سچائی، ایمان اور تقویٰ
خطبہ جمعہ 22؍ اپریل 2011ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ ’’مَیں بھیجا گیا ہوں کہ تا سچائی اور ایمان کا زمانہ پھر آوے اور دلوں میں تقویٰ پیدا ہو۔‘‘ (کتاب البریہ۔ روحانی خزائن جلد 13صفحہ 293۔ حاشیہ)
ایک احمدی جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے سلسلہ بیعت میں داخل ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اُسے ان الفاظ کو جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمائے ہیں، ہر وقت سامنے رکھنا چاہئے۔ ان پر غور کرنا چاہئے۔ ان کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اور جب ایک احمدی یہ کر رہا ہو گا تو تبھی وہ اُسے بیعت کا حق ادا کرنے والا بناتا ہے۔ ورنہ تو صرف ایک دعویٰ ہے کہ ہم احمدی ہیں۔ وہ سچائی اور ایمان جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام لانا چاہتے ہیں یا جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے آپ کو مبعوث فرمایا ہے، جس سے دلوں میں تقویٰ پیدا ہوتا ہے، یہ کوئی نئی چیز نہیں ہے، جیسا کہ آپ کے اس فقرے سے ظاہر ہے کہ ’’سچائی اور ایمان کا زمانہ پھر آوے‘‘ یعنی یہ سچائی اور ایمان اور تقویٰ کا زمانہ کسی وقت میں تھا جو اَب مفقود ہو گیا ہے اور اس کو پھر لانا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا کام ہے۔
جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ سچائی اور ایمان اور تقویٰ کے قیام کا یہ زمانہ اپنی اعلیٰ ترین شان کے ساتھ اُس وقت آیا تھا جب اللہ تعالیٰ نے ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا میں بھیج کر شریعت کو کامل کرتے ہوئے ’’اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا (المائدہ: 4)‘‘ کا اعلان فرمایاتھا کہ آج مَیں نے تمہارے فائدے کے لئے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنے احسان کو پورا کر دیا اور تمہارے لئے دین کے طور پر اسلام کو پسند کیا ہے۔ یہ اعلان جب اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا تو وہ وقت تھا جب یہ سب کچھ قائم ہوا۔ پس اس بات میں تو کسی احمدی کو ہلکا سا بھی شائبہ نہیں، نہ کبھی خیال ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کوئی نئی چیز لے کر آئے ہیں اور نہ کوئی احمدی کبھی ایسا سوچ سکتا ہے۔ آپ نے تو اُس سچائی، اُس ایمان اور اُس تقویٰ کو دوبارہ دنیا میں قائم کرنے کے لئے قرآنِ کریم کی پیشگوئی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق آنا تھا اور آئے ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم فرمائی تھی اور جس سے مسلمان اپنی شامتِ اعمال کی وجہ سے محروم کر دئیے گئے تھے۔
پس ہم احمدی جب یہ کہتے ہیں کہ ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مانا ہے تو ہمیں یہ دیکھنا ہو گا کہ کیا ہم نے وہ ایمان اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کی ہے جس کی تعلیم قرآنِ کریم نے دی تھی اور جو صحابہ نے اپنے اندر پیدا کیا ہے؟ کیا ہم نے اُس سچائی کو اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کی یا کر رہے ہیں جسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مومنین کی ایک کثیر تعدادنے اپنے اندر انقلاب لاتے ہوئے پیدا کیا؟ کیا ہم نے اپنے دلوں میں وہ تقویٰ پیدا کرنے کی کوشش کی جس کا ذکر ہم صحابہ رِضْوَانُ اللّٰہ عَلَیْھِم کی سیرت میں سنتے اور پڑھتے ہیں؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تواپنی زندگی میں اپنے صحابہ کی زندگی میں یہ انقلاب پیدا فرمایا تھا جس کا ذکر مَیں صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے واقعات جب بیان کرتا ہوں تو اُس حوالے سے کرتا رہتا ہوں۔ یہ فقرہ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تحریر فرمایا ہے کہ ’’میں بھیجا گیا ہوں تا سچائی اور ایمان کا زمانہ پھر آوے اور دلوں میں تقویٰ پیدا ہو‘‘ اس کے آگے پھرچند سطریں چھوڑ کر آپ فرماتے ہیں کہ ’’سو یہی افعال میرے وجود کی علّتِ غائی ہیں۔ (کتاب البریہ۔ روحانی خزائن۔ جلد 13۔ صفحہ 293۔ حاشیہ)
یعنی آپ کے وجود کی، آپ کی ذات کی اصل اور بنیادی وجہ ہیں۔ پس جب آپ اپنے ماننے والوں کو ایک جگہ مخاطب کر کے یہ فرماتے ہیں کہ ’’میرے درختِ وجود کی سر سبز شاخو‘‘۔ (فتح اسلام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 34) تو یہ کام جن کا آپ نے ذکر فرمایا ہے، یہ کا م کرنے والے ہی آپ کے وجود کی سر سبز شاخ بن سکتے ہیں۔ کیونکہ آپ نے اپنے وجود کا یہی بنیادی مقصد قرار دیا ہے۔ یہ تو نہیں ہو سکتا کہ ایک شیریں اور میٹھے پھلدار درخت کی کچھ شاخیں زہریلے پھل دینے لگ جائیں یا سوکھی شاخیں اُس درخت کا حصہ رہیں۔ سوکھی شاخوں کو تو کبھی اُس کا مالک جو ہے رہنے نہیں دیتا بلکہ کاٹ کر علیحدہ کر دیتا ہے۔ پس بہت خوف کا مقام ہے۔ ہمیں ہر وقت ذہن میں یہ رکھنا چاہئے کہ بیعت کے بعد ہماری کیا ذمہ داریاں ہیں۔ جو تو نئے بیعت کر کے جماعت میں شامل ہو رہے ہیں، اُن کے واقعات اور حالات جب مَیں سنتا ہوں یا خطوں میں پڑھتا ہوں تو اپنے ایمان میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ لیکن بعض وہ جن کے باپ دادا احمدی تھے ہم میں سے بہت سے ایسے ہیں، جب بعض دفعہ ان کے بعض حالات کا پتہ چلتا ہے کہ بعض کمزوریاں پیدا ہو رہی ہیں تو دُکھ اور تکلیف ہوتی ہے کہ اُن کوحضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خواہش کے مطابق اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے کی طرف اُس طرح توجہ نہیں ہے جس طرح ہونی چاہئے۔ پیدائشی احمدی ہونا بعض دفعہ بعض لوگوں میں سستیاں پیدا کر دیتا ہے۔ پس ہم میں سے ہر ایک کو اپنے دلوں کو ٹٹولتے ہوئے اپنا جائزہ لینا چاہئے۔ اپنے دلوں کو ٹٹولتے رہنا چاہئے کہ کیا ہم کہیں ایسی سستیوں کی طرف تو نہیں دھکیلے جا رہے جو کبھی خدا نہ کرے، خدا نہ کرے واپسی کے راستے ہی بند کر دیں، یا ہم صرف نام کے احمدی کہلانے والے تو نہیں ہو رہے؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے ارشادات میں، اپنی تحریرات میں متعدد جگہ اس بات کی طرف توجہ دلائی ہے کہ احمدیت کی حقیقی روح تبھی قائم ہو سکتی ہے جب ہم اپنے جائزے لیتے رہیں اور ہمارے قول و فعل میں کوئی تضادنہ ہو۔ آپ ہم میں اور دوسروں میں ایک واضح فرق دیکھنا چاہتے ہیں۔ ایک جگہ آپ فرماتے ہیں کہ: ’’مَیں بار بار اور کئی مرتبہ کہہ چکا ہوں کہ ظاہر نام میں تو ہماری جماعت اور دوسرے مسلمان دونوں مشترک ہیں۔ تم بھی مسلمان ہو۔ وہ بھی مسلمان کہلاتے ہیں۔ تم کلمہ گو ہو۔ وہ بھی کلمہ گو ہیں۔ تم بھی اتباعِ قرآن کا دعویٰ کرتے ہو۔ وہ بھی اتباعِ قرآن ہی کے مدعی ہیں۔ غرض دعوؤں میں تو تم اور وہ دونوں برابر ہو۔ مگر اللہ تعالیٰ صرف دعووں سے خوش نہیں ہوتا جب تک کوئی حقیقت ساتھ نہ ہو اور دعویٰ کے ثبوت میں کچھ عملی ثبوت اور تبدیلی حالت کی دلیل نہ ہو‘‘۔ (فرمایا کہ دعویٰ کے ثبوت میں کچھ عملی تبدیلی ہو اور اس کی پھر دلیل ہو۔ یہ نظر بھی آ رہا ہو کہ دعویٰ میں جو عملی تبدیلی ہے اس کاواضح طور پر اظہار بھی ہو رہا ہے جو اُس کی دلیل بن جائے) پھر فرمایا کہ’’اس واسطے اکثر اوقات مجھے اس غم سے سخت صدمہ پہنچتا ہے‘‘۔ (ملفوظات جلدنمبر5۔ صفحہ نمبر604۔ جدید ایڈیشن۔)
فرمایا ’’اللہ تعالیٰ صرف دعووں سے خوش نہیں ہوتا جب تک کوئی حقیقت ساتھ نہ ہو۔ اور دعویٰ کے ثبوت میں کچھ عملی ثبوت اور تبدیلی ٔ حالت کی دلیل نہ ہو۔ اس واسطے اکثر اوقات مجھے اس غم سے سخت صدمہ پہنچتا ہے‘‘۔
پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہم سے عملی ثبوت چاہتے ہیں۔ اس لئے اگر ہم خود اپنی حالتوں کے یہ جائزے لیں تو زیادہ بہتر طور پر اپنا محاسبہ کر سکتے ہیں۔ دوسرے کے کہنے سے بعض دفعہ انسان چِڑ جاتا ہے یا بعض دفعہ سمجھانے سے انانیت کا سوال پیدا ہو جاتا ہے۔ لیکن شرط یہ ہے اور اپنے جائزے لینے کے لئے یہ مدّنظر رکھنے کی ضرورت ہے، ہر وقت یہ ذہن میں ہو کہ اللہ تعالیٰ ہر لمحہ مجھے دیکھ رہا ہے اور میں نے ایک عہدِ بیعت باندھا ہوا ہے جس کو پورا کرنا میرا فرض ہے توپھر انسان اپنا محاسبہ بہتر طور پر کر سکتا ہے۔ ایک احمدی چاہے وہ جتنا بھی کمزور ہو، پھر بھی اس کے اندر نیکی کی رمق ہوتی ہے اور جب بھی احساس پیدا ہو جائے تو نیکی کے شگوفے پھوٹنے شروع ہو جاتے ہیں۔ پس ہر ایک کو اعمال کے پانی سے اس نیکی کو زندہ رکھنے کی ضرورت ہے۔ اس کو تروتازہ کرنے کی ضرورت ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے درد کو محسوس کرنے کی ضرورت ہے۔ جن کو احساس ہو جائے اُن کی حالت دیکھتے ہی دیکھتے سوکھی ٹہنی سے سرسبز شاخ میں بدلنا شروع ہو جاتی ہے۔ کئی مجھے خط لکھتے ہیں، خطوں میں درد ہوتا ہے کہ ہمارے اندر وہ پاک تبدیلی آ جائے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہم میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ پس جو بھی اپنے احساس کو ابھارنے کی کوشش کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ جو ماں سے بھی بڑھ کر اپنے بندے کو پیار کرنے والا ہے، اپنی طرف آنے والے کو دوڑ کر گلے سے لگاتا ہے تو پھر ایسے لوگوں کی کایا ہی پلٹ جاتی ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے ایک سنہری موقع ہمیں اپنی دنیا و عاقبت سنوارنے کا عطا فرمایا ہے، اس سے ہم اگر صحیح طور پر فائدہ نہیں اٹھائیں گے تو یہ ہماری بدنصیبی ہو گی۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے صدمے اور درد کا جو اظہار فرمایاہے وہ اُس وقت فرما رہے ہیں جبکہ آپ سے براہِ راست فیض پانے والے آپ کے صحابہ موجود تھے، جن کے معیار کے نمونے جب ہم سنتے اور پڑھتے ہیں تو رشک آتا ہے کہ کیا کیا انقلاب اُن لوگوں نے اپنے اندر پیدا کیا۔ لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا درد دیکھیں۔ آپ کا معیارِ تقویٰ دیکھیں جو آپ اپنے ماننے والوں سے دیکھنا چاہتے ہیں۔ اُس وقت بھی آپ بعض کی حالت دیکھ کر فرما رہے ہیں کہ مجھے اس غم سے سخت صدمہ پہنچتا ہے تو ہماری کمزوری کی حالت کس قدر صدمہ پہنچانے والی ہے۔ گو آپ آج ہم میں اس طرح موجودنہیں ہیں لیکن ہماری حالتوں کو تو اللہ تعالیٰ آپ پر ظاہر فرما سکتا ہے کہ کس کس صحابی یا بزرگ یا آپ کے قریبیوں کی اولاد کی کیا کیا حالت ہے؟ وہ لوگ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں گندے ماحول سے بچ کر خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے اپنی دنیا چھوڑ کر مسیح کے دامن سے جُڑ کر اس عہد کے ساتھ اپنی زندگی گزارتے رہے کہ ہمیشہ دین کو دنیا پر مقدم رکھیں گے، اُن میں سے بعض کے بچوں کی دینی حالت کمزور ہو گئی ہے اور بعضوں کو اُس کی فکر بھی نہیں ہے۔ پس ہمیں اپنی حالت سنوارنے کے لئے اپنے بزرگوں کے حالات کی اس نیت سے جُگالی کرتے رہنا چاہئے کہ ہمارے سامنے ایک مقصد ہو جسے ہم نے حاصل کرنا ہے۔ اُن کی زندگی کے پہلوؤں پر غورکرنا چاہئے۔ اُن کی بیعت کی وجوہات معلوم کرنی چاہئیں، تبھی ہم کسی مقصد کی طرف جانے والے ہوں گے اور اُن کی خواہشات کو پورا کرنے والے ہوں گے۔
ابھی چند دن ہوئے ہمارے ایک پُرانے بزرگ عبدالمغنی خان صاحب کے بیٹے مجھے اُن کے بارے میں بتا رہے تھے کہ انہوں نے علیگڑھ یونیورسٹی سے کیمسٹری کے ساتھ بی۔ ایس۔ سی کی۔ اور اُس زمانے میں عام طور پر مسلمان لڑکے سائنس کم پڑھتے تھے۔ تو وائس چانسلر نے کہا کہ تم نے یہ مضمون بھی اچھا لیاہے اور اعلیٰ کامیابی بھی حاصل کی ہے۔ ہم تمہیں یونیورسٹی میں جاب دیتے ہیں۔ آگے پڑھائی بھی جاری رکھنا۔ اُن کے والد صاحب نے کسی انگریز دوست سے سفارش کی ہوئی تھی (اُس زمانے میں ہندوستان پر انگریزوں کی حکومت تھی) تو اُس نے بھی انہیں کسی اچھے جاب کی آفر کی۔ پھر اُن کو یہ مشورہ بھی ملا کہ ہوشیار ہیں، انڈین سول سروس کا امتحان دے کر اُس میں شامل ہو جائیں۔ خان صاحب اُن دنوں قادیان آئے ہوئے تھے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کا زمانہ تھا۔ اُن کو آپ نے تمام باتیں پیش کیں اور ساتھ ہی عرض کی کہ حضور! مَیں تو دنیا داری میں پڑنا نہیں چاہتا۔ مَیں تو قادیان میں رہ کر اگر قادیان کی گلیوں میں مجھے جھاڑو پھیرنے کا کام بھی مل جائے تو اُسے ان اعلیٰ نوکریوں کے مقابل پر ترجیح دوں گا۔ تو ایسے ایسے بزرگ بھی تھے جنہوں نے آگے صحابہ سے فیض پایا۔ پھر آپ کو اس کے بعد سکول میں سائنس ٹیچر لگایا گیا۔ پھر آپ ناظر بیت المال مقرر ہوئے۔ غالباً پہلے ناظر بیت المال تھے۔ بہر حال پُرانے بزرگ اور خاص طور پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابہ نیکیوں میں سبقت لے جانے والے تھے لیکن چند ایک کی کمزور حالت بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام دیکھتے ہیں تو فرماتے ہیں کہ ہمیں دلی صدمہ پہنچتا ہے۔
پس ہمیں اپنی حالتوں کی طرف دیکھنے کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ اگر ہم دیکھیں کہ ہم کس کی اولادیں ہیں۔ ہمارے بزرگوں نے احمدیت قبول کرنے کے بعد اپنے اندر کیا پاک تبدیلیاں پیدا کی ہیں۔ اس بات پر اگر ہم غور کریں اور یہ عہد کریں کہ ہم نے اپنے بزرگوں کے نام کو بٹّہ نہیں لگنے دینا تو یہ خود اصلاحی کا جو طریق ہے یہ زیادہ احسن رنگ میں ہمارے تقویٰ کے معیار بلند کرے گا۔ ہمیں نیکیوں کے بجا لانے کی طرف راغب کرے گا۔ اور زندہ قوموں کی یہی نشانی ہوتی ہے کہ اُن کے پُرانے بھی اپنی قدروں کو مرنے نہیں دیتے اور خوب سے خوب تر کی تلاش کرتے ہیں، اپنے معیار بلند کرتے چلے جاتے ہیں۔ اور نئے آنے والے بھی ایک نئی روح کے ساتھ جماعت میں شامل ہوتے ہیں۔ اور جب وہ پُرانوں کے اعلیٰ معیار دیکھتے ہیں تو مزید مسابقت کی روح پیدا ہوتی ہے اور یوں نیکیوں کے معیار قومی سطح پر بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ پس جب ہم یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مان کر اپنی حالتوں کو بھی بدلنا ہے اور دنیا میں بھی ایک انقلاب پیدا کرنا ہے تو اس کے لئے مستقل جائزے لینے ہوں گے۔ صرف اپنے جائزے نہیں لینے ہوں گے۔ اپنے بیوی بچوں کے بھی جائزے لینے ہوں گے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے لکھا ہے کہ بیوی اپنے خاوند کی حالت اور اس کے قول و فعل کی سب سے زیادہ رازدار ہوتی ہے۔ اگر مرد صحیح ہو گا تو عورت بھی صحیح ہو گی، ورنہ اُسے آئینہ دکھائے گی کہ میری کیا اصلاح کرنے کی کوشش کر رہے ہو پہلے اپنی حالت کو تو بدلو۔ پس عورتوں کی اصلاح کے لئے ضروری ہے کہ مَردوں کی اپنی حالتوں میں بھی پاک تبدیلیاں پیدا ہوں۔ ہمیشہ ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ عورتوں کی اصلاح ہو جائے تو اگلی نسلوں کی اصلاح کی بھی ضمانت مل جاتی ہے۔ پس اگلی نسلوں میں پاک تبدیلیاں پیدا کرنے کے لئے، اُنہیں دین پر قائم رکھنے کے لئے مَردوں کو اپنی حالت کی طرف سب سے زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ پھر یہ عورت اور مرد کے جو نمونے ہیں، ماں باپ کے جو نمونے ہیں، خاوند بیوی کے جو نمونے ہیں یہ بچوں کو بھی اس طرف متوجہ رکھیں گے کہ ہمارا اصل مقصد دنیا میں ڈوبنا نہیں ہے بلکہ خدا تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنا ہے۔
یہاں ایک بات کی وضاحت بھی کر دوں کہ کسی کو یہ خیال نہ آئے کہ نعوذ باللہ صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام میں بہت کمزوریاں تھیں اس وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو یہ کہنا پڑا یا اُن کی کچھ تعداد بھی تھی۔ جیسا کہ مَیں نے پہلے بھی کہا ہے چند ایک ہی شاید ایسے ہوں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے معیار پر پورا نہ اُترتے ہوں لیکن آپ چند ایک میں بھی کمزوری نہیں دیکھنا چاہتے تھے۔ اُسی مجلس میں جہاں آپ نے بعض لوگوں کو دیکھ کے اپنے صدمے کا ذکر فرمایا ہے آپ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ ’’ہم دیکھتے ہیں کہ اس جماعت نے اخلاص اور محبت میں بڑی نمایاں ترقی کی ہے۔ بعض اوقات جماعت کا اخلاص، محبت اور جوشِ ایمان دیکھ کر خود ہمیں تعجب اور حیرت ہوتی ہے‘‘۔ (ملفوظات جلدنمبر5صفحہ نمبر605۔ جدید ایڈیشن)
پس یہ جوشِ ایمان دکھانے والے بھی بہت تھے بلکہ اکثریت میں تھے، بلکہ ہمیں تو یہ کہنا چاہئے کہ ہمارے مقابلے میں تو سارے کے سارے تھے۔ لیکن نبی اپنی جماعت کے اعلیٰ معیار دیکھنا چاہتا ہے اور ہم جس دور سے گزر رہے ہیں، یہ جو ہمارا دور ہے یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ہی دور ہے۔ ابھی بہت سی پیشگوئیاں اللہ تعالیٰ کی پوری ہونی ہیں۔ آپ سے جو اللہ تعالیٰ نے وعدے فرمائے تھے بہت سے ابھی پورے ہونے والے ہیں۔ پس اگر ہم چاہتے ہیں کہ ان وعدوں کو جلد از جلد اپنی زندگیوں میں پورا ہوتا دیکھیں تو ہمیں اپنے صدق و ایمان اور تقویٰ کے معیار پر نظر رکھنی ہو گی۔ جب ہم اللہ تعالیٰ سے یہ خواہش رکھتے ہیں کہ وہ ہمیں جماعتی ترقی دکھائے تو ہمیں اُس کی رضا کے حصول کے لئے بھی کوشش کرنی ہو گی۔
یہ بھی بتا دوں کہ اس زمانے میں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے اخلاص و وفا میں بڑھے ہوئے بہت سے لوگ ہیں اور وہ اگلی نسلوں میں بھی یہ روح پھونک رہے ہیں۔ مَیں نے ایک دفعہ پاکستان کے احمدیوں کے لئے اس فکر کا اظہار کیا تھا کہ لاہور کے واقعہ کے بعد خدّام یا شاید صفِ دوم کے انصار بھی جو جماعتی عمارتوں اور مساجد میں ڈیوٹی دیتے ہیں، اُن میں سے بعض کے متعلق یہ اطلاع ہے کہ ایک لمبا عرصہ ڈیوٹی دینے کی وجہ سے اُن کی طرف سے تھکاوٹ کا احساس ہوتا ہے یا عدمِ دلچسپی کا اظہار ہوتا ہے، اس لئے اس طرف توجہ کی ضرورت ہے یا نظام کو کچھ اور طریقے سے اس بارہ میں سوچنے کی ضرورت ہے۔ تو یہ بات جب صدر خدام الاحمدیہ پاکستان نے اپنے خدام تک پہنچائی تو مجھے خدام کی طرف سے، پاکستان کے خدام کی طرف سے اخلاص و وفا سے بھرے ہوئے کئی خطوط آئے کہ ہم اپنے عہد کی نئے سرے سے تجدید کرتے ہیں۔ نہ ہم پہلے تھکے تھے اور نہ انشاء اللہ آئندہ کبھی ایسی سوچ پیدا کریں گے کہ جماعتی ڈیوٹیاں ہمارے لئے کوئی بوجھ بن جائیں۔ آپ بے فکر رہیں۔ اسی طرح عورتوں کے خطوط آئے کہ ہمارے بھائی یا خاوند یا بیٹے اپنے کاموں سے آتے ہیں تو فوراً جماعتی ڈیوٹیوں پر چلے جاتے ہیں اور ہم بخوشی اُنہیں رخصت کرتی ہیں اور ہمیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے اکیلے رہ کر بھی کسی قسم کا خوف نہیں۔ پس یہ اخلاص و وفا جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے جوشِ ایمان کی وجہ سے ہے۔ اس بارہ میں یہ بھی یاد رکھیں کہ ان فرائض اور ڈیوٹیوں کے دوران اپنے خدا کو کبھی نہ بھولیں۔ نمازیں وقت پر ادا ہوں اور ڈیوٹی کے دوران ذکرِ الٰہی اور دعاؤں سے اپنی زبانوں کو تر رکھیں۔ ہماری سب سے بڑی طاقت خدا تعالیٰ کی ذات ہے۔ ہمیں جو مدد ملنی ہے وہ خدا تعالیٰ سے ملنی ہے۔ ہماری تو معمولی سی کوشش ہے جو اُس کے حکم کے ماتحت ہم کر رہے ہیں۔ جو کرنا ہے وہ تو اصل میں خدا تعالیٰ نے ہی کرنا ہے۔ پس جب خدا تعالیٰ سے چمٹ جائیں گے تو خدا خود دشمن سے بدلہ لے گا۔ اُس کے ہاتھ کو روکے گا۔ پس دعاؤں میں کبھی سست نہ ہوں اور پھر ان عبادتوں اور دعاؤں اور ذکرِ الٰہی کا اثر عام حالت میں بھی عملی طور پر ہر ایک کی شخصیت سے ظاہر ہو رہا ہو تو تبھی ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بتائے ہوئے معیار کو پا سکتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ: ’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَّالَّذِیْنَ ہُمْ مُّحْسِنُونَ (النحل: 129) تقویٰ طہارت اور پاکیزگی اختیار کرنے والے خدا تعالیٰ کی حمایت میں ہوتے ہیں اور وہ ہر وقت نافرمانی کرنے سے ترساں و لرزاں رہتے ہیں‘‘۔ (ڈرتے اور خوفزدہ رہتے ہیں۔ ) (ملفوظات جلدنمبر5صفحہ نمبر606۔ جدید ایڈیشن)
پس یہ ہر وقت صرف اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اور خوف ہے جو بندے کی حفاظت بھی کرتا ہے اور اُسے دنیاوی خوفوں سے بچا کر بھی رکھتا ہے۔ پس ایک احمدی کو اگر کوئی خوف ہونا چاہئے تو خدا تعالیٰ کا کہ کہیں وہ ہم سے ناراض نہ ہو جائے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ: ’’خدا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ مَیں اپنی جماعت کو اطلاع دوں کہ جو لوگ ایمان لائے، ایسا ایمان جو اُس کے ساتھ دنیا کی ملونی نہیں اور وہ ایمان نفاق یا بُزدلی سے آلودہ نہیں اور وہ ایمان اطاعت کے کسی درجہ سے محروم نہیں۔ ایسے لوگ خدا کے پسندیدہ لوگ ہیں۔ اور خدا فرماتا ہے کہ وہی ہیں جن کا قدم صدق کا قدم ہے‘‘۔ (رسالہ الوصیت روحانی خزائن جلد20صفحہ 309)
پس یہ ہے ایمان کا معیار جسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہم میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ یہ معیار ہم اپنے اندر پیدا کرنے والے ہوں۔ یہاں اطاعت کا بھی ذکر آیا تھا، اس وقت مَیں اطاعت کے حوالے سے کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ اطاعت کے کسی درجہ سے بھی محروم نہ ہو۔ اطاعت کے مختلف درجے ہیں یا مختلف صورتیں ہیں جن پر ہمیں نظر رکھنی چاہئے۔ اطاعت کے مختلف معیار ہیں۔ نظامِ جماعت کی اطاعت ہے۔ اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنا بھی اطاعت ہے۔ اسی طرح اور بہت ساری چیزیں انسان سوچتا ہے اور ایک نظام میں سموئے جانے کے لئے اور نظام پر پوری طرح عمل کرنے کے لئے، اللہ تعالیٰ کا فرمانبردار بننے کے لئے ایک اطاعت ہی ہے جس کی طرف نظر رہے تو اس کے قدم آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ مثلاً اطاعت کا معیار ہے۔ اس کی ایک معراج جو ہے وہ ہمیں جماعتِ احمدیہ کی تاریخ میں حضرت خلیفۃ المسیح الاول میں نظر آتی ہے کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تار آئی کہ فوری آ جاؤ تو آپ اپنے مطب میں (اپنے کلینک میں) بیٹھے تھے۔ وہیں سے جلدی سے روانہ ہو گئے۔ یہ بلاوا اُسی شہر سے نہیں آ رہا تھا کہ اُسی طرح اُٹھ کے چلے گئے۔ بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام دہلی میں تھے اور حضرت خلیفہ اولؓ قادیان میں۔ گھر والوں کو پیغام بھیج دیا کہ مَیں جا رہا ہوں۔ کوئی زادِ راہ، کوئی خرچ، کوئی کپڑے، کوئی سامان وغیرہ کی پیکنگ کرنے کی ضرورت نہیں سمجھی۔ سیدھے سٹیشن پر پہنچ گئے۔ گاڑی کچھ لیٹ تھی تو ایک واقف شخص ملا۔ امیر آدمی تھا۔ اُس نے اپنے مریض کو دکھانا چاہا اور درخواست کی۔ گاڑی لیٹ ہونے کی وجہ سے آپ نے مریض کو دیکھ لیا۔ اور اس مریض کو دیکھنے کی آپ کو جو فیس ملی، وہی آپ کا سفر کا خرچ بن گیا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے آپ کا انتظام فرما دیا اور اپنے آقا کے حضور حاضر ہو گئے۔ اور جب وہاں پہنچے تو پتہ چلا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس طرح نہیں فرمایا تھا کہ فوری آ جائیں۔ تار لکھنے والے نے تار میں لکھ دیا تھا کہ فوری پہنچیں۔ لیکن کوئی شکوہ نہیں کہ اس طرح مَیں آیا، کیوں مجھے تنگ کیا بلکہ بڑی خوشی سے وہاں بیٹھے رہے۔ (ماخوذ از حیات نور صفحہ نمبر285)
تو یہ اطاعت کا اعلیٰ درجے کا معیار ہے کہ ہر سوچ اور فکر، حکم کے آگے بے حیثیت ہے۔ اور پھر اللہ تعالیٰ کا بھی یہ سلوک ہے جیسا کہ مَیں نے کہا کہ ساتھ ساتھ انتظامات بھی فرما دئیے۔ اور ایسے ہی لوگ ہیں جن کے بارہ میں اللہ تعالیٰ اپنی پسندیدگی کا اظہار فرماتا ہے۔ پس یہ ہمارے لئے بھی اسوہ ہے۔
پھر نظامِ جماعت ہے۔ اس میں چھوٹے سے چھوٹے عہدیدار سے لے کر خلیفۂ وقت تک کی اطاعت ہے۔ اور اصل میں تو یہ تسلسل ہے اللہ تعالیٰ اور رسول کی اطاعت کا۔ جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جس نے میرے امیر کی اطاعت کی اُس نے میری اطاعت کی اور جس نے میری اطاعت کی اُس نے خدا تعالیٰ کی اطاعت کی۔ (مسند احمد بن حنبل جلد 3صفحہ 49مسند ابی ھریرۃ حدیث نمبر7330عالم الکتب بیروت 1998)
پس نظامِ جماعت کی اطاعت، اطاعت کے بنیادی درجے کے حصول کے لئے چھوٹی سے چھوٹی سطح پر بھی انتہائی ضروری ہے۔ کسی بھی جماعت یا اگر دنیاوی لحاظ سے دیکھیں تو کسی دنیاوی تنظیم یا حکومت کو چلانے کے لئے بھی ایک نظام ہوتا ہے اور اُس کی ضرورت ہوتی ہے، اُس کے بغیر نظام چل نہیں سکتا۔ دنیاوی حکومتوں میں بھی ہر درجے پر اُس کے نظام چلانے کے لئے کچھ قانون اور قواعد ہوتے ہیں اور اُن کی پابندی کرنا ضروری ہوتی ہے۔ اور حکومتوں کے پاس چونکہ طاقت ہوتی ہے اس لئے وہ اپنے نظام کی پابندی اپنی اس طاقت اور اُن قوانین کے تحت کرواتی ہیں جو انہوں نے وضع کئے ہوتے ہیں۔ لیکن ایک روحانی نظام میں اخلاص و وفا اور اللہ تعالیٰ کی رضا اطاعت کی بنیاد ہے۔ اس لئے یہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہر درجے پر اطاعت کرنے والے میرے پسندیدہ ہیں۔ پس نظامِ جماعت کے چھوٹے سے چھوٹے درجے سے لے کر اوپر تک جو نظام کی اطاعت کرتے ہیں وہ خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جماعتِ احمدیہ سے جو خلافت کا وعدہ فرمایا ہے اور قرآنِ کریم میں مومنین کی جماعت سے جس خلافت کے جاری رہنے کا وعدہ فرمایا ہے اُس کی واحد مثال اس وقت جماعت احمدیہ میں ہے۔ لیکن اس آیت سے پہلے جو آیتِ استخلاف کہلاتی ہے، جس میں اللہ تعالیٰ نے خلافت کاوعدہ فرمایا ہے، اس آیت سے پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ ایک جگہ یہ بھی فرماتا ہے کہ وَاَقْسَمُوْا بِاللّٰہِ جَھْدَ اَیْمَانِھِمْ لَئِنْ اَمَرْتَھُمْ لَیَخْرُجُنَّ۔ قُلْ لَّا تُقْسِمُوْا طَاعَۃٌ مَّعْرُوْفَۃٌ۔ اِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌ بِّمَا تَعْمَلُوْنَ (النور: 54) اور انہوں نے اللہ کی پختہ قسمیں کھائیں کہ اگر تو انہیں حکم دے تو وہ ضرور نکل کھڑے ہوں گے۔ تو کہہ دے کہ قسمیں نہ کھاؤ۔ دستور کے مطابق اطاعت کرو۔ یقینا اللہ جو تم کرتے ہو اس سے ہمیشہ باخبر رہتا ہے۔
پس یہاں اللہ تعالیٰ نے مومنوں والی اطاعت کی طرف توجہ دلائی ہے کہ مؤمن کس طرح اطاعت کرتے ہیں۔ چونکہ جب وہ سنتے ہیں تو وہ سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا کہتے ہیں۔ اسی کا اعلان کرتے ہیں کہ ہم نے سنا اور ہم نے اطاعت کی۔ ہماری مرضی کے خلاف بھی بات ہو یا ہمارے موافق بات ہو، ہمارا فرض اطاعت کرنا ہے۔ یہ ہے اعلیٰ درجہ کا معیار جو ایک مومن کا ہونا چاہئے اور یہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اگر تم مومن ہو تو بڑی بڑی قسمیں کھانے کی ضرورت نہیں ہے۔ صرف اطاعت در معروف کرو۔ جو دستور کے مطابق اطاعت ہے وہ کرو۔ کھڑے ہو کر ہم عہد تو یہ کر رہے ہوں کہ جو بھی معروف فیصلہ فرمائیں گے اُس کی پابندی کرنی ضروری سمجھیں گے لیکن جب فیصلے ہوں تو اس پر لیت و لعل سے کام لیں۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ حقیقی مومن وہ ہے جو صرف قسمیں نہیں کھاتا بلکہ ہر حالت میں اطاعت کا اظہار کرتا ہے۔
یہاں ایک بات کی وضاحت کر دوں، پہلے بھی بتا چکا ہوں کہ یہاں طاعت در معروف ہے اور معروف فیصلے کی باتیں کی جاتی ہیں تو خلافتِ احمدیہ کی طرف سے کبھی خلافِ احکامِ الٰہی کوئی بات نہیں کی جاتی۔ اور معروف فیصلے کا مطلب یہی ہے کہ شریعت کے مطابق جو بھی باتیں ہوں گی، اُس کی پابندی کی جائے گی۔ اگرہر احمدی اس یقین پر قائم ہے کہ خلافت کا سلسلہ خلافت علیٰ منہاج نبوت ہے تو اس یقین پر بھی قائم ہونا ہو گا کہ کوئی غیر شرعی حکم خلافت سے ہمیں نہیں مل سکتا۔ اسی طرح سے نظامِ جماعت بھی ہے۔ جب وہ خلافت کے نظام کے تحت کام کر رہا ہے تو کوئی غیر شرعی حکم نہیں دے گا۔ اور اگر کسی وجہ سے دے گا یا غلطی سے کوئی ایسا حکم آ جاتا ہے تو خلیفۂ وقت، جب وہ معاملہ اُس تک پہنچتا ہے، اُس کی درستی کر دے گا۔ پس جب خلافت کے استحکام کے لئے ایک احمدی دعا کرتا ہے تو ساتھ ہی اپنے لئے بھی یہ دعا کرے کہ مَیں اطاعت کا اعلیٰ ترین معیار قائم کرنے والا بنوں تا کہ اللہ تعالیٰ کا پسندیدہ رہوں اور خلافت کے انعام سے جُڑا رہوں۔ جس ہدایت پر قائم ہو گیا ہوں اُس سے خدا تعالیٰ کبھی محروم نہ رکھے۔
بعض دفعہ بعض لوگ اپنے ذاتی مفادات کی وجہ سے نظامِ جماعت پر بد اعتمادی کا اظہار کر جاتے ہیں اور اُس انعام سے بھی محروم ہو جاتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے چودہ سو سال بعد اب عطا فرمایا ہے۔ مثلاً بعض قانونی مجبوریوں کی وجہ سے اگر قضائی نظام میں جو حقیقتاً جماعت کے اندر ایک نظام ہے جس کی حقیقت ثالثی نظام کی ہے، اُس میں جب یہ تحریر مانگی جاتی ہے اور اب نئے سرے سے کوئی تحریر لکھوائی جانے لگی ہے کہ اس ثالثی اور قضائی فیصلے کو مَیں خوشی سے ماننے کو تیار ہوں اور کوئی اعتراض نہیں ہو گا اور اس نظام میں مَیں خود اپنی خوشی سے اپنے معاملے کو لے کرجا رہا ہوں۔ تو بعض لوگ یہ بدظنی کرتے ہوئے انکار کر دیتے ہیں کہ ہمارے جو فیصلے ہیں وہ ہمارے خلاف ہوں گے اس لئے ہم تحریر نہیں دیں گے۔ تو ایسے لوگوں کی شروع سے ہی نیت نیک نہیں ہوتی۔ وہ صرف لمبا لٹکانا چاہتے ہیں کہ چلو یہاں سے کچھ عرصہ کسی معاملے کوٹالو۔ اُس کے بعد یہاں نہیں فیصلہ ہو گا تو حکومت کی عدالتوں میں لے جائیں گے۔ اور پھر جب یہ لوگ یہاں سے انکار کر کے دنیاوی عدالتوں میں جاتے ہیں اور جب وہاں مرضی کے خلاف فیصلے ہو جاتے ہیں تو پھر قضا میں آنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے معاملات پھر جماعت نہیں لیتی۔ کیونکہ وہ پہلی دفعہ اطاعت سے باہر نکل گئے ہیں۔ انہوں نے نظامِ جماعت پر اعتمادنہیں کیا۔ اور نتیجہ ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ بھی یہی فرماتا ہے کہ وہ اطاعت سے باہر ہیں اور پھر میرے ناپسندیدہ ہیں۔ اور جب انسان اللہ تعالیٰ کا نا پسندیدہ ہو جائے تو چاہے وہ ظاہر میں جماعت کا ممبر بھی کہلاتا ہو، حقیقتاً وہ جماعت کے اُس فیض سے فیض نہیں پا سکتاجو خدا تعالیٰ افرادِ جماعت کو جماعت کی برکت سے پہنچاتا ہے۔ پس بظاہر چھوٹی چھوٹی باتیں ہوتی ہیں لیکن ذاتی اَناؤں اور بدظنیوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے فضلوں سے محروم کر دیتی ہیں۔ پس ہر احمدی کو کوشش کرنی چاہئے کہ خدا تعالیٰ کا پسندیدہ بننے کی کوشش کرے کہ اسی میں ہماری اور ہماری نسلوں کی بقا ہے۔
اس کے ساتھ ہی میں عہدیدارانِ جماعت سے بھی یہ کہوں گا کہ وہ خلافت کے حقیقی نمائندے تبھی کہلا سکتے ہیں جب انصاف کے تقاضوں کو خدا کا خوف رکھتے ہوئے پورا کرنے والے ہوں۔ کسی بھی عہدیدار کی وجہ سے کسی کو بھی ٹھوکر لگتی ہے تو وہ عہدیدار بھی اُس کا اُسی طرح قصور وار ہے کیونکہ اُس نے خدا تعالیٰ کی دی ہوئی امانت کا حق ادا نہیں کیا۔ اگر اُس کی غلطی کی وجہ سے ٹھوکر لگ رہی ہے اور جان بوجھ کر کہیں ایسی صورت پیدا ہوئی ہے تو بہر حال وہ قصور وار ہے اور امانت کا حق ادا نہ کرنے والا ہے۔ پس ہر احمدی کو چاہے وہ کسی بھی مقام پر ہو، ہمیشہ یہ سمجھنا چاہئے کہ مَیں نے اپنے عہدِ بیعت کو قائم رکھنے کے لئے، اپنے ایمان کو قائم رکھنے کے لئے ہر حالت میں صدق اور تقویٰ کا اظہار کرتے چلے جانا ہے تا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کے مقصد کو پورا کرنے والا بن سکوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ: ’’مَیں کثرتِ جماعت سے کبھی خوش نہیں ہوتا‘‘ (کہ صرف جماعت کی جو تعدادہے یہ خوشی کی بات نہیں ہے) ’’حقیقی جماعت کے معنے یہ نہیں ہیں کہ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کرصرف بیعت کر لی بلکہ جماعت حقیقی طور سے جماعت کہلانے کی تب مستحق ہو سکتی ہے کہ بیعت کی حقیقت پر کاربند ہو۔ سچے طور سے اِن میں ایک پاک تبدیلی پیدا ہو جاوے اور اُن کی زندگی گناہ اور آلائش سے بالکل صاف ہو جاوے۔ نفسانی خواہشات اور شیطان کے پنجے سے نکل کر خدا تعالیٰ کی رضا میں محو ہو جاویں۔ حق اللہ اور حق العباد کو فراخ دلی سے پورے اور کامل طور سے ادا کریں۔ دین کے واسطے اور اشاعتِ دین کے لئے اُن میں ایک تڑپ پیدا ہو جاوے۔ اپنی خواہشات اور ارادوں، آرزوؤں کو فنا کر کے خدا کے بن جاویں‘‘۔ فرمایا کہ ’’متقی وہی ہیں کہ خدا تعالیٰ سے ڈر کر ایسی باتوں کو ترک کر دیتے ہیں جو منشاء الٰہی کے خلاف ہیں۔ نفس اور خواہشاتِ نفسانی کو اور دنیا وما فیہا کو اللہ تعالیٰ کے مقابلہ میں ہیچ سمجھیں‘‘۔ (ملفوظات جلدنمبر5صفحہ 454,455۔ جدید ایڈیشن)
اللہ تعالیٰ ہم سب کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خواہشات کے مطابق اپنی زندگیاں گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ’’مَیں بھیجا گیا ہوں کہ تا سچائی اور ایمان کا زمانہ پھر آوے اور دلوں میں تقویٰ پیدا ہو۔‘‘
ایک احمدی جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے سلسلہ بیعت میں داخل ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اُسے ان الفاظ کو جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمائے ہیں، ہر وقت سامنے رکھنا چاہئے۔ ان پر غور کرنا چاہئے۔ ان کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ فرائض اور ڈیوٹیوں کے دوران اپنے خدا کوکبھی نہ بھولیں۔ نمازیں وقت پر ادا ہوں اور ڈیوٹی کے دوران ذکر الٰہی اور دعاؤں سے اپنی زبانوں کو تر رکھیں۔ روحانی نظام میں اخلاص و وفا اور اللہ تعالیٰ کی رضا اطاعت کی بنیاد ہے۔ خلافت احمدیہ کی طرف سے کبھی خلاف احکام الٰہی کوئی بات نہیں کی جاتی۔ اگر ہر احمدی اس یقین پر قائم ہے کہ خلافت کا سلسلہ خلافت علی منہاج نبوت ہے تو اس یقین پربھی قائم ہونا ہوگا کہ کوئی غیر شرعی حکم خلافت سے ہمیں نہیں مل سکتا۔ اسی طرح سے نظام جماعت بھی ہے جب وہ خلافت کے نظام کے تحت کام کر رہاہے تو کوئی غیر شرعی حکم نہیں دے گا۔
جب خلافت کے استحکام کے لئے ایک احمدی دعا کرتاہے تو ساتھ ہی اپنے لئے بھی یہ دعا کرے کہ مَیں اطاعت کااعلیٰ ترین معیار قائم کرنے والا بنوں۔ بعض دفعہ بعض لوگ اپنے ذاتی مفادات کی وجہ سے نظام جماعت پر بداعتمادی کا اظہاربھی کرجاتے ہیں اور اس انعام سے محروم ہو جاتے ہیں جو اللہ تعا لیٰ نے اب چودہ سو سال بعد عطا فرمایا۔ مَیں عہدیداران جماعت سے بھی یہ کہوں گا کہ وہ خلافت کے حقیقی نمائندے تبھی کہلا سکتے ہیں جب انصاف کے تقاضوں کو خدا کا خوف رکھتے ہوئے پورا کرنے والے ہوں۔
فرمودہ مورخہ 22؍ اپریل 2011ء بمطابق 22؍ شہادت 1390 ہجری شمسی، بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن (برطانیہ)
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔