سید عبدالحئی شاہ صاحب
خطبہ جمعہ 23؍ دسمبر 2011ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
جو انسان دنیا میں آیا ایک دن اُس نے رخصت ہونا ہے، یہ قانونِ قدرت ہے اس سے کسی کو مفر نہیں۔ قرآن کریم میں بھی کئی جگہ کُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَۃُ الْمَوْتِ (آل عمران: 186) کہ ہر جان موت کا مزا چکھنے والی ہے، کہہ کر مختلف رنگ میں اس طرف توجہ دلائی کہ انسان کو اپنی موت کو سامنے رکھنا چاہئے کہ اسی سے پھر خدا تعالیٰ کی طرف توجہ رہتی ہے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے صرف اپنی ذات کے باقی رہنے اور باقی ہر چیز جو اس زمین پر ہے بلکہ اس کائنات میں ہے، بلکہ کائناتوں میں ہے، سب کے فنا ہونے کی خبر دی ہے۔ پس جب خدا تعالیٰ کی ذات ہی باقی ہے اور اللہ تعالیٰ نے ایک مؤمن کو اس دنیا کی زندگی سے زیادہ اگلے جہان کی زندگی کی طرف توجہ دلائی ہے جو حقیقی اور لمبی زندگی ہے۔ جس میں بندہ اللہ تعالیٰ کے حکموں پر چلنے کی وجہ سے اُس کے انعامات کا بھی وارث ہو گا اور نافرمانی کی وجہ سے سزا پانے والا بھی ہو سکتا ہے۔ پس خوش قسمت ہیں ہم میں سے وہ جو اس دنیا پر اگلی دنیا کو ترجیح دیتے ہیں۔ خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کی کوشش کرتے ہیں۔ اُس حقیقی دلدار کو راضی کرنے کے لئے اپنی زندگی کا اکثر حصہ گزارتے ہیں یا یہ کوشش کرتے ہیں کہ اس طرح گزاریں جس سے دلدار راضی ہو۔ دین کو دنیا پر مقدم رکھتے ہیں اور اس کے لئے ہر قربانی کے لئے تیار رہتے ہیں۔ اس حد تک آگے چلے جاتے ہیں کہ خدمتِ دین کے علاوہ اُنہیں کوئی دوسری دلچسپی نظر ہی نہیں آتی۔ دوسرے کے حقوق ادا کرتے ہیں تو اس لئے کہ خدا تعالیٰ کا یہ حکم ہے کہ حقوق العباد بھی ادا کرو کہ یہ بھی دین ہے۔ اپنے عَہدوں کو خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے نبھاتے ہیں اور اس کے نبھانے کے لئے راستے کی کسی روک کو خاطر میں نہیں لاتے۔ اُن کے سامنے عسر میں یسر میں، تنگی میں، آسائش میں، بیماری میں، صحت میں، صرف ایک مقصد ہوتا ہے کہ مَیں نے اپنے خدا سے جو عہد کیا ہے اُسے پورا کرنے والا بن سکوں۔ جو امانت میرے سپرد ہے اُس کے ادا کرنے کا حق ادا کرنے والا بن سکوں۔ ایسے لوگوں کا شمار اُن لوگوں میں ہوتا ہے جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْرِیْ نَفْسَہُ ابْتِغَآءَ مَرْضَاتِ اللّٰہِ(البقرۃ: 208) اور لوگوں میں سے ایسے بھی ہیں جو اپنی جان اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے بیچ ڈالتے ہیں۔ اُن کے چہروں پر ہر وقت ایک سکون نظر آتا ہے۔ گویا نفسِ مطمئنہ کی تصویر بنے ہوتے ہیں۔ گزشتہ دنوں ان خوبیوں کے مالک ہمارے ایک بزرگ کی وفات ہوئی ہے جو یقینا جماعت کا عظیم سرمایہ تھے جن کا نام محترم سید عبدالحئی شاہ صاحب ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ اللہ تعالیٰ اُن کو اپنے پیاروں کے قرب میں جگہ عطا فرمائے۔ اس جماعتی نقصان کو محض اور محض اپنے فضل سے پورا فرمائے۔ اُن کے بیشمار نعم البدل پیدا فرمائے تا کہ احمدیت کا یہ قافلہ اپنی منزلوں کی طرف ہمیشہ اور تیزی سے رواں دواں رہے۔
اس وقت مَیں محترم سید عبدالحئی صاحب کا کچھ ذکرِ خیر کروں گا۔ مکرم شاہ صاحب 12؍جنوری1932ء کو کریل ضلع اننت ناگ کشمیرمیں پیدا ہوئے۔ بڑے ہوئے توپھر یہ قادیان آ گئے تھے اور قادیان آنے کے بعد پھر وہیں سے جب ہندو پاک کی پارٹیشن ہوئی ہے تو یہ پاکستان آئے۔ ان کی والدہ کشمیر میں ہی تھیں۔ اُن سے یہ علیحدہ ہوئے ہیں تو پھر چالیس سال کے بعد اُن کو جا کر مل سکے ہیں۔ چالیس سال تک اپنی والدہ کو نہیں مل سکے اور یہ جدائی انہوں نے دین کی خاطر برداشت کی۔ (ماخوذ از روزنامہ الفضل جلد 96-61 نمبر 285 مورخہ 20 دسمبر 2011ء صفحہ 1)
ان کی مختصر تاریخ یہ ہے کہ ان کے دادا سید محمد حسین شاہ محلہ خانیار سری نگر کے گیلانی سید خاندان کے فرد تھے۔ اس خاندان کے افرادنے مذہبی اختلافات کی بنا پر آبائی علاقہ کو چھوڑا اور علاقہ ناڑوادمیں مقیم ہو گئے۔ ان کے ایک فرزند سید عبدالمنان شاہ صاحب تھے جنہوں نے جوانی میں بیعت کی اور احمدی ہوئے بلکہ بچپن میں ہی انہوں نے احمدیت قبول کر لی تھی اور پیری مریدی کو احمدیت پر قربان کر دیا تھا۔ انہوں نے انتہائی عاجزی اور انکساری سے زندگی گزاری۔ (ماخوذ ازتاریخ احمدیت جموں و کشمیر مصنفہ محمد اسد اللّٰہ قریشی صفحہ132 مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس ربوہ)
تاریخِ احمدیت جموں اور کشمیر میں مکرم عبدالحئی شاہ صاحب کے متعلق لکھا ہے کہ مکرم سید عبدالحئی صاحب شاہد 1941ء میں قادیان آئے اور اور 1945ء میں اسلام کے لئے زندگی وقف کر کے مدرسہ احمدیہ میں داخل ہوئے۔ تقسیمِ ملک کے بعد 1949ء میں احمدنگر ضلع جھنگ میں دوبارہ جامعہ احمدیہ میں آئے۔ 1953ء میں مولوی فاضل پاس کیا اور پنجاب یونیورسٹی میں اول قرار پائے۔ 1955ء میں جامعۃ المبشرین سے شاہد پاس کیا۔ بعد میں ایم۔ اے عربی بھی امتیاز کے ساتھ پاس کیا۔ (ماخوذ از تاریخ احمدیت جموں و کشمیر مصنفہ محمد اسد اللہ قریشی صفحہ132)
اور بڑے تحقیقی کام سرانجام دیتے رہے۔ خدام الاحمدیہ میں بھی ایک لمبا عرصہ ان کو خدمت کا موقع ملا۔ دو تین سال ماہنامہ انصار اللہ کے اور مجلہ جامعہ کے مدیر رہے۔ تقریباً بارہ تیرہ سال پرنٹر خالد و تشحیذ الاذہان بھی رہے۔ ضیاء الاسلام پریس کے مینیجر اور پرنٹر رہے۔ مینیجنگ ڈائریکٹر الشرکۃ الاسلامیہ رہے۔ صدر بورڈ الفضل تھے۔ پہلے مینیجنگ ڈائریکٹر ایم۔ ٹی۔ اے پاکستان تھے۔ ڈائریکٹر فضلِ عمر فاؤنڈیشن اور طاہر فاؤنڈیشن تھے، ناظر اشاعت تھے اور یہ متعدد کمیٹیوں کے ممبر رہے ہیں۔ قائم مقام ناظر اعلیٰ اور امیر مقامی کے فرائض کی ادائیگی کی بھی ان کو توفیق ملی۔ کشمیری زبان میں ترجمہ قرآن کی نظر ثانی کی توفیق پائی۔ بطور ناظر اشاعت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا سیٹ روحانی خزائن کی کتابت اور پھر جدید کمپیوٹرائز ڈایڈیشن کی تیاری اور نگرانی فرمائی۔ متعدد کتب کے انڈیکس بنائے اور پیش لفظ و تعارف لکھے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع کے ترجمہ قرآن کے حوالے سے بھی بہت سی خدمات سرانجام دیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع کے لیکچرز پر مشتمل کتاب ’’ہومیو پیتھی‘‘ کی تیاری میں بھی آپ نے بھر پور حصہ لیا۔
بڑے صائب الرائے، سادہ مزاج، شریف النفس، معاملہ فہم، حلیم الطبع، مدبر، کم گو اور ہمیشہ نپی تلی بات کرنے والے تھے۔ ٹھوس علمی پسِ منظر کی وجہ سے ہر معاملے کی خوب گہرائی سے تحقیق کرتے تھے اور اپنی پختہ رائے سے نوازتے تھے۔ خلفائے سلسلہ کی طرف سے موصول ہونے والے علمی موضوعات کی تحقیق اور حوالہ جات کی تخریج و تکمیل کو اول وقت میں انجام دینے کی کوشش کرتے تھے۔ کتب کی تیاری، طباعت، اشاعت تک کے مراحل میں اپنے عملے کی رہنمائی کرتے اور بڑے گہرے مشورے دیتے۔ آپ کے کاموں میں یہ چند اہم باتیں تھیں۔ پھر ناظر اشاعت کو پرنٹنگ کا بھی تجربہ ہونا چاہئے اور جیسا کہ الفضل اور دوسرے رسالوں کے پرنٹر و پبلشر تھے۔ اس لحاظ سے ان کو پرنٹنگ کے کاغذ کو چیک کرنے کی بڑی مہارت تھی۔ پریس مشینری کی ایک ایک چیز، اُن کی قسمیں، ٹیکنیکل معلومات آپ کوازبر ہوتی تھیں۔ اسی طرح کتاب کی اشاعت ہو یا اخبارات کی طباعت، ہر معاملے میں بڑی معین اور ٹھوس رہنمائی فرماتے۔ (ماخوذ از روزنامہ الفضل جلد 96-61 نمبر 285 مورخہ 20 دسمبر 2011ء صفحہ 1، 8)
پھر عبدالحئی شاہ صاحب کے بارے میں الفضل میں بھی لکھا گیا ہے کہ اپریل1945ء میں زندگی وقف کرنے کا ارادہ کر لیا تھا لیکن عہدِ وقف زندگی کا فارم 11؍نومبر1950ء کو پُر کیا۔ اور جیسا کہ مَیں نے پہلے بتایا کہ مڈل تک تعلیم حاصل کی۔ پھر جامعہ میں داخلہ لیا اور جامعہ کی تعلیم کے دوران میٹرک کا امتحان یونیورسٹی میں چھٹی پوزیشن حاصل کر کے پاس کیا۔ جامعہ میں بھی ہر سال اللہ کے فضل سے پہلی پوزیشن لیتے رہے۔ اسی طرح مولوی فاضل کے امتحان میں صوبہ بھر میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔
فروری 1956ء میں ان کی پہلی تقرری ہوئی اور مختلف شعبہ جات میں خدمات سرانجام دیتے رہے۔ 29؍جون1982 ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے آپ کو ناظر اشاعت مقرر فرمایا اور حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کے علمی نکات سے مزین درس القرآن میں حوالہ جات کی تخریج کے ذریعے معاونت کا شرف حاصل کیا۔ روزانہ رات تین تین بجے تک اپنی ٹیم کے ساتھ بیٹھ کر آپ نے یہ کام سرانجام دیا۔ جب تک جملہ امور مکمل کر کے لندن فیکس نہ کردیتے تھے، آرام نہیں کرتے تھے۔ خطبات وغیرہ کے لئے بھی علمی معاونت کی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کے ترجمہ قرآن کی اور ہومیو پیتھی کی جو کتاب تھی اُس کی تدوین ٹیم کے ممبر تھے۔ اس سلسلے میں اپنے مفوضہ کاموں کو بہت خوش اسلوبی سے مکمل کیا۔ تراجم قرآن منصوبہ کے تحت قرآنِ کریم کے پنجابی، سندھی، پشتو اور سرائیکی زبانوں میں تراجم کی تکمیل و اشاعت کی توفیق ملی۔ (ماخوذ از روزنامہ الفضل جلد 96-61 نمبر 286 مورخہ 21 دسمبر 2011ء صفحہ 1، 8)
حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے آپ کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے ایک دفعہ 6؍ستمبر 1997ء کو خطبہ جمعہ میں فرمایا تھا کہ ’’سید عبدالحئی صاحب میں مَیں نے یہ خوبی دیکھی ہے کہ جب بھی ان کو کوئی معین بات سمجھا دی جائے، خواہ وہ ذاتی علم نہ بھی رکھتے ہوں، ذاتی علم والوں کی تلاش کرتے ہیں اور کبھی ایسا نہیں ہوا کہ اُن کو میں نے کسی کتاب کے متعلق ہدایت کی ہو اور بعینہٖ وہی چیز انہوں نے تیار نہ کی ہو۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک گہری فراست حاصل ہے۔ بہت باریک بینی سے چیزوں کا مطالعہ کرتے ہیں‘‘۔ (خطبہ جمعہ فرمودہ 26 ستمبر 1997ء بحوالہ روزنامہ الفضل ربوہ جلد 83-48 نمبر35 مورخہ 14 فروری 1998ء صفحہ 3 کالم 1)
پھر اب جب 2008ء میں مَیں نے ان کو کہا کہ روحانی خزائن کی کمپیوٹرائز ڈاشاعت ہونی چاہئے، پرنٹنگ ہونی چاہئے تو بڑی محنت سے انہوں نے اُس کام کو سرانجام دیا۔ اس سیٹ کا جو نیا کمپیوٹرائزڈ سیٹ چھپا ہے، اس کی بہت سی خصوصیات کے علاوہ عبدالحئی شاہ صاحب نے اس بات کا بھی خیال رکھا کہ یہ ایڈیشن روحانی خزائن کے سابقہ ایڈیشن کے صفحات کے عین مطابق رہے تا کہ جماعتی لٹریچر میں گزشتہ نصف صدی سے آنے والے جو حوالہ جات ہیں اُن کی تلاش میں سہولت رہے۔ اس کے علاوہ اس سیٹ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعض مضامین، عربی نظمیں وغیرہ جو کسی وجہ سے پہلے نہیں شائع ہو سکی تھیں، وہ بھی اس میں شامل کی گئیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کا اردو زبان میں جو قرآنِ کریم کا ترجمہ شائع ہوا ہے، اس کے آغاز میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع نے اظہارِ تشکر کے عنوان کے تحت تحریر فرمایا ہے کہ:
’’قرآنِ کریم کا جو یہ ترجمہ پیش کیا جا رہا ہے اس کی تیاری میں میرے ساتھ یہاں لندن سے علماء کی ایک ٹیم نے مسلسل کام کیا ہے۔ اسی طرح مرکزِ سلسلہ ربوہ میں بھی علماء کی ایک ٹیم مکرم سید عبدالحئی شاہ صاحب (ناظر اشاعت) کی قیادت میں ترجمہ پر نظرِ ثانی کر کے قیمتی مشوروں اور آراء سے میری معاونت کرتی رہی ہے۔ ان سب کی اگر اجتماعی مدد میرے ساتھ نہ ہوتی تو مجھ اکیلے کے لئے یہ کام ممکن نہیں تھا‘‘۔ (قرآن کریم اردو ترجمہ از حضرت مرزا طاہر احمدؒ۔ زیر ’’اظہار تشکر‘‘ شائع شدہ۔ اسلام انٹرنیشنل پبلی کیشنز لمیٹڈ، یو۔ کے 2002ء)
پھر حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے 1997ء کے اپنے ایک خط میں محضر نامہ جو شائع ہوا تھا اور اسمبلی میں پیش کیا گیا تھا، کے حوالے سے فرمایا کہ:
’’محضر نامہ بہت اچھا شائع ہو گیا ہے۔ بہت خوشی ہوئی ہے۔ ماشاء اللہ آپ بہت محنت اور سلیقے سے کام کرتے ہیں‘‘۔ (مکتوب حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ بنام مکرم سید عبدالحیٔ شاہ صاحب بتاریخ 14اپریل 1997ء)
پھر ایک خط میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے شاہ صاحب کو لکھا کہ:
’آپ کی مرسلہ رپورٹ (562/10-5-93 تاریخ فلاں کو) موصول ہوئی۔ ماشاء اللہ بڑا بھرپور کام کر رہے ہیں اور بہت productive ہیں۔ خدا تعالیٰ کے فضل سے آپ واحدناظر ہیں کہ جنہیں مفوضہ کاموں کے لئے کبھی یاد دہانی کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ جَزَاکُمُ اللّٰہُ اَحْسَنَ الْجَزَآء۔ اَللّٰھُمَّ زِدْ فَزِدْ وَبَارِکْ‘‘۔ (آگے پھر خط ہے) (مکتوب حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ بنام مکرم سید عبدالحی شاہ صاحب بتاریخ 9 جون 1993ء)
اللہ تعالیٰ نے اُن کو کام کرنے کی بڑی توفیق بھی عطا فرمائی۔ ان تمام تعریفی کلمات نے اُن میں مزید عاجزی پیدا کی اور محنت کی طرف مزید توجہ پیدا ہوئی۔ یہ نہیں کہ تعریفی کلمات ہو گئے ہیں تو پھر کام میں کمی آجائے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کے زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جو ملفوظات کی جلدیں ہیں اُن کو پاکستان میں دس سے پانچ میں تبدیل کیا گیا اور ان جلدوں میں موجود تمام قرآنی آیات، تمام قرآنِ کریم کے حوالہ جات درج کئے گئے۔ حسبِ ضرورت نئے عناوین قائم کئے۔ قارئین کی سہولت کے لئے ہر جلد کے آخر میں مضامین، آیاتِ قرآنی، اسماء اور مقامات کے انڈیکس نئے سرے سے مرتب کئے گئے۔ لیکن اب پچھلے سال یا اسی سال کے جلسے پر جب آئے تو مَیں نے اُن کو کہا کہ پانچ جلدوں کے بجائے دوبارہ دس جلدوں میں اُس کو بدل دیں اور وہاں بھی اسی طرح پرنٹ ہو تو زیادہ بہتر ہے۔ انہوں نے ہلکا سا بھی یہ اظہار نہیں کیا کہ اتنی محنت کر کے ہم نے اس کو پانچ جلدوں میں سمیٹا ہے اور اس طرح انڈیکس بنائے ہیں تو دوبارہ اس کو پھیلانے میں کچھ دقت ہو گی۔ بغیر کسی ہلکے سے بھی اظہار کے فوراً انہوں نے کہا کہ ٹھیک ہے ہم اس کو دس جلدوں میں دوبارہ شائع کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ ملفوظات وہ کتا بیں ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ارشادات پر مشتمل ہیں۔ اس میں volume چھوٹا ہوجائے تو پڑھنے میں زیادہ آسانی ہوجاتی ہے۔ آدمی ہر وقت ساتھ سفر میں، چلتے ہوئے، لیٹے ہوئے کسی وقت بھی پڑھ سکتا ہے۔ کیونکہ چھوٹی جلد میں بہ نسبت بھاری جلد کے میرے خیال سے زیادہ فائدہ رہتا ہے اور پڑھنے میں آسانی رہتی ہے۔ تو بہر حال انہوں نے فوراً اس پر کام شروع کر دیا۔
اسی طرح حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی تفسیرِ کبیر پر مشتمل علوم و معارف کا جو بیش بہا اور نایاب خزانہ ہے اس کی بہت سی مختلف جلدیں ہیں جو دس جلدوں کے ایک سیٹ کی شکل میں شائع شدہ ہیں۔ انہوں نے پڑھنے والوں کی سہولت کے لئے اُن کا بھی ایک بڑا comprehensive قسم کا انڈیکس بنا دیا ہے جس میں اسماء ہیں، جغرافیائی مقامات ہیں، حل لغات کے مکمل انڈیکس ہیں۔ آپ انجمن کی مختلف کمیٹیوں کے ممبر رہے۔ مشاورتی پینل شعبہ تاریخِ احمدیت، مجلسِ افتاء، خلافت لائبریری کمیٹی، منصوبہ بندی کمیٹی، آڈیو وڈیو کیسٹس محفوظ کرنے کی کمیٹی، تبرکات کے محفوظ کرنے کی کمیٹی، صد سالہ خلافت جوبلی کمیٹی کے ممبر رہے۔ اسی طرح آپ کو اسیرِ راہ مولیٰ ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔ الفضل بورڈ کے آپ صدر تھے۔
عبدالحئی شاہ صاحب اپنی پہلی ملاقات کا ذکر کرتے ہیں جو انہوں نے حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ سے کی۔ کہتے ہیں کہ حضور کی پُر رعب شخصیت اور شفقت کے تعلق میں یہ بات بھی مجھے یاد آئی ہے کہ جب حضور نے سلسلے کے بعض اہم کام میرے سپرد فرمائے تو پہلی محکمانہ ملاقات میں جب حضور نے خاکسار کو یاد فرمایا تو مَیں حضور کے سامنے گیا تو میرے ہاتھ فرطِ رعب سے لرز رہے تھے۔ حضور نے انتہائی ملاطفت سے خاکسار کو فرمایا۔ نروس ہونے کی کیا بات ہے؟ کام کو اچھی طرح مجھ سے سمجھ لیا کرو اور اُسے پوری محنت سے کرو۔ پھر میرے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں لیا جس سے میری یہ حالت جاتی رہی۔ حضور اعتماد کرنے میں جلدی نہیں کرتے تھے اور جب حضور کسی پر اعتماد کر لیتے تھے تو پھر اُس کو بھر پور شفقت، رہنمائی اور عفو و درگزر سے نوازتے تھے اور نوازتے ہی چلے جاتے تھے۔ (ماخوذ از ماہنامہ خالد جلد 30 شمارہ 6-7’’سیدنا ناصر نمبر‘‘اپریل مئی 1983ء صفحہ 156)
لکھتے ہیں کہ ایک مقدمہ کے سلسلے میں میری گرفتاری کے وارنٹ نکلے۔ (وہاں پاکستان میں رسالوں کے ایڈیٹرز اور پرنٹرز وغیرہ پر وارنٹ گرفتاری تو بہت سارے نکلتے رہتے تھے تو ان کے بھی وارنٹ گرفتاری نکلے)۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کو جب پتہ لگا۔ آپ نے اُن کو بلایا۔ ساتھ وکلاء کو بلایا۔ میٹنگ ہوئی۔ اُس کے بعد لکھتے ہیں کہ جب ہم چلے آئے تو حضور نے اپنے ایک بیٹے کو بھجوایا کہ عبدالحئی کو کہو: گھبرانا نہیں۔ مَیں اس کے لئے دعا کروں گا۔ (ماخوذ از ماہنامہ خالدجلد 30 شمارہ 6-7’’سیدنا ناصر نمبر‘‘اپریل مئی 1983ء صفحہ 157)
آگے خلیفۃ المسیح الثالثؒ کے اُس بیٹے کا یہ حوالہ ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے اُن کے جانے کے بعد مجھے بلا کر کہا کہ دیکھو! ابھی یہاں سے شاہ صاحب وغیرہ گئے ہیں۔ ایک کیس ہے انہوں نے لاہور یا اسلام آباد جانا تھا۔ ابھی گئے نہیں ہوں گے۔ اُن کو جا کر کہو کہ اُن کے جانے کے فوراً بعد پریشانی میں جب مَیں نے دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے یہ الفاظ میری زبان پر جاری فرمائے کہ ؎
’’کبھی ضائع نہیں کرتا وہ اپنے نیک بندوں کو‘‘ (ماخوذ از ماہنامہ خالد جلد 30 شمارہ 6-7’’سیدنا ناصر نمبر‘‘اپریل مئی 1983ء صفحہ 37)
اس لئے پریشانی کی ضرورت نہیں ہے۔ چنانچہ چند دن میں (ان کے خلاف ایک بڑا خوفناک کیس بنایا گیا تھا، بڑا سنگین قسم کا کیس تھا) وہ سب معاملہ ختم ہو گیا۔ تو اللہ تعالیٰ کا حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کو یہ بتانا، اس بات کی بھی سند ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نظر میں محترم شاہ صاحب کا شمار نیک بندوں میں ہوتا تھاجو اللہ تعالیٰ کی پناہ میں رہتے ہیں۔ لیکن ایک اور موقع پر بعد میں اُن پر کیس ہوا تو اسیرِ راہ مولیٰ ہونے کا بھی اللہ تعالیٰ نے موقع عطا فرمایا۔
یہ کیس جو اُن پر بنایا گیا، یہ ایک پمفلٹ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس مصرعہ پر تھا کہ’’یہی ہیں پنجتن جن پر بنا ہے‘‘ جو لجنہ کی طرف سے رسالے میں شائع ہوا تھا۔ جب یہ شائع ہوا تو اس پر سیکرٹری لجنہ، اُن کے کاتب محمد ارشد صاحب اور سید عبدالحئی شاہ صاحب پر یہ مقدمہ قائم کر دیا گیا اور عبدالحئی شاہ صاحب اور محمد ارشد صاحب کو کئی روز حوالات میں رکھا گیا اور ان پر مقدمہ کئی ماہ جاری رہا۔ (ماخوذ از سلسلہ احمدیہ جلد سوم صفحہ534 شائع کردہ نظارت اشاعت ربوہ)
ایک مربی صاحب نے لکھا کہ شاہ صاحب بتاتے ہیں شروع میں واقفِ زندگی کو الاؤنس بہت تھوڑا ملا کرتا تھا، جس سے گزارہ بڑی مشکل سے ہوا کرتا تھا تو اس پر میرے سُسر نے ایک دفعہ مجھے کہا کہ تم دنیاوی لحاظ سے بھی بہت زیادہ پڑھے لکھے ہو اس لئے تم دنیا کی طرف چلے جاؤ۔ وہاں کیوں نہیں چلے جاتے؟ مَیں نے اُنہیں کہا (شاہ صاحب کہتے ہیں کہ مَیں نے اُنہیں کہا کہ) مَیں نے دو معاہدے کئے ہوئے ہیں۔ ایک معاہدہ تو یہ شادی کا آپ کی بیٹی کے ساتھ ہے اور دوسرا خدا کے ساتھ وقفِ زندگی کا عہد ہے۔ اب آپ بتائیں کونسا عہد توڑوں؟ اور پھر کہتے ہیں، تھوڑی دیر کے بعد مَیں نے اُن کو کہا کہ اگر پہلا عہد قائم رکھتے ہوئے دوسرے عہد کو توڑ دوں تو یہ کس طرح ہو گا؟ اس بات کو سُن کے اُن کے سسر خاموش ہو گئے اور آئندہ کبھی پھر اس موضوع پر بات نہیں کی۔ شاہ صاحب کہتے ہیں، خدا تعالیٰ کے فضل سے اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے مجھے ساری زندگی بے حساب نوازا ہے۔ پرانے بزرگوں کی یہ بھی ایک نیک فطرت تھی کہ آپ کے سسر کو وقتی طور پر آپ کی حالت دیکھ کر جو ایک بشری تقاضا بھی ہے خیال آیا لیکن آپ کے جواب سے بالکل خاموش ہو گئے کہ خدا سے عہد توڑنے کا تو ایک احمدی کبھی تصور بھی نہیں کر سکتا اور اس سے شاہ صاحب کے توکل کا بھی پتہ چلتا ہے اور اُس وقت خدا تعالیٰ نے بھی آپ کے توکل اور عہد کی پابندی کے جذبات کو ایسا نوازا کہ کہتے ہیں پھر ساری زندگی کبھی مجھے کوئی تنگی نہیں ہوئی۔
اپنے ماتحتوں سے حسنِ سلوک اور جذبات کا بہت خیال رکھتے تھے۔ ان کے اکاؤنٹنٹ بتاتے ہیں کہ شاہ صاحب کے ساتھ پندرہ سال کام کیا ہے۔ مجھے سوائے ایک واقعہ کے اور کوئی موقع یادنہیں جب آپ نے کبھی شدید غصے کا اظہار کیا ہو اور ہوا یہ تھا کہ کسی غلط فہمی کی بنا پر ہم نے ایک دفتر کو کچھ کتابیں محترم شاہ صاحب کو بتائے بغیر دے دی تھیں۔ جب کسی دوست نے محترم شاہ صاحب کو اس امر کے بارے میں بتایا تو شاہ صاحب نے شدید برہمی کا اظہار فرمایا اور شاہ صاحب کی ناراضگی کی وجہ سے میں دو دن تک آپ کے کمرے میں نہیں گیا۔ دو روز بعد آپ نے مجھے اپنے کمرے میں بلایا اور مسکرائے اور آپ کے سامنے بسکٹ وغیرہ پڑے ہوئے تھے وہ آپ نے مجھے دئیے۔
ایک اور ان کے مددگار کارکن محمد اقبال صاحب ہیں وہ لکھتے ہیں۔ کہ بیس سال کا عرصہ ہو گیا ہے ہمیشہ بیٹوں کی طرح ہمارے ساتھ سلوک رہا۔ کارکنان کے ساتھ ہمیشہ بہت پیار اور محبت کا سلوک رہااور آپ کا رنگ حد درجہ درویشانہ تھا۔ اگر کسی کارکن کی مدد کرتے تو دوسرے کو اس کا علم بھی نہ ہونے دیتے۔ اسی طرح اگر اپنا ذاتی کام کرواتے تو باقاعدہ حق ادا کیا کرتے تھے۔ اسی طرح اگر کسی کارکن کے بچے کی شادی ہوتی تو جس حد تک مدد کر سکتے تھے آپ کیا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ بھی بیشمار ضرورت مندوں کی مدد کرتے تھے۔
اُن کی وسعتِ علمی کے بارے میں عبدالمجید عامر صاحب جوہمارے یہاں عربی ڈیسک کے ہیں، لکھتے ہیں کہ جب سے خاکسار نے روحانی خزائن کا ترجمہ شروع کیا ہے اُن کے ساتھ تعلق رہا۔ خاکسار کو بعض مشکل مقامات کے حل کے سلسلے میں اُن سے رہنمائی اور ہدایت کی ضرورت پڑتی تھی۔ محترم شاہ صاحب نے ہر دفعہ خندہ پیشانی سے نہایت محققانہ اور عالمانہ رنگ میں بروقت رہنمائی فرمائی۔ خاکسار کے تأثرات پر ان کا جواب ہمیشہ بہت مدلل اور تسلی بخش اور سوال کے تمام جوانب پر، ہر پہلو پر پوری طرح محیط اور ساتھ ہی شفقت اور اخلاقِ عالیہ کی چاشنی سے پُر ہوا کرتا تھا۔ اگر خاکسار کوئی تجویز پیش کرتا تو بڑی خندہ پیشانی سے اُسے قبول فرماتے۔ اُن کی شفقتوں کا یہ سلسلہ تا دمِ آخر جاری رہا۔
مبشر ایاز صاحب لکھتے ہیں کہ جامعہ کی سالانہ کھیلوں پر تقسیمِ انعامات کے لئے سلسلہ کے بزرگوں میں سے بعض خصوصی مہمان بلائے جایا کرتے تھے۔ ایک سال جن بزرگ خادم سلسلہ کو بلایا گیااُن کا تعارف کرواتے ہوئے مکرم پرنسپل صاحب جامعہ احمدیہ نے فرمایا کہ کام کرنے والے کئی قسم کے ہوتے ہیں۔ کچھ تو وہ ہوتے ہیں جو ایک ہاتھ سے کام کرتے ہیں اور ایک ہاتھ سے تالی بجاتے رہتے ہیں یعنی اپنے کاموں کو مشہور کرتے رہتے ہیں۔ بتاتے بھی ہیں کہ ہم نے یہ کام کیا اور وہ کام کیا۔ کچھ وہ ہوتے ہیں جو دونوں ہاتھوں سے تالی بجا رہے ہوتے ہیں اور کام وام کچھ نہیں کر رہے ہوتے، شور شرابہ زیادہ ہوتا ہے، پراپیگنڈہ زیادہ ہوتا ہے۔ اور کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو دونوں ہاتھوں سے کام کرتے رہتے ہیں اور اُنہیں کوئی غرض نہیں ہوتی کہ اُن کے کام کو کوئی دیکھے اور اُن کی واہ واہ ہو۔ آج ایسے ہی خادمِ سلسلہ ہمارے مہمان ہیں یعنی سید عبدالحئی شاہ صاحب۔
تو یہ سو فیصد درست بات ہے۔ مَیں نے ہمیشہ یہی دیکھا ہے کہ بڑی خاموشی سے کام کرتے چلے جاتے تھے۔ بیمار تھے، پاؤں سوجے ہوتے تھے۔ ایک دن مَیں نے اُن کو پوچھا بھی کہ آپ کے پاؤں سوجے ہوتے ہیں، تکلیف نہیں ہوتی؟ تو انہوں نے کہا کہ مجھے تو کام کرتے وقت کبھی احساس نہیں ہوا، میں کام میں اتنا جُت جاتا ہوں کہ مجھے کچھ پتہ نہیں لگتا کہ کیا ہو رہا ہے۔ انجمن کے اجلاسوں میں مَیں نے دیکھا ہے بہت کم بولتے تھے لیکن جب بولتے تھے تو بڑی ٹھوس صائب رائے ہوتی تھی۔
پھر مبشر ایاز صاحب ہی لکھتے ہیں کہ خاکسار کو جب اُن کے کچھ قریب ہونے کا موقع ملا اور پھر کچھ عرصہ اُن کے نائب کے طور پر کام کرنے کا بھی موقع ملا تو اُنہیں واقعی ایسا ہی پایا۔ خاموش طبع، درویش صفت، انتھک محنت کرنے کے ساتھ اور بھی بیشمار خوبیوں کامالک پایا۔ دفتر آتے ہی کام میں گویا جُت جاتے تھے۔ پنجابی میں محاورہ ہے ’’سر سُٹ کے‘‘ کام کرنا شروع کر دیتے تھے۔ دفتری خطوط سے لے کر روحانی خزائن اور قرآنِ مجید کی پروف ریڈنگ تک کا کام خود کرتے اور پھر اس خادم اور قابلِ رشک اور تقلید خادمِ سلسلہ کو کچھ پتہ نہ چلتا کہ کب چھٹی ہوئی ہے اور لوگ جا بھی چکے ہیں۔ کام کرتے کرتے پاؤں سوج جایا کرتے لیکن یہ اللہ کا بندہ کام کام اور صرف کام کرتا رہتا۔ بے غرض اور بے نفس اور ایک درویش صفت انسان تھے۔ بہت قریب سے خاکسار کو دیکھنے کا موقع ملا۔ دکھاوا اور نمود و نمائش تو چُھو کر بھی نہیں گزری۔ حلیمی اور چشم پوشی انتہا کی تھی۔ سلسلے کی تاریخ کا ایک بہت بڑا ذخیرہ اور مأخذ تھے۔ باوجود کثرتِ کار کے ہنس مکھ تھے۔ درویش طبع اور عجز و انکسار کے پتلے تھے۔ مَیں نے خود مشاہدہ کیا کہ سلسلے کے پیسے کو بہت احتیاط سے اور سوچ سمجھ کر بلکہ کئی دفعہ سوچ کر خرچ کرتے تھے۔ بہت احساس تھا کہ سلسلے کا پیسہ ضائع نہ ہو۔ اپنے کارکنان کے ساتھ ہمدردی اور ستاری اور حلیمی کا بہت زیادہ مادہ تھا۔ لمبا عرصہ بیمار رہے لیکن بیماری کو اپنے کام میں روک نہیں بننے دیا۔
پھر اُن کے ایک اور مربی صاحب لکھتے ہیں کہ ذات میں اَنا اور کبر کا ادنی سا بھی شائبہ نہ تھا اور حقیقی طور پر ایک بے نفس، درویش صفت اور فرشتہ سیرت انسان تھے۔
ایک اور مربی صاحب لکھتے ہیں کہ جب روحانی خزائن کا کام ہو رہا تھا تو اُس وقت اس عاجز کو ایک واقعہ سے پتہ چلا کہ آپ کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام پر کس قدر یقین ہے۔ وہ واقعہ اس طرح ہے کہ ہنری مارٹن کلارک والے مقدمے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہر جگہ جج کا نام ڈگلس لکھا ہے، لیکن روحانی خزائن جلد 15کتاب تریاق القلوب صفحہ 349 میں جج کا نام جے، آر، ڈریمنڈ اور جگہ کا نام پٹھانکوٹ لکھا ہے۔ اس کام کے لئے ریسرچ سیل اور تاریخ احمدیت والوں کو بھی لکھا گیا کہ یہ کیا معاملہ ہے۔ دونوں کی رائے یکساں تھی کہ سہو کتابت ہے۔ لیکن مکرم شاہ صاحب کی رائے یہ تھی کہ اتنی بڑی سہو نہیں ہو سکتی اور آپ نے اس کے اوپر کوئی حاشیہ نہ دیا اور اس کو اسی طرح رہنے دیا۔ لیکن جب روحانی خزائن جلد 18 میں نزول المسیح کے اوپر کام ہو رہا تھا تو وہاں صفحہ 578 میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھا ہے’’’عبدالحمید دوبارہ ڈیڑھ سال بعد پکڑا گیا تو اُس سے وہی بات دوبارہ پوچھی گئی تو وہ اپنے بیان پر قائم رہا کہ مَیں نے عیسائیوں کے سکھلانے پر کہا تھا‘‘(یعنی دوسری دفعہ جب پکڑا گیا تو اس وقت جج دوسرا تھا جس کا وہ نام تھا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے لکھا، نہ کہ پہلی دفعہ)۔ پھر لکھتے ہیں کہ شاہ صاحب کبھی بے چین نہیں ہوتے تھے اور ہمیشہ اپنے کارکنان کے ساتھ محبت کا سلوک کرنے والے تھے۔
خلافت لائبریری ربوہ کے لائبریرین صاحب لکھتے ہیں کہ بہت ہی نافع الناس وجود تھے۔ خاکسار نے دیکھا ہے کہ وہ سلسلے کا کام بہت محنت اور لگن سے کرتے۔ اپنی بیماری کے باوجود پورا وقت کام کرتے رہتے۔ ہمیشہ اُن کے پاؤں سوجے رہتے تھے۔ اُن کو بیماری تھی۔ تکلیف تھی۔ دل کی تکلیف بھی تھی۔ لکھتے ہیں کچھ ماہ قبل براہین احمدیہ کے ایڈیشن چیک کرنے سے متعلق ایک کام لندن سے آیا تھا (مختلف ایڈیشنز جو تھے اُن کو چیک کرنے کے لئے مَیں نے ایک کام سپرد کیا تھا) تو محترم شاہ صاحب نے خاکسار کو پیغام بھیجا (لائبریرین صاحب کو) کہ جتنے ایڈیشن براہینِ احمدیہ کے تھے اُن کو ایک کارٹن میں ڈال کر اکٹھے کر لیں۔ کہتے ہیں مَیں نے سب ایڈیشن اکٹھے کرکے ایک کارٹن میں ڈال دئیے اور پوچھا کہ چیک کروانے کے لئے لے آؤں؟ تو کہنے لگے: کیوں تکلیف کرتے ہو میں خود آ جاتا ہوں۔ اور اس کے باوجود کہ چلنا مشکل تھا۔ لائبریری خود تشریف لائے اور براہینِ احمدیہ کے سارے ایڈیشن چیک کئے۔ کہنے لگے کہ پرانے ایڈیشن میں سے کوئی ضائع نہ ہو جائے اس لئے مَیں نے مناسب سمجھا کہ آ کر خود چیک کر لوں اور پھر کئی گھنٹے لگا کر خود چیک کئے۔
ہمارے عربی ڈیسک کے محمد احمدنعیم صاحب لکھتے ہیں کہ تفسیرِ کبیرکا تفصیلی انڈیکس تیار کرناجب کہ کمپیوٹر بھی نہیں ہوتا تھا بہت محنت طلب اور باریک بینی کا متقاضی تھاجو آپ نے بڑی محنت سے تیار کیا۔ پھر آپ کی انکساری یہ ہے کہ موجودہ روحانی خزائن میں کئی ایک پرنٹنگ کی غلطیاں رہ گئی ہیں اور ترجمے کے دوران جب بھی ان سے رابطہ کیا تو انہوں نے جہاں غلطی تھی بڑے حوصلے سے اعتراف کیا اور جہاں کوئی وضاحت ہو سکتی تھی مناسب وضاحت کی اور بہت جلد ایسے استفسارات کا جواب موصول ہو جاتا تھا۔ بڑی محنت سے انہوں نے پروف ریڈنگ بھی کی تھی لیکن بشری تقا ضے کے تحت غلطیاں پھر بھی رہ جاتی ہیں اور اس کا ان کو صدمہ بھی بڑا تھا کہ اتنا خوبصورت پرنٹ شائع ہوا ہے تو اس میں غلطیاں نہیں رہنی چاہئے تھیں۔ ہمارے ایک مربی سلسلہ کلیم احمد طاہر صاحب کہتے ہیں کہ مَیں نے گیارہ سالوں میں آپ کو ہمیشہ کام میں ہی مصروف پایا۔ بہت ہی خاموش خدمت گزار تھے اور ہر کام بہت محنت اور ذمہ داری سے کرتے تھے۔ حیرت ہوتی تھی کہ اس عمر میں بھی ماشاء اللہ اتنا کام کرتے ہیں۔ پھر دفتر ٹائم کے بعد شام کو عربک بورڈ کے اجلاسات میں شامل ہوتے۔ آپ نے روحانی خزائن کے کام کے دوران ہر کتاب کا ایک ایک پروف خود لفظاً لفظاً پڑھا ہے۔
غرضیکہ بہت علمی آدمی تھے اور بڑی محنت کرنے والے واقفِ زندگی تھے۔ اپنے پرانے مبلغین کو بتایا کرتے تھے کہ صدر انجمن احمدیہ کا میں نے وہ زمانہ بھی دیکھا ہے جب بہت سادگی تھی اور کفایت شعاری کی وجہ سے بہت سی سہولتیں جو غیر ضروری سمجھی جاتی تھیں وہ نہیں ہوتی تھیں اور چھت کی طرف اشارہ کر کے کہتے تھے کہ اب تو ہر جگہ بجلی کے پنکھے چل رہے ہیں۔ یہاں جو یہ ایک پائپ لگا ہوا ہے پرانے دفتر میں اس پر ایک پنکھا ہوتا تھا جس کے ساتھ رسّی ہوتی تھی۔ جب ہوا کی ضرورت ہوتی تو اُس رسّی کوہلا لیا کرتے تھے۔ کوئی بجلی نہیں تھی۔ کوئی کچھ سہولت نہیں تھی۔
انہوں نے بتایاکہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مقبوضہ کشمیر کے کسی علاقے میں اُن کو ایک پیغام پہنچانے کے لئے بھیجا۔ راولپنڈی پہنچے تو دیکھا کہ کوئی سواری نہیں تھی۔ اگر کسی سواری کا انتظام کرتے تو دیر ہو جاتی اور خلیفۃ المسیح کے حکم کی تعمیل کو اول وقت میں کرنے کی غرض سے آپ راولپنڈی سے پیدل ہی روانہ ہو گئے اور واپسی بھی پیدل کی اور حضور کا پیغام متعلقہ جگہ بخوبی پہنچا دیا۔
آپ نے ایک بچی بھی پالی ہوئی تھی جس کا مربی کے ساتھ بیاہ کیااور اُس کو بچوں کی طرح رکھا اور ہمیشہ بعد میں بھی اُس کا حال پوچھتے رہتے، اظہار کرتے رہتے، تحفے تحائف بھیجتے تھے۔ گھر میں بیوی بچوں کے ساتھ بڑا اچھا سلوک تھا۔ بچے کہتے ہیں کبھی اونچی آواز میں ہم نے اُن کو بولتے یا ڈانٹتے نہیں سنا۔ بچوں کی عزتِ نفس کا بہت خیال کرتے تھے۔ بہت اعلیٰ انداز میں تربیت کی۔ زندگی کے ہر عمل میں سادگی کا پہلو نمایاں تھا۔ خودنمائی سخت ناپسند تھی۔ ہر عمل میں صبر کی اعلیٰ مثال تھے۔ کبھی اپنی تکلیف کا اظہار نہیں کرتے تھے چاہے بیماری ہو یا کوئی اور پریشانی ہو۔ اس قدر صبر تھا کہ آپ کی والدہ جو مقبوضہ کشمیر میں تھیں اُن کی وفات کی خبر جب بذریعہ خط ملی تو بڑے صبر سے اس صدمے کو برداشت کیا اور کئی دن کسی سے ذکر بھی نہیں کیا۔
مہمان نوازی بہت زیادہ تھی۔ جلسہ سالانہ پرکشمیر سے مہمان آیا کرتے تھے تو سارا گھر اُن کو دے کر خود اپنے بچوں سمیت ایک سٹور میں چلے جایا کرتے تھے۔ اور وقف کے عہد کو نبھانے کی کوشش میں ہر وقت کوشاں رہتے تھے۔ آخری وقت تک اس بارے میں متفکر رہے۔ آخری چند سالوں میں کئی دفعہ اپنے بچوں کے پاس بیرونِ ملک تشریف لے گئے۔ ان کے بچوں میں تقریباً سارے بیٹے ان کے باہر ہی ہیں۔ بڑے بیٹے ان کے احمد یحییٰ صاحب ہیں جو Humanity first کے چیئرمین بھی ہیں۔ جب بچوں کے پاس آتے تھے تو عزیزوں نے اور بچوں نے اصرار کیا کہ یہیں رہ جائیں تو فرماتے تھے کہ مَیں نے زندگی وقف کی ہے۔ کچھ تھوڑا سا وقت وقف نہیں کیا۔ آپ کے پاؤں میں بہت تکلیف تھی اور ہر وقت سوجن رہتی تھی جیسا کہ مَیں نے بتایا۔ اس کے باوجود باقاعدہ دفتر جاتے تھے اور اپنے کام میں حرج نہ ہونے دیتے تھے۔ آخری بیماری میں پانچ دفعہ ہسپتال گئے لیکن ہر دفعہ ڈاکٹر سے یہی سوال ہوتا تھا کہ مَیں دفتر کب جا سکوں گا۔ وفات سے دو تین دن پہلے دفتر گئے۔ وہاں بیٹھے کام کر رہے تھے کہ اس دوران میں ان کو تکلیف ہوئی ہے اور پھر وہاں سے بارہ بجے چیک اپ کے لئے گئے تو ڈاکٹروں نے داخل کر لیا۔ وہاں بھی بیڈ پر لیٹے ہوئے دفتر کا کام چیک کیا کرتے تھے۔ کارکنان کاغذات لے آتے تھے اور کام کرتے رہتے تھے۔ آخری دن کہا کہ دعا کریں اور اللہ آپ کا حافظ و ناصر ہو۔ اُن کوپتہ لگ گیا تھا کہ اُن کی وفات کا وقت قریب ہے تو کہنے لگے کہ میری فلائٹ کا وقت ہو گیا ہے۔ جو بھی فیکس یہاں سے جاتی تھی ہمیشہ اپنے ہاتھ سے اُس کاجواب دیا کرتے تھے۔ اب تک جو اُن کاآخری خط بھی مجھے آیا، وہ بھی اپنے ہاتھ سے لکھا ہوا تھا کسی کلرک سے نہیں لکھوایا اور نہ ہی کمپوز کرواتے تھے اور آرام آرام سے بڑا خوبصورت لکھتے تھے۔ حالانکہ کمزوری کی وجہ سے اُن کے ہاتھ بھی کانپتے تھے لیکن پھر بھی بڑا وقت لگا کر لکھا کرتے تھے۔ 14؍دسمبر کو ساڑھے گیارہ بجے تک دفتر میں رہے اُس کے بعد وفات ہوئی جیسا کہ میں نے بتایا کہ آپکی خواہش یہی تھی کہ آپ کی وفات دفتر میں ہی ہو۔ ہسپتال میں یہ فرمایا کہ میری خواہش ہے کہ روحانی خزائن کی تمام غلطیوں کا کام مکمل کر کے اس فرض سے فارغ ہو جاؤں لیکن اس بات کی مہلت نہیں ملی۔
ایک مربی سلسلہ جو نظارتِ اشاعت میں ہیں لکھتے ہیں کہ عبدالحئی شاہ صاحب کے ہم زلف نے اُنہیں بتایا کہ 17دسمبر کو شاہ صاحب نے خواب دیکھا کہ ان کی اہلیہ آئی ہیں اور انہوں نے پوچھا کہ کیا آپ نے ابھی تک ٹکٹ نہیں لیا۔ شاہ صاحب نے کہا کہ ابھی تک نہیں لیا۔ کچھ وقفے کے بعد دوبارہ شاہ صاحب نے اپنی اہلیہ سے کہا کہ ہاں مَیں نے ٹکٹ بھی لے لیا ہے اور بورڈنگ بھی ہو گئی ہے۔
جس روز محترم شاہ صاحب کی وفات ہوئی اس دن صبح دس بجے کے قریب اُن کے دوست ہسپتال میں شاہ صاحب کی عیادت کے لئے گئے۔ وہاں جا کر معلوم ہوا کہ ڈاکٹروں نے یہ کہا ہے کہ ہم نے جو کوشش کرنی تھی وہ کرلی ہے۔ اس کے بعد شاہ صاحب نے اپنے بیٹے عمران کو بلایا اور ہلکا سا کہا کہ فلائٹ آ گئی ہے۔ بیٹے کو سمجھ نہ آئی اور بات سمجھنے کے لئے قریب ہوا لیکن اس کے بعد وفات ہو گئی۔ کوئی بات نہ کر سکے۔
تو یہ خادمِ سلسلہ آخر دم تک سلسلہ کے لئے وقف رہا اور حتی المقدور سلسلے کے کام کو ہر دوسری بات پر ترجیح دی۔ شاہ صاحب نے دینی علم حاصل کیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتب پڑھیں تو اُن پر عمل بھی کیا۔ صرف علم ہی حاصل نہیں کیا جیسا کہ مختلف احباب نے بیان کیا ہے اور مَیں نے بتایا ہے۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد ادا کرنے کی ہمیشہ کوشش کی۔ جب میں ناظرِ اعلیٰ تھا تو اس وقت وہ ناظر اشاعت تھے۔ اُس وقت بھی مَیں نے اُن کو کامل اطاعت کرنے والا پایا۔ اور جب اللہ تعالیٰ نے خلافت کی ردا مجھے پہنائی تو شاہ صاحب کو اخلاص و وفا میں پہلے سے بھی بہت زیادہ بڑھا ہوا پایا اور یقینا ہونا بھی یہی چاہئے تھا کہ خلافت سے ایک اَور تعلق ہوتا ہے۔ بیعت کی روح کو سمجھنے والے اور اپنی تمام تر طاقتوں سے اُس کا حق ادا کرنے والے تھے۔ اللہ تعالیٰ آپ کے درجات بلند فرمائے اور خلیفہ وقت کو اور خلافتِ احمدیہ کو ہمیشہ ایسے جانثار اور خدمت کرنے والے سلطانِ نصیر اللہ تعالیٰ عطا فرماتا رہے۔ (آمین)
ابھی جمعہ کی نماز کے بعد ان کی نماز ِ جنازہ انشاء اللہ پڑھاؤں گا۔
اس کے ساتھ ہی چند جنازے اور بھی ہیں۔ پہلا ہے امتیاز بیگم صاحبہ کا جو مکرم و محترم مولانا محمد منور صاحب مرحوم جو ایسٹ افریقہ میں مبلغ رہے ہیں، اُن کی اہلیہ تھیں۔ 15دسمبر کو اُن کی وفات ہوئی ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ 1936ء میں آپ پیدا ہوئی تھیں اور 24؍نومبر1952ء کو ان کی شادی مولانا محمد منور صاحب سے ہوئی تھی۔ آپ مولوی صاحب کی دوسری اہلیہ تھیں اور شادی کے وقت سے لے کے جب تک مولوی محمد منور صاحب ریٹائر ہو کے میدانِ عمل سے واپس آئے، سوائے تین چار سال کے باقی سارا عرصہ مرحومہ کو اپنے بزرگ واقفِ زندگی خاوند کے ساتھ کینیا، تنزانیہ، فلسطین اور نائیجیریا میں خدمت کی توفیق ملی۔ مولوی محمد منور صاحب نے اپنی کتاب ’’ایک نیک بی بی کی یاد میں‘‘ اپنی دونوں بیویوں کے آپس کے سلوک کی بہت تعریف فرمائی ہے اور اس کتاب کی حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے بھی بڑی تعریف فرمائی تھی کہ اس طرح رہنا چاہئے۔ مولانا محمد منور صاحب کی پہلی بیوی کو یہ (دوسری بیوی جو تھیں جن کی وفات ہوئی ہے) ہمیشہ آپا کہہ کر بلایا کرتی تھیں۔ کبھی ان کے لئے سوت یا سوکن کا لفظ استعمال نہیں کیا اور نہ ہی کبھی منفی رویہ اور سلوک روا رکھا۔ دونوں بیویوں کا آپس میں بڑا ہی اچھا سلوک تھا۔ دونوں ایک دوسرے کی اولاد کا اتنا خیال رکھا کرتی تھیں کہ لوگ اُن کے بچوں سے پوچھا کرتے تھے کہ ان دونوں میں سے آپ کی حقیقی والدہ کون سی ہیں۔ دوسروں کی مالی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے کئی مرتبہ اپنی پنشن کی رقم نکلوا کر اور بعض اوقات قرض لے کر بھی دوسروں کی مدد کیا کرتی تھیں۔ آپ کے بیٹے مبارک احمد طاہر صاحب ہیں جو سیکرٹری نصرت جہاں ربوہ ہیں۔ یہ بتاتے ہیں کہ خدمتِ دین کا شوق رکھنے والی، بڑی نڈر، بہادر اور بہت جرأت مند خاتون تھیں۔ احمدی اور غیر احمدی سب کی یکساں مدد کیا کرتی تھیں۔ یہ جو مبارک احمد طاہر صاحب ہیں یہ پہلی والدہ سے ہیں۔ مولانا محمد منور صاحب کی یہ اہلیہ جو اَب فوت ہوئی ہیں، اس والدہ سے ان کی بہن ہے۔ ان سے ایک بیٹی امۃ النور طاہرہ صاحبہ ہیں جو عبدالرزاق بٹ صاحب مبلغ سلسلہ کی اہلیہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ مرحومہ کے درجات بلند فرمائے اور ان کی نیکیاں ان کی اولادوں میں بھی جاری فرمائے۔
اگلا جو وفات کا اعلان ہے وہ سسٹر زینب وسیم صاحبہ بنت مکرم کمال الدین کالو صاحب آف یو۔ ایس۔ اے کا جنازہ ہے جو 6؍دسمبر کو تراسی سال کی عمر میں وفات پاگئیں۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔ آپ نے صدر لجنہ کلیو لینڈ کے علاوہ مختلف عہدوں پر خدمت کی توفیق پائی۔ نہایت نیک اور سلسلہ کا درد رکھنے والی مخلص خاتون تھیں، لوکل امریکن تھیں۔ ان کے میاں اور دو بیٹے یادگار ہیں۔
پھر اگلا جنازہ امۃ الرحمن صاحبہ کیلگری کا ہے۔ جن کی اکسٹھ سال کی عمر میں کینسر سے وفات ہوئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔ نہایت نیک، نمازوں کی پابند، تہجد گزار، متقی خاتون تھیں۔ عمرہ کی سعادت ملی۔ قرآنِ کریم اور کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے آپ کو بیحد لگاؤ تھا۔ مرحومہ موصیہ تھیں۔ اگلی وفات یافتہ ہیں سیدہ وسیمہ بیگم صاحبہ بنت حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب مرحوم جو امریکہ سے ہیں۔ حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کے سب سے بڑے ماموں تھے، یہ اُن کی بڑی بیٹی ہیں۔ چوراسی سال کی عمر میں ان کی وفات ہوئی ہے اور ماشاء اللہ بڑی خوبیوں کی مالک تھیں۔ ہر خطبہ کے بعد ان کا مجھے فون بھی آیا کرتا تھااور خاص طور پر مجھے بھی دعا کے لئے کہنا، اپنے بچوں کے لئے کہنا کہ صحیح رستے پر قائم رہیں۔ ان کے بیٹے ندیم فیضی صاحب امریکہ کی ایک جماعت کے صدر جماعت بھی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے اور نیکیاں بچوں میں قائم رکھے۔
اگلا جنازہ میاں عبدالقیوم صاحب ابن مکرم میاں وزیر محمد صاحب کوئٹہ کا ہے۔ 6دسمبر کو ان کی اٹھاسی سال کی عمر میں وفات ہوئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے ان کو والہانہ عشق تھا، خلافت سے بڑا تعلق تھا۔ ان کا نکاح حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پڑھایا تھا اور وکیل کے فرائض بھی حضرت مصلح موعودنے خود انجام دئیے تھے۔
پھر محمد مصطفی صاحب حلقہ اور نگی ٹاؤن کراچی کے ہیں۔ 27؍ستمبر کو ان کی وفات ہوئی تھی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔ 1971ء میں احمدیت قبول کی تھی، خاندان میں اکیلے احمدی تھے۔ احمدی ہونے پر آپ کو بہت سے مصائب اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ بھائیوں نے گاؤں والوں کے سامنے باندھ کر تشدد کا نشانہ بنایا۔ احمدیت قبول کرنے سے قبل آپ کا شمار بھی احمدیت کے شدید معاندین میں ہوتا تھا مگر احمدی ہونے کے بعد آپ کی کایا پلٹ گئی اور جماعت کے ساتھ آپ نے ہمیشہ اخلاص اور وفا کا تعلق رکھا۔ آپ کو اپنے حلقے میں بطور سیکرٹری تعلیم القرآن، مربی اطفال، سیکرٹری دعوت الی اللہ اور معلم مقامی کی حیثیت سے خدمت کی توفیق ملی۔ بے شمار اطفال، انصار، ناصرات اور لجنہ کو قرآنِ کریم ناظرہ اور باترجمہ پڑھایا۔ قرآنِ کریم کا بیشتر حصہ حفظ تھا۔ پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ ایک بیٹا نوید مصطفی مربی سلسلہ یادگار چھوڑے ہیں۔ پھر ملک نذیر احمد صاحب آف چکوال ہیں۔ 21؍جولائی کو ان کی وفات ہوئی تھی۔ انہوں نے درخواست کی تھی کہ جنازہ غائب پڑھایا جائے۔ حضرت ملک کرم دین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بیٹے تھے۔ 1930ء میں ان کے والد انہیں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی خدمت کے لئے قادیان چھوڑ گئے جہاں آپ سترہ سال رہ کر بھر پور خدمت سرانجام دیتے رہے۔ مرحوم موصی تھے، انتہائی مخلص اور خلافت سے بے پناہ عشق کرنے والے تھے۔
پھر فتح محمد خان صاحب ہیں۔ ان کی 28نومبر کو وفات ہوئی ہے۔ بڑے نیک، شریف النفس انسان تھے۔ پسماندگان میں پانچ بیٹیاں اور تین بیٹے یادگار چھوڑے ہیں۔ آپ کے بیٹے مکرم حافظ برہان محمد صاحب واقفِ زندگی جامعہ احمدیہ میں استاد ہیں اور ایک داماد میر عبد الرشید تبسم صاحب مرحوم مربی سلسلہ تھے۔ اللہ تعالیٰ ان سب مرحومین کے درجات بلندفرمائے۔ ان کے پسماندگان کو صبر، ہمت اور حوصلہ عطا فرمائے۔ نیکیوں پر قائم رکھے اور اخلاص و وفا سے جماعت کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
جیسا کہ مَیں نے کہا نمازوں کے بعدان سب کی نمازِ جنازہ غائب ادا کی جائے گی۔
خوش قسمت ہیں ہم میں سے وہ جو اس دنیا پر اگلی دنیا کو ترجیح دیتے ہیں۔ خداتعالیٰ کی رضا کے حصول کی کوشش کرتے ہیں۔ دین کو دنیا پر مقدم رکھتے ہیں اور اس کے لئے ہر قربانی کے لئے تیاررہتے ہیں۔ ان کے سامنے عُسر میں، یُسر میں، تنگی میں، آسائش میں، بیماری میں، صحت میں صرف ایک مقصد ہوتاہے کہ مَیں نے اپنے خدا سے جو عہد کیاہے اسے پورا کرنے والا بن سکوں۔ گزشتہ دنوں ان خوبیوں کے مالک ہمارے ایک بزرگ کی وفات ہوئی ہے جو یقیناً جماعت کا عظیم سرمایہ تھے جن کا نام محترم سید عبدالحئی شاہ صا حب ہے۔ (ناظر اشاعت ربوہ مکرم سید عبدالحئی شاہ صاحب کی وفات اور مرحوم کی خدمات اور محاسن کاتفصیل سے ذکر خیر)
مکرمہ امتیاز بیگم صاحبہ اہلیہ مکرم مولانا محمد منور صاحب مرحوم، سسٹر زینب وسیم صاحبہ (یوایس اے)، مکرمہ امتہ الرحمن صاحبہ (کیلگری)، مکرمہ سعیدہ وسیمہ صا حبہ بنت حضرت سید ولی اللہ شا ہ صاحب (امریکہ)، مکرم میاں عبدالقیوم صاحب (کوئٹہ)، مکرم محمد مصطفی صاحب (کراچی)، مکرم نذیر احمد صاحب (چکوال) اور مکرم فتح محمد خان صاحب (ربوہ) کا ذکر خیر اور تمام مرحومین کی نماز جنازہ غائب۔
فرمودہ مورخہ 23؍دسمبر 2011ء بمطابق 23؍فتح 1390 ہجری شمسی، بمقام مسجد بیت الفتوح۔ مورڈن۔ لندن
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔