معروف رشین احمدی مسلمان مکرم راویل بخارایف صاحب

خطبہ جمعہ 27؍ جنوری 2012ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔

اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

ایک روایت میں آتا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اُذْکُرُوْا مَحَاسِنَ مَوْتٰکُمْ۔ اپنے وفات پا جانے والوں کی خوبیوں کا ذکر کرو۔ اور پھر اسی میں آگے فرمایا کہ اُن کی برائیاں بیان نہ کیا کرو۔ (سنن الترمذی کتاب الجنائز باب 34 حدیث 1019)

ہر انسان میں اچھائیاں بھی ہوتی ہیں اور کمزوریاں بھی ہوتی ہیں لیکن وفات کے بعد کیونکہ انسان کا تعلق اس دنیا سے کٹ جاتا ہے اس لئے اب اس دنیا میں کسی کی کمزوریوں اور برائیوں کا ذکر کرنے کی ضرورت نہیں۔ ہاں اُس کی خوبیوں، اُس کی نیکیوں کو ضرور بیان کرنا چاہئے، اُن کا ضرور ذکر ہونا چاہئے۔ اس سے ایک تو نیکیوں کی تحریک پیدا ہوتی ہے اور دوسرے جب مرنے والے کی نیکیوں کا ذکر ہو رہا ہو تو وفات شدہ کی مغفرت کے لئے دعا بھی نکلتی ہے۔ اور اُس کی مغفرت کے سامان ہوتے ہیں۔ جیسا کہ میں نے کہا کہ اچھائیاں اور کمزوریاں ہر ایک میں پائی جاتی ہیں۔ یہ انسانی فطرت ہے کبھی نیکیوں کی طرف زیادہ مائل ہوتا ہے، کبھی بعض کمزوریاں پیدا ہو جاتی ہیں۔ لیکن بعض انسان ایسے ہوتے ہیں جن کی خوبیاں اور نیکیاں ایسی چمک رہی ہوتی ہیں کہ بشری کمزوریوں کو بالکل نظروں سے اوجھل کر دیتی ہیں۔ اُن کی نیکیاں اس طرح وسیع تر اور پھیلی ہوئی ہوتی ہیں کہ کمزوریاں اُن کے پیچھے چھپ جاتی ہیں اور بڑے خوش قسمت ہوتے ہیں ایسے لوگ کہ جن کی نیکیاں، جن کی خوبیاں ہر جاننے والے کی زبان پر ہوتی ہیں۔ اور ایک حدیث کے مطابق جب ایسی صورت ہو تو ایسے شخص پر جنت واجب ہو جاتی ہے۔ (صحیح بخاری کتاب الجنائز باب ثناء النّاس علی المیّت حدیث 1367)

آج میں ایک ایسے شخص کا ذکر کروں گا جس کا ہر جاننے والا اُن کی خوبیوں کے بیان میں رطب اللّسان تھا۔ ایک ایسا شخص جو پاکستانی یا ہندوستانی احمدی نہیں تھا۔ کسی صحابی کی اولاد یا پیدائشی احمدی نہیں تھا۔ لمبے عرصے کی بچپن سے لے کر جوانی تک اور پھر بڑھاپے تک خلفاء کے زیرِ اثر یا جماعت کے زیرِ سایہ اُس کی تربیت نہیں تھی۔ چند سال پہلے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں آیا اور بہتوں کو پیچھے چھوڑ گیا۔ یہ ہمارے بھائی مکرم راویل بخاری صاحب تھے جو رشین تھے۔ جن کی وفات 24؍جنوری کو ہوئی ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔ گو یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر روس میں ایمان لانے والے ابتدائی مٹھی بھر ذرّوں میں سے ایک ذرّہ تھے لیکن اپنے علم و عرفان، اخلاص و وفا، بے نفسی، خلافت سے بے انتہا تعلق، عاجزی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پیغام کو روس میں پہنچانے کی تڑپ کے لحاظ سے ایک روشن ستارہ تھے جس نے بہتوں کی رہنمائی کا کام کیا اور انشاء اللہ تعالیٰ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الہام کے پورا ہونے پر احمدیت روس میں ریت کے ذروں کی طرح پھیلے گی تو تاریخ انشاء اللہ تعالیٰ ان کی خدمات کو، راویل بخاری صاحب کی خدمات کوہمیشہ یاد رکھے گی، انشاء اللہ

اس وقت میں مکرم راویل صاحب مرحوم کا کچھ مزید ذکر کرتا ہوں۔ راویل صاحب جماعتی خدمات تو اُس وقت بھی بے انتہا کرتے تھے اور انہوں نے کی ہیں جب ابھی وہ احمدیت سے متعارف ہوئے تھے اور احمدی نہیں تھے۔ اُس وقت بھی انہوں نے ترجمے کے کام کئے ہیں۔ پھر یہاں بی بی سی میں رشین پروگراموں میں ملازمت کرتے رہے۔ وہاں سے فراغت حاصل کی ہے تو پھر اپنے آپ کو مکمل طور پر وقف کر دیا۔ ایسے لگتا تھاکہ رات دن ایک ہی تڑپ ہے کہ کسی طرح مَیں اپنا کوئی بھی لمحہ احمدیت کی خدمت کے بغیر نہ گزاروں۔ ہر لمحہ میرا احمدیت کی خدمت کی طرف ہو۔ وفات والے دن بھی اس خدمت کے جذبہ سے ہی مامور تھے اور ایم ٹی اے کے لئے ایک پروگرام بنانے کے لئے ایک میٹنگ میں آنے کے لئے تیاری کر رہے تھے۔ اس تیاری کے دوران میں ہی اُن کا فون آیا کہ اُن کی طبیعت خراب ہو گئی ہے اس لئے وہ نہیں آ سکیں گے۔ اُنہیں بڑا سخت ہارٹ اٹیک ہوا، جو جان لیوا ثابت ہوا اور اس طرح وفات ہوئی۔ وفات کے وقت ان کی عمر اکسٹھ سال تھی۔ آپ کے لواحقین میں ایک اہلیہ ہیں اور اپنی اولادنہیں تھی۔ اہلیہ کا پہلے ایک بیٹا تھا جو وفات پا چکا ہے۔

جماعت سے راویل صاحب کا تعارف 1990ء کے آغاز میں کلیم خاور صاحب کے ذریعے سے ہوا تھا۔ یہ تاتار قوم پر تحقیق کے سلسلے میں لندن آئے تو یہیں ان کا رابطہ ہوا۔ پھر حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ سے ملاقاتوں کے نتیجے میں احمدیت میں داخل ہوئے۔ راویل صاحب ایک جگہ خود بیان کرتے ہیں کہ اگرچہ میں پیدائشی مسلمان ہوں لیکن دہریہ معاشرہ کے باعث 1989ء تک اسلام کے بارے میں علم نہ ہونے کے برابر تھا۔ جس معاشرے میں میری پرورش ہوئی اُس زمانے میں اسلام اور ہماری مادری زبان تاتاری پر مکمل پابندی تھی۔ تاتاری زبان بولنے پر بھی پابندی تھی۔ تاتاری زبان تدریسی نصاب سے بھی نکال دی گئی تھی۔ لیکن تاتاریوں میں اسلامی اثر قائم تھا۔ چاہے وہ پارٹی ورکر ہوں یا سکول کے اساتذہ ہوں ہر کام سے پہلے بسم اللہ ضرور کہتے تھے۔ تاتاری ثقافت جو کہ ایک ہزار سال پرانی ہے۔ اس پر ہمیشہ سے اسلام کا اثر رہا ہے۔ اس لئے دہریت کا جو زور میرے والدین کے زمانے میں تھا، میری پرورش کے دوران وہ قدرے کم تھا۔ میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں چھپا ہوا مسلمان تھا جسے ہمیشہ خیال رہتا ہے کہ وہ کسی طرح موقع پا کر مسجد جائے اور نمازیں ادا کرے۔ ایسا بالکل نہ تھا۔ مَیں ایک طالبعلم تھا۔ مَیں نوجوان تھا اور اس معاشرے کے مطابق جو بات میرے ذہن میں آتی وہ کرتا تھا۔

پھر کہتے ہیں کہ 1989ء میں حالات بہتر ہوئے۔ مذہب سمیت ہر قسم کی آزادی ملنا شروع ہوئی لیکن سچے مذہب تک پہنچنے کے لئے میں یہ جانتا تھا کہ مذہب کا عرفان صرف عقلی دلائل کی بنا پر حاصل نہیں ہو سکتا۔ ایمان کی نعمت خدا خود عطا کرتا ہے۔ مَیں ایک شش و پنج میں مبتلا تھا۔ عقلی طور پر مَیں سمجھ چکا تھا کہ یہ صرف اور صرف اسلام ہی ہے جو کہ بہترین تعلیم دیتا ہے لیکن اس کے باوجود میری روح بالکل خالی تھی اور واحد چیز جس نے مجھے ان شکوک و شبہات سے نجات دلائی وہ چند افراد تھے جو مجھے لندن میں ملے، جنہیں اب میں سچا اور حقیقی مسلمان سمجھتا ہوں اور یہ وہ جماعت تھی جو کہ عالمِ اسلام میں ملحد سمجھے جاتے ہیں یعنی احمدیہ مسلم جماعت۔

پھر لکھتے ہیں کہ احمدیہ جماعت کی تعلیم یہ ہے کہ کوئی اُس وقت تک خدا کی محبت حاصل نہیں کر سکتا جب تک وہ خدا کی مخلوق سے محبت نہیں کرتا۔ یہ جانتے ہی مجھے یقین ہو گیا کہ یہی میری منزل ہے۔ یہاں مجھے سب کچھ اکٹھا مل گیا یعنی میری تعلیم، علم اور عقل، عقلی دلائل کے لئے میری پیاس۔ سچے مذہب کی تلاش اور روحانی تجربات سب کچھ ایک ہی جگہ مل گیا۔

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے 1993ء کے جلسہ کے موقع پر اپنے خطاب میں فرمایا تھا کہ ’’اب اس نئے دور میں خدا تعالیٰ کے فضل سے دوبارہ ہنگری میں رابطے مکمل ہوئے ہیں‘‘۔ پہلے ہنگری میں مشن خلافتِ ثانیہ میں قائم ہوا تھا، جو بعض حالات کی وجہ سے پھر ختم کرنا پڑا تھا۔ تو کہتے ہیں کہ نئے دور میں وہاں رابطے ہوئے ہیں ’’اور سب سے پہلا پھل جو اس دَور کا ہے وہ ہنگری کے مخلوص زُلائی ہیں، ، جو خود انگلستان تشریف لائے تھے۔ ہمارے ایک رشین احمدی دوست راویل صاحب چونکہ علمی طبقوں میں بہت شہرت رکھتے ہیں اس لحاظ سے اُن کے ساتھ بھی مخلوص زُلائی صاحب کے تعلقات تھے، وہ ان کو بار بار مسجد لانے لگے اور چند ملاقاتوں میں ہی مَیں نے دیکھا کہ ان کے دل کی کیفیت بدل رہی ہے اور (پھر وہ) خدا کے فضل سے یہاں سے بیعت کر کے گئے۔ اب واپس جا کر انہوں نے وہاں ہنگری میں مزید تبلیغ کی بنیادیں استوار کیں۔ اور راویل صاحب نے جو وہاں گزشتہ دورہ کیا ہے اس کے نتیجے میں اب وہاں جماعتیں خدا کے فضل سے مستحکم ہو گئی ہیں اور وہاں جو آثار ظاہر ہو رہے ہیں اُس سے امید ہے اب وہاں جماعت کو جلد فروغ نصیب ہو گا…۔ تاتارستان میں جو برادرم راویل کا اصل وطن ہے، وہاں سے دو تین سال پہلے مُرات ضَیانَوف صاحب جلسہ یوکے پر تشریف لائے تھے اور یہ ثابت قدم رہے اور وفا دار ثابت ہوئے۔ پس جا کر انہوں نے رابطہ رکھا اور اپنے آپ کو احمدی قرار دیتے رہے۔ اُن کی بیٹی نے بھی بہت ہی اخلاص کے ساتھ جماعت سے تعلق رکھا اور ایک دوسرے کے ایمان کو یہ تقویت دیتے رہے۔

پھر فرماتے ہیں کہ احمدیت کو قبول کرنا ان قوموں کے لئے اتنا آسان نہیں جو ستّر سال دہریت کے زہر سے مسموم رہے۔ اس کے نتیجے میں باوجود اس کے کہ اسلام سے تعلق ٹوٹا نہیں اور اسلامیت کا شعور اُن کے دلوں میں قائم رہا۔ لیکن عملاً اسلام کی تفاصیل سے کچھ آگاہی نہیں تھی اور بحیثیت مسلم نیشن کے تو اسلام کے اندر رہے لیکن بحیثیت مذہب اسلام کے یہ عملاً اسلام سے باہر ہی رہے۔ ان کو دوبارہ اسلام میں داخل کرنا اور خدا تعالیٰ کی وحدانیت اور حقانیت کا یقین دلوں میں جاگزین کرنا محنت طلب ہے اور دعاؤں کا محتاج ہے اور اعجاز کا منتظر ہے۔ اس لئے دعائیں کریں۔ ہم جس حد تک محنت ہے کر رہے ہیں، دعائیں بھی کرتے ہیں، ساری جماعت دعا کرے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اعجازی نشان دکھائے کیونکہ درحقیقت روحانی انقلابات کے لئے دعاؤں سے بہت بڑھ کر اعجازی نشان کام آتے ہیں۔ جیسا کہ میں نے بتایا کہ آپ پیدائشی احمدی تو نہیں تھے لیکن اُن کو دیکھ کر یہی محسوس ہوتا تھا کہ گویا وہ ہمیشہ سے ہی احمدی تھے۔ وہ صحیح معنوں میں احمدیت کے ایک سفیر تھے۔ جہاں بھی جاتے جماعت کا ذکر ضرور کرتے۔ جہاں ان کو خدشہ ہوتا کہ جماعت کے نام سے ری ایکشن ممکن ہے تو وہاں حکمت کے ساتھ اسلام کا پیغام دیتے اور جماعتی تعلیمات بیان کرتے۔ لوگ جب پوچھتے کہ یہ کن کے عقائد ہیں تو جماعت کا نام بتا دیتے اور پھر پورا تعارف کروایا کرتے۔ ہمیشہ اس بات کا خیال رکھا کرتے تھے کہ کس محفل میں کس طرح کی کتب دینا مناسب رہے گا، کس قسم کا لٹریچر دینا مناسب رہے گا۔ ان کے حلقہ احباب میں سیاستدان، ادیب، شاعر، ڈاکٹر، کالج اور یونیورسٹیز کے اساتذہ اور طلباء ماہرینِ اقتصادیات نیز مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے مرد و خواتین شامل تھے۔ راویل صاحب خود بھی ایک بہت اچھے شاعر تھے۔ بہت اچھے ادیب تھے۔ جرنلسٹ تھے۔ مترجم تھے اور ایک داعی الی اللہ تھے۔ ان کو اللہ تعالیٰ نے بہت سی خوبیوں سے نوازا ہوا تھا۔ ان کے جاننے والوں اور سراہنے والوں کا ایک وسیع طبقہ ہے۔ راویل صاحب کے ذریعے رشیا اور سابق روسی ریاستوں میں ایسے لوگوں تک جماعت احمدیہ یعنی حقیقی اسلام کا پیغام پہنچا ہے کہ جہاں تک عام طور پر ہمارے مبلغین اور معلمین کی رسائی نہ ہوسکتی اور اگر ہوتی بھی تو بہت دیر کے بعد۔ جب آپ ماسکو جاتے تو اکثر علمی و ادبی شاعری محافل میں حصہ لیتے تھے اور اس قسم کے پروگراموں کے دوران ہمیشہ کسی نہ کسی رنگ میں جماعت کا ذکر کر دیا کرتے تھے اور اپنے ساتھیوں یعنی احمدیوں کو پہلے ہی کہہ دیا کرتے تھے کہ آپ لوگ آج فلاں جگہ اتنے بجے جماعتی تعارفی کتب میں سے فلاں فلاں کتب کی اتنی تعداد لے کر پہنچ جائیں اور جو بھی پروگرام ہوتا تھا اُس کے آخر میں لوگ اُن کے جماعت کا تعارف کروانے کے بعد ضرور وہ کتب خرید لیا کرتے تھے یا لے لیتے تھے۔

جب سے یہاں لندن میں رشین ڈیسک کا قیام ہوا ہے، راویل صاحب نہایت محنت، اخلاص اور جوش کے ساتھ کام کر رہے تھے۔ کام کے دوران انہیں نہ بھوک کی فکر ہوتی تھی، نہ کسی اور چیز کی پرواہ ہوتی تھی۔ ساری توجہ جماعت کے کاموں کی تکمیل کی طرف ہوتی تھی اور کبھی کوئی کام ادھورا نہیں چھوڑا۔ ان کے ساتھ کام کرنے والے مبلغین کہتے ہیں کہ ہم بعض دفعہ کہا کرتے تھے کہ تھک گئے ہیں، ریسٹ (Rest) کر لیں تو ہنس کے کہتے تھے کہ تم لوگ بڑی جلدی تھک گئے ہو۔ کیونکہ وہ خطباتِ جمعہ کی رشین ڈبنگ (Dubbing) کرواتے تھے اس لئے ان کو اس کام کی ایک فکر لگی رہتی تھی۔ دو سال پہلے یہ کام بہت وسیع پیمانے پر شروع ہوا اور ایم ٹی اے پر اور اسی طرح انٹرنیٹ پر خطبہ آنے لگا۔ چنانچہ اپنے ساتھیوں سے ہفتہ کے روز ضرور پوچھا کرتے تھے کہ کیا آپ نے خطبہ کا ترجمہ مکمل کر لیا ہے؟ یا کب تک کرلوگے؟ اور پھر یہ پوچھتے، کیا اتوار کی صبح یا ظہر سے پہلے ڈبنگ کرواسکوگے؟ بعض دفعہ تو جمعہ کے دن شام کو ہی پوچھ لیتے تھے کہ کب تک ترجمہ مکمل کر لو گے؟ غرضیکہ جبتک وہ خطبہ کی ڈبنگ مکمل نہ کروا لیتے، بے چین اور بے قرار رہتے تھے۔ جلسہ سالانہ کے دنوں میں بھی اُن کی مصروفیت، محنت اور لگن ایک الگ رنگ رکھتی تھی۔ تینوں دنوں کے دوران خدمتِ دین کے لئے ان کی قوتِ عمل اور جوش و جذبہ خاص طور پر دیکھنے والا ہوتا تھا۔ وہ خلیفہ وقت کے خطابات کے علاوہ باقی مقررین کی تقاریر کا بھی ایم ٹی اے کے ناظرین یا جلسہ پر موجود جو شاملین ہوتے تھے، اُن کے لئے رشین ترجمہ کیا کرتے تھے۔ رشیا اور سابقہ روسی ریاستوں سے جو بھی مہمان جلسہ پر آتے اُن کو انتہائی خندہ پیشانی سے ملتے۔ اُن کو جماعت کی ترقیات کا بتاتے۔ ہمیشہ اُن کو ایسی باتیں بتاتے جو آنے والے مہمانوں کے لئے ازدیادِ ایمان کا باعث ہوتیں۔ پھر مہمانوں کی ضروریات کا خیال رکھتے۔ انتظامیہ کو توجہ دلاتے کہ ان کی فلاں فلاں ضروریات پوری کرنی چاہئیں۔ جلسہ سالانہ کی برکات اور اہمیت کے حوالہ سے اکثر کسی نہ کسی رنگ میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ اس بات کا ذکر کیا کرتے تھے کہ رشیا اور دیگر ریاستوں کے احمدیوں کو سالہا سال اگر تبلیغ کرتے رہیں تو وہ اتنا مفید اور مؤثر ثابت نہیں ہوتا جتنا کسی کو صرف ایک بار جلسہ سالانہ میں شمولیت کے لئے دعوت دینا اور اس کی ملاقات خلیفہ وقت کے ساتھ کروا دینا۔ اور اس کے لئے بہت کوشش کیا کرتے تھے تا کہ زیادہ سے زیادہ مہمان جلسے پر لے کر آئیں۔ آپ نے بہت سی جماعتی کتب کا رشین میں ترجمہ کیاہے جو رشیا اور دیگر ریاستوں میں تبلیغ کے کام میں کافی ممد اور معاون ثابت ہوتی ہیں۔ ان کتب کے علاوہ انہوں نے رشین ترجمہ قرآن کے لئے بھی بڑی نمایاں خدمت سرانجام دی ہے اور یہ بہت اہم کام ہے جو انہوں نے کیا ہے۔

خالد صاحب جو ہمارے رشین ڈیسک کے مربی ہیں، لکھتے ہیں کہ مَیں نے اور رستم حماد ولی صاحب (ماسکو) نے 1999ء میں خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے اردو ترجمہ قرآن کو مدّ نظر رکھتے ہوئے نئے رشین ترجمہ قرآن کا کام شروع کیا تھا اور یہ 2004ء میں مکمل کیا۔ جس کے بعد اس کی چیکنگ اور تصحیح کا کام دونوں نے راویل صاحب کے ساتھ مل کر کیا اور یہ کام لندن میں مکمل ہوا۔ کام کے دوران میں دن رات ایک کر کے انہوں نے تقریباً تین مہینے کے دوران نہایت محنت اور لگن کے ساتھ اس کام کو پورا کروایا۔ قرآنِ کریم کے ترجمے کا کام چونکہ ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے، احتیاط کا متقاضی ہے اس لئے چیکنگ کے مرحلہ میں ہر ہر لفظ کے بارے میں تسلی کیا کرتے تھے کہ آیا قرآنِ کریم میں بالکل ایسے ہی ہے جیسے ہم نے ترجمہ کیا ہے۔ اس کے لئے رشین زبان میں سے سب سے زیادہ مناسب لفظ کیا ہو سکتا ہے، اُس کا استعمال کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ کہتے ہیں کہ بعض دفعہ ایک ایک آیت کی چیکنگ میں کئی کئی گھنٹے لگ جایا کرتے تھے۔ راویل صاحب پوری چھان پھٹک سے ترجمہ کیا کرتے تھے۔ ان کی اس کاوش کے نتیجے میں رشین ترجمہ قرآن کے اب تک تین ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ لندن میں 2006ء میں، ماسکو سے 2007ء میں، قازقستان سے 2008ء میں۔ اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ ایک صدقہ جاریہ ہے جو راویل صاحب کی یاد دلاتا رہے گا۔

راویل صاحب جیساکہ مَیں نے کہا بہت بڑے سکالر تھے، جرنلسٹ تھے، شاعر تھے۔ ان کو مختلف قسم کے اعزازات ملے۔ اُن کو تاتارستان کا ایک سب سے بڑا اعزاز موسیٰ جلیل (Musa Jalil’s) پرائز آف آنر ملا۔ یہ احمدیت سے پہلے 1986ء کا ہے۔ پھر 2001ء میں پھر آرٹس میں خدمات کے سلسلے میں اُن کو ایک انعام ملا۔ 2006ء میں تاتارستان میں اُنہیں اعلیٰ اعزاز، ’’نیشنل پرائز آف آنر‘‘ سے نوازا گیا۔ پھر اپنی ایک کتاب پر اُن کو ایک بہت بڑا انعام ملا۔ 2009ء میں ان کی کتاب نے رشیا بُک فیئر میں ایوارڈ جیتا۔ پھر ایک اور اعزاز ان کو 13؍ اکتوبر کو ’’دی آرڈر آف کلچرل ہیریٹیج‘‘ کا ملا۔ اسی طرح آپ مختلف سوسائٹیوں کے ممبر بھی تھے جس میں دنیا بھر کی بیشمار سوسائٹیاں ہیں۔ جیسا کہ میں نے بتایا کہ بی بی سی رشین سروس میں یہ کام کرتے رہے ہیں۔ ان کے ساتھی اینڈریو اوستالسکی (Andrew Ostalski)، جو بی بی سی کی رشین سروس کے مدیرِ اعلیٰ رہے ہیں، انہوں نے ان کو وفات کے بعد خراجِ عقیدت اس طرح پیش کیا۔ لکھتے ہیں کہ: ایک لمبے عرصے تک بی بی سی رشین سروس میں ہمارے ساتھ کام کرنے والے ہمارے ساتھی راویل بخارایف صاحب اب ہم میں نہیں رہے۔ راویل بخارایف کے ساتھ تقریباً پندرہ سال سے زیادہ شانہ بشانہ کام کیا۔ مَیں اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھتا ہوں کہ ایسے صلاحیتوں والے اور سچے ساتھی کے ساتھ کام کرنے کا مجھے موقع ملا۔ پھر یہ لکھتے ہیں کہ تعلیمی اعتبار سے تو راویل صاحب ریاضی دان تھے لیکن ایک نہایت اعلیٰ شاعر، پختہ ایمان رکھنے والے مخلص مسلمان تھے۔ بلکہ اگر ان کو ایک مذہبی عالم کہا جائے تو غلط نہ ہو گا۔ راویل صاحب نے اپنی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کی وجہ سے بہت سے لوگوں کو متاثر کیا اور اُن سے متاثر ہونا غلط بھی نہیں کیونکہ وہ ایک اعلیٰ گفتگو کرنے والے ایسے انسان تھے جن کا علم مختلف جہتوں میں پھیلا ہوا تھا۔

اور جو لوگ ان سے ملے ہوئے ہیں یہ جانتے ہیں کہ یقینا اُن کے بولنے کا بڑا میٹھا اور پیارا انداز تھا۔ اپنا گرویدہ کر لیتے تھے۔ راویل صاحب اپنی کتاب ’’داروگا بوگ زنایت کودا‘‘ (رشین نام ہے) یعنی ’’یہ راہ کدھر لے جائے؟ خدا ہی جانتا ہے‘‘، میں اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ کس طرح جماعت سے متعارف ہوئے، لکھتے ہیں۔ خلاصہ اُس کا یہ ہے کہ شام کے وقت مَیں یہاں ٹی وی پر بیٹھا پروگرام سُن رہا تھا تو ٹیلیفون کی گھنٹی بجی اور گھر والی نے (جس کے گھر میں یہ تھے) ٹیلی فون اُٹھایا کہتے ہیں مجھے ٹیلیفون اُٹھانے کی ضرورت بھی نہیں تھی، کیونکہ مَیں کسی کو یہاں جانتا نہیں تھا۔ اسی سوچ میں تھا کہ کسی انگریز کا اپنے دوسرے انگریز دوست کو فون ہو گا۔ بہر حال جب اُس گھر والی نے گفتگو ختم کی تو اُس نے فون کرنے والے کو بتایا کہ میرے ہاں ایک رشین مہمان آیا ہوا ہے اور کہتے ہیں مَیں حیران تھا کہ انگریزی طریقے کے مطابق تو کوئی بتانے کی ضرورت بھی نہیں تھی۔ بہر حال اس لئے میں اس کومعجزہ سمجھتا ہوں جو ہوا اور اس نے ہونا ہی تھا کہ اچانک مجھے ٹیلیفون کے پاس بلایا گیا اور ٹیلیفون مجھے دے دیا گیا اور دوسری طرف جو شخص فون پر تھا اُس نے دلچسپی ظاہر کی کہ میں کہاں سے آیا ہوں اور اگلے دن مجھے جماعت احمدیہ کی مسجد میں آنے کی دعوت دی۔ اُس نے اپنی گفتگو میں لفظ ’’احمدیت‘‘ استعمال نہیں کیا۔ بہر حال مجھے گھر سے باہر جانے کو دل بھی چاہ رہا تھا۔ اس لئے میں نے رضا مندی ظاہر کی اور فون رکھ دیا۔ کہتے ہیں صبح مجھے گاڑی لینے آگئی۔ جس نے مجھے مسجد پہنچا دیا جو پٹنی کے علاقے میں واقع تھی۔ تو سب سے پہلی چیز جو مَیں نے وہاں دیکھی وہ جماعت احمدیہ کا سلوگن تھا ’’محبت سب کے لئے، نفرت کسی سے نہیں‘‘۔ کہتے ہیں مجھے شروع ہی سے اسلام میں دلچسپی تھی۔ اس کا پہلے بھی ذکر ہوچکا ہے۔ اس لئے میں نے باقی تمام کام چھوڑ کر جماعت احمدیہ کی کتب کا رشین میں ترجمہ کرنا شروع کیا جس کے لئے مجھ سے درخواست کی گئی تھی۔ میں جماعت احمدیہ کے خلیفہ مرزا طاہر احمد صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ سے ملا اور دو گھنٹے کی دلچسپ گفتگو کے بعد محسوس کیا کہ ہم دونوں دنیا کو تقریباً ایک ہی نظر سے دیکھتے ہیں۔ ہماری اس گفتگو میں میرے لئے بہت سی نئی باتیں تھیں۔ خیر کہتے ہیں اُس کے بعد میں اس کام میں جُت گیا اور اس بارے میں گو مجھے زیادہ سمجھ نہیں آئی لیکن بہر حال ٹرانسلیشن انہوں نے شروع کر دی۔ میں نے یہی سوچا تھا کہ بس کتابوں کا ترجمہ کروں گا لیکن ان کتابوں کا مضمون اس قدر صاف اور خوبصورت تھا اور بامعنی تھا کہ تھوڑے ہی عرصے میں مَیں مطمئن ہو گیا۔ میرا جماعت میں شامل ہونا کوئی اتفاقی بات نہیں تھی۔ یہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر تھی جو مجھے لے کے آئی۔ پھر اس ملاقات کے بعد جیسا کہ ہے ان کو تراجم کا کام دیا گیا۔ ان کو یہاں اسلام آباد ٹلفورڈ میں رہائش مہیا کی گئی۔ کہتے ہیں وہاں کھلی پُرفضا جگہ تھی اور مجھے ایک کمرہ اور گھر وغیرہ دے دیا گیا۔ وہاں مجھے کام کرنے کا مزہ بھی آیا اور بڑی خوشی ہوئی۔ پھر لکھتے ہیں کہ اسلام آباد میں پہلے چار ہفتے میں نے دل و جان سے کام کیا۔ یہاں تک کہ بہت کم سونے کا موقع ملا اور چار کتابوں کا ترجمہ کیا۔ ان کتابوں کا ترجمہ کرتے ہوئے مجھے جماعت کے دعاوی بہت ہی زبر دست لگے اور سب سے پیارا دعویٰ جس کا اثر میں نے اپنے اوپر محسوس کیا وہ یہ تھا کہ مستقبل قریب میں اسلام پوری دنیا میں پھیل جائے گا۔

پھر یہ لکھتے ہیں کہ جماعت احمدیہ اس بات کا دعویٰ کرتی ہے کہ وہی جماعت ہے اور اس کے علاوہ اور کوئی ایسی جماعت نہیں جسے اس زمانے میں ایک روحانی انقلاب لانے کی ذمہ داری دی گئی ہو۔ (یہ انہوں نے رشینز (Russians) کے لئے کتاب لکھی ہے اُس میں لکھا ہے) اور یہی جماعت ہے جو پوری دنیا کو اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا قائل کرے گی۔ انشاء اللہ۔ یہ جماعت دعویٰ کرتی ہے کہ اُسے بنانے والا وہ مسیح ہے جو پوری دنیا کے لئے مسیح موعود ہو کر آیا ہے۔ یہ جماعت پوری دنیا کے ساتھ مقابلہ کر رہی ہے۔ دنیا کی مختلف اور طاقتور حکومتوں کو چیلنج دیتی ہے۔ اس چھوٹی سی جماعت نے جو چیلنج دئیے ہیں وہ صرف اسلام کی اُس تفسیر کے مطابق ہی نہیں دئیے جو اوائلِ زمانہ میں پائی جاتی تھی بلکہ دنیا کے ہر مذہب کو جس میں عیسائیت بھی شامل ہے، روحانی میدان میں کھلے چیلنج دے رکھے ہیں۔ پھر اپنی ایک خواب کا ذکر اپنی اس کتاب میں کرتے ہیں کہ خواب میں مَیں نے دیکھا کہ میں کازان کی مسجد مرجان کی دوسری منزل پر نماز پڑھ رہا ہوں۔ اس جگہ بہت سے لوگ ہیں جو سنتیں ادا کر رہے ہیں اور اُن کے آگے باجماعت نماز کے لئے صفیں باندھی جا رہی ہیں۔ اُس وقت مَیں دیکھتا ہوں کہ باقی سارے لوگ تو محراب کی طرف رُخ کئے ہوئے ہیں، یعنی اُس طرف جس طرف اُن کو رُخ کرنا چاہئے لیکن میں نے ایک کھڑکی کی طرف رُخ کیا ہوا ہے جس میں سے میرے اوپر سورج کی روشنی پڑ رہی ہے۔ میں اپنے آپ سے یہ سوال کرتا ہوں کہ میرا رُخ اس طرف کیوں نہیں جس طرف باقی سب دیکھ رہے ہیں اور پھر خواب میں ہی کہتا ہوں کہ ہاں ! میں تو سفر میں ہوں اور اسلام کی تعلیم کے مطابق مسافر سفر میں نماز پڑھتے ہوئے اُسی طرف دیکھتا ہے جس طرف وہ سفر کر رہا ہوتا ہے۔ یعنی اس موقع پر وہاں دیکھنا میرے لئے صحیح تھا جہاں سے روشنی آ رہی تھی۔ پھر خواب کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ نماز باجماعت کے لئے تکبیر کہی جاتی ہے اور میں باقی تمام لوگوں کے ساتھ صف میں کھڑا ہو جاتا ہوں۔ پھر یہ نظارہ بدلتا ہے۔ اچانک میں کیا دیکھتا ہوں کہ میں تو بالکل برہنہ ہوں اور صرف میرا سر ڈھکا ہوا ہے لیکن وہاں اتنے لوگوں کی موجودگی کے باوجود مجھے کوئی شرم محسوس نہیں ہو رہی۔ اس کے علاوہ مسجد کاماحول بھی غیر معمولی تھا اور اوپر کی طرف گیلری میں تاتاری خواتین سفید رنگ کی چادریں لئے کھڑی تھیں۔ مجھے ان تمام لوگوں کے سامنے اپنی اس برہنہ حالت پر بالکل شرم محسوس نہیں ہو رہی۔ جیسا کہ ایک نوزائیدہ بچہ ہوتا ہے۔ میرے ذہن میں یہ بات بھی آئی کہ میں اللہ تعالیٰ کے سامنے کس طرح اس برہنہ حالت میں کھڑا ہوں۔ کہتے ہیں مَیں نے یہ عجیب و غریب خواب حضرت خلیفۃ المسیح الرابع کو سنائی تو مجھے جواب ملا کہ کوئی انسان بھی امیدنہیں کر سکتا کہ وہ روحانی طور پر دوبارہ نئی زندگی پائے اور خدائے واحد کی طرف اپنا سفر شروع کرے جبتک کہ وہ اپنے پہلے کپڑے نہ اتارے اور اللہ تعالیٰ کے حضور ایک مفلسی کی اور برہنہ حالت میں نہ کھڑا ہو۔ لکھتے ہیں کہ پس اس خواب سے مجھے معلوم ہو گیا کہ اب میرے اندر کوئی وہم نہیں ہے۔ اس دفعہ مجھ پر ایک اور حقیقت کھلی کہ صرف روحانی طور پر دوبارہ پیدائش ہی ضروری نہیں بلکہ پچھلے تمام گناہوں سے پاک ہوتے ہوئے جن سے صرف اللہ تعالیٰ ہی پاک کر سکتا ہے ایک نئی زندگی کا آغاز کرنا بھی بہت اہم ہے۔ پھر کہتے ہیں کہ جب سے میں نے اس راستے پر چلنے کا فیصلہ کیا ہے اور اپنی جماعت احمدیہ کے ساتھ چل رہا ہوں اور تمہیں اور باقی تمام لوگوں کو بھی اس کی طرف بلاتا ہوں (یہ تبلیغ کر رہے ہیں اپنے رشین لوگوں کو) کہ میری بہت سی پوشیدہ خواہشات پوری ہوئیں اور میری زندگی اس طرح کے غیر معمولی واقعات سے بھری پڑی ہے جنہیں اتفاقات کا نام دیا جاتا ہے۔ پھر اپنی اسی کتاب میں اپنے بعض واقعات کا ذکر کیا ہے۔

راویل صاحب نے بعض جماعتی کتب کا خود رشین میں ترجمہ کیا اور بعض کتب کے تراجم کی چیکنگ اور اصلاح کا کام کیا۔ جو کتب انہوں نے ترجمہ کی ہیں اُن میں ’’دعوۃ الامیر‘‘ ہے، ’’مذہب کے نام پر خون‘‘ ہے۔ ’’سٹوریز فرام ارلی اسلام‘‘ (Stories from early Islam) ہے اور ’’مسلم فیسٹیولز‘‘ (Muslim Festivals) ہے۔ ’’ہولی مسلمز‘‘ (Holy Muslims) ہے۔ ’’اسلام اور عصرِ حاضر کے مسائل‘‘ ہیں۔ ’’ہولی پرافٹ کائنڈنس ٹو چلڈرن‘‘ (Holy Prophet’s kindness to children) اور دیگر چھوٹے بچوں کے لئے کتابچے اور پمفلٹ شامل ہیں۔ اسی طرح جن کتابوں کی انہوں نے چیکنگ کی ہے اُن میں ’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘، ’’مسیح ہندوستان میں‘‘، ’’ہماری تعلیم‘‘، ’’دیباچہ تفسیر القران‘‘، ’’اسلام کا اقتصادی نظام‘‘، ’’اسلام میں عورت کا مقام‘‘ اور ’’لائف آف محمدؐ‘‘ شامل ہیں۔ پھر اسی طرح میرے پِیس (Peace) کانفرنس میں یا مختلف جگہوں پر جو مختلف خطابات تھے، اُن کا ترجمہ انہوں نے کیا جو خاص طور پر سمجھتے تھے کہ ہمارے رشین لوگوں کے لئے بھی بہت ضروری ہیں۔ لیکن بہر حال سب سے اہم کام جو اِن کا ہے وہ قرآنِ کریم کا ترجمہ ہے جیسا کہ میں بتا چکا ہوں۔ بی بی سی یا مختلف ویب سائٹس نے راویل صاحب کی وفات کے بعد ان کو خراجِ تحسین پیش کیا ہے۔ ایک مضمون بی بی سی ڈاٹ رشین (BBC.Russian) والوں نے لکھا ہے۔ مضمون لکھنے والے کا نام ہے آندرے آستلسکی۔ اُن کی خصوصیات لکھی ہیں کہ بڑا وقت پر کام کرتے تھے۔ کبھی لیٹ نہیں ہوئے تھے۔ ہمارے لئے ایک نمونہ ہوتے تھے اور سچے مسلمان تھے بلکہ مذہبی عالم تھے جیسا پہلے ذکر ہو چکا ہے۔ بی بی سی والوں نے کل رات آدھے گھنٹے کا پروگرام صرف آپ کے بارے میں نشر کیا جس میں آپ کی آواز سنائی گئی، باتیں سنائی گئیں۔ اس میں ڈاکٹر عبدالسلام کا بھی ذکر ہوا اور یہ بھی عبدالسلام صاحب کے بارے میں بتایا کہ وہ احمدی مسلمان ہیں اور آپ نے قرآن کی وجہ سے نوبل انعام حاصل کیا۔ یہ بھی باتیں انہوں نے وہاں کیں۔ بی بی سی والوں نے کہا کہ پورے روس کا مصنف ہے نہ کہ تاتارستان کا۔ تاتارستان کے نیشنل ٹی وی نے بھی آپ کی وفات کی خبر دی اور اس میں آپ کی حبّ الوطنی کا ذکر کیا۔ آپ قازان اور تاتار قوم سے بہت زیادہ محبت کرتے تھے۔ اس کا ٹی وی والوں نے بھی ذکر کیا اور انٹر نیٹ پر بھی اور ویب سائٹ پر بھی یہ لکھا۔ آپ کے بارے میں انٹر نیٹ میں لکھا ہوا ہے کہ وہ احمدی مسلمان ہے اور آپ کے بارے میں اس یوکرائن ویب سائٹ میں، (http: //new.tatari-kiev.com/content/view/240/54) آپ کا انٹرویو شائع ہوا ہے جس میں آپ نے احمدیت سے وابستگی کا کھلے طور پر ذکر کیا ہے جس میں ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں کہ دنیا کا میرا سفر آسٹریلیا سے شروع ہوا جب مجھے وہاں سے عالمگیر جماعت احمدیہ نے لندن بلایا۔ یہ جماعت تجدیدِ اسلام کے لئے بنائی گئی ہے۔ ان کا ماٹو ’’محبت سب کے لئے، نفرت کسی سے نہیں‘‘ میرے مَن کے مطابق تھا اور ان میں کوئی ایسا کام نہ دیکھا جو مخالفِ اسلام کہا جا سکتا ہو۔ کہا جا سکتا ہے کہ حقیقی اسلام احمدیت ہی ہے اور اسلام صرف مولویوں کے لئے نہیں بلکہ پوری انسانیت کے لئے ہے جو اسے اپنانے کی خاطر متلاشی رہتے ہیں اور اپنے ایمان سے محبت کرتے ہیں۔ لکھتے ہیں کہ جب مجھے اپنا راستہ مل گیا اور اسلام کی بنیادی تعلیم اور یہاں رہنے اور ترجموں کے دوران انگلش زبان بھی سیکھنے کا موقع ملا تو اس کے بعد جبکہ میں عام زندگی سے کٹ گیا، اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ مجھے ہر طرف سے کام کرنے کے لئے دعوت نامے آنے شروع ہو گئے۔ پہلے کام نہیں ملتا تھا۔ احمدیت قبول کرنے کے بعد اور ترجموں کے بعد ایسی برکت پڑی کہ ہر طرف سے دعوت نامے آنے شروع ہو گئے اور مجھے روس میں کئی بار اسلامی کانفرنس میں بھی بلایا گیا۔

ایک سوال پر کہ کیا آپ کا کوئی استاد ہے؟ آپ جواب میں فرماتے ہیں کہ والدین کے بعد میرے استاد جماعت احمدیہ کے خلیفہ ہیں۔ ایسا استاد مجھے بہت لیٹ ملا ہے۔ کاش کہ بیس سال قبل مجھے ایسا استاد مل جاتا تو مَیں بہت کچھ کر لیتا۔

راویل صاحب اگرچہ بہت سی خوبیوں اور صفات کے مالک تھے لیکن ان کی کچھ خوبیاں جو ان کو دوسروں سے ممتاز کرتی ہیں وہ یہ تھیں کہ وہ ایک نہایت عاجز اور منکسر المزاج انسان تھے، جن کو خلافت سے محبت اور عشق تھا۔ خلیفۂ وقت کے ساتھ ایک مضبوط روحانی رشتہ تھا جس کے سامنے اُن کی نظر میں کسی دوسری چیز کی کوئی وقعت نہیں تھی۔

حال ہی میں پیش آنے والے ایک واقعہ کا ذکر کر دیتا ہوں۔ گزشتہ سال دسمبر کے آخر میں میرے ساتھ اُن کی میٹنگ تھی تو خالد صاحب کہتے ہیں کہ خاکسار اور راویل صاحب آپ کے دفتر میں ملاقات کے لئے حاضر ہوئے تو راویل صاحب نے یہ تجویز پیش کی (مجھ سے انہوں نے پوچھا) کہ اگر اجازت دیں تو رشین زبان میں ایک پوری کتاب تیار کی جائے جس میں جماعت کا مکمل تعارف اور اس کی تاریخ کا ذکر ہو۔ نیز اس میں اُن اعتراضات کی وضاحت کی جائے جو عامۃ المسلمین کی طرف سے وقتاً فوقتاً اُٹھائے جاتے ہیں کیونکہ ان کو مولویوں نے جماعت کے بارے میں غلط معلومات دی ہیں جن کی وجہ سے رشیا میں آئے دن ایسے اعتراضات مختلف ویب سائٹس پر نظر آتے رہتے ہیں۔ تو میں نے اُن کو کہا کہ ٹھیک ہے۔ پھر کتاب لکھیں۔ لیکن خاص طور پر ایک ایک کر کے ان اعتراضات کے جوابات چھوٹے چھوٹے مضامین کی شکل میں تیار کریں اور اُن کو شائع کریں اور پھر ویب سائٹس پر بھیجیں۔ یہ سن کے راویل صاحب نے فوراً کہا جی حضور! خالد صاحب کہتے ہیں کہ میٹنگ کے بعد ہم باہر نکلے تو راویل صاحب کہنے لگے کہ اتنے دنوں سے میں سوچ رہا تھا کہ اس کام کو شروع کہاں سے کیا جائے۔ آج حضور نے میری مشکل کو آسان کر دیا اور اب میرے ذہن میں سارا نقشہ آ گیا ہے کہ اس کتاب کو ان مضامین کی شکل میں کیسے شائع کرنا ہے اور یہ صرف خلافت کی برکت سے ممکن ہوا اور کہنے لگے کہ یہ کام تو میں آج سے ہی شروع کرنے جا رہا ہوں۔ اس کے علاوہ رشین ویب سائٹس کی تیاری کی تجویز تھی، اُس کو بھی جب میں نے کہا کہ جلدی جائزہ لے کر رپورٹ دیں اور کون بنائے گا اور کس طرح کام ہو گا اور اس کو اَپ لوڈ کون کرے گا؟ اَپ ڈیٹ کون کرتا رہے گا؟ کیا طریقہ ہو گا؟ تو راویل صاحب نے اس سلسلہ میں نسیم رحمت اللہ صاحب سے رابطہ کیا۔ پھر جرمنی کے ملک ثمر امتیاز صاحب ہیں اُن سے رابطہ کیا جن کے ذریعے سے پھر یہ کام شروع ہو گیا تھا۔ لیکن اس پر ابھی کام ہو ہی رہا تھا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اُن کو بلاوا آ گیا۔ بہر حال انہوں نے فوری طور پر جب یہ سنا کہ ویب سائٹ شروع کرنی ہے، کام شروع کرنا ہے تو اُس پر عمل کرنا شروع کر دیا۔

خالد صاحب ہی یہ لکھتے ہیں کہ راویل صاحب کی ایک خوبی یہ بھی تھی کہ وقت ضائع کئے بغیر کام کرتے رہتے تھے۔ جو لوگ اُن کو قریب سے جانتے ہیں اور اُن کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا ہو، وہ اس بات کی گواہی ضرور دیں گے کہ اُن کو ہمیشہ ہر کام میں بہت جلدی ہوتی تھی جیسے اُن کے پاس بہت کم وقت ہو۔ اور یہ میں نے بھی دیکھا ہے۔ بڑی جلدی جلدی ہر کام نمٹانے کی کوشش کرتے تھے اور اس کم وقت میں ہی انہوں نے ہزاروں کام ختم کرنے ہیں۔ کام کرتے ہوئے کئی بار اِن کو کہنا بھی پڑتا تھا۔ خدا کا واسطہ ہے ذرا رُک جائیں۔ تھوڑا سا وقفہ کر لیں تو ہنس کر کہتے تھے کہ کیا تم لوگ تھک گئے ہو؟ میں تو بالکل نہیں تھکا۔ کام کے دوران اگر کھانے کا وقت آ جاتا تو کھانا جلد سے جلد ختم کرنے کی کوشش کرتے تا کہ دوبارہ کام کو جاری رکھا جا سکے۔ ہمیشہ رشیا اور دیگر ریاستوں میں جماعت کی ترقی کی فکر رہتی تھی۔ وہ جب بھی لندن سے ماسکو تشریف لاتے تو ہمیشہ مختلف پروگرام بناتے اور تجاویز پیش کرتے کہ ہم جب تک رشیا میں یہ یہ امور مدّنظر نہ رکھیں یا ان طریقوں سے لوگوں کی توجہ اپنی طرف مبذول نہ کریں تو جلد لوگوں تک احمدیت کا پیغام نہ پہنچ سکے گا۔

ماسکو اور قازان کے مشن ہاؤسز باقاعدہ ایک الگ گھر یا عمارت کی شکل میں نہیں ہیں بلکہ فلیٹس میں ہیں۔ اس لئے اکثر کہتے تھے کہ لوگ جماعتی سینٹر کا تصور کرتے ہیں تو ان کے ذہن میں کوئی بڑی کشادہ بلڈنگ آتی ہے۔ ہمیں بھی چاہئے کہ جماعت کی ترقی کے لئے بجائے ان فلیٹس کے اب بڑی بڑی بلڈنگ خریدیں، اور جب بھی کوئی تجویز لے کر یہ میرے پاس آتے تھے تو میں نے دیکھا ہے کہ اگر اُس میں اخراجات زیادہ ہوں تو بعض دفعہ اس وجہ سے یا اور وجوہات سے اگر مَیں رَدّ کر دیا کرتا تھا تو بڑے انشراحِ صدر کے ساتھ فوراً بات مان لیا کرتے تھے اور کبھی بھی اُن کے چہرے پر میں نے کسی طرح بھی انقباض نہیں دیکھا۔ اور پھر یہ نہیں ہے کہ اگر کوئی تجویز رَد کر دی ہے تو مایوس ہو کے بیٹھ گئے۔ اس کے بعد پھر فوراً متبادل تجویز لے کے آتے تھے جو کم خرچ ہوتی تھی یا کسی اور طرز پر اُس کام کے کرنے کا طریق ہوتا تھا۔ غرض فکر یہ تھی کہ کسی نہ کسی طرح جلد سے جلد احمدیت کا پیغام پورے روس میں پہنچ جائے۔

ہمارے ایک مبلغ حافظ سعید الرحمن صاحب لکھتے ہیں کہ راویل صاحب کو احمدیت قبول کئے ہوئے صرف بیس بائیس سال کا ہی عرصہ گزرا تھا لیکن خلافتِ احمدیہ سے ان کا عشق و محبت اور مقامِ خلافت کا ادراک دیکھ کر ہمیشہ لگتا تھا جیسے وہ نسل در نسل احمدی چلے آتے ہیں۔ بعض باتیں اُن کی ایسی تھیں جو بہت سے احمدیوں کے لئے بھی ایک سبق ہیں۔ کہتے ہیں کہ رشیا میں جماعت کی ترقی اور فروغ کے لئے وہ ہمیشہ سے بہت درد اور جوش و جذبہ رکھتے تھے۔ رشیا میں تبلیغ کے کام کو زیادہ پھیلانے اور تیز کرنے کے لئے وہ خلافتِ رابعہ اور خلافتِ خامسہ کے دور میں خلفائے وقت کے سامنے اپنی تجاویز پیش کرتے رہتے تھے لیکن اگر کبھی خلفائے وقت اُن کی کسی تجویز کو کسی وجہ سے مناسب نہ سمجھتے یا وہی کام کسی اور رنگ میں کرنے کا کہتے تو کبھی بھی کسی قسم کا مَلال یا کوئی تبصرہ نہ کرتے تھے بلکہ کہا کرتے تھے کہ اگر خلیفۂ وقت نے کسی معاملے میں کوئی واضح ہدایت دے دی ہے تو اس بارے میں مزید رائے زنی کرنا میرے نزدیک بے ادبی اور گناہ ہے۔ اور جس معاملے کی بابت خلیفۃ المسیح نے ہدایت عطا کر دی پھر اُس کے متعلق بالکل خاموش ہو جایا کرتے تھے۔ اُن کی یہ چیز مقامِ خلافت کے ادراک کے حوالے سے واقعی بہت سے پرانے احمدیوں اور نو مبائعین کے لئے ایک بہترین نمونہ ہے۔

ہمارے ایک مخلص روسی احمدی بزرگ مکرم اور ال شریپوو صاحب، راویل صاحب کی وفات پر تعزیت کرتے ہوئے خط لکھتے ہیں کہ راویل صاحب بہت عظیم خیالات کے مالک تھے اور انہوں نے بہت زیادہ تخلیقی کارنامے سرانجام دئیے ہیں۔ وہ محنت کرنے، اپنی قوم اور مذہبِ اسلام کی حکمت و دانش مندی سے خدمت کرنے کو اپنا ایمان سمجھتے تھے۔ اسی لئے انہوں نے مسلمانوں کی اصلاح پسند جماعت، جماعت احمدیہ کو چنا اور اس میں شامل ہوئے۔

پھر قازقستان سے ہمارے ایک معلم روفات توکاموف صاحب نے تعزیت کے خط میں لکھا کہ راویل صاحب سے پہلا تعارف جماعتی کتب کے ذریعہ ہوا جو انہوں نے رشین زبان میں ترجمہ کی تھیں۔ راویل صاحب بہت اچھے اور شریف آدمی تھے۔ ہم نے سنا ہے کہ اپنے آپریشن سے پہلے انہوں نے کہا تھا کہ آپریشن کے بعد مجھے جینے کا موقع ملا تو میں اپنی زندگی وقف کر دوں گا۔ مکرم راویل صاحب انتہائی مخلص اور اپنے قول کے پکے تھے۔ ایک دفعہ جب وہ ایم ٹی اے کی ٹیم کے ساتھ لندن جا رہے تھے تو یہ کہتے ہیں میں نے اُنہیں حضور کو (یعنی مجھے) دعا کے لئے کہنے کی درخواست کی تو وہاں پہنچ کے انہوں نے باقاعدہ خط لکھا کہ میں نے تمہاری دعا کی درخواست پہنچا دی ہے۔ اکثر اس موضوع پر بات چیت کرتے تھے کہ وسطی ایشیا کے ممالک میں احمدیت کا پیغام تیزی کے ساتھ کس طرح پہنچایا جا سکتا ہے؟

پھر یہی معلم صاحب لکھتے ہیں کہ ان کی کتابیں پڑھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ وہ ہمیشہ کوشش کرتے ہیں کہ کسی طرح جلد احمدیت کا پیغام اپنی قوم تک اور ان تمام لوگوں تک پہنچا دیں جو رشین زبان بولنے اور سمجھنے والے ہیں۔ پھر لکھتے ہیں کہ راویل صاحب جب آپ کا خطبہ اپنی آواز میں ایم ٹی اے پر پڑھتے تھے (ایم ٹی اے پر ترجمہ جو ہوتا تھا) تو محسوس ہوتا تھا کہ وہ درد کے ساتھ اور خوبصورت طریقے سے اس لئے پڑھ رہے ہیں کہ لوگ ہمارے امامِ وقت کی آواز سُن سکیں۔ رُستم حماد ولی صاحب جو ماسکو کے صدر جماعت ہیں، اپنے تعزیت کے خط میں لکھتے ہیں کہ مکرم راویل صاحب بہت وسیع العلم شخصیت تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اُن کو بیحد علمی صلاحیتوں سے نوازا تھا جس سے انہوں نے کھلے دل سے لوگوں کو فائدہ پہنچایا۔ جماعت احمدیہ مسلمہ کو قبول کرنے کے بعد انہوں نے کامل طور پر اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی عبودیت، جماعت اور لوگوں کی خدمت کے لئے وقف کر دیا تھا جس کے بعد اُن کی شاندار انسانی خصوصیات مثلاً عاجزی، انسانیت سے پیار، نرمی اور شفقت، خلوص، عفو و درگزر، ہمیشہ خدا سے ہی اپنے حاجات طلب کرنا، ہمیشہ سب کی مدد کے لئے کوشاں رہنا اور اپنی تمام بہترین صلاحیتوں میں دوسروں کو شریک کرنا ایک نمایاں شان کے ساتھ ابھریں۔ ہمارے ایک مبلغ بشارت صاحب ہیں، وہ لکھتے ہیں کہ وہ لمحہ بھی مجھے اچھی طرح یاد ہے جب آپ کا خطبہ پہلی دفعہ رشین زبان میں نشر ہوا تھا۔ دوسال پہلے یہاں سے جانا شروع ہوا تھا، تو میرے ساتھ ساتھ ایک مقامی بزرگ مکرم تکتوربائیو ساگن بیک صاحب (Tokotorbaev Saghinbek) بھی وہ خطبہ دیکھ رہے تھے، جب خطبہ ختم ہوا تو سب کی آنکھیں خوشی اور مسرت سے پُر نم تھیں اور سب نے ایک دوسرے کو گلے مل کر مبارک باد دی۔ یہ خطبہ بھی مکرم راویل صاحب کی آواز میں ریکارڈ ہوا تھا اور پھر اُن کی آواز میں خطبات کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے سیدنا مسیح پاک کے خلیفہ کی آواز کو رشین زبان بولنے والے بھائی بہنوں کو سب سے پہلے پہنچانے کا اعزاز بھی اُن کو ہی نصیب ہوا۔ اُن کو خلیفہ وقت کے دست و بازو بننے کی توفیق ملی۔ پھر لکھتے ہیں کہ بعد میں آئے مگر خلافت کی برکت سے خلافت کے سایہ عاطفت میں ہم سے آگے نکل گئے۔ اللہ تعالیٰ اُن سے پیارو محبت کا سلوک فرمائے۔

اللہ تعالیٰ ان جیسے بیشمار سلطانِ نصیر عطا فرمائے۔ ابھی نمازِ جمعہ کے بعد انشاء اللہ ان کا جنازہ حاضر ہے۔ مَیں جنازہ پڑھاؤں گا۔ جنازہ باہر آئے گا۔ مَیں باہر جا کے جنازہ پڑھاؤں گا۔ لوگ یہیں مسجد میں ہی صفیں درست کر لیں گے۔

اس کے علاوہ بھی دو تین غائب جنازے ہیں۔ ایک تو مکرم صاحبزادہ داؤد احمد صاحب ابن مکرم صاحبزادہ محمد شفیع صاحب سرائے نورنگ ضلع بنوں کا ہے۔ صاحبزادہ داؤد احمد صاحب شہید کا تعلق ننھیال اور ددھیال دونوں کی طرف سے حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید کے ساتھ ہے۔ یہ جو صاحبزادہ داؤد احمد صاحب ہیں ان کو 23؍جنوری کو صبح پونے دس بجے نورنگ میں شہید کر دیا گیا۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔ شہید مرحوم کی والدہ محترمہ صاحبزادہ عبد السلام صاحب کی بیٹی تھیں جو حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید کے بیٹے تھے۔ یوں آپ حضرت صاحبزادہ صاحب کے پڑنواسے تھے۔ اسی طرح ددھیال کی طرف سے مکرم داؤد صاحب کے دادا مکرم صاحبزادہ عبدالرب صاحب حضرت صاحبزادہ صاحب کی بہن کے بیٹے تھے جن کی شادی میر اکبر صاحب سے ہوئی اور بعد میں یہ لوگ لاہوری جماعت میں شامل ہو گئے تھے۔ صاحبزادہ داؤد احمد جو شہید ہوئے ہیں ان کا خاندان صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید کی شہادت کے بعد افغانستان سے شفٹ ہو کر سرائے نورنگ میں آباد ہو گیا تھا اور آپ کی پیدائش ان کے ہاں 1955ء میں ہوئی۔ جیسا کہ میں نے کہا کہ ان کو 23؍ جنوری کو شہید کر دیا گیا۔ صبح کے وقت تقریباً پونے دس بجے کسی کام کی غرض سے بازار کے لئے نکلے تو سرائے نورنگ میں دو نامعلوم موٹر سائیکل سوار آئے اور آپ پر فائرنگ کر کے شہید کر دیا اور فرار ہو گئے۔ ان کی شہادت سے قبل مؤرخہ سترہ جنوری2012ء بروز منگل کو سرائے نورنگ میں ختمِ نبوت والوں نے بہت بڑا جلسہ منعقد کیا تھا جس میں انہوں نے جماعت کے خلاف کافی زیادہ گالی گلوچ کی اور سامعین کو اشتعال دلایا۔ یہ شہادت اسی کا شاخسانہ لگتا ہے۔ شہید مرحوم کا ددھیال جیسا کہ میں نے کہا پیغامی احمدی ہو گیا تھا۔ خلافت سے ہٹ گئے تھے، غیر مبائع تھے۔ مرحوم نے آٹھ سال پہلے بیعت کی اور جماعت مبائعین میں شامل ہوئے اور اپنے گھر میں اکیلے احمدی تھے جبکہ دیگر تمام گھر والے لاہوری جماعت سے تعلق رکھتے ہیں۔ نہایت نیک اور تہجد گزار، پرہیزگار، زکوٰۃ اور چندوں میں باقاعدہ تھے۔ نیک اور اچھی شہرت کے حامل تھے۔ جماعتی تعاون، لین دین اور عام اخلاق بہت ہی اچھا تھا۔ کسی سے دشمنی کا اندازہ نہیں تھا۔ ان کو 2004ء، 2005ء میں دل کا عارضہ ہوا، تو بائی پاس آپریشن کروایا۔ اُس کے باوجود روزے باقاعدہ رکھتے تھے۔ اپنی نوکری سے انہوں نے ریٹائرمنٹ لے لی جس پر آپ کے بعض ساتھیوں نے آپ سے کہا کہ آپ کی پنشن بنتی ہے۔ آپ پنشن کے لئے اپلائی کریں۔ لیکن آپ نے اُنہیں کہا کہ نوکری کے دوران مجھ سے کئی کوتاہیاں اور خامیاں رہ گئی ہوں گی۔ اس لئے میں اُن کوتاہیوں اور خامیوں کے بدلے یہ پنشن گورنمنٹ کو دیتا ہوں تا کہ گورنمنٹ کا میری طرف کوئی قرض نہ رہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد آپ اپنی زمینوں کی دیکھ بھال کرتے تھے اور سرائے نورنگ کی ایک مارکیٹ میں موجود اپنی دکانوں کے کرایہ پر گزر بسر ہوتا تھا۔ شہید مرحوم کے لواحقین میں دو بھائیوں کے علاوہ ان کی اہلیہ امۃ الحفیظ صاحبہ ہیں۔ آپ کی اولاد کوئی نہیں تھی۔

احمدیوں کو وقتاً فوقتاً جیسا کہ ہم سنتے رہتے ہیں پاکستان میں شہید کیا جا رہا ہے لیکن کیا یہ جو شہادتیں ہیں ہمارے حوصلے پست کر رہی ہیں؟ کئی مرتبہ میں نے بیان کیا ہے کہ لاہورکی مسجد میں جو واقعہ ہوا تھا۔ چوراسی (84) شہید ہوئے تھے تو ان لوگوں کا خیال ہو گا کہ شاید جماعت کے حوصلے پست ہوں گے۔ لیکن مردوں اور عورتوں اور بچوں کے مجھے خط آئے کہ ہمارے حوصلے پہلے سے بڑھے ہیں اور قربانیاں دینے کے لئے یہ درخواستیں تھیں کہ دعا کریں ہم بھی قربانی دینے والوں میں شامل ہوں اور صرف باتیں ہی نہیں ہیں بلکہ عملاً ہر جگہ سے اظہار کیا ہے۔ گزشتہ ماہ لیّہ میں بھی ایک خاتون شہید ہوئی ہیں اُن کا میں نے جنازہ پڑھایا تھا اور یہ ایسی شہادت تھی کہ لوگوں نے مشن ہاؤس پر حملہ کیا، اور وہاں کی جماعت والے جب دفاع کے لئے آگے آئے ہیں تو مردوں کے ساتھ یہ عورتیں بھی شامل تھیں اور یہ ایک جوان عورت جس کے چھوٹے چھوٹے بچے تھے اس موقع پر جب دشمنوں نے حملہ کیا تو یہ ہلاک ہو گئیں۔ کسی قسم کا کوئی خوف اور کوئی ڈر نہیں تھا اور بڑی خوشی سے مقابلہ کرتے ہوئے اس خاتون نے بھی جامِ شہادت نوش کیا۔ پس یہ وہ احمدی عورتیں ہیں اور مرد ہیں اور بچے ہیں جو قربانیوں سے کبھی نہیں ڈرتے۔ پس آج شہید ہونے والے یہ جو ہمارے صاحبزادہ داؤد صاحب ہیں، ان کی شہادت کو بھی اللہ تعالیٰ قبول فرمائے۔ ان کی نیکیوں کو، نیک فطرت کو، قبول کرتے ہوئے ہی اللہ تعالیٰ نے ان کو جماعت مبائعین میں شامل ہونے کی توفیق عطا فرمائی تھی اور پھر یہ بھی توفیق دی کہ انہوں نے شہادت جیسا رُتبہ پایا۔ یہ اُس ایمان کی پختگی اور قربانی کا تسلسل ہے جو جماعت احمدیہ پچھلے ایک سو سال سے زائد عرصے سے دیتی چلی آ رہی ہے۔ اور جس کی ابتداء اس شہید کے، جس کا جنازہ آج ہم پڑھ رہے ہیں، اس کے پڑنانا صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہیدنے اسلام کی نشأۃ ثانیہ میں کی تھی۔ پس آج حضرت صاحبزادہ صاحب کی روح اس بات پر ایک مرتبہ پھر خوش ہو گی کہ اُن کے خون نے سو سال سے زائد عرصہ گزرنے کے بعد بھی اپنے فرض کو نبھایا ہے۔

پاکستان میں احمدیوں کے حالات آجکل بد سے بدتر ہو رہے ہیں، زیادہ سے زیادہ خراب کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس لئے پاکستانی احمدیوں کے لئے بہت دعائیں کریں۔ اللہ تعالیٰ اُن کو ہر لحاظ سے محفوظ رکھے۔ ہر شر سے بچائے اور دشمنوں کی جلد پکڑ کے سامان پیدا فرمائے۔

دوسرا جنازہ جو ہے ہمارے ایک مخلص دوست مکرم مرزا نصیر احمد صاحب ایڈووکیٹ لاہور کا ہے جو 25؍ دسمبر کو فوت ہوئے تھے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔ انہوں نے 1948ء میں بیعت کی تھی۔ پھر فرقان بٹالین میں شامل ہوئے۔ 1974ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے جماعت کی طرف سے بعض وکلاء کی جو ٹیم بنائی تھی آپ اس کے ممبر تھے اور سپریم کورٹ میں وکیل کی حیثیت سے جماعت کی خدمت کی توفیق ملی اور بحیثیت صحافی ہفت روزہ لاہور میں اپنے کالموں کے ذریعے بھی جماعت کی خدمت سرانجام دیتے رہے۔ متعدد جماعتی کیسز میں خدمت کے علاوہ آپ کو 1984ء کے ظالمانہ آرڈیننس کے خلاف جماعت کی طرف سے شرعی عدالت میں پیش ہونے والے پینل میں بھی شامل ہونے کا موقع ملا۔ لاہور میں مختلف جماعتی خدمات بھی آپ کی تھیں۔ سیکرٹری رشتہ ناطہ تھے۔ ممبر مجلسِ افتاء تھے۔ قاضی جماعت لاہور تھے۔ پھر اسی طرح ہیومن رائٹس کمیشن کی حیثیت سے بھی خدمت کی توفیق ملی۔ 28؍ مئی 2010ء کو جو واقعہ ہوا ہے اُس دن بھی مسجد دارالذکر میں تھے اور ان کا بیٹا بھی ان کے ساتھ ہی تھا۔ ان کا بیٹا وہاں فائرنگ سے زخمی ہوا۔ آپ بڑی ہمت سے آپ وہاں بیٹھے رہے اور اُس کو بھی ہمت دلاتے رہے۔ دعا گو تھے۔ بڑے قناعت پسند تھے۔ صابر شاکر، ملنسار، مخلص انسان تھے۔ خلافتِ احمدیہ کی خاطر ہر قربانی کے لئے ہمیشہ مستعد رہتے تھے اور ہمیشہ ماحول کے مطابق گفتگو کرتے تھے۔ حسّ مزاح بھی اُن میں کافی تھی۔ یہ موصی بھی تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے، مغفرت کا سلوک فرمائے۔

ایک اور جنازہ آسام انڈیا کی رابعہ بیگم صاحبہ کا ہے جو مکرم ماسٹر مشرق علی صاحب کی اہلیہ ہیں۔ 20؍جنوری کو کلکتہ میں ان کی وفات ہوئی ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔ بنگال اور آسام کی صدر لجنہ کی حیثیت سے انہوں نے لمبا عرصہ خدمت کی توفیق پائی ہے۔ اپنے شوہر کے ساتھ سلسلے کے کاموں میں پوری طرح ممد اور معاون رہی ہیں۔ مشرق علی صاحب صوبائی امیر بنگال و آسام ہیں۔ بیمار ہونے کی حالت میں بھی لمبے سفروں میں ساتھ جایا کرتی تھیں۔ بڑی مخلص، نیک، باوفا خاتون تھیں۔ ان کے پسماندگان میں میاں کے علاوہ تین بیٹیاں اور دو بیٹے ہیں۔ ایک ان کے بیٹے عصمت اللہ صاحب ہیں جو جلسے میں بھی نظمیں پڑھتے ہیں۔ ایم ٹی اے میں بھی اُن کی کافی نظمیں ہیں۔ آجکل جاپان میں ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ بھی مغفرت کا سلوک فرمائے۔ درجات بلند فرمائے۔

ان سب کا جنازہ جیسا کہ میں نے کہا، ابھی جمعہ کے بعد ادا ہو گا۔


  • خطبہ کا مکمل متن
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 27؍ جنوری 2012ء شہ سرخیاں

    معروف رشین احمدی مسلمان مکرم راویل بخارایف صاحب کی وفات پر مرحوم کا ذکرخیر اور نماز جنازہ۔

    گو یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر روس میں ایمان لانے والے ابتدائی مٹھی بھر ذرّوں میں سے ایک ذرّہ تھے لیکن اپنے علم و عرفان، اخلاص و وفا، بے نفسی، خلافت سے بے انتہا تعلق، عاجزی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پیغام کو روس میں پہنچانے کی تڑپ کے لحاظ سے ایک روشن ستارہ تھے جس نے بہتوں کی رہنمائی کا کام کیا اور انشاء اللہ تعالیٰ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الہام کے پورا ہونے پر احمدیت روس میں ریت کے ذروں کی طرح پھیلے گی تو تاریخ انشاء اللہ تعالیٰ، راویل بخاری صاحب کی خدمات کوہمیشہ یاد رکھے گی۔ انشاء اللہ

    راویل صاحب اگرچہ بہت سی خوبیوں اور صفات کے مالک تھے لیکن ان کی کچھ خوبیاں جو ان کو دوسروں سے ممتاز کرتی ہیں وہ یہ تھیں کہ وہ ایک نہایت عاجز اور منکسرالمزاج انسان تھے، جن کو خلافت سے محبت اور عشق تھا۔

    راویل صاحب خود بھی ایک بہت اچھے شاعر تھے۔ بہت اچھے ادیب تھے۔ جرنلسٹ تھے۔

    مترجم تھے اور ایک داعی الی اللہ تھے۔ ان کو اللہ تعالیٰ نے بہت سی خوبیوں سے نوازا ہوا تھا۔ ان کے جاننے والوں اور سراہنے والوں کا ایک وسیع طبقہ ہے۔

    مکرم صاحبزادہ داؤد احمد صاحب ابن مکرم صاحبزادہ محمد شفیع صاحب سرائے نورنگ ضلع بنوں کی شہادت، مکرم مرزا نصیر احمد صاحب ایڈووکیٹ لاہور اور مکرمہ رابعہ بیگم صاحبہ اہلیہ مکرم ماسٹر مشرق علی صاحب (انڈیا) کی وفات اور مرحومین کا ذکرخیر اور نماز جنازہ غائب۔

    خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

    فرمودہ مورخہ 27؍جنوری 2012ء بمطابق 27؍صلح 1391 ہجری شمسی،  بمقام مسجد بیت الفتوح۔ مورڈن۔ لندن

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور