اللہ تعالیٰ کے احمدیت کی سچائی کو دلوں میں ڈالنے کے ایمان افروز واقعات

خطبہ جمعہ 8؍ جولائی 2011ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

گزشتہ دنوں جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں مَیں جلسہ جرمنی میں شمولیت کے لئے گیا ہوا تھا۔ اس کے بارہ میں تو گزشتہ خطبہ میں، جو برلن میں دیا تھا، بیان کر چکا ہوں کہ کس طرح اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جلسے میں دیکھا، محسوس کیا اور اس کے علاوہ بھی جرمنی کی جماعت نے جو پروگرام بنائے ہوئے تھے اُن میں بھی وہ فضل نظر آئے۔ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے نئے نئے پہلو نظر آئے۔ جماعت کے تعارف کے نئے راستے کھلے۔ اب جرمنی جماعت کو چاہئے کہ ان سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اُٹھانے کی کوشش کریں۔ جرمنی کے علاوہ سفر میں جاتے اور آتے وقت یورپ کے دو اور ممالک میں بھی مختصر قیام تھا۔ جاتے ہوئے بیلجیئم اور واپسی پر ہالینڈ میں۔ گو یہاں مختصر قیام تھا لیکن اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے نظارے یہاں بھی نظر آ رہے ہیں۔ بیلجیئم میں ایک رات قیام تھا، شام کو وہاں پہنچے تو شام کو ہی بعض نو مبائعین اور جماعت کے قریب آئے ہوئے دوستوں کے ساتھ ملاقات تھی۔ ایک مجلس تھی جس میں ساٹھ ستّر کے قریب احباب و خواتین شامل تھے۔ اُنہیں بھی کچھ کہنے کا موقع ملا۔ اس مجلس کے دوران ہی بعض جو قریب آئے ہوئے تھے اللہ تعالیٰ نے اُن کے دل کھولے اور اُنہیں شرح صدر عطا فرمایا اور اُن کو اللہ تعالیٰ نے بیعت کی توفیق عطا فرمائی۔ مَیں اس مجلس میں اُن کو بتا رہا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جو آخرین میں مبعوث ہوئے تو اُس کام کو آگے بڑھانے کے لئے مبعوث ہوئے جو آپ کے آقا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا تھا۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جوایک بہت بڑا انقلاب پیدا فرمایا اس میں جاہلوں کو جو بعض دفعہ درندگی کی حد تک گِر جاتے تھے حقیقی انسانی قدروں کی پہچان کروائی۔ اُنہیں انسان اور پھر تعلیم یافتہ انسان بنا کے خدا تعالیٰ کے قریب کر دیا اور یوں وہ باخدا انسان بن گئے اور اپنے مقصدِ پیدائش کو نہ صرف پہچاننے لگ گئے بلکہ اُس کے حصول کے لئے حقیقی کوششیں شروع کر دیں اور معیار حاصل کیا۔ اُن کا اللہ تعالیٰ سے ایسا پختہ تعلق قائم ہوا کہ اُنہیں دنیا کی ہر چیز ہیچ نظر آنے لگی۔ اس دنیا کی کسی چیز کی کوئی حقیقت نہ رہی۔ اُن کی دنیا بھی دین بن گئی اور یہی چیز ہے جو قرآنی پیشگوئی کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہم میں پیدا کرنے آئے ہیں۔ تو اُس وقت ایک شخص جس کے بارہ میں پہلے مَیں اُس کی باتیں سن کر سمجھا تھا کہ احمدی ہے لیکن بعد میں پتہ چلا کہ اُس نے اُس وقت تک بیعت نہیں کی تھی لیکن جماعت کے بہت قریب تھا میری بات ختم ہونے کے بعد اجازت لے کر کھڑا ہوا (یہ دوست غالباً مراکو کے تھے) اور بڑے جذباتی انداز میں کہنے لگا کہ آج آپ کی یہ باتیں سُن کر کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ماننے والوں کا یہ کام بھی ہے کہ انسانوں کو باخدا انسان بنائیں۔ مَیں عہد کرتا ہوں کہ اپنی بھی اصلاح کروں گا اور انشاء اللہ تعالیٰ مسیح موعود کا مددگار بن کر اسلام کی حقیقی تعلیم کو دنیا میں پھیلا کر دنیا کو خدا تعالیٰ کے قریب لانے والا بھی بنوں گا۔ وہ کہنے لگا کہ آج میں احمدیت میں شامل ہونے کا اعلان بھی کرتا ہوں۔ اگر پہلے کوئی شکوک و شبہات تھے بھی تو آپ کی باتیں سُن کر یہ ختم ہو گئے ہیں۔ کہنے لگا کہ بس میری بیعت لیں اور مجھے مسیح موعود کے سلطانِ نصیر میں شامل کریں۔ چنانچہ انہوں نے بیعت کی اور اُن کے ساتھ سات آٹھ اور بھی بیعت میں شامل ہوئے جس کی تفصیلی رپورٹ تو وکیل التبشیر، ماجد صاحب لکھ رہے ہیں۔ الفضل میں شائع ہو رہی ہے۔ بہر حال ان سب بیعت کرنے والوں کی بڑی جذباتی کیفیت تھی اور ایک عزم تھا کہ اپنی دنیا و عاقبت سنوارنے کے لئے جس کی بھی ضرورت ہے وہ ہم کریں گے اور جو ہم نے حاصل کیا ہے اُسے آگے بھی پہنچائیں گے۔ وہاں جو بیعتیں ہو رہی ہیں، جو نئے آنے والے ہیں اُن میں تبلیغ کا بھی بڑا شوق ہے اور سب سے پہلے اپنے خاندان اور عزیزوں سے تبلیغ شروع کرتے ہیں اور آہستہ آہستہ اُنہیں حقیقی اسلام کی آغوش میں لا رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اُن میں اس کے لئے ایک جذبہ اور جوش پیدا ہوا ہو اہے۔ یہاں یہ بھی ذکر کر دوں کہ گزشتہ جمعہ سے تین دن کے لئے بیلجیئم کا بھی جلسہ سالانہ ہوا تھا جس کا مَیں گزشتہ جمعہ میں ذکر نہیں کر سکا تھا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ بلجیم بھی اب بیعتوں اور رابطوں اور احمدیت کا پیغام پہنچانے میں بڑی تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے۔ اصل میں تو اللہ تعالیٰ ہی راستے کھول رہا ہے۔ دنیا میں ہر جگہ ایک ہوا چلی ہوئی ہے۔ جماعت جو ہے اُس کی حقیقی شکر گزاری یہی ہے کہ جو راستے اللہ تعالیٰ کھول رہا ہے اُس سے بھر پور فائدے اُٹھائیں اور نئے آنے والوں کو سنبھالیں اور اپنی اصلاح کی طرف بھی توجہ دیں۔ اسی طرح جیسا کہ مَیں نے کہا واپسی پر ہالینڈ میں بھی قیام تھا۔ ہالینڈ کا جلسہ بھی آج سے شروع ہو رہا ہے اللہ تعالیٰ اُن کے جلسہ میں شامل ہونے والوں کو بھی جلسہ کی برکات سے مستفیض فرمائے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دعاؤں کا وارث بنائے۔ ہر لحاظ سے یہ جلسہ بابرکت ہو اور پھر یہ لوگ بھی پہلے سے بڑھ کر تبلیغی اور تربیتی میدان میں بہت زیادہ ترقی کرنے والے بنیں۔ وہاں اسلام کے خلاف کیونکہ اکثر کہیں نہ کہیں سے آواز اُٹھتی رہتی ہے اس لئے اُنہیں بہت زیادہ محنت اور دعا کی ضرورت ہے اور کوشش بھی کرنی چاہئے۔ تمام ذیلی تنظیموں کو بھی اور جماعت کو بھی مربوط پروگرام بنا کر اسلام کی خوبصورت تعلیم مُلک کے ہر شخص تک پہنچانے کے بارے میں سوچنا چاہئے۔

بہر حال سفر کا بتا رہا تھا تو وہاں مختصر قیام کے دوران بعض عربی بولنے والے نو مبائعین اور جماعت کے قریب آئے ہوؤں سے بھی ملاقات ہوئی۔ ایک دوست جو جماعت کے قریب تھے اُنہوں نے بیعت بھی کی۔ جیسا کہ مَیں نے کہا اللہ تعالیٰ نے ایک ہوا چلائی ہوئی ہے۔ اللہ تعالیٰ اِن کے دلوں میں عجیب تسکین کے سامان پیدا فرما رہا ہے اور احمدیت کی سچائی اُن پر واضح کر رہا ہے۔ ہمارا بھی فرض ہے کہ اِن فضلوں سے حصہ لینے کے لئے اپنی طرف سے بھی مکمل کوشش کریں کہ یہ لوگ جتنی جلد ہو سکے زیادہ سے زیادہ حقیقی اسلام کے قریب آئیں۔ یہ نئے لوگ جو آ رہے ہیں اُن کی جذباتی کیفیت الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے۔ بہر حال اِن دو ملکوں کا میں نے مختصر ذکر کر دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر طرف ایسی ہوا چلی ہوئی ہے اور اُس کے فضل کے دروازے اس طرح کھل رہے ہیں کہ مختصر قیام میں بھی اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے نظارے نظر آتے ہیں۔ اور پھر نئے شامل ہونے والے ایک نئے جذبے اور جوش سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پیغام کو آگے پہنچانے کا اعلان کرتے ہیں۔ اور یہ انقلاب لمحوں میں ان میں پیدا ہوتا نظر آ رہا ہے۔ آتے ہیں، ملتے ہیں، بات کرتے ہیں اور بیٹھے بیٹھے ایک عجیب کیفیت اُن پر طاری ہو جاتی ہے اور ایک نئے جذبے اور جوش سے وہاں سے اُٹھ کے جاتے ہیں۔ پس یہ خاص فضل اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تائید و نصرت کا ایک نظارہ ہے اور پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس الہام کے نئے نئے پہلو واضح ہوتے ہیں کہ یَنْصُرُکَ رِجَالٌ نُوْحِی اِلَیْھِمْ مِّنَ السَّمَآءِ۔ یعنی میں تیری مدد ایسے لوگوں کے ذریعے کروں گا جن کو ہم آسمان سے وحی کریں گے۔ اور حقیقت یہی ہے کہ ان میں سے اکثریت وہ ہے جن میں خدا تعالیٰ نے حق کی تلاش کا جوش پیدا کیا۔ پھر اُن کا جماعت سے کسی ذریعہ سے رابطہ ہوا اور احمدیت اور حقیقی اسلام کی خوبصورت تعلیم نے اُن کے دلوں میں گھر کر لیا۔ اب مولوی چاہے جتنا بھی زور لگا لیں جن دلوں کو اللہ تعالیٰ پاک کر کے مائل کر رہا ہے وہ اُن کے دنیاوی لالچوں اور خوفوں سے ڈر کر اللہ تعالیٰ کی طرف سے دی گئی صداقت اور ایمان میں مضبوطی کو چھوڑنے والے اور کمزوری دکھانے والے نہیں ہو سکتے۔

گزشتہ دنوں مَیں کیمرون کی ایک رپورٹ میں دیکھ رہا تھا جو نائیجیریا کے سپرد ہے، وہاں ہمارے مبلغ انچارج کہتے ہیں کہ کیمرون کے انگریزی بولنے والے علاقوں کے بعد اب فرنچ بولنے والے علاقوں میں بھی بڑی تیزی سے جماعت ترقی کر رہی ہے، جس کی وجہ سے جماعت احمدیہ کے جو مخالف مقامی مولوی ہیں اور بعض دفعہ وہاں تبلیغی جماعت کے یا دوسرے پاکستانی مولوی بھی پہنچ جاتے ہیں، اُن کی حسد کی آگ بڑھ رہی ہے۔ چنانچہ لکھتے ہیں کہ پاکستانی تبلیغی جماعت کا ایک گروپ بعض لوکل مُلَّاؤں کے ساتھ مل کے 29؍مئی کو (یہ جو گزشتہ 29؍ مئی گزری ہے) ہماری جماعت مامفے (Mamfe) کی مسجد بیت الہدیٰ میں آئے اور اُن لوگوں نے جماعت کے خلاف زبان درازی کی اور احبابِ جماعت کو جو چند وہاں بیٹھے ہوئے تھے ورغلانے کی کوشش بھی کی۔ اس پر احباب نے اُنہیں کہا کہ اگر یہاں، نماز پڑھنے آئے ہو تو پڑھوورنہ یہاں سے چلے جاؤ ہم تمہاری بکواس نہیں سن سکتے۔ جس پر یہ لوگ وہاں سے چلے گئے لیکن یہاں سے ساٹھ کلو میٹر کے فاصلے پر ناگوٹی (Naguti) جگہ ہے، اُس میں ہماری ایک دوسری مسجد ہے’’مسجد بیت السلام‘‘ جس کا اس سال افتتاح ہوا ہے وہاں پہنچے اور اُس وقت وہاں کی جوقریبی جماعت تھی اس میں بڑے وسیع پیمانے پر یومِ خلافت کا ایک جلسہ ہو رہا تھا اور لوگ اُس میں شامل ہونے کے لئے گئے ہوئے تھے۔ چند ایک لوگ ہی وہاں بیٹھے تھے یہ (مولوی) اُن کے پاس گئے اور اُن کو ڈرایا دھمکایا لیکن اُنہوں نے نہ تو اُن کی باتیں سنیں اور نہ ہی اُن سے یہ کہا کہ ہاں ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ لیکن بہر حال کیونکہ مقامی مولوی بھی ساتھ تھے اور کچھ بڑے لوگ بھی تھے اس کی وجہ سے وہ کچھ کر نہیں سکے اور ان مولویوں نے ہماری مسجد جس کا مَیں نے ذکر کیاکہ افتتاح ہوا ہے، وہاں سے قرآنِ کریم اور لٹریچر اُٹھایا اور مسجد کے باہرجو بورڈ لگا ہوا تھا اُس کو بھی توڑ کے اپنے ساتھ لے گئے۔ بہر حال جب ہماری جماعت کے لوگ واپس آئے تو پھر حکام سے رابطہ کیا۔ گو ان لوگوں نے ہمارے خلاف وہاں کے جو حکام تھے اُن کو کافی ورغلایا کہ یہ مسلمان نہیں ہیں اور فساد پیدا کرنے والے ہیں اور دہشتگرد ہیں اور ملک کے خلاف سازشیں کرنے والے ہیں۔ لیکن بہر حال افسران سے رابطے تھے بلکہ وہاں کے ایک بڑے افسر تھے اس علاقے کے ڈی پی او، ایڈمنسٹریٹو ہیڈ ہیں، اُن کو جب مسجد کا افتتاح ہوا ہے تو بلایا ہوا تھا اور وہ آئے ہوئے تھے۔ بہر حال جب معاملہ اُن تک پہنچا تو انہوں نے کہا کہ اب تو یہ لوگ چلے گئے ہیں آئندہ یہ آئیں تو مجھے اطلاع کرنا اور میں اِن کے خلاف مقدمہ درج کروں گا اور گرفتار کروں گا۔ تو یہ لوگ توہر جگہ اپنی کوششیں کرتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے ایسی ہوا چلائی ہے کہ جہاں بیعتیں کروا رہا ہے وہاں دوسروں کے دلوں میں جو ابھی تک شامل نہیں ہوئے نرمی بھی پیدا کر رہا ہے۔ پس یہ لوگ جن کو کہا جاتا ہے کہ افریقہ میں رہنے والے ہیں اور جو دنیاوی تعلیم سے اتنے آراستہ نہیں لیکن ان کے دل اللہ تعالیٰ نے نورِ یقین سے بھر دئیے ہیں، وہ اپنے ایمان میں مضبوط ہیں۔ وہ ان نام نہاد علماء کے بھرّے میں آنے والے نہیں۔ ایمان سے پھیرنا تو شیطان کا کام ہے اور یہی اُس نے کہا تھا کہ اے اللہ! تیرے خالص بندے ہی ہیں جو میرے قابو میں نہیں آئیں گے۔ باقیوں کو تو مَیں ہر راستے سے ورغلانے کی کوشش کروں گا۔ پس جو ان ورغلانے والوں کا کام ہے وہ یہ کرتے چلے جائیں لیکن جن لوگوں کا اللہ تعالیٰ سے خالص تعلق پیدا ہو چکا ہے، جن لوگوں کو راستی دکھائی دے چکی ہے، اللہ تعالیٰ کے خالص بندے بن چکے ہیں وہ انشاء اللہ تعالیٰ ہمیشہ ایمانوں پر قائم رہیں گے اور یہی اظہار ہر جگہ ہمیں نظر آ رہا ہے۔

اب مَیں کچھ اور واقعات پیش کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کس طرح بعض لوگوں کی رہنمائی فرماتا ہے بلکہ حیران کن طور پر رہنمائی فرماتا ہے۔

قرغزستان سے ہمارے مبلغ لکھتے ہیں: آرتر (Artur)صاحب نے گزشتہ رمضان المبارک میں بیعت کی تھی۔ وہ ایک دینی جماعت کے ممبر تھے۔ انہوں نے بیان کیا کہ میرے اساتذہ نے مجھے برائیوں سے بچنے کے لئے اور سیدھے راستے پر چلنے کے لئے ایک دعا سکھائی۔ اس دعا کو سیکھے ہوئے ایک سال ہو چکا تھا لیکن میں نے وہ دعا نہیں کی تھی۔ کہتے ہیں کہ تین چار روز قبل میں نے اللہ تعالیٰ کے حضور یہ دعا مانگی کہ اپنے فضل سے مجھے سیدھی راہ دکھا۔ اس دعا کے تین چار روز بعد مَیں نے خواب میں دیکھا کہ مَیں ایک پہاڑی کی چوٹی پر کھڑا ہوں اور وہاں سے آگے کئی اور چوٹیاں ہیں۔ مَیں ایک چوٹی سے پھلانگ کر دوسری چوٹی پر جا رہا ہوں۔ اس دوران آگے سے دو بندر نکلے ہیں اُن میں سے ایک بندر میرے بائیں طرف لپٹ گیا ہے جبکہ دوسرا سیدھا میری طرف آ رہا ہے۔ اس دوران ایک دیو ہیکل کوئی چیز آتی ہے اور اُس نے طاقت سے اُس بندر کو مجھ سے علیحدہ کر دیا اور میری جان بچائی۔ کہتے ہیں اس خواب کے بعد مَیں بیدار ہو گیا اور میں حیران تھا کہ یہ کیا خواب ہے۔ اس کے چند دن بعد میرا جماعت احمدیہ سے رابطہ ہو گیا اور مجھے جماعت کے بارے میں معلومات دی گئیں۔ مَیں نے چند کتب پڑھنے کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضل سے بیعت کر کے جماعت احمدیہ میں شمولیت اختیار کی۔ بعد میں مجھے اس خواب کی تعبیر یہ معلوم ہوئی کہ بمطابق حدیث اس دَور کے بگڑے ہوئے علماء دراصل بندر ہی ہیں اور جماعت احمدیہ نے مجھے اس سے نجات دلائی ہے۔

پھر انڈونیشیا کے ایک دوست تھے جن کو گو بیعت کئے ہوئے تو چند سال ہو چکے ہیں لیکن وہ کہتے ہیں کہ میں ایک دفعہ بیمار ہوا۔ ملٹری ہسپتال میں داخل تھا تو ہوش آتے ہی میں نے ایک کشف دیکھا کہ جیپ کی چھت پر ایک وسیع ٹیلی ویژن سکرین لگی ہوئی ہے یا چھت اس سکرین کی طرح چمک رہی ہے اور اس پر پہلے عربی میں کلمہ لکھا ہوا دیکھا۔ اَشْہَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْل اللّٰہ۔ پھر اس کے بعد قرآنِ کریم اور کچھ احادیث بھی دکھائی دیں اور آخر پر باری باری یہ کلمات لکھے دکھائے گئے۔ اسلام سے قبل نہیں مرنا۔ قیامت ابھی نہیں آئی۔ اور پھر یہ لکھا ہوا آیا کہ انسان کی زندگی ایک کتاب کی سی ہے۔ یہ کتاب انسان کی پیدائش کی طرح کھلتی ہے اور انسان کے مرنے کی طرح بند ہو جاتی ہے اور کسی وقت یہ دوبارہ کھولی جائے گی۔ ان کلمات میں سے ایک جملے سے ویول (Wewil) صاحب (اُن کا نام تھا) بڑے بے چین ہو گئے۔ اور یہ جو جملہ تھا کہ’’اسلام سے قبل نہیں مرنا‘‘۔ اس پربڑے حیران تھے کہ مَیں تو مسلمان ہوں اور میرے مسلمان ہونے کے باوجود مجھے یہ جملہ دکھایا گیا ہے۔ صحتیاب ہونے کے بعد انہوں نے بہت ساری مذہبی کتابیں پڑھیں۔ ایک حدیث پڑھی جس میں اسلام میں تہتّر فرقوں کا ذکر تھا جس میں ایک فرقہ ناجی ہے اور باقی نہیں۔ کہتے ہیں کہ اس کے بعد انہوں نے اہلسنت والجماعت فرقہ کی تلاش شروع کر دی۔ جب وہ اپنے کسی عالِم یا مولوی سے ملتے تو ضرور اس کے متعلق سوال کرتے اور جواب ہمیشہ یہی ہوتا کہ ہم ہی اہلِ سنت والجماعت ہیں لیکن دلی طورپر یہ صاحب تسلیم نہیں کرتے تھے۔ کہتے ہیں سالہا سال تک وہ ناجی فرقہ کی تلاش میں رہے لیکن انہیں کچھ نہ ملا۔ حتی کہ جب حج کرنے مکّہ گئے تو وہاں بھی فرقہ اہلِ سنت والجماعت کو نہ پا سکے۔ 1998ء میں فوج سے ریٹائر ہوئے۔ کسی سے اپنی بے چینی کا ذکر کیا کہ یہ کیا چیز ہے جس کی مجھے سمجھ نہیں آ رہی۔ پھر اُن کو ہمارے کسی احمدی نے بتایا کہ’’جماعت‘‘کے لئے ضروری ہے کہ ایک جماعت ہو، جماعت کا ایک امام ہو اور پھر اُس کے پیروکار بھی ہوں۔ اور مزید وضاحت کرتے ہوئے بتایاکہ امام بھی ایسا ہو جو عالمی سطح پر ہو اور اُس کے پیروکار اُس کے مکمل مطیع ہوں۔ تو اس احمدی نے جب ان غیر احمدی کرنل کو بتایاکہ اس زمانے میں وہ جماعت جس کا ایک عالمی امام ہے وہ صرف اور صرف جماعت احمدیہ ہے اور یہ امام آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مہدی، جماعت احمدیہ کے بانی حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام کے خلیفہ ہیں تو پھر اُس وقت یہ جو غیر احمدی کرنل ویول صاحب تھے، انہوں نے کہا کہ علماء کے نزدیک تو بانی جماعت احمدیہ نعوذ باللہ فتنہ پرداز تھے۔ اس کے جواب میں احمدی نے حقائق پیش کئے اور بتایا کہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام واحد شخصیت ہیں جنہوں نے اس زمانے میں امام مہدی ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ اس کے بعد وہ کہتے ہیں کہ دن بدن میرا ایمان ترقی کرتا چلا گیا۔ آخر انہوں نے ایک وقت میں بیعت کر لی اور بیعت کرنے کے بعد تبلیغ کے میدان میں بڑی ترقی کر رہے ہیں اور تبلیغی شوق جو ہے اتنا ہے کہ وہاں سے ہمارے رپورٹ دینے والے مبلغ کہتے ہیں کہ جنون کی حد تک بڑھا ہوا ہے اور بعض جماعتیں بھی ان کے ذریعے سے قائم ہوئیں۔ پھر امیر صاحب گیمبیا کہتے ہیں کہ اپر ریور ریجن (Upper River Region) میں ایک گاؤں ’’سرائے محمود‘‘ کے نام سے موسوم ہے۔ وہاں ہماری اپنی مسجد ہے جہاں احمدی اور غیر احمدی اکٹھے نماز ادا کرتے ہیں۔ دو مہینے پہلے پڑوس کے گاؤں میں غیر احمدیوں نے اپنی مسجد تعمیر کر لی۔ ’’سرائے محمود‘‘ سے ایک غیر احمدی نے اس نئی مسجد میں جا کر جمعہ کی نماز ادا کرنے کا ارادہ کیا۔ جمعہ کی صبح نماز فجر کے بعد وہ جنگل میں لکڑیاں کاٹنے گیا اور واپس گھر آ کر جمعہ سے قبل کچھ دیر کے لئے سو گیاتو خواب میں دیکھا کہ غیر احمدیوں کی تعمیر کردہ مسجد میں جمعہ پڑھنے جا رہا ہے تو خواب میں اُسے دکھایا گیا کہ جس مسجد کو تم چھوڑ کر جا رہے ہو یعنی احمدیوں کی مسجد، وہ اللہ تعالیٰ کی نظر میں زیادہ قبولیت کا درجہ رکھتی ہے بہ نسبت اُس مسجد کے جہاں تم اب نماز پڑھنے جا رہے ہو۔ جاگنے کے بعد وہ احمدیہ مسجد میں گئے اور وہاں جمعہ کی نماز ادا کی اور اپنی خواب سنائی اور کہا کہ اب مجھ پر حقیقت کھل گئی ہے اور احمدیت واقعی سچی ہے اور یہ کہہ کر انہوں نے بیعت کر لی اور بڑے مخلص احمدی ہیں۔ گیمبیا کے امیر صاحب ہی لکھتے ہیں کہ وہاں ایک گاؤں ہے کنفینڈا (Kanfenda)، وہاں کے سامبا جالو (Samba Jallow) صاحب ہیں۔ انہوں نے خواب دیکھا کہ کچھ سفید فام لوگ پاکستانی لباس میں کسی مقام پر چڑھے ہیں۔ یہ صاحب پوچھتے ہیں کہ یہ کون لوگ ہیں؟ اُن کو جواب ملتا ہے کہ یہ لوگ قادیان سے ہیں اور جس مہدی نے اس زمانے میں آنا تھا یہ اُس کے ساتھ ہیں۔ سامبا صاحب نہیں جانتے کہ قادیان کیا ہے اور کہاں ہے؟ خواب میں سامبا صاحب نے دیکھا کہ سورج اور چاند ایک دوسرے کے پیچھے مغرب سے مشرق کی طرف جا رہے ہیں اور اس طرح کہ سفید فام لوگ اُسے بتاتے ہیں کہ یہ مہدی کے آنے کی علامت ہے۔ جب سامبا صاحب فرافینی ٹاؤن میں آئے تو وہاں اُنہوں نے امیر صاحب گیمبیا کو دیکھا اور اُنہوں نے دیکھتے ہی کہا کہ ایسے ہی افراد تھے جو اُنہیں خواب میں دکھائی دئیے۔ اُنہیں جماعت کا تعارف کروایا گیا تو اُنہوں نے وہیں بیعت کر لی۔ بیعت سے قبل سامبا صاحب مُلّاؤں کے پیچھے لگ کر مشرکانہ زندگی گزار رہے تھے۔ بیعت کے بعد یہ صاحب پنجوقتہ نمازی ہیں اور مالی معاونت میں بڑے پیش پیش ہیں۔ جماعتی چندوں میں بڑے آگے بڑھے ہوئے ہیں اور ایک پاکیزہ زندگی گزار رہے ہیں۔ پھر ایک صاحب ہیں محمد رمضان صاحب، کافی دیر کی بات ہے کہ یہ ہمارے ایک مشنری کے پاس آئے۔ ہمارے مبلغ محمود شاد صاحب جو شہید ہو گئے ہیں یہ اُس وقت تنزانیہ میں تھے یہ اُن کا بیان ہے کہ انہوں نے کہا کہ مَیں آپ کی جماعت میں شامل ہونا چاہتا ہوں۔ تو مَیں نے پوچھا کہ کیا آپ نے جماعت کا تعارف حاصل کیا ہے یا ویسے ہی آپ آئے ہیں۔ کہنے لگے مَیں پہلے ہی بہت وقت ضائع کر چکا ہوں۔ اب مجھے تیسری دفعہ خواب میں رہنمائی کی گئی ہے۔ اس لئے آج میں نے فیصلہ کیا ہے کہ لازماً بیعت کرنی ہے۔ اُس نے بتایا کہ اُس نے خود خدا سے رہنمائی مانگی تھی کہ سچے لوگ کون ہیں اور خواب میں مجھے تین دفعہ مورو گورو کی احمدیہ مسجد دکھائی گئی اور آخری دفعہ تو مَیں نے یہ بھی دیکھا کہ مَیں ایک پہاڑی پر ہوں جہاں نور ہی نور ہے اور میرے ساتھی جو مجھے احمدیت سے روکتے تھے بہت نیچے ہیں۔ چنانچہ آج مَیں بیعت کرنے آیا ہوں۔ انہوں نے بیعت فارم پُر کیا اور ساتھ اُس کے بعد فوری طور پر چندوں کی ادائیگی بھی شروع کر دی اور کہا کہ مَیں نے جہاں پہنچنا تھا پہنچ گیا۔

الجزائر کے ایک (دوست) محمد رابح صاحب ہیں۔ کہتے ہیں ایک سال سے زائد عرصہ سے مَیں ایم۔ ٹی۔ اے دیکھ رہا تھا۔ شروع میں وفاتِ مسیح، دجّال اور امام مہدی وغیرہ کے بارے میں جماعت کے خیالات سُن کر تعجب ہوا۔ استخارہ کرنے پر خواب میں دیکھا کہ مصطفی ثابت صاحب اور شریف صاحب کے ساتھ ایک مسجد میں ہوں۔ انہوں نے پوچھا کہ تمہیں امام مہدی کے بارے میں کیسے معلوم ہوا؟مَیں نے کہا کہ استخارہ سے۔ مجھے شروع سے ہی امام مہدی کے ظہور کا انتظار اور اس کے ساتھ ہو کر لڑنے کا شوق تھا۔ یہ کہتے ہیں اُس کے بعد مَیں احمدی ہو گیا لیکن دوست احباب مجھے چھوڑ گئے۔ مجھے اس کی پرواہ نہیں۔ صرف خدا کی رضا چاہتا ہوں۔ اور بیعت کی درخواست کی۔

زمبابوے کے مبلغ لکھتے ہیں کہ یہاں مسلم یُوتھ کے ایک عہدیدار نے بیعت کی۔ اسلام قبول کرنے سے پہلے جب وہ ایک عیسائی چرچ کے ممبر بنے تو اُن کو Baptise کرنے کے لئے پادری نے تاریخ مقرر کی۔ اس دن اچانک پادری صاحب بیمار ہو گئے۔ دوسری بار تاریخ مقرر کی تو پادری صاحب کی والدہ بیمار ہو گئیں۔ تیسری بار جب تاریخ مقرر کی تو اس زور کی بارش ہوئی کہ کوئی وہاں نہ جا سکا۔ اس کے بعد اس نوجوان نے خواب میں دیکھا کہ ایک مجمع ہے اور حضرت مسیح علیہ السلام ایک طرف کھڑے ہیں اور اُسے اپنی طرف بلاتے ہیں۔ یہ نوجوان کوشش کرتا ہے کہ مسیح تک پہنچے لیکن پہنچ نہیں سکا۔ اسی اثناء میں آنکھ کھل گئی۔ اس کے بعد اُس نے عیسائیت کو چھوڑ دیا۔ اب بیعت کرنے سے پہلے اس نوجوان نے خواب دیکھا کہ اس کا سارا جسم گردن تک دلدل میں پھنسا ہوا ہے اور اُس کو کسی نے پکڑ کر دلدل سے نکال دیا ہے۔ تو ہمارے مبلغ نے اُن سے پوچھا کہ تمہیں ان کا چہرہ یاد ہے کہ دلدل سے کس نے نکالا تھا؟ کہنے لگا: ہاں یاد ہے۔ جب اُنہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصویر دکھائی تو کہنے لگے۔ یہی چہرہ تھا جنہوں نے مجھے پکڑ کے دلدل سے نکالا تھا۔

پھر برکینا فاسو میں ڈوری سے ہمارے مبلغ لکھتے ہیں کہ ایک گاؤں پُوئی ٹینگاہے۔ اس کے تبلیغی دورے کے دوران ایک بزرگ نے بیعت کی جن کی عمر پینسٹھ سال ہو گی۔ بیعت کے بعد وہ بتانے لگے کہ آپ لوگوں کے آنے سے پہلے میں نے رؤیا میں ایک بزرگ کو دیکھا جو مجھے کہنے لگا کہ آدم علیہ السلام نازل ہوئے ہیں اُن کو قبول کرو۔ ایک ماہ کے وقفے کے بعد بعینہٖ وہی بزرگ دوبارہ مجھے ملے اور یہی پیغام دیا کہ آدم علیہ السلام نازل ہوئے ہیں اُن کو قبول کرو۔ ان کو تفصیلاً بتایا گیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جن کی آپ نے بیعت کی ہے اُن کا نام بھی اللہ نے آدم رکھا ہے۔ اور اپنے اس رؤیا کے پورا ہونے پر بڑے خوش ہوئے۔ اُس کے بعد اپنے خاندان میں انہوں نے تبلیغ کی اور سو کے قریب افراد کو جماعت میں شامل کیا۔

پھر مصر کی ہالہ صاحبہ ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ مَیں نے خواب میں دیکھا کہ حضرت امام مہدی اور آپ کی جماعت پانی کے اوپر چل رہے ہیں۔ مَیں نے درخواست کی کہ مجھے بھی شرفِ مصاحبت بخشیں۔ اُنہوں نے کہا کہ واپسی پر ہم آپ کو ساتھ لے لیں گے۔ اس رؤیا کے بعد مَیں نے صوفی ازم میں تلاشِ حق شروع کی لیکن اطمینان نہ ہوا۔ مَیں نے کہا کہ میری خواب سے مراد صوفی فرقہ نہیں ہو سکتا۔ باوجود اس کے کہ اِن لوگوں کا اصرار تھا کہ مَیں نے اُنہی کو خواب میں دیکھا تھا۔ گھر آ کر مَیں ٹی وی پر مختلف چینل دیکھنے لگی یہاں تک کہ ایم۔ ٹی۔ اے العربیہ نظر آیا اور میری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ مَیں نے اس چینل پر وہی شخص دیکھا جس کو خواب میں دیکھا تھا کہ وہ پانی پر چل رہا ہے اور امام مہدی ہے۔ اور مجھے انہوں نے لکھا کہ اس وقت انہوں نے مجھے دیکھا تھا۔

تو یہ سب خوابیں جو اللہ تعالیٰ دکھاتا ہے، لوگ جوخلفاء کو دیکھتے ہیں تواس سے بھی اصل میں اللہ تعالیٰ کایہ بتانا مقصود ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بعد خلافت کا جو نظام ہے وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ہی ایک تسلسل ہے۔

پورتو نووو (بینن) سے مبلغ ہمارے لکھتے ہیں کہ ہمارے گھر میں ایک لطیفہ نامی عورت بطور ملازمہ کے آئیں اور چند دن کے بعد ہی بیمار پڑ گئیں اور دو تین ہفتے کی چھٹی کی اور پھر یوکے کا جوجلسہ ہونا تھا اُس جلسہ کے قریب دوبارہ کام پر آنا شروع ہوئیں اور آ کر انہوں نے مربی صاحب کی اہلیہ کو بتایا کہ اس بیماری کے دوران دو تین مرتبہ مجھے خواب آئی ہے اور اُس کا مجھ پر بڑا شدید اثر ہے۔ کہتی ہیں بیماری کے دوران میں خوب دعائیں کرتی رہی اور دعائیں کرتی ہوئی سوتی تھی کہ اے اللہ! میرے گناہ بخش اور مجھے اور میری بچی کو جو شدید بخار میں ہے بچا لے اور ہمیں اپنے سیدھے راستے پر موت دینا۔ کہتی ہیں کہ ایک دن خواب میں کیا دیکھتی ہوں کہ میرا کمرہ خوب روشن ہو گیا اور نور ہی نور ہے۔ تو میں یہ نظارہ دیکھ کر ابھی ڈر ہی رہی تھی کہ بہت ہی خوبصورت سفید رنگ کا عمامہ پہنے ہوئے بزرگ ظاہر ہوئے اور مجھے اپنی طرف بلا رہے ہیں۔ اُس دن یہ نظارہ ختم ہو گیا۔ پھر دو چار دن کے بعد ایسا ہی نظارہ دوبارہ دیکھا اور دو شخص ہیں جو ایک بہت بڑے سفید گھر میں داخل ہوتے ہیں اور لوگوں کے ہاتھ پکڑ کر کچھ باتیں کرتے ہیں۔ وہاں بہت زیادہ کالے لوگ بھی ہیں، گورے بھی ہیں، ہر نسل کے ہیں جو اس کے پیچھے پیچھے الفاظ دہراتے ہیں اور بعد میں یہ کھڑے ہو کر حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں باتیں کرتے ہیں۔ تو جب یہ خاتون آئیں اور انہوں نے مربی صاحب کی اہلیہ کویہ خواب سنائی تو کہتے ہیں کہ اس دن جلسہ یوکے میں عالمی بیعت کا دن تھا۔ مَیں نے اس کو کہا کہ جس طرح کی تم بات کر رہی ہو اس سے لگتا ہے کہ اس کو وہاں مسجد میں ہی لے آؤجہاں بیعت ہو رہی ہے۔ تو خیر یہ خاتون مربی صاحب کی اہلیہ کے ساتھ مسجد چلی گئیں اور ایم۔ ٹی۔ اے پر جو نظارہ دیکھتی تھیں توبار بار اِن کی اہلیہ کے گھٹنوں پر ہاتھ مار کر کہتی تھیں کہ ماما!بالکل یہی میں نے دیکھا ہے (وہاں افریقہ میں کسی عورت کو عزت سے بلانا ہو تو ’’ماما‘‘کہتے ہیں )۔ یہ دو سال پہلے کا واقعہ ہے۔ پھر کہتے ہیں کہ جب یہ عالمی بیعت شروع ہوئی اور (ایک سفید مارکی میں جب مَیں داخل ہوا) تو یہ عورت اچھی طرح اہلیہ کو متوجہ کر کے کہتی ہیں کہ یہی وہ شخص تھا جو میری خواب میں آیا تھا اور دیکھو وہ بڑے سارے سفید گھر میں داخل ہوئے ہیں، (مارکی سفید رنگ کی تھی)۔ دیکھو لوگ بھی بہت زیادہ ہیں۔ پھر عالمی بیعت کر کے بہت خوش تھیں۔ اور گھر پہنچنے پر سارا خواب بڑی تسلی سے پھر دوبارہ سنایا۔ جس پر مربی صاحب کہتے ہیں مَیں نے سمجھایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہاری رہنمائی بڑی وضاحت سے کی ہے۔ اس لئے امام مہدی کی جماعت میں شامل ہو جاؤ اور سچے دل سے شامل ہو گی تویہی تمہارے مسائل کا حل ہے۔ کیونکہ تمہیں خلیفہ وقت نے خود آ کر اپنی طرف بلایا ہے، تمہیں اس بارے میں غور کرنا چاہئے۔ اُس نے کہا کہ گو میں الفاظ تو دہرا چکی ہوں لیکن سوچ کر جواب دوں گی کہ مَیں مانتی ہوں کہ نہیں۔ گو ان کی بڑی عمر تھی اور والدین بھی بڑھاپے میں تھے۔ گھر جا کر اپنے والدین کو بتایا تو والد بڑے ناراض ہوئے کہ تمہیں اس دن کے لئے ہم نے پیدا کیا تھا کہ اپنے باپ دادا کے دین سے منحرف ہو رہی ہو؟بہر حال ایک دن وہ آئیں اور رو پڑیں کہ وہ بزرگ دوبارہ میری خواب میں آئے ہیں یعنی خلیفۂ وقت(مجھے دیکھا انہوں نے) اور کہا کہ مجھے محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا بتاتے ہیں اور زور دیتے ہیں کہ میری طرف آ جاؤ۔ اسی میں تیری نجات ہے۔ اس لئے مَیں بڑی پریشان ہوں۔ پتہ نہیں موت مجھے کیسے آ گھیرے۔ پہلے ہی پچاس سال سے اوپر ہو چکی ہوں۔ اس لئے مَیں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ اب مَیں احمدیت میں داخل ہو جاؤں اور مجھے میرے باپ نے تو قبر کے عذاب سے نہیں بچانا۔ چنانچہ انہوں نے سچے دل سے بیعت کر لی ہے اور اپنی تنخواہ میں سے باقاعدہ چندہ بھی دینا شروع کر دیا ہے۔

اللہ تعالیٰ کے اس سچائی کو دلوں میں ڈالنے کے واقعات تو بے شمار ہیں۔ اِ ن کا بیان ممکن نہیں ہے۔ انشاء اللہ جلسہ آ رہا ہے۔ اس سال کے کچھ واقعات وہاں بھی آپ سنیں گے۔ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بارشوں کو بھی دیکھیں گے لیکن سب کو سمیٹنا ممکن نہیں۔ اس لئے جیسا کہ مَیں پہلے بھی بتا چکا ہوں کہ اب مَیں نے دورانِ سال بھی یہ ذکر کرنا شروع کر دیا ہے تا کہ ہم ان نئے آنے والوں کے لئے بھی اور اپنے ایمانوں کی مضبوطی کے لئے بھی دعا کریں اور اللہ تعالیٰ کے ان انعامات پر حمد اور شکر بھی کریں کہ خدا تعالیٰ محض اپنے فضل سے ہمیں سچائی کے راستے دکھا رہا ہے اور پھر اس پر قائم بھی کیا ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے فضلوں کے یہ نظارے ہمیشہ ہمیں دکھاتا چلا جائے اور ہم سب کو اور نئے آنے والوں کو بھی ثباتِ قدم عطا فرمائے۔

پس وہ لوگ جو اپنے زعم میں دنیا میں پِھر پِھر کر احمدیت کے خلاف زہر اُگل کر نیک فطرتوں کو احمدیت سے بدظن کرنا چاہتے ہیں اُنہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الفاظ میں مَیں یہ کہتا ہوں۔ آپ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:

’’اے سونے والو! بیدار ہو جاؤ۔ اے غافلو! اُٹھ بیٹھو کہ ایک انقلابِ عظیم کا وقت آ گیا۔ یہ رونے کا وقت ہے نہ سونے کا۔ اور تضرع کا وقت ہے نہ ٹھٹھے اور ہنسی اور تکفیر بازی کا۔ دعا کرو کہ خدا وند کریم تمہیں آنکھیں بخشے تا تم موجودہ ظلمت کو بھی بتمام و کمال دیکھ لو اور نیز اُس نور کو بھی جو رحمتِ الٰہیہ نے اُس ظلمت کے مٹانے کے لئے تیار کیا ہے۔ پچھلی راتوں کو اُٹھو اور خدا تعالیٰ سے رو رو کر ہدایت چاہو اور ناحق حقّانی سلسلہ کے مٹانے کے لئے بددعائیں مت کرو اور نہ منصوبے سوچو۔ خدا تعالیٰ تمہاری غفلت اور بھول کے ارادوں کی پیروی نہیں کرتا۔ وہ تمہارے دماغوں اور دلوں کی بیوقوفیاں تم پر ظاہر کرے گا۔ اور اپنے بندے کا مددگار ہو گا اور اس درخت کو کبھی نہیں کاٹے گا جس کو اس نے اپنے ہاتھ سے لگایا ہے۔ کیا کوئی تم میں سے اپنے اس پودہ کو کاٹ سکتا ہے جس کے پھل لانے کی اس کو توقع ہے۔ پھر وہ جو دانا و بینا اور ارحم الراحمین ہے وہ کیوں اپنے اس پودہ کو کاٹے جس کے پھلوں کے مبارک دنوں کی وہ انتظار کر رہا ہے‘‘۔ (آئینہ کمالات اسلام۔ روحانی خزائن جلد 5صفحہ 54-53)

اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو یہ پیغام سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔

اب چند جنازے ہیں جو مَیں جمعہ کے بعد پڑھاؤں گا اُن کے بارے میں ذرا بتانا چاہتا ہوں۔ پہلا تو ہے مکرم ڈاکٹر سید فاروق احمد صاحب کا جو سید محی الدین احمد صاحب رانچی انڈیا کے بیٹے تھے۔ برمنگھم میں رہتے تھے۔ پرسوں 6؍جولائی کو اُن کی وفات ہوئی ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ آپ 1958ء میں ڈاکٹر کی ڈگری لینے کے بعدجو انہوں نے پٹنہ یونیورسٹی انڈیا سے حاصل کی، 1964ء میں یو۔ کے آئے اور رائل کالج آف سرجن میں شمولیت اختیار کی۔ ویسٹرن انگلینڈ میں GP کی حیثیت سے کام کرتے رہے۔ نہایت سادہ، ہمدرد، مخلص اور باوفا انسان تھے۔ پُرجوش داعی الی اللہ بھی تھے اِن کو بہت سے خاندانوں کو احمدیت میں شامل کرنے کا موقع ملا۔ آپ نے سیکرٹری تبلیغ، زعیم انصار اللہ اور صدر جماعت اور ریجنل امیر کی حیثیت سے خدمت کی توفیق پائی۔ مالی قربانی میں بھی ہمیشہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔ اپنی امارت کے دوران ویسٹ مڈلینڈ میں مسجد دارالبرکات برمنگھم کے علاوہ اور بھی مساجد تعمیر کروانے کی توفیق پائی۔ آپ موصی تھے۔ ان کے چھوٹے بھائی سید لئیق احمد گزشتہ سال اٹھائیس مئی کو جو واقعہ ہوا ہے، اُس میں شہید ہو گئے تھے۔ تمام خاندان ہی بڑا مخلصین کا خاندان ہے۔ اللہ تعالیٰ اِن کے درجات بلند کرے۔

دوسرا جنازہ ہے مکرمہ صدیقہ قدسیہ صاحبہ کا جو رانا حفاظت احمد صاحب سیالکوٹ کی اہلیہ تھیں۔ ان کے ایک بیٹے رانا صباحت احمد مربی سلسلہ ہیں جو آج کل نظارتِ اصلاح و ارشاد مرکزیہ میں خدمت کی توفیق پا رہے ہیں۔ 21؍ مارچ کو 57سال کی عمر میں اِن کی وفات ہوئی۔اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ سکول ٹیچر تھیں۔ گاؤں والوں سے اچھا تعلق تھا۔ گاؤں میں صرف ایک ہی احمدی گھرانہ تھا جس کی وجہ سے کئی ابتلا کے مواقع آئے لیکن آپ نے ہمیشہ ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا۔ جماعت کے ساتھ اخلاص و وفا کا گہرا تعلق تھا۔ نیک سیرت، نمازوں کی پابند، دعوتِ الی اللہ میں بھر پور جذبہ رکھنے والی خاتون تھیں۔ چندوں اور پردے کی بڑی پابندی اور باقاعدگی تھی۔ موصیہ بھی تھیں۔

اور تیسرا جنازہ ہے عزیزم شاہد مرید تالپور جو نور احمد تالپور صاحب حیدرآباد کے بیٹے تھے۔ آج کل ایڈلیڈ میں ساؤتھ آسٹریلیا میں تھے۔ 2 جون کو اپنے گھر کے سامنے سڑک عبور کرتے ہوئے ان کی وفات ہو گئی۔ اڑتیس سال ان کی عمر تھی۔ ان کے والدنور احمد تالپور صاحب ایک لمبا عرصہ امیر جماعت حیدرآباد بھی رہے ہیں۔ شاہد مریدنے مہران یونیورسٹی سے الیکٹریکل انجنیئرنگ کی تھی اور پھر کچھ عرصہ پاکستان میں ایک کمپنی میں کام کرتے رہے۔ پھر آسٹریلیا آ گئے اور یہاں بھی ایک کمپنی میں نیٹ ورک انالسٹ (Anaylist) کے طور پر کام کر رہے تھے۔ پاکستان میں بھی یہ قائد مجلس کے طورپر خدمت کی توفیق پاتے رہے اور اچھے قائدین میں سے تھے، علمِ انعامی حاصل کرنے والے۔ 1992ء میں کوٹری مسجد کی حفاظت کے دوران بائیس افراد کو اسیر بنایا گیا جن میں یہ بھی شامل تھے۔ ان کے والد اچھے وکیل تھے۔ اثر و رسوخ والے تھے۔ اس وجہ سے جب یہ عدالت میں آتے تو بعض دفعہ پولیس والے ان کو کرسی دے دیتے تھے اور یہ ہمیشہ اپنے جو سینئر انصار تھے اُن کو بٹھا دیا کرتے تھے۔ ایک دفعہ جج نے ان کو کہا کہ مَیں آپ کے بیٹے کو ضمانت پررہا کر دیتا ہوں توان کے والد صاحب بھی بڑے مخلص آدمی تھے انہوں نے کہا کہ میرے لئے تو سارے بائیس افراد جو ہیں یہ سب میرے بیٹے ہیں یا تو سب کو آزاد کرو یا اس کو بھی اندر رکھو۔ تو یہ بڑا وفا سے احمدیت پر قائم رہنے والا خاندان تھااور ہے۔ رہائی کے بعد لطیف آباد کے تین خدام کو اپنی گاڑی پر مسلسل آٹھ سال تک یہ عدالت میں پیشی کے لئے لے جاتے رہے اور واپس لاتے رہے۔ 1999ء میں یہ آسٹریلیا چلے گئے تھے اور وہاں بھی اللہ کے فضل سے جماعت کی سیکرٹری امورِ عامہ، سیکرٹری تعلیم، جنرل سیکرٹری کی حیثیت سے خدمت انجام دے رہے تھے۔ ایڈلیڈ کی مسجد کمیٹی کے ایک فعال رکن تھے۔ اور وفات والے دن بھی مسجد کمیٹی کے ممبران کے ساتھ چند جگہیں دیکھنے گئے تھے- واپس لوٹے ہی تھے کہ گھر کے قریب سڑک عبور کرتے ہوئے حادثے میں وفات پا گئے۔اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ بڑے اطاعت گزار اور نظامِ جماعت کی طرف سے جو کام بھی سپرد ہوتا نہایت محنت، اخلاص اور دیانتداری سے بروقت کرتے تھے۔ ان کی وفات بھی گویا جماعتی خدمت کے دوران ہی ہوئی ہے اور یہ بہت بڑا اعزاز ہے۔ بڑے خوش اخلاق تھے اور عبادت گزار اور نیک۔ ضرورتمندوں کی پوشیدہ طور پر مدد کرتے تھے۔ ہر ایک کے ساتھ بڑی عزت سے پیش آتے۔ جماعت میں بڑا احترام تھا۔ ہر فرد کا احترام کرتے تھے۔ خاص طور پر عہدے داروں کا بڑا احترام کرتے تھے۔ موصی بھی تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے۔ ان کے پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ تین بیٹیاں ہیں۔ ان سب کے جنازے انشاء اللہ ابھی نمازِ جمعہ کے بعد پڑھاؤں گا۔ اللہ تعالیٰ سب کے درجات بلند کرے۔


  • خطبہ کا مکمل متن
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 8؍ جولائی 2011ء شہ سرخیاں

    بیلجیئم، جرمنی اور ہا لینڈ کے حالیہ دورہ کے دوران اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے نئے نئے پہلو نظر آئے۔ جماعت کے تعارف کے نئے راستے کھلے۔ اصل میں تواللہ تعالیٰ ہی راستے کھول رہاہے۔ دنیا میں ہر جگہ ایک ہوا چلی ہوئی ہے۔ جماعت کی حقیقی شکرگزاری یہی ہے کہ جو راستے اللہ تعالیٰ کھول رہاہے اس سے بھرپور فائدے اٹھائیں اور نئے آنے والوں کو سنبھالیں اور اپنی اصلاح کی طرف توجہ دیں۔ جو بیعتیں ہو رہی ہیں، جو نئے آنے والے ہیں ان میں تبلیغ کا بھی بڑا شوق ہے۔ اللہ تعا لیٰ ان کے دلوں میں عجیب تسکین کے سامان پیدا فرما رہاہے اور احمدیت کی سچائی ان پر واضح کررہاہے۔ دنیا کے مختلف ممالک میں اللہ تعالیٰ کے احمدیت کی سچائی کو دلوں میں ڈالنے کے بیشمار  نہایت ایمان افروز واقعات میں سے چند ایک کا روح پرور تذکرہ۔

    مکرم ڈاکٹرسید فاروق احمد صاحب آف برمنگھم، مکرمہ صدیقہ قدسیہ صاحبہ اہلیہ رانا حفاظت احمد صاحب (آف سیالکوٹ)  او رمکرم شاہد مرید تالپور صاحب ابن مکرم نور احمد صاحب تالپور (آسٹریلیا) کی وفات پر مرحومین کا ذکر خیر اور نماز جنازہ غائب۔

    فرمودہ مورخہ 8؍ جولائی 2011ء بمطابق 8؍وفا 1390 ہجری شمسی،  بمقام مسجد بیت الفتوح۔ لندن

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور