صحابہ حضرت مسیح موعودؑکے نہایت دلچسپ، ایمان افروزتبلیغی واقعات
خطبہ جمعہ 9؍ مارچ 2012ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
انبیاء دنیا میں بندے کو خدا کے قریب کرنے کے لئے، بندے کو اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والا بنانے کے لئے، بندے کو اللہ تعالیٰ کی بتائی ہوئی تعلیم پر چلانے کے لئے آتے ہیں۔ اور ان سب انبیاء میں سے کامل اور مکمل تعلیم لے کر ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اوپر اتری ہوئی تعلیم کو دنیا میں پھیلانے کا حق ادا کر دیا۔ جو پیغام لے کر آئے تھے اُس کو دنیا میں پھیلانے کا ایسا حق ادا کیا کہ جس کی کوئی مثال نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عرب کے بدوؤں کو بھی پیغامِ حق پہنچایا۔ غلاموں کو بھی پیغامِ حق پہنچایا۔ رؤوساء مکہ کو بھی پیغامِ حق بغیر کسی خوف کے پہنچایا اور بڑے بڑے بادشاہوں کو بھی پیغامِ حق پہنچا کر خدا تعالیٰ کی عبادت کا حق ادا کرنے کی طرف توجہ دلائی۔ اور پھر اس عظیم کام کو آپؐ کے صحابہ نے بھی دنیا تک پہنچایا اور پھر چودہ سو سال بعد اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدے کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلامِ صادق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مبعوث فرمایا۔ جنہوں نے پھر اس عظیم کام کی تجدید کی اور دنیا کو خدا تعالیٰ کی طرف بلایا۔ دنیا کو بتایا کہ اللہ تعالیٰ کی راہ کس طرح تلاش کرنی ہے، کس طرح اُس تک پہنچا جا سکتا ہے۔ اور اگر اللہ تعالیٰ کی تلاش ہے، اُس تک پہنچنے کی خواہش ہے تو اب صرف اور صرف مذہب اسلام ہے جو اللہ تعالیٰ تک پہنچاتا ہے۔ پھر آپ نے غیر مذہبوں کو بھی یہی دعوت دی۔ اپنی ایک نظم کے ایک مصرعے میں آپ فرماتے ہیں: ’’آؤ لوگو کہ یہیں نورِ خدا پاؤ گے‘‘۔ (آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد 5صفحہ 225)
پھر ایک جگہ آپ اپنی نثر میں، تحریر میں فرماتے ہیں کہ:
’’دنیا کے مذاہب پر اگر گہری نظر کی جاوے تو معلوم ہو گا کہ بجز اسلام ہر ایک مذہب اپنے اندر کوئی نہ کوئی غلطی رکھتا ہے۔ اور یہ اس لئے نہیں کہ درحقیقت وہ تمام مذاہب ابتداسے جھوٹے ہیں‘‘(آجکل جو مذہبوں میں غلطی ہے فرمایا کہ اس لئے نہیں کہ شروع سے ہی وہ جھوٹے تھے) ’’بلکہ اس لئے کہ اسلام کے ظہور کے بعد خدا نے ان مذاہب کی تائید چھوڑ دی اور وہ ایسے باغ کی طرح ہو گئے جس کا کوئی باغبان نہیں اور جس کی آبپاشی اور صفائی کے لئے کوئی انتظام نہیں۔ اس لئے رفتہ رفتہ اُس میں خرابیاں پیدا ہو گئیں۔ تمام پھلدار درخت خشک ہو گئے اور اُن کی جگہ کانٹے اور خراب بوٹیاں پھیل گئیں۔ اور روحانیت جو مذہب کی جڑ ہوتی ہے بالکل جاتی رہی اور صرف خشک الفاظ ہاتھ میں رہ گئے‘‘۔ (اسلام (لیکچر سیالکوٹ)روحانی خزائن جلد 20صفحہ 203)
پھر آپ نے وضاحت سے فرمایا کہ اسلام کیونکہ آخری شریعت ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے اسلام کے ساتھ ایسا نہیں کیا کہ اس کی تعلیم خشک ہو جائے۔ ہر صدی میں مختلف جگہوں پر مختلف وقتوں میں، اس باغ کو ہرا رکھنے کے لئے اللہ تعالیٰ نگران بھیجتا رہا اور اس زمانے میں آپ نے فرمایا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے بھیجا ہے اور میں آخری ہزار سال کا مجدد ہوں۔ پس اسلام کے خوبصورت باغ کا خوبصورت حصہ بننے اور پھلدار درخت بننے کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عاشقِ صادق کے ساتھ جڑنا اب ہر مسلمان کا بھی فرض ہے۔ کیونکہ خدا تعالیٰ سے زندہ تعلق اب اسی ذریعہ سے پیدا ہو سکتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کی خوبصورت تعلیم کو نہ صرف ہندوستان میں بلکہ دوسرے ممالک میں بھی پہنچایا۔ اسی طرح آپ نے اپنے حلقہ بیعت میں آنے والے اپنے صحابہ کے دلوں میں بھی یہ روح پھونکی کہ دنیا کو یہ پیغام دو کہ خدا کی طرف آئیں، اُس سے تعلق جوڑیں اور یہ تعلق اب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلامِ صادق کے ساتھ جڑنے سے ہی حقیقی رنگ میں جڑ سکتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں آنے والے غریب مزدور لوگ بھی تھے، زمیندار بھی تھے، کسان بھی تھے، اَن پڑھ دیہاتی بھی تھے، ملازم پیشہ بھی تھے، کاروباری لوگ بھی تھے اور پڑھے لکھے لوگ بھی تھے اور ہر ایک نے اپنی اپنی استعداد کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پیغام کو سمجھا۔ آپ کی صحبت سے فائدہ اُٹھایا اور اس حقیقی پیغام کو، حقیقی اسلام کو سمجھ کر دنیا میں پھیلانے کی کوشش بھی کی۔ اپنے اپنے حلقہ میں پھیلانے کی کوشش بھی کی۔ دوسرے مذاہب پر اسلام کی بالا دستی کا حقیقی ادراک حاصل کیااور پھر اُن لوگوں میں شامل ہوگئے جو اللہ تعالیٰ کی طرف بلانے والے ہوتے ہیں۔ پس یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے پھر بڑی تیزی سے اسلام کے حقیقی پیغام کو نہ صرف ہندوستان میں بلکہ باہر بھی پھیلانے کی کوشش کی۔ اس وقت ان لوگوں کے چند واقعات، تبلیغی واقعات میں بیان کروں گا۔
حضرت امام دین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ مولوی فتح دین صاحب نے ہمارے نام ایک خط لکھا کہ دھرم کوٹ میں (دھرم کوٹ ایک جگہ کا نام ہے) مولوی عبدالسبحان مانیا والا مباحثے کے لئے آیا ہوا ہے۔ قادیان سے کوئی مولوی لے کر بہت جلد پہنچیں۔ ہم مولوی عبداللہ صاحب کشمیری کو ہمراہ لے کر دھرم کوٹ پہنچ گئے۔ وہاں بہت دوست جمع ہوگئے۔ مولوی صاحب بہت جماعت دیکھ کر بھاگو والے میں سردار بشن سنگھ کے پاس چلے گئے۔ ہماری تمام جماعت بھاگو والہ میں چلی گئی۔ (تبلیغ کا ایک شوق تھا وہاں پہنچ گئے۔) آخر مباحثہ زیرِ صدارت سردار بشن سنگھ کے قرار پایا اور وفات و حیاتِ مسیح پر گفتگو ہوئی مگر فریقِ مخالف اس بات پر بیٹھ گیا (یعنی کہ اس بات پر اَڑ گیا اور اسی پر ضد کرنی شروع کر دی۔) کہنے لگا کہ مَیں تب مباحثہ کروں گا جب تک یہ اقرار نہ کر لیں کہ مرزا صاحب کا نام قرآنِ شریف میں دکھاویں گے۔ (اور پھر شرط یہ لگائی کہ اس طرح نام دکھائیں کہ) ’’مرزا غلام احمد ولد مرزا غلام مرتضی‘‘ (قرآنِ کریم میں لکھا ہو، تب مَیں مانوں گا۔ نہیں تو مَیں بحث نہیں کروں گا۔ ) مولوی عبداللہ صاحب نے کہا کہ قرآنِ شریف سے دکھا دوں گا۔ تب سلسلہ گفتگو شروع ہو گیا۔ جب اُس (مولوی) نے مطالبہ کیا تو مولوی صاحب نے کہا (کہ) اگر انبیاء سابقین کے متعلق جو پیشگوئیاں ہیں، پہلے آپ دکھا دیں کہ اُن کے نام مع ولدیت لکھے ہیں تو ہم بھی اسی طریق پر دکھا دیں گے۔ اگر پہلوں میں یہ طریق ثابت نہیں تو ہم پر یہ سوال کیوں کیا جاتا ہے؟ فریقِ مخالف نے اس کا معقول جواب نہ دیا۔ آخر شرمندہ ہوکر بیٹھ گیا۔ سردار بشن سنگھ نے کہا، (جن کی زیرِ صدارت یہ سب مباحثہ ہوا تھا۔) یہ مولوی (تو) کچھ نہیں جانتا (اور پھر اُس کو پنجابی میں کچھ گالیاں والیاں بھی دیں۔) آخر (کہتے ہیں کہ) خدا نے فتح دی۔ اس مباحثے کا ذکر ہم نے حضرت صاحب(حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام) کے پاس کیا تو آپ نے فرمایا مولوی صاحب نے یہ کیوں نہ کہا کہ میرا نام خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں اِسْمُہٗ اَحْمَد فرمایا ہے۔ (ماخوذ ازجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ جلد5صفحہ 57روایت حضرت امام دین صاحبؓ)
حضرت پیر افتخار احمد صاحب اپنے والد ماجد پیر احمد جان صاحب کے متعلق تحریر فرماتے ہیں کہ ’’میرے والد صاحب نے حضرت صاحب کے اس دعویٰ کو قبول کر کے (یہ بیعت سے پہلے آپ کا قصہ ہے۔ اُس وقت اس بات کو قبول کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہی اس زمانے کے مجدد ہیں۔) اپنے دوستوں اور واقف اور ناواقفوں میں بڑی سرگرمی کے ساتھ اشاعت شروع کی اور ایک طویل اشتہار بھی چھاپا جس کی نقل زمانہ حال میں (جب وہ لکھ رہے ہیں کہتے ہیں ) الفضل میں شائع ہو چکی ہے۔ (لکھتے ہیں کہ) میرے والد صاحب نے علاوہ تبلیغی اشاعت کے خود اور اپنے مریدوں سے مالی خدمت میں بھی حصہ لیا۔ ان کی زندگی کا آخری زمانہ اسی خدمت میں گزرا کہ جس قدر ہو سکے چندہ دیں اور اشاعت کریں۔‘‘ (رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ جلد 7 صفحہ1 روایت حضرت پیر محمد افتخار احمد صاحبؓ)
اور یہی اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کا مقصد ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے آج علاوہ کتابوں کے، دوسرے لٹریچر کے ایم ٹی اے کے ذریعہ سے بھی اللہ تعالیٰ مختلف زبانوں میں دین کی اشاعت کروا رہا ہے۔ ابتدا میں جب کبھی ایم ٹی اے کا سیٹلائٹ شروع ہوا تو ایک سیٹلائٹ تھا اور وہ چند گھنٹوں کے لئے تھا۔ آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے دس سیٹلائٹس پر ایم ٹی اے کے پروگرام دنیا میں ہر جگہ نشر ہو رہے ہیں۔ بلکہ انڈیا میں جہاں بڑے ڈشوں کی ضرورت پڑتی تھی، اب وہاں بھی کوشش ہو رہی ہے اور ایک ایسا سیٹلائٹ لے رہے ہیں کہ جہاں انشاء اللہ تعالیٰ جلد ہی چھوٹے ڈش سے، ڈیڑھ دو فٹ کے ڈش سے انشاء اللہ تعالیٰ ایم ٹی اے سنا جایا کرے گا۔
بہر حال اب روایتوں پر آتا ہوں۔ حضرت ماسٹر نذیر حسین صاحبؓ ولد حکیم محمد حسین صاحبؓ (مرہمِ عیسیٰ) فرماتے ہیں کہ ’’بچپن سے مجھے تبلیغ کا بہت شوق تھا۔ ستمبر 1903ء تک میرے والد بزرگوار بھاٹی دروازہ لاہور پٹ رنگا محلہ میں رہتے تھے۔ اس زمانے میں ایک دفعہ والد صاحب کے پاس ایک احمدی ابو سعید عرب بھی آیا تھا۔ اُس نے میرے دینی اور تبلیغ کے شوق کو دیکھ کر مجھے کچھ آسان رنگ کے دلائل وفاتِ مسیح ناصری اور آمد مسیح موعود علیہ السلام کے سکھلائے تھے۔ مَیں ان دلائل کو اکثر مسجد کے اماموں کے سامنے جا کر پیش کرتا اور کہتا کہ ان کا جواب دو۔ ایک دفعہ اُنہی ایام میں بھاٹی دروازے کی اونچی مسجد کے امام کے پاس گیا اور اُس کے سامنے بھی وہ دلائل پیش کئے تو اُس نے مجھے کہا کہ ہم تب تمہاری بات کا جواب دیں گے اگر تم مرزا صاحب کے ساتھ ایسے وقت کہ گرد اُڑ رہی ہو، چلو، اور جب وہ گھر جانے لگیں تو دیکھو کہ کیا اُن کے چہرے پر دوسروں کی طرح گرد و غبار ہے یا نہیں؟ (یعنی یہ شرط لگائی کہ سیر پرساتھ جاؤ، باہر نکلو اور یہ دیکھو جب مٹی اُڑ رہی ہے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے چہرے پر وہ مٹی آ کے پڑتی ہے کہ نہیں )۔ اگر تم خود مرزا صاحب کے متعلق اس کو دیکھ کر بتلاؤ تب مَیں تمہیں اس کا جواب دوں گا۔ (یہ نہیں کہا کہ مَیں مان لوں گا۔ بلکہ کہا کہ جواب دوں گا) اور بتاؤں گا کہ حقیقت کیا ہے؟ (کہتے ہیں کہ) چونکہ مجھے اس سے قبل کئی دفعہ حضرت اقدس کے ساتھ سیر کو جانے کا قادیان میں موقع ملتا رہا تھا۔ اس لئے اس کے بعد جلد والد صاحب کے ہمراہ قادیان آ گیا اور حضور کے ساتھ صبح سیر کے لئے گیا۔ حضور سیر میں تیز رفتار چلا کرتے تھے اور مَیں حضور کے ساتھ ساتھ چلنے کے لئے بسا اوقات دوڑتا ہوا جاتا تھا۔ اتفاق کی بات ہے کہ اُس دن کچھ ہوا بھی چل رہی تھی اور ریت مٹی اُڑ اُڑ کر تمام احباب پر پڑتی تھی۔ جب حضور سیر سے واپس آئے اور حضور اپنے مکان کے گول کمرے کے سامنے احباب سے رخصت ہونے کے لئے ٹھہرے۔ تمام احباب نے حضور کے گرد حلقہ بنا لیا، (دائرے میں کھڑے ہوگئے) اور خاکسار سب کو چیرتا ہوا حضور کے پاس جا کھڑا ہوا اور تمام احباب کے چہروں کو اور حضور کے چہرے کو غور سے دیکھنے لگا تو میری حیرانی کی کوئی حدنہ رہی جب مَیں نے دیکھا کہ حضور کے چہرے پر گرد و غبار کا کوئی نشان نہ تھا اور باقی تمام لوگوں کے چہروں پر گرد و غبار خوب پڑا ہوا تھا۔ مَیں نے اس کا ذکر اُسی دن حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ سے بھی کیا تو حضور نے فرمایا کہ مسیح موعود کے لئے ایسا ہونا بطور نشان کے ہے۔ واپسی پر لاہور آ کرمَیں نے اونچی مسجد کے امام سے اس کا ذکر کیا اور ساتھ ہی اس کو حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کے سامنے پیش کرنے کا ذکر کیا اور بتلایا کہ انہوں نے فرمایا تھا کہ یہ مسیح کا نشان ہے۔ تو اُس مولوی نے جھٹ کہہ دیا کہ مَیں نہیں مانتا۔ تم کو تو نورالدین نے یہ سب قصہ بنا کر سکھلایا ہے۔ الغرض وہ تو اس سعادت سے محروم رہا اور ہم نے خود اپنی آنکھوں سے اس نشان کو دیکھا۔‘‘ (رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 7 صفحہ 62روایت حضرت ماسٹر نذیر حسین صاحبؓ)
پھر حضرت شیر محمد صاحبؓ بیان فرماتے ہیں کہ ’’مَیں نے ایک دفعہ خواب دیکھا کہ ایک کنواں دودھ کا بھرا ہوا ہے اور میں نے بعض دوستوں کو کنویں میں سے بالٹیاں بھر بھر کر دودھ پلایا۔ لہٰذا وہ کنواں خشک ہو گیا۔ اس پر مَیں مولوی فتح دین صاحب کے پاس گیا اور اُن کو یہ خواب سنائی۔ انہوں نے فرمایا کہ تم مولوی عبدالکریم صاحب کے پاس جاؤ یا مولوی نورالدین صاحب کے پاس جاؤ۔ اس پر مَیں قادیان میں آیا اور مولوی عبدالکریم صاحب کو یہ خواب سنائی تو انہوں نے فرمایا کہ ’’دودھ‘‘ سے مراد علم ہے۔ مَیں نے کہا کہ مَیں تو ایک حرف تک پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ انہوں نے فرمایا کہ اس علم سے مراد وہ علم ہے جو خدا سکھائے۔ اور جو بالٹیاں بھر بھر کے پلایا ہے، اس سے یہ مراد ہے کہ کئی دوست آپ سے مسیح موعودؑ کے دعویٰ کے متعلق فیض اُٹھائیں گے۔ اور کنواں خشک ہونے سے مراد یہ ہے کہ وہ لوگ جو تمہیں تبلیغ کرنے سے روکتے تھے اور حضرت اقدسؑ (مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام) کو مہدی کہنے سے روکتے تھے، وہ ایک دن تیرے سامنے مردہ ہو جائیں گے۔ لہٰذا یہ تینوں باتیں پوری ہو گئیں، (لکھتے ہیں کہ تینوں باتیں پوری ہو گئیں )، اور خان فتح میں میری اتنی مخالفت کے باوجود تمام گاؤں کا گاؤں ہی میری تبلیغ اور خدا تعالیٰ کی مدد اور حضور کی دعاؤں سے احمدی ہو گیا۔‘‘ (رجسٹر روایات صحابہؓ غیرمطبوعہ جلد 7 صفحہ 82 روایت حضرت شیر محمد صاحبؓ)
پھر حضرت قاضی محمد یوسف صاحبؓ (یہ مردان کے تھے) فرماتے ہیں کہ:
’’اپنے دورانِ سیاحت میں ہندوستان میں بمبئی، کراچی، دہلی، آگرہ، شملہ اور کلکتہ کے دیکھنے کا موقع ملا۔ بلوچستان میں سبّی، کوئٹہ اور مستونگ دیکھے۔ افغانستان میں جلال آباد، کابل اور چارے کار نعمانی دیکھے۔ پنجاب میں کوہ مری، قادیان، گورداسپور، امرتسر، راولپنڈی، سیالکوٹ، لاہور اور وزیر آباد دیکھے۔ سرحد تمام اور ایجنسیاں دیکھیں۔ اور پھر سوات اور جموں اور کشمیر دیکھا۔ روضہ بل میں حضرت یوز آسف، یسوع یوسف کی قبر دیکھی جو محلہ خانیار میں واقع ہے۔ جب خاکسار نے بیعت کی تو اُسی دن سے تمام اسلامیہ سکول کے طلباء میں، شہر پشاور کے تمام محلوں کے طلباء میں قادیانی، قادیان اور مرزا قادیان کے نام سے مشہور ہوگیا‘‘۔ (یعنی جس دن بیعت کی اُسی دن ایسا اظہار کیا کہ سارے سکول میں مشہوری ہو گئی۔ کہتے ہیں کہ) ’’اگر فٹبال فیلڈ میں جاتا تو تمام شاہی باغ میں یہی چرچا ہوتا رہتا کہ احمدیت کی خوب شہرت ہوئی اور لوگوں نے سوالات کرنے شروع کئے اور روزمرہ مباحثات اور سوال و جواب کا اکھاڑہ جم جاتا۔ (سکول میں جاتے تھے تو) سکول میں شاہی باغ میں اور جہاں بھی موقع پیش آتارفتہ رفتہ یہ چرچا عام ہوتا گیا اور میرے ایامِ ملازمت میں سکول اور شہر کے دائرے سے نکل کر اطرافِ پشاور اور پھر اطرافِ سرحد میں پھیل گیا۔ کیونکہ میں تمام اضلاع میں سرحد میں دوروں پر آنریبل چیف کمشنر صوبہ سرحد کے ساتھ جایا کرتا۔ اور سرحد کی ایجنسیوں میں بھی اتفاق ہوتا۔ اسلامیہ کالج اور مشن کالج میں سرحد کے تمام اضلاع کے لڑکے پڑھتے۔ اُن کو بورڈنگوں میں جا کر ملتا …، (وہاں بھی تبلیغ کرتے) میرے ذریعے احمدیت کو تمام سرحد میں اشاعت اور بذریعہ تحریر بھی اور بذریعہ تقریر بھی اور کثرت سے اور معمر لوگ داخلِ سلسلہ احمدیہ ہوتے گئے۔ لوگ جو میرے ذریعے احمدی ہوئے یا پھر اُن کے ذریعے احمدی ہوئے اُن کی تعداد کم از کم دو اڑھائی سو افراد پر مشتمل ہو گی۔ ان میں سے کچھ تو فوت ہو گئے، کچھ زندہ ہیں۔ (لیکن کہتے ہیں کہ کچھ اُن میں سے خلافتِ ثانیہ میں) پیغامی ہو گئے اور کچھ جماعت میں موجود ہیں۔‘‘ (ماخوذ ازرجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ جلد 7 صفحہ197-198روایت حضرت قاضی محمد یوسف صاحبؓ)
حضرت احمد دین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ولد مانا صاحب فرماتے ہیں۔ ’’میں نے ایک دفعہ خطبہ جمعہ میں مسیح موعود علیہ السلام کے منہ سے سنا۔ آپ نے فرمایا کہ میری جماعت کے بے علم بھی دوسروں پر غالب رہیں گے اور وہ (یعنی غیراحمدی) اُن کا مقابلہ نہ کر سکیں گے۔ چنانچہ مَیں نے تجربہ سے دیکھا ہے کہ مَیں نے باوجود بے علم اور اَن پڑھ ہونے کے غیر احمدی علماء کو بالکل ساکت اور مات کر دیا حتی کہ انہوں نے کہا کہ تُو جھوٹ بولتا ہے کہ میں بے علم اور اَن پڑھ ہوں۔‘‘ (رجسٹر روایات صحابہؓ غیرمطبوعہ جلد 7 صفحہ 26 روایت حضرت احمد دین صاحبؓ)
یعنی مولویوں نے پھر یہ ماننے سے انکار کر دیا کہ آپ پڑھے لکھے نہیں۔ حضرت ڈاکٹر محمد بخش صاحبؓ ولد میاں کالے خان صاحب فرماتے ہیں کہ ’’خاکسار نے 1903ء میں بذریعہ خط از چھاؤنی چتوگ ضلع شملہ بیعت کی تھی۔ حضور کی زیارت 1902ء میں کی۔ اُس وقت حضور نے ریشِ مبارک کو مہندی لگا کر اوپر کپڑا باندھا ہوا تھا۔ کمر میں تہ بند یعنی چادر بندھی ہوئی تھی۔ حضور مسجد مبارک کے قریب والے مکان میں صحن کے اندر چارپائی پر تشریف فرما تھے۔ اُس وقت چار پانچ آدمی تھے جن سے حضور نے مصافحہ کیا اور ہر ایک کے حالات دریافت کرتے رہے۔ خاکسار سے پوچھا۔ کہاں سے تشریف لائے ہیں؟عرض کی موضع کھیراں والی ریاست کپور تھلہ سے اور رخصت پر آیا ہوا ہوں۔ مَیں توپ خانے میں ملازم ہوں۔ وہاں اکیلا میں احمدی ہوں اور فوج میں تبلیغ بڑی مشکل ہے۔ (شوق مجھے ہے لیکن تبلیغ مشکل ہے۔) وہاں افسر تبلیغ نہیں کرنے دیتے۔ حضور نے فرمایا کہ تم اکیلے نہیں رہو گے۔ استقلال کے ساتھ تبلیغ احمدیت کرتے رہو۔ گھبراؤ نہیں۔ پھر حضور علیہ السلام نے دریافت کیا کہ ایک ہی جگہ چھاؤنی میں رہتے ہو؟ عرض کی کہ ہر تین سال کے بعد چھاؤنی بدل جاتی ہے۔ فرمایا کہ جہاں بھی جاؤ وہاں کی جماعت سے ملتے رہا کرو۔‘‘ (رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ جلد 7 صفحہ 126 روایت حضرت ڈاکٹر محمد بخش صاحبؓ)
یہ بڑی اصولی اور ضروری ہدایت آپ نے فرمائی کہ جہاں جانا ہے، ہر احمدی کوجماعت سے ضرور رابطہ رکھنا چاہئے۔ حضرت ماموں خان صاحبؓ ولد کالے خان صاحب فرماتے ہیں کہ ’’مَیں نے 1902ء میں ایک خواب دیکھا کہ چاند میری جھولی میں آسمان سے ٹوٹ کر آ پڑا ہے۔ مَیں نے اس خواب کو سید محمد شاہ صاحب مرحوم ماچھی واڑہ کو جو کہ مخلص احمدی تھے، سنایا۔ انہوں نے بتایا کہ تم کو عزت ملے گی یا کسی بزرگ کی بیعت کرو گے۔ میری عمر اُس وقت 24سال کی تھی۔ مَیں اور سید محمد شاہ صاحب ماچھی واڑہ کے سکول میں ہر دو ملازم تھے۔ انہوں نے تبلیغ کا سلسلہ مجھ سے شروع کر دیا۔ ان دنوں پنڈت لیکھرام کی پیشگوئی کی شہرت تھی۔ مَیں نے شاہ صاحب سے عرض کی کہ (یہ) پیشگوئی جو کہ پنڈت لیکھرام کے متعلق ہے سچی ہوئی تو ضرور بیعت کر لوں گا۔ چنانچہ یہ پیشگوئی پوری ہوئی۔ مَیں نے فوراً بیعت کر لی۔ اُس وقت مولوی عبدالکریم صاحب زندہ تھے۔ سید محمد شاہ صاحب سے مَیں نے بیعت کا خط لکھوایا۔ حضور کے پیش ہوا‘‘۔ (یعنی جب خط حضرت مسیح موعود کی خدمت میں پیش ہوا تو حضرت مولوی عبدالکریم صاحب نے اپنے ہاتھ سے اس کا جواب دیا۔ کہتے ہیں) ’’خط میرے نام پہنچا کہ بیعت منظور ہو گئی ہے اور آپ کے لئے حضرت صاحب نے دعا کی ہے۔‘‘ 1904ء میں خط کے ذریعے بیعت کی تھی اور دستی بیعت 1906ء میں قادیان میں آ کر کی۔ (ماخوذازرجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 7 صفحہ 149 روایت حضرت ماموں خان صاحبؓ)
حضرت میاں عبدالرشید صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ ’’لاہور میں ایک غیر احمدی کا لڑکا جو ریلوے میں ملازم تھا، آریہ خیالات کا ہو گیا۔ اُس کے والدین کو اس سے بڑی پریشانی ہوئی۔ اور وہ اُس کو بیگم شاہی مسجد کے ایک مولوی کے پاس لے گئے۔ اُس نے مولوی صاحب (کے) سامنے جب چند آریوں کے اعتراضات پیش کئے تو وہ بہت طیش میں آ گیا اور اُس کو مارنے کے لئے دوڑا۔ (آریوں کے اعتراض پیش کئے۔ مولوی کے پاس جواب کوئی نہیں تھا۔ مولوی غصے میں آ کر اُس کو مارنے لگا) جس پر وہ نوجوان اپنی پگڑی وغیرہ وہیں چھوڑ کر بھاگ پڑا۔ لوگ بھی اُس کے پیچھے بھاگے۔ لوگوں کی یہ حالت دیکھ کر ایک احمدی احمد دین صاحب جو رفو گری کا کام کرتے تھے وہ بھی ساتھ ہو لئے اور اُس کے مکان تک ساتھ گئے۔ اصل واقعہ معلوم کرنے کے بعد وہ میرے پاس آیا۔ (میاں عبدالرشید صاحب کے پاس وہ احمدی آیا) اور مجھے اس کے حالات سے آگاہ کیا اور کہا کہ اُس کو ضرور ملنا چاہئے اور اس کے خیالات کی اصلاح کی کوشش ہونی چاہئے۔ (یہ درد تھا کہ ایک مسلمان کیوں آریہ ہو گیا۔ اور یہ احمدیوں میں ہی درد تھا۔ مولوی تو صرف مارنے پر تلے ہوئے تھے۔) چنانچہ (کہتے ہیں) مَیں اُن کے ہمراہ اُس کے مکان پر گیا۔ پہلے تو وہ گفتگو ہی کرنے سے گریز کرتا تھا اور صاف کہتا تھا کہ مَیں تو آریہ ہو چکا ہوں۔ مجھ پر اب آپ کی باتوں کاکوئی اثر نہیں ہو سکتااور اُس نے گوشت وغیرہ ترک کر کے آریہ طریق اختیار کر لیا ہوا تھا۔ اُن کی مجالس میں جاتا اور اُن کی عبادات میں شریک ہوتا تھا۔ (خیر کہتے ہیں) میرے بار بار جانے اور اصرار کرنے پر وہ کسی قدر مجھ سے مانوس ہوا۔ جب وہ سیر کو جاتا تو میں بھی اُس کے ہمراہ ہو جاتا۔ بعض اوقات میں اُس کے لئے انتظار بھی کرتا کہ جب وہ سیر کو نکلے گا تو مَیں اُس کے ہمراہ ہو جاؤں گا۔ تھوڑے دنوں کے بعد اِیسٹر کی تعطیلات آگئیں۔ مَیں نے اُسے کہا کہ میرے ساتھ قادیان چلو مگر وہ اس کے لئے تیار نہ ہوتا تھا اور کہتا تھا کہ مَیں مولویوں کے پاس جانے کو تیار نہیں ہوں۔ اس پر میں نے اُس کو بہت سمجھایا کہ قادیان میں کسی تکلیف کا اندیشہ نہیں اور آپ سے کسی قسم کا برا سلوک نہ ہوگا۔ جو چاہیں اعتراضات پیش کریں اور میں ہر قسم کی ذمہ داری لیتا ہوں۔ آخر بڑے اصرار کے بعد وہ آمادہ ہو گیا … (اور ہم قادیان گئے۔ ) وہاں جا کر ہم حضرت مولوی صاحب سے ملے۔ (یعنی حضرت مولوی نورالدین صاحب خلیفۃ المسیح الاولؓ سے ملے۔ ) آپ نہایت شفقت سے پیش آئے اور (اُس لڑکے کو) فرمایا کہ آپ جو چاہیں اعتراض کریں جواب دیا جائے گا۔ مَیں نے آپ کی خدمت میں یہ عرض کیا کہ حضور انہوں نے گوشت وغیرہ ترک کر دیا ہوا ہے۔ (حضرت خلیفہ اوّل کو کہا کہ یہ گوشت نہیں کھاتے۔) اور ہندؤوانہ طریق اختیار کیا ہوا ہے۔ چنانچہ حضرت مولوی صاحب نے اپنے گھر سے مونگی کی دال اور چند روٹیاں مہمان خانے میں اُس کے لئے بھجوا دیں۔ اس بات سے وہ بہت متأثر ہوا (کہ میرے کھانے کا لحاظ رکھا گیا ہے۔) اُس دن ظہر کی نماز کے لئے جب مَیں گیا تو اُس کو ساتھ لے گیا۔ نماز کے بعد حضور مسجد مبارک میں تشریف فرما ہوئے۔ اُن دنوں حضور (حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام) آریوں کے متعلق کوئی تصنیف فرمارہے تھے۔ چنانچہ اُس وقت حضرت صاحب نے آریہ لوگوں کے اعتراضات کا ذکر مجلس میں کر کے اُن کے جوابات دئیے۔ اس کا اُس (لڑکے) پر بہت اثر ہوا۔ اور اس کے بہت سے اعتراضات خود بخود دور ہو گئے اور اسلام سے بھی ایک گونہ دلچسپی پیدا ہو گئی۔ عصر کی نماز کے بعد مَیں اُن کو حضرت مولوی صاحب(حضرت مولوی نورالدین صاحب خلیفۃ المسیح الاولؓ ) کے درس القرآن پر لے گیا۔ (حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں بھی قرآنِ کریم کا درس دیا کرتے تھے۔ کہتے ہیں مَیں وہاں لے گیا) جو مسجد اقصیٰ میں ہوتا تھا۔ اُس کے بعد ہم دونوں مولوی صاحب کی خدمت میں گئے اور مَیں نے عرض کی کہ حضور! انہیں کچھ سمجھائیں، مولوی صاحب نے فرمایا کہ ان کو جو اعتراض ہے وہ کریں۔ اس پر اُس نے گوشت خوری کے متعلق دریافت کیاجس کا جواب مولوی صاحب نے نہایت عمدہ طریق پر اُسے دیا اور اُس کی اس سے تسلی ہو گئی۔ مغرب کی نماز کے بعد پھر ہم حضور علیہ السلام کی خدمت میں مسجد مبارک میں حاضر ہوئے۔ حضور علیہ السلام شہ نشین پر بیٹھ کر گفتگو فرماتے رہے۔ لوگ عموماً مولوی عبدالکریم صاحب کی معرفت سوال و جواب کرتے تھے۔ چنانچہ یہ (لڑکا جو تھا یہ) گفتگو سنتا رہا۔ اس کے بعد اُس نے کوئی اعتراض نہیں کیا۔ دوسرے دن نماز ظہر کے وقت اُس نے وضو کیا اور جا کر نماز ادا کی۔ اُس دن پھر مولوی صاحب کا درس سنا۔ اور تیسرے دن اس آریہ دوست نے حضور (علیہ السلام) کی بیعت کر لی اور پھر اسلام میں داخل ہوا۔ (آگے بیان کرتے ہیں کہ) اور اب انہیں اسلام کے ساتھ ایسا اُنس پیدا ہوا کہ وہ آریہ سماج کی مجلسوں میں جا کر اسلام کی خوبیاں بیان کرتا اور آریوں کے اعتراضات کا جواب دیتا۔‘‘ (ماخوز ازرجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ رجسٹر نمبر 11 صفحہ 30تا 32۔ روایت حضرت میاں عبدالرشید صاحبؓ)
تو یہ درد تھا اُن لوگوں میں کہ ایک ایسے شخص کو بھی جو مسلمان ہے، ضائع نہیں ہونے دینا چاہتے تھے۔
پھر حضرت میاں عبدالعزیز صاحبؓ المعروف مغل صاحب بیان کرتے ہیں کہ ’’نیلے گنبد میں ایک پٹھان مولوی (یہ پٹھان مولویوں کا حال بیان کر رہے ہیں ) ادھیڑ عمر کا رہا کرتا تھا۔ اُس کو مَیں نے تبلیغ کی تو اُس نے تسلیم کیا کہ حضرت مسیح موعود (علیہ الصلوٰۃ والسلام) سچے ہیں مگر آپ مجھ کو بے فائدہ آ کر تبلیغ کرتے ہیں کیونکہ ہماری قوم میں یہ دستور ہے کہ اگر ہم ایک دفعہ انکارکر دیں تو پھر خدا بھی آ کر کہے گا تو ہم نہیں مانتے۔‘‘ اس کے بعد اُس مولوی کا انجام یہ ہوا، سنا کہ وہ خود کشی کر کے مر گیا۔ (ماخوذ ازرجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ جلد 9صفحہ28 روایت میاں عبدالعزیز صاحبؓ)
اور اسی طرح یہ ان کا دوسرا واقعہ ہے، یہ بھی ایک مولوی کا ہے، وہ بھی اتفاق سے ایک پٹھان تھا، اور وہ بھی زہر کھا کے کسی کے عشق میں خود کشی کر کے مر گیا۔ وہ کہتے ہیں کہ لوہاری منڈی کے اندر اُس کی دکان تھی۔ جب ہم وہاں سے گزرتے تو اکثر ہم کو دیکھ کر کہا کرتا تھا کافر جا رہے ہیں۔ میں نے ایک دفعہ اس کو کہا کہ آپ تحقیق تو کریں۔ آخر پرکھ کر تو دیکھیں۔ جب بھی ہم گزرتے ہیں آپ یونہی ہمیں کافر کہہ دیتے ہیں۔ اُس نے کہا کہ اگر خدا بھی مجھے آ کر کہے تو مَیں نہیں مانوں گا۔ وہ بھی وہی جواب۔ (ماخوذ ازرجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ جلد 9صفحہ28 روایت میاں عبدالعزیز صاحبؓ)
حضرت منشی قاضی محبوب عالم صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ مَیں نے میاں موسیٰ صاحب کو تبلیغ شروع کی۔ چنانچہ اُن کو قادیان بھیجا مگر وہ شامتِ اعمال سے قادیان سے بغیر بیعت کے واپس آ گئے۔ بعد ازاں مَیں اُن کو کبھی کبھی اخبار بدر سناتا رہا۔ پھر مَیں نے اُن کو ایک دن ایک حدیث کا ذکر سنایا کہ ایک بدوی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اُس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے کہا کہ کیا آپ خدا کی قَسم کھا کر کہہ سکتے ہیں کہ آپ خدا کے رسول ہیں؟ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قَسم کھا کر کہا کہ میں خدا تعالیٰ کا رسول ہوں۔ تب اُس بدوی نے بیعت کر لی اور اپنے قبیلے کو بھی بیعت کے لئے حاضر کیا۔ یہ واقعہ جب مَیں نے حضرت میاں محمد موسیٰ صاحب کو سنایا تو اُن کے دل پر بھی اس کا خاص اثر ہوا۔ چنانچہ انہوں نے اس وقت ایک کارڈ (یعنی اُس زمانے میں خط کے لئے کارڈ ہوتے تھے) حضرت صاحب کی خدمت میں لکھا کہ کیا آپ خدا کی قسم کھا کر کہہ سکتے ہیں کہ آپ مسیح موعود ہیں۔ یہ کارڈ جب حضرت صاحب کی خدمت میں پہنچا تو حضور نے مولوی عبدالکریم صاحب کو حکم دیا۔ لکھ دو کہ مَیں خدا کی قَسم کھا کر کہتا ہوں کہ مَیں وہی مسیح موعود ہوں جس کا وعدہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس امت کو دیا۔ اس کارڈ میں مولوی عبدالکریم صاحب نے اپنی طرف سے بھی ایک دو فقرے لکھ دئیے۔ جن کا مطلب یہ تھا کہ آپ نے خدا کے مسیح کو قَسم دی ہے۔ اب آپ یا تو ایمان لاویں یا عذابِ خداوندی کے منتظر رہیں۔ وہ کارڈ جب پہنچا تو میاں محمد موسیٰ صاحب نے اپنی اور اہل و عیال کی بیعت کا خط لکھ دیا۔ اس طرح سے (کہتے ہیں ) میں اب اکیلا نہ رہا بلکہ میرے ساتھ خدا تعالیٰ نے اُن کو بھی شامل کر دیا۔ (رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ جلد9صفحہ136-137روایت منشی قاضی محبوب عالم صاحبؓ)
پھر منشی قاضی محبوب عالم صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ ’’لاہور میں ایک وکیل ہوتے تھے اُن کا نام کریم بخش عُرف بکرا تھا۔ (یہ پتہ نہیں کیا نام رکھا ہے) وہ بڑی فحش گالیاں حضرت (مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام) کو دیا کرتے تھے۔ (بڑی گندی گالیاں دیتے تھے۔) ایک دن دورانِ بحث اُس نے کہا کہ کون کہتا ہے مسیح مر گیا۔ مَیں نے جواباً کہا کہ مَیں ثابت کرتا ہوں کہ مسیح مر گیا(یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام وفات پا گئے ہیں۔ ) اُس نے اچانک ایک تھپڑ بڑے زور سے مجھے مارا۔ اس سے میرے ہوش پھر گئے اور مَیں گر گیا۔ جب مَیں وہاں سے چلا آیا تو اگلی رات میں نے رؤیا میں دیکھا کہ کریم بخش عرف بکرا ایک ٹوٹی ہوئی چارپائی پر پڑا ہے اور اُس کی چارپائی کے نیچے ایک گڑھا ہے۔ اُس میں وہ گر رہا ہے اور نہایت بے کسی کی حالت میں ہے۔ صبح میں اُٹھ کر اُس کے پاس گیا اور مَیں نے اُسے کہا کہ مجھے رؤیا میں بتایا گیا ہے کہ تو ذلیل ہو گا۔ چنانچہ تھوڑے عرصے کے بعد اُس کی ایک (بیوہ) لڑکی کی وجہ سے جس کو ناجائز حمل ہو گیا اُسے بڑی ذلت اُٹھانی پڑی اور اُس کی جو ابارشن وغیرہ کرائی تو اُس کی وجہ سے بیٹی بھی اُس کی مر گئی۔ پولیس کو جب علم ہوا تو اس کی تفتیش ہوئی۔ اُس کا کافی روپیہ بھی خرچ ہوا۔ کہتے ہیں اُس کی عزت برباد ہوئی۔ شرم کے مارے گھر سے نہیں نکلتا تھا۔ پھر میں نے اُس کو آواز دے کر ایک دن کہا کہ تم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو گندی گالیاں دیا کرتے تھے یہ اس کا وبال چکھ لیا ہے۔ تو بہر حال اُس نے کوئی جواب نہ دیا۔‘‘ (ماخوذازرجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ جلد9صفحہ206تا207روایت منشی قاضی محبوب عالم صا حبؓ)
لیکن آجکل تو یہ حال ہے کہ اگر آپ پاکستان میں کسی مولوی کو صحیح طور پر بھی کچھ کہیں تو فوراً جیسا کہ پچھلی دفعہ مَیں نے بتایا تھا کہ قانون کا سہارا لے کر ایک قانونی کارروائی کی جاتی ہے۔ اپنی عزت و نام کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کے ساتھ منسوب کر کے ناموسِ رسالت کا مقدمہ کروا دیتے ہیں۔ یہ تو آجکل ان کاحال ہے۔
حضرت منشی قاضی محبوب عالم صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ ’’جس وقت میرا نکاح حضرت صاحب کی دعا کی برکت سے ہو گیا تو میں نے پنی ساس کو تبلیغ کی۔ وہ بہت متأثر ہوئی۔ (وہ احمدی نہیں تھی۔ تبلیغ سے متأثر تو ہوئی لیکن بیعت نہیں کی) ایک دن اُس نے مجھے اپنا زیور اتار کر دے دیا کہ یہ حضرت صاحب کی خدمت میں پیش کردو اور اُن سے عرض کرو کہ اس کاعوض مجھے قیامت کو ملے۔ چنانچہ میں وہ زیور لے کر قادیان گیا اور حضرت اقدس کی خدمت میں پیش کیا کہ یہ میری ساس نے دیا ہے اور اُس نے عرض کیا ہے کہ اس کا عوض قیامت میں مجھے ملے۔ حضور نے وہ قبول فرمایا اور زبانِ مبارک سے فرمایا۔ انشاء اللہ تعالیٰ اس کا عوض ان کو مل جائے گا۔ ایک مدت کے بعد جب وہ فوت ہو گئیں اور مَیں نے اُن کا جنازہ نہ پڑھا۔ کیونکہ (باقاعدہ) انہوں نے بیعت نہیں کی تھی۔ جب میں حضرت اقدس کی خدمت میں گیا۔ (1906ء کا واقعہ ہے، کہتے ہیں) اور مَیں نے عرض کیا کہ وہ فوت ہوگئی ہیں مگر مَیں نے اُن کا جنازہ نہیں پڑھا۔ حضور نے فرمایا۔ اُن کا جنازہ پڑھ لینا چاہئے تھا کیونکہ اُنہوں نے اپنے عمل سے ثابت کر دیا کہ وہ احمدی ہیں۔‘‘ (رجسٹر روایات صحابہؓ غیرمطبوعہ جلد9صفحہ265تا266روایت منشی قاضی محبوب عالم صا حبؓ)
ہو سکتا ہے ماحول کی وجہ سے یا کم علمی کی وجہ سے بیعت نہ کی ہو لیکن عمل ایسا تھا جس سے ثابت ہوا کہ وہ احمدی تھیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کا، اشاعتِ اسلام کا، خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنے کا جو مقصد تھا کہ اشاعتِ اسلام کے لئے سب کچھ دے دو، اُس کے لئے تو انہوں نے جو اُن کی پیاری چیزیں تھیں، جن سے ایک عورت کو محبت ہوتی ہے اُس زمانے میں تو بہت زیادہ ہوتی تھی، آج بھی ہے یعنی کہ زیور، وہ دے دیا۔ قیامت کا خوف تھا۔ دل میں اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کی خواہش تھی۔ لیکن یہاں یہ بھی واضح ہو جائے کہ اس کے یہ معنی بھی نہیں لینے چاہئیں کہ جو کوئی یہ کہہ دے کہ احمدیوں کوبُرا نہیں سمجھتے تو اُن کو احمدیوں میں شمار کر لیا جائے۔ اس موقع پر جیسا کہ انہوں نے کہا، اُنہوں نے اپنا مال، اپنی محبوب چیز اشاعتِ اسلام کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں پیش کی جس کے لئے آپ آئے تھے۔ صرف دل میں برا منانا یا احمدیوں کو اچھا سمجھنا کافی نہیں تھا۔ کیونکہ ایک جگہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ بھی فرمایا ہوا ہے کہ اگر وہ کوئی برا نہیں مناتے تو علی الاعلان پھر اس کا اظہار کر دیں۔ اظہار کیوں نہیں کرتے۔ اور پھر اگر کسی وجہ سے مجبوری نہیں ہے تو پھر بیعت میں بھی شامل ہونا چاہئے۔ صرف یہ کہہ دینا کہ ہم برا نہیں مناتے، یہ کافی نہیں ہے۔ (ماخوذازملفوظات جلد 5صفحہ526 مطبوعہ ربوہ)۔ حالات کے مطابق ہر فیصلہ ہوتا ہے۔
حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکیؓ بیان کرتے ہیں کہ ’’مَیں نے بیعت کرلی۔ حضرت اقدس کی کتابیں پڑھیں۔ ایک جوش پیدا ہوا اور تبلیغ شروع کر دی۔ اُن ایام میں میری تبلیغ کا طریق یہ تھا کہ جہاں چار پانچ آدمی اکٹھے بیٹھے دیکھتا، جاتے ہی السلام علیکم کہہ کر کہتا کہ مبارک ہو۔ لوگ متوجہ ہو کر پوچھتے کہ کیا بات ہے؟ میں کہتا کہ حضرت امام مہدی آ گئے ہیں۔ اس پر کوئی ہنسی اڑاتا۔ کوئی مخول کرتا۔ کوئی مزید تفصیل سے پوچھتا۔ غرضیکہ کسی نہ کسی رنگ میں بات شروع ہو جاتی اور میں تبلیغ کا موقعہ نکال لیتا‘‘۔ (رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ جلد 10صفحہ32روایت حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکیؓ)
تبلیغ کا موقع نکالنے کی بات ہے۔ آجکل جماعتیں اس طرح ہی بہت ساری جگہوں پر جو لیف لٹنگ (Leafletting) کر رہی ہیں تو اس کی وجہ سے دنیا میں اُن سے لوگ سوال جواب بھی کرتے ہیں۔ اور اُس سے بھی تبلیغ کے آگے موقع نکلنے چاہئیں۔ صرف اتنا کافی نہیں ہے کہ کاغذ دے دیا کہ جماعت احمدیہ کا امن کا پیغام ہے اور بس فرض پورا ہو گیا۔ بلکہ اُس رابطے کو، اُس تعلق کو پھر آگے بھی جس حد تک بڑھایا جاسکتا ہے بڑھانا چاہئے۔ اسی طرح جیسا کہ آجکل یہاں یوکے میں مساجد کے افتتاح ہو رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے تین مساجد کے افتتاح ہو چکے ہیں اور تین کے اَور انشاء اللہ تعالیٰ اگلے ایک مہینے میں ہونے ہیں۔ اب یوکے جماعت کو بھی اس طرف توجہ پیدا ہوئی ہے۔ اس سے بھی تبلیغ کے رستے کھلنے چاہئیں۔ رابطے پیدا ہونے چاہئیں اور زیادہ سے زیادہ تعلق وہاں کی مقامی جماعتوں کو اپنے ماحول میں پیدا کرنا چاہئے۔ کیونکہ مساجد سے جہاں مخالفت ہوتی ہے وہاں توجہ بھی پیدا ہوتی ہے اور ابھی تک جن مساجد کے افتتاح ہوئے ہیں اُن کی رپورٹس یہی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے پہلے جن لوگوں کے رابطے نہیں تھے، وہ بھی اب جماعت کے بارے میں معلومات لیتے ہیں اور جو معلومات لیں تو پھر ہمیں اُس سے بھر پور فائدہ اُٹھانا چاہئے۔
پھر حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکیؓ بیان کرتے ہیں کہ ’’میاں غلام محمد صاحب جو قوم کے ارائیں تھے اور موضع سعداللہ پور تحصیل پھالیہ ضلع گجرات کے باشندہ تھے وہ میرے ذریعے ہی خدا کے فضل سے سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئے تھے۔ ایسا ہی اُن کی برادری کے سب لوگ بھی بلکہ موضع سعد اللہ پور کے امام مسجد مولوی غوث محمد صاحب جو اہل حدیث فرقے کے فرد تھے، وہ بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے میری تبلیغ کے ذریعے احمدی ہوئے تھے۔‘‘ (رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ جلد 10صفحہ 63-64روایت حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکیؓ)
تو مولویوں میں بھی سعید فطرت ہیں جو دین کوسمجھتے ہیں، آجکل بھی ایسے بعض لوگ ہیں۔ پاکستان میں بھی ہیں اور دوسری دنیا میں بھی جو باوجود مذہب کے معاملے میں بڑے سخت ہونے کے اور لوگوں کی سنی سنائی باتوں کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مخالفت کرنے کے باوجود جب اُن کو حقیقت کا علم ہوتا ہے، پڑھتے ہیں، سمجھتے ہیں تو پھر بیعت میں بھی شامل ہو جاتے ہیں۔ حضرت میاں محمد عبداللہ صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ ’’ہمارے خاندان میں پہلے حاجی فضل الدین صاحب نے 1892ء میں قادیان جا کر بیعت کی تھی۔ حاجی صاحب میرے چچا زاد بھائی تھے۔ انہوں نے میرے والد صاحب اور دیگر میرے بھائیوں کو 1903ء تک تبلیغ کی۔ میرے والد صاحب نے ایک رات خواب دیکھا کہ قادیان کی طرف سے ایک پورے قد کا چاند بہت خوشنما (یعنی مکمل چاند جو تھا) روشنی دے رہا ہے۔ جس کی تعبیر میرے والد صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صداقت پر کی اور ہم سب نے اُسی دن بذریعہ خط بیعت کر لی۔‘‘ (رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ جلد 10صفحہ134روایت میاں محمد عبداللہ صاحبؓ)
حضرت مولوی محمد عبداللہ صاحبؓ بیان کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ’’تبلیغ مَیں بیعت سے پہلے بھی کیا کرتا تھا اور بیعت کے بعد تو مَیں نے اس قدر تبلیغ کی کہ سینکڑوں لوگ میرے ذریعے سے جماعت میں داخل ہوئے۔‘‘ (رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ جلد 10صفحہ219روایت مولوی محمد عبداللہ صاحبؓ)
یہ واقعات اور بھی کافی ہیں۔ انشاء اللہ آئندہ بیان کروں گا۔ اللہ تعالیٰ ان صحابہ کے درجات بلند فرمائے جنہوں نے بہت سوں کو زمانے کے امام کا پیغام پہنچایا اور پھر انہوں نے آگے تبلیغ کر کے اس پیغام کو آگے پہنچاتے چلے گئے اور یہ کام جاری رکھا۔ آج اُن کی نسلیں، اُنہی کی محنت، نیکیوں اور تقویٰ کے پھل کھا رہی ہیں۔ پس اپنے بزرگوں کے لئے بھی دعائیں کریں جن کی نسلوں میں اُن صحابہ کے ذریعے سے احمدیت آئی ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانے میں تھے۔ اور ہمیں اُن کابہت زیادہ شکر گزار ہونا چاہئے اور حقیقی شکر گزاری یہی ہے کہ جہاں اُن کے لئے دعائیں کریں وہاں اپنا تعلق بھی جماعت سے مضبوط کریں اور اس پیغام کو آگے سے آگے پہنچاتے چلے جائیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔
اس وقت آج بھی ایک افسوسناک اطلاع ہے۔ ہمارے ایک بھائی کو نوابشاہ میں شہید کر دیا گیا۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ مکرم مقصود احمد صاحب ابن مکرم محمد ادریس صاحب جو پہلے تو کرونڈی میں آباد تھے لیکن پچھلے چھبیس ستائیس سال سے دارالرحمت شرقی ربوہ میں رہائش پذیر تھے۔ مقصود صاحب کے خاندان کا تعلق قادیان کے قریب گاؤں ’’بھٹیاں گوت‘‘ سے ہے۔ ان کے خاندان میں احمدیت آپ کے دادا مولوی عبدالحق نور صاحب کی بیعت کے ذریعے سے آئی تھی۔ 1934ء میں انہوں نے بیعت کی تھی۔ ان کے دادا کو زمیندارہ کا وسیع تجربہ تھا جس کی وجہ سے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے شروع میں سندھ کی زمینوں کو آباد کرنے کے لئے اُنہیں بھجوایا تھا۔ ان کے داداناصر آباد، محمود آباد اور دوسری سٹیٹس میں بھی نگرانی پر مقرر رہے ہیں۔ پھر 1942ء میں جماعت کی سٹیٹ سے نکل کر انہوں نے اپنی زمینیں لے لی تھیں اور خیرپور منتقل ہو گئے۔ 21؍ دسمبر1966ء کو آپ کے دادا مکرم عبدالحق نور صاحب کو بھی شہید کر دیا گیا تھا۔ اُس وقت مقصود صاحب کی عمر بارہ سال کی تھی اور آپ اُس شہادت کے عینی شاہد تھے۔ پرانے شہداء کا جب ذکر ہو رہا تھا تو جون 1999ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے اپنے خطبہ میں شہداء کی فہرست میں ان کے دادا کا بھی ذکر کیا تھا۔ 1983ء تک کرونڈی میں رہے۔ اُس کے بعد پھر وہاں سے ربوہ شفٹ ہو گئے۔ جب سے ربوہ میں شفٹ ہوئے ہیں اُس وقت سے ہومیو پیتھک کیوریٹو کمپنی جو راجہ نذیر صاحب کا ایک ادارہ ہے اُس میں کام کر رہے تھے۔ اور آپ کے سپرد کمپنی کی طرف سے سندھ کا علاقہ تھا جہاں آپ ہر مہینے دورے پر، دوائیوں کی فروخت کے لئے یا آرڈر لینے کے لئے سیلز مین کے طور پر جایا کرتے تھے۔ کہتے ہیں گزشتہ ماہ 27؍ فروری سے سندھ کے دورے پر تھے اور 7؍مارچ 2012ء کو شہادت کے دن صبح تقریباً گیارہ بجے نوابشاہ پہنچے تھے جہاں سہ پہر تقریباً ساڑھے تین بجے نوابشاہ کے معروف موہنی بازار میں دو نامعلوم موٹر سائیکل سواروں نے ان کو روکا اور ان پر فائر کر دیا جس سے ان کی شہادت ہو گئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ پولیس لاش ہسپتال لے گئی۔ وہاں جا کر پوسٹ مارٹم ہوا۔
جیسا کہ ہم جانتے ہیں، نوابشاہ میں دس دن کے اندر یہ دوسری شہادت ہے۔ مرحوم موصی بھی تھے۔ شہید مرحوم کی اہلیہ بیان کرتی ہیں کہ مرحوم نے آج سے دو تین ماہ قبل اس بات کا ذکر کیا تھا کہ اُنہیں دھمکیاں مل رہی ہیں۔ نیز وہ ایک جگہ ہندو ڈاکٹر کی دکان پر دوائیوں کی سپلائی کے لئے جاتے تھے تو انتہاپسندوں نے اُس ہندو ڈاکٹر کو بھی دھمکی دی تھی کہ اگر اب یہ مرزائی تمہاری دکان پر آیا تو تمہیں بھی اور اس مرزائی کو بھی ہم مار دیں گے۔ پھر ان کی اہلیہ بیان کرتی ہیں کہ شہید مرحوم اعلیٰ اخلاق کے مالک تھے۔ نماز کے پابند، باقاعدگی سے نوافل ادا کرنے والے، باجماعت نماز ادا کرنے والے، اسی طرح مالی قربانی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے تھے۔ اپنی اہلیہ کا چندہ بھی اس سال خود ادا کیا اور دورے پر جانے سے پہلے اپنا چندہ بھی مکمل ادا کر کے دورے پر گئے تھے۔ دعوتِ الی اللہ کا شوق آپ کو اپنے دادا کی طرف سے ورثہ میں ملا تھا۔ سفر کے دوران میں بھی، چاہے چند دن کے لئے جاتے ہوں، جماعتی لٹریچر ہمراہ رکھتے تھے اور تقسیم کرتے اور فعال تبلیغ کرتے تھے۔ اور اسی تبلیغ کی وجہ سے یقینا وہاں دشمنی بھی پیدا ہوئی ہو گی۔ بازار میں ان کا تعارف ایک احمدی کی حیثیت سے تھا اور جب یہ تعارف ہو گیا تو اس بہانے پھر آپ لوگوں کو لٹریچر وغیرہ بھی دیتے تھے۔ انتہائی ملنسار اور محبت کرنے والے اور صفائی پسند انسان تھے۔ خدمتِ خلق کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے تھے۔ ضرورتمندوں کو مفت ادویات دیا کرتے تھے۔ خلافت سے بے انتہا تعلق تھا۔ اسی طرح قرآنِ کریم سے بھی آپ کو خاص عشق تھا۔ ان کی اہلیہ مزید بیان کرتی ہیں کہ ایک مرتبہ مَیں نے مکرم مقصود احمد صاحب کو کہا کہ کیا ہم بھی شہداء کی فیملی میں شمار ہو سکتے ہیں؟ تو جواباً آپ نے کہا کہ کیوں نہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ منتخب کر لے تو ہم بھی شامل ہو سکتے ہیں۔ پیچھے ان کی اہلیہ امۃ الرشید شوکت صاحبہ ہیں۔ اس کے علاوہ ان کے تین بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔ بیٹے ان کے یہیں مانچسٹر میں رہتے ہیں اور غیر شادی شدہ ہیں۔ بیٹیوں میں سے ایک شادی شدہ امریکہ میں ہے اور ایک وہیں ربوہ میں ہیں اور ہمارے ایک سکول میں ٹیچر ہیں۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند فرمائے اور ان سب لواحقین کو صبر عطا فرمائے۔ دشمنوں کی پکڑ کے جلد سامان فرمائے۔
ایک دوسرا جنازہ جو ابھی جمعہ کی نماز کے بعد پڑھاؤں گا ہاجرہ بیگم صاحبہ اہلیہ مکرم مستری محمد حسین صاحب درویش مرحوم قادیان کا ہے۔
یہ چار پانچ مارچ کی درمیانی رات کو اناسی(79) سال کی عمر میں وفات پا گئیں۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ آپ مکرم منشی عبدالرحیم صاحب فانی آف امروہہ کی بیٹی تھیں جو قادیان میں رہائش کی خاطر ہجرت کر کے 1950ء میں قادیان آ گئے تھے۔ مرحومہ کی شادی 1951ء میں ہوئی اور آپ نے اپنے شوہر کے ساتھ عرصہ درویشی نہایت صبر و شکر کے ساتھ گزارا۔ ان کے دس بچے تھے اور کثیر العیال ہونے کے باوجود انہوں نے پانچ بیٹوں اور پانچ بیٹیوں کی بڑی اچھی رنگ میں پرورش کی۔ سب بچے شادی شدہ اور عیالدار ہیں۔ مرحومہ موصیہ تھیں۔ بہشتی مقبرہ قادیان میں ان کی تدفین عمل میں آئی ہے۔ اللہ تعالیٰ مرحومہ سے مغفرت کا سلوک فرمائے۔ درجات بلند فرمائے۔ اپنی رضا کی جنتوں میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور ان کے لواحقین کو بھی صبرِ جمیل عطا فرمائے۔
حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے اسلام کی خوبصورت تعلیم کو نہ صرف ہندوستان میں بلکہ دوسرے ممالک میں بھی پہنچایا۔ اسی طرح آپ نے اپنے حلقہ ٔ بیعت میں آنے والے اپنے صحابہ کے دلوں میں بھی یہ روح پھونکی کہ دنیا کو یہ پیغام دو کہ خداکی طرف آئیں، اس سے تعلق جوڑیں اور یہ تعلق اب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام صادق کے ساتھ جڑنے سے ہی حقیقی رنگ میں جڑ سکتاہے۔
صحابہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے نہایت دلچسپ، ایمان افروزتبلیغی واقعات کا تذکرہ۔ اور اس حوالہ سے احباب جماعت کو اہم نصائح۔
مکرم مقصود احمد صاحب ابن مکرم ادریس صاحب آف ربوہ کی نوابشاہ میں شہادت۔ مکرمہ ہاجرہ بیگم صاحبہ اہلیہ مکرم مستری محمد حسین صاحب درویش مرحوم قادیان کی وفات۔ مرحومین کا ذکرخیر اور نماز جنازہ غائب۔
فرمودہ مورخہ 09؍مارچ 2012ء بمطابق 09؍امان 1391 ہجری شمسی، بمقام مسجد بیت الفتوح۔ مورڈن۔ لندن
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔