے مہاجرو! میری مدد کو آؤ۔ یہ آوازیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سن لیں۔ تو آپ نے دریافت فرمایا۔ یہ کیا زمانہ جاہلیت کی سی آوازیں بلند ہو رہی ہیں؟ اس پر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا گیا کہ یا رسول اللہ! ایک مہاجر نے ایک انصاری کی پشت پر ہاتھ مار دیا تھا۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایسا کرنا چھوڑ دو۔ یہ ایک بُری بات ہے۔ بہر حال پانی پینے کے اوپر یہ جھگڑا شروع ہو گیا تھا کہ مَیں پہلے پیوں گا، اُس نے کہا پہلے مَیں۔ بعد میں یہ بات عبداللہ بن اُبی بن سلول رئیس المنافقین نے سنی تو اس نے کہا مہاجرین نے ایسا کیا ہے؟ اللہ کی قسم اگر ہم مدینہ لوٹے تو مدینہ کا معزز ترین شخص مدینہ کے ذلیل ترین شخص کو نکال باہر کرے گا (نعوذ باللہ)۔
عبداللہ بن اُبی بن سلول کی یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہو گئی۔ یہ سن کر حضرت عمرؓ کھڑے ہوئے اور کہا یا رسول اللہ! مجھے اجازت دیں کہ مَیں اس منافق کا سر قلم کر دوں۔ حضرت عمرؓ کی بات سن کر آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اس سے درگزر کرو۔ کہیں لوگ یہ باتیں نہ کہنے لگ جائیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھیوں کو بھی قتل کر دیتا ہے۔ (بخاری کتاب التفسیر سورۃ المنافقین ـ باب قولہ سواء علیہم استغفرت لہم ام لم تستغفر لہم۔ حدیث نمبر 4905)
اس کے باوجود کہ اس کی ایسی حرکتیں تھیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو اپنا ساتھی کہا ہے۔ کیونکہ جب تک وہ ظاہراً اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کر رہا تھا۔ روایات میں یہ بھی ملتا ہے کہ آپ نے عبداللہ بن أبی اور اس کے ساتھیوں کو بلوا کر پوچھا کہ اس طرح مشہور ہوا ہے۔ یہ کیا معاملہ ہے؟ وہ سب اس بات سے مکر گئے۔ ان میں بعض انصار تھے انہوں نے بھی سفارش کی اور کہا کہ شاید زید کو جو چھوٹے تھے، جنہوں نے یہ بتایا تھا کہ اُن کے سامنے یہ بات ہوئی ہے غلطی لگی ہو گی۔ بہر حال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کو مزید کچھ نہیں پوچھا۔ جب اللہ تعالیٰ نے بھی آپ کو وحی کے ذریعے بتا دیا کہ یہ واقعہ سچ ہے تو سب دنیا کو، اُس وقت کے لوگوں کو پتہ لگ گیا کہ بہر حال یہ سچ ہے۔ قرآنِ کریم میں اس کا ذکر یوں آتا ہے کہ یَقُوْلُوْنَ لَئِنْ رَّجَعْنَآ اِلَی الْمَدِیْنَۃِ لَیُخْرِجَنَّ الْاَعَزُّ مِنْھَا الْاَذَلّ۔ وَلِلّٰہِ الْعِزَّۃُ وَلِرَسُوْلِہٖ وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ وَلٰکِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ(المنافقون: 09)
ترجمہ اس کا یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ اگر ہم مدینہ کی طرف لوٹیں گے تو ضرور وہ جو سب سے زیادہ معزز ہے اسے جو سب سے زیادہ ذلیل ہے اس میں سے نکال باہر کرے گا۔ حالانکہ عزت تمام تر اللہ اور اس کے رسول کی ہے اور مومنوں کی۔ لیکن منافق لوگ جانتے نہیں۔ اب اس وحی کے بعد آپؐ سے زیادہ کون جان سکتا تھا کہ عبداللہ بن اُبی ابن سلول جو ہے وہ جھوٹا اور منافق ہے۔ بلکہ آپ کی فراست پہلے سے ہی یہ علم رکھتی تھی کہ یہ منافق ہے لیکن آپ نے صرفِ نظر فرمایا۔ بلکہ مدینہ داخل ہونے سے پہلے جب عبداللہ بن أبی کے بیٹے نے جو ایک مخلص مسلمان نوجوان تھا آپ کے سامنے عرض کی کہ یہ بات میں نے سنی ہے۔ اور اگر آپ ا کا ارادہ ہے کہ اس کو قتل کرنا ہے تو مجھے حکم دیں کہ مَیں اپنے باپ کی گردن اڑا دوں۔ کیونکہ اگرکسی اور نے اسے قتل کیا یا سزا دی تو پھرکہیں میری زمانہ جاہلیت کی رَگ نہ پھڑک اٹھے اور مَیں اُس شخص کو قتل کر دوں جس نے میرے باپ کو قتل کیا ہو۔ تو آپؐ نے فرمایا کہ ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ کسی قسم کی کوئی سزدینے کا مَیں ارادہ نہیں رکھتا۔ بلکہ فرمایا کہ مَیں تمہارے باپ کے ساتھ نرمی اور احسان کا معاملہ کروں گا۔ نہ صرف یہ کہ سزا نہیں دوں گا بلکہ نرمی اور احسان کا معاملہ کروں گا۔ (السیرۃ النبویۃ لابن ہشام غزوہ بنی المصطلق، طلب ابن عبداللہ بن ابی ان یتولی قتل ابیہ… صفحہ 672 دارالکتب العلمیۃ بیروت ایڈیشن 2001)
پھر یہی سفر تھا جس میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاغلطی سے پیچھے رہ گئی تھیں۔ جب قافلہ نے اپنی جگہ سے کوچ کیا تو بعد میں ایک صحابی نے، جو قافلہ چلے جانے کے بعد میدان کا جائزہ لے رہے تھے کہ کوئی چیز رہ تو نہیں گئی، آپ کو دیکھا۔ حضرت عائشہؓ اس وقت سوئی ہوئیں تھیں تو اِنَّا لِلّٰہ پڑھاجس سے آپ کی آنکھ کھل گئی۔ آپ نے فوراً اپنے اوپر چادر اوڑھ لی۔ اُن صحابی نے اپنا اونٹ لا کر پاس بٹھا دیا اور آپ اس اونٹ پر بیٹھ گئیں۔ جب یہ لوگ قافلے سے ملے ہیں تو انہی منافقین نے حضرت عائشہؓ کے بارہ میں طرح طرح کی افواہیں پھیلانا شروع کر دیں۔ غلط قسم کے الزام (نعوذ باللہ) حضرت عائشہؓ پر لگائے گئے۔ آپ اکو یہ باتیں سن کر بڑی بے چینی تھی۔ حضرت عائشہؓ پر الزام لگانا اصل میں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوہی نقصان پہنچانے والی بات تھی یا کوشش تھی۔ جب یہ واقعہ ہو گیا اور مدینہ پہنچ گئے تو ایک دن آپؐ نے مسجد میں تشریف لاکر تقریر فرمائی اور فرمایا جس کا ایک پہلافقرہ یہ تھا کہ مجھے میرے اہل کے بارہ میں بہت دُکھ دیا گیا ہے۔ لیکن آپؐ نے منافقین کے ان الزامات کو برداشت کیا۔ (بخاری کتاب المغازی باب حدیث افک حدیث نمبر4141)
اور جنہوں نے یہ الزام لگائے تھے ان کو فوری سزا نہیں دی۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جب حضرت عائشہ کی بریت کی وحی ہوئی تو تب بھی ان لوگوں کو کوئی سزا نہیں دی جن کے بارہ میں یہ پتہ تھا کہ الزامات لگا رہے ہیں بلکہ عفو سے کام لیا۔ بلکہ روایات میں آتا ہے جب عبداللہ بن أبی فوت ہوا تو اس کے بیٹے نے (جو ایک مخلص مسلمان تھا جیسا کہ مَیں نے کہا) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی کہ آپ اپنا کرتہ مجھے عنایت فرمائیں تا کہ اس کرتے میں مَیں اپنے باپ کو دفناؤں، کفناؤں۔ آپؐ نے وہ کرتہ عطا فرمایا۔ بلکہ آپ کی شفقت اور عفو کا یہ حال تھا کہ آپ اس کے جنازہ کی نماز کے لئے بھی تشریف لائے اور جنازہ پڑھایا۔ قبر پر دعا کرائی۔ حضرت عمرؓ نے عرض کی کہ آپ کو ان تمام باتوں کا علم ہے کہ یہ منافق ہے اور منافق کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تو ستر مرتبہ بھی ان کے لئے استغفار کرے اور مغفرت طلب کرے تو ان کی مغفرت نہیں ہو گی۔ (بخاری کتاب الجنائز باب الکفن فی القمیص الذی یکف او لا یکف… حدیث نمبر 1269)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اس میں ایک اجازت بھی دی ہوئی ہے۔ مَیں کوشش کروں گا کہ ستّر مرتبہ سے زیادہ استغفار کروں یعنی کثرت سے کروں گا۔ اُس کے لئے اگر مجھے اس سے زیادہ بھی بخشش طلب کرنا پڑی تو کروں گا۔ یہ تھا آپ کا اُسوہ جو آپ نے اُن منافقین کے ساتھ بھی روا رکھا۔
یہ واقعہ تو میں نے بتایا کہ جس میں رئیس المنافقین کے ساتھ عفو اور بخشش کا سلوک ہے۔ اب بعض دوسری مثالیں پیش کرتا ہوں۔ مثلاً اُجڈ، غیر تربیت یافتہ بعض بدؤوں کے اخلاق ہیں جو ادب سے گری ہوئی حرکات کیا کرتے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کو نہیں پہنچانتے تھے۔ اُن پر آپ کس طرح عفو فرماتے تھے۔ اس بارہ میں ایک روایت میں آتا ہے۔
حضرت انسؓ روایت کرتے ہیں کہ مَیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں تھا۔ آپ نے ایک موٹے حاشیہ والی چادر زیب تن کی ہوئی تھی۔ ایک بدوی نے آپ کی چادر کو اتنی زور سے کھینچا کہ اس کے حاشیہ کے نشان آپ کے کندھے پر پڑ گئے۔ پھر اس نے کہا اے محمد! (صلی اللہ علیہ وسلم) مجھے اللہ تعالیٰ کے اس مال میں سے جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو عنایت فرمایا ہے یہ دو اونٹ دے دیں۔ آپ نے مجھے کوئی اپنا یا اپنے والد کا مال تو نہیں دینا؟ اُس کی ایسی کرخت باتیں سن کر پہلے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے پھر فرمایا: اَلْمَالُ مَالُ اللّٰہِ وَاَنَا عَبْدُہٗ۔ کہ مال تو اللہ ہی کا ہے اور مَیں اللہ کا بندہ ہوں۔ پھر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم نے جو مجھے تکلیف پہنچائی ہے اس کا تم سے بدلہ لیا جائے گا۔ اُس بدوی نے کہا مجھ سے اس کا بدلہ نہیں لیا جائے گا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ تم سے بدلہ کیوں نہیں لیا جائے گا؟ اُس بدوی نے کہا۔ اس لئے کہ آپ برائی کا بدلہ برائی سے نہیں لیتے۔ اس کا یہ کہنا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑے، تبسم فرمایا (تو نرمی کا، عفو کا جو سلوک تھا، پتہ تھا۔ اسی نے ان لوگوں میں جرأت پیدا کی تھی کہ جو دل چاہے کر دیں)۔ پھر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اس کے مطلوبہ دو اونٹوں میں سے ایک اونٹ پر جَو اور دوسرے پر کھجوریں لاد دیں۔ اور وہ اس کو عنایت فرمائیں۔ (الشفاء لقاضی عیاض الباب الثانی فی تکمیل اللہ تعالیٰ …الفصل و اما الحلم صفحہ74جزء اول دارالکتب العلمیۃ بیروت 2002ء)
پھرآپ نے مخالفینِ اسلام کے ساتھ کس طرح عفوفرمایا، کیا سلوک فرمایا ہو گا۔ اس کی چند مثالیں پیش کرتا ہوں۔ حضرت انسؓ روایت کرتے ہیں کہ قریشِ مکہ کے اسّی آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ پرنمازِ فجر کے وقت اچانک جبل تنعیم سے حملہ آور ہوئے۔ اُن کا ارادہ یہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کر دیں مگر ان کو پکڑ لیا گیا۔ بعد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کو معاف کرتے ہوئے چھوڑ دیا۔ (سنن الترمذی کتاب تفسیر القرآن باب من سورۃ الفتح حدیث نمبر 3264)
اب اس قسم کی معافی کی کوئی مثال پیش کر سکتا ہے کہ جنگی مجرم ہیں لیکن سراپا شفقت و عفو اُن کو بھی معاف فرما رہے ہیں کہ جاؤ تمہارے سے کوئی سرزنش نہیں۔ تمہیں کوئی سزا نہیں۔ پھر ایک روایت ہے۔ ہشام بن زید بن انس روایت کرتے ہیں کہ مَیں نے انس بن مالکؓ کویہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ایک مرتبہ ایک یہودی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے گزرا اور اس نے اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ کے بجائے اَلسَّامُ عَلَیْکَ یعنی تجھ پر ہلاکت وارد ہو، کہا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو مخاطب کر کے فرمایا۔ تمہیں پتہ چلا ہے کہ اس نے کیا کہا تھا۔ پھر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا کہ اس نے اَلسَّامُ عَلَیْک کہا تھا۔ صحابہ رِضوان اللّٰہ عَلَیْھِمْ اَجْمَعِیْن نے یہودی کی یہ حرکت دیکھی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا۔ کیا ہم اس کو قتل نہ کر دیں؟ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں۔ اسے قتل نہیں کرنا۔ (بخاری کتاب استتابۃ المرتدین باب اذا عرض الذمی اوغیرہ بسب النبی حدیث نمبر 6926)
ایک سبق یہ بھی دے دیا کہ میری شفقت صرف اپنوں پر نہیں، غیروں پر بھی ہے۔ جو مجھ پر ظلم کرنے والے ہیں ان پر بھی ہے۔ سزا صرف ایسے جرموں کی دینا ضروری ہے جن پر حدود قائم ہوتی ہیں، جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے سزا مقرر کی ہوئی ہے، جن کا قرآنِ کریم میں واضح حکم دیا ہے یا اللہ تعالیٰ نے جن کے بارے میں آپ کو بتایا ہے۔
پھر آپ اور آپ کے صحابہ کو ایک یہودیہ نے گوشت میں زہر ملا کر کھلانے کی کوشش کی اور اقبالِ جرم کرنے کے باوجود آپ نے اسے معاف فرما دیا۔ صحابہ کو غصہ تھا، انہوں نے پوچھا بھی کہ اس کو قتل کر دیں، آپ نے فرمایا نہیں، بالکل نہیں۔ (بخاری کتاب الھبۃ باب قبول الھدیۃ من المشرکین۔ حدیث2617)
یہ ایک لمبی روایت ہے۔ وحشی کہتے ہیں کہ حضرت حمزہؓ کو جنگِ اُحد میں شہید کرنے کے بعد مَیں مکہ میں واپس آ گیا۔ اس نے حضرت حمزہ کو شہید کیا تھا اور یہیں اپنی زندگی کے دن گزارتا رہا، یہاں تک کہ مکہ میں ہر طرف اسلام پھیل گیا۔ پھر مَیں طائف چلا گیا۔ طائف والوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنے سفیر بھیجے اور مجھے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سفیروں سے انتقام نہیں لیتے۔ چنانچہ مَیں بھی طائف والوں کے سفیروں کے ساتھ ہو لیا۔ یہاں تک کہ مَیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو گیا۔ جب آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دیکھا تو دریافت کیا۔ کیا تم وحشی ہو؟ مَیں نے کہا جی، مَیں وحشی ہوں۔ آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ تم نے ہی حمزہؓ کو قتل کیا تھا؟ وحشی کہتے ہیں کہ مَیں نے عرض کی۔ جیسے آپؐ نے سنا ہے ایسا ہی معاملہ ہے۔ یہ کہتے ہیں کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے میری خطائیں معاف کرتے ہوئے مجھے کہا کہ کیا تمہارے لئے ممکن ہے کہ تم میرے سامنے نہ آیا کرو؟ وحشی کہتے ہیں کہ آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کے بعد مَیں مدینہ سے چلا آیا۔ (بخاری کتاب المغازی باب قتل حمزۃ بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ حدیث نمبر4072)
آپؐ کے عفو کی انتہا کا اس بات سے مزید پتہ چلتا ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وحشی سے حضرت حمزہ کی شہادت کے بارہ میں مزید سوال کئے کہ کس طرح شہید کیا تھا اور پھر کیا کیا تھا؟ تو صحابہ کہتے ہیں کہ اس وقت آپ اکی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ اپنے چچا کی یاد تازہ ہونے پر یقینا یہ آنسو نکلے ہوں گے۔ وہ چچا جس نے ابو جہل کے مقابلہ میں آپ کا ساتھ دیا تھا اور آپ کے حق میں کھڑے ہوئے تھے لیکن حضرت حمزہ کے قاتل سے قدرت رکھنے کے باوجود آپ نے شفقت اور عفو کا سلوک فرمایا اور وحشی کو معاف فرمایا۔ (الکامل فی التاریخ لابن اثیر۔ سنۃ ثمان ذکر فتح مکۃ صفحہ 257-258 مطبوعہ بیت الافکار الدولیۃ سعودی عرب)
’’فتح مکہ کے بعد آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم نے عکرمہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) بن ابوجہل کے قتل کا حکم دیا تھا۔ کیونکہ یہ جنگی مجرم تھا اس لئے قتل کا حکم دیا تھا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ اور ان کا والدنبی صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کو تکلیف پہنچانے میں سب سے زیادہ شدت اختیار کرنے والے تھے۔ جب عکرمہ کو یہ خبر ملی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے قتل کا حکم دے دیا ہے تو وہ یمن کی طرف بھاگ گیا۔ اس کی بیوی جو اس کی چچا زاد تھی اور حارث بن ہشام کی بیٹی تھی اسلام قبول کرنے کے بعد اس کے پیچھے پیچھے گئی۔ اس نے اسے ساحلِ سمندر پر کشتی پر سوار ہونے کا منتظر پایا۔ انتظار میں کھڑا تھا کہ کشتی آئے تو مَیں یہاں سے سوار ہو کر جاؤں۔ ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ عکرمہؓ کو اس کی بیوی نے کشتی میں سوار پایا اور اسے اس مکالمے کے بعد واپس لے آئی کہ اے میرے چچا زاد! مَیں تیرے پاس سب سے زیادہ صلہ رحمی کرنے والے، سب سے زیادہ نیک سلوک کرنے والے اور لوگوں میں سے سب سے بہتر (یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم) کے پاس سے آئی ہوں۔ تم اپنے آپ کو بربادنہ کرو۔ مَیں نے تمہارے لئے امان طلب کر لی ہے۔ واپس آ جاؤ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں معاف کر دیں گے۔ کچھ نہیں کہا جائے گا۔ عکرمہ اپنی بیوی کے ساتھ واپس آئے اور کہا اے محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) ! میری بیوی نے مجھے بتایا ہے کہ آپ نے مجھے امان دے دی ہے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ درست کہتی ہے۔ آپ کو امان دی گئی ہے۔ اس بات کا سننا تھا کہ عکرمہ نے کہا۔ اَشْہَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَاشَرِیْک لَہٗ وَ اَنَّکَ عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ۔ پھر عکرمہ نے شرم کے باعث اپنا سر جھکا لیا۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عکرمہ! ہر وہ چیز جو میری قدرت میں ہے اگر تم اس میں سے کچھ مجھ سے مانگو تو مَیں تم کو عطا کر دوں گا۔ عکرمہؓ نے کہا۔ مجھے میری وہ تمام زیادتیاں معاف کر دیں جو مَیں آپؐ سے کرتا رہا ہوں۔ اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا دی کہ اَللّٰھُمَّ اغْفِر لِعِکْرَمَۃَ کُلّ عَدَاوَۃٍ عَادَانِیْھَا اَ وْ مَنْطَقٍ تکَلَّمَ بِہ۔ کہ اے اللہ! عکرمہ کو ہر وہ زیادتی جو وہ مجھ سے کرتا رہا ہے بخش دے۔ یا آپ نے فرمایا کہ اے اللہ ! عکرمہ میرے بارہ میں جو بھی کہتا رہا ہے وہ اس کو بخش دے‘‘۔ کیا اس جیسی معافی کی کوئی مثال ہے؟ (السیرۃ الحلبیۃ لعلامہ ابوالفرج نورالدین۔ ذکر فتح مکہ شرفھا اللہ تعالیٰ جلد3 صفحہ 132مطبوعہ بیروت 2002ء)
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ وَّبَارِکْ وَسَلِّم اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ۔
ایک شخص فضالہ بن عُمیر فتح مکہ کے موقع پر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم طواف کر رہے تھے تو آپ کے قریب قتل کی نیت سے آیا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس کے اس منصوبے کی خبر کر دی۔ آپ نے اسے دیکھ لیا، بلایا تو وہ گھبرا گیا۔ پھر آپ نے اس سے پوچھا کہ کس نیت سے آئے ہو۔ ظاہر ہے جب پکڑا گیا تو اس نے جھوٹ بولنا تھا، بہانے بنانے لگا۔ آپ مسکرائے اور پیار سے اسے اپنے پاس بلایا اور اس کے سینے پر اپنا ہاتھ رکھ دیا، بغیر کسی خوف کے کہ ہتھیار اس کے پاس ہے، کس نیت سے وہ آیا ہوا ہے۔ فضالہ کہتے ہیں کہ جب آپ نے اپنا ہاتھ میرے سینے پر رکھا تو میری تمام نفرت دور ہو گئی۔ (السیرۃ النبویۃ لابن ہشام، تحطیم الاصنام صفحہ 747 دارالکتب العلمیۃ بیروت ایڈیشن 2001ء)
جس ہستی کے قتل کے ارادے سے میں نکلا تھا اس کے اس دستِ شفقت نے میرے دل میں اس کی محبت کے دریا بہا دئیے۔ پس یہ تھا میرے آقا کا اپنے دشمنوں سے سلوک۔ مجرم پکڑا جاتا ہے تو اسے بجائے سزا دینے کے محبت کے تیر سے اس طرح گھائل کرتے ہیں کہ وہ آپکی خاطر اپنی جان تک قربان کرنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے۔ کیا کوئی اور اس شفقت اور عفو کا مقابلہ کر سکتا ہے؟
لیکن ہمیں اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کو ہمیشہ ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے لئے اسوہ حسنہ ہے۔ پس ان نمونوں پر چلنا ان کی طرف توجہ دینا آج کے مسلمانوں کا بھی فرض ہے۔ کاش کہ ان کو سمجھ آ جائے۔
ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جن بھی دو معاملات میں سے ایک کو اختیار کرنے کی اجازت دی گئی، آپؐ نے اُن میں سے آسان ترین کو اختیار فرمایا سوائے اس کے کہ اسے اختیار کرنا گناہ ہوتا۔ اور اگر اسے اختیار کرنا گناہ ہوتا تو آپ اس سے لوگوں میں سے سب سے زیادہ دور بھاگنے والے ہوتے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ذات کے لئے کبھی کسی سے انتقام نہیں لیا سوائے اس کے کہ کوئی اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ حدود میں ناجائز طریق سے داخل ہوتا تو آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم اس کو اللہ تعالیٰ کی خاطر سزا دیتے۔ (بخاری کتاب المناقب باب صفۃ النبیؐ حدیث نمبر 3560)
حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارہ میں روایت ہے کہ انہوں نے ایک مرتبہ دورانِ گفتگو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے عرض کی کہ یا رسول اللہ! میرے والدین آپ پر قربان جائیں۔ حضرت نوحؑ نے اپنی قوم کے خلاف بددعا کی تھی اور یہ دعا کی تھی کہ رَبِّ لَا تَذَرْ عَلَی الْاَرْضِ مِنَ الْکَافِرِیْنَ دَیَّارًا (نوح: 27)۔ اے میرے ربّ! کافروں میں سے کسی کو زمین پر بستا ہوا نہ رہنے دے۔
یا رسول اللہ! اگر آپ حضرت نوح کی طرح ہمارے لئے بددعا کرتے تو ہم سب کے سب تباہ ہو جاتے۔ آپ کی کمر کو لتاڑا گیا۔ آپ کے چہرے کو خون آلود کیا گیا۔ آپ کے سامنے کے دانت توڑے گئے مگر آپ نے صرف خیر کی بات ہی کی اور آپ نے یہ دعا کی کہ اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ لِقَوْمِیْ فَاِنَّھُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ۔ اے اللہ میری قوم کو بخش دے، ان کو معلوم نہیں کہ یہ کیا کر رہے ہیں۔ (الشفاء لقاضی عیاض الباب الثانی فی تکمیل اللہ تعالیٰ …الفصل و اما الحلم صفحہ73 جزء اول دارالکتب العلمیۃ بیروت 2002ء)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ والوں اور دوسرے لوگوں پر بکلی فتح پاکر اور ان کو اپنی تلوار کے نیچے دیکھ کر پھر ان کا گناہ بخش دیا۔ اور صرف انہیں چند لوگوں کو سزا دی جن کو سزا دینے کے لئے حضرت احدیت کی طرف سے قطعی حکم وارد ہوچکا تھا۔ اور بجز ان ازلی ملعونوں کے ہریک دشمن کا گناہ بخش دیا اور فتح پاکر سب کو لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ (یوسف: 93) کہا۔ اور اس عفو تقصیر کی وجہ سے کہ جو مخالفوں کی نظر میں ایک امر محال معلوم ہوتا تھا۔ اور اپنی شرارتوں پر نظر کرنے سے وہ اپنے تئیں اپنے مخالف کے ہاتھ میں دیکھ کر مقتول خیال کرتے تھے۔ ہزاروں انسانوں نے ایک ساعت میں دین اسلام قبول کرلیا۔‘‘ (براہین احمدیہ۔ ہر چہار حصص۔ روحانی خزائن جلد1صفحہ286-287 بقیہحاشیہ نمبر 11)
پس یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا عفو تھا جو مخالفوں کی نظر میں بظاہر ایک بہت مشکل بات تھی۔ کبھی اس طرح کا عفو دکھایا جا سکتا ہے؟۔ لیکن جب آپؐ سے یہ حسنِ سلوک دیکھا تو اس کا نتیجہ کیا ہوا کہ اسلام قبول کر لیا۔ کاش آج مسلمان بھی اس نکتہ کو سمجھ لیں تو اسلام کے پیغام کو کئی گنا ترقی دے سکتے ہیں۔ کاش کہ یہ لوگ شدت پسند گروہوں کے چنگل سے نکل کر اس اسوہ پر غور کریں جو ہمارے سامنے ہمارے آقا و مطاع حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے رکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو عقل دے۔ آمین
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی برداشت اور عفو اور ہر خُلق کا نمونہ بے مثال تھا۔ ان نمونوں پر چلنا، ان کی طرف توجہ دینا آج کے مسلمانوں کابھی فرض ہے۔
اگر مسلمان اس نکتہ کو سمجھ لیں تو اسلام کے پیغام کو کئی گنا ترقی دے سکتے ہیں۔ کاش کہ یہ لو گ شدت پسندگروہوں کے چنگل سے نکل کر اس اُسوہ پر غو ر کریں جو ہمارے سامنے ہمارے آقا و مطاع حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے رکھا ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے منافقوں کے ساتھ عفو ودرگزر اور حسن سلوک کے غیر معمولی نمونوں کا تذکرہ۔
فرمودہ مورخہ 14؍جنوری 2011ء بمطابق 14 ؍صلح 1390 ہجری شمسی، بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن (برطانیہ)
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔