حضرت سید داؤد مظفر شاہ صاحب

خطبہ جمعہ 11؍ مارچ 2011ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کے زمانے کو دیکھا جاوے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ لوگ بڑے سیدھے سادے ہوتے تھے۔ جب ایک برتن کو مانجھ کر صاف کر دیا جاتا ہے، پھر اُس پر قلعی ہوتی ہے اور پھر نفیس اور مصفیٰ کھانا اُس میں ڈالا جاتا ہے یہی حالت اُن کی تھی۔ اگر انسان اس طرح صاف ہو اور اپنے آپ کو قلعی دار برتن کی طرح منور کرے تو خدا تعالیٰ کے انعامات کا کھانا اُس میں ڈالا جاوے گا‘‘۔ فرمایا’’لیکن اب کس قدر انسان ہیں جو ایسے ہیں؟‘‘` (البدر جلد 2نمبر23مورخہ 26جون 1903ء صفحہ 177کالم نمبر1)

اسی کی ایک اَور روایت ہے جس کا ورژن (Version) دوسرے اخبار میں یہ ہے کہ برتن کی مثال دیتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ ’’جس طرح برتن صاف ہوتا ہے ایسے ہی اُن لوگوں کے (یعنی صحابہ کے) دل تھے جو کلامِ الٰہی کے انوار سے روشن اور کدورتِ انسانی کے زنگ سے بالکل صاف تھے۔ گویا قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا (الشمس: 10) کے سچے مصداق تھے‘‘۔ (الحکم جلد7نمبر24مورخہ 30جون 1903ء صفحہ 10کالم نمبر2)

پس یہ انقلاب تھا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن لوگوں میں پیدا فرمایا جو دشمنیوں اور کینوں میں اس قدر بڑھے ہوئے تھے کہ ایک دفعہ کی دشمنی نہ صرف یہ کہ سالوں چلتی تھی بلکہ نسلوں تک چلتی تھی۔ لیکن جب ایمان لائے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق کی وجہ سے خدا تعالیٰ کے کامل عبد بننے کی کوشش کی۔ قرآنِ کریم کو پڑھا، سمجھا اور اپنے پر لاگو کیا اور اس الٰہی کلام کے نور سے اپنے دلوں کو منور کیا توپھر ایسے مصفٰی ہو گئے جیسے قلعی کیا ہوا برتن چمکتا ہے۔

یہاں رہنے والوں کو یا بعض لوگوں کو شاید قلعی کا صحیح اندازہ نہ ہو کہ برتن کو قلعی کرنے کا طریق کیا ہے؟ پُرانے زمانے میں تانبے اور دھاتوں کے برتن ہوتے تھے اور کچھ عرصے بعد انہیں قلعی کروانا پڑتا تھا۔ پاکستان میں اور ہندوستان میں رہنے والے لوگوں کو تو اندازہ ہو گا کہ کس طرح قلعی ہوتی ہے اور خاص طور پر جو ہمارے لنگر خانوں میں ڈیوٹی دینے والے ہیں اُن کو بھی اندازہ ہے کیونکہ جلسہ سالانہ میں دیگیں قلعی کروائی جاتی ہیں۔ قلعی کے لئے پہلے برتن کو آگ میں ڈالا جاتا ہے پھر اُس پر نوشادر یا کچھ کیمیکل ملے جاتے ہیں یا مَل کے آگ میں ڈالا جاتا ہے۔ بہر حال اُس کے بعد پھر ایک سفید چمکدار دھات ہوتی ہے وہ اُس پر مَلی جاتی ہے۔ جب اچھی طرح اُس کا گند پہلے سے اتارا جائے اور پھر یہ دھات مَل کے اُس کو ایک کپڑے سے اچھی طرح پالش کیا جائے تو پھر وہ برتن اس طرح بالکل صاف شفاف اور چمکدار ہو جاتا ہے جیسے چاندی کا برتن ہو۔

مَیں نے یہ وضاحت اس لئے کی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ قلعی کئے ہوئے برتن کی جو مثال دی ہے، یہ کوئی عام کوشش نہیں ہے بلکہ اچھی طرح صاف کرنے کے بعد مزید چمکانے کے لئے آگ میں ڈالا جاتا ہے۔ ایک پراسس (Process) ہے اُس میں سے گزرنا پڑتا ہے۔ ایک عمل ہے اُس میں سے گزرنا پڑتا ہے۔ تو آپ کی بات کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان جب اُس مقام پر پہنچتا ہے یا پہنچنا چاہتا ہے جب کلامِ الٰہی کے نور سے حقیقی رنگ میں منور ہو تو ایک تکلیف سے، ایک محنت سے یا تکلیف دہ محنت سے گزرنا پڑتا ہے، تب ایک انسان اُس فلاح کے مقام کو حاصل کرتا ہے جس کی اللہ تعالیٰ نے وضاحت فرمائی ہے کہ اس نے فلاح حاصل کر لی جو پاک ہو گیا۔

جب تزکیہ نفس ہو یا تزکیہ نفس کرنے کی کوشش ہو تو اس کے لئے ایک محنت درکار ہے۔ اس زمانہ میں آخرین کو پہلوں سے ملانے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھی اپنے آقا کی غلامی میں اس لئے مبعوث ہوئے کہ زنگ آلود دلوں کو مصفٰی کرنے کا طریق بتا کر ان برتنوں کو کلامِ الٰہی کے نور سے منور کر دیں۔ آپ کے صحابہ میں ہم جس کو بھی دیکھتے ہیں یہ مثالیں ہمیں نظر آتی ہیں۔ اُن کے دل نور سے بھرے ہوئے تھے اور تقویٰ سے زندگی گزارنے والے تھے۔ پس یہ عمل ہی ہے جس کو کر کے ہم اللہ تعالیٰ کا قرب پا سکتے ہیں، اپنے نفس کا تزکیہ کر سکتے ہیں۔ اس بات کی مزید وضاحت کرتے ہوئے ایک جگہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:

’’تم لوگوں کو سمجھنا چاہئے کہ تزکیہ نفس کس کو کہا جاتا ہے۔ سو یاد رکھو کہ ایک مسلمان کو حقوق اللہ اور حقوق العباد کے پورا کرنے کے واسطے ہمہ تن تیار رہنا چاہئے اور جیسے زبان سے خدا تعالیٰ کو اس کی ذات اور صفات میں وَحْدَہٗ لَا شَرِیْک سمجھتا ہے ایسے ہی عملی طور پر اُس کو دکھانا چاہئے اور اُس کی مخلوق کے ساتھ ہمدردی اور ملائمت سے پیش آنا چاہئے۔ اور اپنے بھائیوں سے کسی قسم کا بھی بُغض، حسد اور کینہ نہیں رکھنا چاہئے۔ اور دوسروں کی غیبت کرنے سے بالکل الگ ہوجانا چاہئے‘‘۔ فرمایا کہ ’’خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم آپس میں ایک وجود کی طرح بن جاؤ اور جب تم ایک وجود کی طرح ہو جاؤ گے اُس وقت کہہ سکیں گے کہ اب تم نے اپنے نفسوں کا تزکیہ کر لیا‘‘۔ (ملفوظات جلدنمبر5صفحہ 407 جدید ایڈیشن)

فرمایا کہ ’’دنیا میں انسان کو جو بہشت حاصل ہوتا ہے قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا (الشمس: 10) پر عمل کرنے سے ملتا ہے۔ جب انسان عبادت کا اصل مفہوم اور مغز حاصل کرلیتا ہے تو خدا تعالیٰ کے انعام و اکرام کا پاک سلسلہ جاری ہو جاتا ہے اور جو نعمتیں آئندہ بعدمُردنِ ظاہری، مَرئی اور محسوس طور پر ملیں گی وہ اب روحانی طور پر پاتا ہے‘‘۔ (الحکم جلد6نمبر26مورخہ24جولائی1902ء صفحہ9کالم نمبر3) (یعنی جو نعمتیں مرنے کے بعد ملنی ہیں اور جو محسوس بھی ہوں گی وہ روحانی طور پر اس دنیا میں مل جاتی ہیں )

پس یہ وہ اصل مقصد ہے جس کے لئے اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام آئے کہ انسانوں میں پاک تبدیلیاں لا کر روحانی نعمتوں کو حاصل کرنے والا بنائیں۔ اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو اس اَصل اور مقصد کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ خوش قسمت ہیں وہ لوگ جنہوں نے اس حقیقت کو جانا اور اپنے نفسوں کے تزکیہ کے لئے کوشش کی اور اللہ تعالیٰ کا قرب پانے والے ہوئے۔ جیسا کہ مَیں نے کہا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابہ نے بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اپنے اندر غیر معمولی تبدیلیاں پیدا کیں اور پھر آگے اپنی نسلوں میں بھی منتقل کرنے کی کوشش کی۔ خوش قسمت ہیں وہ نسلیں جنہوں نے اس فیض کو آگے چلایا۔

اس وقت مَیں ایک ایسے ہی بزرگ کا ذکر کرنے لگا ہوں جنہوں نے اپنے صحابی باپ دادا کے نام کو روشن کیا۔ تزکیہ نفس کی جن خصوصیات کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ذکر فرمایا ہے وہ اس بزرگ میں ہمیں نظر آتی ہیں۔ میرا اس بزرگ سے بڑا قریبی تعلق تھا اور ہے۔ یہ بزرگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃوالسلام کے دو جلیل القدر صحابہ کے پوتے اور نواسے تھے۔ گزشتہ دنوں ان کی وفات ہوئی ہے۔ ان کا نام حضرت سید داؤد مظفر شاہ صاحب تھا۔ جیسا کہ میں نے کہا، اُن کے دادا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابی تھے جن کا نام حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب تھا جو تقویٰ، طہارت، عاجزی اور انکساری اور حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی میں بہت بڑھے ہوئے تھے۔ جن کے بارے میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے ایک روایت درج کی ہے۔ حضرت میاں بشیر احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ لکھتے ہیں کہ:

’’حضرت سید عبدالستار شاہ صاحب نے (خود) مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت خلیفہ اوّل ؓ سخت بیمار ہو گئے۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب وہ حضور کے مکان میں رہتے تھے۔ حضور نے بکروں کا صدقہ دیا۔ مَیں اُس وقت موجود تھا، (یعنی ڈاکٹر عبدالستار شاہ صاحب موجود تھے۔) مَیں رات کو حضرت خلیفہ اوّلؓ کے پاس ہی رہا اور دوا پلاتا رہا۔ صبح کو حضور تشریف لائے (یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام تشریف لائے)۔ حضرت خلیفہ اوّلؓ نے فرمایا (کچھ صحت بہتر ہو گئی تھی) کہ حضور! ڈاکٹر صاحب ساری رات میرے پاس بیدار رہے ہیں اور دوا وغیرہ اہتمام سے پلاتے رہے ہیں۔ حضور علیہ السلام بہت خوش ہوئے اور فرمانے لگے ہم کو بھی اِن پر رشک آتا ہے۔ یہ بہشتی کنبہ ہے۔ یہ الفاظ چند بار فرمائے۔ (سیرت المہدی جلد اول حصہ سوم صفحہ 545روایت نمبر563)

حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب جو سید داؤد مظفر شاہ صاحب کے دادا تھے۔ اُن کی وسعتِ حوصلہ اور صبر کا ایک واقعہ ہے۔ پہلے بھی کئی دفعہ بیان ہو چکا ہے۔ آپ ایک شخص کو تبلیغ کر رہے تھے۔ مسجد میں بیٹھے تھے۔ اُس وقت آپ سرکاری ہسپتال میں سول سرجن تھے اور سِول سرجن اس زمانہ میں ایک بڑا عہدہ سمجھا جاتا تھا۔ تو اس شخص سے جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت اور دعویٰ پر بحث ہو رہی تھی تو اس نے ایک وقت میں غصے میں آ کر پکّی مٹی کا لوٹا اُٹھا کے آپ کی طرف زور سے پھینکا یا سر پہ مارا۔ بہر حال ماتھے پر لگا اور سر پھٹ گیا جس سے اِن کا خون بہنے لگا۔ تو حضرت ڈاکٹر صاحب بغیر کچھ کہے وہاں سے سر پہ ہاتھ رکھ کے ہسپتال چلے گئے۔ وہاں جا کے پٹّی کروائی اور اس دوران میں اُس شخص کو بھی احساس ہوا کہ یہ مَیں نے کیا کیا؟ یہ تو بڑے سرکاری افسر ہیں اور پولیس آئے گی اور مجھے پکڑ کے لے جائے گی۔ بڑا خوفزدہ تھا۔ لیکن دیکھا کہ تھوڑی دیر بعد حضرت ڈاکٹر صاحب سر پہ پٹّی باندھے واپس تشریف لے آئے اور اُس شخص سے کہا کہ مجھے امید ہے تمہارا غصہ ٹھنڈا ہو گیا ہو گا۔ اب دوبارہ بات کرتے ہیں۔ اِس عرصے میں وہ شخص کہتا ہے کہ میرا تو پہلے ہی بُرا حال تھا تو میں اُن سے معافیاں مانگنے لگ گیا اور اُس وقت شرمندگی سے بھی اور خوف سے بھی میری حالت عجیب تھی۔ (ماخوذ ازکتاب’’حضرت ڈاکٹر سید عبد الستار شاہ صاحب‘‘صفحہ 62مؤلفہ احمد طاہر مرزا شائع کردہ مجلس خدام الاحمدیہ پاکستان)

تو یہ صبر کا نمونہ تھا جو باوجود اختیار ہونے کے ڈاکٹر صاحب نے دکھایا۔ اور یہ اعلیٰ اخلاق وہی دکھا سکتا ہے جس نے اپنے اندر ایک پاک تبدیلی پیدا کی ہو۔ حقیقی رنگ میں تزکیہ نفس ہو۔ بہر حال یہ حضرت ڈاکٹر عبدالستار شاہ صاحبؓ جیسا کہ مَیں نے کہا سید داؤد مظفر شاہ صاحب کے دادا تھے۔ اور سید داؤد مظفر شاہ صاحب ڈاکٹر صاحب کے بیٹے حضرت حافظ سید محمود اللہ شاہ صاحب کے دوسرے بیٹے تھے۔

اِن لوگوں کے بارہ میں حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب جو حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے معالجِ خاص تھے، اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ’’چوتھے فرزند اِس مقدس جوڑے کے (یعنی حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب اور اُن کی اہلیہ کے) حضرت حافظ سید محمود اللہ شاہ صاحب تھے جو نہایت بااخلاق بزرگ تھے۔ آپ نہ صرف خدا تعالیٰ کے ساتھ عشق و محبت کا خاص تعلق رکھتے تھے بلکہ خیر خواہیٔ خلق کا جذبہ بھی اعلیٰ درجہ کا پایا جاتا تھا۔ آپ کی محبت کا حلقہ بہت وسیع تھا۔ بزرگوں کا ادب کرنا اور چھوٹوں پر شفقت کرنا آپ کا خاصہ تھا۔ آپ کی دعاؤں کے صدقے آپ کے بیٹے بھی نیک اور پارسا ہیں‘‘۔ (یعنی آپ کے دونوں بیٹے جن میں سے ایک سید داؤد مظفر شاہ صاحب اور دوسرے سید مسعود مبارک شاہ صاحب ہیں )

سید داؤد مظفر شاہ صاحب کے بارے میں لکھتے ہیں کہ’’اِن میں ایک خوش بخت وہ بھی ہیں جن کے نکاح میں حضرت المصلح الموعودنے اپنی ایک لختِ جگر دے دی اور اللہ تعالیٰ نے اِس جوڑے کو چھ بچے عطا فرمائے۔ (الفضل ربوہ 3؍فروری 1962ء۔ بحوالہ کتاب ’’حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحب‘‘ صفحہ 60۔ مؤلفہ احمد طاہر مرزا شائع کردہ مجلس خدام الاحمدیہ پاکستان)

جیسا کہ ڈاکٹر صاحب نے لکھا ہے حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحب کے یہ بیٹے جو حضرت خلیفۃالمسیح الثانی کی دامادی میں آئے، یہ سید داؤد مظفر شاہ صاحب تھے اور انہوں نے بھی اپنے باپ دادا کی حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کی خصوصیات بہت زیادہ لی ہوئی تھیں۔ عبادت میں شغف، قرآنِ کریم سے محبت، عاجزی اور انکساری، ہر ایک سے نہایت ادب اور احترام سے ملنا یہ آپ کا خاصّہ تھا۔ بلکہ اپنی اہلیہ کے چھوٹے بھائیوں کی بھی غیر معمولی عزت اور احترام اس لئے کرتے تھے کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بیٹے ہیں۔ بعض دفعہ قریبی تعلقات میں اونچ نیچ ہو جاتی ہے لیکن جب بھی آپ سمجھتے کہ ماحول خراب ہو رہا ہے تو نہ صرف خاموش ہو جاتے بلکہ اِن چھوٹوں کے ساتھ بھی اس طرح عزت اور احترام کا سلوک کرتے کہ بات بڑی خوش اسلوبی سے ختم ہو جاتی یا وہاں سے اُٹھ کے چلے جاتے۔ بلکہ مَیں نے دیکھا ہے کہ خاندان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام میں سے خاص طور پر آپ کی جواولاد تھی، اُس کی آگے اولادوں کی بھی اِس طرح عزت و احترام کیا کرتے تھے کہ عجیب لگا کرتا تھا۔ صرف اس لئے کہ اُن کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃوالسلام سے خون کا رشتہ ہے۔ بعض دفعہ دوسروں کے لئے اِن کے عزت و احترام کو دیکھ کر مَیں خود بھی محسوس کرتا تھا کہ یہ ضرورت سے زیادہ احترام کرتے ہیں جو میرے خیال میں اُن حالات میں مناسب نہیں ہوتا تھا۔ لیکن جو نیکی اور شرافت آپ کی سرشت میں تھی اُس کا تقاضا یہی تھا کہ ایسے عمدہ اخلاق کا نمونہ آپ دکھائیں۔ سید داؤد مظفر شاہ صاحب اور اُن کی اہلیہ سیدہ امۃ الحکیم بیگم صاحبہ، یہ بھی ایک خوب اللہ ملائی جوڑی تھی۔ نیکیوں کے بجا لانے اور اعلیٰ اخلاق دکھانے میں یہ دونوں ایک دوسرے سے بڑھنے کی کوشش کرتے تھے۔ عام طورپر ہم دیکھتے ہیں کہ گھروں میں میاں بیوی کی بعض دفعہ اس لئے اَن بَن ہو جاتی ہے کہ یہ خرچ کیوں ہو گیا؟ وہ خرچ کیوں ہو گیا؟ اِس جوڑے کی اِن دنیاوی خرچوں کی طرف تو سوچ ہی نہیں تھی۔ مَیں نے دیکھا ہے کہ اِن کی کوشش ہوتی تھی کس طرح کسی ضرورتمند کی مدد کی جائے۔ اگر میاں نے کوئی مدد کی ہے تو بیوی کہتی کہ اور کر دینی چاہئے تھی۔ اگر بیوی نے کی ہے تو میاں کہتا کہ اگر میرے پاس اور مال ہوتا تو مَیں مزید دے دیتا۔ حضرت سید داؤد مظفر شاہ صاحب نے خود بیان کیا کہ سیدہ امۃ الحکیم بیگم صاحبہ جن کی آٹھ نو سال پہلے وفات ہوئی ہے، وفات کے بعد وہ کئی دفعہ مجھے خواب میں آ کے کہتی ہیں کہ فلاں غریب کی اتنی مدد کر دواور فلاں کو اتنا صدقہ دے دو اور شاہ صاحب فوراً اُس کو عملاً پورا کر دیتے تھے۔ جو بھی اُن کی آمد ہوتی تھی اپنے پر تو کم ہی خرچ کرتے تھے دوسروں کو دے دیا کرتے تھے۔ دونوں میاں بیوی کو مَیں نے دیکھا ہے اور بعض لوگوں نے بھی مجھے بتایا ہے کہ اُن کے پاس اگر ہزاروں بھی آتا تھا تو ہزاروں بانٹ دیا کرتے تھے۔ یہ پرواہ نہیں کی کہ ہمارے پاس کیا رہے گا؟

مَیں نے جب اُن کی زمینوں کا انتظام سنبھالا ہے تو جیسے ہمارے زمینداروں کا طریق ہوتا ہے کہ سال کی گندم چاول وغیرہ فصل کی کٹائی کے بعد گھر کے خرچ کے لئے جمع کر لی جاتی ہے۔ تو پہلے سال جب مَیں نے سیدۃ امۃ الحکیم صاحبہ سے پوچھا کہ کتنی گندم چاہئے۔ تو انہوں نے مجھے کہا کہ ایک سو بیس مَن۔ مَیں نے کہا کہ آپ کے گھر کا خرچ تو زیادہ سے زیادہ بیس، پچیس، تیس مَن ہو گا۔ تو انہوں نے کہا کہ میرا یہی خرچ ہے کیونکہ مَیں نے بہت سے غریبوں کو بھی گندم دینی ہوتی ہے۔ کئی لوگوں کی سالانہ گندم لگائی ہوئی تھی۔ یہی حال حضرت شاہ صاحب کا تھا۔

سید داؤد مظفر شاہ صاحب میرے خالو بھی تھے اور خسربھی۔ اُن کی بے شمار خوبیاں تھیں۔ اُن کی خوبیوں یا اپنی خالہ کی خوبیوں کا مَیں اس لئے ذکر نہیں کر رہا کہ قرابت داری تھی، رشتے داری تھی یا دامادی کی وجہ سے تعلق تھا۔ اُن دونوں کو مَیں نے بچپن سے ہی اس طرح دیکھا ہے جس کا طبیعت پر بڑا اثر تھا۔ خاموش، دعا گو، بچوں سے بھی ہنس کے ملنا، خوش اخلاقی سے ملنا، عزت و احترام دینا اور ہر قسم کی دنیا داری کی باتوں سے پاک تھے۔ ہمارے ایک عزیز نے لکھا اور بڑا صحیح لکھا کہ سید داؤد مظفر شاہ صاحب بہت پیارے وجود تھے۔ خاموش، دعا گو اور ہر وقت زیرِ لب دعاؤں میں مصروف۔ دُکھ درد میں دوسروں کے کام آنے والے اور عبادت میں گہرا شغف رکھنے والے تھے۔

آپ کی بعض اور خصوصیات اور آپ سے اللہ تعالیٰ کے سلوک کا بھی ذکر کروں گا لیکن پہلے ننہال کے بارہ میں بتا دوں۔ جیسا کہ مَیں نے کہا ننہال بھی، اِن کے نانا حضرت مولوی سید سرور شاہ صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی صحابی تھے جو جماعت میں بزرگی کا ایک مقام رکھتے ہیں۔ بڑا لمبا عرصہ مفتی ٔ سلسلہ بھی رہے۔ آپ کی نمازوں کی لمبائی اور گہرائی کا پُرانے بزرگ بڑا ذکر کرتے ہیں۔ سید سرور شاہ صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارہ میں کسی نے لکھا کہ حضرت مولوی صاحب ایک دفعہ مسجد میں کھڑے سنّتیں پڑھ رہے تھے یا نفل پڑھ رہے تھے اور بڑی دیر سے ایک ہی نیت باندھ کے، ایک کونے میں لگے ہوئے کھڑے تھے۔ کہتے ہیں کہ کافی وقت گزر گیا تو تجسّس پیدا ہوا کہ جا کر دیکھوں یہ کس طرح نماز پڑھتے ہیں؟ تو وہ شخص جب اُن کے قریب گیا تو دیکھا کہ ہلکی آواز میں اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّا کَ نَسْتَعِیْن (الفاتحہ: 5) بار بار دہرائے جا رہے ہیں اور بڑا لمبا عرصہ اُسی طرح دہراتے رہے۔ حضرت سید سرور شاہ صاحبؓ باجماعت نمازیں بھی پڑھایا کرتے تھے، امامت کروایا کرتے تھے اور باجماعت نمازیں بھی اِن کی بہت لمبی ہوا کرتی تھیں۔ بہر حال جیسا کہ مَیں نے کہا سید داؤد مظفر شاہ صاحب اِن کے نواسے تھے۔

دعاؤں میں اور اعلیٰ اخلاق میں اعلیٰ معیار سید داؤد مظفر شاہ صاحب کو دونوں طرف سے ورثہ میں ملا تھا۔ بزرگوں کے نقشِ قدم پر چلنا اور اُسے نبھانا بھی کسی کسی کا کام ہے، ہر کوئی نہیں کرتا۔ لیکن سید داؤد مظفر شاہ صاحب نے اسے خوب نبھایا۔ یہ اُن بزرگوں میں سے تھے جن کو جب دعا کے لئے کہہ دو تو اُس وقت تک دعا کرتے رہتے تھے جب تک وہ خود آ کر نتائج سے آگاہ نہ کر دے۔ مجھے خود بھی پتہ ہے اور بعضوں نے مجھے لکھا بھی کہ اکثر کہتے تھے کہ لوگ دعا کے لئے کہتے ہیں اور پھر بتاتے نہیں کہ مسئلہ حل ہو گیاہے۔ سال بعد یا کئی مہینوں بعد پتہ چلتا ہے کہ وہ تو عرصہ ہوا اللہ تعالیٰ کا فضل ہو گیا۔ لیکن یہ اُس شخص کے لئے دعائیں کرتے چلے جا رہے تھے۔ کوئی ذرا سی بھی اِن کی خدمت کر دیتا تو اُس کے ممنونِ احسان ہو جاتے اور بڑی باقاعدگی سے پھر اُس کے لئے نام لے کر دعا کیا کرتے تھے۔ جن جن ڈاکٹروں نے اُن کی خدمت کی ہے اُن کے لئے تو بہت دعائیں کرتے تھے۔ مکرم ڈاکٹر نوری صاحب ربوہ آنے سے پہلے بھی جب بھی ربوہ آتے تھے، اگر اُن کو سید داؤد مظفر شاہ صاحب کو دیکھنے کے لئے بلایا جاتا یا اُن کی کسی بیماری کے بارہ میں کہا جاتا تو ضرور آ کے دیکھا کرتے تھے۔ اور شاہ صاحب بھی اُن کے لئے پھر بہت دعائیں کیا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ اُن کی دعائیں ہمیشہ جاری رکھے کیونکہ ڈاکٹر صاحب بھی بڑے نافع الناس وجود ہیں۔ اِسی طرح ڈاکٹر عبدالخالق صاحب بھی باقاعدہ حضرت شاہ صاحب کے علاج کے لئے آیا کرتے تھے۔ ایک لمبے عرصے سے سید داؤد مظفر شاہ صاحب دل کے مریض تھے۔ کئی دفعہ ایسا ہوا کہ زیادہ طبیعت بگڑ گئی اور ڈاکٹروں کو بلانا پڑا تو ڈاکٹر خالق صاحب فوراً پہنچتے تھے۔ ڈاکٹر خالق صاحب نے مجھے لکھا کہ جب بھی مَیں اُن کی بیماری میں جاتا تھا یا وہ ہسپتال میں داخل ہوتے تھے تو ہمیشہ ڈاکٹر صاحب کو کہا کرتے تھے کہ ڈاکٹر صاحب دعا کریں کہ کبھی ایسا وقت نہ آئے جب دعا اور عبادت سے محروم رہ جاؤں۔ اور میرا انجام بخیر ہو۔

اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے انجام بخیر کی تو بعض لوگوں کو خوابیں بھی دکھائیں۔ اُن کے ایک بھتیجے نے ہی دیکھا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ آئے ہیں (چند دن پہلے کی بات ہے) اور سید داؤد مظفر شاہ صاحب کو اپنے ساتھ لے گئے ہیں۔ خود انہوں نے بھی دیکھا۔ یہ ایک لمبی خواب ہے لیکن اس کا خلاصہ یہ ہے کہ انہوں نے دیکھا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے ایک کُرسی اُن کے لئے مخصوص کی ہوئی ہے۔ ایک خاتون جو اُن کو زیادہ نہیں جانتی تھیں، اُنہوں نے بھی دیکھا جس کا خلاصہ یہ ہے (ایک لمبی خواب ہے) کہ اُن کے دل میں (اُس خاتون کے دل میں ) خواب میں ہی ڈالا جاتا ہے کہ شاہ صاحب ایک بڑے بزرگ ہیں۔ ایسے بزرگ جن کا خدا تعالیٰ کے پاس ایک بڑا مقام ہے۔ خود بھی انہوں نے ایک دفعہ یہ خواب دیکھی کہ اُن کی اہلیہ سیدہ امۃ الحکیم بیگم صاحبہ ایک جگہ ہیں جو بہت اونچی جگہ ہے۔ وہ وہاں بہت خوش ہیں اور آپ کو کہتی ہیں کہ آپ بھی آ جائیں۔ تو اس پر کسی فرشتے نے یا خدا تعالیٰ نے کہا۔ آواز آتی ہے کہ یہ ابھی نہیں آئے گا کیونکہ اس نے ابھی کچھ دعائیں کرنی ہیں۔ دعاؤں اور عبادت میں شغف تو اِن کو اپنے دادا کی تربیت کی وجہ سے بھی ہوا۔ نانا کی صحبت کی وجہ سے بھی ہوا۔ دادا کے پاس یہ رہتے تھے۔ حضرت سید ڈاکٹر عبدالستار شاہ صاحب آخری عمر میں جب بہت زیادہ کمزور ہو گئے تو آپ نمازوں کے لئے مسجدنہیں جایا کرتے تھے لیکن گھر پر نماز باجماعت کا اہتمام فرماتے تھے اور سید داؤد مظفر شاہ صاحب سے امامت کروایا کرتے تھے۔ اُس وقت اُن کی عمر سترہ سال تھی۔ سید داؤد مظفر شاہ صاحب اس بارہ میں خود اپنی ایک تحریر میں لکھتے ہیں کہ’’حضرت شاہ جی (یعنی ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب) کی آخری عمر کے حصے میں مَیں نے اکثر ان کو نمازیں باجماعت پڑھائی تھیں۔ خصوصاً جمعہ کی نمازیں۔ وہ نماز باجماعت کے بڑے ہی پابند تھے۔ جب تک صحت مند رہے مسجد میں جا کر نمازیں پنجوقتہ ادا کیا کرتے تھے۔ جب چلنے پھرنے سے معذور ہو گئے تو پھر نمازیں گھر میں ہی باجماعت ادا کیا کرتے تھے۔ اس کے لئے ایک مسجدنما تھڑا گھر کے اندر اور ایک مسجدنما چبوترا باہر باغ کے اندر بنوایا تھا۔ وہاں مغرب کی نماز باجماعت ادا کیا کرتے تھے۔ اِس نماز میں باہر کے چند دوست آ کرشریک ہوا کرتے تھے۔ مغرب کی نماز کے بعد عموماً روزانہ حضرت شاہ جی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نظمیں سنایا کرتے تھے‘‘۔ شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ’’ایک دفعہ جمعہ کی نماز مَیں نے نہیں پڑھائی ۔ مسجد اقصیٰ میں پڑھنے چلا گیا۔ واپس آیا تو حضرت شاہ جی (بڑے) ناراض ہوئے۔ کہنے لگے تم نے مجھے نماز نہیں پڑھائی۔ تمہارا ابّا آئے گا (یعنی ان کے والد سید محمود اللہ شاہ صاحب جوافریقہ میں تھے) تو مَیں تمہاری شکایت کروں گا‘‘۔ اُس کے بعد پھر شاہ صاحب (حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب) کچھ عرصے بعد ہی وفات پا گئے۔

سید داؤد مظفر شاہ صاحب کے ساتھ خدا تعالیٰ کا ایک خاص سلوک تھا۔ دنیا اُن کا مقصودنہیں تھا۔ اِس لئے کوئی غیر معمولی مالی کشائش تو بے شک نہیں تھی۔ جو تھا اُس پر بھی شکر تھا۔ اور اس میں سے بھی غریبوں اور ضرورتمندوں کی مدد اس حد تک کرتے تھے جو اکثر بڑی بڑی رقموں والے اور پیسے والے نہیں کرتے۔ اُن کی ایک بہو جو اُن کے ساتھ ہی رہتی تھیں (اُن کے بیٹے صہیب کی بیوی) کہتی ہیں کہ جب کوئی رقم آتی تو آخری عمر میں نظر کی زیادہ کمزوری کی وجہ سے خود حساب کتاب نہیں لکھ سکتے تھے اس لئے مجھ سے (اپنی بہو سے) حساب کرواتے اور فرماتے تھے کہ پہلے تو وصیت کا حصہ نکالو، پھر یتیموں کا کچھ حصہ نکالو، پھر غریب طلباء کا حصہ نکالو اور نادار مریضوں کے علاج کے لئے نکالو، اس کے بعد اگر کوئی رقم بچ گئی تو اپنی ضرورت کے لئے رکھتے تھے۔ اور دوسرے مجھے بھی علم ہے کہ جماعتی تحریکات میں، وقفِ جدید، تحریکِ جدید اور تحریکات میں بڑا بڑھ چڑھ کر حصہ لیا کرتے تھے۔ اِن کے بچے بتاتے ہیں کہ کئی دفعہ ایسا ہوا کہ بچوں کو پوچھتے تمہیں کوئی پریشانی ہے؟ جب کہ اُن کے سامنے کوئی ذکر نہیں ہوا ہوتا تھا اور چند سال سے نظر بھی جیسا کہ مَیں نے کہا اتنی گِر گئی تھی کہ چہرے کے تاثرات سے بھی دیکھ کر اندازہ نہیں لگا سکتے تھے کہ کیا پریشانی ہے؟ بلکہ ان کے بیٹے محمودنے مجھے لکھا کہ بعض دفعہ پریشانی کے حالات ہوتے تھے تو ایک دو دن بعد ابّا پوچھتے تھے کہ فلاں شخص سے کوئی تکلیف تو نہیں پہنچی۔ اور یہ ایسی باتیں ہوتی تھیں جو حقیقت میں سچ ہوتی تھیں اور سوائے خدا کے انہیں اور کوئی نہیں بتا سکتا تھا۔ اور پھر آپ کو دعا کی تحریک ہوتی جس سے آسانیاں پیدا جاتیں۔ اسی طرح ان کی بہو نے لکھا کہ میری بعض پریشانیاں تھیں۔ مجھے کہتے کہ تمہیں فلاں فلاں پریشانی ہے، حالانکہ ان کے پاس کبھی ذکر نہیں ہوا اور پھر اللہ کے فضل سے اُن کی دعا سے وہ پریشانی دور ہو جاتی۔

قرآنِ کریم سے بھی اُن کوایک عشق تھا۔ روزانہ کئی سپارے پڑھ جاتے تھے۔ پانچ چھ سپارے کم از کم، بلکہ بعض دفعہ سات آٹھ۔ اور اس وجہ سے ایک بڑا حصہ یاد بھی تھا۔ مجھے ایک دفعہ رمضان میں کہنے لگے کہ نظر کمزور ہو رہی ہے۔ آنکھوں پر بڑا بوجھ پڑتا ہے۔ اب مَیں زیادہ قرآنِ کریم پڑھ نہیں سکتا جس کی مجھے بڑی تکلیف ہے۔ تو مَیں نے اپنے خیال میں بڑی دُور کی چھلانگ لگاکر کہا کیا فرق پڑتا ہے ایک دو سپارے تو آپ اب بھی پڑھ ہی لیتے ہوں گے۔ تو کہتے ہیں نہیں ابھی بھی، اس حالت میں بھی مَیں تین چار سپارے تو پڑھ ہی لیتا ہوں۔ تو یہ قرآنِ شریف سے اُن کا عشق تھا۔ جب مَیں نے کہا اتنا پڑھ لیتے ہیں تو پھر کیا حرج ہے۔ لیکن انہیں یہ بے چینی تھی کہ رمضان میں تو ہر وقت قرآنِ کریم مطالعہ میں رہنا چاہئے۔ اور آخری عمر میں دو تین سال پہلے تک جیسا کہ مَیں نے کہا نظر کی کمزوری کی وجہ سے بالکل ہی نہیں پڑھ سکتے تھے تو پھر جو حصہ یادہوتا تھا وہ پڑھتے تھے بلکہ سارا ہی یاد تھا۔ لیکن اس میں بھی اللہ تعالیٰ نے آپ کے ساتھ اپنے پیار کا عجیب سلوک فرمایا۔ اپنے پوتے کو ایک دن کہنے لگے کہ قرآنِ کریم دیکھ کے تو مَیں پڑھ نہیں سکتا لیکن جب مَیں پڑھتا ہوں، یاد حصہ پڑھنا شروع کرتا ہوں اور جہاں بھول جاتا ہوں وہاں کوئی فرشتہ آ کے مجھے وہ حصہ یاد کروا جاتا ہے، پڑھا جاتا ہے۔ وہ دوہراتا ہے اور مَیں پیچھے دوہرا دیتا ہوں۔ اُن کے بڑے بیٹے کا مکان ربوہ میں بن رہا تھا تو بار بار اپنے بچوں سے پوچھتے تھے، کہاں تک پہنچا ہے؟ ایک دن اپنی چھوٹی بہو کو کہنے لگے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے مولود کا گھر دکھا دیا ہے۔ اور پھر نقشہ بتایا کہ یہاں یہ کمرہ ہے۔ اس طرح اُس کانقشہ ہے۔ اور بغیر دیکھے بالکل وہی نقشہ تھا جو بن رہا تھا۔ ان کو سمجھایا بھی نہیں جا سکتا تھا کیونکہ یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ سمجھایا جا سکے۔ کوئی انہیں سمجھا سکے کہ کس طرح نقشہ ہے کیونکہ نظر بھی بہت کمزور تھی۔

اُن کے بچوں کے سپرد جو بھی جماعتی کام ہوتا اُس کے لئے بہت دعا کرتے۔ میرے ساتھ بھی دامادی کے بعد ایک خاص تعلق پیدا ہو گیا تھا۔ میرے ذاتی اور جماعتی کاموں کے لئے بھی بہت دعائیں کیا کرتے تھے۔ اور خلافت کے بعد تو اس تعلق میں ایک عقیدت، احترام اور دعاؤں کے لئے بہت زیادہ درد پیدا ہو گیا تھا۔ جلسوں، تقریروں وغیرہ کی کامیابیوں کے لئے بہت دعا کیا کرتے تھے۔ ایسے بزرگ تھے جن کی دعاؤں کی قبولیت کا احساس ہو رہا ہوتا تھا۔ ہر دورے پر ایک خاص توجہ کے ساتھ میرے لئے دعا کیا کرتے تھے۔

ہمارے محلے کے بعض خدام جو ہمارے عزیزوں، بچوں میں سے ہی ہیں، رات کو محلے کی ڈیوٹیاں دیا کرتے تھے۔ 74ء میں حالات خراب ہوئے یا 74ء میں شاید یہ سندھ تھے۔ خاص طور پر84ء میں جب حالات زیادہ خراب ہوئے، تو رات کو محلّے کی ڈیوٹیاں ہوتی تھیں۔ لڑکوں کو جاگنے کے لئے چائے کی عادت تھی، چائے پیا کرتے تھے تو اِن کا گھر ہر وقت کھلا رہتا تھا۔ بچے آتے تھے، کچن سے چائے بنائی اور لے گئے۔ جب انہوں نے دیکھا کہ لڑکے ڈیوٹی دے رہے ہیں اور چائے بھی پیتے ہیں تو رات خود اڑھائی بجے چائے بنا کر کھانے کی میز پر رکھ دیا کرتے تھے تا کہ اُن کو تکلیف نہ ہو اور وہ آکرلے جایا کرتے تھے۔ اِسی طرح کیونکہ رات کو بھی جلدی سونے کی عادت تھی اور پھر ڈیڑھ بجے اُٹھ جایا کرتے تھے۔ سوتے بھی تھوڑا ہی تھے۔ تہجد کے لئے اُٹھ جایا کرتے تھے اور اپنے لئے چائے بناتے تھے اور پھر ہماری خالہ کے لئے چائے بنا کے اُن کو تہجد کے لئے جگاتے۔ اسی طرح جب اِن کا چھوٹا بیٹا جامعہ میں داخل ہوا ہے تو اس کو باقاعدہ تہجد کے لئے اُٹھاتے اور اُس کو کہتے تمہاری چائے تیار ہے۔ چائے پیو اور تہجد پڑھو۔

جوانی سے ہی آپ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا ایک سلوک رہا ہے۔ سندھ میں رہے ہیں۔ وہاں چھوٹے چھوٹے واقعات تو مختلف ہوتے رہتے ہیں مثلاً ان کے ایک بیٹے نے لکھا کہ وہاں سانپ وغیرہ بہت ہوتے تھے اور جس زمانے میں یہ وہاں رہے ہیں، اُس زمانے میں تو نئی نئی آبادی ہو رہی تھی اور سانپ بہت زیادہ نکلا کرتے تھے اور بڑے بڑے خطرناک سانپ ہوتے تھے۔ ایک دن کہتے ہیں میری طبیعت خراب تھی مَیں نے سوچا کہ فجر کی نماز گھر میں پڑھ لیتا ہوں لیکن پھر کسی غیبی طاقت نے مجھے کہا کہ نہیں، مسجد جاؤ۔ ساتھ ہی مسجد ہے۔ جب واپس آئے تو دیکھا کہ دو بڑے بچے (اس وقت چھوٹی عمر میں ان کے جو دو بڑے بچے تھے وہ) چارپائی پر سو رہے ہیں اور ایک بڑا سارا کالا ناگ چارپائی پر چڑھنے کی کوشش کر رہا ہے تو انہوں نے فوراً اُس کو مارا۔ اگر یہ سو جاتے تو سانپ کچھ بھی نقصان پہنچا سکتا تھا۔ تو اللہ تعالیٰ کا اس طرح کا سلوک ہے اور اس طرح کے بہت سے واقعات اِن کی زندگی میں ہیں۔ سید داؤد مظفر شاہ صاحب اور اِن کے بھائی سید مسعود مبارک شاہ صاحب دونوں گورنمنٹ کالج لاہور میں پڑھے تھے۔ وہیں سے انہوں نے بی۔ اے کیا۔ اپنی شرافت اور ڈسپلن کا پابند ہونے کی وجہ سے سٹاف اور طلباء دونوں میں بڑے مشہور تھے۔ سارے کالج میں مشہور تھاکہ اِن جیسا اور کوئی شریف آدمی نہیں۔ ایک دفعہ ان کے ایک عزیز کو شرارت سوجھی۔ انہوں نے ہوسٹل کے وارڈن یا سپرنٹنڈنٹ کی کچھ چیزیں اُٹھا لیں اور اِن کے کمرے میں لا کر چُھپا دیں۔ انتظامیہ نے فوری طور پر کارروائی شروع کر دی۔ پتہ لگ گیا اور ہوسٹل کے ہر کمرے کو چیک کیا گیا اور جب اِن کے کمرے کے قریب آتے تو کہتے کہ نہیں یہ دونوں بچے شریف ہیں، اِن کے ہاں نہیں ہو سکتا۔ اور حقیقت یہ تھی کہ اُن لڑکوں نے انہی کے کمرے میں وہ چیزیں چھپائی ہوئی تھیں۔ خیر اِن کو یہ نہیں پتہ تھا۔ یہ کمرے میں گئے تو دیکھا کہ وہاں چیزیں پڑی ہیں تو بڑے پریشان ہوئے کہ اب سچ بھی بولنا ہے لیکن ساتھ ہی یہ فکر بھی تھی کہ ساتھیوں کو سزا ملے گی تو اُن کو سزا سے کس طرح بچایا جائے؟ کہتے ہیں جب چیکنگ ختم ہوئی تو جلدی سے سامان انہوں نے اُٹھایا اور ہوسٹل سپرنٹنڈنٹ کے کمرے کے سامنے جا کے رکھ دیا۔ بہر حال کہتے ہیں کہ شکرہے انتظامیہ نے مزید تحقیق نہیں کی کیونکہ انتظامیہ کو دونوں بھائیوں کی شرافت پر بہت یقین تھا ورنہ انہیں تو سچ ہی بولنا تھا اور جس عزیز پر اِن کو شک تھا اُس کا نام آ جانا تھا اور سزا ملنی تھی۔

جیسا کہ مَیں نے کہا انہوں نے گورنمنٹ کالج سے بی۔ اے کرنے کے بعد پھر حضرت مصلح موعود کی تحریک پر 1944ء میں زندگی وقف کرنے کا خط لکھا۔ آپ نے حضرت مصلح موعودؓ کو لکھا کہ مَیں بار بار آپ کو خواب میں دیکھ رہا ہوں اِس لئے مَیں زندگی وقف کرتا ہوں اور اپنے بھائی کو بھی تحریک کی کہ وہ بھی زندگی وقف کریں۔ پھر دونوں نے زندگی وقف کی۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایم این سنڈیکیٹ کے تحت سندھ کی زمینوں پر اِن کو بھجوا دیا۔ وہاں یہ کافی عرصہ رہے۔ پھر تقریباً گیارہ سال 82ء سے 93ء تک وکالتِ تبشیر میں بھی خدمات سرانجام دیتے رہے۔ وقت پر دفتر جاتے تھے۔ اپنے جو مفوضہ کام ہیں وہ سرانجام دیتے۔ کوئی زائد بات نہیں۔ بعضوں کو بیٹھ کے گپیں مارنے کی عادت ہوتی ہے۔ ان کے افسران جو تھے اِن سے عمر میں چھوٹے بھی تھے اور بعض قریبی عزیز بھی تھے، لیکن کامل اطاعت اور عاجزی کے ساتھ اپنے افسران کے دئیے ہوئے کام کو سرانجام دیتے۔ کبھی شکوہ نہیں کیا کہ اتنا کام دے دیا ہے؟ یہاں ہمارے مبلغ لئیق طاہر صاحب ہیں انہوں نے مجھے لکھا کہ جب مَیں نائب وکیل التبشیر تھا تو بڑی عاجزی سے کام کرتے تھے اور بڑی عزت سے پیش آیا کرتے تھے۔ اتنی زیادہ عزت کرتے تھے کہ شرمندگی ہونی شروع ہو جاتی تھی۔ کبھی یہ احساس نہیں ہونے دیا کہ مَیں حضرت مصلح موعود کا داماد ہوں یا دو خلفاء کا بہنوئی ہوں۔ ایک خاموش دعا گو بزرگ، زیرِ لب دعائیں کرتے ہوئے دفتر میں آتے تھے اور اپنا دفتر کا کام کر کے چلے جاتے تھے۔ ایک فرشتہ سیرت انسان تھے۔ جس کا بھی آپ سے واسطہ پڑا آپ کی تعریف کرتا ہے۔ غریبوں کی عزت اور احترام بھی اس طرح کرتے جس طرح کسی امیر کا۔ کسی حق بات پر امیر کو غریب پر فوقیت نہیں دی۔ بعض لوگ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کے آپ پر اعتماد کی وجہ سے آپ کو نقصان پہنچانے کی کوشش بھی کرتے رہے اور کی بھی۔ بشری تقاضا بھی ہے اور قواعد بھی اجازت دیتے ہیں کہ آپ ان نقصان پہنچانے والوں کے خلاف کارروائی کر سکتے تھے لیکن آپ نے ہمیشہ اپنا معاملہ خدا تعالیٰ پر چھوڑا۔ اور میں نے دیکھا ہے کہ جب ایسے لوگوں کی، جوکسی نہ کسی طرح اِن کے خلاف رہے ہیں، گرفت ہوئی ہے تو وہ حضرت شاہ صاحب کے پاس اُن کے دروازے پر آتے تھے اور معافیاں مانگتے تھے اور سید داؤد مظفر شاہ صاحب نے ہمیشہ انہیں معاف فرمایا۔ یہ بھی نہیں کہا کہ تم نے جو مجھے نقصان پہنچایا ہے اُس کا مداوا کس طرح ہو گا؟

یہ تھے وہ بزرگ جن کے بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ کسی سے بُغض، حسد اور کینہ نہیں رکھتے بلکہ نقصان پہنچانے والے سے بھی جب اُس نے معافی مانگی تو شفقت کا سلوک ہی فرمایا۔ یہی لوگ ہیں جن کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے حقیقی رنگ میں تزکیہ نفس کیا ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ نے آپ کے نکاح پر جو خطبہ ارشاد فرمایا تھا، اُس میں سے بعض حصے پڑھنا چاہتا ہوں تا کہ اگلی نسل کو بھی اِن باتوں کو سامنے رکھنے کا احساس پیدا ہو۔ حضرت مصلح موعودؓ نے اپنے چار بچوں کا نکاح پڑھایا جن میں سے ایک آپ کی بیٹی سید داؤد مظفر صاحب کی اہلیہ تھیں۔ آپ نے خطبہ اس طرح شروع فرمایا تھا کہ:

’’دنیا میں سب سے قیمتی وجود رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ زمانے کے گزرنے اور حالات کے بدل جانے کی وجہ سے چیزوں کی وہ اہمیت باقی نہیں رہتی جو اہمیت کہ اُن حالات کی موجودگی اور اُن کے علم کے ساتھ ہوتی ہے۔ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب مبعوث ہوئے، اُس وقت دنیا کی جو حالت تھی اُس کا اندازہ آج لوگ نہیں کر سکتے۔ اگر رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا تعالیٰ مبعوث نہ فرماتا تو آج دنیا میں دین کے معنی یہ سمجھے جاتے کہ بعض انسانوں کی پوجا کر لی، قبروں کی پوجا کر لی اور بتوں کی پوجا کر لی۔ قانون، اخلاق کو دنیا میں کوئی قیمت حاصل نہ ہوتی۔ مذہب کوئی اجتماعی جدوجہد کی چیز نہ ہوتا۔ خدا کے ساتھ بنی نوع انسان کا تعلق پیدا ہونا بالکل ناممکن ہوتا۔ بلکہ ایسے تعلق کو بے دینی اور لا مذہبی قرار دیا جاتاہے۔ بنی نوع انسان کے مختلف حصوں کے حقوق کی کوئی حفاظت نہ ہوتی۔ عورتیں بدستور غلامی کی زندگی بسر کر رہی ہوتیں۔ بُت بدستور پوجے جا رہے ہوتے۔ خدا تعالیٰ بدستور متروک ہوتا۔ غلامی بدستور دنیا میں قائم ہوتی۔ لین دین کے معاملات میں بدستور ظلم اور تعدی کی حکمرانی ہوتی۔ غرض دنیا آج وہ کچھ نہ ہوتی جو آج ہے……‘‘۔

اِس کے بعد کچھ حصہ مَیں چھوڑتا ہوں۔ یہ بیان کرنے کے بعد پھر آگے آپ فرماتے ہیں کہ ’’…دنیا میں جو اقوال اور جو باتیں لوگوں نے کہی ہیں، اُن میں سے راستبازی کے اعلیٰ معیار پر پہنچی ہوئی وہ بات ہے جو حسّان نے رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کہی

کُنْتَ السَّوَادَ لِنَاظِرِیْ فَعَمِی عَلَیَّ النَّاظِرُ

مَنْ شَاءَ بَعْدَکَ فَلْیَمُتْ فَعَلَیْکَ کُنْتُ اُحَاذِرُ

رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت حضرت حسّان رضی اللہ تعالیٰ نے کہا۔ کُنْتَ السَّوَادَ لِنَاظِرِی، تو میری آنکھ کی پُتلی تھا، فَعَمِیَ عَلَیَّ النَّاظِرُ، پس تیری موت کے ساتھ آج میری آنکھیں اندھی ہو گئی ہیں۔ مَنْ شَاءَ بَعْدَکَ فَلْیَمُت۔ اب تیرے مرنے کے بعد جو چاہے مرے۔ فَعَلَیْکَ کُنْتُ اُحَاذِرُ، مَیں تو تیری موت سے ڈرتا تھا۔ کسی اور موت کا مجھ پر اثر نہیں ہو سکتا۔

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ: ’’اِس شعر کے معنوں کی عظمت کا اس بات سے پتہ لگتا ہے جس کو لوگ نظر انداز کر دیتے ہیں کہ اس شعر کا کہنے والا ایک نابینا شخص تھا۔ اگر ایک بینا شخص یہی شعر کہتا تو وہ صرف ایک شاعرانہ مذاق اور ایک ادبی لطیفہ کہلا سکتا تھا مگر اس شعر کے ایک نابینا شخص کے منہ سے نکلنے کی وجہ سے اس کی حقیقت بالکل بدل جاتی ہے۔ یعنی حضرت حسّان اس شعر میں یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ جب رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم زندہ تھے تو باوجود اس کے کہ میری ظاہری آنکھیں نہیں تھیں، پھر بھی مَیں بِینا ہی تھا۔ میری جسمانی آنکھیں نہ ہونے کی وجہ سے لوگ مجھے اندھا سمجھتے تھے لیکن مَیں اپنے آپ کو اندھا نہیں سمجھتا تھا کیونکہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے مجھے دنیا نظر آ رہی تھی اور اب بھی لوگ یہ سمجھتے تھے کہ میں ویسا ہی ہوں حالانکہ میں ویسا نہیں۔ پہلے مَیں بِینا تھا لیکن اب مَیں اندھا ہو گیا ہوں۔ تو رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں سب سے قیمتی وجود تھے مگر  اللہ تعالیٰ کے قانون کے ماتحت آپ بھی آخر ایک دن دنیا سے جدا ہو گئے……‘‘۔ پھر آگے چلتے ہوئے آپ بیان کرتے ہیں کہ ’’…… بہر حال رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے جیسا کہ حسانؓ نے کہا۔ مَنْ شَاءَ بَعْدَکَ فَلْیَمُتْ فَعَلَیْکَ کُنْتُ اُحَاذِرُ۔ ہر انسان پر یہ بات کھل رہی ہے کہ دنیا میں کوئی وجودبھی ہمیشہ نہیں رہا…‘‘۔ پھر آگے آپ فرماتے ہیں کہ ’’… دنیا میں کوئی انسان بھی ایسا نہیں جو ہمیشہ قائم رہا ہو اور دنیا میں کوئی انسان بھی ایسانہیں جو ہمیشہ زندہ رہنے والا ہو۔ اس صورت میں انسان کی ترقی کا مدار اس بات پر ہے کہ جانے والوں کے قائمقام پیدا ہوں۔ اگر مرنے والوں کے قائمقام پیدا ہوتے ہیں تو مرنے والوں کا صدمہ آپ ہی آپ مٹ جاتا ہے اور انسان سمجھتا ہے کہ اگر ہمارے پیدا کرنے والے کی مرضی ہی یہی ہے تو پھر جزع فزع کرنے یا حد سے زیادہ افسوس کرنے کی کوئی وجہ نہیں۔ یہ عقل کے خلاف اور جنون کی علامت ہوگی……‘‘۔

پھر آگے آپ ایک عباسی بادشاہ کا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ’’… ایک دفعہ ایک عباسی بادشاہ ایک بڑے عالم سے ملنے گیا۔ جا کے دیکھا کہ وہ اپنے شاگردوں کو درس دے رہے تھے۔ بادشاہ نے کہا اپنا کوئی شاگرد مجھے بھی دکھاؤ۔ مَیں اس کا امتحان لوں۔ انہوں نے ایک شاگرد پیش کیا۔ بادشاہ نے اس سے بعض سوال پوچھے۔ اُس نے نہایت اعلیٰ صورت میں اُن سوالوں کا جواب دیا۔ یہ سُن کر بادشاہ نے کہا مَا مَاتَ مَنْ خَلَّفَ مِثْلَکَ۔ وہ شخص جس نے تیرے جیسا قائمقام چھوڑا کبھی نہیں مر سکتا کیونکہ اُس کی تعلیم کو قائم رکھنے والا تو موجود ہو گا۔ انسان کا گوشت پوست کوئی قیمت نہیں رکھتا۔ گوشت پوست جیسے ایک چور کا ہے، ویسے ہی ایک نیک آدمی کا ہے۔ ہڈیاں جیسے ایک چور کی ہیں ویسے ہی نیک آدمی کی ہیں۔ خون جیسے ایک چور کا ہے ویسے ہی نیک آدمی کا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ اُس کے اخلاق بُرے ہیں اور اِس کے اخلاق اعلیٰ درجہ کے ہیں‘‘۔ (یعنی چور کے اخلاق بُرے ہیں اور نیک آدمی کے اخلاق اعلیٰ درجہ کے ہیں)۔ ’’اُس کے اندر روحانیت نہیں اور اِس کے اندر اعلیٰ درجہ کی روحانیت پائی جاتی ہے۔ پس اگر اس کی وہ روحانیت اور اعلیٰ درجہ کے اخلاق دوسرے میں باقی رہ جائیں گے تو یہ مرا کس طرح؟……‘‘ (یعنی وہ اعلیٰ اخلاق اگر آئندہ نسلوں میں چل رہے ہیں تو پھر مرا نہیں۔) فرمایا کہ ’’… پس ساری کامیابی اس بات میں ہے کہ انسان کے پیچھے اچھے قائمقام رہ جائیں۔ یہی چیز ہے جس کے لئے قومیں کوشش کیا کرتی ہیں۔ یہی چیز ہے کہ اگر یہ قوم کو حاصل ہو جائے تو یہ بہت بڑا انعام ہے۔ آج تک کبھی دنیا نے یہ محسوس نہیں کیا کہ ساری کامیابی فتوحات میں نہیں بلکہ نسل میں ہے۔ اگر آئندہ نسل اعلیٰ اخلاق کی ہو تو وہ قوم مرتی کبھی نہیں بلکہ زندہ رہتی ہے۔ اور اگر آئندہ نسل اچھی نہ ہو تو اُس کی تمام فتوحات ہیچ اور لغو ہیں ……‘‘۔

پھر آگے آپ فرماتے ہیں کہ ’’پس قوموں کی ترقی اُن کی آئندہ نسلوں کی ترقی پر منحصر ہوتی ہے۔ اس لئے ہمارا زور اس بات پر ہونا چاہئے کہ آئندہ نسلوں میں ہم اپنے اچھے قائمقام چھوڑیں جو اسلام کی ترقی اور اسلام کے مستقبل کے ضامن ہوں۔ سب سے زیادہ یہ چیز نکاح سے ہی حاصل ہوتی ہے‘‘۔ (نکاح کا خطبہ دے رہے ہیں فرمایا کہ اچھی نسل جو ہے سب سے زیادہ نکاح سے ہی حاصل ہوتی ہے) ’’اور نکاحوں سے ہی نئی نسل آتی ہے۔ اس لئے نکاح انسانی زندگی کا سب سے اہم کام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کے بارہ میں استخارہ کرنے، غوروفکر سے کام لینے‘‘ (یہ بھی خاص طور پر نوجوان لڑکوں، لڑکیوں کواور خاندانوں کو سوچنے کی ضرورت ہے) ’’نکاح کے بارہ میں استخارہ کرنے، غوروفکر سے کام لینے اور جذبات کی پیروی کرنے سے روکنے کی تعلیم دی ہے۔ اور آپ نے فرمایا کہ نکاح ایسے رنگ میں ہونے چاہئیں کہ نیک اور قربانی کرنے والی اولاد پیدا ہو۔ پھر فرمایا ساری خرابی اس وجہ سے پیدا ہوئی ہے کہ اولاد کو مقدم رکھا جاتا ہے اور اس کی ناز برداری کی جاتی ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ناز برداری کی وجہ سے دین کی روح اُن کے اندر سے مٹ جاتی ہے۔ قرآنِ مجید میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ شخص دین دار نہیں جو اپنی اولاد کی ناز برداری کرتا ہے اور اُس کو دین کے تابع نہیں رکھتا۔ دین دار وہ ہے جو اپنی اولاد کو دین کے تابع رکھتا ہے۔ جو شخص اپنی اولاد کو دین کے تابع رکھے گا وہ کبھی اپنی نسل کو خراب نہیں ہونے دے گا کیونکہ ناز برداری سے ہی نسلیں خراب ہوتی ہیں‘‘۔ پھر فرمایا ’’پس اسلامی زندگی میں اہم ترین چیز نکاح ہے۔ جیسے عمارت کے لئے بنیاد کھودی جاتی ہے اور اس کو کاٹا جاتا ہے۔ لیکن اگر بنیاد پختہ نہیں ہو گی تو عمارت گِر جائے گی۔ اسی طرح اگر نکاح میں غور و فکر اور دعا سے کام نہ لیا جائے تو نکاح بھی بربادی کا پیش خیمہ ثابت ہو گا۔ گویا وہ چیز جس سے خوشی ہو رہی ہوتی ہے درحقیقت وہی خطرے کا وقت ہوتا ہے……‘‘۔

پھر آپ فرماتے ہیں کہ’’……مَیں نے اپنے بچوں کے نکاحوں میں کبھی بھی اس بات کو مدّنظر نہیں رکھا کہ اُن کے نکاح آسودہ حال اور مالدار لوگوں میں کئے جائیں اور مَیں نے ہمیشہ جماعت کے لوگوں کو بھی یہی نصیحت کی ہے کہ جماعت کے لوگ اس بات کی طرف چلے جاتے ہیں کہ اُنہیں ایسے رشتے ملیں جو زیادہ کھاتے پیتے اور آسودہ حال ہوں۔ ہمیں ایسے رشتے ملے ہیں مگر ہم نے اُن کو ردّ کر دیا تا کہ ہمارا جو معیار ہے وہ قائم رہے‘‘۔ (الفضل 6؍اپریل 1945ء صفحہ 1تا 3۔ بحوالہ خطبات محمود جلدنمبر3 فرمودہ  30مارچ 1945ء صفحہ 580 تا 587)

ہر ایک کو اپنے معیار کے مطابق رشتے کرنے چاہئیں۔ پس یہ اصول ہیں جو عمومی طور پر بھیسامنے رکھنے چاہئیں۔ رشتوں میں بھی یہ بات آئی تو مَیں نے توسوچا کہ یہ بیان کر دوں کہ ہمارے ہاں آج کل یہ بڑے مسائل اُٹھ رہے ہیں۔ اللہ کرے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خاندان کے افراد بھی اور جماعت کے افراد بھی اپنی شادیوں میں یہ بات مدّنظر رکھیں کہ اصل چیز دین ہے اور ایک احمدی کا مقصود اللہ تعالیٰ سے تعلق اور دین کی خدمت ہے۔ دنیا کو بھی دین کے تابع کرنا ہے۔ دین کو دنیا کے تابع نہیں کرنا۔ یہی چیز ہے جس طرح کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا ہے جوقومی زندگی کے ہمیشہ زندہ رہنے کا ذریعہ ہے۔ جماعت کا جب بھی کوئی نیک شخص اس دنیا سے رخصت ہوتا ہے تو جماعت کے افراد کو اور خاص طور پر خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے افراد کوکہ جب اُن کے خاندان میں سے کوئی رخصت ہو تو نیکی اور اللہ تعالیٰ سے تعلق کو اپنے سامنے رکھتے ہوئے ایک نئی سوچ کے ساتھ اپنے راستے متعین کرنے چاہئیں۔ دنیا تو چند روزہ ہے ختم ہو جائے گی۔ دائمی رہنے والی چیز اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔

حضرت سید داؤد مظفر شاہ صاحب کے چار بیٹے مختلف حیثیت سے جماعت کی خدمت کر رہے ہیں۔ تین بیٹیاں ہیں۔ ایک میری اہلیہ اور دو دوسری بہنیں، دونوں واقفینِ زندگی سے بیاہی گئی ہیں۔ اللہ کرے کہ اِن کی اولادیں اور آگے نسلیں بھی ہمیشہ دین کو دنیا پر مقدم کرنے والی ہوں۔ دو بیٹے جو واقفِ زندگی نہیں ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے اپنے والدین کی طبیعت کا اثر لئے ہوئے ہیں، کسی نہ کسی رنگ میں جماعت کی خدمت کرتے ہیں، کر رہے ہیں اور کرتے رہے ہیں۔ یہ بھی اور تمام اولاد بھی اور ان کی اولاد بھی ہمیشہ خدا تعالیٰ کا قرب پانے کی کوشش کرنے والی ہو اور اِن کی دعائیں ہمیشہ اُن کو لگتی رہیں۔ اسی طرح ہمارے تمام بزرگوں کی اولادیں، صحابہ کی اولادیں ہمیشہ اپنے والدین کے، اپنے آباؤ اجداد کے نمونے دیکھنے والی ہوں اور نیک نسل آگے چلانے کے لئے دعا اور اپنے عمل سے کوشش کرنے والی ہوں۔ اللہ تعالیٰ اس کی توفیق عطا فرمائے۔

نمازِ جمعہ کے بعد انشاء اللہ سید داؤد مظفر شاہ صاحب کا مَیں نمازِ جنازہ غائب بھی پڑھاؤں گا۔


  • خطبہ کا مکمل متن
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 11؍ مارچ 2011ء شہ سرخیاں

    حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے صحابہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنے اندر غیر معمولی تبدیلیاں پیدا کیں اور پھر آگے اپنی نسلوں میں بھی منتقل کرنے کی کوشش کی۔ خوش قسمت ہیں وہ نسلیں جنہوں نے اس فیض کو آگے چلایا۔

    ایک ایسے ہی بزرگ جنہوں نے اپنے صحابی باپ دادا کے نام کو روشن کیا ان کا نام حضرت سیدداؤدمظفر شاہ صاحب تھا۔ یہ بزرگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰ ۃ والسلام کے دو جلیل القدر صحابہ کے پوتے اور نواسے تھے۔ تزکیۂ نفس کی جن خصوصیات کا حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے ذکر فرمایاہے وہ اس بزرگ میں ہمیں نظر آتی ہیں۔ حضرت سیدداؤد مظفر شاہ صاحب کے تقویٰ، طہارت، عاجزی، انکساری، صبر، دعاؤں اور عبادات میں انہماک، حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی، قرآن کریم سے محبت جیسے خصائل حمیدہ کا قابل رشک تذکرہ۔

    اللہ کرے کہ ہمارے تمام بزرگوں کی اولادیں، صحابہ کی اولادیں ہمیشہ اپنے والدین کے، اپنے آبا ؤ اجداد کے نمونے دیکھنے والی ہوں اور نیک نسل کو آگے چلانے کے لئے دعا اور اپنے عمل سے کوشش کرنے والی ہوں۔

    فرمودہ مورخہ 11؍مارچ 2011ء بمطابق 11 ؍امان 1390 ہجری شمسی،  بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن (برطانیہ)

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور