جلسہ سالانہ پر اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور بے انتہا احسانات
خطبہ جمعہ 29؍ جولائی 2011ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
اللہ تعالیٰ کے فضل سے یو۔ کے کا جلسہ سالانہ گزشتہ اتوار اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور بے انتہااحسانات کا اظہار کرتے ہوئے، پھیلاتے ہوئے اپنے اختتام کو پہنچا۔ مجھے اُن لوگوں کے خطوط آ رہے ہیں جنہوں نے ایم۔ ٹی۔ اے کے ذریعہ اس جلسے میں شمولیت کی یا وہ لوگ بھی خطوط کے ذریعہ سے اظہار کر رہے ہیں جو بذاتِ خود جلسے میں شامل ہوئے اور اسی طرح شامل ہونے والے زبانی جو اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہیں۔ بلااستثناء ہر ایک کا یہ اظہار ہے کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کے فضلوں، رحمتوں اور احسانوں کی بارش کو برستے ہوئے دیکھا۔ اللہ کرے کہ یہ جذبات، یہ احساسات، یہ پاک تبدیلیاں جو ہر ایک نے اپنے اندر محسوس کی ہیں یہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحمت کے نظارے جو ہر ایک نے مشاہدہ کئے یا محسوس کئے ان کے پاک نتائج عارضی نہ ہوں بلکہ دائمی ہوں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خواہشات اور توقعات کو ہم ہمیشہ پورا کرتے چلے جانے والے ہوں۔ آپ فرماتے ہیں کہ:
’’ہماری جماعت کو قیل و قال پر محدودنہیں ہونا چاہئے۔ یہ اصل مقصدنہیں۔ تزکیہ نفس اور اصلاح ضروری ہے جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے مجھے مامور کیا ہے‘‘۔ (ملفوظات جلدنمبر4صفحہ410مطبوعہ ربوہ)
پس ہمارے احساسات، جذبات صرف اظہار کے طور پر نہ ہوں، صرف باتیں نہ ہوں۔ عارضی جوش کا اظہار نہ ہو۔ بلکہ یہ تمام احساسات، جذبات اس بنیادی مقصد کے حصول کا ذریعہ بن جائیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہمارے لئے چاہتے ہیں۔ یہ تمام باتیں جن کا ہم خطوط میں اور زبانی اظہار کر رہے ہیں ان کے اظہار ہمیشہ ہماری حالتوں سے ہوں، ہمارے عمل سے ہوں۔ اگر ہمارے نفوس کا تزکیہ اس جلسہ کے ماحول سے ہوا ہے تو اصل مقصد تبھی حاصل ہو گا جب ہم اُسے ہمیشہ کے لئے اپنی زندگی کا حصہ بنانے کی کوشش کریں گے۔ اگر اصلاح کی طرف ہماری توجہ پیدا ہوئی ہے تو یہ مقصد تبھی حاصل ہو گا جب اس کے حصول کے لئے مسلسل جدوجہد کریں گے۔ ہر وقت اس بات کو پیشِ نظر رکھیں کہ اتنا بے شمار خرچ جلسہ پر ہوتا ہے، جو تزکیہ نفس اور اصلاح کے لئے خلیفۂ وقت اور نظامِ جماعت کی طرف سے کوشش کی گئی ہے اور ہوتی ہے اس کو ہم نے اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کا ذریعہ بنانا ہے اور جب اس طرف بھر پور کوشش ہو گی تبھی ہم اللہ تعالیٰ کے حقیقی شکر گزار بن سکیں گے۔ اور جلسوں کے دائمی فیض سے حصہ پانے والے ہوں گے۔ تبھی ہم اس شکر گزاری کے نتیجے میں انفرادی طور پر بھی اور جماعتی طور پر بھی اللہ تعالیٰ کے مزید فضلوں کو حاصل کرنے والے بن سکیں گے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اعلان ہے کہ لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّکُمْ (ابراہیم: 8) کہ اگر تم شکر کرو گے تو مَیں مزید تمہیں بڑھاؤں گا۔
پس یہاں اللہ تعالیٰ واضح طور پر فرماتا ہے یا واضح طور پر اس بنیادی اصول کی طرف ہمیں توجہ دلاتا ہے کہ تمہاری ترقی اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں کے صحیح استعمال سے وابستہ ہے۔ ورنہ اگر ان نعمتوں کا اُس طرح شکر ادا نہیں کر رہے جو اُس کے ادا کرنے کا حق ہے تو یہ صرف مُنہ کی باتیں ہیں، زبانی جمع خرچ ہے کہ ہم نے اللہ کے فضل سے جلسہ کو دیکھا اور خوب فائدہ اُٹھایا۔ حقیقی فائدہ اور شکر تبھی ہو گا جب ہم اس جلسے کو اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنے کا ذریعہ بنا لیں گے۔ جماعت احمدیہ پر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بارش تو کبھی ختم ہی نہیں ہوتی۔ ہر روز مَیں تو جب اپنی ڈاک دیکھتا ہوں تو جماعتی ترقی اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے نظارے دیکھتا ہوں۔ پھر دَوروں اور جلسوں پر جہاں بھی شامل ہوں وہاں یہ عجیب نظارے نظر آتے ہیں۔ پس جماعت احمدیہ کا من حیث الجماعت تو لمحہ لمحہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو دیکھتے ہوئے گزرتا ہے اور ہم اُس پر اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری بھی کرتے ہیں۔ لیکن ہر احمدی پر انفرادی طور پر بھی اس شکر گزاری کا اظہار ہونا چاہئے۔ ہر احمدی کو اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر گزار ہونا چاہئے اور اُس کا بہترین ذریعہ اللہ تعالیٰ کے قرب کی تلاش کے لئے جدوجہد ہے، کوشش ہے۔ مَیں جماعتی فضلوں کی بات کر رہا تھا۔ گزشتہ مہینے مَیں جرمنی کے جلسہ میں شمولیت کے لئے گیا۔ وہاں جلسے کے پروگراموں کے علاوہ اور پروگرام بھی تھے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہ بھی بڑی کامیابی سے ہوئے۔ اُن کی شکر گزاری کا ذکر چل رہا تھا کہ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے فضلوں کی ایسی بارش برسائی کہ یو۔ کے کا یہ جلسہ سالانہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بارش دکھاتا ہوا آیا اور چلا گیا۔ پس وہ احمدی جواس بات کا ادراک رکھتا ہے کہ حضرت مسیح موعو د علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت میں آ کر میری ترجیحات بدل گئی ہیں، میری ذات کی خوشیاں جماعت اور اللہ تعالیٰ کی رضا سے اب وابستہ ہو گئی ہیں، وہ ہر وقت سجدہ شکر بجا لاتاہے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے اپنے وعدے پورے فرما رہا ہے اور کیسے کیسے انعامات سے ہمیں نواز رہا ہے۔ ہماری روحانی تربیت و ترقی کے بھی مواقع مہیا فرما رہا ہے۔ ہماری اخلاقی تربیت اور ترقی کے بھی مواقع مہیا فرما رہا ہے۔ ہماری عبادات کے معیاروں کی بہتری اور ترقی کے بھی مواقع وقتاً فوقتاً مہیا فرماتا رہتا ہے۔ اور پھر اب ہماری روحانی اور اخلاقی ترقی کے لئے چند دن بعد ایک اور موقع مہیا فرمانے لگا ہے جو رمضان المبارک کی صورت میں آئے گا انشاء اللہ۔
پس ہماری شکر گزاری اگر اپنی عملی حالتوں کی بہتری کی کوششوں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے مواقع مہیا فرمانے اور بھر پور فائدہ اُٹھانے پر ہو گی تو پھر فضلوں کی بارش بھی پہلے سے بڑھ کر ہم اپنے پر برستا دیکھیں گے۔ انشاء اللہ۔
پس اس جلسہ کی برکات کو رمضان کی برکات میں داخل کرتے ہوئے رمضان کے روحانی ماحول سے بھی بھر پور فائدہ اُٹھانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اپنے اندر جو پاک تبدیلی ہم نے محسوس کی ہے اُسے مزید صیقل کرنے کی ہم رمضان میں کوشش کریں گے تو تبھی ہم جلسہ کے کامیاب انعقاد پر اللہ تعالیٰ کے حقیقی شکر گزار بن سکیں گے۔ پس جلسے پر ہمیں جو انفرادی اور اجتماعی عبادتیں کرنے کی توفیق ملی اور مجھے بتانے والے بتاتے ہیں کہ خاص طور پر نوجوانوں اور بچوں کی کافی تعداد اس دفعہ تہجد کے لئے، جو جماعتی تہجد ہوتی تھی، مارکی میں آتے تھے۔ اور تہجد پڑھنے والے بچوں کی یہ تعداد گزشتہ سالوں کی نسبت پہلے سے بہت زیادہ تھی۔ ایک باپ مجھے کہنے لگا کہ میرا چودہ پندرہ سال کا جو لڑکا ہے پہلے نماز کے لئے بھی مشکل سے جاگتا تھا اب یہاں تین دنوں میں ایک آواز پر تہجد کے لئے اُٹھ بیٹھتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کے فضلوں کوہم تبھی مستقل حاصل کر سکتے ہیں کہ ان تبدیلیوں کو زندگی کا حصہ بنانے کی ہر بڑا، بچہ، مرد، عورت کوشش کرے۔ خوش قسمتی سے اللہ تعالیٰ ایک اور روحانی ماحول ہمیں مہیا فرمانے لگا ہے جو چند دنوں بعد آنے والا ہے۔ جیسا کہ مَیں نے کہا، رمضان کا مہینہ انشاء اللہ شروع ہونے والا ہے، اُس سے بھی بھرپور فائدہ اُٹھائیں تو تب ہی ہماری زندگیوں میں یہ نہ ختم ہونے والا شکر گزاری کامضمون جاری رہے گا۔ اور اللہ تعالیٰ کے وعدہ لَاَزِیْدَنَّکُمْ سے ہم فیض پاتے، فیض یاب ہوتے چلے جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔
جیسا کہ میرا طریق ہے کہ جلسہ کے بعد کے ایک خطبہ میں جلسہ کے حوالے سے بھی اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور انعاموں کا ذکر چلتا ہے لیکن کسی فخر کے رنگ میں نہیں، انتظامیہ یا کارکنان اپنی کوششوں پر کامیابی کا ذکر نہیں کرتے، یا اُن کا ذکر نہیں ہوتا بلکہ اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہونے کے لئے یہ ذکر کیا جاتا ہے۔ ایک دوسرے کا شکرگزار ہونے کے لئے یہ ذکر چلتا ہے کہ بندے کا شکر کرنا بھی ضروری ہے اور ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے جو بندے کا شکرنہیں کرتا وہ اللہ تعالیٰ کا بھی شکر ادانہیں کرتا‘‘۔ (سنن ترمذی کتاب البر و الصلۃ باب ما جاء فی الشکر لمن احسن الیک حدیث نمبر1954)
پس اس حوالے سے شکر گزاری کایہ مضمون بیان ہوتا ہے اور پھر جو واقعات سامنے آتے ہیں ان سے اللہ تعالیٰ پر ایمان اور یقین مزید بڑھتا ہے۔ بچوں اور نوجوانوں کی تہجد کی طرف توجہ کا مَیں نے ذکر کیا ہے اس پر والدین کو خدا تعالیٰ کا شکر گزار ہونا چاہئے کہ اُس نے ہمارے بچوں کی اس طرف توجہ پیدا کروائی اور اس کے لئے حقیقی شکر گزاری یہ ہے کہ والدین خود بھی اپنے نوافل کو پہلے سے زیادہ احسن رنگ میں ادا کرنے کی کوشش کریں۔ جو نہیں کرتے وہ اس طرف توجہ کریں تا کہ بچوں کے لئے نمونہ بنیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جیسا کہ مَیں نے جلسہ کے آخری دن بتایا تھا، کہ اللہ تعالیٰ نے اس جلسہ میں، چھیانوے ممالک کو، اُن کے افراد کو، احمدیوں کو نمائندگی کی توفیق عطا فرمائی۔ ہر سال اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ تعداد بڑھتی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ان الفاظ کو دیکھ کر مختلف قوموں کا یقین بڑھتا اور شکر گزاری کے جذبات پیدا ہوتے ہیں جو آپ نے فرمایا کہ’’اس کے لئے قومیں تیار کی ہیں جو عنقریب اس میں آ ملیں گی‘‘۔
اللہ تعالیٰ کے فضل سے آہستہ آہستہ یہ قومیں شامل ہو رہی ہیں۔ پس یہ لوگ جو آتے ہیں احمدیوں کے ساتھ غیر از جماعت مسلمان اور غیر مسلم بھی شامل ہوتے ہیں اور جہاں یہ پہلی دفعہ شامل ہونے والے احمدی جلسہ کے ماحول سے متاثر ہوتے ہیں وہاں غیر مسلم بھی اپنے تأثرات بیان کرتے ہیں اور جماعتی نظام اور جلسہ کے انتظام سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ بعض کے خیالات کا اظہار آپ جلسے میں سُن چکے ہیں۔ غیر احمدیوں کے تو تصور سے بھی یہ دور ہے، باہر ہے کہ اتنے آرام سے، اتنے انتظامات، نہ صرف یہ کہ والنٹیئرز کے ذریعہ سے ہو رہے ہیں بلکہ ایسے والنٹیئرز کے ذریعہ سے ہو رہے ہیں جو عام زندگی میں مختلف پیشوں سے تعلق رکھنے والے ہیں۔ اُن کے ہاں اتنے بڑے مجمعے ہوں تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ انتظام ہو سکے بلکہ فتنہ پردازوں اور شیطان صفت لوگوں کا اتنا دخل ہو جاتا ہے کہ بعضوں کو امن سے رہنا ہی نصیب نہیں ہوتا۔ ہمارے ہاں جب یہ سارے کام کرنے والے آرام سے کام کر رہے ہوتے ہیں تو یہ اُن کے لئے بہت متأثر کرنے والی چیز ہے کہ ایسے لوگ جن کاپیشہ مختلف ہے وہ جو کام کر رہے ہیں اُس سے اُن کا دُور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ مثلاً کھانا پکانے والے وہ لوگ ہیں کہ ان میں سے بعض یہاں اچھے بھلے عہدوں پر کام کرنے والے افسران ہیں۔ اچھے سرکاری عہدوں پر فائز ہیں۔ اپنے کاروبار کرنے والے ہیں۔ اسی طرح دوسرے شعبہ جات ہیں، صفائی وغیرہ جو ہے یا دوسرے بیشمار شعبے ہیں، ہر شعبہ میں کام کرنے والا بے نفس ہو کر کام کرتا ہے۔ پس یہ خوبصورتی جو جماعت احمدیہ کے کارکنان کی ہے یہ دوسروں کو متأثر کئے بغیر نہیں رہ سکتی۔ پھر بچوں کا پانی پلانا، یہ بھی لوگوں کو بڑا متاثر کرتا ہے۔ مختلف جگہوں پر، مختلف طریقوں سے سکیورٹی ڈیوٹیاں ہیں اور یہ سب کام جو مختلف کارکنان اور کارکنات ہنستے مسکراتے انجام دے رہے ہوتے ہیں غیروں کو خاص طور پر متاثر کئے بغیرنہیں رہتا۔ اور جماعت کے متعلق اُن کے خیالات مزید بہتر ہوتے ہیں۔ مثلاً اس دفعہ ترکی کے وفد میں بعض غیر از جماعت آئے ہوئے تھے جو مختلف مذہبی تعلیمات کے یونیورسٹی پروفیسر تھے۔ کوئی حدیث کا ماہر تھا، کوئی تصوف کا تو کوئی کسی اور مضمون کا۔ جلسہ کے انتظامات دیکھ کر اور ایک پُر امن ماحول دیکھ کر بڑے متاثر ہوئے تھے۔ بعض کو تولگتا تھا کہ جب اس معاملہ میں بات کرو تو تھوڑی دیر بولنے کے بعد اُن کے پاس بالکل الفاظ نہیں رہتے تھے اور بعض تو بالکل ہی گُنگ ہو گئے تھے۔ حیران تھے، پریشان سے لگتے تھے کہ یہ کس قسم کے لوگ ہیں۔ اُن پر کیونکہ ابھی اپنے معاشرے کا خوف ہے اس لئے بہرحال احمدیت قبول کرنے کی تو شاید ابھی اُنہیں جرأت نہ ہو لیکن جلسہ کے بعد مجھے امید ہے کہ وہ مخالفین کو خود ہی جواب دینا شروع کر دیں گے، کم از کم حقیقت اُنہوں نے دیکھ لی ہے۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضلوں میں سے ایک بہت بڑا فضل ہے کہ اللہ تعالیٰ اس جلسہ کے ذریعہ سے غیروں کے شکوک و شبہات دور فرماتا ہے۔ اور یہ جلسہ بعض سعید روحوں کی رہنمائی کابھی باعث بنتا ہے۔
غیروں میں سے اور اسی طرح اپنوں میں سے بھی جو لوگ مجھے ملے ہیں یہ سب کارکنان کے شکر گزار ہیں۔ اُنہوں نے اس کا بہت اظہار کیا۔ تو اُن کی طرف سے مَیں بھی کارکنان اور کارکنات تک اُن کے شکریہ کے جذبات پہنچا دیتا ہوں۔ اسی طرح باہر سے خطوط کے ذریعہ، فون کے ذریعہ سے جو پیغامات آ رہے ہیں وہ بھی اس سارے نظام سے بہت متاثر ہوئے ہیں۔ ہمیشہ ہی ہوتے ہیں اور ہر دفعہ نئے تبصرے ہوتے ہیں اور ایم۔ ٹی۔ اے کے بھی شکر گزار ہیں۔ اُن کو بھی اُنہوں نے پیغام دیا ہے۔
جو پیغامات فوری طور پر تیار ہو سکے آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں، یہ زیادہ عرب دنیا کے ہی ہیں۔ ایک غیر احمدی خاتون یمن سے یہاں جلسہ پر آئی تھیں۔ وہ کہتی ہیں کہ مَیں اس جلسہ میں شمولیت سے بہت خوش ہوں اور بہت سے احمدی بہن بھائیوں سے ملاقات کر کے بہت خوش ہوں جنہوں نے احمدیت سے متعلق میرے ذہن سے بہت سے غلط خیالات کی اصلاح کی اور احمدیت کی صحیح اور واضح تصویر پیش کی۔ آپ کی غیر معمولی مہمان نوازی پر شکر واجب ہے۔ ہر طرح سے مہمانوں کے آرام و آسائش کا خیال رکھنے کی بھر پور کوشش کی گئی۔
پھر ایک نومبائع خالد صاحب ہیں، اُنہوں نے عکرمہ نجمی صاحب کو بتایا۔ (انہوں نے اس سال 11؍مئی کوبیعت کی تھی)۔ وہ کہتے ہیں کہ مَیں نے ٹی۔ وی پر جلسہ کی ساری کارروائی دیکھی ہے۔ ماشاء اللہ جلسہ کے انتظامات بہت اعلیٰ تھے اور کارکنان کی طرف سے کسی قسم کی کوتاہی نہیں ہوئی۔ ٹی وی پر دیکھنے والے بھی محسوس کرتے ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ ہاشم صاحب نے یہاں سے روانگی سے دو دن قبل مجھے بتایا۔ اگر کچھ عرصہ قبل بتاتے تو مَیں بھی ضرور اس مبارک جلسہ میں شامل ہوتا۔ اگلے سال مَیں ضرور شامل ہوں گا۔
پھر کبابیر کے ایک صاحب ہیں وہ لکھتے ہیں کہ نہایت فخر اور سرور کے ساتھ ہم نے جلسہ سالانہ برطانیہ کے جملہ پروگرام دیکھے۔ جلسے کا نظام اور تیس ہزارکے قریب شاملینِ جلسہ کی بڑے سکون کے ساتھ اور بغیر کسی اُکتاہٹ کے خدمت اُس شہد کے چھتے کا سماں پیش کر رہی تھی جس کا کام صرف صاف شہد فراہم کرنا ہوتا ہے۔ پھر لکھتے ہیں کہ ہمارے نوجوانوں نے ایم۔ ٹی۔ اے العربیۃ کے ذریعے عرب دنیا کے لئے جلسہ کے جملہ پروگراموں کو نشر کرنے کیلئے جو کوششیں کی ہیں وہ قابلِ تعریف ہیں۔ پھر میری آخری تقریر پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ یہ خطاب دلوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت قائم کرنے والا اور انسانی ضمیر کو جگانے والا اور روح کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے آستانہ پر جھکانے والا تھا۔ اور یہ ایسی حقیقت ہے جس کا صرف اور صرف جماعت احمدیہ پرچار کر رہی ہے۔
پھر اسامہ حِلِّس مالدووا سے لکھتے ہیں کہ عالمی بیعت کے وقت جب تمام خدامِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم خلیفہ وقت کے ہاتھ کے ساتھ ہاتھوں کی زنجیر بناتے ہوئے عہدِ بیعت دہراتے جا رہے تھے اُس وقت اس منظر اور ان کلمات نے دل میں کچھ ایسا جوش پیدا کر دیا کہ ہم بے اختیار ہو کر اشک آلود آنکھوں کے ساتھ بیعت کے الفاظ دہرانے لگے۔ کاش مَیں بھی اس مبارک موقع پر وہاں ہوتا اور ان روحانی و آسمانی برکات سے حصہ پاتا۔
پس اے جلسہ میں شرکت کرنے والے بھائیو! آپ سب کو تجدیدِ عہدِ بیعت اور اس جلسے میں شمولیت مبارک ہو۔ پھر لکھتے ہیں کہ ایم۔ ٹی۔ اے کا بہت بہت شکریہ جس کے ذریعے اس جلسے میں شامل نہ ہونے والوں کو اہم امور اور خطابات اور جلسے کے ماحول سے اطلاع دی جاتی رہی۔ اس سیاق میں عرب ڈیسک کی کوششیں قابلِ ذکر ہیں جنہوں نے بھر پور کوشش کی کہ جلسے کی جملہ تصویر ہمارے تک پہنچ سکے۔ فجزاھم اللہ
پھر شام سے یٰسین صاحب لکھتے ہیں کہ جلسہ سالانہ کے کامیاب انعقاد کے موقع پر اپنی اور اپنے اہلِ خانہ کی طرف سے دلی مبارکباد پیشِ خدمت ہے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی برکات سے عرب دنیا کو بھی مستفیض فرمائے۔ تایہ امام الزماں کی بیعت میں آ کر حقیقی اسلام کو قبول کر لیں اور پھر بلادِ عربیہ میں بھی ایسے جلسہ جات منعقد ہوں جن میں ہم بھی شریک ہو سکیں اور ان ملکوں میں بھی امن و سلامتی کی فضا قائم فرما دے۔
ریم صاحبہ لکھتی ہیں کہ جلسہ سالانہ کی کارروائی اور کامیابی سے انعقاد کو دیکھ کر اس مبارک جماعت کا رکن ہونے پر بہت فخر محسوس ہوا۔ مجھے لکھتی ہیں کہ مَیں تجدیدِ بیعت کرتی ہوں اور وعدہ کرتی ہوں کہ تمام شرائطِ بیعت پر عمل کرنے کی کوشش کروں گی۔ میرے لئے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھے اگلے سال جلسہ میں شرکت اور اس کی برکات سے مستفیض ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔
پھر شام سے امّ احمد صاحبہ، کہتی ہیں جلسہ سالانہ اور عالمی بیعت کی تقریب پر مبارکباد عرض ہے۔ کہتی ہیں کہ میری قسمت اتنی اچھی نہیں تھی کیونکہ امسال جلسہ پر آنے کی بھر پور کوشش کے باوجود ہمیں ویزہ نہ ملا اور مَیں آ نہ سکی لیکن میرا شوق اور محبت یہاں آنے کا اور ملنے کا بہت زیادہ بڑھ گیا ہے۔ پھر کہتی ہیں کہ دنیاکی عورتوں کی خوشی تو شاید دنیاوی امور کے حصول سے وابستہ ہوتی ہے لیکن میری خوشی آپ کی محفل میں حضوری سے ہی عبارت ہے۔ لکھتی ہیں کہ نہ جانے وہ دن کب آئے گا جب مَیں حدیقۃ المہدی کے خوبصورت روحانی رنگوں کی رِداء زیب تن کروں گی اور میری خوشیوں کی انتہا نہ رہے گی۔ پھر لکھتی ہیں اس روحانی مائدہ کو پیش کرنے پر بہت بہت شکریہ اور مبارکباد عرض ہے۔ ہم نے جلسہ سالانہ کو دیکھا اور آپ کے خطابات سے بھر پور استفادہ کیا۔ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ہر آن خلافت کی نعمت کے ساتھ وابستہ رکھے اور اس کی اطاعت کی کما حقہ توفیق عطا فرمائے۔
پھر عرب امارات سے عبداللطیف صاحب لکھتے ہیں کہ جلسہ سالانہ کے اس مبارک موقع پر دلی مبارکباد پیشِ خدمت ہے جس میں لاکھوں احمدیوں کے دل محبت و ایمان اور رحمت کی نعمت سے بھر جاتے ہیں۔ بلا شک جلسہ سالانہ ہمّتیں بلند کرنے اور نیک عادتوں کو مزید طاقت بخشنے کے لئے آیا ہے۔ یہ جلسہ اُن لوگوں پر غلبہ کا اعلان ہے جو خدا کے نور کو اپنے منہ کی پھونکوں سے بجھانا چاہتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ اپنا نور پورا کر کے رہے گا چاہے کافر اُسے کتنا ہی ناپسند کریں۔ پھر یہیں سے شامل ہونے والی ایک عرب، امیمہ صاحبہ لکھتی ہیں کہ سب سے پہلے تو مَیں آپ کو (مجھے لکھ رہی ہیں کہ) اس غیر معمولی طور پر کامیاب جلسے کے انعقاد پر مبارکباد عرض کرنا چاہتی ہوں اور خدا کا شکر ہے کہ اُس نے تمام اسباب مہیا فرمائے اور ہمیں اس عظیم الشان جلسے میں شمولیت کی توفیق بخشی۔ دعا کریں کہ خدا تعالیٰ اپنا فضل سے آپ کے قیمتی خطابات اور ارشادات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہماری اولادوں کو بھی اس مبارک جماعت کے فعال کارکن اور خدام بنائے رکھے۔ لکھتی ہیں جس طرح ہمارے پاکستانی بھائی بے لوث خدمت کرتے ہیں اور انکساری اور صبر اور استقامت کے زیور سے آراستہ ہیں، دعا کریں کہ خدا تعالیٰ ہم عربوں کو بھی انہی اخلاق کو اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔ یہ بھی اُن کی عاجزی اور کسرِ نفسی ہے۔ عرب بھی جہاں جہاں بھی اُن کے سپرد کام کئے گئے ہیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑی محنت سے اور عاجزی سے خدمات بجالا رہے ہیں۔ پھر مصر سے ایک صاحب لکھتے ہیں جو جلسہ میں شامل ہوئے تھے کہ مَیں اور میرے تمام ساتھی جلسہ سے بہت متاثر ہوئے۔ یہ عبدالسلام صاحب ہیں۔ لکھتے ہیں کہ آپ کے آخری دن کے خطاب نے عزمِ صمیم اور چیلنجز کا مقابلہ کرنے کی روح پیدا کی اور ختمِ نبوت پر ہمارا ایمان پختہ کیا۔ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ تمام امانتوں اور ذمہ داریوں کا حق ادا کرنے کی توفیق بخشے۔ اکرامِ ضیف اور مہمان نوازی کی عجیب شان تھی۔ یوں لگتا تھا جیسے اس تمام مقام پر اللہ تعالیٰ کی تجلیات جلوہ گر ہیں۔ ہر طرف اخلاقِ عالیہ نظر آتے تھے۔ جس دن سے جلسہ میں حاضر ہوا ہر طرف دینِ اسلام کی اور قرآنِ کریم اور سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کی تجلیات نظر آ رہی تھیں۔ اللہ تعالیٰ کے فرشتوں کی معیت محسوس ہوتی تھی جو سارے کام از خود سنوار رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ اس جلسہ کو بہتوں کے لئے ہدایت کا موجب بنائے۔
پھر مصر کی ایک نو احمدی خاتون لکھتی ہیں کہ قبل ازیں ایم۔ ٹی۔ اے پر جلسے کے بارہ میں سُنا کرتی تھی۔ پھر وہ دن آیا جب مَیں خدا کے فضل سے حدیقۃ المہدی پہنچ گئی جہاں خود خلیفۃ المسیح موجود تھے۔ عالمی بیعت کے روز ہم میاں بیوی بیعت میں شامل نہ ہو سکے کیونکہ میرے خاوند کو اس احاطے میں جانے کے لئے کارڈ نہ دیا گیا اور مجھے چھوٹے بچوں کی وجہ سے بچوں والی عورتوں کے لئے مخصوص خیمے میں جانا پڑا۔ لیکن وہاں جگہ نہ ہونے کی وجہ سے باہر کھڑی ہو کر ٹی وی پر بیعت کا نظارہ دیکھا۔ اس دوران جماعت کے لئے، (مجھے لکھ رہی ہیں کہ) آپ کے لئے دعائیں کرتی رہی۔ اُس وقت مجھے احساس ہوا کہ مَیں نے جماعت سے نظام کی اطاعت کا سبق سیکھا ہے۔ چنانچہ ایک لفظ بھی زبان پر لائے بغیر اطاعتِ نظام کرتی ہوئی خاموشی سے بچوں کو لے کر باہر چلی گئی۔ جہاں تک نظم و ضبط کا تعلق ہے تو اس کا انتظام کرنے والوں کے لئے دل سے دعانکلتی ہے۔ آپ نے ہمیں مہمان نوازی اور اُن کے استقبال کے طریق سکھائے۔ ہر کام کرنے والے کے چہرے کی مسکراہٹ سے اُن کے اخلاص کا پتہ چلتا تھا۔ گویا یہ مہمان اُن کے گھر کے افراد ہوں۔ کہتی ہیں کہ میرے بچے بالعموم اپنے والد کے ساتھ جلسہ گاہ میں ہوتے تھے جو کبھی سو جاتے تھے اور پھر نعروں کی آواز سُن کر جاگ جاتے اور بے اختیار نعرے لگانے لگتے۔ دعا کریں کہ ہمیں ہر سال جلسہ میں شرکت کی توفیق عطا ہو۔ کیونکہ اب ہم نے ایک دفعہ جلسہ دیکھ لیا ہے تو اسے مِس (Miss)نہیں کر سکتے۔
پھر مراکش کے ایک صاحب لکھتے ہیں کہ جلسہ سالانہ کے کامیاب انعقاد پر مبارکباد عرض ہے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ وہ وقت جلد لائے جب اگلے جلسے مکۃ المکرمہ میں منعقد ہوں اور ہم رُکن و مقام کے مابین عالمی بیعت کے نظارے دیکھیں۔ تو یہ چند تأثرات ہیں جو چند عربوں کے ہیں، باقیوں کے تو تحریر میں نہیں آئے۔ اس مرتبہ امریکہ کے کافی لوگ یہاں آئے ہوئے تھے جو جلسہ میں شامل ہوئے۔ تیس سے زائد تو مقامی امریکن احمدی شامل ہوئے تھے۔ میرے ساتھ جب اُن کی ملاقات تھی تواس میں وہ لوگ جو جلسہ پر شامل ہوئے شکر اور اللہ تعالیٰ کی حمد کے جذبات سے لبریز تھے۔ پھر جماعت اور خلافت سے وابستگی پر اُن کے جذبات ناقابلِ بیان تھے۔ وہ جذبات سے اتنے مغلوب تھے کہ اُن کے لئے بات کرنا بھی مشکل تھا۔ خلافت کی محبت، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی محبت، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت، محض اللہ تعالیٰ کی محبت کے حصول کے لئے اُن کے دلوں میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ اللہ تعالیٰ اُن سب کے ایمان و ایقان کو مزید بڑھائے۔ امریکن احمدیوں کے دلوں میں یا عربوں میں یا دوسرے احمدیوں کے دلوں میں جو جلسے میں شامل ہوئے، جلسہ نے جو انقلاب پیدا کیا ہے یہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے قرب کی راہیں دکھانے والا ہو۔
جیسا کہ مَیں نے پہلے بھی اشارہ کیا تھاکہ ایم۔ ٹی۔ اے نے دنیائے احمدیت کو ایک کرنے اور جلسوں اور دوسرے پروگراموں کو دکھانے میں جو کردار ادا کیا ہے اور کر رہا ہے اس سے تمام دنیا کے احمدی ایم۔ ٹی۔ اے کے کارکنوں کے بہت شکر گزار ہیں۔ اس مرتبہ جلسہ کے دنوں میں وقفوں کے دوران جو مختلف پروگرام دکھائے گئے، ایم۔ ٹی۔ اے نے اس دفعہ پیٹرن (Pattern) بھی بدلا تھا اور پریزنٹر (Presenter)کے طور پر جو نئے نوجوان چہرے آئے اُسے دنیائے احمدیت میں بہت پسند کیا گیا۔ ہمارے پروگرام تو دنیا کو حقیقت سے آشکار کرنے اور تصنع سے پاک ہوتے ہیں اور ہونے چاہئیں۔ جبکہ دوسرے چینلوں کا خیال ہوتا ہے کہ سکرین پر آنے والا پہلے میک اپ کر کے آئے، بات کرے تو تصنع اور بناوٹ ہو، پھر جو پروگرام ہوتے ہیں اُس میں ہر ایک جھوٹ کے ذریعے سے اپنا نکتہ نظر بیان کر رہا ہوتا ہے یا جھوٹے پروگرام یا ڈرامے ہوتے ہیں۔ آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایم۔ ٹی۔ اے ہے جو چوبیس گھنٹے ان فضولیات سے پاک ہے۔ ہمارے پریزنٹر بھی تصنع اور بناوٹ سے پاک اور اخلاص و وفا سے پُر ہوتے ہیں۔ یہی اخلاص و وفا جب دنیا سکرین پر دیکھتی ہے تو تعریف کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان سب پروگرام پیش کرنیوالوں اور پروگراموں میں شامل ہونیوالوں، مختلف پروگرام تیار کرنے والوں اور دکھانے والوں کو جزا عطا فرمائے۔ مَیں اپنی طرف سے بھی اور تمام دنیائے احمدیت کی طرف سے بھی ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ ایم۔ ٹی۔ اے میں کام کرنے والے ان مرد و خواتین کو اخلاص و وفا میں بڑھاتا رہے۔ جب اپنے بارہ میں تعریفی کلمات سنیں تو ان کارکنان اور کارکنات کو بھی اس میں مزید عاجزی دکھاتے ہوئے اور شکر کے مضمون کو سامنے رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے حضور مزید عاجزی سے جھکنا چاہئے، یہ ہر ایک مومن کا فرض ہے، تبھی اللہ تعالیٰ اُن کی صلاحیتوں کو مزید اُجاگر کرے گا۔ عموماً اللہ تعالیٰ کے فضل سے کارکنان اور کارکنات اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ جلسے کی ہر ڈیوٹی کو سرانجام دیتے ہیں جیسا کہ ذکر ہو چکا، پہلے بھی ہر سال مَیں ذکر کرتا رہا ہوں۔ اس مرتبہ بھی واقفینِ نو کارکنان اور کارکنات کو بعض اہم ڈیوٹیاں سونپی گئی تھیں، اُنہوں نے بھی بہت ذمہ داری اور اخلاص سے نمایاں ہو کر اپنے فرائض ادا کئے ہیں اور جو بھی مختلف کام دیا گیا تھا اس پر ان کے انچارج کی طرف سے مجھے اچھی رپورٹس ملیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ انہیں اپنے وقف کی روح کو قائم رکھتے ہوئے یہ کام کرنے کی توفیق عطا فرماتا رہے۔
مجھے جرمنی کے جلسے کے بعد کسی نے لکھا تھا کہ مَیں نے جرمنی کے جلسہ میں شمولیت کی اور وہاں لجنہ کے ہال میں یہ بات بہت اچھی لگی کہ بغیر کسی کو خاموش کروائے یا خاموش کروانے کی ڈیوٹی والیوں کے عورتیں خاموشی سے جلسے کی کارروائی سن رہی تھیں اور اسی مضمون کا خط مجھے امریکہ سے بھی آیا کہ یہاں جلسہ میں پہلی مرتبہ شامل ہوئی ہوں اور مَیں نے دیکھا ہے کہ یہاں یو۔ کے کے جلسہ کی طرح عورتوں کو خاموش کروانے کے لئے مختلف جگہوں پر بورڈ اُٹھائے ہوئے یا کارڈ اُٹھائے ہوئے کارکنات کھڑی نہیں ہوتیں بلکہ خود بخود عورتیں ڈسپلن سے بیٹھی ہیں اور خاموش ہیں۔ یہ ڈسپلن یو۔ کے میں بھی ہونا چاہئے۔ تو جیسا کہ جرمنی اور امریکہ کے بارہ میں انہوں نے لکھا تھا تو مَیں نے یہ خط پڑھ کر اس پرزیادہ توجہ تو نہیں دی کیونکہ مجھے پتہ تھا کہ لکھنے والوں نے یو۔ کے لجنہ کی کمزوریوں پر کچھ زیادہ ہی مبالغہ کیا ہے۔ لیکن جلسہ پر مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ کم از کم میری تقریر کے دوران مجھے کارڈ اُٹھائے کوئی ایسی کارکن نظر نہیں آئی اور اس کے باوجود خاموشی کا معیار بہت بلند تھا اور بڑے غور سے تقریر کو سننے کی طرف توجہ تھی۔ اور مجھے یہ بھی پتہ چلا ہے کہ عام طور پر بھی لجنہ نے بہت خاموشی سے جلسے کی کارروائی سنی تھی اور کسی بھی قسم کی کوئی ڈسٹربنس (Disterbance) نہیں ہوئی۔ پس اس لحاظ سے جلسہ میں شامل ہونے والی جو خواتین ہیں ان کا بھی کارکنات کو شکر ادا کرنا چاہئے اور جوشامل ہونے والیاں ہیں اُن کی بھی شکر گزاری یہ ہے کہ آئندہ اس سے بھی بڑھ کر اپنے ڈسپلن کا اظہار کریں اور جلسے کی برکات کو سمیٹنے کی کوشش کریں اور پھر ہمیشہ اُنہیں اپنی زندگیوں کا حصہ بنائیں۔ اپنے گھروں کو اللہ تعالیٰ اور رسول کے حکم اور تعلیم کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کریں کیونکہ یہ عورتوں کی بہت بڑی ذمہ داری ہے۔ یہی چیز ہے جو آپ کو حقیقی شکر گزاربنانے والی ہو گی۔
ایک غیر نے کام کرنے والے ایک کارکن کے جذبات کا اظہار جو مجھے بتایا وہ آپ کو بھی سنا دیتا ہوں۔ سویڈن سے آئے ہوئے جو ایک ہمارے کالمار، وہاں کے شہر کے میئر تھے وہ مجھے کہنے لگے کہ ایک کارکن جو کسی شعبہ کے ناظم تھے، وہ مجھے نظارہ دکھانے کے لئے اونچی جگہ پر لے گئے، جہاں سے تمام جلسہ کا جوولیج ہے وہ نظر آتا تھا۔ جو بھی مارکیاں وغیرہ لگی ہوئی تھیں سڑکیں وغیرہ ہر چیز نظر آتی تھی۔ تو وہ کارکن ان کو بڑے جذباتی انداز میں یہ کہنے لگا کہ یہ خوبصورت نظارہ جو آپ دیکھ رہے ہیں اس کو کھڑا کرتے ہوئے جس میں مَیں بھی شامل تھا ہمیں دو ہفتے لگے ہیں اور ایک ہفتے کے بعد اس کو ہم صاف کر دیں گے اور یہاں صرف میدان ہو گا۔ اس بات کو کہتے ہوئے وہ کارکن بڑے جذباتی ہو گئے۔ تو جو محنت سے کام کر رہے ہوتے ہیں، اُن کے اپنے جذبات ہوتے ہیں جس کا اظہار وہ کرتے رہتے ہیں۔ بہر حال یہ تو ہمارے فرائض میں شامل ہے کہ جس حد تک ہمیں اجازت ہے اُس حد تک ہی ہم اُس جگہ کو آباد کر سکتے ہیں اور یہ ہر سال اسی طرح ہوتا ہے کہ آبادی بھی ہوتی ہے اور پھر اُس کے بعد اُس سب کچھ کو وہاں سے اُٹھا بھی لیا جاتا ہے۔ اور یہ کارکنان جو ہیں یہ بڑی محنت سے مارکیاں لگانے کا کام، اُس سارے نظام کو قائم کرنے کا کام اور پھر وہاں سے اُس کو وائنڈ اَپ کرنے کا کام کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو جزادے۔
شامل ہونے والوں کی بھی شکر گزاری ہے کہ ان کو جہاں یہ شکر گزار ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے اُن کو شامل ہونے کی توفیق عطا فرمائی وہاں اُن کو کارکنان کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہئے کہ اُنہوں نے اُن کے لئے سہولیات مہیا کیں اور کارکنان بھی شکر گزار ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں خدمت کا موقع مہیا فرمایا اور دونوں کا مقصد ایک تھا کہ ہم اللہ تعالیٰ کی خاطرایک ہو کر اللہ تعالیٰ کے دین اسلام کی خدمت کا حق ادا کرنے کی کوشش کریں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس مضمون کو سمجھتے ہوئے ہمیشہ اپنے ربّ کے حضور جھکائے رکھے، اپنے حضور جھکائے رکھے۔ اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول ہمیشہ ہمارا مقصد رہے۔ ہم حقیقی اور سچے احمدی مسلمان بننے والے ہوں۔ دنیا میں اسلام کی حقیقی تعلیم پھیلانے والے ہوں۔ تبھی ہم امام الزمان کی جماعت میں شامل ہونے کا حق ادا کر کے حقیقی شکر گزار بن سکتے ہیں۔ اس کے حصول کے لئے ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس ارشاد کو بھی سامنے رکھنا چاہئے۔
ایک جگہ آپ فرماتے ہیں کہ:
’’اسلام کی حفاظت اور سچائی کے ظاہر کرنے کے لئے سب سے اوّل تو وہ پہلو ہے کہ تم سچے مسلمانوں کا نمونہ بن کر دکھاؤ اور دوسرا پہلو یہ ہے کہ اس کی خوبیوں اور کمالات کو دنیا میں پھیلاؤ‘‘۔ (ملفوظات جلدنمبر4صفحہ615مطبوعہ ربوہ)
پھر آپ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:
’’اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ حقیقی ایمان کی روح پھونکے جو اس سلسلے کے ذریعے سے اُس نے چاہاہے‘‘۔ (ملفوظات جلدنمبر3صفحہ499مطبوعہ ربوہ)
پس جیسا کہ شروع میں مَیں نے کہا تھا کہ جلسہ کا اصل مقصد پاک تبدیلیاں پیدا کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ہم پاک تبدیلیاں پیدا کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خواہشات کوپورا کرنے والے ہوں۔
ہماری شکرگزاری اگر اپنی عملی حالتوں کی بہتری کی کوششوں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے مواقع مہیا فرمانے اور بھرپور فائدہ اٹھانے پر ہوگی تو پھر فضلوں کی بارش بھی پہلے سے بڑھ کر ہم اپنے اوپر برستا دیکھیں گے۔
اللہ تعالیٰ نے اس جلسہ میں 96ممالک کو نمائندگی کی توفیق عطا فرمائی۔ جلسہ سالانہ کی برکات و کامیابیوں کے متعلق جلسہ میں حاضر ہونے والوں کے تأثرات ۔
اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ پاک تبدیلیاں پیدا کرتے ہوئے ہم حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی خواہشات کو پورا کرنے والے ہوں۔
فرمودہ مورخہ 29؍ جولائی 2011ء بمطابق 29؍وفا 1390 ہجری شمسی، بمقام مسجد بیت الفتوح۔ مورڈن۔ لندن
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔