رؤیائے صادقہ کے ذریعہ حضرت مسیح موعودؑ اور احمدیت کی صداقت کے ایمان افروز واقعات
خطبہ جمعہ 3؍ جون 2011ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ غلامِ صادق ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کام کو آگے بڑھانے کے لئے دنیا میں بھیجا۔ آپؑ کا جو کچھ بھی ہے وہ آپ کا نہیں بلکہ آپ کے آقا و مطاع حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے۔ اور جو کچھ بھی آپ نے فیض پایا آپؐ کی غلامی سے پایا۔ آپؑ ایک جگہ ’’رسالہ الوصیت‘‘ میں فرماتے ہیں کہ:
’’نبوتِ محمدیہ اپنی ذاتی فیض رسانی سے قاصر نہیں بلکہ سب نبوتوں سے زیادہ اُس میں فیض ہے۔ اس نبوّت کی پَیروی خدا تک بہت سہل طریق سے پہنچا دیتی ہے۔‘‘ (رسالہ الوصیت، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 311)
پس آپ نے یہ فیض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پایا اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس پیروی کی وجہ سے اُس مقام تک پہنچایا جو نبوت کا مقام ہے۔ لیکن آپ نے فرمایا کہ صرف کامل پیروی بھی کافی نہیں ہے یا کامل پیروی کی وجہ سے انسان نبی نہیں بن جاتا کیونکہ اس میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک ہے۔ ہاں اُمّتی اور نبی دونوں لفظ جب جمع ہوتے ہیں، دونوں کا اجتماع جو ہے، اس پر وہ صادق آ سکتی ہے، کیونکہ اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک نہیں بلکہ نبوت کی چمک اس فیضان سے زیادہ ظاہر ہوتی ہے۔ پس اس زمانے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اُمتی ہونے کی وجہ سے اور آپ کی کامل پیروی اور عشق کی وجہ سے نبوت کا مقام اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا فرمایا۔ یعنی نبوت کا مقام اُمّتی ہونے کی وجہ سے ملا اور اس عشق کی وجہ سے ملا۔ اُمتی ہونا ایک لازمی شرط ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنی تائیدات سے نواز کر آپ کے حق میں نشان دکھا کر ایک دنیا کی توجہ آپ کی طرف پھیری اور یہ سلسلہ جو آپ کے دعویٰ سے شروع ہوا آج تک چل رہا ہے اور نیک طبع اس جاری فیض سے فیض پا رہے ہیں اور آپ کی بنائی ہوئی جماعت میں، آپ کی بنائی ہوئی کشتی میں سوار ہو رہے ہیں۔ لیکن یہاں بھی اپنے آقا کی پیروی میں جو فیض حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو حاصل ہوا، اُس سے وہی فائدہ اُٹھا رہا ہے جو آپ کے بعد اللہ تعالیٰ سے تائید یافتہ آپ کی خلافت سے منسلک ہے۔ آج بھی اللہ تعالیٰ نیک فطرتوں کو آپ کی صداقت کے بارے میں رہنمائی فرماتا ہے، فرما رہا ہے اور اس رہنمائی کی وجہ سے لوگ جماعت میں شامل ہوتے ہیں۔ اور اس بات کو ثابت کرنے کے لئے کہ آپ کے بعد آپ کی خلافت بھی برحَق ہے، ان لوگوں کو رؤیائے صادقہ کے ذریعہ سے آپ کے ساتھ آپ کے خلفاء کو بھی دکھا دیتا ہے جس سے اُن کا ایمان اور تازہ ہوتا ہے۔
اس وقت میں چند واقعات پیش کروں گا جو اُن لوگوں کے ہیں جو رؤیا کے ذریعے سے جماعت میں شامل ہوئے، دنیا کے مختلف کونوں کے لوگ، دنیا کے مختلف ملکوں کے لوگ، مختلف رنگ کے لوگ، مختلف نسل کے لوگ۔
گیمبیا کے ایک صاحب ہیں، وہاں کے Wellingara گاؤں کے ہیں، Modou Nijie صاحب۔ اُن کا جماعت سے رابطہ 2003ء کے آخر پر ہمارے داعیانِ الی اللہ کے ذریعے سے ہوا۔ اُس وقت وہ تیجانیہ (Tijaniyya) فرقہ (یہ تیجانیہ فرقہ افریقہ میں بڑا عام ہے) سے گہری وابستگی رکھتے تھے۔ لیکن اُنہیں دین کا کوئی شعور نہیں تھا۔ بس جس طرح عام مسلمانوں میں طریق ہے مُلاّ کے غلام تھے، جو اُس نے کہہ دیا کر دیا، اسلام کا کچھ پتہ نہیں۔ نشے کے بھی عادی تھے۔ احمدیت قبول کرنے سے کچھ عرصہ پہلے وہ کہتے ہیں میں نے خواب دیکھی کہ ایک جنگل میں جھاڑیوں کی صفائی کر رہا ہوں اور خواب میں ہی شدید محنت و مشقت کے بعد بالآخر وہ جگہ صاف کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ اب وہ ایک صاف ستھری سفید اور چمکدار جگہ میں تھے۔ پھر انہوں نے خواب میں خدا کے ایک بزرگ برگزیدہ شخص کو دیکھاجو اپنے صحابہ کے ساتھ تھے۔ دیکھا کہ یہ بزرگ اُنہیں اپنی طرف بلا رہے ہیں کہ اگر اپنی اصلاح مقصود ہے تو میری طرف آؤ۔ تو یہ کہتے ہیں کہ میں نے یہ خواب، اس طرح کی، اس سے ملتی جلتی، تقریباً یہی مضمون احمدیت قبول کرنے سے قبل تین دفعہ دیکھی اور پھر انشراحِ صدر کے ساتھ احمدیت میں شامل ہو گئے۔ بیعت کرنے کے بعد اُنہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفاء کی تصاویر دکھائی گئیں تو اِن تصاویر میں سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تصویر دیکھتے ہی وہ بول اُٹھے کہ یہی وہ خدا کے برگزیدہ بزرگ ہیں جو مجھے خواب میں اپنی طرف بلا رہے تھے۔ احمدیت قبول کرنے کے بعد اِن میں ایک انقلاب پیدا ہوا، ایک تبدیلی آئی۔ پنجوقتہ نماز باجماعت کے عادی ہو گئے، انہوں نے قرآنِ کریم پڑھنا سیکھا، دیگر تحریکات میں حصہ لینا شروع کیا اور پھر بڑی عمر کے ہونے کے باوجود قرآنِ کریم مکمل کرنے کے بعد بڑے شوق سے اپنی آمین بھی کروائی۔ اس کے بعد اپنے بچوں اور دیگر احمدی بچوں کو قرآنِ کریم پڑھانا شروع کیا۔ (اس بڑی عمر میں سیکھا بھی اور پھر آگے اس کو عام بھی کیا)۔ اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ صاحب اب موصی ہیں، تہجد کی باقاعدگی سے ادائیگی کرنے والے ہیں۔ ان کے رشتہ داروں نے بھی اس تبدیلی کو محسوس کیا۔ ان کے عزیز کہتے ہیں کہ جب ہم اِن کو دیکھتے ہیں تو ہمیں یقین نہیں آتا کہ یہ وہی شخص ہے جس میں یہ انقلاب برپا ہوا۔
پھر گیمبیا کے ہی ایک استا د ہیں استاد عیسیٰ جوف صاحب۔ امیر صاحب نے ان کے بارے میں لکھا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ بہت چھوٹی عمر میں جب مَیں کیتھولک فرنچ سکول میں پڑھتا تھا اُس وقت میری عمر دس سال تھی جب میں نے ایک رات خواب میں دیکھا کہ ایک پرانے گھر میں جس میں روشنی بھی کافی مدھم ہے اُس میں سو رہا ہوں۔ جب میں نے چھت کی طرف دیکھا تو چھت نہیں تھی۔ آسمان پر مجھے ایک شخص نظر آیا جس نے سرخ رنگ کی چادر اور سنہری پگڑی زیبِ تن کی ہوئی تھی۔ وہ شخص مجسم نور تھا اور اُس کے ارد گرد روشنی کا ایک ہالہ تھا۔ وہ آسمان سے میری طرف آ رہا تھا۔ وہ شخص درود شریف پڑھ رہا تھا جیسے ہم احمدی پڑھتے ہیں، جیسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھایا ہے۔ کہتے ہیں جب میں سولہ سترہ سال کا ہوا اُس وقت میں نے خواب میں دیکھا کہ میں جھاڑیوں سے گزرتا ہوا ایک متروک اور پرانے مکان تک آیا لیکن اس مرتبہ مکان کی مرمت اور تزئین و آرائش ہو چکی تھی۔ اُس کی دیواریں سفید اور دروازے اور کھڑکیاں سبزرنگ کی تھیں۔ مجھے خواب میں ہی یہ احساس ہوتا ہے کہ اب یہ جگہ متروک نہیں رہی بلکہ اُسے عزت و حرمت دی گئی ہے۔ جب میں نے مالک مکان کے آنے سے قبل ہی مکان سے نکلنا چاہا اُس موقع پر ایک بزرگ شخص باہر آیا اور مجھے آواز دی۔ میں خوفزدہ ہو گیا اور انکار کر دیا۔ اس بزرگ نے دوبارہ آواز دی۔ مَیں نے کہا میں اس وقت نہیں آؤں گا جب تک مجھے نہیں بتاتے کہ تم کون ہو؟ اُس بزرگ نے جواب دیا میں آخری ایام میں آؤں گا سو میں آیا ہوں تم خوف نہ کرو۔ اس پر مجھے کچھ حوصلہ ہوا اور میں اس بزرگ کے ساتھ ایک دفتر میں گیاجس میں کچھ لیبارٹری کی طرح کے آلات پڑے ہوئے تھے۔ اس بزرگ نے کہا یہ میری لیبارٹری ہے اور میں کیمیا دان ہوں۔ مجھے اس بزرگ سے محبت اور ہمدردی پیدا ہو گئی۔ میں نے اس بزرگ سے کہا کہ آپ مکان میں افسردہ تنہا زندگی گزار رہے ہوں گے۔ اُس بزرگ نے جواب دیا ہماری تحریک ہر جگہ تنہا لوگوں کے لئے کام کر رہی ہے۔ ہم ان تمام پیاروں اور تنہا لوگوں کی مجلس میں ہوتے ہیں۔ اس کے بعد میں اِن بزرگ سے الگ ہو گیا اور کہتے ہیں جب میری آنکھ کھلی ہے تو اُس بزرگ کی محبت سے میری آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ اس بزرگ کی انسانیت کے لئے خدمات کے باوجود تنہا زندگی پر افسردہ تھا۔ دس سال بعد جب میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تصویر دیکھی تو یہ بعینہٖ وہی بزرگ تھے جو مجھے دونوں خوابوں میں نظر آئے تھے۔ پہلی خواب میں آسمان سے نازل ہوئے اور دوسری خواب میں بزرگ کی صورت میں۔ اب دیکھیں بچوں کو بھی اللہ تعالیٰ کس طرح رہنمائی فرماتا ہے۔
پھر تنزانیہ کے ایک شخص محمد علی صاحب ہیں، انہوں نے خواب دیکھا کہ ایک سفید رنگ کے بزرگ نے انہیں نماز پڑھائی اور اُن کے پیچھے نماز پڑھ کر روحانی تسکین ملی۔ اُن کے چند دن بعد وہ موروگورو ہماری مسجد میں آئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تصویر دیکھ کر کہنے لگے کہ یہی وہ بزرگ تھے جنہوں نے مجھے خواب میں نماز پڑھائی تھی۔ چنانچہ اُسی وقت بیعت کر لی۔ بیعت کے بعد اُن کو بڑی سختیاں جھیلنی پڑیں۔ اور اُن کے والدنے اُن کو جائداد سے محروم کر دیاچھوٹا سا زمیندارہ تھا اُس سے نکال دیا۔ یہ سختیاں صرف پاکستان میں یا اور بعض جگہوں پر نہیں ہیں، بعض دفعہ افریقہ میں بھی سختیاں جھیلنی پڑتی ہیں۔ بہرحال یہ دوسرے علاقے میں آ گئے۔ باپ نے جو زمین چھینی تھی یا اُس سے جو مل سکتی تھی وہ تو ایک ایکڑ زمین تھی اللہ تعالیٰ نے اُس کے بدلے میں اُن کو چھ ایکڑ زمین عطا فرمائی اور اخلاص و وفا میں بڑی ترقی کرنے والے ہو گئے اور تبلیغ میں بڑے آگے بڑھنے والے ہیں۔ اب تک ان کی تبلیغ سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہاں اُس ماحول میں چھ جماعتیں قائم ہوچکی ہیں۔ یہ ایک واقعہ 2003ء کا برکینا فاسو کا ہے، ایک گاؤں تولتامہ کے نوجوان کابورے موسیٰ صاحب نے اپنی قبولِ احمدیت کے وقت (ہمارے اُس وقت کے مبلغ کو) یہ خواب سنائی کہ اُن کے والد صاحب نے اپنی عمر کے آخری حصہ میں اُنہیں بُلا کر تاکید کی کہ اگر تم امام مہدی کی خبر سنو تو ٹال مٹول سے کام نہ لینا، سنجیدگی سے تحقیق کر کے قبول کر لینا۔ اس نصیحت کے بعد جلد ہی والد صاحب وفات پا گئے۔ میں نے بہت سوچ بچار شروع کر دی اور کثرت سے نوافل ادا کر کے دعا کی کہ خدا مجھے سچائی دکھا دے۔ ایک روز میں نے رؤیا میں دیکھا کہ میں شہر کی طرف گیا ہوں تو دیکھا کہ سب لوگ ایک دوسرے سے لڑ رہے ہیں، خون بہَ رہے ہیں۔ میں نے ایک آدمی سے پوچھا کیوں لڑ رہے ہو؟ وہ میری طرف مُڑا اور دوسروں کو آواز دے کر کہنے لگا کہ دیکھو اس کو کسی نے نہیں مارا، اِسے بھی مارو۔ مجمع میری طرف بڑھا۔ قریب تھا کہ وہ مجھے پکڑ کر مارتے کہ ایک بزرگ شخص نے مجھے بچے کی طرح اُٹھا لیا اور مجمع سے اُٹھاکر خطرہ سے دور لے گئے اور ایسی کھلی کشادہ سڑک پر مجھے رکھ دیا جو دور تک صاف دکھائی دے رہی تھی۔ میں سڑک پر چلنے لگا۔ کچھ دور ایک مسجدنظر آئی اور میں اس میں داخل ہو گیا۔ اندر دیگر نمازیوں کے علاوہ عربی تبلیغ کر رہے تھے۔ اس رؤیا کے بعد جب وہ وہاں بوبوجلاسو کے ہمارے مشن ہاؤس آئے، وہاں سفید مسجد بھی دیکھی اور نمازیوں کو بھی دیکھا۔ دو پاکستانی بھی دیکھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جب تصویر اُنہیں دکھائی گئی تو نہایت جوش سے کہنے لگے کہ خدا کی قسم یہی وہ بزرگ ہیں جو مجھے خطرہ کے وقت مجمع سے بچا کر لے گئے تھے۔ چونکہ یہ وہاں کے امام تھے اِن کے بیعت کرنے کی وجہ سے گاؤں میں کافی تعداد میں افرادنے احمدیت قبول کی۔
پھر سینیگال کے علاقہ کاسا مانس میں ایک پیر صاحب نے بیعت کی ہے۔ اُن کے ماننے والے 132 مقامات پر ہیں۔ اِن پیر صاحب کی قبولیتِ احمدیت ایک خواب کی بنا پر ہے۔ اُنہوں نے جامعہ مسجد میں قرآنِ پاک پر ہاتھ رکھ کر قسم کھائی اور بتایا کہ میں نے مندرجہ ذیل خواب دیکھا ہے اور اس خواب کو دیکھے کافی سال ہو گئے ہیں لیکن میں اس خواب کے مصداق حضرت امام مہدی علیہ السلام کا متلاشی تھا جو اب مجھے خدا کے فضل سے مل گئے۔ وہ خواب اس طرح سے ہے۔ کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ کلمہ طیبہ لا الہ الا اللّہ محمد رسول اللّہ زمین پر گرا پڑا ہے۔ سارے اولیاء اور بزرگ مل کر اُس کلمہ کو اوپر بلند کرنے کی کوشش کر رہے ہیں مگر نہیں کر سکے۔ اتنے میں ایک بزرگ تشریف لائے جن کے بارے میں بتایا گیا کہ اِن کا نام محمد المہدی ہے۔ انہوں نے آ کر اکیلے ہی اس کلمے کو بلند کر دیا۔ امیر صاحب لکھتے ہیں کہ جب وہ اُن کے علاقہ میں دورے پر گئے تو اُن کے گھر بھی گئے۔ انہوں نے اپنے گھر میں ایک بینر لگایا ہوا ہے جس پر لکھا تھا: اَیُّھَا سُّکَّانُ البلد اِسْمَعُوْا جَآءَ الْمَسِیْح جَاءَ الْمَسِیْح اِسْمَعُوْا حَضْرَۃَ الْمیْرزا غلام احمد القادیانی علیہ السلام ھُوَ الْمَسِیْح اَلْمَہْدِی۔ تو اللہ تعالیٰ دور دراز علاقوں میں اس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صداقت لوگوں پر ظاہر کر رہا ہے۔ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہی ہیں جن کے ذریعے سے اس وقت کلمہ کی حقیقت دنیا پر واضح ہو رہی ہے۔ نہیں تو آج کل کے علماء جو ہیں اُنہوں نے تو اسلام کو بدنام کر کے رکھ دیا ہے۔
پھر الجزائر کے ایک دوست عبداللہ فاتح صاحب مشن ہاؤس آئے اور سوال جواب کی مجلس میں شامل ہوئے۔ مجلس کے اختتام پر انہیں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتب ’’خطبہ الہامیہ‘‘ اور ’’الہدیٰ‘‘ مطالعہ کے لئے دی گئیں۔ مطالعہ کے بعد آئے اور کہنے لگے کہ یہ تحریر کسی جھوٹے کی نہیں ہو سکتی اور اس کے ساتھ ایک کپڑے کو سر پر پگڑی کی طرح لپیٹا اور کہا کہ میں نے کچھ عرصہ قبل ایک شخص کو خواب میں دیکھا جس کا چہرہ انتہائی پُرنور تھا اور اُس نے اپنے سر پر اس طرح سے کپڑا باندھا ہوا تھا۔ تب اُنہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصویر دکھائی گئی مگر یہ نہ بتایا گیا کہ یہ کون ہیں۔ وہ تصویر کو دیکھتے ہی کھڑے ہوگئے اور کہا کہ یہ وہی شخص ہے جس کو میں نے خواب میں دیکھا ہے اور پھر بیعت کر کے جماعت میں داخل ہو گئے۔
پھر فِن لینڈ کے ایک عرب تھے۔ کہتے ہیں تین سال قبل میرے والد بزرگوار فوت ہوئے۔ اُن کی وفات سے چند ماہ بعد میں نے درج ذیل خواب دیکھا کہ میرے والد قبر میں سوئے پڑے ہیں۔ یہ قبر اُٹھتی ہے اور اُس کے اندر سے ایک اور بزرگ نہایت باوقار، پُر نور جبہ پہنے ہوئے نکلتے ہیں۔ اُن کی ریشِ مبارک سیاہ ہے۔ چہرہ نہایت منور اور خیرو برکت کا عکاس ہے۔ اُن کے سینے پر نام بھی لکھا تھا جو میں صحیح طرح یادنہ رکھ سکا۔ یہ بزرگ قبر سے نکلتے ہیں اور میرا دایاں ہاتھ پکڑ کر مجھے قبر کی دوسری جانب لے جا رہے ہیں۔ مَیں اُن کے ساتھ ساتھ چلتا جاتا ہوں اور والد کی طرف دیکھ رہا ہوں۔ کہتے ہیں خواب کے چھ ماہ بعد میں ڈِش کا چینل ڈھونڈ رہا تھا کہ اچانک ایم۔ ٹی۔ اے۔ آ گیا اور اُس میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ اور حلمی صاحب تھے۔ کہتے ہیں کچھ دنوں کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے ایک بزرگ کی تصویر نکال کر اپنے پروگرام میں دکھائی جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تھی۔ تو کہتے ہیں جب تصویر میں نے دیکھی تو میں پہچان گیا کہ جس بزرگ کو میں نے خواب میں دیکھا تھا یہ وہی تھے۔
سینیگال کے ایک احمدی ہیں، انہوں نے خواب میں آسمان پر دو بزرگوں کی تصویر دیکھی لیکن یہ سمجھ نہیں آتی تھی کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تصویر کونسی ہے؟ اُن کے ذہن میں یہ خیال تھا کہ ایک تصویر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے اور ایک حضرت امام مہدی علیہ السلام کی۔ پھر ایک تصویر غائب ہو جاتی ہے اور دوسری بالکل قریب آ جاتی ہے۔ یہ قریب آنے والی شکل کہتی ہے کہ امام مہدی مَیں ہوں۔ اس خواب کو دیکھنے کے بعد عمرباہ صاحب (یہ سینیگال کے تھے)، اِن کو یقین ہو گیا کہ امام مہدی آ گئے ہیں۔ چنانچہ مبلغ لکھتے ہیں وہاں جب ہمارا وفد تبلیغ کے دوران اِن کے پاس پہنچا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصویر اُنہیں دکھائی تو انہوں نے کہا کہ بالکل یہی تصویر تھی جو مجھے خواب میں دکھائی گئی تھی۔ اُس کے بعد انہوں نے بیعت کر لی۔
شام کے ایک دوست ہیں، جب اِن کا احمدیت سے تعارف ہوا تو تحقیق شروع کی۔ ابتدا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتب سے کی۔ کہتے ہیں کہ میں نے حضور کی تمام عربی کتب پڑھ لیں اور بہت فائدہ اُٹھایا۔ آپؑ کے کلام نے مجھ پر جادو کا سا اثر کیا۔ اس کے بعد میں نے استخارہ کیا تو ایک دفعہ یہ آیت سنائی دی۔ عَبْدٌ مِنْ عِبَادِنَا اٰتَیْنَاہُ رَحْمَۃً مِنْ عِنْدِنَا وَ عَلَّمْنَاہُ مِنْ لَّدُنَّا عِلْمًا۔ جبکہ دوسری طرف مجھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت بھی ہوئی۔ یہ آیت جو ہے اس کا ترجمہ یہ ہے کہ ’’ہمارے بندوں میں سے ایک بندہ ہے جسے ہم نے اپنے پاس سے رحمت عطا کی ہے اور اپنی جناب سے خاص علم عطا کیا ہے۔‘‘ اس کے بعد کہتے ہیں دوسری دفعہ مجھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہوئی تو میرے پوچھنے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس زمانے کے فتنوں سے بچنے کے لئے صرف مرزا غلام احمد ہی سفینہ نجات ہیں۔ کہتے ہیں پھر میں نے اپنی بیوی سے استخارہ کرنے کو کہا تو اُس نے خواب میں دیکھا کہ ایک شخص اُسے کہتا ہے کہ مرزا غلام احمد اس زمانے کے مجدد ہیں۔ لیکن اس واضح خواب کے باوجود اُنہیں اطمینان نہیں ہوا اور بیعت نہیں کی۔ تو کہتے ہیں مَیں دل سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صداقت کا قائل ہو گیا تھا لیکن اعلان اس لئے نہیں کیا تا کہ اپنے حلقہ احباب کو خود سوچنے کا موقع دوں۔ تا وہ میرے پیچھے بلا سوچے سمجھے نہ چل پڑیں۔ دوسرے یہ کہ میں چاہتا تھا کہ جماعت کے مخالفین کی کچھ کتب پڑھ لوں۔ بالآخر جولائی 2009ء میں انہوں نے اپنے پانچ ساتھیوں کے ساتھ بیعت کر لی۔
آئیوری کوسٹ کے ایک گاؤں شِنالا (Shinala) کے بے ما (Bema) صاحب نے لوگوں کے سامنے ایک عجیب واقعہ بیان کیا۔ کہتے ہیں عرصہ بیس سال قبل خاکسار سخت بیماری میں مبتلا ہوا۔ مرگی کے دورے پڑنے لگے۔ ہر ممکن علاج کیا۔ ذرا بھی افاقہ نہ ہوا۔ شہر کے ایک عامل نے کچھ تعویذ گنڈے دیتے ہوئے کہا کہ اِن کو کمر سے باندھ لو، یہی تمہاری بیماری کا علاج ہیں۔ اُنہی ایام میں کشف کی حالت میں ایک بزرگ آئے اور کہا کہ تم نے یہ کیا پہنا ہوا ہے اُسے اتار ڈالو۔ تو میرے دل میں بہت زور سے احساس پیدا ہوا کہ یہ بزرگ امام مہدی ہیں۔ میں نے کمر سے باندھے تعویذ گنڈے اُتار ڈالے۔ اُسی روز خدا تعالیٰ نے مجھے شفا سے نواز دیا۔ اُس دن سے آج تک مجھے کبھی مرگی کا دورہ نہیں پڑا۔ میں تو اُسی روز سے امام مہدی کو قبول کر کے اُن کی تلاش میں تھا۔ آپ لوگ آئے اور امام مہدی کی باتیں کی ہیں تو میں سمجھا ہوں کہ امام مہدی مل گئے ہیں۔ پھر اُن کو ہمارے مبلغ نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی، خلفاء کی تصاویر دکھائیں تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تصویر کی طرف اشارہ کر کے فوراً کہا کہ یہی وہ بزرگ ہیں جو مجھے خواب میں ملے تھے اور تعویذ گنڈے سے منع کیا تھا۔ تو یہ سب خرافات جو ہیں آجکل کے مولویوں نے، پیروں فقیروں نے کمائی کے لئے شروع کی ہوئی ہیں۔ اِن خرافات کو ختم کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام آئے ہیں، تبھی تو آپ کا نام مہدی بھی رکھا گیا۔
پھر ابوظہبی سے ایک صاحب لکھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جس قدر کتابیں مجھے مہیا ہو سکیں اُن کے مطالعے سے نیز ایم۔ ٹی۔ اے کے پروگرام الحوار المباشر کے باقاعدگی سے دیکھنے سے مجھے جماعتی عقائد پر اطلاع ہوئی۔ شروع میں تو جہالت اور گزشتہ خیالات کی وجہ سے میں نے فوری منفی ردّعمل ظاہر کیا۔ لیکن جب قرآنی آیات و احادیث اور خدائی سنت کا بغور مطالعہ کیا تو میرا دل مطمئن ہونے لگا۔ اب میرے سامنے دو راستے ہو گئے۔ یا تو میں مسلسل حضرت عیسیٰ بن مریم کے آسمان سے نزول کا انتظار کئے جاؤں اور اس سے قبل دجّال کا انتظار، جس کی بعض ایسی صفات بیان کی گئی ہیں جو صرف خدا تعالیٰ کو زیبا ہیں جیسے احیائے موتیٰ وغیرہ۔ اور پھر جن بھوتوں کے قصے اور قرآنِ کریم میں ناسخ و منسوخ کے عقیدے سے چمٹا رہوں۔ یا پھر حضرت احمد علیہ السلام کو مسیح موعود اور امام مہدی مان لوں جنہوں نے اسلام کو خرافات سے پاک فرمایا ہے اور اسلام کے حسین چہرے کو نکھار کر پیش فرمایا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا دفاع بھی فرمایا ہے۔ بہر حال کہتے ہیں مَیں نے خدا تعالیٰ سے مدد چاہی اور بہت دعا کی کہ میری رہنمائی فرمائے اور حق اور اپنی رضا کی راہوں پر چلائے۔ اس کے بعد مَیں نے جماعت احمدیہ اور حضرت احمد علیہ السلام کی طرف ایک دلی میلان محسوس کیا۔ میں نے قانون پڑھا ہوا ہے۔ جب میں نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اشعار سنے تو میرا جسم کانپنے لگا اور آنکھوں میں آنسو اُمڈ آئے اور میں نے زور سے کہا کہ ایسے شعر کوئی مفتری نہیں کہہ سکتا۔ ایک مفتری کے سینہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتنی محبت کیسے ہو سکتی ہے؟ پھر ایک عجمی کا اتنا قوی اور فصیح و بلیغ عربی زبان کا استعمال کرنا بغیر خدائی تائید کے ناممکن ہے۔ اس طرح پھر اللہ تعالیٰ نے اُن کی ہدایت کے سامان پیدا فرمائے۔
شام سے ایک دوست مصطفی حریری صاحب ہیں۔ کہتے ہیں کہ مَیں ایک سادہ انسان ہوں، پڑھ لکھ نہیں سکتا اور نہ ہی میرے پاس کوئی وسائل ہیں۔ گزشتہ چار ماہ میں مَیں نے بہت سی خوابیں دیکھی ہیں کہ میری روح قبض کی جا رہی ہے۔ آخری خواب میں میں نے دیکھا کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم طرطوس شہر میں تشریف لائے ہیں اور ہمارے گھر کے ہی ایک کمرے میں تشریف فرما ہیں جس کا اصل میں ایک ہی دروازہ ہے لیکن مجھے خواب میں اُس کے دو دروازے نظر آئے۔ ایک مغرب کی طرف اور دوسرا قبلے کی طرف۔ میرے والد صاحب اس دروازے پر کھڑے تھے۔ انہوں نے مجھے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کرو۔ میں نے سلام عرض کیا۔ جب میں نے مصافحہ کیا تو رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ٹھنڈی ہوا کا جھونکا میرے دل میں داخل ہوا اور اطمینانِ قلب نصیب ہوا۔ میں نے نظر اُٹھائی تو کیا دیکھتا ہوں کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی چادر میں موجود ہیں۔ احمدیت قبول کرنے کے بارہ میں میں نے استخارہ کے بعد جس میں مَیں نے خدا تعالیٰ سے یہ دعا مانگی تھی کہ اے خدا! میں ایک سادہ اَن پڑھ انسان ہوں، مجھے حق دکھا تو خدا تعالیٰ نے میرے عمل مجھے دکھائے جو اچھے نہیں تھے کیونکہ میں نماز کا بھی پابندنہ تھا۔ اس کے بعد مَیں نے اپنے آپ کو اپنی والدہ کے ساتھ قبرستان میں دیکھا۔ حضرت امام مہدی علیہ السلام میری روح قبض کرنے آئے ہیں اور انہوں نے میری گردن پر ٹھوکر ماری ہے جس سے میری گردن پر ایک مُہر کا نشان پڑ گیا ہے۔ اُس کے بعد میں وہاں سے چل پڑا حتی کہ میں نے ایک نوجوان کو دیکھا اور میں نے اُسے تعجب سے کہا کہ میری گردن پر امام مہدی کی مہر لگی ہوئی ہے۔ تو اُس نے کہا یہ نشان میری گردن پر بھی ہے اور یہ بیعت کی مہر ہے۔
الجزائر کے عرقوب بن عمر صاحب ہیں۔ کہتے ہیں ایک دن ٹی وی دیکھ رہا تھا کہ اچانک آپ کا چینل دیکھ کر اور آپ کا عیسائیوں سے مقابلہ دیکھ کر مجھے یقین ہو گیا کہ آپ کی جماعت حق پر ہے۔ تب اپنے ربّ سے کہا کہ مَیں اس جماعت پر ایمان لاتا ہوں، مجھے ان کی تصدیق کے لئے کسی خواب وغیرہ کی ضرورت نہیں۔ میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سنت کے مطابق حضرت امام مہدی کو قبول کرتا ہوں۔ تو اس طرح کے سعید فطرت بھی لوگ ہوتے ہیں کہ سچائی دیکھ کر پھر کسی اور دلیل کو یا کسی اور نشان کو نہیں مانگتے۔ کہتے ہیں کہ پھر میں نے خواب میں دیکھا کہ ناصر صلاح الدین عیسائیوں سے مقابلے میں ایک جماعت کی قیادت کر رہا ہے۔ پھر اچانک آسمان پھٹ گیا اور میں نے آواز سنی کہ اپنا موبائل کھولو اس پر ایک نمبر آئے گا اور اس سال اسلام تمام ادیان پر غالب آ جائے گا اور تمام دنیا میں پھیل جائے گا۔ میں نے موبائل کھولا تو وہاں 2150نمبر تھا۔ میں سمجھا کہ یہ بات 2150سن میں پوری ہو گی۔ اسی لمحے میری آنکھ لگ گئی اور میں نے گھڑی دیکھی تو وہ گھڑی میں (ڈیجیٹل گھڑی تھی) اس میں وقت آ رہا تھا 21:50 یعنی شام کے نو بج کے پچاس منٹ۔ کہتے ہیں سات ماہ قبل جب سے میں نے بیعت کی ہے روزے رکھ رہا ہوں اور ایک خواب میں دیکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ملّاؤں اور علماء پر غضبناک ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بڑے سخت لہجے میں فرماتے ہیں کہ یہ رسول ہے اور میرے بعد آنے والا نبی۔ سو دیکھیں دُور دراز رہنے والا ایک شخص ہے۔ دعا کرتا ہے اور اس طرح بھی اللہ تعالیٰ آپ کی نبوت کے بارے میں اس پر واضح کر دیتا ہے۔
پھر الجزائر کے حدّاد عبدالقادر صاحب ہیں۔ کہتے ہیں 2004ء میں رمضان المبارک میں خواب میں دیکھا کہ ایک شخص نے مجھے کہا کہ آؤ میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کے لئے لے چلتا ہوں۔ میں نے دیکھا کہ تقریباً ایک میٹر اونچی دیوار کے پیچھے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہیں۔ آپ مجھے دیکھ کر مسکرائے۔ پھر دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور دیوار کے مابین ایک گندمی رنگ کا شخص کھڑا ہے جس کی سیاہ گھنی داڑھی ہے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اس آدمی کی طرف اشارہ کر کے فرماتے ہیں کہ ھٰذا رَسُوْلُ اللّٰہ کہ یہ اللہ کا رسول ہے۔ پھر آپ مشرق کی جانب ایک نور کی طرف چلے جاتے ہیں جبکہ یہ شخص اُسی جگہ کھڑا رہتا ہے۔ کہتے ہیں کہ چار سال بعد 2008ء میں اتفاقاً آپ کا چینل دیکھا تو اس پر مجھے اس شخص کی تصویر نظر آئی جس کو میں نے خواب میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دیکھا تھا اور یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تصویر تھی۔ چنانچہ میں نے اُسی وقت بیعت کر لی۔
پھر شمس الدین صدیق صاحب ہیں کردستان کے۔ کہتے ہیں میں نے پچیس سال قبل خواب میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو چاند کے اندر بیٹھے ہوئے آسمان سے اترتے دیکھا تھا۔ اب ایم۔ ٹی۔ اے دیکھ کر مجھے یقین ہو گیا ہے کہ آپ کے چاند سے اترنے کی تعبیر یہی ایم۔ ٹی۔ اے ہے۔ اور میں بیعت کرنا چاہتا ہوں۔ پھر عراق کے عبدالرحیم صاحب ہیں۔ کہتے ہیں کچھ عرصہ قبل میں نے خواب میں دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام مجھے کہتے ہیں کہ تم ہمارے آدمی ہو لہٰذا تمہیں بیعت کر لینی چاہئے۔ اس پر مجھے انہوں نے خط لکھا تھا کہ میں آپ کے ہاتھ پر بیعت کرنا چاہتا ہوں اسے قبول کریں۔ مصر کے ایک محمد احمد صاحب ہیں، کہتے ہیں کہ بیعت سے پہلے میں اندھیروں میں بھٹک رہا تھا کیونکہ یہ نام نہاد علماء ایسے فتوے جاری کرتے ہیں جنہیں عقل ماننے کے لئے تیار نہیں۔ باوجودیکہ یہ سب لوگ معترف ہیں کہ کوئی مصلح آنا چاہئے اور دعائیں بھی کرتے ہیں لیکن مسلمانوں کی حالت ابتر ہی ہوتی جاتی ہے۔ دوسرے مسلمانوں کی طرح مَیں بھی مختلف وساوس اور شکوک میں گرفتار تھا کہ میں نماز کیوں پڑھتا ہوں۔ کیوں مسلمان ہوں؟ اس کائنات کا خالق ہے کہ نہیں؟ مسلمانوں کا اتحاد کیسے ہو گا؟ ان سب سوالوں کا کوئی شافی جواب مجھے کہیں نہیں ملتا تھا۔ میں نے مختلف چینل گھمانے شروع کئے کہ شاید عیسائیت میں کوئی تسلی ملے یا شیعوں کے پاس کوئی حل ہو تو اچانک ایم۔ ٹی۔ اے العربیہ مل گیا جہاں کچھ اجنبی لوگ نظر آئے جو مسلمانوں سے مشابہ تھے لیکن ان کی باتیں اجنبی تھیں، لیکن تھیں قرآنِ کریم کے مطابق۔ کہتے ہیں ان کا چینل اسلامی تھا لیکن ان کا اسلام میرے لئے اجنبی تھا اور کہنے والے کہتے تھے کہ ہمارا امام مہدی ظاہر ہو چکا ہے اور وہی مسیح موعود ہے جو قاتلِ دجال ہے۔ وہی قرآن کے نور سے حَکم اور عَدل ہے۔ وہ خدا تعالیٰ کی وحی کے ذریعے مہدی کا لقب پانے والا ہے اور وحی منقطع نہیں ہوئی، وغیرہ وغیرہ۔ کہتے ہیں یہ ساری باتیں سن کر اور ان میں گہرے غور و فکر کے نتیجے میں چند دن تک میرا سر چکرانے لگا کہ مَیں کیا سُن رہا ہوں۔ پھر جب توازن بحال ہوا تو دل نے فتویٰ دیا کہ مزید پروگرام دیکھنے چاہئیں۔ لیکن ساتھ یہ خیال بھی آتا تھا کہ بہت سے علماء کہلانے والے ان لوگوں کو کافر قرار دیتے ہیں۔ اس عرصے میں وہ تحقیق بھی کرتے رہے، علماء سے پوچھتے رہے۔ انہوں نے کہا یہ لوگ تو کافر ہیں۔ کہتے ہیں پھر مجھے خیال آیا کہ تکذیب تو سب نبیوں کی ہوئی ہے، اُنہیں جادوگر اور مجنون کہا گیا ہے، خود ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرما گئے ہیں کہ اُمت فرقوں میں بٹ جائے گی، اسلام اجنبی ہونے کی حالت میں شروع ہوا اور پھر دوبارہ اجنبی سا ہو جائے گا۔ اور ایسے اجنبیوں کو مبارک ہو۔ پھر ایسی پیشگوئیاں بھی موجود ہیں کہ علماء بہت ہوں گے لیکن فقہاء کم ہوں گے۔ پھر حضور علیہ السلام نے مشکلات کے باوجود امام مہدی کی اتّباع پر بہت زور دیا اور تاکید فرمائی ہے۔ کہتے ہیں آخر میں نے خدا تعالیٰ سے مدد طلب کی۔ دعا کی اور نمازیں پڑھیں، قرآنِ کریم کی تلاوت بکثرت شروع کر دی۔ پھر مجھے معلوم ہوا کہ آپ علیہ السلام نے خدا تعالیٰ کے حکم سے ایک جماعت بنائی ہے جس کے آپ امام ہیں اور اس جماعت کا دستور قرآنِ کریم ہے اور قول و فعل میں اس کا اسوہ حضرت خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ آپ نے اسلام کی سچائی پر زور دیا ہے اور مختلف آراء و اقوال میں سے صحیح کو لیا ہے اور باقی کا غلط ہونا ثابت کیا ہے۔ پھر ان باتوں پر میں نے غور کیا توان سب کو پاکیزہ اور ثابت شدہ حقائق پایا جنہیں کوئی جھوٹا شخص بیان نہیں کر سکتا۔ چنانچہ میں ان باتوں کی طرف مائل ہو گیا کیونکہ یہی قرآنِ کریم میں بھی بیان ہوا ہے، یہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے اور اسی پر صحابہ بھی ایمان لائے تھے۔ یہی سنت سے بھی ثابت ہے۔ کہتے ہیں احادیث کو میں نے دیکھا تو مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تائید میں نظر آئیں۔ لیکن ایک عام مسلمان جس نے سلف و خلف کی کتب کا مطالعہ نہیں کیا اور صرف علماء سے سنا ہے۔ نہ پہلے لوگوں کا مطالعہ کیا ہے نہ بعد کا، تو یہ باتیں یقینا اُسے اجنبی معلوم ہوتی ہیں۔ کہتے ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دلائل درست اور قوی ہیں۔ کہتے ہیں آخری فیصلے کے لئے میں نے استخارہ کیا تو 2007ء رمضان میں دو خوابیں دیکھیں جو مسلسل اللہ تعالیٰ نے دکھائیں۔ جس سے حضور علیہ السلام کی صداقت مجھ پر کھل گئی۔ پہلی خواب میں میں نے دیکھا کہ آپ علیہ السلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کریز نامی ایک سبز رنگ کا پھل کھلا رہے ہیں جس کے نتیجے میں میں نے فوراً بیعت کر لی، اور کہتے ہیں اُس کے بعد پھر میرے حالات بہت بہتر ہو گئے۔
گیمبیا کے ایک صاحب تھے جو وہاں کے نمبر دار تھے۔ وہ کہتے ہیں میں نے خواب میں دیکھا کہ دو آدمی آتے ہیں اور مجھے کہتے ہیں کہ زمانہ امام مہدی کے ظہور کا ہے اور وہ آ چکا ہے اور ہر دفعہ وہی دو شخص ملتے تھے۔ کہتے ہیں ایک دفعہ میں ڈاکار میں تھا جو سینیگال کا دارالحکومت ہے یہ خواب دیکھا کہ میرا بھتیجا میرے پاس تیز رفتار گھوڑے پر سوار ہو کر آتا ہے اور مجھے کہتا ہے کہ دو آدمی سمندر کے کنارے پر تیرا انتظار کر رہے ہیں۔ جب میں وہاں پہنچا تو اُن میں سے ایک نے دوسرے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ اس زمانے کا امام مہدی ہے اس کو مان لو۔ جب یہ مبلغ کے پاس آئے تو انہوں نے اُسے کہا کہ اگر میں تمہیں تصویر دکھاؤں کیا تم پہچان لوگے؟ پھر انہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تصویر اور خلفاء کی تصویریں بھی ساتھ دکھائیں۔ انہوں نے دیکھیں تو ایک تصویر پر فوراً انہوں نے کہا کہ انہی کو میں نے خواب میں دیکھا تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تصویر پر ہاتھ رکھا کہ ایک یہی تھے اور پھر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تصویر پر انگلی رکھی کہ دوسرے شخص یہ تھے جو امام مہدی کے ساتھ تھے۔
پھر کہتے ہیں ایک اور خواب میں سنانے والا ہوں۔ (یہ اس کے بعد کی بات ہے جب ہمارے مبلغین اُس گاؤں میں گئے ہیں، اِن کو تصویریں دکھائیں تو پھر ان کو ایک دوسری خواب سنا رہے ہیں )۔ کہتے ہیں کہ آج ہی میں نے خواب میں دیکھا کہ دو آدمی کار پر آئے ہیں اور مجھے ان آدمیوں کی تصویر دکھاتے ہیں جن کو میں ایک عرصہ سے دیکھ رہا ہوں۔ اور یہ خواب میں نے صبح اپنی بیوی کو سنایا تھا اور کہا کہ آج کچھ مہمان آنے والے ہیں اس لئے آج سارا دن میں کہیں نہیں گیا اور انتظار میں رہا کہ کب آتے ہیں۔ تو آپ ہی وہ لوگ ہیں جن کے متعلق خدا تعالیٰ نے مجھے بتایا تھا۔ آپ شام کو آئے اور مجھے تصاویر دکھائی ہیں۔ میری خواب پوری ہو گئی ہے۔ اس نے بڑی جرأت سے کہا کہ میں خدا تعالیٰ کے فضل سے تمام لوگوں کے سامنے کھڑے ہو کر اعلان کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بتایا ہے کہ امام مہدی آ چکا ہے اور احمدیت سچی ہے۔
قلاب ذبیح یوسف صاحب الجزائر کے ہیں۔ کہتے ہیں میں نے چھوٹی عمر میں ایک رؤیا دیکھا کہ ایک سفید رنگ کا آدمی مجھے کہتا ہے کہ اپنا ہاتھ میرے ہاتھ میں دے دو تا کہ میں تمہیں ساتھ لے جاؤں۔ لیکن میں کسی قدر متردّد اور خائف ہوا۔ یہ رؤیا مجھے تقریباً ایک سال تک دکھایا جاتا رہا اور بالآخر میں نے سفید رنگ کے آدمی کی بات مان لی۔ اُس وقت اس کے ساتھ ایک اور آدمی بھی تھا جس کی وضع قطع سے لگ رہا تھا کہ وہ کوئی بڑی شخصیت ہے اور وہی گورے رنگ والے شخص کو میرا ہاتھ پکڑ کر اپنے ساتھ لانے کا حکم دے رہا تھا۔ تو کئی سال گزرنے کے بعد ایک دن اچانک نائل ساٹ پر ایم۔ ٹی۔ اے پر میں نے اس شخص کو دیکھا جو خواب میں مجھے اپنے ساتھ لے جانے کا کہہ رہا تھا اور پھر اسی چینل پر میں نے اس شخص کو بھی دیکھا جو اس گورے شخص کو ایسا کرنے کا حکم دے رہا تھا۔ میں سخت حیران تھا کہ یہ کون لوگ ہیں اور جب حقیقتِ حال کا علم ہوا تو میں نے یہی سمجھا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ سب اس لئے دکھایا ہے تا میں مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کر کے اس کی جماعت میں شامل ہو جاؤں۔ لہٰذا میں نے بیعت کر لی۔ خواب میں دکھایا جانے والا سفید رنگ کا آدمی مصطفی ثابت صاحب تھے اور جو ان کو حکم دینے والا شخص تھا کہ اس کو لے آؤ، وہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ تھے۔
پھر عراق کے ایک شاعر ہیں مالک صاحب، وہ کہتے ہیں کہ خاکسار کو ایم۔ ٹی۔ اے کے ذریعے اُس وقت جماعت سے تعارف حاصل ہوا جب ابھی عربی چینل شروع نہیں ہوا تھا۔ اُس وقت تک کہتے ہیں کہ میں خلیفہ رابع رحمہ اللہ کو بدھ مت کا نمائندہ سمجھتا تھا۔ لیکن جب حضور کی وفات ہوئی تو ہم نے دیکھا کہ نورِ محمدی آپ کے چہرے پر برس رہا ہے۔ ہم سب گھر والوں کے دل سے آواز اُٹھی کہ کاش یہ شخص مسلمان ہوتا (یہ واقعہ شاید میں پہلے بھی بیان کر چکا ہوں بہر حال) اس کے باوجود حضور کی وفات پر ہم لوگ نجانے کس بنا پر بہت روئے۔ پھر اچانک ایک روز ایم۔ ٹی۔ اے کا عربی چینل اتفاق سے مل گیا۔ اُس وقت سے ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت میں داخل ہیں۔ چنانچہ میری بیوی نے دو خوابیں دیکھنے کے بعد پہلے ہفتے ہی بیعت کر لی تھی۔ پہلی خواب میں دیکھا کہ حضرت علی میری بیٹی کو کچھ کاغذات دے رہے ہیں۔ میری بیوی نے دیکھا تو پتہ چلا کہ یہ بیعت فارم ہیں۔ دوسری خواب میں دیکھا کہ کوئی شخص حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا خط میری بیوی کے نام لے کر آیا ہے جس میں لکھا ہے کہ جو شخص میرے گھر میں داخل ہوتا ہے وہ میرے اہلِ بیت میں سے ہے۔ اس کے بعد میری اہلیہ نے بہت سی خوابیں دیکھیں۔ چنانچہ میرے بیٹے اور اس کی بیوی نے تقریباً تین ماہ قبل اور میری تیسری خواب کے بعد بیعت کر لی۔ پھر کہتے ہیں خواب میں انہوں نے دیکھا کہ یہ خواب اس طرح تھی کہ ہمیں نجف شہر میں امام مہدی کے ظہور کی اطلاع ملی ہے۔ کہتے ہیں ہم تین دوست تھے۔ خواب میں ہم ان کے پاس گئے اور کہا کہ کیا آپ امام مہدی ہیں؟ تا کہ ہم آپ کی بیعت کر لیں، انہوں نے کہا ہرگز نہیں۔ مَیں تو صرف ایک مصلح ہوں۔ مہدی تو قادیان میں ظاہر ہو چکا ہے۔ اور تیسری خواب میں انہوں نے مجھے دیکھا۔ کہتے ہیں میں نے آپ کو دیکھا کہ ایک ڈھلوان جگہ پر ایک بڑے مجمع کو خطاب کر رہے ہیں اور مجمع میں تمام لوگ کھڑے تھے، صرف اکیلا میں آپ کے پاس نیچے بیٹھا تھا، اور اچکن کو دیکھ رہا ہوں۔ اور دل میں کہتا ہوں، سبحان اللہ آپ نے امام مہدی کا لباس کیسے پہن لیا؟ اس کے بعد جب خطاب ختم ہو گیا اور میں نے اُن کے سر پر ہاتھ رکھا اور اُن سے پوچھا کیا آپ کا دل مطمئن ہو گیا ہے؟ اور پھر ساتھ یہ بھی کہا کہ لگتا ہے آپ کو بھوک لگی ہے چلیں آپ کو کھانا کھلاؤں۔ تو یہ اُن کی تیسری خواب تھی۔ بہر حال انہوں نے بیعت کی۔
اسی طرح سیریا کے یٰسین محمد شریف صاحب ہیں۔ وہ مجھے لکھتے ہیں کہ مَیں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے بیعت کے بعد مجھے فضلوں اور برکات سے نوازا ہے۔ میں اسلام اور مسلمانوں کی حالت پر غمناک تھا اور قریب تھا کہ اس غم میں ہلاک ہو جاتا۔ میں نے کئی فرقوں اور مولویوں کی پیروی کی۔ آخر پر جس شخص کی مرافقت اختیار کی، اُس نے مجھے بتایا کہ وہ ایک اور بڑے مولوی کا شاگرد ہے جو حلب کے ایک قطب کا گدی نشین ہے۔ پھر اس شخص نے مہدی ہونے کا دعویٰ کر دیا جس کو میں نے واضح طور پر حق سے دور پایا اور اُس کے منہ پر کہہ دیا کہ تم جھوٹ بول رہے ہو۔ بعد میں یہ شخص اپنی بیوی کے ساتھ ایک حادثے میں ہلاک ہو گیا۔ 97ء میں کہتے ہیں میں نے ڈش خریدی، مسجد کی امامت چھوڑ کر گھر میں بیٹھ گیا۔ میرا اعتقاد تھا کہ میں حق پر ہوں، لیکن اسلام کی حالتِ زار کی وجہ سے تمنا کرتا تھا کہ یہ فانی زندگی جلد ختم ہو اور اُخروی اور ابدی زندگی کا آغاز ہو۔ دس سال کی گوشہ نشینی اور غم کی کیفیت کے بعد اللہ تعالیٰ نے مجھے آپکی طرف رہنمائی فرمائی، جس سے میرے دل کو سکون اور راحت مل گئی۔ اب جون میں اپنی والدہ اور بیوی کے ہمراہ عمرہ کرنے گیا تو متعدد عمرے کئے جن میں سے پہلا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف سے تھا۔ اس کے بعد تمام خلفاء کی طرف سے عمرے ادا کئے۔ دعا ہے کہ اللہ قبول فرمائے۔ پھر یہ لکھتے ہیں کہ میں نے بیعت کرنے سے قبل چار احمدی احباب کو خواب میں دیکھا اور انہیں کہا کہ تم بڑے مرتبے والے لوگ ہو اور تم جیسا کوئی نہیں ہے۔ اُن میں سے ایک نے میرا ہاتھ پکڑ لیا۔ میں نے اس سے پوچھا کہ خدا کی قسم کھا کر بتاؤ کہ کیا تم خدا اور اُس کے رسول کی سنت پر قائم ہو؟ اور اسلام کی حقیقت کو جانتے ہو؟ چنانچہ اس نے اس کو اتنی مرتبہ جوش سے دہرایا کہ مجھے اُس کی گردن کی رَگیں نظر آنے لگیں۔ اس پر میں نے اُس سے کہا کہ آج سے مَیں بھی احمدی ہوں۔ پھر وہ مجھے لکھ رہے ہیں کہ اس کے بعد مَیں نے آپ کو دیکھا کہ آپ آتے ہیں اور جیسے جلدی میں ہیں، چنانچہ آپ ہماری طرف دیکھتے ہوئے مشرق کی جانب چلے جاتے ہیں۔ پھر کہتے ہیں بیعت کے بعد میں نے ایک دفعہ خواب میں دیکھا کہ عالمِ برزخ میں ہوں وہاں پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو دیکھتا ہوں کہ اتنے میں ایک شخص کہتا ہے کہ اب ٹیلی فون مرزا کے پاس ہے، یعنی جس نے بھی اُس ٹیلی فون پر بات کرنی ہے وہ مرزا صاحب کے ذریعے سے کر سکتا ہے۔
بینن کے پوبے (Pobe) شہر کے ایک احمدی چندوں کی ادائیگی میں سُست تھے باوجود اس کے کہ مالی کشائش تھی۔ وقتاً فوقتاً توجہ دلائی جاتی تھی، نصیحت کی جاتی تھی لیکن اُن پر اثر نہیں ہوتا تھا۔ مربی صاحب کہتے ہیں کہ آخری ہتھیار دعا ہی کا تھا۔ تو وہ ایسا کارگر ہوا کہ کچھ عرصہ قبل وہی صاحب آئے اور کہنے لگے کہ خواب میں اُنہوں نے مجھے دیکھا کہ میں اُن کے پاس گیا ہوں اور اُن سے کہہ رہا ہوں کہ اپنے چندوں کے حسابات کلیئر کرو۔ تم سمجھتے ہو کہ یہ بہت زیادہ ہیں مگر یہ زیادہ نہیں ہیں۔ کہتے ہیں انہوں نے خواب بیان کرنے کے بعد اپنے تمام حسابات آکے صاف کر دئیے۔
پھر الجزائر کے ایک شریفی عبدالمومن صاحب ہیں۔ کہتے ہیں کہ چھ ماہ قبل جماعت سے تعارف حاصل ہوا۔ میری تسلی ہو گئی۔ میں نے حضرت امام مہدی علیہ السلام کی تصدیق کر دی لیکن مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ اب کیا کرنا چاہئے۔ چنانچہ خدا تعالیٰ نے مجھے دو خوابیں دکھائیں۔ پہلی میں انہوں نے مجھے دیکھا اور کہتے ہیں اس پہ بڑی خاص کیفیت طاری ہوئی۔ میں بیان نہیں کر سکتا۔ پھر دوسری خواب میں دیکھا کہ وہ کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ وہ رو رہے ہیں اور اللہ کا واسطہ دے کر مجھے کہہ رہے ہیں کہ کیا کرنا چاہئے؟ جس پر میں نے اُن کو دو بیعت فارم پکڑائے۔ چنانچہ بیدار ہونے کے بعد انہوں نے انٹر نیٹ کھولا تو کہتے ہیں وہی دو بیعت فارم مجھے مل گئے جو میں نے خواب میں دیکھے تھے، چنانچہ میں نے فورا ً بیعت کر لی۔ اور اُس وقت سے میں اپنے اندر ایک نمایاں تبدیلی محسوس کر رہا ہوں۔ اللہ تعالیٰ ان تمام مخلصین اور ان تمام سعید روحوں کو جو ہر سال صداقت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو دیکھ کر جماعت احمدیہ میں شامل ہوتی ہیں، جن کو ہر سال اللہ تعالیٰ رہنمائی فرماتا ہے، ہمیشہ استقامت عطا فرمائے۔ اللہ تعالیٰ ایمان اور یقین میں ان کو ترقی عطا فرمائے اور ہم میں سے بھی ہر ایک کے ایمان اور ایقان کو بڑھائے اور ہمیں زمانے کے امام کی حقیقی پیروی کرنے والا بنائے۔ اور ہم بھی اُن برکات سے حصہ لینے والے ہوں، اُن انعامات سے حصہ لینے والے ہوں جس کا فیضان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے وابستہ ہے۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اُمّتی ہونے کی وجہ سے اور آپؐ کی کامل پیروی اور عشق کی وجہ سے نبوت کا مقام عطا فرمایا۔ پھر اپنی تائیدات سے نواز کر آپ کے حق میں نشان دکھاکر ایک دنیا کی توجہ آپ کی طرف پھیری اور یہ سلسلہ جو آپ کے دعویٰ سے شروع ہوا، آج تک چل رہا ہے۔ اس فیض سے وہی فائدہ اٹھارہا ہے جو آپ کے بعد اللہ تعالیٰ سے تائید یافتہ آپ کی خلافت سے منسلک ہے۔
آج بھی اللہ تعالیٰ نیک فطرتوں کو آپ کی صداقت کے بارے میں رہنمائی فرماتا ہے، فرما رہا ہے اور اس رہنمائی کی وجہ سے لوگ جماعت میں شامل ہوتے ہیں۔ اور اس بات کو ثابت کرنے کے لئے کہ آپ کے بعد آپ کی خلافت بھی برحَق ہے، رؤیائے صادقہ کے ذریعہ سے آپ کے ساتھ آپ کے خلفاء کو بھی اِن لوگوں کو دکھا دیتا ہے جس سے اُن کا ایمان اور تازہ ہوتا ہے۔
دنیا کے مختلف ممالک، مختلف رنگ و نسل کے لوگوں کے رؤیائے صادقہ کے ذریعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور احمدیت کی صداقت کی طرف رہنمائی کے ایمان افروز واقعات کا روح پرور تذکرہ۔
فرمودہ مورخہ 3؍جون 2011ء بمطابق 3؍احسان 1390 ہجری شمسی، بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن (برطانیہ)
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔