زمینی یا آسمانی آفات اور خدائی گرفت
خطبہ جمعہ 18؍ مارچ 2011ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
جب بھی دنیا میں زمینی یا آسمانی آفات آتی ہیں توخدا تعالیٰ کا خوف رکھنے والا ہر شخص اس خوف سے پریشان ہو جاتا ہے کہ آج جو آفت ایک علاقہ میں آئی ہے کل ہمیں بھی کسی مشکل میں مبتلا نہ کر دے۔ ہمارا کوئی عمل خدا تعالیٰ کی ناراضگی مول لینے والا نہ بن جائے۔ اور یہ حالت ایک حقیقی مومن کی ہی ہو سکتی ہے۔ اُس کی ہو سکتی ہے جس کو یہ فہم اور ادراک حاصل ہو کہ اللہ تعالیٰ بے نیاز ہے۔ اور جب یہ سوچ ہو تو وہ اللہ تعالیٰ کا خوف دل میں رکھتے ہوئے اُس کی رضا کی راہوں پر چلنے کی کوشش کرتا ہے۔ اور ایسے ہی مومنوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اِنَّ الَّذِیْنَ ہُم مِنْ خَشْیَۃِ رَبِّہِمْ مُّشْفِقُوْنَ (المومنون: 58) کہ یقینا وہ لوگ ہیں جو اپنے رب کے خوف سے کانپتے ہیں۔ اور اس خوف کی وجہ سے بِآیٰتِ رَبِّھِمْ یُؤْمِنُوْنَ (المومنون: 59)۔ اپنے ربّ کی آیات پر ایمان لاتے ہیں۔ آگے پھر بیان ہوتا ہے کہ اُس کا شریک نہیں ٹھہراتے۔ ہر حالت میں اُن کا رُخ خدا تعالیٰ کی طرف ہوتا ہے۔ یہ نہیں کہ آفات میں گھِر گئے تو خدا تعالیٰ یاد آگیا۔ جب آفات سے باہر آئے تو خدا تعالیٰ کو بھول گئے۔ نہیں، بلکہ ہر حالت میں، چاہے تنگی ہو یا آسائش ہو، مشکل میں ہوں یا سکون میں ہوں، اللہ تعالیٰ کو یاد رکھتے ہیں اور نیکیوں میں آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ خدا تعالیٰ کو یاد رکھنا اُس وقت بھی ہوتا ہے جب خدا تعالیٰ نے انہیں ہر قسم کی بلاؤں اور مشکلات سے محفوظ رکھا ہوتا ہے اور کسی قسم کی پریشانی نہیں ہوتی اور جب کسی مشکل میں گرفتار ہوتے ہیں یا کسی بھی قسم کے موسمی تغیّر یا آفت کو دیکھتے ہیں تواُس وقت وہ مزید اللہ تعالیٰ کے آگے جھکتے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو ہمارے لئے اسوہ حسنہ ہیں اور تا قیامت ہر آنے والے مومن کے لئے اسوہ حسنہ ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایسے حالات میں کیا عمل ہوتا تھا اور کیا حالت ہوتی تھی۔ اس بارہ میں حضرت عائشہؓ سے ایک روایت ہے۔ آپ فرماتی ہیں کہ:
’’جب تیز آندھی آتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا کرتے کہ اے اللہ! مَیں تجھ سے اس آندھی میں مضمر ہر ظاہری اور باطنی خیر کا طالب ہوں اور اس کے ہر ظاہری و باطنی شر سے پناہ مانگتا ہوں۔ (سنن ترمذی کتاب الدعوات باب ما یقول اذا ھاجت الریح حدیث 3449)
نیز آپ یعنی حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ جب آسمان پر بادل گھر آتے تو آپ کا رنگ بدل جاتا اور آپ کبھی گھر میں داخل ہوتے اور کبھی باہر نکلتے۔ کبھی آگے جاتے اور کبھی پیچھے اور جب بادل برس جاتا تو آپ کی گھبراہٹ ختم ہو جاتی۔ کہتی ہیں کہ یہ بات مَیں آپ کے چہرہ مبارک سے پہچان لیتی تھی۔ آپؓ فرماتی ہیں کہ ایک بار مَیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس گھبراہٹ کا سبب پوچھا تو آپؐ نے فرمایا کہ اے عائشہ! یہ اس لئے ہے کہ کہیں یہ بادل قومِ عاد پر عذاب لانے والے بادل جیسا نہ ہو۔
قومِ عاد کے بارہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ انہوں نے جب بادل کو اپنی وادیوں کی طرف آتے ہوئے دیکھا تو کہا کہ یہ تو ہم پر مینہ برسانے والاہے لیکن وہ عذاب لانے والا بن گیا۔ (صحیح بخاری کتاب بدء الخلق باب ما جاء فی قولہ: و ھو الذی یرسل الریاح بشرا …… حدیث 3206)
تو یہ ہے کامل بندگی اور خشیت کا اظہار، اُس خوف کا اظہار کہ وہ عظیم انسان جس سے اللہ تعالیٰ کے بے شمار وعدے ہیں۔ ہر قسم کے نقصان سے بچانے کے بھی وعدے ہیں، ترقی اور غلبے کے بھی وعدے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بھی پتہ ہے کہ آپؐ کی زندگی میں کوئی آفت اور مصیبت مسلمانوں پر نہیں آ سکتی، بلکہ دوسرے بھی آپ کی برکتوں سے بچے ہوئے تھے۔ کسی دجّال کا دجل کامیاب نہیں ہو سکتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بھی علم تھا کہ جب آندھی اور طوفان آئے تو آپ کے حق میں آتے ہیں۔ بدر کی جنگ ہو یا جنگِ خندق۔ آندھیاں اور طوفان دشمن کی بربادی اور ہزیمت کا باعث بنی تھیں لیکن پھر بھی آپؐ کو فکر ہے۔ اصل میں تو یہ خیال ہو گا کہ آسمانی آفت سے یہ لوگ صفحہ ہستی سے نہ مٹا دئیے جائیں۔ پس آپ کی بے چینی اُس رحم کے جذبہ کے تحت تھی جو اس رحمۃ للعالمین کے دل میں مخلوق کے لئے موجزن تھا اور آپؐ اس قدر بے چینی میں مبتلا ہو جاتے کہ جیسا کہ حضرت عائشہؓ نے فرمایا کہ آپ کے چہرہ کا رنگ متغیر ہو جاتا، بدل جاتا۔ اللہ تعالیٰ کے بے نیاز ہونے کی وجہ سے آپ کو فکر ہوتی تھی کہ کہیں کچھ لوگوں کا تکبر اور خدا تعالیٰ کی قدرتوں کی صحیح پہچان نہ کرنا پوری قوم کی تباہی کا باعث نہ بن جائے۔ سورۃ ھود کے بارہ میں آپؐ نے ایک جگہ فرمایا کہ اس نے مجھے بوڑھا کر دیا۔ (سنن ترمذی کتاب تفسیر القرآن باب و من سورۃ الواقعۃ حدیث 3297)
قوموں کی تباہی اور بربادی کا اس سورۃ میں ذکر ملتا ہے۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو اللہ تعالیٰ کے پیغام کو حقیقی طور پر سمجھتے تھے اور آپؐ سے زیادہ کوئی اور سمجھ نہیں سکتا، آپؐ کو یہ فکر رہتی تھی کہ امت کا ہمیشہ صحیح رستے پر چلتے رہنا میری ذمہ داری ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا فَاسْتَقِمْ کَمَآ اُمِرْتَ وَمَنْ تَابَ مَعَکَ وَلَا تَطْغَوْا(ھود: 113) پس جیسے تجھے حکم دیا جاتا ہے اس پر مضبوطی سے قائم ہوجا اور وہ جنہوں نے تیرے ساتھ توبہ کی ہے۔ اور حد سے نہ بڑھنا۔ یعنی مومنوں کوحکم ہے کہ حد سے نہ بڑھنا۔ حد سے بڑھنا خدا تعالیٰ کی ناراضگی مول لینا ہے۔
پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو فکر تھی کہ مومنین کی توبہ حقیقی توبہ ہو۔ آندھی، بادل وغیرہ کو دیکھ کر آپ کاپریشان ہونا اس وجہ سے بھی تھا کہ کہیں مومنوں کی بدعملیاں کسی آفت کو بلانے والی نہ بن جائیں۔ یہاں مومنوں کو بھی یہ حکم ہے کہ ایک دفعہ توبہ کر لی ہے تو تمہارے سامنے جو اُسوہ حسنہ قائم ہو گیا ہے اُس کی پیروی کرو۔ ورنہ یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ بے نیاز ہے۔ مومنوں کو حکم ہے کہ اُن لوگوں کی طرح نہ بنیں جو آفت کو دیکھ کر تو خدا تعالیٰ کو یاد کر لیتے ہیں اور جب مشکل دور ہو جائے تو پھر پرانی ڈگر پر آ جاتے ہیں۔ ایک مومن کی توبہ تو حقیقی توبہ ہوتی ہے اور مستقل توبہ ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآنِ کریم میں ایک جگہ مثال دیتے ہوئے فرماتا ہے وَاِذَا غَشِیَہُمْ مَّوْجٌ کَالظُّلَلِ دَعَوُا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ فَلَمَّا نَجّٰہُمْ اِلَی الْبَرِّ فَمِنْہُمْ مُّقْتَصِدٌ۔ وَمَا یَجْحَدُ بِاٰیٰتِنَآ اِِلَّا کُلُّ خَتَّارٍ کَفُوْرٍ(لقمان: 33) اور جب انہیں کوئی موج سائے کی طرح ڈھانک لیتی ہے تو وہ عبادت صرف اللہ کے لئے مخصوص کرتے ہوئے اُس کو پکارتے ہیں۔ پھر جب وہ انہیں خشکی کی طرف نجات دے دیتا ہے تو اُن میں سے کچھ لوگ میانہ روی پر قائم رہتے ہیں اور ہماری آیتوں کا انکار صرف بد عہد اور ناشکرا ہی کرتا ہے۔
پس حقیقی مومن کی پکار مشکل اور مصیبت سے نجات پانے کے بعد بھی اللہ اللہ ہی ہوتی ہے۔ لیکن بد عہد اور ناشکرے اللہ تعالیٰ کو بھول جاتے ہیں اور پھر وہی ظلم و تعدّی، شرک اور ہر قسم کی برائیوں کا اُن سے اظہار ہوتا ہے۔ وہ اسی چیزمیں پڑ جاتے ہیں۔ حقیقی مومن تو اس سے بڑھ کر ہے۔ یہی نہیں کہ صرف اپنے پر جو مشکل آئے اور مصیبت آئے تو تب ہی خدا تعالیٰ کا خوف دل میں پیدا ہوتا ہے۔ صرف اپنے پر آنے والی مصیبت ہی انہیں ایمان میں مضبوط نہیں کرتی بلکہ جیسا کہ ہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے دیکھا ہے، دوسری قوموں کے انجام بھی خوف دلانے والے ہوتے ہیں۔ چاہے وہ ماضی میں گزری ہوئی قومیں ہیں یا اس زمانے میں ہمارے سامنے بعض قوموں کی مثالیں نظر آتی ہیں۔ اگر پرانی گزری ہوئی قوموں کا انجام اللہ تعالیٰ کا خوف دلانے والا ہوتا ہے تو پھر ایک مومن کے لئے جیسا کہ مَیں نے کہا اپنے زمانے میں دوسری قوموں پر آفات کس قدر خوفزدہ کرنے والی اور اپنے خدا کے آگے جھکنے والی اور اس سے رہنمائی مانگنے والی ہونی چاہئیں۔ لیکن دنیا اس بات کو نہیں سمجھتی۔ اکثریت سمجھتی ہے کہ موسمی تغیرات یا زمینی اور آسمانی آفات قانونِ قدرت کا حصہ ہیں اور کچھ عرصے بعد انہوں نے آنا ہی ہوتا ہے۔ ایک معمول ہے جن کے مطابق یہ آتی ہیں۔ آج کل کے پڑھے لکھے انسان کو اس علم نے اللہ تعالیٰ کی قدرتوں سے ہی بے خوف کر دیا ہے۔
یہ ٹھیک ہے کہ قانونِ قدرت کے تحت آفات آتی ہیں۔ یہ بھی ٹھیک ہے کہ زلزلے جب آتے ہیں تو زمین کی نچلی سطح کی جو پلیٹس ہیں اُن میں تغیر زلزلوں کا باعث بنتا ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ نیوزی لینڈ یا جاپان وغیرہ کے علاقوں میں، مشرقِ بعید کے علاقوں میں جوجزائرہیں وہ اِن پلیٹس کے اوپر آباد ہیں جس کی وجہ سے اِن علاقوں میں زلزلے زیادہ آتے ہیں۔ لیکن یہ بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ اس زمانہ میں اللہ تعالیٰ کے کسی بھیجے ہوئے اور فرستادے نے اپنی سچائی کے لئے اِن زلزلوں کی پیشگوئی تو نہیں کی؟
عرصہ ہوا غالباً یہ مولانا نذیر مبشر صاحب کے وقت کی بات ہے۔ گھانا میں جب یہ مبلغ ہوتے تھے توانہوں نے جب احمدیت اور اسلام کی اس علاقہ میں تبلیغ کی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے آنے کا دعویٰ اور یہ نوید سنائی اور یہ تبلیغ کی تو گھانا کے اس علاقہ میں علماء نے اور اَور بہت سارے پُرانے لوگوں نے اُن کو کہنا شروع کیا کہ مسیح و مہدی کے آنے کی نشانی تو زلزلے ہیں۔ اگر آپ کا بیان سچا ہے تو ہمارے ملک میں پھر زلزلے کا نشان دکھائیں۔ اور گھانا ایسی جگہ ہے جہاں عموماً زلزلے نہیں آتے۔ چنانچہ آپ نے دعا کی اور اُس کے نتیجہ میں وہاں ایک زلزلہ آیا جس کی وجہ سے لوگوں میں بے چینی پیدا ہو گئی اور بہت سارے لوگوں نے عیسائیت میں سے احمدیت قبول کی۔ مسلمانوں میں سے بھی احمدی مسلمان ہوئے۔ جنہوں نے نہیں ماننا ہوتا وہ تو نہیں مانتے لیکن بہر حال وہاں زلزلے کا ایک نشان مشہور ہو گیا۔ (ماخوذ از روح پرور یادیں صفحہ 78-79)
بہر حال ہم یہ دیکھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے دعویٰ کو زلزلوں اور آفات کے ساتھ کس طرح جوڑا ہے۔ اس کے بارے میں کیا بیان فرمایا ہے؟ اور اللہ تعالیٰ سے اطلاع پا کر حوادث اور زلزلوں کے بارے میں آپ نے کیا پیشگوئی فرمائی؟ آپ فرماتے ہیں کہ:
’’حوادث کے بارے میں جو مجھے علم دیا گیا ہے وہ یہی ہے کہ ہر ایک طرف دنیا میں موت اپنا دامن پھیلائے گی اور زلزلے آئیں گے اور شدّت سے آئیں گے اور قیامت کا نمونہ ہوں گے اور زمین کو تہ و بالا کر دیں گے اور بہتوں کی زندگی تلخ ہو جائے گی۔ پھر وہ جو توبہ کریں گے اور گناہوں سے دستکش ہو جائیں گے خدا اُن پر رحم کرے گا۔ جیسا کہ ہر ایک نبی نے اس زمانے کی خبر دی تھی ضرور ہے کہ وہ سب کچھ واقع ہو۔ لیکن وہ جو اپنے دلوں کو درست کر لیں گے اور اُن راہوں کو اختیار کریں گے جو خدا کو پسند ہیں اُن کو کچھ خوف نہیں اور نہ کچھ غم۔ خدا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ تُو میری طرف سے نذیر ہے۔ مَیں نے تجھے بھیجا تا مجرم نیکو کاروں سے الگ کئے جائیں۔ اور فرمایا کہ دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اُس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اُس کی سچائی ظاہر کر دے گا۔ میں تجھے اس قدر برکت دوں گا کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے‘‘۔
فرماتے ہیں کہ ’’آئندہ زلزلہ کی نسبت جو ایک سخت زلزلہ ہو گا مجھے خبر دی… اور فرمایا ’’پھر بہار آئی خدا کی بات پھر پوری ہوئی‘‘۔ اس لئے ایک شدید زلزلہ کا آنا ضروری ہے۔ لیکن راستباز اُس سے امن میں ہیں۔ سو راستباز بنو اور تقویٰ اختیار کرو تا بچ جاؤ۔ آج خدا سے ڈرو تا اُس دن کے ڈرنے سے امن میں رہو۔ ضرور ہے کہ آسمان کچھ دکھاوے اور زمین کچھ ظاہر کرے۔ لیکن خدا سے ڈرنے والے بچائے جائیں گے‘‘۔ فرماتے ہیں کہ ’’خدا کا کلام مجھے فرماتا ہے کہ کئی حوادث ظاہر ہوں گے اور کئی آفتیں زمین پر اتریں گی۔ کچھ تو اُن میں سے میری زندگی میں ظہور میں آ جائیں گی اور کچھ میرے بعد ظہور میں آئیں گی۔ اور وہ اس سلسلہ کو پوری ترقی دے گا۔ کچھ میرے ہاتھ سے اور کچھ میرے بعد‘‘۔ (رسالہ الوصیت۔ روحانی خزائن جلد 20۔ صفحہ 302تا 303)
تو یہ آپ کا دعویٰ ہے۔ اور جیسا کہ ایک مرتبہ پہلے بھی غالباً گزشتہ سال مَیں اسی حوالے سے بیان کر چکا ہوں کہ گزشتہ سوسال کے دوران جو آفات اور زلازل آئے ہیں وہ اس سے پہلے ریکارڈ نہیں ہوئے۔ چھوٹے چھوٹے (ریکارڈ) نہیں ہوئے لیکن جو پرانی بڑی بڑی آفتیں آئی ہیں وہ ریکارڈ میں موجود ہیں۔ لیکن اتنی زیادہ نہیں جتنی اس سو سال میں۔ اللہ تعالیٰ یہ نشان دنیا کے مختلف حصوں میں بار بار دکھا رہا ہے۔ اس لئے بار بار ہمیں اس انذار کو اپنے سامنے رکھنے کی ضرورت ہے کہ اپنے ایمانوں کو بھی مضبوط کر سکیں اور دنیا میں بھی اُس پیغام کو پہنچانے کا حق ادا کر سکیں جس کو لے کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام آئے تھے۔ آپؑ نے واضح فرمایا ہے کہ میرا نشان میری زندگی کے بعد بھی ظاہر ہوتا رہے گا۔ پس جس طرح شدت سے آپ نے دنیا کو اس نشان سے آگاہ کیا ہے ہمیں بھی دنیا کو آگاہ کرنے کی ضرورت ہے۔
ابھی گزشتہ ہفتے جاپان میں ایک شدید زلزلہ آیا اور ساتھ ہی سونامی بھی جس نے بستیوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا۔ زلزلے سے جو بستیاں تباہ ہوئی تھیں، اُنہیں پانی بہا کر کہیں کا کہیں لے گیا۔ وہاں جو احمدی ہیں وہ اس علاقہ میں زلزلہ زدگان کی مدد کے لئے جا رہے تھے تو راستے سے اُن کو فون آیا کہ یہ جگہ جہاں سے ہم گزر رہے ہیں پہلے جب یہاں سے گزرا کرتے تھے تو ایک بستی تھی، ایک قصبہ تھا، پندرہ بیس ہزار کی آبادی تھی اور اب ہم یہاں سے گزر رہے ہیں تواس جگہ پہ اُس بستی کا کہیں نشان ہی نہیں۔ اور جو سڑکیں ہیں وہ بھی بالکل ختم ہو چکی ہیں۔ بڑی بڑی عمارتیں جو بہ گئیں تو سڑکوں کاکوئی سوال ہی نہیں تھا۔ پس یہ بڑے خوف کا مقام ہے۔ بہر حال اس خوف کے ساتھ ہمیں اپنے آقا حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ پر عمل کرتے ہوئے دعا بھی کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ دنیا کو حق پہچاننے کی توفیق عطا فرمائے اور وہ آفات سے بچائے جائیں۔ بجائے یہ کہ وہ آفتوں سے تباہ ہوں۔ اللہ تعالیٰ ان کے سینے کھولے۔ اور اس کے ساتھ ہی ہمیں پیغام پہنچانے کی ضرورت ہے اور جاپانیوں کے بارہ میں تو خاص طور پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا حسنِ ظن ہے اور پیغام پہنچانے کی خواہش بھی تھی۔ اس لئے جہاں یہ آفات، یہ زلزلے آتے ہیں وہاں اُن کے لئے ایک خوشخبری بھی ہے کہ اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس حسنِ ظن کے مطابق وہ اللہ تعالیٰ کی حقیقی تعلیم کو سمجھ لیں تو بچائے بھی جائیں۔ اس لئے ہمیں بھی اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ گو وہاں چھوٹی سی جماعت ہے لیکن جتنی بھی ہے اُسے اپنی پوری طاقتوں کے ساتھ بھر پور کوشش کرنی چاہئے کہ یہ پیغام جس حد تک وہ پھیلا سکتے ہیں پھیلائیں اور پہنچائیں۔ اور اِن حالات میں حکمت سے اسلام کا پیغام بھی پہنچائیں اور خدمتِ خلق بھی ساتھ ساتھ کرتے چلے جائیں۔ خدمتِ خلق کا کام تو متأثرہ جگہوں پر ہمارے احمدی جیسا کہ مَیں نے کہا کہ کیمپ لگا کر کر رہے ہیں، خوراک وغیرہ بھی مہیا کر رہے ہیں۔ لیکن ان رابطوں کو اب مستقل کرنے کی ضرورت ہے تا کہ ان کو اسلام کی خوبصورت تعلیم کا پتا چلے۔ جاپان کو اپنے روایتی شِنٹو مذہب پر فخر ہے۔ اُسی پر اُن کی توجہ رہتی ہے۔ یا اُن میں بدھسٹ ہیں بلکہ ان کی تحقیق کرنے والے بعض تویہ کہتے ہیں کہ اِن کے دونوں مذہب ساتھ ساتھ چل رہے ہیں۔ شادی بیاہ کے لئے شِنٹو مذہب کی روایات پر عمل کرتے ہیں اور اُس کے مطابق رسوم ہوتی ہیں اور موت فوت پر بدھ مت کے مطابق رسوم ادا کی جاتی ہیں۔ میرے ایک جاپانی دوست ہیں، جماعت سے اچھا تعلق رکھنے والے ہیں، بڑے سرکاری عہدیدار تو نہیں لیکن بہر حال اچھے بڑے اثر و رسوخ والے آدمی ہیں اور وزراء وغیرہ تک اُن کی پہنچ ہے۔ وہ ایک دن باتوں میں کہنے لگے کہ ہمارا جو شنٹو مذہب ہے، اس کی وجہ سے جاپانی اسلام کی طرف توجہ نہیں دے سکتے۔ تو مَیں نے اُس وقت اُن کو یہی کہا تھاکہ گو اِس میں اخلاق کے لحاظ سے بہت اچھی خصوصیات ہیں لیکن ایک دن بہر حال اِن کو اسلام کی طرف آنا پڑے گا۔ جہاں تک اِن کے بنیادی اخلاق کا سوال ہے جیسا کہ مَیں نے کہا، شِنٹو تعلیم جو ہے بعض بڑے اچھے اخلاق کی تعلیم دیتی ہے بلکہ لگتا ہے کہ اسلام کے اعلیٰ اخلاق کو انہوں نے اپنایا ہوا ہے۔
بہر حال جیسا کہ مَیں نے کہا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جاپان میں تبلیغِ اسلام کی خواہش کا اظہار فرمایا۔ اور ایک مجلس میں آپ نے فرمایا کہ: ’’مجھے معلوم ہوا ہے کہ جاپانیوں کو اسلام کی طرف توجہ ہوئی ہے اس لئے کوئی ایسی جامع کتاب ہو جس میں اسلام کی حقیقت پورے طور پر درج کر دی جاوے گویا اسلام کی پوری تصویر ہو۔ جس طرح پر انسان سراپا بیان کرتا ہے اور سر سے لے کر پاؤں تک کی تصویر کھینچ دیتا ہے اسی طرح سے اس کتاب میں اسلام کی خوبیاں دکھائی جاویں۔ اس کی تعلیم کے سارے پہلوؤں پر بحث ہو اور اس کے ثمرات اور نتائج بھی دکھائے جاویں۔ اخلاقی حصہ الگ ہو اور ساتھ ساتھ دوسرے مذاہب کے ساتھ اس کا مقابلہ کیا جاوے‘‘۔ (ملفوظات جلد چہارم صفحہ 372-371 مطبوعہ ربوہ)
پھر فرمایا کہ’’وہ لوگ بالکل بے خبر ہیں کہ اسلام کیا شے ہے؟‘‘فرمایا ’’مَیں دوسری کتابوں پر جو لوگ اسلام پر لکھ کر پیش کریں بھروسہ نہیں کرتا کیونکہ اُن میں خود غلطیاں پڑی ہوئی ہیں‘‘ (یعنی دوسرے لوگ جو علاوہ احمدیوں کے لکھ رہے ہیں، اُن میں غلطیاں ہیں۔ اس لئے بھروسہ نہیں کرتا)۔ ’’ان غلطیوں کو ساتھ رکھ کر اسلام کے مسائل جاپانی یا دوسری قوموں کے سامنے پیش کرنا اسلام پر ہنسی کرانا ہے۔ اسلام وہی ہے جو ہم پیش کرتے ہیں‘‘۔ (ملفوظات جلد چہارم صفحہ 374 مطبوعہ ربوہ)
پس ہم پریہ ذمہ داری ڈال دی کہ ایسی جامع کتاب جاپانی میں لکھی جائے جو تمام چیزوں کو cover کرتی ہو۔ میرے خیال میں ابھی تک تو یہ لکھی نہیں گئی، گو کہ جاپانی زبان میں بعض لٹریچر ہے۔ بہر حال ہمیں اب اس طرف توجہ بھی کرنی ہو گی۔ بلکہ اُس زمانے میں ایک جگہ آپ نے فرمایا کہ ایسی کتاب ہو اور پھر کسی جاپانی کو چاہے ایک ہزار روپیہ دے کر (اُس زمانے میں ہزار روپیہ کی بڑی قیمت تھی) اس کا ترجمہ کروایا جائے۔ (ماخوذ از ملفوظات جلد چہارم صفحہ 373 حاشیہ)
قرآنِ کریم کا ترجمہ بھی آج کل دوبارہ ری وائز (Revise) ہو رہا ہے اور اللہ کے فضل سے ہمارے مبلغ ضیاء اللہ صاحب اور ایک جاپانی احمدی دوست جو بڑے مخلص ہیں، وہ کر رہے ہیں اور تقریباً مکمل ہونے والا ہے۔
یہاں مَیں جاپان سے متعلق حضرت مصلح موعودؓ کی ایک رؤیا کا بھی ذکر کر دیتا ہوں۔ یہ 1945ء کی بات ہے۔ لمبی رؤیا ہے۔ اس کے بعد حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ خواب میں بتایا گیا ہے کہ جاپانی قوم جو اس وقت بالکل مردہ حالت میں ہے۔ اللہ تعالیٰ اُس کے دل میں احمدیت کی طرف رغبت پیدا کرے گا۔ (یعنی روحانی لحاظ سے مردہ ہے) اور وہ آہستہ آہستہ پھر طاقت اور قوت حاصل کرے گی اور میری آواز پر اسی طرح لبیک کہے گی جس طرح پرندوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی آواز پر لبیک کہا تھا‘‘۔ (رؤیا و کشوف سیدنا محمود صفحہ 287-286۔ الفضل 19؍اکتوبر1945ء صفحہ 2-1)
تو رؤیا کا آپ نے یہ نتیجہ نکالا۔ پس آج ہمارا یہ فرض ہے کہ اس طرف بہت زیادہ توجہ دیں جب کہ اللہ تعالیٰ ایسے حالات بھی پیدا کر رہا ہے۔ خدمت کے مواقع بھی ہمیں ملتے رہتے ہیں۔ تبلیغ کے بھی ملتے رہتے ہیں۔ اس میں زیادہ بہتری اور زیادہ توجہ کی ضرورت ہے۔ آج ہر قوم کو ہوشیار کرنا ہمارا کام ہے۔ جاپان میں یہ جو زلزلہ اور سونامی آیا ہے بعض کہتے ہیں کہ ہزار سال کی تاریخ میں ایسا نہیں آیا۔ جاپان دنیا کا ایسا ملک ہے جہاں زلزلے آتے ہیں جیسا کہ مَیں نے کہا۔ اور یہ اپنی عمارتیں بھی ایسی بناتے ہیں جو زلزلے کو برداشت کرنے والی ہیں۔ لیکن جب اللہ تعالیٰ کی تقدیر چلتی ہے، پھر کوئی چیز مقابلہ نہیں کر سکتی۔ کہتے ہیں کہ انسانی سوچ ابھی تک ساڑھے سات یا آٹھ ریکٹر سکیل پر زلزلوں کو سہارنے کا انتظام کرسکتی ہے۔ وہ عمارتیں وغیرہ بنا سکتی ہے جو سہار سکتی ہیں۔ لیکن یہ زلزلہ جو آیا یہ تقریباً 9 ریکٹر سکیل کا زلزلہ تھا۔ اور پھر جیسا کہ مَیں نے کہا سمندری طوفان نے اس پر مزید تباہی مچا دی اور پھر انسان جو سمجھتا ہے کہ مَیں نے بڑی ترقی کر لی ہے اور بعض چیزوں کو استعمال میں لا کر مَیں نئی نئی ایجادیں کر لیتا ہوں۔ ایٹم کا استعمال ہے، اس کو جاپان میں فائدے کے لئے استعمال میں لایا جا رہا ہے، جاپانی ویسے تو ایٹم بم کے بڑے خلاف ہیں، کیونکہ ایک دفعہ دوسری جنگِ عظیم میں امریکہ کی طرف سے اُن پر جو ایٹم بم پھینکے گئے تو اُس کی وجہ سے بہت زیادہ ردّعمل اور خوف ہے۔ لیکن بہر حال وہ ایٹم سے انسانی فائدے کے لئے اور اپنی معیشت بہتر کرنے کے لئے کام لے رہے ہیں اور اس پر کام کررہے ہیں۔ لیکن اس زلزلے کے بعد ان ایٹمی ری ایکٹروں نے بھی تباہی پھیلائی ہوئی ہے۔ ریڈی ایشن پھیلتی چلی جا رہی ہے۔ آج ہی مجھے جاپان سے فیکس آئی کہ جو ہیلی کاپٹر ہیں وہ ناکام ہو رہے تھے۔ فائر بریگیڈ کے ٹینکوں کے ذریعے سے یہ کوشش کر رہے ہیں کہ کسی طرح اُن ری ایکٹرز کو ٹھنڈا رکھا جائے تا کہ ریڈی ایشن نہ پھیلے۔ بہر حال اللہ تعالیٰ فضل فرمائے اور مزید تباہی سے اس ملک کو بچائے۔ لیکن اپنے والنٹیئرز کو مَیں نے پیغام دیا تھا کہ ان دنوں میں وہاں بلکہ عمومی طور پر جاپان میں رہنے والے احمدی اور اُس علاقے میں رہنے والے ریڈئیم برومائیڈ (Radium Bromide-CM) اور کارسینوسن (Carcinosan-CM) استعمال کریں جو ہومیو پیتھک دوائی ہے۔ ایک دن ایک، دوسرے دن دوسری۔ اس کے بعد ایک ہفتے کے وقفے سے ایک دوائی۔ پھر ایک ہفتے کے وقفے بعد دوسری دوائی۔ یعنی کہ دو ہفتے بعد ایک دوائی کی باری آئے گی۔ وہاں اور لوگوں کو بھی کھلائیں۔ اگر وہاں میسر نہیں ہے تو Humanity first کو جو اور انتظام کر رہی ہے یہ دوائی بھی بھجوانے کی کوشش کرنی چاہئے۔
بہر حال اس وقت جاپان کے علاقے میں زلزلے اور سمندری طوفان نے تباہی پھیلائی ہوئی ہے اور پھر ریڈی ایشن کا بھی خطرہ پیدا ہو گیا ہے جس کے بدنتائج دیر تک چلتے ہیں۔ زلزلہ آیا، سونامی آیا۔ یہ تو ایک وقتی طور پر آیا تھا، ختم ہو گیالیکن اگر ریڈی ایشن خدا نخواستہ زیادہ پھیل گئی تو پھر نسلوں تک اُس کے اثرات چلتے ہیں۔ بچے بھی بعض دفعہ اپاہج پیدا ہوتے چلے جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان لوگوں پر رحم فرمائے۔
وہ قومیں جو سمجھتی ہیں کہ ہم محفوظ ہیں لیکن زمانے کے امام کی پیشگوئی کے مطابق وہ بھی محفوظ نہیں ہیں۔ اور اگر اب بھی انہوں نے خدا تعالیٰ کی طرف توجہ نہ کی تو جویہ آفات ہیں ہر ایک کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہیں۔ ان کو بھی اللہ تعالیٰ، خدا تعالیٰ کو پہچاننے کی توفیق عطا فرمائے۔ اس سال میں، اِس علاقے میں یعنی اِس جاپان اور فارایسٹ) (Far East وغیرہ کے علاقے میں اور آسٹریلیا میں تین مختلف ممالک جو ہیں وہ آفات سے متاثر ہوئے ہیں۔ نیوزی لینڈ میں بھی ایک شہر کا بڑا حصہ تباہ ہو گیا۔ کہتے ہیں وہاں نیوزی لینڈ میں 1931ء میں بہت بڑا زلزلہ آیا تھا جس سے دو شہر تباہ ہو گئے تھے اور اس سال بھی جو زلزلہ آیا ہے اُس کی شدت گو 1931ء والے زلزلے سے کم تھی لیکن اس میں بھی بہت تباہی ہوئی ہے۔ ستّر ہزار لوگوں کو اپنے گھروں کی بربادی کی وجہ سے شہر چھوڑنا پڑا۔ تقریباً پچہتر فیصد تو شہر ہی تباہ ہو گیا۔
پھر آسٹریلیا میں بارشوں اور سمندری طوفان نے تباہی مچائی ہے۔ آسٹریلیا میں بھی ستّرشہر اور قصبے تباہ ہو گئے ہیں۔ پورا کوئینز لینڈ (Queensland) ہی تقریباً متاثر ہوا ہے۔ اور اس کوئینز لینڈ کا جو رقبہ ہے وہ لمبائی چوڑائی میں اتنا بڑا ہے کہ جاپان سے چار گُنا زیادہ ہے۔ پس یہ زُعم بھی ختم ہو جاتا ہے کہ ہمارے پاس بہت رقبہ ہے اور ہم یہاں سے وہاں چلے جائیں گے، ادھر سے اُدھر چلے جائیں گے۔ پھر اِن کی معیشت کوآسٹریلیا میں بڑا نقصان پہنچا ہے۔ اس صوبے میں کوئلے کی بڑی کانیں ہیں جن میں سے پچاسی فیصد کو نقصان پہنچا ہے اور کہتے ہیں کہ دو اعشاریہ تین بلین ڈالر کا نقصان کوئلے کی کانوں کو ہوا ہے، اور کُل معیشت کو نقصان تیس بلین ڈالر کا ہوا ہے۔ پھر اس کے علاوہ وہاں کے علاقے وکٹوریہ میں طوفان آیا اور محکمہ موسمیات کے مطابق وہاں کے وکٹوریہ کی تاریخ میں یہ بدترین طوفان تھا۔ تو دنیا کی تو یہ حالت ہے اور پھر یہ زعم کہ ہم بڑے ترقی یافتہ ہیں۔ اور گزشتہ سالوں میں امریکہ میں بھی طوفان آتے رہے تو کتنوں کوانہوں نے بچا لیا۔ اُن کی بھی بستیاں تباہ ہو گئیں۔ تو اِن ملکوں کے طوفانوں سے باقی ملک یہ نہ سمجھیں کہ شاید ہمارے لئے بچت ہے اور یہ علاقے ایسے ہیں جہاں طوفان آتے ہیں یا زلزلے آتے ہیں یا آفات آتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ تمام دنیا کو، دنیا کی قوموں کو ایک ہاتھ پر جمع کرے اور اپنی پہچان کروائے۔ اس کے لئے اُس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھیجا ہے۔ آپؑ فرماتے ہیں:
’’خدائے تعالیٰ نے اس زمانے کو تاریک پا کر اور دنیا کو غفلت اور کفر اور شرک میں غرق دیکھ کر اور ایمان اور صدق اور تقویٰ اور راست بازی کو زائل ہوتے ہوئے مشاہدہ کر کے مجھے بھیجا ہے تا کہ وہ دوبارہ دنیا میں علمی اور عملی اور اخلاقی اور ایمانی سچائی کو قائم کرے اور تا اسلام کو ان لوگوں کے حملہ سے بچائے جو فلسفیت اور نیچریت اور اباحت اور شرک اور دہریت کے لباس میں اس الٰہی باغ کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں‘‘۔ (آئینہ کمالات اسلام۔ روحانی خزائن جلد 5۔ صفحہ 251)
پس اسلام کی سچائی اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعے سے دنیا میں قائم ہونی ہے اور آپ کے ساتھ جُڑنے سے ہی دنیا میں قائم ہونی ہے۔ غیر قوموں سے مقابلہ کر کے اسلام کی برتری جب ثابت کرنی ہے تو اس جری اللہ کے ساتھ جُڑنے سے ہی ہو سکتی ہے۔ کوئی اور تنظیم، کوئی اور جماعت اس مقصد کو حاصل نہیں کر سکتی۔ اُمّت کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عمل پر غور کرنا چاہئے کہ کس طرح آندھی اور بارش دیکھ کر آپ بے چین ہو جایا کرتے تھے۔ پس یہ دیکھیں کہ کیا ہم اس اُسوہ پر حقیقی طور پر عمل پیرا ہیں یا کوشش کرتے ہیں؟ اگر نہیں تو بڑے فکر کا مقام ہے کہ اللہ تعالیٰ تو بڑا بے نیاز ہے۔ اُس کا کسی کے ساتھ کوئی رشتہ نہیں۔ خدا صرف اُس کا ہے جو حقیقی رنگ میں حقِّ بندگی ادا کرنے والا ہے۔
پاکستان میں جو گزشتہ سال سیلاب آیا جو مُلک کی تاریخ کا بدترین سیلاب تھا، جس نے سرحد سے لے کر سندھ تک تمام صوبوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا اور تجزیہ کرنے والے یہ تجزیہ کرتے ہیں کہ یہ انڈونیشیا کے سونامی سے بھی زیادہ تباہ کُن تھا۔ ابھی تک وہاں لوگ شہروں میں کیمپوں میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ نہ ہی اُن کی آباد کاری کی طرف حکومت کو توجہ ہے اور نہ ہی اُس مُلّاں کو جو اِن کا ہمدرد بنتا ہے، جنہوں نے ہر وقت احمدیوں کے خلاف اِن کو اُکسایا ہوا ہے۔ ملک میں مکمل طور پر افراتفری ہے۔ پھر بھی عوام کو سمجھ نہیں آ رہی کہ اُن کے ساتھ یہ ہو کیا رہا ہے۔ اور زمانے کے امام کا انکار کئے چلے جا رہے ہیں۔ گزشتہ سیلاب جو آیا تھا اُس میں مولوی عوام کو یہ تسلی دلا دیتا تھا اور بحث ٹی وی پر چلتی جا رہی تھی کہ یہ کوئی عذاب نہیں تھا بلکہ ابتلا تھا، اور ابتلا اللہ والوں کو آتا ہے۔ اور پھر خود ہی یہ تسلیم کرتے ہیں کہ عذاب تو اُس صورت میں ہوتا ہے جب کوئی نبی آتا ہے اور نبی کا دعویٰ موجود ہوتو چونکہ نبی کوئی نہیں ہے اس لئے یہ عذاب نہیں کہلا سکتا۔ اور جو دعویٰ ہے اُس کی طرف دیکھنے اور سننے کو تیار نہیں۔ اللہ تعالیٰ اس قوم پر بھی رحم کرے۔ چند سال پہلے ایک بدترین زلزلہ آیا تھا جس نے تباہی مچا دی تھی پھر بھی اِن کو عقل نہیں آئی کیونکہ سوچتے نہیں ہیں کہ اِن آفات کی پیشگوئی اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجے ہوئے اُس کے فرستادے نے کی ہے جس کے یہ انکاری ہیں۔ اور جیسا کہ مَیں نے اقتباس میں پڑھا ہے کہ آپ نے فرمایا، کچھ حوادث اور آفتیں میرے بعد ظہور میں آئیں گی‘‘۔ پس کچھ تو آنکھیں کھولو۔ اے بصیرت اور بصارت کا دعویٰ کرنے والو! کچھ تو عبرت حاصل کرو۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے واضح فرمایا ہے کہ دوسرے ملکوں میں آفات کو دیکھ کر یہ نہ سمجھو کہ تم محفوظ ہو، بلکہ واضح فرمایا کہ میری پیشگوئیاں تمام دنیا کے لئے ہیں، نہ اس سے پنجاب مستثنیٰ ہے۔ اُس وقت پنجاب کی بات کرتے تھے کہ پنجاب میں زلزلے نہیں آئے تو آپ نے فرمایا: اس سے پنجاب بھی مستثنیٰ نہیں۔ نہ برصغیر کا کوئی اور شہر یا علاقہ مستثنیٰ ہے۔ آپ نے واضح طور پر فرما دیا کہ حق جو ہے وہ چھپانے سے چھپا نہیں کرتا۔ اس لئے تم لوگ فکر کرو۔ (ماخوذ از حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 268-267)
پھر آپ ایک جگہ فرماتے ہیں۔ آپؑ کا ایک اقتباس پیش کرتا ہوں کہ:
’’یاد رہے کہ خدا نے مجھے عام طور پر زلزلوں کی خبر دی ہے۔ پس یقینا سمجھو کہ جیسا کہ پیشگوئی کے مطابق امریکہ میں زلزلے آئے ایسا ہی یورپ میں بھی آئے اور نیز ایشیا کے مختلف مقامات میں آئیں گے اور بعض اُن میں قیامت کا نمونہ ہوں گے اور اس قدر موت ہوگی کہ خُون کی نہریں چلیں گی۔ اس موت سے پرند چرند بھی باہر نہیں ہونگے اور زمین پر اس قدر سخت تباہی آئے گی کہ اِس روز سے کہ انسان پیدا ہوا ایسی تباہی کبھی نہیں آئی ہوگی۔ اور اکثر مقامات زیر و زبر ہو جائیں گے کہ گویا اُن میں کبھی آبادی نہ تھی۔ اور اس کے ساتھ اَور بھی آفات زمین اور آسمان میں ہولناک صورت میں پیدا ہوں گی۔ یہانتک کہ ہر ایک عقلمند کی نظر میں وہ باتیں غیر معمولی ہو جائیں گی اور ہیئت اور فلسفہ کی کتابوں کے کسی صفحہ میں اُن کا پتہ نہیں ملے گا۔ تب انسانوں میں اضطراب پیدا ہوگا کہ یہ کیا ہونے والا ہے۔ اور بہتیرے نجات پائیں گے اور بہتیرے ہلاک ہو جائیں گے۔ وہ دن نزدیک ہیں بلکہ میں دیکھتا ہوں کہ دروازے پر ہیں کہ دنیا ایک قیامت کا نظارہ دیکھے گی اور نہ صرف زلزلے بلکہ اَور بھی ڈرانے والی آفتیں ظاہر ہوں گی، کچھ آسمان سے اور کچھ زمین سے۔ یہ اس لئے کہ نوع انسان نے اپنے خدا کی پرستش چھوڑ دی ہے اور تمام دل اور تمام ہمت اور تمام خیالات سے دنیا پر ہی گر گئے ہیں۔ اگر میں نہ آیا ہوتا تو اِن بلاؤں میں کچھ تاخیر ہو جاتی، پر میرے آنے کے ساتھ خدا کے غضب کے وہ مخفی ارادے جو ایک بڑی مدت سے مخفی تھے ظاہر ہو گئے جیسا کہ خدا نے فرمایا۔ وَمَاکُنَّا مُعَذِّبِیْنَ حَتّٰی نَبْعَثَ رَسُوْلًا(بنی اسرائیل: 16)۔ اور توبہ کرنے والے اَمان پائیں گے اور وہ جو بلا سے پہلے ڈرتے ہیں اُن پر رحم کیا جائے گا۔ کیا تم خیال کرتے ہو کہ تم اِن زلزلوں سے امن میں رہو گے یا تم اپنی تدبیروں سے اپنے تئیں بچا سکتے ہو؟ ہر گز نہیں۔ انسانی کاموں کا اُس دن خاتمہ ہوگا۔ یہ مت خیال کرو کہ امریکہ وغیرہ میں سخت زلزلے آئے اور تمہارا ملک اُن سے محفوظ ہے۔ مَیں تو دیکھتا ہوں کہ شاید اُن سے زیادہ مصیبت کا مُنہ دیکھو گے۔ اے یورپ تُو بھی امن میں نہیں اور اے ایشیا تو بھی محفوظ نہیں اور اے جزائر کے رہنے والو! کوئی مصنوعی خدا تمہاری مددنہیں کریگا۔ میں شہروں کو گرتے دیکھتا ہوں اور آبادیوں کو ویران پاتا ہوں۔ وہ واحد یگانہ ایک مدت تک خاموش رہا اور اُس کی آنکھوں کے سامنے مکر وہ کام کئے گئے اور وہ چپ رہا مگر اب وہ ہیبت کے ساتھ اپنا چہرہ دکھلائے گا جس کے کان سُننے کے ہوں سُنے کہ وہ وقت دُور نہیں۔ مَیں نے کوشش کی کہ خدا کی اَمان کے نیچے سب کو جمع کروں، پر ضرور تھا کہ تقدیر کے نوشتے پورے ہوتے۔ مَیں سچ سچ کہتا ہوں کہ اِس مُلک کی نوبت بھی قریب آتی جاتی ہے۔ نوح کا زمانہ تمہاری آنکھوں کے سامنے آجائے گا اور لوط کی زمین کا واقعہ تم بچشم خود دیکھ لوگے۔ مگر خدا غضب میں دھیما ہے۔ توبہ کرو تا تم پر رحم کیا جائے۔ جو خدا کو چھوڑتا ہے وہ ایک کیڑا ہے نہ کہ آدمی۔ اور جو اُس سے نہیں ڈرتا وہ مُردہ ہے نہ کہ زندہ۔ (حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن۔ جلد 22۔ صفحہ 269-268)
پس برصغیر کے مسلمانوں کوبھی ہوش کرنی چاہئے کہ وہ بھی محفوظ نہیں ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بار بار بڑی شدت سے تنبیہ کی ہے اور آپ کی شدت میں بھی، تنبیہ میں بھی ایک ہمدردی کا پہلو ہے۔ اس لئے ہمارا بھی فرض ہے کہ ہم بار بار ہمدردی کے جذبے کے تحت لوگوں کو، دنیا کو توجہ دلاتے چلے جائیں کہ ہندوستان کے مسلمان بھی اپنی حالت بدلیں اور مسیح موعود کے خلاف اپنی دریدہ دہنی سے باز آئیں۔ بنگلہ دیش کے مسلمان بھی اپنی زبانوں کو لگام دیں۔ پاکستان کے مسلمان بھی ہوش کے ناخن لیں کہ آفات کو قریب سے دیکھ چکے ہیں۔ پس خدا کا خوف کریں۔ جزائر کے رہنے والوں پر جو آفات آئی ہیں اور جس حالت سے آجکل جاپان گزر رہا ہے اس حالت کو ہمارے لئے، سب کے لئے، دنیا کے لئے عبرت حاصل کرنے والا ہونا چاہئے۔ اللہ کرے کہ مسلمان اس حقیقت کو سمجھیں اور زمانے کے امام کے پیغام کو سمجھیں۔ اب تو علاوہ آسمانی بلاؤں کے تقریباً ہر مسلمان ملک میں اپنے ہی مسائل اس قدر ہو چکے ہیں کہ ہر ایک ان مسائل میں الجھ گیا ہے۔ یہ بھی ان ملکوں کے لئے ایک ابتلابن چکا ہے۔ عوام اور حکومت ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو گئے ہیں۔ مسلمان، مسلمان کا خون بہا رہا ہے۔ اس سے بڑی بدقسمتی اور اس سے بڑا المیہ اَور اُمّت کے لئے کیا ہو سکتا ہے؟ کاش کہ ان کو سمجھ آ جائے کہ اُمّت کی بھلائی کے لئے جس کو خدا تعالیٰ نے بھیجنا تھا بھیج دیا۔ اب اگر عافیت چاہتے ہیں تو اسی کے دامنِ عافیت میں پناہ لیں۔ اللہ کرے۔ اللہ اِن کو توفیق دے اور سمجھ دے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی حقیقی مسلمان بنائے اور ہمدردی کے جذبے سے حقیقی اسلام کے پیغام کو پہنچانے والے بنیں اور دعاؤں پر پہلے سے بڑھ کر زور دینے والے ہوں۔
ایک افسوسناک خبر ہے۔ ابھی جمعہ پر آنے سے پہلے مجھے ملی ہے کہ سانگھڑ میں ہمارے ایک نوجوان رانا ظفر اللہ صاحب ابن مکرم محمد شریف صاحب جو سانگھڑ کے قائد مجلس خدام الاحمدیہ اور سیکرٹری مال ضلع تھے، اِن کو دو نامعلوم موٹر سائیکل سواروں نے فائرنگ کر کے شہید کر دیا ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔
رانا صاحب ایک جماعتی پروگرام میں شرکت کے بعد گھر واپس جا رہے تھے۔ جب آپ گھر کے دروازے کے قریب پہنچے تو دو افرادنے فائرنگ کی اور فرار ہو گئے۔ اِن کی فائرنگ سے آپ کے چہرے پر تین فائر لگے۔ فائرنگ کی آواز سُن کر آپ کا چھوٹا بھائی گھر سے باہر آیا تو دیکھا کہ وہ زمین پر پڑے ہوئے تھے۔ انہیں فوری طور پر گاڑی میں ڈال کر نوابشاہ لے جا رہے تھے لیکن راستے میں آپ نے شہادت کا رُتبہ پایا۔ اللہ تعالیٰ اِن کے درجات بلند فرمائے۔ ان کے لواحقین میں اِن کی اہلیہ کے علاوہ دو بیٹیاں ہیں۔ رانا محمد سلیم صاحب شہید سانگھڑ کے آپ عزیز تھے۔ گزشتہ کچھ عرصے میں، چند سال میں یہ سانگھڑ میں پانچویں شہادت ہے۔ چھوٹی سی جماعت ہے لیکن جانی قربانی میں سب سے بڑھ کر ہے۔ اللہ تعالیٰ وہاں کے احمدیوں کو بھی محفوظ رکھے اور دشمنوں کی پکڑ کے جلد سامان پیدا فرمائے۔ اِن کے بچوں کا، اِن کی اہلیہ کا حافظ و ناصر ہو۔ صبر اور حوصلہ و ہمت عطا فرمائے۔ اب نمازوں کے بعد مَیں اِن کا جنازہ غائب بھی پڑھاؤں گا۔
جب بھی دنیا میں زمینی یا آسمانی آفات آتی ہیں توخدا تعالیٰ کا خوف رکھنے والا ہر شخص اس خوف سے پریشان ہو جاتا ہے کہ آج جو آفت ایک علاقہ میں آئی ہے کل ہمیں بھی کسی مشکل میں مبتلا نہ کر دے۔
خدا تعالیٰ کو یاد رکھنا اُس وقت بھی ہوتا ہے جب خدا تعالیٰ انہیں ہر قسم کی بلاؤں اور مشکلات سے محفوظ رکھتا ہے، اور کسی قسم کی پریشانی نہیں ہوتی اور جب کسی مشکل میں گرفتار ہوتے ہیں یا کسی بھی قسم کے موسمی تغیریا آفت کو دیکھتے ہیں تواس وقت وہ مزید اللہ تعالیٰ کے آگے جھکتے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ ٔ حسنہ کے حوالہ سے آفات کے ظہور کے آثار کے موقع پر خاص طورپر اللہ تعالیٰ کے حضور دعاؤں اور خشیت الٰہی کی طرف توجہ کرنے کی نہایت اہم نصائح۔
دوسرے ملکوں میں آفات کو دیکھ کر یہ نہ سمجھو کہ تم محفوظ ہو۔
جاپان میں حالیہ زلزلہ، سونامی سے تباہی اور ایٹمی ری ایکڑوں سے ریڈی ایشن کے خطرات اور فارایسٹ کے مختلف ممالک میں طوفانوں اور زلازل اور پاکستان میں آنے والے سیلاب اور زلزلوں کے پس منظر میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی پیشگوئیوں کا تذکرہ اور بنی نوع انسان کو اپنے خالق و مالک کی طرف توجہ کرنے کی نصیحت۔
مکرم رانا ظفراللہ صاحب ابن مکرم محمد شریف صاحب آف سانگھڑ کی شہادت۔ شہید مرحوم کا ذکر خیر اور نمازجنازہ غائب۔
فرمودہ مورخہ 18؍مارچ 2011ء بمطابق 18 ؍امان 1390 ہجری شمسی، بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن (برطانیہ)
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔