سورۃ فاتحہ کے مضامین
خطبہ جمعہ 10؍ فروری 2012ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
سورۃ فاتحہ ایک ایسی سورۃ ہے جسے ہم ہر نماز میں پڑھتے ہیں۔ احادیث میں جہاں اس کے بہت سے نام اور فضائل بیان ہوئے ہیں وہاں ایک روایت میں اس کا نام سورۃ الصلوٰۃ بھی ہے۔
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے صلوٰۃ یعنی سورۃ فاتحہ کو اپنے اور بندے کے درمیان نصف نصف کر کے تقسیم کر دیا ہے۔ یعنی آدھی سورۃ میں صفاتِ الٰہیہ کا ذکر ہے اور آدھی سورۃ میں بندے کے حق میں دعا ہے۔
پس یہ اس کی اہمیت ہے جسے ہر نماز پڑھنے والے کو ہمیشہ اپنے پیشِ نظر رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات پر بھی غور کرتے ہوئے اُن سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اُٹھانے کی کوشش کی جائے اور اسی طرح اس بات پر بھی غور کر کے جو اس میں دعائیں ہیں، اس کی دعاؤں سے بھی فیض پانے کے لئے ہر نماز کی ہر رکعت میں بڑے غور سے پڑھنا چاہئے۔ اسی طرح یہ بات بھی ہمیشہ یاد رکھنی چاہئے کہ اس سورۃ کا اس زمانے میں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا زمانہ ہے اس سے بھی بہت نسبت ہے۔ پرانے صحیفوں میں بھی اس حوالے سے اس کا ذکر موجود ہے اور خود سورۃ فاتحہ کا مضمون بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وقت کے انعامات اور اس کے حصول اور اس زمانے کے شر اور گمراہی سے بچنے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ پس اس لحاظ سے آجکل کے مسلمانوں کے لئے اس کی بڑی اہمیت ہونی چاہئے۔ لیکن بدقسمتی سے مسلمان علماء نے قوم کو اس حد تک اپنے قابو میں کر لیا ہے، اس حد تک اُن کی غور کرنے کی صلاحیت کو ختم کر دیا ہے کہ وہ اس بات پر غور کرنے کی طرف توجہ دینے کی طرف تیار ہی نہیں ہیں۔ اکثریت اُن میں سے، اس کی وجہ سے عموماً عامۃ المسلمین یہ غور کرنا نہیں چاہتے لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک ایسی تعداد بھی ہے جو سوچتی ہے، غور کرتی ہے اور مسیح و مہدی کی ضرورت کو سمجھتی ہے۔
پس یہ لوگ جو مولوی کے ہاتھ چڑھے ہوئے ہیں انہیں یہ مولوی اور یہ نام نہاد علماء تو شر اور گمراہی کی طرف لے جا رہے ہیں۔ پس جب ہر درد مند دل رکھنے والا انسان اس بات کا اظہار کرتا ہے کہ شر، شرک اور گمراہی کا دور دورہ ہے اور یہ ہر جگہ ہمیں پھیلتی نظر آ رہی ہے اور اس کے دور کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کے کسی خاص بندے کی ضرورت ہے، یہ احساس تو ہے ان میں، تو پھر تلاش بھی کرنا چاہئے کہ وہ بندہ کہیں آ تو نہیں گیا۔ یقینا اللہ تعالیٰ کا وہ خاص بندہ آ چکا ہے، لیکن اکثریت جیسا کہ میں نے کہا علماء کے پیچھے چل کر اُسے ماننے کو تیار نہیں یا خوف کی وجہ سے ماننے کو تیار نہیں۔ پس علماء کو بھی اور عوام الناس کو بھی خدا تعالیٰ سے رہنمائی لینی چاہئے اور اپنی ضد چھوڑ دینی چاہئے۔ بہر حال ہمارا کام پیغام پہنچانا ہے اور وہ ہم انشاء اللہ تعالیٰ پہنچاتے رہیں گے، اپنا کام کرتے چلے جائیں گے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ہم احمدیوں کو جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عاشقِ صادق کی طرف منسوب ہوتے ہیں، ہمیں بھی اپنا علم و عرفان بڑھانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ سورۃ فاتحہ کے مضامین سے زیادہ سے زیادہ فیضیاب ہونے کی کوشش کرنی چاہئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جس طرح اس سورۃ کے مضامین کو مختلف جگہوں پر اپنی تحریرات میں کھول کر ہمارے سامنے بیان فرمایا ہے، یقینا ہم پر یہ ذمہ داری ڈالتا ہے کہ ہم اُس کو سمجھنے کی کوشش کریں، اس کا ادراک حاصل کرنے کی کوشش کریں تاکہ ہم اپنی ذات پر اس مضمون کو جاری کرکے اس سے فیضیاب ہو سکیں۔ اس وقت میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الفاظ میں آپؑ کی سورۃ فاتحہ کی دوسری آیت یعنی بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ کے بعد جو آیت ہے، اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ، اس کے حوالے پیش کروں گا۔ آپ نے اس آیت کے اندر سموئے ہوئے مختلف مضامین کو مختلف رنگ میں بیان فرمایا ہے۔ یہ چند حوالے میں نے لئے ہیں، یہ آپؑ کے اس آیت کے بارے میں وہ چند پہلو ہیں جو آپ کے علمی و روحانی خزانے میں موجود ہیں، جن کی نشاندہی آپ نے فرمائی ہے اور اس کے علاوہ بھی صرف اس ایک آیت کے بیشمار اور حوالے ہیں۔ یقینا ان کو پڑھنے سے، سننے سے علم و عرفان بڑھتا ہے۔ لیکن نہ ہی ایک مرتبہ سننے سے اس کے گہرے مطالب تک انسان پہنچ سکتا ہے اور نہ ہی یہ ممکن ہے کہ پہنچا جا سکے۔ اس کو سمجھنے کے لئے اپنا مطالعہ بھی ضروری ہے تبھی ہم زمانے کے امام کے اُن روحانی خزائن کا صحیح فہم اور ادراک حاصل کر سکیں گے اور اس سے استفادہ کر سکیں گے۔
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ کی مختصر وضاحت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس طرح فرمائی ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ
’’اَلْحَمْدُلِلّٰہِ تمام محامد اس ذات معبود برحق مستجمع جمیع صفات کاملہ کو ثابت ہیں‘‘ (یعنی تمام جو حمد ہے، تعریف ہے، وہ اللہ تعالیٰ پر ہی ثابت ہوتی ہے جو تمام صفات کا، جس میں تمام صفات جمع ہیں اور اللہ تعالیٰ ہی ہے جس میں یہ صفات کامل طور پر پائی جا سکتی ہیں۔ ) فرمایا ’’جمیع صفات کاملہ کو ثابت ہیں جس کا نام اللہ ہے۔ ہم پہلے بھی بیان کرچکے ہیں کہ قرآن شریف کی اصطلاح میں اللہ اس ذات کامل کا نام ہے کہ جو معبود برحق اور مستجمع جمیع صفات کاملہ اور تمام رزائل سے منزہ‘‘ (تمام صفات کا مجموعہ ہے اور تمام قسم کی کمزوریاں، کمیاں، گھٹیا چیزیں اُن سے وہ پاک ہے) ’’اور واحد لاشریک اور مبدء جمیع فیوض ہے‘‘۔ (تمام فیض جو ہیں اُسی سے پوٹھتے ہیں ) ’’کیونکہ خدائے تعالیٰ نے اپنے کلام پاک قرآن شریف میں اپنے نام اللہ کو تمام دوسرے اسماء و صفات کا موصوف ٹھہرایا ہے‘‘ (یعنی اللہ تعالیٰ کا جو نام ہے اُس میں تمام جو دوسری صفات ہیں، وہ موجود ہیں۔ صرف ایک اللہ کے نام میں اللہ تعالیٰ کی جتنی بھی موجودہ صفات ہیں، دوسری، وہ پائی جاتی ہیں ) ’’اور کسی جگہ کسی دوسرے اسم کو یہ رتبہ نہیں دیا۔ پس اللہ کے اسم کو بوجہ موصوفیت تامہ یعنی کامل طور پر اُن صفات کا حامل ہونے کی وجہ سے ان تمام صفتوں پر دلالت ہے۔ جن کا وہ موصوف ہے۔ اور چونکہ وہ جمیع اسماء اور صفات کا موصوف ہے اس لئے اس کا مفہوم یہ ہوا کہ وہ جمیع صفات کاملہ پر مشتمل ہے‘‘۔ (یعنی اللہ کا نام اللہ جو ہے، یہ لفظ اُس میں تمام صفات جو ہیں مکمل طور پر جمع ہو گئی ہیں )۔ فرمایا کہ ’’پس خلاصہ مطلب اَلْحَمْدُلِلّٰہِ کا یہ نکلا کہ تمام اقسام حمد کے کیا باعتبار ظاہر کے اور کیا باعتبار باطن کے اور کیا باعتبار ذاتی کمالات کے اور کیا باعتبار قدرتی عجائبات کے اللہ سے مخصوص ہیں اور اس میں کوئی دوسرا شریک نہیں۔ اور نیز جس قدر محامد صحیحہ اور کمالات تامہ کو عقل کسی عاقل کی سوچ سکتی ہے‘‘ (یعنی جو کچھ بھی صحیح حمد اور تعریف ہو سکتی ہے، جو کوئی کمالات انتہا تک کوئی پہنچ سکتے ہیں، جو کوئی عقل مند انسان سوچ سکتا ہے) ’’یا فکر کسی متفکر کا ذہن میں لاسکتا ہے۔ وہ سب خوبیاں اللہ تعالیٰ میں موجود ہیں۔ اور کوئی ایسی خوبی نہیں کہ عقل اس خوبی کے امکان پر شہادت دے۔ مگر اللہ تعالیٰ بدقسمت انسان کی طرح اس خوبی سے محروم ہو‘‘۔ (یہ نہیں ہو سکتا۔ کوئی خوبی جو انسان سوچ سکتا ہے یہ کبھی نہیں ہو سکتا کہ انسان کی عقل گواہی دے کہ یہ خوبی ہے اور اللہ تعالیٰ ایک انسان کی طرح اُس سے محروم ہو) فرمایا ’’بلکہ کسی عاقل کی عقل ایسی خوبی پیش ہی نہیں کرسکتی کہ جو خدا میں نہ پائی جائے‘‘۔ (انسان کی سوچ تو محدود ہے، وہاں تک پہنچ ہی نہیں سکتی، اُن صفات کا احاطہ بھی نہیں کر سکتی) فرمایا ’’جہاں تک انسان زیادہ سے زیادہ خوبیاں سوچ سکتا ہے وہ سب اس میں موجود ہیں اور اس کو اپنی ذات اور صفات اور محامد میں من کُلّ الوجوہ کمال حاصل ہے اور رزائل سے بکلی منزّہ ہے‘‘۔
اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایک دعا سکھائی ہے اُس میں یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ سے یہ دعا مانگی کہ جو صفات، تیرے جو نام میرے علم میں ہیں، اُن کی بھی خیر چاہتا ہوں اور اُن کے شر سے پناہ مانگتا ہوں، اور جو میرے علم میں نہیں اُن کی بھی خیر چاہتا ہوں اور اُن کے شر سے پناہ مانگتا ہوں۔ پس انسان تو اللہ تعالیٰ کی صفات کا، ناموں کا احاطہ کر ہی نہیں سکتا۔
پھر اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ کی اس مختصر تشریح کے بعد اَلْحَمْد کے معنے بیان فرماتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ
’’واضح ہو کہ حمد اُس تعریف کو کہتے ہیں جو کسی متحقق تعریف کے اچھے فعل پر کی جائے۔ نیز ایسے انعام کنندہ کی مدح کا نام ہے جس نے اپنے ارادہ سے انعام کیا ہو۔ اور اپنی مشیت کے مطابق احسان کیا ہو‘‘۔ (تعریف اُس کی کی جاتی ہے جو انعام جو دینے والا ہے جس نے اپنے ارادہ سے انعام دیا ہو اور اپنی اللہ تعالیٰ کی مشیت کے مطابق، مشیت تو صرف خدا تعالیٰ کی ہی ہوتی ہے، مرضی جو چلتی ہے، اُس کے مطابق احسان کیا ہو) ’’اور حقیقت حمد کما حقہٗ صرف اسی ذات کے لئے متحقق ہوتی ہے جو تمام فیوض و انوار کا مبدء ہو‘‘ (تمام فیض اُس سے پھوٹ رہے ہوں) ’’اور علی وجہ البصیرت کسی پر احسان کرے، نہ کہ غیر شعوری طور پر یا کسی مجبوری سے‘‘۔ (سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے، علم رکھتے ہوئے پھر احسان کرتا ہے، غیر شعوری طور پر نہیں یا کسی مجبوری کی وجہ سے نہیں) ’’اور حمد کے یہ معنی صرف خدائے خبیر و بصیر کی ذات میں ہی پائے جاتے ہیں۔ اور وہی محسن ہے اور اوّل و آخر میں سب احسان اسی کی طرف سے ہیں۔ اور سب تعریف اسی کے لئے ہے اِس دنیا میں بھی اور اُس دنیا میں بھی۔ اور ہر حمد جو اس کے غیروں کے متعلق کی جائے اس کا مرجع بھی وہی ہے‘‘۔ (یعنی کوئی بھی تعریف جو اللہ کے سوا کسی دوسرے کی کی جاتی ہے وہ بھی اللہ تعالیٰ کی وجہ سے ہی ہے۔ غیر اللہ کی حمد اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ خوبیوں اور صفات کی وجہ سے کی جاتی ہے، اُن خصوصیات کی وجہ سے کی جاتی ہے، کسی اچھے کام کی وجہ سے کی جاتی ہے جو اللہ تعالیٰ کے ہی صفات کا پرتَو بنتے ہوئے اُس نے کی یا اللہ تعالیٰ کے رحمیمیت یا رحمانیت نے اُس میں اپنا اثر ڈالتے ہوئے اُس کو اس قابل بنایا کہ وہ کسی کے کام آئے اور پھر وہ شخص اس قابل ہوا کہ جس کے وہ کام آیا اُس کی تعریف کر سکے۔ گویا کہ ہر کام کی بنیاد جو ہے کوئی بھی شخص دنیا میں جو کرتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق سے کر سکتا ہے۔ اس لئے پھر تعریف جو ہے آخری وہ اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹتی ہے۔
پھر اس بارے میں آپؑ مزید فرماتے ہیں کہ:
’’حمد اس تعریف کو کہتے ہیں جو کسی صاحبِ اقتدار شریف ہستی کے اچھے کاموں پر اس کی تعظیم و تکریم کے ارادہ سے زبان سے کی جائے اور کامل ترین حمد رب جلیل سے مخصوص ہے اور ہر قسم کی حمد کا مرجع خواہ وہ تھوڑی ہو یا زیادہ ہمارا وہ رب ہے جو گمراہوں کو ہدایت دینے والا اور ذلیل لوگوں کو عزت بخشنے والا ہے۔ اور وہ محمودوں کا محمود ہے‘‘ (یعنی وہ ہستیاں جو خود قابل حمد ہیں وہ سب اس کی حمد میں لگی ہوئی ہیں)۔
پس جیسا کہ میں نے کہا، سب کچھ اُس کی طرف ہی لوٹتا ہے۔ یہ فرمایا آپ نے کہ گمراہوں کو ہدایت دینے والا ہے۔ جب گمراہوں کو ہدایت دیتا ہے تو نتیجۃً ہدایت پانے والا خدا تعالیٰ کی طرف جھکے گا، اُس کی حمد کرے گا۔ دنیا کی نظر میں ذلیل لوگ ہیں، وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں عزت پاتے ہیں۔ جیسا کے انبیاء کا طریق ہے۔ کہتے ہیں تمہارے ماننے والے تو ہمیں بادیٔ النظر میں ذلیل لوگ نظر آتے ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ ایک وقت میں ایسے حالات بدلتا ہے، وہی فرعون زندگی کی بھیک مانگتا ہے، وہی مکّہ کے سردار اپنی جان کی امان مانگتے ہیں اور یہ بات مومنین کو پھر ایک حقیقی حمد کی طرف متوجہ کرتی ہے، اُس کا ادراک دلاتی ہے۔ اسی طرح اس زمانے میں بھی جو آجکل سمجھتے ہیں کہ یہ ذلیل ہیں، جماعت احمدیہ کی حیثیت نہیں ہے، حقیر سے لوگ ہیں ہم اُن سے یہ کر دیں گے، وہ کر دیں گے۔ ایک تو اللہ تعالیٰ ساتھ ساتھ اپنی قدرت دکھا رہا ہے لیکن ایک وقت آئے گا جب یہ لوگ ختم ہو جائیں گے۔
خلاصہ اس کا یہ بنا کہ اللہ تعالیٰ کی حمد میں یہ بھی اشارہ ہے کہ خدا تعالیٰ کامل تعریف کیا گیا ہے اور کامل تعریف کرنے والا ہے۔ اور خدا تعالیٰ کی حمد ہی ہے جو تمام عزتوں کا منبع ہے اور ایک مومن کا کام ہے کہ اس حمد کا ادراک حاصل کر کے اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آجائے۔
حمد کے لفظ کی مزید وضاحت کرتے ہوئے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید کو حمد سے کیوں شروع کیا؟ اس میں کیا حکمت ہے، آپ فرماتے ہیں کہ:
’’اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب کو حمد سے شروع کیا ہے، نہ کہ شکر اور مدح سے کیونکہ لفظ حمد ان دونوں الفاظ کے مفہوم پر پوری طرح حاوی ہے اور وہ ان کا قائمقام ہوتا ہے مگر اس میں اصلاح، آرائش اور زیبائش کا مفہوم اس سے زیادہ ہے‘‘۔ (خوبصورتی بھی ہے، حسن بھی ہے، اصلاح بھی ہے)۔ ’’چونکہ کفّار بلا وجہ اپنے بتوں کی حمد کیا کرتے تھے اور وہ ان کی مدح کے لئے حمد کے لفظ کو اختیار کرتے تھے اور یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ وہ معبود تمام عطایا اور انعامات کے سرچشمہ ہیں اور سخیوں میں سے ہیں۔ اسی طرح اُن کے مردوں کی ماتم کرنے والیوں کی طرف سے مفاخر شماری کے وقت بلکہ میدانوں میں بھی‘‘ (مطلب بڑے فخر سے اُن کے ذکر کئے جاتے تھے) ’’اور ضیافتوں کے موقع پر بھی اسی طرح حمد کی جاتی تھی جس طرح اس رازق متولّی اور ضامن اللہ تعالیٰ کی حمد کی جانی چاہئے۔ اسی لئے یہ اَلْحَمْدُلِلّٰہ ایسے لوگوں اور دوسرے تمام مشرکوں کی تردید ہے اور فراست سے کام لینے والوں کے لئے اس میں نصیحت ہے۔ اور ان الفاظ میں اللہ تعالیٰ بت پرستوں یہودیوں، عیسائیوں اور دوسرے تمام مشرکوں کو سرزنش کرتا ہے۔ گویا وہ یہ کہتا ہے کہ اے مشرکو! تم اپنے شرکاء کی کیوں حمد کرتے ہو اور اپنے بزرگوں کی تعریف بڑھا چڑھا کر کیوں کرتے ہو؟ کیا وہ تمہارے ربّ ہیں جنہوں نے تمہاری اور تمہاری اولاد کی پرورش کی ہے یا وہ ایسے رحم کرنے والے ہیں جو تم پر ترس کھاتے ہیں اور تمہاری مصیبتوں کو دور کرتے ہیں اور تمہارے دکھوں اور تکلیفوں کی روک تھام کرتے ہیں۔ یا جو بھلائی تمہیں مل چکی ہے اس کی حفاظت کرتے ہیں۔ یا مصائب کی میل کچیل تمہارے وجود سے دھوتے ہیں اور تمہاری بیماری کا علاج کرتے ہیں؟ کیا وہ جزا سزا کے دن کے مالک ہیں؟ نہیں۔ بلکہ وہ تو اللہ تعالیٰ ہی ہے جو خوشیوں کی تکمیل کرنے، ہدایت کے اسباب مہیا کرنے، دعائیں قبول کرنے اور دشمنوں سے نجات دینے کے ذریعہ تم پر رحم فرماتا اور تمہاری پرورش کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ نیکو کاروں کو ضرور اجر عطا کرے گا‘‘۔
پھر اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہ ہمارا خدا کامل خدا ہے اور صفاتِ کاملہ اور تمام قسم کی تعریفوں کا اللہ تعالیٰ بھی مستحق ہے اور اُس میں جمع ہیں، آپ فرماتے ہیں:
’’اور اس کے ساتھ ہی اَلْحَمْدُلِلّٰہ میں ایک یہ اشارہ بھی ہے کہ جو معرفت باری تعالیٰ کے معاملہ میں اپنے بد اعمال سے ہلاک ہوا یا اس کے سوا کسی اور کو معبود بنا لیا تو سمجھو کہ وہ شخص خدا تعالیٰ کے کمالات کی طرف سے اپنی توجہ پھیر لینے، اس کے عجائبات کا نظارہ نہ کرنے اور جو امور اس کی شایان شان ہیں ان سے باطل پرستوں کی طرح غفلت برتنے کے نتیجہ میں ہلاک ہو گیا‘‘۔ (اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل نہیں کی تو وہ ہلاک ہو گیا، کسی اور کو معبود بنا لیا، کسی شخص کو خدا تعالیٰ کے کمالات کا حاصل کرنے والا بنا لیا، اُس کی نظر سے اللہ تعالیٰ کی جو شان ہے وہ پوری طرح اُس کے سامنے نہیں آئی، مخفی ہو گئی یا دوسرے کو اُس نے اللہ تعالیٰ کے مقابلے پر کر لیا تو وہ کیا نتیجہ ہو گا اُس کا، ایسا شخص ہلاک ہو جائے گا۔) فرمایا ’’کیا تو نصاری کو نہیں دیکھتا کہ انہیں توحید کی دعوت دی گئی تو انہیں اسی بیماری نے ہلاک کیا اور ان کے گمراہ کرنے والے نفس اور پھسلا دینے والی خواہشات نے ان کے لئے یہ گمراہ کن خیال خوبصورت کر کے دکھا دیا اور انہوں نے ایک عاجز بندے کو خدا بنا لیا۔ اور گمراہی اور جہالت کی شراب پی لی۔ اللہ تعالیٰ کے کمال اور اس کی صفات ذاتیہ کو بھول گئے اور اس کے لئے بیٹے اور بیٹیاں تراش لیں۔ اگر وہ اللہ تعالیٰ کی صفات اور اس کے شایان شان کمالات پر گہری نظر ڈالتے تو ان کی عقل خطا نہ کرتی اور وہ ہلاک ہونے والوں میں سے نہ ہو جاتے۔ پس یہاں اللہ تعالیٰ نے اس طرف اشارہ فرمایا ہے کہ اللہ جلّ شانہٗ کی معرفت کے بارہ میں غلطی سے بچانے والا قانون یہ ہے کہ اس کے کمالات پر پورا غور کیا جائے اور اس کی ذات کے لائق صفات کی جستجو کی جائے‘‘ (اُس کی صفات کا ادراک حاصل کیا جائے، اُس کو تلاش کیا جائے) ’’اور ان صفات کا وردکیا جائے‘‘ (بار بار دہرایا جائے) ’’جوہر مادی عطیہ سے بہتر اور ہر مدد سے مناسب تر ہیں اور اس نے اپنے کاموں سے جو صفات ثابت کی ہیں۔ یعنی اس کی قوت، اس کی طاقت، اس کا غلبہ اور اس کی سخاوت کا تصور کیا جائے۔ پس اس بات کو یاد رکھو اور لا پرواہ مت بنو اور جان لو کہ ربوبیت ساری کی ساری اللہ کے لئے ہے اور رحمانیت ساری کی ساری اللہ کے لئے ہے اور رحیمیت ساری کی ساری اللہ کے لئے ہے اور جزا سزا کے دن کامل حکومت اللہ کے لئے ہے۔ پس اے مخاطب! اپنے پرورش کنندہ کی اطاعت سے انکار نہ کر اور موحد مسلمانوں میں سے بن جا۔ پھر اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اس طرف اشارہ فرمایا ہے کہ وہ پہلی صفت کے زوال کے بعد کسی نئی صفت کو اختیار کرنے اور اپنی شان کے تبدیل ہونے اور کسی عیب کے لاحق ہونے اور نقص کے بعد خوبی کے پانے سے پاک ہے‘‘۔ (یعنی کوئی نقص اُس میں پیدا ہو ہی نہیں سکتا اس لئے خوبی کا سوال ہی نہیں، اُس میں ہے ہی خوبیاں ہی خوبیاں ہیں، یہ نہیں ہو سکتا کہ پہلے کوئی خوبی تھی تو اُس میں بہتری آ گئی) ’’بلکہ اس کے لئے اول و آخر اور ظاہر و باطن میں ابد الاباد تک حمد ثابت ہے۔ اور جو اس کے خلاف کہے وہ حق سے برگشتہ ہو کر کافروں میں سے ہو گیا۔
پس اللہ تعالیٰ تمام نقائص سے پاک ہے۔ جو اُس کی صفات کا صحیح ادراک نہیں کرتا، وہ تباہی کے گڑھے میں گرتا ہے۔ تمام پہلی قوموں کی تباہی اسی لئے ہوئی کہ انہوں نے خدا تعالیٰ کی صفات کو نہیں پہچانا اور شرک میں پڑ گئے اور اگر پہچان لیا تو بھول گئے‘‘۔
پھر اس بات کی وضاحت فرماتے ہوئے کہ مسلمانوں کو یہ تعلیم دی گئی ہے کہ ان کا معبود وہ ہے جس کے لئے سب حمد ہے، آپ فرماتے ہیں کہ:
’’اَلْحَمْدُلِلّٰہ کے الفاظ میں مسلمانوں کو تعلیم دی گئی ہے کہ جب اُن سے سوال کیا جائے اور اُن سے پوچھا جائے کہ اُن کا معبود کون ہے؟ تو ہر مسلمان پر واجب ہے کہ وہ یہ جواب دے کہ میرا معبود وہ ہے جس کے لئے سب حمد ہے اور کسی قسم کا کوئی کمال اور قدرت ایسی نہیں مگر وہ اس کے لئے ثابت ہے۔ پس تو بھولنے والوں میں سے نہ بن‘‘۔
تو صرف اَلْحَمْدُلِلّٰہ منہ سے کہہ دینا کافی نہیں، جب بھی الحمد کہی جائے تو فوراً خیال اس طرف پھرنا چاہئے کہ میرا ایک معبود ہے، ایک خدا ہے جس کی میں عبادت کرتا ہوں اور عبادت اس لئے کرتا ہوں کہ وہ میرا رب ہے، میرا اللہ ہے۔
پھر آپ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:
’’اس سورۃ کو اَلْحَمْدُلِلّٰہ سے شروع کیا گیا ہے جس کے یہ معنے ہیں کہ ہر ایک حمد اور تعریف اس ذات کے لئے مسلم ہے جس کا نام اللہ ہے اور اس فقرہ اَلْحَمْدُلِلّٰہ سے اس لئے شروع کیا گیا کہ اصل مطلب یہ ہے کہ خداتعالیٰ کی عبادت روح کے جوش اور طبیعت کی کشش سے ہو اور ایسی کشش جو عشق اور محبت سے بھری ہوئی ہو ہرگز کسی کی نسبت پیدا نہیں ہو سکتی جب تک یہ ثابت نہ ہو کہ وہ شخص ایسی کامل خوبیوں کا جامع ہے جن کے ملاحظہ سے بے اختیار دل تعریف کرنے لگتا ہے۔ اور یہ تو ظاہر ہے کہ کامل تعریف دو قسم کی خوبیوں کے لئے ہوتی ہے۔ ایک کمال حسن اور ایک کمال احسان‘‘ (یعنی کسی میں خوبصورتی ہو، تب تعریف کی جاتی ہے یا کسی کا احسان ہو کسی پر، تب اُس کی تعریف کی جاتی ہے) ’’اور اگر کسی میں دونوں خوبیاں جمع ہوں تو پھر اس کے لئے دل فدا اور شیدا ہو جاتا ہے۔ اور قرآن شریف کا بڑ امطلب یہی ہے کہ خداتعالیٰ دونوں قسم کی خوبیاں حق کے طالبوں پر ظاہر کرے تا اس بے مثل و مانند ذات کی طرف لوگ کھینچے جائیں اور روح کے جوش اور کشش سے اس کی بندگی کریں۔ اس نے پہلی سورۃ میں ہی یہ نہایت لطیف نقشہ دکھلانا چاہا ہے کہ وہ خدا جس کی طرف قرآن بلاتا ہے وہ کیسی خوبیاں اپنے اندر رکھتا ہے۔ سو اسی غرض سے اس سورۃ کو الحمد للہ سے شروع کیا گیا جس کے یہ معنے ہیں کہ سب تعریفیں اس کی ذات کے لئے لائق ہیں جس کا نام اللہ ہے‘‘۔
پس اللہ تعالیٰ کی ذات وہ ذات ہے جس میں حسن و احسان جمع ہیں اس لئے الحمد للہ سے شروع کیا گیا۔ اس میں بڑی وضاحت سے ایک جگہ آپ نے بیان فرمایا ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا حسن کیا ہے اور اللہ تعالیٰ کے احسان کیا ہیں، لیکن وہ ایک مضمون علیحدہ ہے یہاں صرف مختصر بتا دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کا حسن یہ ہے کہ تمام قسم کی خوبیاں اُس میں پائی جاتی ہیں جیسا کہ ذکر ہو چکا ہے کہ وہ تمام صفاتِ کاملہ کا جامع ہے، تمام صفات اُس میں جمع ہیں اور اُس کے احسان کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے چار بڑے بنیادی اصول اس سورۃ کے مطابق بتائے ہیں جن کا مختصر ذکر کرتا ہوں۔ اُس کا پہلا احسان یہ ہے کہ وہ رب ہے، یعنی پیدا کر کے پھر اُس کے مطابق اُس کے مطلوبہ مقام تک کی انتہا تک لے جاتا ہے، اُس کی پرورش کرتا ہے۔ دوسرا احسان یہ ہے کہ اُس کی صفتِ رحمانیت ہے جو دوسرا احسان ہے، جس کے مطابق اُس نے ہر جاندار کو طاقتیں عطا فرمائی ہیں اور اُس کی ضروریات کے مطابق اُس کی بقا کے سامان مہیا فرمائے ہیں۔ اور انسان کو اس میں سے سب سے زیادہ حصہ دیا ہے۔ تیسرا احسان یہ ہے کہ جو اُس کی صفتِ رحیمیت ہے کہ دعاؤں اور اعمالِ صالحہ کو قبول کرتا ہے اور بلاؤں اور آفات سے محفوظ رکھتا ہے، ان کا بدلہ دیتا ہے۔ چوتھا احسان اُس کا مالکیتِ یوم الدین ہے جس کے تحت وہ اپنے خاص فضل سے نوازتا ہے جس طرح چاہے اور جتنا چاہے عطا فرماتا ہے۔ اعمال کو پھل لگاتا ہے جو خالص اللہ تعالیٰ کے فضل سے لگتے ہیں۔ تو یہ چار احسان ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان فرمائے ہیں جن کا مختصر ذکر میں نے کیا ہے۔ پھر اس بات کی وضاحت فرماتے ہوئے کہ ربّ العالمین میں یہ اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر گمراہی کے بعد ہدایت کا دور لے کر آتا ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ:
’’اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنے قول رَبِّ الْعَالَمِیْنَ میں اس طرف اشارہ فرمایا ہے کہ وہ ہر چیز کا خالق ہے اور جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے وہ سب اسی کی طرف سے ہے اور زمین پر جو بھی ہدایت یافتہ جماعتیں یا گمراہ اور خطا کار گروہ پائے جاتے ہیں وہ سب عالمین میں شامل ہیں۔ کبھی گمراہی، کفر، فسق اور اعتدال کو ترک کرنے کا عالم بڑھ جاتا ہے یہاں تک کہ زمین ظلم و جور سے بھر جاتی ہے اور لوگ خدائے ذوالجلال کے راستوں کو چھوڑ دیتے ہیں۔ نہ وہ عبودیت کی حقیقت کو سمجھتے ہیں اور نہ ربوبیت کا حق ادا کرتے ہیں‘‘۔ (نہ بندگی کا حق ادا، کی حقیقت اُن کے سامنے ہوتی ہے اور نہ اللہ تعالیٰ کے رب ہونے کا حق ادا کیا جاتا ہے) فرمایا کہ ’’زمانہ ایک تاریک رات کی طرح ہو جاتا ہے اور دین اس مصیبت کے نیچے روندا جاتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ ایک اور عالم لے آتا ہے تب یہ زمین ایک دوسری زمین سے بدل جاتی ہے اور ایک نئی تقدیر آسمان سے نازل ہوتی ہے اور لوگوں کو عارف شناسا دل اور خدا تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے کے لئے ناطق زبانیں عطا ہوتی ہیں‘‘۔ (بولنے والی زبانیں عطا کی جاتی ہیں)۔ ’’پس وہ اپنے نفوس کو خدا تعالیٰ کے حضور ایک پامال راستہ کی طرح بنا لیتے ہیں۔ اور خوف اور امید کے ساتھ اس کی طرف آتے ہیں۔ ایسی نگاہ کے ساتھ جو حیاء کی وجہ سے نیچی ہوتی ہیں اور ایسے چہروں کے ساتھ جو قبلہ حاجات کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور بندگی میں ایسی ہمت کے ساتھ جو بلندی کی چوٹی کو دستک دے رہی ہوتی ہے‘‘۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہاں ذکر کیا ہے کہ ایک اور عالم لے آتا ہے تب یہ زمین ایک دوسری زمین سے بدل جاتی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھی الہام ہوا تھا۔ کشفی رنگ میں آپ نے دیکھا کہ آپ نے فرمایا کہ میں نے ایک نئی زمین اور نیا آسمان پیدا کیا ہے اور پھر میں نے کہا کہ آؤ اب انسان کو پیدا کریں۔ اس پر اُس زمانے میں مولویوں نے بڑا شور مچایا کہ دیکھو خدائی کا دعویٰ کر دیا ہے۔ تو آپ فرماتے ہیں کہ یہ خدائی کا دعویٰ نہیں ہے۔ مطلب یہ تھا کہ خدا تعالیٰ میرے ہاتھ پر ایک ایسی تبدیلی پیدا کرے گا کہ گویا آسمان اور زمین نئے ہو جائیں گے اور حقیقی انسان پیدا ہوں گے، وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کی خالص عبادت کرنے والے ہیں۔ عبودیت کا حق ادا کرنے والے ہیں اور ربوبیت کی پہچان کرنے والے ہیں۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ:
’’ایسی نگاہ کے ساتھ جو حیا کی وجہ سے نیچی ہوتی ہیں اور ایسے چہروں کے ساتھ جو قبلہ حاجات کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور بندگی میں ایسی ہمت کے ساتھ جو بلندی کی چوٹی کو دستک دے رہی ہوتی ہے۔ بندگی جو ہے انسان کی، اُس میں لگ جاتے ہیں، اُس کا حق اس طرح ادا کرتے ہیں جو انتہائی درجے کا حق ہے۔ ایسے وقتوں میں اُن لوگوں کی سخت ضرورت ہوتی ہے جب معاملہ گمراہی کی انتہا تک پہنچ جاتا ہے اور حالت کے بدل جانے سے لوگ درندوں اور چوپایوں کی طرح ہو جاتے ہیں تو اُس وقت رحمتِ الٰہی اور عنایتِ ازلی تقاضا کرتی ہے کہ آسمان میں ایسا وجود پیدا کیا جائے جو تاریکی کو دور کرے، اور ابلیس نے جو عمارتیں تعمیر کی ہیں اور خیمے لگائے ہیں انہیں منہدم کردے۔ تب خدائے رحمان کی طرف سے ایک امام نازل ہوتا ہے تا کہ وہ شیطانی لشکروں کا مقابلہ کرے‘‘۔ (جیسا کہ میں نے ابھی بیان کیا ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو الہام ہوا تھا، آپؑ نے کشف میں دیکھا تھا) فرمایا ’’اور یہ دونوں رحمانی اور شیطانی لشکر برسرِ پیکار رہتے ہیں‘‘۔ (ایک رحمانی لشکر ہوتا ہے، ایک شیطانی لشکر ہوتا ہے، آپس میں اُن کی جنگ جاری ہو جاتی ہے) اور ان کو وہی دیکھتا ہے جس کو دو آنکھیں عطا کی گئی ہوں۔ (یعنی کہ آنکھیں نظر سے دیکھنے والا بصیرت کی نظر رکھنے والا دیکھ سکتا ہے، خدا تعالیٰ کی صحیح بندگی ادا کرنے والا دیکھ سکتا ہے اُس کی ربوبیت کو پہچاننے والا دیکھ سکتا ہے) ’’یہاں تک کہ باطل کی گردنوں میں طوق پڑ جاتے ہیں اور امورِ باطلہ کی سراب نما دلیلیں معدوم ہو جاتی ہیں۔ پس وہ امام دشمنوں پر ہمیشہ غالب اور ہدایت یافتہ گروہ کا مددگار رہتا ہے۔ ہدایت کے عَلم بلند کرتا ہے اور پرہیز گاری کے اوقات و اجتماعات کو زندہ کرنے والا ہوتا ہے‘‘۔ (پرہیز گاری، نیکی، تقویٰ کی باتیں، زیادہ وقت اُس پر صرف ہوتے ہیں۔ ایسے اکٹھ ہوتے ہیں جہاں اللہ تعالیٰ کے ذکر ہو رہے ہوں، عبادت کی باتیں ہوتی ہیں، اللہ تعالیٰ کی صفات کا ذکر ہوتا ہے۔ ) ’’یہاں تک کہ لوگ سمجھ لیتے ہیں کہ اس نے کفر کے سرغنوں کو قید کر دیا ہے۔ اور ان کی مشکیں کس دی ہیں اور اس نے جھوٹ اور فریب کے درندوں کو گرفتار کر لیا ہے اور ان کی گردنوں میں طوق ڈال دئیے ہیں اور اس نے بدعات کی عمارتوں کو گرا دیا ہے اور ان کے گنبدوں کو توڑ پھوڑ دیا ہے اور اُس نے ایمان کے کلمے کو اکٹھا کر دیا ہے اور اُس کے اسباب کو منظم کر دیا ہے اُس نے آسمانی سلطنت کو مضبوط کیا ہے اور تمام رخنوں کو بند کر دیا ہے‘‘۔
پس آج نئی زمین اور نیا آسمان جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وجہ سے پیدا ہوا، جس سے فائدہ بھی ہم اُٹھا رہے ہیں، ہمیں خاص طور پر اس طرف توجہ کرنی چاہئے کہ تمام بدعات سے اپنے آپ کو بچانا ہے اور ایمانوں کو مضبوط کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی عبودیت کا حق ادا کرنے کی کوشش کرنی ہے۔ اُس کی ربوبیت کی صحیح پہچان کرنی ہے۔ تبھی ہم اس نئی زمین اور نئے آسمان سے فیضیاب ہو سکتے ہیں۔ پھر اس بات کی وضاحت فرماتے ہوئے کہ جب بندہ اپنے رب کو حقیقی رنگ میں پہچان لیتا ہے، اُس کی عبادت کے اعلیٰ معیار قائم کرنے لگتا ہے تو پھر وہ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ کا وہ ادراک پاتا ہے جو اُسے دوسروں سے ممتاز کر دیتا ہے۔ اس کی تفصیل میں آپ فرماتے ہیں کہ:
’’اللہ پاک ذات نے اپنے قول رَبِّ الْعَالَمِیْنَ میں یہ اشارہ فرمایا ہے کہ وہ ہر چیز کا خالق ہے اور آسمانوں اور زمینوں میں اُسی کی حمد ہوتی ہے اور پھر حمد کرنے والے ہمیشہ اُس کی حمد میں لگے رہتے ہیں اور اپنی یادِ خدا میں محو رہتے ہیں اور کوئی چیز ایسی نہیں مگر ہر وقت اُس کی تسبیح و تحمید کرتی رہتی ہے۔ اور جب اُس کا کوئی بندہ اپنی خواہشات کا چولہ اُتار پھینکتا ہے، اپنے جذبات سے الگ ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اور اُس کی راہوں اور اُس کی عبادات میں فنا ہو جاتا ہے۔ اپنے اس رب کو پہچان لیتا ہے جس نے اپنی عنایات سے اُس کی پرورش کی، وہ اپنی تمام اوقات میں اُس کی حمد کرتا ہے اور اپنے پورے دل بلکہ اپنے وجود کے تمام ذرات سے اُس سے محبت کرتا ہے تو اُس وقت وہ شخص عالمین میں سے ایک عالم بن جاتا ہے۔ پھر آپ نے اس کی مثالیں دی ہیں اور فرمایا کہ عالمین سے ایک عالم وہ ہے جس میں حضرت خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے‘‘۔
اور پھر آپ نے اپنے زمانے کی مثال بیان فرمائی کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے طالبوں پر رحم کر کے ایک اور گروہ پیدا کیا ہے جو مسیح موعود اور مہدی معہود کا گروہ ہے۔ پس جب ہم رب العالمین کے اس بھیجے ہوئے کے ساتھ منسلک ہو گئے ہیں تو ہمیں اس عالم کا حصہ بننے کے لئے اپنی ترجیحات خالصۃً للہ کرنے کی ضرورت ہے اور اس کے لئے ہمیں کوشش کرنی چاہئے تا کہ ہم رب العالمین کے انعامات سے فیض پانے والے بن سکیں پھر اس بات کی وضاحت فرماتے ہوئے کہ عالمین میں کیا کچھ شامل ہے؟ عالمین کی تعریف کیا ہے؟ آپ فرماتے ہیں کہ:
’’عالمین سے مراد مخلوق کو پیدا کرنے والے خدا کے سوا ہر ہستی ہے خواہ وہ عالمِ ارواح سے ہو یا عالمِ اجسام سے‘‘ (روحیں ہیں یا جسم ہے، جو بھی ہے اللہ تعالیٰ کے علاوہ ہر چیز جو ہے وہ عالمین میں شامل ہے) ’’خواہ وہ زمینی مخلوق ہے یا سورج اور چاند اور اُن کے علاوہ دیگر اجرام کی مانند کوئی چیز ہو۔ پس تمام عالم جنابِ باری کی ربوبیت کے تحت داخل ہے‘‘۔
پس جب سب کچھ اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کے تحت ہے اور ہم جانتے بھی ہیں کہ خدا تعالیٰ ہی ہے جو سب عالموں کا پرورش کرنے والا ہے لیکن پھر بھی ایسے مواقع آ جاتے ہیں جب بعض اوقات بندہ بندوں کو اپنا ربّ اور رازق سمجھنے لگ جاتا ہے۔ معاشرے کے دباؤ میں آ کر دنیا داری غالب آ جاتی ہے، ایسے حالات میں ایک مومن کو فوراً اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے اور کوشش کرنی چاہئے اور جائزہ لیتے ہوئے توبہ اور استغفار سے کام لیتے ہوئے رب العالمین کی طرف لوٹنا چاہئے تا کہ جس نئی زمین میں ہم آباد ہوئے ہیں اور جس نئے آسمان کی چھت ہمارے اوپر ہے اُس سے ہم فیض پا سکیں۔ پھر اس رَبِّ الْعَالَمِیْنَ کی وضاحت میں اس بات کی وضاحت فرماتے ہوئے کہ ظاہری ضرورتوں کے ساتھ روحانی ضرورتیں بھی اللہ تعالیٰ پوری فرماتا ہے، آپ فرماتے ہیں کہ:
’’خدا تمام دنیا کا خدا ہے اور جس طرح اُس نے ظاہری جسمانی ضروریات اور تربیت کے واسطے مواد اور سامان تمام قسم کی مخلوق کے واسطے بلا کسی امتیاز کے مشترکہ طور پر پیدا کئے ہیں اور ہمارے اصول کے رو سے وہ رب العالمین ہے اور اُس نے اناج، ہوا، پانی، روشنی وغیرہ سامان تمام مخلوق کے واسطے بنائے ہیں اسی طرح سے وہ ہر ایک زمانے میں ہر ایک قوم کی اصلاح کے واسطے وقتاً فوقتاً مصلح بھیجتا رہا ہے، جیسا کہ قرآنِ شریف میں ہے وان من امۃ الا خلا فیھا نذیر۔‘‘
پس جو بھیجتا رہا ہے تو اس زمانے میں بھی بھیجا۔
پھر رب العالمین کے اس پہلو کی وضاحت کرتے ہوئے کہ اللہ تعالیٰ کا فیض کسی خاص قوم سے خاص نہیں ہے آپ فرماتے ہیں کہ:
’’خدا نے قرآنِ شریف کو پہلے اسی آیت سے شروع کیا ہے جو سورۃ فاتحہ میں ہے کہ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ یعنی تمام کامل اور پاک صفات خدا سے خاص ہیں جو تمام عالموں کا رب ہے عالم کے لفط میں تمام مختلف قومیں اور مختلف زمانے اور مختلف ملک داخل ہیں۔ اور اس آیت سے جو قرآنِ شریف شروع کیا گیا یہ درحقیقت اُن قوموں کا رد ہے جو خدا تعالیٰ کی عام ربوبیت اور فیض کو اپنی ہی قوم تک محدود رکھتے ہیں اور دوسری قوموں کو ایسا خیال کرتے ہیں کہ گویا وہ خدا تعالیٰ کے بندے ہی نہیں ہیں اور گویا خدا نے اُن کو پیدا کر کے پھر ردی کی طرح پھینک دیا ہے۔ یا اُن کو بھول گیا ہے۔ یا نعوذ باللہ وہ اُس کے پیدا کردہ ہی نہیں ہیں‘‘۔
پس جس طرح رب العالمین مادی سامان انسان کی پرورش کا مہیا فرماتا ہے، روحانی سامان بھی مہیا فرماتا ہے۔ یہ اُس کی ربوبیت ہے۔ جو اس سے انکار کرتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی صفتِ ربوبیت سے انکار کرتا ہے۔ پس وہ لوگ جو اس زمانے میں سورۃ فاتحہ بھی پڑھتے ہیں اور پھر مسیح موعود کا انکار کر رہے ہیں، اُنہیں بھی سوچنا چاہئے اور ہمیں بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ بیعت کرنے کے بعد جیسا کہ میں نے کہا اپنی یہ کوشش کرنی چاہئے کہ ہم اپنی روحانیت اور تقویٰ میں ترقی کرنے والے ہیں۔ پھر آپ فرماتے ہیں کہ:
’’لفظ حمد میں ایک اور اشارہ بھی ہے اور وہ یہ کہ اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے میرے بندو! میری صفات سے مجھے شناخت کرو اور میرے کمالات سے مجھے پہچانو۔ میں ناقص ہستیوں کی مانندنہیں بلکہ میری حمد کا مقام انتہائی مبالغہ سے حمد کرنے والوں سے بڑھ کر ہے۔ اور تم آسمانوں اور زمینوں میں کوئی قابل تعریف صفات نہیں پاؤ گے جو تمہیں میری ذات میں نہ مل سکیں۔ اور اگر تم میری قابل حمد صفات کو شمار کرنا چاہو تو تم ہرگز انہیں نہیں گن سکو گے۔ اگرچہ تم کتنا ہی جان توڑ کر سوچو اور اپنے کام میں مستغرق ہونے والوں کی طرح ان صفات کے بارہ میں کتنی ہی تکلیف اٹھاؤ۔ خوب سوچو کیا تمہیں کوئی ایسی حمدنظر آتی ہے جو میری ذات میں نہ پائی جاتی ہو۔ کیا تمہیں ایسے کمال کا سراغ ملتا ہے جو مجھ سے اور میری بارگاہ سے بعید ہو اور اگر تم ایسا گمان کرتے ہو تو تم نے مجھے پہچانا ہی نہیں اور تم اندھوں میں سے ہو۔ بلکہ یقینا میں اللہ تعالیٰ اپنی ستودہ صفات اور اپنے کمالات سے پہچانا جاتا ہوں‘‘ (یعنی وہ صفات جن کی تعریف کی جاتی ہے اور اپنے کمالات جو ہیں اُن سے پہچانا جاتا ہوں) اور میری موسلا دھار بارش کا پتہ میری برکات کے بادلوں سے ہوتا ہے۔ پس جن لوگوں نے مجھے تمام صفات کاملہ اور تمام کمالات کا جامع یقین کیا اور انہوں نے جہاں جو کمال بھی دیکھا اور اپنے خیال کی انتہائی پرواز تک انہیں جو جلال بھی نظر آیا انہوں نے اسے میری طرف ہی نسبت دی اور ہر عظمت جو ان کی عقلوں اور نظروں میں نمایاں ہوئی اور ہر قدرت جو ان کے افکار کے آئینہ میں انہیں دکھائی دی (ان کی فکروں کی سوچ جہاں تک تھی، اُس میں دکھائی دی) ’’انہوں نے اسے میری طرف ہی منسوب کیا۔ پس یہ ایسے لوگ ہیں جو میری معرفت کی راہوں پر گامزن ہیں۔ حق ان کے ساتھ ہے اور وہ کامیاب ہونے والے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ تمہیں عافیت سے رکھے۔ اٹھو خدائے ذوالجلال کی صفات کی تلاش میں لگ جاؤ اور دانش مندوں اور غور و فکر کرنے والوں کی طرح ان میں سوچ و بچار اور امعان نظر سے کام لو‘‘۔ (یعنی گہری نظر اور سوچ سے کام لو) ’’اچھی طرح دیکھ بھال کرو اور کمال کے ہر پہلو پر گہری نظر ڈالو۔ اور اس عالم کے ظاہر میں اور اس کے باطن میں اس طرح تلاش کرو جیسے ایک حریص انسان بڑی رغبت سے اپنی خواہشات کی تلاش میں لگا رہتا ہے۔ پس جب تم اس کے کمال تام کو پہنچ جاؤ اور اس کی خوشبو پا لو تو گویا تم نے اسی کو پا لیا اور یہ ایسا راز ہے جو صرف ہدایت کے طالبوں پر ہی کھلتا ہے۔ پس یہ تمہارا ربّ اور تمہارا آقا ہے جو خود کامل ہے اور تمام صفات کاملہ اور محامد کا جامع ہے۔ اس کو وہی شخص پہچان سکتا ہے جو سورۃ فاتحہ میں تدبر کرے اور درد مند دل کے ساتھ خدا تعالیٰ سے مدد مانگے۔ وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ سے عہد باندھتے وقت اپنی نیت کو خالص کر لیتے ہیں اور اس سے عہد بیعت باندھتے ہیں اور اپنے نفوس کو ہر قسم کے بغض اور کینہ سے پاک کرتے ہیں ان پر اس سورۃ کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں اور وہ فوراً صاحب بصیرت بن جاتے ہیں‘‘۔
پس جیسا کہ میں نے پہلے بھی ذکر کیا ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں آ کر یہ وہ مقام ہے جس کی ہمیں ہمیشہ تلاش کرنی چاہئے اور اُس تک پہنچنا چاہئے۔ سورۃ فاتحہ کا تدبر بھی اور مکمل قرآنِ کریم پر تدبر کے رستے بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے رہنما اصولوں کے پیچھے چلنے سے ہی ہمیں مل سکتے ہیں۔ اللہ کرے کہ ہم آپ کی خواہش اور اشاعت کے مطابق اللہ تعالیٰ کی صفات کا ادراک حاصل کر کے اپنی زندگیوں کو اُس کے احکامات کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرنے والے بن سکیں۔
آج میں جمعہ کے بعد، نمازوں کے بعد دو جنازے بھی پڑھاؤں گاجو غائب جنازے ہیں۔ پہلا جنازہ ہے مکرمہ فتح بیگم صاحبہ اہلیہ مکرم مولانا احمد خان نسیم صاحب مرحوم جو ایڈیشنل ناظر اصلاح وارشاد تھے، مقامی کے ربوہ میں۔ عرصہ ہوا مکرم احمد خان نسیم صاحب تو فوت ہو گئے، اُن کی اہلیہ ہیں جو 4؍فروری کو وفات ہوئی ہے ان کی،اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔ بڑی نیک، دعا گو، نمازوں کی پابند اور تہجد گزار تقویٰ شعار اور وفا شعار خاتون تھیں۔ قرآنِ کریم کی تلاوت بڑی باقاعدگی سے کرنے والی، ان کے میاں جیسا کہ میں نے بتایا، مولانا احمد خان نسیم صاحب ایڈیشنل ناظر اصلاح و ارشاد تھے مقامی کے، اُس میں عموماً دیہاتی جماعتیں یا ضلعے شامل تھے، یا بعض ایسے جن میں زیادہ دیہاتی جماعتیں تھیں اور ضلع جھنگ اور سرگودھا کا ضلع ربوہ کے قریب ہونے کی وجہ سے احمدی اکثر ربوہ آ جایا کرتے تھے وہاں کے اور حضرت مولوی احمد خان نسیم صاحب کا گھر اُن کو اپنا گھر ہی لگتا تھا۔ تو اُن کے بیٹے نے لکھا کہ بعض دفعہ پچاس پچاس مرد و زن کا قافلہ سفر کرکے پہنچ جاتا تھا، مختلف جگہوں سے اور بڑی خندہ پیشانی سے یہ اُنکی مہمان نوازی کیا کرتی تھیں، فوراً طور پر، بغیر اطلاع کے آتے ہیں یہ لوگ، پتہ ہی ہے ہمارے معاشرے میں دیہاتی لوگ خاص طور پر، تو فوراً اُن کے لئے گرم گرم کھانا تیار کیا جاتا تھا۔ کبھی ان کے چہرے پر شکن نہیں آئی کہ یہ لوگ کس طرح آ گئے اور پھر یہ کہ مولوی صاحب کی وفات کے بعد بھی ان لوگوں سے ایک تعلق قائم ہو گیا تھا تو انہوں نے اس تعلق کو جاری رکھا اور لوگ اُسی طرح ان کے گھر آتے رہے۔ غرباء کا بہت خیال رکھتی تھیں، کبھی اپنے بچوں سے کچھ نہیں لیا لیکن اُن کو یہ تلقین ضرور کیا کرتی تھیں، غریبوں کو دو۔ جو رقم پاس ہوتی، اپنی غریبوں، فقیروں اور یتیموں کو تقسیم کر دیا کرتی تھیں، ان کے گھر میں کہتے ہیں غریبوں کا تانتا بندھا رہتا تھا، دکھ سکھ بانٹنے والی بھی ان کے پاس آ جایا کرتی تھیں اور سب سے بڑی خوبی یہ کہ خلافت سے انتہائی وفا کا تعلق تھا، ہمیشہ بچوں کو بھی اس کی تلقین کی، محبت پیدا کروائی ان کے دلوں میں اور اس کے لئے کوشش کرتی رہتی تھیں۔ موصیہ تھیں، اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے، درجات بلند فرمائے۔ یہ تین بیٹیاں اور تین بیٹے ان کے پیچھے ہیں یاد گار جن میں ایک بیٹے ان کے پاس تھے، دو بیٹے ان کے باہر ہیں، مکرم ناصر پروازی صاحب اور نسیم مہدی صاحب، جو امریکہ میں مبلغ ہیں ہمارے۔ پروازی صاحب بھی نہیں جا سکے جنازے پر اور نسیم مہدی صاحب بھی بعض وجہ سے نہیں جا سکے۔ اللہ تعالیٰ ان کو سب کو صبر اور حوصلہ دے۔ نسیم مہدی صاحب ہمارے مبلغ سلسلہ ہیں اور یقینا اُن کے لئے اُن کی والدہ کی دعائیں میدان میں بڑی کام آتی رہیں۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ آئندہ بھی یہ دعاؤں کے حامل بنتے رہیں۔
دوسرا جنازہ مکرمہ حاکم بی بی صاحبہ کا ہے جو مکرم مولوی غلام رسول صاحب معلم اصلاح و ارشاد پاکستان کی اہلیہ تھیں۔ 9؍فروری کو تقریباً سو سال کی عمر میں اُن کی وفات ہوئی ہے، اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔ یہ بھی بڑی نیک خاتون تھیں، دعا گو اور متوکل، انتہائی مالی تنگی کے حالات میں بھی بڑی وفا کے ساتھ اپنے خاوند کے ساتھ رہی ہیں۔ بڑی خود دار تھیں، کبھی کسی حالت میں بھی، مالی تنگی کی حالت میں بھی کسی آگے ہاتھ نہیں پھیلائے۔ لباس بھی، خوش لباس تھیں، کوشش کرتی تھیں کم میں زیادہ سے زیادہ اچھا گزارہ کریں۔ اٹھائیس سال تک رسول نگر میں رہی ہیں اور جو جماعتوں کا، وہاں کی جماعتوں کا سینٹر تھا اور مرکزی مہمان بھی وہاں جایا کرتے تھے، دوسرے مہمان بھی آتے تھے، اور ان کا گھر مہمان خانے کے طور پر استعمال ہوتا تھا اور بڑی خوش دلی سے اُن کی مہمان نوازی کیا کرتی تھیں۔ 1974ء کے ہنگامے میں بچے اور عورتیں گھر میں تھے، کوئی مردنہیں تھا تو یہ ساری ساری رات اپنی گھر کی شاہ نشین پر بیٹھ کر گھر میں جو موجود ہتھیار تھا اُس کے ساتھ پہرہ دیتی تھیں اور پھر جماعت کی غیرت، دین کی غیرت کا جذبہ بھی ان میں بڑا تھا۔ اسی فسادوں میں لوگوں نے مشورہ دیا کہ ان کے گھر کے باہر احمدیہ لائبریری لکھا ہوا ہے اُس بینر کو اتار دیں، بورڈ کو اتاد دیں جس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اقتباسات بھی تحریر تھے تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ اسی طرح لگا رہے گا، ہم کسی سے ڈر کر اپنے ہاتھوں سے اُسے نہیں اُتاریں گے۔ اسی طرح لجنہ کی صدر اور سیکرٹری لجنہ کے طور پر انہوں نے 1947ء سے 75ء تک توفیق پائی۔ غیر احمدی بچوں اور احمدی بچوں کو قرآنِ کریم پڑھایا کرتی تھیں۔ نظامِ جماعت، نظامِ خلافت سے وابستہ رہنے کی خاص طور پر بہت تلقین کرتی تھیں۔ ان کے بیٹے، تین بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔ اور ایک بیٹے ان کے ہمارے واقفِ زندگی مبارک احمد ظفر صاحب ہیں جو ایڈیشنل وکیل المال ہیں یہاں لندن میں اور دوسرے مبشر احمد ظفر صاحب، یہ بھی واقفِ زندگی ہیں انہوں نے سروس کے بعد وقف کیا ہے، اللہ تعالیٰ ان سب کو صبر اور حوصلہ دے اور مرحومہ کے درجات بلند فرمائے۔ ابھی جیسا کہ میں نے کہا کہ نمازوں کے بعد ان کا جنازہ ادا کیا جائے گا۔
سورۃ فاتحہ کے مضامین سے زیادہ سے زیادہ فیضیاب ہونے کی کوشش کرنی چاہئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جس طرح اس سورۃ کے مضامین کو مختلف جگہوں پر اپنی تحریرات میں کھول کر ہمارے سامنے بیان فرمایا ہے، یقینا ہم پر یہ ذمہ داری ڈالتا ہے کہ ہم اُس کو سمجھنے کی کوشش کریں، اس کا ادراک حاصل کرنے کی کوشش کریں تاکہ ہم اپنی ذات پر اس مضمون کو جاری کرکے اس سے فیضیاب ہو سکیں۔
سورۃ فاتحہ کا تدبر بھی اور مکمل قرآنِ کریم پر تدبر کے رستے بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے رہنما اصولوں کے پیچھے چلنے سے ہی ہمیں مل سکتے ہیں۔
مکرمہ فتح بیگم صاحبہ اہلیہ مکرم مولانا احمد خان نسیم صاحب مرحوم ایڈیشنل ناظر اصلاح و ارشاد اور مکرمہ حاکم بی بی صاحبہ اہلیہ مکرم مولوی غلام رسول صاحب معلم اصلاح و ارشاد پاکستان کی وفات۔ مرحومین کا ذکر خیر اور نماز جنازہ غائب۔
فرمودہ مورخہ 10؍فروری 2012ء بمطابق 10؍تبلیغ 1391 ہجری شمسی، بمقام مسجد بیت الفتوح۔ مورڈن۔ لندن
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔