تقویٰ کے حصول کیلئے نہایت اہم اور دلگداز نصائح
خطبہ جمعہ 20؍ جنوری 2012ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
یُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ وَ یَاۡمُرُوۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ یَنۡہَوۡنَ عَنِ الۡمُنۡکَرِ وَ یُسَارِعُوۡنَ فِی الۡخَیۡرٰتِ ؕ وَ اُولٰٓئِکَ مِنَ الصّٰلِحِیۡنَ۔وَ مَا یَفۡعَلُوۡا مِنۡ خَیۡرٍ فَلَنۡ یُّکۡفَرُوۡہُ ؕ وَ اللّٰہُ عَلِیۡمٌۢ بِالۡمُتَّقِیۡنَ۔ (آل عمران: 115-116)
ان آیات کا ترجمہ یہ ہے کہ وہ اللہ پر ایمان لاتے ہیں اور یومِ آخر پر اور اچھی باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بری باتوں سے روکتے ہیں اور نیکیوں میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرتے ہیں اور یہی ہیں وہ جو صالحین میں سے ہیں۔ اور جو نیکی بھی وہ کریں گے تو ہرگز اُن سے اس کے بارہ میں ناشکری کا سلوک نہیں کیا جائے گا۔ اور اللہ متقیوں کو خوب جانتا ہے۔
مومنوں کی نشانی نیکیوں کا حکم دینا، برائیوں سے روکنا، اپنی اصلاح اور نیک اعمال بجا لانے میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنا ہے۔ پہلی آیت جو میں نے تلاوت کی ہے اُس میں یہ باتیں بیان ہوئی ہیں۔ یہ سورۃ آل عمران کی آیت تھی اور اس سورت میں یہ باتیں دوسری جگہ بھی دہرائی گئی ہیں کہ یہی باتیں ہیں جو انسان کو صالحین میں شامل ہونے والا بناتی ہیں۔ یہ باتیں ایمان میں مضبوطی کی نشانی ہیں۔ اور یہی باتیں ہیں جو فلاح اور کامیابی سے ہمکنار کرتی ہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے دئیے گئے حکموں پر چلنے والوں کے عمل ضائع نہیں کرتا۔ اس لئے لازماً نیک اعمال کرنے والوں اور نیکیاں پھیلانے والوں کو، نیکیوں میں سبقت لے جانے والوں کو اللہ تعالیٰ نوازتا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے دوسری آیت میں جو میں نے تلاوت کی، اُس میں بتا دیا کہ میں علیم ہوں، عالم الغیب والشہادۃ ہوں، غیب کا علم بھی رکھتا ہوں، ظاہر کا علم بھی رکھتا ہوں، ہر عمل جو تم کرتے ہو اُسے میں جانتاہوں کہ کس نیت سے کیا جا رہا ہے۔ اگر تقویٰ پر چلتے ہوئے یہ کام ہیں تو یقینا اللہ تعالیٰ اپنی رحمت کی آغوش میں لے لے گا۔ اللہ تعالیٰ کا ہم پر یہ بڑا احسان ہے کہ اُس نے اس فساد زدہ زمانے میں مسیح موعود و مہدی معہود کو بھیجا۔ زمانے کے امام کو بھیجا اور ہمیں یہ توفیق دی کہ اس کو مان کر اُس سے ہم نے یہ عہد کیا ہے کہ ہم اس زمانے میں اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق اپنے ایمان کو اُس معیار پر لائیں گے یا لانے کی کوشش کریں گے جس کی تصریح اور تفسیر آپ نے قرآنِ کریم اور سنت کی روشنی میں ہمیں بیان فرمائی ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’زبان کو جیسے خدا تعالیٰ کی رضامندی کے خلاف کسی بات کے کہنے سے روکنا ضروری ہے۔ اسی طرح امرِ حق کے اظہار کے لئے کھولنا لازمی امر ہے‘‘۔ (یعنی اگر برائیوں سے زبان کو روکنا ضروری ہے تو حق بات کو کہنے کے لئے زبان کو کھولنا، منہ کھولنا، اُس کو استعمال کرنا بھی ضروری ہے) فرمایا کہ ’’یَأمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَر (آل عمران: 115) مومنوں کی شان ہے۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے سے پہلے ضروری ہوتا ہے کہ انسان اپنی عملی حالت سے ثابت کر دکھائے کہ وہ اُس قوّت کو اپنے اندر رکھتا ہے‘‘ (جب یہ باتیں کر رہے ہیں تو اپنی عملی حالت سے یہ ثابت کرنا بھی ضروری ہے کہ یہ نیکیاں جو مَیں کہہ رہا ہوں میرے پاس موجود ہیں ) فرمایا ’’کیونکہ اس سے پیشتر کہ وہ دوسروں پر اپنا اثر ڈالے اس کو اپنی حالت اثر انداز بھی تو بنانی ضروری ہے۔ پس یاد رکھو کہ زبان کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے کبھی مت روکو۔ ہاں محل اور موقع کی شناخت بھی ضروری ہے اور اندازِ بیان ایسا ہو نا چاہیے جو نرم ہو اور سلاست اپنے اندر رکھتا ہو اور ایسا ہی تقویٰ کے خلا ف بھی زبان کا کھولنا سخت گنا ہ ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد1صفحہ281-282۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ماننے کے بعد ہماری ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں کہ ہم یہ معیار حاصل کریں اور ہمارا ہر قول اور فعل نیکیاں بکھیرنے والا اور برائیوں کو روکنے والا ہو۔ ورنہ ہمارا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں آنا کوئی حیثیت نہیں رکھتا بلکہ ہو سکتا ہے کہ ہم الٹا اللہ تعالیٰ کی ناراضگی مول لینے والے بن جائیں کہ ایک عہد کر کے پھر اُسے پورا نہیں کر رہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’مَیں باربار کہہ چکا ہوں کہ جس قدر کوئی شخص قرب حاصل کرتا ہے، اسی قدر مؤاخذہ کے قابل ہے۔ … وہ لوگ جو دُورہیں، وہ قابل مؤاخذہ نہیں، لیکن تم ضرور ہو۔ اگر تم میں اور اُن میں کوئی ایمانی زیادتی نہیں، تو تم میں اور ان میں کیا فرق ہوا‘‘۔ (ملفوظات جلد1صفحہ28، ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
پس ہمیں اس بات پر خوش نہیں ہو جانا چاہئے کہ ہم نے زمانے کے امام کو مان لیا بلکہ اب اپنی حالتوں کی طرف پہلے سے زیادہ نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ ورنہ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ تمہارا مؤاخذہ ہو گا، تم پوچھے جاؤ گے۔ پس ہمیں اس بات کی بہت فکر کرنی چاہئے کہ اپنی اصلاح کی طرف توجہ دیں۔ کسی کا دینی علم حاصل کر لینا اُسے مؤاخذہ سے بچا نہیں سکتا، اگر عمل اُس کے مطابق نہیں ہے۔ کسی کا جماعتی خدمت پر مامور ہونا، کوئی عہدہ مل جانا اُسے مؤاخذہ سے بچا نہیں سکتا اگر اُس کے عمل اللہ تعالیٰ کی بتائی ہوئی تعلیم کے مطابق نہیں ہیں۔ کسی کا کسی خاندان کا فرد ہونا، بزرگوں کی خدمات اُس کو مؤاخذہ سے بچا نہیں سکتیں، اگر عمل اُس کے مطابق نہ ہوں جس کی اللہ تعالیٰ نے تعلیم دی ہے۔ اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک اور جگہ بھی بڑا واضح فرمایا ہے کہ صرف بیعت کر لینے سے تم متبعین کے جو انعامات ہیں اُن کے وارث نہیں بن جاتے۔ آپ فرماتے ہیں کہ:
’’یقینا سمجھو کہ اﷲ تعالیٰ کے نزدیک وہ لوگ پیارے نہیں ہیں جن کی پوشاکیں عمدہ ہوں اور وہ بڑے دولت مند اور خوش خور ہوں بلکہ خدا تعالیٰ کے نزدیک وہ پیارے ہیں جو دین کو دنیا پر مقدم کر لیتے ہیں اور خالص خدا ہی کے لیے ہو جاتے ہیں‘‘۔
پھر آپ فرماتے ہیں کہ:
’’منجملہ اس کے وعدوں کے ایک یہ بھی ہے، جو فرمایا: وَ جَاعِلُ الَّذِیۡنَ اتَّبَعُوۡکَ فَوۡقَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اِلٰی یَوۡمِ الۡقِیٰمَۃِ (آل عمران: 56)‘‘ (یعنی جو تیرے پیرو ہیں اُنہیں ان لوگوں پر جو کافر ہیں یا منکر ہیں اُن پر قیامت تک بالادست رکھوں گا، فوقیت دوں گا۔ ) فرمایا کہ ’’یہ تو سچ ہے کہ وہ میرے متبعین کو میرے منکروں اور میرے مخالفوں پر غلبہ دے گا۔ لیکن غور طلب بات یہ ہے کہ متبعین میں سے ہر شخص محض میرے ہاتھ پر بیعت کرنے سے داخل نہیں ہوسکتا جب تک اپنے اندر وہ اتّباع کی پوری کیفیت پیدا نہیں کرتا متبعین میں داخل نہیں ہوسکتا‘‘۔ (ملفوظات جلد4صفحہ596 ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
پس ہمیں بہت غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جو فرمایا ہے مومن کی تعریف فرمائی ہے کہیَاۡمُرُوۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ یَنۡہَوۡنَ عَنِ الۡمُنۡکَرِ وَ یُسَارِعُوۡنَ فِی الۡخَیۡرٰتِ (آل عمران: 115)۔ اس کی حقیقی تصویر ہم تبھی بن سکتے ہیں، حقیقی مومن ہونے والے ہم تبھی کہلا سکتے ہیں جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلامِ صادق ہیں، ہم آپ کی نصائح اور ارشادات پر عمل کرنے والے ہوں۔ آپ کو جو ہمارے سے توقعات ہیں اُن پر پورا اُترنے کی کوشش کرنے والے ہوں۔ مَیں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعض نصائح لی ہیں جو ہماری دینی اور روحانی حالتوں کو سنوارنے کے لئے بلکہ دنیاوی ترقی کے لئے بھی ضروری ہیں۔ اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا اگر ہم آپ کی باتوں پر پوری طرح توجہ کر کے اُن پر عمل کرنے کی کوشش نہیں کرتے تو ہم حقیقی متبع نہیں کہلا سکتے، اتباع کرنے والے نہیں کہلا سکتے۔
اس زمانے میں ایک بہت بڑا کام جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے سپرد ہوا ہے، وہ اسلام کا پیغام ساری دنیا کو دینا ہے اور یہی آپ کے ماننے والوں کا کام ہے۔ لیکن اس کے لئے ہمیں اپنے آپ کو نمونہ بنانے کی ضرورت ہے۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بیان فرمایا ہے کہ اپنی حالتوں کو پہلے ایسا کرو کہ دوسروں پر اثر ڈال سکیں تبھی تمہارا اثر پڑے گا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ ہمیں اپنے قول و فعل کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
’’اگر نِرے قیل و قال اور ریا کاری تک ہی بات ہو تو دُوسرے لوگوں اور ہم میں پھر کیا امتیاز ہوگا اور دوسروں پر کیا شرف! تم صرف اپنا عملی نمونہ دکھاؤ اور اس میں ایک ایسی چمک ہو کہ دُوسرے اس کو قبول کرلیں کیونکہ جب تک اس میں چمک نہ ہوکوئی اس کو قبول نہیں کرتا‘‘۔ (ملفوظات جلد1صفحہ116 ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
پس یہ نفس کی ظاہری و باطنی صفائی کی چمک ہے جو ہم نے اپنی حالتوں میں پیدا کرنی ہے تا کہ عہدِ بیعت کو نبھانے والے بن سکیں۔ آپ کی بیعت کا حقیقی حق ادا کرنے والے بن سکیں۔ پھر ایک جگہ آپ فرماتے ہیں کہ:
’’اگر ہم نری باتیں ہی باتیں کرتے ہیں تو یاد رکھو کہ کچھ فائدہ نہیں ہے۔ فتح کے لئے ضرورت ہے تقویٰ کی۔ فتح چاہتے ہو تو متقی بنو‘‘۔ (ملفوظات جلد1صفحہ151-152 ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
پھر آپ نے فرمایا کہ:
’’اللہ تعالیٰ متقی کو پیار کرتا ہے۔ خداتعالیٰ کی عظمت کو یاد کر کے سب ترساں رہو‘‘ (اللہ تعالیٰ کا خوف دل میں رکھو۔ اُس کاپیار اور اُس کی خشیت دل میں پیدا کرو) فرمایا کہ ’’اور یاد رکھو کہ سب اللہ کے بندے ہیں۔ کسی پر ظلم نہ کرو۔ نہ تیزی کرو۔ نہ کسی کو حقارت سے دیکھو۔ جماعت میں اگر ایک آدمی گندہ ہے تو وہ سب کو گندہ کر دیتا ہے۔ اگر حرارت کی طرف تمہاری طبیعت کا میلان ہو‘‘ (یعنی غصہ جلدی آتا ہو) ’’تو پھر اپنے دل کو ٹٹولو کہ یہ حرارت کس چشمہ سے نکلی ہے‘‘۔ (کہ اس غصے کی وجہ کیا ہے؟) فرمایا ’’یہ مقام بہت نازک ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد 1 صفحہ 6 ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
غصہ ایک فطری چیز ہے لیکن ایک مومن میں مغلوب الغضب ہو کے نہیں آنا چاہئے بلکہ جہاں بھی غصہ آئے اصلاح کی غرض سے آنا چاہئے۔ ایک جگہ فرمایا کہ:
’’ہر ایک سے نیک سلوک کرو …‘‘۔ ’’برادری کے حقوق ہیں۔ ان سے بھی نیک سلوک کرنا چاہیے۔ البتہ اُن باتوں میں جو اللہ تعالیٰ کی رضامندی کے خلاف ہیں ان سے الگ رہنا چاہیے‘‘۔ (ملفوظات جلد1صفحہ304 ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
پھر اس بات کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہ اللہ تعالیٰ کا خوف کس میں ہے اور اُس کے معیار کیا ہونے چاہئیں یا کس طرح کا ہونا چاہیے۔ آپ فرماتے ہیں:
’’اللہ (تعالیٰ) کاخوف اسی میں ہے کہ انسان دیکھے کہ اس کا قول وفعل کہاں تک ایک دوسرے سے مطابقت رکھتا ہے۔ پھر جب دیکھے کہ اس کا قول وفعل برابر نہیں تو سمجھ لے کہ وہ مورد غضب الٰہی ہو گا۔ جو دل ناپاک ہے خواہ قول کتنا ہی پاک ہووہ دل خدا کی نگاہ میں قیمت نہیں پاتا بلکہ خدا کا غضب مشتعل ہو گا۔ پس میری جماعت سمجھ لے کہ وہ میرے پاس آئے ہیں اسی لئے کہ تخم ریزی کی جاوے جس سے وہ پھل دار درخت ہوجائے۔ پس ہر ایک اپنے اندر غور کرے کہ اس کا اندرونہ کیسا ہے؟ اور اس کی باطنی حالت کیسی ہے؟ اگر ہماری جماعت بھی خدا نخواستہ ایسی ہے کہ اس کی زبان پر کچھ ہے اور دل میں کچھ ہے تو پھر خاتمہ بالخیر نہ ہوگا‘‘۔ فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ جب دیکھتا ہے کہ ایک جماعت جو دل سے خالی ہے اور زبانی دعوے کرتی ہے۔ وہ غنی ہے، وہ پرواہ نہیں کرتا‘‘۔ فرمایا کہ ’’بدر کی فتح کی پیش گوئی ہو چکی تھی، ہر طرح فتح کی امید تھی لیکن پھر بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم رورو کر دعا مانگتے تھے۔ حضرت ابوبکرصدیق ؓ نے عرض کیا کہ جب ہر طرح فتح کا وعدہ ہے تو پھر ضرورت الحاح کیا ہے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ ذات غنی ہے۔ یعنی ممکن ہے کہ وعدۂ الٰہی میں کوئی مخفی شرائط ہوں‘‘۔ (ملفوظات جلد1صفحہ8 ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
پس جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جن سے اللہ تعالیٰ کے کامیابی کے وعدے تھے، حدیث میں آتا ہے کہ وہ بھی بدر کے موقع پر اس طرح شدّت سے روتے تھے کہ آپ کے کندھے سے چادر اُتر جاتی تھی۔ دعائیں کررہے تھے کہ پتہ نہیں کوئی مخفی شرط نہ ہو جس کو ہم پورا نہیں کر رہے۔ (شرح العلامہ زرقانی علی مواہب اللدنیۃ جلدنمبر2 صفحہ281تا284 باب غزوہ بدر الکبریٰ دارالکتب العلمیہ بیروت 1996ء)
اگر آپ کے ساتھ ترقی کے لئے مخفی شرائط ہیں، فتح کے ساتھ مخفی شرائط ہیں تو باقی اور کون ہے جس کے ساتھ یہ شرائط نہ ہوں۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے رازوں کا کسی کو علم نہیں۔ اپنے آپ کو پاک کرنے کی بہت ضرورت ہے۔
پھر آپ فرماتے ہیں:
’’اہل تقویٰ کے لیے یہ شرط ہے کہ وہ اپنی زندگی غربت اور مسکینی میں بسر کریں۔ یہ تقویٰ کی ایک شاخ ہے جس کے ذریعہ سے ہمیں ناجائز غضب کا مقابلہ کرنا ہے۔ بڑے بڑے عارف اور صدیقوں کے لیے آخرکڑی منزل غضب سے بچناہی ہے‘‘۔ (غصے سے بچنا ضروری ہے) فرمایا کہ ’’عُجب و پندار غضب سے پیدا ہوتا ہے۔‘‘ (تکبر اور غرور جو ہے غضب سے پیدا ہوتا ہے) ’’اور ایسا ہی کبھی خود غضب، عُجب وپندار کا نتیجہ ہے‘‘۔ (کبھی غصہ تکبر کی وجہ سے آتا ہے۔ کبھی تکبر اور غرور کی وجہ سے غصہ آتا ہے اور کبھی تکبر اور غرور غصے کی وجہ بن جاتے ہیں ) فرمایا ’’کیونکہ غضب اُس وقت ہوگا جب انسان اپنے نفس کو دوسرے پر ترجیح دیتا ہے۔ مَیں نہیں چاہتا کہ میری جماعت والے آپس میں ایک دوسرے کو چھوٹا یا بڑا سمجھیں، یا ایک دوسرے پر غرور کریں یا نظر استخفاف سے دیکھیں۔ خدا جانتا ہے کہ بڑا کون ہے یا چھوٹا کون ہے۔ یہ ایک قسم کی تحقیر ہے۔ جس کے اندرحقارت ہے (جس میں تکبر پایا جاتا ہے) ڈر ہے کہ یہ حقارت بیج کی طرح بڑھے اور اس کی ہلاکت کا باعث ہو جاوے‘‘۔ فرمایا کہ ’’بعض آدمی بڑوں کو مل کر بڑے ادب سے پیش آتے ہیں۔ لیکن بڑا وہ ہے جو مسکین کی بات کو مسکینی سے سنے۔ اس کی دلجوئی کرے۔ اس کی بات کی عزت کرے۔ کوئی چِڑ کی بات منہ پرنہ لاوے کہ جس سے دکھ پہنچے۔ خداتعالیٰ فرماتا ہے۔ وَلَا تَنَابَزُوا بِالْاَلْقَابِ بِئْسَ الْاِسْمُ الْفُسُوقُ بَعْدَ الْإِیْمَانِ وَمَن لَّمْ یَتُبْ فَأُوْلٰٓئِکَ ہُمُ الظَّالِمُونَ (سورۃالحجرات: 12)۔‘‘ (یعنی ایمان کے بعد فسق کا جو داغ ہے یہ لگنا بہت بری بات ہے۔ پہلے تو فرمایا کہ وَلَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ ایک دوسرے کے نام بگاڑ کر نہ پکارو اور ایمان کے بعد فسق کا داغ لگنا بہت بری بات ہے اور فرمایا کہ جس نے توبہ نہ کی تو یہی ظالم لوگ ہیں)۔ فرماتے ہیں کہ ’’تم ایک د وسرے کا چِڑ کے نام نہ لو۔ یہ فعل فُسّاق وفُجّار کا ہے‘‘۔ (وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرتے ہیں، جو شیطان کے پیچھے چلنے والے ہیں یہ کام اُن کا ہے)۔ ’’جو شخص کسی کو چِڑاتا ہے وہ نہ مر ے گا جبتک وہ خود اسی طرح مبتلانہ ہو گا۔ اپنے بھائیوں کو حقیر نہ سمجھو۔ جب ایک ہی چشمہ سے کُل پانی پیتے ہو تو کون جانتا ہے کہ کس کی قسمت میں زیادہ پانی پینا ہے۔ مکرّم ومعظّم کوئی دنیاوی اصولوں سے نہیں ہو سکتا۔ خداتعالیٰ کے نزدیک بڑا وہ ہے جو متّقی ہے۔ إِنَّ أَکْرَمَکُمْ عِندَ اللَّہِ أَتْقَاکُمْ إِنَّ اللَّہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ۔‘‘ (سورۃالحجرات: 14) (ملفوظات جلد1صفحہ22-23 ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
فرمایا کہ: ’’سچی فراست اور سچی دانش اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کئے بغیر حاصل ہی نہیں ہو سکتی‘‘۔ (عقل اور فکر اور فراست جو ہے اللہ تعالیٰ کی طرف جھکے بغیر، اُس کی طرف رجوع کئے بغیر حاصل نہیں ہو سکتی)۔ فرمایا کہ ’’اسی واسطے تو کہا گیا ہے کہ مومن کی فراست سے ڈرو کیونکہ وہ نور الٰہی سے دیکھتا ہے۔ صحیح فراست اور حقیقی دانش … کبھی نصیب نہیں ہو سکتی جب تک تقویٰ میسر نہ ہو‘‘۔ فرماتے ہیں کہ ’’اگر تم کامیاب ہونا چاہتے ہو تو عقل سے کام لو۔ فکر کرو۔ سوچو۔ تدبر اور فکر کے لئے قرآن کریم میں بار بار تاکیدیں موجود ہیں۔ کتابِ مکنون اور قرآن کریم میں فکر کرو اور پار سا طبع ہو جاؤ۔ جب تمہارے دل پاک ہو جائیں گے اور ادھر عقل سلیم سے کام لو گے اور تقویٰ کی راہوں پر قدم مارو گے۔ پھر ان دونوں کے جوڑ سے وہ حالت پیدا ہو جائے گی کہ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ہَذَا بَاطِلًا سُبْحَانَکَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ (سورۃ آل عمران: 192) تمہارے دل سے نکلے گا۔ اس وقت سمجھ میں آجائے گا کہ یہ مخلوق عبث نہیں بلکہ صانع حقیقی کی حقانیت اور اثبات پر دلالت کرتی ہے تاکہ طرح طرح کے علوم و فنون جو دین کو مدد دیتے ہیں ظاہر ہوں‘‘۔ (ملفوظات جلد1صفحہ41-42۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
پھر یہ بات دل سے نکلتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو کچھ پیدا کیاہے وہ جھوٹ نہیں ہے، وہ باطل نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ پاک ہے اور پھر اُس سے دعا مانگتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں آگ کے عذاب سے بچالے۔ فرماتے ہیں کہ جب یہ دعا دل سے نکلے گی تو اُس وقت سمجھ آئے گا کہ اللہ تعالیٰ کی جو ساری مخلوق ہے یہ بے فائدہ پیدا نہیں کی گئی۔ ہر چیز کا ایک مقصد ہے۔ اگر انسان ہے تو ہر انسان کا ایک مقام ہے۔ اُس کی عزت کرنا ضروری ہے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کی ہر مخلوق جو ہے اُس کا ایک مقصد ہے۔ اُس کو سمجھنے کی کوشش کرو تو پھر تمہیں سمجھ آئے گی کہ اللہ تعالیٰ نے کوئی چیز بلا وجہ پیدا نہیں کی۔
پھر فرماتے ہیں: ’’تاکہ طرح طرح کے علوم و فنون جو دین کو مدد دیتے ہیں ظاہرہوں‘‘۔ تمہاری عقل بڑھے گی تو تب مختلف قسم کے جو علوم ہیں، جو بھی دنیاوی علوم ہیں جو دین کے مدد گار ہیں اُن کے بھید تم پر کھلیں گے اور ظاہر ہوں گے۔ پس نیکیوں میں آگے بڑھنے کی روح اُس وقت پیدا ہو گی جب قرآنِ کریم کا علم حاصل کرنے کی اور اُس کو سمجھنے کی اور اُس کی معرفت حاصل کرنے کی کوشش ہو گی۔ اس لئے اگر حقیقی مومن بننا ہے اور اُن لوگوں میں شامل ہونا ہے جن کو حقیقی نیکیوں کا فہم و ادراک حاصل ہوتا ہے تو قرآنِ کریم کو بھی بہت غور سے پڑھنے کی ضرورت ہے۔ اس سے علم و معرفت بڑھتی ہے۔
پھر آپ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ: ’’اگر تم چاہتے ہو کہ تمہیں فلاح دارین حاصل ہو اور لوگوں کے دلوں پر فتح پاؤ تو پاکیزگی اختیار کرو۔ عقل سے کام لو اور کلام الٰہی کی ہدایات پر چلو۔ خود اپنے تئیں سنوارو اور دوسروں کو اپنے اخلاق فاضلہ کا نمونہ دکھاؤ۔ تب البتہ کامیاب ہو جاو ٔگے۔ کسی نے کیا اچھا کہا ہے‘‘۔ (فارسی میں ہے کہ) ’’سخن کزدل بروں آیدنشیند لا جرم بردل۔‘‘ (کہ جو بات دل سے نکلتی ہے وہ دل پر اترتی ہے)۔ ’’پس پہلے دل پیدا کرو‘‘۔ فرمایا کہ ’’پس پہلے دل پیدا کرو۔ اگر دلوں پر اثر اندازی چاہتے ہو تو عملی طاقت پیدا کرو۔ کیونکہ عمل کے بغیر قولی طاقت اور لسانی قوت کچھ فائدہ نہیں پہنچا سکتی۔ زبان سے قیل وقال کرنے والے تو لاکھوں ہیں۔ بہت سے مولوی اور علماء کہلا کر منبروں پر چڑھ کر اپنے تئیں نائب الرسول اور وارث الانبیاء قرار دے کر وعظ کرتے پھرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ تکبر، غرور اور بد کاریوں سے بچو۔ مگر جو اُن کے اپنے اعمال ہیں اور جو کرتوتیں وہ خود کرتے ہیں ان کا اندازہ اس سے کر لو کہ ان باتوں کا اثر تمہارے دل پر کہاں تک ہوتا ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد1صفحہ42۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
یقینا جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مان لیا، اُن کے دلوں پر تو ان مولویوں کا اثر نہیں ہوتا لیکن جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو نہ ماننے والے ہیں ان میں جو پڑھے لکھے ہیں، کچھ عقل رکھنے والے ہیں، کچھ حد تک اُن میں شرافت بھی ہے، اُن سے اگر پوچھو تو وہ مولویوں کو برا بھلا ہی کہتے ہیں کہ کرتے کچھ ہیں، کہتے کچھ ہیں۔ سوائے فتنہ اور فساد کے انہوں نے کچھ نہیں برپا کیا ہوا۔ پس ہمارے قول و فعل ایک ہوں گے تو اسی سے ہمارے تبلیغ کے راستے بھی کھلیں گے اور دوسروں پر اثر بھی ہو گا۔
پھر نئے علوم کے بارے میں کہ اُن کو حاصل کرنا چاہئے، آپ فرماتے ہیں کہ:
’’مَیں ان مولویوں کو غلطی پر جانتا ہوں جو علوم جدیدہ کی تعلیم کے مخالف ہیں۔ وہ دراصل اپنی غلطی اور کمزوری کو چھپانے کے لئے ایسا کرتے ہیں۔ ان کے ذہن میں یہ بات سمائی ہوئی ہے کہ علومِ جدیدہ کی تحقیقات اسلام سے بد ظن اور گمراہ کر دیتی ہے اور وہ یہ قرار دیئے بیٹھے ہیں کہ گویاعقل اور سائنس اسلام سے بالکل متضادچیزیں ہیں۔ چونکہ خودفلسفہ کی کمزوریوں کو ظاہر کرنے کی طاقت نہیں رکھتے اس لئے اپنی اس کمزوری کو چھپانے کے لئے یہ بات تراشتے ہیں کہ علومِ جدیدہ کا پڑھنا ہی جائزنہیں۔ اُن کی رُوح فلسفہ سے کانپتی ہے اور نئی تحقیقات کے سامنے سجدہ کرتی ہے‘‘۔ فرمایا کہ ’’مگر وہ سچافلسفہ ان کو نہیں ملا جو الہامِ الٰہی سے پیدا ہوتا ہے‘‘۔ (دنیاوی فلسفہ کا جواب نہیں دے سکتے اس لئے کانپتے ہیں اور کہتے ہیں اس کو پڑھو ہی نہ، دیکھو ہی نہ۔ ) فرمایا کہ ’’وہ سچا فلسفہ اُن کو نہیں ملاجو الہامِ الٰہی سے پیدا ہوتا ہے جو قرآن کریم میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ وہ ان کو اور صرف انہیں کو دیا جاتا ہے جو نہایت تذلّل اور نیستی سے اپنے تئیں اللہ تعالیٰ کے دروازے پر پھینک دیتے ہیں‘‘۔ (اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی چوکھٹ پر رکھ دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے آگے جھکتے ہیں، اُس سے مدد مانگتے ہیں۔ ) فرمایا کہ ’’جن کے دل اور دماغ سے متکبر انہ خیالات کا تعفن نکل جاتا ہے اور جو اپنی کمزوریوں کا اعتراف کرتے ہوئے گڑگڑا کر سچی عبودیت کا اقرار کرتے ہیں‘‘۔ (اگر یہ حالت ہوتی ہے تو پھر اُن کو علم و عرفان عطا ہوتا ہے۔ ) (ملفوظات جلد1صفحہ 43۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
پھر آپ فرماتے ہیں:
’’پس ضرورت ہے کہ آجکل دین کی خدمت اور اعلائے کلمۃ اللہ کی غرض سے علومِ جدیدہ حاصل کرو‘‘ (دین کو پھیلانے کے لئے جو آجکل کے نئے علوم ہیں اُن کو حاصل کرو) ’’اور بڑے جدو جہد سے حاصل کرو‘‘۔ (اس میں محنت کرو۔ سائنس میں ترقی کرو۔ ریسرچ میں جاؤ۔ آجکل احمدی طلباء کو خاص طور پر مَیں کہتا ہوں کہ اس طرف کوشش کریں۔ یہ بھی تبلیغ کا ایک ذریعہ ہے اور یہ بھی نیکیاں پھیلانے کا ذریعہ ہے۔ جب علم حاصل ہو گا، ماڈرن علم جو آجکل دنیا کا علم ہے، سائنس کا علم ہے وہ حاصل ہو گا تو بہت سارے مزید رستے کھلتے ہیں۔)
فرمایا کہ ’’علومِ جدیدہ حاصل کرو اور بڑے جدوجہد سے حاصل کرو۔ لیکن مجھے یہ بھی تجربہ ہے جو بطور انتباہ مَیں بیان کر دینا چاہتا ہوں کہ جو لوگ ان علوم ہی میں یکطرفہ پڑ گئے اور ایسے محو اور منہمک ہوئے کہ کسی اہلِ دل اور اہل ذکر کے پاس بیٹھنے کا ان کو موقعہ نہ ملا اور وہ خود اپنے اندر الٰہی نور نہ رکھتے تھے وہ عموماً ٹھوکر کھا گئے اور اسلام سے دور جا پڑے‘‘۔ (علوم تو بیشک حاصل کرو لیکن ساتھ ساتھ قرآنِ کریم کا علم بھی پڑھو، وہ بھی حاصل کرو تا کہ صحیح رستے پر چلتے رہو اور پھر جن لوگوں کو قرآن کا علم ہے، اُن سے تعلق جوڑو) پھر فرمایا ’’اور بجائے اس کے کہ ان علوم کو اسلام کے تابع کرتے۔ الٹا اسلام کو علوم کے ماتحت کرنے کی بے سود کوشش کر کے اپنے زعم میں دینی اور قومی خدمات کے متکفل بن گئے۔ مگر یاد رکھو کہ یہ کام وہی کر سکتا ہے یعنی دینی خدمت وہی بجا لا سکتا ہے جو آسمانی روشنی اپنے اندر رکھتا ہو‘‘۔ (ملفوظات جلد1صفحہ43۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
اور اس زمانے میں یہ روشنی ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے ملی ہے۔ اس لئے قرآنِ کریم کی تفسیر اور اُس کو سمجھنے کے لئے آپ کی کتب پڑھنا اور آپ کی تفسیریں پڑھنا یہ بہت ضروری ہے۔ پھر آپ سائنس کو دینی علوم کے ساتھ ملا سکتے ہیں اور کہیں کوئی ایسی بات نہیں ہو گی جہاں دنیاوی علوم دین پر غالب آ جائیں۔ ہمیشہ دین ہی غالب رہتا ہے اور دین ان دنیاوی علوم کو، سائنسی علوم کو اپنے تابع کر لیتا ہے۔ پھر آپ صَابِرُوْا وَ رَابِطُوْا (آل عمران: 201)۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ صبر کی تلقین کرو اور سرحدوں کی حفاظت کرو، کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
’’جس طرح دشمن کے مقابلہ پر سرحد پر گھوڑا ہونا ضروری ہے تا کہ دشمن حد سے نہ نکلنے پاوے۔ اسی طرح تم بھی تیار رہو‘‘۔ سرحدوں کی حفاظت کے لئے فوجوں کی ضرورت ہے۔ پرانے زمانے میں گھوڑوں کی فوج بڑی اچھی سمجھی جاتی تھی۔ اس زمانے میں ہر قسم کے جدید آلات ہیں، اگر ملکوں کی حفاظت کرنی ہے، سرحدوں کی حفاظت کرنی ہے تو وہ رکھنے ضروری ہوتے ہیں۔ جس طرح گھوڑا ہونا ضروری ہے تاکہ دشمن حد سے نہ نکلنے پاوے، تمہاری طرف حملہ نہ کرے، اسی طرح تم بھی تیار رہو۔ فرمایا ’’ایسا نہ ہو کہ دشمن سرحد سے گزر کر اسلام کو صدمہ پہنچائے۔ مَیں پہلے بھی بیان کر چکا ہوں کہ اگر تم اسلام کی حمایت اور خدمت کرنا چاہتے ہوتو پہلے خود تقویٰ اور طہارت اختیار کرو جس سے خود تم خدا تعالیٰ کی پناہ کے حصن حصین میں آسکو‘‘۔ (اللہ تعالیٰ کی پناہ کے محفوظ قلعے میں آ سکو) ’’اور پھر تم کواس خدمت کا شرف اور استحقاق حاصل ہو۔ تم دیکھتے ہو کہ مسلمانوں کی بیرونی طاقت کیسی کمزور ہو گئی ہے۔ قومیں ان کو نفرت و حقارت کی نظر سے دیکھتی ہیں‘‘۔ یہ صورتحال جیسے آج سے سو سال پہلے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانے میں تھی آج بھی اسی طرح ہے بلکہ بڑھ گئی ہے۔ مسلمانوں کو نفرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور اُن کے غلط عمل کی وجہ سے دیکھا جاتا ہے۔ فرمایا ’’اگر تمہاری اندرونی اور قلبی طاقت بھی کمزور اور پست ہو گئی تو بس پھر تو خاتمہ ہی سمجھو‘‘۔ تم لوگ جو اس زمانے کے مسیح موعود کو ماننے والے ہو، مہدی معہود کو ماننے والے ہو، تمہاری بھی اگر طاقتیں کمزور ہو گئیں اور دنیا داری میں پڑ گئے، دین کو بھول گئے تو پھر خاتمہ سمجھو۔ فرمایا ’’تم اپنے نفسوں کو ایسے پاک کرو کہ قدسی قوت ان میں سرایت کرے اور وہ سرحد کے گھوڑوں کی طرح مضبوط اور محافظ ہو جائیں۔ اللہ تعالیٰ کا فضل ہمیشہ متقیوں اور راستبازوں ہی کے شامل حال ہوا کرتا ہے۔ اپنے اخلاق اور اطوار ایسے نہ بناؤ جن سے اسلام کو داغ لگ جاوے۔ بدکاروں اور اسلام کی تعلیم پر عمل نہ کرنے والے مسلمانوں سے اسلام کو داغ لگتا ہے۔ کوئی مسلمان شراب پی لیتا ہے تو کہیں قَے کرتا پھرتا ہے۔ پگڑی گلے میں ہوتی ہے۔ موریوں اور گندی نالیوں میں گرتا پھرتا ہے۔ پولیس کے جوتے پڑتے ہیں۔ ہندو اور عیسائی اس پر ہنستے ہیں۔ اس کا ایسا خلافِ شرع فعل اس کی ہی تضحیک کا موجب نہیں ہوتا بلکہ در پردہ اس کا اثر نفسِ اسلام تک پہنچتا ہے۔ مجھے ایسی خبریں یا جیل خانوں کی رپورٹیں پڑھ کر سخت رنج ہوتا ہے۔ جب میں دیکھتا ہوں کہ اس قدر مسلمان بد عملیوں کی وجہ سے موردِ عتاب ہوئے۔ دل بے قرار ہو جاتا ہے کہ یہ لوگ جو صراط مستقیم رکھتے ہیں اپنی بد اعتدالیوں سے صرف اپنے آپ کو نقصان نہیں پہنچا تے بلکہ اسلام پر ہنسی کراتے ہیں‘‘۔ اور یہ صورتحال آج بھی ہے۔ یہاں جو کئی مسلمان آتے ہیں انہیں آپ دیکھیں جب وہ خاص طور پر جہازوں پر سفر کر رہے ہوں جہاں شراب پینے کی آزادی ہے، پاکستان کے سفر کر رہے ہیں یا عرب ملکوں کے سفر کر رہے ہیں تو بے تحاشا شراب پی رہے ہوتے ہیں اور ساتھ والوں کو بھی تنگ کر رہے ہوتے ہیں۔ فرمایا ’’پس اپنے چال چلن اور اطوار ایسے بنا لو کہ کفّار کو بھی تم پر (جو دراصل اسلام پر ہوتی ہے) نکتہ چینی کرنے کا موقعہ نہ ملے‘‘۔ (ملفوظات جلد1صفحہ48-49۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
پھر ایک بات کی نصیحت کرتے ہوئے کہ اصل بہادر کون ہے؟ ایک احمدی کو، مومن کو کس قسم کا بہادر ہونا چاہئے۔ فرمایا کہ:
’’ہماری جماعت میں شہ زور اور پہلوانوں کی طاقت رکھنے والے مطلوب نہیں‘‘ (ہمیں وہ نہیں چاہئیں ) ’’بلکہ ایسی قوت رکھنے والے مطلوب ہیں جو تبدیلِ اخلاق کے لئے کوشش کرنے والے ہوں۔ یہ ایک امرِ واقعی ہے کہ وہ شہ زور اور طاقت والا نہیں جو پہاڑکو جگہ سے ہٹا سکے۔ نہیں نہیں۔ اصلی بہادر وہی ہے جو تبدیلِ اخلاق پر مقدرت پاوے۔ پس یہ یادرکھو کہ ساری ہمت اور قوت تبدیلِ اخلاق میں صَرف کرو کیونکہ یہی حقیقی قوت اور دلیری ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد1صفحہ88-89۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
پھر صحیح عقائد اور اعمالِ صالحہ کو مدنظر رکھنے کے لئے آپ نصیحت فرماتے ہیں کہ:
’’علاوہ ازیں دو حصے اور بھی ہیں جن کو مدنظر رکھنا صادق اخلاص مند کا کام ہونا چاہئے۔ ان میں سے ایک عقائد صحیحہ کا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا کمال فضل ہے کہ اس نے کامل اور مکمل عقائد صحیحہ کی راہ ہم کو اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے بدُوں مشقت و محنت کے دکھائی ہے‘‘۔ (یہ سب کچھ ہمیں پکا پکایا سامنے آ گیا۔ بنا بنایا سامنے آگیا۔ کوئی محنت نہیں کرنی پڑتی)۔ ’’وہ راہ جو آپ لوگوں کو اس زمانہ میں دکھائی گئی ہے بہت سے عالم ابھی تک اس سے محروم ہیں۔ پس خدا تعالیٰ کے اس فضل اور نعمت کا شکر کرو اور وہ شکر یہی ہے کہ سچے دل سے ان اعمال صالحہ کو بجا لاؤ جو عقائد صحیحہ کے بعد دوسرے حصہ میں آتے ہیں۔ اور اپنی عملی حالت سے مدد لے کر دعا مانگو کہ وہ ان عقائد صحیحہ پر ثابت قدم رکھے اور اعمالِ صالحہ کی توفیق بخشے۔ حصہ عبادات میں صوم‘‘ (عبادات میں جو بات ہے اُس میں صوم) ’’صلوٰۃ و زکوۃ وغیرہ امور شامل ہیں۔ اب خیال کرو کہ مثلاً نماز ہی ہے۔ یہ دنیا میں آئی ہے لیکن دنیا سے نہیں آئی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ قُرَّۃُ عَیْنِیْ فِی الصَّلوٰۃ۔‘‘ (ملفوظات جلد1صفحہ94-95۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
کہ نماز دنیا میں تو آئی ہے لیکن دنیا سے نہیں آئی یا دنیا والوں کی چیز نہیں ہے۔ وہی اس کا حق ادا کر سکتے ہیں جو حقیقی مومن ہیں۔ فرمایا ہماری جماعت کو آخرت پر نظر رکھنی چاہئے۔ ’’دیکھو لوط وغیرہ قوموں کا انجام کیا ہوا۔ ہر ایک کو لازم ہے کہ دل اگر سخت بھی ہو تو اُس کو ملامت کر کے خشوع و خضوع کا سبق دے‘‘۔ اگر دل سخت بھی ہے تب بھی کوشش کرو اور بار بار کوشش کرو۔ اپنے آپ کو کوسو۔ دل کو کوسو تاکہ اس میں نرمی پیدا ہو۔ اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ پیدا ہو۔ عبادت کی طرف توجہ پیدا ہو اور وہ جھکے۔ فرمایا کہ ’’ہماری جماعت کے لئے بہت ضروری ہے کیونکہ ان کو تازہ معرفت ملتی ہے۔ اگر کوئی دعویٰ تو معر فت کا کرے مگر اس پر چلے نہیں تو یہ لاف وگزاف ہی ہے۔ اس لئے ہماری جماعت دوسروں کی غفلت سے خود غافل نہ رہے اور ان کی محبت کو سرد دیکھ کر اپنی محبت کو ٹھنڈا نہ کرے۔ انسان بہت تمنائیں رکھتا ہے۔ غیب کی قضا وقدر کی کس کو خبر ہے‘‘۔ غیب کی اور قضا و قدر کی کس کو خبر ہے۔ کوئی نہیں جانتا کب ہونا ہے، کیاہونا ہے۔ ’’آرزؤوں کے موافق زندگی کبھی نہیں چلتی ہے‘‘۔ جو تمہاری خواہشات ہیں اُن کے مطابق زندگی نہیں چلا کرتی۔ فرمایا کہ ’’آرزؤوں کاسلسلہ اَور ہے اور قضاو قدر کا سلسلہ اَور ہے اور یہی سلسلہ سچا ہے۔ یاد رکھو کہ خدا تعالیٰ کے پاس انسان کے سوانح سچے ہیں۔ اُسے کیا معلوم ہے کہ اس میں کیا کیا لکھا ہے اس لئے دل کو جگاجگا کر متوجہ کرنا چاہیے‘‘۔ (ملفوظات جلد1صفحہ96۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
اللہ تعالیٰ کے پاس جو تمہاری زندگی کے حالات پہنچ رہے ہیں وہ بالکل صحیح پہنچ رہے ہیں۔ کوئی چیز بھی اُس سے چھپی ہوئی نہیں ہے۔ اس لئے بار بار اپنے دل کو ٹٹولو اور اُسے جگاؤ اور اللہ کی طرف توجہ پیدا کرو۔
پھر فرماتے ہیں کہ: ’’تقویٰ کی راہ اختیار کریں کیونکہ تقویٰ ہی ایک ایسی چیز ہے جس کو شریعت کا خلاصہ کہتے ہیں۔ اگر شریعت کو مختصر طور پر بیان کرنا چاہیں تو مغزِ شریعت تقویٰ ہی ہو سکتا ہے۔ تقویٰ کے مدارج اور مراتب بہت سے ہیں لیکن اگر طالبِ صادق ہو کر ابتدائی مراتب اور مراحل کو استقلال اور خلوص سے طے کرے تو وہ اس راستی اور طلبِ صدق کی وجہ سے اعلیٰ مدارج کو پا لیتاہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتاہے۔ إِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللّہُ مِنَ الْمُتَّقِیْنَ (المائدہ: 28)۔ گویا اللہ تعالیٰ متقیوں کی دعاؤں کو قبول فرماتاہے۔ یہ گویا اس کا وعدہ ہے اور اس کے وعدوں میں تخلّف نہیں ہوتا‘‘۔ (کبھی وعدے کے خلاف نہیں کرتا)۔ ’’جیسا کہ فرمایاہے إِنَّ اللَّہَ لَا یُخْلِفُ الْمِیعَادَ (الرعد: 32)۔ پس جس حال میں تقویٰ کی شرط قبولیت دعا کے لیے ایک غیر منفک شرط ہے تو ایک انسان غافل اور بے راہ ہو کر اگر قبولیتِ دعا چاہے تو کیا وہ احمق اور نادان نہیں ہے۔ لہٰذا ہماری جماعت کو لازم ہے کہ جہاں تک ہو ہر ایک ان میں سے تقویٰ کی راہوں پر قدم مارے تاکہ قبولیتِ دعا کا سرور اور حظّ حاصل کرے اور زیادتی ایمان کا حصہ لے‘‘۔ (ملفوظات جلد1صفحہ68۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
پھر ایک اور نصیحت کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ:
’’بہت دفعہ خدا تعالیٰ کی طرف سے الہام ہوا کہ تم لوگ متقی بن جاؤ اور تقویٰ کی باریک راہوں پر چلو تو خدا تمہارے ساتھ ہو گا‘‘۔ فرمایا ’’اس سے میرے دل میں بڑا درد پیدا ہوتا ہے کہ مَیں کیا کروں کہ ہماری جماعت سچا تقویٰ و طہارت اختیار کر لے‘‘۔ پھر فرمایا کہ ’’مَیں اتنی دعا کرتا ہوں کہ دعا کرتے کرتے ضعف کا غلبہ ہو جاتا ہے اور بعض اوقات غشی اور ہلاکت تک نوبت پہنچ جاتی ہے‘‘۔ فرمایا ’’جب تک کوئی جماعت خدا تعالیٰ کی نگاہ میں متقی نہ بن جائے خدا تعالیٰ کی نصرت اُس کے شاملِ حال نہیں ہو سکتی‘‘۔ فرمایا ’’تقویٰ خلاصہ ہے تمام صحف مقدسہ اور توریت و انجیل کی تعلیمات کا۔ قرآنِ کریم نے ایک ہی لفظ میں خدا تعالیٰ کی عظیم الشان مرضی اور پوری رضا کا اظہار کر دیا ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد1صفحہ200۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)۔ یعنی اس لفظ تقویٰ نے۔
آپ نے ایک زمانے میں خاص طور پر جماعت کو یہ دعا پڑھنے کی تلقین فرمائی کہ رَبَّنَا آتِنَا فِیْ الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِیْ الآخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ (سورۃالبقرۃ: 202) (از ملفوظات جلد1صفحہ6۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
فرمایا کہ: ’’توبہ انسان کے واسطے کوئی زائد اور بے فائدہ چیز نہیں ہے اور اس کا اثر صرف قیامت پر ہی منحصر نہیں بلکہ اس سے انسان کی دنیا و دین دونوں سنور جاتے ہیں اور اسے اس جہان میں اور آنے والے جہان میں دونوں میں آرام اور سچی خوشحالی نصیب ہوتی ہے۔ دیکھو قرآنِ شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ رَبَّنَا آتِنَا فِیْ الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِیْ الآخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ (سورۃالبقرۃ: 202)۔ اے ہمارے رب! ہمیں اس دنیا میں بھی آرام و آسائش کے سامان عطا فرما اور آنے والے جہان میں بھی آرام اور راحت عطا فرما اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔ دیکھو درحقیقت رَبَّنَا کے لفظ میں توبہ ہی کی طرف ایک باریک اشارہ ہے کیونکہ رَبَّنَا کا لفظ چاہتا ہے کہ وہ بعض اور ربّوں کو جو اُس نے پہلے بنائے ہوئے تھے‘‘ (یعنی انسان نے جو کوئی اپنے ربّ بنائے ہوئے ہیں ) ’’اُن سے بیزار ہو کر اس ربّ کی طرف آیا ہے۔ اور یہ لفظ حقیقی درد اور گداز کے سوا انسان کے دل سے نکل ہی نہیں سکتا۔ ربّ کہتے ہیں بتدریج کمال کو پہنچانے والے اور پرورش کرنے والے کو۔ اصل میں انسان نے اپنے بہت سے ارباب بنائے ہوئے ہوتے ہیں۔ اپنے حیلوں اور دغا بازیوں پر اُسے پورا بھروسہ ہوتا ہے تو وہی اُس کا رب ہے۔ اگر اُسے اپنے علم کا یا قوتِ بازو کا گھمنڈ ہے تو وہی اُس کا رب ہے۔ اگر اُسے اپنے حسن یا مال یا دولت پر فخر ہے تو وہی اُس کا ربّ ہے۔ غرض اس طرح کے ہزاروں اسباب اُس کے ساتھ لگے ہوئے ہیں۔ جب تک اُن سب کو ترک کر کے اُن سے بیزار ہو کے اس واحد لاشریک، سچے اور حقیقی رب کے آگے سرِ نیاز نہ جھکائے اور ربنا کی پُر درد اور دل کو پگھلانے والی آوازوں سے اُس کے آستانے پر نہ گرے تب تک وہ حقیقی رب کو نہیں سمجھا۔ پس جب ایسی دل سوزی اور جاں گدازی سے اُس کے حضور اپنے گناہوں کا اقرار کر کے توبہ کرتا اور اُسے مخاطب کرتاہے کہ رَبَّنَا یعنی اصلی اور حقیقی ربّ تو تُو ہی تھا۔ مگر ہم اپنی غلطی سے دوسری جگہ بہکتے پھرتے رہے۔ اب میں نے اُن جھوٹے بتوں اور باطل معبودوں کو ترک کر دیا ہے۔ اور صدقِ دل سے تیری ربوبیت کا اقرار کرتا ہوں۔ تیرے آستانے پر آتا ہوں۔ غرض بجز اس کے خدا کو اپنا ربّ بنانا مشکل ہے‘‘۔ (یہ حالت ہو گی تو تبھی حقیقی ربّ اللہ بن سکتا ہے۔ ’’جبتک انسان کے دل سے دوسرے ربّ اور اُن کی قدر و منزلت و عظمت و وقار نکل نہ جاوے تب تک حقیقی رب اور اُس کی ربوبیت کا ٹھیکہ نہیں اُٹھاتا۔ بعض لوگوں نے جھوٹ ہی کو اپنا ربّ بنایا ہوا ہوتا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ ہمارا جھوٹ کے بدُوں گزارا ہی مشکل ہے۔ بعض چوری و راہزنی اور فریب دہی ہی کو ہی اپنا ربّ بنائے ہوئے ہیں۔ اُن کا اعتقاد ہے کہ اس راہ کے سوا اُن کے واسطے کوئی رزق کا راہ ہی نہیں۔ سو اُن کے ارباب وہ چیزیں ہیں۔ دیکھو ایک چور جس کے پاس سارے نقب زنی کے ہتھیار موجود ہوں، اور رات کا موقع بھی اُس کے مفید مطلب ہے اور کوئی چوکیدار وغیرہ بھی نہیں جاگتا ہے تو ایسی حالت میں وہ چوری کے سوا کسی اور راہ کو بھی جانتا ہے جس سے اُس کا رزق آسکتاہے۔ وہ اپنے ہتھیاروں کو ہی اپنا معبود جانتا ہے۔ غرض ایسے لوگ جن کو اپنی ہی حیلہ بازیوں پر اعتماد اور بھروسہ ہوتا ہے اُن کو خدا سے استعانت اور دعا کرنے کی کیا حاجت؟‘‘۔ (وہ تو اپنی چیزوں کو ہی اپنا ربّ سمجھیں گے)۔
فرمایا کہ ’’دعا کی حاجت تو اُسی کو ہوتی ہے جس کے سارے راہ بند ہوں اور کوئی راہ سوائے اُس در کے نہ ہو۔ اُسی کے دل سے دعا نکلتی ہے۔ غرض رَبَّنَا آتِنَا فِیْ الدُّنْیَا… الخ ایسی دعا کرنا صرف اُنہیں لوگوں کا کام ہے جو خدا ہی کو اپنا ربّ جان چکے ہیں اور اُن کو یقین ہے کہ اُن کے ربّ کے سامنے اور سارے اربابِ باطلہ ہیچ ہیں‘‘۔ فرمایا کہ ’’آگ سے مراد صرف وہی آگ نہیں جو قیامت کو ہوگی‘‘۔ (وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ جو کہا ہے) فرمایا کہ ’’آگ سے مراد صرف وہی آگ نہیں جو قیامت کو ہو گی بلکہ دنیا میں بھی جو شخص ایک لمبی عمر پاتا ہے وہ دیکھ لیتا ہے کہ دنیا میں بھی ہزاروں طرح کی آگ ہیں۔ تجربہ کار جانتے ہیں کہ قسم قسم کی آگ دنیا میں موجود ہے۔ طرح طرح کے عذاب، خوف، حُزن، فقر و فاقے، امراض، ناکامیاں، ذلت و ادبار کے اندیشے، ہزاروں قسم کے دکھ، اولاد بیوی وغیرہ کے متعلق تکالیف اور رشتے داروں کے ساتھ معاملات میں الجھن، غرض یہ سب آگ ہیں۔ تو مومن دعا کرتا ہے کہ ساری قسم کی آگوں سے ہمیں بچا۔ جب ہم نے تیرا دامن پکڑا ہے تو ان سب عوارض سے جو انسانی زندگی کو تلخ کرنے والے ہیں اور انسان کے لئے بمنزلہ آگ ہیں بچائے رکھ‘‘۔ (ملفوظات جلد3صفحہ144-145۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
پھر حقیقی احمدیوں سے خدا تعالیٰ کا وعدہ۔ اس کا کچھ ذکر پہلے بھی ہو چکا ہے، تفصیلی ذکر یہ ہے کہ آپؑ فرماتے ہیں:
’’اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا ہے وَ جَاعِلُ الَّذِیۡنَ اتَّبَعُوۡکَ فَوۡقَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اِلٰی یَوۡمِ الۡقِیٰمَۃِ (آل عمران: 56)۔ یہ تسلی بخش وعدہ ناصرہ میں پیدا ہونے والے ابن مریم سے ہوا تھا۔ مگر میں تمہیں بشارت دیتا ہوں کہ یسوع مسیح کے نام سے آنے والے ابن مریم کو بھی اللہ تعالیٰ نے انہیں الفاظ میں مخاطب کر کے بشارت دی ہے‘‘ (کہ میں جو مسیح بن کر آیا ہوں، مسیح موعود مجھے بھی اللہ تعالیٰ نے یہی بشارت دی ہے۔ ) ’’اب آپ سوچ لیں کہ جو میرے ساتھ تعلق رکھ کر اس وعدۂ عظیم اور بشارت عظیم میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔ کیا وہ وہ لوگ ہو سکتے ہیں جو اَمّارہ کے درجے میں پڑے ہوئے فسق وفجور کی راہوں پر کار بند ہیں؟ نہیں۔ ہر گز نہیں۔ جو اللہ تعالیٰ کے اس وعدہ کی سچی قدر کرتے ہیں اور میری باتوں کو قصہ کہانی نہیں جانتے تو یاد رکھو اور دل سے سن لو۔ مَیں ایک بار پھر ان لوگوں کو مخاطب کرکے کہتا ہوں جو میرے ساتھ تعلق رکھتے ہیں اور وہ تعلق کوئی عام تعلق نہیں بلکہ بہت زبر دست تعلق ہے اور ایسا تعلق ہے کہ جس کا اثر (نہ صرف میری ذات تک) بلکہ اس ہستی تک پہنچتا ہے جس نے مجھے بھی اس بر گزیدہ انسان کاملؐ کی ذات تک پہنچایا ہے جو دنیا میں صداقت اور راستی کی روح لے کر آیا۔ میں تو یہ کہتا ہوں کہ اگر ان باتوں کا اثر میری ذات تک پہنچتا تو مجھے کچھ بھی اندیشہ اور فکر نہ تھا اور نہ ان کی پروا تھی۔ مگر اس پر بس نہیں ہوتی۔ اس کا اثر ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور خود خدائے تعالیٰ کی بر گزیدہ ذات تک پہنچ جاتا ہے۔ پس ایسی صورت اور حالت میں تم خوب دھیان دے کر سن رکھو کہ اگر اس بشارت سے حصہ لینا چاہتے ہو اور اس کے مصداق ہونے کی آرزو رکھتے ہو اور اتنی بڑی کامیابی (کہ قیامت تک مکفرّین پر غالب رہو گے، ) کی سچّی پیاس تمہارے اندر ہے تو پھر اتنا ہی مَیں کہتا ہوں کہ یہ کامیابی اس وقت تک حاصل نہ ہوگی جب تک لوّامہ کے درجہ سے گزر کر مطمئنّہ کے مینار تک نہ پہنچ جاؤ۔ اس سے زیادہ اَور مَیں کچھ نہیں کہتا کہ تم لوگ ایک ایسے شخص کے ساتھ پیوند رکھتے ہو جو مامور من اللہ ہے۔ پس اس کی باتوں کو دل کے کانوں سے سنو اور اس پر عمل کرنے کے لئے ہمہ تن تیار ہو جاؤ تا کہ ان لوگوں میں سے نہ ہو جاؤ جو اقرار کے بعد انکار کی نجاست میں گر کر ابدی عذاب خرید لیتے ہیں‘‘۔ (ملفوظات جلد1صفحہ64-65۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
پس یہ اُن نصائح میں سے چندنصائح ہیں جو مختلف اوقات میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی جماعت کو کیں۔ خوش قسمت ہیں وہ جنہوں نے براہِ راست حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صحبت سے فیض پایا اور یہ باتیں سنیں۔ اور خوش قسمت ہیں ہم بھی جن تک یہ باتیں پہنچیں۔ اور ہمیں اُن لوگوں کا شکر گزار ہونا چاہئے جنہوں نے یہ باتیں ہم تک پہنچائیں تا کہ ہم اپنے عہدِ بیعت کی حقیقت کو سمجھنے والے بن سکیں۔ اُن لوگوں میں بن سکیں جو نیکیاں کرنے والے اور نیکیوں کی روح کو سمجھتے ہوئے اُنہیں پھیلانے والے ہوتے ہیں۔ اُن لوگوں میں بن سکیں جو ہر وقت نیکیاں اختیار کرنے میں آگے قدم بڑھانے کی کوشش کرنے والے ہوتے ہیں۔ ہمیں حقیقی تقویٰ کی راہ پر اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ڈالا ہے اور اُس کا فہم و ادراک بھی عطا فرمایا۔ پس ہم میں سے ہر ایک کا فرض ہے کہ اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بندہ بنتے ہوئے تقویٰ پر قدم مارنے والا بنے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔
اس وقت مَیں جمعہ کے بعد بعض جنازہ غائب بھی پڑھاؤں گا۔
پہلا ہے ہمارے مربی سلسلہ جو مرکز میں، ربوہ میں ہی کام کر رہے تھے، مکرم شیخ محمدنعیم صاحب ابنِ شیخ محمد اسلم صاحب۔ دنیا پور کے رہنے والے تھے۔ شعبہ ترتیبِ ریکارڈ جو انجمن کے ریکارڈ وغیرہ کا انتظامی شعبہ ہے، یہ اس میں کام کر رہے تھے۔ دفتر تشریف لائے۔ وہاں کام کرتے ہوئے ان کو دل کا حملہ ہوا اور بے ہوش ہو گئے۔ ہسپتال لے جایا گیا لیکن ڈاکٹروں کی پوری کوشش کے باوجود زندگی نے وفا نہ کی اور وفات پا گئے۔ اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہو گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا أِلَیْہِ رَاجِعُونَ۔ ان کی عمر باسٹھ سال تھی اور بڑی خوش مزاج اور ہر دل عزیز شخصیت کے مالک تھے۔ محنت سے کام کرنے والے تھے۔ اٹھارہ سال کی عمر میں انہوں نے وصیت کی تھی۔ بطور مبلغِ سلسلہ سیرالیون میں خدمات سرانجام دیں۔ پھر پاکستان میں مختلف اضلاع میں بطور مربی سلسلہ خدمات سرانجام دیتے رہے۔ اور جیسا کہ میں نے بتایا آجکل شعبہ ترتیبِ ریکارڈ میں کام کر رہے تھے اور بڑی خوش اسلوبی سے اپنے کام سرانجام دے رہے تھے۔ یہ مکرم مولانا رشید احمد صاحب چغتائی مرحوم مبلغِ سلسلہ کے داماد تھے۔ ان کی اپنی اولاد تو کوئی نہیں تھی ایک لے پالک بیٹی ہے اور بیوہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو بھی صبر اور ہمت اور حوصلہ دے اور ان کے درجات بلند فرمائے۔
دوسرا جنازہ مکرم احسن کمال صاحب ابن مکرم مظفر اقبال صاحب حلقہ صدر کراچی کا ہے۔ ان کا تعلق پنجاب ضلع لیّہ سے ہے اور ان کے پڑدادا احمدی ہوئے تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے صحابی تھے۔ آپؑ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی۔ اسی طرح ان کے دادا بھی حضرت خلیفۃ المسیح الرابع سے بڑے قریبی تعلق رکھتے تھے۔ ان کی والدہ صاحبہ صدر حلقہ کے طور پر لجنہ کا کام کر رہی ہیں۔ یہ کراچی کے حلقہ محمود آباد میں تھے۔ یہاں جماعت کی کافی مخالفت ہے۔ پہلے وہاں تین شہادتیں ہو چکی ہیں۔ اس وقت یہ ایک کمپنی میں کام کر رہے تھے اور اٹھارہ جنوری کو حسبِ معمول اپنے کام میں مشغول تھے کہ ساڑھے چار بجے موٹر سائیکل پر دو نامعلوم افراد آئے اور ان سے موبائل چھیننے کی کوشش کی۔ ان کی مزاحمت پر انہوں نے ان پر دو فائر کئے جس سے یہ موقع پر شہید ہوگئے۔ یہ اوّل تو احمدی ہونے کے لحاظ سے جماعتی شہادت کی وجہ بنتی ہے اور لگتا ہے کہ دراصل انہوں نے چھیننے کا بہانہ بنایا۔ لیکن اگر جماعتی شہادت نہیں بھی تھی تو اپنے کام میں جہاں تھے وہاں کی حفاظت کے لئے بھی انہوں نے اپنی زندگی دی تو یہ بھی شہادت ہی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔ تیس سال ان کی عمر تھی۔
اور تیسرا جنازہ مکرم عرفان احمد صاحب اونچا مانگٹ ضلع حافظ آباد کا ہے جنہوں نے 9؍جنوری کو وفات پائی تھی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُونَ۔ یہ حضرت مولوی فضل دین صاحبؓ صحابی کے بیٹے تھے۔ پاکستان بننے کے بعد فرقان فورس میں انہوں نے کام کیا۔ موصی تھے اور خلافت سے، جماعت سے بھرپور تعاون تھا۔ انہوں نے اہلیہ اور پانچ بیٹیاں اور پانچ بیٹے یادگار چھوڑے ہیں۔ ایک بیٹے رضوان احمد شاہد صاحب مربی سلسلہ ہیں جو آج کل آئیوری کوسٹ میں خدمت کی توفیق پا رہے ہیں۔ وہاں ہونے کی وجہ سے یہ جنازے میں شامل نہیں ہو سکے تھے۔ تینوں کے جنازے ادا ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ ان سب سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے اور ان سب کے لواحقین کو صبر اور ہمت اور حوصلہ عطا فرمائے۔
ہمیں اس بات پر خوش نہیں ہو جانا چاہئے کہ ہم نے زمانے کے امام کو مان لیا بلکہ اب اپنی حالتوں کی طرف پہلے سے زیادہ نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ ورنہ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ تمہارا مؤاخذہ ہو گا تم پوچھے جاؤ گے۔
ہمیں اس بات کی بہت فکر کرنی چاہئے کہ اپنی اصلاح کی طرف توجہ دیں۔ کسی کا دینی علم حاصل کرلینا اُسے مؤاخذہ سے بچا نہیں سکتا، اگر عمل اُس کے مطابق نہیں ہے۔ کسی کا جماعتی خدمت پر مامور ہونا، کوئی عہدہ مل جانا اُسے مؤاخذہ سے بچا نہیں سکتا اگر اُس کے عمل اللہ تعالیٰ کی بتائی ہوئی تعلیم کے مطابق نہیں ہیں۔ کسی کا کسی خاندان کا فرد ہونا، بزرگوں کی خدمات اُس کو مؤاخذہ سے بچا نہیں سکتیں، اگر عمل اُس کے مطابق نہ ہوں جس کی اللہ تعالیٰ نے تعلیم دی ہے۔
اس زمانے میں ایک بہت بڑا کام جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے سپرد ہوا ہے، اسلام کا پیغام ساری دنیا کو دینا ہے اور یہی آپ کے ماننے والوں کا کام ہے۔ لیکن اس کے لئے ہمیں اپنے آپ کو نمونہ بنانے کی ضرورت ہے۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ارشادات کے حوالہ سے احباب جماعت کو نہایت اہم اور دلگداز نصائح۔
مکرم شیخ محمدنعیم صاحب (مربی سلسلہ) ابن شیخ محمد اسلم صاحب آف دنیا پور، مکرم احسن کمال صاحب ابن مکرم مظفر اقبال صاحب (کراچی) اور مکرم عرفان احمد صاحب آف اونچا مانگٹ کی وفات۔ مرحومین کا ذکرخیر اور نماز جنازہ غائب۔
فرمودہ مورخہ 20؍جنوری 2012ء بمطابق 20؍صلح 1391 ہجری شمسی، بمقام مسجد بیت الفتوح۔ مورڈن۔ لندن
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔