جلسہ سالانہ پر جذبات شکر گزاری
خطبہ جمعہ یکم جولائی 2011ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
فَاذْکُرُوْنِیٓ اَذْکُرْکُمْ وَاشْکُرُوْلِیْ وَلَا تَکْفُرُوْنِ(البقرۃ: 153)
پس میرا ذکر کیا کرو میں بھی تمہیں یاد رکھوں گا اور میرا شکر کرو اور میری نا شکری نہ کرو۔
الحمد للہ کہ گزشتہ اتوار کو جماعت احمدیہ جرمنی کا جلسہ سالانہ اپنے اختتام کو پہنچا۔ اس مرتبہ نئی جگہ پر جلسہ منعقد کرنے کی وجہ سے یہاں جماعت جرمنی کی انتظامیہ اور امیر صاحب کو ایک شوق اور ایک excitement بھی تھی۔ ایک نئے جوش کا اظہار تھا اور یہ یقینا باقی افرادِ جماعت کو بھی ہو گا کیونکہ جلسہ کی پہلی جگہ منہائم جو تھی، وہاں صرف ایک ہال تھا اور وہ بھی تنگ پڑ رہا تھا۔ پھر عورتوں کے لئے مارکی لگانی پڑتی تھی جس میں گرمی کے دنوں میں بیٹھنا مشکل ہو جاتا تھا، خاص طور پر بچوں والی عورتوں کے لئے۔ جبکہ یہاں جو نئی جلسہ گاہ ہے کارلسرروئے (Karlsruhe)، یہاں بڑے ائیر کنڈیشنز ہالوں کی سہولت موجود تھی۔ بعض اور سہولتیں بھی تھیں، اس لئے قدرتی بات ہے کہ ان سہولتوں کی وجہ سے خوشی یا excitementتھی لیکن وہاں نئی جگہ ہونے کی وجہ سے ان سہولتوں اور ایک ہی چھت کے نیچے تقریباً تمام انتظامات ہونے کے باوجود ایک فکر بھی سب کو تھی اور یہ فکر قدرتی بات ہے، ہونی چاہئے اور ایک مؤمن کی یہ خاصیت ہے کہ اُسے فکر رہتی ہے کہ کہیں اُس کی ذاتی خواہش اور پسند یا بشری غلطیوں کی وجہ سے کوئی ایسی بات نہ ہو جائے جو انتظامات میں کسی خرابی کا باعث ہو یا کسی مخفی معصیت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا باعث ہو کر بعض مسائل پیدا نہ ہو جائیں جن تک انسان کی نظر رسائی نہیں کر سکتی۔ لیکن بہر حال اللہ تعالیٰ نے اپنا خاص فضل فرمایا اور ایک شوق اور نئے جوش اور فکر کو ساتھ ساتھ رکھتے ہوئے انتظامیہ اللہ تعالیٰ کے حضور جھکی بھی رہی اور افسر صاحب جلسہ سالانہ جو تھے وہ تو بار بار بڑی فکر کے ساتھ اس دوران میں بھی مجھے دعا کے لئے کہتے بھی رہے۔ اور یہی ایک مومن کی شان ہے کہ وہ اپنے ہر کام کو اپنی طرف منسوب کرنے کی بجائے خدا تعالیٰ کے فضلوں کی طرف منسوب کرتا ہے اور اس کی مدد چاہتا ہے اور جب ایسی صورت ہو تو پھر اللہ تعالیٰ بھی اپنے بندوں کی مدد فرماتا ہے۔ اور جلسوں کے بارے میں تو اللہ تعالیٰ نے ویسے بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو حکم فرمایا تھا کہ ان کا انعقاد کرو تا کہ جماعت کے مخلصین ایک جگہ جمع ہو کر اپنی دینی اور روحانی ترقی کے بھی اہتمام کریں اور سامان کریں اور ایک دوسرے کو مل کر آپس کی محبت کو بھی پروان چڑھائیں۔ پس جب یہ نیک ارادے اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ایک کام کیا جا رہا ہو اور اُس کی خاطر جمع ہونے والے لوگوں کے لئے بہتر سہولتوں اور انتظامات کی کوششیں کی جا رہی ہوں تو پھر اللہ تعالیٰ تو ایسے کاموں میں برکت ڈالتا ہی ہے۔ پس اگر یہاں اس نئی جگہ پر اگر کوئی کمیاں یا خامیاں رہ بھی گئی تھیں جو نئی جگہ پہلی مرتبہ جلسہ منعقد ہونے کی وجہ سے رہ بھی جائیں تو کوئی ایسی اچھنبے کی بات نہیں ہے لیکن چونکہ انتظامیہ کی نیت نیک ہوتی ہے اس لئے اللہ تعالیٰ پردہ پوشی فرماتا ہے اور فرمائی ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کی اس پردہ پوشی کی وجہ سے انتظامیہ کو اللہ تعالیٰ کا بہت زیادہ شکر گزار ہونا چاہئے۔
آج دنیائے احمدیت میں ہر ملک میں جلسے منعقد ہو رہے ہیں اور تقریباً سارا سال ہی یہ تسلسل رہتا ہے۔ گزشتہ ہفتے میں جیسا کہ مَیں نے کہا اور ہم سب جانتے ہیں کہ جرمنی کا جلسہ تھا تو آج سے امریکہ اور کینیڈا کے جلسے شروع ہو رہے ہیں۔ جو فکریں گزشتہ ہفتے یہاں کی انتظامیہ کو تھیں، وہی فکریں اور دعاؤں کی کیفیت آج کینیڈا اور امریکہ کی جلسہ کی انتظامیہ کو ہو گی، اور ہونی چاہئے۔ لیکن جب شاملینِ جلسہ بھی انتظامیہ کی اس فکر کو سمجھ لیں اور اپنے آپ کو مہمان سمجھنے کی بجائے اُس نظام کا حصہ سمجھتے ہوئے مددگار بن جائیں تو انتظامیہ کی پریشانیاں بھی کم ہو جاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا بڑا احسان ہے کہ عموماً شامل ہونے والے اپنے رویّوں، عمل اور دعاؤں سے مددگار بنتے ہیں اور جرمنی کی جماعت نے اس سال عمومی طور پر بھی جماعتی انتظامیہ سے یعنی افرادِ جماعت نے جماعتی انتظامیہ سے بہت تعاون کیا ہے۔ اللہ کرے کہ اس وقت امریکہ اور کینیڈا کے جو جلسے آج شروع ہو رہے ہیں وہاں بھی ہر شامل ہونے والا روحانی مائدہ سے اپنی جھولیاں بھرنے کی فکر کرتے ہوئے جلسے میں شامل ہو اور بھر پور فائدہ اُٹھانے اور اپنے مقصدِ پیدائش کو پہچاننے کی کوشش کرے تا کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مشن کو آگے بڑھانے والے ہوں۔ صرف میلہ سمجھ کر شامل نہ ہوں اور صرف ملاقاتوں اور خوش گپیوں میں وقت گزارنے والے نہ ہوں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب عموماً ہر جگہ دنیا میں جہاں بھی جلسے ہوتے ہیں، تقریروں کے معیار بھی بہت اچھے ہوتے ہیں۔ اللہ کرے کہ شاملینِ جلسہ ان سے بھر پور فائدہ اُٹھائیں اور جو باتیں سنیں انہیں اپنی زندگیوں کا حصہ بنانے والے بھی ہوں۔ آج جیسا کہ مَیں نے کہا کینیڈا اور امریکہ کے جلسے ہو رہے ہیں، اللہ تعالیٰ اُن کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔
عموماً مَیں جن جلسوں میں شامل ہوتا ہوں اُس کے بعد شکر گزاری کے مضمون کے حوالے سے جلسوں اور دَوروں کا مختصر ذکر بھی کر دیتا ہوں۔ آج بھی یہی مضمون رکھوں گا لیکن جلسے کے حوالے سے کینیڈا اور امریکہ کے جلسوں کا ذکر بھی بیچ میں اس لئے بیان کر دیا تھا کہ یہ دو بڑی جماعتیں ہیں جہاں جلسے منعقد ہو رہے ہیں اور یہ دنیا میں منعقد ہونے والے جلسے بھی اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور احسانوں کے ایک لا متناہی سلسلے کو لئے ہوئے ہیں۔ اور جیسا کہ مَیں نے پہلے بھی اپنے بعض خطبات میں بیان کیا ہے کہ بحیثیت جماعت آج جماعت احمدیہ ہی ہے جس پر چوبیس گھنٹے دن چڑھا رہتا ہے۔ یہاں اگر اس وقت دوپہر کا وقت ہے اور سورج ڈھل رہا ہے تو امریکہ اور کینیڈا میں یہ سورج ضحی کا نظارہ پیش کر رہا ہے۔ اور صرف جماعتِ احمدیہ ہے جس میں بحیثیت جماعت اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے کوئی نہ کوئی پروگرام ہر وقت بن رہے ہیں یا پیش کئے جا رہے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ کے ان فضلوں کو گننا اور اُن کا شکر کرنا، اُن کا احاطہ کرنا ہمارے لئے ممکن ہی نہیں ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنے ایک شعر میں فرماتے ہیں کہ
کس طرح تیرا کروں اے ذوالمنن شکر و سپاس
وہ زباں لاؤں کہاں سے جس سے ہو یہ کاروبار
پس اللہ تعالیٰ کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ یہ سلوک آج بھی بڑی شان کے ساتھ پورا ہو رہا ہے۔ ہر روز نہیں بلکہ ہر لمحہ شکر گزاری کے نئے مضامین دکھاتے ہوئے گزرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل و احسان کو لے کر آتا ہے اور جب تک ہم اپنے اس مقصد کے ساتھ چمٹے رہیں گے جس کو لے کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تشریف لائے تھے ہم یہ نظارے انشاء اللہ تعالیٰ دیکھتے رہیں گے۔
اللہ تعالیٰ کے ان فضلوں پر ہم کس طرح شکر گزار ہو سکتے ہیں، اس بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’تمہارا اصل شکر تقویٰ اور طہارت ہی ہے‘‘۔ پھر فرمایا: ’’اگر تم نے حقیقی سپاس گزاری یعنی طہارت اور تقویٰ کی راہیں اختیار کر لیں تو مَیں تمہیں بشارت دیتا ہوں کہ تم سرحد پر کھڑے ہو، کوئی تم پر غالب نہیں آ سکتا‘‘۔ (ملفوظات جلد اول صفحہ 49۔ ایڈیشن2003ء)
پس اس شکر گزاری کے طریق کو ہم نے اپنانا ہے اور اپنی زندگیوں کا حصہ بنانا ہے۔ انہوں نے بھی جو جلسوں میں شامل ہونے کے لئے جمع ہو رہے ہیں اور انہوں نے بھی جن پر اللہ تعالیٰ نے اپنا فضل فرمایا اور اُن کے جلسے خیریت سے اختتام کو پہنچے۔ پس ہر احمدی جو جلسے میں شامل ہوا ہے اب اپنے تقویٰ کے معیار کو بڑھانے کی ہمیشہ کوشش کرتا رہے اور پھر جیساکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے دنیا کی کوئی طاقت نہیں ہے جو ہمارے غلبے میں روک ڈال سکے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے وعدے کے مطابق غلبہ تو انشاء اللہ تعالیٰ، اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو عطا فرمانا ہے۔ اس کا یہ مطلب ہے کہ اگر ہم تقویٰ سے چمٹے رہے تو ہم بھی اُس غلبے کا حصہ بن جائیں گے جو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت کو عطا فرمانا ہے۔
پس ہمیشہ ہر احمدی کو جو کینیڈا، امریکہ یا یورپ کے امیر ممالک میں رہتا ہے یا دنیا کے کسی بھی ملک میں رہتا ہے یہ یاد رکھنا چاہئے کہ ہمارے غلبے کے ہتھیار نہ مغربی ملکوں میں آنا ہے، نہ یہاں کی آسانیاں ہیں اور آسائشوں کے ساتھ یہاں رہنے میں ہے، نہ یہ غلبہ کسی دولت سے ہونا ہے، نہ یہ غلبہ کسی دنیاوی کوشش سے ہونا ہے بلکہ غلبے کے ہتھیار جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ تقویٰ میں بڑھنا ہے۔ اور اس تقویٰ میں بڑھنے سے یہ غلبہ ہونا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو سال کے چند دن لوگوں کو ایک جگہ جمع کر کے، اپنی جماعت کے افراد کو تقویٰ کی ٹریننگ دینے کا ارشاد فرمایا ہے، یہ اس لئے ہے کہ جو زنگ لگے ہیں وہ دھل جائیں۔ آپس میں مل کے بیٹھیں، ایک دوسرے کی باتیں سنیں، محبت اور پیار کی فضا پیدا ہو اور ایک نئے سرے سے ایک احمدی چارج ہو کر پھر اپنے مقصدِ پیدائش کے حصول کی کوشش کرے۔ اپنی علمی پیاس بجھائے، اپنی تربیت کے سامان کرے۔ روحانیت میں آگے بڑھنے کی طرف قدم بڑھائے۔ پس ایک ہفتہ بعد جرمنی والے بھی صرف جرمنی کے کامیاب اور بارونق جلسے کا صرف ذکر ہی باقی نہ رکھیں۔ صرف یہی یادنہ رہے کہ فلاں مقرر کی تقریر اچھی تھی، فلاں نے نظم اچھی پڑھی، بلکہ جو کچھ سنا ہے اسے اب اپنی زندگی کا حصہ بنائیں اور یہی جذبہ ہے جسے لے کر کینیڈا اور امریکہ کے احمدی اپنے جلسوں کی کارروائی سنیں۔ جب یہ حالتیں ہوں گی تو ہم حقیقی رنگ میں اُس شکر گزاری میں شامل ہونے والوں میں سے ہو جائیں گے جس کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزانہ طورپر یہ عرض کیا ہے کہ’’کس طرح تیرا کرو اے ذوالمنن شکر و سپاس‘‘۔ ہر لمحہ ہمیں خدا تعالیٰ کے احسانوں کو یاد کر کے اپنے دل ودماغ کو اسی آس سے تازہ رکھنا چاہئے۔ ہر لمحہ ہمیں اللہ تعالیٰ کی یاد سے اپنی زبانوں کو تر رکھ کر اپنی شکر گزاری کا اظہار کرنا چاہئے۔ ہر لمحہ ہمیں اپنے عملوں کو اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق ڈھال کر اپنے جسم کے ذرّہ ذرّہ کو خدا تعالیٰ کا شکر گزار بنانا چاہئے اور پھر جب ہماری یہ حالت ہو جائے گی تو اللہ تعالیٰ بھی ہمیں اپنی رحمتوں اور فضلوں کی چادر میں مزید لپیٹ لے گا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ فَاذْکُرُوْنِیٓ اَذْکُرْکُمْ۔ پس تم میرا ذکر کیا کرو میں بھی تمہیں یاد رکھوں گا۔ وَاشْکُرُوْلِیْ وَلَا تَکْفُرُوْن۔ اور میرا شکر کرو اور میری نا شکری نہ کرو۔ پس جب بندہ خدا تعالیٰ کا ذکرکرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے بندے کا کوئی عمل بغیر جزا کے نہیں جانے دیتا بلکہ کئی سو گنا تک جزا دیتا ہے۔ اُس سے بڑھ کر پھراللہ تعالیٰ ذکر کا وعدہ فرماتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنا کیا ہے؟ جب اللہ کہے کہ مَیں بندے کا ذکر کرتا ہوں تو وہ ذکر کیا ہے؟ جب اللہ تعالیٰ ذکر کرتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ بندے کو اپنے انعامات سے نوازتا ہے۔ اور جب اللہ تعالیٰ بندے کے مسلسل ذکر کی وجہ سے اُسے اپنے انعامات سے نوازتا ہے اُسے یاد رکھتا ہے تو پھر نیکیاں بجا لانے اور تقویٰ پر چلنے کا ایک نیا سلسلہ شروع ہو جاتاہے۔ نئے معیار قائم ہونے لگتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے قریب کرنے کے نئے نئے راستے دکھاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ایسے بندے کو ہر وقت یاد رکھتا ہے، مشکلات سے اُسے نکالتا ہے، آفات سے اُسے بچاتا ہے۔ پس بندہ جب خدا تعالیٰ کا ذکر کرتا ہے تو اُسے سب طاقتوں کا مالک سمجھ کر اُس کی پناہ میں آنے کے لئے، اُس کی مدد حاصل کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتا ہے اور جب خدا تعالیٰ فرماتا ہے ’’اَذْکُرْکُمْ‘‘ کہ مَیں تمہارا ذکر کروں گا، تمہیں یاد رکھوں گا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے ایسے بندے کو انعامات سے نوازے گا، اُسے اپنی پناہ میں لے لے گا، اُس کے دشمن سے خود ہی نپٹے گا اور بدلے لے گا۔ اُس کے لئے ہر قسم کے رزق کے ایسے دروازے کھولے گا جس کا بندے کو وہم و گمان بھی نہیں ہو گا۔ اور ایسے قرب پانے والے لوگ ہی ہیں جن کے خلاف دنیا والے ہزار کوشش کرلیں اُن کو اُن کے مقاصد کے حصول سے نہیں روک سکتے۔ پس جماعت احمدیہ کی ترقی ایسے ذکر کرنے والوں سے ہی خدا تعالیٰ نے وابستہ فرمائی ہے۔ اور یہی ذکر ہے جو ہر فردِ جماعت کی دنیا و آخرت سنوارنے والا بنے گا۔ اور اُس بندے کو حقیقی شکر گزار بنائے گا۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ذکر کے مضمون کے ساتھ ہی شکر کا مضمون بھی جاری فرما دیا ہے۔ خدا تعالیٰ کو یاد رکھنے کی وجہ سے خدا تعالیٰ بندے کو انعام و اکرام سے نوازتا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا فعل ہے۔ اور پھر ان انعامات کو دیکھ کر جب بندہ شکر گزاری کا اظہار کرتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا ایک اور دَور شروع ہو جاتا ہے، ایک نیا سلسلہ انعامات شروع ہو جاتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں آخر میں پھر اس طرف توجہ دلائی ہے کہ دیکھنا کبھی ناشکرگزاروں میں سے نہ ہونا، وَلَا تَکْفُرُوْن، کبھی ان نعمتوں کو ردّ کرنے والے نہ بن جانا۔ اب کون عقلمند ان تمام فضلوں اور نعمتوں کو دیکھ کر پھر اُنہیں ردّ کرنے والا بن سکتا ہے۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ انسان لا شعوری طور پر اُن کو ردّ کرنے والا اور ناشکر گزار بن جاتا ہے۔ جب انسان اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل نہیں کرتا تو بے شک وہ زبان سے اللہ تعالیٰ کے ذکر کا اظہار کرے لیکن عملی طور پر وہ اللہ تعالیٰ کی یاد کا اظہار نہیں کر رہا ہوتا۔ دنیا میں جب ایک انسان دوسرے انسان کی بہت زیادہ چاہت اور یاد دل میں بسائے ہوئے ہو تو اُس کے منہ کو دیکھتا ہے۔ یہ دیکھتا ہے کہ کس طرح مَیں اُس کی خواہشات کو پورا کروں؟ کب وہ کوئی بات کرے اور میں اُس پر عمل کروں۔ تو اگر اللہ تعالیٰ کی یاد کا دعویٰ ہے تو اللہ تعالیٰ کی طرف دیکھنا بھی ضروری ہے۔ اُس کے احکامات پر نظر رکھنا بھی ضروری ہے۔ اُس کی دی ہوئی نعمتوں کا شکر گزاری کے جذبات کے ساتھ صحیح استعمال بھی ضروری ہے۔ اور پھر جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے وہ کیفیت طاری ہوتی ہے جو صحیح شکر گزاری کی کیفیت ہے جو تقویٰ سے پیدا ہوتی ہے۔ اور اگر یہ حقیقی تقویٰ نہیں توپھر یہ کفرانِ نعمت ہے اور اللہ تعالیٰ کی ناشکری ہے۔ اس ایک آیت میں اللہ تعالیٰ نے مومن کے لئے ایسے راستے متعین کر دئیے ہیں جو شکر گزاری سے نکل کر خدا تعالیٰ کا قرب دلانے والے بن جاتے ہیں، اُس کے ذکر سے نکل کر اُس کی شکر گزاری میں لاتے ہیں۔ پھر اُس کو اللہ تعالیٰ کے قریب ترین کرنے والے بن جاتے ہیں۔ اور یہی ایک مومن کی خواہش ہونی چاہئے اور ہوتی ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرے۔ پس یہ مضمون ہے جو ہر احمدی کو اپنے میں جاری کرنا چاہئے۔
اب مَیں جیسا کہ مَیں کہہ چکا ہوں جلسہ جرمنی کے حوالے سے چند باتیں کروں گا۔ جیسا کہ میں نے کہا کہ اس دفعہ نئی جگہ تھی اس لئے جہاں بعض سہولتیں نظر آئیں اور آرام دِہ انتظام ہوا وہاں بعض خامیاں بھی رہ گئی ہوں گی بلکہ رہی ہیں لیکن یہ کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس سے انتظامیہ کو بہت زیادہ موردِ الزام ٹھہرایا جائے اور پریشان کیا جائے۔ سو فیصد perfection تو کسی انسانی کام میں ہو ہی نہیں سکتی۔ یہ کاملیت تو صرف خدا تعالیٰ کی ذات میں ہے اس لئے انسانی کاموں میں بہتری کی ہر وقت گنجائش رہتی ہے اور اُس کے لئے اللہ تعالیٰ نے دعا کے مضمون کی طرف توجہ دلائی ہے کہ بندے کا کام ہے کہ عمل کرو۔ جو طریقے ہیں وہ اختیار کرو۔ اپنی کوشش پوری کرو پھر معاملہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دو اور دعا کرو کہ باقی جو کمیاں رہ گئی ہیں اللہ تعالیٰ اُن کو خود پورا فرمائے۔ اور پھر جو نتائج پیدا ہوتے ہیں اُس کے لئے اللہ تعالیٰ نے شکر گزاری کی طرف بھی توجہ دلائی ہے تا کہ اِن خامیوں اور کمیوں میں مزید بہتری پیدا ہو سکے۔ جب انسان ایک چیز بہتر کرتا ہے تو اُس پر شکر گزاری کرے تو اللہ تعالیٰ پھر اگلا قدم بہتری کی طرف لے جاتا ہے۔ اور یہی سبق ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنے عمل سے دیا ہے۔
بعض باتیں جو مَیں نے نوٹ کی ہیں یا جو مجھے بتائی گئیں اُن میں آئندہ بہتری کے لئے اُن کا ذکر کر دیتا ہوں۔ لیکن اس سے پہلے میں اُن لوگوں سے جو صرف تنقید کرنا جانتے ہیں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اگر آپ لوگ حقیقت میں بہتری کے خواہش مند ہیں تو ادھر اُدھر باتیں کرنے کی بجائے انتظامیہ کو اپنے مشورے دیں۔ اُن کو نقائص بتائیں جو آپ نے دیکھے اور کام کرنے والوں کے لئے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اُنہیں آئندہ مزید بہتر رنگ میں کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اور انتظامیہ کو بھی کھلے دل کے ساتھ توجہ دلانے والوں کی باتوں پر غور کرنا چاہئے اور جلسے کی ایک لال کتاب ہوتی ہے جس میں تمام خامیوں کا ذکر ہوتا ہے اِن کمیوں کو جو حقیقت میں کمیاں ہیں اور جن کے بارے میں توجہ دلائی گئی ہے اُس میں ان کو تحریر کیا جانا چاہئے۔
ایک کمی جس کا انتظامیہ کوبھی احساس ہو چکا ہے وہ ماحول میں، مردانہ ہال میں بھی، زنانہ ہال میں بھی آواز کی گونج تھی جس کی وجہ سے پہلے دن میرا خطبہ ہال میں بیٹھے ہوئے تقریباً 1/4 حصہ لوگوں کو صحیح طرح سے سمجھ نہیں آ سکا یا وہ سن نہیں سکے۔ بعد میں انتظامیہ نے اس کی اصلاح کی کوشش بھی کی اور کچھ بہتری بھی پیدا ہوئی لیکن واضح بہتری پھر بھی نہیں تھی۔ اس لئے آئندہ سال یا تو ساؤنڈ سسٹم کو ٹھیک کرنا ہو گا یا سٹیج کی جگہ کو بدل کر ٹھیک کرنا ہو گا جیسا کہ بعض لوگوں کا خیال ہے، یا کوئی اَور نقص جو بھی ہے اُس کو معلوم کرنا ہو گا اور اُسے ٹھیک کرنا ہو گا۔ اس چیز کو دیکھنا بہت ضروری ہے۔ اس کے بغیر تو انتظامی لحاظ سے لوگوں کو خاموشی سے بٹھانا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ اگر آواز نہ آ رہی ہو۔ مرد تو شاید خاموشی سے بیٹھے رہتے ہیں لیکن وہاں بھی جو چھوٹی عمر کے بچے ہیں، دس بارہ سال کے، وہ نہیں بیٹھ سکتے۔ مرد یا بیٹھے رہیں گے یا وہاں سے اُٹھ کر چلے جائیں گے۔ لیکن عورتوں کو اور خاص طور پر بچوں والے ہال میں عورتوں اور بچوں کو خاموش کروانا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ لیکن اس دفعہ میں نے عورتوں میں ایک اچھی بات دیکھی ہے کہ کم از کم میری تقریر کے دوران باوجود اس کے کہ میری آواز واضح اُن تک نہیں پہنچ رہی تھی اور اس کے لئے کئی مرتبہ پیچھے بیٹھی ہوئی خواتین نے انتظامیہ کو پیغام بھی بھیجے کہ آواز کو درست کرو لیکن مجبوری تھی آواز ٹھیک نہیں ہو سکتی تھی، لیکن اس کے باوجود بڑی خاموشی اور تحمل سے خواتین بیٹھی رہیں اور اتنی خاموشی اور تحمل میں نے پہلی دفعہ جرمنی کی عورتوں میں دیکھا ہے۔ بعض کے نزدیک شاید اس کی یہ بھی وجہ ہو کہ ہال ائیر کنڈیشن تھے اور باہر گرمی تھی اس لئے بیٹھنا ہی بہتر تھا لیکن ہمیں حسنِ ظن سے بھی کام لینا چاہئے۔ عمومی طور پر جب سے میں نے لجنہ کو تقریباً تین چار سال پہلے یہ وارننگ دی تھی کہ اگر شور کیا تو اُن کا جلسہ نہیں ہو گا، بہتری کی طرف بہت زیادہ رجحان ہے۔ ایک نقص اس وجہ سے بھی پیدا ہوا کہ اس دفعہ بچوں کو بھی ایک ہی ہال میں بٹھا دیا گیا۔ گو پارٹیشن کی گئی تھی لیکن پردے سے آواز نہیں رُک سکتی اور بچوں کی جگہ پر ظاہر ہے کہ شور ہوتا ہے۔ یہ شور بعض دفعہ مین ہال (Main Hall) میں بھی ڈسٹرب کرتا تھا۔ اس کا بھی آئندہ سال کوئی بہتر انتظام ہونا چاہئے۔ باقی کچھ اور چھوٹی موٹی کمیاں اور خامیاں ہیں جن کو دور کرنے کی انتظامیہ کو آئندہ سال کوشش کرنی چاہئے اور لوگوں سے پوچھنا چاہئے کہ اگر انہوں نے کوئی چیز دیکھی ہے تو بتائیں تا کہ آئندہ سال بہتر انتظامات ہو سکیں۔ جلسے کی لال کتاب میں یہ درج کریں اور ان کی بہتری کے بارے میں جلسہ سالانہ کی جو کمیٹی ہے وہ غور کرے۔ ہمارے قدم ہمیشہ بہتری کی طرف بڑھنے چاہئیں۔ عمومی طور پر تو اللہ تعالیٰ یہ نظارے ہمیں ہر جگہ دکھاتا ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ بہتری کی طرف قدم بڑھ رہے ہیں اور جو غیر مہمان جرمنی سے بھی اور دنیا کے مختلف ممالک سے خاص طور پر ہمسایہ ممالک سے آئے ہوئے تھے، اُنہوں نے اچھا تاثر لیا ہے، اُن کو تو ہمارے انتظامات بہت اچھے لگے ہیں لیکن اپنے اندر خامیاں تلاش کرتے ہیں تا کہ مزید بہتری پیدا ہو۔
مَیں نے مہمانوں میں سے جس سے بھی پوچھا ہے وہ انتظامات اور لوگوں کے آپس کے محبت اور پیار اور ڈیوٹی دینے والوں کے رویّوں سے بہت اچھا تاثر لے کر گئے ہیں۔ پس یہ جلسہ بھی ہماری تبلیغ کا ذریعہ بنتے ہیں اس لئے ہر احمدی کو جیسا کہ مَیں ہمیشہ کہا کرتا ہوں کہ ان دنوں میں خاص طور پر اس سوچ کے ساتھ رہنا چاہئے کہ ہم احمدیت کے سفیر ہیں، ہمارے نمونے ہیں جو دنیا نے دیکھنے ہیں۔ اس دفعہ بلکہ ہر دفعہ ہوتا ہے ہر جلسے پر، بعض بیعتیں بھی یہ سارا ماحول دیکھ کر ہوئی ہیں۔ بعض لوگ جو قریب تھے انہوں نے جب جلسے کا ماحول دیکھا اور لوگوں کے رویے دیکھے تو اُن پر اچھا نیک اثر ہوا اور انہوں نے بیعت کرنے کا اظہارکیا اور جلسہ کے بعد انہوں نے فوراً بیعت کر لی۔ لیکن ایک ایسا واقعہ بھی میرے علم میں آیا ہے کہ کسی کا بٹوہ چوری ہو گیا۔ ہو سکتا ہے کچھ اور واقعات بھی ایسے ہوئے ہوں اور شرم کی بات یہ ہے کہ وہ جس کا بٹوہ چوری ہوا وہ نو مبائع جرمن نوجوان تھا۔ اُس نے اس واقعہ کو اپنی تربیت کے اثر کے طور پر بیان کیا ہے۔ لیکن خدمتِ خلق کی ڈیوٹی دینے والوں کے لئے یہ بڑی فکر کی بات ہے۔ ایسے واقعات ہوتے تو ہیں لیکن اگر پوری نگرانی کی جائے اور اس جگہ تو پوری نگرانی ہو سکتی تھی توایسے واقعات کو کم سے کم کیا جا سکتا ہے بلکہ کوشش یہ ہونی چاہئے کہ سو فیصد ختم کئے جائیں۔ اُس نوجوان نے تو جس کا میں ذکر کر رہا ہوں مجھے اس طرح بیان کیا تھا کہ مَیں بہت سخت غصے والا تھا، ہر چھوٹی چھوٹی بات پر مجھے غصہ آ جایا کرتا تھا اور بڑا لڑنے اور مرنے مارنے پر آمادہ ہو جاتا تھا لیکن یہ سب باتیں احمدی ہونے سے پہلے کی تھیں۔ کہنے لگا کہ اگر مَیں سوچوں کہ میرے احمدی ہونے سے پہلے اگر میرے ساتھ یہ واقعہ ہوا ہوتا اور میرا بٹوہ چوری ہو جاتا تو مَیں نے وہاں کھڑے ہوئے ہر شخص سے لڑنا تھا اور شور مچا کر انتظامیہ کی بھی بری حالت کر دینی تھی لیکن احمدیت نے مجھے صبر سکھایا ہے اور مَیں نے اس بات کو محسوس نہیں کیا۔ کہنے لگا یہ بہت بڑی تبدیلی ہے جو مَیں نے احمدی ہونے کے بعد اپنے اندر محسوس کی ہے کہ احمدیت کی وجہ سے انتہائی غصیلہ ہونے والا شخص اتنا نرم ہو جائے۔ یہ خدا تعالیٰ کے فضل کے بغیر ہو ہی نہیں سکتا۔ تو یہ سبق ہے اُن احمدیوں کے لئے بھی جو لمبا عرصہ تربیت میں رہنے کے باوجود غصے پر کنٹرول نہیں رکھتے اور ذرا ذرا سی بات پر لڑائیاں شروع ہو جاتی ہیں۔ پس احمدی ہونے کی ایک پہچان اپنے جذبات کو کنٹرول کرنے کی بھی بنائیں کہ ہم احمدی ہیں، ہم نے اپنے جذبات کو کنٹرول رکھنا ہے، صبر کا مظاہرہ کرنا ہے۔
بہر حال جو بعض نقائص سامنے آتے ہیں اُس سے بعض تربیتی پہلو بھی نکل آتے ہیں، بعض سبق بھی مل جاتے ہیں۔ عمومی طور پر احبابِ جماعت نے جو تعاون کیا ہے اُس پر انتظامیہ کو بھی اُن کا شکر گزار ہونا چاہئے اور کارکنان نے جس محنت اور ذمہ داری سے عمومی طور پر اپنی ڈیوٹی دی ہے اُس پر شاملینِ جلسہ کو بھی اُن کا شکر گزار ہونا چاہئے۔
جرمنی میں افرادِ جماعت میں عمومی طور پر اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت زیادہ اخلاص و وفا کے جذبات ابھرے ہوئے ہیں۔ اس کے نظارے مَیں نے جلسہ پر بھی دیکھے ہیں اور مختلف جگہوں پر مسجدوں کے افتتاح کے لئے گیا ہوں تو وہاں بھی دیکھے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس اخلاص و وفا کو ہمیشہ بڑھاتا چلا جائے۔ خاص طور پر نوجوانوں کو میں نے اخلاص میں بڑھا ہوا پایا ہے۔ جماعت میں کمزور لوگ بھی بیشک ہوتے ہیں لیکن ایک کمزور ہوتا ہے، ایک ٹیڑھا پَن دکھاتا ہے تو اللہ تعالیٰ سینکڑوں ہزاروں مخلص وفا شعار کھڑے کر دیتا ہے۔ ایسے لوگ کھڑے کر دیتا ہے جو اپنے نمونے دکھانے والے ہوتے ہیں۔ پس یہ خوبصورتی ہے جماعت احمدیہ کی جو آج ہمیں کسی اور جگہ نظر نہیں آتی۔ اللہ تعالیٰ اس میں مزیدنکھار پیدا کرتا چلا جائے۔
جلسہ کے حوالے سے ایک اہم کام وائنڈاَپ (Wind Up) کا ہوتا ہے اور خاص طور پر اُس وقت جب جگہ محدود دنوں کے لئے کرائے پر لی گئی ہو اور اس دفعہ نئی جگہ کے حوالے سے یہ فکر بھی تھی کہ تمام جلسہ گاہ کو وقت پر سمیٹنا ہے تا کہ ایک تو رقم زیادہ خرچ نہ ہو اور اس کے لئے صرف دو دن تھے، نہیں تو زائد کرایہ دینا پڑنا تھا۔ دوسرے اس لئے بھی کہ اُن لوگوں پر جن سے اب تعلق بن رہے ہیں جماعت کا منفی اثر نہ پڑے۔ الحمدللہ کہ اندرونی ہال تو کارکنان اور احبابِ جماعت نے وقارِ عمل کر کے میری رپورٹ کے مطابق دو دن کے اندر خالی کر دیا ہے اور باہر کی جگہ میں گو ایک زائد دن لگ گیا لیکن جتنا وسیع انتظام تھا اُس لحاظ سے یہ بھی اچھے وقت میں ہو گیا۔ اس دفعہ جلسے کے پہلے کے وقارِ عمل میں بھی اور بعد کے وائنڈاَپ میں بھی پاکستان سے نئے آئے ہوئے اسائلم لینے والوں کا بھی بہت بڑا طبقہ شامل ہوا ہے، انہوں نے بڑی محنت کی ہے۔ وہ ہمیشہ یہ یاد رکھیں، اُن اسائلم والوں سے مَیں کہتا ہوں کہ باہر آ کر اس بات کو کبھی نہ بھولیں کہ جماعت کے بغیر اُن کی کوئی زندگی ہے۔ جماعت کے بغیر اُن کی کوئی زندگی نہیں ہے۔ شاید اس کے بغیر تھوڑی سی دنیا تو اُن کو مل جائے لیکن نسلیں برباد ہو جائیں گی۔ اس لئے ہمیشہ جماعت اور نظامِ جماعت سے جُڑے رہیں۔ جیسا کہ مَیں نے کہا کہ عمومی طور پر باہر سے آئے ہوئے غیر از جماعت مہمانوں نے بڑا اچھا اثر لیا ہے۔ وفود بھی مجھے ملے ہیں، افراد بھی ملے ہیں۔ جو بار بار آنے والے ہیں اُن کی نظروں میں پہچان اور محبت بڑھ رہی ہے، احمدیت کے قریب آ رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ جلد اُن کے سینے کھلیں اور وہ احمدیت یعنی حقیقی اسلام کو ماننے والے ہوں۔ الفضل میں رپورٹس شائع ہوں گی تو وہاں سے بھی کچھ تفصیلات لوگوں کو مل جائیں گی، اُن لوگوں کے تاثرات مل جائیں گے۔ بہر حال مختصر مَیں بھی بتا دیتا ہوں۔ ایک عیسائی دوست ہیں مالٹا سے اپنی اہلیہ کے ساتھ شامل ہوئے ہیں، دوسری دفعہ شامل ہوئے ہیں، پڑھے لکھے ہیں، اخبارات میں آرٹیکل لکھتے ہیں وہاں کی بعض حکومتی کمیٹیوں کے ممبر بھی ہیں۔ کہنے لگے مَیں نے تمہاری تقریروں سے بعض پوائنٹس نوٹ کئے ہیں اور انہوں نے ڈائری دکھائی کہ اُس پر وہ پوائنٹس نوٹ کرتے رہے ہیں۔ اور وہ کہنے لگے کہ اب ان پر جا کر مَیں لکھوں گااور خاص طور پر مجھے کہا کہ تمہاری آخری تقریر مجھے بہت پسند آئی ہے، اُس کے بھی مَیں نے پوائنٹس لکھ لئے ہیں۔ اب آخری تقریر جو خالصتاً جماعتی تربیت کے لئے تھی اس میں بھی اُن کو اپنے لحاظ سے بعض باتیں مل گئیں۔ اسی طرح ایک عیسائی وکیل ہیں بلغاریہ سے آئے ہوئے، اکثر آتے ہیں۔ انہوں نے مستورات کی تقریر میں عورتوں کی تربیت اور طلاق خلع کے معاملات جو تھے اُن کو بڑے غور سے سنا اور اِن معاملات نے اُن کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ وہ وکیل ہیں۔ اور انہوں نے کہا کہ مجھے تمہاری جماعت کی یہ بات بہت اچھی لگی ہے کہ صلح صفائی کے لئے تمہارے اندر بھی ایک نظام موجود ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ تم نے بالکل صحیح بات کی ہے کہ برداشت بہت زیادہ کم ہوتی جا رہی ہے اور عمومی طور پر ساری دنیا میں ہی کم ہوتی جا رہی ہے، اور ظاہر ہے اُس کا اثر جماعت پر بھی پڑ رہا ہے۔ اس لئے ہمیں فکر بھی کرنی چاہئے کہ ہم ہمیشہ دنیا کے بد اثرات سے بچے رہیں اور مجھے انہوں نے بتایا کہ عام طور پر ہمارے پاس بھی اب عدالتوں میں طلاق کے واقعات کے کیس بہت زیادہ بڑھ رہے ہیں لیکن جو پسند اُن کو چیز آئی وہ یہی تھی کہ تمہارا تو ایک اندرونی تربیتی نظام بھی ہے۔ ہمارے ہاں وہ بھی نہیں ہے۔ پس غیر بھی باتوں کا اثر لیتے ہیں اور نوٹ کرتے ہیں اور یہ چیزیں اُن کی توجہ کھینچنے کا باعث بن رہی ہیں۔ مَیں تو اس وقت بھی اللہ تعالیٰ کا بہت شکر گزار ہوتا ہوں اور جماعت کو بھی شکر گزار ہونا چاہئے کہ اسلام کی تعلیم کو جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ سے لوگوں تک پہنچانے کا کام اللہ تعالیٰ نے سپرد فرمایا ہے وہ لوگوں کی توجہ کھینچنے کا ذریعہ بنا ہوا ہے۔ لیکن یہ بات ہمارے اُن لوگوں کو بھی توجہ دلانے والی ہونی چاہئے جو تقریروں پر بھی پوری توجہ نہیں دیتے، باتوں کو بھی غور سے نہیں سنتے اور اپنے کوئی معاملات ہوں، جھگڑے ہوں تو نظامِ جماعت کو چھوڑ کر دنیاوی عدالتوں کی طرف جانے کی کوشش کرتے ہیں، جبکہ دنیا والے ہمارے طریق کو پسند کر رہے ہیں کہ یہ بڑا اچھا تربیتی طریق ہے۔
جرمن مہمانوں کے ساتھ ایک علیحدہ پروگرام بھی ہوتا ہے اس میں بھی مجھے اُنہیں مختصر طورپر اسلام کی تعلیم بتانے کی توفیق ملی۔ کیونکہ وہ پروگرام انگلش اور جرمن میں تھااس لئے اُس مجلس میں سے جلسہ میں شامل ہونے والے بھی بہت کم شامل تھے اور شائد ٹی وی پر بھی بہت کم لوگوں نے یہ پروگرام دیکھا ہو لیکن اسلام کا جو پیغام اُن کو پہنچایا گیا، گو میری تقریر وہاں کچھ لمبی ہو گئی تھی لیکن بڑے تحمل سے اُن سب نے سنی اور دو چار وہاں سے اُٹھ کر گئے ہیں وہ بھی اجازت لے کر اور بڑی معذرت کے ساتھ کہ ہماری کچھ اور مصروفیات ہیں جہاں ہمارا پہنچنا ضروری ہے، تب گئے ہیں۔ ایک تاثر ایک مہمان کا بتا دیتا ہوں۔ جب میری تقریر ختم ہوئی ہے تو اُس نے ہمارے ایک احمدی کو کہا کہ مَیں نے اُس وقت گھڑی دیکھی تو پتہ چلا کہ کافی وقت گزر چکا ہے لیکن تقریر اتنی دلچسپ تھی کہ مجھے وقت کا احساس ہی نہیں ہوا۔ پھر مجھے کسی نے امریکہ سے لکھا کہ اُن کے ایک امریکن دوست ہیں اُن کے ساتھ یہ بیٹھے سُن رہے تھے۔ وہ امریکن عیسائی دوست کہنے لگے کہ بڑی ربط والی اور بڑی دلچسپ باتیں تھیں بلکہ اُس نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ پوپ اس طرح نہیں کہہ سکتا یا نہیں کہتا، اُس کی تقریر ایسی نہیں ہوتی۔ تو یہ سب اللہ تعالیٰ کے فضل ہیں اور اسلام کی برتری ہے اور قرآنِ کریم کی برتری ہے جو دنیا پر ظاہر ہو رہی ہے۔ اس میں میری کوئی کوشش نہیں ہے یا کسی مقرر کی کوئی کوشش نہیں ہوتی۔ یہ وہ علم ہے جو اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں بھر دیا ہے اور یہ وہ بیان ہے جس کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعے سے ہم نے حاصل کیا اور آگے پہنچا رہے ہیں۔ جو نیک فطرت ہیں وہ اس کو تسلیم کرتے ہیں اور ان فضلوں کو دیکھ کر دل اللہ تعالیٰ کی حمد سے بھر جاتا ہے۔
احمدی طلباء لڑکوں اور لڑکیوں کی ایسوسی ایشن سے بھی میری میٹنگ ہوئی تو اُنہیں بھی میں نے یہی کہا تھا کہ کسی قسم کے احساسِ کمتری کا شکار ہونے کی بجائے قرآنِ کریم کو رہنما بنا لو اور اپنی تعلیم کے میدان میں اور ریسرچ میں اس کو سامنے رکھتے ہوئے کام کرو تو کوئی تمہارا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہاں بڑی اچھی تعداد طلباء اور طالبات کی تعلیمی میدان میں آگے نکل رہی ہے۔ پس ان کو بھی اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بننا چاہئے کہ خدا تعالیٰ نے اُنہیں اس ملک میں آ کر تعلیمی میدان میں آگے بڑھنے کا موقع عطا فرمایا ہے۔ اب اُن کا فرض ہے کہ اس تعلیمی ترقی کو قرآنِ کریم کی تعلیم کے تابع رکھیں، اسلام کی تعلیم کے تابع رکھیں اور جماعت سے مضبوط تعلق پیدا کر کے اس کے لئے مفید وجود بنیں۔ ایم۔ ٹی۔ اے کا ذکر بھی پہلے ہونا چاہئے تھا وہ رہ گیا۔ ایم۔ ٹی۔ اے جرمنی کے کارکنوں نے بھی دن رات محنت کر کے جہاں اپنے لائیو (Live) پروگرام دکھائے وہاں وقفوں میں اپنے مختلف سٹوڈیو کے پروگرام بھی دکھاتے رہے اور وہ بڑے اچھے پروگرام تھے۔ لندن سے بھی کچھ نوجوان مدد کے لئے آئے ہوئے تھے اور سب نے مل کر جلسے کی کارروائی اور دوسرے پروگراموں کو دنیا تک پہنچایا ہے۔ ابھی تو میں سفر میں ہوں میں نے خطوط وصول نہیں کئے لیکن مجھے امید ہے ہمیشہ کی طرح جب میں انشاء اللہ لندن پہنچوں گا تو خطوط کا انبار ہو گا جو ایم۔ ٹی۔ اے کے لوگوں کو بھی، کارکنوں کے کام کو بھی سراہ رہے ہوں گے۔ اور اس کے لئے شکر گزاری کے جذبات کا اظہار کرتے ہیں اس لئے میں پہلے ہی آپ تک پہنچا دیتا ہوں۔ ایم۔ ٹی۔ اے جرمنی نے اپنا ایک موبائل ٹرک بھی بنایا ہے جو ٹرانسمیشن کے لئے یا کنٹرول کے لئے ہے بہر حال اس میں کچھ گیجٹس (Gadgets) لگائے ہیں جو ان کے کام آ رہا ہے۔ وہ ایڈیٹنگ وغیرہ کے لئے اور دوسرے پروگراموں کے لئے بھی شاید کام آتا ہے وہاں کھڑا کیا گیا تھا۔ بہر حال جو بھی اُس کا مقصد تھا پہلے جو منہائم میں اپنا ایک پورا سسٹم ایک کمرے میں یا کمرہ نما ہال میں شفٹ کرتے تھے، وہ سارا سسٹم اب ان کے ٹرک میں لگ گیا ہے جس کو لے کر ہر جگہ جا سکتے ہیں۔ بہر حال اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایم۔ ٹی۔ اے جرمنی نے بھی بڑی ترقی کی ہے اور بڑی تیزی سے ترقی کر رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ تمام کام کرنے والے کارکنان کو اور والنٹیرزکو جزا عطا فرمائے۔
اس دورہ میں جرمن جماعت کی ایک بات پہلی دفعہ دیکھنے میں آئی ہے کہ انہوں نے پڑھے لکھے لوگوں اور انتظامیہ اور سیاستدانوں سے رابطے خوب بڑھائے ہیں، میڈیا سے بھی رابطے بڑھے ہیں اور خدام الاحمدیہ نے خاص طور پر اور جماعت نے عموماً جماعت کا پیغام لیف لٹس (Leaflets)کے ذریعہ سے پہنچانے میں بڑا کردار ادا کیا ہے` اللہ تعالیٰ ان سب کو جزا دے۔ انہی رابطوں کا اثر ہے کہ مجھ سے بہت سے پڑھے لکھے لوگ اور ڈپلومیٹس) (Diplomatesاور سیاستدان ملنے کے لئے آئے اور اِن کے رویّوں میں بڑا احترام بھی تھا۔ اسی رابطے کا نتیجہ ہے کہ ہمبرگ کے کونسل ہال میں وہاں کی ایک سیاسی جماعت ہے، گرین پارٹی، انہوں نے ایک فنکشن بھی ترتیب دیا جس میں اسلام کی تعلیم کی روشنی میں مجھے کچھ کہنے کا موقع ملا۔ مختلف مذاہب کے لوگ، مختلف طبقوں کے لوگ وہاں موجود تھے، اُن کے سامنے اسلام کی تعلیم بیان کی گئی۔ اسی طرح مَیں نے محسوس کیا ہے کہ لوگوں کی توجہ اسلام کی حقیقت جاننے کی طرف ہو رہی ہے۔ یہ کوششیں جو آپ لوگ لیف لیٹس (Leaflets)کے ذریعہ سے اور مختلف ذرائع اور وسائل کے ذریعے سے کر رہے ہیں، اللہ تعالیٰ اِن میں برکت ڈالے اور لوگوں کے سینے کھولے۔ ایک طرف اگر اسلام کے خلاف شدت پسندی کی لہر اُبھر رہی ہے تو دوسری طرف وسیع طور پر توجہ بھی پیدا ہو رہی ہے۔ پس اب افرادِ جماعت جرمنی کا کام ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی شکر گزاری کے طور پر ان رابطوں اور تعلقات کو آگے بڑھائیں اور تبلیغی کاوشوں کو مزید تیز کریں تا کہ جلد ہم اسلام کی خوبصورت تعلیم کے اثرات لوگوں کے دلوں میں پیدا ہوتے دیکھیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔
بحیثیت جماعت آج جماعت احمدیہ ہی ہے جس پر چوبیس گھنٹے دن چڑھا رہتا ہے۔ اور صرف جماعتِ احمدیہ ہے جس میں بحیثیت جماعت اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے کوئی نہ کوئی پروگرام ہر وقت بن رہے ہیں یا پیش کئے جا رہے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ کے ان فضلوں کو گننا اور اُن کا شکر کرنا، اُن کا احاطہ کرنا ہمارے لئے ممکن ہی نہیں ہے۔
جلسہ سالانہ جرمنی کے نہایت کامیاب و بابرکت انعقاد پر اللہ تعالیٰ کے ذکراور شکرگزاری کی طرف خصوصی توجہ دینے کی نصیحت۔ اصل شکر تقویٰ اور طہارت ہی ہے۔ اس شکر گزاری کے طریق کو ہم نے اپنانا ہے اور اپنی زندگیوں کاحصہ بناناہے۔
جماعت احمدیہ کینیڈا اور امریکہ کے جلسہ ہائے سالانہ کے آغازکی مناسبت سے ان کا تذکرہ اور احباب کو نصائح۔
یہ جلسے بھی ہماری تبلیغ کا ذریعہ بنتے ہیں اس لئے ہر احمدی کو ان دنوں میں خاص طور پر اس سوچ کے ساتھ رہنا چاہئے کہ ہم احمدیت کے سفیر ہیں۔ ہمارے نمونے ہیں جو دنیا نے دیکھنے ہیں۔ جرمنی میں افراد جماعت میں عمومی طورپر اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت زیادہ اخلاص و وفا کے جذبات ابھر ے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس اخلاص و وفا کو ہمیشہ بڑھاتا چلا جائے۔
غیر از جماعت مہمانوں نے بھی جلسہ سے بڑا اچھا اثر لیاہے۔ بعض مہمانوں کے تاثرات کا تذکرہ۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہاں بڑی اچھی تعدادطلباء وطالبات کی تعلیمی میدان میں آگے نکل رہی ہے۔ اس تعلیمی ترقی کو قرآ ن کریم کی تعلیم کے تابع رکھیں، اسلام کی تعلیم کے تابع رکھیں اور جماعت سے مضبوط تعلق پیداکرکے اس کے لئے مفید وجود بنیں۔
فرمودہ مورخہ یکم جولائی 2011ء بمطابق یکم وفا1390 ہجری شمسی، بمقام مسجد خدیجہ۔ برلن (جرمنی)
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔