نماز کامیابی اور اصلاح نفس کا ذریعہ
خطبہ جمعہ 30؍ مارچ 2012ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
گزشتہ جمعہ کے خطبہ میں شرائط بیعت کے حوالے سے مَیں نے افرادِ جماعت کو ایک احمدی کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی تھی جس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مختلف اقتباسات سے ہی ہر شرط کی وضاحت بیان ہوئی تھی۔ ان شرائط کو پڑھ کر اور آپ علیہ السلام کی کتب اور ملفوظات کو پڑھ کر، سُن کر اور ان پر غور کر کے ہی پتہ چلتا ہے کہ آپ ہمارے اندر اسلام کی حقیقی تعلیم داخل کر کے، ہماری اعتقادی اور عملی اصلاح کر کے ہم میں انقلابی تبدیلیاں پیدا کرنا چاہتے تھے۔ کیونکہ اس کے بغیر وہ عظیم مقصد حاصل نہیں کیا جا سکتا جو آپ کی بعثت کا مقصد تھا، جو زمانے کی اہم ضرورت تھی اور ہے۔ جس سے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہو سکتا ہے۔
آپ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:
’’اس سلسلہ سے خدا تعالیٰ نے یہی چاہا ہے اور اُس نے مجھ پر ظاہر کیا ہے کہ تقویٰ کم ہو گیا ہے۔ بعض تو کھلے طور پر بے حیائیوں میں گرفتار ہیں اور فسق و فجور کی زندگی بسر کرتے ہیں اور بعض ایسے ہیں جو ایک قسم کی ناپاکی کی ملونی اپنے اعمال کے ساتھ رکھتے ہیں۔ مگر انہیں نہیں معلوم کہ اگر اچھے کھانے میں تھوڑا سا زہر پڑ جاوے تو وہ سارا زہریلا ہوجاتا ہے۔ اور بعض ایسے ہیں جو چھوٹے چھوٹے (گناہ) ریاکاری وغیرہ جن کی شاخیں باریک ہوتی ہیں اُن میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔‘‘
’’اگرچہ ظاہر ی طور پر ہر انسان سمجھتا ہے کہ یہ بڑے دیندار ہیں لیکن عُجب اور ریا اور باریک باریک معاصی میں مبتلا ہیں جو کہ عارفانہ خوردبین سے نظر آتے ہیں‘‘۔
فرماتے ہیں کہ: ’’اب اللہ تعالیٰ نے یہ ارادہ کیا ہے کہ دنیا کو تقویٰ اور طہارت کی زندگی کا نمونہ دکھائے۔ اسی غرض کے لیے اس نے یہ سلسلہ قائم کیا ہے۔ وہ تطہیر چاہتا ہے اور ایک پاک جماعت بنانا اس کامنشاء ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد3 صفحہ 83۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
پس اللہ تعالیٰ نے جو یہ جماعت قائم فرمائی تو وہ اس میں شامل ہونے والوں کو خاص طور پر پاک کرنا چاہتا ہے تا کہ پاک جماعت کا قیام ہو اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہم میں سے ہر ایک سے یہ چاہتے ہیں کہ یہ عارفانہ خوردبین ہم لگائیں۔ اس سے ہم اپنے نفس کو دیکھیں۔ اپنے نفس کا محاسبہ کریں۔ اپنی اعتقادی غلطیوں کی جہاں اصلاح کریں وہاں ہر قسم کی چھوٹی سے چھوٹی عملی غلطیوں کی بھی اصلاح کریں۔ اپنے اعمال کی طرف بھی نظر رکھیں۔ اور یہ عارفانہ خوردبین ہی ہے جو معمولی قسم کی غلطیوں کو بڑا کر کے دکھائے گی کیونکہ خوردبین کا یہی کام ہے کہ باریک سے باریک چیز بھی بڑی کر کے دکھاتی ہے۔
پس اپنے گناہوں کو دیکھنے کے لئے، اپنی غلطیوں کو دیکھنے کے لئے، اپنی کمزوریوں کو دیکھنے کے لئے ہمیں وہ خوردبین استعمال کرنی پڑے گی جس سے ہم اپنے نفس کے جائزے لے سکیں۔ اسی سوچ کے ساتھ ہمیں اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے۔ پس ہمارا احمدی ہونے کا دعویٰ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی قائم کردہ جماعت کوئی معمولی دعویٰ اور یہ معمولی جماعت نہیں ہے۔ نہ ہی ہمارا احمدی ہونے کا دعویٰ معمولی دعویٰ ہے، نہ یہ جماعت ایک معمولی جماعت ہے۔ اللہ تعالیٰ اس جماعت کے افراد کو پاک کر کے ایک پاک جماعت بنانا چاہتا ہے جس کے لئے اُس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھیجا ہے۔ ہر احمدی کو یہ پیشِ نظر رکھنا چاہئے کہ یہ تقویٰ اور طہارت کی زندگی کے نمونے ہی ہیں جو وہ انقلابی تبدیلی پیدا کر سکتے ہیں، اور یہ انقلابی تبدیلی ہمارے اعتقاد کی اصلاح اور اعمال کی اصلاح کے ساتھ وابستہ ہے۔ صرف اعتقادی اصلاح فائدہ نہیں دے سکتی جب تک کہ اعمال کی اصلاح بھی ساتھ نہ ہو۔ جب تک ہم میں سے ہر ایک کو اپنے اعمال کی فکر نہ ہو۔ کیاعقیدہ ہمارا ہونا چاہئے اور کونسے اعمال ہیں جن کی طرف ہمیں توجہ رکھنی چاہئے، جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اقتباس میں مَیں نے پڑھا۔ ہم نے دیکھا کہ معمولی سے معمولی نیکی کی طرف بھی توجہ اور اُس کے بجا لانے کی کوشش کی ضرورت ہے۔ یہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے۔
پھر مزید وضاحت سے اپنے عقیدے اور عملی حالت کی حقیقت کے معیار کے بارے میں جماعت کو بھی توجہ دلاتے ہوئے آپ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:
’’ہمارے مذہب کا خلاصہ‘‘ (کہ ہمارا عقیدہ کیا ہے؟ اس میں عقیدے کی بھی وضاحت ہو جائے گی اور اس عقیدے کے ساتھ جو ہمارے عمل وابستہ ہیں اُن کی بھی وضاحت ہو جاتی ہے۔) فرماتے ہیں ’’ہمارے مذہب کا خلاصہ اور لُبِّ لُباب یہ ہے کہ لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ۔ ہمار ااعتقاد جو ہم اس دنیوی زندگی میں رکھتے ہیں جس کے ساتھ ہم بفضل و توفیق باری تعالیٰ اس عالَم گزران سے کوچ کریں گے یہ ہے کہ حضرت سیدنا و مولانا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین و خیر المرسلین ہیں جن کے ہاتھ سے اکمال دین ہو چکا اور وہ نعمت بمرتبہ اتمام پہنچ چکی جس کے ذریعہ سے انسان راہ راست کو اختیار کر کے خدا تعالیٰ تک پہنچ سکتا ہے۔ اور ہم پختہ یقین کے ساتھ اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ قرآن شریف خاتم کتب سماوی ہے اور ایک شعشہ یا نقطہ اس کی شرائع اور حدود اور احکام اور اوامر سے زیادہ نہیں ہو سکتا اور نہ کم ہو سکتا ہے۔ اور اب کوئی ایسی وحی یا ایسا الہام منجانب اللہ نہیں ہو سکتاجو احکام فرقانی کی ترمیم یا تنسیخ یا کسی ایک حکم کے تبدیل یا تغییر کر سکتا ہو۔ اگر کوئی ایسا خیال کرے تو وہ ہمارے نزدیک جماعت مومنین سے خارج اور ملحد اور کافرہے۔ اور ہمار ااس بات پر بھی ایمان ہے کہ ادنیٰ درجہ صراط مستقیم کا بھی بغیر اتباع ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہرگز انسان کو حاصل نہیں ہو سکتاچہ جائیکہ راہ راست کے اعلیٰ مدارج بجُز اقتدا اس امام الرسل کے حاصل ہو سکیں۔ کوئی مرتبہ شر ف و کمال کا اور کوئی مقام عزت اور قرب کا بجز سچی اور کامل متابعت اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم ہرگز حاصل کر ہی نہیں سکتے۔ ہمیں جو کچھ ملتاہے ظلّی اور طفیلی طور پر ملتا ہے۔ اور ہم اس بات پر بھی ایمان رکھتے ہیں کہ جو راستباز اور کامل لوگ شرف صحبت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے مشرف ہو کر تکمیلِ منازل سلوک کرچکے ہیں اُن کے کمالات کی نسبت بھی ہمارے کمالات اگر ہمیں حاصل ہوں بطور ظل کے واقع ہیں اور اُن میں بعض ایسے جُزئی فضائل ہیں جو اَب ہمیں کسی طرح سے حاصل نہیں ہوسکتے۔‘‘ (ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد3 صفحہ 169-170)
یعنی وہ لوگ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے ہیں اُن کے بعض فضائل ایسے ہیں جو اَب نہیں مل سکتے۔ انہوں نے دیکھا، وہ آپ ؐ کی صحبت میں رہے۔
پھر آپ فرماتے ہیں:
’’جن پانچ چیزوں پر اسلام کی بناء رکھی گئی ہے وہ ہمارا عقیدہ ہے۔ اور جس خدا کی کلام یعنی قرآن کو پنجہ مارنا حکم ہے ہم اس کو پنجہ مار رہے ہیں۔ اور فاروق رضی اللہ عنہ کی طرح ہماری زبان پر ’’حَسْبُنَا کِتَابُ اللّٰہ‘‘ ہے اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرح اختلاف اور تناقض کے وقت جب حدیث اور قرآن میں پیدا ہو‘‘ (یعنی آپس میں اختلاف ہو) ’’قرآن کو ہم ترجیح دیتے ہیں‘‘۔ (حدیث پر قرآن کو ترجیح ہے۔) فرماتے ہیں ’’بالخصوص قصوں میں جو بالاتفاق نسخ کے لائق بھی نہیں ہیں۔ اور ہم اس بات پر ایمان لاتے ہیں کہ خداتعالیٰ کے سوا کوئی معبودنہیں اور سیدنا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اس کے رسول اور خاتم الانبیاء ہیں۔ اور ہم ایمان لاتے ہیں کہ ملائک حق اور حشر اجساد حق اور روزِ حساب حق اور جنت حق اور جہنم حق ہے۔ اور ہم ایمان لاتے ہیں کہ جو کچھ اللہ جلّ شانہ نے قرآن شریف میں فرمایا ہے اور جو کچھ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے وہ سب بلحاظ بیان مذکورہ بالا حق ہے۔ اور ہم ایمان لاتے ہیں کہ جو شخص اس شریعتِ اسلام میں سے ایک ذرہ کم کرے یا ایک ذرہ زیادہ کرے یا ترکِ فرائض اور اباحت کی بنیاد ڈالے‘‘ (یعنی اپنی مرضی سے جہاں ضروری ہو بدل لے، حلال حرام کے بارہ میں اپنے فیصلے کرنا شروع کر دے) ’’وہ بے ایمان اور اسلام سے برگشتہ ہے۔ اور ہم اپنی جماعت کو نصیحت کرتے ہیں کہ وہ سچے دل سے اس کلمہ طیبہ پر ایمان رکھیں کہ لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ اور اسی پر مریں۔ اور تمام انبیاء اور تمام کتابیں جن کی سچائی قرآن شریف سے ثابت ہے ان سب پر ایمان لاویں۔ اور صوم اور صلوٰۃ اور زکوٰۃ اور حج اور خداتعالیٰ اور اس کے رسولؐ کے مقرر کردہ تمام فرائض کو فرائض سمجھ کر اور تمام منہیات کو منہیات سمجھ کر ٹھیک ٹھیک اسلام پر کاربند ہوں۔ غرض وہ تمام امور جن پر سلفِ صالحین کو اعتقادی اور عملی طور پر اجماع تھا اور وہ امور جو اہل سنت کی اجماعی رائے سے اسلام کہلاتے ہیں ان سب کا ماننا فرض ہے۔ اور ہم آسمان اور زمین کو اس بات پر گواہ کرتے ہیں کہ یہی ہمارا مذہب ہے‘‘۔ (ایام الصلح روحانی خزائن جلد14 صفحہ 323)
پھر اس عقیدے کا اظہار فرماتے ہوئے کہ خدا تعالیٰ کی ذات کے سوا ہر شے فانی ہے آپ نے واضح فرمایا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی ایک انسان تھے، نبی اللہ تھے اور اس لحاظ سے اُن کی بھی ایک عمر کے بعد وفات ہوگئی۔ ہاں صلیبی موت سے اللہ تعالیٰ نے اُن کو بچا لیا اور صلیب کے زخموں سے صحت یاب فرمایا اور پھر انہوں نے ہجرت کی اور کشمیر میں آپ کی وفات ہوئی۔ بہر حال حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے وفات پانے کے عقیدے کے بارے میں آپ ایک جگہ فرماتے ہیں۔ ’’مَیں حضرت مسیح علیہ السلام کو فوت شدہ اور داخل موتیٰ ایماناً و یقیناً جانتا ہوں اور ان کے مرجانے پر یقین رکھتا ہوں۔ اور کیوں یقین نہ رکھوں جب کہ میرا مولیٰ، میرا آقا اپنی کتاب عزیز اور قرآن کریم میں ان کو متوفّیوں کی جماعت میں داخل کرچکا ہے اور سارے قرآن میں ایک دفعہ بھی ان کی خارق عادت زندگی اور ان کے دوبارہ آنے کا ذکر نہیں بلکہ ان کو صرف فوت شدہ کہہ کر پھر چُپ ہوگیا۔ لہٰذا اُن کا زندہ بجسدہٖ العنصری ہونا اور پھر دوبارہ کسی وقت دنیا میں آنا نہ صرف اپنے ہی الہام کی رُو سے خلاف واقعہ سمجھتا ہوں بلکہ اس خیال حیاتِ مسیح کو نصوص بیّنہ قطعیہ یقینیہ قرآن کریم کی رو سے لغو اور باطل جانتا ہوں‘‘۔ (آسمانی فیصلہ روحانی خزائن جلد4 صفحہ 315)
یعنی قرآنِ کریم کی جو بڑی یقینی اور قطعی اور کھلی کھلی آیات ہیں، اُن کی رُو سے حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ السلام کو فوت شدہ سمجھتا ہوں اور اُن کی حیات کے خیال کو لغو اور باطل سمجھتا ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک جگہ یہ بھی فرمایا ہے کہ اعتقادی لحاظ سے تم میں اور دوسرے مسلمانوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ ارکانِ اسلام کو ماننے کا اُن کا بھی دعویٰ ہے، تمہارا بھی ہے۔ ایمان کے جتنے رُکن ہیں، جس طرح ایک احمدی اُن پر ایمان لانے کا دعویٰ کرتا ہے، دوسرے بھی منہ سے یہی دعویٰ کرتے ہیں، بلکہ یہاں تک ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کے بعد ایک طبقہ حضرت عیسیٰ کی وفات پر یقین کرنے لگ گیا ہے۔ پھر خونی مہدی کا جو نظریہ تھا کہ مہدی آئے گا اور قتل کرے گا اور اصلاح کرے گا، اُس کے بارے میں بھی نظریات بدل گئے ہیں۔ گزشتہ جمعہ سے پہلا جمعہ جو گزرا ہے، جس میں مَیں نے صحابہ کے واقعات سنائے تھے۔ اُن میں ایک صحابی نے جب مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی سے پوچھا کہ آپ نے خونی مہدی کا انکار کیا ہے اور لوگوں کو آپ کچھ کہتے ہیں، ویسے سنا ہے انکار کرتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام جب یہ کہتے ہیں کہ خونی مہدی کوئی نہیں آئے گا تو اس پر آپ اعتراض کرتے ہیں۔ تو انہوں نے کہا کہ جاؤ، تم نے مرزا صاحب کی بیعت کرنی ہے تو کرو۔ اس چکر میں نہ پڑو۔ جو میرا نظریہ تھا یا ہے۔ تو وہ ڈھٹائی میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خلاف چپ کھڑے ہوں گے تو یہی کہیں گے کہ خونی مہدی نے بھی آنا ہے اور مسیح نے بھی آنا ہے لیکن ویسے کئی ایسے ہیں جن کے نظریات بدل چکے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے آنے سے مسلمانوں میں بعض عقائد میں بھی درستی پیدا ہوئی ہے بلکہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آج سے چھہتر سال پہلے اعتقادی اور عملی اصلاح کے موضوع پر، ایک خطبہ میں نہیں بلکہ اس موضوع پر خطبات کا ایک سلسلہ جاری کیا جس میں کئی خطبے تھے۔ اُن میں آپ نے یہاں تک فرمایا کہ ہندوستان میں پڑھے لکھے لوگوں میں سے شاید دس میں سے ایک بھی نہ ملے جو حیاتِ مسیح کا قائل ہو۔ (ماخوذ ازخطبات محمود جلد17صفحہ317 خطبہ جمعہ 22مئی1936)
اسی طرح قرآنِ کریم کی آیات کی منسوخی کا جہاں تک سوال ہے عموماً اب اس میں ناسخ و منسوخ کا ذکر نہیں کیا جاتا، وہ شدت نہیں پائی جاتی جو پہلے تھی۔ (ماخوذ ازخطبات محمود جلد17صفحہ318 خطبہ جمعہ 22مئی1936)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ بھی ثابت فرمایا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کے بعد بعض عقائد پر دوسرے مسلمان جو بڑی شدت رکھتے تھے، وہ بھی اب دفاعی حالت میں آ گئے ہیں، وہ شدت کم ہو گئی ہے، یا مانتے ہیں یا خاموش ہو جاتے ہیں۔ (ماخوذ ازخطبات محمود جلد17صفحہ329 خطبہ جمعہ 29مئی1936)
اور یہی بات آج تک بھی ہے۔ بلکہ اب تو بعض علماء اور سکالر جن میں عرب بھی شامل ہیں، جہادی تنظیموں اور شدت پسندوں کے نظریہ جہاد کے خلاف کہنے لگ گئے ہیں۔ بلکہ جہاد کے بارے میں ہی کہنے لگ گئے ہیں کہ آجکل کا یہ جہاد جو ہے یہ غلط ہے۔ پس جن کو وہ اپنے بنیادی عقائد کہتے تھے، اُن نظریات میں تبدیلی، اُن عقائد میں تبدیلی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دعویٰ کے بعد آئی ہے اور ان میں جو پڑھے لکھے لوگ کہلاتے ہیں، جن کا دنیا سے واسطہ بھی ہے، رابطہ بھی ہے، وہ یہ کہنے لگ گئے ہیں، مثلاً جہاد وغیرہ کے بارے میں کہ یہ غلط ہے۔ یہ تبدیلی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کے بعد اور آپ کی جہاد کی صحیح تعریف کے بعد پیدا ہوئی ہے۔ چاہے وہ احمدیت کو مانیں یا نہ مانیں۔ یہ بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ جماعت احمدیہ کے جہاں تک عقائد کا سوال ہے، اس کو غیروں میں سے بھی ایک بڑا طبقہ جو ہے وہ ماننے پر مجبور ہے۔ اب آ جا کے زیادہ بحث اس بات پر ٹھہر گئی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا مقام نبی کا ہے یا نہیں ہے؟ یہ بھی انشاء اللہ تعالیٰ ایک دن طے ہو جائے گا۔ اسی طرح جو ہمارا عمومی مؤقف ہے، تعلیم ہے، عقائد ہیں اُس کو سمجھنا نہیں چاہتے اور ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اُن کے پاس دلیل بھی کوئی نہیں ہے۔ ہمارے عقائد کے تعلق میں بحث پر جب لاجواب ہو جاتے ہیں تو مار دھاڑ اور قتل و غارت پر آ جاتے ہیں اور یہی کچھ آجکل اکثر مسلمان فرقوں کی طرف سے احمدیت کے خلاف ہو رہا ہے اور خاص طور پر پاکستان میں یا بعض جگہ ہندوستان میں۔ اور یہ پھر اس بات کی دلیل ہے کہ اُن کے پاس ہمارے عقائد کو غلط ثابت کرنے کے لئے نہ ہی کوئی قرآنی دلیل ہے اور نہ ہی کوئی عقلی دلیل ہے۔ جب گھیرے جاتے ہیں، قابو میں آ جاتے ہیں تو ماردھاڑ پر اتر آتے ہیں۔ پس عقیدے کے لحاظ سے دلائل و براہین کی رو سے احمدی اُس مقام پر ہیں جہاں اُن کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا۔ جو کم علم احمدی ہیں اُن کو بھی چاہئے کہ اپنے علم میں اس لحاظ سے پختگی پیدا کریں۔ آجکل تو ایم ٹی اے پر بعض پروگرام مثلاً راہِ ہدیٰ وغیرہ اسی لئے دئیے جا رہے ہیں کہ ان سے زیادہ سے زیادہ سیکھیں اور کسی قسم کے احساسِ کمزوری اور کمتری کا شکار نہ ہوں، اُس میں مبتلا نہ ہوں۔ بہر حال جماعت احمدیہ کی اکثریت بلکہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اِلَّا مَا شَآئَ اللّٰہ سب ہی اپنے عقیدے میں پختہ ہیں۔ اگر کوئی کمزور بھی ہے تو وہ یاد رکھے کہ جو عقیدہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمارے سامنے پیش فرمایا ہے، وہی حقیقی اسلام ہے اور غیروں میں اس کو کسی بھی دلیل کے ساتھ رَدّ کرنے کی طاقت نہیں ہے۔ پس چند ایک جو کمزور ہیں وہ بھی اپنے اندر مضبوطی پیدا کریں۔ کسی قسم کی کمزوری دکھانے کی ضرورت نہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے عقیدے اور علمی لحاظ سے ہمیں نہایت ٹھوس اور مدلّل لٹریچر عطا فرمایا ہے۔ اسی طرح عملی باتوں کی طرف بھی بہت زیادہ توجہ دلائی ہے۔
جہاں تک عقیدے اور علمی لٹریچر کا تعلق ہے جس کا اثر جیسا کہ مَیں نے کہا احمدی نہ ہونے کے باوجود بھی غیروں پر ہے لیکن صرف عقیدے کی اصلاح کافی نہیں ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اعمال کی اصلاح کے لئے بھی آئے تھے۔ جب تک ہمارے عمل کی بھی اصلاح نہ ہو اُس وقت تک عقیدے کی اصلاح کا کوئی فائدہ نہیں۔ کیونکہ عمل ہی ہے جو پھرغیروں کو اس طرف مائل کرتا ہے کہ وہ جماعت میں بھی شامل ہوں، ہماری باتیں بھی سنیں، یا کم از کم خاموش رہیں۔ نیک عمل اور پاک تبدیلیاں ایک خاموش تبلیغ ہیں۔ بعض قریب آئے ہوئے اور بیعت کے لئے تیار صرف اس لئے دور ہو جاتے ہیں کہ کسی احمدی کا عمل اُن کے لئے ٹھوکر کا باعث بن گیا۔
پس اس زمانے میں جب ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وقت سے دُور ہو رہے ہیں، ہمیں اپنے عقیدے کے ساتھ اپنے اعمال کی حفاظت کی بھی بہت زیادہ ضرورت ہے اور شدت سے ضرورت ہے۔ عقیدے کے لحاظ سے تو ہم یقینا جنگ جیتے ہوئے ہیں لیکن اگر عقیدے کے مطابق عمل نہ ہوں اور جو تعلیم دی گئی ہے اُس کے مطابق نہ چلیں، اُس کو اپنے اوپر لاگو کرنے کی کوشش نہ ہو تو آہستہ آہستہ صرف نام رہ جاتا ہے۔ جیسا کہ مسلمانوں کی اکثریت میں ہم دیکھتے ہیں کہ غلط قسم کے کاموں میں ملوث ہیں۔ نمازوں کی اگر پڑھتے بھی ہیں تو صرف خانہ پری ہے۔ اکثریت تو ایسی ہے جس کو نمازوں کی پرواہ بھی نہیں ہے۔ جھوٹ عام ہے۔ اب تو بے حیائی بھی بلا جھجک اور کھلے عام ہے۔ گزشتہ دنوں ایک غیر از جماعت دوست ملے۔ کہنے لگے کہ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ شدت پسند اور اسلام کے دعویدار جو مختلف جگہوں پر اسلام کی غیرت کے نام پر حملے کرتے ہیں اور اسلامی نظام لانا چاہتے ہیں۔ سکولوں پر حملے کرتے ہیں، معصوم عورتوں اور بچوں کو مار رہے ہیں لیکن کہتے ہیں میں پاکستان گیا تو میں نے دیکھا کہ اسلام آباد میں ایک مین روڈ کے اوپر ہی سڑک پر ایک شراب کشید کرنے کی فیکٹری تھی، Brewery جسے کہتے ہیں، اُس پر کبھی ان شدت پسندوں نے حملہ نہیں کیا۔ حالانکہ وہ کھلے عام ہے۔ اسی طرح کہنے لگے ٹی وی چینل ہیں، ننگے اور بیہودہ پروگرام پاکستان میں بھی آتے ہیں اور مسلمان چینلوں میں بھی آتے ہیں، ان کے خلاف کوئی آواز نہیں اُٹھاتا یا اُن پر حملہ نہیں ہوتا۔ بہر حال یہ اسلام پسندوں کی عملی حالت ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تو جہاں تک شراب کا تعلق ہے، شراب کشید کرنے والوں، رکھنے والوں، بیچنے والوں، پلانے والوں، پینے والوں، ان سب پر لعنت بھیجی ہے۔ (سنن ابی داؤد کتاب الاشربۃ باب العنب یعصرللخمر حدیث 3674)
یہ لعنت تو ان لوگوں کو برداشت ہے کہ وہاں شراب کی فیکٹریاں لگی ہوئی ہیں لیکن احمدی کا کلمہ پڑھنا ان کو کبھی برداشت نہیں ہو سکتا۔
بہر حال مَیں کہہ رہا تھا کہ جو معاشرہ ہے ہم بھی اس معاشرے میں رہتے ہیں اور اس کا اثر ہم پر بھی پڑسکتا ہے۔ ہمیں بھی احتیاط کی ضرورت ہے۔ ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعثت کے مقصد کو سمجھتے ہوئے اپنی عملی حالتوں کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے تبھی ہم احتیاط کے تقاضے پورے کر سکتے ہیں۔ خاص طور پر بڑوں کو بچوں اور نوجوانوں پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے اور نوجوانوں کو خود بھی محتاط ہونے کی ضرورت ہے۔ آجکل تو دشمن گھروں میں گھس کر اخلاق سوز حرکتیں کر کے ہر ایک کے اعمال کو خراب کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ جیسا کہ مَیں نے کہا ٹی وی چینلز نے اخلاقیات اور نیک اعمال کے زاویے ہی بگاڑ دئیے ہیں۔ اسی طرح انٹرنیٹ ہے اور دوسری چیزیں ہیں، ان کے خلاف اگر ہم نے مل کر جہادنہ کیا تو اعمال کی اصلاح تو ایک طرف رہی، شیطانی اعمال کی جھولی میں ہم گر جائیں گے اور اس سے بچنے کے لئے پھر کوئی اور راستہ نہیں، سوائے اس کے کہ ہم خاص طور پر جیسا کہ مَیں نے کہا جہاد کی صورت میں اللہ تعالیٰ سے مدد لیں۔ اس کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوں اور ساتھ ہی اللہ تعالیٰ کی مدد بھی حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ ہمیں اس کے لئے اللہ تعالیٰ کو پکارنا ہو گا تبھی ہم بچ سکتے ہیں۔ صرف اتنا کہنا کافی نہیں ہے کہ میں ایک خدا پر یقین رکھتا ہوں، بلکہ ایک خدا سے تعلق پیدا کرنے کی بھی ضرورت ہے تا کہ ان شیطانی حملوں سے بچا جا سکے جو ہمارے گھروں کے کمروں تک پہنچ چکے ہیں۔ ورنہ ان برائیوں اور ان بیماریوں سے بچنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔
کہتے ہیں ایک بزرگ کا شاگرد تھا، اُس نے جب تعلیم مکمل کی اور واپس جانے لگا تو بزرگ نے اُس شاگرد سے پوچھا کہ کیا جس ملک میں تم جا رہے ہو، وہاں شیطان بھی ہوتا ہے؟ تو شاگردنے حیران ہو کر کہا کہ شیطان کہاں نہیں ہوتا؟ شیطان تو ہر جگہ ہے۔ تو انہوں نے کہا کہ جو کچھ تم نے مجھ سے دین کے بارے میں، اخلاقیات کے بارے میں سیکھا ہے، پڑھا ہے، اگر اس پر عمل کرنے لگو اور شیطان حملہ کر دے تو کیا کرو گے؟ اُس نے کہا مقابلہ کروں گا۔ انہوں نے کہا ٹھیک ہے۔ پھر تمہاری توجہ دوسری طرف ہو اور وہ پھر حملہ کر دے تو پھر کیا کروگے؟ اُس نے کہا پھر مقابلہ کروں گا۔ غرض دو تین دفعہ انہوں نے اس طرح ہی پوچھا۔ پھر وہ کہنے لگے کہ اگر تم اپنے کسی دوست کے پاس جاؤ اور اُس کے دروازے پر کُتّا بیٹھا ہو اور وہ تمہیں پکڑ لے، تم پر حملہ کرے اور کاٹنے لگے تو کیا کرو گے؟ اُس نے کہا میں اُس کو ڈرا کے دوڑانے کی کوشش کروں گا۔ پھر حملہ کرے تو پھر یہی کروں گا۔ انہوں نے کہا اگر تم اسی طرح لگے رہے تو پھر دوست تک تو نہیں پہنچ سکتے۔ تو کیا کرو گے تم؟ اُس نے کہا کہ آخر مَیں دوست کو آواز دوں گا کہ آؤ اور اپنے کُتّے کو پکڑو۔ تو بزرگ کہنے لگے کہ شیطان بھی خدا تعالیٰ کا کُتّا ہے۔ اس کے لئے تمہیں خدا تعالیٰ کو آواز دینی ہو گی۔ اُس کے در کو کھٹکھٹانا ہوگا۔ تبھی شیطان کے حملوں سے بچ سکتے ہو۔ (ماخوذ از خطبات محمود جلد 17صفحہ 330-331خطبہ جمعہ فرمودہ22مئی1936ء)
اپنے زعم میں نہ رہنا کہ اب علم بھی ہمیں حاصل ہو گیا اور اخلاقیات پر بھی ہم نے بڑا عبور حاصل کر لیا اور نیکی کا بھی ہمیں پتہ ہے۔ نمازیں بھی ہم جیسی تیسی پڑھ لیتے ہیں۔ اس زعم میں اگر رہو گے تو شیطان تم پر حملہ کرتا جائے گا اور تم اُس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔
پس خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کی مدد حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ خالص ہو کر اُس کی عبادت کرنے کی ضرورت ہے۔ تبھی اس شیطان کے حملوں سے بچا جا سکتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنے کے لئے، اُس کا قرب حاصل کرنے کے لئے صرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں آنا اور اپنے عقیدے کی درستگی کر لینا یہ کافی نہیں ہے۔ اس کے لئے اللہ تعالیٰ کو مدد کے لئے پکارنا ہو گا۔ جیسا کہ مَیں نے کہا، اُس کے آگے جھکنا ہوگا۔ اُس کی عبادت خالص ہو کر کرنی ہو گی۔ جہاں عملی کوشش ہو، توبہ اور استغفار کی طرف توجہ ہو، وہاں ایک انتہائی ضروری چیز نماز ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بارہا قرآنِ کریم میں نماز کے قیام کی طرف توجہ دلائی ہے۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ نماز مومن کی معراج ہے۔ (تفسیرروح البیان از شیخ اسماعیل حقی بروسوی جلد8صفحہ109تفسیر سورۃ الزم زیر آیت اللّٰہ نزل احسن الحدیث… مطبوعہ بیروت ایڈیشن2003) یعنی ایسی حالت ہے جب مومن خدا تعالیٰ کے قریب ہوتا ہے اور اُس سے باتیں کرتا ہے۔ پس اگر شیطان سے بچنا ہے، زمانے کی بیہودگیوں سے اور لغویات سے بچنا ہے تو اپنی نمازوں کی حفاظت کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کامیاب مومنین کی یہی نشانی بتائی ہے کہ وہ اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ اس لئے کہ اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَآءِ وَالْمُنْکَرِ (العنکبوت: 46) اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ یقینا نماز، وہ نماز جو خالص ہوکر خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے پڑھی جائے، یقینی طور پر بے حیائی اور بیہودہ باتوں سے روکتی ہے۔
پس شیطان کے حملوں سے بچنے کے لئے خدا تعالیٰ کو مدد کے لئے پکارنے کا ایک بڑا ذریعہ نماز ہے۔ آجکل کے لغویات سے پُر ماحول میں تو اس کی طرف اور زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ بچوں کی بھی نگرانی کی ضرورت ہے کہ اُنہیں بھی عادت پڑے کہ نمازیں پڑھیں۔ لیکن بچوں اور نوجوانوں کو کہنے سے پہلے بڑوں کو اپنا محاسبہ بھی کرنا ہو گا، اپنے آپ کو بھی دیکھنا ہو گا۔ اللہ تعالیٰ نے جب وَیُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ (البقرۃ: 4) کہا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ باجماعت نماز کی ادائیگی ہو، اس طرف توجہ ہو۔ مَیں نے دیکھا ہے کہ موسم بدلنے کے ساتھ جب وقت پیچھے جاتا ہے، راتیں چھوٹی ہو جاتی ہیں تو فجر میں حاضری کم ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ گزشتہ دنوں ابھی پورا وقت پیچھے نہیں گیا تھا، پانچ بجے تک ہی نماز آئی تھی تو فجر کی نماز پر حاضری کم ہونے لگ گئی تھی۔ اب پھر ایک گھنٹہ آگے وقت ہوا ہے تو حاضری کچھ بہتر ہوئی ہے یا جمعہ والے دن کچھ بہتر ہو جاتی ہے۔ ابھی تو وقت نے اور پیچھے جانا ہے۔ تو بڑوں کے لئے بھی اس طرف بہت توجہ کی ضرورت ہے۔ اگر وقت کے پیچھے جانے سے پھر سستی شروع ہوجائے تو یہ تو ایک احمدی کے لئے صحیح نہیں ہے۔ اس لئے میں پہلے توجہ دلا رہا ہوں کہ وقت کے ساتھ فجر کی نماز میں حاضری میں کمی نہیں ہونی چاہئے۔ عہدیدار خاص طور پر نمازوں کی باجماعت ادائیگی میں اگر سستی نہ دکھائیں کیونکہ ان کی طرف سے بھی بہت سستی ہوتی ہے، اگر وہی اپنی حاضری درست کر لیں اور ہر سطح کے اور ہر تنظیم کے عہدیدار مسجد میں حاضر ہونا شروع ہو جائیں تو مسجدوں کی رونقیں بڑھ جائیں گی اور بچوں اور نوجوانوں پر بھی اس کا اثر ہو گا، اُن کی بھی توجہ پیدا ہو گی۔ ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ کسی کا رتبہ کسی عہدے کی وجہ سے نہیں ہے۔ دنیا کے سامنے تو بیشک کوئی عہدیدار ہو گا، اور اُس کا رتبہ بھی ہو گا لیکن اصل چیز خدا تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرنا ہے اور وہ اس ذریعے سے حاصل ہو گا جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ نماز معراج ہے۔ اس معراج کو حاصل کرنے کی کوشش کی جائے۔
پس پہلے عہدیدار اپنے جائزے لیں اور پھر اپنے زیرِ اثر بچوں، نوجوانوں اور لوگوں کو اس طرف توجہ دلائیں۔ ہماری کامیابی اُسی وقت حقیقت کا روپ دھارے گی جب ہر طرف سے آوازیں آئیں گی کہ نماز کے قیام کی کوشش کرو۔ ورنہ صرف یہ عقیدہ رکھنے سے کہ حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام فوت ہو گئے، یا قرآنِ کریم کی کوئی آیت منسوخ نہیں ہے، یا تمام انبیاء معصوم ہیں یا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام وہی مسیح ومہدی ہیں جن کے آنے کی پیشگوئی تھی، تو اس سے ہماری کامیابیاں نہیں ہیں۔ ہماری کامیابیاں اپنی عملی حالتوں کو اُس تعلیم کے مطابق ڈھالنے میں ہیں جو خدا تعالیٰ نے ہمیں دی۔ جس میں سب سے زیادہ اہم نماز کے ذریعے خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنا ہے۔ ورنہ ہمارا یہ دعویٰ بھی غلط ہے کہ شرک نہیں کروں گا۔ شرک تو کر لیا اگر اپنی نمازوں کی حفاظت نہ کی۔ اللہ تعالیٰ نے تو حکم دیا ہے کہ نمازیں پڑھو۔ نمازوں کے لئے آؤ۔ اگر نمازوں کی حفاظت نہیں ہے تو اس کا مطلب ہے کہ نماز کی جگہ کوئی اور متبادل چیز تھی جس کو زیادہ اہمیت دی گئی تو یہ بھی شرکِ خفی ہے۔
پھر جن نیک اعمال کی طرف ہمیں خدا تعالیٰ نے توجہ دلائی ہے اس میں دوسروں کے حقوق بھی ہیں۔ دنیاوی لالچوں میں آ کر حقوق غصب کئے جاتے ہیں۔ اُس وقت انتہائی شرمندگی ہوتی ہے اور افسوس بھی ہوتا ہے جب میرے پاس غیر از جماعت لوگوں کے خطوط آتے ہیں کہ آپ کے فلاں احمدی نے میرے ساتھ دھوکہ کیا ہے۔ مجھے میرا حق دلوایا جائے۔ تو یہ باتیں جیسا کہ مَیں نے کہا کہ تبلیغ میں بھی روک بنتی ہیں، بلکہ بعض نئے احمدیوں کے لئے بھی ٹھوکر کا باعث بن جاتی ہیں۔ ابھی گزشتہ دنوں ایک عرب احمدی نے لکھا کہ وہ جماعت چھوڑ رہے ہیں، جب وجہ پتہ کی تو پتہ چلا کہ بعض احمدیوں کے عمل سے دل برداشتہ ہو کر وہ یہ کہہ رہے تھے لیکن عقیدے کے لحاظ سے اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنے دعوے میں سچے ہیں۔ پس جہاں یہ اُن کی غلطی ہے کہ بعض احمدیوں کو دیکھ کر نظامِ جماعت سے دور ہٹ جائیں اور تعلق توڑ لیں، وہاں اُن احمدیوں کو بھی سوچنا چاہئے جن میں سے بعض عہدیدار بھی ہیں کہ کسی کی ٹھوکر کا باعث بن کر وہ کتنے بڑے گناہ سہیڑ رہے ہیں۔ ایک بات کی طرف خاص طور پر مَیں توجہ دلانی چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بیشک مالی قربانی میں تو جماعت کے افراد بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں لیکن مالی قربانی کا ایک پہلو زکوٰۃ ہے۔ اُس طرف بھی توجہ کرنے کی ضرورت ہے۔ خاص طور پر عورتوں کو جن کے پاس زیور وغیرہ بھی ہوتے ہیں۔ اسی طرح وہ لوگ جن کے رقمیں ایک سال سے زیادہ پڑی رہتی ہیں۔ اس طرف ویسی توجہ نہیں ہے جو ایک احمدی کو ہونی چاہئے۔ ایک تعداد تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے یقینا ایسی ہے جو ایک ایک پائی کا حساب رکھ کر چندے بھی دیتی ہے اور زکوٰۃ بھی دیتی ہے لیکن بعض لوگ ایسے ہیں جو چندوں کو کافی سمجھتے ہیں اور زکوٰۃ نہیں دیتے۔ یا سیکرٹریانِ مال جو ہیں اُن کو اس طرف توجہ نہیں دلاتے جس وجہ سے اُن کو اس کی اہمیت کا اندازہ نہیں ہے۔ پس اس طرف بھی توجہ کی بہت ضرورت ہے۔
پھر عملی حالتوں کی تبدیلی میں ہر برائی جس کا قرآنِ کریم میں ذکر ہے اُس کو چھوڑنا اور ہر نیکی جس کا قرآنِ کریم میں ذکر ہے اس کا اختیار کرنا شامل ہے۔ پس ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس ارشاد کو ہر وقت سامنے رکھنا ہو گا کہ قرآنِ کریم کے سات سو حکموں میں سے ایک حکم کی بھی نافرمانی نہ کرو۔ (کشتی نوح۔ روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 26، 28)
پس ہمیشہ ہمیں اس کوشش میں رہنا چاہئے کہ بظاہر چھوٹے سے چھوٹے گناہ سے بھی بچنا ہے۔ شروع میں جو مَیں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا اقتباس پڑھا ہے، اُس میں آپ نے یہی توجہ دلائی ہے کہ چھوٹے چھوٹے گناہوں میں مبتلا ہو کر یہ نہ سمجھو کہ یہ گناہ نہیں ہے۔ جو بظاہر کسی کو نظر نہیں آ رہے، اُن گناہوں کو اپنی عارفانہ خوردبین استعمال کر کے دیکھو، خود تلاش کرو، اپنے جائزے لو۔ پھر پتہ لگے گا کہ یہ حقیقت میں گناہ ہے۔ ریا کی مثال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دی ہے۔ اب یہ اکثر کسی کو بھی نظر نہیں آئے گی۔ خود انسان کو اگر وہ حقیقت پسند بن کے اپنا جائزہ لے تو پتہ لگ جاتا ہے کہ یہ کام جو وہ کر رہا ہے یہ دنیا دکھاوے کے لئے ہے یا خدا تعالیٰ کی خاطر؟ اگر انسان کو یہ پتہ ہو کہ میرا ہر عمل خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ہونا چاہئے اور ہو گا تو تبھی مجھے ثواب بھی ملے گا تو تبھی وہ نیک اعمال کی طرف کوشش کرتا ہے۔ تبھی وہ اس جستجو میں رہے گا کہ میں زیادہ سے زیادہ نیک اعمال کی تلاش کروں اور اُن پر عمل کروں۔ اور جب یہ ہو گا تو پھر نہ ریا پیدا ہو گی نہ دوسری برائیاں پیدا ہوں گی۔
اسی طرح قرآنِ کریم میں رشتہ داروں سے حسنِ سلوک کا حکم ہے۔ اس میں سب سے پہلے تو اپنے ماں باپ اور بیوی بچے ہیں۔ اسی طرح پھر آگے تعلق کے لحاظ سے۔ اس تعلق میں ایک بات کی طرف توجہ دلانی چاہتا ہوں کہ آجکل برداشت کی کمی مردوں اور عورتوں، دونوں میں بہت زیادہ ہے۔ حالانکہ برداشت اور صبر کی بھی خدا تعالیٰ نے بہت تلقین فرمائی ہے۔ اور اس کمی کی وجہ سے رشتے ٹوٹنے کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ اور کسی کو یہ خیال نہیں رہتا کہ جن کے بچے ہیں، اس کے نتیجے میں بچوں پر کیا اثر ہو گا۔ پس دونوں طرف سے تقویٰ میں کمی ہے اور عملی حالتوں کی کمزوری کا اظہار ہوتا ہے۔
پھر ہر احمدی کو یہ بھی خیال رکھنا چاہئے کہ ہماری سچائی دوسروں پر تب ظاہر ہوگی جب ہر معاملے میں ہمارے سے سچائی کا اظہار ہوگا۔ اگر ہمارے ذاتی معاملات میں اپنے مفادات میں ہمارے رویّے خودغرضانہ ہوجائیں تو بیعت میں آنے کے بعد جو عملی اصلاح کا عہد ہے، اُس کو ہم پورا کرنے والے نہیں ہو سکتے۔ قرآنِ کریم تو کہتا ہے کہ اگر تمہیں سچائی اور انصاف کے لئے اپنے خلاف یا اپنے والدین کے خلاف یا اپنے قریبیوں کے خلاف بھی گواہی دینی پڑے تو دو۔ لیکن عملاً ہمارے طریق اور عمل اس سے مختلف ہوں تو ہم کیا انقلاب لائیں گے۔ میں اکثر انصاف کے قیام کے لئے غیروں کو قرآنِ کریم کے اس حکم کا بھی حوالہ دیتا ہوں اور دعویٰ کرتا ہوں کہ جماعت احمدیہ ہی صحیح اسلامی تعلیم پر چلنے والی ہے۔ لیکن اگر کسی غیر کے تجربے میں احمدی کے عمل اس سے مختلف ہیں تو اس پر اس بات کا کیا اثر ہو گا؟ ایسے احمدی احمدیت کی تبلیغ کے راستے میں روک ہیں۔ پس اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے۔ اپنے محاسبے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح قرآنِ کریم کے بے شمار حکم ہیں۔ پس ہماری عملی اصلاح تب مکمل ہو گی جب ہم ہر لحاظ سے، ہر پہلو سے اپنے جائزے لیں، اپنی برائیوں کو دیکھیں۔ جب ہماری عملی اصلاح ہو گئی تب ہم سمجھ سکیں گے کہ ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت کا حق ادا کرنے کی کوشش کی ہے۔ ورنہ صرف ماننے سے، آپ کے تمام دعاوی پر یقین کرنے سے ایک حصے کو تو ہم ماننے والے ہو گئے لیکن ایک حصہ چھوڑ دیا جو نہایت اہم ہے۔
پس جیسا کہ مَیں نے کہا ہر چھوٹی سے چھوٹی نیکی پر عمل کرنا بھی ضروری ہے۔ انسان کو نہیں پتہ کہ چھوٹی نیکی اُس کے لئے کیا ہے اور بڑی نیکی کیا ہے۔ احادیث سے ثابت ہے کہ ایک نیکی ایک کے لئے چھوٹی ہے اور دوسرے کے لئے بڑی، یا اس کی تعریف مختلف ہے۔ مثلاً ایک صحابی کے پوچھنے پر کہ یا رسول اللہ!صلی اللہ علیہ وسلم۔ بڑی نیکی کیا ہے۔ آپؐ نے فرمایا کہ جہاد فی سبیل اللہ بڑی نیکی ہے۔ (صحیح مسلم کتاب الایمان باب بیان کون الایمان باللہ تعالیٰ افضل الاعمال حدیث نمبر 248)
پھر ایک اور موقع پر ایک دوسرے صحابی کے پوچھنے پر کہ بڑی نیکی کیا ہے؟ آپ نے فرمایا ماں باپ کی خدمت کرنا۔ (صحیح بخاری کتاب مواقیت الصلاۃ باب فضل الصلاۃ لوقتہا حدیث نمبر 527)
پھر ایک تیسرے موقع پر ایک تیسرے صحابی کے پوچھنے پر کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بڑی نیکی کیا ہے؟ آپ نے فرمایا تہجد کی نماز ادا کرنا، تہجد کے نفل پڑھنا۔ (صحیح مسلم کتاب الصیام باب فضل صوم المحرم حدیث نمبر 2756)
اس طرح آپؐ نے مختلف لوگوں کو بعض مختلف امور کی طرف توجہ دلائی۔ پس بڑی نیکی تین یا تین سے زیادہ تو نہیں ہو سکتیں اور بھی مختلف لوگوں کو اُن کی کمزوریوں کے مطابق توجہ دلائی ہو گی۔ بڑی نیکی تو ایک ہی ہونی چاہئے۔ پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک سب سے بڑا کام اور نیکی وہ ہے جس کی کسی میں کمی ہے۔ پس اگر کوئی شخص ماں باپ کی خدمت نہیں کرتا یا بیوی بچوں کے حقوق ادا نہیں کرتا تو اُس کے لئے دین کی خدمت بڑی نیکی نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے وہ یہ خدمت ذاتی مفاد کے لئے بھی کر رہا ہو یا نام و نمود کے لئے بھی کر رہا ہو۔ پس ایسے لوگ جن کے گھر والے اُن کے رویوں سے نالاں ہیں اور وہ عہدیدار بنے ہوئے ہیں، اُنہیں اپنی خدمت کا ثواب حاصل کرنے کے لئے دین کی خدمت کا ثواب حاصل کرنے کے لئے، ماں باپ اور بیوی بچوں کے حقوق ادا کرنا بھی ضروری ہے۔ اگر کوئی شخص چندوں میں بہت اچھا ہے لیکن نمازوں میں سست ہے، نوافل میں سست ہے تو اُس کے لئے نمازیں اور نوافل نیکی ہیں۔ اسی طرح بہت سی نیکیاں ہیں جو ایک کے لئے معمولی ہیں دوسرے کے لئے بڑی ہیں۔ پس چھوٹی بڑی نیکیوں کی کوئی فہرست نہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی رِیا کی جو مثال دی ہے کہ چھوٹے چھوٹے گناہ مثلاً رِیا تو یہاں بھی اس سے یہی مراد ہے کہ بظاہر چھوٹا نظر آنے والا گناہ دراصل بڑا گناہ بن جاتا ہے۔ نماز پڑھنا بڑا ثواب کا کام ہے۔ اللہ تعالیٰ کا قرب دلانے کا ذریعہ ہے۔ دین کی معراج ہے لیکن دکھاوے کی نمازیں قبول نہیں ہوتیں بلکہ الٹا دی جاتی ہیں۔ اسی طرح ایک انسان نمازی ہے لیکن دوسروں کے حقوق غصب کر رہا ہے تو یہ نماز نیکی نہیں ہے بلکہ بہتر ہوتا کہ وہ دوسروں کا حق ادا کرتا اور پھر نماز ادا کرکے نماز کا ثواب حاصل کرتا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا اقتباس مَیں نے پڑھا ہے جس میں آپ نے ارکانِ اسلام کا ذکر فرمایا۔ روزہ بھی ایک رکن ہے۔ مسلمان رمضان میں روزے کا اہتمام بھی بہت کرتے ہیں لیکن بہت سے روزہ دار ایسے ہوتے ہیں جو روزہ رکھ کر جھوٹ، فریب، گالی گلوچ، غیبت وغیرہ کرتے ہیں، ان سے کام لیتے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو شخص روزہ رکھ کر یہ سب کام کرتا ہے، اللہ تعالیٰ کے نزدیک اُس کا روزہ روزہ نہیں ہے۔ (صحیح بخاری کتاب الصوم باب من لم یدع قول الزور، والعمل بہ فی الصوم حدیث نمبر1903) پس روزے کا ثواب بھی گیا۔ تو اصل چیز یہ ہے کہ ان اعمال کو اس طرح بجا لایا جائے جس طرح اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔
پس انسانی زندگی کا ہر قدم بڑا پھونک پھونک کر اُٹھنا چاہئے جہاں خالص خدا تعالیٰ کی رضا مقدم ہو، جہاں عقیدے میں پختگی ہو وہاں اعمال کی بھی ایسی اصلاح ہو کہ دنیا کو نظر آ جائے کہ ایک احمدی اور دوسرے میں کیا فرق ہے؟ پس ہمیں اس بات پر نظر رکھنی چاہئے کہ تمام قسم کی برائیوں سے بچنا ہے۔ تمام قسم کی نیکیوں کو اختیار کرنا ہے تا کہ عملی طور پر اپنے اندر پاک تبدیلی پیدا کریں۔ اپنے چھوٹوں کے لئے نمونہ بنیں۔ اپنے نوجوانوں کے لئے نمونہ بنیں۔ اپنے گھروں میں اپنے بیوی بچوں کے لئے نمونہ بنیں۔ اپنے ساتھ کام کرنے والوں کے لئے نمونہ بنیں، اپنی عملی حالتوں میں ہر چھوٹا بڑا وہ معیار حاصل کرے کہ ہر قسم کی بدی اور برائی کا بیج ہم میں سے ہر ایک میں ختم ہو جائے، اُس کی جڑ ہی ختم ہو جائے۔ اگر افرادِ جماعت میں سے ہر ایک نے اپنی مکمل اصلاح کی کوشش نہ کی تو جماعت میں ہر وقت کسی نہ کسی قسم کی برائی کا بیج موجود رہے گا اور موقع ملتے ہی وہ پھلنے پھولنے لگ جائے گا، پھوٹنے لگ جائے گا۔ پس ہر قسم کی برائیوں کی جڑوں کو ہم میں سے ہر ایک کو اپنے اندر سے ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ تبھی ہم ہر قسم کی برائیوں کو جماعت میں سے ختم کر کے عملی اصلاح کی حقیقی تصویر بن سکتے ہیں اور تب پھر اللہ تعالیٰ ہمیں فتوحات کے نظارے دکھائے گا۔ تبھی ہماری دعائیں بھی قبول ہوں گی انشاء اللہ تعالیٰ۔ پھر اللہ تعالیٰ کا قرب ہم پاسکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔
اس زمانے میں جب ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وقت سے دور ہو رہے ہیں، ہمیں اپنے عقیدے کے ساتھ اپنے اعمال کی حفاظت کی بھی بہت زیادہ ضرورت ہے اور شدت سے ضرورت ہے۔ عقیدے کے لحاظ سے تو ہم یقینا جنگ جیتے ہوئے ہیں لیکن اگر عقیدے کے مطابق عمل نہ ہوں، جو تعلیم دی گئی ہے اُس کے مطابق نہ چلیں، اُس کو اپنے اوپر لاگو کرنے کی کوشش نہ ہو تو آہستہ آہستہ صرف نام رہ جاتا ہے۔
شیطان کے حملوں سے بچنے کے لئے خدا تعالیٰ کو مدد کے لئے پکارنے کا ایک بڑا ذریعہ نماز ہے۔ پہلے عہدیدار اپنے جائزے لیں اور پھر اپنے زیرِ اثر بچوں، نوجوانوں اور لوگوں کو اس طرف توجہ دلائیں۔ ہماری کامیابی اُسی وقت حقیقت کا روپ دھارے گی جب ہر طرف سے آوازیں آئیں گی کہ نماز کے قیام کی کوشش کرو۔
ہماری کامیابیاں اپنی عملی حالتوں کو اُس تعلیم کے مطابق ڈھالنے میں ہیں جو خدا تعالیٰ نے ہمیں دی۔ جس میں سب سے زیادہ اہم نماز کے ذریعے خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنا ہے۔
بعض لوگ ایسے ہیں جو چندوں کو کافی سمجھتے ہیں اور زکوٰۃ نہیں دیتے۔ یا سیکرٹریانِ مال جو ہیں اُن کو اس طرف توجہ نہیں دلاتے، جس وجہ سے اُن کو اس کی اہمیت کا اندازہ نہیں ہے۔ پس اس طرف بھی توجہ کی بہت ضرورت ہے۔
ہر احمدی کو یہ بھی خیال رکھنا چاہئے کہ ہماری سچائی دوسروں پر تب ظاہر ہوگی جب ہر معاملے میں ہمارے سے سچائی کا اظہار ہوگا۔
فرمودہ مورخہ 30؍مارچ 2012ء بمطابق 30؍امان 1391 ہجری شمسی، بمقام مسجد بیت الفتوح۔ مورڈن۔ لندن۔
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔