صحابہ حضرت مسیح موعودؑکے نہایت دلچسپ، ایمان افروزتبلیغی واقعات
خطبہ جمعہ 16؍ مارچ 2012ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
گزشتہ خطبہ میں مَیں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے صحابہ کے تبلیغ کے واقعات و تجربات بیان کئے تھے اور مَیں نے کہا تھا کہ کچھ واقعات رہ گئے ہیں وہ آئندہ بیان کروں گا، تو وہ آج ہی بیان کرتا ہوں۔ ان واقعات کے سنانے کا اصل مقصد تو جیسا کہ پہلے بھی مَیں کئی دفعہ کہہ چکا ہوں یہ ہے کہ ایک تو ان صحابہ کے لئے دعا ہو جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو قبول کیا اور ہمیں اس زمانے کے انعامات سے حصہ لینے والوں میں بنایا۔ اللہ تعالیٰ ان سب کے درجات بلند فرماتا چلا جائے۔ ورنہ شاید ہم میں سے بہت سے اس نعمت سے محروم رہتے جو اللہ تعالیٰ نے اتاری ہے۔ دوسرے ان کی نیکیاں، اُن کی ایمانی جرأت، اُن کی دین کے لئے غیرت، اُن کا دین کی خدمت کا جذبہ اُن کی نسلوں میں بھی روح پھونکنے والا ہو اور جو براہِ راست اُن سے خونی رشتہ نہیں رکھتے لیکن ایک روحانی رشتہ ان کے ساتھ ہے وہ اس تعلق کی وجہ سے اپنے اندر بھی ایک جوش اور ولولہ پیدا کر کے ان بزرگوں کے جذبات اور دلی تڑپ کو آگے بڑھانے والے ہوں اور اس فیض کو اپنی نسلوں میں بھی جاری رکھیں۔ تبھی ہم ان بزرگوں کے احسانوں کا حق ادا کر سکتے ہیں۔ بہت سے لوگ مجھے لکھتے ہیں، بعض دفعہ ملنے پر بتاتے بھی ہیں کہ فلاں بزرگ کا آپ نے ذکر کیا تھا اُن کے ساتھ میرا رشتہ داری کا، عزیز داری کایہ یہ تعلق ہے۔ لیکن ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ ان رشتوں کا حق تبھی ادا ہوتا ہے جب اُن کے نقشِ قدم پر بھی چلا جائے۔ پس اس ذمہ داری کے نبھانے کے احساس اور کوشش کو ہمیں ہمیشہ اپنے سامنے رکھنا چاہئے۔
آج جو مَیں ذکر کر رہا ہوں اُن میں سے پہلی روایت حضرت میاں جمال الدین صاحبؓ کی ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ ایک مولوی بنام نواب الدین قوم آرائیں، ساکن ایدرس ضلع امرتسر اپنے خیال میں یہ کہتا تھا کہ مَیں مرزائیوں کو درست کر رہا ہوں اور گاؤں گاؤں اور قصبے قصبے پھرتا تھا۔ کہتے ہیں موضع تارا گڑھ المشہور ’’نواں پنڈ‘‘ قوم ارائیاں جو اس (خاکسار) کے گھر کے قریب شمال میں تھا، وہاں آتے ہی اُس نے شور مچایا کہ یہاں کوئی مرزائی ہے تو میرے سامنے آئے۔ کہتے ہیں کہ چونکہ مجھ سے پہلے اس گاؤں میں کوئی احمدی نہیں تھا۔ سب مخالف ہی تھے اور بعض آدمی میرے واقف بھی تھے۔ انہوں نے مشورہ کر کے ایک آدمی کو میرے پاس بھیجا کہ یہاں آ کر مولویوں کا مقابلہ کریں۔ ان کا گاؤں جو تھا اُس کے قریب ہی تھا۔ کہتے ہیں کہ مَیں نے سوچا کہ یہ لوگ تماش بین ہوتے ہیں۔ حق اور حقیقت سے کچھ غرض نہیں ہوتی۔ آخر الامر فساد ہوتا ہے۔ مَیں نے کہا کہ مباحثات سے تو حضرت صاحب نے روکا ہوا ہے۔ بلا وجہ کے مباحثے اور بحثیں نہیں کرنی۔ یہ اُس زمانے کی بات ہے جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے منع فرما دیا تھا کیونکہ ان لوگوں پر اثر نہیں ہوتا جو مولوی طبقہ ہے۔ تو کہتے ہیں مَیں نے کہا مباحثات سے تو روکا ہوا ہے۔ اگر ان لوگوں کو زیادہ شوق ہے تو فساد کے ذمہ دار ہو جائیں۔ ہم آپ کے گاؤں میں آ جائیں گے۔ مولوی صاحب کے جو اعتراض ہوں گے وہ ایک دفعہ کہہ دیں اور ہم بجائے بحث کرنے کے اُس کے جواب ایک دفعہ بتادیں گے۔ لوگ خود فیصلہ کر لیں گے یا ہم فساد کے ذمہ دار ہوجاتے ہیں۔ اور مولوی صاحب اور ان کے گاؤں والے یہاں آ جائیں۔ کہتے ہیں وہ شخص پیغام لے کر اپنے گاؤں چلا گیا اور مولوی مذکور تین آدمی اُس گاؤں کے لے کر ہمارے گاؤں میں دوسرے راستے سے آ گیا اور ہمارے گاؤں کے چیف نمبر دار کو ملا جو مذہب کا ہندو تھا اور کہا کہ اگر کوئی یہاں مرزائی ہے تو میرا مقابلہ کراؤ۔ چیف نمبر دار نے میرے پاس ایک آدمی مجھے بلانے کے لئے بھیجا۔ مجھے آگے ہی اس کی خبر ہو چکی تھی۔ مَیں نے مولیٰ کریم سے دعا کی کہ الٰہی مَیں ایک نادان اور بے کس ہوں۔ کوئی اپنی خوبی پر گھمنڈ نہیں۔ محض تیرا فضل درکار ہے۔ حق اور حقیقت واضح کر دے۔ یہ دعا مانگ کر جہاں مولوی تھا مَیں وہاں آ گیا اور بہت ہندو اور مسلمان جمع ہو گئے۔ فرش بچھایا گیا۔ مَیں اور مولوی درمیان میں بیٹھ گئے۔ تھوڑی دیر خاموشی رہی۔ پھر مَیں نے مولوی سے بات شروع کی اور کہا کہ مولوی صاحب! کس بات کے لئے آپ سیاحت کرتے پھرتے ہیں۔ تو مولوی صاحب کہنے لگے کہ اُمّت محمدی میں بہت تفرقہ ہے۔ ان کی اصلاح کے لئے پھرتا ہوں۔ کہتے ہیں خاکسار نے اس پر کہا کہ آج تک کس قدر اصلاح کی اور کتنے سرٹیفکیٹ علماء و فضلاء کے اپنے مصلح ہونے کے متعلق حاصل کئے۔ مولوی صاحب نے کہا کہ ہاں حاصل کئے ہیں۔ تو مَیں نے اُنہیں کہا کہ پھر مجھے دکھائیں۔ مولوی صاحب کہنے لگے کہ وہ مَیں گاؤں چھوڑ آیا ہوں اور جلدی سے یہ کہہ دیا کہ اصل غرض میری یہ ہے کہ مرزا نے جو فساد ڈالا ہے خود کافر ہے اور لوگوں کو بھی کافر کرتا ہے(نعوذ باللہ)۔ ایسے لوگوں سے مباحثہ کرتا ہوں۔ تو اس پر کہتے ہیں۔ مَیں نے کہا کہ مجھے بھی وجوہِ کفر بتا دیں۔ نیز بحث کس بات پر کروگے؟ مولوی صاحب نے کہا تم اردو میں بات کر رہے ہو۔ مَیں عربی میں گفتگو کروں گا۔ تو مَیں نے کہا کہ مَیں عربی میں بول نہیں سکتا۔ پنجابی میں باتیں کر لو۔ مولوی نے اس پر کہا کہ اچھا پنجابی میں باتیں کر لیں۔ کہتے ہیں مَیں نے کہا کہ پھر تو بڑی اچھی بات ہے۔ مولوی صاحب کہنے لگے اپنا مذہب بتائیں۔ مَیں نے کہا پہلے آپ اپنا مذہب بتائیں۔ مولوی صاحب نے کہا کہ میرا مذہب حنفی ہے اور خدا کو وحدہٗ لاشریک جانتا ہوں اور محمد رسول اللہ کو سچا مانتا ہوں (صلی اللہ علیہ وسلم) اور حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بیس آیاتِ قرآنِ شریف سے اور حدیث صحیح کے ثبوت سے چہارم فلک پر اِس وجود کے ساتھ زندہ مانتا ہوں۔ جو اس سے انکار کرے اُس کو کافر سمجھتا ہوں اور تعلیم یافتہ ہوں۔ پھر کہنے لگے کے آپ اپنا مذہب اور تعلیم بتائیں۔ کہتے ہیں اس پر خاکسار نے کہا کہ مَیں اللہ تعالیٰ کو وحدہٗ لاشریک جانتاہوں۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین مانتا ہوں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کو قرآن اور حدیث سے فوت شدہ مانتا ہوں اور جو آنے والا عیسیٰ علیہ السلام اور مہدی تھا وہ اس امت میں سے تھا جو اس وقت حضرت مرزا غلام احمد صاحب نے دعویٰ مسیحیت اور مہدویت کیا ہے مَیں اس کو صدقِ دل سے سچا مانتا ہوں جو اس کو نہ مانے مَیں اُس کو حق پر نہیں سمجھتا۔ مجھے سندی علم کا دعویٰ نہیں ہے (یعنی تعلیم کا، دینی علم کا میراکوئی سرٹیفکیٹ نہیں ہے) اپنا ہی مطالعہ ہے نیز حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تاثیر صحبت سے اثر رکھتا ہوں۔ ہاں یہ بھی اقرار کرتا ہوں کہ حضرت ابنِ مریم بنی اسرائیل کو قرآنِ شریف کی صریح آیات اور حدیث متصل مرفوع سے کوئی شخص ثابت کر دے (یعنی ایسی حدیثیں جن کا روایات کے سلسلے میں تسلسل اوپر تک باقاعدہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچتا ہو۔ ) کہ وہ چہارم فلک پر اسی وجودِ عنصری سے صعود فرما گئے ہوئے ہیں اور آج تک زندہ بیٹھے ہیں تو توبہ کرنے کو تیار ہوں۔ (کہتے ہیں مَیں نے مولوی صاحب کو یہ کہا)۔ مولوی صاحب کہنے لگے۔ اچھا پھراس اقرار نامے کی ایک تحریر لکھ کر مجھے اس پر دستخط کر دو۔ مَیں نے ایک کاغذ قلم منگوایا اور عبارت لکھ کے دستخط کر کے مولوی صاحب کو دے دیا۔ مولوی نے کاغذ مذکور ہاتھ میں لیا اور پوچھا کہ تفسیروں کو مانتے ہو۔ مَیں نے کہا اُن تفسیروں کو مانتا ہوں جو قرآنِ شریف، حدیثِ صحیحہ کے موافق ہوں۔ پھر مولوی صاحب کہنے لگے قرآنِ کریم جانتے ہو۔ مَیں نے کہا جانتا ہوں۔ پھر مولوی صاحب فرمانے لگے کہ قرآن کے معنی کیا ہوتے ہیں؟مجھے پتہ تھا یہ بحث کرنا چاہتا ہے، تو اس پر مَیں نے کہا۔ نہیں، مَیں یہ نہیں بتاؤں گا۔ پہلے پہلی بات کا فیصلہ کر لیں۔ پھر مولوی صاحب نے کہا کہ ذٰلِکَ الْکِتٰبُ کے کیا معنے ہیں۔ مَیں نے پھرکہا کہ جس بات کے لئے ہم آئے ہیں وہ پہلے کریں۔ سوال اکٹھے کریں۔ آپ نے جواعتراض کرنے ہیں وہ کریں۔ مَیں نہیں بتاؤں گا۔ پھر مولوی صاحب نے اگلا سوال کر دیا کہ قرآنِ کریم کی آیات کتنی ہیں؟ پھر بھی مَیں نے کہا کہ آپ پھر وہی بات دہرائی جا رہے ہیں۔ پھر مولوی صاحب کہنے لگے مَیں کس طرح معلوم کروں کہ تم قرآنِ کریم جانتے ہو تو اس پرمَیں نے کہا کہ مَیں خدا کے فضل سے آپ سے بہتر قرآن جانتا ہوں۔ جو تم سوال کرتے ہو مَیں حلفیہ کہتا ہوں کہ آپ کو پیچھے اسی مجلس میں بتاؤں گا۔ (یعنی کہ اس مجلس میں ہی بیٹھ کر بتاؤں گا)اور خلط مبحث نہیں کروں گا۔ بلا وجہ کی بحث میں نہیں جاؤں گا۔ مولوی صاحب: تفاسیر متقدمین اور احوالِ خلفاء کو نہیں مانتا۔ مَیں نے کہا بڑی خوشی سے، یعنی کہ مَیں مانتا ہوں، اقوال حضرت ابوبکرؓ، عمرؓ، حضرت عثمانؓ، حضرت علیؓ کو مانتا ہوں بلکہ بہت سمجھتا ہوں۔ جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے۔ عَلَیْکُمْ بِسُنَّتِیْ وَ بِسُنَّۃِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِیْنَ الْمَھْدِیِّیْنَ۔ تم نے تو انہیں چار خلفاء پر خلافت کو محدود کر دیا ہے۔ ہم تو مرزا صاحب کو خلیفۃ اللہ مانتے ہیں۔ بلکہ اُن کے طریق کو نبی کریمؐ کی سنت سمجھتے ہیں۔ غرض یہ کہ اس ہیرپھیر میں آدھا گھنٹہ لگا دیا۔ تو مولوی صاحب کہنے لگے کہ قرآن کو سوائے تفسیروں کے سمجھ نہیں سکتے۔ اس پر مَیں نے کہا کہ یہ غلط ہے کہ قرآن کا سمجھنا صرف تفسیروں پر ہوتا ہے۔ تفسیروں کا سلسلہ بند ہو تو یہ سمجھا نہیں جائے گا۔ خدا وند تعالیٰ کو یہ منظور نہیں تھا۔ قرآنِ کریم کا تو یہ دعویٰ ہے کہ وَلَقَدْ یَسَّرْنَاالْقُرْاٰنَ (القمر: 18) اور اَفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ (النساء: 83)۔ کسی کا محتاج نہیں۔ خیر وہ مولوی صاحب جو اصل مدعا تھا اُس کی طرف نہیں آئے۔ ادھر اُدھر ہاتھ پیر مارتے رہے۔ آخر چیف نمبر دار نے کہا کہ وہ آیت قرآن کی پیش کریں جس سے مسیح کا آسمان پر چڑھ جانا اسی وجود کے ساتھ ثابت ہو۔ مولوی صاحب نے کہا۔ نمبر دار صاحب! مَیں آیت تو پیش کروں گا لیکن انہوں نے ماننا نہیں۔ نمبر دار نے کہا کہ مولوی صاحب! اگر یہ نہیں مانیں گے تو اور لوگ تو مانیں گے۔ مولوی صاحب مجبور ہوئے اور بولے کہ قرآن شریف منگاؤ۔ اُس وقت ایک مترجم حمائل دہلی کے چھاپہ کی منگوائی گئی۔ مولوی صاحب کے ہاتھ میں دی گئی۔ ہاتھ میں لیتے ہی بولے کہ یہ مرزے کا قرآن ہے۔ اس کو مَیں نہیں لیتا۔ پھر اس کو مَیں نے کہا کہ ہرگز مرزا صاحب کا قرآن نہیں۔ آنکھیں کھول کر دیکھیں۔ پھر مولوی صاحب نے یہی رَٹ لگائی۔ خیر مَیں نے پھر کہا کہ لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ۔ تین دفعہ کہا۔ مولوی صاحب نے قرآن کریم ہاتھ میں لیا اور مکتبہ کا نام، پریس کا نام دیکھا اور پوچھا کہ اس کا مصنف کون ہے۔ مَیں نے پھرکہا نعوذ باللہ آپ اس کو خدا کا کلام نہیں مانتے تبھی مصنف پوچھتے ہیں۔ خیر مولوی کہتا ہے۔ نہیں نہیں۔ غلطی ہو گئی۔ یہ کس کی تالیف ہے۔ مَیں نے پھرکہا مولوی صاحب ہوش کریں اور حسب منشاء خود آیت نکالیں۔ مولوی صاحب نے قرآنِ شریف کھولا اور پھر ورق گردانی شروع کر دی۔ بیس منٹ ورق گردانی کرتے رہے۔ کوئی آیت نہ ملی۔ پھر آخر مَیں نے اُن کو کہا کہ مولوی صاحب آپ بیس آیاتِ قرآنی بتا رہے ہیں۔ اگر ایک نہیں تو دوسری نکال دیں۔ دوسری نہیں تو تیسری نکال دیں۔ آخر مولوی کہنے لگا کہ قرآن میں تو وہ آیات نہیں نکلتیں۔ مجھے نظر نہیں آ رہیں۔ مَیں زبانی پیش کر دیتا ہوں۔ پھر مولوی صاحب کہنے لگے کہ یٰعِیۡسٰۤی اِنِّیۡ مُتَوَفِّیۡکَ (آل عمران: 56)۔ ترجمہ مولوی صاحب نے اس کایہ کیا کہ جب کہا اللہ تعالیٰ نے، اے عیسیٰ! مَیں تیری روح کو مع جسم پورے کے آسمان پر اُٹھانے والا ہوں۔ تواس پر کہتے ہیں کہ مَیں نے کہا مولوی صاحب! قرآن سے وہ آیت نکالیں اور الفاظ سامنے رکھ کر بحث ہو گی۔ مولوی صاحب نے پھر قرآن ہاتھ میں لیا۔ پھر دس منٹ تک ورق گردانی کرتے رہے۔ کوئی آیت نہ ملی۔ لوگوں نے اُن سے ٹھٹھا کرنا شروع کیا اور کہا کہ عجیب قرآن دانی ہے آپ کی کہ ایک مشہور آیت آپ کو نہیں ملی۔ لوگ اُن کا مذاق اُڑاتے وہاں سے اُٹھ گئے۔ (ماخوذ ازرجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ جلد7صفحہ181 تا185روایت حضرت میاں جمال الدین صاحبؓ)
اسی سے ملتا جلتا ایک واقعہ پچھلی دفعہ بھی مَیں نے سنایا تھا لیکن وہ اور واقعہ تھا۔ بہر حال یہ عموماً علماء کی جو نام نہادعلماء ہیں اُن کی عادت ہے۔
پھر حضرت منشی محبوب عالم صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ حکیم محمد علی صاحب موجد روح جیون بوٹی شاہی طبیب ریاست جموں و کشمیر تھے۔ وہ پنشن لے کر لاہور میں سکونت پذیر ہوئے۔ مَیں اُن کے ہاں ملازم تھا۔ وہ بھی اکثر مسیح موعودعلیہ السلام کی مخالفت کیا کرتا تھا اور بہت بد زبانی کیا کرتا تھا۔ چنانچہ ایک دن دورانِ گفتگو میں اُس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی شانِ مبارک میں دیّوث کا لفظ استعمال کیا۔ (نعوذ باللہ)۔ مَیں نے رات کو بہت دعائیں کی اور استغفار کیا کہ ایسے شخص سے مَیں نے کیوں گفتگو کی جس نے ایسی بے ادبی کی ہے۔ مگر رات کو مجھے خداوند کریم نے رؤیا میں دکھایا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام میاں چراغ دین صاحب مرحوم کے مکان میں تشریف فرما ہیں اور مَیں حاضرِ خدمت ہوا ہوں۔ جب مَیں نے حضور کو السلام علیکم کہا تو حضور نے جواب دیا وعلیکم السلام۔ اور مجھ سے پوچھا کہ وہ شخص جو ہمیں دیوث کہتا ہے کہاں ہے؟مَیں نے باہر کی طرف دیکھا تو محمد علی آ رہا تھا۔ میں نے عرض کیا کہ حضور وہ محمد علی حکیم ہے باہر آ رہا ہے۔ حضور نے فرمایا کہ اُس کو کہہ دو کہ ہم آپ سے ملاقات نہیں کرتے کیونکہ آپ دیوث ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا انتقام دیکھیں۔ اس رؤیا کے بعد چند ہفتے گزرے تھے کہ اُس کی لڑکی ایک کلرک کے ساتھ بھاگ گئی اور گوجرانوالہ محکمہ پولیس کے خفیہ افسر نے اُس کوپکڑ لیا۔ کلرک نے کہا یہ میری بیوی ہے۔ لڑکی نے کہا یہ میرا ملازم ہے۔ دونوں کے متضاد بیانات تھے۔ پولیس کو شبہ ہو گیا۔ گوجرانوالہ کے اسٹیشن پر اُن کو گاڑی سے اتار لیا۔ ڈپٹی کمشنر کے پیش ہوئے۔ وہاں لڑکی نے بیان دیا کہ میرا باپ دیوث ہے اور میری شادی نہیں کرتا۔ (اب یہ حکیم صاحب کی بیٹی خود بیان دے رہی ہے)۔ مَیں مجبوراً اس آدمی کے ساتھ ایک نوابزادے کے پاس جا رہی ہوں۔ خیر اُس نے اپنے واقعات سنائے۔ اُس ڈپٹی کمشنر نے کہا کہ تمہارے باپ کی ہتک ہو گی اُس کے پاس چلی جاؤ۔ مگر اس نے واپس جانے سے انکار کیا اور کہا باپ مجھے مار ڈالے گا۔ خیر ڈپٹی کمشنر نے کہا ہم انتظام کر دیتے ہیں اور لڑکی کو لاہور کے ڈپٹی کمشنر کے پاس بھیج دیا کہ لڑکی کے باپ کے حوالے کیا جائے مگر اُس سے ضمانت لی جائے کہ اسے کوئی تکلیف نہ دے۔ چنانچہ ڈپٹی کمشنر نے کچہری میں حکیم صاحب کو طلب کیا۔ جاتے ہی حکیم صاحب کو ڈانٹا اور کہا کہ تم بڑے دیوث ہو۔ (دوسری دفعہ پھر ڈپٹی کمشنر نے وہی بات کہی)۔ اپنی لڑکی کی حفاظت نہیں کرتے اور تم بڑے بے شرم ہو، جوان لڑکی کا رشتہ نہیں کرتے۔ پانچ ہزار روپے کی ضمانت لاؤ تب لڑکی تمہارے حوالے کی جائے گی۔ اور اس طرح وہ بدلہ لیا۔ پھر اس پر اس کا مزید عبرتناک انجام یہ ہوا کہ کچھ عرصے کے بعد مولوی صاحب شہر میں دیوث مشہور ہو گئے۔ ہر ایک اُن کو دیوث کہنے لگا۔ اور کچھ عرصے کے بعد وہی لڑکی پھربھاگ گئی اور عیسائی ہو گئی۔ (ماخوذ ازرجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ جلد9صفحہ 207تا209روایت حضرت منشی محبوب عالم صا حبؓ)
حضرت امیر خان صاحبؓ فرماتے ہیں کہ حضرت خلیفہ اول کی وفات پر جب مَیں نے سنا کہ چوہدری غلام احمد صاحب پیغامی ہو گئے ہیں تو مَیں وہاں پہنچا اور اُنہیں پیغامیوں کے حالات سے اطلاع دی۔ اَلْحَمْدُ لِلہِ کہ انہوں نے بہت اثر لیا اور پیغامی خیالات سے توبہ کر لی اور یہاں قادیان میں تشریف لائے۔ اسی طرح چوہدری نعمت خان صاحب سب جج کو میں نے موضع کھیڑی میں تبلیغ کی اور آپ اس کے تھوڑے عرصے بعد احمدی ہو گئے۔ پھر جب آپ ’اونہ‘میں تھے اور مَیں نے سنا کہ پیغامی خیالات رکھتے ہیں تو اُن سے مَیں (نے) خط و کتابت کی اور بہ عمل خود انہوں نے اپنے خیالات میں تبدیلی فرمائی۔ (ماخوذ ازرجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ جلد6صفحہ146-147 روایت حضرت امیرخان صاحبؓ)
اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب تو پیغامیوں کی تعداد ویسے بھی بہت تھوڑی رہ گئی ہے اور یہ جہاں جہاں تھے پچھلے دو تین سال میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے کافی تعداد میں احمدی ہوئے ہیں، مبائع ہوئے ہیں۔ حضرت مولوی عبداللہ صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ مَیں حضرت صاحب کی زیارت کے لئے حاضر ہوا۔ حضرت اُس وقت ایک جگہ کھڑے تھے۔ ایک صحابی حضرت صاحب کے پاس کھڑا تھا۔ اُس نے مجھ کو دیکھ کر حضرت صاحب کو کہا کہ یہ مولوی عبداللہ کھیوے والا ہے۔ اس کے ساتھ بڑے مقابلے ہوئے ہیں۔ یعنی تبلیغی مقابلے بحثیں وغیرہ۔ لیکن ہر میدان میں اس کو اللہ تعالیٰ غلبہ دیتا رہا ہے۔ حضرت صاحب نے فرمایا: ہاں حق کو ہمیشہ غلبہ ہی ہوتا ہے۔ یہ کلماتِ مبارک اس برکت والے منہ سے سن کر میری تسلی ہوئی اور بڑی خوشی ہوئی اور مجھے یقین ہو گیا کہ اس منہ سے یہ کلمہ نکلا ہے۔ مجھے امید ہو گئی کہ مَیں حق پر رہوں گا اور ہمیشہ اللہ تعالیٰ مجھے غلبہ ہی دے گا۔ تو اللہ تعالیٰ نے اُس وقت سے اب تک کسی مقابلے میں مجھے شکست نہیں ہونے دی، غلبہ ہی بخشا ہے۔ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ جلد10صفحہ221-222 روایت حضرت مولوی عبداللہ صاحبؓ)
حضرت چوہدری محمد علی صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ میرے والد صاحب سیالکوٹ جلسہ میں شمولیت کے لئے تشریف لے گئے، جب واپس تشریف لائے تو انہوں نے آ کر تبلیغ شروع کی۔ وہ خود بیعت کر کے آئے تھے۔ اُن کی تبلیغ سے گھٹیالیاں کے لوگ دھڑا دھڑ بیعت کرنے لگے۔ غالباً غلام رسول بسراء صاحب سے مَیں نے یہ سنا کہ حضرت صاحب نے جب یہ دیکھا کہ کثرت سے گھٹیالیاں کے لوگ بیعت کر رہے ہیں تو فرمایا یہ گھٹیالیاں کیا ہے؟ گاؤں ہے کہ شہر ہے۔ اس پر چوہدری محمد علی صاحب کے بھائی حاکم علی نے کہا کہ یہ روایت صحیح ہے۔ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ جلد10صفحہ 235روایت حضرت چوہدری محمدعلی خان صاحبؓ) (یہ آگے اس روایت کی تصدیق ہو رہی ہے)
پھر حضرت شیخ عبدالرشید صاحب کی روایت ہے کہ مولوی محمد علی صاحب بوپڑی غیر احمدی یہاں آیا کرتے تھے۔ بڑے خوش الحان تھے۔ اُس کے وعظ میں بے شمار عورتیں جایا کرتی تھیں۔ (آواز بھی اچھی تھی۔ وعظ بھی بہت اچھا کیا کرتے تھے۔ attractکیا کرتے تھے۔ لحن بھی اچھا تھا۔ تلاوت بھی اچھی کیا کرتے تھے) کہتے ہیں کہ دو دو تین تین ماہ یہاں رہا کرتے تھے۔ اُس نے آ کر حضرت کی مخالفت شروع کر دی۔ (یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مخالفت شروع کر دی)۔ بد زبانی بھی کرتا تھا۔ اُس کے ساتھ بھی بحث مباحثہ ہوتا رہا۔ میرے والدین نے مجھے جواب دے دیا(یعنی گھر سے نکال دیا)۔ والدہ زیادہ سختی کیا کرتی تھیں کیونکہ (مولوی) بوپڑی کا بڑا اثر تھا۔ والدین نے کہا ہم عاق کر دیں گے۔ کئی کئی ماہ مجھے گھر سے باہر رہنا پڑا۔ میرے والد صاحب میری والدہ کو کہا کرتے تھے کہ پہلے یہ دین سے بے پرواہ تھا۔ سویا رہتا تھا۔ اب نماز پڑھتا ہے۔ تہجد پڑھتا ہے۔ اسے مَیں کس بات پر عاق کروں۔ (ایک طرف مخالفت تھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی، دھمکی تھی کہ عاق کریں گے لیکن ساتھ ہی یہ بھی اثر تھا کہ جب سے احمدی ہوا ہے اس کی کایا پلٹ گئی ہے)۔ وہ کہتے ہیں لیکن پھر بھی دنیاوی باتوں کو مدّنظر رکھ کر مجھے کہا کرتے تھے کہ مرزائیت چھوڑ دو۔ مَیں یہی کہا کرتا کہ مجھے سمجھا دو۔ چنانچہ اس اثناء میں کئی دفعہ مولوی محمد حسین صاحب سے تبادلہ خیالات ہوا۔ مولوی محمد حسین صاحب ہمارے مقروض تھے۔ والد صاحب تقاضا کے لئے مجھے بھیجا کرتے تھے۔ اتفاق سے ایک دفعہ مولوی صاحب نے ایک اشتہار شائع کروایا جس میں خونی مہدی کا انکار تھا اور لکھا تھا کہ وضعی حدیثیں ہیں۔ یعنی خود بنائی ہوئی حدیثیں ہیں۔ ان کی کوئی صحت نہیں ہے۔ حضرت صاحب کو بھی یہ اشتہار پہنچ گیا۔ یہ اشتہار دیکھ کر حضرت صاحب نے ایک استفتاء تیار کیا اور ڈاکٹر محمد اسمٰعیل صاحب گوڑگاؤں والے کو مولوی کے پاس بھیجا۔ وہ علماء کے پاس فتویٰ لینے کے لئے گئے۔ بعض علماء نے فتوے دئیے، بعض نے انکار کیا۔ ڈاکٹر صاحب حضرت صاحب کو سنایا کرتے تھے۔ (جب مولوی محمد حسین کا یہ اشتہار پہنچا تو اس پر دوسروں سے، غیروں سے فتوے لینے کے لئے بھیجا کہ تم کیا کہتے ہو۔ کچھ نے تو اس کے خلاف فتویٰ دے دیا، کچھ نے اپنا پلّو بچایا)۔ بہر حال کہتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب جن کو مولویوں کے پاس حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھیجاتھا وہ حضرت صاحب کوسنایا کرتے تھے کہ مَیں بعض اوقات انگور یا دیگر پھل مولویوں کے پاس پیش کر دیتا تھا اور وہ حسبِ منشاء فتویٰ لگا دیا کرتے تھے۔ جا کے مولوی صاحب کو تحفہ دیا، کچھ پھل پیش کیا تو جیسا فتویٰ چاہو اُن سے لے لو۔ آج بھی ویسے یہ حال ہے لیکن آجکل ریٹس (Rates) زیادہ high ہو گئے ہیں۔ کہتے ہیں حالانکہ پہلے انکار کر چکے ہوتے تھے پھر بھی کچھ نہ کچھ لے کے فتویٰ دے دیتے تھے۔ حضرت صاحب یہ باتیں سن کے شملہ منہ کے آگے رکھ کر (پگڑی کا کپڑا منہ کے آگے رکھ کے) مسکرایا کرتے تھے۔ کہتے ہیں مجھے اس رسالے کا علم تھا جو مولوی محمد حسین صاحب نے شائع کیا تھا کہ اس میں مولوی صاحب نے یہ فتویٰ دیاہے۔ چنانچہ جب مولوی محمد حسین صاحب کے ساتھ تبادلہ خیالات ہوتا تھا تو مَیں یہ ذکر کرتا تھا۔ ایک دن میں نے اُن سے کہا کہ آپ کا عقیدہ مہدی کے متعلق تو یہ ہے جو آپ نے شائع کیا ہے۔ خونی مہدی نہیں آئے گا اور اس کے متعلق جو حدیثیں ہیں وہ ضعیف ہیں، کمزور ہیں، ظنی ہیں اور لوگوں کو آپ یہ کہتے ہیں کہ مہدی آئے گا۔ آپ دو طرف کیوں بیان دے رہے ہیں۔ ان کو اپنا اصلی عقیدہ کیوں نہیں بتاتے۔ لیکن وہ میری بات کا کوئی جواب نہیں دیتا تھا اور ہر دفعہ یہی کہتا تھا کہ جاؤ مرزائی ہو جاؤ۔ تمہیں اس سے کیا۔ (ماخوذ ازرجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ جلد12صفحہ29 تا31روایت حضرت شیخ عبدالرشید صاحبؓ)
حضرت شیخ محمد اسماعیل صاحبؓ ولد شیخ مسیتا صاحب فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام عصر کی نماز سے فارغ ہو کر مسجد مبارک میں ہی تشریف فرما ہوئے تو ایک نئے دوست نے عرض کی کہ حضور ہمارے گاؤں میں ایک مولوی صاحب آئے اور رات کو کوٹھے پر کھڑا کر کے غیر احمدیوں نے اُن سے وعظ کرایا۔ ہم بھی گئے تو اُس مولوی نے لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ والی حدیث پڑھ کر اُس میں لوگوں کو خوب جوش دلایا اور بار بار کہا دیکھو لوگو! آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تو یہ فرمایا کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہو گا اور مرزا صاحب قادیان والے کہتے ہیں کہ میں نبی ہوں اور رسول ہوں۔ پھر پنجابی میں کہنے لگا ’’دَسّو اسِی کی کرئیے‘‘ تو کہتے ہیں کس طرح مرزا صاحب کو نبی رسول مان لیں؟ کہتے ہیں مَیں کھڑا ہو گیا اور اُس سے کہا مولوی صاحب! آپ یہ بتائیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجدنبوی کے بارے میں بھی یہ فرمایا ہے کہ اس کے بعد کوئی مسجدنہیں ہو گی۔ اس کے کیا معنی کریں گے۔ جو معنی آپ اس مسجد والی حدیث کے کریں گے وہی معنی ہم لَا نَبِیَّ والی حدیث کے کریں گے اور آپ کو یہ بتلا دیں گے کہ جو نبی آپ کی لائی ہوئی شریعت کو منسوخ کرے گا یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت کو منسوخ کرے گا، وہ نبی نہیں ہو سکتا کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت تو آخری شریعت ہے۔ اس لئے اس کے بعد کوئی نئی شریعت لانے والا نبی نہیں آ سکتا۔ خیر وہ مولوی صاحب کہتے ہیں اس بات پر بھونچکا سا ہو گیا اور گالیاں دینے لگ گیا۔ جب جواب نہ ہو تو یہی ہوتا ہے۔ پھر مَیں نے کہا مولوی صاحب! آپ کی گالیوں کا جواب ہم نہیں دیں گے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس دوست کی یہ باتیں سن کر بہت خوش ہوئے اور بڑے مسکرائے۔ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ جلد6 صفحہ90-91روایت حضرت شیخ محمد اسماعیل صاحبؓ)
آجکل بھی زیادہ تر یہی ایشو اٹھایا جا رہا ہے۔ لوگوں کے دماغوں کو جو زہریلا کیا جاتا ہے تو اسی بات سے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد تو کوئی نبی نہیں آ سکتا اور یہ مرزا صاحب کو نبی مانتے ہیں۔ احمدیوں کے خلاف پاکستان میں اصل جو مخالفت ہے وہ اسی ایشو کولے کر اب زیادہ بھڑکائی جا رہی ہے۔
مکرم میاں شرافت احمد صاحب اپنے والد حضرت مولوی جلال الدین صاحبؓ مرحوم کے حالات بیان کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں کہ والد صاحب کو خدمتِ دین کا بہت شوق تھا اور اس پیرانہ سالی میں بھی، بڑھاپے میں بھی آپ جوانوں سے بازی لے جاتے تھے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے زمانے میں، 1934ء میں جہاں خطبہ جمعہ میں آپ کی وفات کو شہادت کی موت قرار دیا ہے، وہاں آپ نے اعتراف فرمایا کہ مولوی صاحب جوانوں سے بڑھ کر کام کرنے والے تھے۔ حضور نے فرمایا کہ تین آدمی مَیں نے دیکھے ہیں جو کہ تبلیغ میں دیوانوں کی طرح کام کرتے تھے، ایک حافظ روشن علی صاحب مرحوم، دوسرے یہ مولوی صاحب اور تیسرے مولوی غلام رسول صاحب راجیکی۔ یہ تینوں نہ دن نہ رات دیکھتے ہیں۔ تبلیغ میں ہی لگے رہتے ہیں۔ (ماخوذ ازرجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ جلد12صفحہ 274روایت حضرت میاں شرافت احمد صاحبؓ)
پھرمیاں شرافت احمد صاحب ہی اپنے والد صاحب مولوی جلال الدین صاحبؓ مرحوم کے حالات بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ والد صاحب تبلیغ سلسلہ کے متعلق اپنا ایک رؤیا بیان فرمایا کرتے تھے۔ وہ مَیں لکھتا ہوں۔ (والد صاحب) کہتے ہیں ایک دن مَیں نے خواب میں دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہمارے گھر میں یا گاؤں میں یہ مجھے یادنہیں رہا تشریف لائے ہیں اور مجھ سے قلم مانگتے ہیں۔ اُس کے بعد میری آنکھ کھل گئی۔ کچھ مدت کے بعد مَیں قادیان میں حاضر ہوا اور اپنے ساتھ دو ریجے کھدر سفید دھوبی سے دھلا ہوا، اُس کے پانچ گز کے دو ٹکڑے (یعنی ریجے شاید پنجابی میں لمبی چادروں کے ٹکڑوں کو کہتے ہیں) لے کے رکھے اور دو ہولڈر مختلف رنگ کے لئے اور حضور کی خدمت میں پیش کئے اور حضور سے قلم مانگنے کی تعبیر دریافت کی۔ حضور نے ازراہِ ہمدردی میرے حقیر نذرانے کو قبول فرماتے ہوئے فرمایا کہ آپ نے خواب کو پورا کر دیا۔ قلم سے مراد یہ ہے کہ آپ خدمتِ دین کریں، تحریری بھی اور تقریری بھی۔ والد صاحب بیان کرتے تھے کہ اس کے بعدمَیں نے اپنے سارے زور سے تبلیغ شروع کر دی اور خدا تعالیٰ کے فضل سے آپ کی کوششیں بارآور ہوئیں۔ آپ کے دونوں بھائی بیعت میں شامل ہو گئے جن میں سے ایک اپنے علاقے میں مانا ہوا عالم تھا(مولوی علی محمد صاحب سکنہ زیرہ ضلع فیروز پور) جب مخالفوں کو معلوم ہوا کہ یہ دونوں بھائی مولوی جلال الدین صاحب اور مولوی علی محمد صاحب احمدی ہو گئے ہیں تو اُن کی کمریں ٹوٹ گئیں۔ ان کے احمدی ہونے پر محمد علی بوہڑیہ اور محمود شاہ واعظ یہ دونوں زیرہ سے روتے ہوئے چلے گئے۔ یہ غیر احمدی تھے اور فیروز پور تک ایک دوسرے کے گلے میں ہاتھ ڈال کر ایسے روتے تھے جیسے بہت قریبی رشتہ دار فوت ہو گیا ہو۔ پھر مولوی صاحب کی کوشش سے زیرہ ضلع فیروز پور، کھریپڑ لدھیکے، رتنے والا اور للیانی وغیرہ مقامات پر مخلص جماعتیں پیدا ہوئیں۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ۔ (ماخوذ ازرجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ جلد12صفحہ274تا276 روایت حضرت میاں شرافت احمد صاحبؓ)
پھر میاں شرافت احمد صاحب ہی کی مولوی جلال الدین صاحب کے بارے میں ایک روایت ہے کہ والد صاحب 1924ء میں ملکانہ میں تبلیغ کی خاطر تشریف لے گئے اور وہاں بنجاروں اور ملکانوں میں تبلیغِ اسلام کرتے رہے۔ ملکانوں اور بنجاروں کے علاوہ آپ نے معززین علاقہ سے بھی تعلقات پیدا کر لئے۔ حکام وقت سے بھی اپنے پھٹے پرانے کپڑوں میں جا ملتے۔ وہ لوگ آپ کو اس رنگ میں دیکھ کر کہ ستّر اسّی سال کا بوڑھا اپنی گھٹڑی اُٹھائے پھر رہا ہے اور دن رات اس دھن میں ہے کہ لوگ مسلمان بن جائیں اور احمدیت قبول کر لیں، بہت اچھا اثر لیتے تھے۔ آپ اُن سے کافی چندہ وصول کرتے تھے۔ وہ خوشی سے دیتے تھے کہ یہ جماعت کام کرنے والی ہے۔ اس علاقے میں بھی آپ کی سعی اور کوشش سے بہت سے لوگ سلسلہ حقّہ میں داخل ہو گئے۔ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ جلد12صفحہ 278-279 روایت حضرت میاں شرافت احمد صاحبؓ)
حافظ غلام رسول وزیر آبادی صاحبؓ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام میاں بشیر احمد صاحب کے مکان میں جس کے دروازے دونوں مسقف گلیوں (چھتی ہوئی گلیاں تھیں) کے نیچے موجود ہیں، تشریف فرما ہوئے اور بہت دوستوں کو اس میں جمع کر کے فرمایا کہ مَیں نے ہائی سکول اس لئے قائم کیا تھا کہ لوگ یہاں سے علم حاصل کر کے باہر جا کے تبلیغ کریں گے۔ مگر افسوس کہ لوگ علم حاصل کرنے کے بعد اپنے کاروبار میں لگ جاتے ہیں اور میری غرض پوری نہیں ہوتی۔ کوئی ہے جو خدا کے لئے مجھے اپنا لڑکا محض دینی تعلیم حاصل کرنے کے لئے دے دے۔ اُس وقت مولوی عبیداللہ مرحوم میرا بیٹا چھوٹی عمر کا میرے پاس موجود تھا۔ میں نے وہ حضرت صاحب کے سپرد کر دیا۔ حضرت صاحب نے اُس کا ہاتھ اپنے دستِ مبارک میں پکڑ لیا اور میاں فضل دین صاحب سیالکوٹی جو اُس وقت مدرسہ احمدیہ میں مددگار کارکن تھے اُس کے سپرد کر کے فرمایا کہ اس بچے کو مفتی محمد صادق صاحب کے سپرد کر آؤ۔ ان دنوں مدرسہ احمدیہ کے ہیڈ ماسٹر مفتی صاحب تھے۔ الغرض وہ مدرسہ احمدیہ میں داخل ہو کر عالم فاضل بن گیا اور خلیفہ ثانی نے اپنے عہدِ خلافت میں اُس کو ماریشس میں مبلغ بنا کر بھیج دیا جو پونے سات سال تبلیغ کا کام کرتا رہا۔ آخر کسی حکمت کے ماتحت اللہ تعالیٰ نے اُس کو وفات دے دی۔ اُس کے بعد اُس کی بیوی اور ایک لڑکی اور ایک لڑکا چھوٹی عمر کے پیچھے رہ گئے جن کو بحکم حضرت خلیفۃ المسیح الثانی میں جا کر 1924ء میں واپس لے آیا۔ دو سال کے بعد اُس کی اہلیہ فاطمہ بی بی جو میرے چھوٹے بھائی حافظ غلام محمد صاحب کی بیٹی تھی فوت ہو گئی۔ یہ بھی نہایت فصیح الزبان مبلغہ تھیں۔ (ان کی اہلیہ تھیں وہ بھی بہت اچھی مبلغہ تھیں) انہوں نے لکھا۔ اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلَھَا وَارْحَمْھَا۔ پھر کہتے ہیں کہ دونوں بچے بفضل خدا میرے زیرِ تربیت ہیں۔ (جب یہ لکھ رہے ہیں) لڑکی کی شادی ہو گئی، لڑکا جس کا نام بشیر الدین ہے میرے پاس ہے۔ اس وقت مدرسہ احمدیہ میں تعلیم پاتا ہے۔ میری دلی خواہش ہے کہ وہ تعلیم حاصل کر کے اپنے والد مولوی عبیداللہ شہید مرحوم کی جگہ جا کر تبلیغ کا کام کرے۔ (ماخوذ ازرجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ جلد12صفحہ 174تا176روایت حضرت حافظ غلام رسول صاحبؓ) (اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کویہ موقع ملا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے ان کو بھی ماریشس بھجوایا۔ یہ بھی لمبا عرصہ رہے ہیں۔ ان کے بچے شاید آجکل یہیں رہتے ہیں۔ آگے ان میں سے تو کوئی مبلغ نہیں بنا لیکن بہر حال انہوں نے بھی ماریشس میں بڑی تبلیغ کی) جماعت کی لمبا عرصہ خدمت کی ہے۔
پھر میاں شرافت احمد صاحب اپنے والد حضرت مولوی جلال الدین صاحب مرحوم کے حالات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جمعہ کے دن آپ ایک جگہ موضع گھنو کا ننگلہ کو جا رہے تھے کہ وہاں جمعہ پڑھائیں گے۔ راستے میں موضع گھرور میں بھوک کی وجہ سے دو پیسے کے چنے لئے۔ کپڑے وغیرہ صاف کر لئے اور چنے وغیرہ کھا کر سفر کی تیاری کی۔ گھاٹ سے نکلتے ہی لُو لگ گئی۔ گرمی کے دن تھے۔ بیہوش ہو کر سڑک پر لیٹ گئے۔ کسی راہ گیر نے تھانہ گھرور میں جا کر کہا کہ قادیانی مولوی صاحب تو لُو لگنے کی وجہ سے راستے میں پڑے ہیں۔ ایک سپاہی جو کہ آپ کا معتقد تھا بھاگا ہوا آیا۔ آپ کو راستے میں کوئی یکّہ وغیرہ نہ ملا۔ ، ٹانگہ نہ ملا۔ وہ لاچار آپ کو اپنے سہارے آہستہ آہستہ قصبے کی طرف لایا۔ چونکہ لُو آگے سے بھی بہت تیز تھی۔ گرم ہوا چل رہی تھی۔ آپ میں کوئی سکت نہ رہی۔ قصبے سے باہر بھی ایک دھرمسالہ تھا اُس کے چبوترے پر لیٹ گئے۔ لوگوں نے بہت کہا کہ آگے چلیں۔ مگر آپ نے کہا کہ بس پہنچ گیاجہاں پہنچنا تھا۔ لوگوں نے دوائی وغیرہ دی مگر کسی نے اثر نہ کیا۔ لوگوں نے بہت کہا کہ آپ کے لڑکے کو تار دے دیتے ہیں۔ آپ نے کہا کہ بچہ ہے گھبرا جائے گا۔ اب خدا کے سپرد۔ ان کلمات کے بعد وہ مردِ باصفا اپنے آقا کے حکم کو کہ خدمتِ دین کریں، پوری اطاعت اور فرمانبرداری سے بجا لاتا ہوا اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملا۔ اِنَّا لِلہِ وَ اِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ کہتے ہیں کہ مرحوم کا جنازہ غیر احمدیوں نے ہی پڑھا۔ وہاں احمدی بھی کوئی نہیں تھا اور انہوں نے ہی دفن کیا۔ خدا تعالیٰ اُن کو جزائے خیر دے۔ دوسرے تیسرے دن احمدی دوستوں کو معلوم ہوا۔ انہوں نے اس عاجز کو (یعنی ان کے بیٹے کو) اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کو اطلاع کی۔ حضور نے جمعہ میں آپ کا ذکر کیا اور نماز کے بعد جنازہ غائب پڑھایا۔ مرحوم کی وصیت بھی تھی، اس لئے آپ کا کتبہ بہشتی مقبرہ میں لگ گیا۔ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ جلد12صفحہ 279-280 روایت حضرت میاں شرافت احمد صاحبؓ)
اللہ تعالیٰ ان تمام بزرگوں کے درجات بلند فرماتا چلا جائے اور اس روح کو ہمیشہ ہم میں بھی اور آئندہ نسل میں بھی جاری رکھے۔
اب مَیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے چند اقتباسات پڑھتا ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں:
’’مَیں ان مولویوں کو غلطی پر جانتا ہوں جو علوم جدیدہ کی تعلیم کے مخالف ہیں۔ وہ دراصل اپنی غلطی اور کمزوری کو چھپانے کے لئے ایسا کرتے ہیں۔ ان کے ذہن میں یہ بات سمائی ہوئی ہے کہ علوم جدیدہ کی تحقیقات اسلام سے بد ظن اور گمراہ کر دیتی ہے اور وہ یہ قرار دیئے بیٹھے ہیں کہ گویا عقل اور سائنس اسلام سے بالکل متضادچیزیں ہیں۔ چونکہ خودفلسفہ کی کمزوریوں کو ظاہر کرنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ اس لئے اپنی اس کمزوری کو چھپانے کے لئے یہ بات تراشتے ہیں کہ علومِ جدیدہ کا پڑھنا ہی جائز نہیں۔ اُن کی رُوح فلسفہ سے کانپتی ہے اور نئی تحقیقات کے سامنے سجدہ کرتی ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد اول۔ صفحہ68۔ مطبوعہ لندن٭)
٭یہ دس جلدوں والا ایڈیشن ہے
پھر آپ نے فرمایا کہ ’’مگر وہ سچافلسفہ ان کو نہیں ملا جو الہام الٰہی سے پیدا ہوتا ہے جو قرآن کریم میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ وہ ان کو اور صرف انہیں کو دیا جاتا ہے جو نہایت تذلل اور نیستی سے اپنے تئیں اللہ تعالیٰ کے دروازے پر پھینک دیتے ہیں۔ جن کے دل اور دماغ سے متکبر انہ خیالات کا تعفّن نکل جاتا ہے اور جو اپنی کمزوریوں کا اعتراف کرتے ہوئے گڑ گڑا کر سچی عبودیت کا اقرار کرتے ہیں۔‘‘ (ملفوظات جلد اول۔ صفحہ69-68۔ مطبوعہ لندن)
پھر آپ نے فرمایا کہ ’’پس ضرورت ہے کہ آجکل دین کی خدمت اور اعلائے کلمۃ اللہ کی غرض سے علوم جدیدہ حاصل کرو اور بڑے جدو جہد سے حاصل کرو۔ لیکن مجھے یہ بھی تجربہ ہے جو بطور انتباہ میں بیان کر دینا چاہتا ہوں کہ جو لوگ ان علوم ہی میں یکطرفہ پڑ گئے‘‘ (یعنی صرف وہیں پڑے رہے اور دین نہ سیکھا) ’’اور ایسے محو اور منہمک ہوئے کہ کسی اہل دل اور اہل ذکر کے پاس بیٹھنے کا ان کو موقعہ نہ ملا اور وہ خود اپنے اندر الٰہی نور نہ رکھتے تھے وہ عموماً ٹھوکر کھا گئے اور اسلام سے دور جاپڑے۔ اور بجائے اس کے کہ ان علوم کو اسلام کے تابع کرتے، الٹا اسلام کو علوم کے ماتحت کرنے کی بے سود کوشش کر کے اپنے زعم میں دینی اور قومی خدمات کے متکفل بن گئے۔ مگر یاد رکھو کہ یہ کام وہی کر سکتا ہے یعنی دینی خدمت وہی بجا لا سکتا ہے جو آسمانی روشنی اپنے اندر رکھتا ہو۔‘‘ (ملفوظات جلد اول۔ صفحہ69۔ مطبوعہ لندن)
پس یہ آسمانی روشنی حاصل کرنے کی کوشش ہو۔
پھر آپ فرماتے ہیں:
’’میری یہ باتیں اس لئے ہیں کہ تا تم جو میرے ساتھ تعلق رکھتے ہو اور اس تعلق کی وجہ سے میرے اعضاء ہو گئے ہو۔‘‘(اب یہ جو لفظ اعضاء حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے استعمال کیا ہے ایک ایسا بہت بڑا اعزاز ہے کہ تم میرے ساتھ تعلق رکھتے ہو اور اس تعلق کی وجہ سے میرے اعضاء ہو گئے ہو۔ اعضاء بھی انسان کے خود تو کام نہیں کر سکتے، جو دماغ حکم دیتا ہے اس کے مطابق چلتے ہیں۔ پس یہ ہر احمدی کی بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اس توقع پر پورا اترنے کی کوشش کرے۔ ہمارے وہ کام ہوں جو اسلام کی، قرآن کی حقیقی تعلیم کے مطابق ہیں۔ جن کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس زمانے میں ہمیں بار بار نصیحت فرمائی ہے۔ اس کے بغیر ہم اپنی بیعت کا حق ادا نہیں کر سکتے۔ فرمایا کہ) ’’ان باتوں پر عمل کرو۔ اور عقل اور کلام الٰہی سے کام لو تا کہ سچی معرفت اور یقین کی روشنی تمہارے اندر پیدا ہو اور تم دوسرے لوگوں کو ظلمت سے نور کی طرف لانے کا وسیلہ بنو۔ اس لئے کہ آجکل اعتراضوں کی بنیاد طبعی اور طبابت اور ہیئت کے مسائل کی بناء پر ہے۔ اس لئے لازم ہواکہ ان علوم کی ماہیت اور کیفیت سے آگاہی حاصل کریں تا کہ جواب دینے سے پہلے اعتراض کی حقیقت تو ہم پر کھل جائے۔‘‘ (ملفوظات جلد اوّل صفحہ68۔ مطبوعہ لندن)
پھر آپ فرماتے ہیں:۔ ’’تم میری بات سن رکھو اور خوب یاد کر لو کہ اگر انسان کی گفتگو سچے دل سے نہ ہو اور عملی طاقت اس میں نہ ہو تو وہ اثر پذیر نہیں ہوتی۔‘‘ (جو بھی بات کرنی ہے سچے دل سے ہونی چاہئے اور تمہارا عمل بھی اس کے مطابق ہونا چاہئے، ورنہ وہ اثر نہیں کرتی۔ فرمایا) ’’اسی سے تو ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بڑی صداقت معلوم ہوتی ہے کیونکہ جو کامیابی اور تاثیر فی القلوب آپؐ کے حصہ میں آئی اس کی کوئی نظیر بنی آدم کی تاریخ میں نہیں ملتی اور یہ سب اس لئے ہوا کہ آپؐ کے قول اور فعل میں پوری مطابقت تھی۔‘‘ (ملفوظات جلد اوّل صفحہ67-68۔ مطبوعہ لندن)
پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کی صحیح پیروی کی کوشش ہمارا ایک فرض بھی ہے اور وہ تبھی ہو گی جب ہمارے قول و فعل ایک ہوں گے اور تبھی ہماری کوششوں کو بھی انشاء اللہ تعالیٰ بہترین پھل لگیں گے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی اس خواہش کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے کہ ہم دین کی اشاعت کرنے والوں میں سے ہو جائیں۔ لوگوں کو سیدھا راستہ دکھانے والے بنیں۔ آپ کے اعضاء ہونے کا حق ادا کرنے والے بنیں۔ اور ہمارے قول اور فعل میں کبھی تضادنہ ہو۔ کبھی دجالی طاقتوں اور دنیاوی علم سے مرعوب اور مغلوب نہ ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس بنیادی چیز کو، اس اَصل کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
آج پھر مَیں ایک جنازہ غائب پڑھاؤں گا جو مکرم سلطان آف آگا دیس (Agadez) نائیجر کا ہے۔ 21فروری کو پچہتّر سال کی عمر میں ان کی وفات ہوئی ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ ان کا نام الحاج عمر ابراہیم تھا۔ ستمبر 2002ء میں ان کو احمدیت قبول کرنے کی توفیق ملی۔ یہ نائیجر کے سب سے بڑے سلطان تھے اور نائیجر کے تمام روایتی حکمرانوں یا Traditional Rulars جو ہیں اُن کے پریزیڈنٹ تھے اور صدرِ مملکت کی خصوصی کابینہ کے چار افراد میں شامل تھے۔ نائیجر میں پندرھویں صدی سے آگا دیس کی سلطنت کا آغاز ہوا۔ مرحوم 1960ء سے آگا دیس کے سلطان منتخب ہوئے اور اکاونویں (51ویں) سلطان تھے۔ اس طرح تقریباً اکاون باون سال یہ سلطان رہے۔ نائیجر میں عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ آگا دیس کے علاقے میں جہاں شورشیں اُٹھتی رہتی تھیں وہاں امن کے قیام میں بڑا اہم کردار ادا کیا۔ گویا امن کا نشان تھے۔ 2002ء میں جلسہ سالانہ بینن میں اپنے بارہ رکنی وفد کے ساتھ کوئی ڈھائی ہزار کلو میٹر کا سفر طے کر کے شامل ہوئے تھے اور جلسے کے بعد ایک ہفتہ بینن میں مقیم رہے۔ اور امیر صاحب بینن کے ساتھ مختلف جماعتوں میں گئے۔ احمدیت کو قریب سے دیکھا۔ نائیجر واپسی سے قبل اس خواہش کا اظہار کیا کہ مَیں بیعت کر کے واپس جانا چاہتا ہوں۔ چنانچہ اپنے بارہ رکنی وفد کے ساتھ بیعت کر کے احمدیت میں شامل ہوئے اور کہا کہ بینن کے جلسے میں ہزاروں افراد کو نماز پڑھتے دیکھ کر میرا دل خوشی سے اچھل رہا ہے۔ ہم مسلمان ملک سے آئے ہیں مگر وہاں کبھی بھی اس قدر بڑا اجتماع خالصتہً للہ ہوتے نہیں دیکھا۔ 2003ء میں جلسہ سالانہ یوکے میں شریک ہوئے اور ان کی مجھ سے پہلی ملاقات تھی۔ بڑے خوش اخلاق، بہت ملنسار، بہت خوبیوں کے مالک تھے۔ جب حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ کی وفات کا ان کو پتہ لگا تھا تو خود وہاں نیامی مشن ہاؤس میں تشریف لائے۔ مبلغ انچارج کے ساتھ تعزیت کی۔ ان کی اولاد بھی ہے اٹھارہ بیٹے بارہ بیٹیاں۔ ان کی چار پانچ شادیاں تھیں۔ مبلغ انچارج نائیجر اکبر احمد صاحب بتاتے ہیں کہ انہیں دو مرتبہ آگا دیس جانے کا موقع ملا اور بہت مہمان نواز تھے۔ مشنری انچارج کی بہت مہمان نوازی کرتے تھے، عزت کرتے تھے۔ ملک کے دارالحکومت نیامی جب تشریف لاتے تھے۔ کہتے ہیں خاکسار کو پتہ چلتا تواُن سے ملنے جاتا۔ بہت محبت سے ملتے اور ہمیشہ جماعت کے حالات پوچھتے۔ خلیفۃ المسیح کے بارے میں پوچھتے۔ اپریل 2004ء میں جب مَیں بینن کے دورے پر گیا ہوں تو پھر یہ پراکو تشریف لائے تھے۔ ہمسایہ ملک نائیجر ہے، وہاں سے باسٹھ افراد پر مشتمل وفد آیا تھا اور اس وفد میں مرحوم سلطان آف آگا دیس بھی تھے۔ گیارہ رکنی وفد کے ساتھ اُس میں شامل تھے۔ وہاں ان سے میری ملاقات ہوئی اور وہاں بھی انہوں نے مجھے بتایا کہ مَیں تقریباً تین چار دن اور رات کا سفر کر کے آیا ہوں۔ صحراء میں سفر بھی بہت مشکل ہے۔ یہ دو ڈھائی ہزار کلو میٹر کا سفر کر کے آئے تھے۔ وہاں اُن کے ساتھ مختلف باتیں ہوتی رہیں۔ تصویریں وغیرہ بھی انہوں نے کھنچوائیں۔ مل کے بڑے خوش تھے۔ نائیجر کے احمدیوں میں بھی بہت زیادہ اخلاص و وفا ہے۔ اور باوجود اس کے کہ سلطان تھے اور بڑے سلطانوں میں سے تھے، بڑی عاجزی اور انکساری ان میں پائی جاتی تھی۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔
(الفضل انٹرنیشنل مورخہ 6 اپریل تا 12اپریل 2012 جلد 19شمارہ14صفحہ5تا8)
فرمودہ مورخہ 16مارچ 2012ء بمطابق 16امان 1391 ہجری شمسی، بمقام مسجد بیت الفتوح۔ مورڈن۔ لندن
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔