مہمان نوازی کی اہمیت
خطبہ جمعہ 15؍ جولائی 2011ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
مہمان نوازی کی اہمیت اللہ تعالیٰ کے نزدیک اتنی زیادہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک جگہ بلکہ زیادہ جگہ فرمایا کہ وَابْنِ السَّبِیْل۔ یعنی مسافروں کو اُن کا حق دو۔ وَابْنِ السَّبِیْل جو ہیں یہ مسافر ہیں۔ فرمایا ان کو ان کا حق دو۔ اور ایک دوسری جگہ حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ السلام کے ذکر میں فرمایا کہ جب مہمان اُن کے پاس آئے تو فوراً بُھنا ہوا بچھڑا اُن کو پیش کیا۔
پھر ہمارے آقا حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہے اُسے چاہئے کہ وہ مہمان کی تکریم کرے۔ (بخاری کتاب الادب باب اکرام الضیف و خدمتہ ایاہ بنفسہ حدیث 6135)
یعنی مہمان کی تکریم بھی اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان کے لئے ضروری ہے۔ پس مہمان نوازی صرف ایک دنیاوی فریضہ ہی نہیں ہے بلکہ ایمان کی علامت بھی ہے اور ایک فرض ہے جس کا ادا کرنا بہر حال ضروری ہے۔ تکریم کا مطلب ہے کہ بہت زیادہ عزت و احترام کرنا۔
پھر ایک حدیث میں آپؐ نے فرمایا کہ اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان لانے والے مہمان کا جائز حق ادا کریں۔ عرض کیا گیا کہ جائز حق کیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا کہ ایک دن اور رات مہمان نوازی۔
بیشک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مہمان نوازی کے دنوں کی حد مقرر فرمائی ہے، فرمایا کہ تین دن تک مہمان نوازی فرض ہے تم پر۔ (صحیح مسلم کتاب اللقطۃ باب الضیافۃو نحوھا حدیث4513)
ایک دن توکم از کم اُس کا حق ہے اور پھر جیسا کہ مَیں نے کہا کہ تین دن تک فرض بھی ہے۔ لیکن بعض حالات میں کئی دن بلکہ دنوں سے بھی زیادہ لمبا عرصہ، آپ نے مہمان نوازی فرمائی ہے۔ اور صحابہ کے سپرد بھی مہمان فرمائے۔
بنیادی نقطہ جو آپ نے بیان فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ مہمان نوازی مکمل عزت واحترام کے ساتھ ہونی چاہئے۔ اور یہ عزت و احترام اس لئے ہے کہ مہمان کا حق ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیونکہ کامل شریعت اور احکامات لے کر آئے تھے اس لئے ہر طرح کے لوگوں کا اور ہر پہلو کا آپؐ نے خیال رکھا ہے۔ بعض حدود جو آپ نے مقرر فرمائی ہیں جن کا ان حدیثوں میں ذکر ہے۔ وہ مہمانوں کو بھی اُن کے فرض یاد دلانے کے لئے ہیں۔ اس حوالے سے بھی انشاء اللہ تعالیٰ اگلے جمعہ بات ہو گی۔ لیکن اِس وقت جیسا کہ عموماً میرا طریق ہے، مَیں میزبانوں اور ڈیوٹی دینے والے کارکنوں کو توجہ دلاتا ہوں۔ اس لئے اُن کو توجہ دلا رہا ہوں کہ مہمان نوازی کا وصف ایسا ہے جس کے بارے میں جیسا کہ مَیں نے بتایا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان کے لئے ضروری ہے اور مہمان کا یہ حق ہے کہ اُس کی مہمان نوازی کی جائے۔ اور پھر اللہ تعالیٰ کا یہ فرمانا کہ ’مسافروں کو اُن کا حق دو‘ہم پر یہ فرض عائد کرتا ہے کہ مہمان نوازی کے وصف کو بہت زیادہ اپنائیں۔ صرف یہاں جلسے کے دنوں میں نہیں بلکہ عام طور پر گھروں میں بھی مہمان نوازی احمدی مسلمان کا ایک امتیاز ہونا چاہئے۔ بہر حال یہاں کیونکہ آج جلسے کے حوالے سے بات ہو رہی ہے ہر کارکن کو اور اُس گھر کو جس میں جلسے کے مہمان آ رہے ہیں، یہ خیال رکھنا چاہئے کہ مہمانوں کو صحیح عزت و احترام دیا جائے۔ اگر عام مسافروں کا حق اللہ تعالیٰ نے قائم فرمایا ہے تو اللہ تعالیٰ کی راہ میں سفر کرنے والوں کا تو بہت زیادہ حق ہے کہ اُن کو عزت و احترام دیا جائے اور اُن کا حق ادا کیا جائے۔ انشاء اللہ تعالیٰ اگلے جمعہ سے جیسا کہ ہم جانتے ہیں جلسہ سالانہ برطانیہ شروع ہو رہا ہے اس لئے دور دراز ممالک سے مہمانوں کی آمد شروع ہو گئی ہے۔ یہ مہمان جماعتی نظام کے تحت بھی ٹھہرے ہوئے ہیں یا ٹھہریں گے اور گھروں میں بھی۔ ان مہمانوں کو خاص طور پر ڈیوٹی دینے والے کارکنان کو بہت زیادہ اہمیت دینی چاہئے۔ اور اللہ تعالیٰ کی خاطر سفر اختیار کرنے والے مسیح محمدی کے ان مہمانوں کی حتی المقدور مہمان نوازی کا حق ادا کرنا چاہئے۔ اور اس کے لئے کوشش کرنی چاہئے۔
اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب دنیا کے اُن ممالک میں جہاں جماعتیں بڑی ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے لنگر کا بھی بڑا وسیع انتظام قائم ہو گیا ہے۔ اور یوکے بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے اُن ممالک میں سے ایک ہے بلکہ شاید اب تو ربوہ کے بعد اس وقت لنگر خانے کا سب سے زیادہ وسیع نظام یوکے میں ہی ہے۔ اور ظاہر ہے کہ خلیفۂ وقت کی یہاں موجودگی کی وجہ سے یہ وسعت ہونی تھی لیکن یہاں جو ان مستقل لنگر چلانے والوں کی سب سے بڑی خوبی ہے، وہ یہ ہے کہ تقریباً تمام یا بہت بڑی اکثریت volunteer ہیں جو سالوں سے بڑی خوشی سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے لنگر کے لئے وقت دے رہے ہیں۔ گو ربوہ اور قادیان کے لنگر بھی بڑے وسیع ہیں، لیکن وہاں باقاعدہ تنخواہ دار عملہ ہے۔ لیکن یہاں کا لنگر مستقل بنیادوں پر volunteersکے ذریعے چل رہاہے۔ تو بہر حال یو۔ کے جماعت نے مہمان نوازی کے اس مستقل فرض کو خوب نبھایا ہے اور نبھاتے چلے جا رہے ہیں۔ اب جلسے کے دن ہیں، جلسے پر بھی ہمیشہ اس مہمان نوازی کے فریضے کو بڑی خوش اسلوبی سے ہمارے کارکنان نبھاتے ہیں۔ یہ باتیں مَیں صرف اس لئے کر رہا ہوں کہ یاد دہانی کروا دی جائے کیونکہ نئے آنے والے بھی اس میں شامل ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس سال بھی تمام کارکنان کو اس فرض کو ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
اس مہمان نوازی سے جو ہمارے کارکنان کرتے ہیں یا ہمارے جلسے کے جو انتظامات ہوتے ہیں باہر سے آئے ہوئے غیر از جماعت اور غیر مسلم مہمان ہمیشہ متأثر ہوتے ہیں۔ یہاں بھی اور دوسرے ممالک میں بھی۔ پس جو میزبان کارکنان ہیں آئندہ بھی ہمیشہ اپنے اس تأثر کو قائم رکھنے کی کوشش کریں جو تبلیغ کا ذریعہ بنتا ہے۔ ایک لحاظ سے ہر کارکن جب وہ ڈیوٹی ادا کر رہا ہوتا ہے احمدیت کی عملی تبلیغ کا ذریعہ بن رہا ہوتا ہے۔ اور یہ ہر کارکن کے لئے ایک بہت بڑا اعزاز ہے۔ اللہ تعالیٰ تمام کارکنان کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔
اس لنگر خانے کے علاوہ بھی دوسری ڈیوٹیاں بھی ہیں اُن کا بھی حتی الوسع حق ادا کرنے کی پوری کوشش کرنی چاہئے۔ جو جو کام کسی کے سپرد کئے گئے ہیں کسی کو تفویض کئے گئے ہیں اُن کی پوری ادائیگی کریں اور پوری ذمہ واری سے اُس کی ادائیگی ہونی چاہئے۔ ہر کام، ہر ڈیوٹی، ہر فرض جو کسی کے سپرد کیا گیا ہے اُس کو معمولی نہیں سمجھنا چاہئے۔ ہر ایک کی ذمہ داری ہے۔ ہر جگہ پر اگر ہر ڈیوٹی کو ایک اہمیت دی جائے گی تو تبھی پورا نظام جو ہے وہ صحیح لائنوں پر چل سکے گا۔ اس لئے اس بارے میں ہر کارکن کو ہمیشہ خیال رکھنا چاہئے تا کہ کسی بھی جگہ کسی بھی شعبہ میں کسی کے کام میں کمی کی وجہ سے، فرض کی ادائیگی میں کمی کی وجہ سے، کسی مہمان کو تکلیف نہ ہو۔ پس یہ بنیادی بات ہمیشہ ہر کارکن کو یاد رکھنی چاہئے۔
ان باتوں کے بعد اب مَیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی مہمان نوازی کے متفرق واقعات آپ کے سامنے پیش کروں گا جو مَیں نے رجسٹر روایات صحابہ سے لئے ہیں۔ لیکن ہر روایت میں ایک چیز مشترک نظر آتی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مہمان کابڑا احترام کیا کرتے تھے۔ ہر ایک کی مہمان نوازی انتہائی عزت و احترام سے کرتے تھے۔ اکرامِ ضیف کا بڑا خیال رکھا کرتے تھے۔
حضرت شیخ اصغر علی صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ولد شیخ بدر الدین صاحب کہتے ہیں کہ حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام مہمانوں کی خاطر تواضع کا خود بہت خیال فرمایا کرتے تھے۔ بھائی حافظ حامد علی صاحب مرحوم کو اس طرف توجہ دلانے کے علاوہ خود بھی خاص واقفیت اس پہلو میں رکھا کرتے تھے۔ اور مہمانوں کی حیثیت کے مطابق کھانا بہم پہنچانے کا اہتمام ہوا کرتا تھا۔ غالباً 1902ء میں جب میں ایمن آباد سے قادیان دارالامان آ رہا تھا تو مرحوم و مغفور سیدناصر شاہ صاحب لاہور اسٹیشن پرجس کمرہ انٹر کلاس میں قادیان آنے کے واسطے بیٹھے ہوئے تھے اس میں اتفاق سے میں بھی آ بیٹھا اور ہم دونوں اکٹھے آئے۔ لاہور سے بارش ہونی شروع ہوئی اور جب گاڑی بٹالے پہنچی تو زور کی بارش تھی۔ اترتے ہی ہم نے مسافر خانہ میں ہی یکّہ کرائے پر کیا اور روانہ ہوئے۔ بارش شاید قادیان کے موڑ پر پہنچنے کے بعد بند ہوئی تھی۔ دارالامان پہنچنے پر ہم دونوں کو حضرت اقدس کے حکم سے اُس کمرہ میں جگہ دی گئی جس میں بُک ڈپو ہے اور شاید حامد علی شاہ صاحب مرحوم و مغفور کے خرچ سے تازہ بنوایا گیا تھا۔ حضورانور کے حکم سے مجھ کو جہاں تک یاد ہے صبح ناشتے میں عمدہ حلوہ بھی ہوتا تھا اور مکلف کھانا گھر سے آتا تھا۔ مجھ کو خیال ہے کہ حضور انور شاہ صاحب مرحوم سے دریافت بھی فرماتے تھے کہ آپ لوگوں کو کوئی تکلیف تو نہیں تھی۔ مہمان کا احترام حد درجہ حضور انور کے زیرِ نظر رہتا تھا۔ (رجسٹر روایات صحابہ جلدنمبر4صفحہ168غیر مطبوعہ)
پھر منظور احمد صاحب ولد مولوی دلپذیر صاحب جو بھیرہ کے تھے، وہ لکھتے ہیں کہ’’میرے والد بزرگوار بہت پہلے کے احمدی ہیں۔ 1894ء میں مع اپنی والدہ کے پہلی دفعہ حضرت خلیفۂ اوّل سے ملنے کے لئے قادیان آئے اور مع والدہ کے اُسی وقت بیعت کی۔ خلیفہ اول بچپن میں میرے دادا بزرگوار سے کچھ پڑھتے رہے تھے اور جو میرے دادا بزرگوار کی تیسری بیوی تھی حضرت خلیفۂ اوّل کی منہ بولی بہن تھی۔ والد بزرگوار سے میں نے پوچھا کہ کوئی اُس وقت کا واقعہ یاد ہے؟ تو آپ نے بتایا کہ ہم آٹھ آدمی تھے کہ حضور کے ساتھ ایک دن دوپہر کا کھانا مسجد مبارک میں جو اپنی پہلی حالت پر تھی، کھانے بیٹھے تھے۔ (یعنی اُس وقت چھوٹی تھی، آٹھ دس آدمی ایک صف میں کھڑے ہوتے تھے) جن میں حضور اور خلیفہ اوّل بھی شامل تھے۔ دو قسم کا سالن تھا اور دونوں میں گوشت تھا۔ حضور اپنے سالن سے کبھی بوٹی اُٹھا کر باری باری سے دوسروں کے سالن میں رکھ دیتے تھے اور ایسا ہی خلیفۂ اوّل بھی۔ مہمانوں میں سے ایک نے عرض کیا حضور کھانے کے ساتھ آم کیسا ہے؟ (یعنی اگر آم ہو جائے کھانے کے ساتھ تو کیسا لگے؟) آپ نے فرمایا بہت اچھا۔ بڑی اچھی بات ہے۔ تو دوسرے نے عرض کیا حضور میں بازار سے لے آتا ہوں۔ آپ نے فرمایا ٹھہر جائیں یا کچھ اور فرمایایہ ٹھیک یادنہیں رہا۔ کہتے ہیں بہر حال ابھی بات ہو رہی تھی کہ ایک آدمی بٹالہ سے آموں کا پارسل لے کر آ گیا جس میں آٹھ ہی آم تھے جو بڑے بڑے تھے۔ سب کے آگے حضور نے ایک ایک رکھ دیا۔ پھر چاقو پوچھا تو ایک نے چاقو پیش کیا۔ آپ نے فرمایا پھانکیں کریں۔ انہوں نے سب کی پھانکیں کر کے آگے رکھ دیں۔ حضور اپنے آگے کی پھانکوں میں سے ایک ایک کر کے باری باری سب کے آگے رکھ دیتے رہے۔ یادنہیں کہ حضور نے اُن میں سے آپ بھی کوئی کھائی ہو‘‘۔ (رجسٹر روایات صحابہ جلدنمبر5صفحہ36-37غیر مطبوعہ)
تو اللہ تعالیٰ نے یہ کیسی مہمان نوازی کی ان مہمانوں کی کہ ایک مہمان نے خواہش ظاہر کی تو اللہ تعالیٰ نے اُس کا انتظام بھی فرما دیا۔
پھر حضرت فضل الٰہی صاحب ولد مولوی کرم دین صاحب مرحوم کہتے ہیں کہ’’قادیان میں یہ عاجز کثرت سے لاہور سے جایا کرتا تھا۔ اکثر حضرت مفتی محمد صادق صاحب رفیقِ سفر ہوتے۔ اور کئی دفعہ حضرت اقدس اندر بلا لیتے اور بڑی شفقت سے خودنیچے جا کر چائے وغیرہ خود اُٹھا کر لاتے اور مہمان نوازی فرماتے اور مسجد مبارک میں حضرت اقدس کے ساتھ بیٹھ کر بہت دفعہ کھایا پیا۔ کئی دفعہ حضور نے اپنے کھانے میں سے عاجز کو بھی کوئی چیز عنایت فرمائی۔ ازروئے شفقت ایک دفعہ حضرت اقدس بعدنماز مغرب مسجد مبارک کی اوپر کی چھت پر شہ نشین پر مشرق کی طرف رُخ فرمائے بیٹھے تھے اور یہ عاجز مغرب کی طرف منہ کر کے حضور کے سامنے بیٹھا تھا کہ مشرق سے چاند کا طلوع ہوا جو قریباً چودہ یا پندرہ تاریخ کا چاند تھا۔ اُس وقت مجھے حضور کے چہرہ مبارک سے شعاعیں نکلتی اور چاند کی شعاعوں سے ٹکراتی نظر آتی تھیں‘‘۔ (رجسٹر روایات صحابہ جلدنمبر6صفحہ8الف8ب غیر مطبوعہ)
پھر حضرت میاں چراغ دین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ولد میاں صدر الدین صاحب کہتے ہیں کہ شیخ مظفر الدین صاحب آف پشاور کے والد صاحب نے لاہور میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دعوت کی۔ کمرہ چھوٹا تھا اور لوگ زیادہ آ گئے تھے۔ مَیں حضور کے پاس کھڑا تھا، بیٹھنے کے لئے جگہ نہ تھی۔ حضور نے مجھے دیکھ کر اور اپنا زانو اُٹھا کر اور مجھے اپنے دستِ مبارک سے پکڑ کر اپنے پاس بٹھا لیا اور فرمایا کہ میرے ساتھ کھاؤ۔ اس پر مَیں نے حضورکے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھایا۔ (رجسٹر روایات صحابہ جلدنمبر4صفحہ58غیر مطبوعہ)
حضرت ذوالفقار علی خان صاحب ولد عبدالعلی خان صاحب رام پور کے تھے، یہ کہتے ہیں کہ’’جب مَیں آتا تھا تو میرے کھانے میں پلاؤ ضرور ہوتا تھا۔ ایک دن مَیں نے حافظ حامد علی صاحب مرحوم سے پوچھا کہ پلاؤ دونوں وقت کیوں ہوتا ہے؟ تو انہوں نے فرمایا جب آپ پہلی بار آئے تھے تو حضور نے مجھے بلا کر فرمایا تھا کہ تحصیلدار صاحب کے لئے پلاؤ ضرور لایا کرو۔ حضور نے میرے باورچی سے ایک مرتبہ گورداسپور میں بریانی پکوائی تھی اُس سے غالباً خیال کیا ہو گا کہ یہ اکثر کھاتے ہیں جبھی باورچی مشّاق ہے اور یہ واقعہ تھا اس لئے ہدایت فرمائی کہ تکلیف نہ ہو‘‘۔ (رجسٹر روایات صحابہ جلدنمبر6صفحہ379غیر مطبوعہ) (یعنی کسی وقت میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ان کے ہاں گئے تھے، یہ تحصیلدار تھے۔ وہاں بریانی پکائی گئی تھی جو اچھی تھی۔ اُس باورچی نے جو بریانی پکائی تھی اُس سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خیال ہوا کہ یہ لوگ اکثر کھاتے ہیں تبھی باورچی جو ہے وہ اچھی بریانی پکاتا ہے۔ اس بات پہ جب وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ہاں حاضر ہوئے تو آپ نے اُن کی مہمان نوازی اس طرح فرمائی کہ فرمایا کہ اِن کو دونوں وقت پلاؤ بنا کے کھلایا کرو۔ )
حضرت بدر دین صاحب ولد گل محمد صاحب مالیر کوٹلہ کے تھے، کہتے ہیں کہ’’ایک روز عاجز اپنے والد صاحب کے ہمراہ بورڈنگ والے کنویں سے پانی نکال رہا تھا، رات کے نو بج چکے تھے اور نمازِ عشاء بھی ہو چکی تھی تو حضور اپنے ہاتھ پر ایک پیالہ جس میں دودھ اور ڈبل روٹی پڑی تھی، اُٹھائے کنویں پر آ گئے اور آ کر میرے والد صاحب سے فرمانے لگے: بابا جی کوئی مہمان بھوکا ہے۔ اس پر والد صاحب نے کہا کہ حضور میاں نجم الدین تو سب جگہوں سے دریافت کر گئے ہیں سب نے کھانا کھا لیا ہے۔ تب حضور نے فرمایا اچھا میرے ہمراہ چلو۔ تب ہم دونوں باپ بیٹا حضور کے ہمراہ ہو لئے۔ جب مہمان خانہ میں جا کر مہمانوں سے معلوم کیا تو کوئی نہ ملا۔ تو پھر ہم شیر محمد صاحب دوکاندار والی دوکان جو اُس وقت کھلی تھی اُس کے پاس پہنچے تو وہاں سے ایک صاحب نے کہا کہ حضور! مَیں نے تو دودھ ڈبل روٹی کھانی ہے۔ اس پر حضور نے وہ پیالہ اُس صاحب کو دے دیا‘‘۔ (رجسٹر روایات صحابہ جلدنمبر7صفحہ170غیر مطبوعہ) (مہمانوں کی تلاش میں تھے یقینا اللہ تعالیٰ نے بتایا ہو گا کہ ایک مہمان کی یہ خواہش ہے تو آپ گھر سے وہ لے کر آئے)
حضرت نور احمد خان صاحب ولد چوہدری بدر بخش صاحب لکھتے ہیں کہ’’مجھے جلسہ سالانہ پر آنے کا اتفاق ہوا۔ دوآبہ یعنی ضلع جالندھر اور ہوشیار پور کے تمام احمدی ایک ہی جگہ ٹھہرے ہوئے تھے۔ ہمارے ساتھ چوہدری غلام احمد صاحب رئیس کاٹھگڑھ بھی تھے۔ رات کو قادیان پہنچے تھے۔ کمرہ میں بستر رکھ کر تمام دوست بیٹھ گئے مگر نصف رات تک کھانا نہ ملا۔ لوگ بہت بھوکے تھے اور بار بار چوہدری صاحب مذکورکے پاس شکوہ کرتے تھے کہ ابھی تک کھانا نہیں ملا۔ اخیر چوہدری صاحب نے کہا کہ بازار میں جا کر دودھ پی لو۔ مگر اتنی بے چینی پیدا نہ کرو، کھانا مل جائے گا۔ لوگ کھانے کا انتظار کر کے تھک گئے، آخر بہت دوست بھوکے سو گئے۔ رات نصف سے زیادہ گزر چکی تھی، اچانک چند آدمی نمودار ہوئے، کہنے لگے کہ حضرت صاحب کو الہام ہوا ہے کہ مہمان بھوکے ہیں، اُن کو کھانا کھلاؤ۔ بدیں وجہ لوگ کمروں میں جگا جگا کر کھانا دے رہے ہیں، ہمارے کمرے میں بھی چند آدمی کھانا لے کر آئے۔ چوہدری صاحب نے تمام دوستوں کو جگا کر کھانا کھلایا، ہمارے ساتھ چوہدری غلام قادر صاحب سڑوعہ والے بھی تھے انہوں نے کہا کہ یہ کھانا خدا نے جگا کر دیا ہے وہ بقیہ ٹکڑے بطور تبرک کے کہ یہ الہامی کھانا ہے اپنے پاس سڑوعہ کو لے گئے‘‘۔ (جاتے ہوئے اپنے ساتھ ہی لے گئے)۔ (رجسٹر روایات صحابہ جلدنمبر6صفحہ273-274غیر مطبوعہ)
حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب انچارج نور ہسپتال جو بڑا لمبا عرصہ حضرت مصلح موعود کے معالج بھی رہے ہیں، بلکہ وفات تک آپ کے ساتھ ہی رہتے تھے وہ لکھتے ہیں کہ’’جلسہ کے موقع پر ایک شب بحیثیت اپنی جماعت کے سیکرٹری کے صدر انجمن احمدیہ کے اجلاس میں میری حاضری ہوئی۔ یہ اجلاس بعدنماز مغرب اور عشاء مسجد مبارک میں منعقد ہوا۔ خاکسار اپنی ناتجربہ کاری اور سادگی کی وجہ سے یا شوق کی وجہ سے اعلان شدہ وقت کے اول وقت میں ہی اجلاس کے مبارک مقام یعنی مسجد مبارک میں پہنچ گیا۔ گو وہ وقت کھانے کاتھا اور مجھے سخت بھوک بھی لگی ہوئی تھی کیونکہ صبح آٹھ بجے کا کھانا کھایا ہوا تھا مگر جلسہ کے احترام کی وجہ سے یا پابندیٔ وقت کے خیال سے خاکسار نے اپنی ناچیز حاضری کو اول درجے پر برقرار رکھا۔ یعنی نمازہائے مغرب و عشاء جو جمع ہو کر ادا ہوئی تھیں کے بعد بجائے باہر جانے کے مسجد میں ہی بیٹھ گیا اور جلسے کے انعقاد کی انتظار کرنے لگا۔ ممبران کی آمد دیر کے بعد شروع ہوئی اور قریب ساڑھے نو بجے کے جلسے کی کارروائی شروع ہوئی اور قریباً گیارہ بارہ بجے جلسہ ختم ہوا۔ اس دوران میں شدت بھوک کی وجہ سے خاکسار کی حالت ناگفتہ بہ رہی اور یہ شدت مجھے دیر تک یاد رہی اور اب تک بھی بھولی نہیں۔ جلسہ سے فارغ ہو کر جب میں اپنے جائے قیام پر گیا تو جماعت پٹیالہ کے احباب میں سے غالباً حافظ بھائی ملک محمد صاحب میرے لئے ایک روٹی کا ٹکڑا لے آئے تھے۔ لنگر خانہ بند ہو چکا تھا، مَیں نے اس ٹکڑے کو چبانا شروع کر دیا۔ ابھی وہ ختم نہ کیا تھا کہ ایک زبردست دستک ہمارے کمرے کے دروازے پر پڑی اور آواز آئی کہ کوئی مہمان بھوکا ہو جس نے کھانا نہ کھایا ہو وہ آجائے، اور چل کر لنگر خانے میں کھانا کھا لے۔ خاکسار کے ساتھیوں نے مجھے بھی نکال باہر کیا اور لنگر میں پہنچ کر جو کچھ ملا بعدشُکر کھایا۔ اگلے روز قریباً دس بجے دن کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مسجد مبارک کے چھوٹے زینے کے دروازے پر کھڑے ہوئے دیکھا اور خدام کو گلی میں حضور کی طرف رُخ کئے ہوئے کھڑے دیکھا اور حضور کے سامنے حضرت مولوی نورالدین صاحب بھی تھے اور حضور کچھ جوش کے ساتھ ارشاد فرما رہے تھے کہ مہمانوں کے کھانے وغیرہ کا انتظام اچھا ہونا چاہئے۔ رات مجھے الہام ہوا۔ یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ اَطْعِمُوا الْجَائِعَ وَالْمُعْتَرَّ۔ کہ اے نبی! بھوکے اور مُعتر لوگوں کو کھانا کھلا۔ چنانچہ مجھے معلوم ہوا کہ آدھی رات کو جگانا اس الہام کی بنا پر تھا‘‘۔ (رجسٹر روایات صحابہ جلدنمبر8صفحہ192-193غیر مطبوعہ)
حضرت مولوی ابراہیم صاحب بقا پوری رضی اللہ تعالیٰ عنہ ولد صدر دین صاحب فرماتے ہیں کہ:
’’ایک سالانہ جلسے پر حضور نے فرمایا۔ سب آنے والوں کو ایک ہی قسم کا کھانا کھلاؤ۔ اس پر خواجہ صاحب یا کسی اور نے عرض کیا کہ حضور بعض غرباء ایسے بھی آتے ہیں جن کو اپنے گھر میں دال میسر نہیں آتی اس لئے اُن کو یہاں دال کھلانا معیوب نہیں۔ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ گو اُن کو گھر میں دال نہ ملتی ہو لیکن جب دوسرے کو گوشت یاپلاؤ کھاتے ہوئے دیکھیں گے تو اُن کو کھانے کی خواہش مزید پیدا ہو گی اور بصورت نہ ملنے کے اُن کی دل شکنی ہو گی۔ میرے مرید خواہ وہ غریب ہوں یا امیر، میرا اُن کے ساتھ ایک ہی جیسا تعلق ہے اس لئے ایک ہی قسم کا کھانا پکاؤ۔ گوشت پلاؤ وغیرہ دو تو سب کو دو اور دال دو تو سب کو دو‘‘۔ (رجسٹر روایات صحابہ جلدنمبر8صفحہ64غیر مطبوعہ)
پس ہمیشہ یہی اصول مدّنظر رکھنا چاہئے۔
حضرت مفتی چراغ صاحب ولد مفتی شہاب الدین صاحب لکھتے ہیں کہ’’حضرت صاحب کو کپور تھلہ کی جماعت سے خاص اُنس تھا۔ حضور نے الگ اس جماعت کے لئے پلاؤ تیار کروایا تھا۔ جب تیار ہو چکا تو حضور نے کسی کو فرمایا کہ جماعت کو کھلا دو۔ (یہ جلسے کے علاوہ کی بات تھی) اُس شخص نے عرض کیا کہ حضور وہ تو چلے گئے ہیں۔ فرمایا یکّہ پر کھانا بٹالہ لے جاؤ اور جب وہ سٹیشن پر اُتریں تو کھانا پیش کر دو۔ اُن کے پیچھے کھانا بھجوایا۔ چنانچہ حضور کا آدمی یکّہ پر، ٹانگے پر کھانا لے کر ہمارے پاس سے گزر گیا۔ ہمیں علم نہ ہوا۔ جب ہم اسٹیشن پر پہنچے تو حضور کی طرف سے کھانا پہلے موجود تھا۔ حضور کے آدمی نے کہا کہ کھانا کھا لیں۔ ہم حیران ہوئے کہ یہ کھانا کہاں سے آیا اِس پر اُس نے سارا قصہ سنایا‘‘۔ (رجسٹر روایات صحابہ جلدنمبر9صفحہ11-12غیر مطبوعہ)
حضرت میاں عبدالعزیز صاحب مغل بیان فرماتے ہیں کہ’’حضور علیہ السلام کے وقت میں جلسہ سالانہ اُس جگہ ہوا کرتا تھا جہاں آج کل مدرسہ احمدیہ اور مولوی قطب دین صاحب کے مطبّ کی درمیانی جگہ ہے۔ یہاں ایک پلیٹ فارم بنایا گیا تھا جس پر جلسہ ہوتا تھا۔ حضرت صاحب کے زمانے میں جلسے کے دنوں میں عموماً ہم زردہ پلاؤ ہی کھایا کرتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ بہت قحط پڑ گیا اور آٹا روپے کا پانچ سیر ہو گیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو لنگر کے خرچ کی نسبت فکر پڑی تو آپ کو پھر الہام ہوا۔ اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ۔ اس پر آپ نے فرمایا کہ آج سے لنگر کا خرچ دوگنا کر دو۔ اور بڑا مرغن شوربہ پکا کرتا تھا۔ (رجسٹر روایات صحابہ جلدنمبر9صفحہ105غیر مطبوعہ)
یہ فیض آج تک جاری ہے اللہ تعالیٰ کے فضل سے۔ اب روپے کا پانچ سیر آٹا اُس زمانے میں، آج کل تو بہت مہنگا ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے یہ فکریں دور کی ہوئی ہیں اور دنیا میں ہر جگہ لنگر کے انتظامات بڑے احسن طریقے سے چلتے ہیں۔ حضرت بابو غلام محمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ریٹائرڈ ہیڈ ڈرافٹس مین۔ یہ کہتے ہیں کہ’’گورداسپور کے مقدمے کے دوران میں ایک رات ٹرین سے ہم اُترے اور سخت تیز ہوا چلی۔ موسم سرما کا تھا، حضور علیہ السلام ایک کوٹھی میں فروکش ہوئے۔ اور آتے ساتھ ہی حکم دیا کہ تکان ہے اب سب سو جائیں۔ ہم سب اپنا اپنا بستر لے کر لیٹ گئے۔ کچھ دیر بعد حضور اپنے بسترے سے اُٹھے اور دبے پاؤں ایک چھوٹی سی لالٹین لئے ہوئے ہر ایک کا بستر ٹٹولا کہ تا یہ معلوم کریں کہ کسی کے پاس بستر ناکافی تو نہیں۔ جس کسی کا بسترا کم دیکھتے حضور اپنے بستر میں سے جا کر کوئی ایک کپڑا اُٹھا لاتے اور اُس پر ڈال دیتے۔ جس طرح سے ماں اپنے بچوں کی حفاظت ایسے سردی کے وقت میں کرتی ہے، حضور نے اپنے بستر میں سے پانچ سات کپڑے نکال کر مہمانوں پر ڈال دئیے۔ میں جاگ رہا تھا اور حضور کی اس شفقت کو دیکھ رہا تھا‘‘۔ (رجسٹر روایات صحابہ جلدنمبر9صفحہ159-160غیر مطبوعہ)
حضرت ملک غلام حسین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ولد میاں کریم بخش صاحب بیان کرتے ہیں کہ’’ایک دفعہ جلسہ سالانہ کے موقع پر مولوی برہان الدین صاحب جہلمی آئے اور ملاقات کی۔ حضرت صاحب نے مجھے بلا کر فرمایا کہ میاں غلام حسین! یہ مولوی صاحب تو تمہارے ہیں جہاں تم مناسب سمجھو اُن کو رکھو۔ مَیں نے عرض کیا حضور یہ میرے پاس ہی رہیں گے۔ مولوی صاحب بڑے خوش رہے، فرمایا اِن کا خاص خیال رکھو، بوڑھے ہیں۔ ساتھ سالن بھی اندر سے زیادہ منگوا دیا کرو اور شوربہ زیادہ دیا کرو تا کہ اِن کو تکلیف نہ ہو‘‘۔ (رجسٹر روایات صحابہ جلدنمبر10صفحہ340-341غیر مطبوعہ)
حضرت چوہدری عبدالعزیز صاحب ولد چوہدری احمد دین صاحب کہتے ہیں کہ مَیں یہاں (گوجرانوالہ) سے لاہور کالج میں تعلیم کامل کرنے کے لئے گیا تھا، وہاں سے مَیں اور میاں محمد رمضان صاحب قادیان حضور کی زیارت کے لئے گئے۔ ایک رات ہم وہاں رہے تھے، صبح جب واپس آنے لگے تو حضور نے خود اپنی زبانِ مبارک سے فرمایا کہ ذرا ٹھہر جاؤ۔ پھر ہم نے کھانا کھایا اور دوپہر کو جب چلنے لگے اور اجازت مانگی تو حضور نے اجازت بھی عطا فرمائی اور فرمایا کہ یہاں کثرت سے آیاکرو۔ مَیں نے دستی بیعت بھی کر لی تھی مگر میرے ساتھی نے نہیں کی تھی۔ حضور نے ہمیں آتی دفعہ ایک پراٹھا اور کچھ سالن بھی رومال میں باندھ کر اپنے ہاتھ سے عطا فرمایا تھا۔ (رجسٹر روایات صحابہ جلدنمبر10صفحہ107غیر مطبوعہ)
حضرت چوہدری عبداللہ خان صاحب ولد چوہدری الٰہی بخش صاحب داتہ زیدکا لکھتے ہیں کہ ایک دفعہ ستمبر کے مہینہ میں چوہدری نصراللہ خان صاحب اور میں ظہر کے وقت قادیان پہنچے۔ وضو کر کے جماعت میں شامل ہو گئے۔ نماز کے بعد حضرت صاحب محراب میں تشریف فرما ہو گئے۔ چوہدری صاحب کو مخاطب کر کے فرمایا چوہدری صاحب ابھی آئے ہو، کھانا کھا لو۔ چوہدری صاحب نے مسکرا کر عرض کیا کہ حضور! کھانے کا کوئی وقت ہے؟ مسکرا کر فرمایا چوہدری صاحب! کھانے کا بھی کوئی وقت ہوتا ہے۔ جب بھوک لگی کھا لیا۔ حضور نے خادم کو بھیجا، کھانا تیار کروا کر لایا اور ہم نے مولوی محمد علی صاحب کے کمرے میں بیٹھ کر کھایا۔ اسی سال کا ذکر ہے بارش بڑی ہوئی تھی جس مکان میں آج کل حضرت میاں بشیر احمد صاحب ہیں یہ مہمان خانہ ہوا کرتا تھا (یہ مسجد اقصیٰ کے قریب کا مکان ہے) ہم اُس جگہ ٹھہرے ہوئے تھے۔ میاں نجم الدین لنگر خانے کے مہتمم تھے۔ لوگوں نے حضرت صاحب کو آواز دے کر عرض کیا کہ حضور! ایک پٹھان ہے وہ گوشت کے بغیر کھانا نہیں کھاتا۔ حضور نے فرمایا اُس کو گوشت پکا دو۔ میاں نجم الدین صاحب نے عرض کی کہ حضور! بارش کی وجہ سے قصابوں نے گوشت کیا نہیں ہے۔ آج کوئی بکرا وغیرہ قصائیوں نے ذبح نہیں کیا۔ حضور نے فرمایا: اچھا تو مرغ تیار کر کے کھلا دو۔ ایک دن وہ پھر آئے اور حضرت اقدس کی خدمت میں عرض کیا کہ حضور! ایک پٹھان ہے جو کہتا ہے کہ میں نے کھچڑی کھانی ہے۔ فرمایا اس کو کھچڑی پکا دو‘‘۔ (رجسٹر روایات صحابہ جلدنمبر10صفحہ272-273غیر مطبوعہ)
سو مہمانوں کی (جو عام طور پر مہمان آتے تھے) اُن کی خواہشات کا بھی احترام فرمایا کرتے تھے۔
حضرت چوہدری عبدالرحیم صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ’’ایک دفعہ حضرت اقدس نے مجھے پانچ سو روپیہ عطا فرمایا اور فرمایا کہ جلسے کا انتظام آپ کے سپرد کرتا ہوں مگر یاد رہے کہ تمام احباب کے لئے صرف ایک ہی قسم کا کھانا تیار کیا جائے۔ (اگر عام دنوں میں عام مہمان آ رہے ہیں تو اُن کے لئے جو اُن کی خواہش ہوتی تھی وہ پکوا دیا جاتا تھا، لیکن جلسے کے لئے فرمایا کہ سب کے لئے ایک ہی قسم کا کھانا تیار ہوناچاہئے۔ پہلے بھی ایک روایت آ گئی ہے، اب یہ دوسری روایت ہے)۔ بعض لوگوں نے عرض کی کہ مولوی حکیم فضل دین صاحب زیادہ تجربہ رکھتے ہیں مگر حضور نے کوئی جواب نہ دیا۔ خیر خواجہ کمال دین صاحب میرے پاس آئے اور کہنے لگے میرے لئے چاول تیار کروا دو۔ میں نے کہا مجھے تو حضرت صاحب کا حکم ہے کہ سب کے لئے ایک ہی قسم کا کھانا تیار کروایا جائے اس لئے اگر آپ چاول کھانا چاہتے ہیں تو اجازت لے دیں۔ کہنے لگے چاولوں کے لئے کیا اجازت مانگوں۔ مَیں نے کہا پھر تو مَیں حضور کی اجازت کے بغیر ایک چاول بھی نہیں دے سکتا۔ اس پر وہ بہت ناراض ہوئے اور جب تک یہاں رہے مجھ پر ناراض ہی رہے۔ (رجسٹر روایات صحابہ جلدنمبر11صفحہ175-176غیر مطبوعہ)
میاں عبدالعزیز صاحب مغل رضی اللہ تعالیٰ عنہ لکھتے ہیں کہ’’جب مہمان خانہ اُس مکان میں ہوتا تھا جہاں آج کل حضرت میاں بشیر احمد صاحب رہتے ہیں تو خواجہ کمال الدین صاحب نے لنگر سے ایک بکرے کا گوشت لیا اور تین سیر گھی، کچھ شلجم اور ایک دیگ میں چڑھا کر رات کے وقت پکانا شروع کیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اتفاق سے ساڑھے گیارہ بجے مہمانوں کو دیکھنے تشریف لائے۔ دیگ کو دیکھ کر فرمایا کہ یہ کیا ہے؟ کسی نے عرض کیا کہ حضور! یہ شب دیگ ہے۔ فرمایا شب دیگ کیا ہوتی ہے؟ اُس نے کہا کہ حضور! کچھ گھی ہے، کچھ گوشت، اور کچھ شلجم یہ تمام رات پکیں گے۔ فرمایا مجھے تو کچھ ناپسند ہی ہے کہ لنگر سے الگ پکانا ہو۔ (کہ لنگر میں ایک کھانا پک رہا ہے کسی کے لئے اُس سے الگ ایک پکایا جائے) خیر اُس کے بعد حضور تو چلے گئے لیکن جب یہ سب لوگ سو گئے اور دیگ کے نیچے سے آگ ٹھنڈی ہو گئی تو کہتے ہیں کہ دس بارہ کُتّے آ گئے اور انہوں نے دیگ کو اوندھا کیا اور گوشت کھانا شروع کر دیا۔ جب وہ آپس میں لڑنے لگے تو اُن کی نیند کھل گئی۔ انہوں نے کُتّوں کو ہٹایا اور دیکھا کہ دیگ میں بہت کم سالن رہ گیا ہے۔ اور حضرت صاحب سے عرض کیا کہ ہم یہ سالن چوہڑوں کو دے دیتے ہیں۔ فرمایا کہ پہلے ان کو کہہ دینا کہ یہ کُتّوں کا جُوٹھا ہے پھر اُن کا دل چاہے تو لے جائیں، چاہے نہ لے جائیں۔ جب چوہڑوں سے جا کر پوچھا تو انہوں نے کہا کہ توبہ توبہ۔ ہم کُتّوں کا جُوٹھا کیوں کھانے والے؟ غرض دیگ کو پھینک دیا گیا۔ خواجہ کمال دین صاحب جنہوں نے بڑے شوق سے اپنے کھانے کے لئے لنگر سے ہٹ کے یہ دیگ پکوائی تھی، اُن کے منہ سے کہتے ہیں کہ بے اختیار نکلا کہ’’مرزا جی دی نظر لگ گئی اے‘‘۔ (رجسٹر روایات صحابہ جلدنمبر9صفحہ46-47غیر مطبوعہ)
کھانے کو نہیں ملا بیچاروں کو۔
حضرت ملک غلام حسین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ’’مولوی عبدالرحمن صاحب شہید افغانستان سے آئے تو حضور سے ملاقات کرنی چاہی۔ کسی شخص نے اُن کو کہا کہ میاں غلام حسین صاحب ملاقات کرایا کرتے ہیں اُس سے کہو۔ وہ مجھے ملے اور فرمایا کہ حضرت صاحب سے ملاقات کرنی ہے۔ مَیں نے کھانا کھلایا۔ پھر فرمایا کہ حضرت صاحب سے ملنا ہے آپ اطلاع کریں۔ (مولوی عبدالرحمن صاحب نے کھانے کے بعد کہا کہ مَیں نے حضرت صاحب سے ملنا ہے، آپ اطلاع کریں۔ ) کہتے ہیں قریباً ایک بجے کا وقت تھا، میں اندر گیا اور دروازہ کھٹکھٹایا، کسی لڑکے نے باری(یعنی کھڑکی) کھولی۔ مَیں نے عرض کی کہ حضرت جی! فرمایا جی۔ مَیں نے عرض کیا کہ ایک آدمی کابل سے آئے ہیں، مولوی عبدالرحمن اُن کا نام ہے ملنا چاہتے ہیں۔ فرمایا ابھی اذان ہو گی مسجد میں مل لیں گے۔ مَیں نے عرض کیا کہ حضور! وہ الگ ملنا چاہتے ہیں۔ حضور اندر تشریف لے گئے اور تھوڑی دیر کے بعد واپس آ کر فرمایا کہ جاؤ اُن کو بلا لاؤ۔ مَیں اُن کو اندر لے گیا۔ وہ ڈرتے ڈرتے اندر گئے۔ اُن کے پاس ایک بہت بڑا سردہ کچھ بادام کچھ چلغوزے اور کچھ اور میوہ جات تھے۔ یہ چیزیں انہوں نے حضرت کے حضور پیش کیں۔ حضور تخت پوش پر تشریف فرما تھے۔ فرمایا مولوی صاحب! اتنی تکلیف آپ نے کیوں کی ہے؟ آپ کو تو بہت فاصلہ یہ چیزیں اُٹھانی پڑی ہوں گی۔ عرض کیا کہ حضور ہرگز کوئی تکلیف نہیں ہوئی بلکہ بڑی خوشی سے مَیں آیا ہوں۔ ریل گاڑی پر بھی کم سوار ہوا ہوں۔ بہت سا حصہ پیدل چل کر آیا ہوں۔ حضور نے فرمایا کہ مولوی صاحب! چائے پئیں گے یا شربت۔ انہوں نے عرض کیا کہ حضور اس وقت مَیں کھانا کھا چکا ہوں آپ تکلیف نہ کریں۔ فرمایا نہیں تکلیف بالکل نہیں ہے۔ مجھے فرمایا کہ میاں غلام حسین! ان کو شربت پلاؤ۔ مَیں اندر گیا اور حضرت اُمّ المومنین نے فرمایا۔ پانی ٹھنڈا نہیں ہے بڑی مسجد سے لے آؤ۔ مَیں بڑی مسجد سے پانی لایا (یعنی مسجد اقصیٰ سے) حضرت اُمّ المومنین نے مجھے شربت بنا دیا۔ مَیں نے پیش کیا۔ انہوں نے ایک گلاس پیا۔ حضور نے فرمایا اور پیو۔ چنانچہ ایک گلاس انہوں نے پیا، کچھ باقی بچ گیا۔ میں نے حضرت صاحب کی خدمت میں عرض کی، حضور آپ بھی پی لیں۔ فرمایا نہیں، لے جاؤ۔ کہا بس لے جاؤ، مَیں نہیں پیوں گا۔ حضرت صاحب نے مجھے فرمایا کہ یہ بہت دور سے آئے ہیں، اِن کے لئے کھانا الگ تیار کیا کرواور اچھا کھانا اِن کو کھلایا کرو۔ وہ کوئی دو ماہ یہاں رہے اور مجھ پر بہت خوش رہے۔ حضرت صاحب نے مجھے خاص ہدایت کی تھی کہ ان کے لئے ایک وقت میں پلاؤ پکایا کرو‘‘۔ (رجسٹر روایات صحابہ جلدنمبر10صفحہ325-326غیر مطبوعہ)
حضرت بابو عبدالعزیز صاحب اوورسیئر گوجرانوالہ کے تھے یہ لکھتے ہیں کہ ’’مجھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے میں صرف ایک دفعہ دو دن قادیان آنے کا اتفاق ہوا۔ اور مَیں طالب علم تھا اور ایک طالب علم میرے ہمراہ تھا۔ میری سابقہ بیعت تحریری تھی اور مَیں دستی بیعت کے لئے حاضر ہوا تھا۔ بیعت کرنے کے بعد شام کو ہم دونوں واپس آنے لگے تو حضور نے خود زبانِ مبارک سے فرمایا تھا کہ آج رات کو مزید رہو۔ اور رات حضور خود اپنے دستِ مبارک سے ہمارے لئے بستر لائے اور ہم کو اپنے ساتھ بٹھا کر وہیں کھانا کھلایا۔ اور دوسرے روز صبح دو پراٹھے رومال میں باندھ کر ہم کو دئیے اور تھوڑی دور گلی میں ہمارے ساتھ ہمراہ آ کر واپس تشریف لے گئے۔ یہ ان دنوں کا واقعہ ہے جبکہ حضور جہلم میں کرم دین کے مقدمے کے لئے تشریف لے گئے تھے۔ ہاں رات کو ہم دونوں کو گول کمرے کے پاس ملحقہ کسی کمرے میں حضور نے ٹھہرایا تھا۔ وہ پراٹھے مَیں گھر لے آیا تھا اور سب کو بانٹ دئیے تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ تھوڑے عرصے کے بعد میری والدہ اور میرے بھائی دونوں احمدی ہو گئے۔ (رجسٹر روایات صحابہ جلدنمبر12صفحہ134غیر مطبوعہ) (انہوں نے تبرک کو اس کی وجہ سمجھی)۔
حضرت منشی ظفر احمد صاحب فرماتے ہیں کہ’’حضرت اپنے بیٹھنے کی جگہ کھلے کواڑ نہ بیٹھتے تھے بلکہ کُنڈا لگا کر بیٹھتے تھے۔ (دروازہ بند کر کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بیٹھا کرتے تھے)۔ حضرت صاحبزادہ میاں محمود احمد صاحب تھوڑی دیر کے بعد آ کر کہتے، ’ابّا کُنڈا کھول‘، اور حضور اُٹھ کر کھول دیتے تھے۔ ایک دفعہ حاضرِ خدمت ہوا۔ حضور بوریے پر بیٹھے تھے، مجھے دیکھ کر آپ نے پلنگ اُٹھایا، اندر اُٹھا کر لے گئے۔ مَیں نے کہا حضور مَیں اُٹھا لیتا ہوں۔ آپ فرمانے لگے، بھاری زیادہ ہے، آپ سے نہیں اُٹھے گا۔ اور فرمایا آپ پلنگ پر بیٹھ جائیں، مجھے یہاں نیچے آرام معلوم ہوتا ہے۔ پہلے مَیں نے انکار کیا لیکن آپ نے فرمایا نہیں آپ بلا تکلف بیٹھ جائیں پھرمَیں بیٹھ گیا۔ مجھے پیاس لگی تھی، مَیں نے گھڑوں کی طرف نظر اُٹھائی۔ وہاں کوئی پانی پینے کا برتن نہ تھا۔ آپ نے مجھے دیکھ کر فرمایا کہ آپ کو پیاس لگ رہی ہے، مَیں لاتا ہوں۔ نیچے زنانہ سے جا کر آپ گلاس لے آئے اور پھر نیچے گئے اور وہاں سے دو بوتلیں شربت کی لے آئے جو منی پور سے کسی نے بھیجیں تھیں۔ بہت لذیز شربت تھا۔ فرمایا کہ اِن بوتلوں کو رکھے ہوئے بہت دن ہو گئے کیونکہ ہم نے نیت کی تھی کہ پہلے کسی دوست کو پلا کر پھر خود پئیں گے۔ آج مجھے یاد آ گیا۔ چنانچہ آپ نے گلاس میں شربت بنا کر مجھے دیا۔ مَیں نے کہا پہلے حضور اس میں سے تھوڑا سا پی لیں پھر مَیں پیوں گا۔ آپ نے ایک گھونٹ پی کر مجھے دے دیا۔ اور مَیں نے پی لیا۔ مَیں نے شربت کی تعریف کی۔ آپ نے فرمایا کہ ایک بوتل آپ لے جائیں اور ایک باہر دوستوں کو پلا دیں۔ آپ نے ان دو بوتلوں سے وہی ایک گھونٹ پیا ہو گا۔ مَیں آپ کے حکم کے مطابق بوتلیں لے کر چلا آیا‘‘۔ (رجسٹر روایات صحابہ جلدنمبر13صفحہ344-345غیر مطبوعہ)
حضرت میاں خیر دین صاحب سیکھوانی کہتے ہیں کہ’’ایک دفعہ حضور کی خدمت میں حاضر ہوا تو مسجد میں محکم الدین صاحب وکیل بیٹھے ہوئے تھے۔ وکیل صاحب نے مجھے کہا کہ کیا آپ پس خوردہ یعنی تبرک کھانا چاہتے ہیں؟ میں نے کہا، ہاں۔ تو اُسی وکیل صاحب نے حضور کی خدمت میں پیغام بھیجا۔ حضور نے ایک تھالی چاول اور اُس پر شوربہ بکری کا ڈالا ہوا تھا۔ اور ایک طرف سے چند لقمے کھائے ہوئے تھے ایک خادمہ کے ہاتھ بھیجا جو ہم نے مل کر کھایا۔ (رجسٹر روایات صحابہ جلدنمبر14صفحہ33غیر مطبوعہ)
ماسٹر نذیر خان صاحب ساکن ناڈون لکھتے ہیں کہ’’ماموں صاحب شہامت خان صاحب نے بیان فرمایا کہ ایک دفعہ قادیان جاتے ہوئے مَیں کمال الدین (یہ دوست بھی احمدی تھے) کو اپنے ساتھ قادیان لے گیا۔ ہمارے لئے حضرت صاحب نے مرزا خدا بخش کو مقرر کیا کہ ہمارے کھانے وغیرہ کا انتظام رکھیں۔ آپ نے حکم دیا کہ یہ پہاڑ سے آئے ہیں یہ چاول کھانے کے عادی ہیں، ان کے لئے چاول ضرور تیار کئے جائیں‘‘۔ (رجسٹر روایات صحابہ جلدنمبر14صفحہ296غیر مطبوعہ) (جلسے کے دنوں میں بھی، پاکستان میں بھی ربوہ میں جلسے ہوتے تھے، تو سرحد سے آئے ہوئے لوگوں کے لئے گو باقی سالن تو ایک ہی پکتا تھا۔ لیکن اُن کے لئے خاص اس لئے خمیری روٹی بنائی جاتی تھی کہ وہ فطیری روٹی نہیں کھاتے تھے، یا بعض کے لئے پرہیزی کھانا پکتا تھا، اس لئے اتنی تو احتیاط رکھی جاتی ہے کہ مریضوں کے لئے یا بعض جو خاص کھانے کے عادی ہیں اور دوسرا کھا نہیں سکتے اُن کے لئے بعض چیزیں پک جاتی ہیں لیکن عموماً ایک ہی کھانا پکتا ہے اور اب یہی نظام ہر جگہ رائج ہے کہ عموماً ایک ہی کھانا دیا جاتا ہے۔ اور سوائے اس کے کہ غیر، مہمان آئے ہوں جو کھا نہ سکتے ہوں اُن کے لئے بھی ہے۔ ایک اعتراض یہ رہتا تھا کہ وی آئی پی مارکی۔ حالانکہ کھانا اُس وی آئی پی میں صرف ایک ہی ہوتا تھا۔ اب اُس کا بھی نام بدل دیا گیا ہے۔ reserveکردیا گیا ہے۔ تو بہر حال جلسے کے انتظام کے لئے عموماً ایک کھانا رکھا جاتا ہے سوائے اُن لوگوں کے لئے جو بالکل خاص چیزیں کھانے کے عادی ہوں )۔
حضرت شیخ جان محمد صاحب پنشنر انسپکٹر پولیس لکھتے ہیں کہ’’میری عمر اس وقت ستاسٹھ سال کی ہے۔ میں نے 1903ء میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پہلے بذریعہ خط بیعت کی پھر 1904ء میں بمقام گورداسپور دورانِ مقدمہ مولوی کرم دین بھیں والے میں حاضر ہوا اور سعادۃًدستی بیعت سے مشرف ہوا۔ مَیں منٹگمری سے آیااور والد صاحب مرحوم چوہدری غلام احمد خان صاحب مرحوم آف کاٹھگڑھ ضلع ہوشیار پور سے بمقام گورداسپور حاضر ہوئے تھے۔ حضرت خلیفۂ اوّل نے چوہدری صاحب مرحوم کی وجہ سے کہ وہ افیون کھاتے تھے ایک علیحدہ چھولداری ہم کو دے دی جس میں ہم تین ٹھہرے اور دیگر احباب بعض نیچے مکان میں اور بعض چھولداریوں میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ چوہدری غلام احمد خان مذکور نے مجھے فرمایا کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ باورچی خانے میں بٹیرے پکائے گئے ہیں مجھے دو بٹیرے لا دو۔ چنانچہ مَیں نے باورچی خانے سے دریافت کیا تو اُس نے بتلایا کہ لاہور سے مہمان آئے ہوئے ہیں یہ اُن کے لئے پکائے گئے ہیں۔ مَیں ان سے اصرار کر رہا تھا کہ چوہدری غلام احمد خان ایک امیر آدمی اور خوش خور ہیں اور میرے والد صاحب کے دوست ہیں تو ضرور دو بٹیرے دے دو (کہ اِن کے لئے مَیں جو لے جا رہا ہوں وہ امیر آدمی بھی ہیں اور اچھا کھانے والے ہیں )۔ اسی اثناء میں حافظ حامد علی صاحب مرحوم بالائی حصہ مکان میں آ گئے اور یہ ماجرا انہوں نے سنا۔ باورچی نے بتلایا کہ خواجہ کمال الدین صاحب وغیرہ آئے ہوئے ہیں، اُن کے لئے بٹیرے پکائے گئے ہیں تو مَیں مایوس ہو کرچھولداری میں آ گیا۔ تھوڑی دیر بعد حافظ حامد علی صاحب مرحوم ایک طشتری میں دو بٹیرے بُھنے ہوئے لے کر آ گئے اور فرمایا کہ مَیں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے ذکر کیا تھا۔ حضور نے فرمایا کہ جلد اُنہیں بٹیرے پہنچاؤ اور فرمایا کہ کل سب کے لئے بٹیرے پکائے جائیں۔ چنانچہ دوسرے دن ایک بڑے دیگچہ میں بٹیرے پکائے گئے اور سب کو کھلائے گئے۔ (رجسٹر روایات صحابہ جلدنمبر15صفحہ17غیر مطبوعہ)
ڈاکٹر سلطان علی صاحب کی روایت ہے جو چوہدری محمد شریف صاحب بی۔ اے نیروبی نے تحریر کی ہے کہ ’’1901ء میں مَیں قادیان گیا اور بوقتِ نماز مغرب قادیان مسجد مبارک میں پہنچا جو اُس وقت بہت چھوٹی سی تھی۔ مغرب کے بعد میرے ایک دوست نے جو ہموطن بھی تھے حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں عرض کیا کہ یہ افریقہ سے آئے ہیں اور چند سال ہوئے کہ انہوں نے حضور علیہ السلام کی بیعت کی تھی۔ حضور نے مجھ سے افریقہ کے احمدی دوستوں کے حالات دریافت فرمائے۔ پھر ہاتھ اُٹھا کر دعا فرمائی اور میرے ساتھی کو تاکید کی کہ کھانے اور بستر وغیرہ کا خیال رکھیں۔ جب ہم رات کو مہمان خانے میں سوئے تو ایک صاحب دودھ لائے اور فرمایا یہ حضرت صاحب نے آپ کے لئے بھیجا ہے‘‘۔ (رجسٹر روایات صحابہ جلدنمبر2صفحہ68غیر مطبوعہ)
منشی امام دین صاحب لکھتے ہیں کہ’’ایک مرتبہ میری اہلیہ قادیان آئیں۔ مولوی رحیم بخش صاحب مرحوم ساکن تلونڈی جھنگلاں کی اہلیہ بھی ساتھ تھیں۔ واپسی پر میری اہلیہ نے مجھ سے بیان کیا کہ جب ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مکان پر پہنچیں اور اندر داخل ہونے لگیں تو حضرت صاحب تمام خاندان کے ساتھ بیٹھ کر کھانا تناول فرما رہے تھے۔ ہم جلدی سے واپس ہو گئیں۔ حضرت صاحب نے دریافت فرمایا کہ کون ہے؟ عرض کیا گیا کہ مولوی رحیم بخش صاحب ساکن تلونڈی کی اہلیہ ہیں اور دوسری منشی امام الدین صاحب پٹواری کی اہلیہ ہیں۔ حضور نے اندر بلا لیا۔ اِن دنوں میری اہلیہ کی گود میں عزیزم نثار احمد تھا۔ حضور نے اپنے کھانے سے ایک برتن میں کچھ کھانا ڈال کر دیا۔ میری اہلیہ کو کہا کہ لو یہ کھانا بچے کو کھلاؤ۔ ایسا کئی مرتبہ ہوا۔ جب کبھی بھی اہلیہ کھانے کے وقت پہنچیں حضور نے بچے کے لئے کھانا دیا اور یہ حضور کی ذرہ نوازی تھی کہ اپنے مریدین سے ایسی شفقت فرماتے تھے۔ (رجسٹر روایات صحابہ جلدنمبر11صفحہ325-326غیر مطبوعہ)
حضرت ضمیر علی صاحب ولد محمد علی صاحب لکھتے ہیں کہ’’کمترین بچپن کی حالت میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے گھر میں اکثر جایا کرتا تھا۔ ایک دفعہ ہمارے محلے کی بہت سی عورتیں گئیں تو مَیں بھی اُن کے ہمراہ گیا۔ اُن ایام میں میرے دائیں ہاتھ پر ضرب آئی ہوئی تھی کوئی چوٹ لگی ہوئی تھی۔ جب مَیں حضور کے ہاں گیا تو حضور اس وقت مسجد مبارک کے قریب والے کمرے میں بیٹھے ہوئے تھے۔ مَیں بھی اُس کمرے میں چلا گیا۔ حضور نے بڑے پیار سے مجھے اپنے پاس بٹھا لیا۔ اس کے بعد حضرت اُمّ المومنین گاجروں کا حلوہ لائیں، پہلے حضور نے میرے منہ میں دو تین لقمے اپنے ہاتھ مبارک سے ڈالے اور بعد میں فرمایا، کہ بائیں ہاتھ سے کھا لو، کیونکہ تمہارے دائیں ہاتھ میں چوٹ لگی ہوئی ہے۔ اور پھر کہتے ہیں کہ مَیں نے پیٹ بھر کر کھایا۔‘‘ (رجسٹر روایات صحابہ جلدنمبر5صفحہ132غیر مطبوعہ)
ایک روایت حضرت شیخ زین العابدین صاحب کی ہے جو شیخ حافظ حامد علی صاحب اور شیخ فتح محمد صاحب کے بھائی تھے۔ کہتے ہیں کہ’’حضور کے زمانے میں مہمانوں کے لئے کھانے کا خاص اہتمام ہوا کرتا تھا۔ حضور کو مہمانوں کی مدارات کا خاص خیال رہتا تھا۔ میرے بھائی حافظ حامد علی صاحب نے بیان کیا کہ ایک دفعہ غالباً جلسہ سالانہ کا موقع تھا اور چار دیگیں چاولوں کی پک رہی تھیں، دو زردے کی اور دو پلاؤ کی۔ ایک دن حضور علی الصبح لنگر خانے میں گئے اور باورچی کو کہا کہ ڈھکنا اُٹھاؤ، ہم چاول دیکھنا چاہتے ہیں۔ اُس نے ڈھکنا اُٹھایا حضور کو خوشبو اچھی نہ آئی۔ اس پر حضور نے دوسری دیگیں بھی دیکھیں اور فرمایا کہ زردے کی دونوں دیگوں کو ڈھاب میں پھینک دو، یہ اچھی نہیں ہے۔ (یقینا اللہ کی طرف سے ہی کچھ دل میں ڈالا گیا ہو گا کہ دیگیں چیک کرنی چاہئیں)۔ فرمایا کہ جب ہمیں اُن کی خوشبو پسندنہیں آئی تو ہمارے مہمانوں کو کیسے آئے گی؟) چنانچہ حضور کے حکم کی تعمیل کی گئی‘‘۔ (رجسٹر روایات صحابہ جلدنمبر11صفحہ71غیر مطبوعہ)
حضرت میاں اللہ دتہ صاحب ولد میاں مکھن خان صاحب مال پور ضلع ہوشیار پور لکھتے ہیں کہ’’مَیں جب 1906ء کو سالانہ جلسے پر قادیان آیا تو حضور کی دو تقریریں سنیں۔ پہلی تقریر صبح کے وقت حضور کے مکان پر ہوئی جو اب حضرت بشیر احمد صاحب کا مکان ہے اور اس کو بیٹھک کہا کرتے تھے۔ جہاں اب باہر کی طرف سیڑھی بنی ہوئی ہے وہاں کھڑکیاں بھی تھیں اور ایک دروازہ تھا، دروازے کا نشان ابھی تک موجود ہے۔ حضور نے مہمانوں کے آگ تاپنے کے لئے ایک انگیٹھی بھجوائی۔‘‘ (سردی کے دن تھے، انگیٹھی بھجوائی، کوئلے بھجوائے) ’’جس کے بعد جلد ہی حضور بھی تقریر کے لئے اوپر سے تشریف لے آئے‘‘۔ (رجسٹر روایات صحابہ جلدنمبر4صفحہ51غیر مطبوعہ)
مہمانوں کا اس لحاظ سے بھی خیال رکھا کہ اُن کو سردی نہ لگے۔
میاں عبدالعزیز صاحب مغل رضی اللہ تعالیٰ عنہ لکھتے ہیں کہ’’ایک دفعہ ہم آٹھ بجے شام کو بٹالہ اُترے۔ ہم بیس بائیس آدمی تھے۔ چاند کی روشنی تھی اور گرمیوں کے دن تھے۔ مفتی محمد صادق صاحب بھی تھے، بابو غلام محمد صاحب بھی تھے۔ ہم رات کے ساڑھے گیارہ بجے قادیان پہنچے۔ حضور باہر تشریف لائے۔ حافظ حامد علی صاحب کو آواز دی وہ بھی آگئے۔ حضور نے دریافت کیا کہ لنگر میں جا کر دیکھو کوئی روٹی ہے؟ عرض کیا حضور اڑھائی روٹیاں اور کچھ سالن ہے۔ فرمایا وہی لے آؤ۔ مسجد مبارک کی اوپر کی چھت پر سفید چادر بچھا کر حضور ایک طرف بیٹھ گئے۔ ہم تمام آس پاس بیٹھ گئے۔ حضور نے ان روٹیوں کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے ہمارے آگے پھیلا دئیے۔ مجھے خوب اچھی طرح یاد ہے کہ ہم تمام نے سیر ہو کر کھایا اور پھر بھی کچھ ٹکڑے بچے ہوئے تھے تو اُسی چادر میں وہ لپیٹ کر لے گئے‘‘۔ (رجسٹر روایات صحابہ جلدنمبر9صفحہ15غیر مطبوعہ)
اس کی دوسری روایت سے بھی تصدیق ہوتی ہے۔
میاں محمد یٰسین صاحب احمدی ٹیچر گورنمنٹ سکول دالبندین لکھتے ہیں کہ’’حضرت امیر الدین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ساکن گجرات نے بیان کیا کہ شروع شروع میں بہت کم آدمی ہوتے تھے۔ ایک دفعہ ہم پانچ سات آدمی حضرت مسیح موعود کے مہمان ٹھہرے تو حضور نے چاولوں کا دیگچہ لا کر اور خودنکال کر برتن میں ڈالے اور ہمارے آگے رکھ کر ہم کو کھلائے۔ (رجسٹر روایات صحابہ جلدنمبر12صفحہ101غیر مطبوعہ)
پھرجس طرح یہ تعداد بڑھتی گئی، لنگر خانے کے سپرد اور باقی انتظامیہ کے سپرد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے انتظام کیا اور ہمیشہ فرمایا کرتے تھے کہ اِن کا خیال رکھیں۔ ملک غلام حسین صاحب مہاجر ولد میاں کریم بخش صاحب لکھتے ہیں کہ’’حضور ہمیشہ تاکید فرمایا کرتے تھے کہ دیکھو میاں غلام حسین! مہمانوں کو کسی قسم کی تکلیف نہ ہو۔ (رجسٹر روایات صحابہ جلدنمبر10صفحہ336غیر مطبوعہ)
پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ فقرہ آج بھی ہمارے لئے اتنا ہی اہم ہے جتنا حضرت میاں غلام حسین کے لئے تھا اور اللہ تعالیٰ سے یہ دعا بھی کرنی چاہئے اور تمام کارکنان کو کوشش بھی کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ اُنہیں احسن رنگ میں اپنے فرائضِ مہمان نوازی ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ہمیشہ یاد رکھیں کہ صرف کھانا کھلانا ہی نہیں بلکہ جیسا کہ میں نے کہا تمام انتظامات مہمانوں کی سہولت کے لئے ہوتے ہیں، اس لئے ہر جگہ پر تمام کارکنان اپنے فرائض احسن رنگ میں ادا کرنے کی کوشش کریں۔ اللہ تعالیٰ سب کو توفیق دے۔
ابھی نماز جمعہ کے بعد میں چند جنازے پڑھاؤں گا۔ ایک توجنازہ حاضر ہے مکرم شیخ مبارک احمد صاحب ابن مکرم خان فرزند علی خان صاحب کا جو یہاں لمبے عرصے سے رہ رہے تھے۔ اور ان کے والد خان فرزند علی خان صاحب بھی جماعت میں بڑی پہچان والے ہیں۔ جو 1928-29ء میں انگلستان میں امام بھی رہے ہیں۔ انہوں نے ریٹائر ہو کر زندگی وقف کی تھی۔ پھر یہ ناظر بیت المال بھی رہے۔ کچھ عرصہ ناظرِ اعلیٰ بھی رہے اور ’خان‘ کا خطاب آپ کو انگریز حکومت کی طرف سے ملا تھا۔ مکرم شیخ مبارک احمد صاحب اُن کے بیٹے تھے۔ 10؍جولائی کو90 سال کی عمر میں ان کی وفات ہوئی ہے، اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔ آپ کو کچھ عرصہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اسسٹنٹ پرائیویٹ سیکرٹری کی حیثیت سے بھی خدمت کی توفیق ملی۔ پھر پاکستان میں آپ کو نائب ناظر تعلیم کے طور پر کام کرنے کی توفیق ملی۔ 1961ء میں یہ یوکے آ گئے تھے۔ یہاں بحیثیت صدر قضاء بورڈ، نیشنل سیکرٹری امور عامہ، سیکرٹری رشتہ ناطہ کے علاوہ کئی شعبوں میں خدمت کی توفیق پائی ہے۔ نہایت ہمدرد اور سلسلہ کے فدائی اور خلافت سے وفا کا تعلق رکھنے والے خادمِ سلسلہ تھے۔ باوجود پیرانہ سالی کے اور بیماریوں کے بڑی باقاعدگی سے مجھے خط بھی لکھا کرتے تھے اور ایک دو دفعہ ملنے بھی آئے ہیں۔ بڑا اخلاص اور وفا کا تعلق تھا۔ عہدیداران کی بھی بہت عزت کیا کرتے تھے۔ مالی قربانیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے تھے۔ اپنی اولاد کو بھی اس کی تلقین کرتے رہتے تھے۔ تبلیغ کا بھی شوق تھا۔ اپنے حلقہ احباب میں کسی نہ کسی رنگ میں پیغام پہنچاتے رہتے تھے۔ ان کے پسماندگان میں چار بیٹیاں اور دو بیٹے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو بھی اپنے بزرگ والدین، ان کے دادا کی طرح جماعت سے اخلاص و وفا کا تعلق رکھنے کی توفیق عطا فرمائے اور مرحوم کے درجات بلند فرمائے۔
دوسرا جنازہ جو غائب جنازہ ہے وہ ملک مبرور احمد صاحب شہیدنوابشاہ کا ہے جن کو 11 جولائی 2011ء کو رات تقریباً سوا آٹھ بجے ان کے چیمبر میں شہید کر دیا گیا۔ یہ وکیل تھے۔ انہوں نے اپنی گاڑی باہر چیمبر میں کھڑی کی اور چیمبر سے باہر نہیں آئے تھے کہ قریبی جھاڑی میں سے چھپے ہوئے ایک نا معلوم شخص نے باہر نکل کر کنپٹی پر پستول رکھ کر فائر کر دیا اور جو حملہ آور تھا وہ فائر کرنے کے بعد سٹیشن کی طرف بھاگ گیا۔ ان کے بھائی ملک وسیم احمد صاحب بھی ان کی گاڑی کے قریب ہی تھے، وہ حملہ آور کے پیچھے دوڑے تو انہوں نے ان پر بھی فائر کئے لیکن الحمدللہ یہ بھائی تو بچ گئے۔ لیکن بہر حال ملک مبرور احمد صاحب کی شہادت ہوئی ہے اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔ پہلے بھی ایک دفعہ ان پر قاتلانہ حملہ ہوا تھا۔ ان کی عمر پچاس سال تھی۔ گو جماعتی مخالفت کے علاوہ بھی ان کی کاروباری دشمنی تھی یا یکطرفہ دشمنی کہنا چاہئے کیونکہ بعض ایسے مقدمات تھے جن میں انہوں نے وہاں کے بعض بڑے لوگوں نے جو قتل کئے ہوئے تھے ان کے مقتولوں کے مقدمے لڑے اور ان کے ساتھ دئیے ہوئے تھے اس وجہ سے بھی دشمنی تھی، کچھ اور بھی دشمنیاں تھیں لیکن بہر حال جماعتی دشمنی غالب تھی۔ تو یہ جماعتی خدمات بھی انجام دے رہے تھے۔ اور خدام الاحمدیہ میں بھی ناظم عمومی ضلع کے طور پر خدمات انجام دیتے رہے۔ سیکرٹری جائداد بھی رہے۔ آجکل جماعت نوابشاہ کے صدر تھے۔ اور پولیس وغیرہ سے تو اِن کے تعلقات گہرے تھے اس لئے ان کے جو دوسرے دشمن تھے ان کی دشمنی بھی اس وجہ سے بڑھ گئی تھی کہ ان تعلقات کی وجہ سے عموماً جو کیس یہ لیتے تھے یا جن مقتولوں کی انہوں نے حمایت کی، اور اُن کے کیس لڑے اُن کی وجہ سے جو قاتل تھے وہ بہر حال ان کے خلاف ہو گئے تھے اور پھر احمدیت کی وجہ سے بھی ان کو دھمکیاں ملتی رہی تھیں۔ ان کا بھی جنازہ غائب ادا کیا جائے گا۔
تیسرا جنازہ غائب ہے مکرمہ رضیہ بیگم صاحبہ دارالرحمت وسطی ربوہ کا جو 25؍جون کو فوت ہوئی ہیں۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔ آپ حضرت میاں عبداللہ صاحب صحابی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیٹی اور ہمارے مبلغ سلسلہ قازقستان سید حسن طاہر بخاری کی والدہ تھیں۔ نیک، عبادت گزار تھیں، خلافت سے وفا کا تعلق رکھنے والی، نظامِ جماعت کے ساتھ بھر پور تعاون کرنے والی، مخلص خاتون تھیں۔ باوجود غربت کے آپ نے 24 سال کی عمر میں 1/3حصہ کی وصیت کی تھی۔ کچھ عرصہ شدید مالی تنگی کی وجہ سے وصیت ادا نہ کر سکیں تو دفتر وصیت کی طرف سے انہیں کہا گیا کہ وصیت کا حصہ کم کروا لیں، لیکن آپ نے جواب دیا کہ مَیں نے خدا تعالیٰ سے وعدہ کیا ہوا ہے وہ انشاء اللہ خود ہی سامان فرمائے گا اور توفیق بخشے گا۔ چنانچہ خدا تعالیٰ نے اُن کے ساتھ ایسا ہی سلوک فرمایا اور ایک موقعہ پر انہوں نے اپنا سارا بقایا یکمشت ادا کر دیا۔ آپ کو دو تین شدید حادثات بھی پیش آئے۔ ایک مرتبہ ٹرین کی پٹڑی کے ساتھ ساتھ پیدل چلتے ہوئے ٹرین نے ٹکر مار دی جس سے آپ شدید زخمی ہوئیں۔ اس کے علاوہ بھی بعض حادثات ہوئے لیکن شدید حادثات اور لمبے عرصے پر محیط مشکل حالات کو بڑی ہمت اور صبر سے انہوں نے تنہا برداشت کیا۔ حسن طاہر بخاری، جو آپ کے بیٹے ہیں، آپ کی وفات کے وقت ملک سے باہر تھے۔ ہمیشہ اُن کی ہمت بندھایا کرتی تھیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے اور ان تمام مرحومین سے مغفرت کا سلوک فرمائے۔ ابھی نمازِ جمعہ کی ادائیگی کے بعد میں باہر جا کر(کیونکہ ایک حاضر جنازہ ہے اس لئے وہاں جا کر) جنازہ پڑھوں گا اور احباب یہیں مسجد میں رہیں اور میرے پیچھے نمازِ جنازہ ادا کریں۔
مہمان نوازی مکمل عزت و احترام کے ساتھ ہونی چاہئے۔ اور یہ عزت و احترام اس لئے ہے کہ مہمان کاحق ہے۔ اللہ تعا لیٰ کا یہ فرمانا کہ مسافروں کو ان کے حقوق دو، ہم پر فرض عائد کرتاہے کہ مہمان نوازی کے وصف کو بہت زیادہ اپنائیں۔ صرف یہاں جلسے کے دنوں میں نہیں بلکہ عام طور پر گھروں میں بھی مہمان نوازی احمدی مسلمان کاایک امتیاز ہونا چاہئے۔
اگر عام مسافروں کا حق اللہ تعالیٰ نے قائم فرمایا ہے تو اللہ تعالیٰ کی راہ میں سفر کرنے والوں کا تو بہت زیادہ حق ہے کہ ان کو عزت و احترام دیا جائے اور ان کا حق ادا کیا جائے۔
ان مہمانوں کو خاص طور پر ڈیوٹی دینے والے کارکنان کو بہت زیادہ اہمیت دینی چا ہئے اور اللہ تعالیٰ کی خاطر سفر اختیار کرنے والے مسیح محمدی کے ان مہمانوں کی حتی المقدور مہمان نوازی کا حق ادا کرنا چاہئے اور اس کے لئے کوشش کرنی چاہئے۔ ربوہ کے بعد اس وقت لنگر خانے کا سب سے زیادہ وسیع نظام یوکے میں ہی ہے۔ ان مستقل لنگر چلانے والوں کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ تقریباً تمام یا بہت بڑی اکثریت والنٹیئرز ہیں جو سالوں سے بڑی خوشی سے حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے لنگر کے لئے وقت دے رہے ہیں۔
(حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مہمان نوازی کے نہایت دلچسپ، ایمان افروز واقعات کا روح پرور تذکرہ اور ان کے حوالہ سے مہمان نوازی کرنے والے کارکنان کو نصائح)
مکرم شیخ مبارک احمد صاحب آف لندن کی نماز جنازہ حاضر اور مکرم ملک مبرور احمد صاحب شہید آف نوابشاہ اور مکرمہ رضیہ بیگم صاحبہ آف ربوہ کا ذکرخیر اور نماز جنازہ غائب۔
فرمودہ مورخہ 15؍ جولائی 2011ء بمطابق 15؍وفا 1390 ہجری شمسی، بمقام مسجد بیت الفتوح۔ لندن
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔