ماسٹر عبدالقدوس صاحب کی شہادت کے دردناک واقعہ کی لرزہ خیز تفصیلات
خطبہ جمعہ 6؍ اپریل 2012ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
وَ لَا تَحۡسَبَنَّ الَّذِیۡنَ قُتِلُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ اَمۡوَاتًا ؕ بَلۡ اَحۡیَآءٌ عِنۡدَ رَبِّہِمۡ یُرۡزَقُوۡنَ۔فَرِحِیۡنَ بِمَاۤ اٰتٰہُمُ اللّٰہُ مِنۡ فَضۡلِہٖ ۙ وَ یَسۡتَبۡشِرُوۡنَ بِالَّذِیۡنَ لَمۡ یَلۡحَقُوۡا بِہِمۡ مِّنۡ خَلۡفِہِمۡ ۙ اَلَّا خَوۡفٌ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا ہُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ ۔یَسۡتَبۡشِرُوۡنَ بِنِعۡمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ وَ فَضۡلٍ ۙ وَّ اَنَّ اللّٰہَ لَا یُضِیۡعُ اَجۡرَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ۔اَلَّذِیۡنَ اسۡتَجَابُوۡا لِلّٰہِ وَ الرَّسُوۡلِ مِنۡۢ بَعۡدِ مَاۤ اَصَابَہُمُ الۡقَرۡحُ ؕۛ لِلَّذِیۡنَ اَحۡسَنُوۡا مِنۡہُمۡ وَ اتَّقَوۡا اَجۡرٌ عَظِیۡمٌ۔اَلَّذِیۡنَ قَالَ لَہُمُ النَّاسُ اِنَّ النَّاسَ قَدۡ جَمَعُوۡا لَکُمۡ فَاخۡشَوۡہُمۡ فَزَادَہُمۡ اِیۡمَانًا ٭ۖ وَّ قَالُوۡا حَسۡبُنَا اللّٰہُ وَ نِعۡمَ الۡوَکِیۡلُ (سورۃ آل عمران آیت نمبر 170تا 174)
ان آیات کا ترجمہ ہے کہ: اور جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کئے گئے اُن کو ہرگز مُردے گمان نہ کر بلکہ وہ تو زندہ ہیں اور انہیں ان کے ربّ کے ہاں رزق عطا کیا جا رہا ہے۔ بہت خوش ہیں اس پر جو اللہ نے اپنے فضل سے اُنہیں دیا ہے اور وہ خوشخبریاں پاتے ہیں اپنے پیچھے رہ جانے والوں کے متعلق جو ابھی ان سے نہیں ملے کہ ان پر بھی کوئی خوف نہیں ہو گا اور وہ غمگین نہیں ہوں گے۔ وہ اللہ کی نعمت اور فضل کے متعلق خوشخبریاں پاتے ہیں اور یہ خوشخبریاں بھی پاتے ہیں کہ اللہ مومنوں کا اجر ضائع نہیں کرے گا۔ وہ لوگ جنہوں نے اللہ اور رسول کو لبیک کہا بعد اس کے کہ انہیں زخم پہنچ چکے تھے، اُن میں سے ان لوگوں کے لئے جنہوں نے احسان کیا اور تقویٰ اختیار کیا بہت بڑا اجر ہے۔ یعنی وہ جن سے لوگوں نے کہا کہ تمہارے خلاف لوگ اکٹھے ہو گئے ہیں پس ان سے ڈرو تو اس بات نے ان کو ایمان میں بڑھا دیا۔ اور انہوں نے کہا ہمیں اللہ کافی ہے اور کیا ہی اچھا کارساز ہے۔
پاکستان میں خاص طور پر اور اُن کے اثر کے تحت بعض دوسرے ممالک میں مُلّاں اور حکومت سمجھتے ہیں کہ احمدیوں کے خلاف قانون بنا کر، اُن کو شہری حقوق سے محروم کر کے، اُن کے لئے حقوقِ انسانی کے ہر قانون کو پس پشت ڈال کر، اُن کو دہشتگردی کا نشانہ بنا کر، احمدیوں کو قتل کرنے کی ہر ایک کو کھلی چھٹی دے کر یہ لوگ احمدیت کو ختم کر دیں گے۔ لیکن یہ ان کی بھول ہے۔ احمدیت خدا تعالیٰ کے ہاتھ کا لگایا ہوا وہ پودا ہے جس کو کوئی انسانی کوشش ختم نہیں کر سکتی۔ جس کے پھلنے پھولنے کی خدا تعالیٰ نے خوشخبری دی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ایک الہام ہے کہ بُشْرٰی لَکَ اَحْمَدِیْ۔ اَنْتَ مُرَادِیْ وَ مَعِیْ۔ غَرَسْتُ لَکَ قُدْرَتِیْ وَیَدِیْ۔ کہ اے میرے احمد! تجھے بشارت ہو۔ تو میری مراد ہے اور میرے ساتھ ہے۔ مَیں نے اپنے ہاتھ سے تیرا درخت لگایا ہے۔ (تذکرہ صفحہ نمبر315ایڈیشن چہارم 2004ء مطبوعہ ربوہ)
پس یہ جماعت کو ختم کرنے کی انسانی کوششیں تو بیشک ہیں اور رہیں گی لیکن ان کوششوں سے جماعت احمدیہ ختم نہیں ہو سکتی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو جب یہ الہام ہوا اُس وقت آپ کے ارد گرد چند ایک لوگ تھے جنہوں نے آپ کی بیعت کا شرف حاصل کیا تھا۔ آج اللہ تعالیٰ کے وعدے کو پورا ہوتے ہوئے ہم کس شان سے دیکھ رہے ہیں کہ جماعت احمدیہ دنیا کے دو صد ممالک تک پھیل چکی ہے۔ مخلصین کی ایسی جماعتیں قائم ہو چکی ہیں کہ جن کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔ کیا اُس ابتدائی زمانے سے لے کر آج تک کی ترقی، باوجود مخالفین کی تمام تر کوششوں کے جن میں حکومتوں کا بھی کردار ہے، انسانی کوششوں سے ہو سکتی ہے؟ اگر کسی میں عقل ہو اور آنکھوں پر تعصب کی پٹی نہ بندھی ہو تو یہی ایک بات احمدیت کی سچائی کے لئے کافی ہونی چاہئے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی اس بات کو بیان کیا ہے کہ بعض لوگ اُٹھتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں کہ ہمیں خدا تعالیٰ نے خواب میں بتایا ہے یا ہمیں یہ الہام ہوا ہے کہ مرزا صاحب جھوٹے ہیں۔ بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے غیر مذہب والوں کی مثالیں بھی دی ہیں کہ وہ بھی کہتے ہیں کہ ہمیں خدا تعالیٰ نے بتایا ہے کہ اُن کا مذہب سچا ہے اور اسلام نعوذ باللہ جھوٹا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں لیکن بیشمار ایسے بھی لوگ ہیں جنہوں نے بیعت کی ہے اور وہ اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ ہمیں خدا تعالیٰ نے بتایا ہے، ہماری رہنمائی فرمائی ہے کہ اس شخص کا مسیح موعود ہونے کا دعویٰ سچا ہے۔ بلکہ آج بھی سینکڑوں بیعتیں خوابوں میں رہنمائی کے ذریعے ہو رہی ہیں اور اس زمانے میں ہم اس کے خود گواہ ہیں۔ کئی واقعات مَیں پیش کر چکا ہوں۔ بلکہ شاید اس وقت بھی میرے سامنے بعض ایسے لوگ بیٹھے ہوں جن کی اللہ تعالیٰ نے رہنمائی فرمائی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے وضاحت فرمائی کہ خدا تو کئی نہیں ہو سکتے کہ کسی کو خدا کچھ بتا رہا ہو اور کسی کو کچھ بتا رہا ہو۔ مختلف لوگوں کی مختلف رنگ میں رہنمائی کر رہا ہو۔ اس کا ایک معیار ہے۔ اگر کوئی اُس پر پرکھنا چاہے تو پرکھنا چاہئے اور یہی ایک معیار ہے۔ اور پھر فرمایا کہ مَیں بتاتا ہوں کہ وہ معیار کیا ہے؟ اور وہ یہ ہے کہ یہ دیکھو کہ اللہ تعالیٰ کا فعل کیا کہتا ہے۔ خوابیں تو اس نے بھی دیکھ لیں، اس نے بھی دیکھ لیں۔ یہ دیکھو کہ اللہ تعالیٰ کا فعل کیا کہتا ہے۔ جب یہ دیکھو گے تو جماعت کی ترقی بتاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی فعلی شہادت جماعت احمدیہ کے ساتھ ہے۔ آج خلافت کے ہاتھ پر جماعت احمدیہ کا جمع ہونا اللہ تعالیٰ کی ایک بہت بڑی فعلی شہادت ہے۔ بے نفس ہو کر جان، مال، وقت کی قربانی دینا جس کو سب غیر مانتے ہیں، کیااُن کے لئے یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی فعلی شہادت نہیں ہے جس نے دلوں کو مضبوط باندھ کر ایک جگہ جمع کر کے ان قربانیوں پر باوجود دنیا کے ظلم سہتے چلے جانے کے آمادہ کیا ہوا ہے۔
پس جماعت کی طاقت اور اس کا پھیلنا اور ترقی کرنا مخالفین کی کوششوں سے نہیں رُک سکتا۔ ہر جان جو احمدیت کی خاطر، کلمہ طیبہ کی خاطر، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق کی خاطر، خدا تعالیٰ اور صرف خدا تعالیٰ کا عبد بننے کی خاطر قربان ہو رہی ہوتی ہے وہ اس بات کا اعلان کر رہی ہوتی ہے کہ تمہارے مکر اور تمہاری کوششیں اور تمہاری زیادتیاں جماعت احمدیہ کی ترقی کو روک نہیں سکتیں۔ جماعت احمدیہ کی تاریخ میں حضرت مولوی عبدالرحمن خان صاحب شہیدؓ اور صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہیدؓ کی شہادت سے جان کی قربانیوں کی ابتدا ہوئی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے حضرت صاحبزادہ صاحب کی شہادت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ:
’’شہیدمرحوم نے مر کر میری جماعت کو ایک نمونہ دیااور درحقیقت میری جماعت ایک بڑے نمونے کی محتاج تھی‘‘۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اسی کے ذکر میں پھر آگے فرماتے ہیں کہ ’’خدا تعالیٰ کا ہزار ہزار شکر ہے کہ ایسے بھی ہیں (یعنی افراد جماعت میں سے) کہ وہ سچے دل سے ایمان لائے اور سچے دل سے اس طرف کو اختیار کیا اور اس راہ کے لئے ہر ایک دکھ اُٹھانے کے لئے تیار ہیں۔ لیکن جو نمونہ اس جوانمرد (یعنی صاحبزادہ صاحب) نے ظاہر کر دیا، ابھی تک وہ قوتیں اس جماعت کی مخفی ہیں‘‘۔ فرمایا ’’خدا سب کو وہ ایمان سکھاوے اور وہ استقامت بخشے جس کا اس شہید مرحوم نے نمونہ پیش کیا‘‘۔ (تذکرۃ الشہادتین روحانی خزائن جلد 20صفحہ57-58)
اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اس دعا کو جو آخری فقرے میں ہے، قبولیت عطا فرمائی اور بہت سوں کووہ استقامت بخشی جس سے انہوں نے اپنی جانوں کے نذرانے وقت آنے پر پیش کئے۔ اُن پہلے شہداء کی قربانیوں کے تسلسل کو پاکستان کے احمدیوں نے سب سے زیادہ جاری رکھا اور سینکڑوں میں اپنی قربانیاں پیش کیں۔ ہر شہیدنے ایمانی حرارت اور استقامت کا مظاہرہ کیا۔ ہر شہیدِ احمدیت کا اپنا اپنا ایک رنگ ہے جس کے ساتھ اُس نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا، جس میں انڈونیشیا کے شہید بھی شامل ہیں، ہندوستان کے بھی اور دوسرے ممالک کے بھی۔ لیکن بعض نمایاں ہو جاتے ہیں۔ 1974ء میں جماعت احمدیہ کے خلاف جو فسادات ہوئے تھے، اُن میں تیس پینتیس احمدی شہید کئے گئے تھے۔ لیکن بعض ایسی حالت میں شہید ہوئے کہ اُنہیں اذیت دے دے کر شہید کیا گیا۔ باپ اور بیٹے کو شہید کیا گیا۔ باپ کے سامنے بیٹے کو اذیت دی جاتی تھی۔ بیٹے کے سامنے باپ کو اذیت دے کر یہ کہا جاتا تھا کہ احمدیت سے تائب ہوتے ہو یا نہیں؟ اور یہ سب کچھ صرف لوگ نہیں کر رہے تھے بلکہ وہاں کی پولیس بھی سامنے کھڑی یہ تماشا دیکھ رہی ہوتی تھی۔
انڈونیشیا میں سرِ عام پولیس کی نگرانی میں اور ریاستی کارندوں کی نگرانی میں دہشتگردی کا نشانہ بنا کر اور اذیت دے دے کر احمدیوں کو شہید کیا گیا لیکن ایمان کی حفاظت کرنے والوں اور استقامت کے پتلوں نے اپنے جسم کے روئیں روئیں پرزخم کھا لیا، ایک ایک انچ پر زخم کھا لیا لیکن ایمان کو ضائع نہیں ہونے دیا۔
پس چاہے پاکستان کا قانون ہو یا انڈونیشیا کا یا کسی بھی اور ملک کا یہ احمدیوں کی زندگیوں کو تو چھین سکتا ہے لیکن اُن کی وفاؤں کو نہیں چھین سکتا۔ اب سنا ہے ملائشیا بھی اس قانون کے ذریعے اس صف میں آ رہا ہے بلکہ آچکا ہے۔ انہوں نے بھی ایک نیا قانون بنایا ہے جو ظاہر ہو رہا ہے۔ یہ بھی آزما کر دیکھ لیں لیکن یہ یاد رکھیں کہ جب خدا کی تقدیر اپنا کام شروع کرے گی تو حساب چکانا مشکل ہو جائے گا۔ پھر کوئی مُلّاں اور کوئی قانون ان کو بچانے کے لئے آگے نہیں بڑھے گا بلکہ یہ نام نہاد علماء جو رحمۃ للعالمین کے نام کو بدنام کرنے کی مذموم کوشش کررہے ہیں، مجرموں کے کٹہرے میں سب سے پہلے کھڑے کئے جائیں گے اور احمدیوں کا ایمان اور صبر اور استقامت ایک شان کے ساتھ چمک رہا ہو گا۔
پس احمدیوں کو اس بات کی فکر نہیں۔ اُنہیں پتہ ہے کہ انجامکار اُنہی کی فتح ہے۔ قربانیاں تو قومیں دیتی ہیں، وہ بھی دے رہے ہیں۔ لیکن ان قربانیوں کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول ہے۔ اس لئے یہ قربانیاں جو احمدی دیتے رہے ہیں، اب بھی دے رہے ہیں اور آئندہ بھی دیتے رہیں گے یہ کوئی بلا مقصد اور معمولی قربانیاں نہیں۔ جیسا کہ مَیں نے کہا پاکستان میں سب سے زیادہ ظلم و بربریت کی داستانیں رقم ہو رہی ہیں۔ حکومت کے ارباب حل و عقد چاہے کہتے رہیں، لیکن آج بھی ریاستی کارندے اپنے زیر سایہ دہشتگردی کر رہے ہیں۔ ان کارندوں کی دہشتگردی آج بھی احمدیوں کو ظلم و بربریت کا نشانہ بنا رہی ہے۔
گزشتہ دنوں ربوہ کے پولیس اہلکاروں نے جن میں تھانہ انچارج اور اُس کے اسسٹنٹ شامل تھے اور ایک اطلاع کے مطابق اُس سے بڑے افسر بھی، ہمارے ایک انتہائی مخلص اور فدائی احمدی کو ایک ماہ کے قریب بغیر کسی قسم کا کیس رجسٹر کئے تھانہ میں رکھا اور پھر کسی نا معلوم جگہ لے جا کر آٹھ دس دن تک شدید تشدد کا نشانہ بنایاجس کے نتیجے میں یہ مخلص اور فدائی احمدی جن کا نام عبد القدوس تھا، صبر و استقامت سے یہ ٹارچر اور اذیت برداشت کرتے ہوئے اپنے خدا کے حضور حاضر ہو گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ انہوں نے تو شہادت کا یہ رتبہ پا لیا۔
اس واقعے کی تفصیل اس طرح پر ہے کہ ربوہ کے محلہ نصرت آباد کے رہائشی ایک شخص احمد یوسف اسٹام فروش جو عدالت کے باہر سٹیمپ پیپر بیچنے والے تھے، اُن کو چار پانچ اکتوبر کی درمیانی رات کو کسی نے قتل کر دیا اور پولیس نے پھر مقتول کے بیٹے کے کہنے پر، اُس کے ایماء پر مختلف احباب کو مختلف اوقات میں شک کی بنا پر گرفتار کر کے شامل تفتیش رکھا اور بعد میں ان تمام احباب کو جن کو پکڑا گیا تھا بے گناہ کر کے چھوڑ دیا گیا۔ اسی سلسلے میں مقتول کا بیٹا جو مدعی تھا، اُس کی طرف سے ماسٹر عبدالقدوس صاحب شہید کا نام بھی لیا گیا جس پر پولیس نے اُنہیں بھی تھانہ بلالیا۔ یہ محلہ نصرت آباد کے صدر جماعت تھے۔ اس کے بعد مدّعی نے ماسٹر عبدالقدوس صاحب جیسا کہ مَیں نے کہا صدر محلہ تھے، اُن کو بغیر کسی وجہ کے اس کیس میں نامزد کر دیا۔ پھر ڈی پی او کو تحریری درخواست دی۔ پولیس نے ماسٹر صاحب کو 10؍فروری کو مغرب کی نماز کے وقت مسجد میں آ کے گرفتار کر لیا۔ پکڑ کے تو لے گئی لیکن باقاعدہ جو پرچہ کاٹا جاتا ہے، گرفتاری ڈالی جاتی ہے، وہ نہیں ڈالی۔ رابطہ کرنے پر پولیس والوں نے یہی کہا اور مسلسل یہی کہتے رہے کہ ہم جانتے ہیں یہ بھی بے گناہ ہے۔ بڑے افسران سب یہی کہتے رہے کہ جلد ہی معاملہ کلیئر (clear) ہو جائے گا۔ بعض مجبوریاں ہیں، یہ ہے وہ ہے، اس لئے ہم نے پکڑا ہوا ہے۔ اسی دوران 17؍مارچ کو ماسٹر عبدالقدوس صاحب کو پولیس نے تھانہ ربوہ سے کسی نامعلوم جگہ پر منتقل کر دیا۔ ان کو غائب کرنے کے کوئی دس دن کے بعد 26؍ مارچ کو پولیس اُنہیں تھانہ میں واپس لے آئی اور ماسٹر صاحب کے ایک دوست کو فون کر کے کہا کہ اپنا بندہ آ کے لے جاؤ۔ اپنے آدمی کو لے جاؤ۔ جس پر وہ دوست وہاں گئے تو ماسٹر صاحب نے کہا کہ مجھے یہاں سے لے جائیں۔ جس پر پولیس نے اُس دوست سے ایک سادہ کاغذ پر دستخط بھی لے لئے کہ یہ مَیں واپس لے کر جا رہا ہوں اور ماسٹر صاحب کو اُن کے حوالے کر دیا۔ کیونکہ ماسٹر عبدالقدوس صاحب کی حالت ٹھیک نہیں تھی اس لئے وہ دوست اُنہیں فوری طور پر وہاں سے ہسپتال لے گئے جہاں جا کے پھر پتہ لگا کہ پولیس نے غائب کرنے کے ابتدائی دو تین دن میں ماسٹر صاحب پر بہت زیادہ تشدد کیا جس کی وجہ سے اُن کی حالت خراب ہو گئی۔ اُنہیں پاخانے میں بھی خون آتا رہا، خون کی اُلٹیاں بھی آتی رہیں، اسی طرح ان کے گردوں پر بھی کافی اثر ہوا۔ ویسے ہوش میں تھے لیکن اندرونی طور پر انتہائی شدید چوٹیں لگی تھیں۔ ماسٹر صاحب نے ملاقات کے دوران بتایا کہ17؍مارچ کو رات کے اندھیر ے میں اُنہیں کچھ پولیس اہلکار تھانہ ربوہ سے پانچ چھ گھنٹے کی ڈرائیو کے فاصلے پر ایک نامعلوم مقام پر لے گئے اور انتہائی تشدّد کیا۔ کچی سڑکیں ہیں، تھوڑا فاصلہ بھی ہو تووہاں وقت زیادہ لگتا ہے۔ بالکل ویران جگہ تھی۔ پولیس والے اُنہیں مار مار کے یہ کہتے رہے کہ کسی عہدیدار کا نام بتاؤ جو اس قتل میں ملوث ہے۔ تم بھی عہدیدار ہو۔ نام بتا دو تو تمہیں چھوڑ دیں گے، اُس کو پکڑ لیں گے۔ اور ایک کاغذ پر دستخط کروانے کی کوشش کرتے رہے۔ ان عہدیداروں میں بعض ناظران کے نام بھی انہوں نے لئے، اَوروں کے نام بھی۔ جس پر ماسٹر صاحب نے دستخط نہیں کئے۔ یہ جب مارتے تھے اور جب تشدد کرتے تھے تو پولیس والوں کا کہنا تھاکہ پہلی بار کوئی جماعتی عہدیدار ہاتھ لگا ہے۔ پہلے تو یہ چھوٹ جایا کرتے تھے۔ اور پھر تشدد شروع کر دیتے تھے۔ اس دوران میں تشدد کرتے ہوئے یہ اہلکار جو ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور خلفاء کے نام لے کر جماعت کے خلاف بھی شدید بدزبانی کرتے رہے۔ تشدد کے نتیجے میں ماسٹر عبدالقدوس صاحب کی حالت بہت خراب ہوگئی۔ اور جیسا کہ مَیں نے بتایا خون کی الٹیاں آتی رہیں۔ جس پر پولیس والوں نے تشدد روک دیا۔ اُنہیں کچھ دوائیاں وغیرہ دیں۔ جب ان کی حالت قدرے بہتر ہوئی تو پولیس اُنہیں پھر تھانہ واپس لے آئی اور اُس کے دوست کے حوالے کر دیا۔ ماسٹر عبدالقدوس صاحب کو فضل عمر ہسپتال میں داخل کر کے آئی سی یو (ICU) میں رکھا گیا۔ مسلسل خون کی بوتلیں لگائی گئیں تو ان کی الٹیاں رک گئی تھیں۔ لیکن شہادت سے ایک روز قبل29؍ مارچ کو ایک دو روز کے وقفے کے بعد دوبارہ خون کی الٹیاں آئیں اور ان کی حالت دوبارہ زیادہ بگڑ گئی۔ پھیپھڑے بھی متاثر ہو گئے جس کی وجہ سے30؍ مارچ کو گزشتہ جمعہ کو بے ہوش ہو گئے اور اُسی حالت میں اُن کی وفات ہو گئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ وفات سے پہلے طاہر ہارٹ میں بھی ان کو شفٹ کیا گیا تھا۔ ڈائیلیس (Dialisis) کا بھی پروگرام تھا۔ تیاری ہو رہی تھی لیکن پولیس کا جو تشدد تھا، اُس کی اندرونی چوٹوں کی وجہ سے بہرحال یہ جانبر نہ ہوسکے اور شہادت کا رُتبہ پایا۔
اس کی مزید تفصیل ان کے برادرِ نسبتی نے لکھی ہے جو انہوں نے ان کو بتایا۔ یہ اِن کے پاس ہسپتال میں رہتے رہے تھے کہ17؍ مارچ کو ربوہ کے پاس، چنیوٹ سے آگے جا کے وہاں ایک جگہ ہے جھنگڑ گلوتراں، یہ اُن کو وہاں لے گئے اور شدید ظالمانہ تشدد کیا۔ (لکھتے ہیں کہ ساری باتیں جو مَیں بتا رہاہوں بڑے وثوق سے بتا رہا ہوں مجھے انہوں نے خود بتائی ہیں۔) امجد باجوہ صاحب کے ساتھ پیدل چل کے یہ پولیس تھانہ سے باہر آئے۔ اس کے بعد ہم ان کو ہسپتال لے گئے تو وہاں رستے میں انہوں نے کہا کہ مجھ پر بہت تشدد ہوا ہے۔ بڑا خوفناک تشدد تھا۔ اور یہ بھی بتایا کہ تھانیدار اور جو تفتیشی افسر تھا وہ اس تشدد میں شامل تھے۔ چنیوٹ سے پنڈی بھٹیاں روڈ پر لے گئے۔ وہاں سے پھر ہرسہ شیخاں سے آگے دریاکی طرف لے گئے۔ دریاکے اندر سے ہی کوئی راستہ نکلتا تھا، جس طرح کہ مَیں نے بتایا جھنگڑ گلوتراں، وہاں لے گئے اور وہاں لے جا کے جو پولیس چوکی تھی وہاں مجھے حوالات میں بند کر دیا اور اُس کے بعد وہاں سے کچھ دیر بعد جب میں باہر آیا تو کرسیوں پر دائرہ کی صورت میں ربوہ کا تھانیدار، تفتیشی افسر، وہاں کا لوکل تھانیدار اور جو ڈی ایس پی تھے وہ بھی کرسیوں میں بیٹھے ہوئے دائرے کی شکل میں موجود تھے، اور اُن کے ہاتھ میں ایک کاغذ تھا کہ یہ تمہارا بیان ہے اس پر دستخط کر دو۔ جیسا کہ مَیں نے بتایا کہ ربوہ کی مرکزی انجمن اور صدر عمومی وغیرہ کے خلاف بیان تھا، تو انہوں نے کہا کہ یہ غلط بیانی ہے مَیں کیوں کروں۔ اُس میں یہ بیان تھا کہ جو قتل ہوا ہے اُس میں یہ یہ لوگ ملوث ہیں اور انہوں نے یہ کروایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر تم یہ دستخط کر دو تو ہم تمہیں چھوڑ دیں گے۔ کہتے ہیں مَیں نے دستخط کرنے سے انکار کر دیا کہ یہ میرا بیان ہی نہیں ہے اور ایسا ہوا بھی نہیں ہے۔ مَیں کس طرح دستخط کر سکتا ہوں؟ تو پھر انہوں نے مجھے دھمکیاں دیں کہ خود دستخط کردو تو بچ جاؤ گے، ورنہ ہم تو تم سے اُگلوا لیں گے۔ ماسٹر صاحب بیان کرتے ہیں کہ میرے دو دفعہ انکار کے بعد ساتھ کھڑے ہوئے دو ہٹّے کٹّے لوگوں نے مجھے گرا لیا اور مارنا شروع کر دیا۔ اس کے بعد مسلسل مجھ پر تشدد کرتے رہے اور اپنا مطالبہ دہراتے رہے۔ اور تشددکے مختلف طریقے تھے۔ یہ بعض لفظ انہوں نے لکھے ہوئے ہیں، رسّہ لگانا، منجی لگانا یا سریہ لگانا، رُولا پھیرنا۔ یہ تو مختلف چیزیں ہیں۔ بہر حال رُولا پھیرنا جو ہے وہ لکڑی کا ایک رُولا ہوتا ہے، جو بڑا سارا اور کافی وزنی ہوتا ہے، وہ لٹا کے جسم پر پھیرا جاتا ہے۔ اور اسی طرح رسّہ باندھ دیا۔ پھر رسّہ باندھ کر گھسیٹتے رہے۔ اس کے علاوہ مسلسل جگائے رکھا اور جب آنکھ بند ہونے لگتی تو مجھے حوالات سے باہر نکال کے مارنا شروع کر دیتے۔ وہاں ایک نامی گرامی بدمعاش تھا اور نامی ڈاکو اور چور ہے۔ کہتے ہیں وہ بھی ساتھ تھا۔ پولیس کا ایک چھتر ہوتا ہے چمڑے کاایک بہت لمبا سارا، اُس کو لگا کر مارتے ہیں۔ اُس کو اگر پانچ مارتے تھے تو ماسٹر صاحب کہتے ہیں مجھے پچیس مارتے تھے۔ ایک دفعہ طبیعت خراب ہوئی تو پھر ہرسہ شیخاں لے گئے جو وہاں قریب ایک گاؤں ہے، وہاں سے کچھ انجکشن لگوائے، کچھ دوائیاں دیں، پھر طبیعت سنبھلی تو پھر تشددّ کرنے لگ گئے اور یہ سب تھانیدار وغیرہ بیچ میں شامل تھے۔ غلیظ گالیاں بھی نکالتے رہے۔ کہتے تھے اب لندن سے بلواؤ جو تمہارے بڑے ہیں، اُن کو کہو وہ تمہیں چھڑوالیں۔ ربوہ سے بلاؤ، پھر بزرگوں کو غلیظ گالیاں دیتے تھے۔ کہتے ہیں مجھے گالیاں سُن کے بڑی تکلیف ہوتی تھی۔ مار تو برداشت ہو رہی تھی لیکن گالیاں سننا مشکل تھا۔ کھانا بھی کبھی کبھار دیتے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ ایسا تشدد اور ظلم کبھی نہ مَیں نے سنا اور نہ کبھی دیکھا ہے۔ مجھ میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ مَیں برداشت کر سکتا۔ مَیں دعائیں کرتا تھا کہ اللہ تعالیٰ مجھے تشدد سہنے کی، برداشت کرنے کی ہمت دے اور اللہ تعالیٰ نے پھر اپنے فضل سے ہمت دی کہ وہ اُس کو برداشت کر سکے۔ صدر عمومی صاحب نے مجھے لکھا کہ مَیں نے اُن کو کہا کہ انہوں نے اتنا کچھ تشدد کیا ہے، کچھ تو آپ سے لکھوا لیا ہو گا؟ کہتے ہیں کہ انہوں نے بڑے جذباتی انداز میں مجھے کہا کہ وہ تو مجھ سے ایک نکتہ بھی نہیں ڈلوا سکے۔
پس یہ ہے ایمان کو سلامت رکھنے والے اور سچائی پر قائم رہنے والے کی کہانی۔ اس عزم اور ہمت کے پیکر نے جان دے دی مگر جھوٹی گواہی نہیں دی۔ اللہ تعالیٰ نے جھوٹ کو بھی شرک کے برابر قرار دیا ہے۔ پس اس عظیم شہیدنے ہمیں جہاں بہت سے سبق دئیے وہاں یہ سبق بھی دیا جو جماعت احمدیہ کے قیام کی بنیادی غرض ہے کہ توحید کے قیام کے لئے اپنی جان کی بھی کچھ پرواہ نہیں کرنی کیونکہ جھوٹ بھی شرک کے برابر ہے اور ہمارے سے شرک نہیں ہو سکتا۔ شہید مرحوم نے اپنے عہدِ بیعت کو بھی نبھایا اور خوب نبھایا۔ شہید مرحوم اگر اذیت کی وجہ سے پولیس کی من پسند سٹیٹمنٹ دے دیتے جیسا کہ وہ بتاتے رہے ہیں تو اس کے نتائج جماعت کے لئے مجموعی طور پر بھی بہت خطرناک ہو سکتے تھے۔ جس طرح مرزا غلام قادر شہید کو آلہ کار بنانا چاہا تھا، وہ تو ایک نام نہاد تنظیم یا دہشت گرد تنظیم نے بنایا تھالیکن یہاں تو پولیس نے بنانا چاہا۔ اور کیونکہ ضلع کے جو بڑے پولیس افسران ہیں، وہ اس ظلم سے انکار ہی کر رہے ہیں اور اپنی معصومیت ظاہر کر رہے ہیں اس لئے یہ بھی بعیدنہیں کہ اُن کو بائی پاس کر کے چھوٹے افسران کے ذریعہ سے حکومتی لیول پر اوپر سے کوئی حکم آتے رہے ہوں۔ اعلیٰ حکام بعض دفعہ ہدایات دیتے رہتے ہیں اور جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں ضیاء صاحب خود تھانیدار کو فون کر سکتے تھے تو یہاں بھی ایساہی ہو سکتا ہے جہاں صوبائی حکومت بھی ہمارے خلاف ہے۔ اب جب ان پولیس افسران کے خلاف پرچہ کی کوشش ہو رہی ہے تو حکام بالا کی طرف سے صلح صفائی کے لئے دباؤ بھی ڈالا جا رہا ہے کہ صلح کر لو۔ گو پاکستان میں مجرم جو ہیں وہی صاحبِ اقتدار بھی ہیں اور انصاف کی امید بظاہر نہیں ہے لیکن قانون کے اندر رہتے ہوئے جماعت تمام ذرائع استعمال کر رہی ہے اور انشاء اللہ کرے گی۔ بہر حال اگر یہ کسی قسم کی تحریر جو پولیس کی پسند کی تھی اُس پر دستخط کر دیتے تو یہ بہت خطر ناک ہو سکتا تھا۔ قتل کے جھوٹے مقدمے میں جیسا کہ مَیں نے بتایا مرکزی عہدیداران کو گرفتار کرنا تھا۔ مرکزی دفاتر پر پابندی ہو سکتی تھی۔ جماعت کی تعلیم اور کوششوں کو کہ ہم امن پسند جماعت ہیں بدنام کرنے کی کوشش ہو سکتی تھی۔ اور بھی بہت ساری ایسی باتیں ہوسکتی تھیں جن سے جماعت کو نقصان پہنچتا۔ نہ صرف ملکی طور پر بلکہ بین الاقوامی طور پر بھی۔ بہر حال انہوں نے ایک مَکر کرنے کی کوشش کی لیکن اللہ تعالیٰ نے ایک ایسے مخلص کے ذریعہ جو عام زندگی میں انتہائی نرم دل تھا، جس کو اس قسم کی سختیوں کا تصور بھی نہیں تھا، اُس کے ذریعے سے ان کے مکر کو توڑا اور وہ ان کے جھوٹوں اور مکروں کے سامنے ایک مضبوط چٹان کی طرح کھڑا ہو گیا اور جماعت پر آنچ نہیں آنے دی۔
پس اے قدوس! ہم تجھے سلام کرتے ہیں کہ تُو نے اپنے آپ کو انتہائی اذیت میں ڈالنا تو گوارا کر لیالیکن جماعت کی عزت پر حرف نہیں آنے دیا۔ تُو نے اپنی جان دے کر جماعت کو ایک بہت بڑے فتنے سے بچا لیا۔ پس ماسٹر عبدالقدوس ایک عام شہیدنہیں ہیں بلکہ شہداء میں بھی ان کا بڑا مقام ہے۔ اس عارضی دنیا سے تو ایک دن سب نے رخصت ہونا ہے، لیکن خوش قسمت ہیں ماسٹر عبدالقدوس صاحب جن کو خدا تعالیٰ نے زندہ کہا ہے۔ اور وہ ایسے رزق کے پانے والے بن گئے ہیں جو دنیاوی رزقوں سے بہت اعلیٰ و ارفع ہے۔ جس جماعت اور جس مقصد کی خاطر انہوں نے قربانی دی ہے اُس کے بارے میں حقیقی خوشخبریوں کا پتہ تو انہیں اُس جہان میں جا کر چلا ہو گا۔ لیکن شہید مرحوم ہمیں جو سبق دے گئے ہیں ہمیں اُسے ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: حَسْبُنَا اللّٰہُ وَنِعْمَ الْوَکِیْل۔ کہ ہمیں اللہ کافی ہے اور کیا ہی اچھا کارساز ہے۔ پس جیسے بھی حالات گزر جائیں اللہ تعالیٰ کا دامن نہ چھوڑنا۔ یہ سبق انہوں نے دیا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی اس طرح بیان فرمایا ہے کہ دنیا والے تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے اگر اللہ تعالیٰ سے تمہارا مضبوط تعلق ہے۔
یہ لوگ جو اپنے زُعم میں احمدیوں کو گالیاں نکال کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے متعلق نازیبا الفاظ کہہ کر ہمارے دلوں کو چھلنی کرتے ہیں، اذیتیں دے کر خوش ہوتے ہیں، ایک دن انشاء اللہ آنے والا ہے جب خدا تعالیٰ ان میں سے ایک ایک سے حساب لے گا۔
شہید مرحوم احمدیوں کے لئے جو پاکستان میں رہنے والے ہیں بالعموم اور اہلِ ربوہ کے لئے بالخصوص یہ پیغام بھی چھوڑ کر گئے ہیں کہ قانون کا احترام اور حکومتی کارندوں کا احترام بیشک ہر احمدی کا فرض ہے لیکن کسی بھی انسان سے چاہے وہ کتنا ہی بڑا پولیس اہلکار ہو یا افسر ہو، خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ چاہے جو ظلم بھی وہ ہم پر روا رکھے ایک احمدی کو اگر خوف ہونا چاہئے تو صرف ایک ہستی کا، اور وہ خدا تعالیٰ کی ذات ہے۔
پولیس اہلکاروں کا زور صرف قانون کا احترام کرنے والوں پر چلتا ہے۔ دہشتگردوں کے سامنے، ملاّں کے سامنے، جس نے توڑ پھوڑ اور شدت پسندی کرنی ہے، جس نے ان کا مقابلہ کرنا ہے، جس نے ان کو آگے سے بموں سے اڑانا ہے، اُن کے سامنے تو ان کی گھگھی بندھ جاتی ہے۔
گزشتہ دنوں غیر از جماعت دوستوں سے، جو مختلف طبقوں سے تعلق رکھنے والے تھے، ایک مجلس ہوئی تو ایک صاحب مجھے کہنے لگے کہ آپ کی جماعت کی ایک خصوصیت ہے کہ ہر ایک نے عہدِ بیعت کیا ہوا ہے۔ اور جو آپ اُنہیں کہیں وہ مانتے ہیں اور ماننے کو تیار ہو جاتے ہیں، تو پاکستان کے حالات کے بدلنے میں آپ لوگ کوئی عملی قدم کیوں نہیں اُٹھاتے۔ انہیں مَیں نے بتایا کہ سیاسی نظام کا حصہ توہم نہیں بن سکتے۔ کیونکہ قانون احمدی کو کہتا ہے کہ سیاست میں آنے کے لئے پہلے اپنے آپ کو غیر مسلم کہو، پھر جمہوری نظام کا حصہ بنو جس میں ووٹ ڈالنے کا حق ہے اور یہ ہم کبھی نہیں کریں گے، ہم کر نہیں سکتے۔ دوسرے سڑک پر اپنی طاقت کا اظہار ہے یا شدت پسندی ہے، یا دہشتگردی ہے، ہم نے یہ بھی نہیں کرنی کیونکہ ہم قانون کے پابند لوگ ہیں اور یہی ہم نے اس زمانے کے ہادی کو مان کر سیکھا ہے اور جو صحیح اسلامی تعلیم ہے اس سے بھی ہم دُور نہیں جا سکتے۔ پس حکومتی ادارے تو اُن کا ساتھ دیتے ہیں جو شدت پسند ہیں یا اُن سے ڈرتے ہیں جو شدت پسند ہیں، جن کی سڑک کی طاقت ہے، جو سڑکوں پر آ جاتے ہیں۔ اسی طرح سیاستدان بھی اُنہی کی سنتے ہیں تبھی تو احمدیوں کو اُن کے جائز حقوق سے بھی محروم کیا جاتا ہے۔ مَیں نے اُن کو کہا کہ جہاں تک بیعت کا تعلق ہے، یہ بیعت ہی تو ہے جس کی وجہ سے خاموشی سے احمدی اپنی جان مال کی قربانیاں دیتے چلے جا رہے ہیں اور کوئی قانون ہاتھ میں نہیں لیتے۔ لیکن بہر حال ایک وقت انشاء اللہ آئے گا جب یہی لوگ احمدیوں کی عزت اور احترام کرنے پر مجبور ہوں گے۔ گو آج ہمیں ظلموں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے لیکن خدا تعالیٰ کے ہاں اندھیر نہیں۔ ہاں شاید کچھ دیر اور مہلت اُن کو مل جائے۔ پس صرف خدا تعالیٰ کے آگے جھکیں، اُس سے مدد طلب کریں اور اللہ تعالیٰ کی غالب تقدیر کا انتظار کریں۔ عزیزم قدوس شہید کے معاملے میں بعض پولیس افسران نے کہا تو ہے کہ ذمہ داروں کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی لیکن دوسری طرف دباؤ بھی ڈالا جا رہا ہے۔ اللہ کرے کہ ان کی انصاف کی آنکھ روشن ہو جائے۔ ابھی تو یہ کہا جاتا ہے کہ ظلم و بربریت گو حکومتی اہلکاروں نے کیا ہے لیکن یہ اُن تک محدود ہے اور جب یہ شور پڑا تو اب یہ کہنے لگ گئے ہیں کہ حکومت کا یا افسران کا اس میں کوئی دخل نہیں۔ لیکن اگر انصاف نہ کیا گیا تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ پوری حکومتی مشینری اس حکومتی دہشتگردی میں شامل تھی۔ اور پھر جیسا کہ مَیں نے کہا خدا تعالیٰ کے ہاں شاید دیر تو ہو اندھیر نہیں ہے اور یقینا یہ لوگ اپنے عبرتناک انجام کو پہنچیں گے۔ جماعت کو نقصان پہنچانے کی ان کی جو حسرت و خواہش ہے، اُس میں یہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے۔ جماعت انشاء اللہ تعالیٰ ترقی کرتی چلی جائے گی۔ احمدیت کا دوصد ممالک میں پھیل جانا انہی جانی قربانی کرنے والوں کی قربانیوں کا نتیجہ ہے۔ پس احمدیوں کو ہر قربانی کے نتیجے میں اس بات پر اور زیادہ پختہ ہونا چاہئے کہ یہ ہماری ترقی کے دن قریب کر رہی ہے۔ جتنی بڑی قربانی ہے اتنی زیادہ جلد اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی امید ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اس وعدے کو یاد رکھیں کہ قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ولَاتَھِنُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُؤْمِنِیْنَ (اٰل عمران: 140) اور تم کمزوری نہ دکھاؤ، نہ غم کرو۔ اور تم ہی بالا ہو گے اگر تم مومن ہو۔ پس اپنے ایمانوں کی حفاظت کرنا ہمارا فرض ہے۔
پس ہر شہادت ہر قربانی ہمارے ایمان میں ترقی کا باعث بننی چاہئے اور پھر دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل انشاء اللہ تعالیٰ کس طرح نازل ہوتے ہیں۔ صبر، ہمت اور دعا سے کام لیتے چلے جائیں۔ بعض لوگ مجھے لکھ دیتے ہیں کہ صبر اور دعا کے علاوہ بھی کچھ کرنا چاہئے۔ مَیں پہلے بھی بتاتا رہتا ہوں اور بتا بھی آیا ہوں اور ہمیشہ کہتا رہتا ہوں کہ صبر اور دعا ہی ہمارے ہتھیار ہیں۔ اس کا صحیح استعمال ہر احمدی کرے تو پھر دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل کس تیزی سے نازل ہوتے ہیں۔ ابھی بھی اللہ تعالیٰ ہماری کوششوں اور ہماری دعاؤں سے کہیں زیادہ بڑھ کر پھل ہمیں عطا فرما رہا ہے۔ پس کوئی وجہ نہیں کہ ہم مغموم ہوں یا بے دل ہوں۔ بظاہر دشمن کے بھی خوفناک منصوبے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَلَا تَحْزَنُوْا۔ غم نہ کرو۔ انشاء اللہ تعالیٰ دشمن کے منصوبے ہوا ہوجائیں گے۔ دشمن کی حسرت کبھی پوری نہیں ہو گی کہ وہ جماعت کو ختم کر سکے۔ ہاں ان لوگوں کے کونے آہستہ آہستہ کٹتے رہیں گے اور کٹ رہے ہیں اور ان میں سے ہی سعید فطرت جماعت احمدیہ میں شامل ہوتے چلے جائیں گے۔ پس ہر قربانی ہمیں اس طرف توجہ دلاتی ہے اور دلانی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے ہماری اقلیت کو اکثریت میں بدلنے کے لئے ہم سے ایک اور چھلانگ لگوائی ہے۔ اور قدوس شہید جیسی قربانیاں تو سینکڑوں چھلانگیں لگوانے کا باعث بنتی ہیں اور انشاء اللہ تعالیٰ بنیں گی۔ ہمارا ردِ عمل نہ مایوسی ہے، نہ شدت پسندی۔ ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے کئے گئے اللہ تعالیٰ کے وعدوں پر کامل یقین ہے بلکہ ہم پوراہوتے بھی دیکھ رہے ہیں۔ آپ کو اور آپ کی جماعت کو اللہ تعالیٰ نے صبر اور دعا کے ساتھ اپنا کام کرتے چلے جانے کے لئے کہا ہے اور پھر کامیابی مقدر ہونے کا وعدہ کیا ہے۔ پس کون ہے جو ہمارے سے ہماری اس تقدیر کو چھین سکے جس کا خدا تعالیٰ نے فیصلہ کر لیا ہے۔ ہمیں دعا کرنی چاہئے کہ ہماری بے صبری، ہمارے ایمان کی کمزوری ہم سے اُن کامیابیوں کو دور نہ کر دیں جو مقدر ہیں۔ یہ بھی یاد رکھیں کہ جماعت احمدیہ نے ملک کے بنانے میں بھی اور اس کی تعمیر و ترقی میں بھی کردار ادا کیا ہے۔ اور قربانیاں بھی دی ہیں۔ آج بھی ملک کو احمدیوں کی دعائیں ہی بچا رہی ہیں اور بچا سکتی ہیں۔ ہم اپنے بڑوں کی قربانیوں کو جو انہوں نے ملک کے لئے دیں ان دکھوں، تکلیفوں اور شہادتوں کی وجہ سے ضائع نہیں کریں گے۔ انشاء اللہ۔
پس ان ظلموں کو ختم کرنے کا ایک ہی علاج ہے۔ اس ملک کو بچانے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ پہلے سے زیادہ خدا تعالیٰ کے حضور جھک کر اُس کا فضل مانگیں۔ ہم مظلوم بننے کے ساتھ اگر پہلے سے بڑھ کر تقویٰ، صبر، توکّل، ثباتِ قدم، دعا اور استغفار سے کام لیں گے تو انشاء اللہ تعالیٰ فتح کے نظارے جلد تر دیکھیں گے۔ اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو اور ہم پاکستان اور دوسرے اسلامی ممالک سے دین کے نام پر ظلم اور ہر قسم کے ظلم کو جلد تر ختم ہوتا دیکھیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’مامورین اور اُن کی جماعت کو زلزلے آتے ہیں۔ ہلاکت کا خوف ہوتا ہے۔ طرح طرح کے خطرات پیش آتے ہیں۔ ’کُذِبُوْا‘کے یہی معنے ہیں۔ دوسرے ان واقعات سے یہ فائدہ ہے کہ کچّوں اور پکّوں کا امتحان ہوجاتا ہے۔ کیو نکہ جو کچّے ہو تے ہیں ان کا قدم صرف آسودگی تک ہی ہو تا ہے۔ جب مصائب آئیں تو وہ الگ ہوجاتے ہیں۔ میرے ساتھ یہی سنت اللہ ہے کہ جب تک ابتلا نہ ہو تو کو ئی نشان ظاہر نہیں ہوتا۔ خدا کا اپنے بندوں سے بڑا پیار یہی ہے کہ ان کو ابتلا میں ڈالے جیسے کہ وہ فر ماتا ہے: وَبَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَ۔الَّذِیۡنَ اِذَاۤ اَصَابَتۡہُمۡ مُّصِیۡبَۃٌ ۙ قَالُوۡۤا اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ (البقرۃ: 157-156) یعنی ہر ایک قسم کی مصیبت اور دکھ میں ان کا رجوع خدا تعالیٰ ہی کی طرف ہو تا ہے۔ خدا تعالیٰ کے انعامات انہی کو ملتے ہیں جواستقامت اختیار کرتے ہیں۔ خوشی کے ایام اگرچہ دیکھنے کو لذیذہو تے ہیں مگر انجام کچھ نہیں ہوتا۔ رنگ رلیوں میں رہنے سے آخر خدا کا رشتہ ٹوٹ جاتا ہے۔ خدا کی محبت یہی ہے کہ ابتلا میں ڈالتا ہے اور اس سے اپنے بندے کی عظمت کو ظاہر کرتا ہے۔ مثلاًکسریٰ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی گرفتاری کا حکم نہ دیتا تو وہ معجزہ کہ وہ اسی رات ماراگیا کیسے ظاہر ہوتا۔ اور اگر مکّہ والے لوگ آپؐ کو نہ نکالتے تو ’’فَتَحْنَالَکَ فَتْحًا مُّبِیْنًا (الفتح: 2)‘‘ کی آواز کیسے سنائی دیتی۔ ہر ایک معجزہ ابتلا سے وابستہ ہے۔ غفلت اور عیاشی کی زندگی کو خدا سے کو ئی تعلق نہیں ہے۔ کا میابی پر کا میابی ہوتو تضرع اور ابتہال کا رشتہ تو بالکل رہتا ہی نہیں ہے۔ حالا نکہ خدا تعالیٰ اسی کو پسند کرتا ہے۔ اس لیے ضرور ہے کہ دردناک حالتیں پیدا ہوں۔‘‘ (ملفوظات جلدنمبر 3صفحہ586-587۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
اللہ تعالیٰ ہم سب کے ایمان میں ترقی عطا فرمائے اور عطا فرماتا چلا جائے اور ہمیں فتح اور نصرت کے نظارے بھی جلد دکھائے۔ ان قربانیوں کو قبول فرمائے اور شہید مرحوم کے بھی درجات بلند سے بلند تر فرماتا چلا جائے۔ جمعہ کی نماز کے بعد مَیں انشاء اللہ تعالیٰ شہید کا جنازہ غائب بھی پڑھاؤں گا۔
ان کے مختصر کوائف بھی بیان کر دیتا ہوں۔ ان کے والد کا نام میاں مبارک احمد صاحب ہے۔ ان کا تعلق سیالکوٹ سے ہے۔ ان کے خاندان میں احمدیت کا نفوذ آپ کے پڑدادا مکرم میاں احمد یار صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ذریعے ہوا جو فیروز والا، گوجرانوالہ کے رہنے والے تھے۔ انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ہاتھ پر بیعت کی اور صحابی کہلائے۔ اسی طرح آپ کی پڑدادی محترمہ مہتاب بی بی صاحبہ رضی اللہ عنہا بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحابیہ تھیں۔ ماسٹر عبدالقدوس صاحب شہید 1968ء میں پیدا ہوئے۔ پیدائشی احمدی تھے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے۔ شہادت کے وقت آپ کی عمر 43سال تھی۔ آپ نے ایف اے تک تعلیم حاصل کی۔ پھر پی ٹی سی کا کورس کیا اور ٹیچر لگ گئے۔ ماسٹر صاحب شہید کی شادی 1997ء میں روبینہ قدوس صاحبہ بنت مکرم ماسٹر بشارت احمد صاحب امیر پارک گوجرانوالہ سے ہوئی۔ جیسا کہ مَیں نے بتایا کہ آپ سکول ٹیچر تھے۔ تقریباً بیس سال کی سروس تھی۔ گورنمنٹ سکول ٹیچر تھے لیکن ربوہ میں ہی دار الصدرشمالی میں پڑھاتے رہے۔ آپ کے ساتھی اساتذہ کے مطابق آپ کا شمار نہایت محنتی اور دیانتدار اساتذہ میں ہوتا تھا۔ محلہ نصرت آباد میں رہائش سے قبل محلہ دارالرحمت شرقی میں رہائش پذیر تھے۔ محلہ دارالرحمت شرقی میں انہیں اطفال الاحمدیہ کے دور میں مجلس کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی توفیق ملی۔ پانچویں کلاس میں زیرِ تعلیم تھے جب سے جماعتی خدمات بجا لا رہے تھے۔ مجلس خدام الاحمدیہ میں بطور منتظم اطفال، بعد ازاں دس سال تک زعیم حلقہ کے عہدے پر فائز رہے۔ 1994ء میں نصرت آباد شفٹ ہوئے، تو یہاں بھی فوری طور پر جماعت کے کاموں میں شامل ہو گئے اور خدمت کی توفیق پائی۔ محلہ نصرت آباد میں زعیم حلقہ اور مجلس صحت کے زیرِ انتظام شعبہ کشتی رانی کے انچارج تھے۔ کشتی رانی اور سوئمنگ بھی ان کو بڑی اچھی آتی تھی۔ اڑھائی سال قبل صدر محلہ منتخب ہو گئے تھے۔ بطور صدر محلہ بڑے احسن رنگ میں خدمات بجا لا رہے تھے۔ آپ کے محلے کے احباب کے مطابق شہید مرحوم بہت زیادہ حسنِ سلوک سے پیش آنے والے اور بلند حوصلے کے مالک تھے۔ ان کے ساتھ اگر کوئی شخص سخت لہجے میں بھی، سخت الفاظ میں بھی بولتا تو اس بات کو ہنس کر ٹال دیا کرتے تھے۔ عہدے داروں کو بھی یاد رکھنا چاہئے کہ یہی رویہ ہر عہدے دار کا ہونا چاہئے۔ آپ کو مجلس خدام الاحمدیہ کے شعبہ حفاظت مرکز میں بھی ایک لمبا عرصہ خدمت کی توفیق ملی۔ 2002ء سے شہادت تک حفاظت مرکز کے تحت علومب کے انچارج رہے۔ تمام ڈیوٹی دہندگان اور کارکنان کے ساتھ انتہائی شفقت سے پیش آیا کرتے تھے۔ اگر دیر تک ڈیوٹیاں ہیں تو اُن کے کھانے پینے، چائے وغیرہ کے انتظام کرنا اور خود جاکرپہنچانا ان کا معمول تھا، خدام ان سے بڑے خوش تھے۔ ماسٹر عبدالقدوس صاحب شہیدنہایت اچھے اور خوش مزاج طبیعت کے مالک تھے۔ خدمتِ خلق کا جنون کی حد تک شوق تھا۔ دریائے چناب میں جب کبھی کوئی ڈوب جاتا تو احمدی یا غیر احمدی کا فرق کئے بغیر اُس کی لاش تلاش کرنے میں اپنے ساتھیوں کی نگرانی کرتے ہوئے دن رات محنت کرنے لگ جاتے، اور اُس وقت تک چین سے نہیں بیٹھتے تھے جب تک کہ نعش کو تلاش نہ کر لیں۔ بچپن سے وفات تک مختلف جماعتی عہدوں پر کام کرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ شہید مرحوم اطاعت اور فرمانبرداری کا ایک نمونہ تھے اور جماعتی عہدیداران کی عزت و احترام کا بہت زیادہ خیال رکھنے والے تھے۔ طالب علمی کے دَور سے ہی اُنہیں ورزشی مقابلہ جات میں حصہ لینے کا بہت شوق تھا۔ کبڈی، ہاکی، فٹ بال، کرکٹ وغیرہ کے اور کشتی رانی کے اچھے پلیئر تھے۔ ڈیوٹی دینے کے دوران مَیں نے دیکھا ہے، میرے ساتھ بھی انہوں نے ڈیوٹیاں دی ہیں کہ کبھی سامنے آ کر ڈیوٹی دینے کا شوق نہیں تھا۔ کوئی نام و نمودنہیں تھی۔ بڑھ بڑھ کے آگے آنے کا بعضوں کو شوق ہوتا ہے۔ باوجود انچارج ہونے کے پیچھے رہتے تھے، اور اپنے ماتحتوں کو آگے رکھتے تھے۔ ان کی والدہ محترمہ کی خواہش تھی کہ جامعہ میں جائیں لیکن بہر حال وہ خواہش پوری نہیں ہو سکی۔ مرحوم کی اہلیہ محترمہ نے بیان کیا کہ شہیدنہایت ملنسار، محبت کرنے والے، شاکر، ہمدرد اور دعا گو انسان تھے۔ ہم سب کا بہت خیال رکھتے تھے اور ہمارے ساتھ سخت رویہ کبھی نہیں اپنایا۔ باوجود تکلیف اور مشکل کے عزیزوں کی خوشیوں میں شامل ہوتے تھے۔ شہادت سے ایک روز قبل بچوں کو صبر، ہمت اور خلافت سے وابستگی کی تلقین کی۔ اللہ کرے یہ ان کی نسلوں میں جاری رہے۔ بلکہ ان کی اہلیہ نے جو خط مجھے لکھا اس میں انہوں نے لکھا کہ میرے میاں اکثر مجھے یہ کہا کرتے تھے۔ ’’فیر میں تینوں یاد آواں گا‘‘ یعنی ان کو پہلے کچھ اپنے بارے میں تھا اور آخری لمحات میں بھی یہی نصیحتیں کیں کہ میری والدہ کا خیال رکھنا، بچوں کا خیال رکھنا۔ تو یہ اُن کو تو خیر یاد آئیں گے ہی آئیں گے لیکن قدوس شہید سے ہمیں بھی یہ وعدہ کرنا چاہئے اور اہلِ ربوہ کو بھی کہ ہم احسان فراموش نہیں ہیں۔ یقینا انہوں نے جماعت پر بہت زیادہ احسان کیا ہے اور محسنوں کو جماعت کبھی بھلایا نہیں کرتی۔ ہمیں بھی وہ انشاء اللہ ہمیشہ یاد رہیں گے۔ فون پر میری ان کی والدہ سے بھی اور بچوں سے بھی بات ہوئی تھی، والدہ بوڑھی لیکن بڑی پُر عزم ہیں۔ اور کوئی غم نہیں تھا۔ بچے ماشاء اللہ اپنے غم کی بجائے میرا حال پوچھ رہے تھے۔ اسی طرح اہلیہ سے بات ہوئی۔ وہ بھی بڑی صابر و شاکر تھیں۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو صبر کی توفیق عطا فرمائے اور خود ان کا حافظ و ناصر ہو۔ والدین بوڑھے ہیں۔ ان کے والد تو یہاں ہالینڈ میں ہی رہتے ہیں لیکن والدہ وہاں، ان کے ساتھ، قدوس کے ساتھ ہی رہتی تھیں۔ اسی طرح ان کی اہلیہ ہیں جیسے مَیں نے بتایا۔ اس کے علاوہ ایک بیٹا عبدالسلام چودہ سال کا ہے جو آٹھویں کلاس کا طالبعلم ہے۔ عبدالباسط تیرہ سال کا ساتویں کلاس میں ہے، عبدالوہاب پانچ سال کا پہلی کلاس میں اور ایک بیٹی عطیۃ القدوس ہے دس سال کی جو چوتھی میں ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سب بچوں کا بھی حافظ و ناصر ہو۔ ابھی نمازِ جمعہ کے بعد انشاء اللہ تعالیٰ ان کی نمازِ جنازہ غائب پڑھاؤں گا۔
ہر جان جو احمدیت کی خاطر، کلمہ طیبہ کی خاطر، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق کی خاطر، خدا تعالیٰ اور صرف خدا تعالیٰ کا عبد بننے کی خاطر قربان ہو رہی ہوتی ہے وہ اس بات کا اعلان کر رہی ہوتی ہے کہ تمہارے مکر اور تمہاری کوششیں اور تمہاری زیادتیاں جماعت احمدیہ کی ترقی کو روک نہیں سکتیں۔
گزشتہ دنوں ربوہ کے پولیس اہلکاروں نے ہمارے ایک انتہائی مخلص اور فدائی احمدی کو ایک ماہ کے قریب بغیر کسی قسم کا کیس رجسٹر کئے تھانہ میں رکھا اور پھر کسی نا معلوم جگہ لے جا کر آٹھ دس دن تک شدید تشدد کا نشانہ بنایاجس کے نتیجے میں یہ مخلص اور فدائی احمدی جن کا نام عبد القدوس تھا، صبر و استقامت سے ہر ٹارچر اور اذیت برداشت کرتے ہوئے اپنے خدا کے حضور حاضر ہو گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔
اس عزم اور ہمت کے پیکر نے جان دے دی مگر جھوٹی گواہی نہیں دی۔ شہید مرحوم اگر اذیت کی وجہ سے پولیس کی من پسند سٹیٹمنٹ دے دیتے جیسا کہ وہ بتاتے رہے ہیں تو اس کے نتائج جماعت کے لئے مجموعی طور پر بھی بہت خطرناک ہو سکتے تھے۔
پس اے قدوس! ہم تجھے سلام کرتے ہیں کہ تُو نے اپنے آپ کو انتہائی اذیت میں ڈالنا تو گوارا کرلیا لیکن جماعت کی عزّت پر حرف نہیں آنے دیا۔ توُنے اپنی جان دے کر جماعت کو ایک بہت بڑے فتنے سے بچا لیا۔ پس ماسٹر عبدالقدوس ایک عام شہیدنہیں ہیں بلکہ شہداء میں بھی ان کا بڑا مقام ہے۔
یہ لوگ جو اپنے زعم میں احمدیوں کو گالیاں نکال کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے متعلق نازیبا الفاظ کہہ کر ہمارے دلوں کو چھلنی کرتے ہیں، اذیتیں دے کر خوش ہوتے ہیں، ایک دن انشاء اللہ آنے والا ہے جب خدا تعالیٰ ان میں سے ایک ایک سے حساب لے گا۔
خدا تعالیٰ کے ہاں شاید دیر تو ہو اندھیر نہیں ہے اور یقینا یہ لوگ اپنے عبرتناک انجام کو پہنچیں گے۔
ہم مظلوم بننے کے ساتھ اگر پہلے سے بڑھ کر تقویٰ، صبر، توکل، ثبات قدم، دعا اور استغفار سے کام لیں گے تو انشاء اللہ تعالیٰ فتح کے نظارے جلد تر دیکھیں گے۔
(ماسٹر عبدالقدوس صاحب شہید کی شہادت کے دردناک واقعہ کی لرزہ خیز تفصیلات۔ شہید مرحوم کا ذکرخیر اور نما ز جنازہ غائب)
فرمودہ مورخہ 06؍اپریل 2012ء بمطابق 06؍شہادت 1391 ہجری شمسی، بمقام مسجد بیت الفتوح۔ مورڈن۔ لندن
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔