انڈونیشیا میں جماعت کے ابتدائی حالات اور مخالفتوں پر صبر و استقامت
خطبہ جمعہ 11؍ فروری 2011ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اسۡتَعِیۡنُوۡا بِالصَّبۡرِ وَ الصَّلٰوۃِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصّٰبِرِیۡنَ۔وَ لَا تَقُوۡلُوۡا لِمَنۡ یُّقۡتَلُ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ اَمۡوَاتٌ ؕ بَلۡ اَحۡیَآءٌ وَّ لٰکِنۡ لَّا تَشۡعُرُوۡنَ۔وَ لَنَبۡلُوَنَّکُمۡ بِشَیۡءٍ مِّنَ الۡخَوۡفِ وَ الۡجُوۡعِ وَ نَقۡصٍ مِّنَ الۡاَمۡوَالِ وَ الۡاَنۡفُسِ وَ الثَّمَرٰتِ ؕ وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِیۡنَ۔الَّذِیۡنَ اِذَاۤ اَصَابَتۡہُمۡ مُّصِیۡبَۃٌ ۙ قَالُوۡۤا اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ۔اُولٰٓئِکَ عَلَیۡہِمۡ صَلَوٰتٌ مِّنۡ رَّبِّہِمۡ وَ رَحۡمَۃٌ ۟ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُہۡتَدُوۡنَ۔ (سورۃ البقرہ آیات 154تا 158)
ان آیات کا ترجمہ ہے کہ اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو اللہ سے صبر اور صلوۃ کے ساتھ مدد مانگو۔ یقینا اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ اور جو اللہ کی راہ میں قتل کئے جائیں اُن کو مُردے نہ کہو بلکہ وہ تو زندہ ہیں لیکن تم شعور نہیں رکھتے۔ اور ہم ضرور تمہیں کچھ خوف اور کچھ بھوک اور کچھ اموال اور جانوں اور پھلوں کے نقصان کے ذریعہ آزمائیں گے۔ اور صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے۔ اُن لوگوں کو جن پر جب کوئی مصیبت آتی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ ہم یقینا اللہ ہی کے ہیں اور ہم یقینا اُسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جن پر اُن کے رب کی طرف سے برکتیں ہیں اور رحمت ہے اور یہی وہ لوگ ہیں جو ہدایت پانے والے ہیں۔ گزشتہ دنوں انڈونیشیا میں درندگی اور سفّاکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مخالفینِ احمدیت نے جو تین احمدیوں کو شہید کیا ہے اُس سے ہر احمدی غمزدہ ہے۔ لیکن جیسا کہ ہمیشہ سے اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کرتے ہوئے جماعت احمدیہ کا بحیثیت جماعت بھی اور ہر احمدی کا ایک مومن ہوتے ہوئے بھی یہی طریق رہا ہے کہ ہم صبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی جان، مال اور ہر قسم کے نقصان کو اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی ہوتے ہوئے برداشت کرتے ہیں اور یہی کہتے ہیں کہ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ کہ یقینا ہم اللہ ہی کے ہیں اور اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ یہی مومنین کی اللہ تعالیٰ نے نشانی بتائی ہے۔
یہ آیات جو مَیں نے تلاوت کی ہیں، انہیں آج احمدیوں سے زیادہ کون سمجھ سکتا ہے۔ دشمن بار بار ہم سے یہ سلوک کرتا ہے اور ہم بار بار ان آیات کو اپنے سامنے رکھتے ہوئے دہراتے رہتے ہیں۔ جان، مال کی قربانیاں چاہے انڈونیشیا کا احمدی دے رہا ہو، یا پاکستان کا احمدی دے رہا ہو، یا کسی اور ملک کا احمدی دے رہا ہو، جو مومنانہ شان کا مظاہرہ کرنے کی روح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشقِ صادق نے ایک احمدی کے دل میں پھونک دی ہے وہ ہر جگہ کے رہنے والے احمدی میں ایک قدرمشترک ہے کہ خدا تعالیٰ کی خاطر جو نقصان پہنچایا جا رہا ہے، خدا تعالیٰ کی خاطر جو ہم سے قربانی کا مطالبہ کیا جا رہا ہے اس پر اللہ تعالیٰ نے ہمیں اسی جواب کی تلقین فرمائی ہے اور اسی جواب کا عملی مظاہرہ ہمارے آقا و سید حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا اور یہی روح آپ نے اپنے صحابہ میں پھونک دی تھی جنہوں نے اس کے عملی نمونے دکھائے۔ بلکہ ہر نبی کے ماننے والے پر جب اس کے دشمنوں نے زندگیاں تنگ کیں، ہر زمانے کے فرعون نے جب ایمان لانے والوں کو جان سے ہاتھ دھونے یا اپنے ایمان سے پھر جانے میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے کی شرط رکھی تو ایمان لانے والوں نے ہمیشہ اپنے ایمان کی مضبوطی کا ہی اظہار کیا۔ چنانچہ حضرت موسیٰ ؑ کے وقت میں بھی جب شعبدہ دکھانے والوں پر یہ ظاہر ہو گیا کہ ہمارے جادو کے مقابلے پر حضرت موسیٰ علیہ السلام جو پیش کر رہے ہیں وہ دنیاوی جادو نہیں ہے بلکہ تائیدِ الٰہی ہے اور ایک ایسا نشان ہے جس کا دنیاوی تدبیروں سے مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔ جب اُن پر یہ حقیقت کھل گئی کہ جو پیغام حضرت موسیٰ علیہ السلام دے رہے ہیں وہ الٰہی پیغام ہے تو وہ اس پر فوراً ایمان لے آئے۔ اس پر فرعون کی فرعونیت کو بڑی ٹھیس پہنچی۔ غصہ سے لال بھبھوکا ہو گیا۔ اُس نے کہا کہ تمہارے اس فعل کی میں تمہیں ایسی عبرتناک سزا دوں گا جو ہمیشہ یاد رہے گی تو اس پر ایمان لانے والوں نے فرعون کو یہی جواب دیا تھا کہ ہم تمہیں خدا تعالیٰ کے نشانات پر فوقیت نہیں دے سکتے، خدا تعالیٰ پرایمان پر فوقیت نہیں دے سکتے۔ فَاقْضِ مَآ اَنْتَ قَاضٍ۔ اِنَّمَا تَقْضِیْ ھٰذِہِ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا (طٰہٰ: 73)۔ یعنی پس ہمارے ایمانوں کو پھیرنے کے لئے تو جتنا زور لگا سکتا ہے لگا لے۔ تُو صرف ہماری اس دنیاوی زندگی کو ہی ختم کر سکتا ہے۔ لیکن ایمان لانے کے بعد اللہ تعالیٰ کی خاطر قربان ہو کر ہمیں جو ملنے والا ہے وہ اس سے بہت بڑھ کر ہے جس کا تیری بادشاہت تصور بھی نہیں کر سکتی۔ پس اگر موسیٰ علیہ السلام کے ماننے والے اس ایمان کا مظاہرہ کر سکتے ہیں تو ہم تو اُس افضل الرسل اور خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے ماننے والے ہیں جس پر کامل شریعت اتری، جس پر عمل کرنے سے ہم ایمانوں کی انتہا تک پہنچ سکتے ہیں۔ اور پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق آنے والے اُس مسیح محمدی کے ماننے والے ہیں جس نے ایمان ثریا سے لا کر پھر ایک سلسلہ نشانات کے ذریعہ ہمارے ایمانوں کو مضبوط کیا۔ پس کیا ہم آج کے فرعونوں یا فرعون کے چیلوں سے ڈر کر اپنا ایمان ضائع کر دیں گے؟ جبکہ ہمیں تو خدا تعالیٰ بَشِّرِالصّٰبِرِیْن کی خوشخبری دے رہا ہے۔ ہمیں ہمارے صبر کے مظاہروں اور جان کے نذرانے پیش کرنے پر ہمیشہ کی زندگی کی بشارت دے رہا ہے۔ پس جو لوگ ایمان کی اس حالت پر پہنچے ہوں انہیں نہ دھمکیاں اپنے نیک مقاصد سے ہٹا سکتی ہیں، نہ ظلم و بربریت کی انتہا اپنے ایمانوں پر قائم رہنے سے روک سکتی ہے۔ پس اے دشمنانِ احمدیت! جو دنیا کے کسی بھی کونے میں بس رہے ہو، تم احمدی پر جو بھی ظلم روا رکھنا چاہتے ہو رکھ لولیکن ہمیں ہمارے ایمانوں سے سرِ مُو ہٹا نہیں سکتے۔ ہر جگہ کے احمدی سے تم یہی جواب سنو گے کہ فَاقْضِ مَآ اَنْتَ قَاضٍ تم جو کر سکتے ہو کر لو۔ ہمیں ہمارے ایمانوں سے نہیں پھیر سکتے۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔
انڈونیشیا کے احمدیوں نے بھی دشمن کو یہی جواب دیا۔ وقتاً فوقتاً ان لوگوں کو پہلے دھمکیاں مل رہی تھیں لیکن ایمان کی دولت سے مالا مال ان لوگوں نے ان دھمکیوں کی ذرا سی بھی پروا نہیں کی۔ یہ چھوٹی سی جماعت ہے جہاں یہ واقعہ ہوا ہے۔ صرف تیس افراد پر مشتمل کُل جماعت ہے جس میں عورتیں بچے شامل ہیں۔ سات فیملیز ہیں۔ صرف سات خاندان ہیں۔ لیکن یہ سب اس بات پر دشمن کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر راضی نہ تھے کہ جماعت سے علیحدگی کا اعلان کریں اور ان نام نہاد مُلّاؤں کے پیچھے چل پڑیں۔ اُس وقت وہاں مُلّاں کا یا جو اُن کے چیلے تھے اُن کا سب سے بڑا مطالبہ یہ تھا کہ اپنے معلم کو یہاں سے نکالو جبکہ معلم کوئی غیر نہیں تھا۔ کوئی باہر سے آیا ہوا نہیں تھا۔ بلکہ اُسی قصبے کا رہنے والا تھا۔ وہیں کا باشندہ تھا۔ بہر حال جب مخالفت حد سے زیادہ بڑھنی شروع ہوئی تو ساتھ کی جماعتوں کے بیس خدام مختلف وقتوں میں ڈیوٹی کے لئے وہاں آیا کرتے تھے۔ وہ وہاں مشن ہاؤس میں آ کر بیٹھتے تھے کہ یہ لوگ کہیں مشن ہاؤس پر قبضہ نہ کر لیں۔ کیونکہ عموماً پولیس کی پشت پناہی ان کو حاصل ہے اور ہمارے ساتھ ان لوگوں کایہی طریق رہا ہے کہ جب ہم انتظامیہ کے کہنے پریا لوگوں کی وجہ سے اپنا کوئی مکان یا مشن ہاؤس یا مسجد خالی کرتے ہیں تو انتظامیہ اس پر تالے لگا دیتی ہے یا لوگوں کو قبضہ کروا دیتی ہے یا خود بھی اگر یہ قبضہ کر لیں تو انتظامیہ اُسے خالی نہیں کرواتی۔ یہ گزشتہ کئی سال سے تجربہ ہو رہا تھا۔ اس لئے اب اُس کے بعد سے یہی فیصلہ ہوا ہے کہ جو بھی گزر جائے ہم نے کبھی بھی جگہ خالی نہیں کرنی۔ ہمارے لوگ مشن ہاؤس میں تھے اور اندر بیٹھے تھے۔ ان ظالموں نے جب حملہ کیا ہے تو اندر جا کر درانتیوں اور ٹوکوں اور چاقوؤں اور ڈنڈوں سے احمدیوں کو زخمی کر کے کھینچتے ہوئے باہر لے آئے جبکہ پولیس بھی باہر کھڑی تھی اور یہ سب کچھ دیکھ رہی تھی۔ سب نے یہ خبر سن لی ہے کہ تین احمدیوں کو شہید کیا اور پانچ کو زخمی کیا۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے افرادِ جماعت کی ایمانی حالت اُسی طرح مضبوط ہے بلکہ زیادہ مضبوط ہے۔ یہ سب کچھ انتہائی ظالمانہ طریق پر کیا گیا۔ زمانہ جاہلیت کے کفار کی مثال قائم کر دی گئی۔ افسوس کہ ان نام نہاد ظالم مسلمانوں نے ہمیشہ کی طرح اُس رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلَمِیْن کے نام پر یہ کیا ہے جو رحمتیں بانٹنے آیا تھا۔ جس عظیم نبی نے جنگ میں بھی بعض اصول مقرر فرمائے تھے کہ ان کی پابندی کی جائے۔ جس نے جنگ کے جرم میں ملوّث مقتولوں کے بارہ میں بھی یہ ہدایت دی تھی کہ ان کا مُثلہ نہیں کرنا جو عرب میں عام رواج تھا۔ کیونکہ یہ کسی بھی طرح سے مناسب نہیں ہے کہ لاشوں کی بے حُرمتی کی جائے۔ مذہب تو ایک طرف، انسانیت کے ادنیٰ اصولوں کے بھی یہ خلاف ہے۔ لیکن ہمارے احمدیوں پر حملہ کرنے والے ان ظالموں نے ایسے ظالمانہ طور پر لاشوں کی بے حُرمتی کی ہے کہ لاشیں پہچانی نہیں جاتی تھیں۔ پہلے جو رپورٹ آئی تھی اُس میں غلطی سے کچھ دوسرے لوگوں کا نام دے دیا گیا تھا۔ پھر جب دوبارہ پہچان کی گئی تو پتہ لگا کہ نہیں، یہ تو اور لوگ ہیں۔ اُن کے عزیزوں نے آ کر پھر مختلف نشانیوں سے اُن لاشوں کو پہچانا۔ ان لوگوں نے تو لاشوں کی بے حُرمتی میں کفّار کو بھی مات کر دیا تھا۔ ہمارا دل ان کی حرکتوں پر جو ہمارے پیاروں کی شہادت اور اُن کی لاشوں سے بے حُرمتی پر انہوں نے کیں، بے شک غمزدہ تو ہے اور بے قرار ہے لیکن سب سے بڑا ظلم جو ان لوگوں نے کیا، جیسا کہ مَیں نے پہلے کہا، وہ یہ ہے کہ یہ سب کچھ ہمارے آقا و مولیٰ اور محسنِ انسانیت اور رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر کیا گیا۔ یہ اس قدر ظالمانہ کام تھا کہ ملکی اور غیر ملکی دونوں پریس نے اس کی خبریں دی ہیں اور ویڈیو دکھانے سے اس لئے انکار کر دیا کہ یہ جو انسانیت سوز نظارے ہیں، جو مناظر ہیں، یہ ہم نہیں دکھا سکتے۔ الجزیرہ چینل جو عموماً اس قسم کی خبریں دے دیتا ہے، اس حرکت پر تو اس نے بھی کانوں کو ہاتھ لگایا۔ الجزیرہ نے اپنی خبر میں بتایا کہ یہ ایک خوفناک اور دردناک منظر تھا۔ پولیس کھڑی تھی اور ایک جلوس احمدیوں کے گھروں پر حملہ آور تھا۔ کہتا ہے پھر قتل و غارت شروع ہوتی ہے اور تین آدمیوں کو ننگا کر کے پتھروں اور لاٹھیوں سے اور چاقوؤں اور نیزوں سے مارا گیا۔ یہ کہتا ہے کہ اس کی جو فوٹیج (Footage) بنائی گئی ہے، جو تصویریں کھینچی گئی ہیں وہ ایسی نہیں کہ دکھائی جا سکیں۔ ایشین ہیومن رائٹس کمیشن نے کہا ہے کہ احمدیوں کے خلاف جو یہ ظالمانہ کارروائی ہوئی ہے اس کو مقامی لوگ انڈونیشین علماء کونسل کے فیصلہ کے مطابق صحیح سمجھتے ہیں۔ مقامی لوگوں سے مراد وہ جو کرنے والے تھے۔ یہ ہیں آج کل کے علماء جو آج سے ہزاروں سال پہلے کے جاہلانہ اور ظالمانہ کاموں کو اسلام کے نام پر کرنے کی مسلمانوں کو ترغیب دلا رہے ہیں۔ The Economistایک رسالہ ہے، اُس نے لکھا ہے کہ یہ ظلم مسلمانوں اور عیسائیوں کی لڑائی کی وجہ سے نہیں ہوا بلکہ مسلمان کہلانے والوں نے مسلمانوں کے ساتھ یہ سلوک کیا ہے۔ پھر لکھتا ہے کہ اگر کسی میں اس ظالمانہ عمل کی فلم دیکھنے کی طاقت ہو تو دیکھو گے کہ یہ ظالمانہ قتل و غارت گری بالکل مختلف قسم کی تھی جو آج کل کی تعلیم یافتہ اور مہذب دنیا سے بعید ہے۔ پھر لکھتا ہے کہ جس نے دوسرے شہریوں کو بھی ہلا کر رکھ دیا ہے۔ ہمارے بہت سارے احمدیوں نے بھی اس کی ویڈیو دیکھی ہے اور جس نے بھی دیکھی ہے مجھے یہی لکھا ہے کہ ایک آدھ منٹ سے زیادہ ہم دیکھ نہیں سکے۔ ایک خاتون نے لکھا کہ مَیں نے بچوں سے چھپ کر دیکھی اور رونے لگی اور بچے پریشان تھے کہ کیا وجہ ہے؟ ہماری ماں کیوں رو رہی ہے؟
اسی طرح ایک ا لجیرین احمدی میرے پاس آئے اور ذکر کرتے ہی دھاڑیں مار مار کر رونے لگ گئے۔
اُس کا ایسا خوفناک نقشہ ہے کہ آدمی برداشت نہیں کر سکتا۔ لیکن ان لوگوں نے اپنے بچوں تک کے دل اتنے سخت کر دئیے ہیں کہ وہاں کھڑے سارے نظارے پر وہ تالیاں بجاتے رہے۔ نیو یارک ٹائمز، فنانشل ٹائمز، ان سب نے تقریباً اسی طرح کی خبریں لکھی ہیں۔ جاکرتا پوسٹ جو اُن کا اخبار ہے، اُس میں ایک مضمون نگار کا مضمون ہے، وہ لکھتا ہے کہ ’’جماعت احمدیہ کے افراد پر تازہ حملہ جس وجہ سے بھی ہوا، لیکن یہ ظاہر کرتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں اقلیتی گروپ کے لئے کسی بھی قسم کے مہذب جذبات اور خیالات نہیں ہیں۔ جبکہ یہ احمدی بھی اور دوسرے مذہبی گروپ بھی تعمیرِ وطن میں برابر کے حصہ دار ہیں۔ انڈونیشیا کی تعمیر میں برابر کے حصہ دار ہیں۔ لکھتا ہے کہ یہ افسوس ناک واقعہ انڈونیشیا کی تاریخ کا ہمیشہ کے لئے ایک انمٹ حصہ بن چکا ہے۔ پھر لکھتا ہے کہ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ جماعتِ احمدیہ کی تعلیم غیر اسلامی ہے اس لئے ان کو جینے کا کوئی حق نہیں، یہ سب لوگ راہ سے بھٹکے ہوئے ہیں یا بھٹکا دئیے گئے ہیں۔ پھر لکھتا ہے کہ بیسویں صدی کی نئی سوچ اور ترقی پسند سوچ احمدی سکالرز نے ہی انڈونیشیا کو دی ہے۔ کہتا ہے کہ ہمارے لیڈروں نے جن میں صدرسوئیکارنو بھی شامل ہیں، قرآنِ کریم کا ترجمہ جماعتِ احمدیہ کے سکالر کا ہی لکھا ہوا پڑھا ہے۔ جس سے ان کو قرآنِ کریم کی سمجھ آئی، جس سے ان کے علم میں اضافہ ہوا۔ پھر لکھتا ہے کہ ہم اس اقلیتی گروپ کے یقینا شکر گزار ہیں۔ جماعت احمدیہ کی اس ملک کے لئے خدمات انمول ہیں۔ یہ اس مضمون کا خلاصہ ہے جو مَیں نے بیان کیا ہے۔ یہ لکھنے والے جوگ جاکرتاکی اسلامی یونیورسٹی کے ایک لیکچرر ہیں۔ بہرحال جکارتہ پوسٹ، جکارتہ گلوب وغیرہ نے اس حوالے سے یہ خبریں شائع کی ہیں۔ اور بڑی سختی سے اس عمل کو اور اس حرکت کو ردّ کیا ہے اور حکومت کو توجہ دلائی ہے۔ کم از کم وہاں کے میڈیا اور پڑھے لکھے لوگوں میں یہ جرأت تو ہے کہ ظلم کے خلاف انہوں نے آواز اٹھائی ہے۔ کچھ بولنے والے ہیں جس سے قوم کی بہتری کی کوئی امید کی جا سکتی ہے۔ کاش کہ یہ جرأت پاکستان کے پڑھے لکھے لوگوں میں بھی پیدا ہو جائے اور پریس میں بھی پیدا ہو جائے۔
جماعت احمدیہ کی مخالفت انڈونیشیا میں کوئی نئی نہیں ہے۔ جیسا کہ ہمیشہ سے الٰہی جماعتوں سے طاغوتی طاقتوں کا سلوک رہا ہے، شیطان کا سلوک رہا ہے۔ جماعت احمدیہ کی بھی کسی نہ کسی رنگ میں خاص طور پر اسلامی ممالک میں مخالفت ہوتی رہی ہے اور ہوتی رہتی ہے۔ اور انڈونیشیا میں جماعت کے قیام سے ہی یہ مخالفت رہی ہے۔ ہمیشہ مُلاّں راہِ راست سے ہٹا رہا ہے اور انڈونیشیا میں اُس نے جماعت کی ہمیشہ مخالفت کی ہے۔ مُلاّں کا تو خیر طریقہ ہی یہی ہے۔ وہ کسی بھی ملک کا مُلاّں ہو، اُس نے حق کو نہیں مانناکیونکہ ان کے اپنے مفادات ہیں۔ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر وہ حق کو قبول کر لیں گے تو ان کی روزی بند ہو جائے گی، اُن کی اہمیت ختم ہو جائے گی۔ اُن کے علم کی اصلیت ظاہر ہو جائے گی۔
بہر حال مَیں آج جماعت انڈونیشیا کی ابتدائی مختصر تاریخ اور ظلموں کا بھی ذکر کر دیتا ہوں۔ پھر شہداء کا ذکر کروں گا۔ انڈونیشیا میں اسلام کی نشأۃ ثانیہ کا آغاز اور احمدیت کا نفوذ الٰہی تصرفات کے موجب عجیب رنگ میں ہوا ہے۔ اس ملک کو یہ اعزاز اور فخر حاصل ہے کہ اس کے چار افراد کو جماعت احمدیہ کے مرکز قادیان میں جا کر خود احمدیت قبول کرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ کوئی مبلغ انڈونیشیا نہیں گیا جس نے وہاں جماعت قائم کی بلکہ چار افراد خود قادیان آئے اور وہ اس مقصد کے لئے نہیں آئے تھے کہ احمدی ہوں گے بلکہ پھرتے پھراتے آئے۔ اس کی تفصیل یوں ہے کہ 1923ء میں سماٹرا کے چار نوجوان محترم مولوی ابوبکر ایوب صاحب، مولوی احمدنورالدین صاحب، مولوی زینی دَحلان صاحب اور حاجی محمود صاحب دینی تعلیم کے حاصل کرنے کے لئے سماٹرا سے ہندوستان آئے۔ خدا کی تقدیر انہیں کلکتہ، لکھنؤ اور لاہور کے بعد قادیان کھینچ لائی۔ اگست 1923ء میں یہ چاروں نوجوان قادیان میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور یہ درخواست کی کہ ہماری دینی تعلیم و تربیت کا انتظام کیا جائے۔ چنانچہ حضور رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کی درخواست قبول فرماتے ہوئے اُن کی تعلیم کا بندوبست فرمایا اور دورانِ تعلیم ہی ان پر احمدیت کی حقیقت و صداقت ظاہر ہوئی اور انہوں نے احمدیت قبول کر لی۔ قادیان میں بیعت کرنے والے انڈونیشین نوجوانوں نے بیعت کے بعد پھر احمدیت کے نور سے جلد اپنے ملک کو بھی منور کرنے کی کوشش کی۔ وہیں بیٹھے بیٹھے قادیان سے ہی انہوں نے اپنے رشتے داروں کو تبلیغی خطوط لکھنے شروع کر دئیے اور اس طرح انڈونیشیا میں تبلیغ کے لئے راہ ہموار ہونا شروع ہو گئی۔ حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ جب 29 نومبر 1924ء کو یورپ کے دورے سے واپس گئے ہیں تو ایک استقبالیہ حضور کے اعزاز میں دیا گیا۔ اس دعوت میں ان طلباء نے جو انڈونیشیا سے آئے تھے حضور سے یہ استدعا کی کہ حضور! مشرق کے اِن جزائر کی طرف بھی توجہ فرمائیں۔ اُس وقت حضور نے وعدہ فرمایا کہ انشاء اللہ تعالیٰ مَیں خود یا میرا کوئی نمائندہ آپ کے ملک میں جائے گا۔ چنانچہ حضرت خلیفہ ثانیؓ نے حضرت مولوی رحمت علی صاحب کا انتخاب فرمایا اور آپ کو وہاں بھیجا جو سمندری جہاز کے راستے سفر کرتے ہوئے ستمبر 1925ء میں اس ملک میں پہنچے۔ اور سب سے پہلے سماٹرا میں آچیہ کی ایک چھوٹی سی بستی ’’تاپا تُوآن‘‘ (Tapatuan) میں وارد ہوئے۔ وہاں کی تہذیب و معاشرت اور تھی۔ زبان مختلف تھی۔ غیر لوگ تھے۔ اپنا جاننے والا بھی کوئی نہ تھا۔ لیکن یہ تمام ابتدائی مراحل اور مشکلات حضرت مولوی صاحب کی ہمت اور ارادہ میں فرق نہ ڈال سکے اور زبان سیکھنے کے ساتھ ساتھ انہوں نے انفرادی تبلیغ بھی شروع کر دی۔ پھر علماء سے بحث مباحثے اور مناظرے بھی شروع ہو گئے۔ حضرت مولوی صاحب کو خدا تعالیٰ نے اپنی تائید و نصرت سے نوازا اور چند ماہ میں ہی خدا تعالیٰ کے فضل سے انڈونیشیا کی پہلی جماعت قائم ہو گئی اور آٹھ افرادنے بیعت کی۔ اس کے بعد مزید بیعتیں ہوتی چلی گئیں۔ بہر حال ایک لمبی تفصیل ہے۔ حضرت مولوی صاحب کو جیسا کہ مَیں نے کہا آغاز میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک زبان کا مسئلہ، پھر مخالفتیں بھی شروع ہوئیں اور تہذیب وغیرہ مختلف تھی، تمدنی روایات مختلف تھیں۔ بہر حال جیسا کہ میں نے بیان کیا کہ مولوی صاحب نے اس پر قابو پا لیا۔ علماء نے وہاں یہ فتویٰ دے دیا کہ احمدیوں کی کتب اور مضامین نہ پڑھے جائیں اور نہ ہی ان کے لیکچر سنے جائیں۔ جب مقامی احمدیوں کی تعداد بڑھنے لگی تو وہاں کے لوگوں نے مقامی احمدیوں کا بائیکاٹ کرنا شروع کر دیا حتی کہ اخبارات والے بھی کوئی خبر چھاپنے کے لئے تیار نہ تھے۔ کوئی مضمون چھاپنے کے لئے تیار نہیں ہوتے تھے۔ مخالفت اس حد تک بڑھ گئی کہ لوگوں کے تین تین ہزار کے مجمعے مولوی صاحب کی رہائش گاہ کے آگے کھڑے ہو کے نعرے بازی اور ہلّڑ بازی کرتے تھے اور طرح طرح کے دل آزار نعرے لگاتے تھے اور گالیاں دیتے تھے۔
بہر حال اس کے بعد پھرحاجی محمود صاحب بھی وہاں آ گئے۔ مولویوں نے کسی طرح زبردستی اُن سے یہ بیان لکھوا لیا کہ میں احمدیت چھوڑتا ہوں اور اس پرایک اشتہار شائع کر وا دیا اور بڑا شور پڑا۔ اس کے بعد مولوی صاحب کی مخالفت اور بھی زیادہ شدت سے شروع ہو گئی۔ لیکن بہر حال حاجی محمود صاحب بعد میں سنبھل گئے اور علماء کی چالوں سے محفوظ رہے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں بچا لیا۔ اور جب علماء کو یہ پتہ لگا کہ ہمارا منصوبہ ناکام ہو گیا ہے تو متفقہ طور پر حضرت مولوی رحمت علی صاحب کو ملک بدر کرنے کے لئے کوششیں شروع کر دیں اور حکومت کے افراد اور نمائندوں تک گئے۔ لیکن حکام نے انہیں کہہ دیا کہ ہم مذہبی معاملات میں دخل اندازی نہیں کریں گے۔ بہر حال یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہا۔ دسمبر 1927ء میں پاڈانگ میں غیر احمدی علماء کے ساتھ ایک مباحثہ ہوا جس میں بڑے علماء اور مشائخ اور اخباروں کے ایڈیٹر اور حکومتی عہدیدار موجود تھے۔ اس مباحثے میں جماعت احمدیہ کے مبلغ کو ان میں برتری حاصل رہی اور جیسا کہ مقدر تھایہ ہوناہی تھا۔ مخالف علماء کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ اس کے نتیجے میں احمدیت کی تبلیغ کی راہ ہموار ہو گئی۔ اس دوران میں انڈونیشیا میں تیسری جماعت ڈوکو (Doko) کے مقام پرقائم ہوئی۔
حضرت مولوی رحمت علی صاحب اکتوبر 1929ء میں واپس قادیان تشریف لائے اور 1930ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے دوبارہ ان کو سماٹرا جانے کا ارشاد فرمایا۔ حضرت مولوی صاحب نے حضور کی خدمت میں اپنی معاونت کی غرض سے ایک مزید مبلغ بھجوانے کی درخواست کی۔ اس درخواست کو حضور نے قبول فرماتے ہوئے محترم مولوی محمد صادق صاحب کو آپ کے ساتھ انڈونیشیا جانے کا ارشاد فرمایا اور پھر یہ دونوں انڈونیشیا گئے۔ (تاریخ احمدیت جلد 4صفحہ539۔ نظر ثانی شدہ ایڈیشن)
انڈونیشیا میں جیسے جیسے احمدیت کو فروغ حاصل ہوتا جا رہا تھا احمدیت کی مخالفت میں بھی اضافہ ہونے لگا۔ ابتدائً تین جماعتوں کو ابتلا کا سامنا کرنا پڑا۔ ’تاپک توآن‘ کی جماعت پر وہاں کے راجہ کی طرف سے ابتلا وارد کیا گیا اور احمدیوں کو باقاعدہ نماز کی ادائیگی سے روک دیا گیا۔ (وہاں کا جو مقامی راجہ تھا اُس نے روک دیا) جمعہ کی نماز کی ممانعت کر دی گئی اور تبلیغ عام بند کر دی گئی۔ یہ تمام سختیاں اُن پر عائد کر دی گئیں۔ ’لہو سوکن‘ کی جماعت کو بھی وہاں کے راجہ نے ظلم کا تختہ مشق بنایا اور سب کو مجبور کیا کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو نعوذ باللہ کذّاب اور دجّال کہیں ورنہ انہیں اس جگہ سے نکال دیا جائے گا۔ ایک احمدی مکرم گرو علی صاحب کو ان کے عہدے سے معزول کر دیا گیا۔ تنکو عبدالجلیل اور ان کے چھوٹے بھائی کو احمدی ہونے کی بنا پر گاؤں سے نکال دیا گیا۔ بہر حال مولوی ابوبکر ایوب صاحب بھی اس دوران میں فارغ ہو کے قادیان سے وہاں آ گئے تھے۔ توآپ ’’کِسارَن‘‘ کے علاقے میں تبلیغ کر رہے تھے۔ آپ پر تبلیغ کی پابندی عائد کر دی گئی۔ ایک روز رات بارہ بجے کے بعد شہر کا ایک سرکردہ پولیس افسر پولیس کے ہمراہ وہاں کے سلطان کے حکم سے آپ کو گرفتار کرنے کے لئے آیا۔ اُس نے اس وقت کے حاضر افراد کے نام نوٹ کر لئے اور کہا کہ آپ اور آپ کے ساتھی صبح چیف ڈسٹرکٹ صاحب کے پاس دفتر میں حاضر ہو جائیں۔ صبح جب محترم مولوی صاحب اور آپ کے ساتھی دفتر مذکور پہنچے تو آپ پر سوالات کی بوچھاڑ کر دی گئی۔ چیف صاحب سوالات کر کے گرفت کرنا چاہتے تھے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے مولوی صاحب انتہائی فراست اور حکمت سے تمام سوالوں کے جواب دیتے رہے اور اس کا چیف جسٹس آفیسر جوتھا اُس پر بڑا اچھا اثر ہوا۔ کہتے ہیں اُس وقت اس کی حاکمانہ صورت جاتی رہی اور پھر وہ دلچسپی اور خندہ پیشانی کے ساتھ تقریباً آدھاگھنٹہ احمدیت کے بارہ میں معلومات حاصل کرتا رہا اور بعد میں بڑی عزت سے ان سب کو رخصت کر دیا۔
جیسا کہ مَیں نے بتایا تھا کہ انڈونیشین مضمون نگار نے انڈونیشیا کے بنانے میں جماعت احمدیہ کی خدمات کا ذکر کیا تھا، اس کا مختصر ذکر کر دیتا ہوں۔ یہ تو ذکر پہلے ہو گیا کہ جماعت کس طرح وہاں قائم ہوئی؟ کیا کیا مشکلات شروع دور میں ہوتی رہیں؟ ہمیشہ سے یہاں مخالفت رہی ہے۔ بہر حال پھر جماعتی خدمات کیا تھیں؟ اس بارے میں مختصر بیان کرتا ہوں کہ تحریکِ آزادی انڈونیشیا کے حق میں برصغیر پاک و ہند سے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پُرزور آواز بلند کی اور دوسرے مسلمانوں کو بھی تحریک کی کہ وہ مسلمانانِ انڈونیشیا کی تحریکِ آزادی کی زبردست تائید کریں۔ اس کا اظہار حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے 16؍اگست 1946ء کے ایک خطبہ جمعہ میں فرمایا تھا۔ حضور کی اس تحریک کے بعد قادیان کے مرکزی پریس کے علاوہ دنیا بھر کے احمدی مشنوں کو بھی انڈونیشیا کی تحریکِ آزادی کے حق میں مؤثر آواز بلند کرنے کے لئے کہا گیا۔ یہاں تک کہ بالآخر انڈونیشیا کو آزادی مل گئی۔ اس کی کچھ تفصیل اس طرح ہے کہ جاپانی حکومت کے خاتمہ پر ڈاکٹر سوئیکارنو نے 17؍ اگست 1945ء کو انڈونیشیا کی آزادی کا اعلان کر دیا اور ڈچ حکومت کے خلاف سارے ملک میں آزادی کی جنگ لڑی جانے لگی۔ اس موقع پر مبلغینِ احمدیت اور دوسرے احمدیوں نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ارشاد کے ماتحت تحریک آزادی میں بھر پور حصہ لیا اور مبلغین احمدیت اور جماعت کے سربرآ وردہ احباب نے ری پبلکن حکومت کے ساتھ مل کر کام کیا۔ سید شاہ محمد صاحب’جو گ جاکرتا‘ پہنچے اور ڈاکٹر سوئیکارنو سے ملاقات کی اور ان سے درخواست کی کہ مَیں آزادی کی اس تحریک میں شامل ہو کر اس ملک کی خدمت کرنا چاہتا ہوں۔ (آپ بھی مبلغ تھے) صدر سوئیکارنو نے اور کاموں کے علاوہ آپ کے سپرد ریڈیو سے اردو زبان میں خبریں نشرکر نے کا کام کیا۔ آپ کے علاوہ مکرم مولوی عبدالواحد صاحب اور مکرم ملک عزیز احمد خان صاحب نے بھی تقریباً دو تین ماہ ریڈیو پر نشر کا کام کیا۔ سید شاہ محمد صاحب تو جوش و خروش سے اس تحریک میں شامل رہے۔ ان کا جوش و خروش اتنا تھاکہ ایک سابق وزیرِ داخلہ نے کہا کہ ’’ہم سید شاہ محمد صاحب کو اپنی قوم ہی کا ایک فرد تسلیم کرتے ہیں۔‘‘ یہ ہندوستانی نہیں۔ شاہ محمد صاحب کی خدمات کا اعتراف اس طرح سے ہے۔ سید شاہ محمد صاحب نے تحریک آزادی انڈونیشیا میں جو کردار اد اکیا اور جو خدمات سرانجام دیں ان کو سراہتے ہوئے 3اگست 1957ء کو انڈونیشیا نے زیر خط (اُن کا نمبر ہے) سندخوشنودی عطا کی۔ اور یہ سند جنرل سیکریٹری وزارتِ اطلاعات کے توسط سے دی گئی۔ اور اس میں تحریر کیا گیا کہ’’ہم سید شاہ محمد صاحب ہیڈ آف دی احمدیہ مسلم مشن مقیم جاکرتا کی ان خدمات اور کارناموں کے لئے انتہائی رنگ میں قدرو منزلت کا اعتراف کرتے ہیں جو انہوں نے انڈونیشین قوم اور حکومت ری پبلک انڈونیشیا کی جدوجہد آزادی کے ضمن میں اُس زمانہ میں سرانجام دیں۔ وزارتِ اطلاعات کی قیادت میں شعبہ پبلسٹی کے رکن ہونے کی پوزیشن میں جناب موصوف نے ہمیشہ اپنی دماغی قابلیت اور دیگر صلاحیتوں سے پورے یقین و وثوق سے بین الاقوامی رائے عامہ کو اس طرف مبذول کرایا کہ حکومت ریپبلک انڈونیشیا کی جدوجہد صداقت اور حق پر مبنی ہے۔ پھر لکھا ہے کہ جن دنوں ڈچ حکومت نے جو گ جاکرتا دارالحکومت انڈونیشیا پر حملہ کر کے قبضہ کیا اس زمانہ میں بھی جناب موصوف نے ہماری جدوجہد میں پوری امداد جاری رکھی۔ (پھر لکھتے ہیں کہ) یو۔ این۔ او کے فیصلہ کی روشنی میں جاکرتا سے جب ڈچ افواج کا انخلاء ہوا اور نئی حکومت جوگ جاکرتا منتقل ہوئی اُس وقت بھی جناب موصوف اُس کمیٹی کے ممبر تھے جو حکومت ریپبلک انڈونیشیا کے از سرِ نوقیام کیلئے بنائی گئی تھی۔ پھر اسی سند میں لکھا ہے کہ جب پریذیڈنٹ سوئیکارنو ڈچ حکومت کی نظر بندی کے بعد جوگ جاکرتا آئے تو موصوف اس کمیٹی کے بھی ممبر تھے جس نے صدر سوئیکارنو کا استقبال کیا۔ پھر اس سند میں لکھتے ہیں کہ ڈچ حکومت سے اختیارات لینے کے بعد صدر سوئیکارنو جب جاکرتا آئے تو موصوف بھی اس قافلہ میں شامل تھے جو صدر سوئیکارنو کے ہمراہ تھا اور موصوف واحد غیر ملکی تھے۔ جب حکومت کے دفاتر جو جاکرتہ منتقل ہوئے تو بعد میں موصوف ریڈیو ریپبلک انڈونیشیا کے شعبہ نشرو اشاعت سے منسلک ہوکر اُردو کے پروگرام میں نہایت عمدگی سے فرائض سرانجام دیتے رہے۔ بعد میں اپنے فرائض بحیثیت انچارج احمدیہ مسلم مشن انڈونیشیا انجام دینے لگے‘‘۔
انڈونیشیا کے پہلے صدر جن کا ذکر آیا ہے کہ انہوں نے قرآنِ کریم بھی پڑھا تو احمدیوں سے پڑھا، وہ اپنی کتاب جس کا نام انڈونیشین میں Di Bawa Bendera Revolusi ہے، تحریر کرتے ہیں کہ ’’اگرچہ میں احمدیت کے بعض مسائل سے متفق نہیں بلکہ انکار کرتا ہوں، تب بھی اس کی تعلیمات اور اس کے فوائد کا احسان مند ہوں جو مجھے اس کی طرف سے تحریرات کی شکل میں حاصل ہوئے اور جو عقل اور جدید تقاضوں کے عین مطابق اور وسعتِ ذہن پیدا کرنے والے ہیں‘‘۔ (صفحہ 346)
تو یہ ہے اس کی تفصیل۔ یہ زبانی قربانیاں یا عملی قربانیاں ہی نہیں تھیں یا صرف مشورے کی حد تک نہیں بلکہ 1946ء میں تحریکِ آزادی کے دوران بعض احمدی احباب اپنی زندگیاں قربان کر کے شہیدوں میں شامل ہوئے۔ جن میں ایک ہمارے مکرم راڈین محی الدین صاحب صدر جماعت انڈونیشیا جو سیکرٹری کمیٹی برائے انڈونیشیابھی تھے، انڈونیشیا کے پہلے جشنِ آزادی کی تیاریوں میں مصروف تھے کہ آپ کو ڈچ افواج نے اغوا کر لیا اور بعد میں آپ کو شہید کر دیا۔ تو ملکی آزادی میں احمدیوں کا خون بھی شامل ہے۔ یہ تو جماعت احمدیہ کی انڈونیشیا کے لئے، اُس ملک کے لئے قربانی اور کام اور خدمات کا ذکر ہے۔ لیکن علماء اور شدت پسند گروپوں نے، گروہوں نے اپنے ظلموں کی داستانیں بھی ساتھ ساتھ جاری رکھیں۔ بعض پرانے شہدائے احمدیت انڈونیشیا کا میں ذکر کرتا ہوں۔ 1947ء میں درج ذیل 6 (چھ) احمدی احباب شہید کئے گئے۔
مکرم جائید صاحب (Jaed)، مکرم سورا صاحب (Sura)، مکرم سائری صاحب (Saeri)، مکرم حاجی حسن صاحب، مکرم راڈین صالح صاحب، مکرم دحلان صاحب (Dahlan)۔ ان چھ احباب نے سنگا پارنا ویسٹ جاوا کے گاؤں میں شہادت کا مقام پایا۔ وہابی موومنٹ کے دارالاسلام نامی ایک گروپ نے ڈنڈوں اور پتھروں سے اِن احمدیوں پر شدید حملہ کیا اور اُن کو گھروں میں اہل خانہ کی آنکھوں کے سامنے بڑی بے دردی سے مارتے مارتے گھسیٹتے ہوئے گاؤں سے باہر لے گئے اور مار مار کر شہید کر دیا۔ دارالاسلام گروپ نے حملہ سے قبل اُن کو مجبور کیا کہ احمدیت چھوڑ دیں لیکن یہ سب احمدیت پر ثابت قدم رہے۔ استقامت دِکھائی۔
احمدیوں کے ساتھ وہاں جو سلوک ہو رہا ہے یہ ظالمانہ فعل بہت پُرانے ہیں۔ اس کے دو سال بعد 1949ء میں درج ذیل احمدی احباب نے جامِ شہادت نوش فرمایا۔
مکرم سانوسی صاحب (Sanusi)، مکرم اومو صاحب (Omo)، مکرم تحیان صاحب (Tahyan)، مکرم سہرو می صاحب (Sahromi)، مکرم سوما صاحب (Soma)، مکرم جملی صاحب (Jumli)، مکرم سرمان صاحب (Sarman)، مکرم اوسون صاحب (Uson) اور مکرمہ ایڈوٹ صاحبہ (Idot) اور مکرمہ اونیہ صاحبہ (Uniah) دو خواتین کو بھی شہادت کا اعزاز حاصل ہوا۔
اِن احمدی احباب نے سنگا پارنا ویسٹ جاوا کے گاؤں SANGIANG LABONG میں شہادت کا مقام پایا۔ ان کوبھی وہابی تحریک کے گروپ دارالاسلام نے ڈنڈوں، پتھروں اور اینٹوں سے حملہ کر کے شہید کیا۔ ان کو بھی گھسیٹتے ہوئے گاؤں سے باہر لے گئے اور وہاں انتہائی ظالمانہ طریق سے مارتے مارتے شہید کردیا گیا۔ اِن کو بھی مجبو ر کیا گیا کہ احمدیت سے توبہ کریں لیکن ان سب نے انکار کیا اور استقامت دکھائی اور ثابت قدم رہے۔
پھر اس کے بعد جماعت احمدیہ کی مخالفت کا ایک شدید دور 2001ء میں شروع ہوا جس میں مکرم پاپوک حسن صاحب (Papuq Hasan) کو 22؍جون2001ء میں شہید کیا گیا۔ آپ کی عمر پچپن سال تھی اور قریباً ایک سو مخالفینِ احمدیت نے مغربی لمبوک کے ایک گاؤں ’لالوا‘ (Laloaw) کی جماعت پر حملہ کیا۔ مخالفین، جماعت کی مسجد کو تباہ کرنا چاہتے تھے۔ پاپوک حسن صاحب دیگر احمدی احباب کے ساتھ مخالفین کے حملہ کے سامنے سینہ سپر ہو گئے اور شدید زخمی ہوئے اور بیہوش ہو کر گر گئے۔ فوراً ہسپتال لے جایا گیا لیکن بہت زیادہ خون بہہ جانے کی وجہ سے راستے میں جامِ شہادت نوش فرما لیا۔
2002ء میں حکومت کے کارندے بھی ان ظالموں کے ساتھ مل گئے اور مختلف قسم کے ظلم ہوتے رہے۔ مانسلور (Manislor) کے علاقے میں مخالفین نے احمدیہ مساجد اور احمدی گھروں میں پتھراؤ کیا۔ دو مساجد اور بیالیس (42) احمدی گھروں کے شیشے وغیرہ توڑے۔ لوکل گورنمنٹ نے جماعت مانسلور کی مساعی کو روکنے کے لئے آرڈر جاری کیا کہ احمدی احباب مسجد کا استعمال نہیں کر سکتے۔ 15؍ جولائی2005ء کو جماعت انڈونیشیا کی مرکزی مسجد اور سینٹر پر سینکڑوں مخالفین کے گروہ نے حملہ کیا اور جماعتی عمارات اور املاک کو نقصان پہنچایا۔ پولیس کھڑی تماشا دیکھتی رہی۔ بعض عمارتوں کو آگ لگائی گئی۔ اور سارا سینٹر، مساجد، مشن ہاؤسز، ذیلی تنظیموں کے دفاتر اور دیگر عمارات کو حکومت نے سِیل (Seal) کر دیا۔ یہ حکومت بھی اب ان کے ساتھ شامل ہو رہی ہے۔
19؍ستمبر2005ء کو پانچ سو مخالفین نے ریجن سیانجور (Cianjur) کی پانچ جماعتوں پر حملہ کیا۔ پانچوں جماعتوں کی مساجد کو کافی نقصان پہنچایا گیا۔ دروازے، کھڑکیاں، شیشے توڑے گئے۔ مشن ہاؤسز کو بھی نقصان پہنچایا گیا اور سامان وغیرہ لوٹ لیا گیا۔ بہت ساری چیزیں جلا دی گئیں۔ چھیاسی (86) گھروں کو نقصان پہنچایا اور توڑ پھوڑ کی گئی۔ بعض گھروں کو جلا دیا گیا۔ سامان لوٹ لیا گیا۔ بعض مقامات پر احمدیہ مدرسوں کو بھی نقصان پہنچایا گیا۔ ان جماعتوں میں احمدی احباب کی کاریں موٹر سائیکل بھی جلائے گئے۔
19؍اکتوبر2005ء رات نو بجے سو مخالفین جماعت نے کیٹاپانگ (Kitapang) پر حملہ کیا۔ تین احمدی گھروں کو نقصان پہنچایا۔ دو احمدی دوست زخمی ہوئے۔ اس جماعت کے احباب قبل ازیں پانکور (Pancor) اور سیلونگ (Selong) کے علاقے میں مقیم تھے جہاں 2002ء میں مخالفین نے حملہ کر کے ان کو مسجداور گھروں سے نکال دیا تھا اور ان کے گھروں کو بھی جلا دیا اور مسجد کو بھی جلا دیا تھا۔ چنانچہ یہ وہاں سے ہجرت کر کے کیٹا پانگ (Kitapang) کے علاقے میں آئے تو ان پر اکتوبر 2005ء میں یہاں بھی حملہ کیا گیا۔ ہر جگہ سے تکلیفیں برداشت کیں لیکن پھر بھی اپنے ایمان پر ثابت قدم رہے۔
فروری 2006ء میں مغربی لمبوک جزیرہ کی جماعت کیٹا پانگ (Kitapong) پر حملہ ہوا۔ تیئس (23) گھروں کو نقصان پہنچا۔ چھ گھر جلا دئیے گئے۔ احبابِ جماعت کی دکانوں کو نقصان پہنچایا گیا۔ سامان لوٹ لیا گیا۔ ان کے مال مویشی لوٹ لئے گئے۔ 129احباب جماعت بے گھر ہوئے اور یہ علاقہ چھوڑنا پڑا۔
10؍نومبر2007ء کو پنگوان (Pangauban) گاؤں میں لوکل مولوی کی قیادت میں مدرسوں کے طلباء نے ہماری مسجد کو گرا دیا اور 26احمدیوں کو یہاں سے دوسرے علاقے میں منتقل ہونا پڑا۔
ستمبر 2007ء میں مسجد محمود سنگا پارانہ (Singa Parana) پر مخالفین کی طرف سے اس ماہ میں تیسرا حملہ ہوا۔ مساجد کی تمام کھڑکیاں توڑ دی گئیں۔ چھت کو بھی نقصان پہنچایا۔ دفتری سامان اور فرنیچر توڑ دیا گیا۔
18؍دسمبر2007ء میں مخالفین نے جن کی تعداد 500سے زائد تھی مانسلور (Manislor) جماعت پر حملہ کیا۔ مخالفین کا تعلق ڈیفنس فرنٹ اور مجلسِ مجاہدین انڈونیشیا سے تھا۔ جماعت کی دو مساجد کو نقصان پہنچایا۔ توڑ پھوڑ کی گئی اور جہاں مسجد کے سامان کو نقصان پہنچایا، بارہ (12)قرآنِ کریم بھی جلا دئیے۔ 9مساجد کو پولیس نے سِیل (Seal) کر دیا۔ گھروں کو نقصان پہنچایا گیا اور توڑ پھوڑ کی گئی۔ تین افراد زخمی ہوئے۔
بہر حال اس وجہ سے لوگوں کو وہاں سے نکلنے پر مجبور کیا گیا اور اب تک مختلف جگہوں پریہی حالات ہیں۔ تو (جماعت) انڈونیشیا کے ساتھ یہ سابقہ حالات ہو رہے ہیں لیکن اللہ کے فضل سے وہ ایمان کی مضبوطی دکھاتے ہوئے ایمان پر قائم ہیں اور ہر شر کا صبر سے، حوصلے سے، دعا سے مقابلہ کرتے چلے جا رہے ہیں۔ اب یہ تازہ شہادتیں جو ہوئی ہیں یہ اس جاری ظلم کا ہی نتیجہ ہیں جو کئی سال پہلے سے شروع ہوا تھا۔ لیکن جیسا کہ مَیں نے کہا اس دفعہ مقامی پریس نے بھی کھل کر لکھا ہے اور باہر کی پریس نے بھی لکھا ہے اور اس کی کافی شہرت ہوئی ہے۔
بہرحال اب مَیں ان شہداء کا ذکرِ خیر کرتا ہوں جو شہید ہوئے ہیں۔ اس میں پہلے شہید ہیں مکرم توباکوس چاندرا مبارک صاحب (Tubaqus Chandra Mubarak)۔ یہ پیدائشی احمدی تھے۔ ان کی عمر 34سال تھی۔ جماعتی مرکز میں رہتے تھے۔ پسماندگان میں ایک بیوی ہے جو 5ماہ کی حاملہ ہے۔ 8سال کی شادی کے بعد پہلا بچہ پیدا ہونے والا ہے۔ ان کی خواہش ہے کہ بچہ وقف کیا جائے گا۔ انہوں نے وقف نو کے کاغذات پر کر لئے تھے لیکن ابھی مرکز کو بھجوانے تھے۔ انشاء اللہ تعالیٰ آ جائیں گے۔ بچہ تووقفِ نو میں شامل ہو جائے گا۔ chandra صاحب جماعت کے سیکرٹری زراعت تھے۔ اور جماعت کی زمین جو مرکز میں واقع ہے اس کی ذمہ داری بھی ان کے سپرد تھی۔ بہت ہی مخلص اور جماعتی کاموں میں بہت فعال تھے۔ چندہ باقاعدگی سے ادا کیا کرتے تھے۔ ان کا سارا خاندان ہی بہت مخلص احمدی ہے۔ واقعہ کے ایک دن پہلے ان کی بیوی نے ان سے کہا کہ جماعت cikesik (جہاں یہ حملہ ہوا ہے) وہاں مت جائیں۔ مَیں پانچ ماہ کی حاملہ ہوں۔ آپ کومیرا خیال کرنا چاہئے۔ یا میرا خیال کریں یا جماعت کا خیال۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت میں جماعت کو ترجیح دیتا ہوں۔ صرف ڈرائیور کے طور پر وہاں جانا تھا اور ڈیوٹی والے خدام کو وہاں پہنچانا تھا۔ اور ابھی یہ وہیں تھے کہ حملہ ہو گیا۔ مرحوم اپنے کارکنان کے ساتھ بہت اچھا سلوک کیا کرتے تھے۔ ہر نماز مسجد میں باجماعت ادا کیا کرتے تھے اور اپنی بیوی کو بھی یہی تاکید کرتے کہ وقت پر نماز ادا ہونی چاہئے۔ ایک بہادر خادم تھے۔
توباکوس چاندرا مبارک صاحب (جن کا ذکر ہو رہا ہے) مشن ہاؤس کے اندر تھے اور سب خدام سے آگے تھے۔ مخالفین نے ان کے جسم پر چھریوں کے بہت سے وار کئے اور ظالمانہ طور پر مارا۔ پھر مخالفین نے ان کو لٹکا دیا اور مارتے رہے۔ بعد میں نیچے اتارا اور ان کی لاش کو ڈنڈوں اور پتھروں سے مارا اور لا ش کا حلیہ بگا ڑ دیا۔ پہلے ان کی لاش پہچانی نہیں گئی۔ بعد میں Chandraصاحب کے چھوٹے بھائی نے آکر اس لاش کو جسم کے ایک نشان سے پہچاناکہ یہ ان کے بھائی Chandraصاحب کی لاش ہے۔
دوسرے شہید ہیں احمد ورسونو صاحب (Warsono)۔ ان کا تعلق شمالی جاکرتا سے تھا۔ ان کی عمر 38سال تھی۔ 2002ء میں بیعت کی توفیق پائی۔ اہلیہ کے علاوہ چار بچے ہیں۔ ان کو احمدیت کا تعارف 2000ء میں ہوا جب حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ انڈونیشیا تشریف لے گئے تھے۔ ایک احمدی دوست نے ان کو لٹریچر پڑھنے کے لئے دیا۔ انہوں نے دلچسپی سے پڑھا اور دو سال کی تحقیق کے بعد بیعت کا فیصلہ کیا۔ بعد میں ان کی اہلیہ نے بھی بیعت کی اور بہت جلداحمدیت کی سچائی پر مضبوطی سے قائم ہو گئے۔ احمدیت میں داخل ہونے سے پہلے وہ اپنے والدین سے اچھا سلوک نہیں کرتے تھے۔ لیکن جب وہ احمدیت میں داخل ہوئے تو ان کے والدین بہت خوش ہوئے کیونکہ ان کے اخلاق اچھے ہوگئے اور وہ والدین کا ادب کرتے اور نرمی سے پیش آتے۔ روحانیت میں بہت ترقی کی۔ کہتے تھے کہ مَیں تبلیغ کرتا ہوں تو آسمانی مدد محسوس کرتا ہوں اور خدا تعالیٰ میری ضرورتیں پوری کرتا ہے۔ ایک دن ان کو روپے کی سخت ضرورت تھی۔ گھر کا کرایہ ادا کرنا تھااور روزمرہ کی ضروریات درپیش تھیں۔ انہوں نے بہت دعائیں کیں۔ آخر کچھ دیر بعد ایک آدمی آیااور ان کو کام کروانے کے لئے لے گیااور جو رقم ملی اس سے ضرورت پوری ہوگئی۔ ان کی بڑی خواہش تھی کہ اپنی زندگی میں دوسروں کے کام آئیں۔ ان کو خواب آئی اور حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ، حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ، حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ اور حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ سے ملاقات ہوئی۔ اور کئی بیعتیں بھی انہوں نے کروائیں۔ تبلیغ کا بڑا شوق تھا۔ بہت بہادر تھے۔ بعد میں آئے لیکن بہتوں سے آگے نکل گئے۔
ان کی شہادت کا واقعہ اس طرح ہے کہ جب حملہ ہوا تو ورسونو صاحب مشن ہاؤ س کے اندر تھے۔ مخالفین نے چھریوں اور درانتی اور ڈنڈوں سے ان کو ظالمانہ طور پر مارا۔ انکی لاش باہر لائی گئی اور مخالفین باری باری پولیس اور لوگوں کے سامنے لاش کو مارتے رہے۔ پولیس تماشہ دیکھتی رہی۔ ان کی لاش بھی پہچانی نہیں گئی تھی بلکہ ایک دوسرے خادم نے غلطی سے کسی دوسرے آدمی کو سمجھا لیکن بعد میں جب صحیح طرح دیکھا گیا تو پتا لگا کہ یہ ورسونو صاحب ہیں، دوسرے خادم نہیں ہیں۔ رونی پسارانی صاحب (Roni Pasarani)۔ شہادت کے وقت ان کی عمر 35سال تھی۔ 11 جنوری 2008ء میں بیعت کی تھی۔ ابھی دو سال ہی ہوئے تھے۔ شمالی جاکرتا کے رہنے والے تھے۔ پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ5 اور 6سال کی دو بچیاں چھوڑی ہیں۔ بیعت سے قبل قاتل، ڈاکو اور قمار باز تھے۔ ورسونوصاحب جو خود بھی شہید ہوئے ہیں ان کی تبلیغ سے احمدیت کے بارہ میں علم ہوا۔ ایک رات انہوں نے خواب میں دیکھا کہ ایک بزرگ سے ملا ہوں جس نے پگڑی پہنی ہوئی ہے۔ چنانچہ ایک دن ورسونو صاحب کے گھر ان کو ملنے آئے اور دیوار پر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی تصویر دیکھ کر کہنے لگے کہ ان کو خواب میں دیکھا تھا۔ اس طرح یہ احمدیت کے مزید قریب ہوگئے اور جماعتی لٹریچر کا مطالعہ کیا۔ چنانچہ 2008ء کے سال میں Roni صاحب نے بیعت کی توفیق پائی۔ احمدیت میں داخل ہونے کے بعد ان کی کایا پلٹ گئی اور ان کی بیوی بہت حیران رہ گئی کہ RONI صاحب پر روحانی انقلاب برپا ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو ان کی کوئی نہ کوئی نیکی پسند آئی جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اتنے بڑے اعزاز سے نوازا کہ ساری برائیاں چھوڑ کے پہلے احمدیت کی قبولیت کی توفیق عطا ہوئی اور پھر شہادت کا رتبہ بھی پایا۔ پانچوں نمازوں کے علاوہ تہجد بھی ادا کرتے تھے اور جماعتی کتب باقاعدہ پڑھتے تھے۔ چندہ باقاعدگی سے ادا کرتے تھے۔ بہت بہادر تھے۔ دو سال کا جتنا بھی عرصہ ان کو ملا احمدیت کی بہت تبلیغ کی اور ان کی تبلیغ کے نتیجہ میں کئی بیعتیں بھی ہوئیں۔ ایک اہم بات ان کے بارے میں یہ بھی ہے کہ یہ کئی دفعہ کہتے تھے کہ ’’شہید کے طور پر مرنے کی خواہش ہے‘‘۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی یہ خواہش پوری کر دی۔
مکرم رونی پسارانی صاحب کی شہادت بھی مکرم ورسونو صاحب کی طرح ہوئی۔ مخالفین نے ان کو بھی چھریوں اور درانتیوں اور ڈنڈوں سے مارا۔ ان کی لاش باہر لائی گئی اور پھر اسی طرح بے حرمتی کی گئی اور حلیہ بگاڑا گیا۔
تو یہ وہ لوگ ہیں جو ہمیشہ کی زندگی پانے والے ہیں۔ جن کو اللہ تعالیٰ نے جنت کی خوشخبری دی ہے۔ جو آسمانِ احمدیت کے روشن ستارے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرتا چلا جائے اور ان کے لواحقین کو بھی صبر اور حوصلہ عطا فرمائے اور خود ان کا حافظ و ناصر ہو۔ جماعت انڈونیشیا کے ہر فرد کے ایمان میں پہلے سے بڑھ کر مضبوطی پیدافرمائے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے جس کشف کا ذکر فرماتے ہوئے حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید کے نقشِ قدم پر چلنے والے کچھ اور لوگوں کے ملنے کا ذکر فرمایا تھا، ان میں یہ دور دراز علاقے میں رہنے والے لوگ بھی شامل ہیں جن میں سے بہت سوں نے خلفائے احمدیت میں سے بھی کسی کو نہیں دیکھا لیکن ایمان کی مضبوطی ان کی بے مثال ہے۔ خلافت سے وفا کا تعلق قابلِ تقلید ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کشف کا مَیں پہلے بھی پچھلے بعض خطبات میں ذکر کر چکا ہوں، دوبارہ بتاتا ہوں۔ کشف یوں ہے آپ فرماتے ہیں کہ
’’مَیں نے کشفی حالت میں دیکھا کہ ہمارے باغ میں سے ایک بلند شاخ سرو کی کاٹی گئی اور مَیں نے کہا اس شاخ کو زمین میں دوبارہ نصب کر دو، تا وہ بڑھے اور پھولے‘‘۔ آپ فرماتے ہیں ’’سومَیں نے اس کی یہی تعبیر کی کہ خدا تعالیٰ بہت سے ان کے قائم مقام پیدا کر دے گا‘‘۔ (تذکرۃ الشہادتین۔ روحانی خزائن جلد 20۔ صفحہ 76-75)
یعنی حضرت صاحبزادہ عبداللطیف شہید کے بہت سے قائم مقام پیدا کر دے گا۔ پس یہ شہداء تو اپنا مقام پا کر، قابلِ تقلید مثالیں چھوڑ کر اس دنیا سے رخصت ہو کر اپنے مولا کے حضور حاضر ہو گئے اور قادیان سے ہزاروں میل دور رہتے ہوئے بھی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی سچائی کو ثابت کرنے والے بن گئے۔ لیکن ہم پیچھے رہنے والوں کو بھی اپنی ایمانی حالتوں کا ہر وقت جائزہ لیتے رہنا چاہئے۔ ہمیں ہر شہادت کے بعد یہ عہد کرنا چاہئے کہ ہم ان ظلموں کی وجہ سے صرف یہ نہیں کہ اپنے ایمانوں کو ضائع نہیں ہونے دیں گے بلکہ اس میں بڑھنے کی کوشش کریں گے۔ انشاء اللہ۔ کسی قسم کی ایسی حرکت نہیں کریں گے جس سے ہماری روایات اور ہمارے صبر پر حرف آتا ہو، جس سے ہماری اپنے ملک سے وفا پر حرف آتا ہو۔ جیسا کہ مَیں نے بتایا جماعت انڈونیشیا نے بھی انڈونیشیا کی تعمیر میں ایک کردار ادا کیا ہے۔ جماعت احمدیہ کا ہر فرد جس ملک میں بھی رہتا ہے اُس کا وفادار ہے اور ہونا چاہئے اور انشاء اللہ تعالیٰ ہمیشہ رہے گا۔ وفا کا یہ تقاضا ہے کہ ہم یہ بھی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے ملکوں کو ظالموں کے پنجہ سے آزاد کرے اور ہم پر کبھی ایسے حاکم مسلّط نہ کرے جو رحم کرنا نہ جانتے ہوں۔ ہم دنیاوی تدبیر کے لئے قانونی چارہ جوئی تو کرتے ہیں لیکن قانون اپنے ہاتھ میں نہیں لیتے۔ ہاں اپنے رب کے حضور جھکتے ہیں۔ ہمارا زیادہ انحصار، قانونی چارہ جوئی کرنے سے زیادہ انحصار اپنے ربّ کے حضور جھکنے میں ہے۔ اس سے دعائیں کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی مدد پر ہمارا انحصار ہے۔ اس کی رحمتوں پر ہمارا انحصار ہے۔ اور اب بھی ہم ہمیشہ کی طرح اللہ تعالیٰ کے حضور ہی جھکیں گے۔ ہمیشہ یہ دعا پڑھتے رہیں رَبَّنَا اَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًا وَّثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَاعَلَی الْقَوْمِ الْکَافِرِیْنَ (البقرۃ: 251) اللہ کرے کہ ہمارے میں سے کسی ایک کے بھی پائے ثبات میں کبھی لغزش نہ آئے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کرتے ہوئے ایک جگہ فرماتے ہیں کہ: ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو صبر کی ہی تعلیم دی۔ آخر کار سب دشمن فنا ہو گئے۔ ایک زمانہ قریب ہے کہ تم دیکھو گے کہ یہ شریر لوگ بھی نظر نہ آئیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے ارادہ کیا ہے کہ اس پاک جماعت کو دنیا میں پھیلائے‘‘۔
آپ فرماتے ہیں ’’اگر خدا تعالیٰ چاہتا تو یہ لوگ دکھ نہ دیتے اور دُکھ دینے والے پیدا نہ ہوتے۔ مگر خدا تعالیٰ ان کے ذریعے سے صبر کی تعلیم دینا چاہتا ہے‘‘۔
آپ فرماتے ہیں کہ ’’جو شخص دُکھ دیتا ہے، یا تو توبہ کر لیتا ہے‘‘۔ (آخری نتیجہ یہ ہو گا) ’’یا تو توبہ کر لیتا ہے یا فنا ہو جاتا ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد دوم صفحہ 543۔ مطبوعہ ربوہ)
جو بھی ہمیں دُکھ دے رہا ہے، اُن میں سے کچھ تو ہیں جن کی اصلاح ہو جائے گی اور توبہ کر لیں گے یا پھر فنا ہو جائیں گے۔
پس دعاؤں اور صبر کے ساتھ اپنے مقصد کے حصول کے لئے ہر احمدی کا فرض ہے کہ وہ آگے بڑھتا چلا جائے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں صبر کی طاقت بھی عطا فرمائے اور شریر لوگوں کا خاتمہ فرمائے۔ ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے کئے گئے اللہ تعالیٰ کے وعدوں کو پورا ہوتے ہوئے دیکھنے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی پناہ میں لے لے اور دشمنوں کی پکڑ کرے۔ ہمارے مخالفین کی ہمارے سے کوئی ذاتی دشمنی تو ہے نہیں۔ یہ سب جو ہم احمدیوں کے ساتھ ہو رہا ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دشمنی ہی کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ اور اس کی اب ہر جگہ انتہا ہو رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ دشمن کو عبرت کا نشان بنائے اور جن کی اصلاح اللہ تعالیٰ کی نظر میں مقدر نہیں ہے اُن کے جلد پکڑ کے سامان بنائے۔
جو زخمی ہیں اُن کے لئے بھی دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ انہیں جلد شفا عطا فرمائے۔ تین زخمی ابھی ہسپتال میں ہیں جبکہ دو فارغ کر دئیے گئے ہیں جن کی صحت اللہ کے فضل سے ٹھیک ہے۔
انڈونیشین احمدیوں کو بھی مَیں خاص طور پر یہ کہنا چاہتا ہوں۔ کہ تمام احمدیوں کی دعائیں آپ کے ساتھ ہیں۔ مجھے مختلف خطوط آ رہے ہیں جن میں آپ لوگوں کے لئے فکر اور پریشانی کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ وہاں ظلم کے نظارے جو مختلف ویب سائٹس وغیرہ پر دکھائے گئے ہیں، اس نے ہر احمدی کو ایک درد اور تڑپ میں مبتلا کر دیا ہے جس کی وجہ سے وہ آپ کے لئے دعائیں کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو اپنی حفاظت میں رکھے اور ہر شر سے آئندہ ہر احمدی کو بچائے اور دشمن کے منصوبے انہی پر لوٹائے۔
ابھی ان شہداء کی نمازِ جنازہ غائب بھی مَیں پڑھوں گا۔ اس کے ساتھ ہی کل مردان میں ایک واقعہ ہوا ہے۔ پنجاب رجمنٹ میں خودکش حملے سے وہاں جو فوجی ٹریننگ لے رہے تھے، اُن میں سے کئی اموات ہوئی ہیں۔ اُن میں ہمارے ایک احمدی نوجوان منیر احمد بھی شامل تھے جو ابھی بھرتی ہوئے تھے۔ بیگووال کے رہنے والے اور ٹریننگ لے رہے تھے اور شاید پاسنگ آؤٹ پریڈ تھی یا کیا تھا، بہر حال وہ بھی اس میں شہید ہوئے ہیں۔ اُن کو بھی اس جنازے میں شامل کر لیں۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت کا سلوک فرمائے۔ یہ ہمارے دو واقفینِ زندگی مبلغین محمود احمد منیر صاحب مربی سلسلہ اور مبشر احمد صاحب کے بھانجے تھے۔ نوجوان کی صرف اکیس سال عمر تھی۔ اللہ تعالیٰ ان کے والدین کو بھی صبر، ہمت اور حوصلہ عطا فرمائے۔
اے دشمنانِ احمدیت! جو دنیا کے کسی بھی کونے میں بس رہے ہو، تم احمدی پر جو بھی ظلم روا رکھنا چاہتے ہو رکھ لولیکن ہمیں ہمارے ایمانوں سے سرِ مُو ہٹا نہیں سکتے۔
ہر جگہ کے احمدی سے تم یہی جواب سنو گے کہ فَاقْضِ مَآ اَنْتَ قَاضٍ تم جو کر سکتے ہو کر لو۔ ہمیں ہمارے ایمانوں سے نہیں پھیر سکتے۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔
انڈونیشیا میں جماعت کے ابتدائی حالات اور مخالفتوں اور انڈونیشین احمدیوں کے صبر و استقامت کے عظیم الشان نمونوں کا تذکرہ
حال ہی میں چِک یُوسِک (انڈونیشیا) میں نہایت ظالمانہ اور سفّاکانہ طور پر شہید کئے جانے والے تین احمدیوں مکرم توباکوس چاندرا مبارک صاحب، مکرم احمد ورسونو صاحب اور مکرم رونی پسارانی صاحب کا ذکر خیر۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ہمیشہ کی زندگی پانے والے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے جنت کی خوشخبری دی ہے۔ جوآسمان احمدیت کے روشن ستارے ہیں۔ مردان میں پنجاب رجمنٹ پر خو د کش حملہ کے دوران ایک احمدی نوجوان منیر احمد کی شہادت۔ شہداء انڈونیشیا اور مکرم منیر احمد صاحب کی نماز جنازہ غائب۔ احباب جماعت کو صبر اور دعاؤں کی خصوصی تلقین۔
فرمودہ مورخہ 11فروری 2011ء بمطابق 11 ؍تبلیغ 1390 ہجری شمسی، بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن (برطانیہ)
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔