اللہ اُن لوگوں کے ساتھ ہے جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں اور وہ جو احسان کرنے والے ہیں
خطبہ جمعہ 3؍ فروری 2012ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَّالَّذِیْنَ ہُمْ مُّحْسِنُونَ (النحل: 129)
اس آیت کا ترجمہ ہے کہ یقینا اللہ اُن لوگوں کے ساتھ ہے جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں اور وہ جو احسان کرنے والے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’قرآنِ شریف میں تمام احکام کی نسبت تقویٰ اور پرہیز گاری کے لئے بڑی تاکید ہے‘‘۔ (ایام الصلح روحانی خزائن جلد 14صفحہ342)
پس یہ تقویٰ ہی وہ بنیادی چیز ہے جو خدا تعالیٰ کا قرب دلاتی ہے۔ اس آیت میں جو میں نے تلاوت کی جیسا کہ سب نے سن لیا اور ترجمہ بھی مَیں نے بیان کر دیا، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا (النحل: 129) یقینا اللہ تعالیٰ اُن لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے جنہوں نے تقویٰ اختیار کیا، پہلی بات یہ بیان کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ اُن لوگوں کے ساتھ ہے جنہوں نے اُن راستوں کو اختیار کیا جو تقویٰ پر لے جانے والے راستے ہیں۔ پس اس بات سے یہ بات بھی واضح ہو گئی کہ دنیا میں دو طرح کے انسان ہیں، ایک وہ جو تقویٰ پر چلنے والے ہیں اور خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے اعمالِ صالحہ بجا لانے والے ہیں اور ہر نیکی یا ہر اچھے عمل کو کرنے کی کوشش کرنے والے ہیں تا کہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کریں، تا کہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہو۔ دوسرے وہ لوگ جو گو بعض اچھی باتیں اور نیک کام کر لیتے ہیں لیکن خدا تعالیٰ اُن کے سامنے نہیں ہوتا، یا وہ ہر کام کرتے وقت اس بات کو نہیں سوچتے کہ خدا تعالیٰ ہر وقت ہماری نگرانی فرما رہا ہے، ہمیں دیکھ رہا ہے۔
اس دوسری قسم میں وہ لوگ بھی ہیں جو خدا تعالیٰ پر یقین رکھتے ہیں یا کم از کم اتنا مانتے ہیں کہ ایک خدا ہے جو زمین و آسمان کا پیداکرنے والا ہے۔ لیکن کوئی کام کرتے ہوئے، کوئی عمل کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی رضا اُن لوگوں کے پیشِ نظر نہیں ہوتی۔ کوئی نیک کام بھی کر رہے ہوں تو یہ مقصدنہیں ہوتا کہ خدا تعالیٰ کو راضی کرنا ہے۔
اور دوسرے وہ جو سرے سے خدا تعالیٰ پر یقین ہی نہیں رکھتے۔ اللہ تعالیٰ کے وجود پر یقین نہیں رکھتے۔ اللہ تعالیٰ کے وجود کے منکر ہیں۔ ان دونوں قسم کے لوگوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مَیں نہیں ہوتا۔ میں اُن لوگوں کے ساتھ ہوتاہوں جو پہلی قسم کے لوگ ہیں جو تقویٰ پر چلنے والے ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی صفتِ ربوبیت تقویٰ پر نہ چلنے والوں کو بھی بعض چیزوں سے، بعض نعمتوں سے اتنا ہی نواز رہی ہوتی ہے جتنا ایک متقی کو لیکن یہ صرف دنیاوی چیزوں میں حصہ ہے۔ مثلاً سورج کی روشنی ہے، ہوا ہے۔ ان چیزوں سے ایک مومن متقی بھی اُتنا ہی فیض پا رہا ہوتا ہے جتنا ایک دہریہ۔ یا دنیاوی چیزیں ہیں مثلاً سائنس میں ترقی سے یا جو نئی دنیاوی تعلیم ہے، تجربات ہیں، نئی ایجادات ہیں، اُن کے لئے دماغ لڑانے کے بعد اُن سے حاصل شدہ نتائج سے ایک دہریہ بھی محنت کا اُتنا ہی پھل لے گا جتنا کہ ایک متقی اور پرہیزگار۔ زمین کی کاشت کرنے میں مثلاً ایک زمیندار کی جو محنت ہے، اس سے ایک دہریہ بھی فائدہ اُٹھاتا ہے اور متقی بھی۔
جو تقویٰ پر نہ چلنے والے ہیں یا دہریہ ہیں، خدا تعالیٰ کو نہ ماننے والے ہیں، ان پر بھی اگر اللہ تعالیٰ کی صفتِ ربوبیت اور رحمانیت کام نہ کر رہی ہو تو ایک لمحہ کے لئے بھی ان کا زندگی گزارنا مشکل ہے اور وہ ایک لمحہ بھی اس دنیاوی زندگی کا نہیں گزارسکتے۔ پس جس انسان کو اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں پیدا کیا اس کے لئے دو راستے رکھے، نیکی کا اور بدی کا۔ لیکن بعض معاملات میں دونوں طرح کے عمل کرنے والوں کو بعض نعمتوں سے مشترکہ طور پر نوازا ہے۔
بہر حال یہاں یہ بات واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر ایک کے لئے اپنا جو قانونِ قدرت ہے وہ ایک رکھتا ہے۔ لیکن یہاں مَیں اس بات کی بھی وضاحت کر دوں کہ اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کا جلوہ دکھانے کے لئے ایک ہی قسم کے حالات میں بعض دفعہ، بعض اوقات مومن متقی کی کوشش کو زیادہ پھل لگاتا ہے۔ مثلاً زمیندارہ میں بظاہر ایک جیسی نظر آنے والی فصل دعاؤں کی وجہ سے زیادہ پیداوار دے جاتی ہے۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب سندھ میں زمینیں آباد کیں تو نگرانی کے لئے شروع شروع میں بعض بزرگوں کو بھی بھیجا۔ اُن میں ایک حضرت مولوی قدرت اللہ صاحب سنوری تھے۔ ایک دفعہ پہلے بھی مَیں بیان کر چکا ہوں کہ ایک دفعہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ دورہ پر تشریف لے گئے۔ کپاس کی فصل دیکھ رہے تھے تو انہوں نے حضرت مولوی صاحب سے پوچھا، یہ صحابی بھی تھے کہ کیا اندازہ ہے، اس میں سے کتنی فصل نکل آئے گی۔ انہوں نے اپنا جو اندازہ بتایا وہ، حضرت مرزا بشیر احمد صاحب وغیرہ جو ساتھ تھے، اُن کے خیال میں یہ غلط تھا۔ تو وہ یا غالباً درد صاحب دونوں باتیں کرنے لگے کہ حضرت مولوی صاحب کچھ زیادہ اندازہ بتا رہے ہیں۔ حضرت مولوی صاحب نے اُن کی باتیں سُن لیں۔ انہوں نے کہا کہ میاں صاحب! جو اندازہ مَیں بتا رہا ہوں انشاء اللہ تعالیٰ کم از کم اتنا ضرور نکلے گا کیونکہ میں نے ان کھیتوں کے چاروں کونوں پر نفل ادا کئے ہوئے ہیں۔ مجھے اس بات پر یقین ہے کہ میرے نفل اس پیداوار کو بڑھائیں گے۔ چنانچہ اُتنی پیداوار نکلی۔ (ماخوذاز سیرت احمد از حضرت قدرت اللہ صاحب سنوری ؓ صفحہ2مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس ربوہ 1962)
تو اللہ تعالیٰ ایک ہی طرح کے موسمی حالات میں، ایک ہی طرح کے فصلوں میں جو اِن پُٹس (Inputs) ڈالے جاتے ہیں، جو کھاد، بیج وغیرہ چیزیں ڈالی جاتی ہیں، اُن کے باوجود دعاؤں کے طفیل اپنے ہونے کا ثبوت دیتا ہے اور پیداوار میں اضافہ کرتا ہے۔
دنیا کے معاملات میں بھی ایک متقی کو اللہ تعالیٰ کی معیت کا ثبوت مل جاتا ہے۔ لیکن اس مادّی دنیا کے علاوہ خدا تعالیٰ پر یقین رکھنے والے، اُس پر کامل ایمان رکھنے والے شخص کی ایک روحانی دنیا بھی ہے جس کے فائدے، جس کی لذات دنیا والوں کو نظر نہیں آتیں اور نہ آ سکتی ہیں۔ ان لوگوں کی سوچ بہت بلند ہوتی ہے جو تقویٰ پر چلنے والے ہیں۔ وہ اس دنیا سے آگے جا کر بھی سوچتے ہیں۔ غیب پر ایمان لاتے ہیں۔ آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔ خدا تعالیٰ کے وعدوں پر کامل ایمان اور یقین ہوتا ہے۔ جب دعا کے لئے ہاتھ اُٹھاتے ہیں تو قبولیت کے نشان دیکھتے ہیں۔ اس زمانے میں خدا تعالیٰ سے سچا تعلق جوڑنے کے یہ طریق اور اسلوب ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے سکھائے۔ بہت سے احمدی ہیں جو اللہ تعالیٰ سے اپنے تعلق کا تجربہ رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے سچے تعلق کی وجہ سے خواب، رؤیا، کشف وغیرہ کی صورت میں اللہ تعالیٰ اُنہیں بتاتا ہے کہ اس طرح ہو گا اور اُس طرح بالکل ویسے ہو جاتا ہے۔ پھر اس معیت کا یہ مطلب بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مرنے کے بعد کی زندگی کے انعامات کے جو وعدے فرمائے ہیں وہ بھی پورے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تقویٰ پر قائم رہے تو اس دنیا کے انعامات بھی حاصل کرو گے اور اخروی زندگی کے بھی۔ پس یہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ متقی اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے جب کوئی عمل کرتا ہے تو دنیا و آخرت کی حسنات اُسے ملتی ہیں۔ جیسا کہ مَیں نے پہلے بتایا کہ اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر اعمالِ صالحہ بجا لانے والے متقی ہیں۔ یہ ایک بہت ضروری چیز ہے کہ ایسے نیک اعمال بجا لانے والے، صالح اعمال بجا لانے والے جو اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر انہیں بجا لاتے ہیں وہی ہیں جو تقویٰ پر چلنے والے ہیں۔ کئی دوسرے لوگ بھی ہیں جو نیکیاں کر جاتے ہیں، نیک عمل کرتے ہیں لیکن خدا تعالیٰ کی خاطر نہیں کرتے۔ اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے کے لئے نہیں کرتے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے متقی کی جو تعریف بیان فرمائی ہے اس کے مطابق ہر بڑے اور چھوٹے گناہ سے بچنا ضروری ہے اور نہ صرف برائیوں سے بچنا ضروری ہے بلکہ نیکیوں میں اور اعلیٰ اخلاق میں ترقی کرنا بھی ضروری ہے اور پھر خدا تعالیٰ سے سچی وفا کا تعلق بھی ضروری ہے۔ یہ چیزیں ہوں گی تو ایک شخص متقی کہلا سکتا ہے۔ اور خدا تعالیٰ سے سچی وفا کیا ہے؟ یہی کہ اُس کی عبادت کا حق ادا کرنے کی کوشش کی جائے اور حتی المقدور خدا تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے کے لئے اپنی تمام تر کوششوں کو بروئے کار لایا جائے اور جب یہ حالت ہو گی تو پھر اللہ تعالیٰ نے اسی آیت میں تقویٰ سے آگے کے قدم کا ذکر فرمایا ہے۔
فرمایا۔ وَالَّذِیْنَ ہُمْ مُّحْسِنُون۔ محسن کا مطلب ہے کسی کو انعام دینا۔ بغیر کسی کی کوشش کے اُس کو نوازنا یا کسی سے اچھا سلوک کرنا۔ ایسے جو نوازنے والے ہوتے ہیں وہ محسن کہلاتے ہیں۔ پھر محسن کا یہ مطلب بھی ہے کہ انسان کا اپنے کام میں کمال درجے کو حاصل کرنا۔ اپنے کام کا اچھا علم حاصل کرنا اور ہر عمل ایسا جو موقع اور محل کے لحاظ سے بہترین ہو۔ گویا محسن دو طرح کے ہیں۔ ایک وہ جو دوسروں کے لئے درد رکھتے ہوئے اُن کی خدمت پر ہر وقت تیار رہتے ہیں۔ قطع نظر اس کے کہ کوئی کس مذہب اور فرقے سے تعلق رکھتا ہے، کون کس قوم کا ہے؟ اُس کی خدمت پر مأمور ہیں، کوشش ہوتی ہے کہ ہم انسانیت کی خدمت کریں۔ اور پھر یہ بھی کہ وقت پڑنے پر دوسرے کے کام آ کر اُس کی خدمت میں اس حد تک بڑھ جائیں کہ جس حد تک آسانیاں پیدا کر سکتے ہیں دوسرے کے لئے کی جائیں۔ پس ہر احمدی کا فرض ہے کہ اس جذبے کے تحت اُسے انسانیت کی خدمت کرنی چاہئے۔ اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت سے احمدی ہیں جو اس جذبے کے تحت خدمت کرتے ہیں، کام کرتے ہیں۔ بیشک وہ محسن تو ہوتے ہیں لیکن احسان جتانے والے نہیں ہوتے۔ محسن وہ نہیں جو احسان کر کے احسان جتائے۔ کیونکہ اگر احسان جتا دیا تو پھر تقویٰ اور اچھے خُلق کا اظہار نہیں ہو گا۔ تقویٰ تبھی ہے جب احسان کر کے پھر احسان جتایا نہ جائے۔
مَیں مثال دیتا ہوں۔ ہمارے انجینئرز ہیں، ڈاکٹر ہیں یا دوسرے شعبوں سے تعلق رکھنے والے نوجوان لڑکے ہیں، جب افریقہ میں والنٹیئرز جاتے ہیں جہاں بہت سارے پروجیکٹ شروع ہیں، وہ اُن میں کام کرنے کے لئے جاتے ہیں۔ مثلاً مقامی محروم لوگوں کو پینے کا پانی مہیا کرنے کے لئے ہینڈ پمپ لگا رہے ہیں۔ بجلی مہیا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اُن کے لئے سکول بنا رہے ہیں تا کہ اُن کے لئے تعلیم کی سہولتیں آسان ہو جائیں۔ صحت کی سہولیات مہیا کرنے کے لئے کلینک اور ہسپتال بنا رہے ہیں تا کہ اُن میں آسانیاں پیدا ہوں، اُن کی تکلیفوں کو دور کیا جائے۔ اور پھر ہمارے ٹیچر اور ڈاکٹر وہاں کئی کئی سال رہ کر خدمات سرانجام دیتے ہیں۔ نامساعد حالات میں وہاں رہتے ہیں۔ بعض ایسی جگہیں بھی ہیں جہاں بجلی نہیں، پانی نہیں، لیکن وہاں جا کر رہتے ہیں، خدمت کے جذبے کے تحت رہتے ہیں، اُن لوگوں میں شمار ہونے کے لئے وہاں جاتے ہیں جن کا شمار محسنین میں ہوتا ہے۔ تو یہ وہ خدمت اور نیک سلوک ہے جو کسی معاوضے کی لالچ میں نہیں ہوتا بلکہ خالصتاً اللہ تعالیٰ کا تقویٰ دل میں رکھتے ہوئے انسانیت کی خدمت کے لئے ہوتا ہے۔
اسی طرح دنیا کے مختلف ممالک میں جو طوفان اور زلزلے وغیرہ آتے ہیں وہاں بھی ہمارے ڈاکٹر اور والنٹیئر جاتے ہیں۔ ہیومینٹی فرسٹ کے تحت خدمت سرانجام دیتے ہیں اور کسی لالچ کے لئے نہیں جاتے بلکہ خالصتاً اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے جاتے ہیں۔ اور بھی بہت سارے لوگ ہیں جو خدمت کر رہے ہوں گے لیکن اُن کے پیشِ نظر اللہ تعالیٰ کی رضا نہیں ہوتی۔ تو جو لوگ خدمت کر رہے ہیں، نیک سلوک کر رہے ہیں، اپنے علم اور عمل سے دوسروں کو فائدہ پہنچا رہے ہیں اور صرف اس لئے کہ خد اتعالیٰ کو راضی کرنا ہے تو یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو متقی بھی ہیں اور محسن بھی ہیں۔ جیسا کہ مَیں پہلے بھی ایک خطبے میں بتا چکا ہوں کہ احمدی انجینئر جو ہیں انہوں نے برکینا فاسو میں ایک ماڈل ولیج بنایا جس میں بجلی پانی کی سہولت ہے۔ پکے فٹ پاتھ، سٹریٹ لائٹس، کمیونٹی سنٹر ہے جو مقامی ضرورت کو پورا کرنے والا ہے، اُس میں جمع ہو کے وہ اپنے فنکشن کرتے ہیں۔ اسی طرح چھوٹے سے گرین ہاؤس ہیں جس میں سبزیاں وغیرہ لگائی جاتی ہیں جو مقامی ضرورت کو پورا کر سکیں۔ اُن کو اِری گیشن (Irrigation) کے لئے پانی مہیا کرنا، اسی طرح ہمارے آدمی ہینڈ پمپ وغیرہ مختلف دیہاتوں میں لگا رہے ہیں۔ جب یہ کام کر رہے ہوتے ہیں اور جب کام مکمل ہو جاتا ہے تو وہاں کے مقامی لوگوں کی جو خوشی ہوتی ہے وہ دیکھنے والی ہوتی ہے۔ جب یہ تصویریں لے کے یہاں آتے ہیں تو احساس ہوتا ہے کہ کتنا بڑا کام ہے۔ جس کو ہم تو معمولی سمجھ رہے تھے لیکن اُن لوگوں کے نزدیک اس کی کتنی اہمیت ہے۔ اُن کے چہروں پر کس طرح خوشی ہے۔ آٹھ دس سال کا بچہ جو پانچ پانچ میل سے ایک بالٹی سر پر اُٹھا کر لے کے آ رہا ہو، اُس کے لئے تو یہ ایک نعمت ہے کہ اُس کو گھر میں پینے کا صاف پانی مل جائے۔ اب یہ سب کام جو ہے یہ کسی بدلے کے طور پر تو نہیں ہو رہا اور نہ پھر کبھی احسان جتایا جاتا ہے۔ بلکہ ہمارے نوجوان اور انجینئر جب کام کر کے واپس آتے ہیں تو شکر گزار ہوتے ہیں کہ آپ نے ہمیں موقع دیا اور یہ بھی وعدہ کرتے ہیں کہ انشاء اللہ تعالیٰ آئندہ بھی جائیں گے۔
اس سال پانچ ماڈل ویلیج مختلف ملکوں میں بنائے جا رہے ہیں، انشاء اللہ۔ بعض ملکوں کی ذیلی تنظیموں نے، مثلاً امریکہ، یوکے وغیرہ کے انصار اللہ نے خرچ پورا کرنے کی ذمہ واری اُٹھائی ہے۔ اسی طرح ہیومنٹی فرسٹ والوں نے بھی اس میں کچھ حصہ ڈالا ہے۔ جرمنی والوں کو بھی میں نے کہا ہے۔ تو یہ جذبہ خدمت اِن کام کرنے والوں کو محسنین میں شمار کرتا ہے۔ اور اسی طرح جو اس خدمت کے لئے فنڈ مہیا کرتے ہیں وہ بھی اُن میں شمار ہوتے ہیں۔ ایک احمدی جس نے زمانے کے امام کو مانا ہے، تقویٰ پر چلنے کا عہد کیا ہے، وہ حتی المقدور اُس تقویٰ کے حصول کی کوشش بھی کرتا ہے اور محسنین میں شامل ہونے کی کوشش بھی کرتا ہے تو خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ مَیں ایسے لوگوں کے ساتھ ہوں اور مَیں ہمیشہ ایسے لوگوں کے ساتھ رہتا ہوں۔ ہمارے لڑکے جن کا مَیں نے کہا جب یہ کام کر کے واپس آتے ہیں تو خود بھی بیان کرتے ہیں کہ ہمارے کاموں میں کس طرح بعض دفعہ بعض مشکلات پیش آئیں اور کس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کا جلوہ دکھایا اور نامعلوم طریقے سے، غیر محسوس طریقے سے اُ ن مسائل کوحل کر دیا اور وہ کہتے ہیں کہ اس سے اللہ تعالیٰ کی ہستی پر ہمارا یقین مزید بڑھتا ہے۔
اسی طرح جیسا کہ مَیں نے کہا محسنین کا یہ مطلب بھی ہے کہ اپنی بھی فکر کرنا اور اپنے علم و عرفان کو بھی کمال تک پہنچانے کی کوشش کرنا اور یہ احسان اپنے پر بھی ہے۔ نیک صالح عمل کو اپنی زندگی کا حصہ بنانا اور پھر اس میں بڑھنا یہ بھی اس کا ایک مطلب ہے۔ اور پھر یہ کہ علم و معرفت سے خود بھی فائدہ اُٹھاتے ہوئے اس کو اپنی زندگی پر لاگو کرنا اور دوسروں کو بھی فائدہ پہنچانا۔ جتنا جتنا علم و معرفت زیادہ ہو گا اور پھر اس سے دوسروں کو فائدہ پہنچانے کی کوشش بھی ہو گی تو پھر اس سے محسنین میں شامل ہونے کی ایک اور معراج ملتی ہے۔ قدم پھر آگے بڑھتے ہیں۔ ایک نئے راستے کا تعین ہوتا ہے جو مزید روحانی اور اخلاقی ترقی کی طرف لے کر جاتا ہے اور جب یہ روحانی اور اخلاقی ترقی ہوتی ہے تو پھر اللہ تعالیٰ کی معیت کے نئے زاویے بھی نظر آتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے قرب کا تعلق بڑھتا ہے۔ اُس کی صفات کا مزید ادراک پیدا ہوتا ہے اور پھر تقویٰ میں بھی ترقی ہوتی ہے۔ گویا کہ ایک سائیکل (Cycle) ہے، ایک چکر ہے جو نیکیوں کے ارد گرد گھومتے ہوئے، تقویٰ کے اعلیٰ مدارج تک لے جاتے ہوئے خدا تعالیٰ تک لے جاتا ہے اور خدا تعالیٰ کی طرف سے پھر توفیق بڑھتی ہے۔ پھر مزیدنیکیوں کی طرف توجہ پیدا ہوتی ہے اور پھر نتیجتاً ان چیزوں سے، ان باتوں سے حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کا زیادہ عرفان حاصل ہوتا ہے۔ تو یہ وہ احسان ہے، محسن بننا ہے جو اللہ تعالیٰ ایک انسان کو بناتا ہے۔ جو احسان جتانے والے محسن نہیں ہوتے بلکہ دوسروں کی خاطر قربانی کر کے اپنے اوپر سختی وارد کرتے ہیں اور اپنے حقوق چھوڑتے ہیں، پھر وہ اس اصول پر چلتے ہیں کہ اپنے حقوق لینے پر زور نہ دو بلکہ دوسرے کے حقوق کی ادائیگی کی طرف توجہ دو۔
مَیں اکثر غیروں کے سامنے، جو بھی لیڈر ملتے ہیں یا اسلام پر اعتراض کرنے والے بعض دنیا دار لوگ، یا اسلام کی تعلیم سے پوری طرح واقفیت نہ رکھنے والے، اُن کے سامنے یہ بات بھی پیش کرتا ہوں کہ دنیا والوں کا تمام زور اس بات پر ہے کہ ہمارے حقوق ادا کرو اور پھر اپنے حقوق کا ایک معیار قائم کر کے پھر اس کے حاصل کرنے کے لئے جو بھی بن پڑتا ہے وہ کرتے ہیں اور اس کے نتیجہ میں نہ حقوق مانگنے والا انصاف سے اور تقویٰ سے کام لیتا ہے اور نہ حقوق دینے والا انصاف اور تقویٰ سے کام لیتا ہے، اس میں مسلمان بھی شامل ہیں، غیر مسلم بھی شامل ہیں۔ اور نتیجتاً فساد پیدا ہوتا ہے۔ جبکہ اسلام یہ تعلیم دیتا ہے اور مسلمانوں کو اس تعلیم پر عمل کرنا چاہئے اور اگر یہ عمل کریں تو جو بھی اس وقت حکومتوں میں اور ملکوں میں، دنیا میں فساد ہیں وہ کم از کم مسلمان ملکوں میں کبھی نہ ہوں۔ اسلام یہ تعلیم دیتا ہے کہ دوسرے کے حقوق ادا کرو۔ اس سے پہلے کہ دوسرا اپنے حق کا مطالبہ کرے اُس کا حق ادا کرو۔ بلکہ اُس پر احسان کرتے ہوئے انسانیت کی قدروں کو قائم کرنے کے لئے محسنین میں شمار ہو جاؤ۔ اُن کی ضروریات کا اُن سے بڑھ کر خیال رکھو۔ مثلاً ملازمین کے بارے میں، خادموں کے بارے میں حدیث میں آیا ہے کہ جو خود پہنو اپنے غریب ملازم کو پہناؤ۔ جو خود کھاؤ اُسے کھلاؤ۔ (بخاری کتاب العتق باب قول النبیﷺ العبید اخوانکم فاطعموھم مماتاکلون حدیث 2545)
اس تعلیم کو اگر دنیا کے وسیع تر تناظر میں دیکھا جائے تو کسی بھی ملک کے عوام بھوکے نہیں رہ سکتے، اُن کے حقوق کبھی پامال نہیں ہو سکتے۔ وہ ننگے نہیں رہیں گے۔ ٹی وی پر مختلف افریقن ممالک کی تصویریں دکھائی جاتی ہیں۔ بچے فاقوں کی زندگی گزار رہے ہیں۔ بہت سارے خوراک کی کمی کی وجہ سے قریب المرگ ہیں یا بڑھوتری اُن کی صحیح نہیں ہے۔ مالنورشڈ (Malnourished) ہیں۔ مائیں بھوکی ہیں۔ چھوٹے بچوں کو دودھ نہیں پلاسکتیں۔ پس اگر وسائل پر قبضہ کرنے کی سوچ کے بجائے حقوق کی ادائیگی پر توجہ دی جائے، محسنین بنتے ہوئے دوسروں کی صلاحیتوں کو بڑھایا جائے۔ خود غریبوں کو اُن کے پاؤں پر کھڑا کیا جائے تو یہ مسائل جو دنیا میں پیدا ہوئے ہوئے ہیں خود بخود ختم ہو جائیں گے۔ اگر مسلمان حکومتیں بھی اپنے ملکوں میں اس بات کا خیال رکھنے والی ہوں اور لیڈر اپنے بنک بیلنس بنانے کی بجائے عوام کا خیال رکھنے والے ہوں، محسنین بننے کی کوشش کرنے والے ہوں، تقویٰ پر چلنے والے ہوں تو اس خوبصورت تعلیم کے بعد کبھی ہمارے مسلمان ملکوں میں بے چینی اور غربت اور افلاس کی یہ حالت نہیں ہو سکتی۔ لیکن بدقسمتی سے سب سے زیادہ مسلمان ملکوں میں یہ حال ہے اور پھر غیر بھی اُس سے فائدہ اُٹھاتے ہیں۔ تو جب بھی مَیں نے لوگوں کے سامنے یہ بیان کیا کہ اگر یہ صورتحال ہو، اور تم لوگ بھی اگر انصاف سے کام لیتے ہوئے کام کرو تو یہ مسائل جو دنیا میں پیدا ہوئے ہوئے ہیں یہ خود بخود ختم ہو جائیں گے۔ اس پر اکثر یہی کہتے ہیں کہ اصل یہی چیز ہے اور یہ اسلام کی بڑی خوبصورت تعلیم ہے۔ لیکن جب اپنی مجلسوں میں واپس جاتے ہیں تو پھر ذاتی مفادات آڑے آجاتے ہیں۔ یعنی ملکی اور قومی مفادات کی دوڑ شروع ہو جاتی ہے۔ ملکی مفادات ضرور ہونے چاہئیں اگر وہ حق اور انصاف پر قائم رہتے ہوئے ہوں۔ دوسروں کا حق مار کے نہ ہوں تو پھر ضرور اُن پر عمل ہونا چاہئے۔ اور ظاہر ہے کہ پہلے خود انسان اپنے آپ کو سنبھالتا ہے۔ اسی طرح ملکوں کا فرض ہے کہ اپنے آپ کو سنبھالیں۔ لیکن دوسروں کی دولت پر قبضہ کرنے کے لئے اپنے ملکی مفادات کی آڑ کے بہانے بنانا یہ چیز غلط ہے۔ دوسروں کے مفادات پامال کر کے اپنے نام نہاد حق کو حاصل کرنے کی کوشش کرنا یہ غلط ہے۔ یہ سب چیزیں خود غرضی دکھانے والی ہیں۔ یا ایسی باتیں ہیں جو صرف فسادات کو فروغ دیتی ہیں۔ بہر حال ہر احمدی کا کام ہے کہ وہ تقویٰ پر چلتے ہوئے اور محسنین میں شمار ہوتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے قرب کے نظارے دیکھنے کی کوشش کرے۔ اللہ تعالیٰ کی معیت میں آنے کی کوشش کرے اور یہی ایک صورت ہے جس سے ہم اپنی اصلاح کرنے والے بھی ہو سکتے ہیں اور معاشرے کو بھی اپنے محدود دائرے میں فساد سے بچا سکتے ہیں۔ ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ صِبْغَۃَ اللّٰہ بنتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی صفات اپنے دائرے میں، اپنی استعدادوں کے مطابق اختیار کرنے کی کوشش کریں۔ حقوق العباد کی ادائیگی کیلئے تیار رہیں تو یہ دنیا کی نعمتیں ہماری خادم بن جائیں گی۔ ہماری زندگی میں ان دنیاوی چیزوں کی حیثیت ثانوی ہو جائے گی اور پھر وہی بات کہ جب خالصتاً اللہ تعالیٰ کی خاطر انسان یہ کام کر رہا ہو گا تو پھر تقویٰ میں ترقی ہو گی۔ غرض کہ جس زاویے سے بھی ہم دیکھیں، خدا تعالیٰ کی رضا ہماری سوچوں کا محور ہونا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ نے اس مضمون کو کہ احسان کرنے والوں کو وہ کس طرح نوازتا ہے، قرآنِ کریم میں ایک جگہ اس طرح بیان فرمایا ہے۔ فرماتا ہے بَلٰی۔ مَنْ اَسْلَمَ وَجْھَہٗ لِلّٰہِ وَھُوَمُحْسِنٌ فَلَہٗٓ اَجْرُہٗ عِنْدَرَبِّہٖ وَلَاخَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ (البقرۃ: 113) جان لو یہ سچ ہے کہ جو بھی اپنے آپ کو خدا کے سپرد کر دے اور وہ احسان کرنے والا ہو تو اُس کااجر اُس کے رب کے پاس ہے۔ اور اُن لوگوں پر کوئی خوف نہیں اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔
پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب میری ذات تمہارا محور ہو جائے گا، صرف میرے ارد گرد تم گھومو گے تومیری رضا کا حصول ہو جائے گا۔ کلیۃً جب ایک مومن، متقی بندہ اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے سپرد کر دیتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ خود اُس کا متکفّل ہو جاتا ہے۔ اس کے تمام غم ختم ہو جاتے ہیں۔ اُس کی تمام فکریں اور خوف بے حیثیت ہو جاتے ہیں۔ جو شخص اپنا سب کچھ اللہ تعالیٰ کے سپرد کرتے ہوئے اُس کے آگے خالص ہو کر جھکنے والا بن جائے، محسن ہوتے ہوئے اپنی تمام تر صلاحیتیں خدمتِ خلق اور خدمتِ انسانیت کے لئے صَرف کر دے تو اُس کو کیا غم اور خوف ہو گا؟ یہ دونوں کام ایسے ہیں جو حقیقی تقویٰ کی پہچان ہیں۔ بندے کو خدا تعالیٰ کے پیار کی آغوش میں لے آتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود ایک جگہ فرماتے ہیں کہ: ’’متقی بننے کے واسطے یہ ضروری ہے کہ بعد اس کے کہ موٹی باتوں جیسے زنا، چوری، تلفِ حقوق، ریاء، عجب، حقارت، بخل کے ترک میں پکاّ ہو تو اخلاق رذیلہ سے پرہیز کر کے اُن کے بالمقابل اخلاق فاضلہ میں ترقی کرے۔ لوگوں سے مروت، خوشی خلقی، ہمدردی سے پیش آوے۔ خدا تعالیٰ کے ساتھ سچی وفا اور صدق دکھلاوے۔ خدمات کے مقام محمود تلاش کرے۔ ان باتوں سے انسان متقی کہلاتا ہے۔ اور جو لوگ ان باتوں کے جامع ہوتے ہیں۔ وہی اصل متقی ہوتے ہیں۔ (یعنی اگر ایک ایک خلق فرداً فرداً کسی میں ہو تو اسے متقی نہ کہیں گے جب تک بحیثیت مجموعی اخلاق فاضلہ اس میں نہ ہوں ) اور ایسے ہی شخصوں کے لئے لَاخَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلَاھُمْ یَحْزَنُوْن (البقرہ: 63) ہے۔ اور اس کے بعد ان کو کیا چاہئے۔ اﷲ تعالیٰ ایسوں کا متولّی ہو جاتا ہے جیسے کہ وہ فرماتا ہے وَھُوَ یَتَوَلَّی الصّٰلِحِیْنَ(الاعراف: 197)‘‘۔ یعنی وہ نیکوں کا ساتھ دیتا ہے، اُن کا متولی ہو جاتا ہے۔
فرمایا کہ ’’حدیث شریف میں آیا ہے کہ اﷲ تعالیٰ ان کے ہاتھ ہو جاتا ہے جس سے وہ پکڑتے ہیں۔ ان کی آنکھ ہو جاتا ہے جس سے وہ دیکھتے ہیں۔ ان کے کان ہو جاتا ہے جس سے وہ سنتے ہیں۔ ان کے پاؤں ہو جاتا ہے جس سے وہ چلتے ہیں۔ اور ایک اور حدیث میں ہے کہ جو میرے ولی کی دشمنی کرتا ہے۔ میں اس سے کہتا ہوں کہ میرے مقابلہ کے لئے تیار رہو۔ ایک جگہ فرمایا ہے کہ جب کوئی خد اکے ولی پر حملہ کرتا ہے تو خدا تعالیٰ اس پر ایسے جھپٹ کر آتا ہے جیسے ایک شیرنی سے کوئی اس کا بچہ چھینے تو وہ غضب سے جھپٹتی ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد 2صفحہ680-681 ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
پس کیا ہی خوش قسمت ہیں وہ جن کا ولی اللہ تعالیٰ ہو جاتا ہے۔ اور جن کا ولی خدا تعالیٰ ہو جاتا ہے اُن کے غم اور خوف تو ویسے ہی ختم ہو جاتے ہیں۔ آئندہ کے لئے نیک عمل کرنے کی طرف اُن کی توجہ ہو جاتی ہے۔ گزشتہ کے اگر کوئی برے عمل ہیں تو اُن سے معافی ہو جاتی ہے۔ انسان کو اپنے مستقبل کے بارے میں خوف رہتا ہے۔ یہاں مثلاً بہت سارے اسائلم سیکرز (Asylum Seekers) آئے ہوئے ہیں، اُن کو ہر وقت فکر پڑی رہتی ہے کہ پتہ نہیں ہمارا کیا فیصلہ ہو گا، کیا بنے گا؟ بعض میں نے دیکھے ہیں، اس خوف کی وجہ سے کئی کئی کلو اپنا وزن کم کر چکے ہیں۔ ملتے ہیں تو چہرے پر ہوائیاں اُڑ رہی ہوتی ہیں۔ کوئی اپنے بزنس کے حالات کی وجہ سے پریشان ہے۔ خوفزدہ رہتا ہے کہ پتہ نہیں آئندہ کیا ہو گا؟ طلباء ہیں تو اپنے امتحانوں کی وجہ سے خوفزدہ رہتے ہیں۔ غرض آئندہ آنے والی باتیں انسان کو ایک خوف کی حالت میں رکھتی ہیں جب تک کہ اُن کے نتائج اُن پر ظاہر نہ ہو جائیں۔ اسی طرح حزن ہے یا غم ہے جو گزری ہوئی باتوں کا ہوتا ہے۔ جتنا بڑا غم ہو انسان اُتنا ہی زیادہ غمگین رہتا ہے۔ بعض دنیا دار اپنے کاروباروں کے نقصان میں اس قدر غمگین ہو جاتے ہیں کہ اُس کامستقل روگ لگا لیتے ہیں۔ بعض دماغی توازن کھو بیٹھتے ہیں، بعض پر دل کے ایسے حملے ہوتے ہیں کہ مستقل بستر پر لیٹ جاتے ہیں یا دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں۔ بہر حال ایک متقی مومن اور احسان کرنے والے کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اُن کو نہ کوئی خوف ہو گا، نہ غم۔ ایک دیندار انسان جس کو خدا تعالیٰ کی صفات کا صحیح ادراک ہے اور اُس کے مطابق وہ اپنی زندگی گزارنے کی کوشش کرتا ہے، وہ کبھی بھی دنیا کے غموں کو اپنا روگ نہیں بناتا۔ بیشک نیک لوگوں کو خوف کی حالت بھی آتی ہے، غم کی حالت بھی آتی ہے لیکن وہ دنیا کے غم نہیں ہوتے، وہ خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے غم ہوتے ہیں۔ وہ خدا تعالیٰ کی ناراضگی سے بچنے کا خوف ہوتا ہے۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک شعر میں فرمایا کہ ؎
اسی فکر میں رہتے ہیں روز و شب
کہ راضی وہ دلدار ہوتا ہے کب
(نشان آسمانی روحانی خزائن جلد4صفحہ410)
پس یہ دلدار کو راضی کرنے کی فکر اور خوف ہوتا ہے، اور یہ خوف جو ہے اُن کی توجہ دعاؤں اور ذکرِ الٰہی کی طرف مبذول کراتا ہے اور اَلَا بِذِکْرِ اللّٰہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ (الرعد: 29) کی آواز اُن کو تسلّی دیتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ذکر ہی اُن کے لئے اطمینانِ قلب کا باعث بنتا ہے جو پرانے غموں کو بھی دور کر دیتا ہے اور آئندہ کے خوفوں کے دُور ہونے کی بھی اُن کو تسلّی دلاتا ہے۔ تقویٰ پر چلنے والوں کا خوف پیار اور محبت کا خوف ہوتا ہے۔ تقویٰ کا مطلب ہی یہ ہے کہ ایسا خوف یا ایسی تڑپ جو اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے کے لئے بے چین رکھے۔ پس یہ بے چینی دل کو تقویت دیتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے والا بناتی ہے۔ دنیا دار کی بے چینی اس کے برعکس دلوں پر حملہ کرنے والی ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرنے والا، محسنین میں شمار ہونے والا، حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف توجہ رکھتا ہے اور اپنے اعمال پر نظر رکھتا ہے اور پھر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا مورد بنتا ہے۔ پس دنیا دار اور دیندار کے غم اور خوف میں یہ فرق ہے۔
پس ایک احمدی کو اپنی حالتوں میں ایسی پاک تبدیلی پیدا کرنے کی ضرورت ہے جو اُسے تقویٰ پر چلائے رکھنے والی ہو اور محسنین میں شمار کروانے والی ہو تا کہ اللہ تعالیٰ کا قرب ہمیں ہر آن حاصل رہے جو ہمیں دنیا اور آخرت کے خوفوں سے دور رکھے۔ ہمارے غم اگر کوئی ہیں تو صرف ایسے ہوں جو خدا تعالیٰ کی محبت کو دل میں بسانے کے لئے ہوں۔ اس سے اللہ تعالیٰ کے احسانات پھر مزید بڑھیں گے۔ اللہ تعالیٰ کی محبت کے معیار جب ہم حاصل کرنے والے ہوں گے تو پھر اللہ تعالیٰ یقینا ہمارے ساتھ ہو گا اور پھر اللہ تعالیٰ جب دیکھ رہا ہو گا کہ میرا بندہ محسن بن رہا ہے اور میری رضا کی خاطر میری صفات اپنا رہا ہے تو پھر مَیں کیوں نہ اُس پر احسانات کی بارش کر دوں۔ اللہ تعالیٰ تو کئی گنا بڑھا کر دینے والا ہے۔ پس جب اللہ تعالیٰ کے احسانات کی بارش ہوتی ہے تو اس دنیاکی فکریں نہ صرف دور ہو جاتی ہیں بلکہ اُس کے احسانات اور انعامات کو سنبھالنا مشکل ہو جاتا ہے۔ ایک مومن کو حقیقی تقویٰ کی طرف توجہ دلاتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوہ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’حقیقی تقویٰ کے ساتھ جاہلیت جمع نہیں ہو سکتی۔ حقیقی تقویٰ اپنے ساتھ ایک نور رکھتی ہے جیسا کہ اللہ جلّ شانہٗ فرماتا ہے۔ یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اِنْ تَتَّقُوْااللّٰہَ یَجْعَلْ لَّکُمْ فُرْقَانًاوَّیُکَفِّرْ عَنْکُمْ سَیِّاٰتِکُمْ‘‘ (انفال: 30)
وَیَجْعَلْ لَّکُمْ نُوْرًا تَمْشُوْنَ بِہٖ‘‘ (الحدید: 29) یعنی اے ایمان لانے والو!اگر تم متقی ہونے پر ثابت قدم رہو اور اللہ تعالیٰ کے لئے اتّقاء کی صفت میں قیام اور استحکام اختیار کرو تو خدا تعالیٰ تم میں اور تمہارے غیروں میں فرق رکھ دے گا۔ وہ فرق یہ ہے کہ تم کو ایک نور دیا جائے گا جس نور کے ساتھ تم اپنی تمام راہوں میں چلو گے۔ یعنی وہ نور تمہارے تمام افعال اور اقوال اور قویٰ اور حواس میں آ جائے گا۔ تمہاری عقل میں بھی نور ہو گا۔ تمہاری ایک اٹکل کی بات میں بھی نور ہو گا۔ اور تمہاری آنکھوں میں بھی نور ہو گا۔ اور تمہارے کانوں اور تمہاری زبانوں اور تمہارے بیانوں اور تمہاری ہر ایک حرکت اور سکون میں نور ہو گا۔ اور جن راہوں میں تم چلو گے وہ راہ نورانی ہو جائیں گی۔ غرض جتنی تمہاری راہیں، تمہارے قویٰ کی راہیں، تمہارے حواس کی راہیں ہیں وہ سب نور سے بھر جائیں گی اور تم سراپا نور میں ہی چلو گے‘‘۔ (آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد 5صفحہ177-178)
پس جب ایسی حالت میں اللہ تعالیٰ کا بندہ آ جاتا ہے یا آنے کی کوشش کرتا ہے تو پھر اُس کے مخالفین بھی اللہ تعالیٰ کی گرفت میں آ جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ ہم اس معیار کو حاصل کرنے والے ہوں جہاں ہم فیض پانے والے بھی ہوں، ہم فیض پہنچانے والے بھی ہوں اور مخالفین سے ہم بچتے چلے جائیں۔ مخالفین کے ہر شر اُن پر اُلٹنے والے ہوں۔ اور جب یہ حالت ہو جائے گی تو جہاں ہم اللہ تعالیٰ کے پیار کو جذب کرنے والے ہوں گے، انسانیت کی خدمت کے لئے بے لوث ہوں گے، اسلام کا پیغام دنیا کو دینے والے ہوں گے، وہاں انشاء اللہ تعالیٰ ہم احمدیت کے مخالفین کی پکڑ بھی دیکھیں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان دعاؤں کی اور اس مقام کو حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
آج بھی میں ایک نمازِ جنازہ غائب پڑھاؤں گا جو مکرم ڈاکٹر محمد عامر صاحب ڈسپنسر کاہے۔ (ڈاکٹر کہلاتے تھے، تھے یہ ڈسپنسر) ہرنائی بلوچستان کے رہنے والے تھے۔ ان کو یکم دسمبر 2011ء کو کلینک میں داخل ہو کر کچھ نا معلوم افرادنے فائرنگ کر کے شہید کر دیا تھا۔ ان کی شہادت کی اطلاع بڑی لیٹ ملی ہے کیونکہ وہاں جماعت نہیں تھی اس لئے پتہ نہیں لگ سکا اور ان کی اہلیہ بھی ہرنائی ہسپتال میں ہی کام کر رہی تھیں۔ یہ قائد آباد ضلع خوشاب میں جماعت میں شامل ہوئے تھے۔ اپنے خاندان میں اکیلے احمدی تھے اور ایک ایسی تنظیم سے ان کے خاندان کا تعلق تھا جو پاکستان میں اپنی شدت پسندی میں بڑی مشہور ہے اور وہ لوگ کبھی برداشت نہیں کر سکتے کہ اُن کا کوئی آدمی بیعت کر لے، احمدیت میں شامل ہو جائے۔ بہر حال یہ بھی ایک وجہ ہو سکتی ہے۔ یہ خاندان مظفر گڑھ کا رہنے والا تھا۔ 1994ء میں انہوں نے بیعت کی تھی۔ 98ء میں ان کی شادی ہوئی۔ دو چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔ بڑے نیک فطرت اور مخلص انسان تھے۔ اللہ تعالیٰ مرحوم سے مغفرت کا سلوک فرمائے۔ درجات بلند فرمائے۔ اُنہیں اپنی رضا کی جنتوں میں داخل فرمائے اور ان کے لواحقین کو صبرِ جمیل عطا فرمائے۔
اس زمانے میں خدا تعالیٰ سے سچا تعلق جوڑنے کا طریق اور اسلوب ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے سکھائے۔ بہت سے احمدی ہیں جو اللہ تعالیٰ سے اپنے تعلق کا تجربہ رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے سچے تعلق کی وجہ سے خواب، رؤیا، کشف وغیرہ کی صورت میں اللہ تعالیٰ اُنہیں بتاتا ہے کہ اس طرح ہو گا اور بالکل ویسے ہو جاتا ہے۔
جو لوگ خدمت کر رہے ہیں، نیک سلوک کر رہے ہیں، اپنے علم اور عمل سے دوسروں کو فائدہ پہنچا رہے ہیں اور صرف اس لئے کہ خد اتعالیٰ کو راضی کرنا ہے تو یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو متقی بھی ہیں اور محسن بھی ہیں۔ دنیا والوں کا تمام زور اس بات پر ہے کہ ہمارے حقوق ادا کرو اور پھر اپنے حقوق کا ایک معیار قائم کر کے پھر اس کے حاصل کرنے کے لئے جو بھی بن پڑتا ہے وہ کرتے ہیں اور اس کے نتیجہ میں نہ حقوق مانگنے والا انصاف سے اور تقویٰ سے کام لیتا ہے اور نہ حقوق دینے والا انصاف اور تقویٰ سے کام لیتا ہے، اس میں مسلمان بھی شامل ہیں، غیر مسلم بھی شامل ہیں۔ اور نتیجتاً فساد پیدا ہوتا ہے۔
اسلام یہ تعلیم دیتا ہے کہ دوسرے کے حقوق ادا کرو۔ اس سے پہلے کہ دوسرا اپنے حق کا مطالبہ کرے اُس کا حق ادا کرو۔ بلکہ اُس پر احسان کرتے ہوئے انسانیت کی قدروں کو قائم کرنے کے لئے محسنین میں شمار ہو جاؤ۔ اُن کی ضروریات کا اُن سے بڑھ کر خیال رکھو۔
دوسروں کی دولت پر قبضہ کرنے کے لئے اپنے ملکی مفادات کی آڑ کے بہانے بنانا، یہ چیز غلط ہے۔ دوسروں کے مفادات پامال کر کے اپنے نام نہاد حق کو حاصل کرنے کی کوشش کرنا، یہ غلط ہے۔ یہ سب چیزیں خود غرضی دکھانے والی ہیں، یا ایسی باتیں ہیں جو صرف فسادات کو فروغ دیتی ہیں۔ ہر احمدی کا کام ہے کہ وہ تقویٰ پر چلتے ہوئے اور محسنین میں شمار ہوتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے قرب کے نظارے دیکھنے کی کوشش کرے، اللہ تعالیٰ کی معیت میں آنے کی کوشش کرے اور یہی ایک صورت ہے جس سے ہم اپنی اصلاح کرنے والے بھی ہو سکتے ہیں اور معاشرے کو بھی اپنے محدود دائرے میں فساد سے بچا سکتے ہیں۔
فرمودہ مورخہ 3؍فروری 2012ء بمطابق 3؍تبلیغ 1391 ہجری شمسی، بمقام مسجد بیت الفتوح۔ مورڈن۔ لندن
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔